جلسہ سالانہ برطانیہ ۲۰۱۷ء اور ہماری ذمہ داریاں
خطبہ جمعہ 28؍ جولائی 2017ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج یوکے (UK) کا جلسہ سالانہ شروع ہو رہا ہے۔ دعاؤں پر ان دنوں میں بہت زور دیں اور جن کو توفیق ہے وہ صدقات بھی دیں کہ اللہ تعالیٰ اس جلسہ کو ہر لحاظ سے کامیاب اور بابرکت فرمائے اور سب لوگ، یہاں آ کر شامل ہونے والے بھی اور دنیا میں مختلف ممالک میں رہنے والے احمدی بھی جو ایم ٹی اے کے ذریعہ سے جلسہ کی کارروائی سن رہے ہیں، جلسہ کی ہر لحاظ سے کامیابی اور دشمن کے ہر شر سے بچنے کے لئے دعا کریں۔ گزشتہ خطبہ میں مَیں نے مہمان نوازی کرنے والے کارکنان کو جلسہ کے مہمانوں کی مہمان نوازی کرنے کی طرف توجہ دلائی تھی۔ آج مختصراً مہمانوں کو اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ مہمان کے بھی کچھ فرائض اور ذمہ داریاں ہیں جسے اس نے ادا کرنا ہے۔
مہمان کا بیشک اسلام میں بہت حق ہے لیکن اسلام ایک ایسا معتدل اور اعتدال کی تعلیم دینے والا مذہب ہے جو صرف ایک فریق کو ہی ذمہ داریوں کا احساس دلا کر اس طرف توجہ دینے کی نصیحت نہیں کرتا بلکہ دوسرے فریق کو بھی کہتا ہے کہ تم بھی اپنے فرائض ادا کرو اور جن حقوق کی ادائیگی تم پر واجب ہے تم انہیں ادا کرو کیونکہ یہی بات ہے جو پیار، محبت اور بھائی چارے پر مبنی ایک معاشرے کے قیام کا باعث بنے گی۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب ایک سال ناراضگی کا اظہار فرماتے ہوئے جلسہ کا انعقادنہیں فرمایا تھا تو اس وقت اس کی وجہ بھی جلسہ میں شامل ہونے والوں کے غلط رویّے تھے۔ یعنی آنے والے مہمان اپنے فرائض اور حق ادا نہ کرنے کی وجہ سے آپ علیہ السلام کے صدمے اور ناراضگی کی وجہ بنے تھے۔ آپ نے ناراضگی کا اظہار اس لئے نہیں فرمایا تھا کہ جلسہ میں شامل ہونے والے لوگوں سے آپ کو کوئی براہ راست تکلیف پہنچی ہے۔ بلکہ آپ نے یہ اظہار فرمایا کہ تم لوگ جو جلسہ میں شامل ہوئے ہو ایک دوسرے کے حقوق ادا نہیں کر رہے اور نہ صرف یہ کہ ایک دوسرے کے حق ادا نہیں کر رہے بلکہ خود غرضی اور خودپسندی کا بھی اظہار کر رہے ہو۔ اپنے آرام کو دوسروں کے آرام پر ترجیح دے رہے ہو۔ جلسہ پر آ کر اس طرح کے اظہار کر رہے ہو کہ گویا یہ کوئی دنیاوی میلہ ہے۔ جبکہ جلسہ پر آنے کا مقصد تو تقویٰ میں ترقی کرنا، خدا تعالیٰ سے اپنے تعلق میں بڑھنا اور ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنا اور ایک دوسرے کے لئے اپنے قربانی کے جذبے اور معیار کو بڑھانا ہے اور جب آپ نے دیکھا کہ اس معیار پر کچھ لوگ پورا نہیں اتر رہے تو آپ کو بڑا صدمہ پہنچا جس کا اظہار آپ نے بڑا کھل کر فرمایا۔ (ماخوذ از شہادۃ القرآن روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 394-395)
پس جلسہ میں شامل ہونے والے مہمان جب جلسہ میں شامل ہونے کے لئے آتے ہیں تو صرف وہ مہمان نہیں ہوتے کہ بحیثیت مہمان اپنے سے بہتر سلوک اور آرام و آسائش کی توقع رکھیں بلکہ وہ ایثار و قربانی کے اعلیٰ معیار بھی حاصل کرنے والے ہونے چاہئیں اور جلسہ منعقد کرنے کا جو مقصد ہے وہ ہر وقت ان کے سامنے ہونا چاہئے جو جیسا کہ مَیں نے کہا اللہ سے تعلق اور روحانیت میں ترقی ہے اور ایک دوسرے کا حق ادا کرنا ہے۔
جہاں تک غیر از جماعت مہمانوں کا تعلق ہے تو یقیناً ہم نے ان کا خیال رکھنا ہے اور ان کی مہمان نوازی میں اپنے وسائل کے مطابق جس حد تک سہولت مہیا ہو سکتی ہے اور مہمان نوازی کا حق ادا ہو سکتا ہے ادا کرنا ہے اور خاص طور پر بعض قوموں کے سردار جو ہیں وہ بھی مہمان بن کے آئے ہیں۔ ان کا جہاں تک مہمان بن کے آنے کا تعلق ہے ان کی مہمان نوازی خاص توجہ سے کرنی چاہئے کیونکہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد بھی ہے کہ قوموں کے لیڈر اور سردار جو تمہارے پاس آئیں تو ان کو عزت دو، ان کا احترام کرو اور ان کی خاطر تواضع کرو۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الأدب باب اذا أتاکم کریم قوم فاکرموہ حدیث 3712)
اسی طرح جو حق کی تلاش میں آنے والے ہیں وہ بھی بہت سارے لوگ آتے ہیں۔ وہ کوئی بھی ہوں ان کی مہمان نوازی ہمیں پوری طرح کرنی چاہئے۔ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہی بات سمجھائی ہے۔ چنانچہ آپ اپنے لنگر کے کارکنوں کو یہی ہدایت فرماتے تھے کہ تم کسی کو جانتے ہو یا نہیں جانتے۔ کوئی بڑا ہے یا چھوٹا ہے، امیر ہے یا غریب ہے، تم نے ہر ایک کی مہمان نوازی کرنی ہے۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد 6 صفحہ 226)
لیکن ایک احمدی جب جلسہ پر شامل ہونے کے لئے آتا ہے تو اسے اپنے آپ کو مہمان اور میزبان دونوں سمجھنا چاہئے۔ تبھی ایثار اور قربانی کا جذبہ بڑھے گا اور جلسہ کا ماحول پُرامن اور پیار اور محبت کا ماحول بنے گا۔
مہمان کو ہمیشہ یہ کوشش کرنی چاہئے کہ اس نے گھر والے کے لئے تنگی کے سامان نہیں کرنے بلکہ سہولت کے سامان کرنے ہیں۔ یہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔ (صحیح البخاری کتاب الأدب باب اکرام الضیعف و خدمتہ … الخ حدیث 6135)
جلسہ کے دنوں میں یہاں اس جگہ پر کیونکہ عارضی انتظام ہوتا ہے اس لئے یہاں رہائش رکھنے والوں کو وہ آرام اور سہولت مہیا نہیں کی جا سکتی جو ایک مستقل انتظام میں کی جا سکتی ہے۔ یہاں اجتماعی قیام گاہیں بھی بنائی گئی ہیں اور خیموں میں فیملیوں کی رہائش کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔ اس انتظام میں بہت سی کمیاں رہ گئی ہوں گی۔ جلسہ پر آنے والے مہمانوں کے لئے جماعتی مہمان نوازی کے شعبہ جات گھر والے کی حیثیت رکھتے ہیں اس لئے بجائے ان شعبوں کو اس نظر سے دیکھنے کے کہ یہ جماعتی شعبہ جات ہماری خدمت پر مامور کئے گئے ہیں اور اگر ان میں کہیں کوئی کمی یا کمزوری ہے تو ہم حق رکھتے ہیں کہ جو چاہیں انہیں کہیں اور سہولتیں حاصل کرنے کی کوشش کریں تو یہ غلط سوچ ہے۔ یہ کارکنان اور کارکنات جو خدمت پر مامور ہیں کوئی ہمارے ملازم نہیں ہیں۔ یہ ان کی عاجزی اور خدمت کا جذبہ ہے جو وہ اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمانوں کی خدمت کے لئے پیش کر کے دکھا رہے ہیں۔ ان کارکنوں میں بعض بہت پڑھے لکھے اور صاحبِ حیثیت لوگ بھی ہیں۔ اس لئے مہمانوں کو چاہئے کہ کارکنوں کے ساتھ ضرورت کے وقت نرمی اور پیار سے بات کر کے اپنی ضرورت کا مطالبہ کریں اور اگر وہ یعنی کارکن مجبوری کی وجہ سے معذرت کریں تو پھر خوشدلی سے ان کی معذرت کو قبول کریں۔ اسی طرح ہمارے نوجوان لڑکے لڑکیاں بھی بڑے جذبے سے ڈیوٹی دیتے ہیں اور دے رہے ہیں۔ بعض دفعہ بعض بڑوں کے غلط رویّے اور بات کرنے کے طریق سے ان نوجوانوں کو بڑی ٹھوکر لگتی ہے اور یہ بڑے لوگ ان کی ٹھوکر کا باعث بن جاتے ہیں۔ پس اس لحاظ سے بھی ہر ایک کو خیال رکھنا چاہئے۔ بڑوں کو بھی چھوٹوں سے شفقت سے پیش آنا چاہئے۔
ہر احمدی آنے والا مہمان اپنے آپ کو صرف مہمان نہ سمجھے، جیسا کہ مَیں نے کہا، بلکہ اس نیّت سے جلسہ میں شامل ہو کہ میرا اصل مقصد جلسہ میں شامل ہو کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعاؤں کا وارث بننا ہے، جلسہ کی برکات سے فائدہ اٹھانا ہے اور اپنی روحانیت میں ترقی کرنا ہے، نہ کہ چھوٹی چھوٹی دنیاوی سہولتوں اور باتوں کے پیچھے اپنا وقت ضائع کرنا ہے اور ماحول کو اس وجہ سے مکدّر اور خراب کرنا ہے۔ لیکن کارکنان کو بھی یہاں مَیں دوبارہ یہی کہوں گا کہ جو بھی حالات ہوں، جیسا بھی کسی کا رویّہ ہو، آپ لوگوں نے خوش اخلاقی اور صبر اور حوصلہ کا مظاہرہ کرنا ہے۔
مہمانوں کو کھانے کے لئے جو بھی میسر آئے ان تین دنیوں میں انہیں ہنسی خوشی اسے کھا لینا چاہئے۔ دیکھیں یہ کتنا بڑا جذبہ ہے کہ بعض لوگ جو بعض محکموں میں افسر ہیں صرف اس لئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمانوں کی خدمت میں برکت ہے، رخصتیں لے کر ایک شوق اور جذبے سے کھانا پکانے کی خدمت بھی سرانجام دیتے ہیں۔ اس لئے کھانے کے مزہ میں اگر کمی بیشی بھی ہو جائے تو شکایت کی ضرورت نہیں۔ لیکن جو کھانا کھلانے والے کارکن ہیں اور جو کھانا تقسیم کرنے والے ہیں وہ بھی یاد رکھیں کہ جب کسی کو کھانا دیں تو عزت سے دیں اور اگر کوئی دس مرتبہ بھی سالن کا مطالبہ کرے اور اپنی مرضی کا سالن ڈلوانا چاہے تو ڈال دیں۔ بعض دفعہ کھانا کھلانے کی جگہوں پر چھوٹی چھوٹی باتوں پر بدمزگی پیدا ہو جاتی ہے اس سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
اسی طرح مہمان یہ بھی خیال رکھیں کہ کھانا کھا کر جتنی جلدی ہو سکے کھانے کی مارکی کو چھوڑ دیں تا کہ دوسرے لوگ بھی آرام سے آ کر کھانا کھا سکیں۔ کوشش تو انتظامیہ کی یہی ہوتی ہے کہ ایک وقت میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو کھانا کھلایا جا سکے اور جگہ بھی اضافہ کر کے، وسیع کر کے، بنانے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن پھر بھی رش میں مشکل پیش آ جاتی ہے۔ اگر مہمانوں کا تعاون ہو تو اس میں پھر سہولت رہتی ہے۔ مہمانوں کے لئے دوسری سہولیات غسل خانوں وغیرہ کا بھی بہتر انتظام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا کہ عارضی انتظام کی وجہ سے بعض دفعہ مہمانوں کو مشکل اور تکلیف کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس بات کو برداشت کرنا چاہئے۔ اب رات کو ہی مجھے رپورٹ ملی کہ غسل خانوں کے ایک حصہ کا ڈرین پائپ (Drain Pipe) ٹوٹ گیا ہے جس کی وجہ سے گٹر بلاک ہو گئے، غسل خانوں کو تھوڑے عرصے کے لئے بند کرنا پڑا اور مشکل پیش آئی۔ گو انتظامیہ اس کو مستقل حل کرنے کی اور صحیح کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن مہمانوں کو اس میں مزید مشکل پیش آ سکتی ہے۔ اس کے علاوہ جیسا کہ مَیں نے گزشتہ خطبہ میں بھی کہا تھا کہ ٹرانسپورٹ کے اور پارکنگ کے انتظام میں اس دفعہ سہولت کی خاطر کچھ تبدیلی کی گئی ہے اور ابھی تک جو میری رپورٹ ہے اس کے مطابق تو اس سہولت سے فائدہ ہو رہا ہے اور ٹریفک کا جو رَش تھا یا ٹریفک جام ہو جاتا تھا اس میں کافی حد تک کمی ہے بلکہ ٹریفک کا بہتر فلو (flow) ہے۔ لیکن پھر بھی آنے والوں کو پارکنگ اور ٹرانسپورٹ کے شعبہ سے باقی تین دنوں میں بھی پورا تعاون کرنا چاہئے۔ جہاں اور جس طرح بھی کاروں کو اور افراد کو بھی کیو (queue) اور لائنیں لگانے کا کہا جائے اسی طرح لگائیں۔ جیسا کہ میں نے کہا کاروں کی پارکنگ کے لئے بڑی پارکنگ اور جگہ بھی لی گئی ہے وہاں سے بسوں پہ لایا جائے گا۔ اس میں بھرپور تعاون کریں۔ اگر تعاون ہو گا تو بغیر ٹریفک رکے آسانی سے وقت پر پہنچ سکتے ہیں۔ عموماً ہر سال جمعہ کے وقت لوگ دیر سے پہنچتے تھے اور آخر وقت تک آ رہے ہوتے تھے بلکہ مجھے کہا جاتا تھا کہ کچھ لیٹ آئیں تا کہ لوگ پہنچ جائیں۔ لیکن اس دفعہ لگتا ہے اس وجہ سے کچھ بہتر انتظام ہے۔ اس لئے آئندہ بھی تعاون کریں گے تو یہ بہتر انتظام جاری رہے گا ورنہ دقّت ہو گی۔ اسی طرح جیسا کہ پہلے بھی مَیں نے کہا تھا کہ وقت سے پہلے سفر شروع کریں تا کہ وقت پر پارکنگ کی جگہ پہنچ سکیں اور پھر بسوں کے ذریعہ جلسہ گاہ پر لانے کا انتظام کیا جا سکے۔
اسی طرح سیکیورٹی کے مسائل ہر سال بڑھ رہے ہیں۔ اس لئے سکیورٹی چیکنگ پر بھی بھرپور تعاون کریں۔ اپنا ایمز کارڈ (Aims Card) اور جہاں یہ نہیں ہے یا شناختی کارڈ کی ضرورت ہے یا شناختی تعارف کا خط ہے اس کو دکھانے کی ضرورت ہے وہ ضرور دکھائیں۔ جتنی دفعہ مطالبہ کیا جائے دکھائیں۔ اپنا کارڈ اور خاص علاقے کا پاس کسی اور کو نہ دیں بعض دفعہ لوگ گرین ایریا کے کارڈ دوسروں کو دے دیتے ہیں یا کسی بھی جگہ جانے کی اگر access ہے تو کسی دوسرے کو نہ دیں۔ گزشتہ سالوں میں ایسے واقعات ہوئے ہیں کہ اپنے گرین ایریا کے یا کسی خاص علاقے کے کارڈ اپنے کسی واقفکار کو یا دوست کو دے دئیے اور یہ غلط حرکت بعض دفعہ کارکنان اور اچھے بھلے عہدیدار بھی کر جاتے ہیں اس لئے احتیاط کرنی چاہئے۔ چیکنگ کرنے والے بھی اگر کسی کو ایمز (AIMS) کے علاوہ دو کارڈ ایشو ہوئے ہوئے ہیں تو دونوں چیک کیا کریں اور دیکھیں کہ ایک ہی نام کے یہ دونوں ہونے چاہئیں۔ اسی طرح اس سال شاید سیکیورٹی والے اس بات کو بھی چیک کریں اور ان لوگوں کو روکیں جو اپنے ساتھ پانی کی بوتلیں لاتے ہیں۔ اس چیکنگ میں بھی تعاون کریں۔ کیونکہ سرکاری محکموں کی طرف سے ہمیں اس طرف توجہ دلائی گئی ہے اور یہ سب حفاظتی اقدامات کے لئے ہے۔ اس لئے سب کو تعاون کرنا چاہئے۔
سیکیورٹی چیک کرنے والے کارکنوں کا بھی کام ہے کہ چاہے کوئی جاننے والا ہے، یا نہ جاننے والا ہے کارکن ہے، یا غیر کارکن ہے۔ عہدیدار ہے یا غیر عہدیدار ہے ہر ایک کو چیک کریں۔ اس لئے اس بارے میں کسی کو برا ماننے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ چیکنگ کرنے والوں کو شرمانے کی ضرورت ہے۔
اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ ہر شخص اپنے دائیں بائیں اپنے ماحول پر نظر رکھے۔ یہ بہت ضروری ہے۔ اور سب سے بڑھ کر جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا تھا ان دنوں میں دعاؤں پر بہت زور دیں۔ اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے جلسہ کو بابرکت فرمائے۔ جلسہ کی کارروائی کو سنیں اور اِدھر اُدھر نہ پھریں۔ انتظامیہ کو اور کارکنوں کو ایک چیز یہ بھی کہنا چاہتا ہوں اور پہلے بھی کئی مرتبہ کہہ چکا ہوں کہ انتظامیہ لوگوں کی سہولت کے لئے زیادہ سے زیادہ کوشش کرے۔ بعض دفعہ بعض لوگ جو کچھ کھا پی کر نہیں آتے، گھروں سے جلدی آ جاتے ہیں یا صبح کھانے کی عادت نہیں ہوتی اور پھر یہاں آ کے بعض دفعہ کھانے کے وقت میں دیر بھی ہو جاتی ہے تو لمبے فاقے کی وجہ سے ان کی طبیعت خراب ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ بعض مریض ہوتے ہیں جو لمبا فاقہ نہیں کر سکتے۔ اگر کوئی ایسا شخص ہو تو کھانا کھانے کی مارکی میں کسی نہ کسی کھانے کی چیز کا انتظام ہونا چاہئے اور وہاں ڈیوٹی پر لوگ موجود ہونے چاہئیں۔ لیکن اگر ویسی صورتحال ہو تو مہمان بھی فوری طور پر کھا کر واپس آئیں اور جلسہ کی کارروائی کو سنیں۔ اسی طرح انتظامیہ اس بات کو بھی یقینی بنائے کہ بازار مکمل طور پر بند ہوں۔ کسی سٹال یا دکان میں سٹال والا یا دکان والا بھی موجودنہ ہو۔ سب جلسہ سنیں۔ اوّل تو سیکیورٹی کا انتظام وہاں ہونا چاہئے اور بازار کے شعبہ کی ذمہ داری ہونی چاہئے کہ سیکیورٹی کا انتظام رکھے۔ لیکن اگر پھر بھی بعضوں کی تسلّی نہیں ہے، قیمتی سامان ہے تو دکان پہ نہیں بیٹھنا۔ وہاں بازار میں ایک کونے میں ایک جگہ بنا لیں جہاں جلسہ سننے کا انتظام ہو اور ٹی وی لگا ہو۔
اسی طرح یہ بات بھی کہنا چاہتا ہوں کہ جماعتی طور پر ہر سال کی طرح اس سال بھی نمائشیں لگائی گئی ہیں جن میں ریویو آف ریلیجنز کی نمائش بھی ہو گی اور ساتھ ہی کفن مسیح کی نمائش بھی ہو گی۔ اس مضمون کے بعض دوسرے غیر مسلم ماہرین بھی آ رہے ہیں جو اپنے لیکچر بھی دیں گے اور سوال جواب بھی کریں گے۔ ان سے بھی جن لوگوں کو دلچسپی ہے ان کو فائدہ اٹھانا چاہئے۔
اسی طرح ’اَلْقَلَم‘ کا پراجیکٹ بھی ریویو آف ریلیجنز کے تحت اس دفعہ بھی چلے گا جہاں قرآن کریم کی کوئی نہ کوئی آیت ہاتھ سے لکھنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ اس میں لوگ بڑی دلچسپی سے شامل ہوتے ہیں۔ تو جن کو بھی دلچسپی ہے وہ اس میں حصہ لے سکتے ہیں۔ اسی طرح شعبہ آرکائیو کے تحت بھی اس دفعہ بعض تبرکات کی نمائش کا اہتمام کیا گیا ہے۔ وہ بھی دیکھنے والی چیز ہو گی۔ مخزن تصاویر کی تصویروں کی نمائش ہے۔ لیکن یہ یاد رہے کہ جلسہ کی کارروائی کے دوران یہ سب بند رہیں گی۔ جلسہ کی کارروائی کو سب غور سے سنیں اور تقریروں سے فائدہ اٹھائیں۔ علماء اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی محنت سے اپنی تقاریر تیار کرتے ہیں ان سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہئے۔ یہ نہیں کہ صرف اپنی پسند کے مقرروں یا عنوانات کو غور سے سنیں اور اس میں دلچسپی لیں اور باقی پر توجہ نہ دیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’سب صاحبان متوجہ ہو کر سنیں۔ مَیں اپنی جماعت اور خود اپنی ذات اور اپنے نفس کے لئے یہی چاہتا اور پسند کرتا ہوں کہ ظاہری قیل و قال جو لیکچروں میں ہوتی ہے اس کو ہی پسندنہ کیا جاوے اور ساری غرض و غایت آ کر اُس پر ہی نہ ٹھہر جائے کہ بولنے والا کیسی جادو بھری تقریر کر رہا ہے۔ الفاظ میں کیسا زور ہے۔ مَیں اس بات پر راضی نہیں ہوتا۔‘‘فرماتے ہیں ’’مَیں تو یہی پسند کرتا ہوں اور نہ بناوٹ اور تکلّف سے‘‘ (بناوٹ اور تکلف کوئی نہیں )’’بلکہ میری طبیعت اور فطرت کا ہی یہی اقتضا ہے کہ جو کام ہو اللہ کے لئے ہو۔ جو بات ہو خدا کے واسطے ہو۔‘‘
پھر آپ فرماتے ہیں ’’ہم جو کچھ کہیں خدا کے لئے، اس کی رضا حاصل کرنے کے واسطے، اور جو کچھ سنیں خدا کی باتیں سمجھ کر سنیں اور نیز عمل کرنے کے واسطے سنیں اور مجلس وعظ سے ہم صرف اتنا ہی حصہ نہ لے جائیں کہ یہ کہیں (کہ) آج بہت اچھا وعظ ہوا‘‘۔ سنیں غور سے سنیں اور اس نیت سے سنیں کہ عمل کرنا ہے۔ صرف اس نیت سے نہ سنیں کہ وعظ کی تعریف کرنی ہے۔ پھر آپ فرماتے ہیں ’’مسلمانوں میں اِدبار اور زوال آنے کی یہ بڑی بھاری وجہ ہے‘‘۔ (کیوں گراوٹ پیدا ہوئی دوسرے مسلمانوں میں؟ اس کی بھاری وجہ یہی ہے کہ وہ اس نیت سے نہیں سنتے تھے۔) فرمایا ’’ورنہ اس قدر کانفرنسیں اور انجمنیں اور مجلسیں ہوتی ہیں اور وہاں بڑے بڑے لسّان اور لیکچرار اپنے لیکچر پڑھتے اور تقریریں کرتے، شاعر قوم کی حالت پر نوحہ خوانیاں کرتے ہیں۔ وہ بات کیا ہے کہ اس کا کچھ بھی اثر نہیں ہوتا‘‘۔ فرمایا کہ ’’قوم دن بدن ترقی کی بجائے تنزّل ہی کی طرف جاتی ہے‘‘۔ (یہی ہم دیکھتے چلے آ رہے ہیں اور آجکل تو اور بھی زیادہ بھیانک حالات ہوتے چلے جا رہے ہیں۔) فرمایا کہ ’’بات یہی ہے کہ ان مجلسوں میں آنے جانے والے اخلاص لے کر نہیں جاتے۔‘‘ (ملفوظات جلد 1 صفحہ 398 تا 401۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس اس بنیادی بات کو ہر شامل ہونے والے کو سمجھنا چاہئے کہ اخلاص کے ساتھ جلسہ کے پروگرام میں شامل ہوں۔ تقاریر کو سنیں اور اس نیت سے سنیں کہ ہم نے ان پر عمل کرنے کی حتی المقدور کوشش کرنی ہے۔ احمدی علماء پر اللہ تعالیٰ کا یہ بڑا فضل ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے علم کلام سے استفادہ کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی باتیں اس سے استفادہ کرتے ہوئے ہم تک پہنچاتے ہیں۔ روحانی اور علمی مضامین بیان کرتے ہیں۔ اگر ہم حقیقت میں اس سے استفادہ کرنے والے ہوں تو اپنی زندگیوں میں ایک انقلاب پیدا کر سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ تمام شاملین کو جلسہ کے مقاصد کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج یوکے (UK) کا جلسہ سالانہ شروع ہو رہا ہے۔ دعاؤں پر ان دنوں میں بہت زور دیں اور جن کو توفیق ہے وہ صدقات بھی دیں کہ اللہ تعالیٰ اس جلسہ کو ہر لحاظ سے کامیاب اور بابرکت فرمائے اور سب لوگ، یہاں آ کر شامل ہونے والے بھی اور دنیا میں مختلف ممالک میں رہنے والے احمدی بھی جو ایم ٹی اے کے ذریعہ سے جلسہ کی کارروائی سن رہے ہیں،
جلسہ کی ہر لحاظ سے کامیابی اور دشمن کے ہر شر سے بچنے کے لئے دعا کریں۔ گزشتہ خطبہ میں مَیں نے مہمان نوازی کرنے والے کارکنان کو جلسہ کے مہمانوں کی مہمان نوازی کرنے کی طرف توجہ دلائی تھی۔ آج مختصراً مہمانوں کو اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ مہمان کے بھی کچھ فرائض اور ذمہ داریاں ہیں جسے اس نے ادا کرنا ہے۔
مہمان کا بیشک اسلام میں بہت حق ہے لیکن اسلام ایک ایسا معتدل اور اعتدال کی تعلیم دینے والا مذہب ہے جو صرف ایک فریق کو ہی ذمہ داریوں کا احساس دلا کر اس طرف توجہ دینے کی نصیحت نہیں کرتا بلکہ دوسرے فریق کو بھی کہتا ہے کہ تم بھی اپنے فرائض ادا کرو اور جن حقوق کی ادائیگی تم پر واجب ہے تم انہیں ادا کرو کیونکہ یہی بات ہے جو پیار، محبت اور بھائی چارے پر مبنی ایک معاشرے کے قیام کا باعث بنے گی۔
جلسہ پر آنے کا مقصد تو تقویٰ میں ترقی کرنا، خدا تعالیٰ سے اپنے تعلق میں بڑھنا اور ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنا اور ایک دوسرے کے لئے اپنے قربانی کے جذبے اور معیار کو بڑھانا ہے۔
جلسہ میں شامل ہونے والے مہمان جب جلسہ میں شامل ہونے کے لئے آتے ہیں تو صرف وہ مہمان نہیں ہوتے کہ بحیثیت مہمان اپنے سے بہتر سلوک اور آرام و آسائش کی توقع رکھیں بلکہ وہ ایثار و قربانی کے اعلیٰ معیار بھی حاصل کرنے والے ہونے چاہئیں اور جلسہ منعقد کرنے کا جو مقصد ہے وہ ہر وقت ان کے سامنے ہونا چاہئے جو جیسا کہ مَیں نے کہا اللہ سے تعلق اور روحانیت میں ترقی ہے اور ایک دوسرے کا حق ادا کرنا ہے۔
جہاں تک غیر از جماعت مہمانوں کا تعلق ہے تو یقیناً ہم نے ان کا خیال رکھنا ہے اور ان کی مہمان نوازی میں اپنے وسائل کے مطابق جس حد تک سہولت مہیا ہو سکتی ہے اور مہمان نوازی کا حق ادا ہو سکتا ہے ادا کرنا ہے
ایک احمدی جب جلسہ پر شامل ہونے کے لئے آتا ہے تو اسے اپنے آپ کو مہمان اور میزبان دونوں سمجھنا چاہئے تبھی ایثار اور قربانی کا جذبہ بڑھے گا اور جلسہ کا ماحول پُرامن اور پیار اور محبت کا ماحول بنے گا۔
جلسہ سالانہ پر تشریف لانے والے مہمانوں کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں نہایت اہم نصائح۔ جلسہ کے موقع پر بازار اور نمائشوں اور بعض انتظامات کے حوالہ سے تذکرہ اور مہمانوں اور میزبانوں کو مختلف امور سے متعلق خصوصی توجہ دینے کی تاکید۔
فرمودہ مورخہ 28؍جولائی 2017ء بمطابق28؍وفا 1396 ہجری شمسی، بر موقع جلسہ سالانہ برطانیہ 2017ءبمقام حدیقۃ المہدی، آلٹن (Alton)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔