نمازوں سے متعلق بعض مسائل اور اداب

خطبہ جمعہ 27؍ جنوری 2017ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

گزشتہ خطبہ میں میں نے نمازوں کی اہمیت اور ان کی ادائیگی کی طرف توجہ دلائی تھی۔ کئی لوگوں کے مجھے ذاتی خط اس طرف توجہ دینے کے لئے آئے اور اپنی سستیوں پر شرمندگی کا اظہار کیا۔ کئی جگہ سے جماعتی نظام اور ذیلی تنظیموں سے خط آئے کہ واقعی اس معاملے میں سستی ہے۔ آئندہ سے اس طرف توجہ کا مضبوط پروگرام بنا رہے ہیں اور یہ بھی کہ انشاء اللہ آئندہ بھرپور کوشش کریں گے کہ سستیاں دور ہوں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو اس کی توفیق دے اور ہماری مساجد حقیقت میں آبادی کے بھرپور نظارے پیش کرنے والی ہوں۔ لیکن انتظامیہ کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہر کام کے اعلیٰ نتائج پیدا کرنے کے لئے مستقل مزاجی شرط ہے۔ شروع میں تو ہم میں سے بہت سے ایسے ہیں جو بڑے جوش سے کام شروع کرتے ہیں لیکن پھر کچھ عرصے بعد سستی پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے۔ یہ انسانی فطرت بھی ہے۔ افراد میں سستی پیدا ہونی اتنے خطرناک نتائج پیدا نہیں کرتی گو کہ یہ بھی بہت قابل فکر بات ہے لیکن نظام میں سستی پیدا ہونا تو انتہائی خطرناک ہے۔ اگر افراد کو توجہ دلانے والا نظام ہی سست ہو جائے یا اپنے کام میں عدم دلچسپی کا اظہار کرنے لگ جائے تو پھر افراد کی اصلاح بھی مشکل ہو جاتی ہے، اور ایک فطری تقاضے کے تحت اُن میں جو سستی پیدا ہوتی ہے اس کی اصلاح ہونا مشکل ہو جاتا ہے۔

پس ذیلی تنظیمیں بھی اور جماعتی نظام بھی اپنے کام اور خاص طور پر وہ کام جس کو اللہ تعالیٰ نے ہمارا مقصد پیدائش قرار دیا ہے اس میں ایسی منصوبہ بندی کریں اور ایسا پروگرام بنائیں کہ وقت کے ساتھ سستی اور کمزوری کی بجائے ہر دن ترقی کی طرف لے جانے والا ہو۔ ہماری عبادتوں کی ترقی ہی ہمیں کامیابیاں دلانے والی ہے۔ پس یہ بہت اہم چیز ہے۔ تمام نظام کو اس بارے میں بہت سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے۔ لجنہ اماء اللہ کو بھی اس بارے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔

بچوں کی نمازوں کی گھروں میں نگرانی کرنا اور انہیں نمازوں کی عادت ڈالنا اور مردوں اور نوجوانوں کو مسجدوں میں جانے کے لئے مسلسل توجہ دلاتے رہنا یہ عورتوں کا کام ہے۔ اگر عورتیں اپنا کردار ادا کریں تو یہ غیر معمولی تبدیلی پیدا ہو سکتی ہے۔

اسی طرح میں یہاں ایسے لوگوں کی درستی کرنا چاہتا ہوں جو یہ کہتے ہیں کہ نہ ہمیں نمازوں کے متعلق کہو، نہ پوچھو کیونکہ یہ ہمارا اور خدا کا معاملہ ہے۔ کئی عورتوں کی شکایت آتی ہے کہ اگر ہم اپنے خاوندوں کو توجہ دلائیں تو وہ لڑنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو میں کہتا ہوں کہ یہ بیشک بندے اور خدا کا معاملہ ہے لیکن توجہ دلانا اور پوچھنا نظام جماعت کا کام ہے۔ اسی طرح بیویوں کا بھی کام ہے بلکہ فرض ہے۔ اگر صرف اتنا ہی ہوتا کہ مرضی ہوتی یا مرضی ہوئی تو پڑھ لوں گا، نہ ہوئی تو نہیں۔ یا فجر کی نماز پر ہم گہری نیند سوتے ہیں اور دن بھر کے تھکے ہوئے ہوتے ہیں اس لئے رات کو گہری نیند آتی ہے اس لئے ہمیں جگانا نہیں۔ اگر یہ مرضی پر ہوتا تو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بیوی اور خاوند کو یہ ارشادنہ فرماتے کہ جو نماز کے لئے پہلے جاگے وہ دوسرے کو نماز کے لئے جگائے اور اگر نہ جاگے یا سستی دکھائے تو پانی کے چھینٹے مارے۔ بعض جگہ تو آپ نے بہت زیادہ سخت تنبیہ فرمائی ہے۔ گزشتہ جمعہ میں بعض احادیث مَیں نے پیش بھی کی تھیں۔ پس یہ سوچ غلط ہے کہ ہم ایسے معاملے میں آزاد ہیں۔ ہمارا اور خدا کا معاملہ ہے۔ جس نظام سے اپنے آپ کو منسلک کر رہے ہیں اگر وہ اپنی جماعت کا جائزہ لینے کے لئے نمازوں کی ادائیگی کے بارے میں استفسار کرتا ہے تو بجائے چِڑنے اور غصہ میں آنے کے تعاون کرنا چاہئے۔ ہاں اگر انسان خودنمازیں پڑھ کر پھر دنیا کو بتانے والا ہو اور بتاتا پھرے اور بڑے فخر سے بتائے کہ میں نمازیں باجماعت پڑھتا ہوں تو پھر یہ برائی ہے اور غلط ہے۔ بہرحال ہر ایک پر نمازوں کی اہمیت واضح ہونی چاہئے اور اس کے لئے اسے بڑے اہتمام سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

اس توجہ کے بعد اب مَیں نمازوں سے متعلق بعض باتیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشادات کے حوالے سے پیش کروں گا جو عموماً فقہی مسائل سے تعلق رکھتی ہیں یا جن کے متعلق ایک احمدی کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے توجہ دلائی کہ اس کو ان پر عمل کرنا چاہئے۔ عموماً لوگ اس بارے میں استفسار بھی کرتے رہتے ہیں۔ اس لئے یہ ضروری بھی ہے۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ مسلمہ میں مسلمانوں کے مختلف فرقوں سے لوگ آ کر شامل ہوتے ہیں۔ بعض باتیں جو وہ پہلے کرتے تھے جماعت احمدیہ کا اس پر تعامل نہیں ہوتا کیونکہ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو باتیں بتائی ہیں اور ہم نے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو حَکم اور عدل مانا ہے تو جو آپ نے فرمایا ہم نے اس کے مطابق کرنا ہے جبکہ وہ بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ سے بھی ثابت ہوتی ہو۔ انہی باتوں میں ایک بات رفع یدین کی ہے۔ یعنی نماز کی ہر تکبیر پر تکبیر اور ہر حرکت پر ہاتھ اٹھانا، اوپر کانوں سے لگانا اور انہی چھوٹی چھوٹی باتوں نے مسلمانوں میں فرقہ در فرقہ بندی پیدا کی ہے اور یہی نہیں بلکہ لڑائیوں تک نوبت آئی ہے۔ کفر کے فتوے ایک دوسرے پر دیتے رہتے ہیں۔ اگر کوئی دوسرے فرقے کے آدمی کا جنازہ پڑھ لے تو مولوی کہتے ہیں نکاح ٹوٹ گیا۔ اور یہ صرف پرانی بات نہیں ہے بلکہ آجکل بھی یہی باتیں ہو رہی ہیں۔ گزشتہ دنوں ہندوستان کی ایک خبر تھی کہ ایک فرقے کے لوگوں نے دوسرے فرقے کے امام کے پیچھے کسی کا جنازہ پڑھ لیا تو فتویٰ آ گیا کہ نکاح ٹوٹ گیا اور پھر سارا گاؤں یا قصبہ جمع ہو کر اس مولوی کے پاس گیا اور ایک لائن لگی ہوئی ہے۔ نئے سرے سے سب کے نکاح ہو رہے ہیں۔ تو مذہب کو انہوں نے مذاق بنا لیا یا فتنہ کا ذریعہ بنالیا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام جو سب جھگڑوں کو ختم کرنے آئے تھے اس لئے آپ نے فرمایا کہ میں حَکَم اور عَدل ہوں مجھے مانو اور اس کے حل بھی پیش فرمائے۔ جو معمولی فرق تھے کہ اگر کوئی اِس طرح بھی کر لے یا اُس طرح بھی کر لے تو ان کو آپ نے جائز بھی قرار دیا۔ چنانچہ رفع یدین کے بارے میں آپ نے فرمایا کہ:

’’اس میں چنداں حرج نہیں معلوم ہوتا‘‘ (کوئی حرج نہیں ) ’’خواہ کوئی کرے یا نہ کرے۔ احادیث میں بھی اس کا ذکر دونوں طرح پر ہے۔ اور وہابیوں اور سنّیوں کے طریق عمل سے بھی یہی نتیجہ نکلتا ہے۔ کیونکہ ایک تو رفع یدین کرتے ہیں اور ایک نہیں کرتے۔ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی وقت رفع یدین کیا اور بعد ازاں ترک کر دیا۔‘‘ (البدر 3 اپریل 1903ء جلد 2 نمبر 11 صفحہ 85)۔ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تعامل نہیں رہا۔ لیکن اگر ایک وقت میں کیا اور اس کو بعض لوگ مانتے ہیں تو ٹھیک ہے۔ اس میں لڑنے کی ضرورت کوئی نہیں۔ لیکن آپ نے اسی تعامل کو جاری رکھا جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زیادہ عمل کیا۔

اس بارے میں ایک روایت یہ بھی ملتی ہے۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ حافظ نور محمد صاحب ساکن فیض اللہ چک نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے مسئلہ دریافت کیا کہ حضور فاتحہ خلف الامام اور رفع یدین اور آمین کے متعلق کیا حکم ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ یہ طریق حدیثوں سے ثابت ہے اور ضرور کرنا چاہئے۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب اس پر فرماتے ہیں کہ خاکسار عرض کرتا ہے کہ فاتحہ خلف امام والی بات تو حضرت صاحب سے متواتر ثابت ہے۔ یعنی نماز باجماعت ہو رہی ہو تو امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنا مگر رفع یدین اور آمین بالجہر والی بات کے متعلق مَیں نہیں سمجھتا کہ حضرت صاحب نے ایسافرمایا ہو۔ کیونکہ حضور اسے ضروری سمجھتے تو لازم تھا کہ خود بھی اس پر ہمیشہ عمل کرتے مگر حضور کا دوامی عمل ثابت نہیں۔ (یعنی باقاعدگی سے آپ نے اس پر عمل نہیں کیا) بلکہ حضور کا عام عمل بھی اس کے خلاف تھا۔ آپ لکھتے ہیں کہ مَیں سمجھتا ہوں کہ جب حافظ صاحب نے حضور سے سوال کیا تو چونکہ سوال میں کئی باتیں تھیں حضور نے جواب میں صرف پہلی بات کو مدّنظر رکھ کر جواب دیا۔ یعنی حضور کے جواب میں صرف فاتحہ خلف امام ہے واللہ اعلم۔ (سیرت المہدی جلد اول حصہ سوم صفحہ 564 روایت نمبر 592)

اس کی تصدیق پھر آگے ایک اور روایت سے بھی ہوتی ہے کہ سورۃ فاتحہ پڑھنا تو ٹھیک ہے لیکن باقی نہیں۔ صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ہی لکھتے ہیں کہ مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے بیان کیا کہ اوائل میں میں سخت غیر مقلّد تھا اور رفع یدین اور آمین بالجہر کا بہت پابند تھا۔ (یعنی اونچی آواز میں آمین کہنا۔) اور حضرت صاحب کی ملاقات کے بعد بھی میں نے یہ طریق مدت تک جاری رکھا۔ عرصہ کے بعد ایک دفعہ جب میں نے آپ کے پیچھے نماز پڑھی (حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیچھے نماز پڑھی) تو نماز کے بعد آپ نے مجھ سے مسکرا کر فرمایا کہ میاں عبداللہ اب تو اس سنّت پر بہت عمل ہو چکا ہے اور اشارہ رفع یدین کی طرف تھا۔ (یعنی ہر تکبیر پر ہاتھ اٹھانا۔) میاں عبداللہ صاحب کہتے ہیں کہ اس دن سے مَیں نے رفع یدین کرنا ترک کر دیا بلکہ آمین بالجہر کہنا بھی چھوڑ دیا اور میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت صاحب کو کبھی رفع یدین کرتے یا آمین بالجہر کہتے نہیں سنا اور نہ کبھی بسم اللہ بالجہر پڑھتے سنا۔ (مرزا بشیر احمد صاحب فرماتے ہیں کہ) خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا طریق عمل وہی تھا جو میاں عبداللہ صاحب نے بیان کیا لیکن ہم احمدیوں میں حضرت صاحب کے زمانے میں بھی(حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں بھی) اور آپ کے بعد بھی یہ طریق عمل رہا ہے(آج تک بھی یہ ہے) کہ ان باتوں میں کوئی ایک دوسرے پر گرفت نہیں کرتا۔ بعض آمین بالجہر کرتے ہیں۔ (اونچی آواز میں کہہ دیتے ہیں۔) بعض نہیں کہتے۔ بعض رفع یدین کرتے ہیں۔ اکثر نہیں کرتے۔ (اور اب تو بالکل نہیں کیا جاتا سوائے بعض کے جو بالکل نئے آنے والے ہیں اور اس کے عادی ہیں وہ بھی آہستہ آہستہ چھوڑ دیتے ہیں )۔ پھر آپ فرماتے ہیں کہ بعض بسم اللہ بالجہر پڑھتے ہیں اکثر نہیں پڑھتے۔ اور حضرت صاحب فرماتے تھے کہ دراصل یہ تمام طریق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں مگر جس طریق پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کثرت سے عمل کیا وہ وہی طریق ہے جس پر حضرت صاحب کا عمل تھا۔ (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عمل تھا۔) (سیرۃ المہدی جلد اول حصہ اول صفحہ 147-148 روایت نمبر 154)

پھر ایک سوال ہوتا ہے کہ نماز میں انسان قیام میں ہاتھ باندھ کر جب کھڑا ہوتا ہے تو اُس وقت ہاتھ کہاں باندھے جائیں؟ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب لکھتے ہیں کہ مجھ سے مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب نے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت خلیفہ اوّل کے پاس کسی کا خط آیا (کیونکہ بعض لوگ ناف سے نیچے ہاتھ باندھتے ہیں، بعض درمیان میں رکھتے ہیں، بعض بہت زیادہ اوپر رکھتے ہیں تو اس بارے میں حضرت خلیفہ اول کے پاس ایک خط آیا کہ جب انسان نماز کے لئے نیت باندھ کے کھڑا ہو تو اس وقت ہاتھ کس طرح باندھنے ہیں۔ خط آیا) کہ کیا نماز میں ناف سے اوپر ہاتھ باندھنے کے بارے میں کوئی صحیح حدیث بھی ملتی ہے؟ حضرت مولوی صاحب نے یہ خط حضرت صاحب کے سامنے (حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے) پیش کیا اور عرض کیا کہ اس بارہ میں جو حدیثیں ملتی ہیں وہ جرح سے خالی نہیں۔ (ان پر بحث ہوئی ہوئی ہے۔ کوئی ان کو صحیح کہتا ہے کوئی غلط کہتا ہے۔) حضرت صاحب نے فرمایا کہ مولوی صاحب آپ تلاش کریں۔ ضرور مل جائے گی۔ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرما رہے ہیں کہ) کیونکہ باوجود اس کے کہ شروع عمر میں بھی ہمارے ارد گرد سب حنفی تھے مجھے ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا کبھی پسندنہیں ہوا۔ (اپنے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ مجھے کبھی پسندنہیں ہوا کہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوں ) بلکہ ہمیشہ طبیعت کا میلان ناف سے اوپر ہاتھ باندھنے کی طرف رہا ہے۔ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ) اور ہم نے بارہا تجربہ کیا ہے کہ جس بات کی طرف ہماری طبیعت کا میلان ہو وہ تلاش کرنے سے ضرور حدیث میں نکل آتی ہے۔ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ) خواہ ہم کو پہلے اس کا علم نہ ہو۔ پس (آپ نے حضرت خلیفہ اول کو فرمایا کہ) آپ تلاش کریں ضرور مل جائے گی۔ (کیونکہ میرا میلان جس طرف ہے عموماً میں نے دیکھا ہے کہ حدیثیں اس بارے میں مل جاتی ہیں۔) مولوی سرور شاہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ اس پر حضرت مولوی صاحب گئے اور کوئی آدھا گھنٹہ بھی نہ گزرا تھا کہ خوش خوش ایک کتاب ہاتھ میں لئے آئے اور حضرت صاحب کو اطلاع دی کہ حضور حدیث مل گئی ہے اور حدیث بھی ایسی ہے کہ جو علی شرط الشیخین ہے (یعنی اس پہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر دونوں کا صاد ہے اور یہ امام بخاری اور مسلم کی شرط پہ ہے) جس پر کوئی جرح نہیں ہے۔ (اس پہ کوئی بحث نہیں ہے۔) پھر کہا کہ یہ حضور ہی کے ارشاد کی برکت ہے۔ (یعنی یہی حدیث ملی کہ ناف سے اوپر ہاتھ باندھنے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تعامل زیادہ تھا۔) (سیرت المہدی جلد اول حصہ اول صفحہ 92 روایت نمبر 115)

حضرت حاجی غلام احمد صاحب روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے دریافت کیا کہ نماز میں ہاتھ کس جگہ باندھیں؟ (بعض لوگ باریکیوں میں پڑ جاتے ہیں اور اسی چیز کو لے بیٹھتے ہیں۔ ایک جگہ تو آپ نے یہ بحث فرمائی، یہ ہدایت فرمائی کہ تلاش کریں ضرور مل جائے گی کیونکہ میرا رجحان ناف سے اوپر ہاتھ باندھنے میں ہے۔ دوسری جگہ ایک اور شخص نے آ کر سوال کیا اور وہاں اصلاح مطلوب تھی تو اس کو آپ نے جواب دیا کہ) ’’ظاہری آداب بھی ضروری ہیں۔‘‘ (ٹھیک ہے نماز کے ظاہری آداب ہیں وہ ضروری ہیں ) آپ نے فرمایا کہ ’’مگر زیادہ توجہ اللہ تعالیٰ کی طرف نماز میں رکھنی چاہئے‘‘۔ (اصحابِ احمد جلد 10 صفحہ 246۔ نیاایڈیشن بحوالہ فقہ المسیح صفحہ 77)۔ یہ چیزیں بھی ٹھیک ہیں لیکن اپنی توجہ کو بھی اللہ تعالیٰ کی طرف رکھو جو بنیادی مقصد ہے۔

پھرایک دفعہ تشہد میں انگلی اٹھانے کے متعلق سوال ہوا۔ ایک شخص نے سوال کیا کہ التحیات کے وقت نماز میں انگشت سبابہ کیوں اٹھاتے ہیں؟ (یعنی شہادت کی انگلی)۔ تو آپ نے فرمایا کہ لوگ زمانہ جاہلیت میں گالیوں کے واسطے یہ انگلی اٹھایا کرتے تھے۔ (گالی دینی ہوتی تھی تو یہ انگلی اٹھاتے تھے) اس لئے اس کو سبابہ کہتے ہیں یعنی گالی دینے والی (انگلی)۔ خدا تعالیٰ نے عرب کی اصلاح فرمائی اور وہ عادت ہٹا کر فرمایا کہ خدا کو واحد لاشریک کہتے وقت یہ انگلی اٹھایا کرو تا کہ اس سے وہ الزام اٹھ جائے۔ یعنی اس کا نام جو غلط رکھا ہے گالیاں دینے والی انگلی یہ گالیاں دینے والی انگلی نہ رہے بلکہ شہادت کی انگلی ہو جاوے۔ (آپ فرماتے ہیں کہ) ایسے ہی عرب کے لوگ پانچ وقت شراب پیتے تھے۔ اس کے عوض میں پانچ وقت نماز رکھی۔ (البدر 20 فروری 1903ء صفحہ 66 جلد 2 نمبر 9)

پھر رکوع و سجود میں قرآنی دعا کرنے کے بارے میں سوال ہوا۔ مولوی عبدالقادر صاحب لدھیانوی نے سوال کیاکہ رکوع و سجود میں قرآنی آیات یا دعا کا پڑھنا کیسا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ’’سجدہ اور رکوع فروتنی کا وقت ہے (عاجزی کا وقت ہے) اور خدا تعالیٰ کا کلام عظمت چاہتا ہے۔ ماسوا اس کے حدیثوں سے کہیں ثابت نہیں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی رکوع یا سجود میں کوئی قرآنی دعا پڑھی ہو۔ (الحکم 24 اپریل 1903ء صفحہ 11 جلد 7 نمبر18)

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب اس بارے میں فرماتے ہیں کہ میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور سیدنا مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ دعا نماز میں بہت کرنی چاہئے۔ نیز فرمایا اپنی زبان میں دعا کرنی چاہئے۔ لیکن جو کچھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اس کو انہیں الفاظ میں پڑھنا چاہئے۔ مثلاً رکوع میں سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم اور سجدہ میں سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلیٰ۔ وغیرہ پڑھ کر اور اس کے بعد بیشک اپنی زبان میں دعا کی جائے۔ نیز فرمایا کہ رکوع اور سجدہ کی حالت میں قرآنی دعا نہ کی جائے کیونکہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا پاک کلام ہے اور اعلیٰ شان رکھتا ہے اور رکوع اور سجدہ تذلّل کی حالت ہے۔ اس لئے کلام الٰہی کا احترام کرنا چاہئے۔ (سیرت المہدی جلد 2 حصہ چہارم صفحہ 166-167 روایت نمبر 1243)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی سے کسی نے ایک دفعہ سوال کیا کہ سجدے میں قرآنی دعاؤں کا پڑھنا کیوں ناجائز ہے جبکہ سجدہ انتہائی تذلّل کا مقام ہے؟ (یعنی عاجزی کا مقام ہے۔ انتہائی تذلّل کا مقام ہے تو اس میں تو پڑھنی چاہئیں تا کہ قبول ہوں۔) تو آپ نے جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ میرا تو یہی عقیدہ رہا ہے کہ سجدے میں قرآنی دعاؤں کا پڑھنا جائز ہے۔ لیکن بعد میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک ایسا حوالہ ملا جس میں آپ نے سجدے کی حالت میں قرآنی دعاؤں کا پڑھنا ناجائز قرار دیا ہے۔ اسی طرح مسند احمد بن حنبل میں بھی اسی مضمون کی ایک حدیث مل گئی۔ آپ فرماتے ہیں لیکن اگر میرے عقیدے کے خلاف یہ امور نہ ملتے تب بھی یہ دلیل‘‘ (اس نے جو دلیل دے کے تذلّل کی حالت کا سوال پوچھا ہے) ’’مَیں معقول قرار نہ دیتا کہ سجدہ جب انتہائی تذلل کا مقام ہے تو قرآنی دعاؤں کا سجدے کی حالت میں پڑھنا جائز ہونا چاہئے۔ (یہ کوئی دلیل نہیں ہے۔ پھر آپ کہتے ہیں۔ مزید وضاحت فرمائی ہے کہ یہ) امام مالک کا عقیدہ تھا کہ سمندر کی (پانی کی) ہر چیز حلال ہے۔ ایک دفعہ ایک شخص ان کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ سمندر میں سؤر بھی ہوتا ہے۔ کیا اس کا کھانا بھی جائز ہے۔ تو امام مالک نے فرمایا کہ سمندر کی ہر چیز کھانی جائز ہے مگر سؤر حرام ہے۔ اس نے بار بار یہی سوال کیا مگر آپ نے فرمایا اس سوال کا یہی جواب دے سکتا ہوں کہ سمندر کی ہر چیز حلال ہے مگر سؤر حرام ہے۔ حضرت خلیفہ ثانی فرماتے ہیں کہ یہی جواب مَیں دیتا ہوں کہ سجدہ بیشک تذلّل کا مقام ہے مگر قرآن کریم کی چیزیں، اس کی دعائیں سجدے کی حالت میں نہیں پڑھنی چاہئیں۔ دعا انسان کو نیچے کی طرف لے جاتی ہے اور قرآن انسان کو اوپر کی طرف لے جاتا ہے۔ اس لئے قرآنی دعاؤں کا سجدے کی حالت میں مانگنا ناجائز ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ایک بات مل گئی تو پھر اس کے خلاف طریق اختیار کرنا درست نہیں گو وہ ہماری عقل میں نہ ہی آئے۔ (الفضل 16 اپریل 1944ء صفحہ 1-2 جلد 32 نمبر 88)۔ ہم نے تو اس کے مطابق عمل کرنا ہے جو حکم ہے۔

رکوع میں بعض لوگ شامل ہوتے ہیں۔ سوال پوچھتے ہیں کہ رکعت ہو جاتی ہے؟ عموماً تو ہر ایک کو پتا ہے، بچپن سے ہی بتایا جاتا ہے یعنی کوئی لیٹ آیا ہے۔ رکوع میں شامل ہو گیا تو اس کی رکعت ہو گئی۔ ’’اس بات کا ذکر آیا کہ جو شخص جماعت کے اندر رکوع میں آ کر شامل ہو اس کی رکعت ہوتی ہے یا نہیں۔ (حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے جو دوسرے علماء بیٹھے تھے ان سے دوسرے مولویوں کی رائے دریافت کی۔ مختلف اسلامی فرقوں کے مذاہب نے اس امر کے متعلق کیا بیان کیا ہے وہ پتا کیا۔) آخر حضرت صاحب نے فیصلہ دیا اور فرمایا کہ ہمارا مذہب تو یہی ہے کہ لَا صَلوٰۃَ اِلَّا بِفَاتِحَۃِ الْکِتَاب۔ کہ آدمی امام کے پیچھے ہو یا منفرد ہو، ہرحالت میں اس کو چاہئے کہ سورۃ فاتحہ پڑھے مگر ٹھہر ٹھہر کر پڑھے تا کہ مقتدی سن بھی لے اور اپنا پڑھ بھی لے۔ یا (امام کے بارے میں ہدایت کر رہے ہیں کہ) ہر آیت کے بعد امام اتنا ٹھہر جائے کہ مقتدی بھی اس آیت کو پڑھ لے۔ بہرحال مقتدی کو یہ موقع دینا چاہئے کہ وہ سن بھی لے اور اپنا پڑھ بھی لے۔ سورۃ فاتحہ کا پڑھنا ضروری ہے کیونکہ وہ اُمّ الکتاب ہے۔ لیکن جو شخص باوجود اپنی کوشش کے جو وہ نماز میں ملنے کے لئے کرتا ہے آخر رکوع میں آ کر ملتا ہے اور اس سے پہلے نہیں مل سکا تو اس کی رکعت ہو گئی اگرچہ اس نے سورۃ فاتحہ اس میں نہیں پڑھی۔ کیونکہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ جس نے رکوع کو پا لیا اس کی رکعت ہو گئی۔ مسائل دو طبقات کے ہوتے ہیں۔ فرمایا کہ مسائل دو طبقات کے ہوتے ہیں۔ ایک جگہ تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور تاکید کی کہ نماز میں سورۃ فاتحہ ضرور پڑھیں وہ اُمّ الکتاب ہے اور اصل نماز وہی ہے مگر جو شخص باوجود اپنی کوشش کے اور اپنی طرف سے جلدی کرنے کے رکوع میں ہی آ کر ملا ہے تو چونکہ دین کی بناء آسانی اور نرمی پر ہے۔ (دوسرا یہ بھی حکم ہے کہ دین میں آسانی اور نرمی ہے) اس واسطے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی رکعت ہوگئی۔ گو سورۃ فاتحہ کا ذکر نہیں ہے بلکہ دیر میں پہنچنے کے سبب رخصت پر عمل کرتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میرا دل خدا نے ایسا بنایا ہے کہ ناجائز کام میں مجھے قبض ہو جاتی ہے۔ (یعنی دل رکتا ہے) اور میرا جی نہیں چاہتا کہ میں اسے کروں اور یہ صاف ہے کہ جب نماز میں ایک آدمی نے تین حصوں کو پورا پا لیا اور ایک حصہ میں بسبب کسی مجبوری کے دیر میں مل سکا تو کیا حرج ہے۔ انسان کو چاہئے کہ رخصت پر عمل کرے۔ ہاں جو شخص عمداً سستی کرتا ہے اور جماعت میں شامل ہونے میں دیر کرتا ہے تو اس کی نماز ہی فاسد ہے۔ (الحکم 24 فروری 1901ء صفحہ 9 جلد 5 نمبر 7)

پھر سورۃ فاتحہ کے بارے میں مزید کہ امام کے پیچھے پڑھنی چاہئے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بڑی سختی کے ساتھ اس بات پر زور دیتے تھے کہ مقتدی کو امام کے پیچھے بھی سورۃ فاتحہ پڑھنی ضروری ہے۔ مگر ساتھ ہی یہ بھی فرماتے تھے کہ باوجود سورۃ فاتحہ کو ضروری سمجھنے کے مَیں یہ نہیں کہتا کہ جو شخص سورۃ فاتحہ نہیں پڑھتا اس کی نماز نہیں ہوتی کیونکہ بہت سے بزرگ اور اولیاء اللہ ایسے گزرے ہیں جو سورۃ فاتحہ کی تلاوت ضروری نہیں سمجھتے تھے اور مَیں ان کی نمازوں کو ضائع شدہ نہیں سمجھ سکتا۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کہتے ہیں کہ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حنفیوں کا عقیدہ ہے کہ امام کے پیچھے مقتدی کو خاموش کھڑے ہو کر اس کی تلاوت کو سننا چاہئے اور خود کچھ نہیں پڑھنا چاہئے اور اہلحدیث کا یہ عقیدہ ہے کہ مقتدی کے لئے امام کے پیچھے بھی سورۃ فاتحہ کا پڑھنا ضروری ہے اور حضرت صاحب اس مسئلہ میں اہل حدیث کے مؤید تھے مگر باوجود اس عقیدے کے آپ غالی اہلحدیث کی طرح یہ نہیں فرماتے تھے کہ جو شخص سورۃ فاتحہ نہیں پڑھتا اس کی نماز نہیں ہوتی۔‘‘ (سیرت المہدی جلد اول حصہ دوم صفحہ 334-335 روایت نمبر 361)

منشی رستم علی صاحب کے ایک سوال کے جواب میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے خط میں تحریر فرمایا کہ نماز مقتدی بغیر سورۃ فاتحہ بھی ہو جاتی ہے مگر افضلیت پڑھنے میں ہے۔ اگر کوئی امام جلد خواں ہو تو ایک آیت یا دو آیت جس قدر میسر آوے آہستہ پڑھ لیں۔ (اگر وہ امام جلدی جلدی پڑھ رہا ہے تو پیچھے پڑھنے والے ایک یا دو آیتیں جو بھی پڑھ سکتے ہیں پڑھ لیں لیکن) جو مانع سماعت قراءت امام نہ ہو۔ (یعنی اتنی اونچی نہیں پڑھنی کہ تم لوگ امام کی بات نہ سن سکو۔) اور اگر میسر نہ آ سکے تو مجبوری ہے۔ (اگر نہیں پڑھ سکتے تو مجبوری ہے۔ امام کی تلاوت تو تم نے بہرحال سننی ہے تو) نماز ہو جائے گی مگر افضلیت کے درجہ پر نہیں ہو گی۔‘‘ (مکتوبات احمدؑ جلد 2 صفحہ 467 مکتوب نمبر 20 بنام منشی رستم علی صاحبؓ)

حضرت مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں نے حضور کی خدمت میں سورۃ الحمد خلف امام پڑھنے کے متعلق (امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ، سورۃ حمد پڑھنے کے بارے میں ) سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ ’’قراءت سورۃ الحمد خلف امام بہتر ہے۔ میں نے عرض کیا کہ اگر نہ پڑھا جائے تو نماز ہو جاتی ہے یا نہیں؟ فرمایا کہ نماز تو ہو جاتی ہے مگر افضل تو یہی ہے کہ اَلْحمد خلف امام پڑھا جاوے۔ یہ بھی فرمایا کہ اگر بِدُوں سورۃ الحمد خلف امام نماز نہ ہوتی ہو تو حنفی مذہب میں بڑے بڑے صالح لوگ گزرے ہیں وہ کس طرح صالح ہو جاتے۔ (بہت بزرگ گزرے ہیں جو نہیں پڑھتے تھے اس کے قائل نہیں تھے۔) فرمایا کہ نماز دونوں طرح سے ہو جاتی ہے۔ فرق صرف افضلیت کا ہے۔ ایسا ہی آمین بالسرّ پر آمین بالجہر کو ترجیح دی جاتی تھی۔‘‘ (سیرت المہدی جلد دوم حصہ چہارم صفحہ 153 روایت نمبر 1210)

پیر سراج الحق روایت کرتے ہیں کہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم ایک دفعہ فرماتے تھے کہ ایک شخص سیالکوٹ یا اس کے گرد و نواح کا رہنے والا تھا اور ہر روز ہم اس کو امام کے پیچھے نماز میں اَلْحمد پڑھنے کو کہتے تھے اور ہم اپنی دانست میں تمام دلیلیں اس بارے میں دے چکے مگر اس نے نہیں مانا اور اَلْحَمْدُ لِلّٰہ امام کے پیچھے نہ پڑھی اور یوں نماز ہمارے ساتھ پڑھ لیتا۔ ایک دفعہ حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں قادیان آ گیا۔ ایک روز اسی قسم کی باتیں ہونے لگیں۔ صرف حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ نماز میں اَلحمد شریف امام کے پیچھے پڑھنی چاہئے اور کوئی دلیل قرآن شریف یا حدیث شریف سے بیان نہیں کی۔ وہ شخص اتنی بات سن کر امام کے پیچھے نماز میں اَلحمد شریف پڑھنے لگا اور کوئی حجت نہیں کی۔

ایک شخص نے (حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے) سوال کیا کہ جو شخص نماز میں اَلْحمد امام کے پیچھے نہ پڑھے اس کی نماز ہوتی ہے یا نہیں؟ حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ سوال نہیں کرنا چاہئے کہ نماز ہوتی ہے یا نہیں؟یہ سوال کرنا اور دریافت کرنا چاہئے کہ نماز میں الحمد امام کے پیچھے پڑھنا چاہئے کہ نہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ ضرور پڑھنی چاہئے۔ نماز کا ہونا یا نہ ہونا تو خدا تعالیٰ کو معلوم ہے۔ حنفی نہیں پڑھتے اور ہزاروں اولیاء حنفی طریق کے پابند تھے اور خلف امام اَلْحمدنہیں پڑھتے تھے۔ جب ان کی نماز نہ ہوتی تو وہ اولیاء اللہ کیسے ہو گئے؟ فرمایا کہ چونکہ ہمیں امام اعظم سے(امام ابو حنیفہ سے) ایک طرح کی مناسبت ہے۔ اور ہمیں امام اعظم کا بہت ادب ہے ہم یہ فتویٰ نہیں دے سکتے کہ نماز نہیں ہوتی۔ اس زمانے میں تمام حدیثیں مدوّن و مرتب نہیں ہوئی تھیں اور یہ بھید جو کہ اب کھلا ہے نہیں کھلا تھا۔ اس واسطے وہ معذور تھے۔ اور اب یہ مسئلہ حل ہو گیا اب اگر نہیں پڑھے گا تو بیشک اس کی نماز درجہ قبولیت کو نہیں پہنچے گی۔ ہم یہی بار بار اس سوال کے جواب میں کہیں گے کہ اَلْحمدنماز میں خلف امام پڑھنی چاہئے۔ ایک روز میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دریافت کیا کہ حضور اَلْحمد کس موقع پر پڑھنی چاہئے۔ فرمایا جہاں موقع پڑھنے کا لگ جاوے۔ میں نے عرض کیا کہ امام کے سکوت میں فرمایا جہاں موقع ہو پڑھنا ضرور چاہئے۔‘‘ (تذکرۃ المہدی حصّہ اول صفحہ 179-180)

بعض دفعہ ظہر عصر کی یا مغرب عشاء کی نمازیں جمع ہوتی ہیں۔ اور بعد میں آنے والوں کو صحیح پتا نہیں ہوتا۔ تو اس صورت میں نمازوں کی ترتیب کے بارے میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی فرماتے ہیں کہ میں نے خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سنا ہے کہ اگر امام عصر کی نماز پڑھا رہا ہو اور ایک ایسا شخص مسجد میں آ جائے جس نے ابھی ظہر کی نماز پڑھنی ہو یا عشاء کی نماز ہو رہی ہو اور ایک ایسا شخص مسجد میں آ جائے جس نے ابھی مغرب کی نماز پڑھنی ہو اسے چاہئے کہ وہ پہلے ظہر کی نماز علیحدہ پڑھے اور پھر امام کے ساتھ شامل ہو یا مغرب کی نماز پہلے علیحدہ پڑھے اور پھر امام کے ساتھ شامل ہو۔

جمع بین الصلوٰتین کی صورت میں بھی اگر کوئی شخص بعد میں مسجد میں آتا ہے جبکہ نماز ہو رہی ہو تو اس کے متعلق بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہی فتویٰ ہے کہ اگر اسے پتا لگ جاتا ہے کہ امام عصر کی نماز پڑھا رہا ہے تو اسے چاہئے کہ پہلے ظہر کی نماز علیحدہ پڑھے اور پھر امام کے ساتھ شامل ہو۔ اسی طرح اگر اسے پتا لگ جاتا ہے کہ امام عشاء کی نماز پڑھا رہا ہے تو وہ پہلے مغرب کی نماز علیحدہ پڑھے اور پھر امام کے ساتھ شامل ہو۔ لیکن اگر اسے معلوم نہ ہو سکے کہ یہ کون سی نماز پڑھی جا رہی ہے تو وہ جماعت کے ساتھ شامل ہو جائے۔ ایسی صورت میں جو امام کی نماز ہو گی وہی نماز اس کی ہو جائے گی۔ بعد میں وہ اپنی پہلی نماز پڑھ لے۔ مثلاً اگر عشاء کی نماز ہو رہی ہے اور ایک ایسا شخص مسجد میں آ جاتا ہے جس نے ابھی مغرب کی نماز پڑھنی ہے تو اگر اسے پتا لگ جاتا ہے کہ یہ عشاء کی نماز ہے تو وہ مغرب کی نماز پہلے علیحدہ پڑھے پھر امام کے ساتھ شامل ہو۔ لیکن اگر اسے معلوم نہ ہو سکے کہ یہ کون سی نماز ہو رہی ہے تو وہ امام کے ساتھ شامل ہو جائے۔ اس صورت میں اس کی عشاء کی نماز ہو جائے گی مغرب کی نماز وہ بعد میں پڑھ لے۔ یہی صورت عصر کے متعلق ہے۔ اس موقع پر عرض کیا گیا کہ عصر کے بعد تو کوئی نماز جائز نہیں ہوتی پھر اگر عدم علم کی صورت میں وہ عصر کی نماز میں شامل ہو جاتا ہے تو اس کے بعد ظہر کی نماز اس کے لئے کس طرح جائز ہو سکتی ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ یہ تو صحیح ہے کہ بطور قانون عصر کے بعد کوئی نماز جائز نہیں مگر اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ اگر اتفاقی حادثے کے طور پر کوئی ایسا واقعہ ہو جائے تو پھر بھی وہ بعد میں ظہر کی نماز نہیں پڑھ سکتا۔ ایسی صورت میں اس کے لئے ظہر کی نماز عصر کی نماز کے بعد جائز ہو گی۔ اگر علم ہوتا ہے تو پھر جائز نہیں۔ اگر علم نہیں ہوتا تو پھر عصر کے بعد ظہر پڑھی جا سکتی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ میں نے خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے یہ مسئلہ سنا ہے اور ایک دفعہ نہیں سنا دو دفعہ سنا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جب دوبارہ اس کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ میں اس کے متعلق وضاحت کر چکا ہوں کہ ترتیب نماز ضروری چیز ہے۔ لیکن اگر کسی کو معلوم نہ ہو سکے کہ امام کون سی نماز پڑھا رہا ہے۔ عصر کی نماز پڑھا رہا ہے یا عشاء کی نماز پڑھا رہا ہے تو وہ امام کے ساتھ شامل ہو جائے۔ جو امام کی نماز ہو گی وہی اس کی نماز ہو جائے گی۔ بعد میں وہ اپنی پہلی نماز پڑھ لے۔‘‘ (الفضل 27 جون 1948 صفحہ 3 جلد 2 نمبر 144)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا معمول تھا کہ سنّتیں پہلے بھی اور بعد میں بھی گھر میں پڑھا کرتے تھے۔ شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی لکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا معمول شروع سے ہی یہ تھا کہ آپ سنن اور نوافل گھر پر پڑھا کرتے تھے اور فرض نماز جماعت کے ساتھ مسجد میں پڑھا کرتے تھے۔ یہ التزام آپ کا آخر وقت تک رہا۔ البتہ جب کبھی فرض نماز کے بعد دیکھتے کہ بعض لوگ جو پیچھے سے آ کر جماعت میں شریک ہوئے ہیں اور ابھی انہوں نے نماز ختم نہیں کی اور راستہ نہیں ہے تو آپ مسجد میں سنتیں پڑھا کرتے تھے یا کبھی کبھی جب مسجد میں بعدنماز تشریف رکھتے تو سنن مسجد میں پڑھا کرتے تھے۔ چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ عام عادت تھی ایک زمانے میں بعض طالبعلموں نے اپنی کوتاہ اندیشی سے (کم عقلی سے) یہ سمجھ لیا کہ شاید سُنن ضروری نہیں۔ (کیونکہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کونہ پہلے، نہ بعد میں سنتیں پڑھتے کبھی دیکھا نہیں تھا۔) اس پر حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک دفعہ درس قرآن مجید میں فرمایا کہ حضرت صاحب، (حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام) کی یہ عادت تھی کہ آپ فرض پڑھنے کے بعد فوراً اندرون خانہ چلے جاتے تھے اور ایسا ہی اکثر مَیں بھی کرتا ہوں۔ اس سے بعض نادان بچوں کو بھی غالباً یہ عادت ہو گئی ہے کہ وہ فرض پڑھنے کے بعد فوراً مسجد سے چلے جاتے ہیں اور ہمارا خیال ہے کہ وہ سنتوں کی ادائیگی سے محروم ہو جاتے ہیں۔ (اب بھی مَیں نے یہ دیکھا ہے کہ بعض دفعہ اس طرح ہوتا ہے۔) ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت صاحب (علیہ الصلوٰۃ والسلام) اندر جاکر سب سے پہلے سنتیں پڑھا کرتے تھے۔ ایسا ہی مَیں بھی کرتا ہوں۔ (پھر حضرت خلیفہ اول نے پوچھا کہ) کوئی ہے جو حضرت صاحب کے اس عمل درآمد کے متعلق گواہی دے (کہ آپ جاتے ہی سنتیں پڑھا کرتے تھے۔) اس پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب جو حسب العادت درس میں تشریف فرما تھے کھڑے ہوئے اور بآواز بلند کہا کہ بیشک حضرت صاحب کی ہمیشہ عادت تھی کہ آپ مسجد جانے سے پہلے گھر میں سنتیں پڑھ لیا کرتے تھے اور باہر مسجد میں جا کر فرض ادا کر کے گھر میں آتے تو فوراً سنتیں پڑھنے کھڑے ہوتے اور نماز سنت پڑھ کر پھر اور کوئی کام کرتے۔ اس کے بعد حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے بھی یہی شہادت دی اور ان کے بعد حضرت میر ناصر نواب نے اور ان کے بعد صاحبزادہ میر محمد اسحٰق صاحب نے اور پھر حضرت اقدس (علیہ السلام) کے پرانے خادم حافظ حامد علی صاحب نے بھی اپنی عینی شہادت کا اظہار کیا۔‘‘ (سیرت حضرت مسیح موعودؑ از حضرت شیخ یعقوب علی صاحبؓ عرفانی صفحہ 65 تا 67)

اس بارے میں سوال ہوا کہ امامت کو بطور پیشہ اختیار کرنا چاہئے کہ نہیں؟ بعض مولوی بعض جگہوں پر اس لئے امامت کرواتے ہیں کہ ان کو پیسے ملیں۔ فرمایا کہ ’’جو امامت کا منصب رکھتے ہیں … اگر ان کا اقتدا کیا جائے تو نماز کے ادا ہو جانے میں مجھے شبہ ہے کیونکہ اعلانیہ طور پر ثابت ہوتا ہے کہ انہوں نے امامت کا ایک پیشہ اختیار کر رکھا ہے اور وہ پانچ وقت جا کر نماز نہیں پڑھتے بلکہ ایک دکان ہے کہ ان وقتوں میں جا کر کھولتے ہیں اور اسی دکان پر ان کا اور ان کے عیال کا گزارہ ہے۔ چنانچہ اس پیشے کے عزل و نصب کی حالت میں مقدمات تک نوبت پہنچ جاتی ہے اور مولوی صاحبان امامت کی ڈگری کرانے کے لئے اپیل در اپیل کرتے پھرتے ہیں۔ پس یہ امامت نہیں۔ یہ تو حرام خوری کا ایک مکروہ طریقہ ہے۔‘‘ (فتح اسلام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 26 حاشیہ)۔ مقدمے بازیاں ہوتی ہیں کہ مَیں اس جگہ کا امام بنوں گا اور اس پر پھر لمبی لڑائیاں چلتی ہیں اور اب بھی یہ ہوتا ہے۔

پھر پیشہ ور نماز پڑھانے والے کے پیچھے نماز درست ہے کہ نہیں؟آپ نے فرمایا کہ ’’میرے نزدیک جو لوگ پیشہ کے طور پر نماز پڑھاتے ہیں ان کے پیچھے نماز درست نہیں۔ وہ اپنی جمعرات کی روٹیوں یا تنخواہ کے خیال سے نماز پڑھاتے ہیں۔ اگر نہ ملے تو چھوڑ دیں۔ معاش اگر نیک نیتی کے ساتھ حاصل کی جاوے تو عبادت ہی ہے۔ جب آدمی کسی کام کے ساتھ موافقت کرے اور پکا راہ اختیار کر لے تو تکلیف نہیں ہوتی وہ سہل ہو جاتا ہے۔‘‘ (البدر 9 جنوری 1903ء صفحہ 85 جلد 1 نمبر 11)

پھر جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مکفر ہیں اور مکذّب ہیں، تکذیب کرنے والے ہیں۔ آپ کو کافر کہنے والے ہیں ان کے پیچھے نماز پڑھنا؟ آپ نے فرمایا بالکل غلط ہے۔ حرام ہے۔ فرمایا کہ ’’تکفیر کرنے والے اور تکذیب کی راہ اختیار کرنے والے ہلاک شدہ قوم ہیں۔ اس لئے وہ اس لائق نہیں ہیں کہ میری جماعت میں سے کوئی شخص ان کے پیچھے نماز پڑھے۔ کیا زندہ مردہ کے پیچھے نماز پڑھ سکتا ہے؟ پس یاد رکھو کہ جیسا خدا نے مجھے اطلاع دی ہے تمہارے پر حرام ہے اور قطعی حرام ہے کہ کسی مکفر اور مکذّب یا متردّد کے پیچھے نماز پڑھو بلکہ چاہئے کہ تمہارا وہی امام ہو جو تم میں سے ہو۔ اسی کی طرف حدیث بخاری کے ایک پہلو میں اشارہ ہے کہ اِمَامُکُمْ مِنْکُمْ۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 64 حاشیہ)

پھر غیروں کے پیچھے نماز جائز نہ ہونے کی وجہ؟ کسی نے سوال کیا کہ جو لوگ آپ علیہ السلام کے مریدنہیں ہیں ان کے پیچھے نماز پڑھنے سے آپ نے اپنے مریدوں کو کیوں منع فرمایا ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’جن لوگوں نے جلد بازی کے ساتھ بدظنی کر کے اس سلسلہ کو جو اللہ تعالیٰ نے قائم کیا ہے ردّ کر دیا ہے اور اس قدر نشانوں کی پرواہ نہیں کی اور اسلام پر جو مصائب ہیں اس سے لاپرواہ پڑے ہیں۔ ان لوگوں نے تقویٰ سے کام نہیں لیا اور اللہ تعالیٰ اپنے پاک کلام میں فرماتا ہے اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ (المائدۃ: 28)کہ خدا صرف متقی لوگوں کی نماز قبول کرتا ہے۔ اس واسطے کہا گیا کہ ایسے آدمی کے پیچھے نماز نہ پڑھو جس کی نماز خود قبولیت کے درجہ تک پہنچنے والی نہیں۔‘‘ (الحکم 17 مارچ 1901ء صفحہ 8 جلد 5نمبر 10)

دو آدمیوں نے بیعت کی۔ ایک نے سوال کیا کہ غیر احمدی کے پیچھے نماز جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا ’’وہ لوگ ہم کو کافر کہتے ہیں۔ اگر ہم کافر نہیں ہیں تو وہ کفر لوٹ کر ان پر پڑتا ہے۔ مسلمان کو کافر کہنے والا خود کافر ہے۔ اس واسطے ایسے لوگوں کے پیچھے نماز جائز نہیں۔ پھر ان کے درمیان جو لوگ خاموش ہیں۔ (بعض کہتے ہیں وہ تو بولتا نہیں کچھ نہیں کہتا۔ فرمایا کہ جو خاموش ہیں جو کچھ نہیں کہتے) وہ بھی انہیں میں شامل ہیں۔ ان کے پیچھے بھی نماز جائز نہیں کیونکہ وہ اپنے دل کے اندر کوئی مذہب مخالفانہ رکھتے ہیں جو ہمارے ساتھ بظاہر شامل نہیں ہوتے۔‘‘ (البدر 15 دسمبر 1905ء صفحہ 2 جلد 4نمبر 45)۔ بولتے تو نہیں لیکن ان کے دل کے اندر تردّد ہے اور مخالفانہ مذہب ہے اس لئے شامل نہیں ہوتے۔ اس لئے ان کے ساتھ بھی جائز نہیں۔ اپنی جماعت کا غیر کے پیچھے نماز نہ پڑھنے کے متعلق ذکر تھا۔ فرمایا ’’صبر کرو اور اپنی جماعت کے غیر کے پیچھے نماز مت پڑھو۔ بہتری اور نیکی اسی میں ہے اور اسی میں تمہاری نصرت اور فتح عظیم ہے اور یہی اس جماعت کی ترقی کا موجب ہے۔ دیکھو دنیا میں روٹھے ہوئے اور ایک دوسرے سے ناراض ہونے والے بھی اپنے دشمن کو چار دن منہ نہیں لگاتے اور تمہاری ناراضگی اور روٹھنا تو خدا تعالیٰ کے لئے ہے۔ تم اگر ان میں رَلے ملے رہے تو خداتعالیٰ جو خاص نظر تم پر رکھتا ہے وہ نہیں رکھے گا۔ پاک جماعت جب الگ ہو تو پھر اس میں ترقی ہوتی ہے۔‘‘ (الحکم 10 اگست 1901ء صفحہ 3 جلد 5 نمبر 29)

اللہ تعالیٰ ہمیں خالص ہوتے ہوئے اس جماعت کا فرد بننے کی توفیق عطا فرمائے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہم سے چاہتے ہیں۔ الجزائر کے احمدیوں کے لئے آخر میں ایک دعا کے لئے بھی کہنا چاہتا ہوں۔ یہ نئی جماعت ہے۔ اکثریت ان میں سے نومبائعین کی ہے لیکن بڑے مضبوط ایمان والے ہیں۔ آجکل حکومت کی طرف سے بڑی سختی ہو رہی ہے۔ بلا وجہ مقدمے قائم کئے جا رہے ہیں۔ بعض کو جیل میں بھیج دیا گیا ہے۔ الزام یہ ہے کہ نعوذ باللہ یہ بھی اسی طرح ہیں جس طرح داعش ہے۔ حالانکہ اگر اِس وقت کسی بھی ملک میں امن پسند اور ملک کے قانون کی پابندی کرنے والے لوگ موجود ہیں تو وہ جماعت احمدیہ کے افراد ہی ہیں۔ لیکن انہوں نے کیونکہ الزام تراشی کرنی تھی اس لئے ہمیں ان سے ملانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پولیس نے بعض دفعہ بعض گھروں میں گھس کر عورتوں کی بے پردگی کرنے کی کوشش کی۔ مثلاً چند دن ہوئے ایک عورت سے کہا کہ اپنا دوپٹہ اتارو۔ اس نے کہا مجھے جان سے مار دو مَیں دوپٹہ نہیں اتاروں گی اور نہ میں احمدیت چھوڑوں گی۔ جج ہیں وہ بے انصافی کر رہے ہیں بلکہ انتہا کی ہوئی ہے۔ ایک احمدی کو جج نے کہا کہ اگر تم احمدیت سے انکار کر دو تو میں ابھی تمہیں چھوڑ دیتا ہوں۔ اس نے کہا میں مرجاؤں گا پر احمدیت نہیں چھوڑوں گا۔ اپنے ایمان کو نہیں چھوڑوں گا۔ کیونکہ یہی صحیح اسلام ہے جو مجھے اب پتا لگا ہے۔ اس پر جج نے کہا کہ اچھا اب تم نے یہ کہا ہے تو میں تمہیں ساری عمر کے لئے جیل میں رکھوں گا اور تم جیل میں ہی مرو گے۔ اس نے کہا ٹھیک ہے جو آپ نے کرنا ہے کریں۔ تو یہ وہاں آجکل حالات ہیں۔ اللہ تعالیٰ وہاں احمدیوں کے لئے آسانیاں پیدا فرمائے اور انہیں ثبات قدم بھی عطا فرمائے اور مخالفین اور جو دشمن اسلام ہیں، جو دشمن احمدیت ہیں وہ جو حرکتیں کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے شر ان پر الٹائے اور اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو ان ظالموں سے اپنی پناہ میں رکھے۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • پاؤر پوائنٹ PowerPoint
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 27؍ جنوری 2017ء شہ سرخیاں

    انتظامیہ کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہر کام کے اعلیٰ نتائج پیدا کرنے کے لئے مستقل مزاجی شرط ہے۔ شروع میں تو ہم میں سے بہت سے ایسے ہیں جو بڑے جوش سے کام شروع کرتے ہیں لیکن پھر کچھ عرصے بعد سستی پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے۔ یہ انسانی فطرت بھی ہے۔ افراد میں سستی پیدا ہونی اتنے خطرناک نتائج پیدا نہیں کرتی گو کہ یہ بھی بہت قابل فکر بات ہے لیکن نظام میں سستی پیدا ہونا تو انتہائی خطرناک ہے۔ اگر افراد کو توجہ دلانے والا نظام ہی سست ہو جائے یا اپنے کام میں عدم دلچسپی کا اظہار کرنے لگ جائے تو پھر افراد کی اصلاح بھی مشکل ہو جاتی ہے۔

    ذیلی تنظیمیں بھی اور جماعتی نظام بھی اپنے کام اور خاص طور پر وہ کام جس کو اللہ تعالیٰ نے ہمارا مقصد پیدائش قرار دیا ہے اس میں ایسی منصوبہ بندی کریں اور ایسا پروگرام بنائیں کہ وقت کے ساتھ سستی اور کمزوری کی بجائے ہر دن ترقی کی طرف لے جانے والا ہو۔ ہماری عبادتوں کی ترقی ہی ہمیں کامیابیاں دلانے والی ہے۔ پس یہ بہت اہم چیز ہے۔ تمام نظام کو اس بارے میں بہت سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے۔ لجنہ اماء اللہ کو بھی اس بارے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔

    بچوں کی نمازوں کی گھروں میں نگرانی کرنا اور انہیں نمازوں کی عادت ڈالنا اور مردوں اور نوجوانوں کو مسجدوں میں جانے کے لئے مسلسل توجہ دلاتے رہنا یہ عورتوں کا کام ہے۔ اگر عورتیں اپنا کردار ادا کریں تو یہ غیر معمولی تبدیلی پیدا ہو سکتی ہے۔

    میں یہاں ایسے لوگوں کی درستی کرنا چاہتا ہوں جو یہ کہتے ہیں کہ نہ ہمیں نمازوں کے متعلق کہو، نہ پوچھو کیونکہ یہ ہمارا اور خدا کا معاملہ ہے۔ کئی عورتوں کی شکایت آتی ہے کہ اگر ہم اپنے خاوندوں کو توجہ دلائیں تو وہ لڑنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو میں کہتا ہوں کہ یہ بیشک بندے اور خدا کا معاملہ ہے لیکن توجہ دلانا اور پوچھنا نظام جماعت کا کام ہے۔ اسی طرح بیویوں کا بھی کام ہے بلکہ فرض ہے۔

    جس نظام سے اپنے آپ کو منسلک کر رہے ہیں اگر وہ اپنی جماعت کا جائزہ لینے کے لئے نمازوں کی ادائیگی کے بارے میں استفسار کرتا ہے تو بجائے چِڑنے اور غصہ میں آنے کے تعاون کرنا چاہئے۔

    نمازوں سے متعلق بعض مسائل مثلاً رفع یدین، فاتحہ خلف الامام، آمین بالجہر، قیام کے دوران ہاتھ کہاں باندھنے چاہئیں، تشہّدمیں انگلی اٹھانے، رکوع و سجود میں قرآنی دعائیں پڑھنے، رکوع میں شامل ہونے پر رکعت مکمل ہونے، قضا نماز کی صورت میں نمازوں کی ادائیگی میں ترتیب کا خیال رکھنے، نماز سے قبل و بعد سنتوں کی ادائیگی، امامت کو بطور پیشہ اپنانے، غیر احمدی امام کے پیچھے اور حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ و السلام کے مکفر و مکذب کے پیچھے نماز پڑھنے جیسے فقہی امور سے متعلق اس زمانہ کے حَکم و عدل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے ارشادات کے حوالہ سے احباب جماعت کی رہنمائی۔

    الجزائر میں احمدیوں کی شدید مخالفت، پولیس اور عدلیہ کی طرف سے بے انصافی اور ظالمانہ کارروائیوں کا تذکرہ اور الجزائر کے احمدیوں کے لئے خصوصی طور پر دعا کی تحریک۔

    اللہ تعالیٰ وہاں احمدیوں کے لئے آسانیاں پیدا فرمائے اور انہیں ثبات قدم بھی عطا فرمائے اور مخالفین اور جودشمن اسلام ہیں، جو دشمن احمدیت ہیں وہ جو حرکتیں کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے شر ان پر الٹائے اور اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو ان ظالموں سے اپنی پناہ میں رکھے۔

    فرمودہ مورخہ 27جنوری 2017ء بمطابق 27صلح 1396 ہجری شمسی، بمقام مسجدبیت الفتوح، مورڈن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور