آنحضرتؐ کے صحابہؓ کا اخلاص و فدائیت، عبادات،قربانیاں اور اخلاق حسنہ
خطبہ جمعہ 22؍ دسمبر 2017ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
گزشتہ خطبہ میں مَیں نے صحابہ رضوان اللہ علیہم کی شان، ان کے فضائل اور ان کے نمونوں کے حوالے سے بعض صحابہ کی زندگیوں کے حالات بیان کئے تھے۔ اَور بھی بیان کرنا چاہتا تھا لیکن وقت کی وجہ سے بیان نہیں کر سکا۔ بعد میں لوگوں کے خطوط سے مجھے احساس ہوا کہ کم از کم جو نوٹس میں نے لئے تھے وہ بیان کر دوں تاکہ جہاں صحابہ کے حالات کا علم ہو، ان کی قربانیوں کا علم ہو، وہاں ہمیں ان کے نمونوں کو اپنانے کی طرف توجہ بھی پیدا ہو۔ لہٰذا آج میں اسی حوالے سے پھر بات کروں گا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک جلیل القدر صحابی ابوعبیدۃ بن الجراح تھے۔ ایک صحابی ہونے کی حیثیت سے یقیناً اُن کا ایک مقام تھا۔ بہت ساری خصوصیات کے حامل تھے۔ لیکن آپ کے امین ہونے کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو سند عطا کی ہے اس کا روایت میں یوں ذکر ملتا ہے کہ نجران کے وفدنے جب نجران والوں سے کسی کو خراج وصول کرنے کے لئے بھجوانے کے لئے کہا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مَیں تمہارے پاس ضرور ایسا شخص بھیجوں گا یعنی ایک ایسا امین جو سراسر امین ہو گا۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ پھر گردنیں اٹھا اٹھا کر دیکھنے لگے کہ دیکھیں کون ہے وہ شخص جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ اعزاز بخش رہے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابو عبیدۃ کھڑے ہو جائیں اور حضرت ابو عبیدۃ کو وہاں بھیجنے کا ارشاد فرمایا۔ (صحیح البخاری کتاب المغازی باب قصۃ اہل نجران حدیث 4380)
ان کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد کی حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس طرح روایت ملتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر ایک اُمّت کا ایک امین ہوتا ہے اور اے میری اُمّت ہمارے امین عبیدۃ بن الجراح ہیں۔ (صحیح البخاری کتاب المناقب باب مناقب ابی عبیدۃ بن الجراحؓ حدیث 3744)
کتنا بڑا اعزاز ہے جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو نوازا۔ پھر غزوۂ اُحد میں آپ کے ایک ایسے واقعہ کا ذکر ملتا ہے جس نے آپ کو ایک عظیم مرتبہ عطا کر دیا۔
اُحد کی جنگ میں پہلے مسلمانوں کی جیت ہوئی۔ پھر ایک جگہ چھوڑنے کی وجہ سے کافروں نے دوبارہ حملہ کیا اور جب دشمنان اسلام کی طرف سے بڑی شدت سے پتھر پھینکے جا رہے تھے۔ جب جنگ کا پانسا پلٹا تو اس وقت پھر انہوں نے پتھر بھی پھینکے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھی پتھر پھینکے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑی شدت سے بعض پتھر لگے اور آپ کے خَود کی دو کَڑیاں جو چہرے پر پہنا ہوا تھا۔ لوہے کی وہ کڑیاں تھیں جو ٹوٹ کر آپ کے رخسار مبارک میں دھنس گئیں تو حضرت ابوعبیدۃ تھے جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے رخسار سے یہ کَڑیاں نکالیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ پہلے ایک کڑی کو انہوں نے اپنے دانتوں سے پکڑا اور زور سے کھینچا۔ وہ اندر کھبی ہوئی تھی تو وہ باہر نکل آئی۔ لیکن اتنا زور لگانا پڑا کہ جب وہ کڑی باہر نکلی تو جھٹکے سے ابو عبیدۃ پیچھے گرے اور اس کے ساتھ ہی آپ کا اگلا ایک دانت بھی ٹوٹ گیا۔ پھر انہوں نے دوسری کڑی کو بھی اسی طرح دانتوں میں دبا کر کھینچا تو آپ کا دوسرا دانت بھی ٹوٹ گیا اور پھر آپ اسی طرح پیچھے گرے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ مبارک پر وہ اتنی زور سے اتنی گہرائی سے اندر کھبی ہوئی تھیں۔ تو یہ ہے وہ عشق و فدائیت کا واقعہ جو رہتی دنیا تک ابوعبیدۃ کا ذکر زندہ رکھے گا۔ اس وقت لوگ کہا کرتے تھے اور یہ روایت میں آتا ہے کہ اگلے دو ٹوٹے ہوئے دانتوں والا اتنا خوبصورت شخص ہم نے کبھی نہیں دیکھا جتنے حضرت ابوعبیدۃ تھے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 218 ومن بنی فہر بن مالک … ابو عبیدۃ بن الجراحؓ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء)
عموماً دانت ٹوٹنے سے تھوڑی سی شکل میں فرق پڑ جاتا ہے لیکن کہتے ہیں ان کے دانت ٹوٹنے کے باوجود ان کی خوبصورتی میں اضافہ ہی ہوا۔
ان کی عاجزی آپس کے تعاون اور حکمت سے معاملہ کو طے کرنے کا واقعہ یوں بیان ہوتا ہے کہ ایک مہم پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرو بن العاص کو لشکر کا سردار بنا کر بھیجا۔ وہاں جا کر پتا چلا کہ دشمن کی تعداد زیادہ ہے۔ ان کے لشکر میں زیادہ تر صرف اَعرابی تھے اور مہاجرین اور بڑے صحابہ کم تھے۔ اس پر حضرت عمرو بن العاص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مزید مدد طلب کی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوعبیدۃ کی سرکردگی میں ایک دستہ بھجوایا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوعبیدۃ کو یہ نصیحت فرمائی کہ دونوں امراء باہم تعاون سے کام کرنا۔ مگر عمرو بن عاص نے اس خیال سے کہ جو نئی کمک پہنچی تھی یہ فوج تو مدد کے لئے آئی ہے اس لئے ان کے تابع ہے۔ ابوعبیدۃ کے سپاہیوں کو براہ راست انہوں نے ہدایت دینی شروع کر دی اور حضرت ابوعبیدہ کے تحت جو بزرگ صحابہ تھے ان کے کہنے کے باوجود کہ ابوعبیدۃ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے امیر بنا کر اور آزاد طور پر فوج کا سردار بنا کر بھیجا ہے۔ اور فرمایا تھا کہ ایک دوسرے سے تعاون کر کے کارروائی کرنا کہ عمرو بن عاص بھی لشکر کے سردار ہیں۔ یہ اپنے لشکر کے سردار ہیں۔ لیکن آپس میں تعاون سے کارروائی کرنا۔ لیکن عمرو بن عاص نے کہا کہ امیر تو مَیں ہی ہوں کیونکہ پہلے مجھے بھیجا گیا ہے۔ اس موقع پر بجائے کسی بحث میں پڑنے کے حضرت ابوعبیدۃ نے کہا کہ گو کہ مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آزاد امیر کے طور پر بھجوایا ہے مگر ساتھ ہی باہمی تعاون کا بھی ارشاد فرمایا تھا اس لئے میری طرف سے آپ کو تعاون ہی ملے گا چاہے آپ میری بات مانیں یا نہ مانیں۔ مَیں ہر بات میں آپ کی بات مانوں گا۔ (الاصابۃ فی تمیز الصحابۃ جلد 3 صفحہ477 عامر بن عبد اللہ بن الجراحؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2005ء)
پس یہ ہے موقع کی نزاکت کے لحاظ سے صحیح فیصلہ کر کے مسلمانوں کی طاقت کو مضبوط کرنے کے لئے اپنے اختیارات کو بھی چھوڑ دینا۔ یہ تعاون باہمی ہے جس کی آج مسلمانوں کو ضرورت ہے جو آج مسلمانوں کی طاقت کو ایک عظیم طاقت بنا سکتا ہے۔ کاش کہ مسلمان لیڈروں کو بھی اتنی عقل آ جائے کہ اس طرح آپس میں تعاون کریں۔ اور حکومت کو انصاف سے چلانے اور دشمن کو اپنا گرویدہ کر لینے کی بھی مثالیں حضرت ابوعبیدۃ کی ذات میں ہی ملتی ہیں۔ جب بادشاہ روم نے ملک بھر سے فوجیں جمع کر کے مسلمانوں کے مقابلے کے لئے بھیجیں تو اس وقت مسلمانوں کے لشکر کے سردار ابوعبیدۃ تھے۔ مسلمانوں کو پہلے فتوحات ہوئی تھیں۔ مسلمانوں نے قبضہ کر لیا تھا۔ پھر ایک بڑی فوج شہنشاہ روم نے بھیجی۔ عیسائیوں کے بہت سارے علاقوں پر، شہروں پر مسلمانوں کا قبضہ تھا۔ حضرت ابوعبیدۃ نے جرنیلوں سے مشورہ کے بعد اس وقت یہ حکمت عملی اختیار کی کہ فی الحال بعض شہر ہمیں چھوڑ دینے چاہئیں۔ جو علاقہ مسلمان فتح کر چکے ہیں اسے چھوڑ دیا جائے لیکن یہ فتح کے بعد کیونکہ وہاں کے غیرمسلم باشندوں سے جزیہ اور خراج وصول کر چکے تھے تو اسے آپ نے یہ کہہ کر ان سب لوگوں کو واپس کر دیا کہ فی الحال ہم تمہاری حفاظت نہیں کر سکتے۔ تمہارے حقوق ادا نہیں کر سکتے اس لئے یہ رقم جو ہم نے تم سے بطور جزیہ و خراج وصول کی ہے اسے ہم واپس کرتے ہیں۔ چنانچہ مفتوحہ علاقے کے لوگوں کی رقم جو لاکھوں میں تھی واپس کر دی۔ اس انصاف اور امانت کی ادائیگی کا غیر مسلموں پر اتنا اثر ہوا کہ مقامی عیسائی باشندے مسلمانوں کو رخصت کرتے ہوئے روتے تھے اور دل سے یہ دعا کر رہے تھے کہ خدا تمہیں پھر جلد واپس لائے۔ (سیر الصحابہؓ جلد دوم صفحہ 129 سیرت ابو عبیدۃ بن الجراحؓ مطبوعہ دار الاشاعت کراچی 2004ء) (فتوح البلدان (بلاذری) صفحہ87، 83یوم یرموک مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2000ء)
یہ تھے وہ لوگ جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہ کر عدل و انصاف کے وہ معیار قائم کئے جن کا تصور بھی نہ پہلے کوئی کر سکتا تھا اور نہ اب کر سکتا ہے۔ آج دنیا کے امن کی ضمانت یہ عدل اور انصاف اور امانت کا حق ادا کرنے سے ہی ہو سکتی ہے نہ کہ بڑی حکومتوں کا چھوٹی حکومتوں کو مجبور کرنا کہ ہماری مرضی کے مطابق چلو ورنہ ہم تمہارے خلاف کارروائی کریں گے۔ اور نہ ہی یہ ہے جو اکثر مسلمان ملکوں میں ہو رہا ہے کہ عوام سے ٹیکس وصول کر کے پھر ان پر خرچ کرنے کی بجائے اکثر لیڈر اپنے خزانے بھر رہے ہیں اور نعرہ حُبِّ رسول کا اور صحابہ کی محبت کا لگاتے ہیں۔ پھر حضرت عباسؓ ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کےچچا تھے۔ فیاضی اور صلہ رحمی میں مشہور تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عباس قریش میں سے سب سے زیادہ سخی اور صلہ رحمی کرنے والے ہیں۔ اس بات کو سن کر حضرت عباس نے ستر غلام آزاد کر دئیے۔ (اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 62 عباس بن عبد المطلبؓ مطبوعہ دار الفکر بیروت 2003ء)
یہ تھے ان لوگوں کی سخاوت کے معیار۔
پھر حضرت جعفرؓ ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازاد بھائی تھے۔ حضرت علیؓ کے سگے بھائی تھے۔ انہوں نے بھی ابتدائی زمانے میں اسلام قبول کرنے کی سعادت پائی اور مکّہ میں حالات کی وجہ سے حبشہ ہجرت کی۔ مکہ والوں کو جب علم ہوا تو انہوں نے اپنے دو سرداروں کو بہت سے تحائف دے کر حبشہ بھیجا اور وہاں کے سرداروں وغیرہ کے لئے اس پیغام کے ساتھ تحفے بھیجے کہ ہمارے کچھ ناسمجھ نوجوان اپنا دین چھوڑ کر یہاں تمہارے ملک میں آ گئے ہیں اور تمہارا دین بھی انہوں نے اختیار نہیں کیا۔ بالکل نیا دین ہے اور اس ذریعہ سے انہوں نے سرداروں کے ذریعہ سے، بڑے لوگوں کے ذریعہ سے ان کو تحفے دے کر یہ سفارش کروانا چاہی کہ شاہ حبشہ سے ہماری ملاقات کروا دو اور اسی طرح بادشاہ کے لئے بھی بہت سے تحائف لے کر گئے تھے۔ ملاقات ہوئی۔ بادشاہ کو تحائف بھی انہوں نے دئیے۔ بہرحال نجاشی نے جو شاہ حبشہ تھے ان کافروں کی یا مکہ کے نمائندوں کی بات سننے کے بعد مسلمانوں کو اپنے دربار میں بلایا۔ مسلمان بڑی پریشانی کے عالم میں گئے کہ پتا نہیں ہم سے کیا سلوک ہوتا ہے۔ نجاشی نے ان سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ تم نے اپنا دین چھوڑ دیا ہے۔ نہ ہی تم نے کسی پہلی اُمّت کا دین اختیار کیا ہے اور نہ ہمارا یعنی عیسائیت۔ حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس موقع پر مسلمانوں کی طرف سے نمائندگی کی اور کہا کہ اے بادشاہ ہم جاہل قوم تھے۔ بتوں کی پرستش کرتے تھے۔ مُردار کھاتے تھے۔ بدکاری کرنا اور رشتہ داروں سے بدسلوکی کرنا ہمارا معمول تھا۔ ہم میں سے طاقتور کمزور کو دبا لیتا تھا۔ ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے ہم میں ایک رسول مبعوث فرمایا جس کی شرافت اور صدق و امانت اور پاکدامنی اور خاندانی نجابت سے ہم خوب واقف تھے۔ اس نے ہمیں خدا تعالیٰ کی توحید اور عبادت کی طرف بلایا اور یہ تعلیم دی کہ ہم خدا کا کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ نہ ہی بتوں کی پرستش کریں۔ اس نے ہمیں صدق و امانت، صلہ رحمی، پڑوسیوں سے حسن سلوک اور بلا وجہ لڑائی اور خون بہانے سے منع کیا۔ بے حیائیوں سے بچنے کا کہا۔ جھوٹ بولنے اور یتیم کا مال کھانے اور پاک دامنوں پر الزام لگانے سے منع کیا۔ ہمیں حکم دیا کہ ہم خدائے واحد کی عبادت کریں۔ ہم نے اسے قبول کیا اور اس کی باتوں پر عمل کرتے ہیں۔ اس بات کی وجہ سے ہماری قوم ہمارے خلاف ہو گئی اور ہمیں اذیّتیں دیں۔ تکلیفوں میں ڈالا۔ اور جب انتہا ہو گئی تو ہم اپنا ملک چھوڑ کر آپ کی پناہ میں آ گئے ہیں کیونکہ آپ کے عدل و انصاف کا شُہرہ سنا تھا۔ اے بادشاہ ہم امید رکھتے ہیں کہ اس ملک میں ہم پر کوئی زیادتی نہیں کی جائے گی۔ نجاشی اس سے بڑا متأثر ہوا اور کہا کہ تمہارے رسول پر جو کلام اترا ہے اس میں سے مجھے بھی کچھ پڑھ کر سناؤ۔ اس پر انہوں نے سورۃ مریم کی کچھ آیات پڑھیں اور اس خوش الحانی سے پڑھیں کہ نجاشی رونے لگا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور کہا کہ خدا کی قسم لگتا ہے یہ کلام اور موسیٰ کا کلام ایک ہی سرچشمہ سے ہیں۔ اور مکہ کے سفیروں کو کہا کہ میں تمہیں یہ لوگ واپس نہیں کروں گا۔ یہ اب یہیں رہیں گے۔ مکہ کے ان سفیروں نے مشورہ کے بعد یہ ترکیب کی کہ بادشاہ کو کہا کہ یہ لوگ عیسیٰ کو عیسائیوں کے عقیدہ کے مطابق نہیں مانتے اور اس کا درجہ کم کرتے ہیں۔ بادشاہ نے پھر مسلمانوں کو بلایا اور حضرت عیسیٰ کے بارے میں عقیدہ پوچھا۔ اس پر حضرت جعفرؓ نے کہا کہ اس بارے میں ہمارے نبی پر یہ کلام اترا ہے کہ عیسیٰ اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہے جو اللہ تعالیٰ نے کنواری مریم کو عطا فرمایا۔ نجاشی نے زمین سے ایک تنکا اٹھا کر کہا کہ حضرت عیسیٰ کا مقام اس تنکے سے زیادہ نہیں جو تم نے بیان کیا ہے اور مسلمانوں کو کہا کہ یہاں تمہیں مکمل آزادی ہے۔ (مسند احمد بن حنبل جلد اول صفحہ 539 تا 541 مسند جعفر بن ابی طالبؓ حدیث 1740 مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء)
آپ کی حکمت، فراست اور علم نے مسلمانوں کو وہاں رہنے کے سامان مہیا فرما دئیے۔
ایک صحابی مُصعبؓ بن عمیر تھے۔ ان کی والدہ بڑی مالدار تھیں۔ بڑے امیر لوگ تھے۔ بڑے ناز و نعم میں پلے بڑھے تھے۔ بڑا اعلیٰ لباس پہنا کرتے تھے۔ بڑے خوبصورت جوان تھے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 62 مصعب بن عمیرؓ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء)
سعدؓ بن ابی وقاص کہتے ہیں کہ حضرت مُصعب کو آسائش کے زمانہ میں بھی مَیں نے دیکھا ہے اور مسلمان ہونے کے بعد بھی دیکھا ہے۔ آپ نے راہ مولیٰ میں بڑے دکھ برداشت کئے۔ سعد کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ وہی نوجوان جو بڑے ناز و نعم میں پلا بڑھا تھا اس کی سختیوں کی وجہ سے یہ حالت تھی کہ جسم سے جلد اس طرح اترتی تھی جس طرح سانپ کی کینچلی اترتی ہے۔ (اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 388 مصعب بن عمیرؓ مطبوعہ دار الفکر بیروت 2003ء)
ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مُصعب کو اس حالت میں دیکھا کہ مجلس میں آئے تو پیوند شدہ کپڑوں میں۔ کپڑے کے پیوند بھی نہیں تھے۔ پیوند بھی چمڑے کے لگے ہوئے تھے۔ جو چمڑہ کہیں سے، کسی سے ملا وہی کپڑوں پہ، لباس پر پیوند لگا لیا۔ صحابہ نے ان کی شان و شوکت پہلے دیکھی ہوئی تھی۔ اس لئے بہت ساروں نے ان کی یہ حالت دیکھ کر سر جھکا لیا کیونکہ وہ ان کی مدد کرنے سے بھی معذور تھے۔ جب مجلس میں آکر حضرت مُصعب نے سلام کیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دلی محبت سے سلام کا جواب دیا اور اس امیر شخص کی پہلی حالت اور موجودہ حالت کو دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نےآپ کو حوصلہ دیتے ہوئے فرمایا کہ الحمد للہ۔ دنیا داروں کو ان کی دنیا نصیب۔ میں نے مُصعب کو اس زمانے میں بھی دیکھا ہے جب شہر مکہ میں ان سے بڑھ کر کوئی صاحب ثروت نہیں تھا۔ یہ ماں باپ کی عزیز ترین اولا دتھی اور اسے کھانے پینے کی ہر اعلیٰ نعمت میسر تھی۔ مگر خدا کے رسول کی محبت نے اسے اس حال میں پہنچایا ہے اور جب اس نے وہ سب کچھ خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر چھوڑ دیا تو پھر خدا نے اس کے چہرہ کو نور عطا کر دیا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 62 مصعب بن عمیرؓ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء) (کنز العمال جلد 13 صفحہ 582 حدیث 37494 مصعب بن عمیرؓ مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ 1985ء)
حضرت مُصعبؓ کو تبلیغ کرنے کا بھی خوب ملکہ تھا۔ بڑے پیار سے تبلیغ کرتے تھے اور تبلیغ کرنے والوں کو کہا کرتے تھے کہ اگر میری باتیں پسند آئیں تو سنو۔ نہ پسندآئیں تو نہ سنو۔ اٹھ کے چلے جاؤ۔ اور اس طرح مدینہ کے اجنبی لوگوں تک پیغام حق آپ نے پہنچایا۔ اور بہت سارے لوگ آپ کی تبلیغ کی وجہ سے مسلمان ہوئے۔ (سیرت ابن ہشام صفحہ 311 العقبۃ الاولیٰ … اسعد بن زرارہ و مصعب بن عمیرؓ … الخ مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)
حضرت سعدؓ بن ربیع ایک اور انصاری صحابی تھے۔ جب مدینہ میں ہجرت کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مؤاخات کا سلسلہ قائم کیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حضرت عبدالرحمن بن عوف کا بھائی بنایا۔ وہ انہیں اپنے ساتھ اپنے گھر لے گئے۔ خوب مہمان نوازی کی اور پھر کہا کہ اس اخوت کے رشتے کو بڑھانے کے لئے میرا دل چاہتا ہے کہ میں اپنی آدھی جائیداد آپ کو دے دوں اور پھر یہاں تک کہا کہ میری دو بیویاں ہیں جسے آپ چاہیں مَیں طلاق دے دیتا ہوں۔ آپ اس سے شادی کریں۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف کی بھی کیا مومنانہ شان تھی۔ انہوں نے کہا کہ تمہاری دولت، تمہاری جائیداد، تمہاری بیویاں تمہیں مبارک ہوں۔ اللہ ان میں برکت ڈالے۔ اور کہنے لگے کہ مَیں تو ایک تاجر آدمی ہوں۔ اپنا گزارہ کر لوں گا۔ تم صرف مجھے بازار کا رستہ بتا دو اور تمہارے جذبات کا بہت بہت شکریہ۔ (صحیح البخاری کتاب مناقب الانصار باب اخاء النبیﷺ بین المھاجرین والانصار حدیث 3780-3781)
اس طرح انہوں نے تجارت کی اور ایک وقت تھا کہ وہ بڑے امیر تاجروں میں شمار ہوتے تھے۔ لاکھوں کروڑوں کی ان کی آمد ہو گئی۔
حضرت سعد بن ربیع جنگ اُحد میں بھی شامل ہوئے تھے اور اس میں شہید ہوئے۔ ان کا واقعہ یوں لکھا ہے۔ اُبّی بن کعب کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب فرمایا کہ سعد بن ربیع کا پتا کرو اسے دشمنوں میں گھرے ہوئے میں نے جنگ کے دوران دیکھا تھا۔ تو کہتے ہیں میں سعد کو آوازیں دیتا ہوا نکلا۔ جب سعد تک پہنچے تو دیکھا کہ وہ زخموں سے چُور ہیں اور ایک جگہ پڑے ہوئے ہیں۔ کہتے ہیں مَیں نے انہیں کہا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو سلام بھیجا ہے اور حال پوچھا ہے۔ حضرت سعدؓ نے جواب میں کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو میرا بھی سلام کہنا اور عرض کرنا کہ مجھے نیزوں اور تیروں کے شدید زخم پہنچے ہیں۔ بظاہر بچنا ممکن نہیں لگتا۔ اور یہ کہنا کہ یا رسول اللہ! جتنے خدا کے پہلے نبی گزرے ہیں، ان کی آنکھیں جتنی اپنی قوم سے ٹھنڈی ہوئیں خدا تعالیٰ ان سے بڑھ کر آپ کی آنکھیں ہم سے ٹھنڈی کرے۔ اور میری قوم کو سلام کے بعد یہ کہنا کہ جب تک خدا کا رسول تمہارے اندر موجود ہے اس امانت کی حفاظت کرنا تم پر فرض ہے۔ یاد رکھو جب تک ایک شخص بھی تمہارے اندر زندہ موجود ہے اگر تم نے اس امانت کی حفاظت میں کوئی کمی دکھائی تو قیامت کے دن خدا تعالیٰ کے حضور تمہارا کوئی عذر قابل قبول نہیں ہو گا۔ یہ پیغام دے کر آپ اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ (اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 214 سعد بن الربیع الانصاریؓ مطبوعہ دار الفکر بیروت 2003ء)
حضرت اُسَید بن حُضَیْر انصاری ان کو حضرت مُصعب کے ذریعہ اسلام قبول کرنے کی سعادت ملی۔ ان کے روحانی مقام کے بارے میں روایت ہے کہ وہ کہا کرتے تھے کہ میری تین حالتیں ایسی ہیں کہ ان میں سے کوئی ایک حالت بھی مجھ پر طاری رہے تو میں اپنے آپ کو اہل جنت میں سے سمجھوں گا۔ پہلی بات یہ کہ جب میں قرآن کریم کی تلاوت کرتا ہوں یا کوئی اور تلاوت کرے اور میں سن رہا ہوں تو اس وقت قرآن کریم سن کر مجھ پر جو خشیت کی حالت طاری ہوتی ہے اگر وہ ہمیشہ رہے تو میں اپنے آپ کو جنتیوں میں شمار کروں۔ دوسری بات یہ کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرماتے ہیں اور میں انتہائی توجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا وعظ سنتا ہوں تو اس وقت میری جو حالت ہوتی ہے اگر وہ دائمی ہو جائے تو میں جنتیوں میں سے ہو جاؤں۔ کہتے ہیں تیسرے یہ کہ جب میں کسی جنازے میں شامل ہوں تو میری یہ حالت ہوتی ہے کہ گویا یہ جنازہ میرا ہے اور مجھ سے پُرسش ہو رہی ہے۔ اگر یہ حالت مستقل رہے جو خوف کی حالت ہے تو میں جنتیوں میں اپنے آپ کو شمار کروں۔ (مجمع الزوائد جلد 9 صفحہ 378 حدیث 15706 کتاب المناقب باب ما جاء فی اسید بن حضیرؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت2001ء)
بہرحال یہ ان کی کمال خشیت الٰہی کی علامت ہے اور یہی حالت ہے جو انسان کو اللہ تعالیٰ کا خوف دلاتی رہتی ہے اور انسان پھر نیک اعمال کی کوشش بھی کرتا رہتا ہے۔ ہر وقت اللہ تعالیٰ یاد رہتا ہے۔ ہر موقع پر اللہ تعالیٰ یاد رہتا ہے۔ جہاں تک اس بات کا سوال ہے کہ ہر دفعہ ان کی ایسی حالت ہونا کہ یہ ہو تو میں اہل جنت میں شمار ہوں۔ جب مختلف صورتیں پیدا ہوئیں تو ہر دفعہ ان کی جو یہ حالت ہوتی ہے یہ بات ہی ثابت کرتی ہے کہ وہ یقیناً جنتیوں میں سے تھے اور خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والے تھے۔
ان کی ایک خصوصیت عبادت اور نماز سے گہری محبت ہے۔ اپنے محلے کی مسجد کے امام تھے۔ بیماری میں بھی مسجد میں نماز کے لئے آیا کرتے تھے۔ بعض دفعہ جب کھڑے ہو کر نماز پڑھنا مشکل تھا تب بھی مسجد آکر بیٹھ کر نماز پڑھتے تھے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 307 اسید بن حضیرؓ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء)۔ تا کہ نماز باجماعت کا ثواب نہ چھوٹے۔ یہ تھی ان لوگوں کی حالت اور ہمارے لئے ان عبادت گزاروں کے یہ نمونے ہیں۔ آپ کی رائے بھی بڑی صائب ہوتی تھی۔ بڑے اعلیٰ قسم کے مشورے دیا کرتے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت اُسَید کی رائے آنے کے بعد فرماتے تھے کہ اب اختلاف مناسب نہیں ہے۔
حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کی خلافت کا وقت بھی انہوں نے پایا۔ حضرت عمر کی خلافت کے دوران یہ فوت ہوئے اور خلافت سے غیر معمولی اطاعت کا عملی نمونہ دکھایا۔ آپ اوس قبیلے کے سردار تھے۔ اپنے قبیلے کو کہا کہ کوئی دوسرا قبیلہ مدینہ کا اختلاف کرتا ہے یانہیں کرتا۔ ہم نے کوئی اختلاف نہیں کرنا اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت کرنی ہے۔ (اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 130-131 اسید بن حضیرؓ مطبوعہ دار الفکر بیروت 2003ء)
پھر ایک انصاری صحابی اُبَیّ بن کعب تھے۔ آپ بھی عالم با عمل تھے۔ بڑی باقاعدگی سے پانچوں نمازیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ادا کیا کرتے تھے۔ نمازوں کی پابندی کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ارشاد بیان کرتے ہیں کہ فجر کی نماز کے بعد آپ نے کچھ لوگوں کے بارے میں پوچھا کہ وہ دو اشخاص نماز پہ نہیں آئے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ دو نمازیں فجر اور عشاء کمزور ایمان والوں اور منافقوں پر بڑی بھاری ہیں۔ اگر ان کو علم ہو کہ ان نمازوں کا کتنا ثواب ہے تو وہ ضرور ان نمازوں میں شامل ہوں خواہ انہیں اپنے گھٹنوں کے بل بھی آنا پڑے۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 7 صفحہ 135 حدیث 21587 مسند الانصار حدیث ابی بصیر العبدیؓ مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء)
فجر اور عشاء کی دو نمازوں کے بارے میں آپ نے خاص تاکید فرمائی۔
ان کی بعض مسائل کے حل کی بھی روایات ہیں۔ ایک دفعہ ایک شخص نے حضرت اُبَیّ بن کعب سے سوال کیا کہ ہمیں دوران سفر ایک چابک ملا ہے۔ اونٹوں یا گھوڑوں کو چلانے کے لئے چھانٹا ہے، چابک ہے، اس کا کیا کریں؟ حضرت اُبَیّ نے جواب دیا کہ یہ تو ایک چابک ہے مجھے ایک دفعہ سو دینار ملے تھے۔ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ مجھے یہ ایک گمشدہ چیز ملی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک سال تک اس کا اعلان کرتے رہو کہ یہ گمشدہ چیز مجھے ملی ہے جس کی ہے وہ لے لے۔ جب ایک سال کے اعلان کے بعد بھی مالک نہ آیا تو میں وہ دینار لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک سال اور اعلان کرو۔ چنانچہ مزید ایک سال اعلان کے بعد جب کوئی نہ آیا تو پھر حاضر ہو کر عرض کی کہ سال گزر گیا ہے کوئی نہیں آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک سال اور اعلان کرو۔ تیسرے سال اعلان کے باوجود جب کوئی نہیں آیا تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے چوتھی مرتبہ پوچھا۔ آپؐ نے فرمایا کہ اب بیشک یہ دینار اپنے استعمال میں لے آؤ۔ (صحیح البخاری کتاب فی اللقطہ باب ھل أخذ اللقطۃ … الخ حدیث 2437)
پس یہ ہیں تقویٰ کے معیار۔
ایک دفعہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یارسول اللہ مَیں جب دعا کرتا ہوں تو میرا دل کرتا ہے کہ میں زیادہ سے زیادہ آپ کی ذات پر درود بھیجوں۔ اگر دعا کا چوتھا حصہ مَیں درود پڑھا کروں تو ٹھیک ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جتنا تمہارا جی چاہے درود پڑھ لو۔ چاہو تو اس سے بھی زیادہ پڑھ سکتے ہو۔ اس پر حضرت اُبی نے عرض کی کہ اگر آدھا وقت درود پڑھا کروں تو ٹھیک ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جتنا چاہو پڑھو۔ اس سے بھی زیادہ پڑھو تو اور اچھا ہے۔ حضرت اُبی بن کعب نے عرض کی کہ اگر دو تہائی حصہ درود میں گزاروں تو ٹھیک ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جتنا چاہو پڑھو۔ اس سے بھی زیادہ پڑھ سکتے ہو تو پڑھو۔ تب حضرت اُبَیّ نے اپنی دلی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یارسول اللہ! میرا تو دل کرتا ہے کہ مَیں اپنی دعا میں صرف درود ہی پڑھتا رہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ اگر تم اپنی دعاؤں کا زیادہ حصہ درود پڑھتے رہو گے تو اللہ تعالیٰ تمہارے ہمّ و غم کا خود متکفل ہو جائے گا۔ تمہارے گناہ بخشے جائیں گے اور یہ بات خدا تعالیٰ کے نزدیک تمہارے بلند درجات کا موجب ہو گی۔ (سنن الترمذی ابواب صفۃ القیامۃ باب فی الترغیب بذکر اللہ … حدیث 2457)
آپ کو قرآن شریف سے بھی بہت محبت تھی۔ آپ کثرت سے تلاوت کرتے تھے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 260 ومن بنی عمرو … ابی بن کعبؓ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء)
آپ کی امانت و دیانت بھی کمال کو پہنچی ہوئی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ آپ کو زکوٰۃ وصول کرنے کے لئے مقرر فرمایا اور مدینہ کے قریبی قبائل بنی عذرہ اور بنی سعد میں بھجوایا۔ کہتے ہیں کہ میں نے وہاں جا کر زکوۃ وصول کی۔ واپسی پر مدینہ کے قریب ایک ایسے مخلص شخص سے واسطہ پڑا جس کے تمام اونٹوں پر ایک ایک سالہ اونٹنی زکوٰۃ بنتی تھی۔ اس کے پاس اونٹ تھے اور ان کی زکوٰۃ ایک ایک سالہ اونٹنی بنتی تھی۔ میں نے اسے کہا کہ ایک سالہ اونٹنی زکوۃ دے دو۔ اس نے کہا کہ ایک سالہ اونٹنی لے کر آپ کیا کریں گے؟ اس پر تو نہ سوار ہوا جا سکتا ہے نہ بوجھ لادا جا سکتا ہے۔ میں آپ کو زکوۃ میں بڑی عمر کی خوبصورت جوان اونٹنی دیتا ہوں جو کسی کام بھی آئے۔ حضرت اُبی بن کعب کہنے لگے کہ میں نے اسے کہا کہ میں تو محض ایک امین ہوں اور امانت اکٹھی کرنے آیا ہوں۔ میں یہ نہیں کر سکتا کہ بڑی اونٹنی لوں۔ دوسری طرف وہ شخص جو اخلاص والا تھا وہ اصرار کر رہا تھا کہ بڑی عمر کی اونٹنی لے لیں۔ اس پر حضرت اُبی نے کہا پھر تم خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش ہو کر بات کر لو اور اونٹنی پیش کر دو۔ چنانچہ وہ صحابی بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش ہوئے اور تمام بات بیان کی اور کہا یہ بڑی اونٹنی قبول فرمائیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی قربانی پر بہت خوشی کا اظہار کیا اور فرمایا اگر تم دلی خوشی سے یہ اونٹنی دینا چاہتے ہو تو اللہ تعالیٰ تمہیں اس کا بہترین اجر دے گا۔ (مسنداحمد بن حنبل جلد 7 صفحہ 139-140 حدیث 21603 مسند ابی بن کعبؓ مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء)
حضرت اُبَیّ بڑے علمی آدمی بھی تھے۔ قرآن کریم کا بھی ان میں خوب علم تھا۔ ان کی مجالس میں خوب علمی باتیں ہوتی تھیں۔ غرض کہ ان کا ایک مضبوط مقام تھا اور ان کا بلند مقام تھا اور ان صحابہ کے بلند مقام ہی ہیں جن کا فیض آج بھی جاری ہے اور ہم ان کی باتوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وہ کیا بات تھی کہ جس کے ہونے سے صحابہ نے اس قدر صدق دکھایا اور انہوں نے نہ صرف بُت پرستی اور مخلوق پرستی ہی سے منہ موڑا بلکہ درحقیقت ان کے اندر سے دنیا کی طلب ہی مسلُوب ہو گئی اور وہ خدا کو دیکھنے لگ گئے۔ وہ نہایت سرگرمی سے خدا تعالیٰ کی راہ میں ایسے فدا تھے کہ گویا ہر ایک ان میں سے ابراہیم تھا۔ انہوں نے کامل اخلاص سے خدا تعالیٰ کا جلال ظاہر کرنے کے لئے وہ کام کئے جس کی نظیر بعد اس کے کبھی پیدا نہیں ہوئی اور خوشی سے دین کی راہ میں ذبح ہونا قبول کیا۔ بلکہ بعض صحابہ نے جو یکلخت شہادت نہ پائی تو ان کو خیال گزرا کہ شاید ہمارے صدق میں کچھ کسر ہے۔ جیسے کہ اس آیت میں اشارہ ہے مِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَمِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ(الاحزاب:24)۔ یعنی بعض تو شہید ہو چکے تھے اور بعض منتظر تھے کہ کب (ان کو) شہادت نصیب ہو‘‘۔ آپ فرماتے ہیں کہ ’’اب دیکھنا چاہئے کہ کیا ان لوگوں کو دوسروں کی طرح حوائج نہ تھے اور اولاد کی محبت اور دوسرے تعلقات نہ تھے مگر اس کشش نے ان کو ایسا مستانہ بنا دیا تھا کہ دین کو ہر ایک شئے پر مقدم کیا ہوا تھا‘‘۔ (ملفوظات جلد 6 صفحہ137-138۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پھر آپ فرماتے ہیں:
’’مکہ میں بیٹھ کر جو مومنین قریش نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت کی تھی جس حمایت میں کوئی دوسری قوم کا آدمی ان کے ساتھ شریک نہیں تھا اِلَّا شاذ و نادر۔ وہ صرف ایمانی قوت اور عرفانی طاقت کی حمایت تھی۔ نہ کوئی تلوار میان سے نکالی گئی تھی اور نہ کوئی نیزہ ہاتھ میں پکڑا گیا تھا بلکہ ان کو جسمانی مقابلہ کرنے سے سخت ممانعت تھی۔ صرف قوت ایمانی اور نور عرفان کے چمکدار ہتھیار اور ان ہتھیاروں کے جوہر جو صبر اور استقامت اور محبت اور اخلاص اور وفا اور معارف الٰہیہ اور حقائق عالیہ دینیہ ان کے پاس موجود تھے لوگوں کو دکھلاتے تھے۔ گالیاں سنتے تھے۔ جان کی دھمکیاں دے کر ڈرائے جاتے تھے۔ اور سب طرح کی ذلّتیں دیکھتے تھے پر کچھ ایسے نشّۂ عشق میں مدہوش تھے کہ کسی خرابی کی پرواہ نہیں رکھتے تھے اور کسی بلا سے ہراساں نہیں ہوتے تھے۔ دنیوی زندگی کے رُو سے اُس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کیا رکھا تھا جس کی توقع سے وہ اپنی جانوں اور عزتوں کو معرضِ خطر میں ڈالتے اور اپنی قوم سے پرانے اور پُر نفع تعلقات کو توڑ لیتے۔ اُس وقت تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر تنگی اور عُسر اور کس نپرسد اور کس نشناسد کا زمانہ تھا اور آئندہ کی امیدیں باندھنے کے لئے کسی قسم کے قرائن و علامات موجودنہ تھے۔ سو انہوں نے اس غریب درویش کا (جو دراصل ایک عظیم الشان بادشاہ تھا) ایسے نازک زمانے میں وفا داری کے ساتھ محبت اور عشق سے بھرے ہوئے دل سے جو دامن پکڑا جس زمانے میں آئندہ کے اقبال کی تو کیا امید، خود اس مرد مصلح کی چند روز میں جان جاتی نظر آتی تھی۔ یہ وفاداری کا تعلق محض قوت ایمانی کے جوش سے تھا جس کی مستی سے وہ اپنی جانیں دینے کے لئے ایسے کھڑے ہو گئے جیسے سخت درجہ کا پیاسا چشمۂ شیریں پر بے اختیار کھڑا ہو جاتا ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 151-152 حاشیہ)
سرّ الخلافۃ میں آپ فرماتے ہیں۔ (عربی ہے اس کا ترجمہ بھی مَیں پڑھ دیتا ہوں۔)
اِعْلَمُوْا رَحِمَکُمُ اللّٰہُ اَنَّ الصَّحَابَۃَ کُلَّھُمْ کَانُوْا کَجَوَارِحِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم وَفَخْرَ نَوْعِ الْاِنْسَانِ فَبَعْضُھُمْ کَانُوْا کَالْعُیُوْنِ وَبَعْضُھُمْ کَانُوْا کَالْآذَانِ وَ بَعْضُھُمْ کَالْأَیْدِیْ وَبَعْضُھُمْ کَالْأَرْجُلِ مِن رَّسُوْلِ الرَّحْمَانِ وَکُلَّ مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ أَوْ جَاھَدُوْا مِنْ جَھْدٍ فَکَانَتْ کُلُّھَا صَادِرَۃً بِھٰذِہِ الْمُنَاسَبَاتِ وَکَانُوْا یَبْغُوْنَ بِھَا مَرَضَاۃَ رَبِّ الْکَائِنَاتِ رَبِّ الْعَالَمِیْن۔ (سر الخلافۃ، روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 341)
اللہ آپ لوگوں پر رحم فرمائے۔ جان لو کہ سارے کے سارے صحابہ رسول، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعضاء اور جوارح کی طرح تھے اور نوع انسان کے فخر تھے۔ خدائے رحمان کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ان میں سے بعض آنکھوں جیسے تھے۔ بعض کانوں کی طرح اور بعض ان میں سے ہاتھوں کی مانند اور بعض پاؤں کی طرح تھے۔ ان صحابہ نے جو بھی کام کئے یا جو بھی سعی فرمائی وہ سب کچھ ان اعضاء کی مناسبت سے صادر ہوئے اور ان کی غرض اس سے محض ربِ کائنات ربّ العالمین کی رضا جوئی تھی۔ (سرّ الخلافۃ۔ روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 341)
اللہ تعالیٰ ان روشن ستاروں کے نمونوں پر چلتے ہوئے ہمیں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے محبت کرنے والا بنائے اور ہمارا بھی ہر عمل اللہ تعالیٰ کی رضا جُوئی کے لئے ہو۔
نمازوں کے بعد مَیں ایک جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا جو مکرمہ عریشہ ڈیفن تھالر صاحبہ اہلیہ فہیم ڈیفن تھالر صاحب ہالینڈ کا ہے جو آجکل بینن میں تھیں۔ 11؍دسمبر کو بینن میں ہی اچانک ہارٹ فیل ہونے کی وجہ سے 62سال کی عمر میں وفات پا گئیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
یہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد ایک بنک میں ملازمت کرتی تھیں۔ 2002ء میں ان کی شادی حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی منظوری سے فہیم ڈیفن تھالر صاحب جو ڈچ احمدی ہیں ان سے ہوئی۔ اس وقت مرحومہ نے اسلام قبول نہیں کیا تھا لیکن جماعت کے بارے میں دلچسپی رکھتی تھیں۔ شادی کے بعد انہوں نے رمضان کے مہینہ میں تجربہ کے طور پر روزے بھی رکھے۔ فہیم صاحب جو اُن کے خاوند ہیں یہ بھی ڈچ احمدی ہیں۔ یہ بیان کرتے ہیں کہ اسی دوران ایک دفعہ جبکہ ہم باتیں کر رہے تھے تو انہوں نے رونا شروع کر دیا۔ میں سمجھا کہ میں نے کوئی سخت بات کہہ دی ہے۔ بعد میں مرحومہ نے بتایا کہ وہ اپنا اور احمدیت کا موازنہ کر رہی تھیں اور پھر یہ سمجھ کر کہ مجھ میں اور احمدیت میں بہت زیادہ فرق ہے مَیں تو کبھی بھی احمدی مسلم نہیں بن سکتی۔ تو اس محرومی کے احساس نے مجھے رُلا دیا تھا۔ فہیم صاحب کے ساتھ گیمبیا کے دورے پر گئیں تو وہاں انہوں نے جماعت کے کاموں کو دیکھا اور اس کا ان پر بڑا اچھا اثر ہوا اور اس کے بعد پھر وہاں فہیم صاحب نے ان کو بیعت فارم دیا تو بیعت فارم پڑھا، شرائط بیعت پڑھیں، جو اس پر لکھی ہوئی تھیں۔ پہلے تو مرحومہ نے کہہ دیا کہ میں اس پر کبھی دستخط نہیں کر سکتی لیکن پڑھنے کے بعد انہوں نے جلد ہی 18؍مارچ 2006ء کو بیعت فارم پُر کر دیا اور اسی وقت بیعت کا خط بھی مجھ کو لکھا۔ خلافت سے مرحومہ کی بہت محبت تھی۔ جماعت کے کاموں میں اپنے میاں کی مدد کرتی تھیں۔ وہ جماعت ہالینڈ کے پریس سیکرٹری بھی تھے۔ اور ترجمہ میں ان کی مدد بھی کیا کرتی تھیں۔ پھر جب وصیت کی تحریک ہوئی اور وصیت کی تحریک کا ان کو پتا لگا۔ میرا خطبہ سنا تو انہوں نے جلد ہی وصیت بھی کر لی۔ 2009ء میں مرحومہ اپنے شوہر مکرم فہیم صاحب کے ساتھ وقف کر کے ہیومینٹی فرسٹ کے تحت بننے والے یتیم خانے کا بندوبست سنبھالنے کے لئے بینن (مغربی افریقہ) چلی گئیں۔ بظاہر یہ ایک جذباتی فیصلہ لگتا تھا کیونکہ مرحومہ کی بینک میں بڑی اچھی نوکری تھی اور اس کو چھوڑ کے گئی تھیں۔ مربی انچارج ہالینڈ نے کہا کہ میں نے ان کو سمجھانے کی کوشش کی کہ افریقہ کے حالات اتنے بڑے آرام دِہ نہیں ہیں تا کہ ذہنی طور پر تیار ہوں تو مرحومہ نے کہا مربی صاحب مجھے یہ سب نہ بتائیں۔ مَیں نے بڑا سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا ہے۔ ان کے رشتہ داروں نے بھی انہیں کہا کہ آپ افریقہ چلی گئی ہیں اور انہوں نے سمجھا کہ وہاں جماعت احمدیہ بھی کوئی کمپنی کی طرح ہے کہ کمپنیوں کا دیوالیہ ہوجاتا ہے تو اس کے بعد کچھ نہیں رہتا تو تم بھی یہ نہ ہو کہ وہاں جا کر پھر نہ اِدھر کی رہو نہ اُدھر کی رہو۔ بڑا پختہ ایمان تھا تو انہوں نے اپنے رشتہ داروں کو، عیسائیوں کو جواب دیا کہ تمہیں اس بات کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جماعت ایک کمپنی کی طرح نہیں ہے جو کبھی دیوالیہ ہو جائے۔ یہ کبھی دیوالیہ نہیں ہو سکتی۔ اور جہاں تک میرا تعلق ہے اگر میں فوت ہو گئی تو میں اس بات کو پسند کروں گی کہ اسی یتیم خانے میں دفن کی جاؤں۔ مرحومہ جو یورپی معاشرے کی پلی بڑھی تھی اور بڑی اچھی نوکری بھی تھی اس کے باوجود افریقہ میں انہوں نے بڑے مشکل حالات میں بڑے احسن رنگ میں اپنا وقف نبھایا اور بڑی ذمہ داری سے اپنے فرائض انجام دئیے۔
نمازوں کی پابند تھیں۔ جب سے احمدی ہوئیں باقاعدہ نمازیں پڑھنے والی تھیں۔ پھر تہجد گزار بھی بن گئیں۔ کبھی نماز نہیں چھوڑتی تھیں بلکہ دوسروں کو بھی وقت پر نماز پڑھنے کی تلقین کیا کرتی تھیں۔ خطبہ بڑی باقاعدگی سے اور توجہ سے سنتی تھیں اور جو جو باتیں اگر نصیحت والی ہیں تو تمام باتوں پر عمل کرنے کی کوشش کرتیں۔ اسلام اور احمدیت سے محبت کا اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ جب دیگر احباب جو احمدی تھے ان کو دیکھتیں کہ اسلامی تعلیمات پر پوری طرح عمل نہیں کرتے تو بڑی غمزدہ ہو جایا کرتی تھیں کہ کیوں یہ لوگ احمدی ہونے کے باوجود اسلامی تعلیمات پر عمل نہیں کرتے۔ قرآن کریم کی باقاعدگی سے تلاوت کرتیں اور ترجمہ اور تفسیر کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کرتیں۔ ان کی اولادنہیں تھی۔ یتیم خانے کی انچارج تھیں۔ انہوں نے ان کو اپنے بچے سمجھا۔ احمد یحيیٰ صاحب ہیومینٹی فرسٹ کے جو ہیں وہ کہتے ہیں کہ وہاں کا یتیم خانہ ’دارالاکرام‘ جو جماعت چلا رہی ہے اُسے دیکھنے کا موقع ملا تو اس وقت ’دارالاکرام‘ میں دو ماہ سے لے کر بارہ سال کی عمر تک کے بچے تھے۔ گو کہ سٹاف موجود تھا لیکن دو ماہ کی یتیم بچی ہر وقت اُن کی گود میں ہی مَیں نے دیکھی۔ کسی بچے کی طبیعت ٹھیک نہ ہوتی تو بڑی فکر مندی سے اس کی خاص خوراک اور دوائی کا انتظام کرتیں۔ اگر بچے کی تعلیمی رپورٹ میں کوئی توجہ طلب بات ہوتی تو اس کو مختلف طریقوں سے بہتر کرنے کے لئے بڑی فکر مندی کا اظہار کرتیں۔ کہتے ہیں کہ میں نے جب بھی ان سے کسی ذاتی ضرورت کے حوالے سے دریافت کیا کہ کوئی ضرورت ہو تو بتائیں تو ان کا یہی جواب ہوتا تھا کہ ہم تو وقف ہیں۔ ہم نے وقف کیا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے بہت شکر گزار ہیں کہ اس نے ہمیں توفیق دی ہے اور یتیم بچوں کی خدمت کا ہمیں موقع ملا ہوا ہے اور ہم بہت خوش ہیں۔ ہمارے لئے کوئی فکر نہ کریں۔ لیکن اگر ادارے کے انتظام کا کوئی معاملہ ہوتا، اس کی بہتری کا معاملہ ہوتا تو فوراً توجہ دلاتیں۔ اسی طرح اطہر زبیر صاحب جو ہیومینٹی فرسٹ جرمنی کے چیئرمین ہیں وہ کہتے ہیں کہ ان کے خاوند فہیم صاحب نے بتایا کہ شروع سے ان کو لاٹری کھیلنے کا بڑا شوق تھا۔ یورپ میں لاٹری کا بڑا رواج ہے۔ جب ان کو بتایا گیا کہ اسلام میں اس کی ممانعت ہے تو فوراً اس کو ترک کر دیا اور لاٹری میں لگانے والی رقم ہفتہ وار مسجد کے چندہ میں دینی شروع کر دی۔
پھر کہتے ہیں کہ جب میں ان سے ملتا تو میرے دوروں کے بارے میں رپورٹیں لیتیں۔ ڈاکٹر اطہر زبیر صاحب جرمنی کے دوروں میں ہمارے ساتھ رہا کرتے تھے، تو کہتے ہیں کہ باتیں سن کے، واقعات سن کے، بڑی جذباتی ہو جایا کرتی تھیں۔ بڑی مہمان نواز تھیں۔ وہاں کے لوگوں سے بڑا پیار اور عزت سے پیش آیا کرتی تھیں۔ اسی محبت کی وجہ سے بینن میں جہاں وہ رہتی تھیں ان کے محلّے کے تمام لوگ ان کو ’ماما‘ کہتے تھے اور اپنے ذاتی معاملات میں ان سے مشورے کیا کرتے تھے۔ بینن کے امیر جماعت لکھتے ہیں ان کو اپنے چندہ کی بڑی فکر ہوتی تھی۔ بڑی باقاعدگی کے ساتھ چندہ ادا کیا کرتی تھیں اور پورتو نوو ریجن کے مبلغ سلسلہ سے دو تین بار اظہار کیا کہ آپ وقت پہ ہمارا چندہ آکر وصول کر لیا کریں۔ ہمیشہ اپنا وصیت کا چندہ پہلی فرصت میں ادا کرتیں اور اب جب میں نے بیت الفتوح کی تعمیرِ نَو کی تو تحریک کی ہے اس میں انہوں نے بڑی خوشی سے حصہ لیا اور معلومات بھی چندوں کی لیتی رہتی تھیں۔ کہتے ہیں کہ’احمدیہ دارالاکرام‘ یتیم خانے میں بڑی دلجمعی اور خلوص سے کام کرتی تھیں۔ شیر خوار بچوں کو اٹھائے پھرتیں۔ ان کا بڑا خیال رکھتیں۔ ان کی وفات کے ساتھ مَیں سمجھتا ہوں کہ دارالاکرام کے بچے اب یتیم ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان سے رحم و مغفرت کا سلوک فرمائے اور مزید ایسے باوفا اور وقف کی روح کو سمجھنے والے اللہ تعالیٰ جماعت کو عطا فرماتا رہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کی زندگیوں اور ان کے اخلاص و فدائیت، عبادات میں شغف، راہ مولا میں دی گئی قربانیوں اور اخلاق حسنہ کا نہایت ایمان افروز تذکرہ اور اس حوالہ سے ان کے پاک نمونوں کو اپنانے کے لئے افراد جماعت کو نہایت اہم نصائح۔
مکرمہ عریشہ ڈیفن تھالر صاحبہ اہلیہ مکرم فہیم ڈیفن تھالر صاحب آف ہالینڈ کی بینن میں وفات۔ مرحومہ وہاں یتامیٰ کی خبرگیری کے لئے قائم ادارہ دارالاکرام کی انچارج تھیں۔ مرحومہ کے اخلاص و وفا اور خصائل حمیدہ کا تذکرہ اور نماز جنازہ غائب۔
فرمودہ مورخہ 22؍ دسمبر 2017ء بمطابق 22؍فتح 1396 ہجری شمسی، بمقام مسجدبیت الفتوح، مورڈن، لندن، یوکے
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔