مالی قربانی اور تحریک جدید کا چوراسیویں (84) سال
خطبہ جمعہ 3؍ نومبر 2017ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْءٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیْمٌ (آل عمران:93) اس آیت کا ترجمہ ہے کہ تم ہرگز نیکی کو پا نہیں سکو گے یہاں تک کہ تم ان چیزوں میں سے خرچ کرو جن سے تم محبت کرتے ہو۔ اور تم جو کچھ بھی خرچ کرتے ہو یقیناً اللہ اس کو خوب جانتا ہے۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے وہ مضمون بیان فرمایا ہے جسے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانی کرنے والے مومنین نے ہی بہتر رنگ میں سمجھا ہے۔ اس کا سب سے بڑھ کر اظہار تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے کیا جنہوں نے اپنا مال، اپنی جان، اپنا وقت دین کے لئے قربان کیا۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے ’’اَلْبِرّ‘‘ کی حقیقت کو سمجھا۔ یعنی نیکی کے اس معیار کو سمجھا اور حاصل کرنے کی کوشش کی جو نیکیوں کا اعلیٰ ترین معیار تھا۔ جو تقویٰ کا اعلیٰ معیار تھا۔ جو اخلاق کا اعلیٰ معیار تھا۔ جو مالی قربانی کرنے کا اعلیٰ معیار تھا۔ جو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا اعلیٰ معیار تھا۔ چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت ابوطلحہؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی کہ اے اللہ کے رسول! میرا ایک باغ ہے جو بیرحاء کے نام سے جانا جاتا ہے اور مسجدنبوی کے قریب ہی وہ باغ تھا۔ انہوں نے عرض کی کہ مجھے اپنی جائیدادوں میں سے سب سے زیادہ پیارا یہی باغ ہے۔ آج مَیں اسے اللہ تعالیٰ کی راہ میں صدقہ کرتا ہوں۔ (صحیح البخاری کتاب تفسیر القرآن باب لن تنالوا البر … الخ حدیث 4554)
تو یہ معیار تھے صحابہ کے اور آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر قسم کی قربانیوں کا سب سے زیادہ اِدراک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق کو ماننے والوں کو ہی ہے اور اس کا سب سے زیادہ عملی اظہار بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی ہی کرتے ہیں۔ آج دنیا تو مال و دولت سمیٹنے کی دوڑ میں لگی ہوئی ہے۔ احمدیوں کی بہت بڑی تعداد ایسی ہے جو پیسہ کماتے ہیں دولت کماتے ہیں اور جب انہیں مالی قربانی کی طرف توجہ دلائی جائے تو وہ اپنا مال پیش کرتے ہیں۔ اور یہ سب کچھ اس مسلسل تربیت کا نتیجہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہماری فرمائی ہے۔ مختلف موقعوں پر مختلف پیرائے میں اور مختلف نصائح کے ساتھ آپ نے ہمیں قربانیوں کی نصیحت فرمائی۔ چنانچہ ایک موقع پر مالی قربانی کے بارے میں بیان فرماتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ
’’دنیا میں انسان مال سے بہت زیادہ محبت کرتا ہے۔ اسی واسطے علم تعبیر الرؤیا میں لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص دیکھے(خواب میں دیکھے) کہ اس نے جگر نکال کر کسی کو دیا ہے تو اس سے مراد مال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حقیقی اتقاء اور ایمان کے حصول کے لئے فرمایا۔ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ کہ حقیقی نیکی کو ہرگز نہ پاؤ گے جب تک کہ تم عزیز ترین چیز خرچ نہ کرو گے۔ کیونکہ مخلوق الٰہی کے ساتھ ہمدردی اور سلوک کا ایک بڑا حصہ مال کے خرچ کرنے کی ضرورت بتلاتا ہے‘‘۔ (حقوق العباد ادا کرنے کے لئے یہ فرمایا کہ حق العباد کے لئے اس کا بہت بڑا حصہ، اس کی ضرورت مال کی ضرورت ہے)۔ فرماتے ہیں کہ’’اور ابنائے جنس اور مخلوق الٰہی کی ہمدردی ایک ایسی شئے ہے جو ایمان کا دوسرا جزو ہے جس کے بدوں ایمان کامل اور راسخ نہیں ہوتا۔‘‘ (حقوق العباد بھی ایمان کا ایک حصہ ہے۔ اس کے بغیر ایمان کامل نہیں ہوتا۔ مضبوط نہیں ہوتا۔ پکا نہیں ہوتا۔) فرمایا کہ ’’جب تک انسان ایثار نہ کرے دوسرے کو نفع کیونکر پہنچا سکتا ہے۔‘‘ (دوسرے کی نفع رسانی اور ہمدردی کے لئے ایثار ضروری شئے ہے) ’’اور اس آیت میں، لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ میں اسی ایثار کی تعلیم اور ہدایت فرمائی گئی ہے۔ پس مال کا اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا بھی انسان کی سعادت اور تقویٰ شعاری کا معیار اور محک ہے۔‘‘ (یعنی وہ کسوٹی ہے جس سے تقویٰ کو پرکھا جاتا ہے۔) فرمایا کہ ’’ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زندگی میں للّہی وقف کا معیار اور محک وہ تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (دین کے لئے) ایک ضرورت بیان کی اور وہ کُل اثاث البیت لے کر حاضر ہو گئے‘‘۔ (ملفوظات جلد 2 صفحہ 95-96۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس یہ وہ اعلیٰ ترین معیار ہے جو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قائم فرمایا اور آپ کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قائم فرمایا۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ حضرت ابو بکر گھر کا کُل سامان لے کر آ گئے۔ حضرت عمر گھر کا نصف سامان لے کر آ گئے اور اسی طرح باقی صحابہ بھی اپنی اپنی استعداد کے مطابق قربانیاں دیتے رہے۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد 2 صفحہ 95۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
اور یہی وہ روح اور معیار ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام یہ مثالیں دے کر ہم میں پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ اور جیسا کہ مَیں نے کہا کہ بہت سے احمدی ہیں جو قربانیوں کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب وہ قرآن اور حدیث میں اور اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشادات پڑھتے ہیں تو اس بات پر ان کو یقین بھی ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے کے اموال اور نفوس میں برکت کا بھی فرمایا ہے۔ جب انسان اپنی پیاری ترین چیز اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ میں اس کو بڑھا کر دیتا ہوں اور سات سو گنا تک بھی دے سکتا ہوں اور اس سے زیادہ بھی دے سکتا ہوں۔ تو جب احمدی یہ قربانی کرتے ہیں اور جب احمدی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے مطابق خرچ کرتے ہیں تو ان کو یہ بھی یقین ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بڑھا کر دے گا اور ہمارے سے بھی یہ سلوک کرے گا۔ جس میں آپ نے فرمایا کہ ’’جس نے ایک کھجور بھی پاک کمائی میں سے اللہ تعالیٰ کی راہ میں دی اور اللہ تعالیٰ پاک چیز کو ہی قبول فرماتا ہے‘‘۔ یہ بڑی ضروری چیز یاد رکھنے والی ہے۔ دھوکے سے کمائی ہوئی کمائی اللہ تعالیٰ قبول نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ پاک کمائی قبول کرتا ہے۔ اور فرمایا کہ’’جس نے پاک کمائی اللہ تعالیٰ کی راہ میں دی تو اللہ تعالیٰ اس کھجور کو دائیں ہاتھ سے قبول فرمائے گا (چاہے وہ کھجور کے برابر ہی کمائی ہو) اور اسے بڑھاتا جائے گا یہاں تک کہ وہ پہاڑ جتنی ہو جائے گی‘‘۔ فرمایا کہ ’’جیسے تم میں سے کوئی اپنے چھوٹے سے بچھڑے کی پرورش کرتا ہے اور اسے بڑا جانور بنا دیتا ہے‘‘۔ (صحیح البخاری کتاب الزکاۃ باب الصدقۃ من کسب طیب … الخ حدیث 1410)
اب اس زمانے میں جب ہم یہ پڑھتے ہیں یہ باتیں سنتے ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سنتے ہیں تو یہ کوئی پرانے قصے کہانیاں نہیں ہیں۔ بلکہ آج بھی قربانیاں کرنے والوں کو ذاتی تجربات ہوتے ہیں اور پھر جو وہ قربانیاں کرتے ہیں تو یہ بات ان کے وسائل میں بھی وسعت پیدا کرتی ہے اور ان کے ایمان میں بھی اضافہ کرتی ہے۔ چنانچہ چند ایک واقعات مَیں بیان کرتا ہوں۔ کیمرون افریقہ کا ایک ملک ہے وہاں کے مبلغ انچارج کہتے ہیں کہ وہاں کے ایک معلم ابوبکر صاحب ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ایک احمدی نے جو پچھلے سال بیروزگار تھے۔ عبداللہ ان کا نام ہے اور اتنے برے حالات تھے کہ اپنے فیملی کو سنبھالنا بھی ان کے لئے مشکل تھا۔ اس حالت میں وہ ایک دن نماز جمعہ پہ آئے۔ نماز جمعہ کے بعد جب سیکرٹری صاحب نے تحریک جدید کے لئے اعلان کیا تو عبداللہ صاحب کے پاس جیب میں دس ہزار فرانک سیفاتھے انہوں نے اعلان سنتے ہی ساری رقم تحریک جدید کے لئے دے دی۔ کچھ دنوں کے بعد دوبارہ سینٹر میں آئے تو کہنے لگے کہ خدا تعالیٰ نے میرا چندہ قبول کر لیا اور ایک ہفتے کے اندر ایک پرائیویٹ کمپنی نے مجھے کام دیا ہے اور میری تنخواہ ایک لاکھ فرانک سیفا مقرر ہوئی ہے جو میرے چندے سے دس گنا زیادہ ہے اور ہر ماہ مجھے ملے گی۔ یہ خدا تعالیٰ کا خاص فضل ہے۔ کہتے ہیں کہ اس لئے اب مَیں پہلے ماہ کی تنخواہ بھی جماعت کو چندہ میں دیتا ہوں۔ اب یہ غریب لوگ ہیں۔ ان کو اللہ تعالیٰ کس طرح ان تجربات سے گزارتا ہے۔ کس طرح برکات سے نوازتا ہے۔ ایک اور مثال بھی ہے۔
کانگو برازاویل میں ایک نومبایع احمدی داؤد صاحب ہیں۔ یہ بھی افریقہ کا ملک ہے۔ ان کے تنگ مالی حالات کے پیش نظر ان کو کہا گیا کہ کم از کم ہر جمعہ احمدیہ مسجد میں ادا کرنے آیا کریں۔ جب وہ جمعہ پر باقاعدہ ہوئے تو پھر ایک دن جمعہ کے بعد انہیں علیحدہ ملاقات میں مالی قربانی کی اہمیت کا بتایا اور کہا کہ جو کچھ بھی خدا تعالیٰ آپ کو دے اس میں سے کچھ نہ کچھ ضرور اس کی راہ میں دیں۔ جو کچھ آپ خدا کی راہ میں دیں گے وہ اس سے بڑھ کر لوٹائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے پاک کمائی اگر ادا کرو گے۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو گے تو تمہیں لوٹاؤں گا۔ ان کو یہ کہا گیا کہ اس طرح آپ کے تنگ مالی حالات فراخی میں بدل جائیں گے۔ یہ کہہ کر وہ مبلغ صاحب کہتے ہیں کہ میں نے ان کو واپسی کا کرایہ بھی دیا اور رخصت کر دیا۔ ایک ہفتے کے بعد جمعہ کے لئے آئے تو جمعہ کے بعد بہت خوش نظر آ رہے تھے۔ وجہ پوچھی تو کہنے لگے کہ آپ نے گزشتہ جمعہ کو چندوں کی جو تحریک کی تھی تو مسجد سے جانے سے قبل مَیں نے سو فرانک سیفا چندے کی مدّ میں ادا کئے تھے۔ چندہ دینے کے بعد میں جیسے ہی گھر پہنچا تو ایک پڑوسی دوست جنہوں نے کچھ مہینوں سے تھوڑی سی جلانے والی لکڑی ہمارے صحن میں رکھی ہوئی تھی وہ اچانک لکڑی لینے کے لئے آ گئے اور جاتے ہوئے چار ہزار فرانک سیفا میرے ہاتھ میں تھما گئے۔ مجھے بہت خوشی ہوئی کہ ابھی تو میں چندہ دے کر گھر پہنچا ہی تھا تو ساتھ ہی خدا تعالیٰ نے چالیس گنا بڑھا کر عطا کر دیا۔
اسی طرح تنزانیہ کے امیر صاحب نے لکھا کہ ایک نو مبایع عبید کُوئی صاحب بیان کرتے ہیں کہ راجگیری میرا پیشہ ہے اور عرصہ پانچ مہینے سے کوئی خاص کام نہیں مل رہا تھا۔ بڑے مشکل حالات تھے۔ بیوی بچے بھی مشکل سے رہ رہے تھے۔ بڑا مشکل سے گزارہ ہو رہا تھا۔ ایک دن معلم نے چندہ کی تحریک کی۔ کہتے ہیں اس وقت مجھے اور زیادہ پریشانی ہوئی کیونکہ جو رقم میرے پاس تھی وہ صرف اتنی تھی کہ اس دن کے لئے بیوی بچوں کا بندوبست ہو سکتا تھا۔ جب معلم صاحب نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانی کرنے سے اللہ تعالیٰ برکت ڈالتا ہے تو مَیں نے فیصلہ کیا کہ یہ رقم چندے میں دے دیتا ہوں۔ چنانچہ ایسا ہی کیا اور اس کے بعد مجھے یہ خیال آیا کہ آج میرے بچے کیا کھائیں گے؟میں یہی سوچ رہا تھا۔ ابھی کچھ دیر گزری تھی کہ مجھے یہ پیغام ملا کہ کہیں پر تعمیر کا کام ہو رہا ہے مَیں فوراً وہاں جا کر پیمائش وغیرہ کر لوں۔ اس کے ساتھ ہی مجھے اجرت کے طور پر ایڈوانس میں کچھ رقم بھی دی گئی۔ میں بڑا حیران ہوا کہ پانچ ماہ سے مَیں مشکل میں دوچار تھا اور جونہی اللہ کی راہ میں دیا اس کی طرف سے برکتوں کے دروازے کھل گئے۔ چنانچہ اس دن سے جب میں نے اللہ کی راہ میں دیا۔ میرے حالات اب بدل گئے ہیں۔ اب کبھی میں چندہ ترک نہیں کروں گا۔ یہ نومبایعین کو بھی اللہ تعالیٰ ان تجربات سے گزارتا ہے۔
مالی افریقہ کا ایک اَور ملک ہے۔ وہاں ایک صاحب لاسینا (Lassina) صاحب ہیں۔ ان کو تین چار سال پہلے بیعت کی توفیق ملی۔ انہوں نے اپنی معمولی آمد سے پانچ سو فرانک سیفا چندہ دے دیا اور کہتے ہیں کہ جماعت احمدیہ میں شمولیت اور چندہ جات کی ادائیگی سے پہلے کاروبار ٹھیک نہیں تھا۔ لیکن چندے کی برکت سے کاروبار میں اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی برکت ڈالی ہے اور اب اللہ کے فضل سے وہ موصی بھی ہیں (پہلے انہوں نے تحریک جدید میں پانچ سو چندہ دیا تھا) اور اب اِس وقت وہ پانچ سو کی بجائے پینتیس ہزار فرانک سیفا ماہوار چندہ ادا کرتے ہیں اور ان کے غیر احمدی دوست ان کے کاروبار میں اضافہ کو دیکھ کے سمجھتے ہیں کہ شاید جماعت ان کی مالی مدد کر رہی ہے۔
فرانس سے ایک نومبایع حمزہ صاحب لکھتے ہیں کہ بیعت کرنے کے بعد جب مجھے جماعت میں چندے کے نظام کا پتا چلا تو اس وقت میرے مالی حالات بہت کمزور تھے۔ میرے پاس اتنے پیسے نہیں تھے۔ مجھے بعض احمدی دوستوں نے بتایا کہ چندے میں بڑی برکت ہے۔ خدا تعالیٰ اس کے بدلے میں کئی گنا بڑھا کر لوٹا دیتا ہے۔ بہرحال کہتے ہیں کہ میرے پاس ساٹھ یورو تھے۔ میں نے سوچا کہ اللہ کی راہ میں چندہ دیتا ہوں۔ باقی جو ہوگا دیکھا جائے گا۔ کہتے ہیں ابھی چندہ دئیے ہوئے چند دن ہی گزرے تھے کہ میری بینک سٹیٹمنٹ گھر پر آئی تو میں نے دیکھا کہ میرے اکاؤنٹ میں کہیں سے چھ سو یورو آئے ہوئے ہیں۔ پتا کرنے پر معلوم ہوا کہ حکومت نے میرے چھ سو یورو دینے تھے جو پہلے ان کے ریکارڈ میں نہیں تھے۔ اس طرح جو رقم میں نے چندے میں دی تھی اللہ تعالیٰ نے کئی گنا بڑھا کر مجھے واپس کر دی جس کا مجھے وہم و گمان بھی نہیں تھا۔
تنزانیہ کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ احمد ثانی صاحب Dodoma ریجن سے تعلق رکھتے ہیں اور موصی بھی ہیں۔ انہوں نے اپنا وعدہ پچاس ہزار شلنگ لکھوایا ہوا تھا جو بہت پہلے پورا ادا کر دیا تھا۔ پھر گزشتہ ماہ انہوں نے خواب میں مجھے دیکھا کہ مَیں ان کے گھر گیا ہوں اور میں نے ان سے پوچھا کہ زمین سے سونا نکالنے کا کام آپ کرتے ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ جی حضور۔ لیکن یہ کام ٹھیک نہیں چل رہا۔ کہتے ہیں کہ پھر میں نے ان کی طرف دیکھا اور ساتھ ہی کہیں سے یہ آواز آئی کہ تحریک جدید کا چندہ بڑھاؤ۔ ثانی صاحب جو ہیں یہ حکمت کا، دیسی دوائیوں کا بھی کام کرتے ہیں۔ بڑے ماہر ہیں۔ تو یہ کہتے ہیں کہ اس خواب کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ میں غیر معمولی برکت ڈالی اور گزشتہ ایک ماہ سے دور دور سے ان کے پاس مریض آنے لگے اور آمدمیں غیر معمولی اضافہ ہونے لگا اور کہتے ہیں اس خواب کے بعد گزشتہ ایک ماہ میں انہوں نے مزید چار لاکھ ستائیس ہزار شلنگ سے زیادہ تحریک جدید کا چندہ ادا کیا اور اپنے ریجن میں اب وہ سب سے زیادہ چندہ ادا کرنے والے ہیں۔ انڈیا بنگلور کے ایک مخلص نوجوان بے روزگار تھے اور نوکری نہ ہونے کی وجہ سے گھر کی ماہوار قسط بھی ادا نہیں کر سک رہے تھے۔ تحریک جدید کے انسپکٹر صاحب کہتے ہیں کہ مَیں ان کے گھر گیا لیکن جب سیکرٹری نے مجھے ان کے حالات بتائے تو میں خاموش ہو گیا اور کوئی بات نہیں کی۔ لیکن موصوف نے خود ہی مجھے پوچھا آپ مجھے کچھ کہنا چاہ رہے تھے۔ اس پر میں نے کہا کہ مجھے پہلے آپ کے حالات کا پوری طرح علم نہیں تھا تو آپ سے ایک لاکھ روپیہ چندہ تحریک جدید کا وعدہ لینے کا ارادہ تھا لیکن اب آپ کے حالات کا پتا لگا ہے تو مَیں خاموش ہو گیا۔ آپ اپنی استطاعت کے مطابق جو چاہیں لکھوا دیں۔ اس پر موصوف نے کہا کہ آپ ایک لاکھ روپے کا وعدہ لکھ لیں اور کہتے ہیں مَیں بہرحال اللہ پر توکّل کرتا ہوں انشاء اللہ ادائیگی بھی ہو جائے گی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا۔ دوبارہ ان کو ملازمت مل گئی اور بہت اعلیٰ ملازمت ملی اور انہوں نے پچھلے سال کا بھی اور اس سال کا بھی، دو سال کا وعدہ بھی ادا کر دیا۔
مایوٹی ایک آئی لینڈ ہے وہاں کے مبلغ سلسلہ لکھتے ہیں کہ یہ بڑا غریب ملک ہے۔ بہت مشکل سے لوگ اپنے گھر کی سبزیاں وغیرہ بیچ کر گزارہ کرتے ہیں۔ ایک احمدی دوست رابیوں (Rabion) صاحب ایک موٹر سائیکل کی دکان میں کام کرتے ہیں اور سب سے زیادہ چندہ دیتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ عجیب سلسلہ ہے مَیں جتنا چندہ ادا کرتا ہوں اور مہینے کے آخر پردوگنی رقم واپس مل جاتی ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک دن ان کی اہلیہ نے کہا کہ آپ اتنا زیادہ چندہ کیوں ادا کرتے ہیں؟ کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ یہ چندہ مجھے دوگنا کر کے واپس کر دیتا ہے۔ اس لئے میں دیتا بھی ہوں۔ پھر انہوں نے اپنی اہلیہ کے سامنے ہی ایک رقم چندے میں ادا کی۔ کہنے لگے کہ دیکھ لینا اللہ تعالیٰ مجھے یہ رقم ضرور واپس کر دے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور مہینہ کے آخر میں دوکان کے مالک نے اپنے تمام ملازمین کو بونس دیا اور جو رقم انہیں بونس میں ملی وہ چندے کی رقم سے زیادہ تھی۔ موصوف اللہ تعالیٰ کے فضل سے مالی قربانی میں دن بدن بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ کینیڈا سے امیر صاحب نے لکھا کہ لجنہ کی سیکرٹری تحریک جدیدنے دورہ کے دوران بہنوں کو بتایا کہ حضرت مصلح موعودنے جب تحریک کی تھی تو اس وقت ابتدا میں کہا تھا کہ اپنی تنخواہ آدھی یا پوری تحریک جدید میں پیش کرو تو وہ کہتی ہیں کہ ایک بہن جو پارٹ ٹائم جاب کرتی تھیں لیکن ان کی شدید خواہش تھی کہ مجھے پورا جاب ملے اور میں پوری تنخواہ ادا کروں۔ چنانچہ ان کو فُل ٹائم جاب مل گیا جس کی پانچ ہزار ڈالر تنخواہ مقرر ہوئی جو انہوں نے تحریک جدید میں پیش کر دی۔ اسی طرح اَور بہت ساری مثالیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کی ابتدا سے لے کر آج تک مخلصین پرانے احمدی بھی، نئے آنے والے بہت سارے نو مبایعین بھی اللہ تعالیٰ کے سلوک اور وعدے کا تجربہ رکھتے ہیں۔ ان کی قربانیوں کے واقعات میں نے سنائے اور اس زمانے میں خاص طور پر مالی قربانیوں کا مضمون بھی جماعت احمدیہ کا ہی ایک خاص امتیاز ہے۔ احمدیوں کی اکثریت اس بات کا اِدراک رکھتی ہے کہ یہ زمانہ جو تکمیلِ اشاعتِ اسلام کا زمانہ ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیجا ہے جو کہ مختلف زبانوں میں قرآن کریم کی اشاعت اور ترجمہ کے ذریعہ سے ہو رہا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کی اشاعت اور جماعت کے لٹریچر کے ذریعہ سے ہو رہا ہے۔ مساجد کی تعمیر کے ذریعہ سے ہو رہا ہے۔ مشن ہاؤسز کے قیام کے ذریعہ سے ہو رہا ہے۔ جامعات کے قیام کے ذریعہ سے ہو رہا ہے۔ اس وقت ایشیا میں بھی، افریقہ میں بھی، یورپ میں بھی، نارتھ امریکہ میں بھی، انڈونیشیا میں بھی جامعات کا قیام عمل میں آ چکا ہے جہاں سے مربیان اور مبلغین فارغ ہو کر تبلیغ اسلام کر رہے ہیں۔ جب یہ ساری چیزیں احمدیوں کے علم میں آتی ہیں تو ان کو پتا ہے کہ اس کے لئے مالی قربانی کی بھی ضرورت ہے اور پھر وہ مالی قربانی کرتے ہیں۔ اسی طرح جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی یہ فرمایا کہ مخلوق کی ہمدردی بھی جزو ایمان ہے۔ اس ہمدردی کے تحت ہسپتالوں، سکولوں کا قیام اور اس کے علاوہ بھی جماعت میں امداد کا نظام ہے۔ اور یہ سارا کچھ بھی مخلصین کی قربانیوں کے ذریعہ سے ہی ہو رہا ہے جنہیں اللہ تعالیٰ پر یہ یقین ہے کہ وہ ان کی قربانیوں کو اس دنیا میں بھی نوازتا ہے اور اگلے جہان میں بھی نوازے گا۔ انشاء اللہ۔ اگر کہیں کمی ہے تو بعض دفعہ یہ ضرور دیکھا گیا ہے کہ انتظامیہ کی طرف سے لوگوں کو توجہ نہیں دلائی جاتی۔ اگر اس کے لئے توجہ دلائی جاتی رہے تو لوگوں کو توجہ بھی پیدا ہوتی ہے۔ ایک دفعہ توجہ دلانے کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا تھا کہ:
’’یہ بات بھی قرین قیاس ہے کہ اکثر لوگوں کو اب تک کہا بھی نہیں جاتا کہ ہمارے سلسلے کے لئے کسی چندے کی ضرورت ہے‘‘۔ آپ فرماتے ہیں ’’بہت سے لوگ ہیں رو رو کر بیعت کر کے جاتے ہیں۔ اگر ان کو کہا جاوے تو ضرور وہ چندہ دیویں مگر ترغیب دینا ضروری ہے‘‘۔ آپ نے فرمایا کہ’’ہر ایک کمزور بھائی کو بھی چندے میں شامل کرو‘‘ (ملفوظات جلد 6 صفحہ 41 حاشیہ۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان) (اور ایک دوسرے کو تحریک کرو۔) اور یہ بات آج بھی جیسا کہ میں نے کہا بالکل درست ہے۔ جب توجہ دلائی جائے تو پھر لوگوں کی توجہ ہوتی ہے اور اسی وجہ سے اب جب میں نے کہا تھا کہ تحریک جدید اور وقف جدید کی تعداد بڑھائیں تو توجہ دلانے پر تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔ اور احمدی بچوں میں بھی قربانی کا ایک جوش اور جذبہ نظر آتا ہے۔
چنانچہ نکورو۔ کینیا سے مربی صاحب لکھتے ہیں کہ ابوبکر کیبی صاحب جو اس وقت وہاں کے صدر جماعت ہیں اور کینیا ڈیفنس فورسز میں بطور سارجنٹ کام کرتے ہیں۔ یہ بہت مخلص احمدی ہیں۔ باوجود مسجد سے دور کینٹ ایریا میں رہنے کے باقاعدگی سے لمبا سفر طے کر کے جمعہ کی نماز پہ ضرور حاضر ہوتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ ساتھ اپنی تین بیٹیوں کو بھی لے کر آئیں اور لاتے ہیں۔ کینٹ میں اپنے گھر میں خاص طور پر ایم ٹی اے کی ڈش لگوائی ہوئی ہے۔ خود بھی اور اپنے ساتھ کام کرنے والے فوجیوں کو بھی اکثر ایم ٹی اے کے پروگرام دکھاتے رہتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ میں کچھ عرصہ سے ہر خطبہ جمعہ میں تحریک جدید کی اہمیت کو اجاگر کر رہا تھا۔ چند روز قبل جمعہ کی نماز کے بعد انہوں نے مربی صاحب سے بیان کیا کہ میری بچیاں بھی یہ خطبہ سنتی ہیں اور دوران ماہ ایک مہمان ان کے گھر آئے اور واپس جاتے ہوئے میری چھوٹی بیٹی سمیرا، جس کی عمر ابھی صرف پانچ سال ہے، اس کے ہاتھ میں پچیس شلنگ پکڑا دئیے۔ جب مہمان چلا گیا تو یہ بچی اپنے باپ کے پاس آئی اور بیس شلنگ مجھے دیتے ہوئے کہا کہ یہ میری طرف سے چندہ تحریک جدید میں ادا کر دیں اور باقی پانچ شلنگ کی مَیں کچھ کھانے کی چیزیں لے لوں گی۔
پھر لائبیریا سے مبلغ لکھتے ہیں کہ تحریک جدید کی وصولی کے دوران ہم ایک جماعت ما گیما (Magima) میں ایک گھر پہنچے۔ انہیں بتایا کہ تحریک جدید کیا چیز ہے اور اس میں سب بچے بھی اور بڑے بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ جو آپ کی استطاعت ہو اس کے مطابق حصہ لے سکتے ہیں۔ اس گھر میں ایک چھوٹی سی بچی تھی جس کی عمر چھ سات سال ہو گی۔ اس کا نام بنتو سماویرا (Binto Samawera) ہے وہ ٹوکری میں چھوٹی چھوٹی چیزیں بیچ رہی تھی۔ ہماری باتیں سن کر اس نے کہا کہ بچے بھی بیشک تھوڑے پیسے دے کر اس میں شامل ہو سکتے ہیں؟۔ تو ہم نے کہا کہ ہاں بچے شامل ہوتے ہیں۔ یہ سن کر وہ دوڑتی ہوئی اندر گئی اور بیس لائبیرین ڈالر لے کر آئی اور کہا کہ میرے پاس تو یہی ہیں۔ مجھے بھی شامل کر لیں۔ چنانچہ اس کے اس معصومانہ فعل پر اس کے والدین نے بھی چندہ ادا کر دیا۔
پس یہ قربانی کی مثالیں صرف احمدی کا ہی خاصہ ہیں۔ چاہے وہ بچے ہوں یا بڑے ہوں۔ اور دنیا کے کسی بھی خطہ میں رہنے والے ہوں۔ بچوں کی قربانیاں حقیقت میں نیک فطرت کی آواز ہے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ قیامت تک جماعت میں ایسے بچے اور بڑے پیدا ہوتے رہیں جو اللہ تعالیٰ کی خاطر قربانیاں کرنے کا جوش اور جذبہ رکھنے والے ہوں اور اپنے عَہدوں کو پورا کرنے والے ہوں۔ جیسا کہ نومبر میں تحریک جدید کے سال کا اعلان ہوتا ہے۔ آج میں تحریک جدید کے چوراسویں (84) سال کے آغاز کا اعلان کرتے ہوئے گزشتہ سال کے کچھ کوائف بھی پیش کروں گا۔ تحریک جدید کا تراسیواں (83) سال ختم ہوا اور چوراسیواں (84) سال جیسا کہ میں نے کہا ہے یکم نومبر سے شروع ہوا ہے۔ اور جو رپورٹس اب تک آئی ہیں ان کے مطابق اس سال تحریک جدید کے مالی نظام میں جماعت کو ایک کروڑ پچیس لاکھ اسّی ہزار پاؤنڈ مالی قربانی پیش کرنے کی توفیق ملی۔ الحمد للہ۔ یہ وصولی گزشتہ سال کے مقابل پر اللہ تعالیٰ کے فضل سے پندرہ لاکھ تینتالیس ہزار پاؤنڈ زیادہ ہے۔ اور مجموعی وصولی کے لحاظ سے پاکستان کو نکال کر جرمنی پہلے نمبر پر ہے۔ جرمنی میں سو مساجد میں بھی احباب بڑی قربانی کر رہے ہیں۔ خدام، انصار، لجنہ نے اپنے ذمہ بڑی بڑی رقمیں لی ہوئی ہیں۔ تقریباً تین ملین یورو تو اس کے لئے جمع کر رہے ہیں۔ اتنے امیر لوگ بھی وہاں نہیں ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان میں قربانی کا جذبہ بہت ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے اموال میں بھی وسعت پیدا کرے اور ان قربانیوں کو قبول فرمائے۔ نمبر دو برطانیہ ہے۔ نمبر تین امریکہ۔ نمبر چار کینیڈا۔ نمبر پانچ بھارت۔ نمبر چھ آسٹریلیا۔ نمبر سات انڈونیشیا۔ اور آٹھ مڈل ایسٹ کی ایک جماعت ہے اور اسی طرح نو بھی مڈل ایسٹ کی جماعت ہے۔ دسویں نمبر پر غانا ہے۔
فی کس ادائیگی کے لحاظ سے بھی پہلے اور دوسرے نمبر پر تو مڈل ایسٹ کی جماعتیں ہیں۔ پھر سوئٹزر لینڈ ہے۔ پھر یوکے ہے۔ لیکن یُوکے(UK) میں شامل ہونے والوں کی جو تعداد ہے وہ اس تعداد سے بہت کم ہے جو اُن کے جلسے میں شامل ہوتی ہے حالانکہ جلسے میں بھی پوری تعداد شامل نہیں ہوتی۔ اس کا مطلب ہے اس طرف صحیح طرح پوری توجہ نہیں دی جا رہی۔ پھر پانچویں نمبر پر امریکہ ہے۔ چھٹے نمبر پر آسٹریلیا۔ ساتویں نمبر پر جرمنی۔ اور جرمنی کی شامل ہونے والوں کی جو تعداد ہے وہ اس تعداد سے کافی قریب ہے جو اُن کے جلسہ میں شامل ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے وہاں سیکرٹری تحریک جدیدنے اور متعلقہ سیکرٹریان نے بھی شامل کرنے کے لئے اچھی کوشش کی ہے۔ اور آٹھویں نمبر پر سویڈن۔ پھر ناروے ہے۔ اور پھر کینیڈا ہے۔ افریقن ممالک میں مجموعی وصولی کے لحاظ سے نمایاں جماعتیں یہ ہیں۔ غانا ہے۔ نائیجیریا ہے۔ پھر مالی ہے۔ نمبر چار کیمرون ہے۔ پھر لائبیریا ہے۔ اور پھر بینن ہے۔
شامل ہونے والوں کی مجموعی تعداد جس پر میں نے چند سال سے کہا تھا کہ زیادہ زور دیا جائے۔ رقم جمع ہو ہی جاتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ہر ایک سے چندہ وصول کیا جانا چاہئے چاہے ایک پیسہ ہی کوئی دے۔ جس طرح قطرہ قطرہ دریا بنتا ہے اسی طرح ایک ایک پیسہ سے بھی کافی رقم اکٹھی ہو جاتی ہے۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد 6 صفحہ 40 حاشیہ۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
تو بہرحال مَیں نے شاملین کی تعداد بڑھانے کے لئے کہا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جو شامل ہوئے اس سال یہ تعداد سولہ لاکھ سے زیادہ ہے۔ اور اس سال اللہ کے فضل سے دو لاکھ نئے شاملین کا اضافہ ہوا ہے اور اس میں افریقن ممالک میں اضافہ کرنے والوں میں نائیجیریا سب سے اوپر ہے جہاں ستاون ہزار کی تعداد میں نئے لوگ چندے کے نظام میں شامل ہوئے۔ اور اس کے بعد کیمرون ہے یہاں تیئس ہزار شامل ہوئے۔ پھر بینن ہے۔ اور آئیوری کوسٹ۔ نائیجیر۔ گنی کناکری۔ مالی۔ گنی بساؤ۔ گیمبیا۔ سینیگال۔ برکینا فاسو قابل ذکر ہیں۔ اور علاوہ افریقہ کے باہر کی جماعتوں میں انڈونیشیا نمبر ایک ہے۔ پھر جرمنی ہے۔ پھر برطانیہ ہے۔ پھر بھارت۔ پھر امریکہ اور کینیڈا۔ ان کے شاملین میں اضافہ ہوا ہے۔ بہرحال شاملین میں اضافے کی ابھی کافی گنجائش ہے اور اس طرف جماعتوں کو توجہ دینی چاہئے۔
پاکستان میں وہاں کی امارتوں کا تھوڑا سا نظام بدلا ہے۔ اس لئے ضلع کی بجائے جو پہلی شہری جماعتوں کی قربانی کا چارٹ پیش کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ ربوہ نمبر ایک ہے۔ پھر اسلام آباد ہے۔ پھر لاہور ٹاؤن شپ ہے۔ پھر عزیز آباد کراچی ہے۔ پھر دہلی گیٹ لاہور ہے۔ پھر راولپنڈی شہر ہے۔ پھر ملتان۔ پشاور۔ کوئٹہ اور گوجرانوالہ۔
ضلعی سطح پر پاکستان میں جو زیادہ قربانی کرنے والے ضلعے ہیں وہ سرگودھا۔ فیصل آباد۔ عمر کوٹ نمبر تین۔ گجرات نمبر چار۔ نارووال پانچ۔ حیدرآباد چھ۔ میر پور خاص سات۔ بہاولپور اور اوکاڑہ آٹھ۔ یہ دونوں برابر ہیں۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ نو۔ اور کوٹلی آزاد کشمیر دس۔
جرمنی کی پہلی دس جماعتیں نوئس نمبر ایک۔ پھر روئیڈر مارک۔ پھر وائن گارٹن۔ پھر نیڈا۔ پھر پنّے برگ۔ پھر مہدی آباد۔ پھر ہائیڈل برگ۔ پھر لمبرگ پھر کیل اور فلورزہائم۔ اور ان کی جو دس بڑی امارتیں ہیں وہ ہیمبرگ۔ فرینکفرٹ۔ موئر فیلڈن۔ گراس گراؤ۔ ویز بادن۔ ڈٹسن باخ۔ من ہائم اور ریڈشٹڈ۔ ڈارم شٹڈ اور اوفن باخ۔
برطانیہ کی ادائیگی کے لحاظ سے دس بڑی جماعتیں جو ہیں ان میں نمبر ایک مسجد فضل۔ نمبر دو ووسٹر پارک۔ نمبر تین برمنگھم ساؤتھ۔ پھر بریڈ فورڈ نارتھ۔ پھر پٹنی۔ پھر گلاسگو۔ پھر اسلام آباد۔ پھر نیو مالڈن۔ پھر جلنگھم۔ پھر سکنتھورپ۔
اور فی کس ادائیگی کے لحاظ سے جو ریجنز ہیں۔ وہ ساؤتھ ویسٹ نمبر ایک ہے۔ پھر نارتھ ایسٹ نمبر دو۔ اسلام آبادنمبر تین۔ مڈ لینڈز نمبر چار۔ سکاٹ لینڈ نمبر پانچ۔
امریکہ کی جماعتیں سیلیکون ویلی نمبر ایک۔ پھر اوش کوش (Oshkosh) نمبر دو۔ سیئٹل (Seattle) نمبر تین۔ ڈیٹرائٹ چار۔ یارک پانچ۔ لاس اینجلز ایسٹ چھ۔ سلور سپرنگز۔ سنٹرل جرسی۔ شکاگو ساؤتھ ویسٹ۔ اٹلانٹا۔ لاس اینجلیز اِن لینڈ۔
وصولی کے لحاظ سے کینیڈا کی لوکل امارات میں وان نمبر ایک۔ پھر پِیس ویلیج۔ بریمپٹن۔ وینکوور۔ اور مسی ساگا۔
انڈیا کےصوبہ جات میں کیرالہ۔ کرناٹک۔ نمبر تین جموں۔ کشمیر نمبر چار۔ تلنگانہ۔ پانچ تامل ناڈو۔ چھ اڑیسہ۔ سات پنجاب۔ آٹھ بنگال۔ نو دہلی اور دس مہاراشٹر ہیں۔ دس بڑی جماعتیں جو ہیں۔ ان میں پہلے نمبر پر کالی کٹ (کیرالہ)۔ پتھہ پیریم (کیرالہ)۔ پھر نمبر تین قادیان۔ نمبر چار حیدرآباد۔ نمبر پانچ کلکتہ۔ نمبر چھ بنگلور۔ پھر کینانور ٹاؤن۔ پھر پینگاڈی۔ پھر ماتھو ٹم۔ پھر کیرولائی۔
آسٹریلیا کی دس جماعتوں میں سے نمبر ایک کاسل ہِل، میلبرن، بَیروِک، Actکینزا، مارزڈن پارک، برزبین۔ لوگن۔ ایڈیلیڈ ساؤتھ۔ پلمپٹن۔ میلبرن لانگ وارِن۔ پِیزِتھ، میلبرن ایسٹ۔
اللہ تعالیٰ ان سب کے اموال و نفوس میں بے انتہا برکت ڈالے۔
اس کے بعد مَیں مختصراً ایک اَور تحریک بھی کرنا چاہتا ہوں جو یُوکے (UK) کے لئے عمومی ہے اور دنیا کے جو مخیّر حضرات ہیں، جو صاحب حیثیت ہیں ان کے لئے ہے۔ اور وہ مسجد بیت الفتوح کے اس جلے ہوئے حصہ کی تعمیر نو کے لئے ہے۔ تقریباً دو سال کا عرصہ تو گزر گیا ہے جب مسجد کے ایک حصّہ کو آگ لگی تھی۔ آجکل کچھ سالوں سے 1984ء سے خلافت کے یہاں قیام کی وجہ سے دنیا سے افراد بھی یہاں آتے ہیں۔ ان کی رہائش اور پھر مختلف فنکشنز ہوتے ہیں۔ اب تو ویسے بھی دنیا کے ملکوں کے ذیلی تنظیموں کے بھی اور جماعتوں کے بھی بڑے بڑے وفود سارا سال آتے رہتے ہیں۔ ان کی رہائش وغیرہ کا بھی مسئلہ رہتا ہے۔ مسجد کے ساتھ ملحق ہال اور کمرے ہوتے تھے پہلے وہاں انتظام ہو جاتا تھا۔ جلنے کے بعد اب اس میں کافی تنگی پیدا ہو رہی ہے اور اس کی تعمیرِ نَو کا منصوبہ تو بنا لیا گیا ہے۔ کافی بڑا منصوبہ ہے۔ جگہ تو تھوڑی سی زیادہ ہے لیکن بہرحال منصوبہ بڑا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے جب اس مسجد کے منصوبے کی تحریک کی تھی تو شروع میں پانچ ملین کی آپ کی تحریک تھی۔ بعد میں مسجد کے مین (Main) حصے کو چھوڑنے کی وجہ سے دوسری جگہوں پہ خرچ زیادہ ہو گیا تھا تو پھر پانچ ملین کی اور تحریک آپ کو کرنی پڑی۔ اس کے بعد بھی مختلف کام آہستہ آہستہ ہوتے رہے جو جماعت اپنے بجٹ میں سے خرچ کرتی رہی اور کافی حد تک مکمل ہو گیا تھا۔ لیکن بہرحال جو بھی ہوا یہ حادثہ ہوا۔ اللہ تعالیٰ کی یہی تقدیر تھی۔ وہ آگ لگ گئی اور یہ کافی بڑا حصہ جل گیا تو اس کا جو نیا منصوبہ بنایا گیا ہے اس میں بھی تقریباً اتنی ہی رقم خرچ ہو گی۔ گیارہ ملین کے قریب جس میں سے نصف کے قریب تو موجود ہے جو انشورنس وغیرہ سے ملی ہے یا دوسرے لوگوں نے بعض چندے دئیے ہیں۔ نصف سے زائد کی تقریباً ضرورت پڑے گی اور اس کے لئے بہرحال احباب نے ہی قربانی کرنی ہے جس طرح ہمیشہ کرتے رہے ہیں۔ مسجد بیت الفتوح کو اس وقت جب وہ سارا حصہ مکمل تھا طرز تعمیر کے لحاظ سے اور خوبصورتی کے لحاظ سے اور بڑی عمارت کے لحاظ سے یورپ کی جو پچاس بڑی عمارتیں ہیں ان کی لسٹ میں شمار کیا گیا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے جب یہ منصوبہ دیا تھا تو یہ بھی اعلان فرمایا تھا اور اس کا اظہار بھی فرمایا تھا کہ مجھے امید ہے یورپ کی یہ سب سے بڑی مسجد ہو گی بلکہ اور کوئی مسجد اس سے بڑی نہیں ہو گی۔ انہوں نے فرمایا تھا کہ سات آٹھ ہزار لوگ جس میں آ سکیں تو ہماری ضروریات پوری ہو جائیں گی۔ لیکن مسجد کی جو گنجائش تھی اس میں ہالوں سمیت دس ہزار کے قریب لوگ سما سکتے تھے۔ (ماخوذ از الفضل انٹرنیشنل مورخہ 7 تا 13 اپریل 1995ء صفحہ 5-6، مورخہ 23 تا 29 مارچ 2001ء صفحہ 6)
لیکن وہ گنجائش بھی دو تین سال کے بعد ہی کم ہو گئی۔ پھر یہاں انتظامیہ کو اعلان کرنا پڑتا تھا کہ دوسری جماعتوں کے لوگ یہاں عید کی نماز پڑھنے نہ آئیں۔ اپنے علاقوں میں پڑھیں۔ لیکن اس کے باوجود جیسا کہ احباب کو پتا ہے کہ ہمیں پارک میں علیحدہ مارکی لگانی پڑتی تھی اور عید کا انتظام کرنا پڑتا تھا۔ بہرحال ضرورت تو ہے اور جس حد تک ہم اس کو بہتر اور بڑا کر کے بنا سکتے ہیں ہمیں بنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ وہ لوگ جن کو پہلے اس کی تعمیر میں حصہ لینے کا موقع نہیں ملا انہیں تو ضرور کوشش کر کے حصہ لینا چاہئے کیونکہ یہ یوکے (UK) جماعت کا منصوبہ ہے اس لئے عمومی طور پر تو جیسا کہ مَیں نے کہا یُوکے (UK) کے احمدیوں کا ہی کام ہے، جماعت کا ہی کام ہے۔ انہیں اس میں حصہ لینا چاہئے۔ اور باہر کی دنیا کے بھی مخیّر احباب جو ہیں اس میں حصہ لیں۔ ذیلی تنظیموں کو بھی ذیلی تنظیموں کی حیثیت سے، جماعتوں کو جماعتوں کی حیثیت سے، بڑی بڑی جماعتیں جو ہیں انہیں حصہ لینا چاہئے کیونکہ سارا سال ہی اب تو یہاں باہر سے مہمان آتے ہیں اور یُوکے (UK) جماعت ہر مہینے ان کی مہمان نوازی بھی کرتی ہے بلکہ یہ تعداد اب تو ہزاروں میں ہو گئی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک موقع پر فرمایا کہ:
’’عالمگیر کے زمانے میں مسجد شاہی کو آگ لگ گئی تو لوگ دوڑے دوڑے بادشاہ سلامت کے پاس پہنچے اور عرض کی کہ مسجد کو تو آگ لگ گئی۔ اس خبر کو سن کر بادشاہ فوراً سجدہ میں گرا اور شکر کیا۔ حاشیہ نشینوں نے تعجب سے پوچھا کہ حضور سلامت یہ کون سا وقت شکرگزاری کا ہے کہ خانۂ خدا کو آگ لگ گئی ہے اور مسلمانوں کے دلوں کو سخت صدمہ پہنچا ہے۔ تو بادشاہ نے کہا کہ مَیں مُدت سے سوچتا تھا اور آہِ سرد بھرتا تھا کہ اتنی بڑی عظیم الشان مسجد جو بنی ہے اور اس عمارت کے ذریعہ سے ہزارہا مخلوقات کو فائدہ پہنچتا ہے کاش کوئی ایسی تجویز ہوتی کہ اس کارِ خیر میں کوئی میرا بھی حصہ ہوتا۔ لیکن چاروں طرف سے مَیں اس کو ایسا مکمل اور بے نقص دیکھتا تھا کہ مجھے کچھ سوجھ نہ سکتا تھا کہ اس میں میرا ثواب کسی طرح ہو جائے۔ سو آج خدا تعالیٰ نے میرے واسطے حصول ثواب کی ایک راہ نکال دی۔ وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْم۔‘‘ (ملفوظات جلد 1 صفحہ 387۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس جیسا کہ میں نے کہا جو پہلے اس قربانی میں حصہ نہیں لے سکے انہیں ضرور حصہ لینا چاہئے۔ اپنی رقم کے جو بھی وعدے کریں تین سال کے عرصہ میں ان کو پورا کرنے کی کوشش کریں۔ لیکن کم از کم تیسرا حصہ پہلے سال میں ہی ضرور ادا کر دیں۔ اس منصوبے کے جو کوائف ہیں وہ یہ ہیں۔ پہلے یہ covered ایریا چار ہزار سات سو سکوائر میٹر تھا۔ اور اب اس کا جو نیا پلان بنا ہے اس کے مطابق پانچ ہزار آٹھ سو سکوائر میٹر ہے اور ناصر ہال کی چھت بھی تھوڑی سی بلند کی گئی ہے۔ اور اس کے علاوہ پہلا جو فلور ہو گا نور ہال ہو گا اس کی چھت بھی بلند کی گئی ہے۔ پھر دوسرے فلور پر دفاتر ہوں گے پھر تیسرے فلور اور چوتھے فلور پردفاتر اور exhibition hall اور مہمانوں کے لئے رہائش، گیسٹ روم وغیرہ بنیں گے۔ پھر یہ گیٹ سے ذرا ہٹا کر بنائی گئی ہے تاکہ کچھ پارکنگ کی جگہ مل جائے۔ گاڑیوں کی آمد و رفت میں آسانی رہے۔ پیدل چلنے والوں کی آسانی رہے۔ عورتوں اور مردوں کا راستہ علیحدہ علیحدہ ہو جائے۔ تو یہ منصوبہ ہے اللہ تعالیٰ فضل فرمائے اور یُوکے (UK) جماعت کو اس منصوبے کو مکمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
نمازوں کے بعد مَیں ایک جنازہ غائب پڑھاؤں گا جو مکرم عادل حمودناخوذہ صاحب یمن کا ہے۔ 14؍اکتوبر کو حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے چالیس سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ آپ کے بیٹے طارق صاحب بیان کرتے ہیں کہ بیعت سے قبل میرے والد صاحب نمازوں کے پابندنہ تھے لیکن بیعت کے بعدنہ صرف پابندی سے نمازیں ادا کرنے لگے بلکہ ہمیں دین کی اہمیت اور جماعت کے ساتھ تعلق مضبوط کرنے کی بھی ہمیشہ نصیحت کرتے رہتے۔ ہمیں ساتھ لے کر گھر پر نماز باجماعت باقاعدگی سے ادا کرتے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب ہمیں پڑھ کر سناتے۔ ایم ٹی اے کی فریکوئینسی والے کارڈ ہمیشہ اپنے پاس رکھتے۔ جہاں بھی جاتے یہ کارڈ تقسیم کرتے اور تبلیغ کرتے۔ احمدیت میں شامل ہو کر ان کی زندگی بالکل بدل گئی اور ہمیشہ ان پر سعادت اور خوشی کے آثار نظر آتے۔
ایک احمدی دوست علی الغربانی بیان کرتے ہیں کہ بیعت سے قبل مرحوم مجھے اور بعض اور دوستوں کو اپنے گھر بلا کر احمدیت کے متعلق پوچھا کرتے تھے۔ چنانچہ ہم نے ان کو مختلف اختلافی مسائل، خروج دجّال، حیات و وفات مسیح اور ظہور مہدی علیہ السلام وغیرہ سمجھائے۔ مرحوم کو ہماری باتیں اور عقائد بہت پسند آئے۔ جماعت کے خلاف جو بات سنتے خود اس کی تحقیق کرتے۔ ان کے بیعت کرنے سے قبل ایک بار ہم پر جھوٹے الزام لگا کر جیل میں ڈال دیا گیا لیکن مرحوم نے باوجود اس وقت غیر احمدی ہونے کے بڑی بہادری سے ہمارا ساتھ دیا اور دفاع کیا۔
آپ کے دوسرے رشتہ داروں نے بھی یہی لکھا ہے کہ بیعت کے بعد آپ کی زندگی بالکل بدل گئی تھی۔ دینی امور کے سلسلہ میں بات کرتے تو ہمیشہ قرآنی آیات پیش کرتے، احادیث پیش کرتے، حوالے دے کر بات کرتے۔ ہم حیران ہوتے تھے کہ آپ نے اس قدر دینی علوم اس قدر جلدی کیسے اور کہاں سے سیکھ لئے۔ ہم پوچھتے تو مرحوم بتاتے یہ تمام علوم انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سیکھے ہیں کیونکہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نور حاصل کرتے تھے۔
مرحوم نے پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ ایک بیٹا اور ایک بیٹی یاد گار چھوڑے ہیں اور ان کی فیملی کے اکثر افراد اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے۔ مغفرت اور رحم کا سلوک فرماتے ہوئے اپنے پیاروں کے قدموں میں جگہ دے اور ان کے بیوی بچوں کا بھی حافظ و ناصر ہو۔ ان کی ضروریات پوری کرنے والا ہو۔ ان کو نیک صالح بنائے اور اپنے باپ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر قسم کی قربانیوں کا سب سے زیادہ اِدراک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق کو ماننے والوں کو ہی ہے اور اس کا سب سے زیادہ عملی اظہار بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی ہی کرتے ہیں۔ آج دنیا تو مال و دولت سمیٹنے کی دوڑ میں لگی ہوئی ہے۔ احمدیوں کی بہت بڑی تعداد ایسی ہے جو پیسہ کماتے ہیں، دولت کماتے ہیں اور جب انہیں مالی قربانی کی طرف توجہ دلائی جائے تو وہ اپنا مال پیش کرتے ہیں۔ اور یہ سب کچھ اس مسلسل تربیت کا نتیجہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہماری فرمائی ہے۔ (حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی مالی قربانی کے بارہ میں بعض نصائح کا تذکرہ)
جب انسان اپنی پیاری ترین چیز اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ میں اس کو بڑھا کر دیتا ہوں اور سات سو گنا تک بھی دے سکتا ہوں اور اس سے زیادہ بھی دے سکتا ہوں۔ تو جب احمدی یہ قربانی کرتے ہیں تو ان کو یہ بھی یقین ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بڑھا کر دے گا اور ہمارے سے بھی یہ سلوک کرے گا۔
دنیا کے مختلف ممالک میں پرانے احمدیوں اور نو احمدیوں کی مالی قربانی اور اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے ان سے سلوک اور ان کے اموال میں برکت کے نہایت ایمان افروز واقعات کا بیان۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کی ابتدا سے لے کر آج تک مخلصین پرانے احمدی بھی، نئے آنے والے بھی اللہ تعالیٰ کے سلوک اور وعدے کا تجربہ رکھتے ہیں۔ احمدیوں کی اکثریت اس بات کا اِدراک رکھتی ہے کہ یہ زمانہ جو تکمیلِ اشاعتِ اسلام کا زمانہ ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیجا ہے جو کہ مختلف زبانوں میں قرآن کریم کی اشاعت اور ترجمہ کے ذریعہ سے ہو رہا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کی اشاعت اور جماعت کے لٹریچر کے ذریعہ سے ہو رہا ہے۔ مساجد کی تعمیر کے ذریعہ سے ہو رہا ہے۔ مشن ہاؤسز کے قیام کے ذریعہ سے ہو رہا ہے۔ جامعات کے قیام کے ذریعہ سے ہو رہا ہے۔ اس وقت ایشیا میں بھی، افریقہ میں بھی، یورپ میں بھی، نارتھ امریکہ میں بھی، انڈونیشیا میں بھی جامعات کا قیام عمل میں آ چکا ہے جہاں سے مربیان اور مبلغین فارغ ہو کر تبلیغ اسلام کر رہے ہیں۔ جب یہ ساری چیزیں احمدیوں کے علم میں آتی ہیں تو ان کو پتا ہے کہ اس کے لئے مالی قربانی کی بھی ضرورت ہے اور پھر وہ مالی قربانی کرتے ہیں۔ اسی طرح جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی یہ فرمایا کہ مخلوق کی ہمدردی بھی جزو ایمان ہے۔ اس ہمدردی کے تحت ہسپتالوں، سکولوں کا قیام اور اس کے علاوہ بھی جماعت میں امداد کا نظام ہے۔ اور یہ سارا کچھ بھی مخلصین کی قربانیوں کے ذریعہ سے ہی ہو رہا ہے۔
تحریک جدید کے چوراسیویں (84) سال کے آغاز کا اعلان۔ گزشتہ سال میں تحریک جدید کے مالی نظام میں جماعت کو ایک کروڑ پچیس لاکھ اسّی ہزار پاؤنڈز کی مالی قربانی پیش کرنے کی توفیق ملی۔ پاکستان کے علاوہ باقی دنیا میں جماعت جرمنی نمبر ایک پر۔ برطانیہ دوسرے نمبر پر اور امریکہ تیسرے نمبر پر رہی۔
تحریک جدید میں شامل ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ کی بہت گنجائش ابھی باقی ہے۔
افراد جماعت اور انتظامیہ کو اس طرف خصوصی توجہ دینے کی تاکید۔
مختلف پہلوؤں سے ممالک اور جماعتوں کی مالی قربانی کا جائزہ۔
کچھ عرصہ قبل مسجد بیت الفتوح کمپلیکس میں آگ لگنے سے عمارت کو جو نقصان ہوا اس کی تعمیر نَو کے لئے یُوکے کی جماعت کے افراد اور دنیا بھر کے مخیّر حضرات کو مالی قربانی کی تحریک۔
تین سال کے عرصہ میں اپنی رقم کے جو بھی وعدے کریں ان کو پورا کرنے کی کوشش کریں۔ لیکن کم از کم تیسرا حصّہ پہلے سال میں ہی ضرور ادا کر لیں۔
مکرم عادل حمودناخوذہ صاحب آف یمن کی وفات۔ مرحوم کا ذکرخیر اور نماز جنازہ غائب۔
فرمودہ مورخہ 03؍نومبر 2017ء بمطابق 03؍نبوت 1396 ہجری شمسی، بمقام مسجدبیت الفتوح، مورڈن، لندن، یوکے
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔