اسلام احمدیت: اللہ تعالیٰ کی تائیدات کے نشانات
خطبہ جمعہ 9؍ دسمبر 2016ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
جن کی آنکھوں پر پردے پڑے ہوں، جنہوں نے یہ فیصلہ کیا ہو کہ ہم نے نہیں ماننا، انہیں نہ ہی اللہ تعالیٰ کی تائیدات نظر آتی ہیں نہ ہی نشانات نظر آتے ہیں اور انبیاء کا انکار کرنے والوں کا ہمیشہ یہی طریق رہا ہے کہ نشانات دیکھ کر بھی یہی کہتے ہیں کہ ہمیں نشان دکھاؤ۔ ان کے حد سے بڑھ جانے کی وجہ سے ان کے دلوں کو اللہ تعالیٰ بند کر دیتا ہے پھر وہ سچائی کو پا ہی نہیں سکتے اور بعض اوقات نبی کی تائید میں اللہ تعالیٰ انہیں ہی عبرت کا نشان بنا دیتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مخالفین بھی ایسے تھے جن کو باوجود دیکھنے کے اپنی ڈھٹائی کی وجہ سے کوئی نشان نظر نہیں آتا تھا یا نظر پھیر لیتے تھے۔ اور پھر ان میں بعض ائمۃ الکفرعبرت کا نشان بھی بنے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی تائید میں اللہ تعالیٰ کے بہت سے نشانات بتائے کہ یہ یہ پورے ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نشانات بھی بتائے کہ آپ نے یہ یہ فرمایا۔ یہ پیشگوئیاں فرمائیں، یہ پوری ہوئیں لیکن ان مذہبی سرداروں نے خود بھی نہیں مانا اور لوگوں کو بھی گمراہ کیا اور اب تک کرتے چلے جا رہے ہیں۔ ان نشانوں کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے سلسلہ کی سچائی کے لئے مختلف موقعوں پر مختلف نشانات بتائے۔ آپ نے جو نشانات بیان فرمائے ہیں اور یہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان کو نشان قرار دیا ہے۔ ان میں سے کسوف و خسوف کا نشان ہے یعنی چاند اور سورج گرہن کا نشان ہے۔ آپ نے فرمایا کہ جب تک یہ نشان پورا نہیں ہوا تھا مولوی لوگ جو تھے وہ رو رو کر اس حدیث کو پڑھا کرتے تھے اور جب یہ نشان پورا ہوا اور نہ ایک دفعہ بلکہ دو مرتبہ پورا ہوا۔ ایک اس ملک میں یعنی ہندوستان میں اور دوسری مرتبہ امریکہ میں تو یہی لوگ جو اس نشان کو مانگتے تھے اپنی بات سے پھر پِھر گئے۔ نشان سے انکار نہیں کر سکے کیونکہ وہ تو ظاہر ہو گیا تھا لیکن ڈھٹائی اور ضد آڑے آ گئی۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میرے ایک دوست نے بیان کیا کہ جب یہ نشان پورا ہوا تو ایک مولوی غلام مرتضیٰ نام نے خسوف قمر کے وقت اپنی رانوں پر ہاتھ مار کر یعنی بڑے رنج اور غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب دنیا گمراہ ہو گئی۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ خیال کرو کیا وہ خدا تعالیٰ سے بڑھ کر دنیا کا خیر خواہ تھا۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تائید میں طاعون کا نشان بھی ہے، نہریں نکالے جانے کا نشان بھی ہے۔ یہ قرآن کریم کی پیشگوئی ہے۔ نئی آبادیاں ہونے کا نشان بھی ہیں۔ پہاڑ چیرے جانے کے نشان بھی ہیں۔ کتابوں اور اخبارات کی اشاعت کے نشانات بھی ہیں۔ نئی سواریاں ہیں۔ غرض بہت سے نشان ہیں جو آپ نے بیان فرمائے ہیں جن کی خبر قرآن کریم میں بھی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دی۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد 9 صفحہ 157-158۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ بیان فرماتے ہوئے کہ لوگ بجائے نشانات اور اللہ تعالیٰ کی تائیدات کو دیکھنے کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر اعتراض کرتے ہیں اور ایسے چھوٹے چھوٹے بودے اعتراض کہ جو عجیب مضحکہ خیز اعتراض ہوتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودنے نشان پر نشان دکھائے۔ آپ نے معجزے پر معجزہ دکھایا۔ بعض لوگ آئے جنہوں نے آ کر اس قسم کے اعتراض کئے اور کہا کہ ان کی تو پگڑی ٹیڑھی ہے، یہ مسیح موعود کس طرح ہو سکتے ہیں؟حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ آپ نے معجزے پر معجزہ دکھایا مگر بعض ایسے لوگ آئے جنہوں نے کہا کہ یہ تو ’ق‘ صحیح طور پر نہیں بول سکتے یہ کہاں سے مسیح موعود ہوسکتے ہیں؟ آپ نے آیت پر آیت دکھائی مگر ایسے لوگ آئے جنہوں نے کہا انہوں نے بیوی کے لئے زیور بنائے ہیں۔ یہ بادام روغن استعمال کرتے ہیں۔ انہیں ہم کس طرح مان سکتے ہیں؟ تو یہ اعتراضات تھے۔ پھر آپ فرماتے ہیں کہ خدا کے نشانوں سے آنکھیں بندنہ کرو۔ فرمایا کہ کئی لوگ حضرت صاحب یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس آ کر کہتے۔ کوئی نشان دکھائیں تو آپ فرماتے کیا پہلے نشانات سے تم نے کوئی فائدہ اٹھایا کہ اَور چاہتے ہو؟ جب پہلے ہزاروں نشانات سے تم نے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا تو کسی اَور سے کس طرح اٹھاؤ گے۔ تو ایسے لوگ ہمیشہ محروم ہی رہتے ہیں۔ ان کی یہی قسمت ہے کہ محروم رہیں۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 11 صفحہ 224-225)
ایک ایسا زبردست نشان جو ہر روز پورا ہوتا ہے جس کے بارے میں بیان فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ کتاب براہین احمدیہ میں اللہ تعالیٰ مجھے ایک دعا سکھاتا ہے یعنی بطور الہام فرماتا ہے کہ رَبِّ لَاتَذَرْنِیْ فَرْداً وَّاَنْتَ خَیْرُ الْوَارِثِیْنَ یعنی مجھے اکیلا مت چھوڑ اور ایک جماعت بنا دے۔ یہ آپ نے اس کا ترجمہ خود ہی کیا ہوا ہے۔ پھر فرماتے ہیں کہ دوسری جگہ فرمایا یَأْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍ عَمِیْقٍ۔ ہر طرف سے تیرے لئے وہ زر اور سامان جو مہمانوں کے لئے ضروری ہے اللہ تعالیٰ خود مہیا کرے گا اور وہ ہر ایک راہ سے تیرے پاس آئیں گے۔ اور پھر فرمایا۔ یَأْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍ عَمِیْقٍ۔ اور ہر ایک راہ اور ہر طرف سے تیرے پاس مہمان آئیں گے۔ آپ نے فرمایا کہ 26سال پہلے کی پیشگوئی ہے۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد 9 صفحہ 161) جب آپ نے یہ ذکر کیااور جو اَب تک بڑی شان سے پوری ہو رہی ہے۔ اور یہ جماعت کی ترقی کی پیشگوئی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ یہ پیشگوئی آج تک بڑی شان سے پوری ہو رہی ہے۔ آپ کی جماعت کا ہر روز بڑھنا، مالی قربانی میں لوگوں کا بڑھنا، آپ کی صداقت کی ایک زبردست دلیل ہے اور ایک نشان ہے یہ لیکن اسے ہی نظر آتا ہے جس کی آنکھ بِینا ہو۔ اندھوں کو نظر نہیں آتا۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض الہامات کے حوالے سے غلبہ احمدیت کے ذرائع اور جماعتی ترقی کے بارے میں جو واقعات بیان کئے ہیں ان میں سے بعض پیش کرتا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی اللہ تعالیٰ نے متواتر بتایا کہ جماعت احمدیہ کو بھی ویسی ہی قربانیاں کرنی پڑیں گی جیسی پہلے انبیاء کی جماعتوں کو کرنی پڑیں۔ چنانچہ ایک دفعہ آپ نے رؤیا میں دیکھا۔ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک رؤیا میں دیکھا) کہ مَیں نظام الدین کے گھر میں داخل ہوا ہوں۔ نظام الدین کے معنی ہیں دین کا نظام۔ اور اس رؤیا کا مطلب یہ ہے کہ آخر احمدیہ جماعت ایک دن نظام دین بن جائے گی اور دنیا کے اور تمام نظاموں پر غالب آ جائے گی۔ انشاء اللہ۔ مگر یہ غلبہ کس طرح ہو گا اس کے متعلق رؤیا میں آپ فرماتے ہیں کہ ہم اس گھر میں کچھ حسنی طریقے سے داخل ہوں گے اور کچھ حسینی طریقے پر داخل ہوں گے۔ یہ سب لوگ جانتے ہیں کہ حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو کامیابی حاصل کی وہ صلح سے کی اور حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو کامیابی حاصل کی وہ شہادت سے حاصل کی۔
پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بتایا گیا کہ نظام الدین کے مقام پر جماعت پہنچے گی تو سہی مگر کچھ صلح محبت اور پیار سے اور کچھ شہادتوں اور قربانیوں کے ذریعہ۔ اگر ہم میں سے کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ بغیر صلح اور محبت اور پیار کے یہ سلسلہ ترقی کرے گا تو وہ بھی غلطی کرتا ہے اور اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ بغیر قربانیوں اور شہادتوں کے یہ سلسلہ ترقی کرے گا تو وہ بھی غلطی کرتا ہے۔ ہمیں کبھی صلح اور آشتی کی طرف جانا پڑے گا اور کبھی حسینی طریق اختیار کرنا پڑے گا جس کے معنی یہ ہیں کہ ہم نے دشمن کے سامنے مر جانا ہے مگر اس کی بات نہیں ماننی۔ یہ دونوں طریق ہمارے لئے مقدر ہیں۔ نہ خالی مسیحیت والا سلوک ہمارا لئے مقدر ہے، نہ خالی مہدویت والا سلوک ہمارے لئے مقدر ہے۔ ایک درمیانی راستہ ہے جس پر ہمیں چلنا پڑے گا۔ ایک غلبہ ہو گا صلح اور محبت اور پیار کے ساتھ اور ایک غلبہ ہو گا قربانیوں کے ساتھ۔ اس کے بعد جماعت نظام الدین کے گھر میں داخل ہو گی اور اسے کامیابی حاصل ہوگی۔ (ماخوذ ازتفسیر کبیر جلد 7 صفحہ 583) اور ان دونوں باتوں کا نمونہ آج ہم دیکھتے ہیں جو افراد جماعت دکھا رہے ہیں۔ صلح امن اور آشتی کا پیغام بھی ہماری طرف سے ہے اور دین کی خاطر قربانیاں بھی جماعت ہی دے رہی ہے۔
پھر آپ نے ایک جگہ فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہوا اور دکھایا گیا۔ یہ اسی الہام کا مزید تھوڑا سا ذکر ہے۔ یہ جو مسجد مبارک کے پاس مکان ہے (مرزا نظام الدین کا مکان تھا) اس میں ہم کچھ حسنی طریق سے داخل ہوں گے اور کچھ حسینی طریق سے۔ بہت لوگ حیران تھے کہ اس الہام کا مطلب کیا ہے؟ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ میں نے خود حضرت صاحب سے (حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے)سنا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ معلوم نہیں کہ اس الہام کا کیا مطلب ہے لیکن وقت پر معنی کھلتے ہیں۔ (خطبات محمود جلد 3 صفحہ 39-40)
حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ ’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس زمانے میں جبکہ آپ کے ساتھ ایک بھی آدمی نہ تھا فرمایا تھا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے خبر دی ہے کہ تمہاری جماعت اس قدر ترقی کرے گی کہ باقی اقوام دنیا کی اس طرح رہ جائیں گی جس طرح آجکل پرانی خانہ بدوش قومیں ہیں۔‘‘ (منہاج الطالبین، انوار العلوم جلد 9 صفحہ 213)
ہم جو روز اللہ تعالیٰ کی تائیدات کے نئے سے نئے نظارے دیکھتے ہیں انشاء اللہ وہ دن بھی ضرور آئے گا جب یہ نظارے بھی نظر آئیں گے اور جماعت احمدیہ اتنی ترقی کرنے والی ہو گی کہ دوسرے لوگ، دوسری قومیں بالکل معمولی حیثیت کی ہوں گی۔ لیکن ہمیں اپنے اندر بھی اور اپنی نسلوں کے اندر بھی دین کی روح پھونکنے کی ضرورت ہے جس سے ہمیں اللہ تعالیٰ یہ نظارے دکھائے۔ جہاں تائیدات ہوں وہاں مخالفتیں بھی ہوتی ہیں اور ہمیشہ سے انبیاء کی جماعتوں کے ساتھ اس طرح ہوتا ہے۔ لیکن یہ مخالفتیں خوفزدہ نہیں کرتیں بلکہ ایمان کو مضبوط کرتی ہیں۔ ایمان میں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔ چند دن ہوئے ربوہ میں تحریک جدید کے دفاتر اور ضیاء الاسلام پریس پر حکومت کے پولیس کے خاص ادارے جو کاؤنٹر ٹیررسٹ (Counter Terrorist) پولیس کہلاتی ہے، جو ٹیررزم (Terrorism) سے لڑنے اور ان کے خاتمے کے لئے بنایا گیا ہے انہوں نے ریڈ (Raid) کی اور دو مربیان اور کچھ کارکنان کو پکڑ کر لے گئے۔ اس پر ربوہ سے بعض لوگوں نے مجھے خط لکھا جن میں عورتیں بھی شامل ہیں کہ ہم ان باتوں سے ڈرنے والے نہیں بلکہ ہمارے ایمان مضبوط ہیں۔ اور یہ واقعات دیکھ کر ہمیشہ ہوتے ہیں اور ہم ہر مشکل کا مقابلہ کریں گے اور قربانی دیں گے۔ یہی وہ روح ہے جو مومن میں ہونی چاہئے۔ یہی وہ باتیں ہیں جس کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ تم لوگوں کو کرنی پڑیں گی۔ اللہ تعالیٰ کے وعدے اور بیشمار تائیدات کے نظارے ہم دیکھتے ہیں۔ یقینا آخری فتح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کی ہی ہے۔ مخالفتیں تو ہوتی ہیں اور ہوں گی۔ یہ جو حملہ کرنے والے، ریڈ (Raid) کرنے والے تھے۔ (حملہ تو نہیں ریڈ (Raid) کرنے والا کہنا چاہئے) ان بیچاروں کو بھی سب سے زیادہ خوف اور ٹیرر (Terror) جو ہے، احمدیوں کی وجہ سے ہے۔ کیونکہ احمدی یہ کہتے ہیں کہ خدا کا خوف دل میں پیدا کرو۔ احمدی اللہ تعالیٰ سے ڈراتے ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے بچو اور اس سے ڈرو۔ اور ان لوگوں کے نزدیک کہ احمدی ایسی باتیں کس طرح کر سکتے ہیں، یہ ہمیں خدا تعالیٰ سے ڈراتے ہیں تو اس سے بڑا دہشتگرد اَور کون ہو سکتا ہے جو ہمیں خدا تعالیٰ سے ڈرائے۔ اس لئے ان کو پکڑو اور ان کو ختم کرو۔
اللہ تعالیٰ ان کو عقل دے اور یہ اس حقیقت کو سمجھنے والے ہوں اور ملک کو ان مولویوں سے بچائے جو حقیقی ٹیررسٹ(Terrorist) ہیں جنہوں نے ملک میں فساد پھیلایا ہوا ہے اور کوئی بھی جان ان لوگوں سے محفوظ نہیں ہے اور یہ جو خاص پولیس ہے ٹیررسٹ (Terrorist) ختم کرنے کی پولیس ان کو بھی اتنی جرأت دے کہ بجائے پُرامن اور ملک سے محبت کرنے والے اور ملک کے قانون کی پابندی کرنے والے احمدیوں پر ہاتھ ڈالیں ان لوگوں سے جنگ کریں اور ان کو پکڑیں جن کے ہاتھوں عوام کی جانیں بھی محفوظ نہیں اور جو ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں اور وہ لوگ بھی جو ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔ احمدیوں کو دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ پاکستان کو محفوظ رکھے اور ان ظالموں کے چنگل سے بچائے۔ باقی جہاں تک قربانیاں ہیں وہ احمدی دیتے ہیں، دیتے رہیں گے اور ان قربانیوں کو اللہ تعالیٰ انشاء اللہ تعالیٰ جلد پھل لگائے گا۔
اسی طرح الجیریا میں بھی احمدیوں پر حکومت کی طرف سے بڑا ظلم ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی محفوظ رکھے اور ان کو بھی ثبات قدم عطا فرمائے۔ وہاں کی حکومت کو بھی عقل دے کہ وہ بھی ان احمدیوں کی حقیقت کو سمجھنے والے ہوں جو پُرامن اور قانون کے پابند ہیں۔ الزام لگایا جاتا ہے کہ احمدی حکومت کے خلاف سازش کر رہے ہیں یا فساد پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ دنیا میں کسی بھی جگہ کوئی بھی احمدی کبھی ملکی قانون سے لڑنے والا نہیں اور حکومت سے لڑنے والا نہیں بلکہ ہم تو امن، پیار اور محبت پھیلانے والے ہیں ہاں اس کی خاطر قربانیاں بھی دینی پڑیں تو دیں گے انشاء اللہ۔
دوبارہ مَیں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالوں کی طرف آتا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں کہ ’’دنیا میں سب سے خطرناک مخالفت شرکاء کی ہوتی ہے۔ پنجابی میں تو مشہور ہے کہ ’’شراکت دا دانہ سر دُکھدے وی کھانا‘‘ تو سب سے بڑی مخالفت اعزاء اور اقرباء کی ہوتی ہے کیونکہ وہ برداشت نہیں کر سکتے کہ انہی میں سے کھڑا ہو کر ایک شخص دنیا میں بڑائی اور عزت حاصل کرے۔ وہ جو اس کے مقابلے میں چپّہ چپّہ زمین کے لئے لڑتے مرتے ہیں وہ کب گوارا کر سکتے ہیں کہ ساری دنیا اس کے پاس آ جائے۔ اس لئے وہ پورا زور لگاتے ہیں کہ اسے دبائیں حتی کہ جب بے بس ہو جاتے ہیں اور کچھ نہیں کر سکتے، وہ بھی کسی نہ کسی طرح دل کا بخار نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ شاہ پور کے رئیسوں میں سے کسی کو جب خان بہادر کا خطاب ملاتو اسی خاندان میں سے ایک عورت نے جو بہت غریب تھی اپنے لڑکے کا نام خان بہادر رکھ دیا۔ اس سے پوچھا گیا کہ یہ تم نے کیا کیا ہے؟ یہ نام رکھنے کی وجہ کیا ہے؟ کہنے لگی معلوم نہیں میرا بچہ بڑا ہو کر کیا بنے گا۔ لیکن لوگ جب نام لیں گے تو جس طرح اس کے شریک کو خان بہادر کہیں گے۔ اسی طرح اس کو بھی کہیں گے تو جو کچھ اور نہیں کر سکتے وہ نام رکھ لیتے ہیں۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب دعویٰ کیا تو آپ کے رشتہ داروں میں سے بھی ایک شخص نے امام ہونے کا دعویٰ کیا۔ (شریکوں کی بات ہے۔ یہ اب رشتہ داروں میں سے کسی نے کہا کہ آپ نے دعویٰ کیا ہے اور لوگ آپ کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں تو مَیں بھی دعویٰ کروں۔) حضرت مصلح موعود فارسی کی مثال دیتے ہیں کہ ’’فکر ہر کس بقدر ہمت اوست‘‘ کہ ہر کسی کی فکر اور سوچ اس کی ہمت اور اندازے کے مطابق ہوتی ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو یہ دعویٰ کیا کہ میں ساری دنیا کے لئے حَکم بنا کر بھیجا گیا ہوں اور چھوٹے درجے کے لوگوں کے لئے ہی نہیں بلکہ بڑے بڑے بادشاہوں پر بھی فرض ہے کہ میری اتباع کریں۔ لیکن اس کی جو اُن کے شریک تھے نام ہی رکھنے والی بات تھی۔ اس نے جو رشتہ دار تھے انہوں نے دعویٰ کیا تو چوہڑوں کے امام ہونے کا دعویٰ کیا۔ ادھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعویٰ کیا تو یہاں تک لکھ دیا کہ بادشاہِ انگلستان پر بھی فرض ہے کہ مجھے مانے۔ چنانچہ خود لکھ کر ملکہ کو جو اس وقت بادشاہ تھی بھیج دیا۔ اس کے مقابلے میں چوہڑوں کا امام ہونے کادعویٰ کرنے والے کی دلیری اور اس کی جماعت کا یہ حال تھا کہ یہاں آ کر جب تھانیدار نے اس سے پوچھا کہ کیا تم نے کوئی دعویٰ کیا ہے؟ تو اس نے کہا کہ میں نے تو کوئی دعویٰ نہیں کیا۔ کسی نے یونہی جھوٹی رپورٹ کر دی ہو گی۔ تو شراکت والوں کی سب سے بڑی مخالفت ہوتی ہے۔‘‘ (ماخوذ ازخطبات محمود جلد 3 صفحہ 38-39)
آپ فرماتے ہیں رشتہ دار اور خاص طور پر جب وہ مخالفین ہو جائیں تو بہت مخالفت کرتے ہیں اور اس وجہ سے پھر ہر جائز ناجائز طریقے سے نقصان پہنچانے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ اس کا ذکر کرنے کے بعد آپ فرماتے ہیں کہ ہمارے درجنوں ایسے رشتہ دار ہیں جو احمدیت کی وجہ سے منقطع ہو گئے۔ اس واسطے نہیں کہ ہم ان سے نہیں ملنا چاہتے تھے بلکہ اس واسطے کہ وہ نہیں ملنا چاہتے۔ ہمیں اپنے خاندان کے لوگوں سے گالیاں ملتی تھیں۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ ہماری تائی صاحبہ جو بعد میں احمدی ہو گئیں وہ ہم کو برا بھلا کہتی تھیں۔ آپ فرماتے ہیں مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ جبکہ میری عمر چھ سات سال کی ہو گی میں سیڑھیوں پر چڑھ رہا تھا تو انہوں نے میری طرف دیکھ کر بار بار یہ کہنا شروع کیا کہ ’’جیہو جیا کاں اوہو جئی کوکو‘‘۔ اس فقرہ کو انہوں نے اتنی دفعہ دہرایا کہ مجھے یاد ہو گیا۔ میں نے گھر میں جا کر یہ بات بتائی۔ جب پوچھا کہ اس کا کیا مطلب ہے تو انہوں نے بتایا کہ جیسا تیرا باپ برا ہے ویسا ہی بیٹا بھی برا ہے۔ آپ فرماتے ہیں قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بائیکاٹ کیا گیا۔ لوگوں کو آپ کے گھر کا کام کرنے سے روکا جاتا۔ کمہاروں کو روکا گیا۔ چوہڑوں کو صفائی سے روکا گیا۔ ہمارے عزیز ترین بھائی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بھاوج اور دیگر عزیز رشتہ دار حتی کہ آپ کے ماموں زاد بھائی علی شیر یہ سب طرح طرح کی تکلیفیں دیا کرتے تھے۔ فرماتے ہیں ایک دفعہ گجرات کے علاقے کے کچھ دوست جو سات بھائی تھے قادیان میں آئے اور باغ کی طرف اس واسطے گئے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف منسوب ہوتا تھا۔ یعنی باغ دیکھنے گئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا باغ ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ راستے میں ہمارے ایک رشتہ دار باغیچہ لگوا رہے تھے۔ انہوں نے ان سے دریافت کیا کہ کہاں سے آئے ہو۔ اور کیوں آئے ہو تو یہ لوگ جو گجرات سے مہمان آئے تھے انہوں نے کہا کہ گجرات سے آئے ہیں اور حضرت مرزا صاحب کے لئے آئے ہیں۔ انہوں نے کہا دیکھو میں ان کے ماموں کا لڑکا ہوں اور میں خوب جانتا ہوں یہ ایسے ہیں اور ویسے ہیں۔ ان میں سے ایک نے جو دوسروں سے آگے تھا بڑھ کر ان کو پکڑ لیا اور اپنے بھائیوں کو (باقیوں کو بھی) آواز دی کہ جلدی آؤ۔ اس پر وہ شخص گھبرایا تو اس احمدی نے کہا کہ مَیں تمہیں مارتا نہیں کیونکہ تم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے رشتہ دار ہو۔ میں اپنے بھائیوں کو تمہاری شکل دکھانی چاہتا ہوں کیونکہ ہم سنا کرتے تھے کہ شیطان نظر نہیں آتا مگر آج ہم نے دیکھ لیا کہ وہ ایسا ہوتا ہے۔ (ماخوذ از روزنامہ الفضل مورخہ 4 دسمبر 1935ء جلد 23 شمارہ 132 صفحہ 3,4)
پھر آپ فرماتے ہیں کہ ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بتایا گیا کہ تیرے سوا اس خاندان کی نسلیں منقطع ہو جائیں گی۔ (مخالفتیں ہوئیں، سب کچھ ہوا لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو تسلی دی اور فرمایا کہ نسل جو ہے تجھ سے ہی جاری ہو گی اور باقی سب منقطع ہو جائیں گی۔) چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اب اس خاندان میں سے وہی لوگ باقی ہیں جو سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو گئے اور باقی سب کی نسلیں منقطع ہو گئیں۔ جس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعویٰ کیا اس وقت اس خاندان میں ستّر کے قریب مرد تھے لیکن اب سوائے ان کے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جسمانی و روحانی اولاد ہیں ان ستّر میں سے ایک کی بھی اولادنہیں ہے حالانکہ انہوں نے حضرت صاحب کا نام مٹانے میں جس قدر ان سے ہو سکا کوششیں کیں اور اپنی طرف سے پورا زور لگایا۔ اور نتیجہ کیا ہوا۔ یہی کہ وہ خود مٹ گئے اور ان کی نسلیں منقطع ہو گئیں۔ یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا ایک عظیم الشان نشان ہے۔‘‘ (خطبات محمود جلد 3 صفحہ 39)
پھر تائی صاحبہ کی بیعت کا واقعہ بیان فرماتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ ’’بعض پیشگوئیاں اور نشانات بظاہر گو چھوٹے ہیں لیکن ان کی کیفیت پر غور کرنے والوں کے لئے ان میں کئی باتیں ایسی ہوتی ہیں جن سے ایمان میں بہت اضافہ ہوتا ہے۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام ہے جس کا علم مجھے کل ہی ہؤا ہے گو وہ فرد اور اس کی حالت کے متعلق ہے مگر اس میں کئی پیشگوئیاں ہیں۔ کئی ایک دوستوں نے بتایا کہ ان کو پہلے ہی معلوم تھا مگر مجھے کل ہی معلوم ہوا ہے۔ کل تائی صاحبہ کی وفات کے وقت شیخ یعقوب علی صاحب نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک پرانا الہام ہے۔ ’’تائی آئی‘‘۔ (یہ تائی حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تائی تھیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بڑے بھائی کی بیوی۔ تو فرمایا ایک الہام پرانا الہام ہے ’’تائی آئی‘‘) اس کے متعلق پرانے احمدی بتاتے ہیں کہ اس وقت اس کے معنی سمجھ میں نہیں آتے تھے۔ کوئی کچھ کہتا اور کوئی کچھ۔ لیکن ایک ہی سیدھے سادھے معنی اس فقرے کے یہ ہو سکتے ہیں کہ کوئی ایسی عورت جس کا رشتہ تائی کا ہو وہ آ جائے۔ آنے کے دو مفہوم ہو سکتے ہیں پاس آنا یا جماعت میں آنا۔ خالی آ جانا کوئی پیشگوئی نہیں ہو سکتی کیونکہ رشتہ دار آیا ہی کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں تمام کے تمام بڑے لوگ بھی حضرت صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بھاوجہ کو تائی کے لقب سے پکارتے تھے گویا ان کا نام ہی تائی تھا۔ سلسلہ کی کتابیں پڑھنے والے جانتے ہیں کہ محمدی بیگم کی پیشگوئی کے زمانے میں وہ اشد ترین مخالف تھیں۔ (یعنی یہ تائی بہت سخت مخالف تھیں۔) چونکہ وہ خاندان میں سب سے بڑی تھیں اور پیشگوئی بھی ان کی بہن کی بیٹی کے متعلق تھی اس لئے خاندان کے لیڈر کے لحاظ سے اس وقت وہ، اس رشتہ میں روک ڈالنا جس کو وہ خاندانی رسوائی کے مترادف سمجھتی تھیں، اپنا فرض سمجھتی تھیں اور ان کے نزدیک ان کا اہم فرض تھا کہ وہ مقابلہ کریں۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ عورتوں کی فطرت کے لحاظ سے بڑی عورت کے لئے عزت اور خاندانی وقار تمام دینی امور بلکہ تمام سیاسیات اور دیگر حالات سے زیادہ اہم سمجھا جاتا ہے۔ اس وقت حضرت مسیح موعود کا مسیح ہونے کا دعویٰ ان کے نزدیک (یعنی تائی کے نزدیک) اس قدر اہم نہیں تھا جس قدر خاندانی عزت تھی۔ اور یوں بھی چونکہ بڑوں کے لئے چھوٹوں کی اطاعت مشکل ہو تی ہے اور مسیح موعود تائی صاحبہ سے چھوٹے تھے اور انہوں نے جائیداد وغیرہ میں حصہ بھی نہیں لیا تھا (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جائیداد میں حصہ نہیں لیا تھا) اس لئے آپ کا کھانا وغیرہ ان کے گھر سے جاتا تھا، (تائی کے گھر سے جاتا تھا) اس لحاظ سے بھی وہ اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محسنہ سمجھتی تھیں۔ عورتوں میں یہ احساس قدرتی طور پر ہوتا ہے۔ اس لئے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنا دستِ نگر تصور کرتی تھیں۔ (اس لئے یہ نہیں سوچتی تھیں کہ آپ نے جائیدادنہیں لی اور جائیداد سب ان کے پاس ہے بلکہ اس لئے کہ میں کھانا بھیجتی ہوں اور کھانا کھلاتی ہوں اور خرچ اٹھا رہی ہوں تو وہ اپنا دستِ نگر سمجھتی تھیں اور اپنے آپ کو محسنہ سمجھتی تھیں۔) حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے ایک عربی شعر میں فرماتے ہیں کہ
لُفَاظَاتُ الْمَوَائِدِ کَانَ اُکُلِیْ
وصِرْتُ الْیَوْمَ مِطْعَامَ الْاَھَالِیْ
اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک زمانہ تھا جب میں دوسروں کے ٹکڑوں پر بسر اوقات کرتا تھا مگر اب خدا نے مجھے ایسی شان عطا کی ہے کہ ہزاروں ہیں جو میرے دستر خوان سے سیر ہوتے ہیں۔ اس شعر میں اس واقعہ کی طرف بھی اشارہ ہے کہ حضرت اقدس کی جائیداد علیحدہ نہیں تھی۔ بھائی کے ہی سپرد تھی اور آپ میں اس کے سنبھالنے کا احساس بھی نہیں تھا۔ چنانچہ آپ کے والد بھی کہا کرتے تھے کہ یہ جائیدادنہیں سنبھال سکے گا۔ پس اندریں حالات تائی صاحبہ کا ایمان لانا بڑا مشکل امر تھا۔ (یہ بعد میں ایمان لے آئی تھیں، مان لیا تھا۔) حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ دلیل اور مذہبی پہلو سے نہیں بلکہ خاندانی لحاظ سے (یہ ساری بیک گراؤنڈ جو بیان ہوئی ہے) کیونکہ ان کے نزدیک دونوں کی حیثیت مالک و نوکر کی تھی۔ (یعنی تائی اپنے آپ کو مالک سمجھتی تھیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نعوذ باللہ نوکر سمجھتی تھیں۔) وہ آپ کو ایک غریب آدمی سمجھتی تھیں جو کام وغیرہ کچھ نہیں کرتا تھا اور ان کے ٹکڑوں پر پلا تھا۔ ان حالات میں وہ کبھی گوارا نہ کر سکتی تھیں کہ آپ ان کی بہن کی لڑکی کے ساتھ نکاح کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔ وہ چونکہ سب سے بڑی تھیں اس لئے خصوصیت کے ساتھ مخالف تھیں۔ اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت بہت زیادہ تھی۔ رشتہ داروں نے آپ سے ملنا ترک کر دیا تھا اور آپ بھی ان سے نہیں ملتے تھے بلکہ خاندان والوں کی مخالفت کا یہ عالم تھا کہ والدہ صاحبہ، حضرت امّاں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا سناتی ہیں کہ حضرت صاحب کے ننہال میں ایک بڑی عمر کی عورت تھیں وہ بَین ڈالا کرتی تھیں کہ چراغ بی بی کے لڑکے کو ہمیں کوئی دیکھنے بھی نہیں دیتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو چور اور ڈاکوؤں کی طرح علیحدہ رکھا جاتا تھا کیونکہ ان کو خاندانی عزت کو بٹّہ لگانے والا سمجھا جاتا تھا۔ ان حالات میں یہ قیاس کرنا کہ تائی احمدی ہو جائے گی بظاہر ایک غیر معمولی بات تھی۔ انسان کا دل بدل سکتا ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ حالات کیا کہتے ہیں۔ ایسے وقت میں آپ کو(حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو) الہام ہوا ’’تائی آئی‘‘۔ تائی صاحبہ حضرت صاحب کی بھاوج تھیں۔ اس لئے ان الفاظ سے یہ مراد تھی کہ آپ اس وقت بیعت کریں گی جس وقت بیعت لینے والے سے ان کا تعلق تائی کا ہو گا۔ اگر انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کرنی ہوتی تو الہام کے یہ الفاظ ہوتے بھاوج آئی۔ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بھابھی تھیں تو ’بھاوج آئی‘ کا الہام ہوتا۔ اگر حضرت خلیفہ اول کے عہد میں بیعت ہوتی تو یہ ہونا چاہئے تھا کہ مسیح موعود کے خاندان کی ایک عورت آئی۔ مگر ’تائی‘ کا لفظ ظاہر کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود کا لڑکا جب آپ کا خلیفہ ہو گا تو اس کے ہاتھ پر بیعت کریں گی کیونکہ اگر آپ کی اولاد سے کسی نے خلیفہ نہیں ہونا تھا تو تائی کا لفظ فضول تھا۔ آپ فرماتے ہیں کہ اس الہام میں دراصل تین پیشگوئیاں ہیں۔ اوّل یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد میں سے خلیفہ ہو گا۔ دوم یہ کہ اس وقت تائی صاحبہ جماعت میں شامل ہوں گی۔ تیسرے تائی صاحبہ کی عمر کے متعلق پیشگوئی تھی اور وہ اس طرح کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جن کی اپنی عمر اس وقت ستّر سال کے قریب تھی ایک ایسی عورت کے متعلق پیشگوئی کرتے ہیں جو اس وقت بھی عمر میں ان سے بڑی تھیں کہ وہ زندہ رہے گی اور آپ کی اولاد سے خلیفہ ہو گا جس کی بیعت میں وہ شامل ہو گی۔ اتنی لمبی عمر کا ملنا بہت بڑی بات ہے۔ انسانی دماغ کسی جوان کے متعلق بھی نہیں کہہ سکتا کہ وہ فلاں وقت تک زندہ رہے گا۔ (یہ تائی غالباً 1927ء میں فوت ہوئی تھیں۔) چہ جائیکہ بوڑھے کے متعلق کہا جائے۔ پس یہ ایک بہت بڑا نشان ہے۔ گویا ان کا بیعت کرنا اور میرے زمانے میں کرنا۔ پھر حضرت مسیح موعود کے بیٹوں میں سے خلیفہ ہونا۔ کئی ایک پیشگوئیاں ہیں جو دو لفظوں میں بیان ہوئی ہیں‘‘۔ پھر آپ فرماتے ہیں کہ تائی جب احمدی ہوئیں تو اس کے بعد انہوں نے وصیت بھی کی اور اس کی بھی عجیب بَیک گراؤنڈ ہے۔ کہتے ہیں ’’میں سمجھتا ہوں کہ جس قسم کی روایات اور احساسات پرانے خاندانوں میں پائے جاتے ہیں ان کو مدّنظر رکھتے ہوئے یہ عظیم الشان تغیر ہے کہ تائی صاحبہ نے بیعت میں شامل ہونے کے بعد وصیت بھی کر دی تھی۔ (صرف بیعت نہیں کی بلکہ وصیت بھی کر دی۔) پہلے تو وہ اس کی مخالف تھیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آبائی قبرستان کے بجائے دوسری جگہ دفن کیا جائے۔ چنانچہ انہوں نے اس وقت کہلا بھی بھیجا کہ آپ کو جدّی قبرستان کے بجائے دوسری جگہ دفن نہ کیا جائے کیونکہ یہ ایک ہتک ہے اور بعد میں بھی کئی سال تک اس پرمعترض رہیں۔ مگر پھر ان کی یہ حالت ہو گئی کہ خود وصیت کی اور مقبرہ بہشتی میں دفن ہوئیں۔ ایک سمجھدار انسان کے لئے یہ بہت بڑا نشان ہے۔ ظاہر میں تو یہ معمولی بات ہے جو ایک شخص کے متعلق ہے مگر اس میں صداقت کے ثبوت کے کئی ایک پہلو ہیں‘‘۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 11 صفحہ 251 تا 253) باوجود مخالفت کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارے میں یہی تھا کہ ان کی تدفین جدّی قبرستان میں ہو لیکن بعد میں وصیت کی اور آپ بھی بہشتی مقبرہ میں دفن ہوئیں۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دہلی کے سفر کا واقعہ بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ’’انسان جو خدا پر بھروسہ رکھتا ہے وہ کبھی الٰہی کاموں کی نسبت یہ خیال نہیں کر سکتا کہ ان کا نتیجہ نہیں نکلے گا۔ (اللہ تعالیٰ پر بھروسہ ہے، یقینا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کا بہترین نتیجہ نکالے گا۔) آپ فرماتے ہیں کہ میں اس وقت چھوٹا تھا جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دہلی تشریف لائے تھے۔ (یہ خطاب آپ دہلی میں دہلی کی جماعت کو کر رہے تھے۔) آپ کہتے ہیں کہ میں بہت چھوٹا تھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام دہلی تشریف لائے۔ آپ یہاں کے اولیاء اللہ کے مزاروں پر گئے اور بہت دیر تک لمبی دعائیں کیں اور فرمایا میں اس لئے دعا کرتا ہوں کہ ان بزرگوں کی روحیں جوش میں آئیں تا ایسا نہ ہو کہ ان لوگوں کی نسلیں اس نور کی شناخت سے محروم رہ جائیں جو اِس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے ان کی ہدایت کے لئے بھیجا ہے۔ اور فرمایا کہ یقینا ایک دن ایسا آئے گا کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے دل کو کھول دے گا اور وہ حق کو قبول کریں گے۔ فرماتے ہیں کہ مَیں گو اس وقت چھوٹا تھا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس قول کا اثر اب تک میرے دل پر باقی ہے۔ پس یہاں کی جماعت اپنی کوششوں کا اگر کوئی نیک نتیجہ دیکھنا چاہتی ہے تو اسے چاہئے کہ خدا پر بھروسہ رکھے۔ یقینا ایک دن ایسا آئے گا کہ جس چیز کو خدا قائم کرنا چاہتا ہے وہ ہو کر رہے گی۔‘‘ آپ نے دہلی جماعت کے ایڈریس کے ایک جواب میں یہ باتیں کہی تھیں۔ (جماعت احمدیہ دہلی کے ایڈریس کا جواب۔ انوارالعلوم جلد 12 صفحہ 83-84)
پس آج بھی دہلی جماعت کا فرض ہے کہ حکمت سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیغام کو پہنچائیں۔ اب ماشاء اللہ نمائشوں وغیرہ کے ذریعہ سے وہاں تبلیغ میں کافی تیزی آئی ہے لیکن مسلمانوں کی طرف سے مخالفت بھی ہے۔ اس لئے ان میں بھی یہ پیغام پہنچانے کی بہت ضرورت ہے اور ان سب چیزوں کے ساتھ سب سے اہم بات جو ہے وہ دعا ہے۔ اس طرف بہت زیادہ توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔
پھر مزید اسی تسلسل میں آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک رؤیا کا بھی ذکر فرمایا کہ ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک کشف میں دیکھا کہ ایک نالی بہت لمبی کھدی ہوئی ہے اور اس کے اوپر بھیڑیں لٹائی ہوئی ہیں اور ہر ایک بھیڑ کے سر پر ایک قصاب ہاتھ میں چھری لئے ہوئے تیار ہے اور آسمان کی طرف اس کی نظر ہے جیسے حکم کا انتظار ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ مَیں اس وقت اس مقام پر ٹہل رہا ہوں۔ ان کے نزدیک جا کر مَیں نے کہا کہ قُلْ مَا یَعْبَؤُا بِکُمْ رَبِّیْ لَوْلَا دُعَآؤُکُمْ (الفرقان: 78) انہوں نے اسی وقت چھریاں پھیر دیں۔ جب وہ بھیڑیں تڑپیں تو انہوں نے، چھری پھیرنے والوں نے کہا کہ تم چیز کیا ہو۔ گُوں کھانے والی بھیڑیں ہی ہو۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ ان ایام میں ستّر ہزار آدمی ہیضے سے مرا تھا۔ پس اگر کوئی توجہ نہیں کرتا تو خدا کو اس کی کیا پرواہ ہے۔ اس کے کام رُک نہیں سکتے وہ ہو کر رہیں گے‘‘۔ آپ نے فرمایا کہ حضرت مسیح ناصری کے تین سو سال بعد عیسائیت کو ترقی نصیب ہوئی تھی لیکن ہمارے حالات کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح ناصری کے زمانے سے بہت پہلے انشاء اللہ تعالیٰ احمدیت کو ترقی حاصل ہو جائے گی۔ (جماعت احمدیہ دہلی کے ایڈریس کا جواب، انوار العلوم جلد 12 صفحہ 84)
پاکستانی مولوی ہوں یا کوئی مذہبی لیڈر ہوں یا دنیاوی طاقتیں ہوں اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ وہ بھیڑوں جیسے لوگ ہیں۔ اور یہ لوگ کبھی بھی احمدیت کی ترقی میں روک نہیں بن سکتے۔ لیکن اس کے لئے صرف ہم اپنے مبلغوں پر انحصار نہیں کر سکتے کہ وہ تبلیغ کریں اور احمدیت کو پھیلائیں۔ اگر اس ترقی کا حصہ بننا ہے اور ہمیں بننا چاہئے تو ہمیں بھی دعاؤں کی طرف اپنی توجہ پھیرنی ہو گی۔ اپنی روحانیت کو بڑھانا ہو گا۔ تعلق باللہ کو بڑھانا ہوگا۔ اور یہی چیزیں ہیں جو احمدیت کی مخالفت کو بھی ختم کریں گی اور احمدیت کی ترقی میں بھی ہمیں انشاء اللہ تعالیٰ حصہ دار بنانے والی ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں یہ مقام عطا فرمائے۔
نماز کے بعد میں ایک جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا جو مکرم سفنی ظفر احمد صاحب مبلغ انڈونیشیا کا ہے۔ 8؍نومبر کو ہارٹ اٹیک سے ان کی وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ 71 سال ان کی عمر تھی۔ 18؍اگست 1945ء کو پاڈانگ سماٹرا میں یہ پیدا ہوئے۔ ان کے والد زینی دہلان صاحب نے 1923ء میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دست مبارک پر بیعت کر کے جماعت میں شمولیت اختیار کی اور انہوں نے دو اور نوجوانوں کے ساتھ مل کر سماٹرا اور جاوا میں جماعت کے تبلیغی مراکز قائم کئے۔ اسی طرح سفنی صاحب کے والد انڈونیشیا کے pioneer مبلغین میں شامل تھے۔ زینی دہلان صاحب کے تین بچے تھے جن میں سے سفنی ظفر احمد صاحب کو وقف کرنے کے بعد آپ نے حصول تعلیم کی غرض سے جامعہ احمدیہ ربوہ میں بھجوایا۔ سفنی ظفر احمد صاحب 17؍جولائی 1963ء کو ربوہ روانہ ہوئے۔ تقریباً گیارہ سال ربوہ میں رہے۔ جامعہ احمدیہ میں تعلیم حاصل کی اور 1974ء میں فارغ ہو کے یہ انڈونیشیا واپس گئے جہاں آپ کی پہلی پوسٹنگ انڈونیشیا میں کلیمنتان (Kalimantan) میں ہوئی۔ اس کے بعد ویسٹ جاوا میں ریجنل مبلغ اور ریجنل امیر کے طور پر خدمت بجا لاتے رہے۔ بعد میں ایسٹ جاوا اور پاپوامیں خدمت کی توفیق پائی۔ 1985ء سے 1987ء تک جامبی (Jambi)میں اور 87ء سے 91ء تک شمالی سماٹرا میں ریجنل مبلغ کے فرائض سرانجام دئیے۔ 1991ء سے 97ء تک جامعہ احمدیہ انڈونیشیا میں بحیثیت استاد، فقہ کا مضمون پڑھانے کی توفیق ملی اور اس دوران انچارج شعبہ تربیت نومبائعین بھی مقرر ہوئے۔ 1997ء سے 2001ء تک لامپونگ (Lampung)میں ریجنل مبلغ مقرر ہوئے۔ آپ کے ذریعہ انڈونیشیا کے مختلف علاقوں میں کئی جماعتیں قائم ہوئیں اور چند مساجد اور مشن ہاؤس کی تعمیر بھی عمل میں آئی۔ آپ کو انڈونیشین زبان میں حسب ذیل چار کتب کی تصنیف کی بھی توفیق ملی۔ فلسفۂ زکوٰۃ۔ خداتعالیٰ کی راہ میں قربانی۔ جنازہ۔ اسلام میں جہاد کے معنی۔ یہ چار کتابیں آپ نے لکھیں۔ 2001ء میں آپ ریٹائر ہوئے۔ کچھ عرصہ سے آپ مختلف عوارض میں مبتلا تھے۔ خلافت سے آپ کا بڑا کامل وفا اور پیار کا تعلق تھا۔ بڑا گہرا اطاعت کا تعلق تھا۔ بڑے مخلص اور فدائی خادم سلسلہ تھے۔ ان کے پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ ایک بیٹی اور دو بیٹے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو بھی احمدیت پر قائم رکھے اور اپنے باپ کی طرح نیکیوں میں بڑھنے اور وفا کا اظہار کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ایک عملی احمدی بنائے۔
جن کی آنکھوں پر پردے پڑے ہوں، جنہوں نے یہ فیصلہ کیا ہو کہ ہم نے نہیں ماننا، انہیں نہ ہیاللہ تعالیٰ کی تائیدات نظر آتی ہیں نہ ہی نشانات نظر آتے ہیں اور انبیاء کا انکار کرنے والوں کا ہمیشہ یہی طریق رہا ہے کہ نشانات دیکھ کر بھی یہی کہتے ہیں کہ ہمیں نشان دکھاؤ۔ ان کے حد سے بڑھ جانے کی وجہ سے ان کے دلوں کو اللہ تعالیٰ بند کر دیتا ہے پھر وہ سچائی کو پا ہی نہیں سکتے اور بعض اوقات نبی کی تائید میں اللہ تعالیٰ انہیں ہی عبرت کا نشان بنا دیتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی تائید میں اللہ تعالیٰ کے بہت سے نشانات بتائے کہ یہ یہ پورے ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نشانات بھی بتائے کہ آپ نے یہ یہ فرمایا۔ یہ پیشگوئیاں فرمائیں، یہ پوری ہوئیں لیکن ان مذہبی سرداروں نے خود بھی نہیں مانا اور لوگوں کو بھی گمراہ کیا اور اب تک کرتے چلے جا رہے ہیں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی تائید میں ظاہر ہونے والے نشانات کا ایمان افروز تذکرہ۔
ہم جو روز اللہ تعالیٰ کی تائیدات کے نئے سے نئے نظارے دیکھتے ہیں انشاء اللہ وہ دن بھی ضرور آئے گا جب یہ نظارے بھی نظر آئیں گے کہ دوسرے لوگ، دوسری قومیں بالکل معمولی حیثیت کی ہوں گی۔ لیکن ہمیں اپنے اندر بھی اور اپنی نسلوں کے اندر بھی دین کی روح پھونکنے کی ضرورت ہے جس سے ہمیں اللہ تعالیٰ یہ نظارے دکھائے۔
جہاں تائیدات ہوں وہاں مخالفتیں بھی ہوتی ہیں اور ہمیشہ سے انبیاء کی جماعتوں کے ساتھ اس طرح ہوتا ہے۔ لیکن یہ مخالفتیں خوفزدہ نہیں کرتیں بلکہ ایمان کو مضبوط کرتی ہیں، ایمان میں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔ گزشتہ دنوں ربوہ میں تحریک جدید کے دفاتر اور ضیاء الاسلام پریس پر حکومت کی پولیس کے خاص ادارے کے Raid اور بعض افراد کی گرفتاری پر احمدیوں کے ردّ عمل کا تذکرہ کہ ہم ان باتوں سے ڈرنے والے نہیں ہیں۔ ہمارے ایمان مضبوط ہیں اور ہم ہر مشکل کا مقابلہ کریں گے اور قربانی دیں گے۔
الجیریا میں بھی حکومت کی طرف سے احمدیوں پر بڑا ظلم ہو رہا ہے۔
الزام لگایا جاتا ہے کہ احمدی حکومت کے خلاف سازش کر رہے ہیں یا فساد پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ دنیا میں کسی بھی جگہ کوئی بھی احمدی کبھی ملکی قانون سے لڑنے والا نہیں اور حکومت سے لڑنے والا نہیں بلکہ ہم تو امن، پیار اور محبت پھیلانے والے ہیں ہاں اس کی خاطر قربانیاں بھی دینی پڑیں تو دیں گے۔ انشاء اللہ۔
پاکستانی مولوی ہوں یا کوئی مذہبی لیڈر ہوں یا دنیاوی طاقتیں ہوں اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اور یہ لوگ کبھی بھی احمدیت کی ترقی میں روک نہیں بن سکتے۔ لیکن اس کے لئے صرف ہم اپنے مبلغوں پر انحصار نہیں کر سکتے کہ وہ تبلیغ کریں اور احمدیت کو پھیلائیں۔ اگر اس ترقی کا حصہ بننا ہے اور ہمیں بننا چاہئے تو ہمیں بھی دعاؤں کی طرف اپنی توجہ پھیرنی ہو گی۔ اپنی روحانیت کو بڑھانا ہو گا۔ تعلق باللہ کو بڑھانا ہوگا۔ اور یہی چیزیں ہیں جو احمدیت کی مخالفت کو بھی ختم کریں گی اور احمدیت کی ترقی میں بھی ہمیں انشاء اللہ تعالیٰ حصہ دار بنانے والی ہوں گی۔
مکرم سفنی ظفر احمد صاحب مبلغ انڈونیشیا کی وفات۔ مرحوم کا ذکرِ خیر اور نماز جنازہ غائب۔
فرمودہ مورخہ 9دسمبر 2016ء بمطابق 9فتح1395 ہجری شمسی، بمقام مسجدبیت الفتوح، مورڈن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔