سچے مومنین: پروفیسر ڈاکٹر اشفاق احمد شہید، ایچ ناصر الدین مبلغ انڈیا، صاحبزادی امۃ الوحید بیگم
خطبہ جمعہ 14؍ اپریل 2017ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
سب سے پہلے تو مَیں یہ کہنا چاہوں گا کہ جمعہ کے لئے جماعت نے یہاں آج جو جگہ لی ہے اور اگلے جمعہ کے لئے بھی یہی کہا جاتا ہے کہ یہاں جمعہ ہوگا، یہاں ائیر پورٹ نزدیک ہونے کی وجہ سے اور جہازوں کی آمد و رفت کی وجہ سے جہازوں کا شور ہو سکتا ہے۔ شاید بعض وقت بہت زیادہ ہو جائے۔ مَیں کوشش کروں گا کہ میری آواز شور کے باوجود پہنچتی رہے اور الفاظ بھی آپ کو سمجھ آتے رہیں۔ اگر تو اس حد تک شور ہے جیسا اب ہے تو یہ تو قابل برداشت ہے۔ یہ ہوا کے رخ پر بھی منحصر ہے۔ یہ کہتے ہیں کہ اگر ہوا کا رخ اس طرف ہو تو آواز زیادہ آئے گی، اگر الٹی طرف ہو تو پھر کچھ کم آئے گی۔ بہرحال جگہ کی تنگی کی وجہ سے بیت السبوح میں جمعہ ہو نہیں سکتا تھا اور جماعت کو مناسب قیمت پر کوئی اور جگہ یا ہال، یہ کہتے ہیں ہمیں مل نہیں سکا۔ ویسے میرا خیال ہے کہ اگر وقت پر کوشش کرتے تو یہ مل بھی سکتا تھا۔ لیکن ہمارے لوگوں کی عادت ہے کہ عین موقع پر کام شروع کرتے ہیں اور اس خوش فہمی میں رہتے ہیں کہ کام ہو جائے گا۔ اللہ کا فضل ہے بعض کام ہنگامی طور پر ہو بھی جاتے ہیں اور جس طرح جماعت احمدیہ کے کام ہوتے ہیں شاید کسی اور کے نہ ہو سکیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ پہلے planning نہ کی جائے۔ یہی خوش فہمی اور عدم توجہ اور اہمیت کا احساس نہ ہونا ہے جس کی وجہ سے بیت السبوح کے ساتھ جو نئی خریدی ہوئی عمارت بیت العافیت ہے وہاں ابھی تک جمعہ یا کسی قسم کے پروگرام کرنے کی اجازت نہیں ملی۔
گزشتہ سال جب مَیں جلسے پر آیا تھا تو بیت السبوح میں جمعہ پڑھایا گیا تھا اور جگہ کی تنگی کی وجہ سے عورتوں اور ارد گرد کی جماعتوں کو بھی روکا گیا تھا کہ جمعہ پر نہ آئیں۔ اُس وقت میں نے جماعت کی انتظامیہ کو کہا تھا کہ بیت العافیت کے استعمال کی اجازت جلدی لیں تا کہ اس قسم کی دقّتوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ میرے خیال میں یا کم از کم ان کی رپورٹوں کے مطابق سنجیدگی سے اب یہ اس وقت سے کوشش کر رہے ہیں لیکن کونسل بعض چھوٹے چھوٹے اعتراض لگاتی چلی جا رہی ہے۔ تو یہ باتیں ان کو پہلے مدّنظر رکھنی چاہئے تھیں کہ کونسل کوئی ان کے زیر انتظام نہیں ہے کہ جائیں گے اور کلیئرنس لے لیں گے۔ جب عمارت خریدی گئی تھی اس وقت سے سنجیدگی سے اور فوری طور پر اس کے استعمال کی اجازت اور جو بھی تبدیلیاں کرنی تھیں اس پر کام شروع ہو جانا چاہئے تھا اور اگر وہ کام شروع ہوتا تو آج اتنی دقّت نہ ہوتی۔ گو ان کے خیال میں آج کی یہ جگہ بہت بڑی تھی اور ایسٹر کی چھٹیوں کی وجہ سے لوگوں کے زیادہ آنے کی وجہ سے یہ جگہ بھی کم ہو رہی ہے اور یہ تنگی بیت العافیت میں بھی ہو سکتی تھی لیکن عمومی جمعے وہاں ادا کئے جا سکتے تھے۔ دو تین سال ہو گئے ہیں عمارت خریدے ہوئے اور ابھی تک اس کے استعمال میں بعض روکیں ہیں۔ اس وقت جب یہ عمارت خریدی گئی تھی دنیا کے حالات بھی کچھ بہتر تھے۔ مسلمانوں کے حوالے سے کچھ بہتر حالات تھے اور اس وجہ سے جلدی اجازت بھی مل سکتی تھی اگر اُس وقت کام شروع ہوتا۔ لیکن آج مسلمانوں کے بارے میں جو اُن کے تحفظات ہیں وہ بڑھ گئے ہیں جس کی وجہ سے دقّتیں بھی پیدا ہو رہی ہیں۔ شاید امیر صاحب اور انتظامیہ یہ کہے کہ یہ وجہ نہیں ہے، اس طرح ہونا ہی تھا۔ لیکن بہرحال یہ ان لوگوں کی سستی ہے اور ہر کام کو لٹکانے کی عادت بھی ہے جس کی وجہ سے آج ہمیں دقّتیں پیش آ رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ انتظامیہ کو عقل اور سمجھ بھی دے اور خوش فہمیوں میں مبتلا ہونے سے ان کو بچائے اور حقائق سمجھتے ہوئے یہ کام کرنے والے ہوں۔ آپ لوگوں نے اپنے عہدیدار منتخب کئے ہیں تو آپ کا فرض بھی بنتا ہے کہ ان کے کاموں میں اَٹکل پیدا کرنے کے لئے اور عقل پیدا کرنے کے لئے ان کے لئے باقاعدہ دعا بھی کرتے رہا کریں۔ بہرحال چند منٹ میں ہی ہم نے تین چار جہاز گزرنےکی آوازیں سن لیں، یہ تو برداشت کرنا پڑے گا۔ دوسری صورت یہی ہو سکتی تھی کہ محدود تعداد میں لوگوں کو جمعہ پر آنے کے لئے کہا جاتا اور عورتوں پر بھی پابندی لگا دی جاتی۔ پاکستان میں یا ان ملکوں میں جہاں جماعت کی مخالفت ہے اور حالات کی وجہ سے عورتوں کو جمعہ پہ آنے سے روکا جاتا ہے۔ اسی دوران جمعے مختلف جگہوں پر پڑھے جاتے ہیں، ایک مرکزی جگہ پر نہیں پڑھے جاتے۔ الجزائر میں تو مکمل پابندی ہے کہ کسی سینٹر میں بھی بلکہ گھروں میں بھی جمعہ نہیں ہو سکتا۔ تو وہاں تو ظالمانہ قانون اور دشمن کے خوف کی وجہ سے یہ ہو رہا ہے اور یہاں جہاں مذہبی آزادی ہے یہاں یہ روکیں لگانا ہماری سستی اور معاملات کی اہمیت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہو گا اور ہو رہا ہے۔ بہرحال دعا کریں کہ آئندہ جمعہ کے لئے یعنی آئندہ آنے والا جمعہ تو نہیں لیکن آئندہ جب بھی آنے کا پروگرام بنے گا انشاء اللہ تو اس وقت بیت العافیت کے استعمال کی اجازت مل جائے یا کم از کم ان کو ایسی جگہ میسر آئے جہاں سب آرام سے سموئے جائیں، سمٹے جائیں۔ یہ تنگی وہاں بیت العافیت میں بھی کچھ وقت کے لئے تو دور ہو سکتی ہے۔ جماعت تو انشاء اللہ بڑھنی ہے اور بڑھتی جا رہی ہے اس لئے جو بھی جگہیں ہم لیں گے چھوٹی ہوتی جائیں گی لیکن ایک جگہ لے کر پھر اپنی سستی کی وجہ سے کئی سال استعمال نہ کر کے یہ کہہ دیں کہ یہ جگہ بھی تنگ ہو گئی تو یہ کوئی جواب نہیں، نہ عقلمندی ہے۔
بہرحالآج کے خطبہ کے لئے پہلے تو میں نے کچھ اور مضمون لیا تھا لیکن پھر بعض مرحومین کا جنازہ پڑھانا تھا تو ان کی کچھ باتیں سامنے آ گئیں اس لئے مَیں نے سوچا ہے کہ آج انہی کا ذکر کروں گا جن میں سے ایک شہید ہے، ایک مربی سلسلہ ہے اور ایک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پوتی ہیں۔ ان لوگوں کے بعض اوصاف ایسے ہیں جو جماعت کے ہر طبقے کے لئے نیک مثال ہیں۔ اور یہی ایسی باتیں ہیں جو ہم میں سے بہتوں کے لئے قابل تقلیدنمونہ ہیں۔ بہت سوں کے لئے ان میں سبق ہیں۔ پس میں نے مناسب سمجھا کہ بجائے ان مرحومین کے مختصر ذکر کے کچھ کھول کر ان کے بارے میں بیان کروں۔ ہر ایک کی سیرت کے پہلو جو میرے سامنے لائے گئے ہیں یا جو مجھے علم تھے وہ ایسے ہیں جو مَنْ قَضٰی نَحْبَہٗ(الاحزاب:24) کے مصداق ان لوگوں کو بناتے ہیں۔ جو اپنے عَہدوں اور اپنی نیّتوں اور ارادوں کو پورے کرنے والے لوگ تھے۔ جنہوں نے دین کو دنیا پر مقدم کرتے ہوئے اپنی زندگیاں بسر کیں اور اسی طرح خدا تعالیٰ کے حضور حاضر ہو گئے۔
ان میں سے پہلے ہمارے شہید بھائی پروفیسر ڈاکٹر اشفاق احمد صاحب ہیں جو گزشتہ جمعہ شہید کئے گئے۔ پروفیسر ڈاکٹر ریٹائرڈ اشفاق احمد صاحب، شیخ سلطان احمد صاحب لاہور کے بیٹے تھے۔ ان کی عمر 68 سال تھی۔ گزشتہ جمعہ یہ نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے اپنی کار میں بیت التوحید جا رہے تھے کہ راستے میں ایک موٹر سائیکل سوار معاند احمدیت نے فائرنگ کر کے انہیں شہید کر دیا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ کہتے ہیں تفصیلات کے مطابق وقوعہ کے روز شہید مرحوم اپنے بارہ سالہ پوتے عزیزم شاہ زیب اور حلقہ سبزہ زار کے ایک احمدی دوست مکرم ظہیر احمد صاحب کے ساتھ اپنی کار میں جمعہ کے لئے مسجد جا رہے تھے۔ شہید مرحوم خود گاڑی ڈرائیو کر رہے تھے۔ ان کا پوتا آگے دوسری سیٹ پر بیٹھا تھا۔ دوسرے دوست پیچھے بیٹھے تھے۔ سبزہ زار سے ملتان روڈ پہنچے جہاں سڑک زیر تعمیر ہونے کی بنا پر ٹریفک رکا ہوا تھا۔ ان کی گاڑی رکتے ہی ہیلمٹ پہنے ہوئے ایک موٹر سائیکل سوار شخص نے ڈرائیونگ سیٹ کے قریب آ کر ان کی کنپٹی پر پستول رکھ کر گولی چلا دی اور فرار ہو گیا۔ فائر لگنے سے گولی کنپٹی سے آر پار ہو گئی اور موقع پر ہی آپ نے جام شہادت نوش کیا اور دوسرے دونوں محفوظ رہے ان کو انہوں نے کچھ نہیں کہا۔
شہید مرحوم کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ شہید مرحوم کے دادا مکرم شیخ عبدالقادر صاحب کے ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی لدھیانہ تشریف آوری کے زمانے میں ہوا۔ آپ کے خاندان کا تعلق سنگرور مشرقی پنجاب انڈیا سے تھا۔ اس علاقے کے ایک بزرگ مکرم پیر میراں بخش صاحب نے احمدیت قبول کرنے کے بعد شہید مرحوم کے دادا کو احمدیت قبول کرنے کی طرف دعوت دی۔ اس پر شہید مرحوم کے دادا نے مع خاندان احمدیت قبول کر لی۔ پاکستان کے قیام سے قبل شہید مرحوم کے دادا وفات پا گئے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد ان کی دادی محترمہ عائشہ صاحبہ نے خاندان کی سربراہی کرتے ہوئے خاندان کے ہمراہ انڈیا سے پاکستان لاہور ہجرت کی۔ کچھ عرصہ کیمپ میں رہنے کے بعد پھر سنت نگر لاہور میں رہائش اختیار کی جہاں شہید مرحوم کی 1949ء میں پیدائش ہوئی۔ چند سال بعد یہ خاندان ربوہ میں منتقل ہو گیا۔ شہید مرحوم کی ابتدائی تعلیم ربوہ کی ہے۔ میٹرک پاس کرنے کے بعد ویٹرنری کالج لاہور میں داخلہ لیا۔ پھر دوبارہ ان کی فیملی اس وجہ سے لاہور منتقل ہو گئی۔ ایم۔ ایس۔ سی ویٹرنری کرنے کے بعد ویٹرنری کالج میں بطور لیکچرر ملازمت اختیار کی اور پھر پروفیسر کے عہدے تک ترقی ہوئی۔ مرحوم کے والد شیخ سلطان احمد صاحب پنجاب پولیس میں سب انسپکٹر تھے اور پھر ایف ایس ایف (FSF)جب بنی ہے تو وہاں انسپکٹر کی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ مرحوم اللہ کے فضل سے موصی تھے۔ خلافت سے والہانہ محبت رکھتے تھے۔ تہجد گزار اور مہمان نوازی اور خدمت خلق کرنے والے، عہدیداران کی اطاعت کرنے والے نیک مخلص انسان تھے۔ ہمیشہ جماعتی خدمت میں پیش پیش رہتے اور نہایت اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے۔ دعوت الی اللہ کا بہت شوق تھا۔ بلند اخلاق اور ملنسار ہونے کی وجہ سے اپنے سٹوڈنٹ اور ساتھی پروفیسروں میں یکساں مقبول تھے۔ اپنے ساتھی پروفیسروں کو اکثر گھر پہ کھانے پہ بلا لیا کرتے تھےاور جماعت کا مؤثر انداز میں تعارف کرواتے۔ اس وجہ سے بعض اوقات آپ کو دھمکیاں بھی ملتی تھیں لیکن کبھی پرواہ نہیں کی بلکہ کہا کرتے تھے یہ تو معمولی بات ہے۔ بچپن سے ہی شہید مرحوم کو جماعتی خدمت کا جذبہ بہت زیادہ تھا اور جماعتی اور تنظیمی سطح پر مختلف شعبہ جات میں کام کرنے کی توفیق ملی۔ حلقہ سبزہ زار میں رہائش پذیر ہونے کے بعد حلقہ کے صدر اور نائب زعیم اعلیٰ کے طور پر احسن رنگ میں خدمت کی توفیق ملی۔ اس سال آپ کی تقرری بطور سیکرٹری دعوت الی اللہ امارت علامہ اقبال ٹاؤن لاہور ہوئی تھی اور بڑے اچھے انداز میں آپ نے اپنی دعوت الی اللہ کا آغاز کیا تھا، پروگرام بنائے تھے۔ ان کی اہلیہ کو جوڑوں کی بیماری تھی، بڑا لمبا عرصہ بیمار رہیں اور بڑی خوشی سے انہوں نے ان کی بھی خدمت کی اور گزشتہ سال دسمبر میں ان کی اہلیہ کی وفات ہو گئی تھی۔ ان کی کوئی اولادنہیں تھی۔ ایک لَے پالک بیٹا ہے اور اسی کے دو بچے ہیں شاہ زیب اور شاذیل جو ان کے پاس لاہور میں رہتے ہیں اور ان میں سے ایک بچہ جمعہ پہ جاتے ہوئے ان کے ساتھ تھا۔ ان کے ایک بھائی الیاس صاحب برمنگھم میں رہتے ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ بہت شفیق بھائی تھے۔ چھوٹے بھائیوں کا بڑے بھائی کی طرح نہیں بلکہ باپ کی طرح خیال رکھا۔ ہماری تربیت میں نمایاں کردار ادا کیا۔ نماز اور اس کا ترجمہ، قرآن کریم سب کچھ ہم نے آپ سے سیکھا۔ اپنے چھوٹے بھائیوں کا خیال رکھتے تھے۔ تعلیم میں بھی آپ نے ہمیشہ ہماری مدد اور رہنمائی کی۔ سکول جا کر ہمارے اساتذہ کو ملتے اور ہمارے بارے میں فکر مند رہتے۔ جماعتی پروگراموں میں بڑے اہتمام سے ہمیں تیار کر کے ساتھ لے جاتے۔ مختلف علمی مقابلوں میں حصہ لینے کے لئے تیار کرتے۔ نماز باجماعت کے لئے ساتھ لے کر جاتے۔ (اگر بڑے بھائی اپنے چھوٹے بھائیوں کو اور والدین بھی بچوں کو اسی طرح ساتھ لے جانے لگیں تو ہماری مسجدوں کی حاضری کئی گنا بڑھ سکتی ہے۔) اور پھر کہتے ہیں کہ جماعتی ڈیوٹیوں میں ہمیشہ پہلے ہمیں لے کر جاتے۔
شہید مرحوم نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کے زمانے میں خواب دیکھی تھی۔ ان کے بھائی کہتے ہیں کہ آپ کی شہادت کے دو دن بعد اچانک مجھےوہ یاد آئی۔ وہ خواب شہید مرحوم نے اس طرح بیان کی تھی۔ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ ہمارے محلے کی ایک مسجد جو کہ غیر از جماعت کی ہے وہاں اعلان ہو رہا ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع وفات پا گئے ہیں اور میں نے دیکھا کہ گھر کے لیٹر بکس میں ایک چُھری پڑی ہوئی ہے۔ اس وقت انہوں نے اس کی تعبیر یہ کی تھی کہ چھری دیکھنے سے مراد جماعت کو قربانیاں دینی پڑیں گی اور حضرت خلیفۃالمسیح الرابع کی وفات کے اعلان سے یہ مراد ہو سکتی ہے کہ ان کے دَور میں جماعت اتنی ترقی کرے گی کہ وفات کا باقاعدہ سپیکروں پر اعلان ہو گا۔ تو ان کے خیال میں تو یہ بہرحال ایم ٹی اے کے ذریعہ سے جو اعلان ہوتا رہا اس لحاظ سے وہ خواب بھی پوری ہو گئی اور انہوں نے چھری جو دیکھی تھی وہ ان کی شہادت کی طرف اشارہ تھا۔ ان کے بھائی نے یہ تعبیر کی ہے اور یہی صحیح تعبیر لگتی ہے کہ شہادت کی طرف اشارہ تھا، وہ بھی ہو گئی۔ کہتے ہیں کہ ہمارے بھائی ہم پر سبقت لے گئے۔ شہادت کے مرتبہ کو پا کر خاندان کا نام روشن کیا۔ خاندان کے پہلے شہید بن کر ہم سب کے لئے ہمیشہ کے لئے مثال چھوڑ گئے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے۔ ان کے چھ بھائی اور ایک بہن ہیں جو تقریباً سارےباہر ہی ہیں۔
دوسرے مرحوم جن کا ذکر کرنا ہے وہ مکرم ایچ ناصر الدین صاحب مبلغ انچارج ایسٹ گوداوری انڈیا ہیں۔ 7؍اپریل 2017ء کو دریائے گوداوری میں ڈوب جانے سے 42 سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ حادثہ کے روز آپ مکرم امیر صاحب سکندر آباد اور احباب جماعت کے ساتھ وانگل پوڑی (Vangalapudi) جماعت میں نماز فجر کے بعد دریا پر گئے۔ اچھی تیراکی جانتے تھے۔ وہاں بعض احباب کے ساتھ تیراکی کے دوران لاپتا ہو گئے۔ پھر مچھیروں کی مدد سے ایک گھنٹہ کی تلاش کے بعد دریا کے کنارے ان کی لاش ملی۔ مرحوم کے والد مکرم اے شاہ الحمید صاحب اپنے علاقے کاواشیری کیرالہ کے سب سے پہلے احمدی تھے۔ انہی کے ذریعہ وہاں جماعت قائم ہوئی جبکہ آپ کی والدہ محترمہ چیلہ کنوکی ابتدائی احمدیوں میں سے تھیں۔ مرحوم 2000ء میں قادیان سے فارغ التحصیل ہو کر صوبہ آندھرا اور تلنگانہ میں مختلف جگہوں پر کامیاب مبلغ کے طور پر خدمت بجا لاتے رہے۔ چنتہ کنٹہ کی بڑی جماعت میں بھی خدمت کی توفیق پائی۔ آپ نہایت حکمت سے تربیت کر کے اپنے ماتحت جماعتوں کو سنبھال رہے تھے۔ وفات کے وقت بطور مبلغ انچارج ضلع ایسٹ گوداوری تعینات تھے۔ ان کی اہلیہ کہتی ہیں کہ بعض ایسی جگہوں پر بھی رہنا پڑا جہاں صرف جماعتی سینٹر قائم تھے۔ وہاں پر اہلیہ اور بچوں کو لے کر نماز پڑھا کر درس دیتے تھے اور یہ سلسلہ وفات سے ایک روز پہلے تک جاری رکھا۔
مربیان کے لئے، مبلغین کے لئے اس میں سبق ہے کہ اگر جماعتیں دُور دُور کی ہیں، کوئی نہیں آتا تب بھی نمازیں باجماعت ہونی چاہئیں، چاہے اپنے گھر والوں کے ساتھ پڑھیں۔ پھر ان کی اہلیہ بتاتی ہیں کہ جب آپ کاما ریڈی میں متعین تھے تو وہاں لیفلیٹس تقسیم کرنے پر آپ کی مخالفت بڑھ گئی۔ پکڑے گئے، مخالفین نے خوب مارا پیٹا۔ لیکن آپ محض اللہ کے فضل سے بال بال بچ گئے۔ اس کے بعد اہلیہ کہتی ہیں کہ میں نے انہیں کہا کہ یہاں تو بڑے خطرناک حالات ہیں، دشمنی ہے، مخالفت ہے، کیرالہ میں تبادلہ کی درخواست کر دیں کیونکہ آپ کی دشمنی بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ تو کہنے لگے کہ ہم تو تبادلہ کروا کر چلے جائیں گےاور مَیں دشمنی کا حوالہ دے کے مرکز کو لکھوں گا تو مرکز شاید تبادلہ بھی کر دے۔ لیکن یہاں کے مقیم احمدیوں کا کہاں تبادلہ کریں گے؟ ان کے لئے تو دشمنی اسی طرح قائم ہے۔ تو کہتے ہیں مخالفت سے ڈر کے جانا یہ صحیح بات نہیں ہے اس لئے ہمیں اپنے وقف کے عہد کو پورا کرنا چاہئے۔ ہم وقف کر کے آئے ہیں اور جیسے بھی حالات ہیں ہمیں یہاں رہنا ہے اور ہمیں رہنا چاہئے۔ یہی کہا کرتے تھے کہ اگر شہادت کی توفیق مل گئی تو پھر اس سے بڑا انعام کیا ہے؟اس لئے ہمیں یہیں رہنا ہے۔
اسی طرح سادگی کا یہ حال تھا کہ اہلیہ بتاتی ہیں کہ کوئی فرنیچر کبھی نہیں خریدا تھا۔ گھر میں کوئی ذاتی فرنیچر نہیں تھا اور ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ ہم وقف زندگی ہیں۔ جماعت جہاں کہتی ہے ہم نے وہاں جانا ہے اس لئے کہیں کبھی فرنیچر یا گھر کا سامان جو ہے ہمارے فوری تبادلہ میں روک نہ بن جائے۔ جو سہولت جماعت نے دی ہوئی ہے اسی پہ ہم نے گزارہ کرنا ہے اور اسی پہ اکتفا کرنا چاہئے۔ یہ بھی ایک مثال ہے ایک واقف زندگی کے لئے۔
گزشتہ سال املہ پورم میں تبادلہ ہوا تھا وہاں بچوں کو قرآن شریف پڑھانے کے لئے اتنے پابند تھے کہ ایک کلو میٹر روزانہ پیدل یا سائیکل پر جا کر لوگوں کو قرآن کریم پڑھا کے آتے تھے۔ یہ بھی ایک مثال ہے مبلغین کے لئے، مربیان کے لئے۔
پھر ان کی اہلیہ نے کہا کہ ان میں مہمان نوازی کی بڑی خوبی تھی۔ کہتی ہیں اگر میں بچوں کی چھٹیوں کے موقع پر یا سکول کی چھٹیوں کے موقع پر کیرالہ آنے کی وجہ سے گھر میں نہ ہوتی اور مہمان آ جاتے تو کبھی انہوں نے پریشانی نہیں دکھائی۔ ہمیشہ خود ہی کھانا پکا کے مہمانوں کو کھلایا کرتے تھے۔ شہادت کی بھی ان میں بہت تمنا تھی، پہلے ذکر ہوا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے بار بار حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور اپنے والد مرحوم کو خواب میں دیکھا ہے اور میرے والد مجھے اشارہ کرتے ہیں، بلا رہے ہیں۔ بہرحال ایک رنگ میں ان کی شہادت اس طرح بھی ہو گئی دینی خدمت کے لئے گئے ہوئے تھے اور وہیں اس دینی دورہ کے دوران ہی ان کی حادثاتی وفات ہوئی۔ یہ بھی ایک قسم کی شہادت ہے۔ بڑے دعا گو، تہجد گزار، ملنسار، تبلیغی میدان میں ایک نڈر مجاہد تھے۔ کئی دفعہ مخالفین نے انہیں حراست میں رکھ کر مارا پیٹا۔ مَیں جلسہ کی تقریر میں جو واقعات سناتا ہوں اس میں بھی ایک دفعہ مَیں نے ان کامار پیٹ کا واقعہ سنایا تھا جو خوفناک طریقے سے مولویوں نے ان کو مارا تھا۔ ان کےپسماندگان میں عمر رسیدہ والدہ ہیں، اہلیہ ہیں اور دو بیٹے ہیں۔ ان کے دو بڑے بھائی ہیں۔ ایچ سلیمان صاحب امیر ضلع پال گھاٹ کیرالہ اور ایچ شمس الدین صاحب نظارت نشر و اشاعت قادیان کے ملیالم سیکشن میں اس وقت خدمت کی توفیق پا رہے ہیں۔ ان کے ساتھ خدمت کی توفیق پانے والے مبلغ نوید الفتح شاہد صاحب کہتے ہیں کہ مولانا ایچ ناصر الدین صاحب کیرالہ کے رہنے والے تھے۔ تقریباً اٹھارہ سال سے صوبہ آندھرا اور تلنگانہ میں خدمت بجالا رہے تھے۔ کہتے ہیں کہ اکثر اس وجہ سے یعنی ایک ہی علاقہ میں رہنے کی وجہ سے ملاقاتیں ہوتی تھیں۔ میٹنگ میں نہایت عاجزی سے بیٹھتے تھے۔ سلسلہ احمدیہ کی ترقی کے لئے ہر کام کرنے کے واسطے مستعد رہتے تھے۔ بہت ہی پیار کرنے والے وجود تھے۔ عالم باعمل تھے۔ بلا ناغہ تہجد پڑھتے۔ ہر روز باقاعدگی سے تعلیم و تربیت کرتے۔ دفتری کام کے لئے ہر روز ایک خاص وقت ضرور رکھا ہوا تھا۔ بزرگوں کی عزت ان کا ایک خاص وصف تھا۔ چھوٹوں سے حسن سلوک بھی ایک خاص وصف تھا۔ ہر روز باقاعدگی سے باہر نکلتے۔ کوئی خوف نہیں تھاکہ مخالفین ہیں تو کیا کریں گے۔ اور اس وجہ سے غیر احمدیوں کا بھی حلقہ ان کا بڑا وسیع تھا کیونکہ ان سے بھی بڑی بشاشت سے ملتے تھے۔ بڑے ہر دلعزیز تھے۔ کہتے ہیں میں نے کبھی ان کی پیشانی پر شکن نہیں دیکھی۔ کبھی غصہ میں نہیں دیکھا۔ اپنے ساتھی معلمین سے بھی بڑا حسن سلوک کرتے ہمیشہ ان کا خیال رکھتے اور ہر ایک سے ایسی محبت تھی کہ ہر کوئی جو اُن سے ملتا تھا وہ ان پر فدا ہو جاتا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا بڑے اہتمام سے مطالعہ کرتے۔ ان کا باقاعدگی سے مطالعہ تھا اور بڑا اہتمام تھا۔ اس کے لئےانہوں نے خاص وقت رکھا ہوا تھا۔ اور یہ بھی ہر مبلغ اور مربی کے لئے ایک انتہائی اہم اور ضروری سبق ہے۔
قرآن مجید کی تلاوت سے کبھی غافل نہ رہتے۔ ڈائری ہر روز باقاعدگی سے لکھتے اور ہمیشہ سے یہ عادت رہی کہ خلافت کی طرف سے جو بات کہی جائے اس کو غور سے سننا ہے۔ ہمیشہ خطبات کو بڑے غور سے سنتے اور پھر نہ صرف سنتے بلکہ یہ کوشش ہوتی کہ پوری طرح عمل کرنا ہے۔ کوئی توجیہیں نہیں پیش کرنی بلکہ ہر ہر لفظ پر عمل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ اور یہ بھی ایک بڑی اہم بات ہے واقفین زندگی کے لئے۔
خلافت سے بے انتہا محبت کرنے والے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے عشق اور محبت بے انتہا کا تھا۔ اور یہ کہتے ہیں یہ ایسی خصوصیات تھیں جو ان کے وجود میں نمایاں نظر آتی تھیں۔ مخالفین نے کاماریڈی میں بلال مسجد میں لے جا کر ان کو بہت مارا اور صبر سے مار کھاتے رہے اور پیچھے نہیں ہٹے۔ یہ مربی صاحب کہتے ہیں کہ مار کھا کر یہ ہسپتال میں داخل ہوئے۔ پولیس کے ذریعہ ان کو نکلوایا گیا تھا تو اس وقت ہسپتال جا کر مَیں ان کو ملا اور دیکھا کہ زخموں سے چُور ہیں اور پٹیوں میں لپٹے ہوئے ہیں لیکن چہرے پر ایک روحانی حظ تھا۔ بڑے خوش تھے اور خود ہی سارا واقعہ سنانے لگے کہ مخالفین پوچھتے تھے کہ مرزا غلام احمدنے کیا دعویٰ کیا ہے۔ یہ بتاتے کہ ظلّی نبوت کا دعویٰ کیا ہے تب مخالفین اور زیادہ مارتے۔ مار مار کے جب اَدھ مُؤا کر دیتے تو پھر پوچھتے کہ وہ ظلّی نبوت کیا ہوتی ہے۔ پھر یہ کہتے کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں سرشار ہو کر جو نبوت ملتی ہے وہی آپ کی نبوت تھی۔ پھر مخالفین مارتے۔ بہرحال یہ بڑی شکرگزاری سے یہ واقعات سناتے کہ خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت میں یہ توفیق بھی مجھے ملی کہ بے انتہا ماریں کھائیں۔ اور یہ مربی جو ہیں لکھنے والے وہ کہتے ہیں جب ان کا تبادلہ ہونے لگا تو مجھے کہتے ہیں کہ میرا تو یہاں سے تبادلہ ہو رہا ہے لیکن مخالفت کی جگہ پر جا کر آپ حکمت سے بہت زیادہ کام کریں اور آپ کو وہاں اس کا بہت زیادہ موقع ملے گا۔ اور پھر مخالفت کے بارے میں سمجھاتے رہے کہ کس طرح کی مخالفت ہے، کس طرح تبلیغ کرنی ہے۔ گویا کہ اپنے بعد میں آنے والوں کی بھی ہمت بڑھائی کہ ڈرنا نہیں۔ احمدیت کے پیغام کو پہنچانا ہے تو جرأت سے پہنچانا ہے۔ ایک معلم صاحب ہیں وزیر صاحب وہ کہتے ہیں کہ میں نے ہمیشہ ان کو تہجد گزارپایا۔ نمازوں کو انتہائی خشوع و خضوع سے پڑھنے والے، روزانہ تلاوت کرنے والے، نہایت خوش مزاج اور باعمل، خلافت سے خاص محبت، نماز باجماعت کا خاص خیال رکھتے، اچھے مہمان نواز سادگی پسند، فضول خرچیوں سے بچنے والے تھے۔
پھر یہ لکھتے ہیں کہ موصوف کو مطالعہ کا بڑا شوق تھا۔ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے۔ کوئی سوال پوچھا جائے تو بہترین رنگ میں جواب دیتے تھے۔ اکثر جب بھی کسی پروگرام یا محفل میں خصوصاً سفر کے دوران خدام کے ساتھ بیٹھتے تو جماعت کا تذکرہ اور ایمان افروز واقعات سنایا کرتے تھے۔ ہر ایک سے اعلیٰ اخلاق سے پیش آتے تھے جس کی وجہ سے ہر کوئی آپ کے ساتھ رہنا پسند کرتا تھا۔ اور یہ کہتے ہیں کہ جب ان کو ایک دفعہ کاماریڈی میں لیفلیٹس تقسیم کرنے کی وجہ سے مخالفین نے ان کو مارنے کا پلان بنایا۔ 20؍فروری یوم مصلح موعود کا جلسہ تھا۔ یہ نماز سنٹر پہلے پہنچ گئے تھے۔ اسی دوران سو افراد پر مشتمل غیر احمدیوں کا وفد آپ کی تلاش میں نکلا لیکن کیونکہ یہ پہلے مسجد پہنچ چکے تھے اس لئے ان کو راستے میں نہ مل سکے۔ ان مخالفین مولویوں نے یہ طریقہ نکالاکہ معلم سلسلہ تھے ہمارے محمد عمر صاحب اور ان کی اہلیہ اور دو بچے نماز سنٹر میں جلسہ میں شرکت کے لئےجا رہے تھے تو انہوں نے ان کو راستہ میں روک لیا اور کہا کہ جب تک ایچ ناصر الدین سامنے نہیں آئے گا ہم تمہیں نہیں چھوڑیں گے۔ مرحوم کو جب پتا لگا تو فوراً وہاں پہنچے اور ان کو کہا کہ میں ناصر الدین ہوں۔ چنانچہ معلم صاحب کو اور ان کی بیوی بچوں کو تو مخالفین نے چھوڑ دیا اور ان کو مارتے ہوئے لے گئے اور بڑا شدت سے سب نے مارا۔ آخر میں پولیس کے ذریعہ سے پھر ان کی بازیابی ہوئی اور مخالفین کا یہی زور تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوے کا تم انکار کرو اور ان کو جھوٹا کہو۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بھی بلند کرے اور ان کے بچوں کو بھی صبر اور حوصلہ دے۔
اگلا ذکر ہے محترمہ صاحبزادی امۃ الوحید بیگم صاحبہ کا جو صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب کی اہلیہ تھیں۔ 10؍اپریل 2017ء کو رات دس بجے تقریباً 82 سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
یہ حضرت مرزا شریف احمد صاحب کی سب سے چھوٹی بیٹی تھیں اور میری پھوپھی بھی تھیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پوتی اور حضرت نواب محمد علی خان صاحب کی نواسی تھیں۔ آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ میں ہوئی ہے۔ دو دفعہ بڑی خطرناک بیماریوں سے یہ گزری ہیں لیکن بڑے صبر اور حوصلے سے بیماری برداشت کی اور ڈاکٹر نوری صاحب نے ان کے بارے میں لکھا کہ تقریباً پچھلی دودہائیوں سے جب سے آپ بیمار تھیں میرے مشاہدے میں آپ نیکی کا ایک اعلیٰ نمونہ تھیں۔ کہتے ہیں بیماری کی تکلیف کو نہایت صبر اور ہمت سے برداشت کیا۔ کینسر کی بیماری تھی اور آخری دنوں میں تو مرض خطرناک حد تک چلا جاتا تھا۔ کہتے ہیں یہ بیماری جسمانی اور ذہنی دونوں لحاظ سے خطرناک ہوتی ہے اور پھر علاج بھی بڑا تکلیف دِہ ہے لیکن اس کے باوجود آپ نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ طاقت اور صبر سے اس بیماری کو اپنی روزمرہ کی زندگی میں حارج نہیں ہونے دیا اور بڑی ہمت اور صبر سے اس بیماری کا مقابلہ کیا۔ اور ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ آپ ہنستے ہوئے اور بے خوف ہو کر سب کام کرتی رہتی تھیں اور خدا تعالیٰ کی رضا پر راضی تھیں۔ اپنی بیماری کے آخری ایام تک بھی گھر سنبھالا ہوا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے میاں کا بھی خیال رکھنے والی تھیں۔ میاں کے ساتھ بھی ایک مثالی تعلق تھا۔ خود بھی بیمار تھیں لیکن جب ان کے میاں مکرم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب کی اینجیو پلاسٹی ہوئی ہے تو اپنی بیماری بھول کر ان کی تیمارداری بھی کرتی رہیں، خیال بھی رکھتی رہیں۔ مہمان نوازی کا وصف ان میں بہت نمایاں تھا۔ کسی وقت بھی کوئی آ جاتا تو خاطر تواضع کرتیں اور غیرمہمان بھی ان کے بڑے آیا کرتے تھے، جلسہ کے دنوں میں بھی اور شوریٰ وغیرہ پر بھی تو ہمیشہ بہت زیادہ انہوں نے ان کا خیال رکھا۔ بیماری کے بعد یہاں لندن بھی دو دفعہ آئی ہیں، مجھے ملی ہیں۔ 2005ء میں قادیان میں خلافت کے بعد میرے ساتھ پہلی دفعہ ملاقات ہوئی تھی۔ پھر یہاں جب آئی ہیں تب بھی ملاقات ہوئی اور بڑا اخلاص اور وفا کا تعلق تھا ان کا خلافت کے ساتھ۔ باوجود بڑا رشتہ ہونے کے، بڑی عمر ہونے کے انتہائی عاجزی سے ملتی تھیں۔ ہماری والدہ کے ساتھ ان کا نند بھابھی کا رشتہ تھا لیکن عمر کے لحاظ سے حضرت مرزا شریف احمد صاحب کی سب سے چھوٹی بیٹی یہ تھیں۔ اور میری سب سے بڑی ہمشیرہ اور یہ تقریباً ہم عمر ہی تھیں اور اس لحاظ سے میری والدہ نے ہمیشہ ان سے اپنے بچوں کی طرح سلوک کیا اور انہوں نے بھی کبھی ان کو بھابھی نہیں سمجھا بلکہ ہمیشہ میں نے دیکھا ہے کہ بڑا ادب، احترام اور لحاظ تھا اور انہوں نے میری والدہ کو ہمیشہ بڑا بزرگ سمجھا اور ایک ایسا تعلق تھا جو مثالی تھا۔
ان کا نکاح 26؍ دسمبر 1955ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے پڑھایا تھا اور اس وقت ان کے ساتھ حضرت سید میر محمود احمد کا نکاح بھی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی بیٹی صاحبزادی امۃ المتین کے ساتھ ہوا۔ پھر چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی ایک بیٹی کا نکاح بھی اعجاز الحق صاحب کے ساتھ ہوا۔ تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے 26؍دسمبر کو جلسہ کے افتتاح سے پہلے فرمایا کہ افتتاحی کلمات اور دعا سے پہلے میں چندنکاحوں کا اعلان کروں گا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے فرمایاکہ عام طریق تو یہی ہے کہ نکاح جلسہ کے بعد 29؍ دسمبر کو ہوا کرتے ہیں مگر ان نکاحوں میں کچھ مستثنیات ہیں۔ آپ فرماتے ہیں ایک یہ کہ میری اپنی لڑکی امۃ المتین کا نکاح ہے جو سیدمیر محمود احمد صاحب ابن میر اسحاق صاحب سے قرار پایا ہے۔ دوسرے چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی لڑکی کا ہے اور تیسرے امۃ الوحید بیگم بنت مرزا شریف احمد صاحب کا نکاح ہے جو مرزا خورشید احمد ابن مرزا عزیز احمد سے قرار پایا ہے۔ اور مرزا خورشید احمد صاحب واقف زندگی بھی ہیں۔ اور پھر آگے حضرت مصلح موعودنے فرمایا کہ ابھی یہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور وقف کریں گے۔ پھر حضرت مصلح موعودنے دعائیہ کلمات کہے اور فرمایا اللہ تعالیٰ ان سارے نکاحو ں کو بابرکت کرے دینی طور پر بھی اور دنیوی طور پر بھی اور آئندہ سلسلہ کی طاقت اور قوت کی بنیاد ان نکاحوں کے ذریعہ سے پیدا ہو۔ (ماخوذ از خطباتِ محمود جلد 3 صفحہ 672، 675، 676)
اللہ تعالیٰ کے فضل سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو چھ بیٹے عطا فرمائے جن میں سے چار بیٹے واقف زندگی ہیں۔ دو ڈاکٹر ہیں، فضل عمر ہسپتال میں کام کر رہے ہیں۔ ایک پی۔ ایچ۔ ڈی ڈاکٹر ہیں جو نظارت تعلیم میں ہیں اور ایک وکیل ہیں جو صدر انجمن احمدیہ میں مشیر قانونی کے دفتر میں ہیں۔ ان کی لجنہ کی خدمات کا عرصہ بھی تقریباً 29سال پر پھیلا ہوا ہے جس میں سیکرٹری صنعت و تجارت اور نائب صدر اوّل رہیں اور سیکرٹری صنعت و تجارت کے طور پر جو انہوں نے خدمات بجا لائیں اس میں ان کا ایک تو مزاج، ذوق بڑا اچھا تھا اور غریبوں سے کام کرواتی تھیں۔ ہاتھ سے کڑھائی کا یا سلائی کا کام کروانے سے ایک تو ان کو اجرت مل جاتی تھی دوسرے نمائش میں ہمیشہ ربوہ کی لجنہ کی اس لحاظ سے کافی آمد ہو جایا کرتی تھی۔ اپنے بالا افسر کی اطاعت قطع نظر اس کے کہ کیا رشتہ ہے اور کیا عمر کا فرق ہے، بے انتہا تھی۔ میری اہلیہ نے مجھے بتایا کہ دو سال جب وہ صدر لجنہ ربوہ رہی ہیں تو یہ سیکرٹری صنعت و تجارت اور نائب صدر کے طور پر ان کے ساتھ کام کرتی رہیں اور ہمیشہ بڑی خوش دلی سے اور بڑی عاجزی سے، بڑی اطاعت سے ساتھ کام کیا اور جو بھی ان کے ذمہ کام لگایا گیا اس کو انہوں نے بڑی بشاشت سے سرانجام دیا۔
ان کے خاوند مکرم مرزا خورشید احمد صاحب کہتے ہیں کہ ایک واقف زندگی کی بیوی ہونے کا حق ادا کیا۔ میرے سے کبھی کوئی مطالبہ نہیں کیا۔ بچوں کی تربیت کا خیال رکھا اور یہی تربیت کا نتیجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے چھ بیٹوں میں سے چار واقف زندگی ہیں۔ اور پھر اپنے بچوں کے ساتھ ساتھ گھر میں موجود ملازمین کے بچوں کو بھی بڑے احسن رنگ میں رکھا۔ اگر کوئی قرآن شریف نہ پڑھا ہوا ہوتا تو اسے قرآن کریم پڑھاتیں۔ اپنے بچوں کے ساتھ ان ملازمین کے بچوں کو بھی قرآن کریم پڑھایا۔ بڑی تعداد میں ایسے بچے ہیں جن کو ان کی عمر کے مطابق پہلے قرآن کریم ناظرہ اور پھر باترجمہ پڑھایا۔
یہ لکھتے ہیں کہ کالج کے زمانے میں انہوں نے جب وہ پڑھ رہی تھیں خواب میں دیکھا کہ ان کے ماموں میاں عبد الرحمٰن صاحب جو مالیر کوٹلہ کے تھے انہوں نے بڑے خوش نما اور دیدہ زیب سونے کے کنگن کسی عورت کے ہاتھ آپ کے لئے بھجوائے ہیں اور ساتھ کہا کہ ’65 تے 82‘۔ (یعنی 65 اور 82)۔ وہ عورت آپ کو کنگن دیتے ہوئے کہتی ہے کہ 65 اور 82۔ آپ تصدیق کے لئے دوبارہ پوچھتی ہیں کہ 65 اور 82؟ تو کہتی ہیں اس بارے میں مجھے اس وقت سمجھ آیا جب 65ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی وفات ہوئی اور 82ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کی۔
ان کے بیٹے عزیزم عدیل لکھتے ہیں کہ جلسہ سالانہ کے موقع پر 100 سے زائد مہمان ہوتے تھے ان کی مہمان نوازی بڑی خوش دلی سے کرتیں اور جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے ہجرت کی ہے اس وقت ان کے سفر کے لئے چائے اور دوسری چیزوں کا انتظام انہوں نے کیا اور اپنے ہاتھ سے اپنی نگرانی میں بعض ایسی چیزیں جو ان کو پسند تھیں بنا کے بھجوایا کرتی تھیں اور وہی سلوک جو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کے ساتھ تھا اسی طرح میرے ساتھ رکھا اور مجھے بھی وہ خاص حلوہ جو اُن کا ہوتا تھا اپنے ہاتھ سے اپنی نگرانی میں بنا کے بھیجا کرتی تھیں۔ بڑا عزت اور احترام تھا۔ اپنی والدہ کی بڑی خدمت کی۔ اپنے ساس سسر کی بڑی خدمت کی۔ اپنی نندوں کو چھوٹی بیٹیوں کی طرح رکھا۔ تلاوت قرآن کریم اور نمازوں کی بڑی پابند تھیں اور بچوں کو بھی اسی طرح پابند رکھا اور مسجد بھجوایا کرتی تھیں اور بچوں کو پھر نماز فجر کے بعد تلاوت کے لئے بٹھاتیں ان سے کہتیں تلاوت کرو۔ غریبوں کا خیال رکھنا، ملازمین کا خیال رکھنا بہت زیادہ تھا۔ اور میں نے پہلے بھی بتایا کہ ایک گھر میں رہنے کی وجہ سے میرے سے بے تکلفی تھی تو ان کے بیٹے لکھتے ہیں کہ خلافت کے بعد انہوں نے کہا کہ پہلے تو میں زبردستی بعض کام کروا لیا کرتی تھی۔ اب جو کام میرے ذمہ تھے یعنی ان کے کام جو مَیں انجام دیا کرتا تھا وہ کس طرح ہوں گے یا ان کی زمینوں کے معاملات تھے۔ بہرحال میں نے ان کو تسلی دی تو اس کے بعد سے کبھی انہوں نے کسی قسم کا مطالبہ نہیں کیا اور جو میں کہتا تھا اس کے مطابق ہمیشہ عمل کرتی رہیں اور راضی ہوتی رہیں۔ ان کی ایک نند جو میری بھابھی بھی ہیں وہ لکھتی ہیں کہ ہمارا ان سے تعلق بالکل ویسا ہی تھا جیسے ایک ماں کا اپنی بیٹیوں سے ہوتا تھا۔ والدہ محترمہ کی وفات کے بعد ہم سب کا بہت خیال رکھا۔ ہماری شادیوں میں جوڑے، زیور، جہیز وغیرہ کے سارے انتظامات خود کروائے جیسے ایک ماں اپنی بیٹی کے لئے کرتی ہے۔ شادی کے بعد آج تک ہر عید پر عیدی بھجواتیں جیسے مائیں اپنی بیٹیوں کو بھجواتی ہیں۔ کئی غریب بچیوں کو اپنے گھر میں پالا اور ان کی ہر طرح سے دینی اور دنیاوی تعلیم و تربیت کا خیال رکھا۔ ایک ملازمہ کی بچی تھی جو انہوں نےخود پالی تھی اور یہ کہتی ہیں کہ اس کی شادی پر اپنی سب نندوں کو پیغام بھیجا کہ اگر تم اس کی شادی پر شامل نہ ہوئی تو میں تم لوگوں کے بچوں کی شادی میں شامل نہیں ہوں گی۔ اس طرح غریبوں سے بھی قربت کا اظہار کرتی تھیں۔ ان کی ایک سب سے چھوٹی نند جو ہیں وہ لکھتی ہیں کہ میں نے ایک دفعہ ان سے پوچھا کہ کتنی عمر سے آپ نے تہجد پڑھنی شروع کی تھی؟ انہوں نے جواب نہیں دیا۔ مجھے ٹالنا چاہا۔ لیکن کہتی ہیں میرے بار بار کے اصرار پر انہوں نے بتایا کہ میں بارہ سال کی عمر سے باقاعدہ تہجد پڑھ رہی ہوں۔ اسی طرح کئی بچیوں کے جہیز اور تعلیم کے اخراجات برداشت کرتی تھیں اور لجنہ کا جو دستکاری فنڈ ہوتا تھا اس میں سے بھی دلوایا کرتی تھیں۔ بعضوں کی رونقیں ایسی ہوتی تھیں جہاں بچیوں کی شادی کی رونق ہے لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں، غریب بچی ہے تو اپنے گھر سے کھانے وانے کا بھی انتظام انہوں نے کیا۔ اور خلافت سے اخلاص کا ایک واقعہ ان کے میاں خورشید احمد صاحب کے بھانجے لکھتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ شہد کی ایک شیشی پڑی تھی۔ میں نے کہا مجھے دے دیں تو انہوں نے میرا کہا کہ یہ تو مجھے اُس نے بھیجی ہے۔ یہ تو میں نہیں دے سکتی۔ اس طرح کی ایک اور شیشی پڑی ہے وہ تم لے لو۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سےچھ بہوئیں تھیں۔ ہر ایک سے ان کا بہترین سلوک تھا اور ہر ایک کو بیٹیوں کی طرح رکھا ہوا تھا اور ان کی چھوٹی بہو یہاں لندن میں ڈاکٹر حامد اللہ صاحب ہیں ان کی بیٹی ہیں۔ ان کی اہلیہ بھی آجکل بیمار ہیں ان کی وجہ سے ان کی اس بہو کو، عطیہ کو لندن آنا پڑا تو انہوں نے کہا تم بے فکر ہو کر جاؤ۔ باوجود اس کے کہ خود بیمار تھیں انہوں نے کہا تم جاؤ اپنی ماں کی خبر گیری کرو، یہاں بچے چھوڑ جاؤ میں بچے سنبھال لوں گی۔ انتہائی تکلیف میں بھی بڑے صبر سے انہوں نے اپنا ہر کام کیا ہے۔
میری چھوٹی ہمشیرہ لکھتی ہیں کہ کارکنان سے جب کام کرواتیں تو بڑے آرام سے کرواتیں اور نمائش کی ڈیوٹیوں میں بعض دفعہ نقصان بھی ہو جاتا تو زیادہ سختی نہیں کرتی تھیں۔ بڑے تحمل کے ساتھ کام کرتی تھیں اور اس وجہ سے لجنہ کی ممبرات ان کے ساتھ کام کرنا پسند کرتی تھیں۔ اسلامی امور میں بھی بہت زیادہ Prefect تھیں۔ کارکنات کو کسی قسم کی تکلیف ہوتی تو اسے دور کرنے کی فوری طور پر کوشش کرتیں۔ میری چھوٹی ہمشیرہ امۃ القدوس صاحبہ لکھتی ہیں کہ انسان کے عمل میں کمی بیشی تو ہوتی رہتی ہے تاہم ان کی گھٹی میں یہ چیز شامل تھی کہ قرآن و حدیث کے ساتھ بہت تعلق تھا۔ نیکی تو گویا ان کی سرشت میں داخل تھی۔ جب دیکھتیں کہ ہماری روایات اور تعلیم کے خلاف بات ہوئی ہے تو کھل کر اس کے خلاف بولتی تھیں۔ سب سے چھوٹی ہونے کی وجہ سے بچپن سے بہت لاڈلی تھیں لیکن بہت زیادہ انکسار تھا اور ہمیشہ انکساری سے ہر ایک سے ملتی تھیں۔ میری بڑی ہمشیرہ امۃ الرؤوف صاحبہ نے لکھا کہ پارٹیشن کے بعد ماڈل ٹاؤن لاہور میں جب ہم حضرت مرزا شریف احمد صاحب کے ساتھ رہتے تھے اس وقت حضرت مرزا شریف احمد صاحب سب کو اکٹھا کر کے باقاعدگی سے قرآن و حدیث پڑھاتے تھے تو کہتی ہیں اس کے بعد پھر ہماری پھوپھی، امۃ الوحید صاحبہ جو فوت ہوئی ہیں، ان کو بھی اس وقت سے ایسی جاگ لگی کہ خود پڑھا اور پھر اپنے بچوں کو اور دوسرے بچوں کو بھی پڑھایا اور ایک بچے کی زبان کا مسئلہ تھا تو گھنٹوں بیٹھ کے دہرا دہرا کر قرآن کریم اس کو سکھایا اور اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے کوئی مسئلہ نہیں رہا اور وہ بولنے والا بچہ ہے۔ میری ہمشیرہ لکھتی ہیں کہ میٹرک کے بعد ایف۔ اے ربوہ سے کیا۔ تہجد کے بعد اپنی پڑھائی شروع کر دیتی تھیں اور نماز کی طرف بھی ہمیشہ توجہ رہتی تھی۔
اسی طرح باقی لوگوں نے بھی مختلف اوصاف لکھے ہیں۔ پھر ان کے بیٹے نے لکھا کہ خلافت سے پہلے تو جو آپ سے تعلق تھا وہ اَور تھا اور خلافت کے بعد کہنے لگیں کہ بھتیجے کا رشتہ ختم ہو گیا، اب صرف خلافت کا رشتہ باقی رہ گیا ہے۔ یہاں بھی جب آتی تھیں تو ملنے آتی تھیں۔ بعض دفعہ بیٹھی ہوتی تھیں تو ایک دم کھڑی ہو جاتی تھیں۔ میں نے کہا بھی کہ بیمار ہیں بیٹھی رہا کریں۔ میری اہلیہ نے بھی کہا لیکن فوراً کھڑی ہو جاتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ پر بڑا توکّل تھا۔ ایک دفعہ ان کے چھوٹے بیٹے کی شادی بڑے سے پہلے ہو گئی۔ بڑے کے لئے انہوں نے گھر میں اپنا ایک حصہ بنایا ہوا تھا تو ان کے خاوندنے کہا کہ وہ حصہ چھوٹے کو دے دیں کیونکہ فی الحال اَورتوفیق نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ نہیں، جو بڑے کے لئے بنایا ہے وہ بڑے کے لئے ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ انتظام کر دے گا۔ اور ایک دن اتفاق سے یا اللہ تعالیٰ کی تقدیر تھی کہ قرآن کریم پڑھتے ہوئے ایک آیت پر ان کی توجہ ہوئی اور انہوں نے اپنے خاوند کو کہا کہ اس آیت سے میں سمجھتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ میری ضرورت پوری کر دے گا۔ چنانچہ اس زمانے میں جو سستا زمانہ تھا انہوں نے کچھ پرائز بانڈ لئے ہوئے تھے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کا ایک لاکھ روپے کا پرائز بانڈ نکلا جس کی وجہ سے انہوں نے وہ گھر بنا دیا۔
پھر بیٹا یہ لکھتا ہے کہ جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کی وفات کی اطلاع آئی تو ہم سب لوگ نماز کے لئے مسجد گئے ہوئے تھے اور ہماری امی بھی بڑے صدمہ میں تھیں تو اس وقت میری بڑی بھابھی نے اونچا رونا شروع کیا تو امی نے اسے کہا کہ خاموش ہو جاؤ، اس وقت جماعت پر ابتلاء کا وقت ہے اور یہ دعاؤں کا وقت ہے، اس وقت دعائیں کرو۔ یہ کہتے ہیں کہ میں نو سال کا تھا جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کی وفات ہوئی ہے۔ بچہ تھا تو کسی بات پر میری ہنسی نکل گئی تو مجھے بڑے زور سے ڈانٹا کہ تم چپ کرو، تمہیں پتا نہیں کہ اس وقت جماعت کے کیا حالات ہیں۔ بچپن سے ہی احساس دلا دیتی تھیں کہ جماعت کی اہمیت کیا ہے۔ اسی طرح بچوں کو مختلف Incentive دے کے سورتیں یاد کرواتی رہیں۔ ان کے گھر میں ہی پلی بڑھی ایک بچی جس کے میاں بھی دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں کارکن ہیں یہ کہتی ہیں کہ چار پانچ سال کی عمر سے آپ کے گھر میں ہوں۔ آپ نے مجھے پڑھایا۔ ہر لحاظ سے میری تربیت کی۔ میری شادی کروائی۔ شادی کے بعد جب کوئی کام ہوتا مجھے اپنے گھر بلوا لیتیں۔ کہتی ہیں ایک دفعہ میرے گھر آئیں تو ایک پرانی طرز کا صوفہ پڑا ہوا تھا۔ انہوں نے کہا یہ کہاں سے آیا ہے؟ بتایا کہ کسی ہمسائے نے دیا ہے۔ انہوں نے کہا یہ صوفہ اٹھواؤ اور نیا صوفہ فوری طور پر بنوا کر دیا۔
یہ خاتون کہتی ہیں میرے بیٹے کی پڑھائی کا بڑا خیال رکھا اور آخری بیماری کے ایام میں بھی بیٹے کی شادی کے لئے زیور وغیرہ بنوا کر دیا اور ہر چیز کو باریکیوں سے دیکھتی تھیں۔ اسی طرح رضاعی رشتوں کا بڑا خیال رکھنے والی تھیں۔ ان کی رضاعی والدہ جو اُن کو دودھ پلانے والی تھیں ان کا بیٹا سوئٹزرلینڈ میں ہے وہ کہتے ہیں کہ میرے والد کی پریشانی میں اور ہر تکلیف میں ان کا بڑا خیال رکھا۔ اسی طرح ان کی رضاعی بہن تھیں ان کے عزیز نے مجھے لکھا کہ انتہائی عاجزی سے اس کی بیماری کے دنوں میں اس کا خیال رکھا۔ تو یہ بہت سارے اوصاف ان میں تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے بچوں میں بھی یہ اوصاف جاری فرمائے اور ان کا خلافت سے وفا کا تعلق ہو اور اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔
نمازوں کے بعدتینوں مرحومین جن کا میں نے ذکر کیا ہے ان کا میں جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا۔
ہمارے لوگوں کی عادت ہے کہ عین موقع پر کام شروع کرتے ہیں اور اس خوش فہمی میں رہتے ہیں کہ کام ہو جائے گا۔ اللہ کا فضل ہے بعض کام ہنگامی طور پر ہو بھی جاتے ہیں اور جس طرح جماعت احمدیہ کے کام ہوتے ہیں شاید کسی اور کے نہ ہو سکیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ پہلے planning نہ کی جائے۔
اللہ تعالیٰ انتظامیہ کو عقل اور سمجھ بھی دے اور خوش فہمیوں میں مبتلا ہونے سے ان کو بچائے اور حقائق سمجھتے ہوئے یہ کام کرنے والے ہوں۔ آپ لوگوں نے اپنے عہدیدار منتخب کئے ہیں تو آپ کا فرض بھی بنتا ہے کہ ان کے کاموں میں اَٹکل پیدا کرنے کے لئے اور عقل پیدا کرنے کے لئے ان کے لئے باقاعدہ دعا بھی کرتے رہا کریں۔ جماعت تو انشاء اللہ بڑھنی ہے اور بڑھتی جا رہی ہے اس لئے جو بھی جگہیں ہم لیں گے چھوٹی ہوتی جائیں گی لیکن ایک جگہ لے کر پھر اپنی سستی کی وجہ سے کئی سال استعمال نہ کر کے یہ کہہ دیں کہ یہ جگہ بھی تنگ ہو گئی تو یہ کوئی جواب نہیں، نہ عقلمندی ہے۔
مکرم پروفیسر ڈاکٹر اشفاق احمد صاحب شہید آف سبزہ زار لاہور، مکرم ایچ ناصر الدین صاحب مبلغ انچارج ایسٹ گوداوری انڈیا اور مکرمہ صاحبزادی امۃ الوحید بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب کی وفات۔ مرحومین کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب۔
ان لوگوں کے بعض اوصاف ایسے ہیں جو جماعت کے ہر طبقے کے لئے نیک مثال ہیں۔ اور یہی ایسی باتیں ہیں جو ہم میں سے بہتوں کے لئے قابل تقلیدنمونہ ہیں۔ بہت سوں کے لئے ان میں سبق ہیں۔ ہر ایک کی سیرت کے پہلو جو میرے سامنے لائے گئے ہیں یا جو مجھے علم تھے وہ ایسے ہیں جو مَنْ قَضٰی نَحْبَہٗ(الاحزاب:24) کے مصداق ان لوگوں کو بناتے ہیں۔ جو اپنے عَہدوں اور اپنی نیّتوں اور ارادوں کو پورے کرنے والے لوگ تھے۔ جنہوں نے دین کو دنیا پر مقدم کرتے ہوئے اپنی زندگیاں بسر کیں اور اسی طرح خدا تعالیٰ کے حضور حاضر ہو گئے۔
فرمودہ مورخہ 14؍اپریل 2017ء بمطابق14؍شہادت 1396 ہجری شمسی، بمقامRaunheim، فرینکفرٹ، جرمنی
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔