ایمان اور نیک اعمال: جلسہ سالانہ جرمنی ۲۰۱۷ء

خطبہ جمعہ 25؍ اگست 2017ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

ہم آج یہاں جلسہ میں شمولیت کے لئے جمع ہیں۔ جیسا کہ ہر احمدی جانتا ہے کہ ہمارا یہاں جلسہ کے لئے اکٹھا ہونا کسی دنیاوی ہاؤہُو، شورشرابے یا کسی دنیاوی مقصد کے لئے نہیں ہے بلکہ اس لئے ہے کہ یہاں کے پروگراموں میں شامل ہو کر ایک روحانی ماحول میں رہ کر اپنی روحانیت کو بڑھائیں۔ اپنی علمی استعدادوں کو بڑھائیں۔ اپنی اعتقادی حالت کو بہتر کریں۔ اپنی عملی حالتوں میں بہتری کریں۔ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کریں اور اللہ تعالیٰ کے حق اور اس کے بندوں کے حق ادا کریں۔ کوئی غیر احمدی تو شاید یہ کہہ سکتا ہے کہ ہمیں اس بات کا اِدراک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حق کیا ہیں اور اس کے بندوں کے حق کیا ہیں۔ لیکن ایک احمدی یہ نہیں کہہ سکتا۔ اس کے سامنے تو بار بار یہ باتیں بیان کی جاتی ہیں۔ ہم پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ بہت بڑا احسان ہے کہ آپ نے ہمیں ان باتوں کا اتنا بڑا ذخیرہ دے دیا ہے کہ جو نہ ختم ہونے والا ہے۔ بعض دفعہ انسان سمجھتا ہے کہ ایک بات میں نے پہلے سنی ہوئی ہے، پڑھی ہوئی ہے لیکن جب وہ اسے دوبارہ سنتا ہے یا پڑھتا ہے تو کوئی نہ کوئی نیا نکتہ یا نیا پہلو اس بات کا اس کے سامنے آ جاتا ہے۔ اور پھر ایک احمدی جو بیعت میں شامل ہوتا ہے اس کے لئے شرائط بیعت میں آپ علیہ السلام نے ان حقوق اور ہمارے فرائض کو مختصراً بیان فرمایا ہے۔ پس اپنے اس مقصد کو ہمیں ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے کہ اس جلسہ میں شامل ہونے کا ہمارا کیا مقصد ہے۔ اِس وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعض حوالے پیش کروں گا۔

اِس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ عقائد کا اثر اعمال پر بھی ہوتا ہے، حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’اسلام کے دو حصے ہیں۔ ایک تو یہ کہ خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا جاوے اور اس کے احسانوں کے بدلے میں اس کی پوری اطاعت کی جاوے۔ ورنہ خدا تعالیٰ جیسے محسن و مربی سے جو رُوگردانی کرتا ہے وہ شیطان ہے‘‘۔ (اللہ تعالیٰ کے اتنے بڑے احسان ہیں اور جو اللہ تعالیٰ کی بات نہیں مانتا اس کی پوری اطاعت نہیں کرتا۔ فرمایا پھر وہ خدا تعالیٰ کی اطاعت کرنے والا نہیں۔ رحمان کا بندہ نہیں ہو سکتا وہ تو پھر شیطان ہو گا۔) فرماتے ہیں کہ ’’دوسرا حصہ یہ ہے کہ مخلوق کے حقوق شناخت کرے اور کما حقّہٗ اس کو بجا لاوے‘‘۔ فرمایا کہ ’’جن قوموں نے موٹے موٹے گناہ جیسے زنا، چوری، غیبت، جھوٹ وغیرہ اختیار کئے آخر وہ ہلاک ہو گئیں اور بعض قومیں صرف ایک ایک گناہ کے ارتکاب سے ہلاک ہوتی رہیں۔ مگر چو نکہ یہ اُمّتِ مرحومہ ہے‘‘ (مسلمان جو ہیں ان پر اللہ تعالیٰ کی خاص نظر ہے) ’’اس لیے خدا تعالیٰ اسے ہلاک نہیں کرتا۔ ورنہ کو ئی معصیت ایسی نہیں ہے جو یہ نہیں کرتے‘‘۔ (کون سا گناہ ہے جو مسلمانوں میں آجکل نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا کہ یہ سب کام کررہے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ ’’ہر ایک نے الگ معبود بنا لئے ہیں‘‘۔ (ایک معبودنہیں۔ دنیا میں پڑگئے ہیں اور دنیا کو اپنا معبود بنا لیا ہے۔ دنیاداروں کو اپنا معبود بنا لیا ہے۔) فرماتے ہیں کہ ’’بات یہ ہے کہ عقیدے اچھے ہوتے ہیں تو انسان سے اعمال بھی اچھے صادر ہوتے ہیں۔‘‘ (اگر عقیدہ بہتر ہو گا، اچھا ہوگا اس پہ یقین ہو گا تو پھر اس عقیدے کی رُو سے اگر نیک نیتی اگر ہو گی تو پھر اچھے اعمال بھی صادرہوں گے۔) فرماتے ہیں ’’جو انسان سچا اور بے نقص عقیدہ اختیار کرتا ہے اور خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بناتا تو اس سے اعمال خود بخود ہی اچھے صادر ہوتے ہیں اور یہی باعث ہے کہ جب مسلمانوں نے سچے عقائد چھوڑ دئیے تو آخر دجّال وغیرہ کو خدا ماننے لگ گئے‘‘۔ (ابھی دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ بڑی بڑی حکومتیں بھی دنیاوی طاقتوں کو خدا ماننے لگ گئی ہیں۔ ان کی جھولی میں گرنے لگ گئی ہیں۔ اور یہ آجکل ہمیں ہر جگہ نظر آتا ہے۔ پس افراد سے لے کر حکومتوں تک، مسلمان حکومتوں تک کا یہی حال ہے) ’’کیونکہ دجّال میں تمام صفات خدائی کے تسلیم کرتے ہیں۔ پس جب اس میں تمام صفات خدائی کے مانتے ہو تو جو اُسے خدا کہے اُس کا اِس میں کیا قصور ہوا؟‘‘ فرمایا ’’خود ہی تو تم خدائی کا چارج دجّال کو دیتے ہو۔ پروردگار چاہتا ہے کہ جیسے عقائد درست ہوں ویسے ہی اعمال صالحہ بھی درست ہوں اور ان میں کسی قسم کا فسادنہ رہے۔ اس لئے صراط مستقیم پر ہونا ضروری ہے‘‘۔ آپ فرماتے ہیں کہ ’’خدا نے بار بار مجھے کہا ہے کہ اَلْخَیْرُ کُلُّہٗ فِی الْقُرْان‘‘۔ فرماتے ہیں کہ ’’اس کی تعلیم ہے خدا واحد لا شریک ہے۔ جو قرآن نے کہا ہے وہ بالکل سچ ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 6 صفحہ 420-421۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

سب بھلائیاں قرآن کریم میں تلاش کرو اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو۔ اس کا حق بجا لاؤ اور جو بندوں کے حق ہیں ان کو بھی ادا کرو۔

پس خدا تعالیٰ کو وحدہ لاشریک سمجھنا اور اس کی پوری اطاعت کرنا اور اس کا حق ادا کرنا، یہ پھر اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اس کی عبادت کا بھی حق ادا کیا جائے۔ چنانچہ اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ اس سلسلہ کے قیام کا مقصد ہی یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی معرفت حاصل ہو۔ ہم کیوں احمدی ہوئے ہیں؟ کیا مقصد تھا آپ کی بیعت میں آنے کا؟ کیوں آپ نے سلسلہ قائم کیا؟ فرمایا تاکہ خدا تعالیٰ کی معرفت حاصل ہو اور دعا اور عبادت کی حقیقت کا علم ہو۔ آپ فرماتے ہیں کہ ’’جیسے پہلا آدمی جو صرف دعا کرتا ہے اور تدبیر نہیں کرتا وہ خطاکار ہے۔ اسی طرح پر یہ دوسرا جو تدبیر ہی کو کافی سمجھتا ہے وہ ملحد ہے‘‘۔ (ایک شخص دعا کرتا ہے کوشش نہیں کرتا۔ تدبیر نہیں کرتا۔ تدبیر کرنے کا بھی اللہ تعالیٰ کا حکم ہے، تو وہ بھی خطاکار ہے۔ غلطی پر ہے۔ اسی طرح پر جو تدبیر کرتا ہے اور دعا نہیں کرتا وہ ملحد ہے۔) ’’مگر تدبیر اور دعا دونو باہم ملا دینا اسلام ہے۔‘‘ (اسلام کی تعلیم کیا ہے کہ تدبیر بھی کرو۔ کوشش کرو۔ اپنی پوری صلاحیتوں کے ساتھ، اپنی پوری استعدادوں کے ساتھ، اپنی پوری طاقتوں کے ساتھ جو تم دنیاوی کوشش کر سکتے ہو کرو۔ اور اسی طرح دعا بھی کرو۔ اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑاؤ اور بہت دعا کرو کہ اصل نتیجہ اس تدبیر کا خدا تعالیٰ نے پیدا کرنا ہے اور اگر یہ چیزیں ہیں تو آپ نے فرمایا پھر یہ اسلام ہے۔) فرماتے ہیں کہ ’’اسی واسطے میں نے کہا ہے کہ گناہ اور غفلت سے بچنے کے لئے اس قدر تدبیر کرے جو تدبیر کا حق ہے۔ اور اس قدر دعا کرے جو دعا کا حق ہے۔ اسی واسطے قرآن شریف کی پہلی ہی سورۃ فاتحہ میں ان دونوں باتوں کو مدّنظر رکھ کر فرمایا ہے۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ اسی اصل تدبیر کو بتاتا ہے اور مقدّم اس کو کیا ہے کہ پہلے انسان رعایتِ اسباب اور تدبیر کا حق ادا کرے۔ مگر اس کے ساتھ ہی دعا کے پہلو کو چھوڑ نہ دے بلکہ تدبیر کے ساتھ ہی اس کو مدّنظر رکھے‘‘۔ فرمایا کہ ’’مومن جب اِیَّا کَ نَعْبُدُ کہتا ہے کہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں تو معاً اس کے دل میں (خیال) گزرتا ہے کہ مَیں کیا چیز ہوں جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کروں جب تک اُس کا فضل اور کرم نہ ہو‘‘۔ (بعض لوگوں کو بڑا مان ہوتا ہے۔ بڑا زعم ہوتا ہے کہ ہم بڑے عبادت گزار ہیں۔ بڑے نمازیں پڑھنے والے ہیں۔ لیکن یہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔ ایک حقیقی مومن تو یہ سوچتا ہے کہ عبادت کی توفیق دینا بھی اللہ تعالیٰ کا ہی فضل ہے‘‘۔ فرمایا کہ ’’اس لئے وہ معاً کہتا ہے۔ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔ مدد بھی تجھ ہی سے چاہتے ہیں۔ یہ اِک نازک مسئلہ ہے جس کو بجز اسلام کے اور کسی مذہب نے نہیں سمجھا۔ اسلام ہی نے اس کو سمجھا ہے۔‘‘ آپ فرماتے ہیں ’’پس اسلام کے لئے یہ ضروری امر ہے کہ اس میں داخل ہونے والا اس اصل کو مضبوط پکڑ لے۔ تدبیر بھی کرے اور مشکلات کے لئے دعا بھی کرے اور کراوے۔ اگر اِن دونوں پلڑوں میں سے کوئی ایک ہلکا ہے تو کام نہیں چلتا ہے۔ اس لئے ہر ایک مومن کے واسطے ضروری ہے کہ اس پر عمل کرے۔‘‘ فرماتے ہیں کہ ’’مگر اس زمانے میں مَیں دیکھتا ہوں کہ لوگوں کی یہ حالت ہو رہی ہے کہ وہ تدبیریں تو کرتے ہیں مگر دعا سے غفلت کی جاتی ہے۔ بلکہ اسباب پرستی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ تدابیر دنیا ہی کو خدا بنا لیا گیا ہے اور دعا پر ہنسی کی جاتی ہے اور اس کو ایک فضول شئے قرار دیا جاتا ہے۔ یہ سارا اثر یورپ کی تقلید سے ہوا ہے۔ یہ خطرناک زہر ہے جو دنیا میں پھیل رہا ہے۔‘‘ (اب یہاں یورپ میں اللہ تعالیٰ پہ ایمان تو بہت حد تک کم ہو رہا ہے۔ atheist تعداد میں بہت زیادہ بڑھ رہے ہیں اور مسلمان سمجھتے ہیں کہ شاید ان کی ترقی کا راز اسی میں ہے لیکن اس کا انجام اچھا نہیں ہونا۔) آپ نے فرمایا ’’یہ خطرناک زہر ہے جو دنیا میں پھیل رہا ہے۔ مگر خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس زہر کو دُور کرے۔ چنانچہ یہ سلسلہ اس نے اسی غرض کے لئے قائم کیا ہے۔‘‘ (اور جو احمدی ہیں انہوں نے دنیا کے اثر نہیں لینے۔ دنیاداری کے اثر نہیں لینے۔ خدا تعالیٰ پر یقین نہ کرنے والوں کے اثر نہیں لینے بلکہ ان کو خدا تعالیٰ کے وجود سے، خدا تعالیٰ کی ذات سے آگاہ کرنا ہے اور حقیقی اسلام کے بارے میں ان کو بتانا ہے۔ یہ ایک احمدی کا کام ہے۔) فرمایا ’’تا دنیا کو خدا تعالیٰ کی معرفت ہو اور دعا کی حقیقت اور اس کے اثر سے اطلاع ملے۔‘‘ (ملفوظات جلد 6 صفحہ 268-269۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

لوگ سمجھتے ہیں دعا کی کوئی حقیقت نہیں۔ ایک احمدی کا ایمان ایسا ہونا چاہئے جہاں اسے قبولیت دعا پر یقین ہو وہاں قبولیت دعا کے تجربات بھی ہوں۔ پس یہ ہے وہ حالت جو ایک احمدی کو پیدا کرنی چاہئے اور جب یہ حالت ہو گی تو تب ہی پھر اعتقادی مضبوطی بھی پیدا ہو گی۔ انسان عارضی خداؤں کے پیچھے نہیں جائے گا بلکہ معبود حقیقی کی پہچان کر کے صرف اور صرف اس کے آگے جھکے گا اور اس معبود حقیقی کی پہچان اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کی معراج کے اسلوب ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پر اترنے والی کتاب اور اپنے عمل سے سکھائے۔ اس لئے یہ معرفت اور دعا کی حقیقت اس وقت تک ظاہر نہیں ہو سکتی جب تک ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پختہ تعلق پیدا نہ کریں۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس سلسلہ کے قیام اور اپنی بعثت کی غرض بیان فرماتے ہوئے ایک جگہ یہ بھی فرمایا کہ ’’اگر ہماری جماعت میں سے کوئی ناواقف ہو تو وہ واقف ہو جائے۔‘‘ (اگر کسی کو نہیں پتا تو اسے پتا لگ جانا چاہئے) ’’کہ اس سلسلہ کے قائم کرنے سے اللہ تعالیٰ کی کیا غرض ہے؟ اور ہماری جماعت کو کیا کرنا چاہئے؟ اور یہ بھی غلطی ہے کہ کوئی اتنا ہی سمجھ لے کہ رسمی طور پر بیعت میں داخل ہونا ہی نجات ہے۔ اس لئے ضرورت پڑی ہے کہ میں اصل غرض بتاؤں کہ خدا تعالیٰ کیا چاہتا ہے؟‘‘ (صرف بیعت کرنے سے نجات نہیں ملے گی۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں تمہیں بتاتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کیا چاہتا ہے‘‘۔ فرمایا ’’سب لوگ یاد رکھو کہ رسمی طور پر بیعت میں داخل ہونا یا مجھ کو امام سمجھ لینا اتنی ہی بات نجات کے واسطے ہرگز کافی نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ دلوں کو دیکھتا ہے۔ وہ زبانی باتوں کو نہیں دیکھتا‘‘۔ فرمایا ’’نجات کے واسطے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے بار بار فرمایا ہے وہی ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ اوّل سچے دل سے اللہ تعالیٰ کو وحدہ لاشریک سمجھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا نبی یقین کرے اور قرآن شریف کو کتاب اللہ سمجھے کہ وہ ایسی کتاب ہے کہ قیامت تک اب اَور کوئی کتاب یا شریعت نہ آئے گی۔ یعنی قرآن شریف کے بعد اب کسی کتاب یا شریعت کی ضرورت نہیں ہے۔ دیکھو خوب یاد ر کھو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں۔ یعنی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کو ئی نئی شریعت اور نئی کتاب نہ آئے گی۔ نئے احکام نہ آئیں گے۔ یہی کتاب اور یہی احکام رہیں گے۔‘‘ فرماتے ہیں کہ ’’جو الفاظ میری کتابوں میں نبی یا رسول کے میری نسبت پائے جاتے ہیں اس میں ہر گز یہ منشاء نہیں ہے کہ کوئی نئی شریعت یا نئے احکام سکھائے جاویں۔ بلکہ منشاء یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی ضرورتِ حقّہ کے وقت کسی کو مامور کرتا ہے تو ان معنوں سے کہ مکالمات ِالٰہیہ کا شرف اس کو دیتا ہے اور غیب کی خبریں اس کو دیتا ہے۔ اُس پر نبی کا لفظ بولا جاتا ہے اور وہ مامور نبی کا خطاب پاتا ہے۔ یہ معنی نہیں ہیں کہ نئی شریعت دیتا ہے یاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو نعوذباللہ منسو خ کرتا ہے۔ بلکہ یہ جو کچھ اسے ملتا ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی سچی اور کامل ابتاع سے ملتا ہے اور بغیر اِس کے مل سکتا ہی نہیں۔ ہاں یہ ضروری ہے کہ جب زمانہ میں گناہ کثرت سے ہوتے ہیں اور اہل دنیا ایمان کی حقیقت نہیں سمجھتے اور ان کے پاس پوست یا ہڈی رہ جاتی ہے اور مغزاور لُبّ نہیں رہتا۔ ایمانی قوت کمزور ہو جاتی ہے اور شیطانی تسلّط اور غلبہ بڑھ جاتا ہے۔ ایمانی ذوق اور حلاوت نہیں رہتی۔ ایسے وقتوں میں عادت اللہ اِس طرح پر جاری ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ایک کامل بندہ کو جو خدا تعالیٰ کی سچی اطاعت میں فناشدہ اور محوہو تا ہے اپنے مکالمہ کا شرف بخش کر بھیجتا ہے اور اب اِس وقت اُس نے مجھے مامور کرکے بھیجا ہے۔‘‘ (آپ فرماتے ہیں کہ اس وقت اس نے مجھے مامور کر کے بھیجا ہے) ’’کیونکہ یہی وہ زمانہ ہے جس میں الٰہی محبت بالکل ٹھنڈی ہو گئی ہے۔ اگرچہ عام نظر میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ لوگ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کے بھی قائل ہیں۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی زبان سے تصدیق کرتے ہیں۔ بظاہر نمازیں بھی پڑھتے ہیں۔ روزے بھی رکھتے ہیں۔ مگر اصل بات یہ ہے کہ روحانیت بالکل نہیں رہی۔ اور دوسری طرف ان اعمال صالحہ کے مخالف کا م کر نا ہی شہادت دیتا ہے کہ وہ اعمال اعمالِ صالحہ کے رنگ میں نہیں کئے جاتے۔‘‘ (جو اعمال کئے جارہے ہیں وہ اعمال صالحہ کے مخالف ہیں۔ مسلمانوں کی اکثر کی یہی حالت نظر آ رہی ہے۔) فرمایا ’’بلکہ رسم اور عادت کے طور پر کئے جاتے ہیں۔‘‘ (بعض کام اگر کئے بھی جاتے ہیں تو رسمی طور پر کئے جاتے ہیں۔ یہ عادت پڑ گئی ہے اس وجہ سے کئے جاتے ہیں۔ ان کو اس کی روح اور اس کی حقیقت کا علم نہیں ہے) ’’کیو نکہ ان میں اخلاص اور روحانیت کا شمّہ بھی نہیں ہے۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ ان اعمال صالحہ کے برکات اور انوار ساتھ نہیں ہیں۔‘‘ (اعمال صالحہ کی حقیقت کو جانتے ہوئے اگر اعمال بجا لائے جائیں، خدا کو راضی کرنے کے لئے بجا لائے جائیں تو اس کے ساتھ کچھ نتیجے بھی ہونے چاہئیں۔ اس کی برکات ہونی چاہئیں۔) فرماتے ہیں ’’خوب یادرکھو کہ جب تک سچے دل سے اور روحانیت کے ساتھ یہ اعمال نہ ہوں کچھ فائدہ نہ ہو گا اور یہ اعمال کا م نہ آئیں گے۔ اعمالِ صالحہ اسی وقت اعمالِ صالحہ کہلاتے ہیں جب ان میں کسی قسم کا فسادنہ ہو۔ صلاح کی ضدّ فساد ہے۔ صالح وہ ہے جو فساد سے مبرّا منزّہ ہو۔ جن کی نمازوں میں فساد ہے اور نفسانی اغراض چھپے ہو ئے ہیں ان کی نمازیں اللہ تعالیٰ کے واسطے ہر گز نہیں ہیں اور وہ زمین سے ایک بالشت بھی اوپر نہیں جاتی ہیں کیو نکہ ان میں اخلاص کی روح نہیں اور وہ روحانیت سے خالی ہیں۔ بہت سے ایسے لوگ ہیں جو یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اس سلسلہ کی ضرورت کیا ہے؟‘‘ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آکر جو نیا سلسلہ قائم کر دیا۔ اس کی کیا ضرورت تھی؟) فرماتے ہیں کہ وہ لوگ کہتے ہیں ’’کیا ہم نمازروزہ نہیں کرتے ہیں۔‘‘ آپ نے فرمایا کہ ’’وہ اس طرح پر دھوکہ دیتے ہیں اور کچھ تعجب نہیں کہ بعض لوگ جو ناواقف ہوتے ہیں ایسی باتوں کو سن کر دھوکا کھا جاویں اور ان کے ساتھ مل کر یہ کہہ دیں کہ جس حالت میں ہم نماز پڑھتے ہیں، روزہ رکھتے ہیں اور وِردوظائف کرتے ہیں پھر کیوں (ایک نئی جماعت پیدا کر کے) یہ پھوٹ ڈال دی۔‘‘ فرمایا ’’یاد رکھو کہ ایسی باتیں کم سمجھی اور معرفت کے نہ ہو نے کا نیتجہ ہے۔ میرا اپنا کام نہیں ہے۔ یہ پھوٹ اگر ڈال دی ہے تو اللہ تعالیٰ نے ڈالی ہے۔‘‘ (مَیں نے جماعت کو قائم نہیں کیا۔ آپ نے فرمایا میں نے تو جماعت قائم نہیں کی۔ یہ تو اللہ تعالیٰ نے مجھے کہا تھا کہ جماعت قائم کرو اور اس نے یہ جماعت بنائی ہے۔ اگر تم کہتے ہو پھوٹ ڈال دی تو پھر اللہ تعالیٰ پہ الزام آتا ہے۔ مجھ پہ الزام نہیں آتا۔) فرمایا کہ ’’جس نے اس سلسلہ کو قائم کیا ہے‘‘۔ (وہ اللہ تعالیٰ ہے۔ اُس سے پوچھو کیوں یہ جماعت بنا دی ہے۔) فرماتے ہیں ’’کیونکہ ایمانی حالت کمزور ہوتے ہو تے یہاں تک نوبت پہنچ گئی ہے کہ ایمانی وقت بالکل ہی معدوم ہی ہو گئی ہے اور اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ حقیقی ایمان کی روح پھونکے جو اس سلسلہ کے ذریعہ سے اس نے چاہا ہے۔ ایسی صورت میں ان لوگوں کا اعتراض بےجا اور بیہودہ ہے۔ پس یادرکھو کہ ایسا وسوسہ ہرگز ہر گز کسی کے دل میں نہیں آنا چاہئے اور اگر پورے غور اور فکر سے کام لیا جاوے تو یہ وسوسہ آہی نہیں سکتا۔ غور سے کام نہ لینے کے سبب ہی سے وسوسہ آتا ہے جو ظاہری حالت پر نظر کر کے کہہ دیتے ہیں کہ اَور بھی مسلمان ہیں۔ اس قسم کے وسوسوں سے انسان جلد ہلاک ہو جاتا ہے۔‘‘ فرماتے ہیں کہ ’’مَیں نے بعض خطوط اس قسم کے لوگوں کے دیکھے ہیں۔‘‘ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بیعت کرنے کے بعد بھی بعض لوگوں کے خطوط آتے تھے) ’’جو بظاہر ہمارے سلسلہ میں ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم سے جب یہ کہا گیا کہ دوسرے مسلمان بھی بظاہر نماز پڑھتے ہیں اور کلمہ پڑھتے ہیں، روزے رکھتے ہیں اور نیک کام کرتے ہیں اور نیک معلوم ہوتے ہیں، پھر اس نئے سلسلہ کی کیا حاجت ہے؟‘‘ آپ فرماتے ہیں کہ ’’یہ لوگ باوجود یکہ ہماری بیعت میں داخل ہیں ایسے وسوسے اور اعتراض سن کر لکھتے ہیں کہ ہم کو اس کاجواب نہیں آیا۔ ایسے خطوط پڑھ کر مجھے ایسے لوگوں پر افسوس اور رحم آتا ہے کہ انہوں نے ہماری اصل غرض اور منشاء کو نہیں سمجھا۔ وہ صرف دیکھتے ہیں کہ رسمی طور پر یہ لوگ ہماری طرح شعائرِ اسلام بجالاتے ہیں اور فرائضِ الٰہی ادا کرتے ہیں حالانکہ حقیقت کی روح ان میں نہیں ہو تی۔ اس لیے یہ باتیں اور وساوس سحر کی طرح کام کرتے ہیں۔ وہ ایسے وقت نہیں سوچتے کہ ہم حقیقی ایمان پیدا کر نا چا ہتے ہیں جو انسان کو گناہ کی موت سے بچا لیتا ہے اور ان رسوم وعادات کے پَیرولوگوں میں وہ بات نہیں۔ ان کی نظر ظاہر پر ہے حقیقت پر نگاہ نہیں۔ ان کے ہاتھ میں چھلکا ہے جس میں مغزنہیں۔‘‘ (ملفوظات جلد 6 صفحہ 235 تا 239۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پس جب آپ کی بعثت کا مقصد اللہ تعالیٰ سے حقیقی تعلق پیدا کروانا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کی پہچان کروانا ہے۔ قرآن کریم کی حکومت کو اپنے اوپر لاگو کروانا ہے تو ہم جو آپ کے ماننے والے ہیں ہمیں اس کے مطابق اپنی اعتقادی اور عملی حالتوں کی اصلاح بھی کرنی چاہئے۔ اور صرف ظاہری طور پر یہ نہ دیکھ لیں۔ اگر ہم بھی یہی سمجھتے ہیں کہ دوسرے مسلمان بھی ہماری طرح ہیں۔ نمازیں روزہ رکھتے ہیں اور کوئی فرق نہیں۔ اگر فرق نہیں نظر آتا تو ہمیں فکر کرنی چاہئے۔ ہماری عبادتوں میں، ہمارے درود میں، ہمارے اذکار میں یہ فرق ہونا چاہئے۔ ہماری خدمت خلق میں ایک دلی جذبہ اور روح ہونی چاہئے جبکہ دوسروں میں وہ نظر نہیں آتا۔

پھر ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ کیا ہماری بیعت یہ حقیقی رنگ لئے ہوئے ہے یا صرف زبانی باتیں ہی ہیں۔ کیا ہماری عبادتیں اللہ تعالیٰ کو وحدہٗ لاشریک سمجھتے ہوئے اس کے لئے ہیں یا نہیں۔ بہت سے ایسے ہیں جو پنج وقتہ نماز بھی ادا کرتے ہیں لیکن روح سے ادا نہیں کرتے۔ بہت سے احمدیوں میں سے بھی ایسے ہیں کہ پانچ وقتہ نمازیں بھی ادا نہیں کرتے اور ملنے پر مجھے بھی کہہ دیتے ہیں کہ دعا کریں کہ ہم ادا کیا کریں۔ حالانکہ یہ تو ایک بنیادی چیز ہے جو ہر احمدی کا فرض ہے۔ ہر مومن کا فرض ہے، ہر مسلمان کا فرض ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں آنے کے بعد تو ایک دلی شوق سے اور ذوق سے نمازیں ادا ہونی چاہئیں، نہ یہ کہ نمازیں پوری نہ پڑھیں اور آکے کہہ دیا کہ دعا کریں کہ ہم نمازیں پڑھ لیں۔ جب یہ احساس ہے کہ نمازیں نہیں پڑھتے تو پھر کوئی تدبیر بھی کرنی پڑے گی۔ خود کوشش کرنی پڑے گی۔ خود کوشش اور دعاکیوں نہیں کرتے۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ جب کہتے ہیں تو صرف منہ سے کہنے کی بجائے ان الفاظ کو دل کی گہرائی سے دہراتے ہوئے اس پر عمل کیوں نہیں کرتے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا نبی مانا ہے تو پھر آپ کا ہر عمل ہمارے لئے اُسوۂ حسنہ ہے۔ عبادتوں کے ساتھ ساتھ آپ کے اعلیٰ اخلاق ہمارے لئے نمونہ ہیں۔ معاشرتی تعلقات ہیں، گھریلو تعلقات ہیں، بیویوں سے اعلیٰ اخلاق کا نمونہ آپ نے ہمارے لئے پیش فرمایا۔ لیکن بہت سارے ایسے ہیں جو گھروں میں فساد پیدا کرتے ہیں ان کے جذبات کا خیال رکھنا آپ نے ہمیں سکھایا۔ بچوں سے شفقت سے پیش آنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سکھایا۔ دوسروں کے عمومی جذبات کا خیال رکھنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سکھایا۔ لڑائی جھگڑوں سے بچنا آپ نے اس کی تلقین بھی کی اور ہمیں سکھایا اور اپنے عمل سے دکھایا۔ امانت میں خیانت نہ کرنا اس کی تو سخت تلقین اسلام کی تعلیم میں بھی ہے اور آپ نے ہمیں کر کے دکھائی۔ جیسے بھی حالات ہوں عاجزی اور انکساری دکھانا، سچائی کے اعلیٰ ترین معیار قائم کرنا اور کون سا ایسا خُلق ہے جس کی معراج ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں نظر نہیں آتی۔ اگر ہم حقیقت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا نبی مانتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو آپ کی غلامی میں بھیجا ہوا زمانے کا امام مانتے ہیں تو پھر اپنے عملوں کو بھی، اپنی عبادتوں کے معیاروں کو بھی ہمیں بلند کرنا ہو گا۔ قرآن کریم کے احکامات کو دیکھ کر، اس کے اوامر و نواہی کو دیکھ کر ہمیں جائزہ لینا ہو گا کہ کون کون سی نیک باتوں کو ہم کرنے والے ہیں اور کون سی ہم نہیں کر رہے۔ کون سی برائیوں کو ہم چھوڑ رہے ہیں اور کن کو ہم نہیں چھوڑ رہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مقام اور دعوے کو صحیح رنگ میں پہچاننے کی ضرورت ہے۔

پس یہ زمانہ جو دنیا کو اللہ تعالیٰ سے دور لے گیا ہے اور ترقی کے نام پر ہر روز ہر آنے والا دن دور لے جانے کے لئے ایک نئی کوشش کرتا چلا جا رہا ہے اس وقت میں یہ احمدی کا ہی کام ہے کہ اپنے تعلق باللہ اور اللہ تعالیٰ کی معرفت کو حاصل کرنے کی کوشش کریں اور ہر چڑھنے والا دن اس معرفت میں ترقی کرنے والا ہو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت صرف زبانی دعویٰ نہ ہو۔ اس کے صرف نعرے نہ لگائے جائیں بلکہ اس عشق و محبت کا اظہار آپ کے اُسوۂ حسنہ کو اپنا کر ہونا چاہئے۔ یہ نہیں کہ نعرے تو آپ کے نام کے لگا لئے اور اس کے بعد ظلم بھی آپ کے نام پر ہو رہا ہے۔ آجکل مسلمانوں کی یہی حالت ہے۔ اب دیکھتے ہیں بہت ساری تنظیمیں بنی ہوئی ہیں۔ حکومتیں بھی اور تنظیمیں بھی اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر ظلم کر رہی ہیں۔ وہ رحمت للعالمین جو تمام زمانے کے لئے رحمت بن کر آیا تھا ان کو انہوں نے اپنے عملوں سے ظلم کا نشان بنا دیا ہے گو ان کی کوششیں کامیاب نہیں ہو سکتیں۔ اس لئے اس زمانے میں مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام آئے تھے اور یہی ہم کوشش کرتے چلے جا رہے ہیں کہ اسلام کی حقیقی تصویر دنیا کے سامنے پیش کریں۔ پس ہمیں اس حقیقی تصویر کو پیش کرنے کے لئے آپ کے ہر اسوہ کو اپنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ قرآن کریم کی حکومت اپنے اوپر لاگو کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور ہر وقت اس کوشش میں رہنا چاہئے کہ ہمارا ہر عمل اعمال صالحہ میں شمار ہونے والا عمل ہو۔ ہمیں یہ کوشش کرنی چاہئے کہ ہم ہر لمحہ اور ہر روز بلکہ ہر لمحہ اس کوشش میں ہوں کہ ہم نے شیطان سے دور ہونا ہے اور رحمان کے قریب ہونا ہے۔ ورنہ جیسا کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا ہے غیر بھی نمازیں پڑھتے ہیں لیکن اکثر ان کی نمازیں زمین پر ہی رہ جاتی ہیں وہ عرش پر نہیں جاتیں۔ عرش کے خدا کو ان نمازوں سے کوئی بھی غرض نہیں ہے کیونکہ ان میں اخلاص نہیں ہے۔ ان میں دنیا کی ملونی ہے۔ ایسی نمازیں ہیں جو ہلاکت ہیں۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ ارشاد، یہ تنبیہ ہمیں سوچنے اور فکر کرنے کی طرف توجہ دلانے والی ہونی چاہئے اور آپ کی بیعت کی حقیقت کو سمجھنے والی ہونی چاہئے۔

حقیقی نماز کیا ہے؟ اس کی وضاحت فرماتے ہوئے آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:

’’نماز اُس وقت حقیقی نماز کہلاتی ہے جب کہ اللہ تعالیٰ سے سچا اور پاک تعلق ہو اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور اطاعت میں اس حد تک فنا ہو اور یہاں تک دین کو دنیا پر مقدم کر لے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں جان تک دے دینے اور مرنے کے لئے تیار ہو جائے۔ جب یہ حالت انسان میں پیدا ہو جائے اُس وقت کہا جائے گا کہ اس کی نماز نماز ہے۔ مگر جب تک یہ حقیقت انسان کے اندر پیدا نہیں ہوتی اور سچے اخلاص اور وفاداری کا نمونہ نہیں دکھلاتا اُس وقت تک اس کی نمازیں اور دوسرے اعمال بے اثر ہیں‘‘۔ فرماتے ہیں ’’بہت سی مخلوق ایسی ہے کہ لوگ ان کو مومن اور راستباز سمجھتے ہیں مگر آسمان پر ان کا نام کافر ہے۔ اس واسطے حقیقی مومن اور راستباز وہی ہے جس کا نام آسمان پر مومن ہے۔ دنیا کی نظر میں خواہ وہ کافر ہی کیوں نہ کہلاتا ہو۔‘‘ (اب دنیا ہمیں کافر کہتی ہے تو ہمیں اس کی ذرہ بھر بھی پرواہ نہیں اگر ہمارے عمل نیک ہیں۔ اگر ہمارا خدا تعالیٰ سے تعلق ہے تو پھر ہمیں اللہ تعالیٰ مؤمن کہتا ہے۔) فرماتے ہیں کہ ’’حقیقت میں یہ بہت ہی مشکل گھاٹی ہے کہ انسان سچا ایمان لاوے اور خدا تعالیٰ کے ساتھ کامل اخلاص اور وفا داری کا نمونہ دکھلاوے۔ جب انسان سچا ایمان لاتا ہے تو اس کے بہت سے نشانات ہو جاتے ہیں۔ قرآن شریف نے سچے مومنوں کی جو علامات بیان کی ہیں وہ ان میں پائی جاتی ہیں۔ ان علامات میں سے ایک بڑی علامت جو حقیقی ایمان کی ہے وہ یہی ہے کہ جب انسان دنیا کو پاؤں کے نیچے کچل کر اس سے اس طرح الگ ہو جاتا ہے جیسے سانپ اپنی کینچلی سے باہر آ جاتا ہے‘‘۔ دنیا پھر اس کے پاس نہیں رہتی۔ اصل مقصد خدا تعالیٰ کو راضی کرنا ہوتا ہے۔ دنیا تو ساتھ مل ہی جاتی ہے۔ فرمایا ’’اس طرح پر جب انسان نفسانیت کی کینچلی سے باہر آ جاتا ہے تو وہ مومن ہوتا ہے اور ایمان کامل کے آثار اس میں پائے جاتے ہیں۔ چنانچہ فرمایا ہے۔ اِنَّ اللّٰہ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَالَّذِیْنَ ھُمْ مُحْسِنُوْن (النحل:129)۔ یعنی بیشک اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور جو تقویٰ سے بھی بڑھ کر کام کرتے ہیں یعنی محسنین ہوتے ہیں۔‘‘ (ملفوظات جلد 6 صفحہ 240-241۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پھر یہ بیان فرماتے ہوئے کہ حقیقی نیکی کیا ہے؟ آپ فرماتے ہیں کہ: ’’تقویٰ کے معنی ہیں بدی کی باریک راہوں سے پرہیز کرنا۔ مگر یاد رکھو نیکی اتنی نہیں ہے کہ ایک شخص کہے کہ مَیں نیک ہوں اس لئے کہ میں نے کسی کا مال نہیں لیا‘‘۔ (کسی کا مال نہیں اڑایا۔) ’’نقب زنی نہیں کی۔ چوری نہیں کرتا۔ بدنظری اور زنا نہیں کرتا۔‘‘ فرماتے ہیں ’’ایسی نیکی عارف کے نزدیک ہنسی کے قابل ہے کیونکہ اگر وہ ان بدیوں کا ارتکاب کرے اور چوری یا ڈاکہ زنی کرے تو وہ سزا پائے گا۔ پس یہ کوئی نیکی نہیں کہ جو عارف کی نگاہ میں قابل قدر ہو۔ بلکہ اصلی اور حقیقی نیکی یہ ہے کہ نوعِ انسان کی خدمت کرے۔ اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں کامل صدق اور وفا داری دکھلائے اور اس کی راہ میں جان تک دے دینے کو تیار ہو۔ اسی لئے یہاں فرمایا ہے: اِنَّ اللّٰہ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَالَّذِیْنَ ھُمْ مُحْسِنُوْن۔ یعنی اللہ تعالیٰ اُن کے ساتھ ہے جو بدی سے پرہیز کرتے ہیں اور ساتھ ہی نیکیاں بھی کرتے ہیں۔ یہ خوب یاد رکھو کہ نرا بدی سے پرہیز کرنا کوئی خوبی کی بات نہیں جب تک اُس کے ساتھ نیکیاں نہ کرے۔ بہت سے لوگ ایسے موجود ہوں گے جنہوں نے کبھی زنا نہیں کیا، خون نہیں کیا، چوری نہیں کی، ڈاکہ نہیں مارا اور باوجود اس کے اللہ تعالیٰ کی راہ میں کوئی صدق و وفا کا نمونہ انہوں نے نہیں دکھایا۔ یا نوع انسان کی کوئی خدمت نہیں کی اور اس طرح پر کوئی نیکی نہیں کی۔ پس جاہل ہو گا وہ شخص جو ان باتوں کو پیش کرکے اسے نیکوکاروں میں داخل کرے۔ کیونکہ یہ تو بدچلنیاں ہیں۔ صرف اتنے خیال سے اولیاء اللہ میں داخل نہیں ہو جاتا۔‘‘ فرمایا کہ ’’بدچلنی کرنے والے، چوری یا خیانت کرنے والے، رشوت لینے والے کے لئے عادت اللہ میں ہے کہ اسے یہاں سزا دی جاتی ہے۔ وہ نہیں مرتا جب تک سزانہیں پا لیتا۔ یاد رکھو کہ صرف اتنی ہی بات کا نام نیکی نہیں ہے۔ تقویٰ ادنیٰ مرتبہ ہے۔ اس کی مثال تو ایسی ہے جیسے کسی برتن کو اچھی طرح سے صاف کیا جاوے تا کہ اس میں اعلیٰ درجہ کا لطیف کھانا ڈالا جائے۔ اب اگر کسی برتن کو خوب صاف کر کے رکھ دیا جائے لیکن اس میں کھانا نہ ڈالا جائے تو کیا اس سے پیٹ بھر سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ کیا وہ خالی برتن طعام سے سیر کر دے گا؟ ہرگز نہیں۔ اسی طرح پر تقویٰ کو سمجھو۔ تقویٰ کیا ہے؟ نفسِ اَمَّارہ کے برتن کو صاف کرنا‘‘۔ (ملفوظات جلد 6 صفحہ 241تا 243۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پس برتن کو صاف کر کے اس میں پھر نیک اعمال کا کھانا بھرنا اور پھر اسے کھانا ہی وہ اصل بات ہے جو انسان کو خدا تعالیٰ کا قرب دلاتی ہے اور اس کی رضا حاصل کرنے والا بناتی ہے۔

بہت بڑی بڑی برائیوں میں سے ایک برائی اور گناہ جھوٹ ہے۔ اس سے بچنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ایک موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’مَیں نے غور کیا ہے قرآن شریف میں کئی ہزار حکم ہیں اُن کی پابندی نہیں کی جاتی۔ ادنیٰ ادنیٰ سی باتوں میں خلاف ورزی کر لی جاتی ہے۔ یہاں تک دیکھا جاتا ہے کہ بعض جھوٹ تو دکاندار بولتے ہیں اور بعض مصالحہ دار جھوٹ بولتے ہیں حالانکہ خدا تعالیٰ نے اس کو رِجْس کے ساتھ رکھا ہے۔ مگر بہت سے لوگ دیکھے ہیں کہ رنگ آمیزی کر کے حالات بیان کرنے سے نہیں رکتے اور اس کو کوئی گناہ بھی نہیں سمجھتے۔ ہنسی کے طور پر بھی جھوٹ بولتے ہیں۔ انسان صدّیق نہیں کہلا سکتا جب تک جھوٹ کے تمام شعبوں سے پرہیز نہ کرے۔‘‘ (ملفوظات جلد 5 صفحہ 120۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

ایک اعلیٰ خُلق پردہ پوشی ہے جو صرف خُلق ہی نہیں بلکہ اس سے انسان بہت سے جھگڑوں اور فسادوں سے بھی بچتا ہے اور دنیا کو بھی بچاتا ہے۔ چنانچہ اس بات کو بیان فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’مَیں دیکھتا ہوں کہ جماعت میں باہم نزاعیں بھی ہو جاتی ہیں اور معمولی نزاع سے پھر ایک دوسرے کی عزت پر حملہ کرنے لگتا ہے‘‘۔ (ذرا سی معمولی رنجشیں ہوتی ہیں اور پھر وہ بڑھتے بڑھتے اتنی ہو جاتی ہیں کہ ایک دوسرے کی عزت پر حملہ کرنے لگ جاتے ہیں ) ’’اور اپنے بھائی سے لڑتا ہے۔ یہ بہت ہی نامناسب حرکت ہے‘‘۔ فرمایا ’’یہ نہیں ہونا چاہئے۔ بلکہ ایک اگر اپنی غلطی کا اعتراف کر لے تو کیا حرج ہے۔‘‘ (دو لڑ رہے ہیں تو ایک صلح کرنے کے لئے مان لے۔) فرمایا ’’بعض آدمی ذرا ذرا سی بات پر دوسرے کی ذلّت کا اقرار کئے بغیر پیچھا نہیں چھوڑتے۔ ان باتوں سے پرہیز کرنا لازم ہے۔ خدا تعالیٰ کا نام ستّار ہے۔ پھر یہ کیوں اپنے بھائی پر رحم نہیں کرتا اور عفو اور پردہ پوشی سے کام نہیں لیتا۔ چاہئے کہ اپنے بھائی کی پردہ پوشی کرے اور اس کی عزت و آبرو پر حملہ نہ کرے۔‘‘ فرماتے ہیں ’’ایک چھوٹی سی کتاب میں لکھا دیکھا ہے کہ ایک بادشاہ قرآن لکھا کرتا تھا۔ ایک مُلّا نے کہا کہ یہ آیت غلط لکھی ہے۔ بادشاہ نے اُس وقت اُس آیت پر دائرہ کھینچ دیا کہ اس کو کاٹ دیا جائے گا۔ جب وہ چلا گیا تو اُس دائرے کو کاٹ دیا۔ جب بادشاہ سے پوچھا کہ ایسا کیوں کیا؟ تو اس نے کہا کہ دراصل وہ غلطی پر تھا۔‘‘ (جو مُلّا میری اصلاح کرنے آیا تھا وہ غلطی پر تھا۔) ’’مگر مَیں نے اُس وقت دائرہ کھینچ دیا کہ اس کی دلجوئی ہو جاوے۔‘‘ (اس کے دل میں شرمندگی نہ ہو کہ مَیں اس سے بحث کروں۔) فرماتے ہیں کہ ’’یہ بڑی رعونت کی جڑ اور بیماری ہے کہ دوسرے کی خطا پکڑ کر اشتہار دے دیا جاوے۔ ایسے امور سے نفس خراب ہو جاتا ہے۔ اس سے پرہیز کرنا چاہئے۔ غرض یہ سب امور تقویٰ میں د اخل ہیں اور اندرونی بیرونی امور میں تقویٰ سے کام لینے والا فرشتوں میں داخل کیا جاتا ہے کیونکہ اس میں کوئی سرکشی باقی نہیں رہ جاتی۔‘‘ فرماتے ہیں ’’تقویٰ حاصل کرو کیونکہ تقویٰ کے بعد ہی خدا تعالیٰ کی برکتیں آتی ہیں۔ متقی دنیا کی بلاؤں سے بچایا جاتا ہے۔ خدا اُن کا پردہ پوش ہو جاتا ہے۔ جب تک یہ طریق اختیار نہ کیا جاوے کچھ فائدہ نہیں۔ ایسے لوگ میری بیعت سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ فائدہ ہو بھی تو کس طرح جبکہ ایک ظلم تو اندر ہی رہا۔ اگر وہی جوش، رعونت، تکبر، عُجب، ریا کاری، سریع الغضب ہونا باقی ہے جو دوسروں میں بھی ہے تو پھر فرق ہی کیا ہے؟‘‘ فرماتے ہیں ’’سعید اگر ایک ہی ہو اور وہ سارے گاؤں میں ایک ہی ہو تو لوگ کرامت کی طرح اس سے متاثر ہوں گے۔ نیک انسان جو اللہ تعالیٰ سے ڈر کر نیکی اختیار کرتا ہے اس میں ایک ربّانی رُعب ہوتا ہے اور دلوں میں پڑ جاتا ہے کہ یہ باخدا ہے۔ یہ بالکل سچی بات ہے کہ جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے خدا تعالیٰ اپنی عظمت سے اس کو حصہ دیتا ہے اور یہی طریق نیک بختی کا ہے۔‘‘ فرمایا ’’پس یاد رکھو کہ چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھائیوں کو دکھ دینا ٹھیک نہیں ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جمیع اخلاق کے مُتمّم ہیں اور اِس وقت خداتعالیٰ نے آخری نمونہ آپؐ کے اخلاق کا قائم کیا ہے۔‘‘ (سارے جو دنیا کے اخلاق ہیں آپ پہ آکے ختم ہو گئے۔ فرمایا آپ نمونہ ہیں ہر ایک کے لئے۔) فرماتے ہیں ’’اِس وقت بھی اگر وہی درندگی رہی تو پھر سخت افسوس اور کم نصیبی ہے۔‘‘ (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کا دعویٰ ہے، آپ کے غلام کی بیعت کا دعویٰ ہے تو اپنے اخلاق کو بھی اعلیٰ کرنا ہو گا۔ اگر ہم پھر بھی اسی طرح رہیں گے، ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتے رہیں، درندگی رہے، ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے رہیں تو سخت افسوس ہے اور کم نصیبی ہے۔) فرمایا ’’پس دوسروں پر عیب نہ لگاؤ کیونکہ بعض اوقات انسان دوسرے پر عیب لگا کر خود اس میں گرفتار ہو جاتا ہے اگر وہ عیب اس میں نہیں۔ لیکن اگر وہ عیب سچ مچ اس میں ہے تو اس کا معاملہ پھر خدا تعالیٰ سے ہے۔‘‘ فرماتے ہیں کہ ’’بہت سے آدمیوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ اپنے بھائیوں پر معاً ناپاک الزام لگا دیتے ہیں۔ ان باتوں سے پرہیز کرو۔ بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچاؤ اور اپنے بھائیوں سے ہمدردی۔ اور ہمسایوں سے نیک سلوک کرو۔ اور اپنے بھائیوں سے نیک معاشرت کرو اور سب سے پہلے شرک سے بچو کہ یہ تقویٰ کی ابتدائی اینٹ ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 6 صفحہ 341 تا 344۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

اپنے بھائی کی غلطی کو دیکھ کر کیا طریق اختیار کرنا چاہئے؟ آپ اس کی مزید وضاحت فرماتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں: ’’صلاح، تقویٰ نیک بختی اور اخلاقی حالت کو درست کرنا چاہئے‘‘۔ فرماتے ہیں ’’مجھے اپنی جماعت کا یہ بڑا غم ہے کہ ابھی تک یہ لوگ آپس میں ذرا سی بات سے چِڑ جاتے ہیں۔ عام مجلس میں کسی کو احمق کہہ دینا بھی بڑی غلطی ہے۔ اگر اپنے کسی بھائی کی غلطی دیکھو تو اس کے لئے دعا کرو کہ خدا اُسے بچالے۔ یہ نہیں کہ منادی کرو۔ جب کسی کا بیٹا بدچلن ہو تو اس کو سرِدست کوئی ضائع نہیں کرتا بلکہ اندر ایک گوشہ میں سمجھاتا ہے کہ یہ برا کام ہے اس سے باز آ جا۔ پس جیسے رِفق، حِلم اور ملائمت سے اپنی اولاد سے معاملہ کرتے ہو، ویسے ہی آپس میں بھائیوں سے کرو۔ جس کے اخلاق اچھے نہیں ہیں مجھے اس کے ایمان کا خطرہ ہے کیونکہ اس میں تکبر کی ایک جڑ ہے۔ اگر خدا راضی نہ ہو تو گویا یہ برباد ہو گیا۔ پس جب اس کی اپنی اخلاقی حالت کا یہ حال ہے تو اسے دوسرے کو کہنے کا کیا حق ہے؟‘‘ آپ فرماتے ہیں کہ ’’خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ اِس کا یہی مطلب ہے کہ اپنے نفس کو فراموش کر کے دوسرے کے عیوب کو نہ دیکھتا رہے بلکہ چاہئے کہ اپنے عیوب کو دیکھے۔ چونکہ خود تو وہ پابند ان امور کا نہیں ہوتا اس لئے آخر کار لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَالَاتَفْعَلُوْنَ کا مصداق ہو جاتا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 6 صفحہ 368-369۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پھر مغلوب الغضب غلبے اور نصرت سے محروم ہو جاتے ہیں، مدد سے محروم ہو جاتے ہیں۔ جن کو غصہ آتا ہے ان کے بارے میں بیان کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ: ’’یاد رکھو جو شخص سختی کرتا اور غضب میں آ جاتا ہے اس کی زبان سے معارف اور حکمت کی باتیں ہرگز نہیں نکل سکتیں۔ وہ دل حکمت کی باتوں سے محروم کیا جاتا ہے جو اپنے مقابل کے سامنے جلدی طیش میں آ کر آپے سے باہر ہو جاتا ہے۔ گندہ دہن اور بے لگام کے ہونٹ لطائف کے چشمہ سے بے نصیب اور محروم کئے جاتے ہیں۔ غضب اور حکمت دونوں جمع نہیں ہو سکتے۔ جو مغلوب الغضب ہوتا ہے اس کی عقل موٹی اور فہم کُند ہوتا ہے۔‘‘ (غصہ میں آنے والے کی عقل ماری جاتی ہے۔) ’’اس کو کبھی کسی میدان میں غلبہ اور نصرت نہیں دئیے جاتے‘‘۔ فرماتے ہیں ’’غضب نصف جنون ہے۔ جب یہ زیادہ بھڑکتا ہے تو پورا جنون ہو سکتا ہے۔‘‘ فرماتے ہیں کہ ’’ہماری جماعت کو چاہئے کہ کُل ناکردنی افعال سے دُور رہا کریں۔ وہ شاخ جو اپنے تنے اور درخت سے سچا تعلق نہیں رکھتی وہ بے پھل رہ جاتی ہے۔ سو دیکھو اگر تم لوگ ہمارے اصل مقصد کو نہ سمجھو گے اور شرائط پر کاربندنہ ہو گے‘‘ (جن شرائط پر بیعت کی ہے) ’’تو ان وعدوں کے وارث تم کیسے بن سکتے ہو جو خدا تعالیٰ نے ہمیں دئیے ہیں۔ (ملفوظات جلد 5 صفحہ 126-127۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پس وعدوں کا حصہ بننے کے لئے، آپ کی دعاؤں سے فیض پانے کے لئے اگر کسی میں بری عادتیں ہیں تو ان حالتوں کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ یہاں بھی جلسے پر بہت سے لوگ اس لئے آتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعاؤں سے حصہ لیں۔ لیکن اگر عملی حالت ٹھیک نہیں ہے تو دعاؤں سے حصہ کس طرح ملے گا۔ یہ تو آپ نے خود ہی فرما دیا۔

غصہ کی بجائے کس قسم کی حالت ایک مومن کی ہونی چاہئے؟ اس بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ ’’ایسا نہ ہو کہ تمہارا اِس وقت کا غصہ کوئی خرابی پیدا کر دے جس سے سارا سلسلہ بدنام ہو یا کوئی مقدمہ بنے جس سے سب کو تشویش ہو۔‘‘ (یہاں بھی جلسے پہ لوگ آتے ہیں۔ بعض نوجوان لڑائیاں بھی کر لیتے ہیں۔ بعض پرانی رنجشوں کو لے کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس لئے جب یہ چیزیں باہر نکلتی ہیں تو سلسلہ بدنام ہوتا ہے۔ فرمایا کہ ’’سب نبیوں کو گالیاں دی گئی ہیں۔ یہ انبیاء کا ورثہ ہے۔ ہم اس سے کیونکر محروم رہ سکتے تھے۔‘‘ (ہمیں بھی لوگ گالیاں دیتے ہیں۔) ’’ایسے بن جاؤ کہ گویا مسلوب الغضب ہو۔ تم کو گویا غضب کے قویٰ ہی نہیں دئیے گئے۔‘‘ (اب یہ تو غیروں کے لئے فرمایاکہ غیر بھی تمہیں گالیاں دیتے ہیں تو تم نے اپنا غصہ دبانا ہے۔ لیکن آپس میں تو بالکل ہی یہ حالت نہیں ہونی چاہئے کہ ایک دوسرے پہ غصّے کا اظہار ہو رہا ہو۔) فرمایا کہ ’’دیکھو اگر کچھ بھی تاریکی کا حصہ ہے تو نُور نہیں آئے گا۔ نُور اور ظلمت جمع نہیں ہو سکتے۔ جب نُور آ جائے گا تو ظلمت نہیں رہے گی۔ تم اپنے سارے ہی قویٰ کو پورے طور سے اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری میں لگا دو۔ جو جو کمی کسی قوت میں ہو اسے اُس پان والے کی طرح جو گندے پان تلاش کر کے پھینک دیتا ہے اپنی گندی عادات کو نکال پھینکو اور سارے اعضاء کی اصلاح کر لو۔ یہ نہ ہو کہ نیکی کرو اور نیکی میں بدی ملا دو۔ توبہ کرتے رہو۔ استغفار کرو۔ دعا سے ہر وقت کام لو‘‘۔ (ملفوظات جلد 5 صفحہ 128۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

فرماتے ہیں کہ ’’ہمارے غالب آنے کے ہتھیار استغفار، توبہ، دینی علوم کی واقفیت، خدا تعالیٰ کی عظمت کو مدّنظر رکھنا اور پانچوں وقت کی نمازوں کو ادا کرنا ہیں۔ نماز دعا کی قبولیت کی کنجی ہے۔ جب نماز پڑھو تو اس میں دعا کرو اور غفلت نہ کرو اور ہر ایک بدی سے خواہ وہ حقوق الٰہی کے متعلق ہو، خواہ حقوق العباد کے متعلق ہو، بچو۔‘‘ (ملفوظات جلد 5صفحہ 303۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم ان معیاروں کو حاصل کرنے والے ہوں اور آپ کی بیعت میں آکر آپ کی بعثت کے مقصد کو سمجھنے والے اور اسے پورا کرنے کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتوں اور استعدادوں کو استعمال کرنے والے ہوں اور دنیا کو بھی اس حقیقت سے آگاہ کرنے والے ہوں۔ جلسہ کے دنوں میں اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ ادھر ادھر پھرنے کی بجائے جلسہ کے پروگراموں میں شامل ہوں۔ تمام تقریریں سنیں۔ ہر تقریر کسی نہ کسی رنگ میں علمی، اعتقادی اور روحانی ترقی کا ذریعہ بنتی ہے۔ شعبہ تربیت بھی اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کرے کہ بغیر کسی جائز وجہ کے لوگ اِدھر اُدھر پھرنے کی بجائے جلسہ گاہ میں بیٹھیں۔ جلسہ سننے کے لئے آئیں اور اس کی کوشش کریں۔ اسی طرح تمام شامل ہونے والے ڈیوٹی دینے والوں سے بھی مکمل تعاون کریں۔ پارکنگ میں بھی، سکیننگ کے وقت بھی بعض دفعہ لمبی لائنیں لگ جاتی ہیں۔ کھانے کے وقت بھی بعض دفعہ مشکلات پیش آتی ہیں۔ اسی طرح بیوت الخلاء میں بھی اور وہاں بھی اگر صفائی کی ضرورت ہو تو صفائی کا خود بھی خیال رکھیں۔ صرف یہ نہ دیکھیں کہ صفائی کرنے والے موجود ہیں تو صفائی کر دیں گے بلکہ خود صفائی کا خیال رکھنا چاہئے۔ صفائی بھی، نظافت بھی ایمان کا حصہ ہے۔ (صحیح مسلم کتاب الطھارۃ باب فضل الوضوء حدیث 534)

اسی طرح کارکنان بھی ہر جگہ جہاں بھی ڈیوٹی پر ہیں انتہائی خوش اخلاقی سے ہر ایک سے پیش آئیں۔ جو بھی حالات ہوں کسی کارکن اور کارکنہ کے اخلاق ایسے نہ ہوں جو غلط اثر ڈالنے والے ہوں۔ ہمیشہ مسکراتے ہوئے خدمت کریں چاہے جو بھی حالات گزر جائیں۔ خاص طور پر شامل ہونے والے بھی اور ڈیوٹی دینے والے بھی یہ خیال بھی رکھیں کہ انہوں نے اپنے ماحول پر بھی نظر رکھنی ہے اور گہری نظر رکھنی ہے اور یہ سیکیورٹی کے لئے بڑی ضروری چیز ہوتی ہے اور آجکل کے حالات میں یہ خاص طور پر بہت ضروری ہے۔ اور سب سے بڑھ کر ان دنوں میں دعاؤں اور ذکر الٰہی پر زیادہ زور دیں اس میں وقت گزاریں۔ اپنے لئے بھی دعائیں کریں۔ جماعت کے لئے بھی دعائیں کریں۔ مُسلم اُمّہ کے لئے دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو عقل دے اور یہ زمانے کے امام کو پہچاننے والی ہو۔ اور عمومی طور پر دنیا کے لئے بھی دعا کرتے رہیں کہ جس طرح یہ تباہی کی طرف جا رہی ہے اللہ تعالیٰ اس کو تباہی سے بچا لے اور عقل اور سمجھ دے اور یہ خدا تعالیٰ کی پہچان کرنے والے بن جائیں۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • پاؤر پوائنٹ PowerPoint
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 25؍ اگست 2017ء شہ سرخیاں

    ہم آج یہاں جلسہ میں شمولیت کے لئے جمع ہیں۔ جیسا کہ ہر احمدی جانتا ہے کہ ہمارا یہاں جلسہ کے لئے اکٹھا ہونا کسی دنیاوی ہاؤہُو، شورشرابے یا کسی دنیاوی مقصد کے لئے نہیں ہے بلکہ اس لئے ہے کہ یہاں کے پروگراموں میں شامل ہو کر ایک روحانی ماحول میں رہ کر اپنی روحانیت کو بڑھائیں۔ اپنی علمی استعدادوں کو بڑھائیں۔ اپنی اعتقادی حالت کو بہتر کریں۔ اپنی عملی حالتوں میں بہتری کریں۔ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کریں اور اللہ تعالیٰ کے حق اور اس کے بندوں کے حق ادا کریں۔

    (حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کے حوالہ سے بیعت کی غرض و غایت اور اس کے مخالف تقاضوں کا تذکرہ اور اس حوالے سے افراد جماعت کو نہایت اہم نصائح)

    جلسہ کے دنوں میں اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ ادھر ادھر پھرنے کی بجائے جلسہ کے پروگراموں میں شامل ہوں۔ تمام تقریریں سنیں۔ ہر تقریر کسی نہ کسی رنگ میں علمی، اعتقادی اور روحانی ترقی کا ذریعہ بنتی ہے۔

    تمام شامل ہونے والے ڈیوٹی دینے والوں سے بھی مکمل تعاون کریں۔ کارکنان بھی ہر جگہ جہاں بھی ڈیوٹی پر ہیں انتہائی خوش اخلاقی سے ہر ایک سے پیش آئیں۔

    فرمودہ مورخہ 25 اگست2017ء بمطابق25؍ظہور 1396 ہجری شمسی،  بمقامDM Arena کالسروئے (Karlsruhe)، جرمنی

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور