جلسہ سالانہ برطانیہ ۲۰۱۷ء میں اللہ تعالیٰ کا فضل اور برکات
خطبہ جمعہ 4؍ اگست 2017ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل اور احسان ہے کہ جماعت احمدیہ برطانیہ کا جلسہ سالانہ گزشتہ ہفتے خیریت سے منعقد ہوا۔ جلسہ سالانہ کے تینوں دنوں میں ہم نے اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور برکات کے نظارے دیکھے۔ بعض حالات اور موسم کی وجہ سے کچھ فکر بھی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے حالات کے بداثرات سے محفوظ رکھا اور ہر شامل ہونے والے نے محسوس کیا کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت اور فضل ہر حال نازل ہو رہے تھے۔ پس اس بات پر ہم اللہ تعالیٰ کا جس قدر بھی شکر ادا کریں کم ہے اور حقیقی شکر تب ہی ادا ہو سکتا ہے جب ہم اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کے لئے ہر وقت کوشاں رہیں۔ یہ شکر گزاری کارکنوں کی طرف سے بھی ہونی چاہئے تا کہ اس سے جہاں ہم اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہوں وہاں اس شکر گزاری کی وجہ سے اپنی صلاحیتوں میں بہتری پیدا کرنے والے بھی ہوں۔ اسی طرح شامل ہونے والوں کو بھی شکر گزار ہونا چاہئے تا کہ وہ بھی زیادہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والے بنیں اور ان کی زندگیوں میں پاک تبدیلیاں پیدا ہوتی چلی جائیں۔ نیز جو خدمت پر مامور کارکن تھے ان کا بھی ان لوگوں کو شکر گزار ہونا چاہئے جو شامل ہوئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو لوگوں کا یا خدا تعالیٰ کے بندوں کا شکر گزار نہیں وہ اللہ تعالیٰ کا بھی شکر ادا نہیں کرتا۔ (سنن الترمذی ابواب البر والصلۃ باب ما جاء فی الشکر لمن احسن الیک حدیث 1954) پس اس لحاظ سے سب شامل ہونے والوں کو کام کرنے والوں کا بھی شکرگزارہونا چاہئے۔
اسی طرح کام کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کا، جیسا کہ مَیں نے کہا، ہر لحاظ سے شکر گزار ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمانوں یا دین کی خاطر آنے والے مہمانوں، دینی علم کے حاصل کرنے کے لئے آنے والے مہمانوں کی خدمت کرنے کا موقع عطا فرمایا۔
اصل میں تو جلسہ سالانہ کے مقاصد میں سے ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ایسا بھائی چارہ اور شکرگزاری کے جذبات ایک دوسرے کے لئے پیدا ہوں جو مثالی ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہی محبت پیار اور بھائی چارے کے جذبات ہیں جن کا اظہار جب ہم اپنوں اور غیروں سے کر رہے ہوں تو یہ چیز ہر آنے والے مہمان کو متأثر کر رہی ہوتی ہے۔ علاوہ علمی اور دینی پروگراموں کے ہر احمدی کا عملی نمونہ آنے والے غیروں کو بے حد متاثر کر رہا ہوتا ہے جس کا وہ اظہار کرتے ہیں کہ اسلام کی حقیقی تعلیم کا نمونہ ہمیں جلسہ میں نظر آیا جس سے ہم بڑے متاثر ہوئے۔ چھوٹے بچوں سے لے کر بوڑھوں تک ہر ایک اپنے اپنے دائرے میں غیر معمولی اخلاص کے ساتھ خدمت کر رہا تھا۔ اسی طرح شامل ہونے والے بھی بغیر کسی بے چینی کے اور شر پھیلانے کے جلسہ میں خاموشی سے شامل ہو رہے تھے۔ اور پروگراموں سے استفادہ کر رہے تھے اور یہ عملی نمونے کا اظہار ایک دنیا دار کے لئے بہت حیرت انگیز بات ہے۔ آنے والے غیر جو مہمان ہیں وہ اپنے تأثرات کا اظہار بھی کرتے رہے ہیں۔ اس وقت مَیں چند ایک تأثرات پیش کروں گا جو انہوں نے اس ماحول کو دیکھ کر بیان کئے اور برملا اس بات کا اظہار کیا کہ اگر یہ اسلام کی تعلیم ہے تو اس تعلیم کے پھیلنے کی دنیا میں ضرورت ہے۔
بینن سے سابق وزیر خارجہ اور مشیر صدر مملکت ’’مریم بونی جیالو صاحبہ‘‘ ہیں۔ اس وقت بھی وہ سینیئر وزیر کے مشیر ہیں۔ کہتی ہیں کہ مجھے اس جلسہ کے ذریعہ سے جماعت احمدیہ کو گہرائی سے سمجھنے کا موقع ملا۔ میں جلسہ کے انتظامات سے بہت متأثر ہوں۔ کارکنان کا انتظامی معیار بہت بلند تھا۔ کارکنان کا اخلاص دیکھ کر میں حیران رہ گئی۔ کہتی ہیں میں نے انتظامی طور پر ہر طرح سے جائزہ لیا (بڑی تنقیدی نظر سے لوگ دیکھتے ہیں ) لیکن اتنے بڑے جلسہ میں کوئی نقص نظر نہیں آیا۔ ہر شعبہ کو تنقیدی نظر سے دیکھا لیکن ہر شعبہ میں انتظامات معیاری اور اعلیٰ تھے۔ پھر کہتی ہیں کہ جب میں کارکنان کی طرف دیکھتی تو محسوس کرتی کہ کیا چھوٹا اور کیا بڑا، بوڑھا، جوان، مرد، عورت الغرض ہر طبقے کے لوگ دوسروں کو آرام پہنچانے کے لئے کوشاں تھے۔ ہر کوئی اپنا آرام بھلا کر دوسروں کو آسائش اور سہولت پہنچانے کے لئے تیار تھا۔ ان مسکراتے چہروں کو مَیں اپنی زندگی میں کبھی بھلا نہ پاؤں گی جو دوسرے مہمانوں کی خدمت میں خوشی محسوس کرتے۔ کہتی ہیں یہ حسین یادیں میری زندگی کا حصہ ہیں۔ میری خواہش ہے کہ یہ اقدار ہمارے ملک میں بھی قائم ہوں۔ اور جماعت احمدیہ ایک سیکھنے کی اکیڈمی ہے جس میں ہر ملک کے نوجوان بھی تعلیم حاصل کریں۔ کہتی ہیں اگر مَیں روحانی طور پر دیکھوں تو ہر طرف ایک بھائی چارے کا ماحول تھا جس سے روحانیت میں اضافہ ہوتا تھا۔ یہ ایسا ماحول تھا جس کا مَیں نے اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ تجربہ کیا اور شاید جو نئے آنے والے مہمان تھے انہوں نے پہلی دفعہ ایسا ماحول دیکھا ہو۔ کہتی ہیں کہ وہ اسلام جو احمدیت پیش کرتی ہے وہی دنیا کو امن دے سکتا ہے اور دنیا کے مسائل کا حل اسی میں ہے۔
پھر کہتی ہیں کہ امام جماعت احمدیہ کا عورتوں کو جو خطاب تھا اس نے سوچ پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ باقی مسلمان گروہوں کے نزدیک عورت کی حیثیت ایک غلام سے زیادہ نہیں ہے۔ لیکن امام جماعت احمدیہ نے عورتوں کے خطاب میں عورتوں کو معلّمہ قرار دیا ہے اور اس کے فرائض میں آنے والی نسلوں کی تربیت اور تعلیم کو شامل کیا ہے جو دنیا کا مستقبل ہے۔ یعنی دنیا کا مستقبل عورتوں کے ہاتھوں میں ہے اور دین کا مستقبل بھی عورتوں کے ہاتھوں میں ہے۔ کہتی ہیں بہت بڑا مقام ہے جو عورتوں کو دیا گیا ہے اور اسی سے ایک صحت مند اور پُر امن معاشرے کا قیام عمل میں آ سکتا ہے۔‘‘
پھر گوئٹے مالا کی نیشنل پارلیمنٹ کی ممبر الینا کیلس (Iliena Calles) نے اپنے تأثرات کا اظہار کیا کہ ’’جلسہ میں شمولیت ایک بہت ہی عجیب اور حیران کن تجربہ تھا۔ مذہب اسلام اور جماعت احمدیہ کے بارے میں میرے خیالات میں زبردست تبدیلی پیدا ہوئی ہے۔ میڈیا نے اسلام کے بارے میں بہت ہی غلط اور ہیبت ناک تصور پیدا کیا ہوا ہے کہ اسلام تشدد اور نفرت کی تعلیم دیتا ہے۔ لیکن ہمیں اس جلسہ میں اسلام کی حقیقی پُرامن تعلیم کی عملی تصویر دیکھنے کا موقع ملا اور جماعت احمدیہ کا جو ماٹو ہے کہ’محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں‘ یہی ایک راستہ ہے جس سے عالمی امن، باہمی محبت اور انصاف دنیا میں قائم ہو سکتا ہے۔ کہتی ہیں کہ ہزاروں مہمانوں کی خدمت جو کارکنان کر رہے تھے ایک عجیب نظارہ تھا۔ پھر عورتوں کی تقریر کا بھی اس نے ذکر کیا کہ کس طرح عورت کا مقام ہے اور کس طرح تقریر میں عورت کے، ماں کے پاؤں کے نیچے جنت کا ذکر ہوا۔ پھر کہتی ہیں کہ میں نے مردوں کی مارکی کی نسبت عورتوں کی جلسہ گاہ اور مارکی میں زیادہ آرام، سہولت اور آزادی محسوس کی۔ یہ اسلام کی خوبصورت اور حسین تعلیم کی بہترین مثال ہے کہ عورت کی عزت، اس کی حفاظت اور مکمل آزادی کی ضمانت دی جاتی ہے۔ کہتی ہیں کہ اب میں اسلام کی پر امن اور خوبصورت تعلیم کا تصور لے کر واپس جا رہی ہوں۔‘‘
اسی طرح کوسٹا ریکا کی نیشنل یونیورسٹی کے پروفیسر سریجیومایا (Sergio Moya) جلسہ میں شامل ہوئے۔ کہتے ہیں کہ’’میں نے اس جلسہ کے ذریعہ اسلام کی نئی تصویر دیکھی ہے۔ مسلمانوں کی ایک ایسی جماعت دیکھی جو باہمی محبت و الفت میں بے مثال ہے۔ جو اپنے ایمان کی عملی تصویر پیش کرتی ہے۔ مَیں واپس جا کر اپنے حلقہ احباب اور طلباء کو بتاؤں گا کہ جماعت احمدیہ اسلام کی حقیقی اور خوبصورت تعلیمات کو عملی طور پر پیش کرتی ہے اور جو حقیقتاً اپنے ماٹو پر عمل پیرا ہے۔‘‘ اور یہ آنے والے لوگ ہماری تبلیغ کا بھی ذریعہ بن جاتے ہیں۔ پھر کوسٹا ریکا کی ممبر پارلیمنٹ کے مشیر ڈگلس مونٹی روسو (Doglas Monteroso) صاحب کہتے ہیں کہ’’مَیں نے جلسہ سالانہ میں امام جماعت احمدیہ کے خطابات بڑے غور اور توجہ سے سنے۔ ان کی اس نصیحت نے مجھے بہت متأثر کیا کہ اپنے دشمنوں کو معاف کرنے اور ان کے لئے دعا کرنے سے دل کینہ اور بغض سے پاک ہو جاتا ہے‘‘ (اور یہ وہ تعلیم ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں دی۔) کہتے ہیں کہ ’’اور یہی چیز ہے جو دنیا میں امن کے قیام کا ذریعہ ہو سکتی ہے اور ان تقاریر سے مجھے روحانی اور عملی طورپر بہت فائدہ پہنچا ہے اور اسلام کی حقیقی تعلیمات اور ان کی عملی تصویر اس جلسہ میں دیکھنے کو ملی۔‘‘
ہیٹی (Haiti) کے صدر مملکت کے نمائندہ جوزف پیئرے (Joseph Pierre) کہتے ہیں کہ ’’جلسہ میں شامل ہونے سے پہلے میرے دل میں کئی تحفظات تھے کہ پتا نہیں کس قسم کے مسلمان ہیں اور وہاں جا کر میرا کیا بنے گا؟ لیکن جلسہ میں شامل ہونے کے بعد میرے ہر قسم کے شکوک و شبہات دور ہو گئے ہیں۔ ہر ایک سادگی اور بردباری کا مظاہرہ کر رہا تھا۔ ہر طرف بھائی چارے کی فضا تھی۔‘‘ پھر کہتے ہیں ’’میں کوئی مذہبی آدمی نہیں ہوں لیکن اس جلسہ میں شامل ہونے اور امام جماعت احمدیہ کے ساتھ ملنے کے بعد میرا دل کہہ رہا ہے کہ اگر کوئی سچا مذہب ہے تو وہ اسلام اور احمدیت ہے۔‘‘
پھر برکینا فاسو میں ایک انسانی حقوق کمیشن کے صدرزُوکُومَورے (Zoucomore) صاحب ہیں وہ بھی جلسہ میں شامل ہوئے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’جب مجھے جلسہ سالانہ میں شمولیت کی دعوت دی گئی تو مجھے بہت حیرت ہوئی کہ میں نہ تو جماعت کا ممبر ہوں نہ ہی مسلمان ہوں لیکن پھر بھی مجھے مسلمانوں کے ایک اجتماع میں دعوت دی جار ہی ہے۔ جلسہ میں شامل ہو کر میں نے دیکھا کہ جماعت تو بلا تمیز رنگ و نسل اپنی محبت کے بازو سب کے لئے پھیلائے ہوئے ہے اور ہر ایک سے پیار و محبت کا سلوک کرتی ہے۔ سب کو ایک ہی طرح کی عزت و احترام دیتی ہے اور سب کا خیال رکھتی ہے‘‘۔ کہتے ہیں کہ ’’میں نے بہت سے مذہبی رہنماؤں کی تقاریر سنی ہیں جب وہ بات کرتے ہیں تو اس طرح کہ گویا وہی حق پر ہیں اور وہ لوگوں کے جذبات سے کھیلتے ہیں۔ لیکن میں نے امام جماعت احمدیہ کی تقاریر غور سے سنیں اور ساری تقاریر کا مرکزی خیال یہی تھا کہ دنیا میں امن کا قیام ہو‘‘۔ کہتے ہیں ’’اور یہی تعلیم ہے جس کی وجہ سے دنیا میں امن قائم ہو سکتا ہے اور ہم دہشتگردی اور ناانصافی کو شکست دے سکتے ہیں۔‘‘
اسی طرح کروشین وفد میں ایک خاتون کیٹرینا سالک (Katrina Celjak) صاحبہ شامل تھیں۔ کہتی ہیں کہ’’مَیں پہلے چرچ میں نن(Nun) تھی۔ (اب حق کی تلاش میں ہیں۔) آگے کہتی ہیں ’’جلسہ کے ماحول نے اور یہاں پر لگائی گئی نمائشوں اور جماعت کے بارے میں دیگر معلومات نے میرے ذہن کو بہت جلا بخشی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ شاید جلد ہی اب تلاش حق کا سفر اپنی منزل کو پا لے گا۔‘‘ کہتی ہیں کہ ’’امام جماعت احمدیہ کے خطابات نے میرے ذہن پر بڑا گہرا اثر چھوڑا ہے۔ اب میں نے تمام امور کا بہت گہرائی سے جائزہ لینا شروع کر دیا ہے۔‘‘
کروشیا کے وفد میں انٹرنیشنل بزنس مینجمنٹ کے ایک طالب علم شامل تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ’’جلسہ کے انتظامات، محبت اور خلوص سے ہم بہت متأثر ہوئے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’جلسہ کے دوران چھوٹے بچے جس محبت اور اخلاص کے ساتھ پانی پلانے کی ڈیوٹی دے رہے تھے یا خراب موسم میں پارکنگ اور ٹریفک کو کنٹرول کیا جا رہا تھا اور صفائی کے معیار کو قائم رکھنے کے لئے جو کاوشیں کی جا رہی تھیں ان سب امور نے ان پر بہت گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔‘‘ اور کہتے ہیں کہ ’’وہ پہلی بار احمدیہ جلسہ میں شامل ہوئے ہیں لیکن اس کی یادگاریں وہ ساری عمر یاد رکھیں گے۔‘‘ (ان سے وہاں جماعت کو مستقل رابطہ رکھنا چاہئے)
گزشتہ سال کروشیا سے ایک جوڑا آیا تھا۔ بڑی عمر کے ہیں۔ مسلمان تھے وہ اور اس سال بھی شامل ہوئے اور پھر انہوں نے مجھے ملاقات میں کہا کہ ’’گزشتہ سال ہم ایک عام مسلمان کی حیثیت سے شامل ہوئے تھے اور اس سال ہم احمدی مسلمان کی حیثیت سے جلسہ میں شامل ہوئے ہیں۔‘‘ توجلسہ پہ اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہوتا ہے۔ بیعتیں بھی ہوتی ہیں۔ فلپائن سے وہاں کے کانگریس مَین سالوا دور بلارو جونیئر (Salvador Belaro Jr.) جلسہ میں شامل ہوئے۔ وہاں کی کانگریس میں اعلیٰ حیثیت رکھتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ’’میرے لئے ایک آنکھیں کھول دینے والا تجربہ تھا جس سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ میرے لئے سب سے زیادہ خوش کن چیز یہ تھی کہ جماعت کے افراد آپس میں انتہائی محبت اور خوش اخلاقی سے ملتے ہیں اور ایک دوسرے کی حتی الوسع مدد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘
پس یہ جو غیروں پہ ہماری جماعت کا اثر ہوتا ہے اس کو عام حالات میں بھی ہر ایک کو قائم رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ یہ ہر احمدی کی بہت بڑی ذمہ داری ہےکہ صرف چند دنوں کے لئے دکھاوا نہ ہو بلکہ ہمیشہ کے لئے یہ اثر قائم کرنے والا ہو۔ کہتے ہیں کہ’’اس تجربے نے میری اسلام کے بارے میں معلومات میں بہت اضافہ کیا اور مجھے اسلام کی ایک ایسی خوبصورت تعلیم سے متعارف کرایا جس کا مجھے پہلے علم نہیں تھا۔ مجھے اس جلسہ میں آ کر ہی پتا چلا کہ اسلام کے بارے میں جو باتیں میڈیا پر اور عام طور پر کہی جاتی ہیں ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘‘
پھر آئرلینڈ سے ایک مہمان ڈیرن ہالیٹ کووینٹری (Darren Howlett Coventry) جو کہ نیشنل ڈیورسٹی (Diversity) پولیس آفس کے سربراہ ہیں، کہتے ہیں کہ ’’یہ میرا پہلا جلسہ سالانہ تھا۔ جلسہ کے موقع پر مجھے جماعت احمدیہ کے اولوالعزم خدمت گزار اور نیک فطرت احباب کے ساتھ ملنے کا موقع ملا۔‘‘ (کارکنوں کی یہ خدمت دیکھ کے لوگ بڑے متاثر ہوتے ہیں۔) ’’جنہوں نے ’محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں‘کا صرف لفظی اظہار ہی نہیں کیا بلکہ ان تمام کارکنان اور شاملین کی بے لوث اور بے نفس اور رضاکارانہ خدمت کے ذریعہ سے اس کا برملا عملی اظہار ہوا۔ کہتے ہیں کہ مَیں آپ لوگوں کا ممنون ہوں کہ آپ نے مجھے یہ عظیم موقع عطا فرمایا اور مجھے اسلام کے بارے میں غور وخوض کرنے اور جلسہ سالانہ کے پروگراموں سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملا ہے۔‘‘ پھر کہتے ہیں ’’امام جماعت احمدیہ کے خطاب سے پہلے جو نظم پڑھی گئی تھی اس کا مجھ پر بہت گہرا اثر ہوا۔‘‘
پھر ہالینڈ سے ایک مہمان مسٹر آرنوڈ وان ڈورن (Arnoud van Doorn) نے لکھاکہ ’’جلسہ سالانہ کا ماحول بہت دوستانہ تھا۔ اس زبردست تقریب سے مَیں نے بہت کچھ سیکھا۔ اس پر میں نے لوگوں کے ساتھ یادگار ملاقاتیں کی ہیں۔ فضا میں ایک مثبت پیغام کی خوشبو تھی۔ نوجوانوں کی بھرپور شرکت اور بے لوث خدمت نے مجھے خاص طور پر متأثر کیا۔ نوجوانوں کا کام کرنا دیکھ کر مجھے ایک نئی امید پیدا ہوئی۔ میں نے بیشمار مسلم اور غیر مسلم تقاریب میں شرکت کی ہے لیکن نوجوانوں کی اس طرح بھر پور شرکت میرا پہلا تجربہ ہے۔‘‘
پھر یوکے (UK) کی کوئینز کونسل (Queen’s Council) کے ایک سینئر بیرسٹر مسٹر ڈیوڈ مارٹن (David Martin) کہتے ہیں ’’جو مَیں کہنے جا رہا ہوں وہ میرے الفاظ نہیں بلکہ میرے دل کی آواز ہے۔ میں نے آج تک ایسی تقریب میں شرکت نہیں کی۔ کیا ہی عمدہ لوگ اور خوبصورت جماعت ہے۔ میں اپنی والدہ کی طرف سے اصولی طور پر تو یہودی ہوں لیکن میں چرچ آف انگلینڈ بھی جاتا رہا ہوں۔ مَیں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جلسہ سالانہ جیسا منظر میں نے کبھی نہیں دیکھا۔‘‘ کہتے ہیں ’’آپ لوگ اسلام کی کیا ہی خوبصورت تصویر ہیں۔ مجھے حیرانگی ہے کہ بی بی سی والوں کی طرف سے اس جلسہ کے بارے میں ابھی تک کوئی ڈاکیومنٹری کیوں نہیں بنائی گئی۔ (سنا ہے اب بی بی سی والے بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔) تا کہ لوگوں کو جماعت احمدیہ اور اس کے نظریات و عقائد اور طرز زندگی کے بارے میں آگاہ کیا جائے۔‘‘
سیرالیون کے ایک مہمان عبدالکابہ کارگبو (Abdul Kabba Kargbo) صاحب اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہیں کہ ’’میں جلسہ سالانہ کے انتظامات دیکھ کر بے حد متأثر ہوا ہوں۔ اگر مَیں یہاں نہ آتا اور کوئی مجھے بتاتا کہ اس طرح سینتیس ہزار سے زیادہ لوگ ایک جگہ پر تین دن کے لئے جمع ہوئے اور کسی قسم کی کوئی بدمزگی نہیں ہوئی تو شاید مَیں یقین نہ کرتا۔ لیکن یہ سب کچھ خود اپنی آنکھوں سے دیکھ کر بہت حیران ہوا ہوں کہ مَیں نے کسی کو شکایت کرتے نہیں دیکھا اور سارے لوگ بہت عاجزی اور انکساری کے ساتھ خدمت کر رہے ہیں۔‘‘
پس ہمارے جو کارکنان ہیں، رضا کار ہیں ان سے غیر بڑے متأثر ہوتے ہیں اور ایک خاموش تبلیغ ہے جو ہر کارکن بچہ، بوڑھا، عورت مرد، جوان کر رہا ہوتا ہے۔
یہ غیروں کے چند تأثرات تھے۔
بعض مسلمان بھی شامل ہوئے جو اپنی حکومتوں کے لیڈر تھے۔ ان کی نمائندگی بھی کر رہے تھے۔ ان کے ایک دو تأثرات پیش کرتا ہوں۔ الحاج محمدو سلیم صاحب ہیں جو نیشنل اسمبلی گنی کناکری کے وائس پریذیڈنٹ ہیں۔ ڈپٹی سپیکر کہہ لیں۔ یہ کہتے ہیں کہ ’’جلسہ کے انتظامات اور ڈسپلن کو دیکھ کر یہ بہت متأثر ہوئے۔ باوجود ڈھونڈھنے کے کسی بھی شعبہ میں کوئی کمی نظر نہیں آئی۔ بڑے پیمانے پر انتظامات اور شاملین کی کثیر تعداد کے باوجود کسی قسم کی بدانتظامی نہیں تھی۔ کوئی لڑائی جھگڑا نہیں تھا‘‘۔ کہتے ہیں کہ ’’مجھے حج کرنے کا بھی موقع ملا ہے اور بہت سے اسلامی ممالک کے مذہبی پروگراموں میں شامل ہو چکا ہوں لیکن اتنے عمدہ اور قابل تعریف انتظامات مَیں نے کہیں نہیں دیکھے اور یہی اسلام کی حقیقی روح ہے جو ہمیں یہاں دیکھنے کو ملی‘‘۔ پھر کہتے ہیں کہ’’چھوٹے چھوٹے بچوں کی تربیت بھی غیر معمولی ہے۔ بچے پوچھتے ہیں کہ کسی چیز کی ضرورت ہے؟ پھر ہم جو چاہتے ہیں ہمیں مہیا کر دیتے ہیں اور مسکراتے چہروں کے ساتھ ملتے ہیں۔ صرف ایک بار نہیں بلکہ بار بار ہم سے پوچھتے ہیں۔ یہاں مختلف ممالک سے لوگ آئے تھے ہر ایک دوسرے کے ساتھ ایسے مل رہا تھا جیسے آپس میں بھائی اور ایک دوسرے کے عزیز ہیں۔ آپ لوگ اپنے کام میں سب سے آگے ہیں اور آپ ہی صحیح راستے پر ہیں۔ کہتے ہیں مجھے یقین ہے کہ آپ لوگوں کے پیچھے خدا تعالیٰ کا ہاتھ ہے۔‘‘ (لیکن بعض لوگ اس لئے شامل نہیں ہوتے کہ کچھ دنیاوی وجوہات ان کو مانع ہو جاتی ہیں)۔ کہتے ہیں کہ’’ہم انشاء اللہ اپنے ملک واپس جا کر حکومت کو اس طرف ضرور توجہ دلائیں گے کہ وہ جماعت کی ہر معاملے میں مدد کرے تا کہ آپ کی جماعت ہمارے ملک میں بھی صحیح اسلامی تعلیمات کی طرف ہماری رہنمائی کر سکے۔‘‘
پھر گنی کناکری کے حسن کِیٹا صاحب ہیں جو پولیس کے نیشنل ڈائریکٹر ہیں۔ کہتے ہیں ’’میرا شعبہ پولیس سے وابستہ ہے۔ اس لئے میں نے سیکیورٹی کے حوالے سے خاص جائزہ لیا۔ سیکیورٹی کا زبردست نظام تھا جس میں مجھے کوئی سقم نظر نہیں آیا‘‘ اور کہتے ہیں کہ’’امام جماعت احمدیہ کی تقاریر سننے کے بعدمجھے اپنے مسلمان ہونے پر فخر محسوس ہونے لگا ہے۔‘‘
پھر سیرالیون کے ایک ممبر آف پارلیمنٹ علی کلاکو (Alie Kaloko) صاحب کہتے ہیں کہ ’’احمدیت ہی اسلام کی حقیقی تصویر ہے۔ احمدی مسلمان امن کے فروغ کے لئے جو کوششیں کر رہے ہیں وہ قابل قدر ہیں۔ آجکل اسلام کا نام ہر طرف دہشت گردی کے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے لیکن احمدی اس تأثر کو غلط ثابت کر رہے ہیں۔ جلسہ کے انتظامات بہت عمدہ تھے۔ چھوٹے چھوٹے بچے بھی لوگوں کی خدمت پر مامور تھے یہ نظارہ روح پرور تھا اور میرے خیال میں جماعت احمدیہ کی سچائی ثابت کرنے کے لئے یہ نظارہ ہی کافی ہے۔‘‘
پھر ترکمانستان کے ایک دوست عبدالرشید صاحب جلسہ میں شامل ہوئے۔ کہتے ہیں کہ’’مَیں نے تقریباً دو سال پہلے اپنے ایک دوست سے اس جماعت کے بارے میں سنا تھا جس کا نعرہ’محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں‘ ہے‘‘ کہتے ہیں ’’مَیں جس دن سے لندن آیا ہوں پیار اور محبت سے گھرا ہوا ہوں جیسا کہ اپنے حقیقی والدین اور اہل خانہ کے درمیان ہوں۔ جن باتوں نے مجھے بہت متأثر کیا اور میرے دل پر گہرا اثر چھوڑا ہے ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ جس دن ہم لوگ ترکمانستان سے لندن پہنچے تو ہمیں ایئر پورٹ سے ہوٹل لے جایا گیا۔ جب ہم وہاں پہنچے تو ڈیوٹی پر موجود احمدی لڑکوں نے سلام کرنے کے بعد فوری یہ کہا کہ آپ لوگ سفر کر کے آئے ہیں آپ کو بھوک لگی ہو گی اس لئے آپ پہلے کھانا کھا لیں پھر آرام کریں۔ یہ بات سن کر مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث یاد آ گئی جب ایک دفعہ ایک مجلس میں ایک مہمان آیا تو آپ نےاس کے بارے میں ایک صحابی کو کہا تھا کہ اسے کون لے کر جائے گا۔ پھر انہوں نے مہمان نوازی کے بارے میں وہ پوری لمبی حدیث سنائی تھی۔ تو بہرحال پھر وہ کہتے ہیں کہ جلسہ میں شامل ہو کر مجھے یہ بات سمجھ آگئی ہے کہ میں نے اپنی تمام زندگی اللہ تعالیٰ کی تلاش میں گزاری لیکن اللہ تعالیٰ کو صرف یہاں آ کر ہی پایا ہے۔ مجھے اللہ تعالیٰ کے فضل سے عالمی بیعت کی عظیم الشان تقریب میں شامل ہو کر بیعت کرنے کی توفیق ملی۔ (یہاں آئے تھے اور بیعت بھی کر لی۔) جس وقت مجھ سے باتیں کر رہے تھے بڑے جذباتی ہو رہے تھے۔ کہتے ہیں جس وقت میں بیعت کر رہا تھا اور میری آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور یہ وہ آنسو ہیں جو میرے والد کی وفات پر بھی نہ نکل سکے۔ یہ آنسو بظاہر لگتا تھا کہ شاید بغیر کسی وجہ کے ہیں لیکن بعد میں مجھے سمجھ آئی کہ زمین پر اب ایک ایسی امید پیدا ہو گئی ہے اور لاکھوں لوگوں کی ایک ایسی جماعت پیدا ہو گئی ہے جو اپنی ذات میں بے نظیر ہے اور یہ جماعت اپنے عمل سے ہر ایک مشکل اور آفت کو دنیا سے دُور اور پاک کرنے کے لئے ہر قربانی دینے کے لئے تیار ہے۔
پھر بعض نومبائعین جب محبت، پیار اور بھائی چارے کے نظارے دیکھتے ہیں تو ان کے ایمان میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔
جمیکا (Jamaica) سے شامل ہونے والی ایک نو مبائع خاتون ونسن ولیمس (Winson Williams) صاحبہ کہتی ہیں کہ ’’جلسہ سالانہ میں خلیفۃ المسیح کی تقاریر اور بالخصوص عالمی بیعت ایک بہت جذباتی تجربہ تھا۔‘‘ کہتی ہیں ’’جب مجھے پتا چلا کہ یہاں پر بہت سارے کارکنان رضاکارانہ طور پر خدمت کرتے ہیں تو مجھے خیال آیا کہ ان کارکنان کی تربیت کے لئے جماعت کو بہت سی مشکلیں درپیش ہوں گی۔ لیکن جب میں نے ان کارکنان کو بے لوث خدمت کرتے دیکھا تو مجھے احساس ہوا کہ یہ ایک الٰہی جماعت ہے اور خلیفۂ وقت کو براہ راست اللہ تعالیٰ سے تائید و نصرت حاصل ہے۔‘‘ کہتی ہیں ’’بالخصوص کار پارک میں خدمت کرنے والے خدام کو موسم کی خرابی کے باوجود دلجوئی سے اپنے فرائض سرانجام دیتے دیکھ کر ورطۂ حیرت میں پڑ گئی اور یہ نظارہ مَیں نے اپنی ساری زندگی میں پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔
آئیوری کوسٹ سے ایک شہر کے میئر زراکیہ دوپے زوجے (Zrakpa Dopeu) صاحب آئے۔ کہتے ہیں ’’مَیں نے جب اسلام احمدیت قبول کیا تو لوگوں سے بہت منفی باتیں سننے کو ملیں۔ مجھے اسلام کا بہت زیادہ علم تو نہیں تھا۔ اس لئے میں بہت پریشان ہوا کہ میں کس طرح جج (Judge) کر سکتا ہوں کہ احمدی مسلمان ہیں یا نہیں۔ بہرحال کہتے ہیں مجھے خیال آتا کہ میں نے کہیں جماعت میں شامل ہو کر کوئی گناہ تو نہیں کر لیا۔ چنانچہ جب میں نے جماعت کے ساتھ رابطہ کیا تو انہوں نے مجھے جلسہ سالانہ میں شمولیت کی دعوت دی کہ وہاں پر جا کے جماعت کوقریب سے دیکھ لیں۔‘‘ کہتے ہیں ’’جب مَیں یہاں آیا تو میں نے اسلام کی اصل تصویر دیکھی۔ خلیفۂ وقت کی ہر تقریر اللہ اور اس کے رسول کے نام سے شروع ہوتی اور اللہ اور اس کے رسول کے نام پر ہی ختم ہوتی۔ پھر جلسہ سالانہ کا ماحول دیکھ کر مجھے میرے سوالوں کا جواب مل گیا کہ احمدی مسلمان ہیں یا نہیں۔ اب مَیں فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ جو کام مجھ سے ہوا وہ بالکل ٹھیک تھا۔ احمدی ہی حقیقی مسلمان ہیں اور مَیں اس بات پر مطمئن ہوں۔ احمدیوں کے تمام کام قرآن اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکموں کے مطابق ہیں۔‘‘
بیلیز (Belize)کے دارالحکومت بیلموپان (Belmopan)کے میئر خالد بلائل (Khalid Belisle) صاحب بھی ’’جلسہ میں شامل ہوئے۔ کہتے ہیں جلسہ میں شمولیت بہت ہی عمدہ تجربہ تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ جماعت کا ہر ایک شخص میری ہی خدمت میں لگا ہوا ہے۔ اس تجربے سے میرے دل میں اسلام کو سیکھنے کے لئے بہت دلچسپی پیدا ہوئی۔ یہاں سے مَیں اخوّت اور بھائی چارے کا سبق اپنے ملک واپس لے کر جا رہا ہوں۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جو مجھے بار بار مختلف مقام پر نظر آتی ہے۔ کاش میں اس کو اپنی بوتل میں بند کر کے اپنے ساتھ بیلیز (Belize) لے جا سکتا تا کہ اپنے ہم وطنوں کے ساتھ بانٹتا۔‘‘ پھر کہتے ہیں کہ’’جلسہ کے انتظامات بہت ہی اعلیٰ پیمانے کے تھے۔ جس طرح مجھے یہاں ویلکم (Welcome) کیا گیا ہے اسے ہمیشہ یاد رکھوں گا۔ مَیں آپ لوگوں کا ہمیشہ ممنون رہوں گا کہ آپ نے مجھے یہاں آنے کی دعوت دی۔‘‘ پھر کہنے لگا کہ ’’ایک دن مَیں مہمانوں کی مارکی میں اکیلا تھا تو چند خدام میرے پاس آ گئے۔ مجھے معلوم تھا کہ لوگ صرف اس لئے میرے پاس آئے ہیں کہ مَیں باہر سے آیا ہوں اور شایدمیں اکیلا محسوس کر رہا ہوں گا۔ اس بات نے میرے دل پر بہت گہرا اثر کیا کہ یہاں نوجوانوں کو اس بات کا بھی احساس ہے کہ ہم نے اپنے مہمانوں کے ساتھ کیسے پیش آنا ہے۔‘‘
پھر عالمی بیعت کا بھی غیروں پہ اثر پڑتا ہے۔ ایک تو میں نے پہلے بیان کیا۔ ایک اور واقعہ ہے۔ کروشین پارلیمنٹ کے ممبر اسمبلی جلسہ میں شامل ہوئے ان کا نام اوچ کوئک ڈومانگو (Mr. Hajdukovic Domangoj) ہے۔ عالمی بیعت کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ’’عالمی بیعت کی تقریب نے مجھے بہت ہی متاثر کیا۔ میں عیسائی مذہب کی faith reconfirmation کی تقریب میں متعدد مرتبہ شامل ہوا ہوں لیکن جو جذبات خلوص اور مذہب سے وفاداری کا عزم جماعت احمدیہ کی عالمی بیعت میں دیکھا ہے وہ ایک عجیب و غریب اور حیرت انگیز تجربہ تھا جس کو مَیں ساری عمر یاد رکھوں گا۔‘‘
پھر ایک مصری ڈاکٹر ہانی رشوان صاحب ہیں۔ کہتے ہیں کہ’’وہ عالمی بیعت کے وقت جلسہ گاہ میں داخل ہوئے اور لوگوں کی قطاریں جو جلسہ گاہ سے باہر دور دور تک پھیلی ہوئی تھیں دیکھ کر بہت متأثر اور حیران ہوئے۔‘‘ کہتے ہیں ’’ہمارے ملک مصر میں اس طرح کا نظم و ضبط ناممکن ہے۔ ان کے جذبات اس قدر بھر گئے کہ وہ بیعت کے وقت ایک قطار میں شامل ہو گئے اور استغفار اور عربی کلمات جو تھے وہ دہرانے لگے۔‘‘(لیکن انہوں نے دہرائے تھے اس کا مطلب یہ نہیں کہ انہوں نے بیعت کر لی۔ ان کی صرف ایک جذباتی حالت تھی جو اس وقت طاری ہوئی) لیکن انہوں نے یہ کہا کہ ’’بہرحال اب اس طرف غور کریں گے۔‘‘
پریس کی بھی توجہ پیدا ہوئی ہے۔ جلسہ کے ماحول سے متأثر ہو کر پریس بھی اب اسلام کے بارے میں بہت ساری صحیح خبریں دینے پر مجبور ہیں۔ فرانسیسی اخبار لبریشن کی جرنلسٹ سونیا ڈیلے سالے(Sonia Delesalle) ہیں وہ اپنے تأثرات بیان کرتی ہوئی کہتی ہیں ’’جب میں یہاں پہنچی تو پہلے مجھے پریشانی ہوئی کہ یہاں پر عورتوں اور مردوں کو علیحدہ علیحدہ رکھا گیا ہے۔ لیکن پھر جب میں نے جلسہ گاہ کا وزٹ کیا تو دیکھا کہ عورتوں کے بجائے مرد کھانا بنا رہے ہیں۔ پھر عورتوں والے حصہ میں وقت گزارا تو مجھے پتا چلا کہ عورتوں کے علیحدہ انتظام کی وجہ سے عورتیں زیادہ آزاد تھیں اور سب سے بڑھ کر عورتوں کو مکمل خود مختاری حاصل تھی اور وہ ہر کام اپنی مرضی سے کر رہی تھیں۔‘‘(پس یہاں رہنے والی ہماری جو بعض بچیاں پڑھائی کے نام پر اور آزادی کے نام پر سمجھتی ہیں کہ ہم پر ظلم ہو رہا ہے ان کو یہ سوچنا چاہئے کہ غیروں کو بھی ہمارا ماحول ہی پسند آتا ہے۔ پھر بولیویا (Bolivia) کے نیشنل نیوز چینل کے ایک جرنلسٹ نے اپنے تأثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ مغرب کے نزدیک اسلام عورتوں کو پیچھے رکھتا ہے اور ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے لیکن میں نے یہاں دیکھا کہ امام جماعت احمدیہ تو اعلیٰ کامیابیاں حاصل کرنے والی خواتین کو انعامات دے رہے ہیں اور ہر ایک عورت کو انفرادی حیثیت سے پکارا جا رہا ہے تو میرے دل میں شدید خواہش پیدا ہوئی کہ میں واپس جا کر اپنے اخبار میں اس حوالے سے ضرور لکھوں گا۔ کیا دنیا میں کبھی کسی رہنما نے صرف عورتوں کو مخاطب کر کے خطاب کیا ہے؟ کبھی نہیں۔‘‘
پھر ایک صحافی خاتون عالمی بیعت کے موقع پر بیعت کے الفاظ ساتھ ساتھ دہرانے لگ گئیں۔ پوچھنے پر کہنے لگیں کہ ’’مجھے نہیں پتا کہ اس وقت مجھے کیا ہو گیا تھا لیکن میری زندگی میں اس قسم کے احساس اور جذبات پہلے کبھی نہیں آئے اور میں بے اختیار یہ الفاظ دہراتی چلی گئی۔ پہلے مَیں سمجھتی تھی کہ اس قسم کی تقریبات میں جذبات کو ابھارنے کے لئے میوزک کا ہونا بھی ضروری ہے‘‘۔ کہتی ہیں ’’میوزک کے بغیر تو جذبات ابھر ہی نہیں سکتے لیکن اب مجھے پتا چلا کہ عالمی بیعت کے دوران یہ جذبات تو احمدیوں کے دل سے براہ راست نکل رہے تھے اور کسی قسم کے میوزک کی یہاں ضرورت نہیں تھی۔‘‘
بولیویا سے ایک صحافی کارلوس جمی اَوریاس (Carlos Jamie Orias) صاحب ہیں۔ کہتے ہیں ’’جس بات نے مجھے جماعت احمدیہ کے بارے میں سب سے زیادہ متأثر کیا وہ جماعت احمدیہ کا امن کے قیام کے لئے جوش اور اس کے لئے کوششیں ہیں۔ یہ ایک ایسا پیغام ہے جو آج کے دَور میں بہت زیادہ اہم اور ضروری ہے۔ اسی طرح جماعت احمدیہ کی مختلف اقوام اور مختلف تہذیبوں کے افراد کو مذہب اسلام کی اصل بنیادوں پر جمع کرنے کی خواہش بھی قابل تحسین ہے‘‘۔ پھر یہ کہتے ہیں ’’یہ امر بھی میرے لئے خاص تعجب کا حامل تھا کہ اتنا وسیع اور عریض انتظام محض رضاکاروں کی مدد سے کیا جاتا ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ کوئی کام بھی خواہ کتنا مشکل کیوں نہ ہو وہ ایمان، خلوص اور بے غرض محنت سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔‘‘ پھر کہتے ہیں کہ’’امام جماعت احمدیہ نے مرد اور عورت کے حقوق و فرائض کے بارے میں تقریر کی اس سے میرے بہت سے شبہات دور ہوئے۔ اس خطاب سے مرد و عورت کے بارے میں اسلامی تعلیم کی حکمت مجھ پر مزید واضح ہوئی۔‘‘ پھر کہتے ہیں ’’احمدی خواتین کی اعلیٰ کامیابیاں بھی ایک خوش کُن امر تھا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مرد اور عورت دونوں کے لئے لازم ہے کہ وہ دنیا کے امن کے لئے کوشش کریں۔ پہلے خاندان کی سطح پر، پھر کمیونٹی کی سطح پر، پھر ملک اور تمام دنیا کی سطح پر۔‘‘ اور پھر کہتے ہیں ’’اختتامی خطاب جو تھا وہ جس طرح جماعت احمدیہ کے لئے ضروری ہے اسی طرح باقی دنیا اور باقی اقوام کے لئے ضروری ہے۔‘‘
بہرحال جلسہ کے ماحول اور ڈیوٹی دینے والوں کا ایک اثر ہے جو ہر انصاف پسند کو متاثر کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تمام ڈیوٹی دینے والوں کو اور شامل ہونے والوں کو بھی جزا دے جو اسلام کی اس خاموش عملی تبلیغ کا حصہ بنتے ہیں۔ ہمیں خاص طور پر ان ہزاروں کارکنان کو اور کارکنات کو، لڑکوں اور لڑکیوں، مردوں اور عورتوں کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھنا چاہئے۔ اس دفعہ بارش کی وجہ سے بعض انتظامات میں کمی بھی ہوئی یا ویسے بھی کمی ہو جاتی ہے لیکن اس کے باوجود کارکنوں نے بڑی حکمت سے اور محنت سے اس کمی کو زیادہ محسوس نہیں ہونے دیا۔ پانی کی سپلائی بھی بعض وقت میں رک گئی لیکن عمومی طور پر انتظام بہتر رہا۔ جلسہ میں شامل ہونے والے اکثر احمدیوں نے جو اپنے تأثرات مجھے لکھے ہیں وہ تو اچھے ہی ہیں۔ لیکن بعض کے منفی تأثرات بھی ہیں۔ بہرحال جیسا کہ مَیں نے کہا اتنے بڑے عارضی انتظام میں تھوڑی بہت کمیاں رہ جاتی ہیں۔ لیکن تمام کام کرنے والے رضا کار لڑکے لڑکیاں، بچے بہرحال ہمارے شکریہ کے مستحق ہیں اور انتظامیہ کو بھی میں کہوں گا کہ بعض لوگوں کی طرف سے آئی ہوئی جو شکایتیں ہیں یا توجہ طلب باتیں ہیں وہ میں ان کو بھجوا رہا ہوں انہیں اپنی’لال کتاب‘ میں نوٹ کریں اور آئندہ مزید بہتری پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ اسی طرح پریس نے بھی بڑی اچھی کوریج دی ہے۔ میڈیا کے ذریعہ سے جلسہ سالانہ کے حوالے سے 358 خبریں نشر ہوئی ہیں اور ان میں اب مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ آن لائن میڈیا کے ذریعہ چھتیس ملین افراد تک پیغام پہنچا۔ ٹی وی اور ریڈیو پر نشر ہونے والی خبروں کے ذریعہ اکتیس ملین سے زائد اور پرنٹ میڈیا کے ذریعہ دو ملین لوگوں تک پیغام پہنچا۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا کے ذریعہ اٹھاون ملین افراد تک پیغام پہنچا۔ ایم ٹی اے کی جو لائیو سٹریمنگ (Live Streaming) تھی اس کے ذریعہ آخری دن جو میری تقریر تھی وہی لائیو سٹریمنگ پہ تقریباً اڑھائی لاکھ لوگوں نے سنی۔ اس طرح ایک محتاط اندازے کے مطابق تمام ذرائع سے ایک سو اٹھائیس ملین سے زائد لوگوں تک پیغام پہنچا ہے۔
جن مشہور میڈیا آؤٹ لیٹس (Outlets) نے جلسہ کے حوالے سے کوریج کی ہے ان میں بی بی سی ٹی وی، بی بی سی ریڈیو، آئی ٹی وی، انڈیپنڈنٹ اخبار ہے، دی ٹائمز اخبار ہے، سنڈے ایکسپریس ہے۔ لندن اِیوننگ سٹینڈرڈ ہے، نیو یارک ٹائمز ہے اور فیس بک لائیو ہے۔ پھر ایسوسی ایٹڈ پریس اور پریس ایسوسی ایشن، سپینش نیوز ایجنسی ای ایف ای، انڈین نیوز ایجنسی پی ٹی آئی، فرنچ نیوز لبریشن اور یونی لیڈ (UniLad) ہیں۔ بہرحال پریس کے ذریعہ سے اتنے وسیع پیمانے پر جماعت احمدیہ کا جو یہ سارا پیغام اور اسلام کا حقیقی پیغام پہنچا اس بات پر بھی ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونا چاہئے۔
افریقہ میں بھی جلسہ سالانہ کی کوریج ہوئی۔ افریقہ میں ایم ٹی اے افریقہ کے علاوہ دس چینلز پر جلسہ سالانہ کی نشریات دکھائی گئیں جن پر مختلف ممالک میں ایک سو پچاس سے زائد گھنٹوں پر مشتمل کوریج کی گئی۔ ان چینلز کے ذریعہ سے بھی تقریباً ساٹھ ملین سے زائد افراد تک جلسہ سالانہ کی کارروائی پہنچی۔ ان دس چینلز نے عالمی بیعت اور میرے تمام خطابات جو تھے، تقریریں تھیں ان کوبراہ راست نشر کیا۔ سیرالیون نیشنل ٹی وی نے مسلسل سو گھنٹوں پر مشتمل تینوں دن جلسہ سالانہ کی کارروائی نشر کی جبکہ بو (Bo) اور کینیما (Kenema) ٹی وی نے جلسہ سالانہ کی کارروائی مکمل طور پر نشر کرنے کے لئے اپنی ملکی نشریات بند کر دیں۔ اسی طرح سارے ملک میں تین دن جلسہ کی کارروائی دیکھی اور سنی گئی۔ گیمبیا میں پہلی دفعہ نیشنل ٹیلی ویژن نے جلسہ کی سالانہ تقاریر اور دیگر پروگراموں کو دکھایا۔
جلسہ سالانہ کی براہ راست نشریات کے علاوہ بی بی سی یوگنڈا نے جلسہ سالانہ کی سواحیلی زبان میں خبر نشر کی اور یہ بھی اس علاقے میں کافی دیکھا جاتا ہے۔ تقریباً بیس ملین لوگ دیکھتے ہیں۔ غانا نیشنل ٹیلیویژن اور ریڈیو اور نیوز سٹوریز کے ذریعہ تقریباً پانچ ملین افراد تک خبر پہنچی۔ اخباروں کے ذریعہ سے تمام افریقن میڈیا کو ملا کر جلسہ سالانہ یوکے (UK) کی خبریں تقریباً پینتیس ملین افراد تک پہنچیں۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔ ہماری کوششیں اس میں بہت معمولی ہوتی ہیں اور اس لحاظ سے جو بھی معمولی کوششیں ہیں اس کے لئے ہمارا پریس اور میڈیا سیکشن جو ہے اس کا بھی مَیں شکریہ ادا کروں گا اور دوسرے ملکوں میں جو پریس اور میڈیا سیکشن ہیں انہوں نے بھی کام کیا ہے اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے۔ بہت وسیع پیمانے پر یہ خبریں پھر تبلیغ کا موجب بنتی ہیں۔ جماعت کا تعارف ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو ہمیشہ ادا کرنے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے کے لئے ہمیشہ دین کو دنیا پر مقدم رکھتے ہوئے اپنے فرائض ادا کرنے والے ہوں۔ اسی طرح ایک چیز رہ گئی تھی وہ بھی مَیں بیان کر دوں۔ اس سال بھی گزشتہ سال کی طرح کینیڈا سے ساڑھے تین سو کے قریب خدام آئے تھے جنہوں نے وقار عمل کر کے وائنڈاَپ (Wind up) میں حصہ لیا اور اس دفعہ یہ جہاز چارٹر کرا کے آئے تھے۔ انہوں نے بڑا اچھا کام کیا۔ چار پانچ دن سے کام کر رہے تھے۔ جلسہ کے اختتام سے لے کے کل تک کرتے رہے ہیں۔ اور اللہ کے فضل سے کافی کام سمیٹا گیا ہے۔ جو تھوڑا بہت رہ گیا ہے وہ آج سے پھر یوکے(UK) کے خدام کر رہے ہیں بلکہ کل سے ہی وہ شروع ہو گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے۔ کینیڈا کے جو خدام ہیں وہ جلسہ سے پہلے آ گئے تھے۔ مجھے امید ہے کہ انہوں نے جلسہ سنا ہو گا اور اگر نہیں سنا تو بڑا غلط کیا ہے۔ اس لئے آئندہ اگر آنا ہے تو جلسہ کے تین دنوں میں جلسہ سنیں اور پھر اپنے وائنڈ اپ کے پروگرام میں حصہ لیں۔ اللہ تعالیٰ سب کام کرنے والوں کو کارکنان، کارکنات کو جزاد ے اور ہمیں بھی اس جلسہ میں جو ہمیں سیکھنے کا موقع ملا ہے اس کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔
نمازوں کے بعد مَیں کچھ جنازے غائب پڑھاؤں گا۔
ایک جنازہ مکرمہ صاحبزادی ذکیہ بیگم صاحبہ کا ہے جو کرنل مرزا داؤد احمد صاحب کی اہلیہ اور حضرت نواب امۃ الحفیظ بیگم صاحبہ اور نواب عبداللہ خانصاحب کی بیٹی تھیں۔ یہ 23؍جولائی کی رات کو طاہر ہارٹ انسٹی ٹیوٹ میں 94 سال کی عمر میں وفات پا گئیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
مکرم صاحبزادہ کرنل مرزا داؤد احمد صاحب جن کی یہ اہلیہ تھیں حضرت مرزا شریف احمد صاحب کے بیٹے تھے۔ اس طرح یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نواسی بھی تھیں اور آپ کے پوتے کی اہلیہ بھی۔ گزشتہ تین چار سال سے کافی بیمار تھیں بلکہ اب گزشتہ چند ماہ سے ہسپتال میں داخل تھیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصیہ تھیں۔ بڑی پرانی ان کی وصیت تھی۔ ان کی اولاد پانچ بیٹیاں تھیں۔ امۃ الشافی صاحبہ، مکرم محمود احمد خان صاحب کی اہلیہ۔ یہ بھی حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے پوتے تھے۔ اسی طرح امۃ الناصر، ان کے میاں سید شاہد احمد تھے۔ امۃ المصور یہ ڈاکٹر نوری کی اہلیہ ہیں۔ اور امۃ المعز ہیں یہ امریکہ میں منظور الرحمان ہیں ان کی اہلیہ ہیں۔ اور امۃ النصیر نگہت راجہ عبدالمالک صاحب کی اہلیہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے بچوں کو بھی نیکی اور تقویٰ میں بڑھنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے آبا ؤاجداد کی نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
محترمہ ذکیہ بیگم صاحبہ کراچی میں محمد علی سوسائٹی کی صدر لجنہ کے طور پر بھی خدمت کی توفیق پاتی رہیں۔ کوہاٹ میں قیام کے دوران بھی لجنہ کے کاموں میں حصہ لینے کی توفیق ملی۔ نواب امۃ الحفیظ بیگم صاحبہ نے اپنے بچوں کے بارے میں جو ایک مضمون لکھا اس میں ان کی بہت تعریف کی کہ نواب عبداللہ خانصاحب فوت ہو گئے تو خاص طور پر انہوں نے اپنی والدہ کی غیر معمولی خدمت کی۔ انہوں نے اس کا بڑا ذکر کیا ہے۔ ڈاکٹر نوری صاحب بھی لکھتے ہیں کہ مہمان نوازی کی صفت میں بڑی نمایاں تھیں اور بلاامتیاز ہر ایک کی مہمان نوازی کرتی تھیں اور خوش آمدید کہتی تھیں۔ اسی طرح ڈاکٹر نوری صاحب کہتے ہیں کہ جب مَیں نے ریٹائرمنٹ کے بعد وقف کیا تو انہوں نے مجھے کہا کہ میری خواہش تھی کہ کوئی بیٹا ہوتا تو وقف کرتی اور تمہارے وقف سے میری یہ خواہش بھی پوری ہو گئی۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔
دوسرا جنازہ مکرم طارق مسعود صاحب مربی سلسلہ کا ہے۔ یہ مکرم مسعود احمد طاہر صاحب کے بیٹے اور نظارت اصلاح و ارشاد مرکزیہ میں مربی تھے۔ 24؍ جولائی کو ستائیس سال کی عمر میں ربوہ میں بجلی کا کرنٹ لگنے سے وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ان کے خاندان میں احمدیت ان کے پڑدادا مکرم مہر بخش صاحب کے ذریعہ آئی تھی۔ راجوری کشمیر سے تعلق رکھتے تھے۔ مہر بخش صاحب 1920ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے ہاتھ پر بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہوئے تھے۔ طارق مسعود صاحب نے تعلیم الاسلام ہائی سکول سے 2007ء میں میٹرک پاس کرنے کے بعد جامعہ میں تعلیم حاصل کی۔ اور 2016ء میں ایف۔ اے کا امتحان بھی دیا۔ 2014ء میں جامعہ پاس کیا۔ نوجوان مربی تھے لیکن نہایت مخلص، شریف الطبع، والدین کا خیال رکھنے والے، دوستوں کا خیال رکھنے والےاور غریب پرور۔ بہت سے غریبوں نے بعد میں بتایا کہ اپنے معمولی الاؤنس سے بھی ان کی مدد کیا کرتے تھے۔ ایک دن کے بعد ان کی شادی ہونے والی تھی لیکن اس سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلا لیا۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے۔ مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ مرحوم موصی تھے۔ ان کے پسماندگان میں ان کے والدین کے علاوہ تین بھائی مکرم اشفاق احمد ظفر صاحب، سرفراز احمد جاوید صاحب، عطاء الرحیم صاحب اور ایک ہمشیرہ فوزیہ مسعود صاحبہ ہیں۔ ان کی والدہ لکھتی ہیں کہ چندوں میں بڑھ چڑھ کر نہ صرف حصہ لیتے بلکہ ہمیں بھی تلقین کرتے کہ چندوں میں حصہ لیا کریں۔ ان کے والد بیان کرتے ہیں کہ خلافت سے بے انتہا محبت رکھنے والا تھا۔ بہت ہی نیک انسان تھا۔ نماز باجماعت کی ہمیشہ سے عادت رہی۔ مربی بننے سے پہلے بھی اہل خانہ کو نمازوں کی تلقین کرتے رہتے تھے۔ کہتے ہیں فجر کی نماز کے بعد آ کر باقاعدگی سے قرآن کریم کی تلاوت کیا کرتے تھے اور انہیں دیکھ کر ہمیں بھی اپنی کمزوریوں پر شرمندگی ہوتی تھی۔ اور بہت محبت سے پیش آنے والا، بہت فرمانبردار بیٹا تھا۔ گھر والوں سے، ماں باپ سے کبھی اختلاف نہیں کیا اور اگر اختلاف ہو بھی تو بڑے تحمّل سے سمجھایا کرتا تھا۔ خلافت کی خاطر بڑی غیرت رکھنے والا تھا۔ کہیں بھی اگر کوئی ایسی بات کرتا جو نظام جماعت یا خلافت کے منصب کے خلاف ہوتی تو فوری طور پر ان کو روکتا اور اگر وہ نہ رکتے تو پھر اس مجلس سے اٹھ کے چلا جاتا۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کے والدین کو بھی صبر اور حوصلہ عطا فرمائے۔
تیسرا جنازہ مکرم شکیل احمد منیر صاحب کا ہے جو آسٹریلیا کے سابق مشنری انچارج تھے اور اس وقت کراچی میں تھے۔ 31؍جولائی کو پچاسی سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ان کو قرآن کریم کا ماؤری(Maori) زبان میں ترجمہ کرنے کی توفیق بھی ملی۔ صوبہ بہار کے مونگھیر انڈیا کے رہنے والے تھے۔ آپ کے والد صاحب حکیم خلیل احمد صاحب بہار کے ابتدائی احمدیوں میں سے تھے جنہوں نے 1906ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کی تھی لیکن دستی بیعت نہیں کر سکے۔ اور ان کے والد صاحب کو بھی ناظر تعلیم قادیان کے طور پر دس سال خدمت کی توفیق ملی۔ مکرم شکیل منیر صاحب نے ابتدائی تعلیم تعلیم الاسلام کالج قادیان اور لاہور سے حاصل کی۔ پھر ڈھاکہ سے ایم ایس سی فزکس کی ڈگری حاصل کی۔ پھر تعلیم کے شعبہ سے منسلک ہو گئے۔ ملازمت کا لمبا عرصہ مغربی افریقہ کے ممالک میں گزارا۔ اس دوران خدمت دین بھی بجا لاتے رہے۔ نائیجیریا کی فیڈرل منسٹری آف ایجوکیشن میں چیف ایجوکیشن آفیسر کے طور پر بھی کام کیا۔ احمدیہ مشن واری (Warri) نائیجیریا کی مشرقی ریاستوں کے آٹھ سال تک ریجنل صدر رہے اور انہوں نے اور ان کی اہلیہ نے نصرت جہاں اکیڈمی وا (Wa) کا آغاز کیا جو کہ نصرت جہاں سکیم کے تحت بننے والا، جاری ہونے والا پہلا سکول، کالج اور ادارہ تھا۔ آپ کو تبلیغ کا بھی بڑا شوق تھا۔ نائیجیریا میں دو نہایت کامیاب بین المذاہب سمپوزیم کا بھی انعقاد کروایا۔ اس قیام کے دوران آپ نے اسلام اور عیسائیت پر کئی کتابیں بھی لکھیں۔ ان کی بعض کتابیں جو انہوں نے لکھیں یہ ہیں Islam in Spain، Shroud and other discoveries about Jesus، The reform taleem-el-islam course book اور نائیجیریا میں اپنے خرچ پر ایک مشن ہاؤس بھی انہوں نے بنوایا۔ ایک رؤیا کے نتیجہ میں انہوں نے پھر اپنے آپ کو وقف کے لئے پیش کر دیا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے ان کا وقف منظور فرمایا اور ان کو آسٹریلیا کا پہلا امیر اور مشنری انچارج مقرر فرمایا۔ چنانچہ 5؍جولائی 1985ء کو آسٹریلیا تشریف لے گئے۔ آسٹریلیا میں ان کے لئے ویزہ لینے کی مشکلات تھیں۔ مسلمان مبلغ کو ویزہ نہیں دیتے تھے۔ بہرحال وہاں ڈاکٹر اعجاز الحق صاحب کی کوششوں سے یہ ویزہ بھی ان کو مل گیا اور انہوں نے کام شروع کیا۔ آسٹریلیا کی جو مسجد بیت الہدی ہے اور بڑی خوبصورت مسجد ہے اس کی تعمیر میں ان کا بہت ہاتھ ہے۔ 30؍ستمبر 1983ء کو اس مسجد کا سنگ بنیاد حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے رکھا تھا پھر اس کی تعمیر باوجود مالی حالات اچھے نہ ہونے کے بڑی محنت سے انہوں نے کروائی۔ وقار عمل کے ذریعہ سے بہت سے کام کئے۔ خود بھی وقار عمل کئے بلکہ کام کے دوران ایک دفعہ سیڑھی سے گر گئے اور ان کے بازو کی ہڈی بھی ٹوٹ گئی لیکن پھر بھی انہوں نے مسجد کی تعمیر کا کام جاری رکھا اور ایک بہت خوبصورت اور بڑی مسجد وہاں بن گئی ہے۔ خود اس وقت جب یہ گئے ہیں تو وہاں کوئی جگہ نہیں تھی۔ جہاں جماعت نے زمین خریدی تھی وہاں ایک ٹِین کا شیڈ تھا۔ اس شیڈ میں ہی ایک حصہ میں نماز ہوتی تھی اور دوسرے حصہ میں ٹِین کی چھت ڈال کے اور کپڑے کی چھت ڈال کے یہ دونوں میاں بیوی رہتے رہے۔ انہوں نے وہاں گزارہ کیا اور بڑی قربانی کی ہے۔ 1991ء میں ان کی تقرری پھر نائیجیریا میں ہوئی اور الارو (Ilaro) میں بطور پرنسپل جامعہ احمدیہ خدمات بجا لاتے رہے۔ 1989ء میں جب جماعت احمدیہ کی صد سالہ جوبلی ہوئی ہے تو اس وقت حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے قرآن کریم کی منتخب آیات کا دنیا کی سو زبانوں میں ترجمہ کرنے کی تحریک کی تھی۔ آسٹریلیا کے ذمہ ماؤری زبان کا ترجمہ سونپا گیا تھا۔ جو ترجمہ اس وقت کروایا گیا اس کا معیار جب دیکھا گیا تو وہ اچھا نہیں تھا بلکہ وہ کہتے ہیں بسم اللہ الرحمن الرحیم کا ترجمہ جس سےماؤری میں کروایا گیا تھااس نے لکھا ہوا تھا In the name of Jesus۔ تو انہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کو کہا کہ یہ ترجمہ تو صحیح نہیں ہے۔ پھر اس بڑھاپے میں انہوں نے خود زبان سیکھی۔ بڑی عمر میں زبان بھی سیکھی اور ترجمہ بھی مکمل کیا اور 2013ء میں جب مَیں نیوزی لینڈ گیا ہوں تو ماؤری قرآن کریم کا ترجمہ مکمل طور پر وہاں کے ماؤری بادشاہ کو پیش کیا گیا۔ اس تقریب میں بھی یہ شامل تھے۔ بڑے عاجز انسان اور بے نفس انسان تھے۔ نہ علمی بڑائی کا کوئی احساس تھا، نہ یہ احساس کہ مَیں نے قرآن شریف کا ترجمہ کیا ہے تو میرا کوئی مقام ہونا چاہئے۔ دنیا بھی انہوں نے کافی کمائی اور بغیر الاؤنس کے یہ مشنری کا کام انجام دیتے رہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو غریق رحمت کرے اور ان کے درجات بلند فرمائے۔ ان کی اہلیہ کو بھی صبر اور حوصلہ عطا فرمائے۔ آئندہ بھی اللہ تعالیٰ ہمیں قربانی کرنے والے ایسے مشنری دیتا رہے جو ہر لحاظ سے بے نفس اور عاجز ہوں۔
اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل اور احسان ہے کہ جماعت احمدیہ برطانیہ کا جلسہ سالانہ گزشتہ ہفتے خیریت سے منعقد ہوا۔ جلسہ سالانہ کے تینوں دنوں میں ہم نے اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور برکات کے نظارے دیکھے۔ بعض حالات اور موسم کی وجہ سے کچھ فکر بھی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے حالات کے بداثرات سے محفوظ رکھا اور ہر شامل ہونے والے نے محسوس کیا کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت اور فضل ہر حال نازل ہو رہے تھے۔ پس اس بات پر ہم اللہ تعالیٰ کا جس قدر بھی شکر ادا کریں کم ہے اور حقیقی شکر تب ہی ادا ہو سکتا ہے جب ہم اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کے لئے ہر وقت کوشاں رہیں۔ یہ شکر گزاری کارکنوں کی طرف سے بھی ہونی چاہئے تا کہ اس سے جہاں ہم اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہوں وہاں اس شکر گزاری کی وجہ سے اپنی صلاحیتوں میں بہتری پیدا کرنے والے بھی ہوں۔ اسی طرح شامل ہونے والوں کو بھی شکر گزار ہونا چاہئے تا کہ وہ بھی زیادہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والے بنیں اور ان کی زندگیوں میں پاک تبدیلیاں پیدا ہوتی چلی جائیں۔ نیز جو خدمت پر مامور کارکن تھے ان کا بھی ان لوگوں کو شکر گزار ہونا چاہئے جو شامل ہوئے۔ اسی طرح کام کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کا ہر لحاظ سے شکر گزار ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمانوں یا دین کی خاطر آنے والے مہمانوں، دینی علم کے حاصل کرنے کے لئے آنے والے مہمانوں کی خدمت کرنے کا موقع عطا فرمایا۔
جلسہ سالانہ کے مقاصد میں سے ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ایسا بھائی چارہ اور شکرگزاری کے جذبات ایک دوسرے کے لئے پیدا ہوں جو مثالی ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہی محبت پیار اور بھائی چارے کے جذبات ہیں جن کا اظہار جب ہم اپنوں اور غیروں سے کر رہے ہوں تو یہ چیز ہر آنے والے مہمان کو متأثر کر رہی ہوتی ہے۔ علاوہ علمی اور دینی پروگراموں کے ہر احمدی کا عملی نمونہ آنے والے غیروں کو بے حد متاثر کر رہا ہوتا ہے جس کا وہ اظہار کرتے ہیں کہ اسلام کی حقیقی تعلیم کا نمونہ ہمیں جلسہ میں نظر آیا جس سے ہم بڑے متاثر ہوئے۔
مختلف ممالک سے جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والے مسلم اور غیر مسلم مہمانوں کے تأثرات کا ایمان افروز تذکرہ۔ جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والے نو مبائعین کے ایمان افروز تأثرات کا بیان۔ عالمی بیعت کی تقریب کا غیر معمولی اثر۔ عالمی پریس میں جلسہ کی کوریج۔ مختلف ممالک کے صحافیوں کے جلسہ کے بارہ میں تأثرات۔
بہرحال جلسہ کے ماحول اور ڈیوٹی دینے والوں کا ایک اثر ہے جو ہر انصاف پسند کو متاثر کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تمام ڈیوٹی دینے والوں کو اور شامل ہونے والوں کو بھی جزا دے جو اسلام کی اس خاموش عملی تبلیغ کا حصہ بنتے ہیں۔ ہمیں خاص طور پر ان ہزاروں کارکنان کو اور کارکنات کو، لڑکوں اور لڑکیوں، مردوں اور عورتوں کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھنا چاہئے۔
پریس اور میڈیا میں وسیع پیمانے پر جلسہ کی کوریج۔ آن لائن میڈیا، ٹی وی، ریڈیو، اخبارات، سوشل میڈیا، ایم ٹی اے کی لائیو سٹریمنگ، افریقہ کے مختلف ممالک کے ٹی وی چینلز وغیرہ کے ذریعہ کروڑوں افراد تک پیغام پہنچا۔ بعض ممالک میں ٹی وی چینلز نے جلسہ کی مکمل کارروائی نشر کی۔
یہ سب اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔ ہماری کوششیں اس میں بہت معمولی ہوتی ہیں گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی کینیڈا سے ساڑھے تین سو کے قریب خدام چارٹر جہاز کے ذریعہ آئے اور جلسہ کے بعد وقار عمل کر کے وائنڈ اَپ کے کام میں حصّہ لیا۔
مکرمہ صاحبزادی ذکیہ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم صاحبزادہ کرنل مرزا داؤد احمد صاحب۔ اور مکرم طارق مسعود صاحب(مربی سلسلہ) ابن مکرم مسعود احمد طاہر صاحب۔ اور مکرم شکیل احمد منیر صاحب سابق امیر و مشنری انچارج آسٹریلیا کی وفات۔ مرحومین کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب۔
فرمودہ مورخہ 04؍اگست 2017ء بمطابق04؍ظہور 1396 ہجری شمسی، بمقام مسجدبیت الفتوح، مورڈن، لندن، یوکے
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔