دوسروں کی کمزوریوں کی ٹوہ لگانا اور تشہیر: ستّاری اور استغفار کی طرف توجہ

خطبہ جمعہ 31؍ مارچ 2017ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔

اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

دنیا میں کوئی انسان نہیں جو ہر عیب سے ہر لحاظ سے پاک ہو۔ اللہ تعالیٰ کی صفت ستّار ہے جو ہماری پردہ پوشی کرتی ہے۔ اگر انسان کی غلطیوں کی، کوتاہیوں کی، گناہوں کی پردہ دری ہونے لگے تو کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہے۔ اللہ تعالیٰ جو ستّار العیوب ہے اور غفّار الذنوب ہے اس نے ہمیں یہ دعا بھی ہم پر احسان کرتے ہوئے سکھائی کہ تم جہاں اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں سے بچنے کی کوشش کرو وہاں استغفار بھی کیا کرو تو مَیں تمہارے گناہوں کو بھی معاف کروں گا۔ تمہاری پردہ پوشی کروں گا۔ تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا۔ ہر ایک کی بہت ساری باتوں کی عمومی پردہ پوشی تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مغفرت خاص طور پر ان لوگوں کو بھی اپنی چادروں میں لپیٹتی ہے جو استغفار کرنے والے ہیں۔ غَفَر کا مطلب بھی چھپانا اور ڈھانکنا ہوتا ہے اور یہی مطلب کم و بیش سَتر کا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ’’اسلام نے جو خدا پیش کیا ہے اور مسلمانوں نے جس خدا کو مانا ہے وہ رحیم کریم حلیم توّاب اور غفّار ہے۔ جو شخص سچی توبہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرتا ہے اور اس کے گناہ بخش دیتا ہے۔‘‘ فرمایا کہ ’’لیکن دنیا میں خواہ حقیقی بھائی بھی ہو یا کوئی اور قریبی عزیز اور رشتہ دار ہو وہ جب ایک مرتبہ قصور دیکھ لیتا ہے پھر وہ اس سے خواہ باز بھی آ جاوے(یعنی قصور کرنے والا باز بھی آجاوے) مگر اسے عیبی ہی سمجھتا ہے۔‘‘ پس دنیا والے اگر کوئی شخص گناہ اور کسی عیب کو چھوڑ بھی دے تب بھی اسے عیبی اور شک کی نظر سے دیکھنے والے ہیں۔ آپ نے فرمایا ’’لیکن اللہ تعالیٰ کیسا کریم ہے کہ انسان ہزاروں عیب کر کے بھی رجوع کرتا ہے تو بخش دیتا ہے‘‘۔ فرمایا’’دنیا میں کوئی انسان ایسا نہیں ہے بجز پیغمبروں کے (جو خداتعالیٰ کے رنگ میں رنگے جاتے ہیں۔) جو چشم پوشی سے اس قدر کام لے‘‘۔ (یعنی سوائے نبیوں کے جو اس قدر چشم پوشی کرے جتنی خدا تعالیٰ کرتا ہے۔ خدا تعالیٰ کے بعدنبی ہیں جو اتنا کر سکتے ہیں اور ان کے علاوہ کوئی نہیں کرتا)’’بلکہ عام طور پر تو یہ حالت ہے جو سعدی نے کہا ہے ’’خدا داند و بپوشد و ہمسایہ نداند و بخروشد‘‘ (ملفوظات جلد 7 صفحہ 178۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان) کہ خدا تعالیٰ تو جانتے ہوئے بھی پردہ پوشی کرتا ہے لیکن ہمسایہ تھوڑا سا علم ہو جائے تو اس کمزوری کی مشہوری کرنے لگ جاتا ہے‘‘۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سعدی کے شعر کے مصرعہ کا جو یہ حوالہ دیا ہے اس کی تشریح ایک جگہ اس طرح بھی فرمائی ہے کہ’’خدا تعالیٰ کی ستّاری ایسی ہے کہ وہ انسان کے گناہ اور خطاؤں کو دیکھتا ہے لیکن اپنی اس صفت کے باعث اس کی غلط کاریوں کو اس وقت تک جب تک کہ وہ اعتدال کی حد سے نہ گزر جاوے ڈھانپتا ہے۔ لیکن انسان کسی دوسرے کی غلطی دیکھتا بھی نہیں اور شور مچاتا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 1 صفحہ 299-300۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

آپ فرماتے ہیں۔ ’’پس غور کرو کہ اس کے کرم اور رحم کی کیسی عظیم الشان صفت ہے‘‘۔ آپ اللہ تعالیٰ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ’’اگر وہ (یعنی اللہ تعالیٰ) مؤاخذہ پر آئے تو سب کو تباہ کر دے لیکن اس کا کرم اور رحم بہت ہی وسیع ہے اور اس کے غضب پر سبقت رکھتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 7 صفحہ 179۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پس اگر اس بات کو ہم سمجھ لیں اور اپنے ساتھیوں، اپنے بھائیوں، اپنے سے واسطہ پڑنے والوں کے معاملات میں ہر وقت ٹوہ نہ لگاتے پھریں، تجسس نہ کریں، ان کی کمزوریوں کو تلاش نہ کرتے پھریں تو ایک پیار اور محبت کرنے والا اور پُر امن معاشرہ قائم ہو سکتا ہے۔ ہم میں سے بہت سے ایسے ہیں جو پردہ پوشی کی بجائے دوسروں کے عیب ظاہر کرنے کی کوشش میں ہوتے ہیں۔ اور جب ان کے اپنے متعلق کوئی بات کر دے یا کسی ذریعہ سے ان کو یہ پتا چل جائے کہ فلاں شخص نے میرے متعلق اس طرح بات کی تھی تو سیخ پا ہو جاتے ہیں۔ انتہائی غصہ میں آ کر مرنے مارنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ لیکن جب یہ خود کسی دوسرے کے متعلق کہہ رہے ہوں تو اس وقت کہتے ہیں کہ یہ تو معمولی بات تھی ہم نے تو یونہی کہہ دی۔ ہمیں ہر وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان اپنے سامنے رکھنا چاہئے کہ جو اپنے لئے چاہتے ہو وہی اپنے بھائی کے لئے چاہو۔ (صحیح البخاری کتاب الایمان باب من الایمان ان یحب لاخیہ ما یحب لنفسہ حدیث 13)

پس اگر اپنے لئے پردہ پوشی پسند ہے تو دوسروں کے لئے بھی وہی احساسات ہونے چاہئیں اور یہی وہ سنہری اصول ہے جو معاشرے کے امن کے لئے بھی ضروری ہے۔

پس عیب دیکھ کر بجائے اس عیب کو پھیلانے کے ہر ایک کو استغفار کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے اور اس بات سے ڈرنا چاہئے کہ ہمارے اندر بھی جو بے شمار عیب ہیں وہ کہیں ظاہر نہ ہو جائیں۔ اگر نیک نیت سے انسان دوسروں کے عیبوں کی پردہ پوشی کرے تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے والا بنتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اگر خدا تعالیٰ مؤاخذہ پر آئے حساب کتاب لینے لگے تو سب کو تباہ کر دے۔ پس بڑے خوف کا مقام ہے اور ہر وقت استغفار کرتے رہنے کی طرف توجہ کی ضرورت ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا کہ جس نے اپنے مسلمان بھائی کے کسی عیب کی پردہ پوشی کی اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے عیب کو ڈھانپ دے گا۔ اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔ اسے ڈھانپ دے گا اور ستّاری فرمائے گا۔ اور جو اپنے کسی مسلمان بھائی کی پردہ دری کرتا ہے۔ اس کی برائیاں کرتا ہے۔ اس کی برائی کو دیکھ کر لوگوں کو بتاتا پھرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے عیب اور ننگ کو اسی طرح ظاہر کرے گا کہ اس کے گھر میں اس کو رسوا کر دے گا۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الحدود باب الستر علی المؤمن … الخ حدیث 2546)

پس یہ بڑا سخت انذار ہے۔ خوف کا مقام ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے کے لئے ہمیشہ دوسروں کے عیب دیکھنے کی بجائے اپنے پر نظر رکھنی چاہئے۔ تبھی ہم اللہ تعالیٰ کے رحم اور فضل کو جذب کر سکتے ہیں۔ لوگ کہہ دیتے ہیں کہ اگر ہم کسی میں برائی دیکھ کر ظاہر نہیں کریں گے تو اصلاح کس طرح ہو گی۔ ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اگر کسی کی کوئی برائی نظام جماعت کو نقصان پہنچانے کا ذریعہ بن رہی ہے یا معاشرے کے ایک طبقہ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے کر خراب کر رہی ہے تو پھر اصلاح کے لئے جو لوگ مقرر ہیں، امیر جماعت ہے، جماعت کے اندر صدر جماعت ہے، ان تک بات پہنچا دیں یا مجھے لکھ دیں تا کہ اصلاح کی طرف توجہ ہو۔ اللہ تعالیٰ بھی نہیں چاہتا کہ اس کی بنائی ہوئی جماعت کا نظام خراب ہو۔ وہ نہیں چاہتا کہ ایک انفرادی برائی معاشرے کی عام برائی بن جائے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے ننگ ظاہر کر دیتا ہے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ’’جو اس بات پر قائم رہتے ہیں اور ضد کرتے ہیں کہ جو گناہ انہوں نے کیا ہے یا غلطیاں کی ہیں ان کو پھیلانا ہے اور ظاہر بھی کرنا ہے یا کرتے چلے جانا ہے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نےفرمایا کہ انسان کے گناہوں اور خطاؤں کو اللہ تعالیٰ دیکھتا ہے لیکن اپنی صفت کے باعث خطاکاریوں کو اس وقت تک جبتک کہ اعتدال کی حد سے نہ گزر جائے ڈھانپتا ہے۔ پس جب انسان خود ہی اپنے آپ کو ظاہر کر دے اور اعتدال کی حدوں سے باہر نکلنے لگے تو پھر اللہ تعالیٰ کی پکڑ کی صفت بھی کام کرتی ہے۔ اور پھر اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو اس دنیا میں بھی پکڑتا ہے اور اگلے جہان کی بھی سزا ہے۔

لیکن کسی کی برائی دیکھ کر اس کی تشہیر کرنا اس کو پھیلانا بہرحال منع ہے کیونکہ اس سے برائیاں بجائے ختم ہونے کے پھیلتی ہیں۔ اس بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تُو لوگوں کی کمزوریوں کے پیچھے پڑے گا تو انہیں بگاڑ دے گا۔ (سنن ابی داؤد کتاب الادب باب فی التجسس حدیث 4888)

کمزوریوں کے پیچھے پڑنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کو جگہ جگہ بیان کرنا، تجسّس کر کے ان کی کمزوریوں کی تلاش کرنا۔ اگر انسان اس طرح کرے تو ان لوگوں کو بگاڑے گا اور معاشرے کے امن کو بھی خراب کرے گا اور پھر جب یہ باتیں جگہ جگہ لوگوں میں بیان کی جائیں تو پھر ایسے لوگ جن میں یہ برائیاں ہیں ان میں اصلاح کی بجائے ضد پیدا ہو جاتی ہے اور پھر ضد میں آ کر وہ دوسروں کو بھی اپنے جیسا بنانے کی کوشش کرتے ہیں، اپنے حلقے کو وسیع کرتے جاتے ہیں۔ حجاب ختم ہو جاتا ہے۔ اور جب حجاب ختم ہو جائے تو اصلاح کا پہلو بھی ختم ہو جاتا ہے۔

پس یہاں مَیں ان لوگوں کو بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں جن کے سپرد جماعتی کام بھی ہیں خاص طور پر اصلاح کرنے والا شعبہ کہ انتہائی احتیاط سے اور ہمدردی کے جذبات رکھتے ہوئے اصلاح کے کام کریں۔ کبھی کسی بھی فرد کو یہ احساس نہیں ہونا چاہئے کہ میری کمزوری کی فلاں عہدیدار کی وجہ سے پردہ دری ہوئی، تشہیر ہوئی، لوگوں کو پتا لگا۔ اگر یہ احساس پیدا ہو جائے تو پھر اس کا ردّعمل بہت زیادہ سخت ہوتا ہے۔ ایسے لوگ جن کے سپرد اصلاح کا یہ کام ہے وہ جہاں لوگوں کی پردہ دری کر کےمعاشرے میں بگاڑ پیدا کر رہے ہوتے ہیں وہاں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی بھی مول لے رہے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے تو تمہیں جماعتی خدمت کا موقع دیا تھا اس لئے کہ میری صفات کو زیادہ سے زیادہ اپناؤ۔ لیکن یہاں تو تم میری ستاری کی صفت سے الٹ چل کر بے چینیاں اور فساد پیدا کرنے کا موجب بن رہے ہو۔ اللہ تعالیٰ ستّاری کو کتنا پسند کرتا ہے اور ستّاری کرنے والے کو کس قدر نوازتا ہے۔ اس بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا کہ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ وہ اس پر ظلم نہیں کرتا اور نہ اسے یکا و تنہا چھوڑتا ہے۔ مسلمانوں کی یہ کس قدر بد قسمتی ہے کہ آجکل ہم دیکھتے ہیں کہ سب سے زیادہ مسلمان ہیں جو مسلمانوں پر ظلم کر رہے ہیں۔ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹ رہے ہیں اور کوئی نہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد پر توجہ دے۔ بہرحال پھر آپ نے آگے یہ بھی فرمایا کہ جو شخص اپنے بھائی کی حاجت روائی میں لگا رہتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی حاجات پوری کرتا ہے اور جس نے کسی مسلمان کی تکلیف دُور کی اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مصائب میں سے اس کی ایک مصیبت کم کر دے گا اور جو کسی مسلمان کی ستّاری کرتا ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اس کی ستاری فرمائے گا۔ (صحیح البخاری کتاب المظالم والغضب باب لا یظلم المسلم المسلم ولا یسلمہ حدیث 2442)

پس اس رحیم اور کریم خدا کے رحم اور کرم کو جذب کرنے کے لئے ستاری اور پردہ پوشی انتہائی ضروری ہے۔

پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ایک موقع پر فرمایا کہ کوئی بندہ دوسرے بندے کی اس دنیا میں پردہ پوشی نہیں کرتا مگر اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔ (صحیح مسلم کتاب البر والصلۃ والآدب باب بشارۃ من ستر اللہ تعالیٰ … الخ حدیث 6595) یعنی اللہ تعالیٰ پردہ پوشی کرنے والے کو بغیر نوازے، بغیر اجر کے نہیں چھوڑتا۔ کسی نے اگر اللہ تعالیٰ کے کسی بندے کی پردہ پوشی کی تو پھر وہ اس کے کھاتے میں لکھی گئی۔ اس کے حساب میں لکھی گئی کہ میرے بندے نے یہ نیک کام کیا اور قیامت کے دن پھر وہ اس کا اجر پائے گا۔ اللہ تعالیٰ اس سے چشم پوشی فرمائے گا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ تو اپنے بندے پر اس حد تک مہربان ہے، اپنا سایہ رحمت اس قدر ڈالتا ہے کہ ایک روایت میں آتا ہے کہ وہ بندے سے پوچھے گا کہ فلاں کام تُو نے کیا تھا تو بندہ کہے گا ہاں میرے رب میں نے کیا ہے یا کیا تھا۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں نے اس دنیا میں تیری کمزوریوں کی پردہ پوشی کی۔ دنیا کو پتا نہیں چلا کہ تُو نے غلط کام کئے۔ اب آج قیامت کے دن بھی میں تیری پردہ پوشی کرتا ہوں اور تجھے معاف کرتا ہوں۔ (صحیح البخاری کتاب المظالم والغضب باب قول اللہ تعالیٰ الا لعنۃ اللہ علی الکاذبین حدیث 2441)

تو اللہ تعالیٰ تو اس طرح بندے سے سلوک کرتا ہے۔ پس اگر ہم نے اللہ تعالیٰ کی صفت ستّاری سے فیض اٹھانا ہے تو خود بھی دوسروں کی ستاری کی ضرورت ہے۔ کسی کو یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ میں برائیوں سے پاک ہوں اور دوسرے میں برائیاں ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جس نے ہماری ستّاری کی ہوئی ہے۔

پس جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک موقع پر فرمایا اور ہمیں اس بات کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے۔ فرمایا کہ’’اصل میں انسان کی خدا تعالیٰ پردہ پوشی کرتا ہے کیونکہ وہ ستّار ہے۔ بہت سے لوگوں کو خداتعالیٰ کی ستّاری نے ہی نیک بنا رکھا ہے۔‘‘ (بہت سے لوگوں کو خدا تعالیٰ کی ستاری نے ہی نیک بنا رکھا ہے) ’’ورنہ اگر خدا تعالیٰ ستّاری نہ فرماوے تو پتا لگ جاوے کہ انسان میں کیا کیا گند پوشیدہ ہیں‘‘۔

پس یہ ہے وہ بات جسے ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے اور اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے جہاں انسان استغفار کرے اور اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی مغفرت کی چادر میں لپٹنے کی کوشش کرے، اس سے مغفرت مانگے وہاں اپنے پر نظر رکھتے ہوئے دوسروں کی کمزوریوں سے بھی صَرفِ نظر کرے۔ اپنے گریبان میں دیکھے اور دوسروں کی کمزوریوں کو باہر نکالنے کی کوشش نہ کرے بلکہ پہلے اپنا جائزہ لے کہ میں کیا ہوں اور ہمیشہ یہ سوچے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے میری پردہ پوشی فرمائی ہے اسی طرح میں نے دوسروں کی پردہ پوشی کرنی ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک موقع پر فرماتے ہیں کہ: ’’انسان کے ایمان کا بھی کمال یہی ہے کہ تخلّق باخلاق اللہ کرے۔ یعنی جو جو اخلاق فاضلہ خدا (تعالیٰ) میں ہیں اور صفات ہیں ان کی حتی المقدور اتباع کرے اور اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے رنگ میں رنگین کرنے کی کوشش کرے۔‘‘ فرمایا کہ ’’مثلاً خدا تعالیٰ میں عفو ہے انسان بھی عفو کرے۔‘‘ دوسروں کو معاف کرنے کی عادت ڈالے۔ ’’رحم ہے۔ حلم ہے۔ کرم ہے۔ انسان بھی رحم کرے، حلم کرے، لوگوں سے کرم کرے۔‘‘ فرمایا ’’خداتعالیٰ ستّار ہے انسان کو بھی ستّاری کی شان سے حصہ لینا چاہئے اور اپنے بھائیوں کے عیوب اور معاصی کی پردہ پوشی کرنی چاہئے۔‘‘ (عیبوں اور گناہوں کی پردہ پوشی کرنی چاہئے۔) فرمایا کہ ’’بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ جب کسی کی کوئی بدی یا نقص دیکھتے ہیں جب تک اس کی اچھی طرح تشہیر نہ کر لیں‘‘ (اسے پھیلا نہ دیں) ’’ان کو کھانا ہضم نہیں ہوتا‘‘۔ فرمایا ’’حدیث میں آیا ہے جو اپنے بھائی کے عیب چھپاتا ہے خدا تعالیٰ اس کی پردہ پوشی کرتا ہے۔ انسان کو چاہئے شوخ نہ ہو۔ بے حیائی نہ کرے۔ مخلوق سے بدسلوکی نہ کرے۔ محبت اور نیکی سے پیش آوے۔‘‘ (ملفوظات جلد 10 صفحہ 339-340۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں کسی کی کمزوریوں کا ذکر ہوا (کہ فلاں شخص میں یہ یہ کمزوری ہے) تو آپ نے اس (بات کو سن کر) بات کرنے والے کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اس کے نقائص تو (تم) نے بیان کر دئیے۔ (بڑے جوش سے اس کے نقص بیان کر رہے ہو، ) اس کی کمزوریاں تو (تم نے) گِنوا دیں۔ اچھا ہوتا اگر اس کی خوبیوں کا بھی ذکر کیا ہوتا۔‘‘ (ماخوذ از ذکر حبیب صفحہ 57)

آخر اس میں کچھ خوبیاں بھی تو ہوں گی ان کا بھی تو ذکر کرتے۔ پس معاشرے کی برائیوں کو دُور کرنے اور امن اور پیار اور محبت پھیلانے کے لئے ضروری ہے کہ برائیوں کی پردہ پوشی کی جائے اور خوبیوں کو ظاہر کیا جائے۔ خوبیوں کو ظاہر کرنے سے نیکیوں کی بھی تحریک پیدا ہوتی ہے۔ ایک حقیقی مسلمان کا کردار یہی ہونا چاہئے کہ معاشرے میں نیکیاں پھیلائے۔ صرف زبان کے مزے اور عارضی بناوٹی خوشی کے لئے یا اس خوشی کا ماحول پیدا کرنے کے لئے دوسروں کی برائیوں کی تشہیر انتہائی بڑا گناہ ہے۔ مجلس میں ایک استہزاء کا رنگ پیدا کر کے لوگوں کا استہزاء کرنا یہ بہت بڑا گناہ ہے جس سے ہر احمدی کو بچنا چاہئے۔ ہم نے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آکر یہ عہد بیعت کیا کہ کسی طرح سے بنی نوع انسان کو تکلیف نہیں دینی، نہ ہاتھ سے، نہ زبان سے تو اس کی پابندی کرنی ضروری ہے۔ (ماخوذ از ازالہ اوہام جلد 3 صفحہ 564)

زبان کے زخم بڑی دیر تک رہتے ہیں۔ لوگوں کا استہزاء، ان کی پردہ دری کے اثرات بعض دفعہ ہمیشہ رہتے ہیں۔ پس ہمیں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے اور اپنے بھائی کے لئے سچی ہمدردی اور خیر خواہی ہمارے دل میں ہونی چاہئے اور سچی ہمدردی اور خیر خواہی کا اظہار تبھی ہو سکتا ہے جب اپنے بھائیوں کی کمزوریوں پر پردہ ڈالا جائے۔ ان کی باتوں کی پردہ دری نہ کبھی مذاق میں کی جائے نہ سنجیدگی سے کی جائے۔ ہاں کسی کی کمزوری دیکھ کر سچی ہمدردی کا یہ بھی تقاضا ہے کہ اس کی اصلاح کی کوشش کی جائے تا کہ وہ برائی یا کمزوری اس شخص میں سے ختم ہو جائے اور اگر اس برائی کا ماحول پر اثر قائم ہو سکتا ہے یا بداثرات پڑ سکتے ہیں تو پھر ماحول کو بھی بچایا جا سکے اور یہی نیکی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے والی ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس سلسلے میں ہم میں کیا دیکھنا چاہتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ: ’’چاہئے کہ جسے کمزور پاوے اسے خفیہ نصیحت کرے۔‘‘ (خاموشی سے علیحدہ ہو کر اسے نصیحت کرو۔)’’اگر نہ مانے تو اس کے لئے دعا کرے۔‘‘ (نصیحت کرو مان لے تو ٹھیک۔ نہیں مانتا تو اس کے لئے دعا کرو۔) ’’اور اگر دونوں باتوں سے فائدہ نہ ہو۔‘‘ (نہ نصیحت سے فائدہ ہوا نہ دعا سے فائدہ ہوا تو پھر کیا کرنا ہے۔ فرمایا کہ پھر اسے ’’قضاء و قدر کا معاملہ سمجھے‘‘۔ (یہ سمجھو بس یہی اللہ تعالیٰ کی مرضی ہے۔)’’جب خدا تعالیٰ نے ان کو قبول کیا ہوا ہے تو تم کو چاہئے کہ کسی کا عیب دیکھ کر سر دست جوش نہ دکھلایا جاوے‘‘۔ (اللہ تعالیٰ نے اسے قبول کیا، اسے توفیق دی کہ اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مانا، جماعت میں شامل کیا، اس برائی کی وجہ سے اس کی جتنی بدنامی تمہارے خیال میں ہونی چاہئے تھی وہ نہیں ہو رہی اور کسی رنگ میں اس کی پردہ پوشی ہو رہی ہے۔ صرف تمہیں ہی اس کا علم ہوا ہے تو پھر تمہیں بھی جوش دکھانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ خاموشی سے بیٹھے رہو۔ اللہ تعالیٰ خود ہی اس کی اصلاح کا کوئی ذریعہ پیدا کر دے گا۔)فرمایا کہ ’’ممکن ہے کہ وہ درست ہو جاوے‘‘۔ وہ کسی وقت درست ہو جائے گا۔ پس اس سے پتا لگتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نزدیک کسی کا احمدی ہونا اور آپ کی بیعت میں آنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے قبول کیا ہے اور جب اللہ تعالیٰ نے اسے قبول کر لیا ہے تو پھر کسی دوسرے کا حق نہیں بنتا کہ اس کے ذاتی نقائص کو تلاش کر کے ان کو پھیلایا جائے۔ ٹوہ میں لگا جائے۔ تجسس کیا جائے اور پھر وہ برائیاں پھیلائی جائیں یا اس کے بارے میں لوگوں کے سامنے بیزاری کا اظہار بھی کیا جائے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا۔ ممکن ہے وہ درست ہو جائے۔ آپ ایک جگہ بلکہ اسی تسلسل میں فرماتے ہیں کہ: ’’قطب اور ابدال سے بھی بعض وقت کوئی عیب سرزد ہو جاتا ہے‘‘۔ (بڑے بڑے قطب اور ابدال جو ہیں ان سے بھی عیب ہو جاتے ہیں۔) فرمایا کہ ’’بلکہ لکھا ہے اَلْقُطْبُ قَدْ یَزْنِیْ کہ قطب سے بھی زنا ہو جاتا ہے۔‘‘ فرمایا: ’’بہت سے چور اور زانی آخر کار قطب اور ابدال بن گئے‘‘۔ آپ فرماتے ہیں ’’جلدی اور عجلت سے کسی کو ترک کر دینا ہمارا طریق نہیں ہے‘‘۔ (جلدی اور عجلت سے کسی کو ترک کر دینا ہمارا طریق نہیں۔) ’’کسی کا بچہ خراب ہو تو اس کی اصلاح کے لئے وہ پوری کوشش کرتا ہے۔ ایسے ہی اپنے کسی بھائی کو ترک نہ کرنا چاہئے۔‘‘ (جس طرح بچے کے لئے کوشش کرتے ہو اسی طرح اپنے بھائیوں کے عیبوں کو دور کرنے کے لئے بھی کوشش کرو۔ کوشش بھی اور دعا بھی) ’’بلکہ اس کی اصلاح کی پوری کوشش کرنی چاہئے‘۔ فرمایا ’’قرآن کریم کی یہ تعلیم ہرگز نہیں ہے کہ عیب دیکھ کر اسے پھیلاؤ اور دوسروں سے تذکرہ کرتے پھرو۔ بلکہ وہ فرماتا ہے تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَۃِ(البلد:18) کہ وہ صبر اور رحم سے نصیحت کرتے ہیں‘‘۔ فرمایا کہ’’مَرحمہ یہی ہے کہ دوسرے کے عیب دیکھ کر اسے نصیحت کی جاوے اور اس کے لئے دعا بھی کی جاوے۔‘‘ فرمایا ’’دعا میں بڑی تاثیر ہے اور وہ شخص بہت ہی قابل افسوس ہے کہ ایک کے عیب کو بیان تو سو مرتبہ کرتا ہے لیکن دعا ایک مرتبہ بھی نہیں کرتا۔ عیب کسی کا اُس وقت بیان کرنا چاہئے جب پہلے کم از کم چالیس دن اس کے لئے رو رو کر دعا کی ہو‘‘۔ (بیان کرنے سے یہ بھی مرادنہیں کہ عیب بیان کرنا چاہئے۔ اس کی تشہیر کی اجازت مل گئی۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ اصلاح کرنے والوں کو بھی اگر شکایت کرنی ہے تو پہلے اپنی کوشش اور دعا کر لو پھر شکایت کرو) آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’…….ہمارا یہ مطلب نہیں ہے کہ عیب کے حامی بنو۔‘‘ (اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ عیب دیکھو اور اس کے حامی بن جاؤ کہ بڑا اچھا کیا۔ اس میں عیب، نقص ہے اور کمزوریاں ہیں تو بہت اچھا ہے۔ اس کا حامی نہیں بننا۔)’’بلکہ یہ کہ (اس کی) اشاعت اور غیبت نہ کرو‘‘۔ (اس عیب کو دیکھ کر نہ پھیلاؤ۔ نہ لوگوں کے سامنے بتاؤ، نہ پیچھے بتاؤ۔) ’’کیونکہ کتاب اللہ میں جیسا آ گیا ہے تو یہ گناہ ہے کہ اس کی اشاعت اور غیبت کی جاوے‘‘۔ آپ فرماتے ہیں کہ ’’شیخ سعدی کے دو شاگرد تھے۔ ایک ان میں سے حقائق اور معارف بیان کیا کرتا تھا۔‘‘ (بڑا لائق تھا۔ اس کو علم و فضل حاصل تھا۔ بڑے حقائق اور معارف بیان کیا کرتا تھا) ’’دوسرا جلا بھنا کرتا تھا۔‘‘ (اس میں اتنی لیاقت نہیں تھی۔ وہ اس پر جلتا بھنتا رہتا تھا یعنی ایک شاگرد تو بڑا ہوشیار تھا دوسرا کم ہوشیار اور جو کم تھا جیسا کہ میں نے کہا وہ ہوشیار کے علم پر جلتا کڑھتا رہتا تھا۔) ’’آخر پہلے نے سعدی سے بیان کیا کہ جب مَیں کچھ بیان کرتا ہوں تو دوسرا جلتا ہے اور حسد کرتا ہے۔ (اس پر) شیخ (سعدی) نے جواب دیا کہ ایک نے راہ دوزخ کی اختیار کی کہ حسد کیا۔‘‘ (ایک تو حسد کر کے دوزخ کے رستے پر چل پڑا) ’’اور تُو نے غیبت کی‘‘۔ اب یہ بھی کوئی نیکی کی بات نہیں جو تو مجھے بتا رہا ہے۔ غیبت کر کے تم بھی دوزخ کے رستے کی طرف چل پڑے۔ پس دونوں ہی گنہگار ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس واقعہ کو بیان فرما کر فرماتے ہیں کہ ’’…… یہ سلسلہ چل نہیں سکتا جب تک رحم، دعا، ستّاری اور مرحمہ آپس میں نہ ہو‘‘۔ (ملفوظات جلد 7 صفحہ 78-79۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پس ایک طرف تو ہم یہ عہد کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں آ کر ہم اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔ دوسری طرف ہم اگر دنیادار معاشرے کے زیر اثر آ گئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی صفات اور احکامات کو اپنے پر لاگو کرنے کی کوشش نہیں کر رہے تو ہم اپنے عہد کو پورا نہ کر کے گنہگار ہو رہے ہیں۔ ہم وہ نہیں بن رہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمیں بنانا چاہتے ہیں۔ آپ ہمیں کیا دیکھنا چاہتے ہیں؟ یہی کہ ہم آپس میں ایک دوسرے کے لئے رحم پیدا کریں۔ ایک دوسرے کے لئے دعا کرنے والے ہوں۔ ایک دوسرے کی ستّاری کرنے والے ہوں۔ ایک موقع پر آپ نے فرمایا کہ: ’’ہماری جماعت کو چاہئے کہ کسی بھائی کا عیب دیکھ کر اس کے لئے دعا کریں۔ لیکن اگر وہ دعا نہیں کرتے اور اس کو بیان کر کے دُور سلسلہ چلاتے ہیں تو گناہ کرتے ہیں‘‘۔ فرمایا کہ ’’کون سا ایسا عیب ہے جو کہ دُور نہیں ہو سکتا۔ اس لئے ہمیشہ دعا کے ذریعہ سے دوسرے بھائی کی مدد کرنی چاہئے۔‘‘ (ملفوظات جلد 7 صفحہ 77-78۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان) اور جب ہم اس طرح ایک دوسرے کی مدد کریں گے اور بجائے ایک دوسرے کے عیب نکالنے اور دوسروں کی پردہ دری کرنے کے ایک دوسرے کے لئے دعا کر رہے ہوں گے تو تبھی ہم وہ حقیقی جماعت بن سکتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام بنانا چاہتے ہیں اور یہی ایک حقیقی مسلمان کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے مطابق حالت ہونی چاہئے اور یہی حالت ہے جو ہماری بخشش اور مغفرت اور ستاری کا ذریعہ بھی بنتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی عافیت میں آنے اور اس کے فضلوں کو جذب کرنے کے لئے ایک دعا بھی سکھائی ہے جسے ہمیں کرتے رہنا چاہئے۔ دعا یہ ہے کہ: ’’اے اللہ! میں تجھ سے دنیا و آخرت میں عافیت کا طلبگار ہوں۔ مولیٰ! میں تجھ سے دین و دنیا، مال اور گھر بار میں عفو اور عافیت کا خواستگار ہوں۔ اے اللہ میری کمزوریاں ڈھانپ دے اور مجھے میرے خوفوں سے امن دے۔ اے اللہ! آگے پیچھے دائیں بائیں اور اوپر سے خود میری حفاظت فرمااور میں تیری عظمت کی پناہ چاہتا ہوں کہ میں نیچے سے کسی مخفی مصیبت کا شکار ہوں‘‘۔ (سنن ابو داؤد کتاب الادب باب ما یقول اذا اصبح حدیث 5074)

پس جب یہ دعا ہم اپنے لئے کریں تو دوسروں کے لئے بھی ایسے ہی جذبات رکھنے والے ہوں اور جب یہ حالت ہو جائے تو اللہ تعالیٰ پھر دعائیں قبول بھی فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم اس کی رضا کو حاصل کرنے والے بنیں۔

نماز کے بعد مَیں ایک جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا جو مکرم ملک سلیم لطیف صاحب ایڈووکیٹ۔ صدر جماعت ننکانہ صاحب (پاکستان) کا ہے۔ یہ مکرم ملک محمد شفیع صاحب کے بیٹے تھے۔ 70سال ان کی عمر تھی۔ کَل 30؍مارچ 2017ء صبح تقریباً 9 بجے گھر سے اپنے بیٹے کے ہمراہ کچہری جاتے ہوئے راستہ میں ایک معاند احمدیت نے فائرنگ کر کے انہیں شہید کر دیا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ شہید مرحوم کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ شہید مرحوم کے والد مکرم محمد شفیع صاحب کے دو ماموں حضرت حافظ نبی بخش صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت جمال دین صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے ہوا تھا۔ ان کا تعلق چک سعد اللہ نزد قادیان سے تھا۔ شہید مرحوم کے والد صاحب پیدائشی احمدی تھے۔ پارٹیشن سے قبل ہی ننکانہ صاحب آ کر آباد ہو گئے۔ شہید مرحوم 1948ء میں ننکانہ صاحب میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم ننکانہ صاحب میں حاصل کی اور لاہور سے ایل۔ ایل۔ بی کرنے کے بعد 1967ء سے بحیثیت وکیل پریکٹس کا آغاز کیا۔ وقوعہ کے مطابق شہید مرحوم اپنے بیٹے محمد فرحان ایڈووکیٹ کے ہمراہ صبح 9 بجے کورٹ جانے کے لئے موٹر سائیکل پر روانہ ہوئے۔ ان کا بیٹا موٹر سائیکل چلا رہاتھا۔ وہاں ایک چوک بازار بیری والا ہے اس کے قریب جب یہ پہنچے تو ایک شخص نے ان کو رکنے کا اشارہ کیا۔ موڑ کی وجہ سے موٹر سائیکل پہلے ہی نسبتاً آہستہ تھی۔ اسی دوران مذکورہ شخص نے اپنی بندوق سے فائر کیا جو شہید مرحوم کے دائیں جانب پسلی میں لگا اور دوبارہ لوڈ کر کے پھر پُشت پر فائر کیا۔ شہید مرحوم موٹر سائیکل سے گر گئے۔ اس دوران حملہ آور نے بیٹے پر بھی فائر کیا جو بیٹے کو نہ لگا۔ اس کے بعد بھی مسلسل فائرنگ کی کوشش کرتا رہا۔ ان کا بیٹا جو وہاں موجود تھا وہ تو اونچی آواز میں کلمہ پڑھتا رہا لیکن لوگ جو قریب کھڑے تھے ان میں سے کسی نے آگے بڑھ کے روکنے کی کوشش نہیں کی تماشا دیکھتے رہے کیونکہ دوبارہ اس سے پھر گن لوڈ نہیں ہوئی اور فائر نہیں ہوئے تو اس پر حملہ آور فرار ہو گیا۔ لیکن اسی دوران میں زخمی حالت میں شہید مرحوم شہید ہو چکے تھے۔ شہید کے والد صاحب پارٹیشن کے وقت تحصیلدار کے ریڈر تھے جس کی بناء پر شہید مرحوم کے والدنے پارٹیشن کے بعد متعدد احمدی خاندانوں کو ننکانہ میں آباد کیا۔ ان کی بڑی مدد کی۔ ننکانہ کا ایک علاقہ احمدیوں سے آباد کیا جس کا نام کوچہ احمدیہ رکھا ہوا تھا۔ بہرحال بعد میں 1974ء میں جب جماعت کے خلاف وہاں قانون پاس ہوا تو مخالفین کے دباؤ پر اس کوچہ احمدیہ کا نام تبدیل کر کے پھر قذافی سٹریٹ رکھ دیا گیا۔ شہید مرحوم کو 1977ء سے تا دم شہادت سوائے تین سال کے بحیثیت صدر جماعت ننکانہ صاحب خدمت کی توفیق ملی۔ مرحوم بیشمار خوبیوں کے مالک تھے۔ ملنساری اور مہمان نوازی اور خصوصاً مرکزی مہمانوں کی خدمت کے علاوہ غریبوں سے ہمدردی کا وصف نمایاں تھا۔ ہمیشہ ہر ایک کی مدد کو تیار رہتے۔ نمازوں کے پابند اور خلافت سے والہانہ لگاؤ تھا۔ نڈر اور دلیر انسان تھے۔ احباب جماعت کے ہمراہ انہیں بھی شدید مخالفانہ حالات کا سامنا رہا۔ 1989ء میں بیشتر احمدی گھرانوں کو مخالفین نے جلا دیا اور لوٹ لیا جس میں شہید مرحوم کا گھر بھی شامل تھا۔ ان تمام مخالفانہ حالات کے باوجود آپ ہمیشہ ثابت قدم رہے اور مخالفین کا مردانہ وار مقابلہ کرتے رہے۔ 2010ء میں مقامی احمدیہ مسجد کی تعمیر میں ان کو بھرپور خدمت کی توفیق ملی۔ شہید مرحوم کی اہلیہ محترمہ کو بھی لمبا عرصہ صدر لجنہ کی توفیق ملی۔ چند سال پہلے ان کی وفات ہو گئی تھی۔ شہید مرحوم کے سسر ملک محمد دین صاحب مرحوم تھے جو معروف جماعتی مقدمہ ساہیوال میں نامزد تھے اور اسیری کے دوران ہی جیل میں وفات پا گئے تھے۔ شہید مرحوم کے پسماندگان میں دو بیٹے ملک محمد اویس جو سول جج لاہور ہیں اور محمد فرحان ایڈووکیٹ ہیں۔ یہ اس وقت وہاں خدام الاحمدیہ کے قائد بھی ہیں اور ایک بیٹی ڈاکٹر ثمرہ وقار صاحبہ ہیں جو لاہور میں ہیں۔ اور ان کے تین بھائی ہیں اور تین بہنیں ہیں۔ ایک بھائی ملک محمدنسیم صاحب یہیں لندن میں ہیں۔ شہید مرحوم کے والد صاحب اور ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کی والدہ کی آپس میں رشتہ داری بھی تھی۔ شہید مرحوم اور ان کی فیملی کی خواہش کے پیش نظر ان کے آبائی علاقہ ساہیوال میں ان کی تدفین عمل میں آئی ہے۔

اللہ تعالیٰ شہید کے درجات بلند کرے اور ان کی اولاد کو بھی ان کے نقش قدم پر چلائے۔ نیکیوں میں آگے بڑھاتا چلا جائے اور مخالفین احمدیت اور دشمنا ن کے بھی جلد پکڑ کے سامان پیدا فرمائے۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • پاؤر پوائنٹ PowerPoint
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 31؍ مارچ 2017ء شہ سرخیاں

    دنیا میں کوئی انسان نہیں جو ہر عیب سے ہر لحاظ سے پاک ہو۔ اللہ تعالیٰ کی صفت ستّار ہے جو ہماری پردہ پوشی کرتی ہے۔ اگر انسان کی غلطیوں کی، کوتاہیوں کی، گناہوں کی پردہ دری ہونے لگے تو کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہے۔ اللہ تعالیٰ جو ستّار العیوب ہے اور غفّار الذنوب ہے اس نے ہمیں یہ دعا بھی ہم پر احسان کرتے ہوئے سکھائی کہ تم جہاں اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں سے بچنے کی کوشش کرو وہاں استغفار بھی کیا کرو تو مَیں تمہارے گناہوں کو بھی معاف کروں گا۔ تمہاری پردہ پوشی کروں گا۔ تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا۔

    عیب دیکھ کر بجائے اس عیب کو پھیلانے کے ہر ایک کو استغفار کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے اور اس بات سے ڈرنا چاہئے کہ ہمارے اندر بھی جو بے شمار عیب ہیں وہ کہیں ظاہر نہ ہو جائیں۔ اگر نیک نیت سے انسان دوسروں کے عیبوں کی پردہ پوشی کرے تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے والا بنتا ہے۔

    کبھی کسی بھی فرد کو یہ احساس نہیں ہونا چاہئے کہ میری کمزوری کی فلاں عہدیدار کی وجہ سے پردہ دری ہوئی، تشہیر ہوئی، لوگوں کو پتا لگا۔ اگر یہ احساس پیدا ہو جائے تو پھر اس کا ردّعمل بہت زیادہ سخت ہوتا ہے۔ ایسے لوگ جن کے سپرد یہ اصلاح کا کام ہے وہ جہاں لوگوں کی پردہ دری کر کےمعاشرے میں بگاڑ پیدا کر رہے ہوتے ہیں وہاں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی بھی مول لے رہے ہوتے ہیں۔ اگر ہم نے اللہ تعالیٰ کی صفت ستّاری سے فیض اٹھانا ہے تو خود بھی دوسروں کی ستّاری کی ضرورت ہے۔ معاشرے کی برائیوں کو دُور کرنے اور امن اور پیار اور محبت پھیلانے کے لئے ضروری ہے کہ برائیوں کی پردہ پوشی کی جائے اور خوبیوں کو ظاہر کیا جائے۔ خوبیوں کو ظاہر کرنے سے نیکیوں کی بھی تحریک پیدا ہوتی ہے۔ ایک حقیقی مسلمان کا کردار یہی ہونا چاہئے کہ معاشرے میں نیکیاں پھیلائے۔ صرف زبان کے مزے اور عارضی بناوٹی خوشی کے لئے یا اس خوشی کا ماحول پیدا کرنے کے لئے دوسروں کی برائیوں کی تشہیر انتہائی بڑا گناہ ہے۔ مجلس میں ایک استہزاء کا رنگ پیدا کر کے لوگوں کا استہزاء کرنا یہ بہت بڑا گناہ ہے جس سے ہر احمدی کو بچنا چاہئے۔

    حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نزدیک کسی کا احمدی ہونا اور آپ کی بیعت میں آنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے قبول کیا ہے اور جب اللہ تعالیٰ نے اسے قبول کر لیا ہے تو پھر کسی دوسرے کا حق نہیں بنتا کہ اس کے ذاتی نقائص کو تلاش کر کے ان کو پھیلایا جائے۔ ٹوہ میں لگا جائے۔ تجسّس کیا جائے اور پھر وہ برائیاں پھیلائی جائیں یا لوگوں کے سامنے اس کے بارے میں بیزاری کا اظہار بھی کیا جائے۔

    قرآن مجید، احادیث نبویہﷺ اور حضرت مسیح موعود ؑ کے ارشادات کے حوالہ سے دوسروں کی کمزوریوں کی ٹوہ لگانے، تجسّس کرنے اور ان کی تشہیر کرنے کی بُری عادت سے بچنے اور ستّاری سے کام لینے اور استغفار کی طرف توجہ دینے کی تاکیدی نصائح۔

    مکرم ملک سلیم لطیف صاحب ایڈووکیٹ۔ صدر جماعت ننکانہ صاحب (پاکستان) کی شہادت۔ شہید مرحوم کا ذکرِخیر اور نماز جنازہ غائب۔

    فرمودہ مورخہ 31مارچ 2017ء بمطابق31؍امان 1396 ہجری شمسی،  بمقام مسجدبیت الفتوح، مورڈن، لندن، یوکے

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور