آنحضرت ﷺ کا ارفع و اعلیٰ مقام اور آپ کی کامل اتباع
خطبہ جمعہ 20؍ اکتوبر 2017ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
گزشتہ جمعہ کے خطبہ میں مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک حوالہ پڑھا تھا جس میں آپ نے مسلمانوں کی عمومی حالت کے بارے میں فرمایا تھا کہ اگر ان کی یہ حالت نہ ہو گئی ہوتی اور وہ حقیقتِ اسلام سے بکلّی دُور نہ جا پڑے ہوتے تو پھر میرے آنے کی ضرورت کیا تھی۔ ان لوگوں کی ایمانی حالتیں بہت کمزور ہو گئی ہیں اور وہ اسلام کے مفہوم اور مقصد سے محض ناواقف ہیں۔ پھر آگے آپ نے یہ بھی فرمایا تھا (اس کا پہلے ذکر نہیں ہوا تھا) کہ
’’یہ لوگ سمجھتے نہیں کہ ہم میں کون سی بات اسلام کے خلاف ہے۔ ہم لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کہتے ہیں‘‘۔ یعنی مسلمان عمومی طور پر سمجھتے ہیں کہ ہم لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کہتے ہیں ’’اور نمازیں بھی پڑھتے ہیں اور روزے کے دنوں میں روزے بھی رکھتے ہیں اور زکوۃ بھی دیتے ہیں‘‘۔ آپ فرماتے ہیں کہ’’مگر مَیں کہتا ہوں کہ ان کے تمام اعمال اعمالِ صالحہ کے رنگ میں نہیں ہیں ورنہ اگر یہ اعمال صالحہ ہیں تو پھر ان کے پاک نتائج کیوں پیدا نہیں ہوتے؟ اعمال صالحہ تو تب ہو سکتے ہیں کہ وہ ہر قسم کے فساد اور ملاوٹ سے پاک ہوں لیکن ان میں یہ باتیں کہاں ہیں؟‘‘۔ (ملفوظات جلد 1صفحہ 343۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
آج ہم دیکھتے ہیں تو سب سے زیادہ فساد کی حالت مسلمان ممالک میں ہے۔ مسلمان گروہوں میں ہے۔ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے پر سرگرم ہیں۔ ہر ایک لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ تو پڑھتا ہے اور دوسرے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ پڑھنے والے کا خون کرتا ہے۔ اس کا حق مارتا ہے۔ کسی بھی ذریعہ سے اس کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے، کیا یہی قرآن کریم کی تعلیم ہے جس پر یہ لوگ عمل کر رہے ہیں؟ کیا یہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اُسوہ ہے جس کی یہ لوگ پیروی کر رہے ہیں؟ آجکل تو ہم دیکھتے ہیں کہ ہر جگہ دنیاداری غالب ہے۔ اگر مذہب کا نام بھی لیتے ہیں تو سیاست چمکانے کے لئے اور اپنے زُعم میں اپنی حکومتیں قائم کرنے کے لئے یا بچانے کے لئے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کے بارے میں تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا یہ سنہری حروف میں لکھا جانے والا بیان ہے کہ ’’کَانَ خُلُقُہٗ الْقُرْاٰن‘‘ (مسند امام احمد بن حنبل جلد 8 صفحہ 305 حدیث 25816 مسند عائشۃؓ مطبوعہ عالم الکتب العلمیۃ بیروت 1998ء) کہ آپ کی سیرت اور آپ کے معمولات کا پتہ کرنا ہے تو قرآن کریم آپ کی سیرت کی تفصیل ہے اسے پڑھو۔ اور یہ نمونے آپ نے اس لئے قائم فرمائے کہ آپ کو ماننے والے مومن اس پر عمل کریں۔ صرف نعرے لگانے کے لئے نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بھی یہی فرمایا ہے کہ میرے سے حقیقی تعلق صرف لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کہنے سے قائم نہیں ہو گا بلکہ میری محبت کو حاصل کرنا ہے تو پھر میرے محبوب رسول کی پیروی کرو۔ اس کے اُسوہ کو اپناؤ تو میرے پیارے بن جاؤ گے۔ تمہیں وہ مقام مل جائے گا جو اللہ تعالیٰ کی قربت کا مقام ہے ورنہ تمہارے نعرے کھوکھلے ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (آل عمران:32) کہ تُو کہہ دے کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو۔ اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔ اور اللہ بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔
کیا اللہ تعالیٰ جس سے محبت کرے اس کا یہی حال ہوتا ہے جو آجکل کے مسلمانوں کا ہے۔ علماء جن کو عامّۃ المسلمین عام طور پر اللہ تعالیٰ کا پیارا سمجھتے ہیں، اس کے قریب سمجھتے ہیں، وہ سب سے زیادہ دنیا میں فساد پیدا کر رہے ہیں۔ اب تو خود پاکستان میں بعض تجزیہ نگار اور کالم نویس اخباروں میں بھی لکھنے لگ گئے ہیں، دوسرے میڈیا پر بھی کہنے لگ گئے ہیں کہ مسلمانوں کی یہ حالت ان نام نہاد علماء نے ایسی کر دی ہے۔ پس اس وقت مسلمان علماء کی عمومی حالت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ کوئی قرآن اور سنت کی حقیقت بتانے والا ہو اور وہ اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے مطابق بھیج دیا ہے۔ لیکن علماء نہ خود اس کی بات سننا چاہتے ہیں، نہ عوام کو سننے دیتے ہیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والے کے خلاف کفر کے فتوے دے کر ایک عمومی خوف و ہراس اور فتنہ و فساد کی صورت پیدا کر دی ہے۔
یہ الزام حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ہر روز لگتا ہے کہ آپ نے نعوذ باللہ دنیاوی خواہشات کی تکمیل اور اپنی بڑائی کے لئے جماعت کا قیام کیا ہے۔
بہرحال ہم جانتے ہیں کہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کی تجدید و تکمیل اشاعت کے لئے ہی اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھیجا تھا۔ قرآن کریم کے علوم و معارف کا فہم وادراک آپ کے ذریعہ سے ہی ہمیں حاصل ہوا۔ آپ نے ہر موقع پر قرآن کریم کی تعلیم کی روشنی میں ہماری رہنمائی فرمائی۔ چنانچہ اس آیت قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ کو مختلف مواقع پر مختلف زاویوں اور معانی کے ساتھ آپ نے پیش فرمایا اور یہی وہ باتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کا قرب دلاکر، اس کا پیارا بنا کر فتنہ و فساد کی حالت سے نکالنے والی بن سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کے لئے اپنی بقا کو قائم رکھنے کے لئے، اپنے ملکوں میں امن قائم رکھنے کے لئے، اسلام کی شان و شوکت کو دنیا پر ظاہر کرنے کے لئے کوئی اور راستہ نہیں۔ نیک نتائج اس وقت قائم ہوں گے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی پیروی ہو گی ورنہ لَا اِلٰہَ اِلَّااللّٰہ کا نعرہ بھی کھوکھلا ہے اور مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ کا نعرہ بھی کھوکھلا ہے۔
اس وقت مَیں نے اس آیت کی تشریح میں بعض اقتباسات لئے ہیں جو آپ نے فرمائے۔
ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ:
’’مسلمانوں میں اندرونی تفرقہ کا موجب بھی یہی حُبّ دنیا ہی ہوئی ہے۔ کیونکہ اگر محض اللہ تعالیٰ کی رضا مقدم ہوتی تو آسانی سے سمجھ میں آ سکتا تھا کہ فلاں فرقے کے اصول زیادہ صاف ہیں اور وہ انہیں قبول کر کے ایک ہو جاتے۔ اب جبکہ حُبّ ِدنیا کی وجہ سے یہ خرابی پیدا ہو رہی ہے تو ایسے لوگوں کو کیسے مسلمان کہا جا سکتا ہے جبکہ ان کا قدم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم پر نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تو فرمایا تھا: قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ یعنی (کہو) اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو۔ اللہ تعالیٰ تم کو دوست رکھے گا‘‘۔ آپ فرماتے ہیں کہ’’اب اس حُبُّ اللہ کی بجائے اور اِتّباع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بجائے حُبُّ الدنیا کو مقدم کیا گیا ہے۔ کیا یہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اِتّباع ہے؟ کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیادار تھے؟ کیا وہ (نعوذ باللہ) سود لیا کرتے تھے؟ یا فرائض اور احکامِ الٰہی کی بجاآوری میں غفلت کیا کرتے تھے؟ کیا آپ میں معاذ اللہ نفاق تھا، مداہنہ تھا؟ دنیا کو دین پر مقدم کرتے تھے؟ غور کرو! اِتّباع تو یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلو اور پھر دیکھو کہ خدا تعالیٰ کیسے کیسے فضل کرتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد8صفحہ348-349۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
لیکن آجکل عملی طور پر جو مسلمانوں کی حالت ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کی جو فعلی شہادت اس کے خلاف ہے وہ اس بات کی گواہ ہے کہ اُن کا یہ برا حال ہو رہا ہے۔ ملک ملک لڑ رہے ہیں۔ غیروں کے پاس جا کر ہم مسلمان ممالک دوسرے مسلمان ممالک کے خلاف لڑنے کے لئے بھیک مانگتے ہیں۔ اب گزشتہ دنوں امریکہ کے صدر نے جو ایران کے خلاف دوبارہ پابندیاں لگانے کا ایک اعلان کیا اور اس کے اوپر کام ہو رہا ہے اس پہ سارا یورپ، یورپی یونین، دوسرے ممالک اس کے خلاف ہیں۔ اور یہاں انگلستان میں ایک انگریز کالم لکھنے والے نے لکھا کہ امریکہ کے صدر کی اس حرکت پرساری دنیا خلاف ہے سوائے تین ممالک ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ امریکہ بڑا اچھا کر رہا ہے۔ ایک تو امریکہ خود، ایک اسرائیل اور ایک سعودی عرب۔ اب سعودی عرب مسلمان ملک کے خلاف ایک غیر مسلم ملک کو جنگ کرنے کی اجازت دے رہا ہے بلکہ اس کا ساتھ دے رہا ہے۔ تو یہ حالات ہیں مسلمانوں کے۔ اور اسی کا نقشہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کھینچا ہے کہ تم لوگ تو پھٹے ہوئے ہو۔ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو کس طرح حاصل کر سکتے ہو۔
اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ حقیقی نیکی انسان کس طرح کر سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کو انسان کس طرح حاصل کر سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے انعامات سے کس طرح فیضیاب ہو سکتاہے۔ اور آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ انعامات کس طرح ملے؟ آپ کے خلاف یہ فتوے دئیے جاتے ہیں کہ نعوذ باللہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم سے انحراف کرنے والے ہیں۔ آپ اسلام کی تعلیم سے ہی انحراف کرنے والے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ:
’’مَیں سچ کہتا ہوں (اور اپنے تجربہ سے کہتا ہوں ) کہ کوئی شخص حقیقی نیکی کرنے والا اور خدا تعالیٰ کی رضا کو پانے والا نہیں ٹھہر سکتا اور ان انعام و برکات اور معارف اور حقائق اور کشوف سے بہرہ ور نہیں ہو سکتا جو اعلیٰ درجہ کے تزکیہ نفس پر ملتے ہیں‘‘۔ (اعلیٰ درجہ کا جو تزکیہ نفس ہوتا ہے ایک مقام پر انسان پہنچتا ہے تبھی اللہ تعالیٰ سے انعامات و برکات ملتے ہیں۔ کشوف ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے مکالمہ ہوتا ہے۔ فرمایا کہ)’’جب تک کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اِتّباع میں کھویا نہ جائے اور اس کا ثبوت خود خدا تعالیٰ کے کلام سے ملتا ہے: قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ اور خدا تعالیٰ کے اس دعویٰ کی عملی اور زندہ دلیل‘‘ آپ فرماتے ہیں کہ’’مَیں ہوں‘‘۔ (ملفوظات جلد1صفحہ204۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)۔ اس زمانے میں مجھ سے اللہ تعالیٰ کلام کرتا ہے اس لئے کہ مَیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں کھویا گیا۔ آپ کی پیروی کی اور اللہ تعالیٰ نے پھر محبت کا سلوک کیا۔
پس آپ پر الزام لگانے والوں کے الزام کہ آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو گرایا ہے۔ جبکہ آپ تو فرما رہے ہیں کہ جو مقام مجھے ملا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق اور محبت اور آپ کی کامل پیروی کے ذریعہ سے ملا۔ جس کو دنیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام گرانے والا سمجھتی ہے وہی حقیقی عاشق صادق ہے جس نے حقیقی پیروی کی اور پھر اللہ تعالیٰ نے بھی ایسا نوازا کہ اپنے حبیب سے محبت کرنے کی وجہ سے اپنا بھی محبوب بنا لیا۔
اس کامل پیروی کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے جو کام آپ کے سپرد فرمایا اس کے بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ:
’’مجھے بھیجا گیا ہے تا کہ مَیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کھوئی ہوئی عظمت کو پھر قائم کروں اور قرآن شریف کی سچائیوں کو دنیا کو دکھاؤں اور یہ سب کام ہو رہا ہے۔ لیکن جن کی آنکھوں پر پٹّی ہے وہ اس کو دیکھ نہیں سکتے‘‘۔ (ملفوظات جلد 5صفحہ 14۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پھر ایک جگہ اس آیت کی وضاحت فرماتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کی کہ:
’’ان کو کہہ دو کہ اگر تم چاہتے ہو کہ محبوبِ الٰہی بن جاؤ اور تمہارے گناہ بخش دئیے جاویں تو اس کی ایک ہی راہ ہے کہ میری اطاعت کرو‘‘۔ (یہ جو آیت ہے اس کا ترجمہ ہے۔) آپ فرماتے ہیں ’’کیا مطلب کہ میری پیروی ایک ایسی شئے ہے جو رحمت الٰہی سے ناامید ہونے نہیں دیتی۔ گناہوں کی مغفرت کا باعث ہوتی اور اللہ تعالیٰ کا محبوب بنا دیتی ہے‘‘۔ (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی جو ہے وہ کی جائے تو وہ گناہوں کی مغفرت کا باعث بنتی ہے اور نہ صر ف یہ بلکہ اللہ تعالیٰ کا محبوب بنا دیتی ہے۔) آپ فرماتے ہیں کہ ’’اور تمہارا یہ دعویٰ کہ ہم اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں اسی صورت میں سچا اور صحیح ثابت ہو گا کہ تم میری پیروی کرو‘‘۔ (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرو۔) فرماتے ہیں کہ’’اس آیت سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ انسان اپنے کسی خود تراشیدہ طرزِ ریاضت و مشقت اور جَپ تَپ سے اللہ تعالیٰ کا محبوب اور قربِ الٰہی کا حقدار نہیں بن سکتا۔ انوار و برکاتِ الٰہیہ کسی پر نازل نہیں ہو سکتیں جب تک وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں کھویا نہ جاوے۔ اور جو شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں گم ہو جاوے اور آپ کی اطاعت اور پیروی میں ہر قسم کی موت اپنی جان پر وارد کر لے اس کو وہ نورِ ایمان، محبت اور عشق دیا جاتا ہے جو غیر اللہ سے رہائی دلادیتا ہے اور گناہوں سے رستگاری اور نجات کا موجب ہوتا ہے۔ اِسی دنیا میں وہ ایک پاک زندگی پاتا ہے اور نفسانی جوش و جذبات کی تنگ و تاریک قبروں سے نکال دیا جاتا ہے۔ اسی کی طرف یہ حدیث اشارہ کرتی ہے۔‘‘ (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ) ’’اَنَا الْحَاشِرُ الَّذِیْ یُحْشَرُ النَّاسُ عَلٰی قَدَمِیْ۔ یعنی میں وہ مُردوں کو اٹھانے والا ہوں جس کے قدموں پر لوگ اٹھائے جاتے ہیں‘‘۔ (ملفوظات جلد 2صفحہ 183۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)۔ روحانی مُردوں کو زندہ کرنے والے ہیں۔ آپ کے پیچھے چلنے والے اللہ تعالیٰ کے محبوب بننے والے ہیں۔ پھر ایک جگہ آپ اس کی وضاحت کرتے ہوئے مزید فرماتے ہیں کہ:
’’سعادتِ عُظمیٰ کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک ہی راہ رکھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی جاوے۔ جیسا کہ اس آیت میں صاف فرما دیا ہے قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ۔ یعنی آؤ میری پیروی کرو تا کہ اللہ بھی تم کو دوست رکھے۔ اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ رسمی طور پر عبادت کرو۔ اگر حقیقتِ مذہب یہی ہے تو پھر نماز کیا چیز ہے۔ اور روزہ کیا چیز ہے۔ خود ہی ایک بات سے رکے اور خود ہی کر لے‘‘۔ (رسمی نمازیں نہیں ہیں۔ نمازیں اس طرح ادا کرو جو اُن کا حق ہے۔ جو ان کے اوقات ہیں اس کی پابندی کرنی ضروری ہے اور پھر اس طرح عبادت کرو کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہوئے ہو ورنہ تو یہ ساری رسمی عبادتیں ہیں)۔ فرمایا کہ ’’اسلام محض اس کا نام نہیں ہے۔ اسلام تو یہ ہے کہ بکرے کی طرح سر رکھ دے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرا مرنا، میرا جینا، میری نماز، میری قربانیاں اللہ ہی کے لئے ہیں اور سب سے پہلے مَیں اپنی گردن رکھتا ہوں‘‘۔ (ملفوظات جلد 2صفحہ 186۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس حقیقی پیروی کرنے والے اپنی عبادتوں کے بھی معیار بلند کرتے ہیں۔ پس ہم میں سے ہر ایک کو اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ اس لحاظ سے بھی ہمیں ضرورت ہے ورنہ ہمارا بھی پیروی کا دعویٰ کھوکھلا دعویٰ ہے۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کامل موحّد ہونے کے بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے کہ ’’اے رسول! تُو ان لوگوں کو کہہ دے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہو تو میری اِتّباع کرو‘‘۔ (یہ آیت کا ترجمہ ہے۔) فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ تم کو اپنا محبوب بنا لے گا‘‘۔ فرماتے ہیں کہ ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اِتّباع انسان کو محبوب الٰہی کے مقام تک پہنچا دیتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کامل موحّد کا نمونہ تھے‘‘۔ (ملفوظات جلد 8صفحہ 115۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)۔ یعنی اب آپ اس سے یہ استنباط کر رہے ہیں، یہ دلیل دے رہے ہیں کہ آپ کامل موحّد تھے۔ اس مقام پر پہنچے ہوئے تھے جس پہ اور کوئی نہیں پہنچ سکتا۔ اسی لئے عبادت کے لحاظ سے بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہی نمونہ ٹھہرایا جس طرح دوسرے اخلاق فاضلہ کے بارے میں۔ ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ:
’’اللہ تعالیٰ کی محبت کامل طور پر انسان اپنے اندر پیدا نہیں کر سکتا جب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق اور طرز عمل کو اپنا رہبر اور ہادی نہ بناوے۔ چنانچہ خود اللہ تعالیٰ نے اس کی بابت فرمایا ہے: قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ۔ یعنی محبوبِ الٰہی بننے کے لئے ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اِتّباع کی جاوے۔ سچی اِتّباع آپ کے اخلاق فاضلہ کا رنگ اپنے اندر پیدا کرنا ہوتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 3صفحہ 87۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس ایک تو عبادت کے رنگ ہیں۔ ایک دوسرے اخلاق فاضلہ کے رنگ ہیں۔ اور سچی اِتّباع کا مطلب ہی یہی ہے کہ جو اخلاقِ فاضلہ ہیں جن کا قرآن کریم میں ذکر ہے وہ ان میں پیدا کی جائیں جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ کَانَ خُلُقُہٗ الْقُرْاٰن۔ کہ آپ کے اخلاق فاضلہ اگر دیکھنے ہیں تو قرآن کریم پڑھ لو۔ وہی اس کی تفسیر ہے۔ پس اس لحاظ سے بھی ہمیں قرآن کریم پڑھنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اَوروں کو کہنے سے پہلے اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مان کر ہم نے کس حد تک قرآن کریم کو اپنا دستور العمل بنایا ہے۔ یہ بیعت کا حصہ بھی ہے۔ سچائی کو ہم نے کس حد تک قائم کیا ہے۔ انصاف کو ہم کس حد تک قائم کرنے والے ہیں۔ لوگوں کے حقوق دینے میں ہم کس حد تک کوشش کرنے والے ہیں۔ پھر ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’ہر ایک شخص کو خود بخود خدا تعالیٰ سے ملاقات کرنے کی طاقت نہیں ہے اس کے واسطے واسطہ ضرور ہے اور وہ واسطہ قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اس واسطے جو آپ کو چھوڑتا ہے وہ کبھی بامرادنہ ہوگا۔ انسان تو دراصل بندہ یعنی غلام ہے۔ غلام کا کام یہ ہوتا ہے کہ مالک جو حکم کرے اسے قبول کرے۔ اسی طرح اگر تم چاہتے ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض حاصل کرو تو ضرور ہے کہ اس کے غلام ہو جاؤ۔ قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ(الزمر:54) (یعنی کہہ دے اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جان پر ظلم کیا۔) فرمایا کہ’’اس جگہ بندوں سے مراد غلام ہی ہیں نہ کہ مخلوق۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بندہ ہونے کے واسطے ضروری ہے کہ آپ پر درود پڑھو اور آپ کے کسی حکم کی نافرمانی نہ کرو۔ سب حکموں پر کاربند رہو۔ جیسے کہ حکم ہے۔ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ۔ یعنی اگر تم خداتعالیٰ سے پیار کرنا چاہتے ہو تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پورے فرمانبردار بن جاؤ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ میں فنا ہو جاؤ تب خدا تم سے محبت کرے گا‘‘۔ (ملفوظات جلد 5صفحہ 321-322۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس انتہائی گنہگار بھی استغفار کرنے والا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنے والا اگر حقیقت میں اپنے آپ میں تبدیلی پیدا کرنا چاہے تو پھر خدا تعالیٰ کا پیارا بن سکتا ہے۔
پھر آپ فرماتے ہیں کہ: ’’اللہ تعالیٰ کے خوش کرنے کا ایک یہی طریق ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی فرمانبرداری کی جاوے۔ دیکھا جاتا ہے کہ لوگ طرح طرح کی رسومات میں گرفتار ہیں۔ کوئی مر جاتا ہے تو قسم قسم کی بدعات اور رسومات کی جاتی ہیں۔ حالانکہ چاہئے کہ مُردہ کے حق میں دعا کریں۔ رسومات کی بجا آوری میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صرف مخالفت ہی نہیں ہے بلکہ ان کی ہتک بھی کی جاتی ہے‘‘۔ جو نئی نئی رسمیں پیدا کر لی ہیں یہ صرف آپ کے حکم کی خلاف ورزی ہی نہیں ہے بلکہ یہ ایک لحاظ سے آپ کی ہتک ہے۔ اب جنہوں نے ہتک رسول کے قانون پاس کئے ہوئے ہیں وہ سب سے بڑھ کے ان بدعات میں ملوّث ہیں۔ یہ ہتک کس طرح کی جاتی ہے؟)آپ فرماتے ہیں کہ’’……گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کافی نہیں سمجھا جاتا اور اگر کافی خیال کرتے تو اپنی طرف سے رسومات کے گھڑنے کی کیوں ضرورت پڑتی‘‘۔ (ملفوظات جلد 5صفحہ 440۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس ان لوگوں کو جو ہمارے خلاف کفر کے فتوے دیتے ہیں اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔
پھر ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ:
’’اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہو تو میری اِتّباع کرو۔ اس اِتّباع کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا‘‘۔ آپ فرماتے ہیں ’’پس اب اس آیت سے صاف ثابت ہے کہ جب تک انسان کامل مُتّبع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نہیں ہوتا وہ اللہ تعالیٰ سے فیوض و برکات پا نہیں سکتا اور وہ معرفت اور بصیرت جو اس کی گناہ آلود زندگی اور نفسانی جذبات کی آگ کو ٹھنڈا کر دے عطا نہیں ہوتی۔ ایسے لوگ ہیں جو عُلَمَآءُ اُمَّتِیْ کے مفہوم کے اندر داخل ہیں‘‘۔ (ملفوظات جلد 8صفحہ 96-97۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
اگر نفسانی جذبات کو ٹھنڈا کرنا ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل پیروی کی ضرورت ہے۔ آپ کے اسوہ پر چلنے کی ضرورت ہے۔ حقیقی معرفت اور بصیرت اللہ تعالیٰ کی حاصل کرنی ہے، اس کا محبوب بننا ہے تو آپ کی پیروی کرنے کی ضرورت ہے۔ گناہ آلود زندگی سے نجات پانی ہے تو آپ کی پیروی کرنے کی ضرورت ہے۔ اور جو لوگ یہ کرتے ہیں وہ اس مقام پر پہنچ جاتے ہیں جن کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری اُمّت کے علماء، بنی اسرائیل کے انبیاء کی طرح ہیں۔ (الموضوعات الکبریٰ از ملا علیٰ قاری صفحہ 159 حدیث 614 مطبوعہ قدیمی کتب خانہ آرام باغ کراچی)
لیکن آجکل کے علماء اس میں شامل نہیں ہیں۔ یہ وہ مقام نہیں پانے والے۔ کیونکہ یہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جاری فیض کے قائل ہی نہیں ہیں۔ یہ سمجھتے ہی نہیں کہ اس سے فیض مل سکتا ہے۔
پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کے بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ:
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا مقام تو یہ تھا کہ آپ محبوبِ الٰہی تھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے دوسرے لوگوں کو بھی اس مقام پر پہنچنے کی راہ بتائی۔ جیسا کہ فرمایا قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ۔ یعنی ان کو کہہ دو کہ اگر تم چاہتے ہو کہ محبوبِ الٰہی بن جاؤ تو میری اِتّباع کرو۔ اللہ تعالیٰ تم کو اپنا محبوب بنا لے گا‘‘۔ (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان کروایا۔) فرماتے ہیں کہ’’اب غور کرو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اِتّباع محبوب الٰہی تو بنا دیتی ہے پھر اور کیا چاہئے؟‘‘ (ملفوظات جلد8 صفحہ65۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پھر ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ:
’’جو شخص یہ کہتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے بغیر نجات ہو سکتی ہے وہ جھوٹا ہے۔ خداتعالیٰ نے جو بات ہم کو سمجھائی ہے وہ بالکل اس کے برخلاف ہے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ کہ اے رسول محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ان لوگوں کو کہہ دے کہ اگر تم خدا تعالیٰ سے پیار کرتے ہو تو آؤ میری پیروی کرو تم خدا تعالیٰ کے محبوب بن جاؤ گے۔ بغیر متابعت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوئی شخص نجات نہیں پا سکتا۔ جو لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بُغض رکھتے ہیں ان کی کبھی خیر نہیں۔‘‘ (ملفوظات جلد 8صفحہ 434-435۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
یہ ہے ہمارے ایمان کا حصہ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کے بارہ میں ایک عیسائی سے آپ کی بحث ہو رہی تھی۔ سوال جواب ہو رہے تھے۔ اس عیسائی نے کہا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مقام کے بارے میں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے بارے میں یہ کہتے ہیں۔ انہوں نے یہ کہا ہے کہ ’’میرے پاس آؤ تم جو تھکے اور ماندہ ہو کہ مَیں تمہیں آرام دوں گا‘‘ اور یہ (بھی کہا عیسیٰ علیہ السلام نے) کہ ’’میں روشنی ہوں اور میں راہ ہوں۔ میں زندگی اور راستی ہوں۔‘‘ (یعنی میں روشنی ہوں۔ میں رستہ دکھانے والا ہوں۔ میں زندگی دینے والا ہوں۔ میرے پاس آؤ۔ تو عیسائی نے سوال کیا کہ) ’’کیا بانیٔ اسلام (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم) نے یہ کلمات یا ایسے کلمات کسی جگہ اپنی طرف منسوب کئے ہیں؟‘‘۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کے جواب میں فرمایا کہ’’قرآن شریف میں صاف فرمایا گیا ہے قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ یعنی ان کو کہہ دے کہ اگر خدا سے محبت رکھتے ہو تو آؤ میری پیروی کرو تا خدا بھی تم سے محبت کرے اور تمہارے گناہ بخشے‘‘۔ فرمایا کہ ’’یہ وعدہ کہ میری پیروی سے انسان خدا کا پیارا بن جاتا ہے مسیح کے گزشتہ اقوال پر غالب ہے کیونکہ اس سے بڑھ کر کوئی مقام نہیں کہ انسان خدا کا پیارا ہو جائے‘‘۔ (مسیح نے تو یہ کہا تھا کہ روشنی پاؤ۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا کہ آپ اعلان کریں کہ جو میری پیروی کرے گا وہ اللہ کا محبوب بن جائے گا اور گناہ بھی بخشے جائیں گے۔) فرماتے ہیں کہ’’پس جس کی راہ پر چلنا انسان کو محبوبِ الٰہی بنا دیتا ہے اس سے زیادہ کس کا حق ہے کہ اپنے تئیں روشنی کے نام سے موسوم کرے‘‘۔ (سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کے جواب، روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 372)
یہ وہ زمانہ تھا جب ہر طرف عیسائی پادری عیسائیت کی تبلیغ کر رہے تھے۔ ہندوستان میں لاکھوں مسلمان عیسائی ہو چکے تھے۔ مسلمان علماء اور دوسرے لیڈروں کو توفیق نہیں تھی کہ اسلام کا دفاع کر سکیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام اور شان کو ایسے رنگ میں بیان کریں کہ غیر مسلموں کے منہ بند ہو سکیں۔ ایسے وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان کا مقابلہ کیا۔ آپ ہی تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لئے بھیجا تھا۔ اور پھر ہندوستان کی تاریخ گواہ ہے کہ عیسائی پادریوں کے اسلام پر حملے کو اللہ تعالیٰ کے اس پہلوان نے، اس جری اللہ نے دلائل اور براہین سے روکا۔ اور نہ صرف روکا بلکہ پسپا کیا اور اس بات کا اظہار اس وقت کے مسلمانوں نے کیا۔ تاریخ میں ہمیں ملتا ہے بلکہ اِس زمانے کے علماء جو ہمارے مخالف ہیں انہوں نے بھی اس بات کا اقرار کیا۔ چنانچہ چند سال پہلے ڈاکٹر اسرار احمد جو فوت ہو گئے ہیں انہوں نے بھی اس بات کا اقرار کیا تھا کہ اُس زمانے میں حقیقت میں اسلام کا دفاع حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے ہی کیا تھا۔ بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ جس طرح آپ نے اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کو بلند کیا کسی اور مسلمان عالم کو اس کی توفیق نہیں ملی۔
پھر قُلْ اِنْ کُنْتُمْ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کا بھی خوبصورت استدلال آپ نے پیش فرمایا۔ عربوں میں تو خاص طور پر اب بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر زندہ سمجھا جاتا ہے اور یہ ان کا بڑا راسخ نظریہ ہے۔ بہرحال اس کا ردّ کرتے ہوئے اس دلیل سے آپ فرماتے ہیں کہ:
’’میرے نزدیک مومن وہی ہوتا ہے جو آپ کی اِتّباع کرتا ہے اور وہی کسی مقام پر پہنچتا ہے۔ جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ۔ یعنی کہہ دو کہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہو تو میری اِتّباع کرو تا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اپنا محبوب بنا لے‘‘۔ آپ فرماتے ہیں کہ ’’اب محبت کا تقاضا تو یہ ہے کہ محبوب کے فعل کے ساتھ خاص موانست ہو‘‘۔ (خاص اُنس ہو۔ ایک تعلق ہو۔) آپ فرماتے ہیں کہ’’اور مرنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت ہے۔‘‘ (یعنی آپ کی وفات ہوئی۔) ’’آپ نے مر کر دکھا دیا۔ پھر کون ہے جو زندہ رہے یا زندہ رہنے کی آرزو کرے؟ یا کسی اور کے لئے تجویز کرے کہ وہ زندہ رہے؟‘‘۔ (اگر کوئی حقیقی طور پر آپ کو ماننے والا ہے تو نہ وہ زندہ رہ سکتا ہے، نہ کوئی آرزو کرے گا اور نہ ہی اس کو کسی اور کے زندہ رہنے کے نظریے پر یقین رکھنا چاہئے۔) آپ فرماتے ہیں کہ ’’محبت کا تقاضا تو یہی ہے کہ آپ کی اِتّباع میں ایسا گم ہو کہ اپنے جذباتِ نفس کو تھام لے اور یہ سوچ لے کہ مَیں کسی کی اُمّت ہوں۔ ایسی صورت میں جو شخص حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ وہ اب تک زندہ ہیں وہ کیونکر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی محبت اور اِتّباع کا دعویٰ کر سکتا ہے؟ اس لئے کہ آپؐ کی نسبت وہ گوارا کرتا ہے کہ مسیح کو افضل قرار دیا جاوے اور آپؐ کو مُردہ کہا جاوے۔ مگر اُس کے لئے وہ پسند کرتا ہے کہ زندہ یقین کیا جاوے‘‘۔ (ملفوظات جلد 8صفحہ 228-229۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
ایک طرف تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا، آپ کی اِتّباع کا دعویٰ۔ دوسری طرف یہ کہہ کر کہ مسیح زندہ ہے اس کو افضل قرار دیا جا رہا ہے۔
پس آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہی ہیں جنہوں نے ہر لحاظ سے اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کیا ہے اور آپ کی شان کو بلند فرمایا ہے اور یہی آپ کی بعثت کا مقصد تھا جس پر علماء کو ہر وقت اعتراض رہتا ہے۔
اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ زندہ نبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، آپ فرماتے ہیں:
’’غور کر کے دیکھو کہ جب یہ لوگ خلافِ قرآن و سنّت کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ زندہ آسمان پر بیٹھے ہیں تو پادریوں کو نکتہ چینی کا موقع ملتا ہے اور وہ جھٹ پٹ کہہ اٹھتے ہیں کہ تمہارا پیغمبر مر گیا اور معاذ اللہ وہ زمینی ہے‘‘۔ (اور یہی کچھ ٹی وی چینلوں پر ہوتا رہا ہے جس پر عرب دنیا میں بڑی بے چینی پیدا ہوتی رہی ہے۔ آخر کار جب ہماری دلیلیں سنیں، ’’حِوار‘‘ کے پروگرام سنے، ایم ٹی اے پر عربی پروگرام سنے، تب بہت سارے لوگوں نے اس کو پسند کیا اور ان دلائل کے قائل ہوئے۔ لیکن علماء پھر بھی قائل نہیں ہو رہے۔) آپ فرماتے ہیں کہ ’’حضرت عیسیٰ زندہ اور آسمانی ہے اور اس کے ساتھ ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کر کے کہتے ہیں کہ وہ مردہ ہے‘‘۔ ان کی یہ باتیں ہیں کہ وہ جھٹ کہتے ہیں کہ تمہارا پیغمبر مر گیا معاذ اللہ وہ زمینی ہے۔ عیسائی پادری یہ کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ زندہ ہیں اور آسمانی ہیں اور اس کے ساتھ ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کر کے عیسائی یہ کہتے ہیں کہ وہ مردہ ہے۔ یہی ان کا پراپیگنڈہ ہوتا رہا ہے۔) آپ فرماتے ہیں کہ ’’سوچ کر بتاؤ کہ وہ پیغمبر جو افضل الرسل اور خاتم الانبیاء ہے ایسا اعتقاد کر کے اس کی فضیلت اور خاتمیت کو یہ لوگ بٹّہ نہیں لگاتے؟ ضرور لگاتے ہیں اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کا ارتکاب کرتے ہیں۔‘‘ آپ فرماتے ہیں کہ ’’مَیں یقین رکھتا ہوں کہ پادریوں سے جس قدر توہین ان لوگوں نے اسلام کی کرائی ہے‘‘ (یعنی ان مسلمانوں نے جویہ نظریہ رکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ زندہ ہیں ) ’’اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مردہ کہلایا ہے۔ اسی کی سزامیں یہ نکبت اور بدبختی ان کے شامل حال ہو رہی ہے‘‘۔ (مسلمانوں کا جو حال ہے یہ اسی وجہ سے ہے۔) آپ فرماتے ہیں کہ ’’ایک طرف تو منہ سے کہتے ہیں کہ وہ افضل الانبیاء ہیں۔‘‘ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سب انبیاء سے افضل ہیں ) ’’اور دوسری طرف اقرار کرلیتے ہیں کہ63 سال کے بعد مر گئے اور مسیح اب تک زندہ ہے اور نہیں مرا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتا ہے وَکَانَ فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکَ عَظِیْمًا‘‘ کہ اللہ تعالیٰ کا تجھ پر بہت بڑا فضل ہے۔) ’’پھر کیا یہ ارشاد الٰہی غلط ہے؟‘‘۔ فرماتے ہیں ’’نہیں۔ یہ بالکل درست اور صحیح ہے۔ وہ جھوٹے ہیں جو کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مُردہ ہیں۔ اس سے بڑھ کر کوئی کلمہ توہین کا نہیں ہو سکتا۔ حقیقت یہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں ایسی فضیلت ہے جو کسی نبی میں نہیں ہے۔ مَیں اس کو عزیز رکھتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات کو جو شخص بیان نہیں کرتا وہ میرے نزدیک کافر ہے‘‘۔ آپ فرماتے ہیں ’’کس قدر افسوس کی بات ہے کہ جس نبی کی اُمّت کہلاتے ہیں اسی کو معاذ اللہ مُردہ کہتے ہیں اور اس نبی کو جس کی اُمّت کا خاتمہ ضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْکَنَۃ پر ہوا ہے۔‘‘ (یعنی ان پر ذلت اور مسکینی کی مار ڈالی گئی تھی) ’’اسے زندہ کہا جاتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 5صفحہ 28-29۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
اس بات کو بیان کرنے کے بعد کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جو نبی آچکے، وہ اب کوئی بھی نہیں آ سکتا۔ اب نہ عیسیٰ علیہ السلام آ سکتے ہیں۔ وہ تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کے نبی تھے اور وہ فوت ہوگئے۔ حضرت موسیٰ کی اُمّت کا اب کوئی نبی نہیں آ سکتا۔ پھر آپ بیان فرماتے ہیں کہ یہ فیض اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے اور آپ کی پیروی سے ہی جاری ہو سکتا ہے اور ہوا ہے کیونکہ آپ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی زندہ نبی ہیں۔ چنانچہ اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو مسیح موعود اور مہدی معہود بنا کر بھیجا ہے جس کا درجہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع نبی کا اور غیر شرعی نبی کا ہے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ:
’’مَیں نے محض خدا کے فضل سے، نہ اپنے کسی ہنر سے، اس نعمت سے کامل حصہ پایا ہے جو مجھ سے پہلے نبیوں اور رسولوں اور خدا کے برگزیدوں کو دی گئی تھی۔ اور میرے لئے اس نعمت کا پانا ممکن نہ تھا اگر مَیں اپنے سید و مولیٰ فخر الانبیاء اور خیر الوریٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے راہوں کی پیروی نہ کرتا۔ سو مَیں نے جو کچھ پایا اس پیروی سے پایا اور مَیں اپنے سچے اور کامل علم سے جانتا ہوں کہ کوئی انسان بجز پیروی اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا تک نہیں پہنچ سکتا اور نہ معرفتِ کاملہ کا حصہ پا سکتا ہے۔ اور مَیں اس جگہ یہ بھی بتلاتا ہوں کہ وہ کیا چیز ہے کہ سچی اور کامل پیروی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب باتوں سے پہلے دل میں پیدا ہوتی ہے۔ سو یاد رہے کہ وہ قلبِ سلیم ہے۔ یعنی دل سے دنیا کی محبت نکل جاتی ہے اور دل ایک ابدی اور لازوال لذّت کا طالب ہو جاتا ہے۔ پھر بعد اس کے ایک مصفّیٰ اور کامل محبت الٰہی بباعث اس قلب سلیم کے حاصل ہوتی ہے‘‘۔ (جب دنیا کی محبت نکالی جاتی ہے تو پھر محبت الٰہی حاصل ہوتی ہے۔) ’’اور یہ سب نعمتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے بطور وراثت ملتی ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے۔ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ۔ یعنی ان کو کہہ دے کہ اگر تم خدا سے محبت کرتے ہو تو آؤ میری پیروی کرو تا خدا بھی تم سے محبت کرے۔ بلکہ یکطرفہ محبت کا دعویٰ بالکل ایک جھوٹ اور لاف و گزاف ہے۔ جب انسان سچے طور پر خدا تعالیٰ سے محبت کرتا ہے تو خدا بھی اس سے محبت کرتا ہے۔ تب زمین پر اس کے لئے ایک قبولیت پھیلائی جاتی ہے اور ہزاروں انسانوں کے دلوں میں ایک سچی محبت اس کی ڈال دی جاتی ہے اور ایک قوتِ جذب اس کو عنایت ہوتی ہے اور ایک نور اس کو دیا جاتا ہے جو ہمیشہ اس کے ساتھ ہوتا ہے‘‘۔ (چنانچہ یہی دیکھ لیں اب دور دراز بیٹھے ہوئے افریقن ممالک میں بھی یہ محبت اللہ تعالیٰ ڈالتا ہے جہاں لاکھوں لوگ احمدیت میں شامل ہو رہے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مان رہے ہیں۔)
آپ فرماتے ہیں ’’جب ایک انسان سچے دل سے خدا سے محبت کرتا ہے اور تمام دنیا پر اس کو اختیار کر لیتا ہے اور غیر اللہ کی عظمت اور وجاہت اس کے دل میں باقی نہیں رہتی بلکہ سب کو ایک مرے ہوئے کیڑے سے بھی بدتر سمجھتا ہے تب خدا جو اُس کے دل کو دیکھتا ہے ایک بھاری تجلّی کے ساتھ اس پر نازل ہوتا ہے اور جس طرح ایک صاف آئینہ میں جو آفتاب کے مقابل پر رکھا گیا ہے آفتاب کا عکس ایسے پورے طور پر پڑتا ہے کہ مجاز اور استعارہ کے رنگ میں کہہ سکتے ہیں کہ وہی آفتاب جو آسمان پر ہے اس آئینہ میں بھی موجود ہے۔ ایسا ہی خدا ایسے دل پر اترتا ہے اور اس کے دل کو اپنا عرش بنا لیتا ہے۔ یہی وہ امر ہے جس کے لئے انسان پیدا کیا گیا ہے۔‘‘ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 64-65)
پس آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کامل عاشق اور آپ کی پیروی کرنےو الے تھے جس کی وجہ سے خدا تعالیٰ نے آپ سے محبت کی اور مسیح موعود اور معہدی معہود اور تابع نبی ہونے کا اعزاز بخشا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں آپ کو ماننے کے بعد اس کی قدر کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کامل پیروی کرنے والا بنائے۔ ہمیں ہر ایک کو اپنی اپنی استعدادوں اور صلاحیتوں کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ پر چلنے کی اور آپ کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور مسلمانوں کو بھی توفیق دے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عاشقِ صادق کو پہچاننے والے اور ماننے والے بنیں۔
آج ہم دیکھتے ہیں تو سب سے زیادہ فساد کی حالت مسلمان ممالک میں ہے۔ مسلمان گروہوں میں ہے۔ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے پر سرگرم ہیں۔ ہر ایک لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ تو پڑھتا ہے اور دوسرے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ پڑھنے والے کا خون کرتا ہے۔ اس کا حق مارتا ہے۔ کسی بھی ذریعہ سے اس کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔ کیا یہی قرآن کریم کی تعلیم ہے جس پر یہ لوگ عمل کر رہے ہیں؟ کیا یہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اُسوہ ہے جس کی یہ لوگ پیروی کر رہے ہیں؟ آجکل تو ہم دیکھتے ہیں کہ ہر جگہ دنیاداری غالب ہے۔ اگر مذہب کا نام بھی لیتے ہیں تو سیاست چمکانے کے لئے اور اپنے زُعم میں اپنی حکومتیں قائم کرنے کے لئے یا بچانے کے لئے۔
کیا اللہ تعالیٰ جس سے محبت کرے اس کا یہی حال ہوتا ہے جو آجکل کے مسلمانوں کا ہے۔ علماء جن کو عامّۃ المسلمین عام طور پر اللہ تعالیٰ کا پیارا سمجھتے ہیں، اس کے قریب سمجھتے ہیں، وہ سب سے زیادہ دنیا میں فساد پیدا کر رہے ہیں۔ اب تو خود پاکستان میں بعض تجزیہ نگار اور کالم نویس اخباروں میں بھی لکھنے لگ گئے ہیں دوسرے میڈیا پر بھی کہنے لگ گئے ہیں کہ مسلمانوں کی یہ حالت ان نام نہاد علماء نے ایسی کر دی ہے۔ پس اس وقت مسلمان علماء کی عمومی حالت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ کوئی قرآن اور سنت کی حقیقت بتانے والا ہو اور وہ اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے مطابق بھیج دیا ہے۔ لیکن علماء نہ خود اس کی بات سننا چاہتے ہیں، نہ عوام کو سننے دیتے ہیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والے کے خلاف کفر کے فتوے دے کر ایک عمومی خوف و ہراس اور فتنہ و فساد کی صورت پیدا کر دی ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے ارشادات کے حوالہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارفع و اعلیٰ مقام اور آپ کی کامل اتباع کے نتیجہ میں ملنے والے مراتب کا بصیرت افروز اور روح پرور تذکرہ۔
فرمودہ مورخہ 20؍اکتوبر 2017ء بمطابق 20؍اخاء 1396 ہجری شمسی، بمقام مسجدبیت الفتوح، مورڈن، لندن، یوکے
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔