اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور رضا کی تلاش

خطبہ جمعہ 8؍ دسمبر 2017ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَ الۡبَنِیۡنَ وَ الۡقَنَاطِیۡرِ الۡمُقَنۡطَرَۃِ مِنَ الذَّہَبِ وَ الۡفِضَّۃِ وَ الۡخَیۡلِ الۡمُسَوَّمَۃِ وَ الۡاَنۡعَامِ وَ الۡحَرۡثِ ؕ ذٰلِکَ مَتَاعُ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ وَ اللّٰہُ عِنۡدَہٗ حُسۡنُ الۡمَاٰبِ (آل عمران: 15)۔ اس آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ لوگوں کے لئے طبعاً پسند کی جانے والی چیزوں کی یعنی عورتوں کی اور اولاد کی اور ڈھیروں ڈھیر سونے چاندی کی اور امتیازی نشان کے ساتھ داغے ہوئے گھوڑوں کی اور مویشیوں اور کھیتوں کی محبت خوبصورت کر کے دکھائی گئی ہے۔ یہ دنیوی زندگی کا عارضی سامان ہے اور اللہ وہ ہے جس کے پاس بہت بہتر لَوٹنے کی جگہ ہے۔

اللہ تعالیٰ نے یہ نقشہ کھینچا ہے یا ان لوگوں کی حالت بیان کی ہے جو خدا تعالیٰ کو بھول جاتے ہیں اور دنیا کا حصول ہی ان کا مقصد ہوتا ہے اور جب انسان خدا تعالیٰ کو بھولتا ہے تو پھر شیطان اس پر قبضہ کر لیتا ہے۔ گو یہ سب چیزیں خدا تعالیٰ کی پیدا کردہ ہیں اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ہیں اور ان سے فائدہ بھی اٹھانا چاہئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی ہمیں بڑا واضح فرمایا کہ دنیا کے کاروباروں سے الگ ہونا بھی غلط ہے۔ شادیاں کرنی بھی ضروری ہیں اور یہ سنّت ہے۔ اسی طرح دوسرے کام ہیں۔ صحابہ بھی کیا کرتے تھے۔ بعض صحابہ کی کروڑوں کی جائیدادیں تھی۔ لیکن وہ رُو بہ دنیا نہیں تھے۔ دنیا پہ گرے ہوئے نہیں تھے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’یاد رکھو کہ خدا کا یہ ہرگز منشاء نہیں کہ تم دنیا کوبالکل ترک کر دو بلکہ اس کا جو منشاء ہے وہ یہ ہے کہ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا (الشمس:10)۔‘‘ (یعنی جس نے نفس کو پاک کیا وہ اپنے مقصود کو پا گیا۔) آپ فرماتے ہیں کہ: ’’تجارت کرو۔ زراعت کرو۔ ملازمت کرو اور حرفت کرو۔ جو چاہو کرو مگر نفس کو خدا کی نافرمانی سے روکتے رہو اور ایسا تزکیہ کرو کہ یہ امور تمہیں خدا سے غافل نہ کر دیں‘‘۔ (ملفوظات جلد 10 صفحہ 260-261۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

ایک جگہ آپ نے فرمایا کہ’’حقوق نفس تو جائز ہیں مگر نفس کی بے اعتدالیاں جائز نہیں‘‘۔ (ملفوظات جلد 5 صفحہ 248۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پس یہ بات ہمیشہ ایک مومن کو اپنے سامنے رکھنی چاہئے کہ دنیاوی چیزوں کی محبت ایسی نہ ہو جو خدا تعالیٰ کو بھلا دے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اس آیت میں زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوٰتِ کہ لوگوں کے لئے شہوات کی محبت خوبصورت کر کے دکھائی گئی ہے اور پھر آگے اس کی تفصیل بھی بیان کی کہ کون کون سی چیزیں ہیں اور یہ چیزیں ایسے لوگ صرف گزارے کے لئے نہیں چاہتے بلکہ یہ ان انسانوں کا ذکر ہے جو دنیا کی محبت میں ڈوبے ہوئے ہیں اور صرف ان چیزوں کے حصول کی فکر ہے۔

شہوۃ کے معنی ہیں کسی چیز کی شدید خواہش اور چاہت اور اس کی ہر وقت فکر کرتے رہنا۔ اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ ایسی چیز یا مقصد جو صرف نفسانی خواہشات پر منحصر ہو۔ گھٹیا ہو یا جنسی خواہش بڑھی ہوئی ہو اس کو بھی شہوۃ کہتے ہیں۔ پس جب اللہ تعالیٰ نے یہاں فرمایا کہ ان چیزوں کی محبت انسان کے دل میں ڈالی گئی ہے تو یہ محبت اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہے۔ اس کی نعمتوں سے فائدہ اٹھانے والی بات نہیں ہے بلکہ یہ شیطان کی طرف سے ہے۔ یہ عام چاہت یا پسندیدگی نہیں ہے یا خوبصورتی نہیں ہے بلکہ اس حد تک اس خوبصورتی کی چاہت اور خواہش ہے کہ انسان اس کے حصول کے لئے ہر وقت بے چین اور بے قرار رہتا ہے۔ ایک غیر معمولی پیار ان دنیاوی چیزوں سے رکھتا ہے۔ پس جب اس حد تک انسان ان چیزوں میں ڈوب جائے تو پھر یہ صرف اللہ تعالیٰ کی نعمتیں نہیں رہتیں بلکہ یہ شیطانی خواہشات ہیں اور پھر ان کے حصول کے لئے ہر ناجائز حربہ انسان کو اختیار کرنا پڑے تو کرتا ہے اور یہ ہم دنیاداروں میں عام دیکھتے ہیں۔ دولت کے لئے، دنیاوی رتبہ کے لئے، عورتوں سے غلط تعلقات کے لئے یہ لوگ تمام حدیں عبور کر جاتے ہیں یا شادیاں بیاہ بھی کرتے ہیں تو دولت حاصل کرنے کے لئے۔ خواہش یہ ہوتی ہے کہ دولت مند بیوی لے کر آئیں۔ اسی طرح دوسرے کاموں میں صرف اور صرف دنیا مدّنظر ہوتی ہے۔ باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایسی خوبصورت اور پاکیزہ تعلیم دی ہے اور ہوشیار بھی کیا ہے کہ ان چیزوں سے بچو یعنی کہ اس حد تک نہ جاؤ کہ یہ صرف تمہارا زندگی کا مقصد بن جائے کیونکہ یہ دنیا کے عارضی سامان ہیں۔ اپنی فکر کرو کہ تم نے خدا تعالیٰ کی طرف لوٹنا ہے اس کے حضور حاضر ہونا ہے۔ بدقسمتی سے پھر بھی مسلمان اکثریت کو ہم دیکھتے ہیں کہ ان دنیاوی چیزوں کے پیچھے پڑی ہوئی ہے اور اپنی زندگی کے مقصد کو بھول گئے ہیں۔ علماء بھی، قوم کے رہنما بھی اور ہر وہ شخص جس کو موقع ملتا ہے اس کی کوشش ہوتی ہے کہ جس طرح بھی ہو ہم یہ دنیاوی چیزیں حاصل کریں۔ جب ایسی خواہشات قوم کے لیڈروں میں پیدا ہو جائیں تو پھر ملکوں اور قوموں کو نقصان بھی پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ آجکل مسلمان ملکوں میں جو فساد کی حالت ہے وہ اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دین سے دُور ہٹے ہوؤں کی اور دنیاداروں کی جو حالت بتائی تھی وہ مسلمانوں کی ہے۔ لیڈر ہیں تو دولت سمیٹنے کے لئے عوام کی خدمت کا نعرہ لگا کر حکومت میں آتے ہیں اور پھر دونوں ہاتھوں سے وہ لوٹ مچاتے ہیں کہ تصور سے باہر ہے۔ علماء کو عوام کے دین کی بہتری کی فکر کم ہے۔ اصل کوشش یہ ہے کہ دین کے نام پر عوام کو اپنے پیچھے چلائیں اور کسی طرح حکومت میں آئیں یا حکومت سے مفاد اٹھائیں اور دولت اکٹھی کریں اور جائیدادیں بنائیں۔ نام تو یہ اللہ کا لیتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کےخوف کا کوئی بھی اظہار ان کے عمل سے نہیں ہو رہا ہوتا۔ پاکستان میں یہ حالات ہم عام دیکھتے ہیں۔ مسلمان لیڈر مسلمان عوام کو گاجر مولی کی طرح قتل کر رہے ہیں۔ کوئی حیثیت انسانی جان کی نہیں ہے۔ لیکن حکومت نہیں چھوڑتے۔ کئی ملکوں میں ایسی حرکتیں ہو رہی ہیں اور کوشش یہ ہے کہ ہم حکومتوں پہ بیٹھے رہیں اور اپنی طاقت کا اظہار بھی کرتے رہیں اور دولت بھی سمیٹتے رہیں۔ کسی طرح ان کے پیٹ بھرتے نہیں۔ کیا وجہ ہے کہ کئی مسلمان ملکوں کے پاس دولت ہے، قدرتی وسائل ہیں اور پھر بھی ایسی بری حالت ہے کہ غریب غریب تر ہوتا جا رہا ہے اور ایک وقت کی روٹی مشکل سے ملتی ہے۔ سعودی عرب کو یہ بڑا امیر ملک کہتے ہیں لیکن وہاں بھی اب غربت بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ پہلے بھی غریب تھے اور اب اَور بڑھتے جا رہے ہیں۔ تیل کی دولت ہونے کے باوجود غربت کی انتہا ہو رہی ہے۔ صرف شہزادوں کے، امیروں کے، لیڈروں کے حالات اچھے ہیں۔ وہ ایک ایک دن میں کئی کئی ملین ڈالر خرچ کر دیتے ہیں۔ یہ لوگ دولت بھی ناجائز ذریعہ سے حاصل کرتے ہیں یا غریب کا حق مار کر حاصل کرتے ہیں اور خرچ بھی ناجائز طریق پر کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو، ان حکمرانوں کو، ان بادشاہوں کو، ان مفاد پرستوں کو عقل دے کہ وہ دولتیں سمیٹنے کی بجائے دولت کا صحیح استعمال کرنے والے ہوں۔ اس کا صحیح مَصرف کرنے والے ہوں۔ اس سے جہاں یہ خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہوں گے وہاں دنیاوی اعتبار سے بھی ان کی ایک طاقت ہوگی۔ غیر مسلم طاقتیں ان کو اپنے پیچھے چلانے کی بجائے اور آنکھیں دکھانے کی بجائے ان کی بات ماننے والی ہوں گی۔ آجکل جو بڑا شور اٹھا ہوا ہے کہ امریکن صدر نے اپنا سفارتخانہ یروشلم میں منتقل کرنے کا کہا ہے اور اسے دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ عملاً تو وہاں اسرائیل کے سارے دفاتر پہلے سے ہی موجود ہیں لیکن باہر کی دنیا نے اسے تسلیم نہیں کیا تھا۔ اب اس اعلان کے بعد باہر کی دنیا میں بڑا شور ہے۔ لیکن وہ شور تو ہے حکومتیں مخالفت بھی کر رہی ہیں لیکن یہ سب کچھ مسلمانوں کی کمزوری کی وجہ سے ہے۔ مسلمان ملکوں کی آپس کی جنگیں ہیں اور ملکوں کے اندر کی بے چینیاں جو ہیں اس نے غیروں کو بھی یہ موقع دیا ہے کہ یہ حالات پیدا کریں اور اس قسم کے اعلان کریں۔ امریکی صدر یہ چاہتا ہے کہ مسلمانوں میں آپس میں امن کے حالات کبھی قائم نہ ہوں اور یہ اپنی من مانی کرتے رہیں۔ سعودی عرب اب یہ اعلان کر رہا ہے کہ امریکی صدر کا فیصلہ کسی طرح بھی قابل قبول نہیں۔ چند دن پہلے ہر بات میں ان کی ہاں میں ہاں ملا رہا تھا۔ ایران کے خلاف اعلان پر امریکہ کی ہاں میں ہاں ملا رہا تھا۔ اس وقت ان کو روکنا چاہئے تھا کہ ہم ہر مسلمان ملک کے ساتھ ہیں۔ اس لئے کسی بھی بڑی طاقت کے مسلمانوں کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کو ہم برداشت نہیں کریں گے۔ اسی طرح یمن کے خلاف جو کارروائی کر رہے ہیں ان میں بھی بڑی طاقتوں سے مدد لے رہے ہیں۔ وہاں اپنی طاقت کے اظہار کے لئے، خطے میں اپنی بادشاہت کے رعب کے لئے اور امریکی مفادات سے فائدہ اٹھانے کے لئے امریکہ کی ہاں میں ہاں ملائی۔ دنیا کے عارضی سامان کے لئے خدا تعالیٰ کے حکموں سے دور چلے گئے۔ اب اللہ تعالیٰ کے حکموں کی نافرمانی کا یہی نتیجہ نکلنا تھا جو نکل رہا ہے۔ پھر یہ لوگ سر پر چڑھتے چلے جاتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان لوگوں کی مثال جو صرف دنیا کی تلاش میں رہتے ہیں اور دنیاوی خواہشات کی تکمیل کی فکر میں رہتے ہیں اس خارش والے مریض کی دی ہے جس کو کھجلانے سے لذت ملتی ہے اور وہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ اپنے جسم کو کھجلا کر مجھے بڑی راحت محسوس ہو رہی ہے اور اس طرح وہ اپنا جسم زخمی کر لیتا ہے۔ کھجلانے سے اس کو عارضی طور پر آرام مل رہا ہوتا ہے جبکہ اس کی کھال ادھڑ رہی ہوتی ہے اور بعض اپنا بے انتہا خون نکال لیتے ہیں۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد 1 صفحہ 155۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پس یہ چیزیں جن کی انسان ضرورت سے زیادہ خواہش کرتا ہے یہ آخر میں بے چینیوں کے سامان پیدا کر رہی ہوتی ہیں۔ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہماری طاقت بڑھ رہی ہے یا ہمارے گروہ بڑے ہو رہے ہیں۔ لیکن اصل میں یہ لوگ اپنا ہی خون نکال رہے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اِس کے سوا ہے۔ اس مضمون کو اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ اس طرح بیان فرمایا ہے کہ اِعۡلَمُوۡۤا اَنَّمَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَا لَعِبٌ وَّ لَہۡوٌ وَّ زِیۡنَۃٌ وَّ تَفَاخُرٌۢ بَیۡنَکُمۡ وَ تَکَاثُرٌ فِی الۡاَمۡوَالِ وَ الۡاَوۡلَادِ ؕ کَمَثَلِ غَیۡثٍ اَعۡجَبَ الۡکُفَّارَ نَبَاتُہٗ ثُمَّ یَہِیۡجُ فَتَرٰٮہُ مُصۡفَرًّا ثُمَّ یَکُوۡنُ حُطَامًا ؕ وَ فِی الۡاٰخِرَۃِ عَذَابٌ شَدِیۡدٌ ۙ وَّ مَغۡفِرَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ رِضۡوَانٌ ؕ وَ مَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الۡغُرُوۡرِ (الحدید:21) کہ جان لو کہ دنیا کی زندگی محض کھیل کود اور نفس کی خواہشات کو پورا کرنے کا ایسا ذریعہ ہے جو اعلیٰ مقصد سے غافل کر دے اور سج دھج اور باہم ایک دوسرے پر فخر کرنا ہے اور اموال اور اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرنا ہے۔ اس زندگی کی مثال اس بارش کی مثال کی طرح ہے جس کی روئیدگی کفار کے دلوں کو لبھاتی ہے۔ پس وہ تیزی سے بڑھتی ہے پھر تُو اسے زرد ہوتا ہوا دیکھتا ہے پھر وہ ریزہ ریزہ ہوجاتی ہے اور آخرت میں سخت عذاب مقدر ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ کی طرف سے مغفرت اور رِضوان بھی ہے جبکہ دنیا کی زندگی تو محض دھوکے کا ایک عارضی سامان ہے۔

پس ایک مومن کا کام ہے کہ دنیاوی چیزوں پر فخر کرنے اور اس کے حصول کے لئے اپنی تمام تر کوششیں صَرف کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور رضا تلاش کرے اور خارش کے مریض کی طرح بن کر اپنی زندگی اور عاقبت بربادنہ کرے۔ اس دنیاوی زندگی کے سامانوں اور اس کی حالت کا نقشہ کھینچتے ہوئے ایک مجلس میں ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ:

’’جس قدر انسان کشمکش سے بچا ہوا ہو اُسی قدر اس کی مرادیں پوری ہوتی ہیں۔‘‘ (یعنی دنیاوی خواہشات، کشمکش، اس کے لئے کوششیں۔) فرمایا ’’کشمکش والے کے سینے میں آگ ہوتی ہے اور وہ مصیبت میں پڑا ہوا ہوتا ہے۔ اس دنیاکی زندگی میں یہی آرام ہے کہ کشمکش سے نجات ہو‘‘۔ (ضرورت سے زیادہ جو کوششیں دنیا کے لئے ہیں اس سے نجات حاصل کرو۔) آپ فرماتے ہیں ’’کہتے ہیں کہ ایک شخص گھوڑے پر سوار چلا جاتا تھا۔ راستے میں ایک فقیر بیٹھا تھا جس نے بمشکل اپنا سَتر ہی ڈھانکا ہوا تھا‘‘۔ (تھوڑے سے کپڑے تھے۔ مشکلوں سے ننگ ڈھانپا ہوا تھا) ’’اس نے اس سے پوچھا‘‘ (اس سوار نے) ’’کہ سائیں جی کیا حال ہے؟ فقیر نے اسے جواب دیا کہ جس کی ساری مرادیں پوری ہو گئی ہوں اس کا حال کیسا ہوتا ہے۔ اُسے (سوار کوبڑا) تعجب ہوا کہ تمہاری ساری مرادیں کس طرح حاصل ہو گئی ہیں۔ فقیر نے کہا کہ جب ساری مرادیں ترک کر دیں تو گویا سب حاصل ہو گئیں‘‘۔ آپ فرماتے ہیں کہ ’’حاصل کلام یہ ہے کہ جب یہ سب حاصل کرنا چاہتا ہے تو تکلیف ہی ہوتی ہے لیکن جب قناعت کر کے سب کو چھوڑ دے تو گویا سب کچھ ملنا ہوتا ہے‘‘۔ فرماتے ہیں کہ ’’نجات اور مُکتی یہی ہے کہ لذّت ہو۔ دکھ نہ ہو۔ دکھ والی زندگی تو نہ اِس جہان کی اچھی ہوتی ہے اور نہ اُس جہان کی‘‘۔ آپ نے فرمایا کہ ’’…..یہ زندگی تو بہرحال ختم ہو جائے گی کیونکہ یہ برف کے ٹکڑے کی طرح ہے خواہ اس کو کیسے ہی صندوقوں اور کپڑوں میں لپیٹ کر رکھو لیکن وہ پگھلتی ہی جاتی ہے‘‘۔ (آپ نے برف کے ساتھ زندگی کی یہ مثال دی کہ اسی طرح کم ہوتی جاتی ہے۔) فرماتے ہیں کہ’’اسی طرح پر خواہ زندگی کے قائم رکھنے کی کچھ بھی تدبیریں کی جاویں لیکن یہ سچی بات ہے کہ وہ ختم ہوتی جاتی ہے اور روز بروز کچھ نہ کچھ فرق آتا ہی جاتا ہے۔ دنیا میں ڈاکٹر بھی ہیں۔ طبیب بھی ہیں مگر کسی نے عمر کا نسخہ نہیں لکھا‘‘۔ (کوئی یہ نسخہ لکھ کے نہیں دے سکتا کہ ہمیشہ انسان زندہ رہے گا یا اتنی عمر ہو گی۔) آپ فرماتے ہیں: ’’جب لوگ بڈھے ہو جاتے ہیں پھر ان کو خوش کرنے کو بعض لوگ آ جاتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ ابھی تمہاری عمر کیا ہے؟‘‘ (تھوڑی سی عمر ہے۔ ساٹھ ستّر برس کی عمر ہے۔ یہ بھی کوئی عمر ہوتی ہے۔ اس قسم کی باتیں کرتے ہیں۔ لیکن یہ سب عارضی باتیں ہیں۔) آپ فرماتے ہیں کہ’’انسان عمر کا خواہشمند ہو کر نفس کے دھوکوں میں پھنسا رہتا ہے۔ دنیا میں عمریں دیکھتے ہیں کہ ساٹھ کے بعد تو قویٰ بالکل گداز ہونے لگتے ہیں۔ بڑا ہی خوش قسمت ہوتا ہے جو اسّی یا بیاسی تک عمر پائے اور قُویٰ بھی کسی حد تک اچھے رہیں ورنہ اکثر نیم سودائی سے ہو جاتے ہیں۔ اسے نہ تو پھر مشورہ میں داخل کرتے ہیں‘‘ (یعنی دوسرے لوگ اس سے مشورہ بھی نہیں لیتے) ’’اور نہ اس میں عقل اور دماغ کی کچھ روشنی باقی رہتی ہے۔ بعض وقت ایسی عمر کے بڈھوں پر عورتیں بھی ظلم کرتی ہیں کہ کبھی کبھی روٹی دینی بھی بھول جاتے ہیں‘‘۔ (گھر والوں کا بھی بعض دفعہ بعض لوگوں سے اچھا سلوک نہیں ہوتا۔) آپ فرماتے ہیں کہ’’مشکل یہ ہے کہ انسان جوانی میں مست رہتا ہے اور مرنا یادنہیں رہتا‘‘ (اور اسی طرح جو بااختیار انسان ہوتا ہے وہ اس کو سمجھتا ہے کہ ہمیشہ یہی حالت رہنی ہے۔) آپ فرماتے ہیں کہ ’’بُرے بُرے کام اختیار کرتا ہے اور آخر میں جب سمجھتا ہے تو پھر کچھ کر ہی نہیں سکتا۔ غرض اس جوانی کی عمر کو غنیمت سمجھنا چاہئے‘‘۔ آپ نے وہاں مجلس میں بیٹھے ہوئے ہندو دوست شرمپت کو سمجھاتے ہوئے فرمایا کہ’’جس قدر ارادے آپ نے اپنی عمر میں کئے ہیں ان میں سے بعض پورے ہوئے ہوں گے۔ مگر اب سوچ کر دیکھو کہ وہ ایک بلبلے کی طرح تھے جو فوراً معدوم ہو جاتے ہیں اور ہاتھ پلّے کچھ نہیں پڑتا۔ گزشتہ آرام سے کوئی فائدہ نہیں۔ اس کے تصور سے دکھ بڑھتا ہے‘‘۔ (جب انسان گزشتہ آرام سے گزر جاتا ہے اور پھر تکلیفوں میں آ جاتا ہے تو فرمایا کہ اس کو فائدہ کوئی نہیں ہوتا۔ انسان اس کو سوچتا ہے تو اس سے پھر دکھ بڑھ جاتا ہے۔) فرمایا کہ’’اس سے عقل مند کے لئے یہ بات نکلتی ہے کہ انسان اِبنُ الوقت ہو‘‘۔ (اس وقت کے مطابق چلے، پہچانے۔) ’’رہی زندگی انسان کی جو اس کے پاس موجود ہے۔ جو گزر گیا وہ وقت مر گیا۔ اس کے تصورات بے فائدہ ہیں۔ دیکھو جب ماں کی گود میں ہوتا ہے اس وقت کیا خوش ہوتا ہے۔ سب اٹھائے ہوئے پھرتے ہیں۔ وہ زمانہ ایسا ہوتا ہے کہ گویا بہشت ہے اور اب یاد کر کے دیکھو کہ وہ زمانہ کہاں ہے؟‘‘ (وہ بھی گزر گیا۔ دنیا کی ساری چیزیں عارضی ہیں۔ آسانیاں بھی عارضی ہیں۔ اس لئے کسی کو جب آسانیاں ملیں، اختیارات ملیں، حکومتیں ملیں تو ان چیزوں کو سامنے رکھنا چاہئے۔) آپ نے فرمایا کہ’’یہ زمانے پھر کہاں مل سکتے ہیں؟‘‘ آپ ایک واقعہ حکایت، روایت بیان کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ ’’ایک بادشاہ چلا جاتا تھا۔ چند چھوٹے لڑکوں کو دیکھ کر رو پڑا کہ جب سے اس صحبت کو چھوڑا دکھ پایا ہے‘‘۔ (رو اس لئے پڑا کہ چھوٹے بچے کھیل رہے ہیں اور ہر فکر سے آزاد ہیں۔ اس کو اپنا یہی بچپن یاد آ گیا کہ کیا وہ زمانہ تھا اور اب ایسا زمانہ ہے۔ تو بادشاہوں کو بھی باوجود آراموں کے سکون اور چین نہیں آتا۔ آپ فرماتے ہیں کہ صرف یہ ہے کہ احساس ہونا چاہئے۔) آپ فرماتے ہیں کہ’’پیرانہ سالی کا زمانہ بُرا ہے۔ اس وقت عزیز بھی چاہتے ہیں کہ مر جاوے اور مرنے سے پہلے قویٰ مر جاتے ہیں۔‘‘ (بعضوں عزیزوں کے دل ایسے سخت ہوتے ہیں کہ وہ مریض کی حالت دیکھ کے یا بڑھاپا دیکھ کے کہتے ہیں کہ اس نے ہمارے پہ کیا بوجھ ڈالا ہوا ہے۔ آپ فرماتے ہیں زندگی کے بارے میں ہی فرماتے ہیں کہ) ’’دانت گر جاتے ہیں۔ آنکھیں جاتی رہتی ہیں اور خواہ کچھ ہی ہو آخر پتھر کا پُتلا ہوجاتا ہے۔ شکل تک بگڑ جاتی ہے اور بعض ایسی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ آخر خود کشی کر لیتے ہیں‘‘۔ (اور یہ بھی ہم زمانے میں دیکھتے ہیں کہ دنیا میں اسی طرح ہو رہا ہے۔ تو انسان کی تو کوئی حیثیت نہیں ہے لیکن پھر بھی جب اس کو طاقت مل رہی ہوتی ہے تو جو جوانی ہوتی ہے، جب دولت حاصل کرنے کا وقت ہو رہا ہوتا ہے، طاقت ہوتی ہے اس وقت وہ بھول جاتا ہے کہ آئندہ میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔) آپ فرماتے ہیں کہ’’بعض اوقات جن دکھوں سے بھاگنا چاہتا ہے یکدفعہ ان میں مبتلا ہو جاتا ہے اور اگر اولاد ٹھیک نہ ہو تو اَور بھی دکھ اٹھاتا ہے۔ اس وقت سمجھتا ہے کہ غلطی کی اور عمر یوں ہی گزر گئی۔‘‘ (اس وقت یاد آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلنا ہی بہتر تھا اور اس کے مطابق زندگی گزارنی چاہئے تھی بجائے اس کے کہ دنیا میں پڑ کے انسان اللہ تعالیٰ کو بھول جائے۔ پس بہت سے فرعون بھی گزرے۔ ہامان بھی گزرے بڑے بڑے طاقتور لوگ آئے جن کی زندگیوں پر اگر انسان غور کرے تو ان سے پتا چلتا ہے کہ ان کو ان کی دنیاوی جاہ و حشمت کوئی فائدہ نہیں دے سکی۔ آج کی جو حکومتیں ہیں وہ اختیارات کے لحاظ سے اِن سے زیادہ طاقتور حکومتیں تھیں لیکن سب ختم ہو گئیں۔) آپ فرماتے ہیں کہ’’عقل مند وہی ہے جو خدا کی طرف توجہ کرے۔ خدا کو ایک سمجھے اس کے ساتھ کوئی نہیں۔ ہم نے آزما کر دیکھا ہے نہ کوئی دیوی نہ دیوتا کوئی کام نہیں آتا۔ اگر یہ صرف خدا کی طرف نہیں جھکتا تو کوئی اس پر رحم نہیں کرتا۔ اگر کوئی آفت آجاوے تو کوئی نہیں پوچھتا۔ انسان پر ہزاروں بلائیں آتی ہیں۔ پس یاد رکھو کہ ایک پروردگار کے سوا کوئی نہیں۔ وہی ہے جو ماں کے دل میں بھی محبت ڈالتا ہے۔ اگر اس کے دل کو ایسا پیدا نہ کرتا تو وہ بھی پرورش نہ کر سکتی۔ اس لئے اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو‘‘۔ یہ آپ نے اس ہندو کو نصیحت کی۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد 3 صفحہ 422 تا 425۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

دیوی دیوتا ظاہری شکل میں بھی بعض مذہب میں لوگ بناتے ہیں اور یہ جو دنیاوی چیزیں ہیں، مال ہے، اولاد ہے، طاقت ہے، حکومت ہے۔ یہ بھی انسان اللہ تعالیٰ کے شریک بنا کر کھڑے کر لیتا ہے۔ اور پھر دوستیاں ہیں یا جیسا میں نے مثال دی کہ بعض ملک بڑے ملکوں کی پناہ میں آنا چاہتے ہیں۔ ان کو خدا بنا لیتے ہیں تو یہ سب چیزیں ختم ہونے والی ہیں۔ اور پھر جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جہنم ایسوں کا ٹھکانہ بن جاتی ہے۔ پھر ایک موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:

’’یہ خوب یاد رکھو کہ جو شخص خدا تعالیٰ کے لئے ہو جاوے خدا تعالیٰ اس کا ہو جاتا ہے اور خدا کسی کے دھوکے میں نہیں آتا۔ اگر کوئی یہ چاہے کہ ریا کاری اور فریب سے خدا کو ٹھگ لوں گا تو یہ حماقت اور نادانی ہے۔ وہ خود ہی دھوکہ کھا رہا ہے۔ دنیا کے زیب، دنیا کی محبت ساری خطاکاریوں کی جڑ ہے۔ اس میں اندھا ہو کر انسان انسانیت سے نکل جاتا ہے اور نہیں سمجھتا کہ مَیں کیا کر رہا ہوں اور مجھے کیا کرنا چاہئے تھا۔ جس حالت میں عقل مند انسان کسی کے دھوکہ میں نہیں آ سکتا تو اللہ تعالیٰ کیونکر کسی کے دھوکہ میں آ سکتا ہے۔ مگر ایسے افعالِ بد کی جڑ دنیا کی محبت ہے اور سب سے بڑا گناہ جس نے اس وقت مسلمانوں کو تباہ حال کر رکھا ہے اور جس میں وہ مبتلا ہیں وہ یہی دنیا کی محبت ہے۔ سوتے جاگتے، اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے ہر وقت لوگ اسی غم و ہمّ میں پھنسے ہوئے ہیں‘‘۔ (صرف دنیا کا غم رہ گیا ہے) ’’اور اس وقت کا لحاظ اور خیال بھی نہیں کہ جب قبر میں رکھے جاویں گے۔ ایسے لوگ اگر اللہ تعالیٰ سے ڈرتے اور دین کے لئے ذرا بھی ہمّ و غم رکھتے تو بہت کچھ فائدہ اٹھا لیتے۔‘‘ (احمدی اور غیر احمدی میں کیا فرق ہے؟ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 483۔ کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن 2009ء مطبوعہ انگلستان)

پس ایک مومن کا کام ہے کہ دنیا کی فکروں میں پڑنے کی بجائے اپنی آخرت کو سنوارنے اور خدا تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کی فکر کرے۔ اس میں قناعت پیدا ہو۔ دنیاوی سامانوں کو اللہ تعالیٰ کی نعمتیں سمجھتے ہوئے استعمال تو کرے، انہیں معبودنہ بنائے یا انہی کے پیچھے دوڑتا نہ پھرے۔ معبود وہی ہے جو ہمارا حقیقی معبود ہے۔ محبت سب سے زیادہ خدا تعالیٰ سے ایک مومن کو کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ سے محبت ہی انسان میں پھر تقویٰ بھی پیدا کرتی ہے اور قناعت بھی پیدا کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مومن کی یہی نشانی بتائی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ(البقرۃ: 166) اور جو لوگ مومن ہیں وہ سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اللہ تعالیٰ سے محبت کے سلسلہ میں بیان فرماتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

’’جاننا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کی غیّوری محبت ذاتیہ میں کسی مومن کی اس کے غیر سے شراکت نہیں چاہتی۔‘‘ اللہ تعالیٰ کو اس بات کی بڑی غیرت ہےکہ ذاتی محبت میں کوئی شرکت نہیں ہونی چاہئے۔) فرمایا کہ ’’ایمان جو ہمیں سب سے زیادہ پیارا ہے وہ اسی بات سے محفوظ رہ سکتا ہے کہ ہم محبت میں دوسرے کو اس سے شریک نہ کریں۔ اللہ جلّ شانہٗ مومن کی یہ علامت فرماتا ہے وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّالِّلّٰہِ۔ یعنی جو مومن ہیں وہ خدا سے بڑھ کر کسی سے دل نہیں لگاتے۔ محبت ایک خاص حق اللہ جلّ شانہٗ کا ہے۔ جو شخص اس کا حق دوسرے کو دے گا وہ تباہ ہو گا۔ تمام برکتیں جو مردانِ خدا کو ملتی ہیں اور تمام قبولیتیں جو اُن کو حاصل ہوتی ہیں کیا وہ معمولی وظائف سے یا معمولی نماز روزے سے ملتی ہیں؟ ہرگز نہیں۔ بلکہ وہ توحید فی المحبت سے ملتی ہیں۔‘‘ اللہ تعالیٰ کی محبت میں فنا ہونے سے ملتی ہیں۔ ’’جو اُسی کے ہو جاتے ہیں۔ اُسی کے ہو رہتے ہیں۔ اپنے ہاتھ سے دوسروں کو اس کی راہ میں قربان کرتے ہیں‘‘۔ فرمایا کہ’’مَیں خوب اس درد کی حقیقت کو پہنچتا ہوں جو ایسے شخص کو ہوتا ہے کہ یکدفعہ وہ ایسے شخص سے جدا کیا جاتا ہے جس کو وہ اپنے قالب کی گویا جان جانتا تھا۔ لیکن مجھے غیرت اس بات میں ہے کہ ہمارے حقیقی پیارے کے مقابل پر کوئی اَور نہ ہونا چاہئے۔ ہمیشہ سے میرا دل یہ فتویٰ دیتا ہے کہ غیر سے مستقل محبت کرنا جس سے الٰہی محبت باہر ہو خواہ وہ بیٹا ہو یا دوست، کوئی ہو، ایک قسم کا کفر اور کبیرہ گناہ ہے جس سے اگر نعمت اور رحمت الٰہی تدارک نہ کرے تو سلبِ ایمان کا خطرہ ہے‘‘۔ (الحکم 10 اگست1901ء صفحہ 9 نمبر 29 جلد5۔ تفسیر حضرت مسیح موعود علھیہ السلام سورۃالبقرہ زیر آیت 166)

یہ تو اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے۔ اس کی نعمت ہے کہ وہ ایسے مواقع پیدا کر دیتی ہے۔ نہیں تو پھر ایمان ضائع ہو جاتا ہے۔

پس ایک حقیقی مومن سوچ بھی نہیں سکتا۔ دنیا کے سامانوں کی محبت شہوت بن کر اس کے سامنے آجائیں گی۔ اس کے لئے تقویٰ میں ترقی کرنا اور قناعت پیدا کرنا ایک مومن کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ’’متقی بنو سب سے بڑے عابد بن جاؤ گے‘‘۔ خدا تعالیٰ کی محبت اور تقویٰ دل میں پیدا ہو گا تو پھر اللہ تعالیٰ کی عبودیت اور عبادت کا حق بھی انسان ادا کر سکتا ہے۔ ایک حقیقی عابد کا کام یہ ہے کہ اس میں قناعت بھی ہو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر قناعت پیدا کرو گے تو شکر گزار بھی بنو گے۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الزھد باب الورع والتقویٰ حدیث 4217)۔ اور سب سے بڑھ کر ایک مومن خدا تعالیٰ کا شکر گزار ہوتا ہے اور ہونا چاہئے۔ جو لوگ منہ سے تو بیشک یہ کہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے والے ہیں لیکن دنیاوی سامانوں اور دنیاوی جاہ و حشمت کے پیچھے دوڑنے والے حقیقت میں حُبُّ الشَّھَوَات میں مبتلا ہیں وہ کبھی حقیقی شکر گزار نہیں ہو سکتے۔ ایسے دنیا داروں کا نقشہ کھنچتے ہوئے ایک موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابن آدم کے پاس سونے کی ایک وادی بھی ہو تب بھی وہ چاہتا ہے کہ اس کے پاس دوسری وادی بھی آ جائے۔ فرمایا کہ اس کے منہ کو سوائے مٹی کے اور کوئی چیز نہیں بھر سکتی۔ قبر میں جائے گا تبھی اس کی لالچ ختم ہو گی۔ اور پھر آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والے کی توبہ قبول کرتا ہے۔ (صحیح البخاری کتاب الرقاق باب ما یتقی من فتنۃ المال حدیث 6438)۔ پس زندگی میں وقت ہوتا ہے۔ انسان کو چاہئے کہ اگر کوئی غلطیاں ہوں بھی تو توبہ کرے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک مومن کے قناعت کا معیار بیان فرماتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جس شخص نے دلی اطمینان اور جسمانی صحت کے ساتھ صبح کی اور اس کے پاس ایک دن کی خوراک ہے۔ اس نے گویا ساری دنیا جیت لی اور اس کی ساری نعمتیں اسے مل گئیں۔ (سنن الترمذی ابواب الزھد باب فی الوصف من حیزت لہ الدنیا حدیث 2346)۔ پس ایک مومن کے لئے یہ قناعت کا معیار ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم میں یہ قناعت پیدا کرے۔ تقویٰ پیدا کرے۔ دنیاوی چیزوں کی محبت کے بجائے خدا تعالیٰ سے محبت کا حصول ہمارا مقصود ہو اور اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور رِضوان ہم حاصل کرنے والے ہوں۔ اس کے بعد میں اس دعا کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں جیسا کہ مَیں نے پہلے مختصر ذکر کیا ہے کہ مسلمان ممالک کے لیڈر جو دنیاوی خواہشات کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور جنہوں نے عملاً خدا تعالیٰ کے بجائے بڑی طاقتوں کو اپنا خدا بنایا ہوا ہے اور سمجھتے ہیں کہ ان سے دوستی ہماری بقا اور ترقی کی ضمانت بن سکتی ہے حالانکہ امریکہ کے بارے میں ہی لے لیں۔ ان کا حال یہ ہے کہ جرمنی کے اخبار میں ایک تجزیہ نگار نے گزشتہ دنوں مضمون لکھا۔ اس نے لکھا ہے کہ اَور بہت ساری باتوں میں ایک بات یہ بھی ہے کہ دنیا جو واشنگٹن کو اپنا ماڈل سمجھتی تھی، سمجھتی ہے یا اس کی طرف رخ کیا ہوا ہے یا اپنے لئے سمجھتے ہیں کہ یہ ہمارے لئے ایک ایسا ماڈل ہے جس کے پیچھے ہمیں چلنا چاہئے۔ شاید اب اس کی وہ حیثیت نہیں رہی۔ لکھتا ہے کیونکہ اس کی جگہ اب بیجنگ جو چین کا دارالحکومت ہے وہ ماڈل بن رہا ہے۔ امریکہ اپنی ساکھ کھو چکا ہے اور اپنا مقام کھو چکا ہے۔ پس دنیاوی سہارے تو عارضی سہارے ہیں آج آئے کل چلے گئے۔ مسلمانوں کو اب اس سے سمجھنا چاہئے۔ یہ جو یروشلم میں سفارت خانہ منتقل کرنے کا اعلان ہوا ہے وہ بھی اسی لئے امریکہ نے کیا ہے کہ اس طرح شاید اسرائیل کے ساتھ تعلق بہتر ہو جائیں اور زیادہ مضبوط ہو جائیں اور اس کی ساکھ قائم ہو سکے۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے زوال آتا ہے تو پھر دنیاوی دوستیاں اور معاہدے کام نہیں آیا کرتے۔ لگتا ہے کہ اب ان بڑی طاقتوں پہ بھی خاص طور پہ امریکہ پہ بھی یہ کام شروع ہو چکا ہے اور نتیجہ کب نکلتا ہے، یہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ لیکن ان حالات میں اب مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کی کوششیں مزید تیز تر ہوں گی۔ اس لئے مسلمان دنیا کے لئے ہمیں دعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں عقل دے۔ اب یہ متحد ہو جائیں اور ملکوں ملکوں کے درمیان جو جنگوں کا امکان ہے اور مسلمان ملکوں کے اندر جو آپس میں لڑائیاں ہو رہی ہیں اور ہزاروں بلکہ بعض اعدادو شمار کے مطابق لاکھوں جانیں ضائع ہو گئی ہیں یہ بھی دُور ہو۔ اللہ تعالیٰ ان کو عقل دے اور یہ ایک قوم بن کر رہنے والے ہوں۔ آپس کی لڑائیوں کو ختم کریں تا کہ اسلام کے دشمن اپنا مفاد حاصل نہ کر سکیں اور سب سے بڑھ کر ہمیں یہ دعا بھی کرنی چاہئے کہ مسلمان اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے مسیح موعود اور مہدی معہود کو پہچانیں جس کے ساتھ جڑ کر یہ آپس میں بھی اور دنیا میں بھی امن قائم کرنے والے بن سکتے ہیں۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • پاؤر پوائنٹ PowerPoint
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 8؍ دسمبر 2017ء شہ سرخیاں

    یہ بات ہمیشہ ایک مومن کو اپنے سامنے رکھنی چاہئے کہ دنیاوی چیزوں کی محبت ایسی نہ ہو جو خدا تعالیٰ کو بھلا دے۔

    آجکل جو مسلمان ملکوں میں فساد کی حالت ہے وہ اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو دین سے دُور ہٹے ہوؤں کی اور دنیاداروں کی حالت بتائی تھی وہ مسلمانوں کی ہے۔ لیڈر ہیں تو دولت سمیٹنے کے لئے عوام کی خدمت کا نعرہ لگا کر حکومت میں آتے ہیں اور پھر دونوں ہاتھوں سے وہ لوٹ مچاتے ہیں کہ تصور سے باہر ہے۔ علماء کو عوام کے دین کی بہتری کی فکر کم ہے۔ اصل کوشش یہ ہے کہ دین کے نام پر عوام کو اپنے پیچھے چلائیں اور کسی طرح حکومت میں آئیں یا حکومت سے مفاد اٹھائیں اور دولت اکٹھی کریں اور جائیدادیں بنائیں۔ نام تو یہ اللہ کا لیتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے خوف کا کوئی بھی اظہار ان کے عمل سے نہیں ہو رہا ہوتا۔ پاکستان میں یہ حالات ہم عام دیکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو، ان حکمرانوں کو، ان بادشاہوں کو، ان مفاد پرستوں کو عقل دے کہ وہ دولتیں سمیٹنے کی بجائے دولت کا صحیح استعمال کرنے والے ہوں۔ اس کا صحیح مَصرف کرنے والے ہوں۔ اس سے جہاں یہ خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہوں گے وہاں دنیاوی اعتبار سے بھی ان کی ایک طاقت ہو گی۔

    ایک مومن کا کام ہے کہ دنیاوی چیزوں پر فخر کرنے اور اس کے حصول کے لئے اپنی تمام تر کوششیں صَرف کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور رضا تلاش کرے۔

    بعض ملک بڑے ملکوں کی پناہ میں آنا چاہتے ہیں ان کو خدا بنا لیتے ہیں۔ یہ سب چیزیں ختم ہونے والی ہیں۔ مسلمان ممالک کے لیڈر جو دنیاوی خواہشات کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور جنہوں نے عملاً خدا تعالیٰ کے بجائے بڑی طاقتوں کو اپنا خدا بنایا ہوا ہے اور سمجھتے ہیں کہ ان سے دوستی ہماری بقا اور ترقی کی ضمانت بن سکتی ہے لیکن جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے زوال آتا ہے تو پھر دنیاوی دوستیاں اور معاہدے کام نہیں آیا کرتے۔ لگتا ہے کہ اب ان بڑی طاقتوں پہ بھی خاص طور پہ امریکہ پہ بھی یہ کام شروع ہو چکا ہے اور نتیجہ کب نکلتا ہے، یہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ لیکن مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کی کوششیں اب ان حالات میں مزید تیز تر ہوں گی اس لئے مسلمان دنیا کے لئے ہمیں دعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں عقل دے۔

    سب سے بڑھ کر ہمیں یہ دعا بھی کرنی چاہئے کہ مسلمان اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے مسیح موعود اور مہدی معہود کو پہچانیں جس کے ساتھ جڑ کر یہ آپس میں بھی اور دنیا میں بھی امن قائم کرنے والے بن سکتے ہیں۔

    فرمودہ مورخہ 08؍ دسمبر 2017ء بمطابق 08؍فتح 1396 ہجری شمسی، بمقام مسجدبیت الفتوح، مورڈن، لندن، یوکے

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور