حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام: سچائی کے ثبوت

خطبہ جمعہ 7؍ جولائی 2017ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

جیسا کہ انبیاء کی تاریخ میں ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے دعوے کے بعد ان کی مخالفت بھی ہوتی ہے اور جوں جوں جماعت پھیلتی ہے مخالفت اور حسد کی آگ بھی بڑھنا شروع ہو جاتی ہے۔ مخالفین کے مخالفت کے طریق بھی مخالفت کی ہر ممکن صورت اختیار کرتے جاتے ہیں۔ لیکن چونکہ دعویٰ کرنے والا اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجا گیا ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے مخالفتوں کے باوجود ترقی کے وعدے اور خوشخبریاں دی ہوتی ہیں اس لئے کوئی مخالفت ترقی کی راہ میں روک نہیں بنتی اور نہ بن سکتی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مسیح اور مہدی بنا کر بھیجا تو آپ کے ساتھ بھی اس سنّت کے مطابق سلوک ہونا تھا اور اللہ تعالیٰ کی جو تائید و نصرت کی سنّت ہے اسی کے مطابق سلوک ہونا تھا اور اللہ تعالیٰ نے وہ سلوک بھی فرمایا اور آپ کی جماعت کے ساتھ بھی یہی سلوک اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے۔ جہاں مخالفتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے پہلے خبر دی تو وہاں مخالفین کے بد انجام اور مخالفتوں کے باوجود آپ کے سلسلہ کے بڑھنے اور آپ کی تائیدات کی خبر دی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو فرمایا، بہت سارے الہامات ہیں، ایک یہ الہام ہے کہ ’’مَیں تیرے خالص اور دلی محبوں کا گروہ بھی بڑھاؤں گا‘‘۔ (آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 648) پھر ایک یہ الہام ہے کہ ’’میں تیرے ساتھ اور تیرے پیاروں کے ساتھ ہوں‘‘۔ (بدر جلد 6 نمبر 51 مورخہ 19 دسمبر 1907ء صفحہ4) پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یَنْصُرُکَ رِجَالٌ نُوْحِیْ اِلَیْھِمْ مِنَ السَّمَآءِ‘‘یعنی تیری مدد وہ لوگ کریں گے جن کے دلوں میں ہم اپنی طرف سے الہام کریں گے۔ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 77) پھر فرمایا کہ ’’مَیں تجھے عزت دوں گا اور بڑھاؤں گا‘‘۔ (آسمانی فیصلہ، روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 342) پھر ایک الہام یہ ہے کہ یَنْصُرُکَ اللّٰہُ مِنْ عِنْدِہِ کہ خدا اپنی طرف سے تیری مدد کرے گا۔ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 77) پھر اللہ تعالیٰ کا تبلیغ کے بارے میں، پیغام پہنچانے کے بارے میں یہ وعدہ بھی ہے کہ ’’مَیں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘۔ (الحکم جلد 2 نمبر 5,6۔ مورخہ 27 مارچ، 2 اپریل 1898ء صفحہ 13) پھر یہ بھی فرمایا: ’’کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ‘‘کہ خدا تعالیٰ نے یہ لکھ چھوڑا ہے کہ مَیں اور میرا رسول غالب آئیں گے۔ (اربعین نمبر 2، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 355) اسی طرح جیسا کہ میں نے کہا تائید و نصرت کے بے شمار الہامات ہیں۔ اب یہ صرف ظاہری باتیں نہیں جو نعوذ باللہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کر کے کر دیں بلکہ اللہ تعالیٰ ہر زمانے میں اس کا عملی اظہار بھی کرتا رہتا ہے۔ کہیں اللہ تعالیٰ مخالفین کے مکر اُن پر الٹا کر اپنی تائید کے عملی نظارے دکھاتا ہے۔ کہیں خود لوگوں کی رہنمائی کر کے انہیں احمدیت کی سچائی دکھاتا ہے۔ کہیں غیروں کے دلوں میں ڈالتا ہے کہ وہ غیروں کے حملوں کے خلاف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ماننے والوں کی تائید اور مدد کریں۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ یہ وعدے ہیں ان کے عملی اظہار، جیسا کہ مَیں نے کہا، وقتاً فوقتاً ہوتے رہتے ہیں۔ اس وقت مَیں بعض واقعات پیش کرتا ہوں۔ مخالفین کے بد انجام کے بارے میں مَیں نے دو واقعات لئے ہیں جو احمدیوں کے لئے جہاں ایمان میں زیادتی کا باعث بنے وہاں غیروں کے لئے بھی احمدیت کی سچائی کا نشان بنے۔

ناظر دعوت الی اللہ قادیان نے لکھا کہ اسحاق صاحب ان کے ایک معلم ہیں۔ وہ رمضان کے قریب ایک گاؤں میں اپنے ایک رشتہ دار کے گھر گئے تا کہ گھر والوں کو رمضان کے اوقات کے بارے میں بتا دیں۔ کہتے ہیں کہ ٹائم ٹیبل دینے کے بعد جب گھر والوں کو رمضان کی عظمت اور برکات کے بارے میں بتا رہے تھےتو اسی اثناء میں ایک غیر از جماعت نوجوان اقبال نامی آ کر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر تو وہ معلم صاحب کی باتیں سنتا رہا پھر اس کے بعد اس نے گھر والوں سے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ ان کے رشتہ داروں نے شاید واضح طور پر بتانا مناسب نہ سمجھا کہ جماعت احمدیہ کا معلم ہے۔ انہوں نے صرف اتنا کہا کہ یہ فلاں گاؤں سے آیا ہے۔ لیکن معلم صاحب نے صاف طور پر اپنا تعارف کروایا کہ مَیں جماعت احمدیہ کا معلم ہوں۔ اس پر یہ شخص بڑے غصہ میں آ گیا، آگ بگولہ ہو گیا۔ معلم نے اپنا مکمل تعارف کروانا چاہا تا کہ اس کی کچھ غلط فہمیاں دور کریں لیکن اس شخص نے سننے سے انکار کر دیا۔ کہتے ہیں دوران گفتگو قرآن مجید، اسلام اور حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا نام آتا تو یہ شخص کہتا کہ آپ لوگوں کو یہ اسلامی اصطلاحیں استعمال کرنے کا کوئی حق نہیں۔ (وہی پاکستانی مولویوں والا اثر ہے۔) نیز جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام آتا تو وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اور جماعت کو بڑی غلیظ گالیاں دیتا اور کہتا کہ مَیں سعودی عرب، بحرین اور قطر وغیرہ رہ کر آیا ہوں۔ آپ لوگوں کے بارے میں سب کچھ جانتا ہوں۔ تمام اسلامی ممالک نے آپ کے خلاف فتوے دئیے ہوئے ہیں اور یہ بھی کہا ہوا ہے کہ اگر رستے میں سانپ ہو اور قادیانی ہو تو سانپ کو چھوڑ دو اور قادیانی کو قتل کر دو۔ یہ کہتے ہیں کہ اور یہ بات کہہ کے بار بار وہ مجھے مارنے کے لئے اٹھتا تھا کہ آج مجھے موقع ملا ہے تو مَیں قادیانی کو ماروں، قتل کروں اور ثواب کماؤں۔ مگر بہرحال وہ کامیاب نہ ہو سکا۔ کہتے ہیں مَیں نے بڑے صبر اور تحمل سے اس کی ساری باتیں سنیں۔ بکواس سنی، گالیاں سنیں۔ جب وہ بدزبانی اور بکواس پر زیادہ ہی اتر آیا تو کہتے ہیں مَیں نے اسے کہا کہ اگر میں جماعت احمدیہ کا معلم نہ ہوتا تو مرنے مارنے کی آپ کی خواہش بھی پوری کر دیتا لیکن ہمیں گالیوں کے بدلے دعائیں دینے کی تعلیم دی گئی ہے اس لئے مَیں کچھ نہیں کہتا۔ بہرحال اس بات پہ وہ خاموش ہو گیا یا ماحول کو دیکھ کے بیٹھ گیا اور ان کو یہ وارننگ دی کہ آج کے بعد اگر اس گاؤں میں تم نظر آئے تو بہت بُرا حشر ہو گا۔ کہتے ہیں میں نے اس کو صرف یہ جواب دیا کہ یہ تو وقت بتائے گا کہ بُرا حشر کس کا ہو گا اور یہ کہہ کر میں خاموشی سے وہاں سے اٹھ کے آ گیا۔ یہ شخص قریبی گاؤں میں افراد جماعت کو بھی کہتا تھا کہ قادیانیت چھوڑ دو لیکن لوگ اس کی بات پہ توجہ نہیں دیتے تھے۔ بہرحال کہتے ہیں مَیں نے رمضان کے بعد پندرہ یوم کی رخصت لی اور وہاں سے چلا گیا۔ واپس آ کر ایک بزرگ عورت نے بتایا کہ مولوی اقبال جس نے جماعت کو گالیاں دی تھیں اس کو اچانک ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ مر گیا۔ تو اس واقعہ سے نہ صرف وہاں اس چھوٹے سے گاؤں میں افراد جماعت کے ایمان میں اضافہ ہوا بلکہ غیر از جماعت بھی بڑے متأثر ہوئے کہ ہم نے اپنی آنکھوں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے اللہ تعالیٰ کی یہ تائید دیکھی اور اہانت کرنے والے کو ذلیل و رُسوا ہوتے اور ختم ہوتے دیکھا۔

اسی طرح یمن کے ایک صاحب غانم صاحب ہیں۔ وہ مخالفوں کے انجام کے بارے میں لکھتے ہیں کہ جب سے مَیں احمدی ہوا ہوں مَیں تبلیغ کر رہا ہوں اور خصوصاً نوجوانوں کے ایک ٹولے کی طرف سے سخت مخالفت اور دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہ دوست کہتے ہیں کہ 2010ء کے رمضان میں ایک دفعہ میرا ہمسایہ اور اس کے چند دوست مجھے مجبور کر کے اپنے ایک ’’جامعۃ الایمان‘‘ کے شیخ سے بات کرنے کے لئے لے گئے۔ وہاں ایک مولوی بھی آ گیا۔ میں نے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے دلائل بیان کئے۔ پھر قتل مرتد اور جہاد اور وفات مسیح کے موضوعات پر بات ہوئی اور وہ سب بغیر دلیل کے اپنے عقائد پر اصرار کرتے رہے اور مَیں قرآن و حدیث سے دلائل پیش کرتا تھا۔ بہرحال جو اُن کا بڑا شیخ تھا وہ کچھ احترام سے پیش آیا لیکن دوسرا بہت بدزبانی کرتا تھا اور اس نے مباہلے کی دعوت بھی دی۔ مَیں نے کہا کہ مباہلہ تو امام سے ہوتا ہے لیکن اس کے اصرار کی وجہ سے اور اس لئے کہ یہ لوگ یہ خیال نہ کریں کہ مجھے صداقت حضرت مسیح موعود پہ یقین نہیں ہے مَیں نے مباہلہ قبول کر لیا اور بات ختم ہو گئی۔ اس کے بعد یہ نوجوان مجھے ڈراتے دھمکاتے رہے، گالیاں دیتے رہے، تبلیغ سے روکتے رہے۔ کہتے ہیں رمضان کے آخر میں ایک دن مَیں گھر سے نکلا تو ایک بچے نے مجھے کہا کہ چچا یہ نوجوان آپ کے خلاف منصوبہ تیار کر رہے ہیں۔ پھر ان میں سے بعض نے آ کر مجھے مارنے کی دھمکی دی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو سخت گالیاں دیں۔ کہتے ہیں میں زخمی دل کے ساتھ گھر لَوٹا۔ دو رکعتیں ادا کیں۔ نفل پڑھے اور دعا کی کہ یا اللہ تُو ان کی نسبت اپنی قدرت دکھا۔ کہتے ہیں اس کے بعد ایک دو دن میں ان نوجوانوں کی آپس میں لڑائی ہو گئی اور ایک دوسرے کے خلاف خنجر نکال لئے اور لڑائی میں ایک بچے کے منہ پر خنجر لگ گیا۔ اس واقعہ کے بعد ایک ماہ میں یہ لوگ کہیں چلے گئے اور اس کے بعد اب تک نظر نہیں آئے۔ کہتے ہیں میرا ہمسایہ بھی مکان بیچ کر دوسری جگہ چلا گیا اور وہ جو جامعہ کا مالک تھا اس کے جامعہ پر حوثی قبائل کےباغیوں نے قبضہ کر لیا۔ یہ سب لوگ بھاگ کے پھر سعودی عرب چلے گئے اور وہاں ان کا جو جامعہ ہے وہ بھی اب بمباری کی وجہ سے ملبے کا ڈھیر بن گیا ہے۔

آجکل ہم مادی دنیا میں دیکھتے ہیں کہ دنیاوی ترقی کی وجہ سے لوگ دین سے دُور ہٹ رہے ہیں لیکن دنیا میں ایسا طبقہ بھی ہے جو دین کی طرف رغبت رکھتا ہے اور صحیح راستوں کی تلاش میں ہے اور اللہ تعالیٰ بھی ان کے دلوں کو جانتا ہے۔ اس لئے زمانے کے امام کو قبول کرنے کے لئے دل بھی کھولتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جب بھیجا تو آخر اسی لئے بھیجا تھا کہ دنیا انہیں قبول بھی کرے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے قبول کر رہی ہے۔

آئیوری کوسٹ کے مبلغ لکھتے ہیں کہ ایک گاؤں میں ایک لوکل مبلغ کے ساتھ تبلیغ کے لئے گیا تو لوگوں کو مسیح موعود اور امام مہدی کی آمد کے بارے میں بتایا۔ کچھ عرصہ بعد دوبارہ وہاں گئے تو اس گاؤں کے امام سمیت پندرہ افرادنے احمدیت قبول کر لی۔ ان کو بتایا گیا کہ اس ماہ خدام الاحمدیہ کا نیشنل اجتماع آبی جان میں ہو رہا ہے اس پر گاؤں والوں نے کہا کہ ایک شخص کو آبی جان (Abidjan) بھجوایا جائے تا کہ وہ جماعت کو قریب سے دیکھے کہ یہ لوگ کیسے ہیں۔ چنانچہ اس گاؤں سے ایک شخص اجتماع میں شامل ہوا اور آبی جان میں جو کچھ دیکھا تھا وہ واپس آ کر لوگوں کو بتایا کہ کس طرح یہ لوگ رہتے ہیں اور کس طرح محبت اور پیار اور بھائی چارے کا ماحول تھا۔ اس کا بڑا اچھا اثر ہوا۔ چنانچہ کچھ عرصہ کے بعد جب یہ لوگ دوبارہ تبلیغ کے لئے وہاں گئے تو رات نماز عشاء کے بعد اور پھر صبح فجر کے بعد مسیح موعود کی آمد کے بارے میں سوال جواب ہوتے رہے اور کافی لمبا عرصہ یہ سوال جواب چلتے رہے۔ اس پر کہتے ہیں کہ مزید 26 افرادنے احمدیت قبول کرنے کی توفیق پائی۔ اس طرح وہاں 41 افراد کی جماعت بھی قائم ہو گئی۔

مخالفین کس طرح زور لگا رہے ہیں کہ احمدیت کو ختم کریں اور اللہ تعالیٰ کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کئے گئے وعدے کے مطابق آپ کے مُحبّوں کا گروہ بڑھا رہا ہے، اس کا ایک واقعہ بیان کرتا ہوں۔ بینن کے مبلغ انصر صاحب لکھتے ہیں کہ جنوری 2016ء میں ایک گاؤں میں نئی جماعت قائم ہوئی اور 87 افراد کو بیعت کرنے کی توفیق ملی۔ کہتے ہیں کہ وہاں کے امام کو ٹریننگ دی گئی اور باقاعدہ نماز جمعہ کی ادائیگی شروع کر دی گئی۔ مولویوں کو جب پتا لگا تو انہوں نے بڑا زور لگایا کہ یہ لوگ احمدیت کو چھوڑ دیں مگر اس جماعت کے تمام نومبائعین مضبوطی کے ساتھ احمدیت پر قائم رہے۔ جب ان کو یہاں سے بھی ناکامی ہوئی تو یہ مولوی وہاں کے بادشاہ کے پاس گئے اور کہا کہ ان کو احمدیت سے روکیں۔ چنانچہ بادشاہ نے ہمارے صدر کو بلایا اور کہا کہ اگر آپ کو مسجد چاہئے تو غیر احمدی مولوی آپ لوگوں کے لئے بنا دیتے ہیں آپ لوگ احمدیت چھوڑ دیں۔ اس پر صدر صاحب نے اسے کہا کہ آپ احمدیت کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟ بادشاہ نے کہا کہ مَیں تو کچھ نہیں جانتا لیکن مولوی کہتے ہیں کہ احمدی مسلمان نہیں۔ یہ بوکو حرام کے لوگ ہیں اور دہشتگرد لوگ ہیں۔ یہ ہم سب کو قتل کر دیں گے۔ اس پر صدر نے بادشاہ کو بتایا کہ احمدیت ہی حقیقی اسلام ہے اور مولوی تو ہمیں دھوکہ دیتے ہیں۔ پہلے تو بادشاہ نے بات نہیں مانی۔ کہنے لگا کہ تم احمدیت کو چھوڑ دو اور اگر نہیں چھوڑو گے تو مَیں تمہیں گاؤں سے نکال دوں گا۔ اس پر صدر صاحب نے کہا کہ ہم گاؤں چھوڑ دیں گے لیکن احمدیت نہیں چھوڑیں گے۔ (یہ ان غریب لوگوں کا اور دور دراز رہنے والے لوگوں کا ایمان ہے) اس پر بادشاہ کا دل بدل گیا اور اس نے کہا کہ تمہیں گاؤں چھوڑنے کی ضرورت نہیں جیسے دل چاہتا ہے کرو۔ چنانچہ پھر اللہ تعالیٰ نے اسی طرح ان کے وہاں قدم جما دئیے۔ نہ صرف ماننے والوں کے ایمان کو مضبوط کیا، ان کو محبت میں بڑھایا بلکہ مخالف کے دل کو بھی نرم کر کے، اس بادشاہ کے دل کو، چیف کے دل کو نرم کر کے اللہ تعالیٰ نے تائید و نصرت کے سامان پیدا فرمائے۔ پھر مخالفت کے انجام اور اللہ تعالیٰ کی تائید کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے بینن کے ہی مبلغ لکھتے ہیں کہ میرے ریجن میں دو بڑے ریڈیو سٹیشن کے ذریعہ ہفتہ وار جماعتی تبلیغ کا سلسلہ جاری ہے اور علاقے کی ایک بڑی تعداد تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کا پیغام پہنچ رہا ہے۔ ایک ریڈیو سٹیشن پر ہر بدھ کو تیس منٹ کا پروگرام نشر ہوتا تھا لیکن اس ریڈیو چینل کا وائس ڈائریکٹر ہماری مخالفت کیا کرتا تھا اور ہمارے پروگراموں میں روک پیدا کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ وہ اسی ریڈیو سٹیشن سے کرپشن کے الزام میں برطرف کیا گیا اور عدالت نے اسے قید کی سزا سنا دی۔ اور جو نئے وائس ڈائریکٹر بنے انہیں ہم نے مشن آنے کی دعوت دی اور انہیں جماعتی اور اسلامی عقائد کے متعلق بتایا گیا۔ کچھ لٹریچر بھی پڑھنے کے لئے دیا گیا اور اپنی تبلیغ کا مقصد بتایا۔ اس کے بعد وہ کچھ عرصے تک ہمارے تبلیغی پروگرام سنتے رہے۔ چنانچہ کچھ عرصہ بعد جب ان سے دوبارہ ملاقات ہوئی تو یہ نئے ڈائریکٹر کہنے لگے کہ مَیں آپ کی تبلیغ سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ آپ کی تبلیغ کا انداز بہت دلکش ہے۔ مَیں آپ کو اسی رقم میں جو آپ ایک پروگرام کے لئے ادا کر رہے ہیں ایک اور ہفتہ وار پروگرام مستقل طور پر فری دیتا ہوں تا کہ اصلی مذہبی تعلیمات کا عوام کو علم ہو اور اسلام کے متعلق غلط عقائد کا ازالہ ہو۔

کہاں تو پروگرام کو جاری رکھنے کی فکر تھی اور کہاں اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل فرمایا کہ اسی خرچ میں ہمیں زائد وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اور اسلام کا حقیقی پیغام پہنچانے کا مِل گیا۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا جو تائیدات کا وعدہ ہے اس کے نظارے ہر جگہ نظر آتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ کے خود دلوں کو کھولنے کا ایک اور واقعہ ہے۔ مصر کے ایک دوست احمد صاحب ہیں۔ یہ کہتے ہیں اسلام کی صحیح اور سادہ تشریح کرنے پر مَیں آپ لوگوں کو داد دیتا ہوں۔ آپ جو پیش کرتے ہیں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃ للعالمین کا حقیقی اسلام ہے۔ ہم لوگ داعش اور اس کے کردار سے تھک چکے ہیں اور کاش کہ ہم تمام لوگوں کی سوچیں آپ جیسی ہو جائیں۔ کہتے ہیں کہ مَیں نے پروگرام میں بتائے گئے طریق کے مطابق دو رکعت استخارہ کی نماز ادا کی۔ اسی رات خواب میں دیکھا کہ میرے گھر کے سامنے سے تمام مکانات ہٹ رہے ہیں یہاں تک کہ میرے گھر کے سامنے خالی جگہ بن گئی۔ پھرمیں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر کو دیکھا جو آپ اکثر اپنے پروگراموں کی بیک سکرین پر دکھاتے رہتے ہیں (دارالمسیح کا قادیان کاعلاقہ۔) کہتے ہیں وہ مَیں نے خواب میں دیکھا۔ کہتے ہیں میں نے اس گھر کو یعنی دارالمسیح کے علاقے کو زمین میں سے پودے کی طرح نکلتے ہوئے دیکھا۔ اور میں حیران تھا کہ یہ کس طرح نکل رہا ہے۔ پھر میں نے اس میں سے نور کو نکلتے ہوئے دیکھا۔ پھر میں نے لوگوں کو کہتے ہوئے سنا کہ چاند دن میں نکلا ہے۔ میں نے اپنے پیچھے دیکھا کہ سورج بھی نکلا ہوا تھا تو میں نے ان سے کہا کہ سورج اور چاند دونوں نکلے ہیں۔ میں بہت خوش ہوا۔ کیونکہ پہلی مرتبہ میں نے استخارہ کیا اور اللہ تعالیٰ سے جواب پایا۔ اگرچہ میں پہلے سے مسلمان تھا لیکن میں پہلی مرتبہ اللہ کا قرب حاصل کر پا رہا ہوں اور یہ صرف جماعت احمدیہ کی وجہ سے ہے۔ مَیں آپ لوگوں کا شکرگزار ہوں۔ قبول احمدیت کے لئے اللہ تعالیٰ کے دل کھولنے کا ایک اور واقعہ سیریا کے ایک دوست احمد درویش صاحب کا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں مسلمان تو تھا لیکن دین سے دور تھا۔ 2008ء میں میرے بھائی نے احمدیت قبول کر لی۔ دین سے دُوری کے باوجود مجھے بھائی کے اقدام پر شدید غصہ آیا۔ میں اپنے بھائی سے خوب بحث کرتا اور اکثر اس سے الجھ جاتا۔ بالآخر میرے بھائی نے مجھ سے علیحدگی اختیار کر لی۔ بچنے لگا۔ کہتے ہیں 2011ء میں شام کے حالات خراب ہوئے تو مَیں شامی حکومت کے مخالف گروہ میں شامل ہو گیا۔ اس دوران مجھے شامی معاشرے میں پائی جانے والی تمام دینی جماعتوں کو دیکھنے کا موقع ملا اور مَیں اس نتیجہ پر پہنچا کہ ان میں سے ہر فرقہ دوسرے کی تکفیر کرتا ہے۔ ہر ایک دوسرے کو کافر کہہ رہا ہے اور ہر ایک کے عقائد میں بے سروپا باتیں شامل ہیں۔ کہتے ہیں حالات کی خرابی کے باعث ہم اہل خاندان حلبؔ شہر کے مضافاتی علاقے میں منتقل ہوئے تو مجھے اپنے بھائی کے ساتھ دوبارہ دینی امور کے بارے میں بحث کرنے کا موقع مل گیا۔ لیکن میں جب بھی اس سے کسی امر کے بارے میں سوال کرتا تو اس کا جواب مجھے حیران کر دیتا اور میں دل میں یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا کہ دراصل اس مسئلہ کا یہی معقول جواب ہے جو احمدی بھائی دیتا ہے۔ لیکن شدت مخالفت کی وجہ سے میں حق بات نہ کہہ پاتا تھا۔ کہتے ہیں ہماری گفتگو چلتے چلتے وفات مسیح کے موضوع تک آ پہنچی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ اس گفتگو کے بعد میں نے اپنے بھائی سے بعض جماعتی کتب کا مطالبہ کر دیا۔ کہتے ہیں اس نے کہا کہ تمام کتابیں اسی گھر میں ہیں جسے ہم بمباری کے خوف سے چھوڑ کر یہاں آ گئے ہیں۔ جنگ کی وجہ سے گھر چھوڑ آئے تھے۔ کہتے ہیں کہ میں اُسی وقت بمباری، دہشت گردی اور کشت و خون سے بھرپور علاقے میں گیا۔ میں نے کہا ٹھیک ہے۔ یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ اگر کتابیں وہاں ہیں تو مَیں یہ خطرہ مول لے لیتا ہوں۔ میں گیا اور وہ کتابیں لے آیا۔ واپس آ کر میں نے ان کتب کا مطالعہ شروع کیا۔ یہاں تک کہ دل سے احمدی ہو گیا اور اپنے بھائی کو بھی اس کے بارے میں بتا دیا لیکن خانہ جنگی کی صورتحال میں میری بیعت ارسال نہ کی جا سکی۔ کہتے ہیں میں پہلے تو سیرین گورنمنٹ کے خلاف گروپ کے ساتھ مل کر حکومت مخالف سرگرمیوں میں مصروف تھا لیکن قبول احمدیت کے فیصلہ کے بعد جب میں نے خلیفۃ المسیح کے اس بارے میں خطبات سنے تو فوراًحکومت کے خلاف سرگرمیوں کو ترک کر دیا۔ کہتے ہیں میرے والد صاحب میری بیعت پر سخت ناراض ہوئے اور ایک دن شدید غصہ کی حالت میں یہ بھی کہہ دیا کہ جاؤ دفع ہو جاؤ۔ خدا مجھے تمہارا منہ نہ دکھائے اور کبھی تمہیں لوٹا کر میرے پاس نہ لائے۔ کہتے ہیں والد صاحب کے ان الفاظ کی میرے ایمان کے بالمقابل کوئی وقعت نہ تھی اور بفضلہٖ تعالیٰ میں اس کے جذباتی اثر سے محفوظ رہا اور پھر ہجرت کر کے ترکی آ گئے اور کہتے ہیں پہلا کام یہاں میں نے یہ کیا کہ بیعت فارم پُر کر کے آپ کو بھیج دیا۔

اللہ تعالیٰ کس طریق سے مخالفین کے حیلوں کو توڑ کر لوگوں کے دلوں کو کھولنے کا سامان کرتا ہے۔ اس کا ایک واقعہ مراکش کے ایک دوست کا ہے۔ عبدالکریم صاحب کہتے ہیں کہ میں تحقیق کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ جماعت احمدیہ الٰہی جماعت ہے لیکن ایک الزام کا جواب تلاش کرتے ہوئے مجھے جماعت کی عربی ویب سائٹ میں منہاج الطالبین نامی ایک کتاب مل گئی۔ اس کتاب کی فہرست پڑھتے ہی میرے دل میں اس کے مطالعہ کا شوق پیدا ہو گیا۔ اس کتاب کی ابتداء میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بعض لوگوں کے اعتراضات کا جواب دیا ہے جنہوں نے آپ کے بارے میں یہ کہا تھا کہ حضرت مصلح موعود خالی بیٹھے رہتے ہیں، فارغ بیٹھے رہتے ہیں۔ معترضین نے یہ کہا۔ اس کے جواب میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا روزمرہ کا جو شیڈول تھا وہ بیان فرمایا کہ مَیں صبح سے اٹھ کے رات تک کیا کرتا ہوں۔ یہ لکھنے والے مراکشی کہتے ہیں کہ میں ایک طرف اسے پڑھتا جا رہا تھا اور دوسری طرف میرے ذہن میں تفسیر کبیر گردش کر رہی تھی تو میں سوچ رہا تھا کہ جس کا روزمرہ کا پروگرام اس قدر غیر معمولی کاموں سے معمور ہو وہ تفسیر کبیر جیسا گہرا علمی اور تحقیقی کام کس طرح کر سکتا ہے۔ کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ فرض کریں اگر مرزا غلام احمد قادیانی خدانخواستہ جھوٹے تھے تو انہوں نے اپنے بیٹے کو اس طرح کی مشقت میں کیوں ڈالا۔ اگر مرزا صاحب جھوٹے تھے تو ان کا بیٹا کیوں دن رات اسلام کی ترقی کی خاطر قرآن کریم کے خزانے نکال نکال کر دنیا کے سامنے پیش کرنے میں اس طرح مصروف ہے کہ اس جہاد میں نہ اسے اپنی پرواہ ہے، نہ اپنے اہل و عیال کی اور نہ اپنی صحت کا خیال ہے۔ کہتے ہیں میں ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ میرے ذہن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ پیشگوئی آ گئی جس میں آپ نے فرمایا تھا کہ جب آنے والا مسیح آئے گا تو وہ شادی کرے گا اور اس کی غیر معمولی اولاد ہو گی۔ جب میں نے اس پیشگوئی پر غور کیا تو میرا دل ایسے عجیب و غریب جذبات سے بھر گیا جن کو بیان کرنے کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ مجھے یقین ہو گیا کہ یہی وہ بطلِ جلیل ہے جس کے ذریعہ کلام اللہ کا فہم پھیلایا گیا اور تفسیر کبیر جیسی عظیم تفسیر دنیا میں ظاہر ہوئی جس کا کوئی ثانی نہیں۔ منہاج الطالبین کے اس حصہ کے مطالعہ سے بیعت کے راستہ میں حائل رکاوٹیں دور ہو گئیں اور میں انشراح صدر کے ساتھ بیعت کے لئے تیار ہوگیا۔ تو اللہ تعالیٰ بھی عجیب عجیب طریقوں سے راستے کھولتا ہے۔

پھر رؤیا کے ذریعہ سے خود اللہ تعالیٰ کس طرح رہنمائی فرماتا ہے، اس بارے میں یمن کی ایک خاتون ایمان صاحبہ کہتی ہیں کہ مجھے نوعمری کے عرصہ سے ہی امام مہدی کے زمانے تک زندہ رہنے کی خواہش تھی اور اس کے لئے دعا کرتی تھی۔ ایک روز میں ایک عربی چینل دیکھ رہی تھی کہ اس پر ایک دینی پروگرام میں ایک معروف مولوی سے کسی نے جماعت احمدیہ کا نام لئے بغیر پوچھا کہ اس کا دعویٰ ہے کہ امام مہدی آ چکے ہیں اور ان کے بعد خلافت قائم ہو چکی ہے۔ مولوی صاحب نے جواب دیا کہ یہ لوگ اوہام باطلہ کا شکار ہیں۔ جھوٹے لوگ ہیں۔ اس لئے آپ ان چکروں میں پڑنے کی بجائے اپنی معمول کی زندگی گزاریں کیونکہ جب امام مہدی آئے گا تو سب کو پتا چل جائے گا۔ ان کو ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ کہتی ہیں یہ بات میرے دل میں، ذہن میں اٹک گئی اور پھر ایک روز 2009ء میں میرے چھوٹے بھائی نے مجھے بتایا کہ اس نے ایک چینل دیکھا ہے جس پر کچھ لوگ امام مہدی کے ظہور کا اعلان کر رہے تھے۔ یہ سنتے ہی مجھے مذکورہ مولوی صاحب سے پوچھا جانے والا سوال اور ان کا جواب یاد آ گیا اور مَیں سمجھ گئی کہ دراصل سوال امام مہدی کے ظہور کا اعلان کرنے والی اس جماعت کے بارے میں تھا۔ کہتی ہیں کہ میں نے اپنے بھائی سے اس چینل کی فریکوئینسی لی اور پھر جب یہ چینل لگایا تو وہاں پر پروگرام ’الحوار المباشر‘ لگا ہوا تھا۔ میں نے اس پروگرام کے شرکاء کو ایک ایک کر کے بڑی گہری نظر سے دیکھا۔ ان کے چہروں پر عجیب چمک اور نور تھا۔ لیکن مجھے ان پر ترس آیا کہ اتنے سمجھدار ہونے کے باوجود یہ لوگ راستہ بھٹک گئے ہیں۔ نیز میں نے کہا کہ آج تو ہمیں اتحاد کی ضرورت ہے لیکن انہوں نے آ کر ایک اَور فرقہ بنا لیا ہے۔ کیا اسلام میں اس سے پہلے کم فرقےتھے۔ باوجود اس احساس کے جب میں نے ان کی باتیں سنیں تو وہ میرے دل کو لگیں۔ ایک طرف یہ احساس کہ ایک نیا فرقہ بنا دیا دوسری طرف باتیں بھی اچھی لگ رہی ہیں۔ کہتی ہیں کہ پروگرام ختم ہونے پر ایک قصیدہ پیش کیا گیا جس کے بارے میں یہ لکھا گیا کہ یہ حضرت امام مہدی کا لکھا ہوا ہے۔ اس قصیدے کے کلمات اور تاثیر غیر معمولی تھی۔ میں اپنے خاوند کے ساتھ اس چینل کو ہر روز دیکھنے لگی۔ ہمارا اس چینل کے ساتھ لگاؤ بڑھتا گیا یہاں تک کہ محض چند روز میں ہی ہمارے گھر میں دیگر تمام چینلز بند ہو گئے اور صرف ایم ٹی اے چلنے لگا۔ ہمارے گھر کا ہر فرد اس چینل پر بیان ہونے والے مفاہیم کو پسند کرنے لگا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلمات کی تاثیر ہی کچھ عجیب تھی۔ آپ کا قصیدہ سننے کے دوران میری آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے کیونکہ یہ الفاظ کسی خدا کی طرف سے آنے والے کےمنہ سے ہی نکل سکتے ہیں۔ کسی عام انسان کی بس کی بات نہیں کہ ایسا مؤثر اور بلیغ کلام کہہ سکے۔ کہتی ہیں بہرحال تمام امور کے بارے میں اطمینان کر لینے کے بعد مَیں نے جنوری 2010ء میں بیعت کا خط لکھ دیا۔ اور پھر کہتی ہیں کہ میرے خاوندنے انٹرنیٹ کیفے سے متعدد بار خط ارسال کرنے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہ ہوئی۔ کہتی ہیں اس وقت جب یہ کامیابی نہیں ہو رہی تھی مجھے اپنے لڑکپن کے زمانے کا، بچپن کے زمانے کا ایک رؤیا یاد آ گیا۔ وہ یہ تھا کہ ایک بے آب و گیاہ سرزمین میں مجھے اپنے سامنے ایک بہت لمبا سایہ نظر آتا ہے جس کے بارے میں خواب میں ہی یہ احساس ہوتا ہے کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ظل ہے۔ یہ سایہ میری طرف ہاتھ بڑھاتا ہے جسے پکڑنے کے لئے مَیں دوڑتی ہوں۔ اسی کشمکش میں کبھی گرتی ہوں اور پھر اٹھ کر دوڑنا شروع کر دیتی ہوں۔ کہتی ہیں ایسے میں میری آنکھ کھل جاتی ہے۔ پھر آگے لکھتی ہیں کہ میرا خیال ہے کہ اس خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظل سے مراد مسیح موعود علیہ السلام تھے جو ظلی طور پر آپ کے کمالات کا عکس ہیں اور ظلی نبی ہیں اور یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے مجھے کوشش کر کے آپ کا ہاتھ تھامنے کی توفیق عطا فرمائی کیونکہ کئی کوششوں کی ناکامی کے بعد بالآ خر مارچ 2010ء میں ہم بیعت بھیجنے میں کامیاب ہو گئے۔ پھر کہتی ہیں کہ جب سے بیعت کی ہے خدائی افضال بارش کی طرح نازل ہو رہے ہیں اور عجائبِ قدرت اس قدر نظر آتے ہیں کہ جن کے بیان سے ہماری زبانیں عاجز ہیں۔ واقعی وہ بڑے عجائب والا خدا ہے۔ مَیں نے جب بھی دعا کی ہے قبولیت کے نشان دیکھے ہیں۔ ہمارا خدا بڑا ہی مہربان ہے۔ پھر آگے یہ لکھتی ہیں (مجھے لکھ رہی ہیں ) کہ آپ کی اور تمام مومنوں کی محبت میرے دل میں میرے اپنے نفس اور اہل اور اولاد اور تمام لوگوں اور ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ ہو گئی ہے۔

پس خدا تعالیٰ باوجود مخالفتوں کے، شیطانی حملوں کے سعید فطرت لوگوں کی رہنمائی فرماتا رہتا ہے اور ان کے سینے کھولتا ہے اور احمدیت قبول کرنے کی توفیق دیتا ہے۔ بیشمار ایسے واقعات سامنے آتے ہیں جب اللہ تعالیٰ خود پکڑ کر لوگوں کو قبول احمدیت کی توفیق عطا فرماتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تائیدو نصرت کے نظارے دکھاتا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ ’’خدا تیرے نام کو اس روز تک جو دنیا منقطع ہو جائے عزت کے ساتھ قائم رکھے گا اور تیری دعوت کو دنیا کے کناروں تک پہنچا دے گا‘‘۔ پھر فرمایا ’’وہ لوگ جو تیری ذلّت کی فکر میں لگے ہوئے ہیں اور تیرے ناکام رہنے کے درپَے اور تیرے نابود کرنے کے خیال میں ہیں وہ خودناکام رہیں گے اور ناکامی اور نامرادی میں مریں گے‘‘۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو فرمایا کہ ’’میں تیرے خالص اور دلی مُحبّوں کا گروہ بھی بڑھاؤں گا اور ان کے نفوس و اموال میں برکت دوں گا اور ان میں کثرت بخشوں گا اور وہ مسلمانوں کے اس دوسرے گروہ پر تا بروز قیامت غالب رہیں گے جو حاسدوں اور معاندوں کا گروہ ہے۔‘‘ (یعنی مسلمانوں کے دوسرے فرقے بھی رہیں گے لیکن غلبہ جماعت احمدیہ کو انشاء اللہ حاصل ہو گا)اور فرمایا کہ ’’خدا انہیں (یعنی کہ وہ مومنین کو) نہیں بھولے گا اور فراموش نہیں کرے گا اور وہ علی حسب الاخلاص اپنا اپنا اجر پائیں گے‘‘۔ (آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 648)

پس اللہ تعالیٰ اس کے مطابق ہر روز جماعت میں اخلاص ووفا کے ساتھ ہر مخلص کو، ہر احمدی کو شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور جب ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کئے گئے خدا تعالیٰ کے بیشمار وعدے پورے بھی ہوئے ہیں تو انشاء اللہ تعالیٰ جو کثرت کا وعدہ ہے یہ بھی پورا ہو گا۔ حاسدوں اور معاندوں پر دلائل کی رُو سے ہمیشہ سے ہم غالب رہے رہیں۔ دلیل ان کے پاس ہے نہیں اور جیسا کہ واقعات میں بھی آپ نے سنا کئی لوگوں نے یہی ذکر کیا کہ دلیل کی رو سے ہمارے پاس کچھ نہیں تھا لیکن مخالفت تھی۔ اور آئندہ بھی انشاء اللہ تعالیٰ دلائل کی رو سے ہم ہی ہمیشہ غالب رہیں گے۔ ضرورت ہے تو اس بات کی کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے کے لئے ہم اپنے اخلاص میں اضافہ کریں تا کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بننے والے بنیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق بھی عطا فرمائے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اقتباس پیش کرتا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں کہ:

’’کیا وہ(یعنی مخالفین)سمجھتے ہیں کہ اپنے منصوبوں سے اور اپنے بے بنیاد جھوٹوں سے اور اپنے افتراؤں سے اور اپنی ہنسی ٹھٹھے سے خدا کے ارادے کو روک دیں گے یا دنیا کو دھوکہ دے کر اس کام کو معرضِ التوا میں ڈال دیں گےجس کا خدا نے آسمان پر ارادہ کیا ہے۔ اگر کبھی پہلے بھی حق کے مخالفوں کو ان طریقوں سے کامیابی ہوئی ہے تو وہ بھی کامیاب ہو جائیں گے‘‘۔ (حق کے جو مخالف ہیں اگر تو پہلے کامیاب ہوئے ہیں تو اب بھی ہو جائیں گے)’’لیکن اگر یہ ثابت شدہ امر ہے کہ خدا کے مخالف اور اس کے ارادے کے مخالف جو آسمان پر کیا گیا ہو ہمیشہ ذلّت اور شکست اٹھاتے ہیں تو پھر ان لوگوں کے لئے بھی ایک دن ناکامی اور نا مرادی اور رُسوائی درپیش ہے۔ خدا کا فرمودہ کبھی خطا نہیں گیا اور نہ جائے گا۔ وہ فرماتا ہےکَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ یعنی خدا نے ابتداء سے لکھ چھوڑا ہے اور اپنا قانون اور اپنی سنّت قرار دے دیا ہے کہ وہ اور اُس کے رسول ہمیشہ غالب رہیں گے۔ پس چونکہ مَیں اس کا رسول یعنی فرستادہ ہوں مگر بغیر کسی نئی شریعت اور نئے دعوے اور نئے نام کے بلکہ اُسی نبی کریم خاتم الانبیاءؐ کا نام پا کر اور اُسی میں ہو کر اور اُسی کا مظہر بن کر آیا ہوں اس لئے مَیں کہتا ہوں کہ جیساکہ قدیم سے یعنی آدم کے زمانے سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک ہمیشہ مفہوم اِس آیت کا سچا نکلتا آیا ہے ایسا ہی اب بھی میرے حق میں سچا نکلے گا‘‘۔ انشاء اللہ۔ (نزول المسیح، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 380-381)


  • خطبہ کا مکمل متن
  • پاؤر پوائنٹ PowerPoint
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 7؍ جولائی 2017ء شہ سرخیاں

    جیسا کہ انبیاء کی تاریخ میں ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے دعوے کے بعد ان کی مخالفت بھی ہوتی ہے اور جوں جوں جماعت پھیلتی ہے مخالفت اور حسد کی آگ بھی بڑھنا شروع ہو جاتی ہے۔ مخالفین کے مخالفت کے طریق بھی مخالفت کی ہر ممکن صورت اختیار کرتے جاتے ہیں۔ لیکن چونکہ دعویٰ کرنے والا اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجا گیا ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے مخالفتوں کے باوجود ترقی کے وعدے اور خوشخبریاں دی ہوتی ہیں اس لئے کوئی مخالفت ترقی کی راہ میں روک نہیں بنتی اور نہ بن سکتی ہے۔

    اللہ تعالیٰ نے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مسیح اور مہدی بنا کر بھیجا تو آپ کے ساتھ بھی اس سنّت کے مطابق سلوک ہونا تھا اور اللہ تعالیٰ کی جو تائید و نصرت کی سنّت ہے اسی کے مطابق سلوک ہونا تھا اور اللہ تعالیٰ نے وہ سلوک بھی فرمایا اور آپ کی جماعت کے ساتھ بھی یہی سلوک اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے۔

    کہیں اللہ تعالیٰ مخالفین کے مکر اُن پر الٹا کر اپنی تائید کے عملی نظارے دکھاتا ہے۔ کہیں خود لوگوں کی رہنمائی کر کے انہیں احمدیت کی سچائی دکھاتا ہے۔ کہیں غیروں کے دلوں میں ڈالتا ہے کہ وہ غیروں کے حملوں کے خلاف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ماننے والوں کی تائید اور مدد کریں۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ یہ وعدے ہیں ان کے عملی اظہار، جیسا کہ مَیں نے کہا، وقتاً فوقتاً ہوتے رہتے ہیں۔ مخالفین کے بد انجام، سعید فطرت لوگوں کی حق کی طرف رؤیا و کشوف کے ذریعہ رہنمائی، مسیح موعود علیہ السلام کے دلی محبوں کے گروہ کے بڑھنے سے متعلق نہایت ایمان افروز واقعات کا تذکرہ۔

    خدا تعالیٰ باوجود مخالفتوں کے، شیطانی حملوں کے سعید فطرت لوگوں کی رہنمائی فرماتا رہتا ہے اور ان کے سینے کھولتا ہے اور احمدیت قبول کرنے کی توفیق دیتا ہے۔ بیشمار ایسے واقعات سامنے آتے ہیں جب اللہ تعالیٰ خود پکڑ کر لوگوں کو قبول احمدیت کی توفیق عطا فرماتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تائیدو نصرت کے نظارے دکھاتا ہے۔

    فرمودہ مورخہ 07؍جولائی 2017ء بمطابق07؍وفا 1396 ہجری شمسی،  بمقام مسجدبیت الفتوح، مورڈن، لندن، یوکے

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور