حکمت اور اچھی نصیحت سے تبلیغ کا کام
خطبہ جمعہ 8؍ ستمبر 2017ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ۔ اِنَّ رَبَّکَ ھُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِہٖ وَھُوَ اَعْلَمُ بِالْمُھْتَدِیْنَ (النحل: 126) اس آیت کا یہ ترجمہ ہے کہ اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت کے ساتھ اور اچھی نصیحت کے ساتھ دعوت دے اور ان سے ایسی دلیل کے ساتھ بحث کر جو بہترین ہو۔ یقیناً تیرا رب ہی اسے جو اس کے راستے سے بھٹک چکا ہے سب سے زیادہ جانتا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں کا بھی سب سے زیادہ علم رکھتا ہے۔
دنیا کے کئی ممالک کی جماعتوں نے اپنی مجالس شوریٰ میں اس تجویز کو رکھا اور اس پر بڑی اچھی بحث کی اور ہر جماعت کی مجلس شوریٰ نے اپنا لائحہ عمل بھی تجویز کیا کہ کس طرح ہم تبلیغ کے کام کو اور اسلام کا حقیقی پیغام اپنے ملک کے ہر طبقہ میں پہنچانے کے کام کو وسعت دے سکتے ہیں یا اسے بہتر بنیادوں پر قائم کر سکتے ہیں۔ جماعت احمدیہ برطانیہ نے بھی اس سال اپنی مجلس شوریٰ کے ایجنڈے میں اس تجویز کو رکھا ہوا تھا۔ اس پر مجلس شوریٰ نے بڑی سیر حاصل بحث کی اور بحث کر کے اپنا لائحہ عمل تجویز کر کے مجھے منظوری کے لئے بھجوایا۔ لیکن ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ چاہے یہ تبلیغ کے کام کے لئے منصوبہ بندی ہے یا کسی اور کام کی منصوبہ بندی۔ مجلس شوریٰ جب کوئی بھی منصوبہ بندی کرتی ہے، تو ممبران شوریٰ کی مختلف آراء سامنے آتی ہیں اور پھر ایک رائے قائم ہوتی ہے یا ممبران کی اکثریت کی ایک رائے قائم ہوتی ہے اور پھر اس پر عمل درآمد کرنے کے لئے ایک لائحہ عمل تجویز ہو کر خلیفہ وقت کے پاس منظوری کے لئے بھجوایا جاتا ہے اور جب منظوری ہو جاتی ہے تو اس پر اپنی تمام تر صلاحیتوں اور طاقتوں کے ساتھ عمل درآمد کرنا اور کروانا ممبران مجلس شوریٰ کی بھی ذمہ داری ہے اور ہر سطح کے جماعتی عہدیداران کی بھی ذمہ داری ہے۔
پس تبلیغ کے کام کو بہتر کرنے یا اسے وسعت دینے کے لئے یہ جو تجویز مجلس شوریٰ برطانیہ میں زیر بحث آئی اور اس پر فیصلے ہوئے یا دنیا کے کسی بھی ملک میں اس پر مشورے ہوئے اور خلیفہ وقت سے منظوری کے بعد عمل درآمد کے لئے جماعتوں کو بھجوائے گئے۔ اس پر عمل درآمد کرنے اور کروانے کے لئے ہر ممبر مجلس شوریٰ اور ہر سطح کے عہدیداران کو اب بھرپور کوشش کرنی چاہئے۔ صرف یہ نہ سمجھیں کہ کیونکہ تبلیغ سے متعلق ایک تجویز ہے اس لئے صرف سیکرٹری تبلیغ ہی اس کا ذمہ دار ہے کہ کام کرے یا اگر کوئی تجویز کسی بھی دوسرے شعبہ سے متعلق ہے تو متعلقہ سیکرٹری ذمہ دار ہے۔ یقیناً اس پر عمل درآمد کرنے کے لئے متعلقہ سیکرٹریان ہی ذمہ دار ہیں لیکن خاص طور پر تبلیغ اور تربیت کے شعبے ایسے ہیں کہ اس میں جماعت کے ہر عہدیدار کا، ہر سطح کے عہدیدار کا شامل ہونا اور اپنا نمونہ دکھانا ضروری ہے۔
اس وقت مَیں چونکہ تبلیغ کے حوالے سے بات کرنا چاہتا ہوں اس لئے اس حوالے سے مَیں ہر عہدیدار کو توجہ دلانی چاہتا ہوں کہ وہ اپنے سیکرٹریان تبلیغ سے اس تجویز پر جماعتوں میں عمل درآمد کروانے کے لئے مکمل تعاون کریں۔ خود اس کا حصہ بن کر افراد جماعت کے لئے اپنا نمونہ پیش کریں۔ کوئی بھی عہدیدار ہو کسی نہ کسی رنگ میں تبلیغ میں حصہ لے سکتا ہے اور اگر عہدیدار حصہ لے رہے ہوں تو افراد جماعت کے سامنے نمونے قائم ہو رہے ہوں گے اور بہت سے احمدی ایسے ہوں گے جو بغیر کہے، بغیر خاص توجہ دلائے خود بخود ان نمونوں کو دیکھ کر اس لائحہ عمل کو پورا کرنے کے لئے اسلام کا حقیقی پیغام پہنچانے کی کوشش میں شامل ہو جائیں گے۔ بعض سیکرٹریان کے پاس ویسے بھی اپنے شعبہ کا اتنا کام نہیں ہوتا۔ وہ زیادہ وقت بھی دے سکتے ہیں۔ صرف نیت اور ارادے کی ضرورت ہے۔ بہرحال نیشنل سیکرٹری تبلیغ کا کام ہے کہ جو لائحہ عمل بھی بنایا گیا ہے یہ ہر مقامی جماعت کے سیکرٹری تبلیغ تک پہنچنا چاہئے اور پھر اس بات کو بھی یقینی بنائیں کہ اس لائحہ عمل کا افراد جماعت سے متعلقہ حصہ جو ہے اور جو حصہ انتظامی نہیں ہے بلکہ افراد جماعت سے تعلق رکھتا ہے وہ وہاں کی جماعت کے ہر فرد تک پہنچ جائے۔
لیکن سب سے بڑھ کر یہ کہ جو آیت میں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے جو ہماری رہنمائی فرمائی ہے اسے سمجھیں اور اس کے مطابق ہر سیکرٹری تبلیغ عمل کرے۔ ہر عہدیدار عمل کرے۔ داعیانِ خصوصی عمل کریں۔ داعیانِ خصوصی کا مَیں نے خاص طور پر ذکر کیا ہے کہ ان لوگوں نے خود اپنے آپ کو پیش کیا ہے کہ ہم باقی افراد جماعت کی نسبت زیادہ وقت تبلیغ کے لئے دیں گے۔ وہ اگر اپنا وقت بھی دیں اور علم بھی ہو لیکن ان باتوں کی طرف توجہ نہیں جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہیں تو پھر اس میں وہ برکت نہیں پڑ سکتی، بہتر نتائج نہیں نکالے جا سکتے جو نکل سکتے ہیں۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے جس بات کی طرف توجہ دلائی ہے اس میں سب سے پہلے حکمت ہے۔ پھر موعظۃ الحسنہ ہے۔ یعنی اچھی نصیحت۔ پھر فرمایا بحث میں ایسی دلیل استعمال کرو جو بہترین ہو۔ آجکل کے نام نہاد علماء نے اور دہشتگرد گروہوں اور تنظیموں نے اپنے جنونی پن اور بغیر حکمت، عقل اور بے دلیل باتوں سے اسلام کو اس قدر بدنام کر دیا ہے کہ غیر مسلم دنیا سمجھتی ہے کہ اسلام حکمت سے عاری اور دلائل سے عاری مذہب ہے اور بے عقلوں اور بیوقوفوں کا مذہب ہے۔ نعوذ باللہ۔ اور صرف شدت پسندی ہی اس کی تعلیم ہے۔ ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے مطابق تبلیغ کرنی اور تبلیغی رابطے کرنے ہر احمدی کی ایک بہت اہم ذمہ داری ہے۔ پس اس اہمیت کو سب سے پہلے تو ہر سطح کے عہدیداروں کو سمجھنا چاہئے۔ گزشتہ ایک دو سال میں ان شدت پسندوں اور بعض علماء کے عمل نے اسلام کو اتنا بدنام کر دیا ہے اور اس پر میڈیا نے بھی ان باتوں کو اتنا اچھالا ہے کہ گزشتہ دنوں یہاں ایک سروے ہوا جس میں اسلام کے شدت پسند اور ظالم مذہب ہونے اور مسلمانوں کے ناپسندیدہ ہونے کے بارے میں سوال کیا گیا تو اکثریت نے یہی جواب دیا کہ اسلام بڑا شدت پسند مذہب ہے اور مسلمان ناپسندیدہ لوگ ہیں۔ ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے ملک میں مسلمان رہیں اور ملک کے لئے یہ لوگ نقصان دہ ہیں۔ جبکہ چند سال پہلے یہ سروے ہوا تھا تو اس کے نتائج بالکل الٹ تھے اور اکثریت اُس وقت مسلمانوں کو اچھا سمجھتی تھی۔ پس ایسے حالات میں ہمیں اندازہ ہو جانا چاہئے کہ کس قدر محنت کے ساتھ ہمیں اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق تبلیغ کرنی چاہئے۔
اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے جو بات بیان فرمائی وہ حکمت کے ساتھ تبلیغ ہے۔ یہ حکمت کیا چیز ہے؟ حکمت کے بڑے وسیع معنی ہیں اور کامیاب تبلیغ کے لئے ضروری ہے کہ ان معانی کا ہمیں علم ہو تا کہ اپنی تبلیغ میں ان باتوں کو ہم مدّنظر رکھیں۔ حکمت کے ایک معنی علم کے ہیں۔ تبلیغ کرنے کے لئے علم بھی ہونا چاہئے۔ بعض لوگ کہہ دیتے ہیں ان کو تو بہانہ مل گیا کہ ہمارے پاس علم نہیں ہے اس لئے ہم تبلیغ نہیں کر سکتے۔ اس زمانے میں یہ بہانہ بھی کوئی بہانہ نہیں ہے۔ ہمیں علمی لحاظ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایسے دلائل سے لیس کر دیا ہے اور جماعتی لٹریچر میں اس علم کو مہیا کر دیا گیا ہے کہ معمولی سی کوشش بھی کافی حد تک علمی مضبوطی عطا کر دیتی ہے۔ پھر سوال و جواب کی صورت میں آڈیو ویڈیو مواد موجود ہے۔ پھر ویب سائٹس ہیں۔ بہت سے لوگ جب ان کو پیغام پہنچایا جائے تو ان میں سے بعض غیر کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے پاس اس وقت لمبی بحث کا وقت نہیں ہے۔ انہیں پمفلٹ بھی دئیے جا سکتے ہیں اور ویب سائٹس کے پتے بھی دے دیں تو جو دلچسپی رکھنے والے ہیں وہ بہت سارے ایسے ہیں جو دلچسپی رکھتے ہیں جس کا ان کے پاس فوری وقت نہیں ہوتا لیکن بعد میں معلومات لے لیتے ہیں۔ بہت سے لوگوں نے مجھے خود بتایا کہ انہوں نے اس طرح معلومات لیں۔ پس ایک تو پہلے اپنا علم بڑھانے کی ضرورت ہے تا کہ جن سے علمی گفتگو ہونی ہے ان سے اس طریق سے بات کی جائے جس کے معیار پر وہ پورا اترتے ہیں۔ دوسرے یہ پتا ہونا چاہئے کہ اس وقت ہمارے لٹریچر اور ویب سائٹ میں کہاں یہ علمی جواب اور مواد میسر ہے۔ مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والوں سے اور خدا تعالیٰ کے وجود کا انکار کرنے والوں سے ان کی سوچ کے مطابق، ان کے خیالات کے مطابق، ان کے دلائل کے مطابق پھر ہمیں دلیلیں دینی ہوں گی۔
پھر حکمت کے معنی یہ بھی ہیں کہ پختہ اور پکّی بات ہو (اقرب الموارد زیر مادہ ’’حکم‘‘)۔ ایسی دلیل ہو جو خود مضبوط ہو، نہ کہ اس دلیل کو ثابت کرنے کے لئے ہمیں اَور دلیلیں دینی پڑیں اور پھر ان کو مزید ثابت کرنا پڑے۔ پس لمبی بحثوں میں پڑنے کی بجائے جائزہ لے کر، اعتراض دیکھ کر پھر ان کو ٹھوس دلیل سے رد کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اور یہ بھی پھر شعبہ تبلیغ کا کام ہے کہ اپنے حالات کے مطابق ایسے اعتراض اور ان کے ردّ کی دلیلیں یکجا کر کے، ایک جگہ جمع کر کے پھر جماعتوں کو مہیا کریں تا کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اعتراضوں کے ردّ کی علمی اور ٹھوس اور پختہ دلیلیں میسر ہو سکیں۔ پھر حکمت کا ایک مطلب عدل بھی ہے۔ اگر بحث ہو رہی ہے تو دوسروں پہ ایسے اعتراض نہیں کرنے چاہئیں جو الٹ کر ہم پر بھی پڑ سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تربیت اور لٹریچر کی وجہ سے اور خلفاء کے لٹریچر کی وجہ سے عام طور پر ایسی صورت نہیں ہوتی۔ لیکن عام دوسرے مسلمان جو ہیں یا دوسرے مذاہب کے لوگ جو ہیں ان میں یہ بات نظر آ جاتی ہے۔ مسلمان جو ہمارے خلاف ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ایسے اعتراض کر دیتے ہیں جو باقی انبیاء پر بھی پڑ سکتے ہیں۔ بعض بڑے بڑے لوگ ہیں جو اپنے زعم میں اپنے آپ کو عالم سمجھتے ہیں وہ ایسے اعتراض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر کرتے ہیں جو دوسرے انبیاء پر بھی پڑتے ہیں۔ پس اس بارے میں بھی شعبہ تبلیغ کو یہ اعتراض اور جواب اکٹھے کرنے چاہئیں اور جماعتوں کو مہیا کرنے چاہئیں اور یہ باتیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے سے ہو رہی ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر وہ اعتراض کئے جاتے ہیں جو دوسروں پر بھی پڑرہے ہیں۔ ان کے اپنے دین پر بھی پڑ رہے ہیں اور اس وقت سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی ان اعتراضات کے جواب ان پر الٹائے ہیں۔ انہی کے لٹریچر سے یا انہی کے صحیفوں سے غیر مذہبوں کو یا مسلمانوں کو بھی بتایا کہ تم جو اعتراض کرتے ہو وہ اصل میں اعتراض نہیں۔ یہ اعتراض تو کافروں کی طرف سے اسلام پر بھی اس طرح ہی کئے گئے تھے۔
شعبہ تبلیغ کو جیسا کہ مَیں نے کہا چند ایسے اعتراض بھی چھوٹے پمفلٹ کی صورت میں شائع کر کے جماعتوں کو مہیا کرنے چاہئیں۔ اگر زیادہ سے زیادہ لوگوں کو تبلیغ کے کام میں لگانا ہے تو یہ محنت اس شعبہ کو کرنی پڑے گی۔ خرچ بھی کرنا پڑے گا۔
اسی طرح حکمت کے معنی حلم اور نرمی کے بھی ہیں۔ پس تبلیغ میں نرمی اور عقل سے کام لینے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ غصّہ اور تیزی میں بات کرنے سے دوسروں پر منفی اثر پڑتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ دلیل کوئی نہیں اس لئے غصّہ میں جواب دیا جا رہا ہے۔ جو غصہ دکھائے اس کے ساتھ بھی نرمی سے بات کرنی چاہئے۔ اسلام کی تعلیم پر اعتراض کرنے والوں کو نام نہاد علماء کے غصہ اور شدت پسندی نے ہی موقع دیا ہوا ہے کہ وہ اعتراض کریں۔ ورنہ اگر آرام سے بات کی جاتی تو بہت سارے ایسے اعتراض ہیں جو ویسے ہی ختم ہو جاتے۔
پھر حکمت کے ایک معنی نبوت کے بھی ہیں۔ پس اس کی رُو سے بحث کرنے اور دلائل دینے کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں قرآن کریم جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا اس کے دلائل اور اس کی تعلیم کے مطابق تبلیغ کرنی چاہئے۔ اسلام پر اعتراض کرنے والوں یا اعتراض کرنے والے لوگوں سے متأثر ہونے والوں کے سامنے مَیں نے دیکھا ہے کہ جب قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں بات کی جائے تو ان پر بہت اچھا اثر پڑتا ہے۔
پھر اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ جہالت سے روکنا۔ پس ایسے طریق سے بات کرنی چاہئے جو دوسرے کو آسانی سے سمجھ آ جائے اور اس کی جہالت کو دُور کرنے والی ہو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہ ارشاد فرمایا ہے کہ لوگوں کے فہم و اِدراک کے مطابق ان سے بات کیا کرو۔ (کنز العمال جلد 10 کتاب العلم من قسم الاقوال صفحہ 105 حدیث 29468 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2004ء)
پھر اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ حق کے مطابق اور موافق بات کرنی چاہئے۔ ہمیشہ سچی اور واقعات کے مطابق بات کرنی چاہئے۔ یہ نہیں کہ دوسرے کو متأثر کرنے کے لئے حقائق و واقعات سے ہٹ کر بات کی جائے۔ ایسی باتیں جو حقائق اور واقعات کے خلاف ہوں پھر غلط اثر ڈالتی ہیں کیونکہ کسی نہ کسی وقت میں اصل بات ظاہر ہو جاتی ہے۔ اس لئے ہمیشہ سچی اور حقائق کے مطابق بات کرنی چاہئے۔
پھر حکمت موقع اور محل کے مناسب اور مطابق بات کرنے کو بھی کہتے ہیں۔ یعنی اگر یہ خیال ہو کہ ایک دلیل سے مخالف میں غصہ پیدا ہونے اور اس کے چِڑنے کا خطرہ ہے اور پھر بجائے تبلیغی گفتگو کے لڑائی جھگڑے اور فاصلے بڑھنے کا خطرہ ہے تو پھر ایسی دلیل سے اجتناب کرنا چاہئے۔ اس بات سے اجتناب کرنا چاہئے اور پھر ایسی بات کرنی چاہئے اور ایسی دلیل دینی چاہئے جو برمحل بھی ہو اور دوسرے کے مزاج کے مطابق ہو اور فاصلے بڑھانے کی بجائے قریب لانے کا باعث ہو۔ بعض لوگ ایک مجلس میں ایک بات کرتے ہیں دوسرا وہ بات سنتا ہے اور اچھا اثر لیتا ہے لیکن اس وقت بات کر کے پھر یہ سوچ کر چپ ہو جانے کی بجائے کہ کبھی موقع ملا تو اس مجلس میں دوبارہ اپنی بات کریں، پھر اس شخص کے پیچھے پڑ جاتے ہیں اور بار بار اس کی باتوں کو دہراتے ہیں یا اس کو قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آج قائل کر کے اٹھنا ہے۔ تم نے قائل ہو کر ہی اٹھنا ہے جس سے پھر دوسرا چِڑ جاتا ہے اور قریب آیا ہوا بھی دُور ہو جاتا ہے اور پہلی بات کا جو اثر ہوا ہوتا ہے وہ بھی زائل ہو جاتا ہے۔ اس لئے موقع و محل اور مزاج شناسی بھی تبلیغ کے لئے بہت ضروری ہے اور یہ بات اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ تبلیغ میں جہاں مستقل مزاجی ضروری ہے وہاں ذاتی رابطوں کے بڑھانے کی بھی ضرورت ہے۔ ذاتی رابطوں سے ہی دوسرے کی مزاج شناسی ہو سکتی ہے۔
پس ہمیں اپنی تبلیغی سرگرمیوں میں ایک تسلسل پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ نہیں کہ سال میں ایک یا دو دفعہ عشرہ تربیت منا لیا، عشرہ تبلیغ منا لیا، سڑکوں پہ کھڑے ہوکر لٹریچر تقسیم کر دیا اور سمجھ لیا کہ تبلیغ کا حق ادا ہو گیا۔
آجکل یہاں اسائلم لینے والے بہت سے لوگ مختلف عمروں کے آئے ہوئے ہیں۔ بعض صحت مند اور جوان ہیں۔ بعض ذرا بڑی عمر کے ہیں اور جب تک ان کے کیسوں کا فیصلہ نہیں ہو جاتا اکثر ان کے پاس وقت ہے اور اکثر وقت وہ فارغ رہتے ہیں۔ پس ایسے تمام لوگوں کو اپنی صحت و عمر کے لحاظ سے تبلیغ کے لئے اپنے آپ کو پیش کرنا چاہئے۔ لٹریچر تقسیم کرنے کے لئے کم یا زیادہ وقت دینا چاہئے۔ زبان نہیں آتی تو لٹریچر لے جائیں، کیسٹس لے جائیں۔ اگر سڑکوں پر لٹریچر تقسیم کرنا ہے تو پھر تقسیم کا مستقل ایک پروگرام رہنا چاہئے اور یہ اسائلم لینے والے اس کے لئے استعمال ہو سکتے ہیں۔ ثواب بھی ہے۔ نیکی بھی ہے اور تبلیغ کا فریضہ بھی ادا ہو جائے گا اور اسی برکت سے شاید ان کے کیس بھی جلدی پاس ہو جائیں۔ بہرحال مستقل تبلیغ کے لئے یہ ہدایات جو ہیں تبلیغ کے شعبہ کی طرف سے ان کو جانی چاہئیں اور لٹریچر مہیا ہونا چاہئے اور پھر اس پر عمل درآمد ہو اور اس طرز پر باتیں ہونی چاہئیں جو حکمت کے معنوں میں بتائی گئی ہیں۔ ان میں عہدیداروں کو بھی شامل ہونا چاہئے اور پرانے رہنے والوں کو بھی شامل ہونا چاہئے۔ یہ نہیں کہ صرف اسائلم سیکرز کے لئے میں نے کہہ دیا تو وہی شامل ہوں۔ داعیانِ خصوصی کو بھی صرف نام کے داعیانِ خصوصی بن کر نہیں بلکہ زیادہ وقت دے کر تبلیغ کے اس میدان میں اب آنا چاہئے۔ دنیا کے جو حالات ہیں ان میں اب ہمیں کھل کر سب کو بتانا ہو گا کہ یہ حالات تمہارے دنیاداری میں ڈوبنے کی وجہ سے پیدا ہو رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی وجہ سے پیدا ہو رہے ہیں۔ اس لئے ایک ہی راستہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف آؤ اور سچے دین کی تلاش کرو۔ موعظۃ الحسنۃ کا جو تبلیغ کا حکم ہے وہ حکمت سے تبلیغ کے معنوں میں بھی آ گیا۔ یعنی نرمی اور دل پر اثر کرنے والے انداز میں تبلیغ کی جائے۔
پس اللہ تعالیٰ نے حکمت اور اچھی نصیحت اور ٹھوس دلیل کے ساتھ جو تبلیغ کا حکم دیا ہے اس کے مطابق چلنا ہمارا کام ہے اور مستقل مزاجی کے ساتھ اسے کرتے چلے جانا ہمارا کام ہے۔ اس کے نتائج اللہ نے فرمایا کہ مَیں نے پیدا کرنے ہیں۔ کس نے گمراہی میں بھٹکتے رہنا ہے اور کس نے ہدایت پانی ہے، یہ باتیں اللہ تعالیٰ کے علم میں ہیں۔ ایک دوسری جگہ یہ بھی فرمایا کہ تم زبردستی کسی کو ہدایت نہیں دے سکتے ہاں تمہارا کام تبلیغ کرنا ہے۔ پیغام پہنچانا ہے۔ حق کا پیغام دنیا کے ہر شخص تک پہنچانا ہے۔ اسلام کی خوبیوں اور خوبصورت تعلیم کو دوسروں پر ظاہر کرنا ہے۔ وہ کئے جاؤ۔ انسان عالم الغیب نہیں ہے کہ کہے کہ بجائے وقت ضائع کرنے کے میں اس کے پاس ہی جا کر پیغام حق پہنچاؤں جس پر اثر ہونا ہے۔ یہ تو انسان کو نہیں پتا کس پر اثر ہونا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہیں یہ علم دیا ہی نہیں گیا کہ کس پر اثر ہونا ہے اور کس پر نہیں ہونا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے مطابق ہم نتائج کے بارے میں ذمہ دار نہیں ہیں کہ کیوں اس کے مثبت نتائج نہیں نکلے۔ کیوں سو فیصد لوگ ہمارے پیغام سے متأثر ہو کر اسلام کو قبول کرنے والے نہیں بنے۔ ہمارے سے اگر پوچھا جائے گا تو صرف اتنا جو اللہ تعالیٰ نے ہم سے پوچھنا ہے کہ کیا ہم نے پیغام پہنچایا؟ یا پھر کیوں ہم نے اپنا تبلیغ کا فریضہ ادا نہیں کیا؟ اور کیوں اللہ تعالیٰ کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے نہیں کیا؟ کس نے ہدایت پانی ہے اور کس نے ہدایت نہیں پانی، یہ صرف اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے۔ اگر ہم اپنا فرض پورا کر رہے ہیں تو مرنے کے بعد دنیا کم از کم اللہ تعالیٰ کو یہ نہیں کہہ سکتی کہ ہمیں تو اسلام کا پیغام ملا ہی نہیں تھا اور اگر ہمیں اسلام کا پیغام نہیں ملاتو اس میں ہمارا کیا قصور ہے۔
بعض لوگ پیغام سنتے ہیں، سمجھتے ہیں لیکن پھر بدقسمتی سے کوئی روک ان کے آڑے آ جاتی ہے اور قبول نہیں کرتے۔ ابھی دو دن پہلے ہی یورپ کے ایک ملک کے مبلغ نے مجھے لکھا کہ فلاں فلاں صاحب جو آپ کو ملے تھے، جرمنی میں جلسہ پر بھی شامل ہوئے تھے، تبلیغ اور پورے ماحول کا اس پر بہت اچھا اثر ہے۔ کئی دفعہ بیعت کرنے کا اس نے ارادہ کیا ہے پھر کوئی روک آڑے آ جاتی ہے۔ اب یہ تو اللہ تعالیٰ کو پتا ہے کہ اسے قبولیت کی توفیق ملنی ہے یا نہیں ملنی لیکن ہم نے بہرحال اپنا فرض پورا کر دیا۔ اسے اسلام کی حقیقی تعلیم سے روشناس کروا دیا۔
پھر تبلیغ کے ضمن میں ایک بات یہ بھی ہے بعض لوگ پوچھتے ہیں، سوال کرتے ہیں کہ تبلیغ کر کے تم نے کتنے احمدی بنا لئے؟ اور پھر یہ بھی کہتے ہیں کہ خود مسلمان تمہیں مسلمان نہیں سمجھتے۔ اور پھر یہ بھی کہ کتنا عرصہ لگے گا اس طرح اسلام کی تعلیم پھیلنے میں جس طرح تم لوگ تبلیغ کرتے ہو اور اسلام کا پیغام پہنچا رہے ہو؟ اور پھر یہ بھی ساتھ تسلیم کرتے ہیں کہ بظاہر تمہاری باتیں عقل اور حکمت والی بھی ہیں۔ مجھ سے بھی کئی لوگوں نے پوچھا اور مختلف جگہوں پر پوچھتے ہیں۔ ابھی جرمنی کے سفر میں بھی ایک جرنلسٹ نے پوچھا تھا۔ تو ہمیشہ ہمارا یہی جواب ہوتا ہے کہ ہمیں تبلیغ کرنے کا، پیغام پہنچانے کا حکم ہے۔ اس سے ہم پیچھے ہٹنے والے نہیں اور نہ ہم نے ہٹنا ہے۔ ہم اپنا کام کئے جائیں گے۔ کس نے ہدایت پانی ہے اور کس نے نہیں پانی، یہ تو اللہ تعالیٰ کو پتا ہے۔ ہمارے سپرد جو کام ہے وہ ہم نے کرنا ہے۔ لیکن ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کا یہ بھی وعدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول غالب آئیں گے۔ انشاء اللہ۔ اس لئے ہم اس امید پر قائم ہیں کہ انشاء اللہ تعالیٰ ایک دن اکثریت ہماری ہو جائے گی۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی اس آیت کی وضاحت میں جو میں نے تلاوت کی تھی بعض جگہ ارشادات فرمائے ہیں۔ چنانچہ اپنے بارے میں یہ بیان فرماتے ہوئے کہ کس طرح بعض اوقات مخالفین اسلام نے آپ کے جذبات کو انگیخت کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود آپ نے اس آیت پر عمل کرتے ہوئے کس طرح امن کو برباد ہونے اور جھگڑے کو بڑھانے سے روکنے کے لئے اپنا رویّہ دکھایا۔ آپ اپنی کتاب میں تحریر فرماتے ہیں کہ:
’’خدا جانتا ہے کہ کبھی ہم نے جواب کے وقت نرمی اور آہستگی کو ہاتھ سے نہیں دیا‘‘۔ (یعنی یہ کبھی نہیں ہوا کہ نرمی اور نرم زبان کو چھوڑیں) ’’اور ہمیشہ نرم اور ملائم الفاظ سے کام لیا ہے‘‘ فرمایا کہ ’’بجز اس صورت کے کہ بعض اوقات مخالفوں کی طرف سے نہایت سخت اور فتنہ انگیز تحریریں پا کر کسی قدر سختی مصلحت آمیز اس غرض سے ہم نے اختیار کی‘‘۔ (بعض دفعہ سختی کی کیونکہ مخالفین جو علمائے سُوء ہیں یا جو شر میں بڑھنے والے لیڈر ہیں وہ بڑھ جاتے ہیں جو عوام کو بھی ورغلاتے ہیں۔ اس لئے سختی انہی کے جواب میں ہے۔ جو تحریروں میں انہوں نے لکھا اسی طرح کی سختی کی۔ اسی طرح کی تحریریں لکھیں )’’کہ تا قوم اس طرح سے اپنا معاوضہ پا کر وحشیانہ جوش کو دبائے رکھے۔‘‘ (اور یہ بھی اس لئے کہ اگر مسلمانوں کے خلاف ہے تو سختی سے یہی جواب دیا جا سکتا ہے جو دے دیا اور اس سے زیادہ جوش دکھانے کی ضرورت نہیں اور وحشیانہ حالت طاری کرنے کی ضرورت نہیں تاکہ دنگا اور فساد ہو) فرمایا’’اور یہ سختی نہ کسی نفسانی جوش سے اور نہ کسی اشتعال سے بلکہ محض آیت وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ (النحل: 126) پر عمل کر کے ایک حکمت عملی کے طور پر استعمال میں لائی گئی۔‘‘ اس وقت بعض دفعہ یہ سختی بھی کرنی پڑتی ہے تو وہ بھی اس آیت کے نیچے ہی آتا ہے اور حکمت عملی کے طور پر اسے استعمال کیا گیا کہ ایسی بات کرو جو صحیح ہو، موقع کی مناسبت سے ہو اور اس سے اس وقت مخالف کو اس طرز کا جواب دینا ہی ضروری ہو اس لئے بعض دفعہ سختی بھی ہو جاتی ہے لیکن عموماً نرمی ہی دکھانی ہے۔ فرمایا کہ اس آیت پر عمل کر کے ایک حکمت عملی کے طور پر استعمال میں لائی گئی ’’اور وہ بھی اس وقت کہ مخالفوں کی توہین اور تحقیر اور بدزبانی انتہا تک پہنچ گئی اور ہمارے سید و مولیٰ، سرورِ کائنات، فخرِموجودات کی نسبت ایسے گندے اور پُر شر الفاظ ان لوگوں نے استعمال کئے کہ قریب تھا کہ ان سے نقص امن پیدا ہو تو اس وقت ہم نے اس حکمت عملی کو برتا۔‘‘ (البلاغ، (فریاددرد) روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 385)
پس جہاں ایسی صورتحال ہو وہاں جادلھم بالتی ھی احسن کا مطلب یہ بن جاتا ہے کہ اسی حکمت عملی پر چلتے ہوئے جو دوسرا استعمال کر رہا ہے تھوڑا سا سختی سے بھی جواب دیا جائے۔ پس اصل مقصد یہ ہے اور وہ بھی اس لئے کہ فتنہ و فساد رکے۔ پس فتنہ و فساد روکنا اصل مقصد ہے اور پیغام کو صحیح طور پر پہنچانا بھی۔ یہ چیزیں ضروری ہیں۔ آپ نے کبھی وہ راستہ اختیار نہیں کیا جو مخالفین نے کیا تھا۔ اس کے بجائے آپ نے یہ بھی کہا کہ حکومت اور قانون کی پابندی ضروری ہے اور فساد پھیلنے سے روکنے کے لئے دلائل سے ہی آپ نے بات کی اور قانون کی مدد لی۔ اور بہرحال جہاں غیرت دکھانا ضروری ہے وہاں آپ نے غیرت بھی دکھائی۔
ایک اور جگہ آپ فرماتے ہیں کہ: ’’آیت جَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ کا یہ منشاء نہیں ہے کہ ہم اس قدر نرمی کریں کہ مداہنہ کر کے خلافِ واقعہ بات کی تصدیق کر لیں۔ کیا ہم ایسے شخص کو جو خدائی کا دعویٰ کرے اور ہمارے رسول کو پیشگوئی کے طور پر کذّاب قرار دے‘‘ (نعوذ باللہ) ’’اور حضرت موسیٰ کا نام ڈاکو رکھے، راستباز کہہ سکتے ہیں۔ کیا ایسا کرنا مجادلۂ حسنہ ہے؟ ہرگز نہیں۔ بلکہ منافقانہ سیرت اور بے ایمانی کا ایک شعبہ ہے‘‘۔ (تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 305 حاشیہ)
پس ان چیزوں کا فرق بھی ہمیشہ اس لئے ہمیں اپنے سامنے رکھنا چاہئے کہ مداہنت نہ ہو جائے کہ ہم نے تبلیغ کرنی ہے۔ اگلے کو بات سنانی ہے تو اس حد تک نہ ہم چلے جائیں کہ غیرت ہی بالکل ختم ہو جائے۔ ہاں جھگڑا اور فسادنہیں کرنا۔ لیکن ایک حد تک بعض دفعہ انہی کے الفاظ کو ان پر الٹانا بھی پڑتا ہے۔ پس جہاں مخالفین حد سے زیادہ اعتراض میں بڑھ جائیں یا ان کی باتیں ایسی ہو جائیں کہ جو حد سے زیادہ دریدہ دہنی اور گندے الفاظ ہوں تو وہاں بعض دفعہ فتنے کو روکنے کے لئے جواب دینا پڑتا ہے۔ اسی طرح آپ نے یہ بھی فرمایا کہ نرمی کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے جیسا کہ پہلے بھی مَیں نے کہا کہ مداہنہ کر کے اتنا ڈر جاؤ کہ ہاں میں ہاں ملانے لگ جاؤ اور جو خلاف واقعہ بات ہے اس کی تصدیق کی جائے۔ حکمت بہرحال ضروری ہے۔ نرمیٔ زبان اور اخلاق بھی ضروری ہیں لیکن غلط بات کو غلط کہنا بھی ضروری ہے۔
پس اس بات کو بھی ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ حکمت کا مطلب بزدلی نہیں ہے یا اپنے قریب لانے کے لئے غلط بات کی تصدیق کرنا نہیں ہے۔ مثلاً آجکل دنیا داروں نے آزادی کے نام پر ایسے قانون بنا دئیے ہیں جن کی شریعت ہرگز اجازت نہیں دیتی اور اگر ان کے خلاف کوئی بات کرے تو کہتے ہیں کہ یہ احمدی بھی اپنے آپ کو شدت پسندی سے دور رہنے والا کہتے ہیں اور اس کے خلاف باتیں کرتے ہیں۔ ظاہر کرتے ہیں کہ ہم شدت پسندنہیں ہیں لیکن بعض معاملات میں یہ بھی شدت پسند ہیں اور مثال وہ یہ دیتے ہیں کہ جیسے عورتوں سے ہاتھ ملانے کا معاملہ ہے یا ہم جنسی کا معاملہ ہے۔ ابھی جرمنی میں مجھ سے بعض نے سوال کئے اور میرے جواب پر کچھ نے منفی تبصرہ بھی ہمارے خلاف کیا لیکن اکثریت کو سمجھ بھی آ گئی کہ کیا حقیقت ہے۔ ہمیں لڑنے کی ضرورت نہیں لیکن جو چیز غلط ہے اسے ہم نے بہرحال غلط کہنا ہے۔
گزشتہ دنوں یہاں یوکے (UK) کے ایک سیاسی پارٹی کے ممبر جن کے بارے میں مشہور ہو گیا تھا کہ وہ پارٹی لیڈر بننے کے لئے کھڑے ہوں گے انہوں نے اعلان کیا کہ وہ پارٹی لیڈر بننے کے لئے کھڑے نہیں ہوسکتے کیونکہ ایک تو وہ ہم جنسی کے خلاف ہیں اور دوسرے abortion کے خلاف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اور یہ دونوں باتیں ایسی ہیں کہ ان کے خلاف ہمارے معاشرے میں سننے کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ جہاں تک ہم جنسی کا سوال ہے قرآن میں بھی اور بائبل میں بھی، دونوں کتابوں میں قومی طور پر اس برائی کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سزا کا ذکر ہے۔ لیکن abortion بعض حالات میں ہم تو جائز سمجھتے ہیں۔ بہرحال ان کا اپنا نظریہ تھا کہ وہ نہیں سمجھتے۔
اسی طرح ایک اور سیاسی پارٹی کے لیڈر نے چند مہینے ہوئے اپنی پارٹی کی سربراہی سے اس لئے استعفیٰ دے دیا کہ وہ ہم جنسی کے خلاف تھے اور انہوں نے کہا کہ اس وجہ سے مَیں اپنے ایمان اور سیاست کے درمیان تقسیم ہو کے رہ گیا ہوں اس لئے بہتر ہے کہ مَیں اپنے ایمان کو بچانے کے لئے پارٹی لیڈرشپ سے علیحدہ ہو جاؤں۔ پس اگر یہ لوگ جو دنیا دار ہیں اور جن کا دین بھی اپنی اصلی حالت میں قائم نہیں ہے اپنے دنیاوی معاملات کو دین کے لئے قربان کر رہے ہیں اور مداہنت نہیں دکھاتے، بزدلی نہیں دکھاتے تو پھر ہم جو آخری اور ہمیشہ قائم رہنے والی شریعت کو ماننے والے ہیں، ہمیں کس قدر مضبوط ایمان ہونا چاہئے اور اپنے دنیاوی تعلقات میں اور تبلیغ کے تعلقات میں بھی حکمت کے ساتھ اور ٹھوس دلائل کے ساتھ ان باتوں کو رد کرنا چاہئے۔ نہ ہی اپنے دنیاوی مفادات کے لئے ان چیزوں سے ڈرنا چاہئے۔ نہ ہی اس لئے ان کی ہاں میں ہاں ملانی چاہئے کہ ان سے رابطے ختم ہو جائیں گے۔ اگر حکمت سے بات کی جائے تو کوئی رابطے ختم نہیں ہوتے۔ اور پھر اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے، پہلے بھی ذکر ہو چکا کہ ہدایت پانے والے کون ہیں، یہ مجھے پتا ہے۔ پس جس کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت دینی ہے اس کا دل خود ہی اللہ تعالیٰ کھول بھی دے گا۔ عہدیداروں کو خاص طورپر اس طرف توجہ کرنی چاہئے۔ مَیں نے ان میں یہ دیکھا ہے کہ بعض دفعہ بزدلی کا زیادہ اظہار ہو جاتا ہے۔ مخالفت کی کوئی پرواہ نہیں کرنی چاہئے۔ مخالفت تو تبلیغ کے راستے کھولتی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ: ’’جس قدر زور سے باطل حق کی مخالفت کرتا ہے اسی قدر حق کی قوت اور طاقت تیز ہوتی ہے۔‘‘ فرمایا’’زمینداروں میں بھی یہ بات مشہور ہے کہ جتنا جیٹھ ہاڑ تپتا ہے اُسی قدر ساون میں بارش زیادہ ہوتی ہے۔‘‘ (یعنی جس قدر مئی جون میں گرمی زیادہ ہوتی ہے اتنی برسات کے موسم میں، جولائی اگست ستمبر میں مون سون جو آتی ہے تو برسات بھی اور بارشیں بھی زیادہ ہوتی ہیں۔) فرمایا ’’یہ ایک قدرتی نظارہ ہے۔ حق کی جس قدر زور سے مخالفت ہو اُسی قدر وہ چمکتا اور اپنی شوکت دکھاتا ہے‘‘۔ فرمایا کہ’’ہم نے خود آزما کر دیکھا ہے جہاں جہاں ہماری نسبت زیادہ شور و غل ہوا ہے وہاں ایک جماعت تیار ہو گئی اور جہاں لوگ اس بات کو سن کر خاموش ہو جاتے ہیں وہاں زیادہ ترقی نہیں ہوتی‘‘۔ (ملفوظات جلد 5 صفحہ 310-311۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
یہ نظارے ہمیں آج بھی نظر آتے ہیں۔ گزشتہ دنوں جرمنی میں الجزائر سے آئے ہوئے وہاں کے ایک بڑے مشہور غیر از جماعت سے میری ملاقات ہوئی۔ وہ ملنے آئے تھے۔ کہنے لگے یہ تو صحیح ہے کہ اس وقت آپ کی جماعت وہاں بڑی تکلیف میں سے گزر رہی ہے لیکن تبلیغ اور جماعت کا تعارف ملک کے تقریباً تمام حصّے میں اس مخالفت کی وجہ سے ہو چکا ہے اور لوگ جماعت کو جاننے لگ گئے ہیں۔ کہنے لگے یہ جو اتنا تعارف ہوا ہے شاید آپ لوگوں سے یہ دس بیس سال میں بھی نہ ہو سکتا جتنا اس مخالفت کی وجہ سے ہوا ہے۔ اور یہ وہاں کے احمدی بھی لکھتے ہیں کہ ذرا بھی بہتر حالات ہوئے تو بہت سارے علاقے ایسے ہیں جہاں لوگ احمدیت قبول کرنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔ پس مخالفتوں یا دنیا والوں سے کسی قسم کا خوف نہیں ہونا چاہئے لیکن ساتھ ہی حکمت بھی ضروری ہے۔ تبلیغ کے لئے یہ بات بھی ضروری ہے کہ انسان کے قول اور فعل میں مطابقت ہو۔ جو کہتے ہیں اس پر عمل بھی کرنے والے ہوں۔ حکمت کی باتیں بھی تبھی منہ سے نکلتی ہیں اور دوسروں پر اثر کرتی ہیں جب قول اور فعل ایک ہو۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس طرف توجہ دلاتے ہوئے ایک موقع پر فرماتے ہیں کہ:
’’بہت سے مولوی اور علماء کہلا کر ممبروں پر چڑھ کر اپنے تئیں نائب الرسول اور وارث الانبیاء قرار دے کر وعظ کرتے پھرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ تکبّر، غرور، بدکاریوں سے بچو۔ مگر جو اُن کے اپنے اعمال ہیں اور جو کرتوتیں وہ خود کرتے ہیں ان کا اندازہ اس سے کر لو کہ ان باتوں کا اثر تمہارے دلوں پر کہاں تک ہوتا ہے‘‘۔ (ہر تبلیغ کرنے والے کی باتوں کا اثر بھی اس وقت ہی ہو گا جب وہ اپنے قول و فعل میں برابر ہو گا۔) فرمایا کہ ’’اگر اس قسم کے لوگ عملی طاقت بھی رکھتے اور کہنے سے پہلے خود کرتے تو قرآن شریف میں لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَالَاتَفْعَلُوْنَ (الصّف: 3)۔ کہنے کی کیا ضرورت پڑتی؟ یہ آیت ہی بتلاتی ہے کہ دنیا میں کہہ کر خود نہ کرنے والے بھی موجود تھے اور ہیں اور ہوں گے‘‘۔ فرمایا ’’تم میری بات سن رکھو اور خوب یاد کر لو کہ اگر انسان کی گفتگو سچے دل سے نہ ہو اور عملی طاقت اس میں نہ ہو تو وہ اثر پذیر نہیں ہوتی۔ اسی سے تو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی صداقت معلوم ہوتی ہے۔ کیونکہ جو کامیابی اور تاثیر فی القلوب آپ کے حصہ میں آئی اس کی کوئی نظیر بنی آدم کی تاریخ میں نہیں ملتی اور یہ سب اس لئے ہوا کہ آپ کے قول اور فعل میں پوری مطابقت تھی‘‘۔ (ملفوظات جلد 1 صفحہ 67-68۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پھر آپ نے فرمایا کہ ’’یاد رکھو‘‘ (ہمیں بھی نصیحت فرما دی) ’’کہ صرف لفّاظی اور لسّانی کام نہیں آ سکتی جب تک کہ عمل نہ ہو۔ محض باتیں عند اللہ کچھ بھی وقعت نہیں رکھتیں۔ چنانچہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ (الصّف: 4)۔‘‘ (ملفوظات جلد 1 صفحہ 77۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پھر آپ فرماتے ہیں کہ مومن کو دورنگی اختیار نہیں کرنی چاہئے۔ بزدلی اور نفاق اس سے ہمیشہ دور ہوتا ہے۔ ہمیشہ اپنے قول اور فعل کو درست رکھو اور ان میں مطابقت دکھاؤ جیسا کہ صحابہؓ نے اپنی زندگیوں میں دکھایا۔ تم بھی ان کے نقش قدم پر چل کر اپنے صدق اور وفا کے نمونے دکھاؤ۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد 1 صفحہ374۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پھر ایک جگہ نصیحت کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ’’اسلام کی حفاظت اور سچائی کے ظاہر کرنے کے لئے سب سے اوّل تو وہ پہلو ہے کہ تم سچے مسلمانوں کا نمونہ بن کر دکھاؤ۔ اور دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس کی خوبیوں اور کمالات کو دنیا میں پھیلاؤ‘‘۔ (ملفوظات جلد 8 صفحہ 323۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پہلے نمونہ بنو پھر اسلام کی تبلیغ کرو، اس کے کمالات دنیا میں پھیلاؤ۔ پس تبلیغ کے لئے بھی اپنی حالتوں میں پہلے پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک سچے مسلمان کا نمونہ جب انسان بن جائے تو پھر سوال ہی نہیں کہ لوگوں کی توجہ پیدا نہ ہو۔ وہ نمونہ دیکھ کر ہی لوگ توجہ پیدا کر دیتے ہیں اور اس طرح باقاعدہ تبلیغ سے پہلے تبلیغ کے راستے کھلنے شروع ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
مجلس شوریٰ جب کوئی بھی منصوبہ بندی کرتی ہے تو ممبران شوریٰ کی مختلف آراء سامنے آتی ہیں اور پھر ایک رائے قائم ہوتی ہے یا ممبران کی اکثریت کی ایک رائے قائم ہوتی ہے اور پھر اس پر عمل درآمد کرنے کے لئے ایک لائحہ عمل تجویز ہو کر خلیفہ وقت کے پاس منظوری کے لئے بھجوایا جاتا ہے اور جب منظوری ہو جاتی ہے تو اس پر اپنی تمام تر صلاحیتوں اور طاقتوں کے ساتھ عمل درآمد کرنا اور کروانا ممبران مجلس شوریٰ کی بھی ذمہ داری ہے اور ہر سطح کے جماعتی عہدیداران کی بھی ذمہ داری ہے۔
تبلیغ کے کام کو بہتر کرنے یا اسے وسعت دینے کے لئے جو تجویز مجلس شوریٰ برطانیہ میں زیر بحث آئی اور اس پر فیصلے ہوئے یا دنیا کے کسی بھی ملک میں اس پر مشورے ہوئے اور خلیفہ وقت سے منظوری کے بعد عمل درآمد کے لئے جماعتوں کو بھجوائے گئے۔ اس پر عمل درآمد کرنے اور کروانے کے لئے ہر ممبر مجلس شوریٰ اور ہر سطح کے عہدیداران کو اب بھرپور کوشش کرنی چاہئے۔ صرف یہ نہ سمجھیں کہ کیونکہ تبلیغ سے متعلق ایک تجویز ہے اس لئے صرف سیکرٹری تبلیغ ہی اس کا ذمہ دار ہے کہ کام کرے یا اگر کوئی تجویز کسی بھی دوسرے شعبہ سے متعلق ہے تو متعلقہ سیکرٹری ذمہ دار ہے۔
کوئی بھی عہدیدار ہو کسی نہ کسی رنگ میں تبلیغ میں حصہ لے سکتا ہے اور اگر عہدیدار حصہ لے رہے ہوں تو افراد جماعت کے سامنے نمونے قائم ہو رہے ہوں گے اور بہت سے احمدی ایسے ہوں گے جو بغیر کہے، بغیر خاص توجہ دلائے خود بخود ان نمونوں کو دیکھ کر اس لائحہ عمل کو پورا کرنے کے لئے اسلام کا حقیقی پیغام پہنچانے کی کوشش میں شامل ہو جائیں گے۔
نیشنل سیکرٹری تبلیغ کا کام ہے کہ جو لائحہ عمل بھی بنایا گیا ہے یہ ہر مقامی جماعت کے سیکرٹری تبلیغ تک پہنچنا چاہئے اور پھر اس بات کو بھی یقینی بنائیں کہ اس لائحہ عمل کا افراد جماعت سے متعلقہ حصہ جو ہے اور جو حصہ انتظامی نہیں ہے بلکہ افراد جماعت سے تعلق رکھتا ہے وہ وہاں کی جماعت کے ہر فرد تک پہنچ جائے۔
سورۃ النحل آیت 126 کی نہایت پُر معارف تفسیر۔ اس آیت کریمہ کی روشنی میں کامیاب تبلیغ کے لئے رہنما اصولوں کا تذکرہ اور اس حوالہ سے افراد جماعت کو اہم نصائح۔
اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے جو بات بیان فرمائی وہ حکمت کے ساتھ تبلیغ ہے۔ حکمت کے بڑے وسیع معنی ہیں اور کامیاب تبلیغ کے لئے ضروری ہے کہ ان معانی کا ہمیں علم ہو تا کہ ہم اپنی تبلیغ میں ان باتوں کو مدّنظر رکھیں۔ ہمیں اپنی تبلیغی سرگرمیوں میں ایک تسلسل پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ نہیں کہ سال میں ایک یا دو دفعہ عشرہ تربیت منا لیا، عشرہ تبلیغ منا لیا، لٹریچر سڑکوں پہ کھڑے ہو کر تقسیم کر دیا اور سمجھ لیا کہ تبلیغ کا حق ادا ہو گیا۔
داعیانِ خصوصی کو بھی صرف نام کے داعیانِ خصوصی بن کر نہیں بلکہ زیادہ وقت دے کر تبلیغ کے اس میدان میں اب آنا چاہئے۔
تبلیغ کے لئے بھی پہلے اپنی حالتوں میں پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ جب انسان ایک سچے مسلمان کا نمونہ بن جائے تو پھر سوال ہی نہیں کہ لوگوں کی توجہ پیدا نہ ہو۔ وہ نمونہ دیکھ کر ہی لوگ توجہ پیدا کر دیتے ہیں اور اس طرح باقاعدہ تبلیغ سے پہلے تبلیغ کے راستے کھلنے شروع ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
فرمودہ مورخہ 08 ستمبر2017ء بمطابق 08 تبوک 1396 ہجری شمسی، بمقام مسجدبیت الفتوح، مورڈن، لندن، یوکے
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔