شکایات اور دوسروں کے عیب بیان کرنا
خطبہ جمعہ 2؍ دسمبر 2016ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
بعض لوگ بعض عہدیداروں کے خلاف یا بعض ایسے لوگوں کے خلاف بھی جو عہدیدار نہیں شکایت کرتے ہیں کہ یہ ایسے ہیں اور یہ ویسے ہیں۔ اس نے فلاں جرم کیا اور اس نے فلاں خلاف شریعت حرکت کی۔ پس فوری طور پر ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے کیونکہ یہ لوگ جماعت کو بدنام کر رہے ہیں۔ لیکن اکثر ایسے لکھنے والے اپنی شکایتوں میں اپنے نام نہیں لکھتے یا فرضی نام اور فرضی پتا لکھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی شکایتوں پر ظاہر ہے کوئی کارروائی نہیں ہوتی اور نہ ہو سکتی ہے اور جب کچھ عرصہ گزر جائے تو پھر شکایت آتی ہے کہ میں نے لکھا تھا ابھی تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ اگر کارروائی نہ ہوئی تو بڑا ظلم ہو جائے گا۔ یہ بے نام شکایت کرنے کی بیماری جو ہے یہ پاکستان اور ہندوستان کے لوگوں میں زیادہ ہے۔ باقی دنیا کے مقامی لوگوں کی طرف سے تو شاید ہی کوئی اس قسم کی شکایت آئی ہو گی لیکن پاکستانی جو باہر ملکوں میں بھی آباد ہیں ان میں بھی بعض میں یہ بیماری ہے کہ اس طرح کی بے نام شکایت کر کے بات کریں۔ تو یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ ہر دور میں ایسے لوگ پائے جاتے رہے ہیں جو اس قسم کی شکایات کرنے والے ہیں جس طرح آجکل بعض لوگ مجھے لکھتے ہیں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دَور میں بھی، خلافت ثالثہ میں بھی، خلافت رابعہ میں بھی یہ شکایت کرنے والے موجود تھے جو بے نامی شکایتیں کیا کرتے تھے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک ایسی شکایت پر ایک دفعہ ایک خطبہ دیا تھا کیونکہ یہ ایسے لوگوں کا منہ بند کروانے کے لئے بڑا جامع اور واضح ہے اس لئے اس خطبہ سے استفادہ کرتے ہوئے میں نے آج کچھ کہنے کا سوچا ہے۔
جو شکایت کرنے والے اپنا نام نہیں لکھتے یا فرضی نام لکھتے ہیں ان میں پہلی بات تو یہ ہے کہ یا منافقت ہوتی ہے یا وہ جھوٹے ہوتے ہیں۔ اگر ان میں جرأت اور سچائی ہو تو کسی بھی چیز کی پرواہ کرنے والے نہ ہوں۔ عہد تو یہ کرتے ہیں کہ ہم جان مال وقت اور عزت کو قربان کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہیں گے اور یہاں جب معاملہ ان کے خیال میں جماعت کی عزت و وقار کا آتا ہے تو اپنا نام چھپانے لگ جاتے ہیں تا کہ کہیں ان کے وقار اور ان کی عزت کو نقصان نہ پہنچ جائے۔ پس جس نے ابتدا میں ہی کمزوری دکھا دی اس کی باقی باتیں بھی غلط ہونے کا بڑا واضح امکان ہے۔
قرآن کریم میں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہارے پاس اگر کوئی خبر پہنچے تو تحقیق کر لیا کرو اور یہ بات ہر عقلمند جانتا ہے کہ کسی بھی تحقیق کے لئے بات کہنے والے یا بات پہنچانے والے کی بات سن کر فوراً اس بات کے متعلق تحقیق نہیں شروع ہو سکتی، نہ ہوتی ہے۔ بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ یہ بات پہنچانے والا خود کیسا ہے اسی سے تحقیق کی ابتدا ہوتی ہے۔ اس کے بارے میں پہلے تحقیق ہو گی کہ کیا وہ ہر قسم کی برائیوں سے پاک ہے۔ خود تو وہ کسی برائی میں ملوّث نہیں۔ ایمان میں کمزور تو نہیں ہے۔ یا یہ نہ ہو کہ خود تو ایمان میں کمزورہو اور دوسروں پر الزام لگا رہا ہو کہ یہ ایسا ہے ویسا ہے۔
عموماً دیکھا گیا ہے کہ دوسروں پر بھیانک الزام لگانے والے چاہے وہ کوئی عہدیدار ہے یا عہدیدار نہیں۔ اس وقت کسی کے بارے میں بھیانک اور خوفناک الزام لگاتے ہیں یا بڑی شدت سے الزام لگاتے ہیں جب دیکھتے ہیں کہ ان کے ذاتی مفادات دوسروں سے متاثر ہونے والے ہیں۔ پس تحقیق کرنے سے پہلے یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ شکایت کرنے والا کیسا ہے وہ مومن ہے یا فاسق ہے؟ جب شکایت کرنے والے کا علم ہی نہیں تو یہ بھی پتا نہیں چل سکتا کہ وہ کس زمرہ میں آتا ہے۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ اگر کوئی لکھنے والا ایسی بات لکھتا ہے جو جماعت کے مفادات کو نقصان پہنچانے والی ہے تو پھر اپنے طور پر تحقیق کر لی جاتی ہے۔ اسی طرح اگر یہ بھی علم ہو جائے کہ شکایت کرنے والا کون ہے تو جیسا کہ مَیں نے کہا کہ پہلے اس کے اپنے کردار کے بارے میں تحقیق ہو گی۔ اسی طرح اپنے طور پر جو اس نے باتیں کی ہیں اس کی سچائی کے بارے میں بھی تحقیق ہو گی تا کہ پتا لگے کہ وہ سچ کہتا ہے یا نہیں۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ قرآنی تعلیم یہ ہے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ اِنْ جَآءَ کُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْا (سورۃالحجرات آیت 7) اگر تمہارے پاس کوئی فاسق شکایت لے کر آتا ہے اور کسی کے بارے میں کوئی بری بات کہتا ہے تو اس کی تحقیق کرو۔ پھر اس کے بعد کوئی کارروائی کرو۔ لیکن شکایت کرنے والے ایک تو اپنا نام نہ لکھ کر خود مجرم بنتے ہیں۔ پھر یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کی بات اسی طرح قبول بھی کی جائے جس طرح انہوں نے لکھی ہے اور جس کے خلاف شکایت ہے فوراً اس کے لئے سزا کا حکم نافذ کر دیا جائے۔
حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ فاسق کے معنی صرف بدکار کے ہی نہیں ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عربی میں بدکار کو بھی فاسق کہتے ہیں لیکن لغت کے لحاظ سے فاسق اسے بھی کہتے ہیں جو تیز طبیعت کا ہو۔ بات بات پر لڑ پڑتا ہو۔ فسق کے معنی ادنیٰ اطاعت کے بھی ہیں۔ اطاعت سے باہر نکلنے والا بھی فاسق ہے۔ فاسق کے معنی تعاون نہ کرنے والے کے بھی ہیں۔ لڑاکا بھی اور تعاون بھی نہ کرنے والا ہو۔ فاسق کے معنی اس شخص کے بھی ہیں جو لوگوں کے چھوٹے چھوٹے قصوروں کو لے کر بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے اور پھر یہ بھی سمجھتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ جو اس نے بیان کیا ہے اس کے مطابق دوسرے کو انتہائی سزا ملنی چاہئے۔ کوئی معافی کا امکان نہیں ہے۔ تیز مزاج کو بھی فاسق کہتے ہیں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک احمدی دوست کے بارے میں بیان فرماتے ہیں، جو پرانے مخلص احمدی تھے کہ جہاں تک ان کے اخلاص کا تعلق ہے اس میں کوئی شبہ نہیں لیکن ان کو چھوٹی سی بات پر انتہائی فتویٰ لگانے کی عادت تھی۔ آپ کہتے ہیں کہ ان کی طبیعت میں یہ مرض تھا کہ چھوٹی چھوٹی باتوں کو لے کر کفر سے ورے نہیں ٹھہرتے تھے۔ کوئی بات پکڑی اور کفر کا فتویٰ لگا دیا۔ مثلاً آپ لکھتے ہیں کہ فرض کرو کہ تشہّد میں بیٹھے ہوتے ہیں، جب التّحیات میں بیٹھتے ہیں تو اپنے دائیں پاؤں کی انگلیاں جو سیدھی نہیں رکھتا، (پاؤں سیدھا رکھنے کا حکم ہے) تو ان کے نزدیک وہ کفر کی حد تک پہنچ جاتا تھا۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ میں نقرس کی تکلیف کی وجہ سے(ان کو gout تھا) دائیں پاؤں کی انگلیاں تشہد کی حالت میں سیدھی نہیں رکھ سکتا۔ پہلے جب پاؤں ٹھیک ہوتا تھا تو رکھا کرتا تھا۔ آپ فرماتے ہیں کہ اگر حافظ صاحب (وہ حافظ تھے) زندہ ہوتے تو غالباً شام تک وہ مجھ پر بھی کفر کا فتویٰ لگا دیتے۔ تو ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں۔ اس لئے لگاتے کہ یہ پاؤں کی انگلیاں سیدھی نہیں رکھتے اور ایسا کرنا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت کے خلاف ہے۔ پس معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر ایمان نہیں۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت پر ایمان نہیں تو قرآن کریم پر بھی ایمان نہیں اور اگر قرآن کریم پر ایمان نہیں تو اللہ تعالیٰ پر بھی ایمان نہیں لہٰذا کافر ہو گئے۔ بہرحال حضرت مصلح موعودنے ایسے جلد بازوں کی چاہے وہ مخلص بھی ہوں یہ مثال دی ہے۔ لیکن جو نام بھی چھپاتا ہو اور خود ایمان میں بھی کمزور ہو اور دوسروں پر فتوے بھی لگاتا ہے تو وہ ان تمام معنی کے لحاظ سے جو فاسق کے بیان کئے گئے ہیں فاسق ہی ٹھہرتا ہے۔
پس ان تمام شکایت کرنے والوں پر جو نام نہیں لکھتے واضح ہونا چاہئے کہ ان کا یہ فعل کہ اپنی شناخت کے بغیر شکایت کریں قرآنی حکم کے خلاف ہے کیونکہ قرآن کریم کہتا ہے کہ پہلے شکایت کرنے والے کے بارے میں تحقیق کرو۔ اگر صرف شکایت کرنے والے کی بات پر ہی بغیر تحقیق کے عمل ہونے لگ جائے جس کا وہ مطالبہ کرتا ہے تو جماعت بجائے ترقی کے انحطاط کی طرف جانا شروع ہو جائے گی۔ انحطاط کا شکار ہو جائے گی۔ خلیفہ وقت کی بھی اور نظام جماعت کی بھی اپنی کوئی تحقیق نہیں ہو گی جو کوئی کہے گا اس کے مطابق عمل ہونا شروع ہو جائے گا اور یہ چیز پھر ترقی کی طرف نہیں لے جا سکتی۔ ہر کوئی اٹھے گا اور یہی کہے گا کہ میری خواہشات کے مطابق فیصلے کئے جائیں۔ حضرت مصلح موعود بیان کرتے ہیں کہ اگر ہم جانتے بھی ہوں کہ شکایت کرنے والا شخص بڑا محتاط ہے۔ راستباز بھی ہے، مخلص بھی ہے اگر وہ کسی کی شکایت کرتا ہے تو تب بھی سب کچھ جاننے کے باوجود لازماً اس کی بھی تحقیق کرنی پڑے گی اور تحقیق ہو گی۔ یہ یقین بھی ہو جائے جیسا کہ مَیں نے کہا کہ شکایت کرنے والا نیک بھی ہے، راستباز بھی ہے، غلطی نہیں کیا کرتا اور اس میں اخلاص بھی ہے تو پھر بھی اس معاملہ کی تحقیق کرنا ہوگی اور اس کے بارے میں بھی تحقیق ہوگی۔ کیونکہ کوئی فرد یہ نہیں کہہ سکتا کہ کیونکہ مَیں یہ کہہ رہا ہوں اس لئے یونہی سمجھنا چاہئے اور اس کے مطابق فیصلہ ہونا چاہئے۔
آپ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ نماز پڑھا رہے تھے۔ نماز کے دوران تلاوت کرتے ہوئے کوئی غلطی ہو گئی تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مقتدیوں میں شامل تھے انہوں نے لقمہ دیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پسندنہیں فرمایا۔ آپ نے انہیں کہا کہ تمہیں کس نے کہہ دیا کہ لقمہ دو۔ آپ فرماتے ہیں کہ اس ناپسندیدگی کا ایک یہ بھی مطلب ہو سکتا ہے کہ تمہارے ذمہ اَور بڑے کام ہیں۔ ان چھوٹے چھوٹے کاموں کو اَوروں کے لئے رہنے دو اور یہ بھی مطلب ہو سکتا ہے کہ یہ کام ان قاریوں کا ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن کریم سیکھتے تھے تم یہ کام ان کے لئے رہنے دو۔
حضرت مصلح موعود اپنے پاس اس بے نام شکایت کرنے والے کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ہو سکتا ہے شکایت کرنے والا کوئی بڑا آدمی ہو تو میں اسے کہوں کہ تم ان باتوں کو کسی اور کے لئے رہنے دو اور اپنے اصل کام کی طرف متوجہ رہو۔ پس لکھنے والے نے اپنا نام ظاہر نہیں کیا۔ اس لئے اس کے درجے اور حیثیت کا علم نہیں ہو سکتا۔ اس کو سمجھایا نہیں جا سکتا۔
دوسری بات یہ کہ اس نے بہت سے عہدیداروں، ناظروں اور لجنہ کے بھی عیب بیان کرنے شروع کر دئیے تھے اور بڑے غلط قسم کے الزام لگائے تھے اور کہا کہ فلاں فلاں میں یہ عیب ہے۔ ایک طرف تو وہ ان لوگوں کی شکایت کر رہا ہے کہ وہ قرآن کریم اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے خلاف کام کرتے ہیں کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کی تعلیم کے خلاف کام کرنا ہی بہت بڑا عیب ہے۔ اس لئے بہت بڑا عیب ان میں پایا جاتا ہے۔ اگر کوئی مسلمان قرآن کریم اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے خلاف کوئی کام نہیں کرتا تو وہ عیب نہیں ہے۔ لیکن اگر اس تعلیم کے خلاف وہ کوئی کام کر رہا ہے تو وہ عیب ہے۔ بہرحال یہ شکایت کرنے والا ایک طرف تو یہ کہہ رہا ہے کہ یہ لوگ قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ دوسری طرف خود اس کے خلاف جاتا ہے کہ اس نے شکایت اور اس کے ثبوت کی جو شرائط رکھی ہیں وہ خود ان کو توڑ رہا ہے اور اکثر لوگ یہی کرتے ہیں۔ مجھے بھی جب لکھتے ہیں تو ان شرائط کو ہی توڑ رہے ہوتے ہیں۔ اصل چیز تو قرآن کریم کے احکامات پر اور سنت پر عمل کرنا ہی ہے اور قرآن کریم تو یہ کہتا ہے کہ کھل کے جب بات کی جائے تو اس کے ثبوت بھی مہیا کئے جائیں، تحقیق بھی کی جائے۔ جب نام ہی ظاہر نہیں ہو رہا تو تحقیق کس طرح ہو گی اور یہ قرآن کریم کے حکم کے صریح خلاف ہے۔ پس شکایت کرنے والا خود قرآن کریم کے حکم کو توڑتا ہے۔ قرآن کریم کی تعلیم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم پر عمل کرنا یہی نیکی ہے۔ یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے۔ چاہے کسی کو اپنے ذوقی نقطہ نظر سے یا معاشرے کے زیر اثر کوئی بات بری لگے لیکن اگر قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق وہ صحیح ہے تو وہ صحیح ہے اور اس میں کوئی عیب نہیں۔ بعض لوگ اپنی طبیعت اور رسم و رواج سے متاثر ہو کر بعض معاملات میں سختی دکھاتے ہیں لیکن ان کی باتیں چاہے وہ دین کے نام پر ہی ہوں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اس بات کی وضاحت میں حضرت مصلح موعود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا واقعہ بیان کرتے ہیں۔ یہ واقعہ پہلے بھی کئی دفعہ اس تفصیل کے ساتھ بیان ہو چکا ہے۔ اب اس حوالے سے آ رہا ہے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام حضرت اُمّ المومنین کو ساتھ لے کر سٹیشن پر پھر رہے تھے۔ ان دنوں پردے کا مفہوم بہت سخت لیا جاتا تھا۔ (اس زمانے میں بڑا سخت پردہ ہوتا تھا)۔ سٹیشن پر ڈولیوں میں عورتیں آتی تھیں۔ بڑے لوگ جو خاندانی لوگ کہلاتے تھے، ان کی عورتیں تو ڈولیوں میں بیٹھ کر آتی تھی اور دائیں بائیں اس کی چادریں گری ہوتی تھیں اور پھر وہاں ٹرین کے ڈبے تک اسی طرح بند ڈبے میں آتی تھیں اور ڈبے کے اندر بند چلی جاتی تھیں۔ پردے کا ایسا انتظام تھا) اور جب ڈبے میں بیٹھ جاتی تھیں تو پھر کھڑکیاں بند کر دی جاتی تھیں (تا کہ کسی کی عورت پہ نظر نہ پڑے۔) آپ فرماتے ہیں یہ پردہ تکلیف دینے والا تھا اور اسلام کی تعلیم کے خلاف تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اسلام کی تعلیم پر عمل کرتے تھے۔ حضرت اُمّ المومنین برقع پہن لیتی تھیں اور سیر کے لئے باہر چلی جاتی تھیں۔ اس دن بھی حضرت اُمّ المومنین نے برقع پہنا ہوا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام آپ کو ساتھ لئے ہوئے پلیٹ فارم پر ٹہل رہے تھے۔ (مولوی عبدالکریم صاحب اور حضرت خلیفۃ المسیح الاول بھی ساتھ تھے۔) مولوی عبدالکریم صاحب کی طبیعت میں تیزی تھی۔ ان کو خیال ہوا کہ یہ غلط ہو رہا ہے۔ خود تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کہنے کی جرأت نہیں تھی، حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے پاس گئے اور کہا کہ مولوی صاحب یہ کیا غضب ہوگیا۔ کل اخباروں میں شور پڑ جائے گا۔ اشتہارات اور ٹریکٹ نکل آئیں گے کہ مرزا صاحب پلیٹ فارم پر اپنی بیوی کو ساتھ لے کر پھر رہے تھے۔ آپ جا کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سمجھائیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاول نے کہا اس میں کیا برائی ہے؟ مجھے تو کوئی برائی نظر نہیں آرہی۔ اگر آپ کو کوئی برائی لگ رہی ہے تو خود ہی جا کر کہہ دیں۔ بہرحال مولوی عبدالکریم صاحب حضرت مسیح موعود کے پاس گئے۔ آپ ٹہلتے ہوئے بڑی دُور چلے گئے تھے اور واپس جب آئے تو گردن جھکی ہوئی تھی۔ حضرت خلیفہ اوّل فرماتے ہیں کہ مجھے شوق ہوا کہ پوچھوں کیا جواب ملا۔ چنانچہ میں نے دریافت کیا کہ مولوی صاحب! حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کیا فرمایا؟ مولوی صاحب نے کہا کہ جب میں نے حضور سے کہا کہ آپ یہ کیا کر رہے ہیں؟ لوگ کیا کہیں گے؟ تو آپ نے فرمایا آخر وہ کیا کہیں گے۔ یہی کہیں گے ناں کہ مرزا صاحب اپنی بیوی کے ساتھ یوں پھر رہے تھے۔ مولوی صاحب شرمندہ ہو کر واپس آ گئے۔ حضرت امّ المومنین نے پردہ کیا ہوا تھا اور پھر میاں بیوی کا اکٹھے پھرنا قابل اعتراض بھی نہیں ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنی بیویوں کے ساتھ پھرتے تھے۔ ایک دفعہ لوگوں کے سامنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عائشہ دوڑے تھے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پہلی دفعہ پیچھے رہ گئے اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جیت گئیں۔ کچھ عرصے کے بعد دوسری دفعہ پھر دوڑے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ سے جیت گئے اور وہ ہار گئیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا عائشہ۔ تِلْکَ بِتِلْکَ۔ کہ عائشہ اس ہار کے بدلے کی یہ ہار ہو گئی۔ غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کے ساتھ پھرنا معیوب خیال نہیں فرماتے تھے اور جس بات کی اجازت اسلام نے دی ہے اس کو عیب نہیں کہا جا سکتا۔ پس اگر کوئی شخص کسی دوسرے پر اعتراض کرتا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کے نزدیک وہ شخص اسلامی تعلیم پر عمل نہیں کرتا۔
آپ پھر شکایت کرنے والے کے بارے میں بتاتے ہیں کہ لیکن اس نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ فلاں چھوٹے درجہ کا ہے۔ (وہاں پھر خاندانی اور ذاتی اعتراضات بھی اس پر شروع ہوگئے۔) فلاں کمینہ ہے اور اس کو آپ نے فلاں عہدہ دیا ہوا ہے اور بعض الزامات ایسے لگائے جس کے متعلق شریعت نے گواہ طلب کئے ہیں اور گواہ بھی ننگی رؤیت کے طلب کئے ہیں۔ یعنی شریعت اس کے متعلق یہ کہتی ہے کہ ننگی رؤیت کے چار گواہ ہوں تو وہ شکایت کرنے میں حق پر ہے ورنہ نہیں۔ بعض لوگ یونہی کسی لڑکے لڑکی کے تعلقات کے الزام لگا دیتے ہیں اگر تعلقات کے الزام لگانا ہیں تو اس کے لئے چار گواہ بھی اسلام میں ضروری ہیں۔ آپ فرماتے ہیں لیکن عجیب بات یہ ہے کہ دین کی غیرت ایسے شخص کو پیدا ہوئی جو خود قرآن کریم کی تعلیم کے خلاف عمل کرتا ہے اور دوسروں پر ایسے الزامات لگاتا ہے جن سے قرآن کریم نے منع فرمایا ہے اور نہ صرف منع فرمایا ہے بلکہ ان پر ایسے الزامات پر حد بھی مقرر کی ہے کہ کسی پر غلط الزام لگانے والے، ایسا کہنے والے جو ہیں ان کو اسی کوڑے لگاؤ۔ گویا شریعت نے اس بارے میں جو اتنا شدید حکم دیا ہے وہ اسے تو توڑتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ فلاں شخص قرآنی تعلیم کے خلاف چلتا ہے حالانکہ وہ خود قرآنی تعلیم کے خلاف چل رہا ہوتا ہے۔
آپ فرماتے ہیں کہ دیکھو شکایت کرنے والے کی حیثیت کیا ہوئی۔ پہلے تو اس نے اپنا نام ظاہر نہیں کیا پھر جو ثبوت ضروری ہیں وہ پیش نہیں کئے۔ شریعت کے قواعد سے نہ تو مَیں آزاد ہوں نہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام آزاد ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود شریعت کے قواعد پر چلنے کے لئے مجبور تھے۔ پس اس شخص نے بعض ایسے اعتراضات کئے ہیں جن پر شریعت حد لگاتی ہے اور شریعت نے ان کے لئے گواہی کا جو طریق مقرر کیا ہے اس طریق پر چلنا ضروری ہے۔ لیکن وہ کہتا ہے کہ فلاں نے قرآن کریم کا فلاں حکم توڑا ہے اسے سزادو لیکن مجھے کچھ نہ کہو۔
حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں۔ مجھے بچپن کا ایک لطیفہ یاد آ گیا اُس وقت میں نے اس سے بہت مزا اٹھایا تھا اور اب بھی مجھے یاد آتا ہے تو ہنسی آتی ہے۔ کہتے ہیں کہ پانچویں یا چھٹی جماعت میں مَیں پڑھتا تھا تو ہمارے استادنے یہ طریق مقرر کیا ہوا تھا کہ ان کے سوال کا جواب جو طالبعلم وقت مقررہ میں دے دے وہ اوپر کے نمبر میں آجائے گا۔ ہم کھڑے تھے۔ استادنے سوال کیا ایک لڑکے نے اس کا جواب دیا۔ دوسرے نے ہاتھ بڑھا کر کہا ماسٹر جی یہ جواب غلط ہے۔ ماسٹر صاحب نے پہلے لڑکے سے کہا تم نیچے آ جاؤ اور دوسرے کو کہا تم اوپر چلے جاؤ۔ نیچے آتے ہی اس لڑکے نے جو پہلے اوپر کے نمبر پہ تھا کہا کہ ماسٹر صاحب اس نے میری غلطی نکالتے ہوئے غَلَطْ لفظ کو غَلْطْ کہا ہے جو غَلَط ہے۔ اس استادنے پھر اسے سابق جگہ پر کھڑا کر دیا اور دوسرے لڑکے کو پھر نیچے گرا دیا۔ تو آپ فرماتے ہیں کہ یہی حالت بعض معترضوں کی ہوتی ہے۔ وہ دوسرے پر غلط یا صحیح اعتراض کرتے ہیں لیکن اعتراض کا طریقہ مجرمانہ ہوتا ہے اور اس طرح اس کو سزا دلاتے دلاتے خود سزا کے مستحق ہو جاتے ہیں اور پھر شور مچاتے ہیں کہ مجرم کو کوئی پکڑتا نہیں۔ جو توجہ دلاتا ہے اسے سزا دے دیتے ہیں۔ حالانکہ سزا دینے والے کیا کریں وہ بھی تو شریعت کے غلام ہیں۔ اگر قرآن کریم کی حکومت کو قائم کرنا چاہتے ہو تو اپنے پر بھی خداتعالیٰ کی حکومت کو قائم کرو۔ اگر تم یہ چاہتے ہو کہ دوسروں پر تو خدا تعالیٰ کی حکومت قائم ہو اور تم پر خدا تعالیٰ کی حکومت قائم نہ ہو تو یہ درست بات نہیں ہے۔ میں شکایت کرنے والوں سے کہتا کہوں کہ ’’ایاز! قدرِ خود بشناس‘‘ کہ ایاز تم اپنی قدر اور اپنی حیثیت کو پہلے یاد رکھو اور پہچانو۔ نام چھپانے والے اپنا نام چھپا کر دوسروں پر الزام لگاتے ہیں کہ ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اور الزاموں میں جو ثبوت پیش کر رہے ہوتے ہیں وہ یہ کہ فلاں تو فلاں خاندان کا ہے۔ فلاں کی حیثیت نہیں ہے۔ فلاں ایسا ہے۔ اور ان الزاموں کی کوئی حقیقت بھی نہیں ہوتی اور الزام لگانے والے خود اصل میں بے حیثیت لوگ ہوتے ہیں۔ اس لئے ہم نے تو اللہ تعالیٰ کے حکم پر چلنا ہے اور اللہ تعالیٰ ہی ہے جو ہمارا رب بھی ہے اور ہر ایک کا ربّ ہے۔ وہ رزق بھی دیتا ہے اور پالتا ہے اور جب اللہ تعالیٰ سے ہم سب کچھ لے رہے ہیں تو پھر بات اللہ تعالیٰ کی مانی جائے گی نہ کہ ان الزام لگانے والوں کی۔ جیسا کہ میں نے کہا یہ شکایتیں کرنے والے لوگ یہی چاہتے ہیں کہ دوسروں کو شریعت کے مطابق سزا دی جائے اور خود اپنے آپ کو شریعت کے حکموں سے باہر نکال دیتے ہیں، بَری کر دیتے ہیں۔ خود ہی اپنے منصف بن جاتے ہیں۔ تو ایسے لوگوں کو بھی جب بات سامنے آئے گی، کھلے گی تو پھر شریعت کے مطابق ہی سزا ملے گی۔
بعض باتیں ایسی ہیں جہاں گواہوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر گواہ پیش نہیں ہوئے تو پھر اس بات کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی اور بہرحال پھر اس کا فیصلہ شریعت کے مطابق، قرآن کے مطابق ہو گا۔
بعض دفعہ یہ کہا جاتا ہے کہ اس نے جھوٹی قسم کھا لی اور اپنے آپ کو بچا لیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب ایک دفعہ ایسا معاملہ آیا۔ دو جھگڑنے والے آئے تو آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ایک فریق قسم کھائے گا۔ دوسرے نے کہا یہ تو جھوٹا شخص ہے یہ تو سو قسمیں بھی کھا لے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے تو خدا تعالیٰ کے حکم کے مطابق فیصلہ کرنا ہے۔ اگر یہ جھوٹی قسمیں کھاتا ہے تو اس کا معاملہ پھر خدا تعالیٰ کے ساتھ ہے وہ خود ہی اسے سزا دے دے گا۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 33 صفحہ 265 تا 271 خطبہ بیان فرمودہ 5 ستمبر 1952ء)
پس یہ ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ کسی کی شکایت پر فیصلہ صرف اس کے بتائے ہوئے اصول کے مطابق نہیں ہو گا۔ شکایت پر فیصلہ خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق ہو گا۔ جہاں دو گواہوں کی ضرورت ہے وہاں دو گواہ پیش کرنے ہوں گے۔ جہاں چار گواہوں کی ضرورت ہے وہاں چار گواہ پیش کرنے ہوں گے اور اس کے مطابق ہی پھر تحقیق بھی ہو گی اور فیصلہ بھی ہو گا۔ ہماری کامیابی اسی میں ہے کہ ہم خداتعالیٰ کے حکم کے مطابق اپنے معاملات اور فیصلے کرنے والے بنیں اور اپنی ذاتی اَناؤں اور توجیہات کو بنیاد بنا کر انتظامیہ کو مجبور کرنے والے یا خلیفہ وقت کو مجبور کرنے والے نہ ہوں کہ اس کے مطابق فیصلے کئے جائیں۔ اللہ تعالیٰ شکایت کرنے والوں کو بھی عقل دے کہ وہ اگر صحیح سمجھتے ہیں تو پھر کھل کر تمام ثبوتوں کے ساتھ شکایت کریں جس میں ان کا نام پتہ بھی ہو اور پھر تحقیقات میں وہ بھی شامل ہوں گے۔ جب لوگ دیکھتے ہیں کہ حقیقت میں جماعتی نظام میں کوئی رخنہ پڑ رہا ہے تو پھر جرأت سے سامنے آنا چاہئے اور شکایت کرنی چاہئے اور ہر چیز کا پھر مقابلہ کرنا چاہئے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نظام جماعت جو ہے اس کو بھی توفیق دے اور عقل دے کہ خلیفہ وقت کی طرف سے جو فیصلہ کرنے پہ مقرر کئے گئے ہیں وہ بھی جب فیصلہ کر رہے ہوں تو انصاف کے ہر پہلو کو مدّنظر رکھتے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلتے ہوئے اور سنت کے مطابق فیصلے کرنے والے بنیں۔
نمازوں کے بعد مَیں جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا۔ پہلا جنازہ تو ایک شہید کا جنازہ ہے۔ مکرم شیخ ساجد محمود صاحب ابن مکرم شیخ مجید احمد صاحب جن کی عمر 55 سال تھی۔ حلقہ گلزار ہجری ضلع کراچی میں رہتے تھے مخالفین نے 27؍نومبر 2016ء کی شام کو نماز مغرب کے وقت گھر کے باہر گاڑی میں بیٹھے ہوئے فائرنگ کر کے شہید کر دیا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ تفصیل کے مطابق شیخ ساجد محمود صاحب گلشن معمار کراچی میں فلور ملز کے سپیئر پارٹس کی سپلائی کا کام کرتے تھے اور 27؍نومبر 2016ء کی شام کو نماز مغرب کے وقت بازار سے گھر کا سودا سلف لے کر آئے اور ابھی گاڑی میں ہی بیٹھے تھے کہ ایک موٹر سائیکل پر سوار نامعلوم افرادنے آپ پر چار فائر کئے اور پھر موٹر سائیکل پر جاتے ہوئے پلٹ کر دوبارہ چار فائر کئے اور موقع سے فرار ہو گئے۔ فائرنگ کے نتیجہ میں ایک گولی ساجد محمود صاحب کے سینے میں دائیں طرف لگی اور پسلی سے لگ کر بائیں طرف سے آر پار نکل گئی اور ایک گولی ٹانگ میں لگی۔ ساجد محمود صاحب کو فوری طور پر قریب ہی واقع ہسپتال میں لے جایا گیا جہاں سے انہیں آغا خان ہسپتال شفٹ کر دیا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکے اور علاج شروع ہونے سے پہلے ہی جام شہادت نوش کیا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ ان کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ ان کے پڑدادا مکرم شیخ فضل کریم صاحب کے ذریعہ سے ہوا جنہوں نے 1920ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ شہید مرحوم کے والد شیخ مجید احمد صاحب پاکستان بننے پر کانپور سے ہجرت کر کے لاہور آئے تھے اور 1961ء میں کراچی میں سکونت اختیار کی۔ شہید کے دادا مکرم خواجہ محمد شریف صاحب مرحوم جماعت احمدیہ دہلی دروازہ لاہور کے لمبے عرصہ تک صدر رہے۔ آپ کے پڑنانا حضرت صاحب الدین صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے۔ اسی طرح مکرم سیٹھ محمد صدیق بانی صاحب مرحوم آف کلکتہ شہید مرحوم کی اہلیہ کے نانا ہیں۔ شہید مرحوم نے بی اے تک تعلیم حاصل کی۔ پانچ سال انتہائی مشکل حالات میں گزارے۔ اس کے بعد فلاور ملز کے سپیئر پارٹس کی سپلائی کا کاروبار شروع کیا جس میں اللہ تعالیٰ نے بہت برکت دی اور وسیع کاروبار ہو گیا۔ شہید مرحوم کے بیٹے حارث محمود صاحب جو ہیں نائب قائد مجلس بھی ہیں اور گلشن اقبال کراچی کے سیکرٹری وصایا بھی ہیں۔ بیٹے نے بھی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اے سی سی اے (ACCA) کرنے کے بعد والد کے ساتھ ہی کاروبار میں شمولیت اختیار کی۔ شہید مرحوم بے شمار خوبیوں کے مالک تھے۔ اسی طرح شہید کی بیٹی ثنا مبشرہ کراچی میں زیر تعلیم ہیں اور ان کو امریکہ جانے کا چھ مہینے کا سکالر شپ بھی ملا جہاں سے وہ ایک شارٹ کورس کر کے آئیں۔ مرحوم خلافت سے بے پناہ محبت اور گہری وابستگی رکھنے والے تھے۔ اولاد کو بھی خلافت اور نظام جماعت سے جڑے رہنے کی تلقین کرتے تھے۔ چندوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے تھے اور بیٹے کو بھی تلقین کرتے تھے۔ ہمیشہ اپنے چندہ جات کے حوالے سے فکر مند رہتے تھے اور چندے کی ادائیگی کے لئے دکان میں ہی الگ ایک گلّہ رکھا ہوا تھا جس میں ساتھ کے ساتھ چندے کی رقم ڈالتے رہتے تھے۔ لین دین میں بہت کھرے اور دیانتدار، ہمیشہ سچائی کو مدّنظر رکھنے والے، درگزر سے کام لینے والے تھے۔ بہن بھائیوں سے شفقت کا سلوک کرتے اور کبھی کسی سے ناراض نہیں ہوتے تھے۔ مرحوم ایک نفیس اور پاکیزہ خیالات کے حامل شخص تھے۔ رحمی رشتوں کی بہت قدر کرتے تھے۔ شہید مرحوم نے اپنی دو دکانوں کے نام بھی اپنے مرحوم والد اور مرحوم سسر کے نام پر رکھے ہوئے تھے۔ اپنی اہلیہ کے رشتہ داروں سے مثالی حسن سلوک کرتے تھے۔ دوستوں اور سب رشتہ داروں سے صفائی قلب سے ملتے تھے۔ طبیعت میں بغض اور کینہ بالکل نہیں تھا۔ مختلف لکھنے والوں نے جو لکھا ان سب کا لُبّ لُباب یا نچوڑ یہی بنتا ہے جو باتیں، جو اوصاف میں نے شہید کے بیان کئے ہیں۔ شہید مرحوم کی والدہ آجکل شدید علیل ہیں۔ ان کی بیماری کی وجہ سے ان کو بیٹے کی شہادت کے بارے میں بتانے میں مشکل پیش آ رہی تھی لیکن جب ان کے علم میں آیا اور بیٹے کی میّت دیکھی تو بے اختیار کہا کہ میرا بیٹا شہید ہے۔ کوئی بھی نہیں روئے گا اور اس جملے کو کئی بار دہرایا۔ شہید مرحوم کی اہلیہ محترمہ نے بڑے حوصلے اور ہمت سے اپنے شوہر کی شہادت کی خبر کو سنا اور نہایت اعلیٰ صبر کا مظاہرہ کیا۔ ان کے بیٹے کا کہنا ہے کہ میرے والد میں طبیعت میں غیر معمولی ٹھہراؤ تھا اور خدا پر یقین بہت بڑھا ہوا تھا۔ بار بار یہی کہتے تھے خدا نے مجھے بہت عزت دی ہے اتنی عزت کہ میں خود بھی یقین نہیں کر سکتا۔ عبادات میں بہت باقاعدہ تھے اور رشتہ دار بھی یہی کہتے ہیں کہ بڑے سادہ، ہمدرد، منکسر المزاج شخص تھے۔ مرحوم کے گیارہ بہن بھائی تھے اور سب عیالدار اور شہید مرحوم سب سے حسن سلوک کرتے، ان کا خیال رکھا کرتے تھے۔ ضلع سکھر میں جب جماعتی طور پر حالات خراب ہوئے اور شہادتیں ہوئیں تو شہید مرحوم متعدد مرتبہ کئی کئی روز جا کر وہاں ڈیوٹیاں دیا کرتے تھے۔ ان کی بیٹی کہتی ہیں کہ ان کی وفات کے بعد میں نے خواب میں دیکھا ایک بہت بڑا باغ ہے جس میں بہت سے نورانی لوگ جمع ہیں۔ سب نے اجلے اور سفید کپڑے پہنے ہوئے ہیں اور ابّو بھی وہاں ہیں۔ ان کا بڑا بلند مقام ہے۔ سب نے ابّو کو گھیرا ہوا ہے اور خوشی کا اظہار کرتے ہیں اور والد صاحب ایک طرف کو چل پڑتے ہیں تو سب لوگ قافلے کی صورت میں ساتھ چلتے ہیں اور سب لوگ ان کے والد کو دیکھ کر خوش ہو رہے ہیں۔ شہید مرحوم کی والدہ محترمہ نہایت ضعیف ہیں جیسا کہ میں نے کہا۔ چلنے پھرنے سے بھی قاصر ہیں۔ شہادت کے بعد انہوں نے خواب میں دیکھا کہ شہید مرحوم نے اپنی والدہ کو مخاطب کر کے کہا کہ میں یہاں بہت خوش ہوں اور اطمینان سے ہوں۔ میری وجہ سے آپ نے بالکل پریشان نہیں ہونا۔ ان کے پسماندگان میں والدہ محترمہ، اہلیہ منصورہ یاسمین صاحبہ، بیٹا شیخ حارث محمود اور بیٹی ثنا مبشرہ کے علاوہ چار بھائی اور چھ بہنیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ شہید کے درجات بلند فرمائے اور ان کی اولاد کو بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اگلا جنازہ مکرم شیخ عبدالقدیر صاحب ابن شیخ عبدالکریم صاحب کا ہے جو درویش قادیان تھے۔ 26؍نومبر 2016ء کو حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے 92سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ آپ کے خاندان میں احمدیت حضرت عبداللہ سنوری صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے آئی۔ نومبر 1947ء میں جب قادیان سے آخری قافلہ پاکستان کے لئے روانہ ہوا تو آپ اپنی بیمار والدہ کو سہارا دے کر ٹرک میں بیٹھے تھے کہ قادیان کی سرحد کے قریب آپ کی والدہ نے ٹرک رکوا کر آپ کو حفاظت مرکز کے لئے اتار دیا اور یوں آپ کو درویشی کی سعادت نصیب ہوئی۔ نظام خلافت اور نظام جماعت سے والہانہ محبت تھی۔ اللہ پر کامل توکل اور یقین تھا۔ ہر کامیابی اور ناکامی کو خدا کی رضا سمجھ کر قبول کرتے تھے۔ اہلیہ بچوں اور قریبی رشتہ داروں سے ہمیشہ حسن سلوک کرتے تھے۔ آخری عمر تک اپنے کام خود اپنے ہاتھوں سے کرتے رہے۔ ان کو دفاتر صدر انجمن احمدیہ قادیان میں مختلف صیغہ جات میں خدمت کی توفیق ملی۔ آپ کے بیٹے نے بتایا کہ جلسہ سالانہ کی آمد کی وجہ سے آپ نے گھر میں سفیدی کے لئے سیمنٹ وغیرہ منگوا کر رکھا ہوا تھا۔ اسی رات آپ نے بلا کر بتایا کہ لگتا ہے کہ میرا وقت قریب ہے۔ فلاں شخص سے میں نے پانچ سو روپے لئے تھے وہ ادا کرنے ہیں۔ اسی طرح دیگر حساب کتاب بھی بتایا اور پھر تھوڑی ہی دیر میں اللہ تعالیٰ کو پیارے ہوگئے۔ اِنَّالِلّٰہِ وَاِنّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ ان کے پسماندگان میں تین بیٹیاں اور ایک بیٹے ہیں۔ آپ کے بیٹے مکرم ناصر وحید صاحب قادیان میں خدمت کی توفیق پا رہے ہیں۔
تیسرا جنازہ تنویر احمد لون صاحب ناصر آباد کشمیر کا ہے۔ یہ پولیس میں تھے۔ 25؍نومبر کو دوران ڈیوٹی ضلعی صدر مقام کولگام میں نامعلوم بندوق برداروں کی فائرنگ سے وفات پا گئے۔ یہ بھی شہید کا ہی درجہ رکھتے ہیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ شہید مرحوم صوم و صلوۃ کے پابند، نیک دل، غریب پرور، ملنسار، خوش اخلاق، باوفا، نافع الناس، انتہائی دلیر اور متوکل علی اللہ انسان تھے۔ مالی قربانیوں میں ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے۔ چندے ہمیشہ بڑی باقاعدگی سے باشرح اور اضافے کے ساتھ دیا کرتے تھے۔ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی دلجوئی اور مدد کرتے اور ان کی تعلیم و تربیت کا ہمیشہ خیال رکھتے۔ ہمسایوں کا کہنا ہے کہ آپ حقیقی معنوں میں ہمسائیگی کا حق ادا کرنے والے تھے۔ ان کے ڈیپارٹمنٹ والوں کا بیان ہے کہ آپ اپنے مفوضہ فرائض کی ادائیگی میں ہمیشہ چاق و چوبند رہتے تھے۔ کبھی بھی غفلت اور کوتاہی سے کام نہیں لیتے تھے۔ پسماندگان میں والدہ کے علاوہ دو بہنیں، چھ بھائی اور اہلیہ اور تین معصوم بچے یادگار چھوڑے ہیں۔ آپ کا ایک بچہ تحریک وقف نو میں شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور ان کے بچوں کو بھی ہمیشہ جماعت اور خلافت سے وابستہ رکھے۔ نیکیوں پر قائم رکھے اور خود ان کا کفیل ہو۔
بعض لوگ بعض عہدیداروں کے خلاف یا بعض ایسے لوگوں کے خلاف بھی جو عہدیدار نہیں شکایت کرتے ہیں کہ یہ ایسے ہیں اور یہ ویسے ہیں۔ اس نے فلاں جرم کیا اور اس نے فلاں خلاف شریعت حرکت کی۔ لیکن اکثر ایسے لکھنے والے اپنی شکایتوں میں اپنے نام نہیں لکھتے یا فرضی نام اور فرضی پتا لکھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی شکایتوں پر ظاہر ہے کوئی کارروائی نہیں ہوتی اور نہ ہو سکتی ہے۔
جو شکایت کرنے والے اپنا نام نہیں لکھتے یا فرضی نام لکھتے ہیں ان میں پہلی بات تو یہ ہے کہ یا منافقت ہوتی ہے یا وہ جھوٹے ہوتے ہیں۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ دوسروں پر بھیانک الزام لگانے والے چاہے وہ کوئی عہدیدار ہے یا عہدیدار نہیں، اس وقت کسی کے بارے میں بھیانک اور خوفناک الزام لگاتے ہیں یا بڑی شدت سے الزام لگاتے ہیں جب دیکھتے ہیں کہ ان کے ذاتی مفادات دوسروں سے متاثر ہونے والے ہیں۔ پس تحقیق کرنے سے پہلے یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ شکایت کرنے والا کیسا ہے۔ ان تمام شکایت کرنے والوں پر جو نام نہیں لکھتے واضح ہونا چاہئے کہ ان کا یہ فعل کہ اپنی شناخت کے بغیر شکایت کریں قرآنی حکم کے خلاف ہے کیونکہ قرآن کریم کہتا ہے کہ پہلے شکایت کرنے والے کے بارے میں تحقیق کرو۔
جب نام ہی ظاہر نہیں ہو رہا تو تحقیق کس طرح ہو گی اور یہ قرآن کریم کے حکم کے صریح خلاف ہے۔
پس شکایت کرنے والا خود قرآن کریم کے حکم کو توڑتا ہے۔
چاہے کسی کو اپنے ذوقی نقطہ نظر سے یا معاشرے کے زیر اثر کوئی بات بری لگے لیکن اگر قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق وہ صحیح ہے تو وہ صحیح ہے اور اس میں کوئی عیب نہیں۔ بعض لوگ اپنی طبیعت اور رسم و رواج سے متاثر ہو کر بعض معاملات میں سختی دکھاتے ہیں لیکن ان کی باتیں چاہے وہ دین کے نام پر ہی ہوں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
بعض باتیں ایسی ہیں جہاں گواہوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر گواہ پیش نہیں ہوئے تو پھر اس بات کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔
ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ کسی کی شکایت پر فیصلہ صرف اس کے بتائے ہوئے اصول کے مطابق نہیں ہو گا۔ شکایت پر فیصلہ خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق ہو گا۔ جہاں دو گواہوں کی ضرورت ہے وہاں دو گواہ پیش کرنے ہوں گے۔ جہاں چار گواہوں کی ضرورت ہے وہاں چار گواہ پیش کرنے ہوں گے اور اس کے مطابق ہی پھر تحقیق بھی ہو گی اور فیصلہ بھی ہو گا۔ ہماری کامیابی اسی میں ہے کہ ہم خداتعالیٰ کے حکم کے مطابق اپنے معاملات اور فیصلے کرنے والے بنیں اور اپنی ذاتی اَناؤں اور توجیہات کو بنیاد بنا کر انتظامیہ کو مجبور کرنے والے یا خلیفۂ وقت کو مجبور کرنے والے نہ ہوں کہ اس کے مطابق فیصلے کئے جائیں۔
مکرم شیخ ساجد محمود صاحب ابن مکرم شیخ مجید احمد صاحب آف حلقہ گلزار ہجری ضلع کراچی کی شہادت، مکرم شیخ عبدالقدیر صاحب ابن مکرم شیخ عبدالکریم صاحب درویش قادیان کی وفات۔ مکرم تنویر احمد لون صاحب ناصرآباد کشمیر کی شہادت۔ مرحومین کا ذکرخیر اور نماز جنازہ غائب۔
فرمودہ مورخہ 2دسمبر 2016ء بمطابق 2فتح1395 ہجری شمسی، بمقام مسجدبیت الفتوح، مورڈن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔