جلسہ سالانہ کے بعض مقاصد اور اس حوالہ سے اہم نصائح
خطبہ جمعہ 3؍ فروری 2017ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
آج بنگلہ دیش کا جلسہ سالانہ شروع ہو رہا ہے۔ اس دفعہ ان کے آخری دن کے جلسہ سے میں نے خطاب نہیں کرنا تھا اس لئے انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ خطبہ میں ہی اس حوالہ سے کچھ بات کر دیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بنگلہ دیش کی جماعت بھی بڑی مخلص جماعت ہے۔ یہ بھی وہ ملک ہے جس میں وہاں کے احمدیوں نے جان کی قربانی بھی دی ہے۔ بارہ تیرہ کے قریب شہید ہوئے، سختیاں بھی برداشت کیں اور کر رہے ہیں لیکن احمدیت اور حقیقی اسلام پر ایمان اور یقین میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑے پکّے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے ایمان اور یقین میں ہمیشہ اضافہ کرتا چلا جائے۔
اسی طرح سیرالیون میں بھی آج جلسہ سالانہ شروع ہوا ہے اور وہاں موسم کی وجہ سے ان کو پریشانی تھی اور کچھ سیکیورٹی کے خدشات بھی تھے۔ انہوں نے بھی دعا کا کہا اور جلسہ کے ہر لحاظ سے بابرکت ہونے کے لئے کہا۔ اللہ تعالیٰ اس کو بھی بابرکت فرمائے۔
ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ جس مقصد کے لئے یہ جلسے منعقد ہوتے ہیں چاہے وہ دنیا کے کسی ملک میں، بنگلہ دیش میں یا سیرالیون میں یا افریقہ میں کہیں یا کہیں بھی اور ہوں۔ اس مقصد کی روح کو ہم سمجھنے والے ہوں اور پھر حاصل کرنے والے ہوں۔ اور وہ مقصد کیا ہے؟ وہ مقصد وہ ہے جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مختلف اوقات میں جلسے کے حوالے سے بیان فرمایا۔ مجھے امید ہے کہ جلسہ کے افتتاح کے موقع پر بنگلہ دیش والے بھی، سیرالیون والے بھی اس بات کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقتباسات سے سن چکے ہیں۔ دنیا کے ہر احمدی کو ہر وقت یہ مقصد اپنے سامنے رکھنا چاہئے کیونکہ یہ صرف تین دن کا مقصدنہیں ہے بلکہ ایک احمدی مسلمان کی تمام زندگی کا مقصد ہے۔ پس ان مقاصد کو ہر وقت ہمیں اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ جلسہ کا ایک مقصد یہ ہے کہ زہد اور تقویٰ پیدا ہو۔ اب یہ کوئی عارضی چیز نہیں ہے۔ مستقل رکھنے والی چیز ہے۔
پھر جلسے پر آنا تمہارے اندر اللہ تعالیٰ کے خوف کا حقیقی اِدراک دلانے والا ہو۔ یہ بھی ایک مستقل چیز ہے یعنی ایسا خوف جو صرف خوفزدہ ہو کر ڈرنے والا خوف نہیں ہے بلکہ اپنے محبوب کی ناراضگی کا خوف ہو۔
پھر یہ کہ جلسہ پر آنا اور روحانی ماحول ایک دوسرے کے لئے دلوں میں نرمی پیدا کرنے والا ہو۔ اللہ تعالیٰ کی محبت کو حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے سے محبت میں بڑھنے والا ہو۔ آپس میں ایسا بھائی چارہ پیدا ہو جائے جس پر دنیا رشک کرے کہ ایسے نمونے ہی حقیقی اسلامی تعلیم کا اظہار ہیں۔ آپ علیہ السلام نے اس بات کی ضرورت کا بھی احساس دلایا کہ آپ کے ماننے والے انکسار اور عاجزی دکھانے والے ہوں۔ تکبر اور غرور کو اپنے اندر سے بالکل نکال دیں۔ (ماخوذ از شہادۃ القرآن جلد 6 صفحہ 394,398)۔ اپنی روحانی ترقی کے معیار حاصل کر کے پھر وہ جہاں جہاں کے رہنے والے احمدی ہیں، اسلام کی حقیقی خوبصورت تعلیم کو اپنے ہم وطنوں میں پھیلائیں۔ مخالفت اگر ہے تو یہ ہمارے کام ختم نہیں کر سکتی۔ حکمت سے تبلیغ کا کام ہم نے ہر جگہ جاری رکھنا ہے اور یہی ہمارا مقصد ہے۔
آج جبکہ اسلام کو ہر جگہ بدنام کیا جا رہا ہے خود مسلمان ممالک میں مسلمان مسلمان کے خون کا پیاسا ہے اور مسلمان کے عمل اسلام کی تعلیم سے دُور جا چکے ہیں ایسے میں ہم احمدیوں نے ہی دنیا کو اسلام کی خوبصورت تعلیم سے آگاہ کرنا ہے اور اس کے لئے سب سے ضروری چیز اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور جھک کر دعائیں کرنی ہیں۔ اپنے کاموں میں برکت کے لئے اللہ تعالیٰ سے ہی مانگنا ہے۔ اور پھر اپنے عملی نمونے حسن اخلاق کے بھی قائم کرنے ہیں تا کہ دنیا کو نظر آئے کہ اگر اسلام کی تعلیم کے مطابق عبادتوں کے اعلیٰ معیار دیکھنے ہیں تو احمدیوں میں دیکھو۔ اگر اسلام کی تعلیم کے مطابق حقوق العباد کے اور حُسنِ خُلق کے اعلیٰ معیار دیکھنے ہیں تو احمدیوں میں دیکھو۔
پس یہ جلسہ تین دن کے لئے احمدیوں کو جمع کر کے کوئی دین کی باتیں بتانے کے لئے نہیں۔ یہ صرف اس لئے منعقدنہیں ہوتا بلکہ اس لئے منعقد کیا جاتا ہے کہ اس ماحول میں رہ کر یعنی ان تین دنوں میں جو ماحول بنتا ہے اس میں رہ کر اپنے دلوں کے زنگ اتاریں۔ اعتقادی لحاظ سے یہاں کے رہنے والے احمدی بیشک بہت مضبوط ہیں اور جیسا کہ مَیں نے ذکر کیا اس کے لئے بنگلہ دیش کے احمدیوں نے جانیں بھی قربان کیں لیکن اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک سے یہ چاہتا ہے کہ اسلام کے اس نشأۃ ثانیہ کے زمانے میں اپنی عملی حالتوں کو بھی اعلیٰ معیاروں پر لے کر جائیں۔ نمازوں کی پابندی اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق کریں۔ اپنی نمازوں کے اندر نمازوں کی روح کوقائم کرنے کی کوشش کریں۔ اس بارے میں مَیں گزشتہ دو خطبات میں بڑی تفصیل سے بیان کرچکا ہوں۔ حقوق العباد کی ادائیگی اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ کریں۔ جیسا کہ ذکر ہوا جلسوں کے مقاصد میں ایک مقصد زُہد اور تقویٰ پیدا کرنا ہے۔ تقویٰ کے بارے میں وضاحت فرماتے ہوئے ایک جگہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’تقویٰ کے معنی ہیں کہ بدی کی باریک راہوں سے پرہیز کرنا۔ مگر یاد رکھو نیکی اتنی نہیں ہے کہ ایک شخص کہے کہ مَیں نیک ہوں اس لئے کہ میں نے کسی کا مال نہیں لیا‘‘ (کسی کو لوٹا نہیں، غصب نہیں کیا۔ کسی کے حقوق غصب نہیں کئے۔) ’’نقب زنی نہیں کی۔ چوری نہیں کرتا۔ بدنظری اور زنا نہیں کرتا۔ ایسی نیکی عارف کے نزدیک ہنسی کے قابل ہے۔‘‘ (یہ کوئی نیکی نہیں ہے یہ تو مذاق ہے۔) ’’کیونکہ اگر وہ ان بدیوں کا ارتکاب کرے اور چوری یاڈاکہ زنی کرے تو وہ سزا پائے گا۔ پس یہ کوئی نیکی نہیں کہ جو عارف کی نگاہ میں قابل قدر ہو بلکہ اصلی اور حقیقی نیکی یہ ہے کہ نوع انسان کی خدمت کرے اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں کامل صدق اور وفا داری دکھلائے اور اس کی راہ میں جان تک دے دینے کو تیار ہو۔ اسی لئے یہاں فرمایا کہ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِیْنَ ھُمْ مُّحْسِنُوْنَ (النحل: 129) یعنی اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ہے جو بدی سے پرہیز کرتے ہیں اور ساتھ ہی نیکیاں بھی کرتے ہیں‘‘۔ فرمایا ’’یہ خوب یاد رکھو کہ نرا بدی سے پرہیز کرنا کوئی خوبی کی بات نہیں جب تک اس کے ساتھ نیکیاں نہ کرے۔ بہت سے لوگ ایسے موجود ہوں گے جنہوں نے کبھی زنا نہیں کیا۔ خون نہیں کیا۔ چوری نہیں کی۔ ڈاکہ نہیں مارا اور باوجود اس کے اللہ تعالیٰ کی راہ میں کوئی صدق و وفا کا نمونہ انہوں نے نہیں دکھایا‘‘۔ (یہ جرم تو نہیں کئے لیکن اللہ تعالیٰ کی راہ میں کوئی سچائی اور وفا کا ایسا نمونہ بھی نہیں دکھایا جو قابل تعریف ہو) ’’یا نوع انسان کی کوئی خدمت نہیں کی اور اس طرح پر کوئی نیکی نہیں کی۔ پس جاہل ہو گا وہ شخص جو اِن باتوں کو پیش کر کے اسے نیکوکاروں میں داخل کرے کیونکہ یہ تو بدچلنیاں ہیں۔ صرف اتنے خیال سے انسان اولیاء اللہ میں داخل نہیں ہو جاتا۔‘‘ فرمایا ’’بدچلنی کرنے والے، چوری یا خیانت کرنے والے، رشوت لینے والے کے لئے عادت اللہ میں ہے کہ اسے یہاں سزا دی جاتی ہے‘‘ (وہ تو اس دنیا میں سزا پا لیتے ہیں) ’’وہ نہیں مرتا جب تک سزا نہیں پا لیتا۔‘‘ (عموماً کسی نہ کسی ذریعہ سے سزا مل جاتی ہے۔) ’’یاد رکھو کہ صرف اتنی ہی بات کا نام نیکی نہیں ہے۔‘‘
فرمایا کہ ’’تقویٰ ادنیٰ مرتبہ ہے۔ اس کی مثال تو ایسی ہی ہے جیسے کسی برتن کو اچھی طرح سے صاف کیا جاوے تا کہ اس میں اعلیٰ درجہ کا لطیف کھانا ڈالا جائے۔ اب اگر کسی برتن کو خوب صاف کر کے رکھ دیا جائے لیکن اس میں کھانا نہ ڈالا جائے تو کیا اس سے پیٹ بھر سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ کیا وہ خالی برتن طعام سے سیر کر دے گا؟‘‘۔ (یعنی خالی برتن سامنے رکھ دو تو اس سے بغیر کھانے کے تمہارا پیٹ بھر جائے گا۔) ’’ہرگز نہیں۔ اسی طرح پر تقویٰ کو سمجھو‘‘۔ آپ نے فرمایا ’’تقویٰ کیا ہے؟‘‘ فرماتے ہیں کہ ’’تقویٰ تو صرف نفس امّارہ کے برتن کو صاف کرنے کا نام ہے۔‘‘(نفس امَّارہ وہ ہے جو انسان کو ہر وقت برائیوں پر ابھارتا رہتا ہے اور برائیاں کر کے کوئی شرمندگی نہیں ہوتی۔ اس لئے تقویٰ یہ ہے کہ نفس امّارہ کا جو برتن ہے اس کو صاف کرو اور جب یہ صاف ہو گیا، برائیوں سے آدمی بچنے لگ گیا تو یہ تقویٰ کی ابتدائی چیز ہے۔ پھر اس برتن میں کھانا ڈالو اور وہ کھانا وہ نیکیاں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے بتائیں۔ جس میں اللہ تعالیٰ کے حق بھی ہیں اور بندوں کے حق بھی ہیں۔ فرمایا کہ ’’اور نیکی وہ کھانا ہے جو اس میں پڑنا ہے اور جس نے اعضاء کو قوت دے کر انسان کو اس قابل بنانا ہے کہ اس سے نیک اعمال صادر ہوں۔‘‘ اب اس طرح کی کوشش کرے۔ نیکیاں کرے۔ جتنی انسانی طاقتیں ہیں اللہ تعالیٰ نے جتنی قوتیں دی ہوئی ہیں ان کو اس لئے مضبوط کرے کہ اس سے اللہ تعالیٰ کے حق ادا ہوں اور اس کے بندوں کے حق ادا ہوں۔ اس سے نیک اعمال صادر ہوں ’’اور وہ بلند مراتب قرب الٰہی کے حاصل کر سکے۔‘‘ (ملفوظات جلد 6 صفحہ 241-243۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)۔ جب یہ دونوں باتیں ہوں گی۔ نیکیاں اس میں پڑنے لگ جائیں گی تو پھر تقویٰ کا معیار بھی بڑھے گا اور پھر قرب الٰہی بھی حاصل ہو گا۔
پھر ایک حقیقی مسلمان کے لئے بہت اہم چیز عبادت ہے۔ اس بارے میں کہ دعا کیا چیز ہے، عبادت کیا چیز ہے؟ عبادت اور دعا کیا معجزات دکھاتی ہے اور کس طرح یہ کرنی چاہئے اور کیسی ہونی چاہئے اور دعا کی حقیقت جاننے کے لئے کیا طریق اختیار کرنے چاہئیں اور پھر اس ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کا قرب کس طرح حاصل کرنا ہے اور اس میں نماز کا پھر کیا کردار ہے؟ اس بات کو بیان فرماتے ہوئے ایک جگہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’دعا وہ اکسیر ہے جو ایک مُشتِ خاک کو کیمیا کر دیتی ہے۔‘‘ ایک مٹی لو وہ دعا سے سونا بن جاتی ہے۔ دعا میں ایسی تاثیر ہونی چاہئے۔ ’’اور وہ ایک پانی ہے جو اندرونی غلاظتوں کو دھو دیتا ہے۔‘‘ لیکن کیسی دعا؟ فرمایا کہ ’’اس دعا کے ساتھ روح پگھلتی ہے۔‘‘ ایسی دعا جو دل سے نکل رہی ہو اور اس کے ساتھ روح پگھلتی ہو۔ ’’اور پانی کی طرح بہہ کر آستانۂ حضرتِ اَحدیّت پر گرتی ہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوتی ہے۔ ’’وہ خدا کے حضور میں کھڑی بھی ہوتی ہے اور رکوع بھی کرتی ہے اور سجدہ بھی کرتی ہے اور اسی کی ظل وہ نماز ہے جو اسلام نے سکھلائی ہے۔‘‘ یعنی دعا جب دل سے نکلتی ہے تو وہ کبھی بیقراری میں کھڑی ہوتی ہے۔ کبھی رکوع میں جاتی ہے۔ کبھی سجدہ کرتی ہے۔ روح کی مختلف حالتیں ہیں اور ان کی جو ظاہری حالت ہے اس کا اظہار نماز میں ہوتا ہے جو اسلام نے سکھلائی ہے۔) ’’اور روح کا کھڑا ہونا یہ ہے کہ وہ خدا کے لئے ہر ایک ہیبت کی برداشت اور حکم ماننے کے بارے میں مستعدی ظاہر کرتی ہے۔ اور اس کا رکوع یعنی جھکنا یہ ہے‘‘ روح کا جھکنا یہ ہے یا رکوع کرنا یہ ہے ’’کہ وہ تمام محبتوں اور تعلقوں کو چھوڑ کر خدا کی طرف جھک آتی ہے۔‘‘ خدا تعالیٰ سے زیادہ بڑا کوئی تعلق اور محبت نہیں ہے ’’اور خدا کے لئے ہو جاتی ہے۔ اور اس کا سجدہ یہ ہے کہ وہ خدا کے آستانہ پر گر کر اپنے خیال بکلّی کھو دیتی ہے اور اپنے نقشِ وجود کو مٹا دیتی ہے‘‘۔ انسان کچھ نہیں رہتا۔ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے لئے ہو جاتا ہے۔ فرمایا کہ ’’یہی نماز ہے جو خدا کو ملاتی ہے۔‘‘ اگر نماز کی حقیقت معلوم کرنی ہے کہ کیا حقیقت ہے تو پھر یہ نماز ہے جس سے خدا ملتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں نمازیں بڑی پڑھی ہیں اللہ نہیں ملا تو یہ حالت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ’’اور شریعت اسلامی نے اس کی تصویر معمولی نماز میں کھینچ کر دکھلائی ہے تا وہ جسمانی نماز روحانی نماز کی طرف محرّک ہو کیونکہ خدا تعالیٰ نے انسان کے وجود کی ایسی بناوٹ پیدا کی ہے کہ روح کا اثر جسم پر اور جسم کا اثر روح پر ضرور ہوتا ہے۔ جب تمہاری روح غمگین ہو تو آنکھوں سے بھی آنسو جاری ہو جاتے ہیں اور جب روح میں خوشی پیدا ہو تو چہرہ پر بشاشت ظاہر ہو جاتی ہے۔ یہاں تک کہ انسان بسا اوقات ہنسنے لگتا ہے۔ ایسا ہی جب جسم کو کوئی تکلیف اور درد پہنچے تو اس درد میں روح بھی شریک ہوتی ہے۔ اور جب جسم کسی ٹھنڈی ہوا سے خوش ہو تو روح بھی اس سے کچھ حصہ لیتی ہے۔ پس جسمانی عبادات کی غرض یہ ہے کہ روح اور جسم کے باہمی تعلقات کی وجہ سے روح میں حضرتِ احدیّت کی طرف حرکت پیدا ہو۔‘‘ اللہ تعالیٰ کی طرف حرکت پیدا ہو۔ اس طرف چلے۔ ’’اور وہ روحانی قیام اور سجود میں مشغول ہو جائے‘‘۔ ظاہری قیام اور سجدے اور رکوع جو ہیں ان میں ایک ایسا مقام حاصل ہو جائے کہ وہ روحانی بن جائیں۔ روح سے سجدے ہو رہے ہوں اور روح سے رکوع ہو رہے ہوں یا روح کے رکوع ہو رہے ہوں اور روح کے سجدے ہو رہے ہوں اور وہ حالت پیدا ہو جو انسان کو ظاہری طور پر خوشی اور غمی میں پیدا ہوتی ہے۔ انسان روتا بھی ہے ہنستا بھی ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق میں بھی اظہار ہونا چاہئے۔ ’’روحانی قیام اور سجود میں مشغول ہو جائے کیونکہ انسان ترقیات کے لئے مجاہدات کا محتاج ہے‘‘۔ ترقی کرنی ہے تو مجاہدہ کرنا پڑتا ہے۔ محنت کرنی پڑتی ہے۔ ’’اور یہ بھی ایک قسم مجاہدہ کی ہے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ جب دو چیزیں باہم پیوست ہوں،‘‘ جڑی ہوئی ہوں ’’تو جب ہم ان میں سے ایک چیز کو اٹھائیں گے تو اس اٹھانے سے دوسری چیز کو بھی جو اس سے ملحق ہے کچھ حرکت پیدا ہو گی۔ لیکن صرف جسمانی قیام اور رکوع اور سجود میں کچھ فائدہ نہیں ہے۔‘‘ اگر صرف ظاہری طور پر نمازوں میں قیام کیا، رکوع کیا، سجدے کئے تو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ’’جبتک کہ اس کے ساتھ یہ کوشش شامل نہ ہو کہ روح بھی اپنے طور سے قیام اور رکوع اور سجود سے کچھ حصہ لے اور یہ حصہ لینا معرفت پر موقوف ہے اور معرفت فضل پر موقوف۔‘‘ (لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 223-224)
پس آپ نے ایک اور جگہ اس کی وضاحت فرمائی کہ فضل جو ہے یہ ملتا تو اللہ کے فضل سے ہے اس لئے فضل کو حاصل کرنے کے لئے بھی اللہ تعالیٰ کے آگے جھکو۔ اسی سے مانگو اور جب اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ معرفت حاصل ہو تو پھر ہی حقیقی نماز بھی ادا ہوتی ہے اور اس کے لئے مجاہدہ اور محنت کی ضرورت ہے لگاتار کوشش کی ضرورت ہے۔ جب مجاہدہ ہو گا تب ہی مقصد پیدائش بھی حاصل ہو گا۔ تقویٰ اور حقیقی عبادتوں کی تکمیل اس وقت ہوتی ہے جیسا کہ ابھی پہلے بھی ایک اقتباس میں بیان ہو گیا کہ دو چیزیں ہیں اللہ تعالیٰ کے حق اور بندوں کے حق۔ اور تقویٰ کی یہ تکمیل بھی اس وقت ہو گی اور حقیقی عبادتیں بھی اس وقت ہوں گی جب حقوق العباد کی ادائیگی بھی ساتھ ہو۔ اس بات کو بیان فرماتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’اصل بات یہ ہے کہ سب سے مشکل اور نازک مرحلہ حقوق العباد ہی کا ہے‘‘۔ لوگ نمازیں پڑھ لیتے ہیں۔ مسجدوں میں بھی آ جاتے ہیں۔ چندے بھی دے دیتے ہیں۔ بعض دفعہ جان کی قربانیاں بھی دے دیتے ہیں لیکن بعض دفعہ ایسے موقعے آتے ہیں کہ لوگوں کا حق ادا کرنا بڑا مشکل ہو جاتا ہے۔ فرمایا کہ اصل نازک مسئلہ اور مرحلہ حقوق العباد کا ہے ’’کیونکہ ہر وقت اس کا معاملہ پڑتا ہے اور ہرآن یہ ابتلا سامنے رہتا ہے۔ پس اس مرحلہ پر بہت ہی ہوشیاری سے قدم اٹھانا چاہئے‘‘۔ فرمایا کہ ’’میرا تو یہ مذہب ہے کہ دشمن کے ساتھ بھی حد سے زیادہ سختی نہ ہو۔ بعض لوگ چاہتے ہیں کہ جہاں تک ہو سکے اس کی تخریب اور بربادی کے لئے سعی کی جاوے‘‘ کوشش کی جائے کہ دشمن کو برباد کر دیں۔ ’’پھر وہ اس فکر میں پڑ کر جائز اور ناجائز امور کی بھی پروا نہیں کرتے۔ اس کو بدنام کرنے کے واسطے جھوٹی تہمت اس پر لگاتے، افترا کرتے اور اس کی غیبت کرتے اور دوسروں کو اس کے خلاف اکساتے ہیں۔ اب بتاؤ کہ معمولی دشمنی سے کس قدر برائیوں کا اور بدیوں کا وارث بنا اور پھر یہ بدیاں جب اپنے بچے دیں گی۔‘‘ تو پھر ایک کے بعد دوسری برائی آتی ہے جس طرح بچے دئیے جاتے ہیں ایک بدی دوسرا بچہ پیدا کر دیتی ہے۔ جب اپنے بچے دیں گی ’’تو کہاں تک نوبت پہنچے گی۔‘‘
فرمایا کہ ’’مَیں سچ کہتا ہوں کہ تم کسی کو اپنا ذاتی دشمن نہ سمجھو اور اس کینہ توزی کی عادت کو بالکل ترک کردو۔ اگر خدا تعالیٰ تمہارے ساتھ ہے اور تم خدا تعالیٰ کے ہو جاؤ تو وہ دشمنوں کو بھی تمہارے خادموں میں داخل کرسکتا ہے۔ لیکن اگر تم خدا ہی سے قطع تعلق کئے بیٹھے ہو اور اس کے ساتھ ہی کوئی رشتہ دوستی کا باقی نہیں۔ اس کی خلافِ مرضی تمہارا چال چلن ہے۔ پھر خدا سے بڑھ کر تمہارا دشمن کون ہو گا؟ مخلوق کی دشمنی سے انسان بچ سکتا ہے لیکن جب خدا دشمن ہو تو پھر اگر ساری مخلوق دوست ہو تو کچھ نہیں ہو سکتا۔ اس لئے تمہارا طریق انبیاء علیہم السلام کا سا طریق ہو۔ خدا تعالیٰ کا منشاء یہی ہے کہ ذاتی اعداء کوئی نہ ہوں۔‘‘ کوئی ذاتی دشمنی نہ ہو۔
فرمایا ’’خوب یاد رکھو کہ انسان کو شرف اور سعادت تب ملتی ہے جب وہ ذاتی طور پر کسی کا دشمن نہ ہو۔ ہاں اللہ اور اس کے رسول کی عزت کے لئے الگ امر ہے۔‘‘ اللہ اور رسول کی عزت کا سوال پیدا ہوتا ہے تو وہاں دشمنی پیدا ہو جاتی ہے۔ ’’یعنی جو شخص خدا اور اس کے رسول کی عزت نہیں کرتا بلکہ ان کا دشمن ہے اسے تم اپنا دشمن سمجھو۔ اس دشمنی سمجھنے کے یہ معنی نہیں ہیں‘‘ یہاں بھی وضاحت ہے کہ دشمن تو بیشک سمجھو لیکن اس کے یہ معنی نہیں ’’کہ تم اس پر افتراء کرو اور بلا وجہ اس کو دکھ دینے کے منصوبے کرو۔ نہیں، بلکہ اس سے الگ ہو جاؤ۔‘‘ دشمن ہے تو اس سے الگ ہو جاؤ ’’اور معاملہ خدا تعالیٰ کے سپرد کر و۔ ممکن ہو تو اس کی اصلاح کے لئے دعا کرو۔‘‘ ممکن ہو تو دشمن کی اصلاح کے لئے دعا کرو ’’اپنی طرف سے کوئی نئی بھاجی اس کے ساتھ شروع نہ کرو۔‘‘ یعنی اس کے ساتھ کوئی نیا جھگڑا شروع نہ کر دو۔
فرمایا کہ ’’یہ امور ہیں جو تزکیۂ نفس سے متعلق ہیں۔‘‘ حضرت علیؓ کا واقعہ بیان فرماتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’کہتے ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ ایک دشمن سے لڑتے تھے اور محض خدا (تعالیٰ) کے لئے لڑتے تھے۔ آخر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس کو اپنے نیچے گرا لیا اور اس کے سینے پر چڑھ بیٹھے۔ اس نے جھٹ حضرت علیؓ کے منہ پر تھوک دیا۔ آپ فوراً اس کی چھاتی پر سے اتر آئے اور اسے چھوڑ دیا۔ اس لئے کہ اب تک تو میں محض خدا تعالیٰ کے لئے تیرے ساتھ لڑتا تھا لیکن اب جبکہ تو نے میرے منہ پر تھوک دیا ہے تو میرے اپنے نفس کا بھی کچھ حصہ اس میں شریک ہوجاتا ہے۔ پس میں نہیں چاہتا کہ اپنے نفس کے لئے تمہیں قتل کروں۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اپنے نفس کے دشمن کو دشمن نہیں سمجھا۔‘‘ آپ فرماتے ہیں کہ ’’ایسی فطرت اور عادت اپنے اندر پیدا کرنی چاہئے۔‘‘ اپنے ماننے والوں کو آپ نے فرمایا۔ ’’اگر نفسانی لالچ اور اغراض کے لئے کسی کو دکھ دیتے اور عداوت کے سلسلوں کو وسیع کرتے ہیں تو اس سے بڑھ کر خدا تعالیٰ کو ناراض کرنے والی کیا بات ہو گی۔‘‘ (ملفوظات جلد 8 صفحہ 104-105۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس کسی ذاتی رنجش کی وجہ سے کسی کو دکھ نہیں دینا اور اللہ اور رسول کے دشمن کو اپنا دشمن سمجھو۔ وہاں سے اٹھ جاؤ۔ اس کے لئے دعا کرو۔ اس کی اصلاح کی کوشش کرو اور اس کے حملوں کا جواب دو جو جائز طریقے ہیں لیکن یہ نہیں کہ اس کی ہر بات کو برا سمجھتے ہوئے مکمل طور پر غلط طریقے سے دشمنوں سے دشمنی پہ اتر آؤ۔ یہ بھی غلط ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں تقویٰ کا حقیقی فہم اور اِدراک عطا فرمائے اور اپنا فضل فرماتے ہوئے ہماری نمازیں اور عبادتیں اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے والی ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حقوق العباد کی ادائیگی کی باریکی کو سمجھنے والا بنائے۔ ہمارا ہر فعل چاہے وہ دنیاوی ہو اس نیت سے ہو کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی رضا کو ہر حال میں حاصل کرنا اور مقدم رکھنا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔
آج بنگلہ دیش کا جلسہ سالانہ شروع ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بنگلہ دیش کی جماعت بھی بڑی مخلص جماعت ہے۔ یہ بھی وہ ملک ہے جس میں وہاں کے احمدیوں نے جان کی قربانی بھی دی ہے۔
اسی طرح سیرالیون میں بھی آج جلسہ سالانہ شروع ہوا ہے۔
ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ جس مقصد کے لئے یہ جلسے منعقد ہوتے ہیں اس مقصد کی روح کو ہم سمجھنے والے ہوں اور پھر حاصل کرنے والے ہوں، چاہے وہ دنیا کے کسی ملک میں ہے
دنیا کے ہر احمدی کو ہر وقت یہ مقصد اپنے سامنے رکھنا چاہئے کیونکہ یہ صرف تین دن کا مقصدنہیں ہے بلکہ ایک احمدی مسلمان کی تمام زندگی کا مقصد ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے ارشادات کے حوالہ سے جلسہ سالانہ کے بعض مقاصد کا تذکرہ اور اس حوالہ سے اہم نصائح۔
آج جبکہ اسلام کو ہر جگہ بدنام کیا جا رہا ہے خود مسلمان ممالک میں مسلمان مسلمان کے خون کا پیاسا ہے اور مسلمان کے عمل اسلام کی تعلیم سے دُور جا چکے ہیں ایسے میں ہم احمدیوں نے ہی دنیا کو اسلام کی خوبصورت تعلیم سے آگاہ کرنا ہے اور اس کے لئے سب سے ضروری چیز اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور جھک کر دعائیں کرنی ہیں۔ اپنے کاموں میں برکت کے لئے اللہ تعالیٰ سے ہی مانگنا ہے۔ اور پھر حسن اخلاق کے اپنے عملی نمونے بھی قائم کرنے ہیں تا کہ دنیا کو نظر آئے کہ اگر اسلام کی تعلیم کے مطابق عبادتوں کے اعلیٰ معیار دیکھنے ہیں تو احمدیوں میں دیکھو۔ اگر اسلام کی تعلیم کے مطابق حقوق العباد کے اور حُسنِ خُلق کے اعلیٰ معیار دیکھنے ہیں تو احمدیوں میں دیکھو۔
فرمودہ مورخہ 03فروری 2017ء بمطابق 03تبلیغ 1396 ہجری شمسی، بمقام مسجدبیت الفتوح، مورڈن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔