رمضان کی فضیلت اور غرض و غایت، تقویٰ کے مراتب، استقامت
خطبہ جمعہ 2؍ جون 2017ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ۔ (البقرۃ: 184) اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو تم پر روزے اسی طرح فرض کر دئیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تا کہ تم تقویٰ اختیار کرو۔
الحمد للہ کہ ہمیں اپنی زندگی میں ایک اَور رمضان کے مہینہ میں سے گزرنا نصیب ہو رہا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا کہ اگر لوگوں کو رمضان کی فضیلت کا علم ہوتا تو میری اُمّت اس بات کی خواہش کرتی کہ سارا سال ہی رمضان ہو۔ اس پر ایک شخص نے عرض کیا کہ اے اللہ تعالیٰ کے نبی! رمضان کے فضائل کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا یقیناً جنت کو رمضان کے لئے سال کے آغاز سے آخر تک مزیّن کیا جاتا ہے۔ (معجم الکبیر جلد 22 صفحہ 388-389 حدیث 967 ابو مسعود الغفاری مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت)
اسی طرح ایک اور روایت میں ہے جو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے رمضان کے روزے ایمان کی حالت میں اور اپنا محاسبہ نفس کرتے ہوئے رکھے اس کے گزشتہ گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔ (صحیح البخاری کتاب الایمان باب صوم رمضان احتسابا من الایمان حدیث 38) اور اگر تمہیں معلوم ہوتا کہ رمضان کی کیا کیا فضیلتیں ہیں تو تم ضرور اس بات کے خواہشمند ہوتے کہ سارا سال ہی رمضان ہو۔
پس رمضان کی فضیلت نہ صرف مہینے کے دنوں سے ہے، نہ صرف ایک وقت تک کھانے پینے کے رکنے سے ہے۔ صرف اس بات کے لئے سارا سال اللہ تعالیٰ کی جنت کے لئے تیاری نہیں ہو رہی ہوتی۔ اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دوسری حدیث ہے اس میں واضح طور پر فرما دیا کہ ایمان کی حالت میں روزہ رکھنے اور اپنے نفس کا محاسبہ کرتے ہوئے اپنے روز و شب رمضان میں گزارنے سے ہی یہ مقام ملتا ہے اور جب یہ حالت ہو گی تو تبھی گزشتہ گناہ بھی معاف ہوتے ہیں۔ انسان ایمان میں ترقی کرتا ہے۔ اپنے نفس کا محاسبہ کرتا ہے۔ اپنی کمزوریوں کو دیکھتا ہے۔ اپنے اعمال کو دیکھتا ہے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی پر غور کرتا ہے۔ اپنے عملوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ تو تبھی گناہوں کی معافی بھی ہوتی ہے۔ اور یہی مقصد اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بھی رمضان کے روزوں سے حاصل کرنے کا بیان فرمایا ہے۔
اس آیت میں جو مَیں نے تلاوت کی ہے کہ تم پر روزے اس لئے فرض کئے گئے ہیں، رمضان کا مہینہ ہر سال اس لئے مقرر کیا گیا ہے تا کہ تم تقویٰ اختیار کرو۔ اور تقویٰ یہی ہے کہ ہر کام خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے ہو تبھی تم روزوں سے فیضیاب ہو سکتے ہو اور شیطانی حملوں سے بچ سکتے ہو۔ جب خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرتے ہوئے روزے رکھو گے تو اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آؤ گے اور جب انسان اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آئے تو تبھی شیطان سے بچ سکتا ہے ورنہ شیطان کا یہ کھلا چیلنج ہے کہ ذرا انسان اللہ تعالیٰ کی پناہ سے دُور ہوا تو فوراً اسے شیطان نے دبوچا، اپنے قابو میں کر لیا۔ پس ایمان میں ترقی اور نفس کا محاسبہ ہی انسان کو اللہ تعالیٰ کی پناہ کا مورد بناتا ہے اور یہ تبھی ہو سکتا ہے جب انسان تقویٰ پر چلنے والا ہو۔
ایمان کی حالت اور معیار اور تقویٰ کی حالت اور معیار کیا ہونے چاہئیں اور یہ کس طرح حاصل ہو سکتے ہیں؟ا س کے بارے میں ہمیں وہی صحیح بتا سکتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اس کام پر مامور کیا ہو اور یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق اور زمانے کے امام کے ذریعہ سے ہی پتا چل سکتا ہے کہ آپ علیہ السلام کو ہی اللہ تعالیٰ نے اس کام کے لئے بھیجا ہے۔ آپ ہی ہیں جنہوں نے ایمان کو دوبارہ زمین پر لا کر دلوں میں تقویٰ پیدا کرنے اور قائم کرنے کے اُسلوب سکھانے تھے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب آپ کی مختلف مجالس میں باتیں، آپ کے ارشادات مختلف زاویوں سے اس طرف رہنمائی کرتے ہیں۔ جیسا کہ حدیث میں آیا ہےآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے روزے ایمان کی حالت میں رکھے، اپنا محاسبہ کرتے ہوئے رکھے، اس کے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں بتایا کہ ایمان کی حالت اُس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک کہ خدا تعالیٰ کی پہچان نہ ہو۔ آپ نے فرمایا کہ بھاری مرحلہ جو ہم نے طے کرنا ہے وہ خدا شناسی ہے۔ اس کو پہچاننا ہے اور اگر ہماری خداشناسی ہی ناقص اور مشتبہ اور دھندلی ہے تو ہمارا ایمان ہرگز منور اور چمکیلا نہیں ہو سکتا۔ اور خداشناسی کس طرح ہو گی؟ یہ اللہ تعالیٰ کی صفت رحیمیت کے جلوے سے ہو گی۔ خدا کی پہچان اللہ تعالیٰ کی جو صفت رحیمیت کی ہے اس کے ظاہرہونے سے ہوتی ہے۔ ایسا تعلق خدا تعالیٰ سے پیدا کرنے سے ہو گی جس میں خدا تعالیٰ کی رحیمیت اور فضل اور قدرت کی صفات ہمارے تجربے میں آئیں گی۔ اور یہ باتیں اس وقت تجربے میں آ سکتی ہیں جب خدا کی عبادت اور اس سے تعلق کا غیر معمولی اظہار ہو رہا ہو۔ آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی رحیمیت اور فضل اور قدرت کی صفات جب تجربے میں آتی ہیں تو پھر وہ نفسانی جذبات سے چھڑاتی ہیں اور نفسانی جذبات کمزوریٔ ایمان اور کمزوریٔ یقین کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ اگر ایمان کمزور نہ ہو، اللہ تعالیٰ پر یقین کامل ہو تو نفسانی جذبات پیدا نہیں ہوتے۔ آپ نے فرمایا کہ اس دنیا کی آسائشیں، اس کی املاک، اس کی دولتیں جس قدر انسان کو پیاری ہیں اتنی اخروی زندگی کی نعمتیں اسے پیاری نہیں۔ (ماخوذ از ایام الصلح۔ روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 244-245)
کہنے کو تو انسان کہتا ہے کہ مجھے آخری زندگی کی نعمتیں پیاری ہیں۔ کیونکہ اگر اخروی زندگی کی نعمتیں بھی اتنی ہی پیاری ہوتیں تو پھر ان کو حاصل کرنے کے لئے بھی اتنی ہی کوشش ہوتی جتنی ان دنیاوی چیزوں کے حاصل کرنے کے لئے ہوتی ہے بلکہ اس سے بڑھ کر ہوتی۔ پس واضح ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور رحیمیت اور وعدوں پر حقیقی ایمان نہیں ہے اور اس بات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
پس اس وضاحت کے بعد ہی یہ بات اچھی طرح سمجھ آسکتی ہے کہ یہ ایمان کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ یہ بہت بڑی چیز ہے۔ ایک بہت بڑا ٹارگٹ ہے جو ہمیں دیا گیا ہے۔ صرف تیس دن کے روزے رکھنے کے لئے یا رمضان کا مہینہ آنے کے لئے تیاریاں نہیں ہوتیں، نہ ان کی کوئی اہمیت ہے۔ یہ اہمیت تبھی بڑھتی ہے جب اس مہینے کی ٹریننگ سے ہماری یہ ساری کوششیں سارے سال کے عملوں پر منتج ہو جائیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دو فقروں میں ہمارے سامنے پوری زندگی کا لائحہ عمل رکھ دیا۔ ہمارے منہ سے کہہ دینے سے کہ ہم ایمان کی حالت میں روزے رکھ رہے ہیں اس لئے ہمارے سارے گناہ بخشے جائیں گے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دیا، یہ کافی نہیں۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنا محاسبہ کرتے ہوئے روزے رکھے تو اس کا یہی مطلب ہے کہ اپنے ایمان کو اس کسوٹی پر رکھ کر پرکھنا ہو گا جو اللہ تعالیٰ سے تعلق بڑھانے کی کسوٹی ہے۔ اس کے حکموں پر عمل کرنے کی کسوٹی ہے۔ پس یہ دیکھنا ہے کہ ہم اس پر عمل کر رہے ہیں یا نہیں۔ ایمان کی حالت اور اسے درست کرنے کا طریق بیان فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ پر ایمان دو قسم کا ہے۔ ایک وہ ایمان ہے جو صرف زبان تک محدود ہے اور اس کا اثر افعال اور اعمال پر کچھ نہیں‘‘۔ (زبان تک ایمان ہے۔ اپنے عملوں سے کوئی ایمان ظاہر نہیں ہو رہا ہوتا)۔ ’’دوسری قسم ایمان باللہ کی یہ ہے کہ عملی شہادتیں اس کے ساتھ ہوں۔ پس جب تک یہ دوسری قسم کا ایمان پیدا نہ ہو مَیں نہیں کہہ سکتا کہ ایک آدمی خد اکو مانتا ہے۔ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی کہ ایک شخص اللہ تعالیٰ کو مانتا بھی ہو اور پھر گناہ بھی کرتا ہو۔ دنیا کا بہت بڑا حصہ پہلی قسم کے ماننے والوں کا ہے۔‘‘
آپ فرماتے ہیں کہ ’’مَیں جانتا ہوں کہ وہ لوگ اقرار کرتے ہیں کہ ہم خدا کو مانتے ہیں مگر یہ دیکھتا ہوں کہ اس اقرار کے ساتھ ہی وہ دنیا کی نجاستوں میں مبتلا اور گناہ کی کدورتوں سے آلودہ ہیں‘‘۔ فرمایا ’’پھر وہ کیا بات ہے کہ وہ خاصہ جو ایمان باللہ کا ہے اس کو حاضر ناظرمان کر پیدا نہیں ہوتا؟‘‘ فرمایا ’’دیکھو! انسان ایک ادنیٰ درجہ کے چوہڑے چمار کو حاضر ناظر دیکھ کر اس کی چیز نہیں اٹھاتا۔ پھر اس خدا کی مخالفت اور اس کے احکام کی خلاف ورزی میں دلیری اور جرأت کیوں کرتا ہے جس کی بابت کہتا ہے (کہ) مجھے اس کا اقرار ہے‘‘ (میں اس پہ ایمان لاتا ہوں ) فرمایا ’’مَیں اس بات کو مانتا ہوں کہ دنیا کے اکثر لوگ ہیں جو اپنی زبان سے اقرار کرتے ہیں کہ ہم خد اکو مانتے ہیں۔ کوئی پر میشر کہتا ہے، کوئی گاڈ کہتا ہے، کوئی اَور نام رکھتا ہے۔ مگر جب عملی پہلو سے ان کے اس ایمان اور اقرار کا امتحان لیا جاوے اور دیکھا جاوے تو کہنا پڑے گا کہ وہ نرا دعویٰ ہے جس کے ساتھ عملی شہادت کوئی نہیں‘‘۔
فرمایا کہ’’انسان کی فطرت میں یہ امر واقعہ ہے کہ وہ جس چیز پر یقین لاتا ہے اس کے نقصان سے بچنے اور اس کے منافعہ کو لینا چاہتا ہے۔ دیکھو! سنکھیا ایک زہر ہے اور انسان جبکہ اس بات کا علم رکھتا ہے کہ اس کی ایک رَتی بھی ہلاک کرنے کو کافی ہے تو کبھی وہ اس کو کھانے کے لئے دلیری نہیں کرتا اس لئے کہ وہ جانتا ہے (کہ) اس کا کھانا ہلاک ہونا ہے۔ پھر کیوں وہ خد اتعالیٰ کو مان کر ان نتائج کو پیدا نہیں کرتا جو ایمان باللہ کے ہیں‘‘۔ فرمایا ’’اگر سنکھیا کے برابر بھی اللہ تعالیٰ پر ایمان ہو تو اس کے جذبات اور جوشوں پر موت وارد ہو جاوے۔ مگر نہیں۔ یہ کہنا پڑے گا کہ نرا قول ہی قول ہے۔ ایمان کو یقین کا رنگ نہیں دیا گیا ہے۔ یہ اپنے نفس کو دھوکا دیتا ہے‘‘ (ایمان جب ہو تو اس پر یقین کامل ہونا چاہئے، اس کو یقین کا رنگ ملنا چاہئے کیونکہ وہ یقین کا رنگ نہیں ہے اس لئے فرمایا کہ نفس کو دھوکا دیتا ہے) ’’اور دھوکا کھاتا ہے جو کہتا ہے کہ مَیں خدا کو مانتا ہوں‘‘۔ فرماتے ہیں کہ ’’پس پہلا فرض انسان کا یہ ہے کہ وہ اپنے اس ایمان کو درست کرے جو وہ اللہ پر رکھتا ہے یعنی اس کو اپنے اعمال سے ثابت کر دکھائے کہ کوئی فعل ایسا اس سے سرزدنہ ہو جو اللہ تعالیٰ کی شان اور اس کے احکام کے خلاف ہو۔‘‘ (ملفوظات جلد 4 صفحہ 312-313۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس یہ ہے ایک مومن کا محاسبہ کا طریق۔ رمضان کے مہینے میں ایک خاص ماحول بنا ہوتا ہے اور دوسروں کی دیکھا دیکھی بھی عبادتوں اور نیکیوں کی طرف توجہ پیدا ہو رہی ہوتی ہے۔ ایسے ماحول میں عبادتوں اور نیکیوں کی طرف توجہ کرتے ہوئے، اپنے اعمال کی طرف توجہ کرتے ہوئے، ہمیں اپنے خدا کے آگے جھکتے ہوئے گزشتہ گناہوں کی معافی مانگنی چاہئے اور پھر اس رمضان کی عبادتوں کو اور اس میں تبدیلیوں کو آئندہ زندگی کا مستقل حصہ بنا لینا چاہئے۔ اور اس میں جو گناہ معاف ہوئے یا جنت کے دروازے کھولے گئے تو پھر ہمیشہ کوشش کرنی چاہئے کہ یہ کھلے رہیں۔ اور رمضان کے فیوض سے حصہ لینے کے لئے نہایت عاجزی سے اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے ہمیں کوشش کرنی چاہئے۔ اللہ کرے کہ ہم اس کے فیض پاتے چلے جائیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے ہمارے سامنے روزوں کا جو مقصد رکھا ہے کہ تقویٰ حاصل ہو اس کے بھی معیار حاصل کرنے کی ہمیں کوشش کرنی چاہئے۔
تقویٰ میں ترقی کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مختلف ذریعہ سے ہمیں جو سمجھایا ہے اس بارے میں بھی آپ کے حوالے سے بعض باتیں پیش کرتا ہوں۔ انسان کی ایمانی حالت بھی اس وقت ترقی کرتی ہے جب تقویٰ میں ترقی ہو۔ پس جیسا کہ پہلے ذکر آ چکا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ ایمان کی حالت اور محاسبہ کرتے ہوئے رمضان گزارو تو اس کا مطلب ہی یہ ہے کہ تقویٰ میں ترقی کرتے ہوئے، اپنی حالتوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے تابع کرتے ہوئے یہ دن گزارو اور اگر اس میں سے کامیاب گزر گئے تو پھر تقویٰ زندگی کا مستقل حصہ بن جائے گا۔ اپنی عملی حالتوں کو انسان صرف رمضان میں ہی درست نہیں کرے گا بلکہ یہ فیض جاری فیض ہو گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں اس طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ قرآن اور اسلام کی تعلیم کا مقصد تو تقویٰ پیدا کرنا تھا وہی ہمیں آج نظر نہیں آتا۔ روزے رکھتے ہیں، نمازیں پڑھتے ہیں لیکن تقویٰ سے عاری ہونے کی وجہ سے یہی نمازیں اور روزے انہیں گناہگار بنا رہے ہیں۔ یہ اسلام کے نام پر جو آجکل ہم دیکھتے ہیں کہ دہشت گردی ہو رہی ہے۔ معصوموں کو قتل کیا جا رہا ہے۔ یہ اس لئے ہے کہ تقویٰ نہیں رہا۔ ہر روز کچھ نہ کچھ ہوتا ہے۔ مسلمانوں کی طرف سے ہوتا ہے۔ دو دن پہلے افغانستان میں بھی بڑے ظالمانہ طور پر سو کے قریب لوگوں کو قتل کر دیا گیا۔ کیا ان لوگوں کو رمضان کوئی فائدہ دے گا یا یہ رمضان کی فضیلت حاصل کرنے والے ہوں گے؟ اس سے فیض پانے والے ہوں گے؟ یقیناً نہیں کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے حکموں کے خلاف کرنے والے لوگ ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کے احکام سے دُور ہٹ رہے ہیں اور یہ تقویٰ سے دُور ہیں۔ اسی لئے اور عین قرآنی تعلیم کے مطابق ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ فرمایا ہے کہ بغیر تقویٰ کے نمازیں بھی بے فائدہ اور دوزخ کی کلید ہیں۔ دوزخ کی چابی ہیں۔ اس کی طرف لے جانے والی ہیں۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد 4 صفحہ 48۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس ایسے لوگوں کو رمضان کس طرح فائدہ دے سکتا ہے جو تقویٰ سے عاری ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے نام پر ظلم کرتے ہیں وہ کبھی رمضان سے فیض اٹھانے والے نہیں ہو سکتے بلکہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں آنے والے ہیں۔ پس ایسے وقت میں جب ہم ظلم و بربریت کے یہ واقعات سنتے اور دیکھتے ہیں تو ہم احمدیوں کو پہلے سے بڑھ کر استغفار کرتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے ہوئے کہ اس نے ہمیں ان ظالم لوگوں سے علیحدہ کر کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی، اپنے اپنے عملوں پر نظر رکھنی چاہئے، اپنے ایمان کی مضبوطی کی فکر کرنی چاہئے۔ اس بات پہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں وہ راستے دکھائے جو خدا تعالیٰ سے ملانے کے راستے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ ایمان کی جڑ تقویٰ اور طہارت ہے۔ فرمایا کہ اسی سے ایمان شروع ہوتا ہے اور اسی سے اس کی آبپاشی ہوتی ہے اور نفسانی جذبات دبتے ہیں۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد 4 صفحہ 243۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس آپ کے اس ارشاد سے یہ بات مزیدکھل گئی کہ ایمان بغیر تقویٰ کے پیدا ہی نہیں ہوسکتا اور نہ صرف یہ کہ ایمان کی جڑ تقویٰ ہے بلکہ ایمان کی حفاظت اور پرورش بھی تقویٰ کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ تقویٰ ہو گا تو اعمال نیک ہوں گے اور اعمال نیک ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق ہوں گے تو ایمان میں ترقی پیدا ہو گی۔ اس سے یہ بھی واضح ہو گیا کہ رمضان کی فضیلت کے پھل بھی تقویٰ میں بڑھے بغیر حاصل نہیں ہو سکتے۔ تقویٰ بڑھے گا تو ایمان بڑھے گا، محاسبہ کی طرف توجہ ہو گی۔ اور جب محاسبہ کی طرف توجہ ہو گی، اپنا جائزہ انسان لے گا تو نفسانی جذبات بھی پھر دبیں گے۔ اور جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے نفسانی جذبات کا دبنا ہی اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرتے ہوئے اس کا قرب دلاتا ہے۔
اصل تقویٰ کی حقیقت کو مزید بیان فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’اصل تقویٰ جس سے انسان دھویا جاتا ہے اور صاف ہوتا ہے اور جس کے لئے انبیاء آتے ہیں وہ دنیا سے اٹھ گیا ہے۔ کوئی ہو گا جو قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا (الشمس:10) کا مصداق ہو گا۔ پاکیزگی اور طہارت عمدہ شئے ہے۔ انسان پاک اور مطہّر ہو تو فرشتے اس سے مصافحہ کرتے ہیں۔ لوگوں میں اس کی قدر نہیں ہے ورنہ ان کی لذّات کی ہر ایک شئے حلال ذرائع سے ان کو ملے۔‘‘ (اگر لوگوں میں تقویٰ کی قدر ہو تو جو بھی دنیاوی لذات ہیں آپ نے فرمایا کہ وہ بھی تمہیں حلال ذریعے سے ملیں نہ کہ حرام ذریعہ سے، ناجائز ذریعہ سے)۔ فرمایا کہ ’’چور چوری کرتا ہے کہ مال ملے لیکن اگر وہ صبر کرے تو خدا تعالیٰ اسے اور راہ سے مالدار کر دے۔ اسی طرح زانی زنا کرتا ہے اگر صبر کرے تو خدا تعالیٰ اس کی خواہش کو اور راہ سے پوری کر دے جس میں اس کی رضا حاصل ہو‘‘۔ آپ فرماتے ہیں کہ’’حدیث میں ہے کہ کوئی چور چوری نہیں کرتا مگر اس حالت میں کہ وہ مومن نہیں ہوتا اور کوئی زانی زنا نہیں کرتا مگر اس حالت میں کہ وہ مومن نہیں ہوتا‘‘۔ (جب ایمان کی حالت ختم ہو جاتی ہے تو پھر ہی ایسے فعل سرزد ہوتے ہیں۔) آپ فرماتے ہیں کہ ’’جیسے بکری کے سر پر شیر کھڑا ہو تو وہ گھاس بھی نہیں کھاسکتی تو بکری جتنا ایمان بھی لوگوں کا نہیں ہے‘‘۔
کیونکہ مجلس میں ذکر ہو رہا تھا اس لئے اسی بات کا اخبار میں ایک دوسری جگہ اس طرح بیان ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ ’’حدیث میں آیا ہے کہ چور چوری نہیں کرتا جبکہ مومن ہو۔ یہ بالکل سچی بات ہے۔ بکری کے سر پر اگر شیر ہو تو اس کو حلال کھانا بھی بھول جاتا ہے چہ جائیکہ وہ کسی دوسرے کے کھیت میں جائے۔ اسی طرح پر اگر خداتعالیٰ کا خوف ہو تو ممکن نہیں کہ گناہ کرے‘‘۔
فرماتے ہیں کہ’’اصل جڑ اور مقصود تقویٰ ہے۔ جسے وہ عطا ہو تو سب کچھ پا سکتا ہے۔ بغیر اس کے ممکن نہیں ہے کہ انسان صغائر اور کبائر سے بچ سکے۔‘‘ (بڑے گناہوں سے، چھوٹے گناہوں سے بچ سکے)۔ فرمایا کہ’’انسانی حکومتوں کے احکام گناہوں سے نہیں بچا سکتے۔ حُکّام ساتھ ساتھ تو نہیں پھرتے کہ ان کو خوف رہے‘‘۔ (لوگوں کو ان کا خوف رہے)’’انسان اپنے آپ کو اکیلا خیال کر کے گناہ کرتا ہے ورنہ وہ کبھی نہ کرے اور جب وہ اپنے آپ کو اکیلا سمجھتا اُس وقت وہ دہریہ ہوتا ہے‘‘۔ (جب اکیلا سمجھتا ہے تو ظاہر ہے وہ سمجھتا ہے کہ خدا مجھے نہیں دیکھ رہا تو مطلب یہ ہے کہ ہے اس وقت وہ دہریہ ہوتا) ’’اور یہ خیال نہیں کرتا کہ میرا خدا میرے ساتھ ہے۔ وہ مجھے دیکھتا ہے۔ ورنہ اگر وہ یہ سمجھتا تو کبھی گناہ نہ کرتا‘‘۔ فرماتے ہیں ’’تقویٰ سے سب شئے ہے۔‘‘ (ہر چیز تقویٰ پہ ہی منحصر ہے) ’’قرآن نے ابتدا اسی سے کی ہے۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ سے مراد بھی تقویٰ ہے کہ انسان اگرچہ عمل کرتا ہے مگر خوف سے جرأت نہیں کرتا کہ اسے اپنی طرف منسوب کرے اور اسے خدا کی استعانت سے خیال کرتا ہے اور پھر اسی سے آئندہ کے لئے استعانت طلب کرتا ہے۔‘‘ (اِیَّا کَ نَعْبُدُ انسان کہتا ہے۔ تیری عبادت کرتے ہیں۔ انسان خود عبادت کر رہا ہے، عمل کر رہا ہے لیکن اس کو اپنی طرف منسوب نہیں کرتا۔ آپ نے فرمایا کہ باوجود اس کے کہ وہ عمل کر رہا ہے اور اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کہہ دیتا ہے کہ یہ عبادت جو ہے یہ بھی تیری مدد کی وجہ سے ہی ہو رہی ہے۔ تُو توفیق دے رہا ہے تو عبادت ہو رہی ہے ورنہ یہ عبادت نہیں ہو سکتی۔ اور پھر آئندہ کے لئے بھی مدد طلب کرتا ہے کہ آئندہ بھی اللہ تعالیٰ توفیق دے کہ عبادت کی توفیق ملتی رہے۔ پس یہ ہے تقویٰ کا معیار۔
پھر فرمایا کہ’’دوسری سورت بھی ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ سے شروع ہوتی ہے‘‘۔ آپ فرماتے ہیں کہ’’نماز روزہ زکوٰۃ وغیرہ سب اسی وقت قبول ہوتا ہے جب انسان متقی ہو‘‘۔ (پس تقویٰ ہو گا تو یہ چیزیں قبول ہوں گی۔ اگر تقویٰ نہیں تو یہ چیزیں بھی قابل قبول نہیں۔) آپ فرماتے ہیں کہ’’اس وقت خدا تمام داعی گناہ کے اٹھا دیتا ہے۔‘‘ (یعنی انسان کو گناہ کی ترغیب دینے والی جو بھی چیزیں ہیں اگر تقویٰ کامل ہو تو گناہ کی ترغیب دینے والی، گناہ کی طرف لے جانے والی، گناہ کی طرف بلانے والی ان سب چیزوں کو اللہ تعالیٰ پھر ختم کر دیتا ہے۔) فرماتے ہیں کہ ’’بیوی کی ضرورت ہو تو بیوی دیتا ہے۔ دوا کی ضرورت ہو تو دوا دیتا ہے۔ جس شئے کی حاجت ہو وہ دیتا ہے اور ایسے مقام سے روزی دیتا ہے کہ اسے خبر نہیں ہوتی‘‘۔
آپ فرماتے ہیں ’’ایک اور آیت قرآن شریف میں ہے اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْھِمُ الْمَلَآئِکَۃُ اَ لَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا (حٰم السجدہ:31)۔ فرماتے ہیں کہ’’اس سے بھی مراد متقی ہیں‘‘۔ (یعنی وہ لوگ جنہوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر مستقل مزاجی سے اس عقیدے پر قائم ہوگئے کہ اللہ ہمارا رب ہے۔ وہی ہماری سب ضرورتوں کو پوری کرنے والا ہے۔ وہی پالنے والا ہے۔ ان پر فرشتے یہ کہتے ہوئے اتریں گے کہ ڈرو نہ اور تمہارے جو کوئی پچھلے فعل ہیں، عمل ہیں ان پر بھی خوف نہ کھاؤ کیونکہ اب تم نے تقویٰ اختیار کر لیا۔) آپ فرماتے ہیں کہ ’’اس سے بھی مراد متقی ہیں۔ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا۔ یعنی ان پر زلزلے آئے، ابتلاء آئے، آندھیاں چلیں مگر ایک عہد جو اس سے کر چکے اس سے نہ پھرے۔‘‘ (خدا تعالیٰ سے ثابت قدمی کا عہد کر لیا۔ یہ نہیں کہ سال کے سال رمضان آئے گا تو پھر اس پر عمل ہو گا اور تقویٰ اختیار ہو گا اور ایک مہینہ میں جنت کے دروازے کھل جائیں گے۔ استقامت شرط ہے۔) آپ فرماتے ہیں ’’پھر آگے خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب انہوں نے ایسا کیا اور صدق اور وفا دکھلائی تو اس کا اجر یہ ملا تَتَنَزَّلُ عَلَیْھِمُ الْمَلَآئِکَۃُ۔ یعنی ان پر فرشتے اترے اور کہا کہ خوف اور حُزن مت کرو‘‘۔ (غم مت کر۔) ’’تمہارا خدا متولّی ہے۔ وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ (حٰم السجدہ:31) اور بشارت دی کہ تم خوش ہو اس جنت سے۔‘‘ فرماتے ہیں کہ ’’اس جنّت سے یہاں مراد دنیا کی جنت ہے۔‘‘ (اگلے جہان کی جنت نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ تقویٰ پر چلنے والوں کو اس جنت کی بشارت دے رہا ہے۔) ’’جیسے قرآن مجید میں ہے وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ‘‘ (الرحمٰن47: )۔‘‘ پھر فرماتے ہیں ’’پھر آگے ہے نَحْنُ اَوْلِیٰٓؤُ کُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ (حٰم السجدہ:31)۔ دنیا اور آخرت میں ہم تمہارے ولی اور متکفّل ہیں۔‘‘ (ملفوظات جلد 4 صفحہ 251 تا 253۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس اللہ تعالیٰ مستقل مزاجی سے نیکیوں پر قائم ہونے والوں کے گناہ معاف کرتا ہے۔ اور پھر یہی نہیں بلکہ انہیں دنیا کی نعمتوں سے بھی نوازتا ہے اور آخرت میں بھی ولی اور متکفل ہوتا ہے۔ کتنے خوش قسمت ہیں ہم میں سے وہ جو رمضان میں اپنی حالتوں کو بدلتے ہوئے مستقل مزاجی سے اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے والے ہیں اور اس کوشش میں ہیں کہ اس طرح اپنی زندگیاں گزاریں۔ تقویٰ اور استقامت اختیار کرنے کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مزید فرماتے ہیں کہ:
’’اوائل میں جو سچا مسلمان ہوتا ہے اسے صبر کرنا پڑتا ہے۔‘‘ (شروع شروع میں تو صبر کرنا پڑتا ہے۔) ’’صحابہؓ پر بھی ایسے زمانے آئے ہیں کہ پتّے کھاکھاکر گزارہ کیا۔ بعض وقت روٹی کا ٹکڑا بھی میسر نہیں آتا تھا۔ کوئی انسان کسی کے ساتھ بھلائی نہیں کر سکتا جب تک خدا تعالیٰ بھلائی نہ کرے۔ جب انسان تقویٰ اختیار کرتا ہے تو خدا تعالیٰ اس کے واسطے دروازہ کھول دیتا ہے۔ مَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا وَّ یَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَایَحْتَسِبُ (الطلاق:3 -4)۔ خدا تعالیٰ پر سچا ایمان لاؤ۔‘‘ (آپؑ فرماتے ہیں سچا ایمان لاؤ۔ اس آیت کے دو حصے ہیں۔ آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے لئے کوئی راستہ نکال دے گا اور اسے وہاں سے رزق دے گا وَ یَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ۔ ایسی جگہ سے رزق دے گا جہاں سے اس رزق کا خیال بھی نہیں آتا۔) آپ فرماتے ہیں ’’خدا تعالیٰ پر سچا ایمان لاؤ۔ اس سے سب کچھ حاصل ہو گا۔ استقامت چاہئے۔ انبیاء کو جس قدر درجات ملے ہیں استقامت سے ملے ہیں۔‘‘ فرمایا کہ: ’’خالی خشک نمازوں اور روزوں سے کیا ہو سکتا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 4 صفحہ 204۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان) رمضان میں صرف روزے اور نمازیں پڑھ لیں تو اس سے کچھ نہیں ہوگا۔ مستقل مزاجی ہو گی تو سب کچھ ملے گا۔
پس اللہ تعالیٰ ہمیں متقی بنانا چاہتا ہے تا کہ اس کے بے حساب فضلوں کے دروازے ہم پر کھلیں۔ اور رمضان میں خاص طور وہ پر اپنے فضلوں کے دروازے تقویٰ اختیار کرنے والوں کے لئے کھولتا ہے۔
متقی بننے کے لئے نہ صرف برائیوں کو چھوڑنا ہے بلکہ نیکیاں بھی اختیار کرنی ہیں۔ اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’متقی بننے کے واسطے یہ ضروری ہے کہ بعد اس کے کہ موٹی باتوں جیسے زنا، چوری، تلفِ حقوق، رِیا، عجب، حقارت، بخل کے ترک میں پکّا ہو۔ تو اخلاقِ رذیلہ سے پرہیز کر کے ان کے بالمقابل اخلاق فاضلہ میں ترقی کرے‘‘۔ (جتنے گھٹیا اخلاق ہیں ان سے بچے اور جو اچھے اخلاق ہیں ان میں ترقی کرے۔ یہ ضروری شرط ہے۔) فرمایا کہ’’لوگوں سے مروّت، خوشی خلقی، ہمدردی سے پیش آوے۔ خدا تعالیٰ کے ساتھ سچی وفا اور صدق دکھلاوے۔ خدمات کے مقامِ محمود تلاش کرے۔‘‘ (ایسی نیکیاں اور ایسی خدمات کرے جو قابل تعریف ہوں، غیر معمولی ہوں۔ تقویٰ کے معیار تبھی ملتے ہیں کہ بے نفس ہو کر دوسروں سے نیکیاں کی جائیں۔ اللہ کے حقوق بھی، بندوں کے حقوق بھی ایسے اعلیٰ مقام پر ایسے اعلیٰ درجے کے ہوں جو قابل تعریف ہوں۔) فرمایا کہ ’’ان باتوں سے انسان متقی کہلاتا ہے۔ اور جو لوگ ان باتوں کے جامع ہوتے ہیں۔‘‘ (جن میں یہ سب باتیں جمع ہو جاتی ہیں ) ’’وہی اصل متقی ہوتے ہیں۔ (یعنی اگر ایک ایک خُلق فردًا فردًا کسی میں ہوں تو اسے متقی نہ کہیں گے جب تک بحیثیت مجموعی اخلاقِ فاضلہ اس میں نہ ہوں۔) اور ایسے ہی شخصوں کے لئے لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ ہے۔ اور اس کے بعد ان کو کیا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ایسوں کا متولّی ہو جاتا ہے جیسے کہ وہ فرماتا ہے وَھُوَ یَتَوَلَّی الصّٰلِحِیْنَ (الاعراف:197)۔‘‘ فرمایا کہ’’حدیث شریف میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے ہاتھ ہو جاتا ہے جس سے وہ پکڑتے ہیں۔ ان کی آنکھ ہو جاتا ہے جس سے وہ دیکھتے ہیں۔ ان کے کان ہو جاتا ہے جن سے وہ سنتے ہیں۔ ان کے پاؤں ہو جاتا ہے جن سے وہ چلتے ہیں۔ اور ایک اور حدیث میں ہے کہ جو میرے ولی کی دشمنی کرتا ہے میں اس سے کہتا ہوں کہ میرے مقابلے کے لئے تیار رہو‘‘۔ ایک جگہ فرمایا ہے کہ ’’جب کوئی خدا کے ولی پر حملہ کرتا ہے تو خدا تعالیٰ اس پر ایسے جھپٹ کر آتا ہے جیسے ایک شیرنی سے کوئی اس کا بچہ چھینے تو وہ غضب سے جھپٹتی ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 4 صفحہ400-401۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پھر تقویٰ کی اہمیت اور اپنی ماموریت کے مقصد کی وضاحت کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے’’ہمیں جس بات پر مامور کیا ہے وہ یہی ہے کہ تقویٰ کا میدان خالی پڑا ہے۔ تقویٰ ہونا چاہئے۔ نہ یہ کہ تلوار اٹھاؤ۔ یہ حرام ہے۔ اگر تم تقویٰ کرنے والے ہو گے تو ساری دنیا تمہارے ساتھ ہو گی۔ پس تقویٰ پیدا کرو۔ جو لوگ شراب پیتے ہیں یا جن کے مذہب کے شعائر میں شراب جُزوِ اعظم ہے ان کو تقویٰ سے کوئی تعلق نہیں ہوسکتا۔ وہ لوگ نیکی سے جنگ کر رہے ہیں۔ پس اگر اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو ایسی خوش قسمت دے اور انہیں توفیق دے کہ وہ بدیوں سے جنگ کرنے والے ہوں اور تقویٰ اور طہارت کے میدان میں ترقی کریں۔ یہی بڑی کامیابی ہے اور اس سے بڑھ کر کوئی چیز مؤثر نہیں ہو سکتی۔‘‘ فرمایا’’اس وقت کُل دنیا کے مذاہب کو دیکھ لو کہ اصل غرض تقویٰ مفقود ہے اور دنیا کی وجاہتوں کو خدا بنایا گیا ہے۔ حقیقی خدا چھپ گیا ہے اور سچے خدا کی ہتک کی جاتی ہے۔ مگر اب خدا چاہتا ہے کہ وہ آپ ہی مانا جاوے اور دنیا کو اس کی معرفت ہو۔ جو لوگ دنیا کو خدا سمجھتے ہیں وہ متوکّل نہیں ہو سکتے۔‘‘ (ملفوظات جلد 4 صفحہ 357-358۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پھر آپ ہمیں نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: ’’جو لوگ نری بیعت کر کے چاہتے ہیں کہ خدا کی گرفت سے بچ جائیں وہ غلطی کرتے ہیں۔ ان کو نفس نے دھوکہ دیا ہے‘‘۔ فرمایا ’’دیکھو طبیب جس وزن تک مریض کو دوا پلانی چاہتا ہے اگر وہ اس حد تک نہ پیوے تو شفا کی امید رکھنی فضول ہے۔ ……. پس اس حد تک صفائی کرو اور تقویٰ اختیارکرو جو خدا کے غضب سے بچانے والا ہوتا ہے‘‘۔ فرمایا ’’اللہ تعالیٰ رجوع کرنے والوں پر رحم کرتا ہے کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو دنیا میں اندھیر پڑ جاتا‘‘۔ فرمایا کہ’’انسان جب متقی ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے اور اس کے غیر میں فرقان رکھ دیتا ہے‘‘۔
آپ فرماتے ہیں کہ’’ہماری جماعت کو ڈرنا چاہئے۔ اگر کسی میں تقویٰ ہو جیسا کہ خدا تعالیٰ چاہتا ہے تو وہ بچایا جائے گا‘‘۔ فرمایا کہ ’’اس سلسلے کو خدا تعالیٰ نے تقویٰ ہی کے لئے قائم کیا ہے کیونکہ تقویٰ کا میدان بالکل خالی ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 4 صفحہ 361 تا 363۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس ایک اَور رمضان کا ہماری زندگیوں میں آنا اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ رمضان اس لئے آتا ہے کہ تم تقویٰ اختیار کرو اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ فرمانا کہ اس سلسلہ کو اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کے لئے ہی قائم کیا ہے ہم پر بڑی ذمہ داری ڈالتا ہے کہ ہم ہر وقت اپنی حالتوں کے جائزے لیتے رہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے جو یہ خاص فضل کے دن رکھے ہوئے ہیں ان میں اپنے اندر ایسی تبدیلیاں پیدا کریں اور اپنے تقویٰ کے معیاروں کو ایسا بڑھانے کی کوشش کریں جو خدا تعالیٰ ہم سے چاہتا ہے۔ اور پھر رمضان تک ہی محدودنہ رہیں بلکہ اسے اپنی زندگیوں کا حصہ بنا لیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔
نماز کے بعد ایک جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا جو مکرم خواجہ احمد حسین صاحب درویش قادیان کا ہے جو مکرم محمد حسین صاحب کے بیٹے تھے۔ 31؍مئی 2017 ء کو 92 سال کی عمر میں ان کی وفات ہو گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ 1926ء میں قادیان کے نزدیک گاؤں سیکھواں میں پیدا ہوئے۔ ان کے نانا حضرت میاں امام دین صاحب اور ان کے دو بھائی میاں جمال دین صاحب اور میاں خیر دین صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے۔ خواجہ احمد حسین صاحب کا بچپن انتہائی غربت میں گزرا۔ 9 سال کی عمر میں اپنے خاندان کے ساتھ قادیان آکر آباد ہوئے اور حالات کی وجہ سے تعلیم حاصل نہ کر سکے لیکن بچپن میں پڑھائی کا شوق تھا۔ ذاتی کوشش سے پہلے قرآن شریف پڑھنا سیکھ لیا۔ پھر قادیان میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مجالس عرفان میں شامل ہوتے تھے اور وہیں سے انہوں نے اپنے علم کو بہت بڑھایا۔ تقسیم ملک کے وقت حضرت مصلح موعود کی تحریک پر اپنے والدین سے مشورہ کر کے قادیان میں رہنے پر راضی ہو گئے اور درویشی اختیار کی۔ جہاں جماعت پر ایک ایسا وقت بھی آیا کہ درویشوں کو گزارہ الاؤنس کے لئے انجمن کے پاس رقم نہیں تھی، وسائل محدود تھے تو تب بعض ہنرمند درویشوں کو کہا گیا کہ باہر جا کر روزگار تلاش کریں۔ آپ ٹیلرنگ کا کام جانتے تھے۔ چنانچہ اس لحاظ سے 1953 سے 62ء تک جنوبی ہند میں قیام کے دوران یہ اپنا روزگار خود مہیا کرتے رہے۔ پھر واپس قادیان آگئے۔ اور پھر صدر انجمن احمدیہ کے مختلف دفاتر میں ان کو خدمت کی توفیق ملتی رہی۔ 1989ء میں آپ ریٹائر ہو گئے۔ اور جماعتی خدمات کے ساتھ ساتھ قادیان میں مسجد مبارک کے گیٹ کے سامنے انہوں نے اپنی ایک سلائی کی دکان بھی کھول لی۔ نمازوں کے پابند، تہجد گزار، نہایت خاموش اور خوش اخلاق انسان تھے۔
2005ء میں یہاں جلسہ یو۔ کے میں ان کو بھی شرکت کی توفیق ملی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی سے لے کے خلافت خامسہ تک چار خلافتوں کو دیکھنے کی توفیق ملی۔ ہمیشہ اپنا کام خود کرنے کے عادی تھے۔ اولاد کو ہمیشہ خلافت سے وابستگی کی تلقین کرتے تھے۔ ان کی پہلی شادی ان کے رشتہ داروں میں ہوئی تھی اور کیونکہ جماعت کا حکم تھا کہ عورتوں کوپاکستان بھجوا دیا جائے تو انہوں نے اپنی بیوی کو پاکستان بھجوا دیا۔ یہ ان کی پہلی شادی تھی۔ ان کی والدہ کیونکہ غیر احمدی تھیں اور ان کا صحیح تعاون نہیں تھا تو پھروہاں سے اس کا تعلق ختم ہو گیا۔ 1953ء میں انہوں نے حیدر آباد دکن سے ایک خاتون حمیدہ بیگم سے دوسری شادی کی۔ ان سے ان کی چار بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ آپ کے بیٹے خواجہ بشیر احمد صاحب تعلیم الاسلام سکول قادیان کے ہیڈ ماسٹر ہیں۔ اور ان کی ایک بیٹی سلیمہ قمر صاحبہ، نصیر احمد قمر صاحب ایڈیشنل وکیل اشاعت لندن کی اہلیہ ہیں۔ اسی طرح ایک اور داماد بھی آپ کے حفیظ بھٹی صاحب قادیان میں سلسلہ کی خدمت کر رہے ہیں۔ ان کی بیٹی، نصیر قمر صاحب کی اہلیہ لکھتی ہیں کہ بیشمار خوبیوں کے مالک تھے۔ دعاگو، سادہ مزاج، جفاکش، خوش مزاج، خلافت کے شیدائی، نہایت شریف النفس انسان تھے۔ اور کہتی ہیں جب مَیں شادی ہو کے ربوہ گئی ہوں تو میں ذرا افسردہ تھی۔ مجھے کہا افسردہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ تم تو خوش قسمت ہو کہ ہر جمعہ کو خلیفۂ وقت کا خطبہ براہ راست سنا کرو گی۔ ہر وقت مسجد کی طرف ان کی توجہ رہتی کہ ہر نماز میں مسجد میں جایا کروں۔ چند سال پہلے سٹروک ہوا جس کی وجہ سے مسجدنہیں جا سکتے تھے تو ہمیشہ یہ دعا کرتے تھے اور لوگوں کو کہتے تھے کہ یہ دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ میری ٹانگوں میں اتنی جان ڈال دے کہ مَیں مسجد جاسکوں۔ اور بیشمار نیکیوں کے مالک تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ باوجود غربت کے، تنگیٔ حالات کے، انہوں نے اپنی بیٹیوں کو بھی پڑھایا اور بی۔ اے تک تعلیم دلوائی اور ان کے بیٹے نے بھی بی۔ ایس۔ سی، بی۔ ایڈ اور ایم۔ اے کیا اور جیسا کہ میں نے بتایا تعلیم الاسلام سکول کے ہیڈماسٹر ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی اولاد کو اور اولاد در اولاد کو، نسلوں کو خلافت سے وفا کا تعلق رکھنے کی توفیق دے اور جو قربانیاں انہوں نے کی ہیں وہ آئندہ بھی ان کی اولاد کو بھی اور نسلوں کو بھی یاد رکھنے اور جماعت سے وفا کا تعلق رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
ایک اور رمضان کا ہماری زندگیوں میں آنا اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ رمضان اس لئے آتا ہے کہ تم تقویٰ اختیار کرو اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ فرمانا کہ اس سلسلہ کو اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کے لئے ہی قائم کیا ہے ہم پر بڑی ذمہ داری ڈالتا ہے کہ ہم ہر وقت اپنی حالتوں کے جائزے لیتے رہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے جو یہ خاص فضل کے دن رکھے ہوئے ہیں ان میں اپنے اندر ایسی تبدیلیاں پیدا کریں اور اپنے تقویٰ کے معیاروں کو ایسا بڑھانے کی کوشش کریں جو خدا تعالیٰ ہم سے چاہتا ہے۔ اور پھر رمضان تک ہی محدودنہ رہیں بلکہ اپنی زندگیوں کو اس کا حصہ بنا لیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔
قرآن مجید، احادیث نبویہﷺ اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے ارشادات کے حوالہ سے ماہ رمضان کی فضیلت، اس کی غرض و غایت، تقویٰ کے حصول، اس کے مراتب اور تقاضوں کا بصیرت افروز تذکرہ اور اس حوالہ سے افراد جماعت کو نہایت اہم نصائح۔
مکرم خواجہ احمد حسین صاحب درویش قادیان ابن مکرم محمد حسین صاحب کی وفات۔ مرحوم کا ذکرِ خیر اور نماز جنازہ غائب۔
فرمودہ مورخہ 02؍جون 2017ء بمطابق02؍احسان 1396 ہجری شمسی، بمقام مسجدبیت الفتوح، مورڈن، لندن، یوکے
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔