نیکیوں میں ہمیشہ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش
خطبہ جمعہ 27؍ اکتوبر 2017ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
اللہ تعالیٰ مومنوں کو فرماتا ہے کہ تمہارا مطمح نظر ہمیشہ فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ (البقرۃ: 149) ہونا چاہئے یعنی تم نیکیوں میں ہمیشہ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو اور پھر نیکیاں بجا لانے والوں اور نیک اعمال کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے بہترین مخلوق قرار دیا ہے۔ جیسا کہ فرماتا ہے کہ اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اُولٰٓئِکَ ھُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّۃِ (البیّنۃ: 8) یعنی یقیناً وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے یہی ہیں جو بہترین مخلوق ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے مختصراً ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’انسان کو چاہئے کہ اپنا فرض ادا کرے اور اعمال صالحہ میں ترقی کرے‘‘۔ (ملفوظات جلد 10صفحہ 15۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
اس آیت کے حوالے سے آپ نے فرمایا۔ پس اعمال صالحہ میں ترقی کرنا، نیک کام کرنا، نیکیاں بجا لانا ہی ایک مسلمان کو، ایک مومن کو حقیقی مومن بناتا ہے اور اس کے لئے ہمیں ہمیشہ کوشش کرنی چاہئے۔ ہماری رہنمائی کے لئے قرآن و حدیث کی روشنی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بڑی وضاحت سے اس بارے میں ارشادات فرمائے ہیں۔ مثلاً یہ کہ نیکی کیا چیز ہے؟ حقیقی نیکی کس طرح حاصل کی جا سکتی ہے؟ نیکی بجا لانے کے لئے خدا تعالیٰ پر ایمان کیوں ضروری ہے؟ ایمان کا معیار کیا ہونا چاہئے؟ اس ایمان کے معیار کو ہمیں کس طرح بڑھانا چاہئے؟ کن ذریعوں سے نیکی کی جاتی ہے؟ نیکی کے کون کون سے مختلف پہلو ہیں؟ کتنی قسم کی نیکیاں ہیں؟ پھر اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والے کو کس طرح نوازتا ہے؟ پھر یہ بھی آپ نے بیان فرمایا کہ جائز چیزوں کا بھی اعتدال کی حد تک کرنا نیکی ہے۔ اگر اس سے زیادہ کرو تو پھر نیکی میں کمی کر دیتا ہے۔ یہ بھی کہ ایک مومن کو اپنی نیکی کے دائرے کو کس قدر وسیع کرنا چاہئے؟ غرض کہ آپ نے نیکیوں کی حکمت، اس کی حقیقت اور اس کی روح کے مضمون کو مختلف موقعوں پر مختلف زاویوں سے کھول کر بیان فرمایا ہے۔ اس وقت مَیں اس بارے میں آپ کے چند اقتباسات پیش کروں گا۔ اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ نیکی کیا چیز ہے اور یہ بھی کہ بظاہر ایک چھوٹی سی نیکی اللہ تعالیٰ کی رضا کا مورد بنا دیتی ہے۔ آپ فرماتے ہیں۔ ’’نیکی ایک زینہ ہے اسلام اور خدا کی طرف چڑھنے کا۔‘‘ (اسلام کی حقیقت معلوم کرنی ہے۔ خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنی ہے۔ اس کا قرب حاصل کرنا ہے تو نیکیاں اس کے لئے ایک زینہ ہیں۔) ’’لیکن یاد رکھو کہ نیکی کیا چیز ہے‘‘ فرمایا کہ’’شیطان ہر ایک راہ میں لوگوں کی راہ زنی کرتا ہے۔ اور ان کو راہ حق سے بہکاتا ہے۔ مثلاً رات کو روٹی زیادہ پک گئی‘‘۔ (امیر آدمی ہے یا کسی کے گھر میں رات کو کھانا زیادہ پک گیا۔ روٹی زیادہ پک گئی۔) ’’صبح کو باسی بچ رہی۔‘‘ (کھائی نہیں گئی۔ رات کو بچ گئی اور اگلے دن) فرمایا کہ ’’عین کھانے کے وقت کہ اس کے سامنے اچھے اچھے کھانے رکھے ہیں ابھی ایک لقمہ نہیں لیا کہ دروازے پر آ کر فقیر نے صدا کی اور روٹی مانگی‘‘ (تو اس کھانے والے نے) ’’کہا کہ باسی روٹی سائل کو دے دو۔‘‘ (کَل کی جو بچی ہوئی روٹی تھی وہ دے دو۔ حالانکہ اپنے سامنے تازہ کھانا پکا ہوا ہے۔) فرمایا کہ ’’کیا یہ نیکی ہو گی؟ باسی روٹی تو پڑی ہی رہنی تھی۔ تنعّم پسند اسے کیوں کھانے لگے؟‘‘ آپ فرماتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّیَتِـیْمًا وَّاَسِیْرًا (الدھر:9)‘‘ (فرمایا کہ) ’’یہ بھی معلوم رہے کہ طعام کہتے ہی پسندیدہ طعام کو ہیں۔ (یعنی اچھا طعام اس کو کہا جاتا ہے جو پسندیدہ کھانا ہو۔) ’’سڑا ہوا باسی طعام نہیں کہلاتا‘‘۔ (ایک دن کا پرانا کھانا ہے جس کو خود پسندنہیں کرتے وہ کھانا عربی میں طعام نہیں کہلاتا۔ فرمایا کہ ’’الغرض اس رکابی میں سے جس میں ابھی تازہ کھانا اور لذیذ اور پسندیدہ رکھا ہوا ہے۔‘‘ (پلیٹ میں کھا رہے ہو۔ تمہارے سامنے پڑا ہے رکھا ہوا ہے۔ ’’کھانا شروع نہیں کیا۔ فقیر کی صدا پر نکال دے تو یہ تو نیکی ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 1صفحہ 75۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
ابھی تازہ کھانا سامنے پڑا ہے اور اگر کوئی مانگنے والا آتا ہے، غریب آدمی آتا ہے اور وہ اس کو دے دیتے ہو تو یہ نیکی ہے۔ نہ یہ کہ اچھا میں تو تازہ کھانا کھاتا ہوں اور گھر والوں کو کہہ دیا کہ کل کا جو بچا ہوا کھانا تھا وہ تم اس کو دے دو۔ تو اس حد تک گہرائی میں انسان جائے تو تبھی وہ حقیقی نیکی کو پا سکتا ہے۔ پس حقیقی نیکی کرنے کی کوشش ہونی چاہئے اور یہ نیکی کس طرح پیدا ہوتی ہے۔ یہ نیکی خدا تعالیٰ پر کامل ایمان کے بغیر پیدا نہیں ہوسکتی۔ چنانچہ اس کی وضاحت فرماتے ہوئے ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ:
’’حقیقی نیکی کے واسطے یہ ضروری ہے کہ خدا کے وجود پر ایمان ہو کیونکہ مجازی حُکّام کو یہ معلوم نہیں کہ کوئی گھر کے اندر کیا کرتا ہے اور پس پردہ کسی کا کیا فعل ہے‘‘۔ (اللہ تعالیٰ کے وجود پر ایمان ہو اور ایمان یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کی ہر چیز پر نظر ہے۔ بظاہر جو حُکّام ہیں، بظاہر جو حکومت ہے، ادارے ہیں ان کو تو انسان کے اندر کا نہیں پتا کہ کیا چیز ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کو پتا ہے اور یہ ایمان ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کو ہر چیز کا پتا ہے۔ ہر چیز کا علم ہے۔ وہ غیب کا علم رکھتا ہے۔) فرمایا ’’اور اگرچہ کوئی زبان سے نیکی کا اقرار کرے مگر اپنے دل کے اندر وہ جو کچھ رکھتا ہے اس کے لئے اس کو ہمارے مؤاخذہ کا خوف نہیں اور دنیا کی حکومتوں میں سے کوئی ایسی نہیں جس کا خوف انسان کو رات میں اور دن میں، اندھیرے میں اور اُجالے میں، خَلوت میں اور جَلوت میں، ویرانے میں اور آبادی میں، گھر میں اور بازار میں ہر حالت میں یکساں ہو۔‘‘ (بعض دفعہ انسان چُھپ کے کام کر رہا ہوتا ہے۔ مختلف جگہوں میں بیٹھا ہوا ہے۔ مختلف حالتوں میں ہے اور اس کو پتا ہے کہ سوائے اللہ تعالیٰ کے بظاہر کوئی اس کو دیکھ نہیں رہا۔ اس کو ہر چیز کا پتا ہے اس لئے خوف بھی نہیں ہے اور اس خوف نہ ہونے کی وجہ سے وہ غلط کام کر جاتا ہے۔ اس لئے اگر حقیقی نیکی کرنی ہے تو اللہ تعالیٰ پر ایمان بڑا ضروری ہے) فرمایا ’’پس درستی اخلاق کے واسطے ایسی ہستی پر ایمان کا ہونا ضروری ہے جو ہر حال اور ہر وقت میں اس کے نگران اور اس کے اعمال اور افعال اور اس کے سینہ کے بھیدوں کی شاہد ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 1صفحہ 313۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان) اور وہ خدا تعالیٰ کی ذات کے علاوہ کوئی نہیں۔ پس یہ ایمان اگر ہو، اس معیار کا ایمان ہو، ہر وقت اللہ تعالیٰ یاد رہے تو تبھی انسان حقیقی نیکی کر سکتا ہے۔
پھر حقیقی نیکی کے بارے میں مزید وضاحت کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ: ’’تقویٰ کے معنی ہیں بدی کی باریک راہوں سے پرہیز کرنا۔ مگر یاد رکھو نیکی اتنی نہیں ہے کہ ایک شخص کہے کہ مَیں نیک ہوں اس لئے کہ مَیں نے کسی کا مال نہیں لیا‘‘۔ چوری نہیں کی۔ غصب نہیں کیا۔ غلط طریقے سے کمائی نہیں کی۔ تو یہ کوئی نیکی نہیں ہے۔) فرمایا کہ ’’نقب زنی نہیں کی‘‘ (اگر کوئی کہتا ہے) ’’چوری نہیں کرتا۔ بدنظری اور زنا نہیں کرتا ایسی نیکی عارف کے نزدیک ہنسی کے قابل ہے کیونکہ اگر وہ ان بدیوں کا ارتکاب کرے اور چوری یا ڈاکہ زنی کرے تو وہ سزا پائے گا۔ پس یہ کوئی نیکی نہیں کہ جو عارف کی نگاہ میں قابلِ قدر ہو بلکہ اصلی اور حقیقی نیکی یہ ہے کہ نوع انسان کی خدمت کرے اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں کامل صدق اور وفاداری دکھلائے اور اس کی راہ میں جان تک دے دینے کو تیار ہو۔ اسی لئے یہاں فرمایا ہے۔ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِیْنَ ھُمْ مُّحْسِنُوْنَ (النحل:129)‘‘۔ ’’یعنی اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ہے جو بدی سے پرہیز کرتے ہیں اور ساتھ ہی نیکیاں بھی کرتے ہیں‘‘۔ فرمایا کہ ’’یہ خوب یاد رکھو کہ نرا بدی سے پرہیز کرنا کوئی خوبی کی بات نہیں‘‘۔ (یہ کہہ دینا مَیں بدی نہیں کرتا بڑا نیک ہوں تو یہ کوئی خوبی نہیں ہے۔) ’’جب تک اس کے ساتھ نیکیاں نہ کرے۔ بہت سے لوگ ایسے موجود ہوں گے جنہوں نے کبھی زنا نہیں کیا، خون نہیں کیا، چوری نہیں کی، ڈاکہ نہیں مارا اور باوجود اس کے اللہ تعالیٰ کی راہ میں کوئی صدق و وفا کا نمونہ انہوں نے نہیں دکھایا۔‘‘ کوئی اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر، اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی راہ میں کوئی نیکی نہیں کی، کوئی قربانی نہیں دی۔ باوجود اس کے کہ بہت ساری دوسری برائیاں انہوں نے نہیں کیں۔) فرمایا کہ اس انسان نے ’’یا نوع انسان کی کوئی خدمت نہیں کی‘‘۔ (اگر اللہ تعالیٰ کا حق ادا نہیں کیا اور بندوں کا حق ادا نہیں کیا) ’’اور اس طرح پر کوئی نیکی نہیں کی۔‘‘ (بیشک بہت ساری برائیاں اس نے نہیں کیں لیکن اگر اللہ کا حق ادا نہیں کیا اور انسان کی خدمت نہیں کی، اس کا حق ادا نہیں کیا تو یہ کوئی نیکی نہیں ہے۔) فرمایا کہ ’’پس جاہل ہو گا وہ شخص جو اِن باتوں کو پیش کر کے اسے نیکو کاروں میں داخل کرے کیونکہ یہ تو بدچلنیاں ہیں۔ صرف اتنے خیال سے اولیاء اللہ میں داخل نہیں ہو جاتا۔‘‘ (ملفوظات جلد 6صفحہ 241-242۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پھر اس بارے میں مزید آپ فرماتے ہیں کہ: ’’یہ فخر کی بات نہیں کہ انسان اتنی ہی بات پر خوش ہو جاوے کہ وہ زنا نہیں کرتا یا اس نے خون نہیں کیا، چوری نہیں کی۔ یہ کوئی فضیلت ہے کہ برے کاموں سے بچنے کا فخر حاصل کرتا ہے؟‘‘ (یہ تو کوئی بڑی بات نہیں ہے کہ مَیں نے کبھی کوئی برائی نہیں کی۔) فرمایا کہ ’’دراصل وہ جانتا ہے کہ چوری کرے گا تو ہاتھ کاٹا جاوے گا۔‘‘ فرمایا کہ ’’موجودہ قانون کی رُو سے زندان میں جاوے گا۔‘‘ (چوری کرے گا پکڑا جائے گا تو جیل ہو گی سزا ملے گی۔ تو یہ کوئی کمال تو نہیں ہے۔ یہ تو سزا کا خوف ہے۔) پھر فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسلام ایسی چیز کا نام نہیں ہے کہ برے کام سے ہی پرہیز کرے بلکہ جب تک بدیوں کو چھوڑ کر نیکیاں اختیار نہ کرے وہ اس روحانی زندگی میں زندہ نہیں رہ سکتا۔‘‘ (اسلام کی تعلیم کی حقیقت یہ ہے کہ اپنی روحانیت میں اضافہ کرو۔ اپنی روحانی زندگی کو بہتر بناؤ۔ اگر صرف بدیاں چھوڑ دیں تو روحانی زندگی بہتر نہیں ہوسکتی۔ روحانی زندگی کو اختیار کرنے کے لئے بدیاں چھوڑ کر نیکیاں اختیار کرنی ضروری ہیں۔ ورنہ فرمایا کہ روحانی زندگی میں زندہ نہیں رہ سکتا۔ پھر وہ مردہ ہو جائے گا۔) فرمایا کہ ’’نیکیاں بطور غذا کے ہیں جیسے کوئی شخص بغیر غذا کے زندہ نہیں رہ سکتا اسی طرح جب تک نیکی اختیار نہ کرے تو کچھ نہیں‘‘۔ (ملفوظات جلد 8صفحہ 371-372۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
اور یہ حالت ایمان میں بڑھنے سے حاصل ہوتی ہے۔ خدا تعالیٰ پر ایمان کا معیار کیسا ہونا چاہئے۔ یہ معیار تبھی حاصل ہو گا جب انسان کا ظاہر و باطن بھی ایک ہو صرف ظاہری ایمان نہ ہو بلکہ جس طرح یہ یقین ہے کہ ایک زہر نقصان کرتا ہے۔ انسان کھالے تو وہ اس سے مرسکتا ہے۔ جس طرح یہ یقین ہے کہ ایک سانپ کے سوراخ میں اگر انسان ہاتھ ڈالے تو اگر سانپ اندر ہے تو ڈس سکتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی ذات پر یہ یقین ہونا چاہئے کہ اگر میں برائیاں کروں گا تو اللہ تعالیٰ مجھے ہر وقت دیکھ رہا ہے مجھے سزا ملے گی۔ اور نیکیاں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس کا اجر دیتا ہی ہے۔ انسان کے ہر عمل سے اللہ تعالیٰ کے وجود کا اظہار ہو رہا ہو۔ ہر وقت یہ احساس ہو کہ خدا تعالیٰ میرے ہر کام کو دیکھ رہا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ ’’دراصل نیک وہی ہے جس کا ظاہر اور باطن ایک ہو اور جس کا دل اور باہر ایک ہے وہ زمین پر فرشتے کی طرح چلتا ہے‘‘ (جس کا ظاہر اور باطن ایک ہے۔ جو دل میں ہے وہ ظاہر ہے تو پھر اس کی نیکی کا معیار ایسا ہو گیا کہ وہ فرشتہ بن گیا۔) فرمایا کہ ’’دہریہ ایسی گورنمنٹ کے نیچے نہیں کہ وہ حسن اخلاق کو پا سکے۔‘‘ (ایک دہریہ جو خدا کو نہیں مانتا بیشک اس کے اخلاق اچھے ہیں لیکن وہ اس معیار کو نہیں پہنچ سکتا۔ کہیں نہ کہیں اس کے دل میں ایسی بات آ جائے گی جو کھوٹ پیدا کرنے والی ہے۔ ہو سکتا ہے برائیوں سے رک جائے۔ بعض بنیادی اخلاق بھی دکھا دے لیکن پھر بھی نیکیوں میں اس کی حالت کمزور ہی رہے گی۔) فرمایا کہ ’’تمام نتائج ایمان سے پیدا ہوتے ہیں۔ چنانچہ سانپ کے سوراخ کو پہچان کر کوئی انگلی اس میں نہیں ڈالتا۔ جب ہم جانتے ہیں کہ ایک مقدار اسٹرکنیا کی قاتل ہے‘‘۔ (زہر کا نام ہے) ’’تو ہمارا اس کے قاتل ہونے پر ایمان ہے اور اس ایمان کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم اس کو منہ نہیں لگائیں گے اور مرنے سے بچ جائیں گے۔‘‘ (ملفوظات جلد 1صفحہ 313-314۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
ایمان کے قوی ہونے کی مزید وضاحت کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ: ’’یقیناً سمجھو کہ ہر ایک پاک بازی اور نیکی کی اصلی جڑ خدا تعالیٰ پر ایمان لانا ہے۔ جس قدر انسان کا ایمان باللہ کمزور ہوتا ہے اسی قدر اعمال صالحہ میں کمزوری اور سستی پائی جاتی ہے۔ لیکن جب ایمان قوی ہو اور اللہ تعالیٰ کو اس کی تمام صفات کاملہ کے ساتھ یقین کر لیا جائے اسی قدر عجیب رنگ کی تبدیلی انسان کے اعمال میں پیدا ہو جاتی ہے۔‘‘ (انسان یہ یقین کر لے کہ اللہ تعالیٰ سب طاقتوں کا مالک ہے۔ عالم الغیب ہے اور ہر جگہ مجھے دیکھ رہا ہے تو فرمایا کہ پھر اس طرح ایک عجیب رنگ کی تبدیلی انسان کے اعمال میں پیدا ہو جاتی ہے۔ خود بخود بہتر اعمال ہونے لگ جاتے ہیں۔ برائیوں کے بجائے نیکیوں کی طرف زیادہ توجہ پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے۔) فرمایا کہ ’’خدا تعالیٰ پر ایمان رکھنے والا گناہ پر قادر نہیں ہو سکتا۔‘‘ (یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک طرف خدا پر ایمان ہے دوسری طرف گناہ کر رہا ہو) ’’کیونکہ یہ ایمان اس کی نفسانی قوتوں اور گناہ کے اعضاء کو کاٹ دیتا ہے۔ دیکھو اگر کسی کی آنکھیں نکال دی جائیں تو وہ آنکھوں سے بدنظری کیونکر کر سکتا ہے اور آنکھوں کا گناہ کیسے کرے گا اور اگر ایسا ہی ہاتھ کاٹ دئیے جائیں پھر وہ گناہ جو اُن اعضاء سے متعلق ہیں کیسے کر سکتا ہے؟ ٹھیک اسی طرح پر جب ایک انسان نفسِ مطمئنّہ کی حالت میں ہوتا ہے تو نفسِ مطمئنّہ اسے اندھا کر دیتا ہے اور اس کی آنکھوں میں گناہ کی قوت نہیں رہتی۔ وہ دیکھتا ہے پر نہیں دیکھتا۔‘‘ (بدنظری سے نہیں دیکھتا۔ اگر کوئی چیز دیکھتا بھی ہے تو برائی کی نظر سےکسی چیز کو نہیں دیکھتا۔ فرمایا ’’کیونکہ آنکھوں کے گناہ کی نظر سلب ہو جاتی ہے۔‘‘ (یعنی وہ جو حرص اور گندگی کی نظر ہے، حرص کی نظر ہے یا کسی چیز کو دیکھنے کے بعد گندی نظر ہے یا ناجائز خواہشات کی نظر ہے وہ ختم ہو جاتی ہے۔) فرمایا ’’وہ کان رکھتا ہے مگر بہرا ہوتا ہے اور وہ باتیں جو گناہ کی ہیں نہیں سن سکتا۔ اسی طرح پر اس کی تمام نفسانی اور شہوانی قوتیں اور اندرونی اعضاء کاٹ دئیے جاتے ہیں۔ اس کی ساری طاقتوں پر جن سے گناہ صادرہو سکتا تھا ایک موت واقع ہو جاتی ہے اور وہ بالکل ایک میّت کی طرح ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ ہی کی مرضی کے تابع ہوتا ہے وہ اس کے سوا ایک قدم نہیں اٹھا سکتا۔‘‘ فرمایا کہ ’’یہ وہ حالت ہوتی ہے جب خدا تعالیٰ پر سچا ایمان ہو۔‘‘ (یہ ساری حالتیں اس وقت پیدا ہوں گی جب اللہ تعالیٰ پر سچا ایمان ہو) ’’اور جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کامل اطمینان اسے دیا جاتا ہے‘‘ فرمایا کہ ’’یہی وہ مقام ہے جو انسان کا اصل مقصود ہونا چاہئے۔‘‘ (یہ ٹارگٹ ہے ہمارا۔ یہ ہمیں اپنے سامنے رکھنا چاہئے کہ ہر قسم کی گندگی کو اپنے ذہنوں سے، اپنے دماغوں سے، اپنی آنکھوں سے، اپنے کانوں سے نکالنا بھی ہے اور سننے سے بچنا بھی ہے۔) فرمایا ’’اور ہماری جماعت کو اس کی ضرورت ہے اور اطمینانِ کامل کے حاصل کرنے کے واسطے ایمانِ کامل کی ضرورت ہے۔‘‘ فرمایا کہ ’’پس ہماری جماعت کا پہلا فرض یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر سچا ایمان حاصل کریں‘‘۔ (ملفوظات جلد 6صفحہ 244-245۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
یہ ہے وہ ٹارگٹ جو آپ نے ہمیں دیا کہ سچا ایمان حاصل ہو گا تو نیک اعمال بھی صادر ہوں گے اور تبھی فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرَات کے گروہ میں ہم شامل ہوں گے اور تبھی خَیْرُ الْبَرِیَّہ میں ہمارا شمار ہو گا۔ پھر نیکی کے پہلوؤں کی وضاحت کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ:
’’انسان کے لئے دو باتیں ضروری ہیں۔ بدی سے بچے اور نیکی کی طرف دوڑے۔ اور نیکی کے دو پہلو ہوتے ہیں۔ ایک ترکِ شر۔ دوسرا افاضۂ خیر‘‘۔ (شر کو چھوڑنا ٹھیک ہے ایک نیکی ہے یہ ایک پہلو ہے اور دوسرا پہلو ہے نیکی کرنا۔) فرمایا کہ ’’ترکِ شر سے انسان کامل نہیں بن سکتا۔‘‘ (جب صرف ترک شر کرنا ہے تو یہ کامل نہیں ہے اس ایمان میں ابھی کمزوری ہے) ’’جب تک اس کے ساتھ افاضۂ خیر نہ ہو۔ یعنی دوسروں کو نفع بھی پہنچائے‘‘۔ نیکی کرے۔ دوسروں کو نفع پہنچائے تب کامل ایمان ہوتا ہے۔ فرمایا ’’اس سے پتا لگتا ہے کہ کس قدر تبدیلی کی ہے اور یہ مدارج تب حاصل ہوتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی صفات پر ایمان ہو اور ان کا علم ہو۔ جب تک یہ بات نہ ہو انسان بدیوں سے بھی بچ نہیں سکتا‘‘ (اور اللہ تعالیٰ کی صفات کا پتا کرنے کے لئے انسان کو ہمیشہ قرآن کریم کو بھی پڑھتے رہنا چاہئے۔ اس کے احکامات کو پڑھتے رہنا چاہئے۔) فرمایا کہ ’’دوسروں کو نفع پہنچانا توبڑی بات ہے۔ بادشاہوں کے رعب اور تعزیرات ہند سے بھی تو ایک حد تک (لوگ) ڈرتے ہیں اور بہت سے لوگ ہیں جو قانون کی خلاف ورزی نہیں کرتے۔ پھر کیوں اَحکم الحاکمین کے قوانین کی خلاف ورزی میں دلیری پیدا ہوتی ہے؟ کیا اس کی کوئی اور وجہ ہے بجز اس کے کہ اُس پر ایمان نہیں ہے؟‘‘ (ایمان میں کمزوری ہے اس لئے ورنہ تو حکومتوں کے قانون سے کیوں ڈرتے ہو۔) فرمایا ’’یہی ایک باعث ہے‘‘۔ جو برائیاں سرزد ہوتی ہیں، جو نیکیاں نہیں ہوتیں۔ پس جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے کہ یہ کمزوریاں اس وقت ہوتی ہیں جب ایمان میں کمزوری ہو۔ انسان اللہ تعالیٰ کو علیم خبیر اور عالم الغیب اعتقادی طور پر تو سمجھتا ہے لیکن عملاً اس کی نفی ہو رہی ہوتی ہے اور اسی لئے بہت سی برائیاں انسان کر جاتا ہے اور بہت ساری نیکیوں کی اس کو ایمان نہ ہونے کی وجہ سے توفیق نہیں ملتی۔ پھر اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان کے بعد بدنی بدیوں سے بچنے کے ذریعہ کی بھی وضاحت کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ ’’الغرض بدیوں سے بچنے کا مرحلہ تب طے ہوتا ہے جب خدا پر ایمان ہو۔ پھر دوسرا مرحلہ یہ ہونا چاہئے کہ اُن راہوں کی تلاش کرے جو خدا تعالیٰ کے برگذیدہ بندوں نے اختیار کیں‘‘۔ (پہلے اللہ تعالیٰ پر ایمان اور پھر ان راستوں کی تلاش، ان نیکیوں کی تلاش جو اللہ تعالیٰ کے نیک بندے، انبیاء صلحاء جو کرتے ہیں ان کو اختیار کرو۔) ’’وہ ایک ہی راہ ہے جس پر جس قدر راستباز اور برگزیدہ انسان دنیا میں چل کر خداتعالیٰ کے فیض سے فیضیاب ہوئے۔ اس راہ کا پتا یوں لگتا ہے کہ انسان معلوم کرے کہ خدا تعالیٰ نے ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا؟‘‘ فرمایا کہ ’’پہلا مرحلہ بدیوں سے بچنے کا تو خدا تعالیٰ کی جلالی صفات کی تجلّی سے حاصل ہوتا ہے کہ وہ بدکاروں کا دشمن ہے۔‘‘ اپنے قریبیوں کے دشمنوں کو ختم کرتا ہے اور فرمایا کہ ’’اور دوسرا مرتبہ خدا تعالیٰ کی جمالی تجلّی سے ملتا ہے اور آخر یہی ہے کہ جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے قوت اور طاقت نہ ملے جس کو اسلامی اصطلاح کے موافق روح القدس کہتے ہیں کچھ بھی نہیں ہوتا ہے۔ یہ ایک قوت ہوتی ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے۔ اس کے نزول کے ساتھ ہی دل میں ایک سکینت آتی ہے اور طبیعت میں نیکی کے ساتھ ایک محبت اور پیار پیدا ہو جاتا ہے۔‘‘ (اللہ تعالیٰ کی جمالی تجلی ہوتی ہے تو ایک تو نیکی کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے۔ بدی کی طرف توجہ ہی نہیں ہوتی اور پھر ایک سکینت دل میں پیدا ہوتی ہے۔ یہ ہے نیک لوگوں کا عمل جو ہمارے سامنے نمونہ ہے جس کو آپ نے کہا ہے اس کو دیکھو۔ انبیاء کے نمونے کو دیکھو۔) فرمایا کہ ’’جس نیکی کو دوسرے لوگ بڑی مشقت اور بوجھ سمجھ کر کرتے ہیں یہ ایک لذّت اور سرور کے ساتھ اس کو کرنے کی طرف دوڑتا ہے‘‘۔ (یعنی جو اللہ تعالیٰ کا پیارا ہے۔) ’’جیسے لذیذ چیز بچہ بھی شوق سے کھا لیتا ہے اسی طرح جب خدا تعالیٰ سے تعلق ہو جاتا ہے اور اس کی پاک روح اس پر اترتی ہے پھر نیکیاں ایک لذیذ اور خوشبو دار شربت کی طرح ہوتی ہیں۔ وہ خوبصورتی جو نیکیوں کے اندر موجود ہے اس کو نظر آنے لگتی ہے اور بے اختیار ہو ہو کر ان کی طرف دوڑتا ہے۔ بدی کے تصور سے بھی اس کی روح کانپ جاتی ہے‘‘ فرمایا کہ ’’یہ امور اس قسم کے ہیں کہ ہم ان کو الفاظ کے پیرایہ میں پورے طور سے ادا نہیں کر سکتے‘‘۔ (ایک عجیب دل کی کیفیت ہوتی ہے دل کا سرور ہوتا ہے جن کو الفاظ کا جامہ پہنانا بہت مشکل ہے۔) فرمایا کہ ’’کیونکہ یہ قلب کی حالتیں ہوتی ہیں‘‘ (یہ دل ہی محسوس کر سکتا ہے۔) ’’محسوس کرنے سے ہی ان کا ٹھیک پتا لگتا ہے۔ اس وقت تازہ بتازہ انوار اس کو ملتے ہیں۔ انسان صرف اس بات پر ہی ناز نہ کرے اور اپنی ترقی کی انتہا اسی کو نہ سمجھ لے کہ کبھی کبھی اس کے اندر رقّت پیدا ہو جاتی ہے۔‘‘ (یہ کوئی بات نہیں کہ نماز میں کبھی کبھی رو لئے۔ رقّت پیدا ہو گئی۔ دل نرم ہو گیا۔ اسی کو اپنی ترقی کی انتہا نہ سمجھو۔ فرمایا کہ ’’یہ رقّت عارضی ہوتی ہے۔‘‘ (یہ رقّت پیدا ہونے کی مثال آپ دیتے ہیں کہ) ’’انسان اکثر دفعہ ناول پڑھتا ہے اور اس کے درد انگیز حصے پر پہنچ کر بے اختیار رو پڑتا ہے۔‘‘ (بہت سارے لوگ ہیں جو ناول پڑھ رہے ہوتے ہیں اور رونے لگ جاتے ہیں۔ اس میں بعض ایسی کہانیاں آ جاتی ہیں قصے واقعات آجاتے ہیں۔) فرمایا کہ ’’حالانکہ وہ صاف جانتا ہے کہ یہ ایک جھوٹی اور فرضی کہانی ہے‘‘ (لیکن اس کے باوجود وہ پڑھتا ہے۔) ’’پس اگر محض رو پڑنا یا رقّت کا پیدا ہو جانا ہی حقیقی سرور اور لذّت کی جڑ ہوتی ہے تو آج یورپ سے بڑھ کر کوئی بھی روحانی لذت حاصل کرنے والا نہ ہوتا‘‘ (کیونکہ یہاں تو ذرا ذرا سی بات پر جذباتی ہو کر رونے لگ جاتے ہیں۔) فرمایا ’’کیونکہ ہزارہا ناول شائع ہوتے اور لاکھوں کروڑوں انسان پڑھ کر روتے ہیں۔‘‘ (ملفوظات جلد 2صفحہ 238تا 240۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان) کہانیاں پڑھ کے روتے ہیں۔ ڈرامے دیکھ کے رونے لگ جاتے ہیں۔ بعض ویسے ہی اپنے اور دوسرے کے واقعات بیان کر رہے ہوتے ہیں اور بڑے جذباتی ہو جاتے ہیں تو یہ کوئی روحانیت کی ترقی نہیں ہے۔ روحانیت کی ترقی تبھی ہے جب بدیوں سے پورے طور پر انسان بچے اور نیکیوں کو مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اختیار کرے۔
پھر نیکیوں کے حصوں کی وضاحت آپ نے فرمائی۔ پہلے دو پہلو تھے شر کو چھوڑنا اور نیکی کرنا اب اس کے دو حصے بیان فرمائے۔ فرمایا کہ ’’انسان جس قدر نیکیاں کرتا ہے اس کے دو حصے ہوتے ہیں۔ ایک فرائض۔ دوسرے نوافل۔‘‘ (دو حصے ہیں نیکی کے۔ ایک فرض نیکی ہے۔ ایک نفل نیکی ہے۔) ’’فرائض یعنی جو انسان پر فرض کیا گیا ہو جیسے قرضہ کا اتارنا‘‘۔ (فرمایا کسی سے قرض لیا تو قرضے کا اتارنا یہ انسان کا فرض ہے) یا نیکی کے مقابل نیکی‘‘ (کرنا یہ تو فرض ہے) ’’ان فرائض کے علاوہ ہر ایک نیکی کے ساتھ نوافل ہوتے ہیں۔‘‘ (جو زائد ہو وہ نیکی ہے) ’’یعنی ایسی نیکی جو اس کے حق سے فاضل ہو۔ جیسے احسان کے مقابل احسان کے علاوہ اَور احسان کرنا۔ یہ نوافل ہیں‘‘۔ (کسی نے احسان کیا اس کے احسان کا بدلہ اتارا بلکہ اس سے بڑھ کر اتارا تویہ نفل ہو جائے گا) ’’یہ بطور مکملات اور متمّمات فرائض کے ہیں۔‘‘ (ان سے فرائض مکمل ہوتے ہیں اور اپنی تکمیل کو پہنچتے ہیں۔)حدیث بیان کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ ’’اولیاء اللہ کے دینی فرائض کی تکمیل نوافل سے ہورہتی ہے۔ (آپ نے حدیث بیان فرمائی تھی اس کی تفسیر فرما رہے ہیں کہ اولیاء اللہ جو ہیں ان کے دینی فرائض کی تکمیل نوافل سے ہوتی رہتی ہے۔) ’’مثلاً زکوۃ کے علاوہ وہ اَور صدقات دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسوں کا ولی ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کی دوستی یہاں تک ہوتی ہے کہ مَیں اس کے ہاتھ پاؤں وغیرہ (یہ حدیث میں آیا ہےکہ میں ان کے ہاتھ پاؤں وغیرہ) حتی کہ اس کی زبان ہو جاتا ہوں جس سے وہ بولتا ہے۔‘‘ (ماخوذ از ملفوظات جلد 1 صفحہ 13-14۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
جب انسان ایمان میں بڑھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ پر یقین میں بڑھتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے نیک اعمال بجا لاتا ہے تو اللہ تعالیٰ مزیدنیکیوں کی بھی توفیق دیتا ہے اور نوازتا ہے۔ چنانچہ اس بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ:
’’اسلام کے لئے خدا تعالیٰ کا قانون قدرت ہے کہ ایک نیکی سے دوسری نیکی پیدا ہو جاتی ہے۔‘‘ فرمایا کہ ’’مجھے یاد آیا تذکرۃ الاولیاء میں مَیں نے پڑھا تھا کہ ایک آتش پرست بڈھا نوّے برس کی عمر کا تھا۔ اتفاقاً بارش کی جھڑی جو لگ گئی تو وہ اس جھڑی میں کوٹھے پر (چڑھ کے) چڑیوں کے لئے دانے ڈال رہا تھا۔‘‘ (مسلسل کئی دن بارش ہوتی رہی۔ وہ اپنی چھت پہ چڑھ گیا اور وہاں جا کے چڑیوں کو، پرندوں کو دانے ڈال رہا تھا۔ ’’کسی بزرگ نے‘‘ (قریب کوئی ہمسائے میں کوئی مسلمان بزرگ تھا اس نے) ’’پاس سے کہا کہ ارے بڈھے تُو کیا کرتا ہے۔ اس نے جواب دیا کہ بھائی چھ سات روز متواتر بارش ہوتی رہی ہے۔ چڑیوں کو دانہ ڈالتا ہوں۔ اس (بزرگ) نے کہا کہ تُو عبث حرکت کرتا ہے‘‘ (فضول۔ اس کا تو تمہیں کوئی فائدہ نہیں۔) ’’تُو کافر ہے۔ تجھے اجر کہاں؟‘‘۔ (تجھے اس کا کیا اجر ملے گا۔ تجھے کیا ثواب ملنا ہے۔ تم تو کافر ہو۔) ’’بوڑھے نے جواب دیا مجھے اس کا اجر ضرور ملے گا۔‘‘ (اسے اللہ تعالیٰ کی ذات پر تو یقین تھا۔ بہرحال اس کی ایک نیک فطرت تھی۔ دل کی آواز تھی۔ اس نے کہا مجھے اجر ملے گا۔ وہ ’’بزرگ صاحب فرماتے ہیں کہ مَیں حج کو گیا تو دُور سے کیا دیکھتا ہوں کہ وہی بڈھا طواف کر رہا ہے‘‘ (وہی چڑیوں کو دانہ ڈالنے والا جو آتش پرست تھا وہ حج پہ خانہ کعبہ کا طواف کر رہا ہے۔) ’’اس کو دیکھ کرمجھے تعجب ہوا اور جب میں آگے بڑھا تو پہلے وہی بولا۔‘‘ (میں اس سے کوئی سوال کرتا پہلے وہ بولا کہ) ’’کیا میرا دانہ ڈالنا ضائع گیا یا اُن کا عوض ملا؟‘‘ آج مسلمان ہو کے جو مَیں حج کر رہاہوں یہ اجر اللہ تعالیٰ نے مجھے ان پرندوں کو دانہ ڈالنے کا دیا۔ تو اللہ تعالیٰ اس طرح نوازتا ہے۔ پھر آپ فرماتے ہیں کہ ’’اب خیال کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کافر کی نیکی کا اجر بھی ضائع نہیں کیا تو کیا مسلمان کی نیکی کا اجر ضائع کر دے گا؟‘‘ فرماتے ہیں کہ ’’مجھے ایک صحابی کا ذکر یاد آیا کہ اس نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مَیں نے اپنے کفر کے زمانے میں بہت سے صدقات کئے ہیں۔ کیا اُن کا اجر مجھے ملے گا؟‘‘ (جب میں کافر تھا بڑے صدقات کیا کرتا تھا۔ نیکیاں کرنے کی کوشش کرتا تھا مجھے اجر ملے گا۔) ’’آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا کہ وہی صدقات تو تیرے اسلام کا موجب ہو گئے ہیں۔‘‘ ان صدقات کا ہی بدلہ تجھے ملا ہے جو تو آج مسلمان ہو گیا۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد 1 صفحہ 74-75۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پھر اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ جائز چیزوں کو بھی حد اعتدال کے اندر رکھنا چاہئے اور یہی نیکی ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ:
’’نیکی کی جڑ یہ بھی ہے کہ دنیا کی لذّات اور شہوات جو کہ جائز ہیں ان کو بھی حدِّ اعتدال سے زیادہ نہ لے جیسا کہ کھانا پینا اللہ تعالیٰ نے حرام تو نہیں کیا مگر اب اسی کھانے پینے کو ایک شخص نے رات دن کا شغل بنا لیا ہے اس کا نام دین پر بڑھاتا ہے ورنہ یہ لذّات دنیا کی اس واسطے ہیں کہ اس کے ذریعہ نفس کا گھوڑا جو کہ دنیا کی راہ میں ہے کمزور نہ ہو۔‘‘ (اللہ تعالیٰ نے کھانے پینے میں لذّات دی ہیں لیکن اس لئے کہ ان سے انسان میں طاقت پیدا ہو اور انسان اللہ تعالیٰ کے جو فرائض ہیں وہ بھی ادا کر سکے۔ کھاتے ہوئے یہ بھی نظریہ ہونا چاہئے کہ صحت کمزور نہ ہو۔ فرمایا کہ ’’اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کہ یکّہ والے جب لمبا سفر کرتے ہیں تو سات یا آٹھ کوس کے بعد وہ گھوڑے کی کمزوری کو محسوس کر کے اسے دَم دلا دیتے ہیں‘‘ (ٹھہر جاتے ہیں) ’’اور نہاری وغیرہ کھلاتے ہیں تا کہ اس کی پچھلی تھکان دور ہو جاوے تو‘‘ (فرمایا کہ) ’’انبیاء نے جو حظ دنیا کا لیا ہے وہ اسی طرح ہے۔‘‘ (انبیاء بھی کھاتے پیتے ہیں۔ جو دنیاوی چیزیں ہیں اس سے ان کو بھی حظ ملتا ہے۔ سکون ملتا ہے۔ شادی بیاہ ہے۔ اولاد ہے۔ کھانا پینا ہے دنیاوی چیزیں ہیں۔ یہ سب چیزیں انبیاء بھی ان کا استعمال کرتے ہیں۔ فرمایا کہ انہوں نے جو حظ دنیا کا لیا ہے وہ اسی طرح کا ہے) ’’کیونکہ ایک بڑا کام دنیا کی اصلاح کا ان کے سپرد تھا۔ اگر خدا کا فضل ان کی دستگیری نہ کرتا تو ہلاک ہو جاتے۔‘‘ (ملفوظات جلد 4صفحہ374-375۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان) (تو جس طرح ایک گھوڑے والا، ٹانگے والا اپنے گھوڑے کو تازہ دم رکھنے کے لئے کھلاتا پلاتا ہے اسی طرح جو انبیاء ہیں وہ اگر کھاتے پیتے ہیں یا اچھی چیزیں استعمال کرتے ہیں تو صرف اس لئے کہ دنیا کی اصلاح کی طرف توجہ ہو۔
ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر کسی نے اعتراض کیا اور حضرت خلیفہ اوّل سے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پلاؤ بھی کھا لیتے ہیں؟ اعتراض کرنے والے نے کہا سنا ہے مرزا صاحب پلاؤ کھاتے ہیں؟ حضرت خلیفہ اوّل نے کہا کہ میں نے تو کہیں نہیں پڑھا، نہ قرآن میں نہ حدیث میں کہ اچھا کھانا کھانا نبیوں کو جائز نہیں۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ (غیر مطبوعہ) جلد 5 صفحہ 48 روایات حضرت نظام الدین صاحب ٹیلرؓ )۔ کھاتے ہیں تو کیا ہو گیا۔ تو اس قسم کے بھی لوگوں کے اعتراض ہوتے رہتے ہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ صرف کڑوے کھانے کھانا ہی بڑی بزرگی ہے۔ حالانکہ یہ غلط ہے۔ اسی سنّت پہ ہمیں چلنا چاہئے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے پیش فرمائی۔ آپ نے ایک صحابی کو فرمایا تھا میں اچھا کھانا بھی کھاتا ہوں۔ میں اچھے کپڑے بھی پہنتا ہوں۔ میں نے شادیاں بھی کی ہیں۔ میری اولاد بھی ہے۔ میں سوتا بھی ہوں۔ میں عبادت بھی کرتا ہوں۔ پس یہ میری سنت ہے جس پر تمہیں چلنا چاہئے۔ (تفسیر الدر المنثور جلد 3 صفحہ 131 تفسیر سورۃ المائدۃ 78تا 88 مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 2001ء)
بہرحال آگے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’انبیاء کا یہ دستور نہ تھا کہ اس میں ہی منہمک ہو جاتے۔‘‘ (یعنی دنیاوی چیزوں میں منہمک نہیں ہوتے۔) ’’انہماک بیشک ایک زہر ہے۔ ایک بدقماش آدمی جو کچھ چاہتا ہے کرتا ہے اور جو چاہتا ہے کھاتا ہے۔ اسی طرح اگر ایک صالح بھی کرے تو خدا کی راہیں اس پر نہیں کھلتیں۔‘‘ (ایک بدقماش آدمی تو دنیاوی نظر سے کھاتا پیتا اور وہ دنیا داری کے سب کام کر رہا ہوتا ہے لیکن ایک صالح آدمی نہیں۔ اگر وہ اس طرح کرے گا تو پھر خدا کی راہیں اس پہ نہیں کھلیں گی۔) فرمایا کہ ’’جو خدا کے لئے قدم اٹھاتا ہے خدا کو ضرور اس کا پاس ہوتا ہے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے اِعْدِلُوْا ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی(المائدۃ:9)‘‘ فرمایا کہ ’’تنعّم اور کھانے پینے میں بھی اعتدال کرنے کا نام تقویٰ ہے۔ صرف یہی گناہ نہیں ہے کہ انسان زنا نہ کرے۔ چوری نہ کرے۔ بلکہ جائز امور میں حد اعتدال سے نہ بڑھے۔‘‘ (ملفوظات جلد 4صفحہ375۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
جو جائز چیزیں ہیں ان میں اعتدال رکھنا یہ بھی تقویٰ ہے اور یہ بھی نیکی ہے۔ اپنی تعلیم کے اس حصہ کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ حُکّام کے ساتھ نیکی کیا ہے؟ اور عام تعلقات اور جو عزیزوں سے تعلقات ہیں اس میں نیکی کیا ہے؟ آپ فرماتے ہیں کہ ’’ہماری تعلیم تو یہ ہے کہ سب سے نیک سلوک کرو۔ حُکّام کی سچی اطاعت کرنی چاہئے کیونکہ وہ حفاظت کرتے ہیں۔‘‘ (حکومت اور گورنمنٹ کی بھی اطاعت کرنی چاہئے کیونکہ وہ اپنے شہریوں کے صحیح طرح فرائض ادا کر رہے ہیں۔) فرمایا کہ ’’جان اور مال ان کے ذریعہ امن میں ہیں اور برادری کے ساتھ بھی نیک سلوک اور برتاؤ کرنا چاہئے کیونکہ برادری کے بھی حقوق ہیں۔‘‘ فرمایا ’’البتہ جو متقی نہیں اور بدعات و شرک میں گرفتار ہیں اور ہمارے مخالف ہیں ان کے پیچھے نماز نہیں پڑھنی چاہئے۔‘‘ (نیک برتاؤ کرنا ہے کرو۔ لیکن نیکی کا یہ مطلب نہیں کہ جو ہمارے مخالف ہیں اور ہمارے پہ فتوے لگانے والے ہیں، بدعات میں گرفتار ہیں ان کے پیچھے نمازیں پڑھنے لگ جاؤ۔ وہ نہیں پڑھنیں۔) فرمایا کہ ’’تاہم ان سے نیک سلوک کرنا ضرور چاہئے۔‘‘ (لیکن نیک سلوک ان سے بہرحال کرنا ہے۔ جتنے مرضی ہمارے مخالف ہوں۔) فرمایا کہ ’’ہمارا اصول تو یہ ہے کہ ہر ایک سے نیکی کرو۔ جو دنیا میں کسی سے نیکی نہیں کر سکتا وہ آخرت میں کیا اجر لے گا۔ اس لئے سب کے لئے نیک اندیش ہونا چاہئے۔ ہاں مذہبی امور میں اپنے آپ کو بچانا چاہئے۔ جس طرح پر طبیب ہر مریض کی خواہ ہندو ہو یا عیسائی یا کوئی ہو سب کی تشخیص اور علاج کرتا ہے۔ اسی طرح پر نیکی کرنے میں عام اصولوں کو مدّنظر رکھنا چاہئے۔‘‘ فرمایا ’’اگر کوئی یہ کہے کہ پیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں کفّار کو قتل کیا گیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ لوگ اپنی شرارتوں اور ایذا رسانیوں سے بسبب بلا وجہ قتل کرنے مسلمانوں کے مجرم ہو چکے تھے۔‘‘ (مسلمانوں کو قتل کرتے تھے۔ ان پر ظلم کرتے تھے۔ ان کی سزا کے طور پر ان کو سزا دی گئی) ’’ان کو جو سزا ملی مجرم ہونے کی حیثیت سے تھی۔ (اس لئے نہیں تھی کہ انہوں نے انکار کیا۔) ’’محض انکار اگر سادگی سے ہو اور اس کے ساتھ شرارت اور ایذا رسانی نہ ہو تو وہ اس دنیا میں عذاب کا موجب نہیں ہوتا۔‘‘ (ملفوظات جلد 3صفحہ319-320۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
نیکی کے دائرے کو کس قدر وسیع کرنا چاہئے؟ اس بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ: ’’یاد رکھو ہمدردی کا دائرہ میرے نزدیک بہت وسیع ہے۔ کسی قوم اور فرد کو الگ نہ کرے۔ میں آجکل کے جاہلوں کی طرح یہ نہیں کہنا چاہتا کہ تم اپنی ہمدردی کو صرف مسلمانوں سے ہی مخصوص کرو۔ نہیں۔ مَیں کہتا ہوں کہ تم خدا تعالیٰ کی ساری مخلوق سے ہمدردی کرو۔ خواہ وہ کوئی ہو۔ ہندو ہو یا مسلمان یا کوئی اور۔ مَیں کبھی ایسے لوگوں کی باتیں پسندنہیں کرتا جو ہمدردی کو صرف اپنی ہی قوم سے مخصوص کرنا چاہتے ہیں۔ ان میں بعض اس قسم کے خیالات بھی رکھتے ہیں کہ اگر ایک شِیرے کے مٹکے میں ہاتھ ڈالا جاوے اور پھر اس کو تِلوں میں ڈال کر تِل لگائے جاویں تو جس قدر تل اس کو لگ جاویں اس قدر دھوکہ اور فریب دوسرے لوگوں کو دے سکتے ہیں۔‘‘ (یہ بعض غیر احمدیوں کے نظریے ہیں کہ شیرا یا شہد کوئی میٹھی چیز لیں۔ ہاتھ ڈالو باہر نکالو باہر نکال کے تلوں کے ڈھیر میں ہاتھ ڈالو اور جتنے تل ہاتھ کے ساتھ لگ جائیں اتنا تم دھوکہ دے سکتے ہو۔ اتنا دھوکہ دینا جائز ہے۔ اتنے لوگوں کے حقوق غصب کرنا جائز ہیں۔ فرمایا کہ یہ سب چیزیں انتہائی گناہ ہیں۔ یہ بالکل جائز نہیں۔ فرمایا کہ) ’’ان کی ایسی بیہودہ اور خیالی باتوں نے بہت بڑا نقصان پہنچایا ہے اور ان کو قریباً وحشی اور درندہ بنا دیا ہے۔‘‘ (یہی آجکل مسلمانوں کی حالت ہے۔) ’’مگر مَیں تمہیں بار بار یہی نصیحت کرتا ہوں کہ تم ہرگز ہرگز اپنی ہمدردی کے دائرے کو محدودنہ کرو اور ہمدردی کے لئے اُس تعلیم کی پیروی کرو جو اللہ تعالیٰ نے دی ہے۔ یعنی اِنَّ اللّٰہَ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَآیِٔ ذِی الْقُرْبٰی (النحل:91) یعنی اوّل نیکی کرنے میں تم عدل کو ملحوظ رکھو۔ جو شخص تم سے نیکی کرے تم بھی اس کے ساتھ نیکی کرو۔ اور پھر دوسرا درجہ یہ ہے کہ تم اس سے بھی بڑھ کر اس سے سلوک کرو۔ یہ احسان ہے۔ احسان کا درجہ اگرچہ عدل سے بڑھا ہوا ہے اور یہ بڑی بھاری نیکی ہے لیکن کبھی نہ کبھی ممکن ہے احسان والا اپنا احسان جتلاوے۔ مگر ان سب سے بڑھ کر ایک درجہ ہے کہ انسان ایسے طور پر نیکی کرے جو محبتِ ذاتی کے رنگ میں ہو جس میں احسان نمائی کا بھی کوئی حصہ نہیں ہوتا ہے۔ جیسے ماں اپنے بچّہ کی پرورش کرتی ہے۔ وہ اس پرورش میں کسی اجر اور صلہ کی خواستگار نہیں ہوتی بلکہ ایک طبعی جوش ہوتا ہے جو بچے کے لئے اپنے سارے سکھ اور آرام قربان کر دیتی ہے۔ یہاں تک کہ اگر کوئی بادشاہ کسی ماں کو حکم دے دے کہ تُو اپنے بچّہ کو دودھ مت پلا اور اگر ایسا کرنے سے بچہ ضائع بھی ہو جاوے تو اس کو کوئی سزا نہیں ہو گی۔ تو کیا ماں ایسا حکم سن کر خوش ہو گی؟ اور اس کی تعمیل کرے گی؟ ہرگز نہیں۔ بلکہ وہ تو اپنے دل میں ایسے بادشاہ کو کوسے گی کہ کیوں اس نے ایسا حکم دیا۔ پس اس طریق پر نیکی ہو کہ اسے طبعی مرتبہ تک پہنچایا جاوے کیونکہ جب کوئی شئے ترقی کرتے کرتے اپنے طبعی کمال تک پہنچ جاتی ہے اُس وقت وہ کامل ہوتی ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 7صفحہ282-283۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس نیکیاں ایسی ہوں کہ دل سے ہر وقت نیکیوں کا خیال آتا رہے۔ آپ نے فرمایا کہ ’’طبعی جوش سے نوع انسان کی ہمدردی کا نام ایتاءِ ذی القربی ہے اور اس ترتیب سے خدا تعالیٰ کا یہ منشاء ہے کہ اگر تم پورا نیک بننا چاہتے ہو تو اپنی نیکی کو ایتاءِ ذی القربی۔ یعنی طبعی درجہ تک پہنچاؤ۔ جب تک کوئی شئے ترقی کرتی کرتی اپنے اس طبعی مرکز تک نہیں پہنچتی تب تک وہ کمال کا درجہ حاصل نہیں کرتی۔‘‘ (ملفوظات جلد 7صفحہ283 حاشیہ۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
فرمایا کہ ’’یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ نیکی کو بہت پسند کرتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اس کی مخلوق سے ہمدردی کی جاوے۔ اگر وہ بدی کو پسند کرتا تو بدی کی تاکید کرتاأ مگر اللہ تعالیٰ کی شان اس سے پاک ہے۔ (سبحانہٗ تعالیٰ شانہٗ۔)‘‘ (ملفوظات جلد 7صفحہ284۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ نیکیوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر بجا لانے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ نے فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ کا جو مطمح نظر، جو ٹارگٹ ہمارے لئے مقرر فرمایا ہے اسے ہم حاصل کرنے والے ہوں۔
نماز کے بعد مَیں چند جنازے غائب پڑھاؤں گا۔ پہلا جنازہ جو ہے وہ مکرم حامد مقصود عاطف صاحب مربی سلسلہ ابن مکرم محترم پروفیسر مسعود احمد عاطف صاحب کا ہے جو 22؍اکتوبر کو گردے فیل ہونے کی وجہ سے طاہر ہارٹ ربوہ میں 48 سال کی عمر میں انتقال فرما گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی حضرت عبدالرحیم درد صاحب کے نواسے تھے۔ آپ کے والد پروفیسر مسعود احمد عاطف تھے جنہیں 1955ء سے لے کر 86ء تک تعلیم الاسلام کالج میں فزکس پڑھانے کا بھی موقع ملا۔ یہ مقصود عاطف صاحب مسعود عاطف صاحب کے بیٹے تھے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم تو ربوہ میں حاصل کی۔ پھر زندگی وقف کی جامعہ میں داخل ہوئے۔ 1991ء میں شاہد پاس کیا۔ پہلے تو ان کی خواہش تھی کہ فوج میں جائیں لیکن پھر ایک خواب کی بناء پر انہوں نے کالج چھوڑ کر جامعہ میں داخلہ لیا اور وہاں سے شاہد کی ڈگری حاصل کر کے مربی بن کے نکلے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کی اہلیہ کے علاوہ دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے اور تینوں بچے ان کے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ چھوٹا بیٹا واصف حامد مدرسۃ الحفظ میں قرآن کریم حفظ کر رہا ہے۔
مقصود عاطف صاحب 1991ء میں جامعہ سے فارغ ہوئے۔ پھر پاکستان میں مختلف شہروں میں ان کی تقرری ہوئی۔ اس کے بعد فرنچ زبان سیکھنے کے لئے انہوں نے اسلام آباد میں نمل یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور پھر مئی 1997ء میں آئیوری کوسٹ میں ان کو بطور مبلغ بھجوایا گیا۔ 2002ء تک آئیوری کوسٹ میں خدمت کی توفیق پائی۔ پھر 2016ء تک برکینا فاسو میں خدمت کی توفیق پائی اور پھر گردے کی تکلیف کی وجہ سے واپس پاکستان بلا لئے گئے۔ آپ کی اہلیہ کہتی ہیں کہ جب میں آئیوری کوسٹ گئی ہوں تو بڑی محنت سے مجھے فرنچ سکھائی تا کہ میرے روز مرہ کے معمولات اور لوگوں سے ڈیلنگ (dealing)آسان رہے اور لجنہ کی تربیت میں بھی ممد ثابت ہو۔ اکثر لکھنے والے ان کے ساتھیوں نے یہی لکھا ہے کہ بڑے ہنس مکھ تھے۔ بے تکلف تھے۔ ذہین بھی تھے۔ مزاح کی حس رکھنے والے تھے۔ بڑوں کا اور اپنے ساتھیوں کا ادب و احترام کرنے والے تھے۔ اطاعت اور فرمانبرداری کی روح ان میں بہت زیادہ تھی اور بے نفس انسان تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کے بچوں کو بھی صبر اور حوصلہ عطا فرمائے۔ نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
دوسرا جنازہ علی سعیدی موسیٰ صاحب سابق امیر جماعت تنزانیہ کا ہے جو 30؍ستمبر کو 67 سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ 1950ء کو چٹانڈی (Chitandi) تنزانیہ میں پیدا ہوئے تھے۔ پھر انہوں نے 1980ء میں دارالسلام یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ اکنامکس میں بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ پھر 1980ء میں ایگریکلچرل اکنامکس کی ڈگری حاصل کی۔ مختلف حکومتی عہدوں پر فائز رہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے ان کو قرآن کریم کا یاؤ (Yao) زبان میں ترجمہ کرنے کا ارشاد فرمایا تھا لیکن اپنی حکومتی مصروفیات کی وجہ سے اور دیگر کاموں کی وجہ سے انہوں نے بڑی دیر لگا دی جس پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے فرمایا کہ اس رفتار سے ترجمہ میں کم از کم تیس سال لگ جائیں گے اور بڑا فکر کا اظہار کیا۔ بہرحال یہ ارشاد سن کر علی سعیدی صاحب بڑے جذباتی ہوئے اور انہوں نے عہد کیا کہ میں جلدی قرآن کریم کا ترجمہ کروں گا۔ چنانچہ انہوں نے اپنے سارے کام چھوڑ کے ساری توجہ قرآن کریم کے ترجمہ پر دی اور پانچ سال میں یہ ترجمہ مکمل کر لیا۔ 2006ء میں تنزانیہ کی جماعت کا امیر مقرر کیا گیا اور برونڈی اور موزمبیق اور ملاوی کی جماعتیں بھی آپ کی نگرانی میں تھیں۔ ان کی امارت میں جماعت نے وہاں سیکنڈری سکول کا اجراء بھی کیا اور جماعت نے ایک بڑا رقبہ زمین کا بھی حاصل کیا۔ بڑے مخلص فدائی اور باوفا نیک انسان تھے۔ خلافت سے گہرا اور عقیدت کا تعلق تھا۔ اہلیہ کے علاوہ تین بیٹیاں اور تین بیٹے یادگار چھوڑے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو ان کی نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ان کے درجات بلند فرمائے۔
اور تیسرا جنازہ مکرمہ نصرت بیگم صادقہ صاحبہ گرمولہ ورکاں حال ربوہ کا ہے جو 16 اور 17؍اکتوبر کی درمیانی شب طاہر ہارٹ انسٹی ٹیوٹ میں وفات پا گئیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ آپ مومن طاہر صاحب جو ہمارے عربی ڈیسک کے انچارج ہیں ان کی والدہ تھیں۔ ان کا سب سے نمایاں وصف توحید سے بے پناہ محبت اور شرک و بدعت سے شدیدنفرت تھی۔ توکّل اور غرباء پروری، اپنی نیکی کو چھپانا، بڑی عاجزی انکساری والی طبیعت تھی۔ ان کے دادا حضرت میاں عطاء اللہ صاحب صحابی تھے اور مولانا برہان الدین صاحب کے ذریعہ سے انہوں نے قادیان آ کر بیعت کی تھی۔ قرآن کریم پڑھانے کا ان کو بہت شوق تھا۔ درست پڑھنے اور پڑھانے کا شوق تھا۔ جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے تحریک فرمائی کہ بڑی عمر کی ناخواندہ خواتین کو بھی قرآن شریف سیکھنے کی کوشش کرنی چاہئے تو بعض ستّر ستّر سال کی اَن پڑھ عورتوں نے بھی ان سے قرآن کریم پڑھنا سیکھا بلکہ بعض نے ترجمہ بھی سیکھ لیا۔ غیر احمدی عورتیں اور بچیاں بھی آپ سے قرآن کریم پڑھتی تھیں۔ بہت سی بچیوں نے لجنہ کے نصاب کی کتابیں پڑھ کر آپ سے لکھنا پڑھنا بھی سیکھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے مطالعہ کا ان کو بڑا شوق تھا۔ نظمیں بڑی یاد تھیں اور کلام محمود، درّعدن اور درّثمین وغیرہ کے بہت سارے شعر یاد تھے۔ ان کے بیٹے لکھتے ہیں کہ محمود کی آمین والی نظم تو اکثر بڑے درد سے پڑھتی تھیں اور آنسوؤں کی جھڑی لگ جاتی تھی۔ اسی طرح بدعات کے خلاف انہوں نے اپنے گاؤں میں بڑا کام کیا۔ کمزور ایمان عورتیں جن کو ٹونے ٹوٹکوں کی بعض دفعہ عادت تھی یا کرواتی تھیں تو بڑا لمبا جہاد کر کے ان سے یہ عادت ہٹوائی اور ان کو صحیح مومنہ بننے کی طرف توجہ دلائی۔ نمازیں بڑے سوز سے پڑھتی تھیں۔ تلاوت قرآن کریم باقاعدہ کرنے والی اور موصیہ تھیں۔ مرحومہ کے چھ بیٹے تھے۔ ان کے چار بچے وقف ہیں۔ ایک تو مومن صاحب میں نے بتایا۔ باقی بچے بھی جماعت کی خدمت کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ کے درجات بلند کرے۔ ان کی اولاد کو سب عزیزوں کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اللہ تعالیٰ مومنوں کو فرماتا ہے کہ تمہارا مطمح نظر ہمیشہ فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ (البقرۃ:149) ہونا چاہئے یعنی تم نیکیوں میں ہمیشہ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو اور پھر نیکیاں بجا لانے والوں اور نیک اعمال کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے بہترین مخلوق قرار دیا ہے۔
نیکی کیا چیز ہے؟ حقیقی نیکی کس طرح حاصل کی جا سکتی ہے؟ نیکی بجا لانے کے لئے خدا تعالیٰ پر ایمان کیوں ضروری ہے؟ ایمان کا معیار کیا ہونا چاہئے؟ اس ایمان کے معیار کو کس طرح ہمیں بڑھانا چاہئے؟ کن ذریعوں سے نیکی کی جاتی ہے؟ نیکی کے کون کون سے مختلف پہلو ہیں؟ کتنی قسم کی نیکیاں ہیں؟ ایک مومن کو اپنی نیکی کے دائرے کو کس قدر وسیع کرنا چاہئے؟ نیکیوں کی حقیقت، اس کی حکمت اور اس کی روح کے متعلق حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے ارشادات کے حوالہ سے پُر معارف بیان۔
مکرم حامد مقصود عاطف صاحب (مربی سلسلہ)، مکرم علی سعیدی موسیٰ صاحب (سابق امیر جماعت تنزانیہ) اور مکرمہ نصرت بیگم صادقہ صاحبہ(آف ربوہ) کی وفات۔ مرحومین کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب۔
فرمودہ مورخہ 27؍اکتوبر 2017ء بمطابق 27؍اخاء 1396 ہجری شمسی، بمقام مسجدبیت الفتوح، مورڈن، لندن، یوکے
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔