ایم ٹی اے انٹرنیشنل کی برکات: جلسہ سالانہ جرمنی ۲۰۱۷ء
خطبہ جمعہ یکم ستمبر 2017ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ایم ٹی اے کے ذریعہ سے دنیائے احمدیت کو اس طرح اکٹھا اور باخبر کر دیا ہے کہ اب خلیفۂ وقت کے دَوروں اور جماعتی پروگراموں اور خبروں کو سننے کے لئے لمبا انتظار اور جماعتی رسائل اور اخبارات کا انتظار نہیں کرنا پڑتا بلکہ ساتھ ہی ساتھ ہر خبر پہنچ رہی ہوتی ہے۔ ہر پروگرام دیکھا جا رہا ہوتا ہے۔ بلکہ جلسوں کی کارروائی اور ماحول کے بارے میں سننے والوں کی طرف سے بعض موقعوں پر فوری تبصرے اور جذبات کے اظہار پروگراموں کے دوران ہی ہو رہے ہوتے ہیں۔ بہرحال گزشتہ دنوں جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ جرمنی کا جلسہ ہوا۔ اس کے بارے میں بھی مجھے لوگوں نے لکھا اور اکثر مختلف جگہوں کے، ملکوں کے پروگراموں کے بارے میں بھی لوگ لکھتے رہتے ہیں۔ اور خاص طور پر جہاں مَیں جاؤں وہاں کے بارے میں لوگوں کا خاص اظہار رائے ہوتا ہے۔ مختلف قسم کے جذبات ہوتے ہیں۔ اور انسان اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے اور حمد کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ نعمت میسر فرما کر کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کو ایک وحدت بنا دیا ہے اور ایک لڑی میں پروئے جانے کے ظاہری نظارے کا خوبصورت سامان مہیا فرما دیا ہے۔ پس اس کے لئے ہمیں جہاں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے وہاں ایم ٹی اے کارکنان جن میں رضا کار کارکن بھی شامل ہیں اور کُل وقتی بھی ان کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہئے۔ یہ لوگ کیمروں کے پیچھے ہیں یا ٹرانسمشن میں بیٹھے ہوئے ہیں یا دوسرے کاموں میں مصروف ہیں۔ بہت سے کارکن ہیں جو ایک پروگرام بنانے اور بھیجنے کے لئے کام کر رہے ہوتے ہیں۔ بعض کارکن جب میں دورے پہ جاتا ہوں تو اپنے سامان اور اَپ لنک کرنے والا سامان لے کر یہاں سے بھی ساتھ جاتے ہیں۔ پھر جس ملک میں پروگرام ہو رہا ہوتا ہے اس کے رضا کار اور کارکن بھی شامل ہو جاتے ہیں۔ جرمنی میں بھی ان رضا کاروں اور مستقل کام کرنے والوں کی ٹیم ہے جو دلچسپی کے مختلف پروگرام پیش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے۔ اور لوگ خطوں میں یہی لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایم ٹی اے کے کارکنوں پر فضل فرمائے اور ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ اسی طرح مختلف شعبہ جات میں کام کرنے والے کارکن ہیں جو جلسہ پر رضاکارانہ طور پر خدمت کررہے ہوتے ہیں اور مہمانوں کی خدمت میں انہوں نے دن رات ایک کیا ہوتا ہے۔ یہ بھی اب ہزاروں کی تعداد میں بڑے ملکوں میں ہو گئے ہیں۔ جن میں مرد بھی ہیں اور عورتیں بھی ہیں۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں بھی ہیں اور بچے بچیاں بھی ہیں اور وہ ایک ایسی روح کے ساتھ کام کر رہے ہوتے ہیں جو صرف اس زمانے میں جماعت احمدیہ میں نظر آتی ہے جس کا نظارہ چند ہفتے پہلے ہم نے یہاں یوکے (UK) کے جلسہ سالانہ پر دیکھا تھا اور وہی نظارہ اب جرمنی کے جلسہ سالانہ پر دیکھا۔ پس مَیں جو ہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ تمام شامل ہونے والوں کو ان رضاکاروں کا شکریہ ادا کرنا چاہئے جو ایک جذبہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے بے نفس ہو کر کام کر رہے ہوتے ہیں اور انہی کارکنوں کے یہ عمل غیر احمدی مہمانوں یا غیرمسلم مہمانوں کے لئے خاموش تبلیغ کا ذریعہ بن رہے ہوتے ہیں۔ جلسہ کے پروگراموں میں جو ایم ٹی اے پر دکھائے جاتے ہیں اس کے بارے میں تو لوگ اپنے تبصرے بھیجتے رہتے ہیں۔ ان پروگراموں سے فائدہ بھی اٹھا رہے ہوتے ہیں اور لطف اندوز بھی ہو رہے ہوتے ہیں۔ لیکن جلسے پر آئے ہوئے غیروں کے تأثرات، احساسات اور کارکنوں کی خدمت پر جذبات کا اظہار تو نہ ہی جلسہ کے دنوں میں دکھایا اور بتایا جاتا ہے، نہ ہی یہ کسی طرح سے پتا چل سکتا ہے۔ یہ کارکنان جو علاوہ اپنی ڈیوٹیوں کے ایک خاموش مبلغ کا کام کر رہے ہوتے ہیں اس کا پتا نہ ہی ایم ٹی اے کی سکرین دے رہی ہوتی ہے، نہ ہی پروگرام پیش کرنے والے اس کا حق ادا کر سکتے ہیں۔ اسی طرح شاملین جلسہ بھی اپنے رویّے سے ایک اچھا اثر مہمانوں پرچھوڑ رہے ہوتے ہیں جس کا اظہار مہمان بعد میں کرتے ہیں۔ پس ضروری ہے کہ جلسہ سالانہ کے اثرات اور تأثرات کا یہ حصہ بھی لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے اور اس لئے مَیں یہ پیش کرتا ہوں تا کہ دنیا میں رہنے والے احمدیوں کو بھی پتا چلے کہ جلسہ کے اثرات کس طرح غیروں کے لئے غیر معمولی اثر کا باعث بنتے ہیں اور شامل ہونے والوں اور کارکنوں کو بھی پتا لگے کہ ان کے رویّے کس طرح خاموشی سے غیر از جماعت لوگوں کو اسلام کی خوبصورت تعلیم کے قریب لا رہے ہوتے ہیں۔ اس وقت مَیں اس حوالے سے مختلف ملکوں سے آئے ہوئے مہمانوں کے تأثرات پیش کروں گا تا کہ جلسہ کی برکات کا یہ حصہ بھی ہمارے سامنے آ جائے اور اللہ تعالیٰ کی مزید شکرگزاری کا موقع ملے اور اپنی حالتوں کو مزید بہتر کرنے کی طرف ہماری توجہ ہو۔
ایک عربی النسل مسلمان دوست خالد میاز (Khalid Myaz) صاحب جو ریڈ کراس تنظیم کے ساتھ کام کرتے ہیں وہ اس سال جرمنی جلسہ میں شامل ہوئے۔ وہ اپنے تأثرات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں جب اپنے غیر مسلم دوستوں کو اسلام پر اعتراض کرتے ہوئے سنتا تھا تو مسلمانوں کی باہمی منافرت اور جھگڑوں کی وجہ سے میں اسلام کا دفاع نہیں کر پاتا تھا۔ آج اس جلسہ میں آپ کی جماعت کے اجتماعی اور انفرادی امن و محبت اور باہمی یگانگت کو دیکھ کر اور آپ کے افراد میں خلیفہ کے لئے محبت اور اطاعت کا مشاہدہ کر کے میرا سر فخر سے بلند ہو گیا ہے کہ میں نے ایک ایسی جماعت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے جس کے افراد پُر امن ہیں، جن کا اجتماع منظم ہے۔ کہتے ہیں کہ اب میں اپنے غیر مسلم دوستوں کوآپ کی مثال بڑے اعتماد سے پیش کر کے ان کے اسلام پر اعتراضات کا دفاع کر سکتا ہوں۔ پھر ایک جرمن دوست مشائیل فیشر (Michael Fischer) صاحب جلسہ میں شامل ہوئے۔ کہتے ہیں کہ میں اس جلسہ میں شامل ہونے سے پہلے اخبار میں پڑھتا رہتا تھا کہ احمدی امن پسند لوگ ہیں لیکن میرے دل میں آتا تھا کہ امن کا دعویٰ تو اَور بھی بہت لوگ کرتے ہیں۔ اب یہاں آ کر میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے کہ امن کے دعوے اور عملی مطابقت کی گواہی صرف اس جلسہ میں ہی مل سکتی ہے جہاں لوگ پیار اور محبت سے خود بھی وقت گزار رہے ہیں اور آنے والے دیگر لوگوں کو بھی خوش آمدید کہہ رہے ہیں۔ اتنا بڑا اجتماع اور اتنا پُر امن ہے کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے ورنہ تو کہیں پانچ سو آدمی بھی اکٹھے ہوں تو لڑائی ہو جاتی ہے۔ کہتے ہیں کہ میں جلسہ میں شامل ہو کر اور آپ کے اس پرامن ماحول کو دیکھ کر آپ کے امن کے دعویٰ کی تصدیق کرتا ہوں۔ پھر ایک جرمن خاتون ماراسی اگالا (Maraczogalla) ہیں۔ جماعت کے ساتھ ان کا مستقل رابطہ ہے۔ جلسہ کے دوران انہوں نے بیعت کا پروگرام بھی دیکھا۔ وہ کہتی ہیں میرے سوال تو تقریباً سارے ایک ایک کر کے سارے حل ہو گئے ہیں۔ اب مجھے لگتا ہے کہ میں اب زیادہ دیر مہمان بن کر نہیں آؤں گی بلکہ اب میری خواہش ہے کہ میں خود بھی بیعت کر کے جماعت میں شامل ہو جاؤں۔ پھر ایک خاتون ماریہ جوزے (Maria Josey) ہیں۔ ان کا اصل تعلق جنوبی امریکہ سے ہے اور برلن میں طالب علم ہیں۔ پڑھنے کے لئے یہاں آئی ہوئی ہیں، وہ اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ میرا اس سے پہلے اسلام یا احمدیت سے کوئی تعارف نہیں تھا۔ پیراگوئے کے مربی سلسلہ کی بیگم کے ذریعہ مجھے جماعت کے بارے میں علم ہوا اور مجھے پتا لگا کہ جرمنی میں جماعت احمدیہ کا جلسہ ہوتا ہے۔ چنانچہ میں جلسہ میں شرکت کے لئے آ گئی۔ یہاں آ کر میں بہت حیران ہوئی کہ اتنی قوموں، نسلوں اور رنگوں کے لوگ ایسی یگانگت کے ساتھ رہ رہے ہیں اور ہر طرف امن اور سکون کی فضا ہے۔ سب لوگ مطمئن ہیں۔ کسی کو بھی کوئی خوف نہیں۔ میرے لئے ایسے پُرامن اجتماع میں شرکت ایک نیا تجربہ ہے اور میری خواہش ہے کہ میں برلن واپس جا کر جماعت احمدیہ کی مسجد سے رابطہ کروں اور اس جماعت کے ساتھ مزید تعلق مضبوط کروں۔ مجھے آپ لوگوں میں شامل ہو کر ایک دلی اطمینان ملا۔
پھر میسی ڈونیا کی ایک سوشل ویلفیئر کی تنظیم میں کام کرنے والی تین خواتین وہاں آئی ہوئی تھیں۔ ایک کہتی ہیں کہ وہاں میسی ڈونیا میں ہمارے ارد گرد بہت سے مسلمان رہتے ہیں مگر اسلام کی یہ قسم اور اس کا ایسا معاشرتی مظاہرہ ہمارے لئے بالکل غیر متوقع ثابت ہوا۔ ہم نے آپ کے افراد اور آپ کی تعلیمات اور آپ کی لیڈر شپ کو دیکھا ہے اور ہم اس احساس کے ساتھ واپس جائیں گی کہ وہاں کے مسلمانوں کو آپ کی جماعت کا تعارف کروا سکیں۔ کہتی ہیں کہ یہ جماعت اور اس کے جلسے دیگر مسلمانوں کے لئے نمونہ ہیں اور ایسی پرامن تعلیم اور ایسی منظم جماعت اس قابل ہے کہ بین الاقوامی سطح پر مسلمانوں کی نمائندگی کرے۔ کہتی ہیں اس دفعہ تو ہم کسی کی دعوت پر یہاں آئے ہیں مگر ہمیں امید ہے کہ آئندہ ہم مہمانوں کو ساتھ لے کر آئیں گی اور میسی ڈونیا جا کر ہم خود وہاں کے مسلمانوں کو آپ کی جماعت کا تعارف کرائیں گی۔ تو اس طرح اللہ تعالیٰ تبلیغ کے راستے کھولتا ہے۔
لیٹویا(Latvia) سے ایک عیسائی دوست مائیکولَس (Mykolas) صاحب آئے ہوئے تھے۔ طالبعلم ہیں اور مذاہب پر تحقیق میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مَیں مذہب میں گہری دلچسپی رکھتا ہوں اور اسی وجہ سے آپ کی جماعت کی تعلیمات کو میں نے پڑھا اور اب اس کا عملی اظہار دیکھ رہا ہوں۔ مجھے آپ کی تعلیمات اور آپ لوگوں کا طرز عمل مثبت اور پُرکشش لگتا ہے۔ میں نے جلسہ میں شامل ہونے والے لوگوں میں ایک روحانی لگن محسوس کی ہے۔
جلسہ میں شامل ہونے والے احمدیوں کا اب ہمیشہ یہ کام ہے کہ یہ لوگ جو روحانی لگن محسوس کرتے ہیں یہ ہم میں جلسہ کے دنوں کی لگن نہ ہو، عارضی نہ ہو بلکہ مستقل رہنے والی لگن ہو۔
لیٹویا سے ایک جرنلسٹ خاتون آگسٹین (Augustine) صاحبہ نے اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ میں گزشتہ چھ ماہ سے اسلام کے مختلف فرقوں پر ایک پراجیکٹ پر کام کر رہی ہوں۔ اس سلسلہ میں میں استنبول بھی گئی اور وہاں مختلف اسلامی فرقوں سے ملی ہوں لیکن یہاں امام جماعت احمدیہ کو دیکھ کر میرے دل کی جو کیفیت ہوئی اس کو بیان کرنے کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ میں نے ان سے ملاقات کے دوران پوچھا (انہوں نے مجھ سے سوال کیا تھا) کہ اس وقت مُلّائیت اور انتہا پسندی کا کیا علاج ہے؟ تو انہوں نے یہ کہہ کر دو لفظوں میں ہی اس مشکل سوال کا مکمل جواب دے دیا کہ مسائل کا واحد حل یہ ہے کہ صحیح تعلیم و تربیت اور اسلام کی صحیح تعلیم دی جائے۔ کہتی ہیں کہ واقعی ان مسائل کا حل صحیح تعلیم ہی ہے اور اس زمانے میں ہمیں اس صحیح تعلیم کا اِدراک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق نے دیا ہے اور ہمیں یہ تعلیم بتائی ہے۔
پس ہر احمدی کو غیروں کے اس تأثر پر صرف فخر ہی نہیں کرنا چاہئے بلکہ ہمیں ہر وقت اپنی عملی حالتوں کی بہتری کے لئے کوشش کرتے رہنا چاہئے۔
لیٹویا سے قرطبہ یونیورسٹی کی پروفیسر لولی ڈیاس (Lolly Diaz) صاحبہ نے جلسہ میں شامل ہو کر اپنے تأثرات بیان کرتے ہوئے لکھا کہ میں زندگی میں پہلی بار مسلمانوں کے اتنے بڑے جلسہ میں شامل ہوئی ہوں۔ میں نے امام جماعت احمدیہ کو پہلی مرتبہ جب قریب سے دیکھا تو میرے لئے ایک عجیب تجربہ تھا۔ اس کی کیفیت مجھے زندگی بھر یاد رہے گی۔ میرے جذبات اور میرے الفاظ میرے جذبات کا ساتھ نہیں دیتے۔ میرا یقین ہے کہ جماعت اور اس جماعت کے خلیفہ دیگر مسلمانوں سے بالکل مختلف ہیں اور میں اس فرق کو اپنی روح میں محسوس کرتی ہوں۔ ہر احمدی نے ان پر ایک اثر ڈالا جو وہاں شامل ہوا۔
اس سال بوسنیا سے چھیالیس افراد کا وفد جلسہ میں شامل ہوا۔ ان میں اٹھارہ احمدی تھے اور باقی تقریباً اٹھائیس زیر تبلیغ تھے۔ ایک مہمان یاسمین صاحبہ جو ایک این جی او(NGO) کی صدر بھی ہیں ان کا کچھ عرصہ پہلے جماعت سے تعارف ہوا اور جلسہ میں شامل ہوئیں۔ اپنی کار میں یہ خود ہی بارہ سو کلومیٹر سفر طے کر کے آئیں۔ کہتی ہیں کہ جلسہ کے اتنے بڑے انتظام کو دیکھ کر مجھے حیرانی ہوئی کہ یہ کس قسم کے لوگ ہیں۔ جلسہ کے تمام انتظامات میں مجھے کہیں بھی نقص نظر نہیں آیا۔
پس یہ کارکنوں کی خدمت کا اثر ہے جو غیروں کو متاثر کئے بغیر نہیں رہتا۔
پھر ایک مہمان نجاد صاحب بوسنیا کی رومَن کمیونٹی کے ایک معروف مشہور سیاستدان ہیں۔ دانشور کے طور پر جانے جاتے ہیں اور شہر ٹوزلا (Tuzla) کے کونسلر بھی ہیں۔ کہتے ہیں جلسہ کے تمام انتظامات بہت ہی احسن رنگ میں سرانجام دئیے گئے۔ میں نے اس سے قبل کبھی اس قسم کے پروگرام میں شرکت نہیں کی تھی۔ یہ جلسہ میرے لئے مختلف جہت سے سبق آموز تھا۔ کارکنان کا اخلاص دیکھ کر میں یہی سمجھا کہ یہ لوگ ایمان میں بہت مضبوط ہیں اور ان کے قول اور عمل میں مطابقت ہی ان کی ترقی کا راز ہے اور ان لوگوں میں اس حالت کو پیدا کرنے کی وجہ ان کی خلافت سے وابستگی ہے۔
پس جب یہ لوگ شامل ہوتے ہیں تو خلافت کا ان کے ذہنوں میں جو غلط تصور ہے اور جس کا خوف ہے وہ بھی دُور ہوتا ہے۔ پس ہر احمدی کو، ہر کارکن کو چاہئے کہ ان تأثرات کو ہمیشہ قائم رکھیں اور اس کی حفاظت بھی کریں۔ ایک غیر از جماعت دوست ماہر صاحب اپنی اہلیہ کے ساتھ اپنے ذاتی خرچ پر جلسہ میں شامل ہوئے۔ کہتے ہیں کہ جس طرح سے یہاں مہمانوں کا خیال رکھا جاتا ہے اور جس محبت سے لوگ پیش آتے ہیں میں حقیقت میں کہتا ہوں کہ اگر یہ لوگ ہمیں زمین پر سونے کے لئے کہیں اور کھانے کو صرف سوکھی روٹی ہی کیوں نہ دیں ہمیں ان سے کوئی شکایت نہیں ہو گی کیونکہ ہمیں جو پیار اور محبت یہاں سے ملا ہے اس کی دنیا میں کوئی نظیر نہیں۔ پھر بوسنیا سے ایک مہمان دیانا صاحبہ بھی جلسہ میں شامل ہوئیں۔ پیشہ کے لحاظ سے نرس ہیں اور جماعت کے ساتھ، کسی فیملی کے ساتھ ان کے فیملی تعلقات ہیں۔ شوہر اور بیٹے کے ساتھ بوسنیا میں جماعتی پروگراموں میں شامل ہوتی ہیں۔ بڑا تعاون بھی کرتی ہیں۔ یہ اپنے شوہر کے ساتھ اور والدین کے ساتھ اپنے سفر کے اخراجات خود برداشت کر کے یہاں آئیں۔ کہتی ہیں کہ جلسہ کے تمام انتظامات بہت احسن رنگ میں سرانجام دئیے گئے۔ ان مخلص کارکنان کو دیکھ کر ہمیں خود شرم آتی تھی کہ یہ لوگ ہمارے لئے اس قدر تکلیف برداشت کر رہے ہیں۔ پھر جلسہ میں شامل ہونے والے ایک مہمان امیر صاحب جو پہلی دفعہ جلسہ میں شامل ہوئے۔ ان پر جلسہ کے ماحول نے بڑا مثبت اثر چھوڑا۔ کہتے ہیں کہ میں نے واپس جا کر یہی پیغام دینا ہے کہ یہ جلسہ دیکھ کر میں اپنے دل کی کیفیت کو بیان نہیں کر سکتا۔ ان باتوں کو صرف محسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ اس لئے ہر ایک کو چاہئے کہ اس جنت نما معاشرے میں چند دن گزارے تا کہ اس کو حقیقی جنت کے بارے میں ایک یقین پیدا ہو جائے۔
ہم میں سے وہ لوگ جو بعض مسائل کھڑے کرنے والے ہیں، آپس میں لڑائیاں رنجشیں پیدا کرنے والے ہیں ان لوگوں کو ان لوگوں کے تأثرات اور تبصرے سن کر شرم آنی چاہئے اور ان کو ہمیشہ ایک دوسرے سے محبت اور پیار سے پیش آنا چاہئے۔
اس سال بلغاریہ سے بھی 52 افراد پر مشتمل وفدنے جلسہ جرمنی میں شرکت کی۔ اس میں سے بیس احمدی افراد تھے۔ بتیس غیر احمدی مہمان تھے۔ اور بس کے ذریعہ تقریباً تیس گھنٹے کا سفر کر کے جرمنی پہنچے۔ اس وفد میں بزنس مَیں بھی تھے، وکلاء بھی تھے، لیکچرر بھی تھے، طلباء بھی تھے اور عام طبقہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شامل تھے۔ ایک خاتون ایسی نوواس (Acenova) کہتی ہیں کہ میں پہلی دفعہ جلسہ میں شامل ہوئی ہوں۔ بلغاریہ کے احمدیوں سے جلسہ کے بارے میں بہت سنا تھا۔ وہاں کئی قوموں کے لوگ ایک جگہ جمع تھے۔ اس جلسہ میں ہر ایک دوسرے سے عزت اور محبت سے مل رہا تھا۔ انسان اگر اپنی زندگی تبدیل کرنا چاہے تو جلسہ پر آئے۔ میں نے یہاں سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ دو چیزوں کا ذکر ضرور کرنا چاہتی ہوں۔ ایک تو یہاں اللہ سے محبت سکھائی جاتی ہے۔ دوسرے لوگوں میں ایک دوسرے سے محبت اور عزت سکھائی جاتی ہے۔
بلغاریہ بھی وہ ملک ہے جہاں جماعت کی رجسٹریشن منسوخ کی گئی ہے اور وہاں کے جو غیر احمدی علماء ہیں ان کی طرف سے مخالفت انتہا پہ پہنچی ہوئی ہے اور جس کی وجہ سے حکومت بھی ان کے زیر اثر ہے۔ اس لئے بلغاریہ کی جماعت کے لئے بھی دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ وہاں بھی حالات بہتر کرے اور جماعت کی دوبارہ رجسٹریشن بحال ہو جائے اور کھل کے تبلیغ کرنے اور جماعت کی ایکٹویٹیز(activities) کو سرانجام دینے کی اللہ تعالیٰ ہمیں دوبارہ توفیق عطا فرمائے۔
بلغارین وفد کے ایک مہمان ففکو اینو (Pyifko Anev) صاحب کہتے ہیں کہ میں پہلی دفعہ ایسے بابرکت جلسہ میں شامل ہوا۔ الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔ یہاں میں نے یہ سیکھا ہے کہ صرف احمدی لوگ ایسے ہیں جو واقعی امن سکھاتے ہیں۔ عزت کرتے ہیں اور دنیا کو جنت بنانا چاہتے ہیں۔ یہاں واقعی زندگی کا نور ملتا ہے۔ ایسی روشنی جو انسان کو زندگی عطا کرتی ہے۔ میں تو اب ساری زندگی تمام لوگوں کو بتاؤں گا کہ اصل اسلام احمدیت ہے جو دنیا میں امن کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ کہتے ہیں اپنے لئے دعا کی درخواست کرتا ہوں۔ پھر اس وفد کے ایک مہمان ڈی میروف (Pdemirov) صاحب کہتے ہیں کہ جو آپ کا خطاب تھا اس نے بہت متأثر کیا۔ اس میں انسان سے محبت کا ذکر تھا۔ اسی طرح کہتے ہیں بچے جب پانی پلاتے تھے اور بہت محبت سے بولتے تھے تو مجھے بہت اچھا لگتا تھا۔ جس قوم کے بچے ایسے ہوں اس کا مستقبل محفوظ ہے۔
پھر ایک عیسائی خاتون ڈسسلایا (Desislaya) صاحبہ جو سائیکالوجی کی لیکچرر ہیں، کہتی ہیں کہ میں پہلی دفعہ جلسہ میں شامل ہوئی۔ یہ جلسہ تو ایک معجزہ ہے۔ یہاں محبت، امن، عزت ملتی ہے۔ مَیں نے کوئی جھگڑا نہیں دیکھا۔ ہر کوئی ایک دوسرے کی خدمت کر رہا تھا۔ مسکراتے چہروں سے ملتے تھے۔ میں پرہیزی کھانا کھاتی ہوں۔ ہزاروں لوگوں میں مجھے پرہیزی کھانا دیا جاتا رہا۔ بیمار ہوئی تو فوراً دوائیاں دی گئیں۔ کوئی وی آئی پی نہ تھا۔ سب برابر تھے۔ پھر خطبہ جمعہ نے مجھے بڑا متأثر کیا۔ انسان سے محبت، پردہ پوشی، ایک دوسرے کی مدد کرنا، ایک دوسرے کی غلطیوں کا اظہار دوسروں کے سامنے نہ کرنا بلکہ اس کے لئے دعا کرنا یہ تعلیمات جو آپ نے بیان فرمائی ہیں میں سوچتی رہی کہ کاش آج ساری دنیا آپ کی آواز سنے۔ اگر دنیا سیدھے راستے پر آنا چاہتی ہے تو اسے ان آوازوں کو سننا ہو گا اور آپ کی تعلیمات کو ماننا ہو گا۔
گنی بساؤ سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان ابوبکر صاحب، پرتگال میں پبلک سیکیورٹی میں ماسٹر کر رہے ہیں۔ یونیورسٹی میں پڑھائی کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ سیکیورٹی کے جو انتظامات میں نے جلسہ کے موقع پر دیکھے ہیں وہ بہت ہی منفرد تھے۔ چالیس لاکھ کے مجمع کو سنبھالنا اور وہ بھی پولیس کی مدد کے بغیر یہ ان کے لئے ایک غیر معمولی بات ہے۔ اتنے بڑے مجمع کو سنبھالنا تو ایک اسٹیٹ کے لئے بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ لڑائی جھگڑے اور دنگا فساد کا کوئی نہ کوئی واقعہ ہو جاتا ہے۔ یہاں مجھے جلسہ کے دوران پولیس کا کوئی شخص دکھائی نہیں دیا۔ اس کے باوجود کسی کو لڑتے نہیں دیکھا بلکہ تمام لوگ پیار، محبت اور اخوّت کے جذبہ سے سرشار نظر آئے۔ اس بات نے میرے دل پر بہت اثر کیا ہے۔
اب دوسرا ملک میسی ڈونیا آ گیا۔ یہاں کے 65 افراد پر مشتمل وفد جلسہ میں شامل ہوا۔ ان میں بڑی تعداد میسی ڈونیا سے جرمنی تک تقریباً دو ہزار کلو میٹر کا سفر بذریعہ بس بیالیس گھنٹے میں مکمل کر کے پہنچی۔ ان میں چار مختلف ٹیلیویژن کے پانچ صحافی بھی تھے۔ تین مختلف علاقائی ٹیلی ویژن کے نمائندے تھے۔ ایک نیشنل ٹیلی ویژن کے صحافی تھے۔ صحافیوں نے جلسہ سالانہ کے دوران ریکارڈنگ بھی کی۔ مختلف لوگوں سے انٹرویو بھی لیتے رہے اور 28 کو ان کی میرے سے ملاقات بھی تھی۔ کہتے ہیں یہ جو ریکارڈنگ ہم نے کی ہے، یہ ساری اور ملاقات وغیرہ کی ہم ڈاکیومینٹری بنائیں گے اور دکھائیں گے۔ اس میں بتیس عیسائی دوست تھے۔ تیئس احمدی اور دس غیر احمدی دوست تھے۔ ان میں سے ایک نے آخری دن بیعت بھی کر لی تھی۔
میسی ڈونیا کے شہر بریوو (Beravo) سے آئی ہوئی مہمان بیلاگِستا ٹرینچوسکا (Blagica Trencouska) جو پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں، کہتی ہیں کہ میں اس جلسہ میں پہلی بار شامل ہوئی ہوں۔ تمام انتظامات زبردست تھے۔ کوئی کمی نہ تھی۔ اور مجھے کہتی ہیں کہ تقریروں نے مجھ پر بڑا گہرا اثر چھوڑا ہے۔ مجھے اس تقریر سے پتا چلا ہے کہ اسلام کا اصل مطلب امن ہے نہ کہ جنگ۔ دراصل اسلام لوگوں کو زندگی کے اہم اور بنیادی امور سکھاتا ہے کہ کس طرح ایک صحت مند معاشرے کا قیام عمل میں لایا جا سکتا ہے۔ اسلام ہر حال میں یہ سکھاتا ہے کہ نیکی کی جیت ہو اور برائی ہار جائے۔ اور کہتی ہیں بہرحال یہی تعلیم ہے اگر ہم اس پر عمل کریں تو دنیا پھر جنگ کے بغیر امن اور محبت کا گہوارہ بن جائے۔
پھر یہ کہتی ہیں کہ آپ نے جو عورتوں کے حقوق پر بات کی اس میں بھی مَیں سمجھتی ہوں کہ یہ بڑی اچھی تعلیم ہے۔ عورت بچوں کی تعلیم و تربیت کے معاملہ میں ذمہ دار ہے اور اس کا کردار اس معاملے میں اہم ہے۔ انہوں نے اپنے الفاظ میں اس تقریر کو، عورتوں کے حقوق کو اس طرح بیان کیا کہ کہتی ہیں۔ مَیں تو خلاصۃً کہوں گی کہ آپ نے یہی کہا تھا کہ عورت گھونسلے کا خیال رکھنے والی ہے اور خاوند گھونسلے کی حفاظت کرنے والا۔ میں سمجھتی ہوں کہ خاوند فیملی کا ہیڈ ہے اور عورت گردن دونوں ایک دوسرے کے بغیر قائم نہیں رہ سکتے۔ پھر کہتی ہیں کہ بیعت نے بھی مجھ پر بڑا گہرا اثر چھوڑا ہے۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے وقت تھم گیا ہو۔ ہر طرف لوگ ہی لوگ تھے جو ان لمحات سے محروم نہیں ہونا چاہتے تھے۔ تمام راستے ایک ہی سمت کی طرف جا رہے تھے جہاں امام جماعت احمدیہ تھے۔ اس وقت جلسہ گاہ سے باہر ایسے تھا جیسے صحرا ہو۔ کوئی بھی باہر موجودنہ تھا۔
لیکن مجھے بعض شکایات بھی ہیں۔ جرمنی والوں کو اس بات پہ خوش نہیں ہو جانا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے پردہ پوشی فرمائی ہے لیکن شعبہ تربیت کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ آئندہ حقیقت میں ہی صحرا ہو کیونکہ ایسی شکایات ملی ہیں کہ لوگ جلسہ کے دوران باہر پھر رہے تھے اور ایم ٹی اے والے بھی ان کو دکھاتے رہے۔ یہ تو ایک اچھی بات ہے کہ حقیقت دکھا دی لیکن جلسہ کی کارروائی کے دوران جلسہ کی طرف زیادہ فوکس ہونا چاہئے۔ اس ایم ٹی اے کی وجہ سے ہی کم از کم بہت سے لوگوں کو پتا لگ گیا ہے کہ کیا خامی تھی۔
کہتی ہیں کہ میں نے جلسہ کے دوران اپنے اسلام کے بارے میں علم کو بہت وسیع کیا۔ ہو سکتا ہے الفاظ تو مٹ جائیں لیکن اب جو اسلام کی تصویر بن چکی ہے یہ ہمیشہ قائم رہے گی۔
میسی ڈونیا سے آنے والی ایک مہمان خاتون ٹی وی کی صحافی ہیں۔ یہ کہتی ہیں کہ جلسہ نے مجھ پر اسلام کی نئی سمتوں کی طرف رہنمائی کی ہے۔ کبھی ایسا وقت بھی تھا کہ گویا لفظ اسلام مجھ پر حرام تھا۔ اب مجھے اسلام کا نیا تعارف حاصل ہوا ہے۔ میں بطور صحافی یہ نیا تجربہ حاصل کرنے پر آپ کی مشکور ہوں۔ یہ تأثرات میں اپنے ساتھ میسی ڈونیا لے کر جا رہی ہوں۔ میرے سے ملاقات بھی تھی۔ کہتی ہیں اس ملاقات نے بھی مجھ پر بڑا مثبت اثر ڈالا۔ اور پھر کہتی ہیں آپ کی یہ بات صحیح ہے کہ اگر اسلام کو سمجھنا ہے تو قرآن کریم سے براہ راست سیکھنا چاہئے۔ حقیقی اسلام کو ایسے ریڈیکل(Radical) اسلام کے ساتھ نہیں ملانا چاہئے جس کا آجکل بعض لوگوں کی طرف سے اظہار ہوتا ہے۔ کہتی ہیں: آخر میں یہ کہنا چاہوں گی کہ میں امام جماعت احمدیہ کے تمام جوابات سے مطمئن تھی اور آپ نے مجھے نئی سمتوں کی طرف رہنمائی کی۔ نئے افق کی طرف رہنمائی کی ہے اور میں نے اب اسلام کی اصل تصویر دیکھی ہے۔
پھر میسی ڈونیا سے ٹی وی کے ایک صحافی صالے رِسٹیسکی (Cale Ristekski) صاحب تھے۔ یہ کہتے ہیں کہ میں اس طرح کی میٹنگ میں پہلی بار شامل ہوا ہوں۔ یہ سب کچھ میرے لئے نیا تھا۔ میں نے مسلمانوں کے بارے میں بہت کچھ سیکھا ہے۔ جلسہ پر کام کرنے والے تھکے ہوئے نہیں لگ رہے تھے۔ کارکنوں کی حالت ان کے لئے بڑی عجیب تھی تھکے ہوئے نہیں لگ رہے تھے۔ کہتے ہیں یہ بات میرے لئے بہت تعجب انگیز تھی کہ اتنے زیادہ افراد ایک جگہ پر تھے اور ہر کوئی اپنا کام کر رہا تھا اور کسی کو کوئی مسئلہ نہ تھا۔ مجھے اس بات سے خوشی ہے کہ میں ان لوگوں میں موجود رہا۔ ان میں سے بعض میرے دوست بن گئے اور دوست تو دولت ہوتے ہیں۔ اس جلسہ کے بعد میں اپنے آپ کو امیر سمجھنے لگا ہوں۔ پھر میسی ڈونیا سے آنے والی ایک مہمان رَودنے دِے اَولَسْکَا (Rodne Deolska) جو ٹی وی کی صحافی ہیں، کہتی ہیں کہ جلسہ میرے لئے بطور صحافی ایک نیا تجربہ تھا۔ صحافیوں کے لئے عالمی طور پر کوئی نیا واقعہ یا بات اہم ہوتی ہے۔ میں اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتی ہوں کہ میں نے اس جلسہ کو براہ راست دیکھا اور اس سے تعارف حاصل کیا۔ جلسہ کے تمام انتظامات نے مجھ پر خاص اثر ڈالا۔ اس جلسہ سے میں نے اسلام کے بارے میں کئی باتیں سیکھی ہیں۔ میں نے ان لوگوں کے انٹرویو لئے جنہوں نے اسلام قبول کیا ہے۔ جب میں میسی ڈونیا واپس جاؤں گی تو اس تمام ریکارڈنگ سے ایک ڈاکیومینٹری بناؤں گی اور یہ پیغام میسی ڈونین قوم تک پہنچاؤں گی۔
لتھوینیا سے تعلق رکھنے والے ایک مہمان آوگوستی (Augustinas Sulija) صاحب کہتے ہیں کہ مجھے ایسا لگا جیسے میں اپنے گھر پر موجود ہوں۔ آپ کی جماعت دنیا کے مختلف علاقوں سے یہاں مختصر وقت کے لئے اکٹھی ہوئی ہے اور ہر طرف وقف کی ایک روح دکھائی دیتی ہے۔ میرے جیسے اجنبی کے لئے بہت حیران کن ہے۔ یہ بالکل کوئی نئی دنیا ہے۔ میں اس بات پر بہت خوش ہوں کہ مجھے تہذیب و تمدن اور مذہب، پہچان، کھانے پینے اور مختلف روایات جیسی بہت سی چیزوں کو دیکھنے کا موقع ملا۔ آپ لوگوں کا احمدی ہونے کے ناطے ہر روز ایک عظیم مقصد کے لئے مشکلات کا مقابلہ کرنا اور پھر کوشش کرنا قابل تحسین ہے۔ آپ کے خیالات بالکل درست ہیں۔ اقدار درست ہیں۔ ان میں عالمگیریت پائی جاتی ہے۔
لتھوینیا سے آنے والے ایک مہمان بیان کرتے ہیں کہ جماعت کو اتنا قریب سے دیکھنا میرے لئے خوشی کا موجب ہے کیونکہ اس سے قبل مجھے مسلمانوں کے بارے میں کچھ پتا نہیں تھا۔ اس جلسہ سے مجھے بہت کچھ سیکھنے کو ملا ہے اور اب میں ایک بہترین انسان کے طور پر زندگی گزار سکوں گا۔ اس مذہب کی تعلیمات ایک اچھا انسان بننے میں میری ممد و معاون ثابت ہوں گی۔ میرے ساتھ یہاں بہت اچھا برتاؤ کیا گیا ہے۔ کہتے ہیں مجھے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے میں ہی ایک مہمان ہوں اور ہر ایک آدمی میرے آرام کا خیال رکھ رہا تھا۔ میں اس بات کو بہت سراہتا ہوں۔ پس غیروں کو بھی (جلسہ میں ) شامل ہو کر اپنے اندر ایک تبدیلی محسوس ہوتی ہے تو ہم جن کے لئے یہ جلسوں کا انعقاد کیا جاتا ہے ان کو کس حد تک کوشش کر کے اپنے آپ میں تبدیلیاں پیدا کرنی چاہئیں۔ پھر لتھوینیا سے آنے والی ایک مہمان مسز انگریدا (Ingrida) کہتی ہیں کہ اس پروگرام میں میری پہلی شرکت ہے لیکن اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی شمولیت میرے لئے حیرت کا باعث ہے۔ یہاں بہت سے مذہب اور تہذیبوں کے لوگ جمع تھے اور سب کے سب ایک دوسرے کی مدد کرنے والے تھے۔ دوسرا اس پروگرام کا خوبصورت انتظام بھی حیران کُن اور متاثر کُن تھا۔ اور تقاریر سن کر اور خلیفہ سے ملاقات کر کے میرا جماعت کے بارے میں جاننے کا اشتیاق اور بڑھ گیا ہے۔ میں آپ کی کتب ضرور پڑھوں گی کیونکہ امام جماعت احمدیہ کے خطابات سے اس بات کا اندازہ ہوا ہے کہ جو باتیں بتائی گئی ہیں وہ عقل کے قریب ہیں۔ میرا یہ تجربہ اچھا رہا ہے اور اب میں اگلے سال کے جلسہ کا انتظار کروں گی۔
لیکن ایک تجویز بھی انہوں نے جرمنی والوں کو دی ہے۔ کہتی ہیں کہ میرے خیال میں وقفوں کے دوران بھی جو مختلف نمائشیں اور پروگرامز منعقد ہوتے ہیں ان میں شمولیت کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات فراہم کر کے بہتری لائی جا سکتی ہے تا کہ لوگ زیادہ شامل ہوں۔ اسی طرح کوسووو (Kosovo) سے بھی اٹھارہ افراد کا وفد آیا تھا جس میں ایک غیر از جماعت اور باقی سترہ احمدی تھے۔
اسٹونیا سے ایک مہمان لورا (Laura) صاحبہ کہتی ہیں کہ میں جلسہ سالانہ کے انتظام سے نہایت متاثر ہوئی۔ ایسا لگتا تھا کہ انتظامیہ نے ہر قسم کی صورتحال کے لئے پہلے سے سب کچھ سوچ رکھا تھا۔ ہر قسم کی ضرورت اور مسائل کا حل موجودتھا۔ ایک مہمان کے طور پر میری عزت بھی کی گئی اور میرا ہر طرح سے خیال بھی رکھا گیا۔ میں نے جلسہ سالانہ کے عمومی ماحول کو بہت عمدہ پایا۔ شاملین جلسہ پُرامن، دوستانہ اور مدد کرنے والے تھے۔ مجھے اس بات کی بہت خوشی ہے کہ میری بہت سے اچھے لوگوں سے ملاقات ہوئی جو کہ جماعت کے بارے میں اپنے تجربات پُرجوش طریقے سے بتاتے رہے۔ میں نے جلسہ کی تقاریر سنیں اور بالخصوص امام جماعت احمدیہ کے خطابات سے خوب حظ اٹھایا جو کہ موجودہ حالات کے بارے میں تھے۔ ان خطابات کا پیغام نہایت واضح تھا۔ ان میں نئے خیالات تھے اور نئی سمجھ تھی جو مَیں اپنے ساتھ واپس لے کر جاؤں گی۔ امام جماعت احمدیہ کا اختتامی خطاب بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے اور اس کا مجھ پر ایک خاص اثر ہے۔ یہ واقعی دل کو چُھونے والا تجربہ تھا۔
البانیہ سے اڑتالیس افراد پر مشتمل وفد شامل ہوا۔ 19 احمدی تھے اور 29 غیر احمدی البانین تھے۔ 43 گھنٹوں کا سفر طے کر کے یہ پہنچے تھے۔ ان میں حکومت کی طرف سے بھی دو نمائندگان آئے تھے۔ ایک ان میں سے چیئرمین آف سٹیٹ کمیٹی آن کلٹس (Chairman of State Committee on Cults) تھیں۔ پھر اسی طرح ہنگری سے بیس افراد کا وفد جلسہ میں شامل ہوا۔ گیارہ احمدی افراد تھے۔ نو دیگر مہمان تھے۔ ایک مہمان آگیاآیاس (Agekjan Ajasztan) صاحبہ کہتی ہیں۔ ان کا اصل وطن آرمینیا ہے۔ ہنگری میں اپنے شہر گیور (Gyor) میں خاصی مقبول سماجی شخصیت ہیں۔ ہنگری میں موجود آرمینین مائنوریٹی (Arminian Minority) کی کیبنٹ (Cabnet) کی ترجمان ہیں۔ ہنگری کے مبلغ کہتے ہیں: ایک شام جلسہ کے اختتام پر خود ہی کہنے لگی کہ اتنے ہزاروں مسلمان مَردوں کے درمیان بلا خوف پھر رہی ہوں۔ یہاں تو ہر شخص ہی مہذب، شائستہ اور نظم و ضبط کا پابند اور عورتوں کا احترام کرنے والا ہے۔ میڈیا جو کہتا ہے کہ مہاجرین خاص کر مسلمان غیر مہذب اور عورتوں سے نامناسب سلوک کرنے والے ہیں ان کو یہاں آ کر دیکھنا چاہئے کہ یہ مسلمان قوم کیسی سلیقہ شعار ہے۔ کہتی ہیں کہ چھوٹا سا بچہ میرے پاس آیا اس نے مجھ سے پوچھا نہیں کہ تم کون ہو یا کہاں سے آئی ہو بلکہ بڑے پیار سے میرے سامنے پانی کا گلاس کر دیا۔ جب میں نے پانی پی لیا تو ایک اور بچہ پیچھے سے آیا اور خالی گلاس مجھ سے لے لیا۔ یہاں تو بڑے اور بچے سبھی محبت کے سفیر ہیں۔ جب حاضری بتائی گئی تو کہتی ہیں کہ عیسائیوں کو اس سے دس گنا کی تعداد میں شامل ہونا چاہئے اور سیکھنا چاہئے کہ مہذب معاشرے میں ایک دوسرے کا باہم احترام کیسے کیا جا سکتا ہے۔
ہنگری سے ایک مہمان گیبر ٹامس (Gabor Tamas) صاحب نے اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ جو مذہبی ماحول، امن، انسانیت اور اخوّت یہاں دیکھنے کا موقع ملتا ہے اور اس سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملتا ہے وہ دنیا میں کہیں بھی نہیں ہے۔ میں نے امریکہ میں بھی بطور پادری ایک لمبا عرصہ کام کیا ہے اور کافی دنیا دیکھی ہے لیکن یہ ماحول میں نے آج تک کہیں نہیں دیکھا۔ احمدی لوگ بڑے خوش قسمت ہیں کہ ان کے پاس ایک لیڈر ہے جو احمدیوں سے محبت کرتا ہے اور ان کی ہر وقت رہنمائی کرتا ہے۔ اس جلسہ میں شامل ہو کر میں اپنے ایمان کو مضبوط محسوس کرتا ہوں۔ کہتے ہیں آپ کی جماعت دن بدن بڑھ رہی ہے اور ہم عیسائی دن بدن کم ہو رہے ہیں۔ ہمارے چرچ خالی ہو رہے ہیں۔ اور امام جماعت احمدیہ سے میں نے پوچھا تو انہوں نے بھی یہی بتایا کہ مادیت بڑھ رہی ہے اور روحانیت کم ہو رہی ہے۔ اس وجہ سے (ہی سب) کچھ ہوتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ہمیں لوگوں کو بتانا ہو گا کہ ہمارا ایک مالک ہے اور اس کو مان کر ہی دنیا میں امن کا قیام ہو سکتا ہے۔ یہ میری بات انہوں نے quote کی ہے۔
ایک سیرین دوست اکرم الدومانی صاحب کہتے ہیں: مجھے جماعت کا تعارف تقریباً ایک ماہ قبل ہوا۔ میں احمدیوں کی ایک میٹنگ میں شامل ہوا تھا۔ وہاں میں نے پہلی مرتبہ جماعت احمدیہ کے متعلق سنا۔ پھر میں اپنی فیملی کے ساتھ جلسہ پر آ گیا۔ لوگ بہت اچھے اور مہمان نواز تھے۔ جماعتی عقائد کے متعلق بہت محبت اور شفقت سے بات کرتے تھے۔ ایک چیز جسے میں جلسہ میں معجزہ خیال کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ اتنی بڑی تعداد ہونے کے باوجود تینوں دن ایک مرتبہ بھی آپس میں لڑائی جھگڑا نہیں ہوا۔ یہاں تک کہ حج میں بھی کبھی کبھار لوگ آپس میں لڑ پڑتے ہیں لیکن یہاں میں نے کسی کو ایک دوسرے کے خلاف اونچی آواز سے بات کرتے ہوئے نہیں مشاہدہ کیا۔ ایک اور بات بھی جسے میں معجزہ ہی سمجھتا ہوں وہ یہ کہ احمدی مہمان عورتوں کی طرف اخوّت اور احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں یہاں تک کہ میری بیوی نے بھی مجھے کہا کہ میں نے کسی کو گندی نظر سے دیکھتے ہوئے نہیں پایا۔
پھر اسامہ ابو محمد حلبی بیان کرتے ہیں کہ جلسہ میں اتنی زیادہ حاضری کے باوجود تنظیم سازی بہت اچھی تھی اور امن کے لئے تمام احتیاطی تدابیر بروئے کار لائے گئے تھے اور اتنی کثیر تعداد کے باوجود کارکنوں کی خدمت مثالی تھی۔ ہمارے احمدی بھائیوں نے ضیافت اور رہائش میں بہت خوبصورت انداز سے ہماری خدمت کی۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ ان کے ہر قول اور فعل میں وہ سچائی نظر آئی جو ہم بہت سے اسلامی فرقوں میں معدوم پاتے ہیں۔ میں احمدی تو نہیں لیکن آپ لوگوں کے تمام کاموں کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
ایک سیرین دوست محمود صاحب جو پولینڈ میں ہیں، کہتے ہیں کہ امام جماعت احمدیہ کا خطاب سن کر میرا دل خوشی کے جذبات سے بھر گیا۔ صرف ایک ہی خطاب میں آپ نے دنیا کے تمام مسائل کا حل بتا دیا۔ کہتے ہیں آپ نے بتایا کہ مختلف ممالک کے بیچ کس طرح امن قائم ہوسکتا ہے اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں یہ حل بتایا۔ اس کی وجہ سے مجھے اپنے مسلمان ہونے پر فخر ہونے لگ گیا ہے۔
پھر ایک مہمان گرونگر (Grunniger) صاحب کہتے ہیں امام جماعت احمدیہ نے ایک دوسرے کو سمجھنے اور ایک دوسرے کے ساتھ تبادلہ خیالات کرنے کے حوالے سے بات کی اور اس چیز کی آج دنیا کو ضرورت ہے۔ آپ کے الفاظ نے مجھے آج دنیا کی موجودہ حالت کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ قرآنی آیات کا حوالہ دے کر آپ نے یہ بات بالکل واضح کر دی کہ اسلام ہرگز شدت پسندی کا مذہب نہیں ہے اور بتایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو ایسے انسان تھے جو دشمنوں کو بھی معاف فرما دیتے تھے۔ کہتے ہیں خلیفہ کی یہ تقریر سن کر مجھے پہلی مرتبہ احساس ہوا کہ اصل میں اسلام کیا چیز ہے۔ اسلام تو پیار اور محبت کا مذہب ہے۔ اسلام ہرگز ایسا نہیں جس طرح کہ میڈیا دکھا رہا ہے۔
جرمنی میں گزشتہ دو تین سال سے بیعت کی تقریب بھی ہو رہی ہے۔ اس سال جلسہ کے موقع پر گیارہ ممالک سے تعلق رکھنے والے تینتیس افرادنے جلسہ کے دنوں میں شامل ہو کے بیعت کرنے کی توفیق پائی۔ ان میں البانیہ، گیمبیا، گھانا، جرمنی، عراق، یمن، مراکش، فلسطین، سیریا، ترکی اور لتھوینیا تھے۔
لمیس (Lamees) عبد الجلیل صاحبہ اسٹونیا سے شامل ہوئی تھیں۔ انہوں نے بیعت کی توفیق پائی۔ یہ کہتی ہیں کہ میں ایک فلسطینی ہوں اور اسٹونین نوجوان سے شادی شدہ ہوں۔ میں دوسری دفعہ جلسہ میں شامل ہو رہی ہوں۔ پہلی دفعہ جلسہ میں شامل ہونے کے بعد جماعت کے بارے میں بہت سے شکوک و شبہات لے کر واپس گئی تھی لیکن اس دفعہ میں نے جلسہ کے دوران بہت دعا کی کہ خدا تعالیٰ مجھے سیدھے راستہ کی ہدایت دے اور اگر جماعت احمدیہ میرے لئے صحیح راستہ ہے اور زندگی گزارنے کا صحیح طریقہ ہے تو اللہ تعالیٰ مجھے خود ہی ہدایت دے۔ کہتی ہیں: چنانچہ اللہ تعالیٰ نے مجھے تسلی دی اور اگلے دن میں نے بیعت کر لی۔ میں اپنے آپ کو بہت خوش قسمت سمجھتی ہوں کہ اتنے لوگوں نے میرے جلسہ سالانہ میں شمولیت اور میرے احمدی ہونے کے لئے دعا کی۔ گزشتہ سال مجھے جلسہ کی ساری تقاریر سننے کا موقع نہیں ملا تھا لیکن اس سال تمام تقاریر نہایت غور سے سنیں جس کے نتیجہ میں پھر اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں یقین پختہ کر دیا کہ یہی جماعت سچی ہے۔ چنانچہ میں نے بیعت کر لی۔ کہتی ہیں میں نے عورتوں کی ایسی اخوّت کا جذبہ کہیں اور نہیں دیکھا جو یہاں تھا۔ مختلف ممالک سے آئی ہوئی خواتین سے میں نے تعلق بنایا جن سے شاید دوبارہ کبھی نہ مل سکوں لیکن ہمیشہ ان کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھوں گی۔ میرا یقین ہے کہ میرا احمدی ہونا اور اس جماعت سے ملنا یہ سب اللہ تعالیٰ کی مشیّت سے ہوا ہے۔
یہ جلسہ کے بارے میں چند تأثرات تھے جو میں نے پیش کئے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جلسہ بہت سوں کے سینے کھولتا ہے۔ بہت سوں کے شکوک و شبہات دور کرتا ہے۔ اسلام کی حقیقی تصویر ان کے سامنے آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان برکات کو ہمیشہ پھیلاتا چلا جائے۔
میڈیا کوریج کے لحاظ سے جلسہ کے پہلے دن جمعہ کے بعد میرے ساتھ ایک پریس کانفرنس بھی تھی جس میں نیشنل اور انٹرنیشنل میڈیا شامل تھا۔ انٹرنیشنل میڈیا میں اٹلی، میسی ڈونیا، آسٹریا، برازیل اور بیلجیم کے ٹی وی اور اخبارات کے نمائندے تھے۔ نیشنل لیول پر جرمنی کے چار ٹی وی سٹیشن اور تین پرنٹ میڈیا کے نمائندے موجود تھے۔ لوکل لیول پر این ٹی وی، ایک ریڈیو اور چار پرنٹ میڈیا کے نمائندے تھے۔ مجموعی طور پر جرمنی میں جلسہ سالانہ کے ان تینوں ایام کی کوریج ہوئی۔ رپورٹ کے مطابق پانچ ٹی وی چینلز، تین ریڈیو چینل اور اکسٹھ اخبارات اور دیگر پرنٹ میڈیا کے ذریعہ پانچ کروڑ بانوے لاکھ سے اوپر افراد تک پیغام پہنچا۔ اس کے علاوہ انٹرنیشنل میڈیا میں آئندہ ہفتے تک جو کوریج متوقع ہے اور نمائندوں نے اس کا ذکر کیا تھا اور ان کی جو viewership ہے اس کے مطابق چار کروڑ تیرہ لاکھ سے اوپر لوگوں تک پیغام پہنچے گا۔ اسی طرح alislam ویب سائٹ پر جلسہ کی کوریج، جلسہ سالانہ جرمنی کی کارروائی ایم ٹی اے جرمن سٹوڈیو کے تعاون سے اَپ لوڈ کی جاتی رہی۔ سینٹرل پریس اور میڈیا آفس کی طرف سے جاری کردہ پریس ریلیز بھی اَپ لوڈ کی گئی۔ سوشل میڈیا میں بھی جلسہ کی کوریج کے حوالے سے کارروائی کی گئی جس میں فیس بُک پر 32پوسٹس شائع ہوئیں جو چار لاکھ بیس ہزار لوگوں نے دیکھیں اور 36 ہزار لوگوں نے پوسٹ کو پسند کیا اور اس پر تبصرہ وغیرہ بھی کیا۔ اسی طرح ٹوئٹر پر بھی جلسہ کے حوالے سے پانچ لاکھ چھتیس ہزار لوگوں نے جلسہ کی ٹویٹس (Tweets) دیکھے اور پانچ ہزار آٹھ سو لوگوں نے ری ٹویٹ (Retweet) کیا۔
جلسہ کے بارہ میں یہ تو لوگوں کے تأثرات تھے۔ بعض کمزوریاں بھی ہوتی ہیں جو مختصر بتا دیتا ہوں۔ ایک تو جیسا کہ میں پہلے ذکر کر چکا ہوں کہ لوگ باہر پھرتے رہے اس لئے شعبہ تربیت کو آئندہ فعال ہونا چاہئے کہ لوگ دوسرے پروگراموں کے دوران باہر نہ پھریں۔ آواز کا انتظام بھی پہلے دن خاص طور پر جمعہ کے وقت صحیح نہیں تھا۔ پھر بعض ٹیکنیکل مسائل تھے لیکن بہرحال اس کے بعد کچھ بہتری پیدا کی گئی۔ اس طرف بھی جرمنی جماعت کو توجہ دینی چاہئے۔ پھر ترجمانی کے وقت بھی شکایات ہیں کہ اس وقت شور آتا رہا ہے۔ ترجمانی کے لئے کانوں میں جو آلے لگائے گئے تھے ان کوبھی درست کیا جانا چاہئے۔
رہائش کے لئے بھی اس دفعہ غیر معمولی تعداد تھی۔ ان کی توقع سے بہت زیادہ تھی۔ اس لئے تقریباً چار سو احباب کو اگر گدّے میسر نہیں آئے تو کوئی ایسی بات نہیں ہے۔ لیکن جرمنی جماعت کو بہرحال آئندہ انتظام کرنا چاہئے۔ جلسہ گاہ میں نظم و ضبط کی بھی بعض لوگوں نے شکایت کی ہے۔ کہتے ہیں کہ بڑی کمی تھی اور اس طرف توجہ کی ضرورت ہے اور اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ہال کا جو کولنگ سسٹم (Cooling System) تھا اس میں ایک مشین بھی خراب ہو گئی تھی جس کی وجہ سے ہال کے اندر کافی گرمی تھی۔ لیکن یہاں یوکے جلسہ میں بھی تو لوگ مارکی میں بیٹھتے ہیں اور کافی گرمی ہوتی ہے اس کے باوجود بیٹھے ہوتے ہیں۔ اس لئے یہ کوئی بہانہ نہیں ہے۔ انتظامیہ کو تربیت کے شعبہ کو اس طرف توجہ دینی چاہئے اور سارا سال احمدیوں کو اس طرف توجہ دلاتے رہنا چاہئے۔
بہرحال جو جو نقص ہیں وہ کچھ تو ان کو میں نے بھجوا دئیے ہیں۔ اب اس پہ وہ خود ہی غور کریں اور ان کو بہتر کرنے کی صورت کریں۔ دوسرے کھانے کے بارے میں بھی شکایت آتی رہی۔ پہلے دن اگر حاضری کے مطابق نہیں بن سکا تھا تو اگلے دن بہتر انتظام ہونا چاہئے تھا۔ لیکن یہی ہوتا تھا کہ سالن ختم ہو گیا اور آخر میں پھر ایمرجنسی جو دال پکائی جاتی ہے وہی پکتی رہی اور بہت سارے لوگوں کو وہی ملی۔ تو اس طرف بھی توجہ دینی چاہئے اور اچھی طرح پوری پلاننگ ہونی چاہئے۔
اللہ تعالیٰ سب کام کرنے والوں کو بھی توفیق دے کہ وہ آئندہ اس میں بہتری پیدا کر سکیں۔ اس دورے کے دوران ایک مسجد کے افتتاح کی بھی توفیق ملی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کا بھی بہت اچھا اثر مہمانوں پر ہوا اور انہوں نے برملا اس بات کا اظہار کیا کہ یہ اسلام تو جرمنی میں پھیلنا چاہئے۔ اس فنکشن کی بھی اچھی کوریج ہوئی۔ دو ٹی وی چینل اور دو اخبارات کے نمائندے آئے ہوئے تھے جن کے ذریعہ سے اس مسجد کے فنکشن کی خبر ساڑھے سولہ لاکھ افراد تک پہنچی۔ اس میڈیا کے ذریعہ سے اسلام کا پیغام پہنچا۔ اللہ تعالیٰ جرمنی جماعت کو توفیق دے کہ وہ آئندہ اس سے بڑھ کر اسلام کا پیغام پہنچانے والے ہوں اور جو اَب تعارف ہوا ہے اس میں مزید وسعت پیدا کریں۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ایم ٹی اے کے ذریعہ سے دنیائے احمدیت کو اس طرح اکٹھا اور باخبر کر دیا ہے کہ اب خلیفۂ وقت کے دَوروں اور جماعتی پروگراموں اور خبروں کو سننے کے لئے لمبا انتظار اور جماعتی رسائل اور اخبارات کا انتظار نہیں کرنا پڑتا بلکہ ساتھ ہی ساتھ ہر خبر پہنچ رہی ہوتی ہے۔ ہر پروگرام دیکھا جا رہا ہوتا ہے۔ بلکہ جلسوں کی کارروائی اور ماحول کے بارے میں سننے والوں کی طرف سے بعض موقعوں پر فوری تبصرے اور جذبات کے اظہار پروگراموں کے دوران ہی ہو رہے ہوتے ہیں۔ انسان اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے اور حمد کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ نعمت میسر فرما کر کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کو ایک وحدت بنا دیا ہے اور ایک لڑی میں پروئے جانے کے ظاہری نظارے کا خوبصورت سامان مہیا فرما دیا ہے۔ پس اس کے لئے ہمیں جہاں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے وہاں ایم ٹی اے کارکنان جن میں رضا کار کارکن بھی شامل ہیں اور کُل وقتی بھی ان کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہئے۔
جلسہ کے پروگراموں میں جو ایم ٹی اے پر دکھائے جاتے ہیں اس کے بارے میں تو لوگ اپنے تبصرے بھیجتے رہتے ہیں۔ ان پروگراموں سے فائدہ بھی اٹھا رہے ہوتے ہیں اور لطف اندوز بھی ہو رہے ہوتے ہیں۔ لیکن جلسے پر آئے ہوئے غیروں کے تأثرات، احساسات اور کارکنوں کی خدمت پر جذبات کا اظہار تو نہ ہی جلسہ کے دنوں میں دکھایا اور بتایا جاتا ہے، نہ ہی یہ کسی طرح سے پتا چل سکتا ہے۔ یہ کارکنان جو علاوہ اپنی ڈیوٹیوں کے ایک خاموش مبلغ کا کام کر رہے ہوتے ہیں اس کا پتا نہ ہی ایم ٹی اے کی سکرین دے رہی ہوتی ہے، نہ ہی پروگرام پیش کرنے والے اس کا حق ادا کر سکتے ہیں۔ اسی طرح شاملین جلسہ بھی ایک اچھا اثر اپنے رویّے سے مہمانوں پرچھوڑ رہے ہوتے ہیں جس کا اظہار مہمان بعد میں کرتے ہیں۔ پس ضروری ہے کہ جلسہ سالانہ کے اثرات اور تأثرات کا یہ حصہ بھی لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے تا کہ دنیا میں رہنے والے احمدیوں کو بھی پتا چلے کہ جلسہ کے اثرات کس طرح غیروں کے لئے غیر معمولی اثر کا باعث بنتے ہیں اور شامل ہونے والوں اور کارکنوں کو بھی پتا لگے کہ ان کے رویّے کس طرح خاموشی سے غیر از جماعت لوگوں کو اسلام کی خوبصورت تعلیم کے قریب لا رہے ہوتے ہیں۔ مختلف ملکوں سے آئے ہوئے مہمانوں کے جلسہ سالانہ میں شمولیت کے بعد تأثرات کا تذکرہ۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے جلسہ بہت سوں کے سینے کھولتا ہے۔ بہت سوں کے شکوک و شبہات دور کرتا ہے۔ اسلام کی حقیقی تصویر ان کے سامنے آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان برکات کو ہمیشہ پھیلاتا چلا جائے۔
جلسہ سالانہ جرمنی کی پریس اور میڈیا کوریج کا تذکرہ۔ مختلف ذرائع سے کروڑوں افراد تک اسلام احمدیت کا پیغام پہنچا۔
اس دورے کے دوران ایک مسجد کے افتتاح کی بھی توفیق ملی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کا بھی مہمانوں پر بہت اچھا اثر ہوا اور انہوں نے برملا اس بات کا اظہار کیا کہ یہ اسلام تو جرمنی میں پھیلنا چاہئے۔ اس فنکشن کی بھی اچھی کوریج ہوئی۔
فرمودہ مورخہ یکم ستمبر2017ء بمطابق یکم تبوک 1396 ہجری شمسی، بمقام مسجدبیت الفتوح، مورڈن، لندن، یوکے
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔