نیا سال منانے کا اسلامی طریق

خطبہ جمعہ 30؍ دسمبر 2016ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

دو دن بعد انشاء اللہ نیا سال شروع ہو رہاہے۔ ہم مسلمان تو قمری سال سے بھی سال شروع کرتے ہیں اور شمسی سال سے بھی۔ یہ قمری سال صرف مسلمانوں میں ہی نہیں ہے بلکہ بہت سی قوموں میں پرانے زمانے میں قمری سال سے ہی سال شروع کیا جاتا تھا۔ چینیوں میں بھی یہ رواج ہے، ہندوؤں میں بھی ہے اَور قوموں میں بھی ہے۔ بہت سے مذہبوں میں پایا جاتا ہے۔ اور اسلام سے پہلے عرب میں بھی دنوں کے حساب کے لئے قمری کیلنڈر ہی رائج تھا۔ بہرحال دنیا میں عام طور پر یہ گریگورئین کیلنڈر رائج ہے اور سب اس کو سمجھتے ہیں۔ اس لئے ہر قوم اور ہر ملک نے اس کیلنڈر کو اپنے دن اور مہینوں کے حساب کے لئے اپنا لیا ہے تو اسی وجہ سے دنیا میں ہر سال ہر جگہ اس کے حساب سے یکم جنوری سے سال شروع ہوتا ہے اور 31؍دسمبر کو ختم ہوتا ہے۔ بہرحال سال آتے ہیں، بارہ مہینے گزرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں چاہے قمری مہینے کے سال ہوں یا یہ جو رائج کیلنڈر ہے گریگورئین کیلنڈر اس کے سال ہوں۔ لیکن دنیا والے چاہے وہ مسلمانوں میں سے ہیں یا غیر مسلموں میں سے دنوں اور مہینوں اور سالوں کو دنیاوی غُل غپاڑے اور ہاؤ ہُو اور دنیاوی تسکین کے کاموں میں گزار کر بیٹھ جاتے ہیں۔ نئے سال کے آغاز پر جو یکم جنوری سے شروع ہوتا ہے دنیا والے کیا کچھ نہیں کرتے۔ مغربی ممالک میں یا ترقی یافتہ ممالک میں خاص طور پر اور باقی دنیا میں بھی 31؍دسمبر اور یکم جنوری کی درمیانی رات کو کیا کچھ شوروغل نہیں ہوتا۔ آدھی رات تک خاص طور پر جاگا جاتا ہے بلکہ ساری ساری رات صرف شور شرابے کے لئے، شراب کباب کے لئے، ناچ گانے کے لئے جاگتے ہیں۔ گویا گزشتہ سال کا اختتام بھی لغویات اور بیہودگیوں کے ساتھ ہوتا ہے اور نئے سال کا آغاز بھی لغویات کے ساتھ ہوتا ہے۔ دنیا کی اکثریت کی دین کی آنکھ تو اندھی ہو چکی ہے اس لئے ان کی نظر تو وہاں تک پہنچ نہیں سکتی جہاں مومن کی نظر پہنچتی ہے اور پہنچنی چاہئے۔ ایک مومن کی شان تو یہ ہے کہ نہ صرف ان لغویات سے بچے اور بیزاری کا اظہار کرے بلکہ اپنا جائزہ لے اور غور کرے کہ اس کی زندگی میں ایک سال آیا اور گزر گیا۔ اس میں وہ ہمیں کیا دے کر گیا اور کیا لے کر گیا۔ ہم نے اس سال میں کیا کھویا اور کیا پایا۔ ایک مومن نے دنیاوی لحاظ سے دیکھنا ہے کہ اس سال میں اس نے کیا کھویا اور کیا پایا۔ اس کی دنیاوی حالت میں کیا بہتری پیدا ہوئی یا دینی لحاظ سے اور روحانی لحاظ سے دیکھنا ہے کہ کیا کھویا اور کیا پایا اور اگر دینی اور روحانی لحاظ سے دیکھنا ہے تو کس معیار پر رکھ کر دیکھنا ہے تا کہ پتا چلے کہ کیا کھویا اور کیا پایا۔

ہم احمدی خوش قسمت ہیں کہ جنہیں اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود اور مہدی معہود کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی جنہوں نے ہمارے سامنے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی تعلیم کا نچوڑ یا خلاصہ نکال کر رکھ دیا اور ہمیں کہا کہ تم اس معیار کو سامنے رکھو تو تمہیں پتا چلے گا کہ تم نے اپنی زندگی کے مقصد کو پورا کیا ہے یا پورا کرنے کی کوشش کی ہے یا نہیں؟ اس معیار کو سامنے رکھو گے تو صحیح مومن بن سکتے ہو۔ یہ شرائط ہیں ان پہ چلو گے تو صحیح طور پر اپنے ایمان کو پرکھ سکتے ہو۔ ہر احمدی سے آپ نے عہد بیعت لیا اور اس عہد بیعت میں شرائط بیعت ہمارے سامنے رکھ کر لائحہ عمل ہمیں دے دیا جس پر عمل اور اس عمل کا ہر روز ہر ہفتے ہر مہینے اور ہر سال ایک جائزہ لینے کی ہر احمدی سے امید اور توقع بھی کی۔

پس ہم سال کی آخری رات اور نئے سال کا آغاز اگر جائزے اور دعا سے کریں گے تو اپنی عاقبت سنوارنے والے ہوں گے۔ اور اگر ہم بھی ظاہری مبارکبادوں اور دنیاداری کی باتوں سے نئے سال کا آغاز کریں گے تو ہم نے کھویا تو بہت کچھ اور پایا کچھ نہیں یا بہت تھوڑا پایا۔ اگر کمزوریاں رہ گئی ہیں اور ہمارا جائزہ ہمیں تسلی نہیں دلا رہا تو ہمیں یہ دعا کرنی چاہئے کہ ہمارا آنے والا سال گزشتہ سال کی طرح روحانی کمزوری دکھانے والا سال نہ ہو۔ بلکہ ہمارا ہر قدم اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اٹھنے والا قدم ہو۔ ہمارا ہر دن اُسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر چلنے والا دن ہو۔ ہمارے دن اور رات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے عہد بیعت نبھانے کی طرف لے جانے والے ہوں۔ وہ عہد جو ہم سے یہ سوال کرتا ہے کہ کیا ہم نے شرک نہ کرنے کے عہد کو پورا کیا۔ بتوں اور سورج چاند کو پوجنے کا شرک نہیں بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق وہ شرک جو اعمال میں ریاء اور دکھاوے کا شرک ہے۔ وہ شرک جو مخفی خواہشات میں مبتلا ہونے کا شرک ہے۔ (مسند احمد بن حنبل جلد4 صفحہ800-801۔ حدیث محمود بن لبید حدیث نمبر24036۔ عالم الکتب بیروت 1998ء)

کیا ہماری نمازیں، ہمارے روزے، ہمارے صدقات، ہماری مالی قربانیاں، ہمارے خدمت خلق کے کام، ہمارا جماعت کے کاموں کے لئے وقت دینا، خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی بجائے غیر اللہ کو خوش کرنے یا دنیا دکھاوے کے لئے تو نہیں تھا۔ ہمارے دل کی چُھپی ہوئی خواہشات اللہ تعالیٰ کے مقابلے پر کھڑی تو نہیں ہو گئی تھیں۔ اس کی وضاحت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس طرح فرمائی ہے۔ فرمایا کہ:

’’توحید صرف اس بات کا نام نہیں کہ منہ سے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کہیں اور دل میں ہزاروں بُت جمع ہوں۔ بلکہ جو شخص کسی اپنے کام اور مکر اور فریب اور تدبیر کو خدا کی سی عظمت دیتا ہے یا کسی انسان پر بھروسہ رکھتا ہے جو خدا تعالیٰ پر رکھنا چاہئے یا اپنے نفس کو وہ عظمت دیتا ہے جو خدا کو دینی چاہئے ان سب صورتوں میں وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک بُت پرست ہے۔‘‘ (سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب۔ روحانی خزائن جلد12 صفحہ349)

پس اس معیار کو سامنے رکھ کر جائزے کی ضرورت ہے۔

پھر اس کے بعد یہ سوال ہے کہ کیا ہمارا سال جھوٹ سے مکمل طور پر پاک ہو کر اور کامل سچائی پر قائم رہتے ہوئے گزرا ہے؟ یعنی ایسا موقع آنے پر جب سچائی کے اظہار سے اپنا نقصان ہو رہا ہو لیکن پھر بھی سچائی کو نہ چھوڑا جائے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کا معیار یہ مقرر فرمایا ہے کہ: ’’جب تک انسان اُن نفسانی اغراض سے علیحدہ نہ ہو جو راست گوئی سے روک دیتے ہیں تب تک حقیقی طور پر راست گو نہیں ٹھہر سکتا‘‘۔ فرمایا ’’سچ کے بولنے کا بڑا بھاری محل اور موقع وہی ہے جس میں اپنی جان یا مال یا آبرو کا اندیشہ ہو۔‘‘ (اسلامی اصول کی فلاسفی۔ روحانی خزائن جلد10 صفحہ360)

پھر یہ سوال ہے۔ کیا ہم نے اپنے آپ کو ایسی تقریبوں سے دُور رکھا ہے جن سے گندے خیالات دل میں پیدا ہو سکتے ہوں۔ یعنی آجکل اس زمانے میں ٹی وی ہے، انٹرنیٹ ہے۔ یا اس قسم کی چیزیں اور ان پر ایسے پروگرام جو خیالات کے گندہ ہونے کا ذریعہ بنتے ہیں کیا ان سے ہم نے اپنے آپ کو بچایا؟۔ اگر ہم ان ذریعوں سے گندی فلمیں اور پروگرام دیکھ رہے ہیں تو ہم عہد بیعت سے دُور ہٹ گئے ہیں اور ہماری حالت قابل فکر ہے کیونکہ یہ باتیں ایک قسم کے زنا کی طرف لے جاتی ہیں۔ پھر سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے بدنظری سے اپنے آپ کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے اور کر رہے ہیں؟ کیونکہ بدنظری کا جہاں تک سوال ہے۔ اس میں یہ جو حکم ہے کہ اپنی نظریں نیچی رکھو اور غضِّ بصر سے کام لو، یہ عورتوں اور مَردوں دونوں کے لئے ہے کیونکہ کھلی نظر سے دیکھنے سے (بدنظری کے) امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔ پھر سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے فسق و فجور کی ہر بات سے اس سال میں بچنے کی کوشش کی ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن سے گالی گلوچ کرنا فسق ہے۔ (مسند احمد بن حنبل جلد2 صفحہ153مسند عبد اللہ بن مسعود حدیث نمبر4178عالم الکتب بیروت 1998ء)

سختی سے، لڑائی سے، جب لڑائی جھگڑا ہوتا ہے اس وقت آدمی سخت الفاظ بھی کہہ دیتا ہے اور برے الفاظ بھی کہہ دیتا ہے اور ایک مومن دوسرے مومن سے جب یہ کر رہا ہو تو یہ فسق ہے بلکہ کسی سے بھی جب کر رہا ہو تو یہ فسق ہے۔

پھر آپ نے فرمایا کہ تاجر فاجر ہوتے ہیں۔ عرض کیا گیا یہ تو حلال ہے۔ تجارت کرنا تو حلال ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مگر جب یہ لوگ سودابازی کرتے ہیں تو جھوٹ بولتے ہیں اور قسمیں اٹھا اٹھا کر قیمتیں بڑھاتے ہیں۔ اسی طرح آپ نے شکر اور صبر نہ کرنے والوں کو بھی فاسق فرمایا۔ (مسند احمد بن حنبل جلد5 صفحہ385-386 حدیث عبد الرحمن بن شبل حدیث نمبر15752-15753عالم الکتب بیروت 1998ء)۔ پس یہ ہے گہرائی فسق سے بچنے کی۔

پھر سوال یہ ہے جو ہم نے اپنے آپ سے کرنا ہے کہ کیا ہم نے اپنے آپ کو ہر ظلم سے بچا کر رکھا ہے۔ یعنی ظلم کرنے سے بچا کے رکھا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی کی ایک ہاتھ زمین بھی دبا لینا۔ تھوڑی سی زمین بھی کسی کی دبا لینا یا کسی کاایک کنکر جو چھوٹا سا پتھر جو ہے، کنکری، مٹی کا ٹکڑہ، وہ بھی غلط طریق سے لینا ظلم ہے۔ (صحیح البخاری کتاب فی المظالم و الغضب باب اثم من ظلم شیئا من الارض حدیث 2452)

پس یہ معیار ہے جس پہ ہم نے اپنے آپ کو پرکھنا ہے۔

پھر سوال یہ کرنا ہے کہ کیا ہم نے ہر قسم کی خیانت سے اپنے آپ کو پاک رکھا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس سے بھی خیانت نہیں کرنی جو تم سے خیانت کرتا ہے۔ (سنن ابی داؤد کتاب البیوع باب فی الرجل یاخذ حقہ من تحت یدہ حدیث 3534)۔ یہ ہے معیار۔

پھر ہم نے یہ سوال کرنا ہے کہ کیا ہم نے ہر قسم کے فساد سے بچنے کی کوشش کی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شریرترین لوگ فسادی ہیں اور یہ فسادی ہیں جو چغل خوری سے فساد پیدا کرتے ہیں۔ یہاں کی بات وہاں لگائی، اِدھر سے اُدھر بات پھیلائی وہ لوگ فسادی ہیں۔ جو لوگ محبت کرنے والوں کے درمیان بگاڑ پیدا کرتے ہیں وہ فسادی ہیں۔ جو فرمانبردار ہیں، اطاعت کرنے والے ہیں، نظام کی ہر بات کو ماننے والے ہیں یا دین کی ہر بات کو ماننے والے ہیں انہیں کسی غلط کام میں مبتلا کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا گناہ میں مبتلا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ فسادی ہیں۔ (مسند احمد بن حنبل جلد8 صفحہ914حدیث اسماء بنت یزید حدیث نمبر28153عالم الکتب بیروت 1998ء)

پس فساد کے ہونے کا اور فساد سے بچنے کا یہ معیار ہے۔

پھر سوال یہ ہے کہ کیا ہر قسم کے باغیانہ رویّے سے پرہیز کرنے والے ہم ہیں؟

پھر یہ سوال ہے کہ کیا ہم نفسانی جوشوں سے مغلوب تو نہیں ہو جاتے؟ آجکل کے زمانے میں جبکہ ہر طرف بے حیائی پھیلی ہوئی ہے ان نفسانی جوشوں سے بچنا بھی ایک جہاد ہے۔

پھر سوال یہ ہے کہ کیا ہم پانچ وقت نمازوں کا التزام کرتے رہے ہیں۔ سال میں باقاعدگی سے پڑھتے رہے ہیں کہ اس کی اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کئی جگہ تلقین فرمائی ہے، نصیحت فرمائی ہے بلکہ حکم دیا ہے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز کو چھوڑنا انسان کو شرک اور کفر کے قریب کر دیتا ہے۔ (صحیح مسلم کتاب الایمان باب بیان اطلاق اسم الکفر علی من ترک الصلاۃ حدیث (82))

پھر ہم نے یہ سوال کرنا ہے کہ کیا نماز تہجد پڑھنے کی طرف ہماری توجہ رہی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اس بارے میں ارشاد ہے کہ نماز تہجد کا التزام کرو۔ اس میں باقاعدگی پیدا کرنے کی کوشش کرو؟ یہ صالحین کا طریق ہے۔ فرمایا کہ یہ قرب الٰہی کا ذریعہ ہے۔ فرمایا کہ اس کی عادت گناہوں سے روکتی ہے۔ فرمایا کہ برائیوں کو ختم کرتی ہے اور جسمانی بیماریوں سے بھی بچاتی ہے۔ (سنن الترمذی کتاب الدعوات باب فی دعاء النبیﷺ حدیث 3549)

پھر ہم نے یہ سوال کرنا ہے کہ کیا ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کی باقاعدہ کوشش کرتے رہے ہیں یا کرتے ہیں کہ یہ مومنوں کو اللہ تعالیٰ کے خاص حکموں میں سے ایک حکم ہے اور یہ دعاؤں کی قبولیت کا ذریعہ بھی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر درود کے بغیر دعائیں ہیں تو یہ زمین اور آسمان کے درمیان ٹھہر جاتی ہیں۔ (سنن الترمذی کتاب الصلاۃ ابواب الوتر باب ما جاء فی فضل الصلاۃ علی النبیﷺ حدیث 486)

اگر تم نے درودنہیں پڑھا اور تم دعائیں کر رہے ہو تو زمین سے دعائیں اٹھیں گی آسمان تک نہیں پہنچیں گی درمیان میں ٹھہر جائیں گی کیونکہ ان میں وہ طریق شامل نہیں جو اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے۔ آسمان تک پہنچانے کے لئے ضروری ہے کہ دعاؤں کے ساتھ درود بھی ہو۔

پھر سوال ہم نے یہ کرنا ہے کہ کیا ہم باقاعدگی سے استغفار کرتے رہے ہیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو شخص استغفار کو چمٹا رہتا ہے یعنی باقاعدگی سے کرتا رہتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے ہر تنگی سے نکلنے کی راہ بنا دیتا ہے اور ہر مشکل سے کشائش کی راہ پیدا کر دیتا ہے اور اسے ان راہوں سے رزق عطا کرتا ہے جس کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتے۔ (سنن ابی داؤد ابواب الوتر باب فی الاستغفار حدیث 1518)

پھر سوال یہ ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ کی حمد کرنے کی طرف ہماری توجہ رہی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حمد کے بغیر شروع کیا جانے والا کام ناقص رہتا ہے، بے برکت ہوتا ہے، بے اثر ہوتا ہے۔ (سنن ابن ماجہ۔ کتاب النکاح باب خطبۃ النکاح حدیث1894)

پھر سوال یہ ہے کہ کیا ہم اپنوں اور غیروں سب کو کسی بھی قسم کی تکلیف پہنچانے سے گریز کرتے رہے ہیں؟ کیا ہمارے ہاتھ اور ہماری زبانیں دوسروں کو تکلیف پہنچانے سے بچی رہی ہیں؟ کیا ہم عفو اور درگذر سے کام لیتے رہے ہیں؟ کیا عاجزی اور انکساری ہمارا امتیاز رہا ہے۔ کیا خوشی غمی تنگی اور آسائش ہر حالت میں ہم خدا تعالیٰ کے ساتھ وفا کا تعلق رکھتے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے کبھی کوئی شکوہ تو نہیں پیدا ہوا کہ میری دعائیں کیوں قبول نہیں کی گئیں یا مجھے اس تکلیف میں کیوں مبتلا کیا گیا۔ اگر یہ شکوہ ہے تو کوئی انسان مومن نہیں رہ سکتا۔

پھر سوال یہ ہے کہ کیا ہر قسم کی رسوم اور ہواوہوس کی باتوں سے ہم نے پوری طرح بچنے کی کوشش کی ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ رسوم اور بدعات تمہیں گمراہی کی طرف لے جاتی ہیں ان سے بچو۔ (سنن الترمذی کتاب العلم باب ما جاء فی الاخذ بالسنۃ واجتناب البدع حدیث 2676)

پھر سوال یہ ہے کہ کیا قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات اور ارشادات کو ہم مکمل طور پر اختیار کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں؟

پھر یہ سوال ہے کہ کیا تکبر اور نخوت کو ہم نے مکمل طور پر چھوڑا ہے یا اس کے چھوڑنے کے لئے کوشش کی ہے کہ شرک کے بعد سب سے بڑی بلا تکبر اور نخوت ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ متکبر جنت میں داخل نہیں ہو گا اور تکبر یہ ہے کہ انسان حق کا انکار کرے۔ لوگوں کو ذلیل سمجھے۔ ان کو حقارت کی نظر سے دیکھے اور ان سے بری طرح پیش آئے۔ (صحیح مسلم کتاب الایمان باب تحریم الکبر وبیانہ حدیث 91)

پھر سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے خوش خُلقی کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے کی کوشش کی ہے؟ کیا ہم نے حلیمی اور مسکینی کو اپنانے کی کوشش کی ہے؟ مسکینوں کا مقام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں کتنا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کیا کرتے تھے کہ اے اللہ! مجھے مسکینی کی حالت میں زندہ رکھ۔ مجھے مسکینی کی حالت میں موت دے اور مجھے مسکینوں کے گروہ میں ہی اٹھانا۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الزھد باب مجالسۃ الفقراء حدیث 4126)

پھر سوال یہ ہے کہ کیا ہر دن ہمارے اندر دین میں بڑھنے اور اس کی عزت و عظمت قائم کرنے والا بنتا رہا ہے؟ دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا عہد جو ہم اکثر دہراتے ہیں صرف کھوکھلا عہد تو نہیں رہا۔

پھر سوال یہ ہے کہ کیا اسلام کی محبت میں ہم نے اس حد تک بڑھنے کی کوشش کی ہے کہ اپنے مال پر اس کو فوقیت دی۔ اپنی عزت پر اس کو فوقیت دی۔ اور اپنی اولاد سے زیادہ اسے عزیز اور پیارا سمجھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خدا نے مجھے دین اسلام دے کر بھیجا ہے اور اسلام یہ ہے کہ تم اپنی پوری ذات کو اللہ تعالیٰ کے حوالے کر دو۔ دوسرے معبودوں سے دستکش ہو جاؤ۔ نماز قائم کرو اور زکوۃ دو۔ (کنز العمال جلد1 صفحہ152 کتاب الایمان والاسلام من قسم الافعال، فی فصل الثانی، فی حقیقۃ الاسلام حدیث نمبر1378دار الکتب العلمیۃ بیروت 2004)

پھر ہم نے یہ سوال کرنا ہے کہ کیا ہم اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی ہمدردی میں آگے بڑھنے کی کوشش کرنے والے ہیں یا کرتے رہے ہیں؟

پھر یہ سوال ہے کہ اپنی تمام تر استعدادوں کے ساتھ مخلوق خدا کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کرتے رہے ہیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمام مخلوقات اللہ تعالیٰ کی عیال ہے۔ (المعجم الاوسط جزء4 صفحہ153 من اسمہ محمدحدیث نمبر5541 دار الفکر عمان 1999ء)۔ پس اللہ تعالیٰ کو اپنی مخلوقات میں سے وہ شخص بہت پسند ہے جو اس کے عیال کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے اور ان کی ضروریات کا خیال رکھتا ہے۔

پھر یہ سوال ہے کہ کیا یہ دعا کرتے رہے اور اپنے بچوں کو بھی نصیحت کرتے رہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اطاعت کے معیار ہمیشہ ہم میں قائم رہیں۔ ہم ہمیشہ آپ کی اطاعت کرتے رہیں۔ اعلیٰ معیاروں کے ساتھ اور اس میں بڑھتے بھی رہیں۔ پھر یہ سوال ہے کہ کیا ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تعلق اخوّت اور اطاعت اس حد تک بڑھایا ہے کہ باقی تمام دنیوی رشتے اس کے سامنے ہیچ ہو جائیں، معمولی سمجھے جانے لگیں۔ پھر یہ سوال ہے کہ کیا ہم خلافت احمدیہ سے وفا اور اطاعت کے تعلق میں قائم رہنے اور بڑھنے کی دعا سال کے دوران کرتے رہے؟ کیا اپنے بچوں کو خلافت احمدیہ سے وابستہ رہنے اور وفا کا تعلق رکھنے کی طرف توجہ دلاتے رہے اور اس کے لئے دعا کرتے رہے کہ ان میں یہ توجہ پیدا ہو؟

پھر سوال یہ ہے کہ کیا خلیفۂ وقت اور جماعت کے لئے باقاعدگی سے دعا کرتے رہے۔ ؟

اگر تو اکثر سوالوں کے مثبت جواب کے ساتھ یہ سال گزرا ہے تو کچھ کمزوریاں رہنے کے باوجود ہم نے بہت کچھ پایا۔ جتنے سوال مَیں نے اٹھائے ہیں اگر زیادہ جواب نفی میں ہے تو پھر قابل فکر حالت ہے۔ ہمیں اپنی حالتوں پر غور کرنا چاہئے اور اس کا مداوا اسی طرح ہو سکتا ہے کہ ان راتوں میں یہ دعا کریں۔ آج کی رات بھی ہے اور کل آخری رات ہے۔ اور مصمّم ارادہ کریں اور ایک عہد کریں اور خاص طور پر نئے سال کے آغاز میں یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہماری گزشتہ کوتاہیوں اور کمیوں کو معاف فرمائے اور نئے سال میں ہمیں زیادہ سے زیادہ پانے کی توفیق دے۔ ہم کھونے والے نہ ہوں اور ہم ان مومنین میں شامل ہوں جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اقتباس پیش کرتا ہوں جس میں آپ نے اپنی جماعت کو نصائح فرمائیں اور ایک اشتہار کی صورت میں اسے شائع فرمایا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ:

’’میری تمام جماعت جو اس جگہ حاضر ہے یا اپنے مقامات میں بُودوباش رکھتے ہیں اس وصیت کو توجّہ سے سنیں کہ وہ جو اس سلسلہ میں داخل ہو کر میرے ساتھ تعلق ارادت اور مریدی کا رکھتے ہیں اس سے غرض یہ ہے کہ تا وہ نیک چلنی اور نیک بختی اور تقویٰ کے اعلیٰ درجہ تک پہنچ جائیں اور کوئی فساد اور شرارت اور بدچلنی ان کے نزدیک نہ آ سکے۔ وہ پنجوقت نمازجماعت کے پابند ہوں۔ وہ جھوٹ نہ بولیں۔ وہ کسی کو زبان سے ایذا نہ دیں۔ وہ کسی قسم کی بدکاری کے مرتکب نہ ہوں اور کسی شرارت اور ظلم اور فساد اور فتنہ کا خیال بھی دل میں نہ لاویں۔ غرض ہر ایک قسم کے معاصی اور جرائم اور ناکردنی اور ناگفتنی اور تمام نفسانی جذبات اور بیجا حرکات سے مجتنب رہیں۔‘‘ (ہر قسم کے گناہوں سے اپنے آپ کو بچا کے رکھیں )۔ فرمایا کہ ’’اور بیجا حرکات سے مجتنب رہیں اور خدا تعالیٰ کے پاک دل اور بے شر اور غریب مزاج بندے ہو جائیں اور کوئی زہریلا خمیر ان کے وجود میں نہ رہے‘‘۔

فرماتے ہیں ’’…تمام انسانوں کی ہمدردی ان کا اصول ہو‘‘۔ (صرف مومن مومن کی ہمدردی نہ کرے بلکہ تمام انسانوں کی ہمدردی ان کا اصول ہو۔) ’’اور خدا تعالیٰ سے ڈریں اور اپنی زبانوں اور اپنے ہاتھوں اور اپنے دل کے خیالات کو ہر ایک ناپاک اور فساد انگیز طریقوں اور خیانتوں سے بچاویں۔ اور پنجوقتہ نماز کو نہایت التزام سے قائم رکھیں اور ظلم اور تعدّی اور غبن اور رشوت اور اِتلافِ حقوق اور بیجا طرفداری سے باز رہیں۔ اور کسی بدصحبت میں نہ بیٹھیں۔ اور اگر بعد میں ثابت ہو کہ ایک شخص جو اُن کے ساتھ آمد و رفت رکھتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے احکام کا پابندنہیں ہے … یا حقوق عباد کی کچھ پرواہ نہیں رکھتا اور یا ظالم طبع اور شریر مزاج اور بدچلن آدمی ہے اور یا یہ کہ جس شخص سے تمہیں تعلق بیعت اور ارادت ہے اس کی نسبت ناحق اور بے وجہ بدگوئی اور زبان درازی اور بدزبانی اور بہتان اور افتراء کی عادت جاری رکھ کر خدا تعالیٰ کے بندوں کو دھوکہ دینا چاہتا ہے تو تم پر لازم ہو گا کہ اس بدی کو اپنے درمیان سے دُور کرو اور ایسے انسان سے پرہیز کرو جو خطرناک ہے۔‘‘ (یعنی ہر وہ شخص جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف بولتا ہے اس کی صحبت میں بیٹھنے سے، اس سے دوستی رکھنے سے، اس سے تعلق رکھنے سے بچو کیونکہ یہ بہت خطرناک چیز ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تبلیغ نہیں کرنی۔ مطلب یہ ہے کہ غیروں کو تو کرنی ہے لیکن وہ لوگ جو منافق طبع ہوتے ہیں یا غلط قسم کی باتیں کرنے والے ہیں اور اس بات پر مُصر ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سوائے گالیوں کے علاوہ اور بات ہی نہیں کرنی یا جماعت کے خلاف بولنا ہے، ان سے بچو۔ جو سعید فطرت ہیں وہ بات سنتے بھی ہیں۔)

پھرآپ فرماتے ہیں کہ ’’اور چاہئے کہ کسی مذہب اور کسی قوم اور کسی گروہ کے آدمی کو نقصان رسانی کا ارادہ مت کرو۔ اور ہر ایک کے لئے سچے ناصح بنو۔ اور چاہئے کہ شریروں اور بدمعاشوں اور مفسدوں اور بدچلنوں کو ہرگز تمہاری مجلس میں گزر نہ ہو اور نہ تمہارے مکانوں میں رہ سکیں کہ وہ کسی وقت تمہاری ٹھوکر کا موجب ہوں گے۔‘‘ (اگر زیادہ قریب رہیں گے تو تمہیں بھی ٹھوکر لگے گی۔) فرمایا ’’یہ وہ امور اور وہ شرائط ہیں جو میں ابتدا سے کہتا چلا آیا ہوں۔ میری جماعت میں سے ہر ایک فرد پر لازم ہو گا کہ ان تمام وصیتوں کے کاربند ہوں۔ اور چاہئے کہ تمہاری مجلسوں میں کوئی ناپاکی اور ٹھٹھے اور ہنسی کا مشغلہ نہ ہو اور نیک دل اور پاک طبع اور پاک خیال ہو کر زمین پر چلو۔ اور یاد رکھو کہ ہر ایک شر مقابلہ کے لائق نہیں ہے۔ اس لئے لازم ہے کہ اکثر اوقات عفو اور درگذر کی عادت ڈالو۔‘‘ (ہر جگہ مقابلہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ معاف کرنے کی عادت ڈالو۔) ’’اور صبر اور حلم سے کام لو اور کسی پر ناجائز طریق سے حملہ نہ کرو اور جذبات نفس کو دبائے رکھو۔ اور اگر کوئی بحث کرو یا کوئی مذہبی گفتگو ہو تو نرم الفاظ اور مہذبانہ طریق سے کرو۔‘‘ (بحث کرنی ہے، مذہبی گفتگو کرنی ہے تو کرو لیکن مہذبانہ طریق پر) ’’اور اگر کوئی جہالت سے پیش آوے تو سلام کہہ کر ایسی مجلس سے جلد اٹھ جاؤ۔ اگر تم ستائے جاؤ اور گالیاں دئیے جاؤ اور تمہارے حق میں بُرے بُرے لفظ کہے جائیں تو ہوشیار رہو کہ سفاہت کا سفاہت کے ساتھ تمہارا مقابلہ نہ ہو ورنہ تم بھی ویسے ہی ٹھہرو گے جیسا کہ وہ ہیں۔ خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ تمہیں ایک ایسی جماعت بنا وے کہ تم تمام دنیا کے لئے نیکی اور راستبازی کا نمونہ ٹھہرو۔ سو اپنے درمیان سے ایسے شخص کو جلدنکالو جو بدی اور شرارت اور فتنہ انگیزی اور بدنفسی کا نمونہ ہے۔ جو شخص ہماری جماعت میں غربت اور نیکی اور پرہیزگاری اور حلم اور نرم زبانی اور نیک مزاجی اور نیک چلنی کے ساتھ نہیں رہ سکتا وہ جلد ہم سے جدا ہو جائے۔ کیونکہ ہمارا خدا نہیں چاہتا کہ ایسا شخص ہم میں رہے اور یقینا وہ بدبختی میں مرے گا کیونکہ اس نے نیک راہ کو اختیار نہ کیا۔ سو تم ہوشیار ہو جاؤ اور واقعی نیک دل اور غریب مزاج اور راستباز بن جاؤ۔ تم پنجوقتہ نماز اور اخلاقی حالت سے شناخت کئے جاؤ گے۔ اور جس میں بدی کا بیج ہے وہ اس نصیحت پر قائم نہیں رہ سکے گا‘‘۔ فرماتے ہیں کہ ’’چاہئے کہ تمہارے دل فریب سے پاک اور تمہارے ہاتھ ظلم سے بَری اور تمہاری آنکھیں ناپاکی سے منزّہ ہوں۔ اور تمہارے اندر بجز راستی اور ہمدردیٔ خلائق کے اَور کچھ نہ ہو‘‘۔ فرماتے ہیں: ’’میرے دوست جو میرے پاس قادیان میں رہتے ہیں مَیں امید رکھتا ہوں کہ وہ اپنے تمام انسانی قویٰ میں اعلیٰ نمونہ دکھائیں گے‘‘۔ فرماتے ہیں کہ ’’مَیں نہیں چاہتا کہ اس نیک جماعت میں کبھی کوئی ایسا آدمی مل کر رہے جس کے حالات مشتبہ ہوں یا جس کے چال چلن پر کسی قسم کا اعتراض ہو سکے یا اس کی طبیعت میں کسی قسم کی مفسدہ پردازی ہو یا کسی اَور قسم کی ناپاکی اس میں پائی جائے۔ لہٰذا ہم پر یہ واجب اور فرض ہو گا کہ اگر ہم کسی کی نسبت کوئی شکایت سنیں گے کہ وہ خدا تعالیٰ کے فرائض کو عمداً ضائع کرتا ہے‘‘ (جان بوجھ کر ضائع کرتا ہے) ’’یا کسی ٹھٹھے اور بیہودگی کی مجلس میں بیٹھا ہے‘‘ (مخالفین کی ایسی مجلسوں میں بیٹھتا ہے جہاں ٹھٹھا اور بیہودگی ہو رہی ہے یا ویسے ایسی مجالس ہیں جو گندی مجالس ہیں ) ’’یا کسی اَور قسم کی بدچلنی اس میں ہے تو وہ فی الفور اپنی جماعت سے الگ کر دیا جائے گا‘‘۔

پھر آپؑ فرماتے ہیں: ’’اصل بات یہ ہے کہ ایک کھیت جو محنت سے طیار کیا جاتا اور پکایا جاتا ہے اس کے ساتھ خراب بُوٹیاں بھی پیدا ہو جاتی ہیں جو کاٹنے اور جلانے کے لائق ہوتی ہیں۔ ایسا ہی قانون قدرت چلا آیا ہے جس سے ہماری جماعت باہر نہیں ہو سکتی۔ اور مَیں جانتا ہوں کہ وہ لوگ جو حقیقی طور پر میری جماعت میں داخل ہیں ان کے دل خدا تعالیٰ نے ایسے رکھے ہیں کہ وہ طبعاً بدی سے متنفّر اور نیکی سے پیار کرتے ہیں اور مَیں امید رکھتا ہوں کہ وہ اپنی زندگی کا بہت اچھا نمونہ لوگوں کے لئے ظاہر کریں گے۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلد3 صفحہ46-49۔ اشتہار مورخہ29 مئی 1898ء اپنی جماعت کو متنبہ کرنے کے لئے ایک ضروری اشتہار)

اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس نصیحت اور اس انتباہ کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی زندگیاں گزارنے والے ہوں۔ جو عہدِ بیعت ہم نے کیا ہے اسے پورا کرنے والے ہوں۔ ہماری زندگیاں اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے گزرنے والی ہوں۔ ہم اپنی زندگیوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خواہش کے مطابق ڈھالتے ہوئے اپنی زندگی کا اچھا نمونہ لوگوں کے سامنے پیش کرنے والے اور ظاہر کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہماری کوتاہیوں سے پردہ پوشی فرماتے ہوئے ہمیں انعامات سے نوازے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کے لئے جو کامیابیاں مقدر ہیں وہ ہمیں دکھائے۔ نیا چڑھنے والا سال برکتوں کو لے کر آئے اور دشمن کے منصوبے ناکام و نامراد ہوں جن کی منصوبہ بندی میں یہ جماعت کی مخالفت میں بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ پاکستان کے احمدی جو اس سال قادیان کے جلسے پر نہیں جا سکے اور اس سے ان کو بڑا افسوس بھی ہے، اللہ تعالیٰ ان کی تشنگی کو ختم کرنے کے بھی سامان پیدا فرمائے۔

الجزائر کے احمدیوں کی مشکلات بھی دور فرمائے۔ ان میں سے بھی بعضوں پر غلط مقدمے ہیں اور جیلوں میں اس وقت اَسیر بنے ہوئے ہیں۔ جیلوں میں ان کو رکھا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی بھی رہائی کے سامان پیدا فرمائے۔

دشمن جب زیادتیوں اور ظالمانہ حرکتوں میں بڑھ رہا ہے تو ہمیں بھی اپنی حالتوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق ڈھالتے ہوئے دعاؤں پر زیادہ زور دینے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • پاؤر پوائنٹ PowerPoint
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 30؍ دسمبر 2016ء شہ سرخیاں

    نئے سال کے آغاز پر جو یکم جنوری سے شروع ہوتا ہے دنیا والے کیا کچھ نہیں کرتے۔ مغربی ممالک میں یا ترقی یافتہ ممالک میں خاص طور پر اور باقی دنیا میں بھی 31؍دسمبر اور یکم جنوری کی درمیانی رات کو کیا کچھ شوروغل نہیں ہوتا۔ آدھی رات تک خاص طور پر جاگا جاتا ہے بلکہ ساری ساری رات صرف شور شرابے کے لئے، شراب کباب کے لئے، ناچ گانے کے لئے جاگتے ہیں۔ گویا گزشتہ سال کا اختتام بھی لغویات اور بیہودگیوں کے ساتھ ہوتا ہے اور نئے سال کا آغاز بھی لغویات کے ساتھ ہوتا ہے۔ دنیا کی اکثریت کی دین کی آنکھ تو اندھی ہو چکی ہے اس لئے ان کی نظر تو وہاں تک پہنچ نہیں سکتی جہاں مومن کی نظر پہنچتی ہے اور پہنچنی چاہئے۔ ایک مومن کی شان تو یہ ہے کہ نہ صرف ان لغویات سے بچے اور بیزاری کا اظہار کرے بلکہ اپنا جائزہ لے اور غور کرے کہ اس کی زندگی میں ایک سال آیا اور گزر گیا۔ اس میں وہ ہمیں کیا دے کر گیا اور کیا لے کر گیا۔ ہم نے اس سال میں کیا کھویا اور کیا پایا۔ ایک مومن نے دنیاوی لحاظ سے دیکھنا ہے کہ اس سال میں اس نے کیا کھویا اور کیا پایا۔ اس کی دنیاوی حالت میں کیا بہتری پیدا ہوئی یا دینی لحاظ سے اور روحانی لحاظ سے دیکھنا ہے کہ کیا کھویا اور کیا پایا اور اگر دینی اور روحانی لحاظ سے دیکھنا ہے تو کس معیار پر رکھ کر دیکھنا ہے تا کہ پتا چلے کہ کیا کھویا اور کیا پایا۔

    ہم احمدی خوش قسمت ہیں کہ جنہیں اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود اور مہدی معہود کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی جنہوں نے ہمارے سامنے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی تعلیم کا نچوڑ یا خلاصہ نکال کر رکھ دیا اور ہمیں کہا کہ تم اس معیار کو سامنے رکھو تو تمہیں پتا چلے گا کہ تم نے اپنی زندگی کے مقصد کو پورا کیا ہے یا پورا کرنے کی کوشش کی ہے یا نہیں؟ اس معیار کو سامنے رکھو گے تو صحیح مومن بن سکتے ہو۔ یہ شرائط ہیں ان پہ چلو گے تو صحیح طور پر اپنے ایمان کو پرکھ سکتے ہو۔

    ہم سال کی آخری رات اور نئے سال کا آغاز اگر جائزے اور دعا سے کریں گے تو اپنی عاقبت سنوارنے والے ہوں گے۔ اور اگر ہم بھی ظاہری مبارکبادوں اور دنیاداری کی باتوں سے نئے سال کا آغاز کریں گے تو ہم نے کھویا تو بہت کچھ اور پایا کچھ نہیں یا بہت تھوڑا پایا۔ اگر کمزوریاں رہ گئی ہیں اور ہمارا جائزہ ہمیں تسلی نہیں دلا رہا تو ہمیں یہ دعا کرنی چاہئے کہ ہمارا آنے والا سال گزشتہ سال کی طرح روحانی کمزوری دکھانے والا سال نہ ہو۔ بلکہ ہمارا ہر قدم اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اٹھنے والا قدم ہو۔ ہمارا ہر دن اُسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر چلنے والا دن ہو۔ ہمارے دن اور رات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے عہد بیعت نبھانے کی طرف لے جانے والے ہوں۔ قرآن مجید، احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے ارشادات کے حوالہ سے ان اعلیٰ معیاروں کا تذکرہ جن پر ہمیں اپنے آپ کو پرکھنا چاہئے اور جائزہ لینا چاہئے کہ کیا ہم ان پر پورا اتر رہے ہیں یا نہیں؟

    اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس نصیحت اور اس انتباہ کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی زندگیاں گزارنے والے ہوں۔ جو عہد بیعت ہم نے کیا ہے اسے پورا کرنے والے ہوں۔ ہماری زندگیاں اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے گزرنے والی ہوں۔ ہم اپنی زندگیوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خواہش کے مطابق ڈھالتے ہوئے اپنی زندگی کا اچھا نمونہ لوگوں کے سامنے پیش کرنے والے اور ظاہر کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہماری کوتاہیوں سے پردہ پوشی فرماتے ہوئے ہمیں انعامات سے نوازے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کے لئے جو کامیابیاں مقدر ہیں وہ ہمیں دکھائے۔ نیا چڑھنے والا سال برکتوں کو لے کر آئے اور دشمن کے منصوبے ناکام و نامراد ہوں جن کی منصوبہ بندی میں یہ جماعت کی مخالفت میں بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ پاکستان کے احمدی جو اس سال قادیان کے جلسے پر نہیں جا سکے اور اس سے ان کو بڑا افسوس بھی ہے اللہ تعالیٰ ان کی تشنگی کو ختم کرنے کے بھی سامان پیدا فرمائے۔ الجزائر کے احمدیوں کی مشکلات بھی دور فرمائے۔

    دشمن جب زیادتیوں اور ظالمانہ حرکتوں میں بڑھ رہا ہے تو ہمیں بھی اپنی حالتوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق ڈھالتے ہوئے دعاؤں پر زیادہ زور دینے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔

    فرمودہ مورخہ 30؍دسمبر 2016ء بمطابق 30؍فتح 1395 ہجری شمسی، بمقام مسجدبیت الفتوح، مورڈن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور