ضرورة الامام
خطبہ جمعہ 17؍ نومبر 2017ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے ایک شعر میں فرماتے ہیں کہ
وقت تھا وقتِ مسیحا نہ کسی اور کا وقت
مَیں نہ آتا تو کوئی اَور ہی آیا ہوتا
(درثمین اردو صفحہ 160)
وہ زمانہ جس میں سے اُس وقت مسلمان گزر رہے تھے درد رکھنے والے مسلمانوں کے لئے انتہائی بے چین کرنے والا زمانہ تھا۔ لاکھوں مسلمان عیسائی ہو گئے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق ایسی حالت ہو گئی تھی کہ ایمان ثریّا پر جا چکا تھا۔ عملاً مسلمانوں میں نہ دین باقی رہا تھا۔ نہ اسلام کی حقیقت باقی رہی تھی۔ اسلام کا درد رکھنے والے اس انتظار میں تھے کہ کوئی مسیحا آئے اور اسلام کی اس ڈولتی کشتی کو سنبھالے۔ ان میں سے ایک بزرگ حضرت صوفی احمد جان صاحب لدھیانوی بھی تھے۔ ان کی شہرت بڑی دُور دُور تھی۔ بہت سے ان کے مرید تھے۔ ان کی بزرگی کی وجہ سے ایک دفعہ مہاراجہ جمّوں نے ان کو دعوت دے کر کہا کہ آپ جمّوں آ کر میرے لئے دعا کریں لیکن آپ نے انکار کر دیا اور کہا کہ اگر دعا کروانی ہے تو میرے پاس آ کر کرواؤ۔ بہرحال بڑے بڑے لوگ ان کے مرید تھے۔ حضرت صوفی احمد جان صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے شروع سے ہی بڑا عقیدت کا تعلق تھا۔ اُس وقت ابھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دعویٰ نہیں کیا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوے سے پہلے ان کی وفات ہو گئی۔ انہوں نے ہی اُس وقت اس حالت اور اس زمانے کو دیکھتے ہوئے یہ بھی ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو عرض کیا تھا کہ
ہم مریضوں کی ہے تمہی پہ نگاہ
تم مسیحا بنو خدا کے لئے
بہرحال جیسا کہ میں نے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوے سے پہلے ان کی وفات ہو گئی تھی لیکن ان کو یہ یقین تھا کہ آپ ہی زمانے کے امام اور مسیح موعود ہیں۔ اس لئے انہوں نے اپنی اولاد کو، اپنے مریدوں کو یہ نصیحت کی تھی کہ جب بھی دعویٰ ہو گا تم مان لینا۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 11 صفحہ 342-343 خطبہ جمعہ فرمودہ 23 مارچ 1928ء)
بہرحال صاحبِ بصیرت لوگ بزرگ جانتے تھے کہ اسلام کی اس ڈولتی کشتی کو اگر اس زمانے میں کوئی سنبھال سکتا ہے تو وہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام ہیں کیونکہ آپ نے براہین احمدیہ لکھ کر اسلام کے مخالفین کے منہ بند کئے تھے۔ آپ کا ایسا لٹریچر موجود تھا جس کا مخالفینِ اسلام جواب نہیں دے سکتے تھے۔ جب تک آپ نے دعویٰ نہیں کیا بڑے بڑے علماء آپ کی اس بات کے معتقد تھے۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ کے اِذن سے آپ نے دعویٰ کیا تو یہی علماء اپنے ذاتی مفادات کی وجہ سے آپ کی مخالفت بھی کرنے لگ گئے اور آج تک یہی مفاد پرست علماء ہیں جو آپ کی مخالفت کر رہے ہیں اور عامّۃ المسلمین کے دلوں میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آپ کی جماعت کے خلاف نفرتیں پیدا کر رہے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی بیشمار تحریروں اور تقریروں اور مجالس میں اپنے دعوے کے سچے ہونے کی دلیلیں دیں۔ زمانے کی ضرورت کے مطابق مسیح موعود کے آنے اور اللہ تعالیٰ کی تائیدات کے آپ کے حق میں ہونے کے بارے میں بتایا۔ لیکن جو صاف دل تھے ان کو تو سمجھ آ گئی اور جن کے دلوں میں بُغض تھا، کینہ تھا، مفاد پرستی تھی، ان کو سمجھ نہیں آئی۔
اس وقت مَیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الفاظ میں ہی بعض دلیلیں بیان کروں گا جو آپ نے بیان فرمائی ہیں۔ اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ اسلام میں بدعات داخل ہو چکی ہیں۔ دین اپنی اصلی حالت میں نہیں رہا۔ علماء اور مشائخ نے اپنی اپنی توجیہات کر لی ہیں اور بے شمار بدعات مسلمانوں میں داخل ہو چکی ہیں۔ عملاً مسلمان دین سے دُور جا چکے ہیں اور غیر مذاہب خصوصاً عیسائی پادری بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ اسلام پر حملے کر رہے ہیں۔ اور یہ بھی آپ نے فرمایا کہ ان حالات کی پیشگوئی بھی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے کی تھی اور اسلام کی نشا ٔۃ ثانیہ کے لئے ایک شخص کے بھیجنے کی بھی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ نے پیشگوئی کی تھی۔ اس بات کو بیان فرماتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ:
’’اب کوئی ہمارے دعویٰ کو چھوڑے اور الگ رہنے دے مگر ان باتوں کو سوچ کر جواب دے۔ میری تکذیب کرو گے تو اسلام کو ہاتھ سے تمہیں دینا پڑے گا۔‘‘(مجھے جھوٹا کہو گے تو پھر تم اسلام سے بھی دور ہٹتے ہو) فرمایا کہ’’مگر مَیں سچ کہتا ہوں کہ قرآن شریف کے وعدہ کے موافق اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی حفاظت فرمائی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی پوری ہوئی کیونکہ عین ضرورت کے وقت خدا تعالیٰ کے وعدہ کے موافق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت کے موافق خدا تعالیٰ نے یہ سلسلہ قائم کیا اور یہ ثابت ہو گیا کہ صَدَقَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی باتیں سچی ہیں۔ ظالم طبع ہے وہ انسان جو اِن کی تکذیب کرتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 4 صفحہ 6-7۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
آپ نے 1903ء میں یہ بیان فرمایا اور فرمایا کہ میرے دعوے کو 22برس گزر چکے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی تائیدات میرے ساتھ ہیں۔ اگر میں جھوٹا ہوں تو پھر اللہ تعالیٰ کی تائیدات میرے ساتھ کیوں ہیں۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد 4 صفحہ 7۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
دوسرے آپ نے فرمایا کہ زمانے کی ضرورت ہے اور سب اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اس زمانے میں مسیح نے آنا تھا اور جب ضرورت ہے تو اگر میں نہیں تو کوئی دوسرا پیش کرو۔ بہرحال کوئی مصلح مسلمانوں کی اصلاح کے لئے آنا چاہئے کیونکہ زمانے میں فساد انتہا کو پہنچا ہوا ہے اور مسلمانوں میں بھی فساد انتہا کو پہنچا ہوا ہے۔ پس اگر مجھے جھوٹا کہنا ہے تو اس کی دو ہی صورتیں بنیں گی یا تو کوئی دوسرا مصلح پیش کرو کیونکہ زمانہ چاہتا ہے کہ کوئی مصلح آئے۔ یا اللہ تعالیٰ کے وعدوں کی تکذیب کرو۔ کہو کہ سارے وعدے جھوٹے تھے۔ ایسے بگڑے ہوئے حالات میں کسی مصلح کے بھیجنے کا جو وعدہ تھا وہ غلط تھا۔ آپ نے فرمایا کہ حفاظت دین کی ضرورت بہرحال ہے۔
فرمایا کہ ’’بعض لوگ ایسے دیکھے جاتے ہیں جو کہتے ہیں کہ حفاظت کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ وہ سخت غلطی کرتے ہیں۔ (آپ مثال دے رہے ہیں کہ) ’’دیکھوجو شخص باغ لگاتا ہے یا عمارت بناتا ہے تو کیا اُس کا فرض نہیں ہوتا یا وہ نہیں چاہتا کہ اس کی حفاظت اور دشمنوں کی دست برد سے بچانے کے لئے ہر طرح کوشش کرے؟ باغات کے گرد کیسے کیسے احاطے حفاظت کے لئے بنائے جاتے ہیں اور مکانات کو آتشزدگیوں سے بچانے کے لئے نئے نئے مصالحے تیار ہوتے ہیں اور بجلی سے بچانے کے لئے تاریں لگائی جاتی ہیں۔ یہ امور اُس فطرت کو ظاہر کرتے ہیں جو بالطبع حفاظت کے لئے انسانوں میں ہے۔ پھر کیا اللہ تعالیٰ کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے دین کی حفاظت کرے؟ بیشک حفاظت کرتا ہے اور اس نے ہر بلا کے وقت اپنے دین کو بچایا ہے۔ اب بھی جبکہ ضرورت پڑی‘‘ (آپ فرماتے ہیں ) ’’اُس نے مجھے اِسی لئے بھیجا ہے۔ ہاں یہ امر حفاظت کا مشکوک ہو سکتا یا اس کا انکار ہو سکتا تھا اگر حالات اور ضرورتیں اس کی مؤیّدنہ ہوتیں۔‘‘ (اگر حالات اور ہوتے۔ ضرورت اس کی تائیدنہ کر رہی ہوتی تو تم کہہ سکتے تھے کہ مَیں غلط وقت پہ آیا ہوں۔) فرماتے ہیں ’’مگر کئی کروڑ کتابیں اسلام کے ردّ میں شائع ہو چکی ہیں اور ان اشتہاروں اور دو ورقہ رسالوں کا تو شمار ہی نہیں جو ہر روز اور ہفتہ وار اور ماہوار پادریوں کی طرف سے شائع ہوتے ہیں۔ ان گالیوں کو اگر جمع کیا جاوے جو ہمارے ملک کے مرتد عیسائیوں نے سید المعصومین صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کی پاک ازواج کی نسبت شائع کی ہیں تو کئی کوٹھے ان کتابوں سے بھر سکتے ہیں اور اگر ان کو ایک دوسرے سے ملا کر رکھا جائے تو وہ کئی میل تک پہنچ جائیں ……۔‘‘ (عمادالدین ایک مسلمان شخص تھا جو بعد میں عیسائی ہو کے پادری بن گیا فرمایا کہ) ’’عمادالدین کی تحریروں کے خطرناک ہونے کا بعض انصاف پسند عیسائیوں کو بھی اعتراف ہے۔‘‘ (عیسائی بھی یہ کہتے ہیں کہ اس کی بڑی خطرناک تحریریں ہیں۔) ’’چنانچہ (اس زمانے میں ) لکھنؤ سے جو ایک اخبار شمس الاخبار نکلا کرتا تھا۔ اس میں اس کی بعض کتابوں پر یہ رائے لکھی گئی تھی کہ اگر ہندوستان میں پھر کبھی غدر ہوگا تو ایسی تحریروں سے ہوگا‘‘ (جو یہ پادری لکھتا ہے۔) فرمایا کہ ’’ایسی حالتوں میں بھی کہتے ہیں کہ اسلام کا کیا بگڑا ہے؟ اس قسم کی باتیں وہ لوگ کر سکتے ہیں جن کو یا تو اسلام سے کوئی تعلق اور دردنہیں اور یا وہ لوگ جنہوں نے حجروں کی تاریکی میں پرورش پائی ہے اور ان کو باہر کی دنیا کی کچھ خبر نہیں ہے۔ پس ایسے لوگ اگر ہیں تو ان کی کچھ پرواہ نہیں۔ ہاں وہ لوگ جو نورِ قلب رکھتے ہیں جن کو اسلام کے ساتھ محبت اور تعلق ہے اور زمانہ کے حالات سے آشنا ہیں ان کو تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ یہ وقت کسی عظیم الشان مصلح کا وقت ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 4 صفحہ 7-8۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
اور پھر مصلح کے آنے کے لئے شہادتوں کا ذکر فرماتے ہوئے ایک زبردست شہادت آپ نے یہ بیان فرمائی۔ مختلف باتیں بیان کر رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا:
’’…….اور زبردست شہادت میں اَور پیش کرتا ہوں اور وہ سورۃ نور میں وعدہ استخلاف ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ وعدہ فرماتا ہے وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ (النور: 56)‘‘ فرمایا کہ ’’اس آیت میں وعدۂ استخلاف کے موافق جو خلیفے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلہ میں ہوں گے وہ پہلے خلیفوں کی طرح ہوں گے۔ اسی طرح قرآن شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مثیلِ موسیٰ فرمایا گیا ہے۔ جیسے فرمایا۔ اِنَّآ اَرْسَلْنَآ اِلَیْکُمْ رَسُوْلًا شَاھِدًا عَلَیْکُمْ کَمَآ اَرْسَلْنَآ اِلٰی فِرْعَوْنَ رَسُوْلًا۔ (المزمل: 16) اور‘‘ (فرماتے ہیں کہ) ’’آپ مثیل موسیٰ استثناء کی پیشگوئی کے موافق بھی ہیں۔‘‘ (بائبل میں بھی استثناء میں لکھا ہوا ہے۔) ’’پس اس مماثلت میں جیسےکَمَا کالفظ فرمایا گیا ہے ویسے ہی سورۃ نور میں کَمَا کا لفظ ہے۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ موسوی سلسلہ اور محمدی سلسلہ میں مشابہت اور مماثلت تامّہ ہے۔ موسوی سلسلہ کے خلفاء کا سلسلہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر آ کر ختم ہو گیا تھا اور وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد چودھویں صدی میں آئے تھے۔ اس مماثلت کے لحاظ سے کم از کم اتنا تو ضروری ہے کہ چودھویں صدی میں ایک خلیفہ اسی رنگ و قوت کا پیدا ہو جو مسیح سے مماثلت رکھتا ہو اور اس کے قلب اور قدم پر ہو۔ پس اگر اللہ تعالیٰ اس امر کی اَور دوسری شہادتیں اور تائیدیں نہ بھی پیش کرتا تو یہ سلسلہ مماثلت بالطبع چاہتا تھا کہ چودھویں صدی میں عیسوی بروز آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اُمّت میں ہو ورنہ آپ کی مماثلت میں معاذ اللہ ایک نقص اور ضعف ثابت ہوتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے نہ صرف اس مماثلت کی تصدیق اور تائید فرمائی بلکہ یہ بھی ثابت کر دکھایا کہ مثیلِ موسیٰ، موسیٰ سے اور تمام انبیاء علیہم السلام سے افضل تر ہے۔‘‘ (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت موسیٰ اور تمام انبیاء سے افضل تر ہیں۔) فرماتے ہیں کہ ’’حضرت مسیح علیہ السلام جیسے اپنی کوئی شریعت لے کر نہ آئے تھے بلکہ توریت کو پورا کرنے آئے تھے اسی طرح پر محمدی سلسلہ کا مسیح اپنی کوئی شریعت لے کر نہیں آیا بلکہ قرآن شریف کے اِحیاء کے لئے آیا ہے اور اس تکمیل کے لئے آیا ہے جو تکمیلِ اشاعتِ ہدایت کہلاتی ہے۔‘‘
پھر تکمیلِ اشاعتِ ہدایت کی وضاحت فرماتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ’’تکمیلِ اشاعتِ ہدایت کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جو اِتمامِ نعمت اور اِکمال الدین ہوا‘‘ (یعنی دین کمال تک پہنچا) ’’تو اس کی دو صورتیں ہیں۔ اوّل تکمیل ہدایت۔ دوسری تکمیلِ اشاعتِ ہدایت۔‘‘ (یعنی کامل ہدایت ملی۔ ہدایت اپنی تکمیل کو پہنچی اور دوسری اس کی جو اشاعت ہے وہ بھی اپنی تکمیل کو پہنچی۔) فرمایا کہ ’’تکمیلِ ہدایت مِن کُلِّ الوُجوہ آپؐ کی آمد اوّل سے ہوئی اور تکمیلِ اشاعتِ ہدایت آپؐ کی آمد ثانی سے ہوئی۔‘‘ (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں شریعت اتری اور تکمیلِ ہدایت ہو گئی اور جو آپ کی آمد ثانی ہونی تھی وہ مسیح موعود جو آپ کا غلامِ صادق آنا تھا اس کے زمانے میں اس کی اشاعت ہونی تھی۔) فرمایا ’’کیونکہ سورۃ جمعہ میں جو اٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ والی آیت آپ کے فیض اور تعلیم سے ایک اور قوم کے تیار کرنے کی ہدایت کرتی ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی ایک بعثت اور ہے اور یہ بعثت بروزی رنگ میں ہے جو اِس وقت ہو رہی ہے۔ پس یہ وقت تکمیلِ اشاعتِ ہدایت کا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اشاعت کے تمام ذریعے اور سلسلے مکمل ہو رہے ہیں۔ چھاپہ خانوں کی کثرت اور آئے دن ان میں نئی باتوں کا پیدا ہونا۔ ڈاکخانوں، تار برقیوں، ریلوں، جہازوں کا اجراء اور اخبارات کی اشاعت، ان سب امور نے مل ملا کر دنیا کو ایک شہر کے حکم میں کر دیا ہے۔‘‘ (دنیا اکٹھی ہوگئی ہے اور آج اس زمانے میں تو سوشل میڈیا، انٹرنیٹ، ٹیلی ویژن اور مختلف چیزیں وغیرہ سے مزید اکٹھی ہو گئی ہے۔) فرمایا کہ ’’پس یہ ترقیاں بھی دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی ترقیاں ہیں کیونکہ اس سے آپؐ کی کامل ہدایت کے کمال کا دوسرا جزو تکمیلِ اشاعتِ ہدایت پورا ہو رہا ہے۔‘‘
پھر مسیح موسوی اور مسیح محمدی میں ایک اور مماثلت کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں :
’’اور یہ اُسی کے موافق ہے جیسے مسیح نے کہا تھا کہ مَیں توریت کو پورا کرنے آیا ہوں اور مَیں کہتا ہوں کہ میرا ایک کام یہ بھی ہے تکمیلِ اشاعتِ ہدایت کروں ……‘‘۔ فرمایا کہ ’’علاوہ بریں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں جو آفتیں پیدا ہو گئی تھیں اُسی قسم کی یہاں بھی موجود ہیں۔ اندرونی طور پر یہودیوں کی حالت بہت بگڑ گئی تھی اور تاریخ سے اس امر کی شہادت ملتی ہے کہ توریت کے احکام انہوں نے چھوڑ دئیے تھے اور اس کی بجائے طالمود اور بزرگوں کی روایتوں پر زیادہ زور دیتے تھے۔ اِس وقت مسلمانوں میں بھی ایسی ہی حالت پیدا ہوگئی ہے۔ کتابُ اللہ کو چھوڑ دیا گیا ہے اور اس کی بجائے روایتوں اور قصّوں پر زور مارا جاتا ہے۔‘‘
پھر آپ فرماتے ہیں ’’ان سب کے علاوہ ایک اور سرّ بھی ہے جو (اس) مماثلت کو مکمل کرتا ہے۔‘‘ (ایک اور راز ہے جو اس مماثلت کو، مشابہت کو مکمل کرتا ہے) ’’اور وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح اخلاقی تعلیم پر زور دیتے تھے اور موسوی جہادوں کی اصلاح کرنے آئے تھے۔ انہوں نے کوئی تلوار نہیں اٹھائی۔ مسیح موعود کے لئے بھی یہی مقرر تھا کہ وہ اسلام کی خوبیوں کو تعلیم کی عملی سچائیوں سے قائم کرے اور اس اعتراض کو دُور کرے جو اسلام پر اسی رنگ میں کیا جاتا ہے کہ وہ تلوار کے ذریعہ پھیلایا گیا ہے۔ یہ اعتراض مسیح موعود کے وقت میں بالکل اٹھا دیا جائے گا۔‘‘ (یعنی مسیح موعود اس کے خلاف بات کرے گا۔ بلکہ یہ کہے گا کہ اسلام پیار اور محبت کی تعلیم دیتا ہے اور اسی سے پھیلا ہے۔ اس لئے مسیح موعود کے زمانے میں یہ اعتراض ختم ہو جائے گا۔) فرمایا ’’کیونکہ وہ اسلام کے زندہ برکات اور فیوض سے اس کی سچائی کو دنیا پر ظاہر کرے گا اور اس سے یہ ثابت ہو گا کہ جیسے آج اس ترقی کے زمانہ میں بھی اسلام محض اپنی پاک تعلیم اور اس کے برکات اور ثمرات کے لحاظ سے مؤثر اور مفید ہے ایسا ہی ہمیشہ اور ہر زمانہ میں مفید اور مؤثر پایا گیا ہے کیونکہ یہ زندہ مذہب ہے۔ یہی وجہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب آنے والے مسیح موعود کی پیشگوئی فرمائی اس کے ساتھ ہی یہ بھی فرمایا یَضَعُ الْحَرْب۔ وہ لڑائیوں کو اٹھا دے گا۔‘‘ (ختم کر دے گا۔) ’’اب ان ساری شہادتوں کو جمع کرو اور بتاؤ کہ کیا اِس وقت ضرورت نہیں کہ کوئی آسمانی مردنازل ہو؟ جب یہ مان لیا گیا کہ صدی پر مجدد آنا ضروری ہے تو اس صدی پر مجدّد تو ضرور ہو گا۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مماثلت موسیٰ علیہ السلام سے ہے تو اس مماثلت کے لحاظ سے ضروری ہے کہ اس صدی کا مجدد مسیح ہو کیونکہ مسیح چودھویں صدی پر موسیٰ کے بعد آیا تھا اور آجکل چودھویں صدی ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 4 صفحہ 9 تا 12۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پھر اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ اگر میرا انکار کرتے ہو، میری تکذیب کرتے ہو تو تم اصل میں اللہ تعالیٰ او راس کے رسول کی تکذیب کر رہے ہو۔ آپ فرماتے ہیں ’’میرا انکار میرا انکار نہیں ہے بلکہ یہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار ہے۔ کیونکہ جو میری تکذیب کرتا ہے وہ میری تکذیب سے پہلے معاذ اللہ، اللہ تعالیٰ کو جھوٹا ٹھہرا لیتا ہے۔ جبکہ وہ دیکھتا ہے کہ اندرونی اور بیرونی فساد حد سے بڑھے ہوئے ہیں اور خدا تعالیٰ نے باوجود وعدہ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحَافِظُوْنَ(الحجر: 10) کے ان کی اصلاح کا کوئی انتظام نہ کیا جبکہ وہ اس امر پر بظاہر ایمان لاتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے آیتِ استخلاف میں وعدہ کیا تھا کہ موسوی سلسلہ کی طرح اس محمدی سلسلہ میں بھی خلفاء کا سلسلہ قائم کرے گا۔ مگر اس نے معاذ اللہ اس وعدہ کو پورا نہیں کیا۔ اور اس وقت کوئی خلیفہ اس اُمّت میں نہیں اور نہ صرف یہاں تک ہی بلکہ اس بات سے بھی انکار کرنا پڑے گا کہ قرآن شریف نے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مثیلِ موسیٰ قرار دیا ہے یہ بھی صحیح نہیں ہے۔ معاذ اللہ۔ کیونکہ اس سلسلہ کی اَتم مشابہت اور مماثلت کے لئے ضروری تھا کہ اس چودھویں صدی پر اسی اُمّت میں سے ایک مسیح پیدا ہوتا اُسی طرح پر جیسے موسوی سلسلہ میں چودھویں صدی پر ایک مسیح آیا۔ اور اسی طرح پر قرآن شریف کی اس آیت کو بھی جھٹلانا پڑے گا جو اٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّآ یَلْحَقُوْا بِھِمْ(الجمعۃ: 4)۔ میں ایک آنے والے احمدی بروز کی خبر دیتی ہے اور اس طرح پر قرآن شریف کی بہت سی آیتیں ہیں جن کی تکذیب لازم آئے گی ……۔‘‘ فرمایا ’’پھر سوچو کہ کیا میری تکذیب کوئی آسان امر ہے۔ یہ مَیں از خودنہیں کہتا۔ خدا تعالیٰ کی قَسم کھا کر کہتا ہوں کہ حق یہی ہے کہ جو مجھے چھوڑے گا اور میری تکذیب کرے گا وہ زبان سے نہ کرے مگر اپنے عمل سے اس نے سارے قرآن کی تکذیب کر دی اور خدا کو چھوڑ دیا…….۔‘‘
پھر آپ فرماتے ہیں کہ ’’میری تکذیب میری تکذیب نہیں۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب ہے۔ اب کوئی اس سے پہلے کہ میری تکذیب اور انکار کے لئے جرأت کرے، ذرا اپنے دل میں سوچے اور اس سے فتویٰ طلب کرے کہ وہ کس کی تکذیب کرتا ہے۔‘‘
پھر اس بات کو مزید کھولتے ہوئے کہ آپ کی تکذیب سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کیوں تکذیب ہوتی ہے؟ آپ فرماتے ہیں کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کیوں تکذیب ہوتی ہے؟ (جب میں کہتا ہوں کہ تکذیب کر رہے ہو۔) فرمایا کہ ’’اس طرح پر کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے جو وعدہ کیا تھا کہ ہر صدی پر مجدد آئے گا وہ معاذ اللہ جھوٹا نکلا۔ پھر آپؐ نے جو اِمَامُکُمْ مِنْکُمْ فرمایا تھا وہ بھی معاذ اللہ غلط ہوا ہے۔ اور آپ نے جو صلیبی فتنہ کے وقت ایک مسیح و مہدی کے آنے کی بشارت دی تھی وہ بھی معاذ اللہ غلط نکلی کیونکہ فتنہ تو موجود ہو گیا مگر وہ آنے والا امام نہ آیا۔ اب ان باتوں کو جب کوئی تسلیم کرے گا عملی طور پر کیا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مُکذّب ٹھہرے گا یا نہیں؟‘‘ فرمایا ’’پس پھر مَیں کھول کر کہتا ہوں کہ میری تکذیب آسان امر نہیں۔ مجھے کافر کہنے سے پہلے خود کافر بننا ہوگا۔ مجھے بے دین اور گمراہ کہنے میں دیر ہو گی مگر پہلے اپنی گمراہی اور رُوسیاہی کو مان لینا پڑے گا۔ مجھے قرآن و حدیث کو چھوڑنے والا کہنے کے لئے پہلے خود قرآن اور حدیث کو چھوڑ دینا پڑے گا اور پھر بھی وہی چھوڑے گا۔ مَیں قرآن و حدیث کا مُصدِّق و مِصداق ہوں۔ مَیں گمراہ نہیں بلکہ مہدی ہوں۔ مَیں کافر نہیں بلکہ اَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْن کا مصداق صحیح ہوں اور جو کچھ مَیں کہتا ہوں خدا نے مجھ پر ظاہر کیا کہ یہ سچ ہے۔ جس کو خدا پر یقین ہے، جو قرآن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق مانتا ہے اس کے لئے یہی حجّت کافی ہے کہ میرے منہ سے سن کر خاموش ہو جائے۔ لیکن جو دلیر اور بے باک ہے اس کا کیا علاج۔ خدا خود اس کو سمجھائے گا۔‘‘ (ملفوظات جلد 4 صفحہ 14 تا 16۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پھر مسیح موعودکی آمد سے متعلق بعض نشانیوں کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ ’’حقیقت میں یہ ریلوے مسیح موعود کا ایک نشان ہے۔ قرآن شریف میں بھی اس کی طرف اشارہ ہے۔ وَاِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ (التکویر: 05)‘‘ (کہ جب دس مہینے کی گابھن اونٹنیاں چھوڑ دی جائیں گی۔) فرمایا ’’دینداری تو تقویٰ کے ساتھ ہوتی ہے۔ یہ لوگ اگر غور کریں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ لَیُتْرَکُنَّ اْلقِلَاصُ میں ریل کی طرف اشارہ ہے کیونکہ اگر اس سے ریل مرادنہیں تو پھر ان کا فرض ہے کہ وہ حادثہ بتائیں جس سے اونٹ ترک کئے جاویں گے۔ پہلی کتابوں میں بھی اشارہ ہے کہ اُس وقت (مسیح کے زمانے میں ) آمد و رفت سہل ہو جائے گی۔‘‘ فرمایا ’’اصل تو یہ ہے کہ اس قدر نشانات پورے ہو چکے ہیں کہ یہ لوگ تو اس میدان سے بھاگ ہی گئے ہیں۔ جیسے کسوف خسوف رمضان میں کیا اُس طریق پرنہیں ہوا جیسا کہ مہدی کی آیات کے لئے مقرر تھا؟ اسی طرح ابتدائے آفرینش سے ایسی سواری بھی نہیں نکلی ہے۔‘‘ فرمایا ’’علامات دلالت کرتی ہیں کہ مسیح موعود پیدا ہوگیا ہے۔ اگر یہ لوگ ہم کو نہیں مانتے تو پھر کسی اَور کی تلاش کریں اور بتائیں کہ کون ہے کیونکہ جو نشانات اس کے مقرر کئے تھے وہ تو سب کے سب پورے ہو گئے۔‘‘ (ملفوظات جلد 4 صفحہ 54-55۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
آپ نے فرمایا کہ اگر میری سچائی کو پرکھنا ہے تو نبیوں کے سلسلوں کو پرکھنے کی جو دلیلیں ہیں اس کے مطابق پرکھو۔ اس طریق پر چلو۔ نیک نیتی سے سعادتمندی کے ساتھ جن دلیلوں کو دیکھو انہیں سمجھو۔ اگر ضد کرنی ہے تو پھر کچھ نظر نہیں آئے گا۔ پھر تو قرآن کریم بھی ہدایت نہیں دیتا۔ فرمایا کہ ’’منہاج نبوت پر اس سلسلہ کو آزمائیں اور پھر دیکھیں کہ حق کس کے ساتھ ہے۔ خیالی اصولوں اور تجویزوں سے کچھ نہیں بنتا اور نہ مَیں اپنی تصدیق خیالی باتوں سے کرتا ہوں۔ مَیں اپنے دعویٰ کو منہاجِ نبوت کے معیار پر پیش کرتا ہوں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ اسی اصول پر اس کی سچائی کی آزمائش نہ کی جاوے۔ جو دل کھول کر میری باتیں سنیں گے مَیں یقین رکھتا ہوں کہ فائدہ اٹھاویں گے اور مان لیں گے۔ لیکن جو دل میں بخل اور کینہ رکھتے ہیں ان کو میری باتیں کوئی فائدہ نہ پہنچا سکیں گی۔ ان کی تو اَحْوَل جیسی مثال ہے‘‘ (یعنی بھینگا آدمی جو ہوتا ہے اس جیسی مثال ہے جس کو ایک کے دو نظر آتے ہیں۔) ’’جو ایک کے دو دیکھتا ہے۔ اس کو خواہ کسی قدر دلائل دئیے جائیں کہ دو نہیں ایک ہی ہے وہ تسلیم ہی نہیں کرے گا۔‘‘ ایک واقعہ سناتے ہیں۔ آپ بیان فرماتے ہیں۔ ’’کہتے ہیں کہ ایک اَحوَل (بھینگا آدمی کسی کا) خدمتگار تھا۔ (نوکر ملازم تھا تو) آقا نے (اس کو) کہا کہ اندر سے آئینہ لے آؤ۔‘‘ (مالک نے بھیجا جا کے اندر سے شیشہ اٹھا لاؤ۔) ’’وہ گیا اور واپس آ کر کہا کہ اندر تو دو آئینے پڑے ہیں کون سا لے آؤں۔ آقا نے کہا کہ ایک ہی ہے۔ دو نہیں۔ تو اَحْوَل نے کہا تو کیا میں جھوٹا ہوں؟‘‘ (میں نے دو دیکھے ہیں۔ آپ کہہ رہے ہیں ایک ہے۔) ’’آقا نے کہا اچھا ایک کو توڑ دے۔ جب توڑا گیا تو اسے معلوم ہوا کہ درحقیقت میری غلطی تھی‘‘ (کیونکہ جو اس نے توڑا تھا وہ اصل میں ایک ہی تھا۔ تو فرمایا) ’’مگر ان اَحوَلوں کو جو میرے مقابل ہیں کیا جواب دوں؟ غرض ہم دیکھتے ہیں کہ یہ لوگ بار بار اگر کچھ پیش کرتے ہیں تو احادیث کا ذخیرہ، جس کو خود یہ ظن کے درجہ سے آگے نہیں بڑھاتے۔ ان کو معلوم نہیں کہ ایک وقت آئے گا کہ ان کے رطب و یابس امور پر لوگ ہنسی کریں گے۔ یہ ہر ایک طالب حق کا حق ہے کہ وہ ہم سے ہمارے دعویٰ کا ثبوت مانگے۔ اس کے لئے ہم وہی پیش کرتے ہیں جو نبیوں نے پیش کیا۔ نصوصِ قرآنیہ اور حدیثیہ، عقلی دلائل یعنی موجودہ ضرورتیں جو مصلح کے لئے مستدعی ہیں۔ پھر وہ نشانات جو خدا نے میرے ہاتھ پر ظاہر کئے‘‘۔ فرمایا کہ ’’مَیں نے ایک نقشہ مرتب کر دیا ہے۔ اس میں ڈیڑھ سو کے قریب نشانات دئیے ہیں جن کے گواہ ایک نوع سے کروڑوں انسان ہیں۔‘‘ فرمایا کہ ’’بیہودہ باتیں پیش کرنا سعادت مند کا کام نہیں‘‘۔ آپ فرماتے ہیں کہ ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی لئے فرمایا تھا کہ وہ حَکَم ہو کر آئے گا۔ اس کا فیصلہ منظور کرو۔ جن لوگوں کے دل میں شرارت ہوتی ہے وہ چونکہ ماننا نہیں چاہتے اس لئے بیہودہ حجتیں اور اعتراض پیش کرتے رہتے ہیں۔ مگر وہ یاد رکھیں کہ آخر خدا تعالیٰ اپنے وعدہ کے موافق زورآور حملوں سے میری سچائی ظاہر کرے گا۔‘‘ فرمایا کہ ’’مَیں یقین رکھتا ہوں کہ اگر مَیں افترا کرتا تو وہ مجھے فی الفور ہلاک کر دیتا۔ مگر میرا سارا کاروبار اُس کا اپنا کاروبار ہے اور مَیں اُسی کی طرف سے آیا ہوں۔ میری تکذیب اُس کی تکذیب ہے۔ اس لئے وہ خود میری سچائی ظاہر کر دے گا۔‘‘ (ملفوظات جلد 4 صفحہ34-35۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
مولویوں کی جو ضد کی حالت ہے جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وقت میں بھی تھی جو آپ نے بیان فرمائی۔ نہ دلیل سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ نہ سمجھنا چاہتے ہیں۔ وہی حالت ان کی آج ہے۔
ان نشانات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ: ’’اوّل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن شریف نے توریت کی پیشگوئی کے موافق مثیلِ موسیٰ تسلیم کیا ہے۔ اس مماثلت کے لحاظ سے یہ ضروری ہے کہ جس طرح پر‘‘ (جیسا پہلے بیان ہو چکا ہے کہ) ’’موسوی خلفاء کا سلسلہ قائم ہوا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی ایک سلسلہ خلافت قائم ہو۔ اگر اَور کوئی بھی دلیل اس کے لئے نہ ہو تب بھی یہ مماثلت بالطبع یہ چاہتی ہے کہ ایک سلسلہ خلفاء کا ہو۔‘‘ (دوسرے یہ کہ) ’’آیت استخلاف میں اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر ایک سلسلہ خلافت قائم کرنے کا وعدہ فرمایا اور اس سلسلہ کو پہلے سلسلہ خلافت کے ہم رنگ قرار دیا۔ جیسا فرمایا کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ۔‘‘ فرمایا کہ ’’اب اس وعدۂ استخلاف کے موافق اور اس کی مماثلت کے لحاظ سے ضروری تھا کہ جیسے موسوی سلسلۂ خلافت کا خاتم الخلفاء مسیح تھا۔ ضرور ہے کہ اس سلسلہ محمدیہ کے خلفاء کا خاتَم بھی ایک مسیح ہی ہو۔‘‘ (تیسری بات یہ کہ) ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا اِمَامُکُمْ مِنْکُمْ۔ تم میں سے تمہارا امام ہو گا۔‘‘ (چوتھی بات) ’’آپ نے یہ بھی فرمایا کہ ہر صدی کے سر پر ایک مجدد تجدید دین کے لئے بھیجا جاتا ہے۔ اب اس صدی کا مجدّد ہونا ضروری تھا اور مجدّد کا جو کام ہوتا ہے وہ اصلاحِ فساداتِ موجودہ ہوتا ہے۔‘‘ (جو موجودہ فساد ہر جگہ پیدا ہوا ہوا ہے اس کی اصلاح کرنا۔) ’’پس جو فساد اور فتنہ اس وقت سب سے بڑھ کر ہے وہ عیسائی فتنہ ہے اس لئے ضروری ہے کہ اس صدی کا جو مجدّد ہو وہ کاسر الصلیب ہو۔ جس کا دوسرا نام مسیح موعود ہے۔‘‘ (پانچویں بات یہ کہ) ’’موسوی خلافت کی مماثلت کے لحاظ سے بھی خاتم الخلفاء سلسلہ محمدیہ کا چودھویں ہی صدی میں ہونا ضروری ہے کیونکہ موسیٰ علیہ السلام کے بعد چودھویں صدی میں مسیح علیہ السلام آئے تھے۔‘‘ (چٹھی بات یہ کہ) ’’جو علامات مسیح موعود کی مقرر تھیں ان میں سے بہت سی پوری ہو چکیں جیسے کسوف خسوف کا رمضان میں ہونا جو دو مرتبہ ہو چکا۔ حج کا بند ہونا۔ ذوالسنین ستارہ کا نکلنا۔ طاعون کا پھوٹنا۔ ریلوں کا اجراء۔ اونٹوں کا بیکار ہونا وغیرہ۔‘‘ (ساتویں بات یہ کہ) ’’سورۂ فاتحہ کی دعا سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ آنے والا اس اُمّت میں سے ہو گا۔ غرض ایک دو نہیں صدہا دلائل اس امر پر ہیں کہ آنے والا اسی اُمّت میں سے آنا چاہئے اور اس کایہی وقت ہے۔ اب خدا تعالیٰ کے الہام اور وحی سے مَیں کہتا ہوں۔ وہ جو آنے والا تھا وہ مَیں ہوں۔ قدیم سے خدا تعالیٰ نے منہاجِ نبوت پر جو طریق ثبوت کا رکھا ہوا ہے وہ مجھ سے جس کا جی چاہے لے لے۔ جو نشانات میری تائید میں ظاہر ہوئے ہیں ان کو دیکھ لو۔ مجھے افسوس ہوتا ہے جب میں ان مخالفوں کی حالت پر نظر کرتا ہوں کہ جن امور کو بطور نشان پیش کیا کرتے تھے اب وہ جب پورے ہو گئے تو ان کی صحت پر اعتراض کرنے لگے۔‘‘ (مثلاً پہلے چاند سورج گرہن کی نشانی مانگا کرتے تھے۔) آپ فرماتے ہیں کہ ’’مثلاً کسوف خسوف والی پیشگوئی کو اب کہتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح نہیں۔ مگر کوئی ان سے پوچھے کہ جس کو خدا تعالیٰ نے صحیح ثابت کر دیا کیا اب وہ ان کے کہنے سے جھوٹی ہو جائے گی؟‘‘ آپ فرماتے ہیں کہ ’’افسوس تو یہ ہے کہ اتنا کہتے ہوئے ان کو شرم نہیں آتی کہ اس سے ہم مسیح موعود کی تکذیب نہیں کرتے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کر رہے ہیں۔ میری تصدیق اور تائید کے لئے ایک کسوف خسوف ہی نہیں ہزارہا دلائل اور شواہد ہیں اور اگر ایک نہ بھی ہو تو کچھ بگڑتا نہیں۔ مگر اس سے یہ تو پایا جائے گا کہ یہ پیشگوئی غلط ہوئی۔ افسوس یہ لوگ میری مخالفت میں سیّدالصادقین کی پیشگوئی کو باطل کرنا چاہتے ہیں۔ ہم اس پیشگوئی کو بڑے زور سے پیش کرتے ہیں۔ یہ ہمارے آقا کی صداقت کا نشان ہے‘‘۔ فرمایا کہ ’’پس حدیث جس کو تم ظن کی سیاہی سے لکھتے تھے واقعہ نے اس کی صداقت کو یقین تک پہنچا دیا۔ اب اس سے انکار کرنا بے ایمانی اور لعنت ہے۔ موضوع احادیث میں کیا محدّث یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے چور پکڑ لیا ہے۔ نہیں۔ بلکہ یہی کہیں گے کہ کسی کا حافظہ درست نہیں۔‘‘ (جو حدیثیں صحیح نہیں ہیں ان میں یہی کہتے ہیں کہ کسی کا حافظہ درست نہیں ہے) ’’یا راستباز ہونے میں کلام ہے۔‘‘ (اس کی سچائی پر کچھ تحفظات ہیں۔) فرمایا کہ ’’مگر محدّثین نے یہ اصول تسلیم کر لیا ہے کہ ایک حدیث اگر ضعیف بھی ہو‘‘ (کمزور حدیث بھی بظاہر نظر آتی ہو) ’’مگر اس کی پیشگوئی پوری ہو جاوے تو وہ صحیح ہوتی ہے۔ پھر اس معیار پر کیونکر کوئی یہ کہنے کی جرأت کر سکتا ہے کہ یہ حدیث صحیح نہیں؟‘‘ فرماتے ہیں ’’پس یاد رکھو کہ آنے والا یا تو نصوص صریحہ سے پرکھا جاتا ہے۔ وہ اس کی تائید کرتی ہیں اور پھر عقل چونکہ بِدُوں نظیر نہیں مان سکتی۔‘‘ (بغیر مثال کے، بغیر اس کے شواہد کے عقل کسی چیز کو نہیں مانتی تو) ’’عقلی نظائر اس کے ساتھ ہوتے ہیں۔‘‘ (جو مثالیں ساتھ دی جاتی ہیں وہ بھی عقلی مثالیں ہیں اور شہادۃً دی جاتی ہیں۔) فرمایا ’’اور سب سے بڑھ کر خدا تعالیٰ کی تائیدیں اس کے ساتھ ہوتی ہیں۔ اگر کسی کو کوئی شک و شبہ ہو تو وہ میرے سامنے آئے اور ان طریقوں سے جو منہاجِ نبوت پر ہیں میری سچائی کا ثبوت مجھ سے لے۔ مَیں اگر جھوٹا ہوں گا تو بھاگ جاؤں گا۔ مگر نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انیس برس پہلے (جب آپ نے یہ لکھا اس وقت آپ کے دعوے کو اُنّیس سال گزر چکے تھے آپ ایک الہام کا ذکر فرما رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انیس برس پہلے) ’’مجھے کہا یَنْصُرُکَ اللّٰہُ فِیْ مَوَاطِنَ۔‘‘ (جب آپ نے یہ تحریر فرمائی اس سے انیس سال پہلے یہ الہام ہوا تھا کہ یَنْصُرُکَ اللّٰہُ فِیْ مَوَاطِنَ۔ کہ خدا کئی میدانوں میں تیری مدد کرے گا۔) فرمایا ’’پس جس طرح نبیوں یا رسولوں کو پرکھا گیا مجھے پرکھ لو اور مَیں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ اس معیار پر مجھے صادق پاؤ گے۔‘‘ (اور ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بیشمار میدانوں میں آپ کی مدد فرمائی۔) فرمایا کہ ’’یہ باتیں مَیں نے مختصر طور پر کہی ہیں۔ ان پر غور کرو اور خدا تعالیٰ سے دعائیں کرو۔ وہ قادر ہے کوئی راہ کھول دے گا۔ اس کی تائید اور نصرت صادق ہی کو ملتی ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 4 صفحہ 38 تا 41۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
آپ کی مجلس میں مولویوں کا ذکر ہو رہا تھا تو ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضور اب تو مولوی لوگوں نے وہ خطبے وغیرہ پڑھنے چھوڑ دئیے ہیں جن سے مسیح کی وفات ثابت ہوتی تھی۔ آپ نے فرمایا ’’اب تو وہ نام بھی نہ لیں گے اور اگر کوئی ذکر کرے تو کہیں گے کہ مسیح اور مہدی کا ذکر ہی چھوڑ و۔‘‘ (ملفوظات جلد 4 صفحہ 286۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
بہرحال ان مولویوں کا تو یہ حال ہے کہ اپنے مفادات کے لئے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مخالفت کرتے ہیں اور نہ صرف خود کرتے ہیں بلکہ آپ کی طرف اور جماعت احمدیہ کے عقائد کی طرف جھوٹی اور غلط باتیں منسوب کرتے ہیں اور عامّۃ المسلمین کے دلوں میں جماعت کے خلاف نفرتیں پیدا کر رہے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام حق معلوم کرنے کا طریقہ بتاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اگر حق معلوم کرنا ہے ’’پھر خدا تعالیٰ سے اپنی نمازوں میں دعائیں مانگیں کہ وہ اُن پر حق کھول دے اور‘‘ (آپ فرماتے ہیں کہ) ’’مَیں یقین رکھتا ہوں کہ اگر انسان تعصب اور ضد سے پاک ہو کر حق کے اظہار کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرے گا تو ایک چلّہ نہ گزرے گا کہ اس پر حق کھل جائے گا۔‘‘ (چالیس دن پورے نہیں ہوں گے کہ اس پہ حق کھل جائے گا اگر خالی الذہن ہو کے اور حق مانگنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے مانگو) فرمایا ’’مگر بہت ہی کم لوگ ہیں جو اِن شرائط کے ساتھ خدا تعالیٰ سے فیصلہ چاہتے ہیں اور اس طرح پر اپنی کم سمجھی یا ضدّ و تعصب کی وجہ سے خدا کے ولی کا انکار کر کے ایمان سلب کرا لیتے ہیں۔‘‘ فرمایا ’’کیونکہ جب ولی پر ایمان نہ رہے تو ولی جو نبوت کے لئے بطور میخ کے ہے اسے پھر نبوت کا انکار کرنا پڑتا ہے اور نبی کے انکار سے خدا کا انکار ہوتا ہے اور اس طرح پر بالکل ایمان سلب ہو جاتا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 4 صفحہ 16۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان) ایمان ضائع ہو جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو عقل دے کہ وہ صرف مولویوں کی باتوں میں نہ آئیں بلکہ اپنی عقل استعمال کریں اور خالص ہو کر اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے دل کھولے اور یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مان کر اس حالت سے باہر نکلیں جس ایک عجیب حالت میں آجکل مسلمان دنیا پھنسی ہوئی ہے۔ کوئی رستہ ان کو فرار کا نظر نہیں آرہا۔ پاکستان میں بھی نئی نئی تنظیمیں بن رہی ہیں۔ اب نئی تنظیم لبّیک یارسول اللہ کی بنی۔ جنہوں نے مارچ کرکے پہلے لاہور کا گھیراؤ کیا۔ پھر اسلام آباد کا گھیراؤ کیا۔ اس کے بعد اسی نام کی ایک اور تنظیم ہے جو گھیراؤ کر رہی ہے اور اسلام آباد کا محاصرہ کیا ہوا ہے۔ اور کوئی حکومت، کوئی فوج، کوئی قانون ان کو روک نہیں سکتا۔ لبّیک یارسول اللہ کہنے والے تو اصل میں ہم احمدی ہیں جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو سنا کہ جب میرا مسیح و مہدی آئے تو اس کو ماننا۔ اس کو سلام کہنا۔ یہ ہے لبّیک کہنے کا صحیح طریقہ۔ کاش کہ یہ لوگ بھی اس کو سمجھیں اور بجائے کھوکھلے نعروں کے لبّیک یا رسول اللہ کی حقیقت کو سمجھیں۔ اللہ تعالیٰ دنیا کو بھی، پاکستان کو بھی، ہر مسلمان ملک کو بھی فتنہ و فساد سے بچائے اور اللہ تعالیٰ مسلمانوں پر خاص رحم فرمائے کیونکہ آجکل جو حالات ہو رہے ہیں اور مسلمان دنیا کے خلاف جو منصوبہ بندی ہو رہی ہے وہ بہت خوفناک ہے۔ اگر انہوں نے ابھی بھی نہ سمجھا تو پھر بعد میں یہ پچھتائیں گے۔ اللہ تعالیٰ رحم کرے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی بیشمار تحریروں اور تقریروں اور مجالس میں اپنے دعوے کے سچے ہونے کی دلیلیں دیں۔ زمانے کی ضرورت کے مطابق مسیح موعود کے آنے اور اللہ تعالیٰ کی تائیدات کے آپ کے حق میں ہونے کے بارے میں بتایا۔ لیکن جو صاف دل تھے ان کو تو سمجھ آ گئی اور جن کے دلوں میں بُغض تھا، کینہ تھا، مفاد پرستی تھی، ان کو سمجھ نہیں آئی۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی اپنے دعویٰ کی صداقت کے بارہ میں پیش فرمودہ مختلف دلیلوں اور علامات، نشانات کا تذکرہ۔ مسیح موسوی اور مسیح محمدی میں مماثلتوں کا بیان۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مماثلت موسیٰ علیہ السلام سے ہے تو اس مماثلت کے لحاظ سے ضروری ہے کہ اس صدی کا مجدد مسیح ہو کیونکہ مسیح چودھویں صدی پر موسیٰ کے بعد آیا تھا اور آجکل چودھویں صدی ہی ہے۔
مسیح موعود کی تکذیب اصل میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی تکذیب ہے۔
اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو عقل دے کہ وہ صرف مولویوں کی باتوں میں نہ آئیں بلکہ اپنی عقل استعمال کریں اور خالص ہو کر اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے دل کھولے اور یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مان کر اس حالت سے باہر نکلیں جس ایک عجیب حالت میں آجکل مسلمان دنیا پھنسی ہوئی ہے۔
لبّیک یارسول اللہ کہنے والے تو اصل میں ہم احمدی ہیں جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو سنا کہ جب میرا مسیح و مہدی آئے تو اس کو ماننا۔ اس کو سلام کہنا۔ یہ ہے لبّیک کہنے کا صحیح طریقہ۔
فرمودہ مورخہ 17؍نومبر 2017ء بمطابق 17؍نبوت 1396 ہجری شمسی، بمقام مسجدبیت الفتوح، مورڈن، لندن، یوکے
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔