آیت الکرسی، سورۃ الاخلاص، سورۃ الفلق اور سورۃ الناس کے فضائل
خطبہ جمعہ 16؍ فروری 2018ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
ایک مومن کو، ایک ایسے شخص کو جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ مَیں خدا تعالیٰ پر ایمان رکھتا ہوں، اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (الذاریات:57) یعنی ہم نے جنّ و اِنس کو عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں عبادت کے طریق بھی بتائے جن میں عملی حصہ بھی ہے یعنی ظاہری حرکات و سکنات اور دعاؤں کے الفاظ بھی ہیں جسے ذکر بھی کہہ سکتے ہیں۔ نماز میں یہ دونوں باتیں موجود ہیں۔ یعنی ظاہری حرکات بھی ہیں اور ذکر بھی ہے۔ دعائیں بھی ہیں۔ لیکن نمازوں کے علاوہ بھی ذکر اور دعائیں اور خدا تعالیٰ کو یاد رکھنا ایک مومن کا کام ہے۔ قرآن کریم میں ہی اللہ تعالیٰ نے بہت سی دعائیں مختلف انبیاء کے حوالے سے بتائی ہیں جو ہم نماز میں بھی پڑھ سکتے ہیں اور چلتے پھرتے ذکر کے طور پر بھی پڑھتے ہیں اور پڑھ سکتے ہیں۔ لوگ اپنے خطوں میں لکھتے ہیں کہ ہمیں فلاں مشکل ہے، فلاں پریشانی ہے، کوئی دعا اور ذکر بتائیں جس کا ورد ہم کرتے رہا کریں اور ہماری مشکلات اور پریشانیاں دُور ہوں۔ عموماً لوگوں کو مَیں یہی لکھتا ہوں کہ نمازوں کی طرف توجہ دیں۔ سجدوں میں دعائیں کریں۔ نماز میں دعائیں کریں۔ اور اپنے خد اتعالیٰ سے مدد مانگیں۔ لیکن آج میں ایک ذکر کے بارے میں بھی بتانا چاہتا ہوں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت بھی ہے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے اتری ہوئی دعائیں بھی ہیں اور جس کے مطالب پر غور کر کے پڑھنے سے جہاں انسان اللہ تعالیٰ کی توحید کا ادراک حاصل کرتا ہے وہاں اللہ تعالیٰ کی حفاظت اور پناہ میں بھی آتا ہے اور ہر قسم کے شرور سے بھی محفوظ رہتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف یہ کہ خود باقاعدگی سے روزانہ رات کو سونے سے پہلے ان آیات اور دعاؤں کو پڑھا کرتے تھے بلکہ صحابہ کو بھی پڑھنے کی تلقین فرماتے تھے اور بہت ساری جگہوں پر اِن دعاؤں کی ان آیات کی اہمیت بیان فرمائی۔ آپ نے اس کے فوائد بیان فرمائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے ذاتی عمل کے بارے میں اس سلسلہ میں روایت آتی ہے۔
روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ سوتے وقت آیۃ الکرسی، سورۃ اخلاص، سورۃ فلق اور سورۃ النّاس یعنی قرآن کریم کی جو آخری تین سورتیں ہیں، یہ اور آیۃ الکرسی تین دفعہ پڑھ کر ہاتھوں پر پھونکتے اور پھر اپنے ہاتھوں کو جسم پر اس طرح پھیرتے کہ سر سے شروع کر کے جہاں تک جسم پر ہاتھ جا سکتا جسم پر پھیرتے۔
پس جس کام کو آپؐ نے باقاعدہ جاری رکھا یا باقاعدگی سے کیا تو یہ آپ کی سنّت بنی اور اس کام کو ہر مسلمان کو کرنا چاہئے اور ہم احمدی جن کی اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر سنت پر عمل کرنے کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مزید رہنمائی فرمائی ہے ہمیں اس پر عمل کرنے کی خاص کوشش کرنی چاہئے اور خاص طور پر ان حالات میں جن میں سے ہم گزر رہے ہیں دعاؤں اور نمازوں اور اذکار کی طرف خاص طور پر نہ صرف اپنی ذاتی روحانی اور دنیاوی ضروریات کے لئے توجہ دینی چاہئے بلکہ جماعتی فتنوں اور فسادوں اور حاسدوں اور دشمنوں کے شر سے بچنے کے لئے بھی ایک انتہائی اہم فرض سمجھ کر توجہ دینی چاہئے۔
اس ذکر اور آیات کی اہمیت بعض اور احادیث سے بھی ملتی ہے جو مَیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ جہاں تک آیۃ الکرسی کا تعلق ہے اس کے بارے میں دو جمعہ پہلے مَیں بیان کر چکا ہوں۔ آج قرآن کریم کی آخری تین سورتوں کے بارے میں احادیث کے حوالے سے بات کروں گا۔ کس طرح بار بار اور مختلف رنگ میں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو ان سورتوں کے پڑھنے کے بارے میں تلقین فرمائی ہے۔
ایک روایت میں آخری تینوں قُل پڑھ کر جسم پر پھونکنے کے بارے میں حضرت عائشہؓ اس طرح بیان فرماتی ہیں۔ فرمایا کہ ہر رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بستر پر لیٹتے تو اپنی ہتھیلیوں کو جوڑتے اور پھر ان پر پھونکتے اور ان میں یہ پڑھتےقُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ۔ وقُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ۔ وقُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ۔ یعنی یہ تینوں سورتیں پڑھتے اور پھر جہاں تک ممکن ہوتا دونوں ہاتھوں کو جسم پر پھیرتے۔ آپ اپنے سر اور چہرے سے دونوں ہاتھ پھیرنا شروع کرتے اور پھر جو جسم کا حصہ آتا جہاں تک آپ کا ہاتھ جا سکتا تھا آپ تین بار ایسا کرتے۔ (صحیح بخاری۔ کتاب فضائل القرآن۔ باب فضل المعوذات)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا اہتمام اس باقاعدگی سے فرماتے تھے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری بیماری میں خود یہ دعائیں پڑھتیں اور آپ کے ہاتھوں پر پھونک کر آپ کے ہاتھ ہی آپ کے جسم پر پھیرتیں۔ چنانچہ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب بیمار ہوتے تو معوّذات پڑھ کر اپنے اوپر پھونکتے۔ کہتی ہیں جب آپ کی بیماری سخت ہو گئی تو مَیں یہ سورتیں آپ پر پڑھتی اور آپ کے ہاتھ ان کی برکت کی امید سے آپ پر پھیرتی۔ (صحیح بخاری۔ کتاب فضائل القرآن۔ باب فضل المعوذات)
پس یہ خیال حضرت عائشہ کو آنا یقیناً اس وجہ سے تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس میں بہت باقاعدہ تھے اور اس کی برکت کی اہمیت حضرت عائشہ پر خوب کھول کر واضح فرمائی تھی۔
پھر صحابہ کو ان سورتوں کی برکات اور اہمیت کا کس طرح احساس دلایا۔ اس بارے میں حضرت عقبہ بن عامر بیان کرتے ہیں کہ میری رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آگے بڑھ کر میرا ہاتھ پکڑ لیا اور فرمایا اے عقبہ بن عامر۔ کیا مَیں تمہیں تورات اور انجیل اور زبور اور فرقان عظیم میں جو سورتیں اتاری گئی ہیں ان میں سے تین بہترین سورتوں کے بارے میں نہ بتاؤں۔ مَیں نے عرض کی۔ کیوں نہیں۔ اللہ مجھے آپ پر فدا کرے۔ پھر آپ نے مجھےقُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ، قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ اور قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ پڑھ کر سنائیں۔ پھر فرمایا اے عقبہ! تم انہیں مت بھولنا اور کوئی رات ایسی نہ گزارنا جب تک تُو انہیں پڑھ نہ لے۔ عقبی کہتے ہیں کہ جب سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ تُو انہیں نہ بھولنا۔ تو اس وقت سے میں انہیں نہیں بھولا اور میں نے کوئی رات ایسی نہیں گزاری جب تک میں نے انہیں پڑھ نہ لیا ہو۔ (مسند احمد بن حنبلؒ مسند عقبہ بن عامرؓ جلد 5۔ صفحہ 895-896 مطبوعہ بیروت۔ ایڈیشن 1998ء۔ حدیث نمبر 17467)
پس آپ کا یہ فرمانا کہ تم انہیں مت بھولنا اور کوئی رات ایسی نہ گزارنا کہ جب تک انہیں پڑھ نہ لو، صاف ظاہر کرتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی کس باقاعدگی کے ساتھ اس کو پڑھا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی باتوں پر، احکامات پر، دعاؤں پر سب سے زیادہ عمل کرنے والے آپ صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور تبھی آپ دوسروں کو فرمایا کرتے تھے۔
پھر سورۃ اخلاص کی اہمیت کے بارے میں یعنی قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ جو سورت شروع ہوتی ہے اس کے بارے میں ایک حدیث میں اس طرح ذکر ملتا ہے۔ حضرت ابوسعید خدریؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے ایک آدمی کوقُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ پڑھتے ہوئے سنا جو اس کو بار بار پڑھ رہا تھا۔ جب صبح ہوئی تو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر ساری بات بیان کی اور گویا کہ وہ اس شخص کو کم یا چھوٹا سمجھ رہا تھا اس لئے شکایت کے رنگ میں بیان کیا۔ اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ قَسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یہ قرآن کے تیسرے حصہ کے برابر ہے۔ (صحیح بخاری۔ کتاب فضائل القرآن۔ باب قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ)
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس ضمن میں ایک جگہ تفصیل یوں بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا: کیا تم میں سے کوئی اس بات سے عاجز ہے کہ ایک رات میں ایک تہائی قرآن مجید پڑھے۔ یہ بات صحابہ پر بڑی گراں گزری۔ انہوں نے کہا یارسول اللہ ! ہم میں سے کون اس کی طاقت رکھتا ہے کہ ایک تہائی قرآن کریم رات میں پڑھ لے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ الواحد الصمد۔ یعنی سورۃ اخلاص ایک تہائی قرآن ہے۔ (صحیح بخاری۔ کتاب فضائل القرآن۔ باب قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ)
سورۃ اخلاص کے قرآن کریم کے تیسرے حصہ کے حوالے سے صحیح مسلم نے ایک روایت اس طرح لکھی ہے۔ حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم جمع ہو جاؤ مَیں تمہیں قرآن کا تیسرا حصہ پڑھ کر سناؤں گا۔ ساروں کو اکٹھا کیا، جمع کیا کہ مسجد میں آ جاؤ۔ پس لوگ اکٹھے ہو گئے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ کی تلاوت فرمائی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اندر تشریف لے گئے۔ صحابہ کہتے ہیں کہ ہم میں سے کسی نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ آسمان سے کوئی خبر یعنی وحی آئی ہے جس کی وجہ سے آپ اپنے گھر میں داخل ہوئے ہیں اور اندر چلے گئے ہیں۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور فرمایا مَیں نے تم سے کہا تھا کہ مَیں تم پر قرآن کا تیسرا حصہ پڑھوں گا۔ غور سے سنو یہ سورۃ اخلاص قرآن کے تیسرے حصہ کے برابر ہے۔ (صحیح مسلم۔ کتاب صلوٰۃ المسافرین و قصرھا۔ باب فضل قراءۃ قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو تیسرا حصہ کیوں کہا؟ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو توحید کو ثابت کرنے اور اس کے قیام کے لئے نازل فرمایا۔ پس اس سورۃ میں بڑے واضح الفاظ میں اور جامع انداز میں توحید کو بیان کیا گیا ہے۔ پس اس کے الفاظ پر غور کرنے اور عمل کرنے سے انسان حقیقی توحید پر عمل کر سکتا ہے اور پھر قرآن کریم کو خدائے واحد کا کلام سمجھ کر جب بھی عمل کی کوششیں کرے گا تو گویا حقیقی توحید کو سمجھنے والا اور اس پر قائم ہونے والا ہو گیا اور پھر قرآن کریم کی تعلیم پر مکمل طور پر عمل کرنے کی توفیق بھی ملے گی۔ تو انسان کو صرف اتنا ہی نہیں سمجھ لینا چاہئے کہ مَیں نے سورۃ اخلاص پڑھ لی تو تین حصہ قرآن کریم پڑھ لیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تم لوگ اس کو پڑھو اور پھر توحید پر قائم ہو اور اس پر عمل کرو۔
اسی طرح بعض روایات میں بعض اور آیات بھی ہیں جن کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ ایک حصہ ہے۔ یہ ایک چوتھائی حصہ ہے۔ تو اگر اسی کو لیا جائے تو گویا ان چند آیتوں کو پڑھ کر لوگ کہیں گے کہ قرآن کریم مکمل ہو گیا۔ جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سے مراد یہ ہے کہ یہ ایسی باتیں ہیں جن پر تم لوگ عمل کرو اور پھر قرآن کریم پر غور کرو، توحید کے قیام کی کوشش کرو تو تبھی تم قرآن کریم کو پڑھنے والے ہو گے۔ اور قرآن کریم کیا ہے؟ قرآن کریم کی تعلیم توحید کے قیام کے لئے ہی ہے جس کے لئے ہر انسان کو کوشش بھی کرنی چاہئے اور دعا بھی کرنی چاہئے۔
پھر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ایک روایت ہے۔ آپ بیان کرتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو ایک سریّہ کا امیر بنا کر بھیجا۔ جنگ کے لئے روانہ کیا۔ جو اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھاتا تھا اور قراءت کا اختتام قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ پر کیا کرتا تھا۔ جب صحابہ واپس آئے تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اس سے پوچھو کہ وہ کیوں ایسا کرتا ہے؟ صحابہ نے جب اس سے پوچھا تو اس نے کہااس لئے کہ یہ رحمان خدا کی صفت ہے۔ اس وجہ سے مَیں اس کو پڑھنا پسند کرتا ہوں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم لوگ اسے خبر دے دو کہ اللہ تعالیٰ بھی اس سے محبت رکھتا ہے۔ (صحیح مسلم۔ کتاب صلوٰۃ المسافرین و قصرھا۔ باب فضل قراءۃ قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ)
پھر اسی بارے میں بخاری میں حضرت انسؓ کے حوالے سے ایک حدیث ہے۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ ایک انصاری آدمی مسجد قبا میں ان کی امامت کرایا کرتا تھا۔ وہ جب ان سورتوں میں سے جو نماز میں پڑھی جاتی ہیں کوئی سورۃ شروع کرتا تو پہلےقُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ۔ یعنی سورۃ اخلاص پڑھتا۔ جب اسے پڑھ لیتا تو پھر اس کے ساتھ کوئی اور سورت پڑھتا اور ہر رکعت میں ایسا ہی کرتا۔ اس کے ساتھیوں نے اس بارے میں اس سے بات کی اور کہا کہ تم سورۃ اخلاص سے شروع کرتے ہو اور پھر نہیں سمجھتے یہ سورۃ تمہیں کافی ہو گئی بلکہ ایک اور سورت بھی اس کے ساتھ پڑھتے ہو۔ یا تو تم اسی کو پڑھا کرو یا اس کو چھوڑ دو اور کوئی دوسری سورت پڑھو۔ اس نے کہا کہ مَیں تو اسے ہرگز نہیں چھوڑوں گا۔ اگر تم پسند کرتے ہو کہ مَیں اسی طرح تمہاری امامت کراؤں تو مَیں تمہارا امام رہوں گا۔ اور اگر تمہیں یہ پسندنہیں ہے تو مَیں تمہیں چھوڑ دوں گا یعنی کہ امامت چھوڑ دوں گا۔ سورت کو نہیں چھوڑوں گا۔ وہ لوگ اس کو اپنے میں سب سے زیادہ بہتر سمجھتے تھے۔ انہوں نے پسندنہ کیا کہ اس کے سوا کوئی اور ان کا امام ہو۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو انہوں نے آپؐ کو اس واقعہ کی خبر دی۔ آپؐ نے فرمایا اے فلاں جو بات تمہارے ساتھی تم سے کہتے ہیں تمہیں اس فعل سے کون سی بات روکتی ہے۔ (یعنی کہ سورۃ اخلاص نہ پڑھو یا وہی پڑھو اور دوسری سورتیں نہ پڑھو۔ تو اکٹھی پڑھنے کی کیا وجہ ہے؟) اور کیا وجہ ہے کہ تم نے یہ سورۃ ہر رکعت میں لازم کر لی ہے؟ اس نے کہا یہ سورت مجھے بہت پیاری ہے۔ آپ نے فرمایا اس کی محبت نے تمہیں جنت میں داخل کر دیا۔ (صحیح البخاری۔ کتاب الاذان۔ باب الجمع بین السورتین فی الرکعۃ)
پھر حضرت اُبَیّ بن کعب بیان کرتے ہیں کہ جب مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اپنے رب کا شجرہ نسب ہمیں بتائیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نےقُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ۔ اَللّٰہُ الصَّمَدُ نازل فرمائی۔ پس صمد وہ ہے جو نہ کسی کا باپ ہے۔ نہ اس کا کوئی باپ ہے۔ کیونکہ کوئی بھی ایسی چیز نہیں جو پیدا ہوئی مگر اس نے ضرور مرنا ہے۔ اور کوئی بھی ایسی چیز نہیں جس نے مرنا ہے مگر اس کا ضرور کوئی نہ کوئی وارث ہو گا۔ جبکہ اللہ عزّوجلّ نہ تو وفات پائے گا۔ نہ ہی اس کا کوئی وارث ہو گا۔ وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ۔ کہا کہ اس کے مشابہ کوئی اور نہیں۔ اور نہ ہی کوئی اس جیسا، اور نہ ہی اس کی مانند کوئی اَور چیز ہے۔ (سنن الترمذی۔ ابواب تفسیرالقرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ باب وَمِنْ سورۃِ الاخلاص)
پھر اس بارے میں ایک جگہ حضرت ابوہریرۃؓ سے یوں روایت ملتی ہے۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگ آپس میں ایک دوسرے سے سوال کرتے ہیں۔ یہانتک کہ یہ کہتے ہیں کہ اس کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا۔ یعنی کسی بھی چیز کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا تو اللہ تعالیٰ کو کس نے پیدا کیا؟ (یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی سوال ہوتے تھے۔ آج بھی یہ سوال بڑے اٹھائے جاتے ہیں۔) آپ نے فرمایا پس جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو تو قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ کہو یہانتک کہ تم یہ سورت ختم کر لو۔ (یعنی سورۃ اخلاص پوری پڑھو۔ اس کے معنی پہ غور کرو تو تمہیں پتا لگ جائے گا کہ اللہ تعالیٰ کو پیدا کرنے والی کوئی چیز نہیں۔ وہ ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا۔ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔) فرمایا کہ پھر اس کو چاہئے کہ وہ شیطان سے پناہ طلب کرے تو وہ اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ (الابانۃالکبریٰ لابنِ بطہ باب ترک السؤال عمّا لَایُغْنِیْ وَالْبحثِ والتنقیر)
حضرت ابوہریرۃؓ بیان کرتے ہیں۔ مَیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کوقُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ۔ اَللّٰہُ الصَّمَدُ پڑھتے ہوئے سنا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا واجب ہو گئی۔ مَیں نے پوچھا کیا چیز واجب ہو گئی؟ آپؐ نے فرمایا جس اخلاص سے یہ پڑھ رہا ہے اس پر جنت واجب ہو گئی۔ (سنن الترمذی۔ ابواب تفسیرالقرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ باب وَمِنْ سورۃِ الاخلاص)
پھر حضرت سہیلؓ بن سعد سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اپنی غربت کی شکایت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تو اپنے گھر میں داخل ہو تو اگر کوئی گھر میں ہو تو اَلسَّلَامُ عَلَیْکُم کہا کرو۔ اور اگر کوئی نہ ہو تو پھر بھی اَلسَّلَامُ عَلَیْکُم کہہ دیا کرو۔ اپنے اوپر ہی سلامتی بھیجا کرو۔ والسلام تمہیں مل جائے گا اور ایک دفعہ قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ پڑھا کرو۔ تو اس آدمی نے ایسا ہی کیا یہانتک کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اتنا رزق عطا کیا کہ اس کے ہمسائے بھی اس سے فیضیاب ہونے لگے۔ (روح البیان لاسماعیل حقی بن مصطفیٰ زیر آیت سورۃالاخلاص جلد 10 صفحہ 558۔ دارالکتب العلمیہ بیروت۔ 2003ء)
یعنی اللہ تعالیٰ نے اس برکت سے اسے اتنا رزق عطا فرمایا کہ وہ ایک وقت ایسا تھا کہ خود اس کو ہاتھ تنگ تھا۔ فاقے ہوتے تھے۔ اب اتنی کشائش پیدا ہوئی کہ وہ اپنے ہمسایوں کی بھی مدد کیا کرتا تھا۔
پس جب انسان توحید کا سبق سیکھ لے اور اس پر عمل کرے اور خدا تعالیٰ کو تمام قدرتوں اور طاقتوں کا مالک سمجھے تو پھر اللہ تعالیٰ بے انتہا نوازتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اور جگہوں پر بھی فرماتا ہے کہ وہ متقی کو ایسی ایسی جگہوں سے رزق دیتا ہے کہ جہاں سے وہ سوچ بھی نہیں سکتے۔
حضرت انسؓ بن مالک سے مروی ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا کہ مجھے یہ سورۃ قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ پسند ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تیرا اس سورت سے پیار تجھے جنت میں داخل کر دے گا۔ (مسند احمد بن حنبلؒ۔ مسند المکثرین من الصحابۃ۔ مُسند اَنس بن مالک۔ حدیث 12432)
پھر حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے ہر روز پچاس مرتبہ قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ پڑھی اسے قیامت کے دن اس کی قبر سے پکارا جائے گا کہ کھڑا ہو جا اور جنت میں داخل ہوجا۔ (المعجم الاوسط۔ باب الیاء۔ من اسمہُ یعقوب۔ حدیث 9446)
ابن دیلمی سے روایت ہے جو کہ نجاشی کی بہن کے بیٹے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت بھی کرتے رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے نماز میں یا اس کے علاوہ سو مرتبہ قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ پڑھا اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے آگ سے نجات فرض کر دی۔ (المعجم الکبیر للطبرانی۔ جلد 18 صفحہ 331۔ باب الفاء فیروزالدیلمی حدیث 852۔ المکتبۃ الشاملۃ)
پس یہ اہمیت ہے سورۃ اخلاص کی۔ اور جب ہم رات کو یہ پڑھیں تو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں یہ پڑھنی چاہئے۔ جب ہم کہیں کہ خدا تعالیٰ اَحَد ہے تو ساتھ ہی اس کے صمد ہونے کا مقام بھی اور مرتبہ بھی ہمارے سامنے آنا چاہئے۔ صمد وہ چیز ہے جو کسی کی محتاج نہیں ہے اور کبھی ختم ہونے والی نہیں ہے۔ کبھی ہلاک ہونے والی نہیں ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس بات کو اس طرح بیان فرمایا ہے کہ:
صمد کے معنی ہیں کہ ’’بجز اس کے تمام چیزیں ممکن الوجود اور ہَالِلَۃُ الذات ہیں۔‘‘ (براہین احمدیہ صفحہ433۔ حاشیہ بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلدنمبر 4 صفحہ 756)
یعنی جو پیدا ہو سکتی ہیں اور ہوتی ہیں اور ختم ہونے والی ہیں انہیں فنا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی ذات ایسی ہے جو صمد ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ صمد کا مطلب بے نیاز ہے۔ بے نیازی اس کی یہ ہے کہ نہ وہ ہلاک ہونے والا ہے، ختم ہونے و الا ہے اور نہ اس جیسی کوئی چیز پیدا ہو سکتی ہے۔ پس یہ ہمارا خدا ہے جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔
اور آپ فرماتے ہیں کہ’’خدا اپنی ذات اور صفات اور جلال میں ایک ہے۔ کوئی اس کا شریک نہیں۔ سب اس کے حاجت مند ہیں۔ ذرّہ ذرّہ اسی سے زندگی پاتا ہے۔ وہ کُل چیزوں کے لئے مبدءِ فیض ہے۔‘‘ (یعنی دنیا کو فائدہ پہنچانے والی اور فیض دینے والی اسی کی ذات ہے۔ اسی سے ہر فیض کے چشمے پھوٹتے ہیں) ’’اور آپ کسی سے فیضیاب نہیں ہوتا۔‘‘ (یعنی اس کو کوئی فیض پہنچانے والا نہیں ہے۔ وہی ہے جو دنیا کو فیض پہنچا رہا ہے۔) ’’وہ نہ کسی کا بیٹا ہے اور نہ کسی کا باپ۔ اور کیونکر ہو کہ اس کا کوئی ہم ذات نہیں۔ قرآن نے بار بار خدا کا کمال پیش کر کے اور اس کی عظمت دکھلا کے لوگوں کو توجہ دلائی ہے کہ دیکھو ایسا خدا دلوں کو مرغوب ہے۔ نہ کہ مردہ اور کمزور اور کم رحم اور کم قدرت۔‘‘ (اسلامی اصول کی فلاسفی صفحہ103۔ بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلدنمبر 4 صفحہ 757)
سورۃ اخلاص، سورۃ فلق اور سورۃ النّاس کے نازل ہونے کے بارے میں حضرت عقبہ بن عامر سے روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آج رات ایسی آیات اتری ہیں کہ ان جیسی پہلے کبھی نہیں دیکھی گئیں۔ اور وہ یہ ہیں یعنی قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ اور قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ اور قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ۔ (صحیح مسلم۔ کتاب صلوٰۃ المسافرین و قصرھا۔ باب فضل قراءۃالمعوّذتین)
پھر احادیث میں تینوں قُل پڑھنے کی اہمیت کے بارے میں روایت آتی ہے۔ حضرت عقبہ بن عامر جہنی بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں ایک جنگی سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کی مہار پکڑ کر آگے آگے چل رہا تھا کہ آپ نے فرمایا اے عقبہ! پڑھ۔ مَیں نے آپ کی طرف کان لگایا تا کہ آپ جو فرمائیں وہ میں سن کر پڑھوں۔ پھر کچھ دیر کے بعد فرمایا اے عقبہ! پڑھ۔ مَیں پھر متوجہ ہوا کہ آپ کیا فرماتے ہیں۔ کیا پڑھوں مَیں؟ آپ نے تیسری مرتبہ پھر یہی فرمایا تو میں نے عرض کیا۔ کیا پڑھوں؟ آپ نے فرمایا سورۃ قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ۔ پھر آپ نے آخر تک سورۃ پڑھی۔ پھر آپ نے سورۃقُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ آخر تک پڑھی۔ میں بھی آپ کے ساتھ پڑھتا رہا۔ پھر آپ نے سورۃ قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ آخر تک پڑھی۔ مَیں بھی آپ کے ساتھ پڑھتا رہا۔ پھر آپ نے فرمایا کسی شخص نے ان جیسی سورتوں یا کلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی پناہ حاصل نہیں کی۔‘‘ (سنن النسائی کتاب الاستعاذۃ حدیث 5430)
یعنی یہ ایسا کلام اور ایسی دعا ہے کہ جس سے انسان اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آ جاتا ہے اور کبھی ضائع نہیں ہوتا اور تمام شرور سے بچتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کا اس سے بہتر اَور کوئی ذریعہ ہی نہیں۔ اور احادیث میں ایسی روایت ملتی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ اس سے بہتر اللہ تعالیٰ کی اور کوئی پناہ نہیں۔ پھر سورۃ فلق اور النّاس کے بارے میں حضرت عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ مَیں ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کی لگام پکڑے چل رہا تھا۔ آپ نے فرمایا اے عقبہ! کیا مَیں تجھے ایسی دو سورتیں نہ سکھاؤں جن کی قراءت انتہائی بہتر اور نفع بخش ہے۔ مَیں نے عرض کیا کہ کیوں نہیں یا رسول اللہ۔ تو آپ نے فرمایاقُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ اور قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ۔ اور جب آپ نے صبح کی نماز کے لئے پڑاؤ کیا تو آپ نے انہی کی قراءت کی۔ یہی تلاوت کی۔ پھر جب آپ نے نماز ادا کر لی تو میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا اے عقبہ! تو کیسے دیکھتا ہے؟ (شاید اس لحاظ سے بھی انہوں نے کہا ہو کہ بڑی چھوٹی سورتیں آپ نے پڑھی ہیں۔ فرمایا ان میں تو سب کچھ ہے۔) (سنن ابوداؤد۔ ابواب الوتر۔ باب فی المعوّذتین۔ حدیث 1462)
ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت ابو سعیدؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنّات کی نظر سے اور انسانوں کی نظر سے پناہ مانگا کرتے تھے۔ جب معوّذتین نازل ہوئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اختیار کر لیا اور باقی سب ترک کر دیا‘‘۔ (سنن ابن ماجہ۔ کتاب الطب۔ باب من استرقی من العین حدیث 3511)
اس معاملے میں جو بھی دعائیں پہلے تھیں ان کو ختم کر دیا اور پھر یہی پڑھا کرتے تھے۔
حضرت ابنِ عابسؓ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ اے ابنِ عابس! کیا مَیں پناہ لینے کے بارہ میں تجھے تعوّذ کے سب سے افضل کلمات کے بارے میں نہ بتاؤں؟۔ بہترین پناہ کس طرح کی ہے جن سے پناہ مانگنے والا پناہ مانگا کرتے ہیں۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ کیوں نہیں؟ آپ نے فرمایا وہ سورتیں ہیں سورۃ فلق اور سورۃ ناس۔ (مسند احمد بن حنبلؒ۔ جلد 5صفحہ 322۔ مسند المکّیین۔ حدیث ابن عابس عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 15527)
پھر آخری دو سورتوں کی اہمیت بیان کرتے ہوئے ایک صحابی کہتے ہیں کہ ہم لوگ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی سفر میں تھے۔ چونکہ سواری کے جانور کم تھے اس لئے لوگ باری باری سوار ہوتے تھے۔ ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور میرے اترنے کی باری تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیچھے سے میرے قریب آئے اور میرے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ پڑھو۔ میں نے یہ کلمہ پڑھ لیا۔ اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سورۃ مکمل پڑھی اور میں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اسے پڑھ لیا۔ پھر اسی طرح اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ پڑھنے کے لئے فرمایا اور پوری سورۃ پڑھی جسے مَیں نے بھی پڑھ لیا۔ پھر آپ نے فرمایا جب نماز پڑھا کرو تو یہ دونوں سورتیں نماز میں پڑھ لیا کرو۔ (مسند احمد بن حنبلؒ۔ جلد 6صفحہ 918۔ اوّل مسندالبصریین۔ حدیث رجلٍ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 21025)
عقبہ بن عامر جہنی سے روایت ہے کہ میں ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔ جب فجر طلوع ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اذان کہی اور اقامت کہی۔ پھر مجھے اپنے دائیں جانب کھڑا کیا۔ پھر آپ نے معوّذتَین کے ساتھ قراءت کی۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا تُو نے کیسا دیکھا؟ (وہ پہلے والی روایت سے ملتا ہے۔) میں نے عرض کی کہ تحقیق مَیں نے دیکھ لیا یا رسول اللہ! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب بھی تُو سوئے اور جب بھی اٹھے تُو یہ دونوں سورتیں پڑھا کر۔ (المصنف فی الاحادیث والآثار از ابوبکر بن ابی شیبۃ جلد 1۔ صفحہ 403۔ کتاب الصلوات من کان یخفِّفُ القراء ۃ فی السفر۔ حدیث 3688)
پس یہ اہمیت ہے ان سورتوں کی اور اس زمانے میں ذاتی طور پر ہماری روحانی ترقی اور شیطان کے حملوں سے بچنے کے لئے اور جماعتی طور پر اسلام کے خلاف جو سازشیں ہو رہی ہیں ان سے بچنے کے لئے ان کے پڑھنے کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے۔ آجکل اسلام کے خلاف ایک طرف اسلام مخالف طاقتوں کی بڑی ہوشیاری سے کوششیں جاری ہیں تو دوسری طرف نام نہاد مسلمان علماء اور مسلمان لیڈروں نے ایک ایسی صورتحال پیدا کر دی ہے جہاں فتنہ و فساد پیدا ہو چکا ہے۔ مسلمان علماء مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف عامّۃ المسلمین کو بھڑکا کر شیطانی قوتوں کو بھی اور موقع دے رہے ہیں کہ ان کے ہاتھ مضبوط ہوں۔ اسی طرح دہریت ہے تو وہ بھی آجکل اپنے زوروں پر ہے۔ سورۃ فلق کے حوالے سے اس بات کو بیان فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ وضاحت فرماتے ہیں کہ
’’تم جو …… مسیح موعود کے دشمنوں کا نشانہ بنو گے یوں دعا مانگا کرو کہ مَیں مخلوق کے شر سے جو اندرونی اور بیرونی دشمن ہیں اس خدا کی پناہ مانگتا ہوں جو صبح کا مالک ہے۔ یعنی روشنی کا ظاہر کرنا اس کے اختیار میں ہے۔‘‘ (یہ روشنی روحانی روشنی ہے جو مسیح موعود کے آنے سے ظاہر ہوئی ہے) ’’اور مَیں اس اندھیری رات کے شر سے جو …… انکار مسیح موعود کے فتنے کی رات ہے خدا کی پناہ مانگتا ہوں‘‘۔ (تحفہ گولڑویہ صفحہ78۔ حوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلدنمبر 4 صفحہ 762)
ان میں ایک تو اسلام دشمن لوگ ہیں جو اسلام کی تعلیم پر اعتراض کرتے ہیں اور دوسرے علماء اسلام ہیں جو اپنی غلطی کو چھوڑنا نہیں چاہتے اور مسیح موعود کے خلاف لوگوں کو بھڑکانے میں مصروف ہیں۔ جن میں پاکستان کے علماء ہم دیکھتے ہیں کہ سرِ فہرست ہیں۔ پس ایسے حالات میں پاکستان میں تو احمدیوں کو خاص طور پر اس سنت کو جاری کرنے کی ضرورت ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ سورۃ فلق میں جو شَرِّغَاسِقٍ اِذَا وَقَبَ کہا گیا ہے اس میں اندھیری رات کے شر کے فتنہ سے بچنے کی دعا ہے۔ غَاسِق کہتے ہیں رات کو اور وَقَب کا مطلب ہے اندھیرے اور ظلمت کا چھا جانا اور یہ اندھیری رات کا فتنہ مسیح موعود کے انکار کے فتنہ کی شب تار ہے جس سے پناہ مانگی گئی ہے۔
افسوس ہے مسلمانوں کی حالت پر کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک دعا سکھائی اور روشنی کے بعد اندھیرے اور ظلمات کے فتنہ سے بچنے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان دعاؤں کو بلا ناغہ روزانہ پڑھا کرو تا کہ توحید پر بھی قائم رہو اور اندھیروں اور ظلمات کے فتنوں سے بھی بچو۔ لیکن مسلمانوں نے اس کی پرواہ نہیں کی۔ مسلمان تو اکثر ان فتنوں میں ڈوب رہے ہیں اور اسی وجہ سے آج دنیا میں غیر مسلموں کو مسلمانوں پر اعتراض کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ بہرحال مسلمانوں کی یہ حالت ہمیں توجہ دلاتی ہے کہ ان سورتوں پر غور کر کے پڑھیں تا کہ ان اندھیروں سے ہم بچ سکیں۔ شَرِّالنَّفّٰثٰتِ فِی الْعُقَدِ سے بھی اللہ تعالیٰ کی پناہ میں رہیں۔ جو نَفّٰثٰت کے شَرّ ہیں، جو گرہیں ہیں ان سے بھی ہم اللہ تعالیٰ کی پناہ میں رہیں۔ یعنی ان لوگوں سے جو اسلام اور احمدیت کے خلاف بڑے طریقے سے لوگوں کے دلوں میں بغض و کینہ پیدا کر رہے ہیں۔ اور اس میں جیسا کہ مَیں نے کہا غیر مسلم اور نام نہاد علماء دونوں شامل ہیں۔ ایک تو دین کے خلاف ہونے کی وجہ سے اپنی کارروائیاں کر رہے ہیں۔ غیر مسلم اسلام کے خلاف ہونے کی وجہ سے کارروائیاں کر رہے ہیں۔ اور دوسرے دین کے نام پر اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کے خلاف لوگوں کو بھڑکا کر یہ کارروائیاں کر رہے ہیں۔ اور دونوں ہی اس زمرہ میں شامل ہیں جن کے بارے میں فرمایا کہ وَمِنْ شَرِّالنَّفّٰثٰتِ فِی الْعُقَدِ۔
پھر سورۃ النّاس میں اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اور مالکیت اور حقیقی معبود ہونے کا بیان ہے۔ یہ بیان کر کے اس کی پناہ میں آنے اور شیطان کے وسوسے سے بچنے کی دعا کی ہے۔ آجکل دہریت اور دنیا کا بھی بڑا زور ہے اور دنیاداری نے اس قدر معاشرے میں عمومی طور پر اپنے پنجے گاڑ دئیے ہیں کہ بعض نوجوان اس سے متاثر ہو جاتے ہیں۔ پس یہ دعائیں جب ہم اپنے پر پھونکیں تو ساتھ ہی اپنے بچوں پر بھی پھونکیں تا کہ ہر قسم کے شرور سے ہماری نسلیں بھی محفوظ رہیں اور دین پر قائم رہنے والی اور خدا تعالیٰ کی وحدانیت کو سمجھنے والی ہوں۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم میں سے ہر ایک ان سورتوں کے مضمون کو سمجھتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت پر عمل کرنے والا ہو۔ خدا تعالیٰ کی وحدانیت کا مضمون ہم پر واضح ہو۔ اس کے علاوہ کسی اور کے آگے ہم جھکنے والے نہ ہوں۔ اسی کو سب طاقتوں کا سرچشمہ سمجھیں۔ نہ صرف دل میں بلکہ ہر عمل سے اسے ثابت کریں کہ اللہ تعالیٰ ہی سب طاقتوں کا سرچشمہ ہے۔ ہر روشنی کا منبع ہے۔ اور ہر فیض کا دینے والا ہے۔ مخلوق کے شر سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے آگے جھکیں بجائے اس کے کہ مخلوق سے امید رکھیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مان کر ہم نے جس روشنی کو حاصل کر لیا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی نور کا پرتَو ہے اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر ہمیشہ قائم رکھے اور کبھی ہم اندھیروں اور ظلمات میں بھٹکنے والے نہ ہوں۔ اور اللہ تعالیٰ کے انعاموں میں سے جو خلافت کا انعام ہمیں ملا ہے اس سے ہم ہمیشہ وابستہ رہیں۔ ہر نقصان پہنچانے والے کے شر سے اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی پناہ میں رکھے چاہے وہ دینی شر ہے یا دنیاوی شر ہے۔ ہر حاسد کے حسد سے اور اس کے نقصانات سے اللہ تعالیٰ ہمیں محفوظ رکھے۔ ہمیشہ خدا تعالیٰ کو ہی اپنا ربّ اور اپنا پالنے والا سمجھ کر ہم اس کی پناہ میں رہیں۔ سب بادشاہوں سے افضل خدا تعالیٰ کو سمجھیں اور اس کی مالکیت پر کامل یقین رکھنے والے ہوں۔ اس معبود حقیقی کی عبادت کے بھی حق ادا کرتے ہوئے ہر دم اس کی پناہ میں آنے کی کوشش کریں۔ وسوسے پیدا کرنے والوں کے شر سے بچیں۔ اس سے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آئیں۔ اپنے دلوں کو بھی ہر وسوسے سے پاک رکھنے کی کوشش رکھیں اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے اور ہم باقاعدگی سے سونے سے پہلے یہ آیات پڑھ کر، ان دعاؤں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق اپنے پر پھونکنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ اس کی توفیق دے۔
ایک مومن کو، ایک ایسے شخص کو جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ مَیں خدا تعالیٰ پر ایمان رکھتا ہوں، اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں عبادت کے طریق بھی بتائے جن میں عملی حصہ بھی ہے یعنی ظاہری حرکات و سکنات اور دعاؤں کے الفاظ بھی ہیں جسے ذکر بھی کہہ سکتے ہیں۔ نماز میں یہ دونوں باتیں موجود ہیں۔ یعنی ظاہری حرکات بھی ہیں اور ذکر بھی ہے۔ دعائیں بھی ہیں۔ لیکن نمازوں کے علاوہ بھی ذکر اور دعائیں اور خدا تعالیٰ کو یاد رکھنا ایک مومن کا کام ہے۔
قرآن کریم میں ہی اللہ تعالیٰ نے بہت سی دعائیں مختلف انبیاء کے حوالے سے بتائی ہیں جو ہم نماز میں بھی پڑھ سکتے ہیں اور چلتے پھرتے ذکر کے طور پر بھی پڑھتے ہیں اور پڑھ سکتے ہیں۔ آج میں ایک ذکر کے بارے میں بھی بتانا چاہتا ہوں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت بھی ہے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے اتری ہوئی دعائیں بھی ہیں اور جس کے مطالب پر غور کر کے پڑھنے سے جہاں انسان اللہ تعالیٰ کی توحید کا ادراک حاصل کرتا ہے وہاں اللہ تعالیٰ کی حفاظت اور پناہ میں بھی آتا ہے اور ہر قسم کے شرور سے بھی محفوظ رہتا ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف یہ کہ خود باقاعدگی سے روزانہ رات کو سونے سے پہلے ان آیات اور دعاؤں کو پڑھا کرتے تھے بلکہ صحابہ کو بھی پڑھنے کی تلقین فرماتے تھے اور بہت ساری جگہوں پر اِن دعاؤں کی، ان آیات کی اہمیت بیان فرمائی۔ آپ نے اس کے فوائد بیان فرمائے۔
احادیث نبویہ کے حوالہ سے آیت الکرسی، سورۃ الاخلاص، سورۃ الفلق اور سورۃ الناس کے فضائل کا تذکرہ اور سنت نبویﷺ کی روشنی میں ان دعاؤں کو باقاعدگی سے پڑھنے کی تحریک
جس کام کو آپؐ نے باقاعدہ جاری رکھا یا باقاعدگی سے کیا تو یہ آپ کی سنّت بنی اور اس کام کو ہر مسلمان کو کرنا چاہئے اور ہم احمدی جن کی اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر سنت پر عمل کرنے کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مزید رہنمائی فرمائی ہے ہمیں اس پر عمل کرنے کی خاص کوشش کرنی چاہئے اور خاص طور پر ان حالات میں جن میں سے ہم گزر رہے ہیں دعاؤں اور نمازوں اور اذکار کی طرف خاص طور پر نہ صرف اپنی ذاتی روحانی اور دنیاوی ضروریات کے لئے توجہ دینی چاہئے بلکہ جماعتی فتنوں اور فسادوں اور حاسدوں اور دشمنوں کے شر سے بچنے کے لئے بھی ایک انتہائی اہم فرض سمجھ کر توجہ دینی چاہئے۔
افسوس ہے مسلمانوں کی حالت پر کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک دعا سکھائی اور روشنی کے بعد اندھیرے اور ظلمات کے فتنہ سے بچنے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان دعاؤں کو بلا ناغہ روزانہ پڑھا کرو تا کہ توحید پر بھی قائم رہو اور اندھیروں اور ظلمات کے فتنوں سے بھی بچو۔ لیکن مسلمانوں نے اس کی پرواہ نہیں کی۔
آجکل دہریت اور دنیا کا بھی بڑا زور ہے اور دنیاداری نے اپنے پنجے اس قدر معاشرے میں عمومی طور پر گاڑ دئیے ہیں کہ بعض نوجوان اس سے متاثر ہو جاتے ہیں۔ پس یہ دعائیں جب ہم اپنے پر پھونکیں تو ساتھ ہی اپنے بچوں پر بھی پھونکیں تا کہ ہر قسم کے شرور سے ہماری نسلیں بھی محفوظ رہیں اور دین پر قائم رہنے والی اور خدا تعالیٰ کی وحدانیت کو سمجھنے والی ہوں۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم میں سے ہر ایک ان سورتوں کے مضمون کو سمجھتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرنے والا ہو۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے اور ہم باقاعدگی سے سونے سے پہلے یہ آیات پڑھ کر ان دعاؤں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق اپنے پر پھونکنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ اس کی توفیق دے۔
فرمودہ مورخہ 16؍ فروری 2018ء بمطابق 16؍تبلیغ 1397 ہجری شمسی، بمقام مسجدبیت الفتوح، مورڈن، لندن، یوکے
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔