مسیح موعود کی بعثت کے مقصد، ضرورت اور مقام
خطبہ جمعہ 23؍ مارچ 2018ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
آج 23؍مارچ ہے اور یہ دن جماعت میں ’یوم مسیح موعود‘ کے حوالے سے یاد کیا جاتا ہے۔ یوم مسیح موعود کے جلسے بھی جماعتیں اس دن کی مناسبت سے منعقد کرتی ہیں۔ آئندہ دو دنوں میں ہفتہ اتوار، weekend آ رہا ہے۔ بہت سی جماعتیں یہ جلسے منعقد کریں گی اور اس میں اس کی تاریخ، پس منظر، سارا کچھ بیان کیا جائے گا۔
اس وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعض ارشادات پیش کروں گا جن میں آپ نے مسیح موعود کی بعثت کے مقصد اور ضرورت اور مقام کے حوالے سے بیان فرمایا ہے۔ آپ کے دعوے کے بعدنام نہاد مسلمان علماء نے عامۃ المسلمین کو آپ کے خلاف بھڑکانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ انتہائی کوشش کی۔ جس حد تک وہ جا سکتے تھے گئے اور اب تک یہی کر رہے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی تائید سے آپ کی جماعت ترقی کر رہی ہے اور نیک فطرت لوگ جماعت میں شامل ہو رہے ہیں۔ بہرحال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خدائی وعدوں کے مطابق اپنی آمد کا ذکر کرتے ہوئے اور یہ اعلان فرماتے ہوئے کہ میں ہی آنے والا مسیح موعود ہوں فرماتے ہیں کہ:
’’توحید حقیقی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عفّت، عزّت او ر حقّانیت اور کتاب اللہ کے منجانب اللہ ہونے پر ظلم اور زُورکی راہ سے حملے کئے گئے ہیں توکیا خدا تعالیٰ کی غیرت کا تقاضا نہیں ہونا چاہئے کہ اس کاسرالصلیب کو نازل کرے؟‘‘ (کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اس زمانے میں حملے عیسائیوں کی طرف سے ہو رہے تھے۔) فرماتے ہیں ’’کیا خداتعالیٰ اپنے وعدہ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحَافِظُوْنَ (الحجر:10) کو بھول گیا؟ یقیناً یادرکھو کہ خدا کے وعدے سچے ہیں۔ اس نے اپنے وعدہ کے موافق دنیا میں ایک نذیر بھیجا ہے۔ دنیا نے اس کوقبول نہ کیا مگرخدا تعالیٰ اس کو ضرورقبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی کو ظاہر کرے گا‘‘۔ آپ فرماتے ہیں کہ’’مَیں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ میں خداتعالیٰ کے وعدہ کے موافق مسیح موعود ہوکر آیا ہوں۔ چاہوتو قبول کرو۔ چاہو تو ردّ کرو۔ مگر تمہارے ردّ کرنے سے کچھ نہ ہوگا۔ خداتعالیٰ نے جوارادہ فرمایا ہے وہ ہوکر رہے گا۔ کیونکہ خداتعالیٰ نے پہلے سے براہین میں فرمادیا ہے صَدَقَ اللّٰہُ وَرَسُوْلہٗ وَکَانَ وَعْدًامَّفْعُوْلًا۔‘‘ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ 206۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان) یعنی اللہ اور اس کے رسول کی بات سچی نکلی اور خدا کا وعدہ پورا ہوا۔
پھر ایک موقع پر آپ نے فرمایا کہ:
’’منہاج نبوت پر اس سلسلہ کو آزمائیں اور پھر دیکھیں کہ حق کس کے ساتھ ہے۔ خیالی اصولوں اور تجویزوں سے کچھ نہیں بنتا۔ اور نہ مَیں اپنی تصدیق خیالی باتوں سے کرتا ہوں۔ مَیں اپنے دعویٰ کو منہاجِ نبوت کے معیار پر پیش کرتا ہوں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ اسی اصول پر اس کی سچائی کی آزمائش نہ کی جاوے‘‘۔ فرماتے ہیں کہ ’’جو دل کھول کر میری باتیں سنیں گے مَیں یقین رکھتا ہوں کہ فائدہ اٹھاویں گے اور مان لیں گے۔ لیکن جو دل میں بخل اور کینہ رکھتے ہیں ان کو میری باتیں کوئی فائدہ نہ پہنچا سکیں گی۔ ان کی تو اَحْوَل جیسی مثال ہے‘‘۔ (یعنی وہ شخص جو بھینگا ہوتا ہے جس کو ایک کے دو نظر آتے ہیں۔) ’’جو ایک کے دو دیکھتا ہے۔ اس کو خواہ کسی قدر دلائل دئیے جائیں کہ دو نہیں ایک ہی ہے وہ تسلیم ہی نہیں کرے گا۔ کہتے ہیں‘‘ (آپ مثال دیتے ہیں ) ’’کہ ایک اَحْوَل خدمتگار تھا۔‘‘(بھینگا آدمی کسی شخص کا خدمت کرنے والا تھا ملازم تھا۔)’’آقا نے (اس کو) کہا کہ اندر سے آئینہ لے آؤ۔ وہ گیا اور واپس آکر کہا کہ اندر تو دو آئینے پڑے ہیں۔ کونسا لے آؤں؟ آقا نے کہا کہ ایک ہی ہے۔ دو نہیں۔ اَحْوَل نے کہا تو کیا مَیں جھوٹا ہوں؟ (اس کے) آقا نے کہا اچھا ایک کو توڑدے۔ جب توڑا گیا تو اسے معلوم ہوا کہ درحقیقت میری غلطی تھی۔‘‘ آپ فرماتے ہیں کہ’’مگر اِن اَحْوَلوں کا جو میرے مقابل ہیں کیا جواب دوں؟‘‘ فرماتے ہیں کہ’’غرض ہم دیکھتے ہیں کہ یہ لوگ بار باراگر کچھ پیش کرتے ہیں تو حدیث کا ذخیرہ جس کو خود یہ ظن کے درجہ سے آگے نہیں بڑھاتے۔ ان کو معلوم نہیں کہ ایک وقت آئے گا کہ ان کے رطب و یابس امور پر لوگ ہنسی کریں گے۔‘‘(جو اوٹ پٹانگ باتیں یہ کرتے ہیں اس پر لوگ ہنسی کیا کریں گے۔) فرماتے ہیں ’’یہ ہر ایک طالبِ حق کا حق ہے کہ وہ ہم سے ہمارے دعویٰ کا ثبوت مانگے۔‘‘(بڑی صحیح بات ہے ثبوت مانگنا چاہئے۔ اس پر ہر ایک کا حق ہے۔)’’اس کے لئے ہم و ہی پیش کرتے ہیں جو نبیوں نے پیش کیا‘‘۔ آپ فرماتے ہیں کہ ’’نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ، عقلی دلائل یعنی موجودہ ضرورتیں جو مصلح کے لئے مستدعی ہیں۔ پھر وہ نشانات جو خد انے میرے ہاتھ پر ظاہر کئے مَیں نے ایک نقشہ مرتب کر دیا ہے‘‘۔ آپ فرماتے ہیں ’’میں نے ایک نقشہ مرتب کر دیا ہے اس میں ڈیڑھ سو کے قریب نشانات دئیے ہیں جن کے گواہ ایک نوع سے کروڑوں انسان ہیں۔ بیہودہ باتیں پیش کرنا سعاد تمند کا کام نہیں‘‘۔ فرمایا کہ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی لئے فرمایا تھا کہ وہ حَکَم ہو کر آئے گا۔‘‘ (یعنی مسیح موعود جب آئے گا تو وہ حَکَم ہو گا) ’’اس کا فیصلہ منظور کرو۔‘‘ (وہ فیصلہ کرنے والا ہو گا اس کا فیصلہ منظور کرو۔)’’جن لوگوں کے دل میں شرارت ہوتی ہے وہ چونکہ ماننا نہیں چاہتے ہیں اس لئے بیہودہ حجتیں اور اعتراض پیش کرتے رہتے ہیں۔ مگر وہ یادرکھیں کہ آخر خدا تعالیٰ اپنے وعدہ کے موافق زور آور حملوں سے میری سچائی ظاہر کرے گا۔ مَیں یقین رکھتا ہوں کہ اگر میں افترا کرتا تو وہ مجھے فی الفور ہلاک کر دیتا۔ مگر میرا سارا کاروبار اس کا اپنا کاروبار ہے۔ اور میں اسی کی طرف سے آیا ہوں۔ میری تکذیب اس کی تکذیب ہے۔ اس لئے وہ خود میری سچائی ظاہر کردے گا۔‘‘ (ملفوظات جلد4 صفحہ 34-35۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پھر اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ مسیح موعود کی تکذیب اور انکار کا نتیجہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انکار تک تمہیں لے جائے گا۔ آپ فرماتے ہیں کہ:
’’میرا انکار میرا نکار نہیں ہے بلکہ یہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار ہے۔ کیونکہ جو میری تکذیب کرتا ہے وہ میری تکذیب سے پہلے معاذاللہ، اللہ تعالیٰ کو جھوٹا ٹھہرالیتا ہے۔ جبکہ وہ دیکھتا ہے کہ اندرونی اور بیرونی فساد حد سے بڑھے ہوئے ہیں اور خدا تعالیٰ نے باوجود وعدہ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحَافِظُوْنَ کے ان کی اصلاح کا کوئی انتظام نہ کیا جب کہ وہ اس امر پر بظاہر ایمان لاتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے آیت استخلاف میں وعدہ کیا تھا کہ موسوی سلسلہ کی طرح اس محمدؐ ی سلسلہ میں بھی خلفاء کا سلسلہ قائم کرے گا۔ مگر اس نے معاذاللہ اس وعدہ کو پورا نہیں کیا اور اس وقت کوئی خلیفہ اس اُمّت میں نہیں۔ اور نہ صرف یہاں تک ہی بلکہ اس بات سے بھی انکار کرنا پڑے گا کہ قرآن شریف نے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مثیلِ مُوسیٰ قرار دیا ہے یہ بھی صحیح نہیں ہے۔ معاذاللہ۔ کیونکہ اس سلسلہ کی اَتم مشابہت اور مماثلت کے لئے ضروری تھا کہ اس چودھویں صدی پر اسی اُمّت میں سے ایک مسیح پیدا ہوتا۔ اسی طرح پر جیسے موسوی سلسلہ میں چودھویں صدی پر ایک مسیح آیا۔ اور اسی طرح پر قرآن شریف کی اس آیت کو بھی جھٹلانا پڑے گا جو اٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْابِھِمْ(الجمعۃ:4) میں ایک آنے والے احمدی بروز کی خبر دیتی ہے اور اس طرح پر قرآن شریف کی بہت سی آیتیں ہیں جن کی تکذیب لازم آئے گی۔ بلکہ میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ اَلْحَمْدُ سے لے کر وَالنَّاس تک سارا قرآن چھوڑنا پڑے گا۔ پھر سوچو کہ کیا میری تکذیب کوئی آسان امر ہے؟ یہ مَیں ازخودنہیں کہتا۔ خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ حق یہی ہے کہ جو مجھے چھوڑے گا اور میری تکذیب کرے گا، وہ زبان سے نہ کرے مگر اپنے عمل سے اس نے سارے قرآن کی تکذیب کردی اور خدا کو چھوڑ دیا۔ اس کی طرف میرے ایک الہام میں بھی اشارہ ہے‘‘۔ (اللہ تعالیٰ نے آپ کو فرمایا کہ) ’’اَنْتَ مِنِّیْ وَاَنَا مِنْکَ۔‘‘ آپ فرماتے ہیں کہ ’’بیشک میری تکذیب سے خدا کی تکذیب لازم آتی ہے اور میرے اقرار سے خدا تعالیٰ کی تصدیق ہوتی اور اس کی ہستی پر قوی ایمان پیدا ہوتا ہے۔ اور پھر میری تکذیب میری تکذیب نہیں۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب ہے۔ اب کوئی اس سے پہلے کہ میری تکذیب اور انکار کے لئے جرأت کرے۔ ذرا اپنے دل میں سوچے اور اس سے فتویٰ طلب کرے کہ وہ کس کی تکذیب کرتا ہے؟‘‘
اس بات کو مزید کھول کر بیان فرماتے ہوئے کہ تکذیب مسیح موعود سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب لازم آتی ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ کس طرح مسیح موعود کے انکار سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب ہوتی ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کیوں تکذیب ہوتی ہے؟ (یعنی مسیح موعود کے انکار سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کیوں تکذیب ہوتی ہے؟) آپ فرماتے ہیں کہ’’اس طرح پر کہ آپ نے جو وعدہ کیا تھا کہ ہر صدی کے سر پر مجدد آئے گا وہ معاذاللہ جھوٹا نکلا۔ پھر آپ نے جو اِمَامُکُمْ مِنْکُمْ فرمایا تھا وہ بھی معاذاللہ غلط ہوا ہے۔ اور آپ نے جو صلیبی فتنہ کے وقت ایک مسیح و مہدی کے آنے کی بشارت دی تھی وہ بھی معاذاللہ غلط نکلی کیونکہ فتنہ تو موجود ہو گیا مگر وہ آنے والا امام نہ آیا۔ اب ان باتوں کو جب کوئی تسلیم کرے گا۔ عملی طور پر کیا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مکذّب ٹھہرے گا یا نہیں؟‘‘ آپ فرماتے ہیں ’’پس پھر مَیں کھول کر کہتا ہوں کہ میری تکذیب آسان امر نہیں۔ مجھے کافر کہنے سے پہلے خود کافربننا ہوگا۔ مجھے بے دین اور گمراہ کہنے میں دیر ہوگی۔ مگر پہلے اپنی گمراہی اور رُوسیاہی کو مان لینا پڑے گا۔ مجھے قرآن و حدیث کو چھوڑنے والا کہنے کے لئے پہلے خود قرآن اور حدیث کو چھوڑدینا پڑے گا اور پھر بھی وہی چھوڑے گا۔‘‘(یعنی مَیں نہیں چھوڑوں گا۔ وہی چھوڑے گا جو مجھے چھوڑنے والا کہتا ہے۔) آپ کہتے ہیں ’’مَیں قرآن و حدیث کا مُصدّق و مِصداق ہوں۔ میں گمراہ نہیں بلکہ مہدی ہوں۔ میں کافر نہیں بلکہ اَنَااَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْن کا مصداق صحیح ہوں۔ اور جو کچھ مَیں کہتا ہوں خدا نے مجھ پر ظاہر کیا کہ یہ سچ ہے۔ جس کو خدا پر یقین ہے، جو قرآن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق مانتا ہے اس کے لئے یہی حجّت کافی ہے کہ میرے منہ سے سن کر خاموش ہو جائے۔ لیکن جو دلیر اور بے باک ہے اس کا کیا علاج۔ خدا خود اس کو سمجھائے گا‘‘۔ (آپ یہ سب باتیں ایک آئے ہوئے مہمان کو سمجھا رہے تھے۔) آپ نے فرمایا کہ’’میرے معاملے میں جلدی سے کام نہ لیں بلکہ نیک نیتی اور خالی الذہن ہو کر سوچیں‘‘۔ (ملفوظات جلد 4 صفحہ 14 تا 16۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پھر آپ ایک موقع پر فرماتے ہیں کہ:
’’پس اگر ان لوگوں کے دل میں بخل اور ضدنہیں تو میری بات سنیں اور میرے پیچھے ہو لیں۔ پھر دیکھیں کہ کیا خدا تعالیٰ ان کو تاریکی میں چھوڑتا ہے یا نور کی طرف لے جاتا ہے؟ مَیں یقین رکھتا ہوں کہ جو صبر اور صدق دل سے میرے پیچھے آتا ہے وہ ہلاک نہ کیا جاوے گا بلکہ وہ اسی زندگی سے حصہ لے گا جس کو کبھی فنا نہیں۔‘‘ (یعنی اس دنیا میں بھی عزت پانے والا ہے اور پھر آخری زندگی میں بھی اللہ تعالیٰ اس پر انعامات کرے گا۔)
آپ فرماتے ہیں ’’جس کا دل صاف ہے اور خدا ترسی اس میں ہے اس کے سامنے دوبارہ آنے کے متعلق حضرت عیسیٰ ہی کا فیصلہ پیش کرتا ہوں۔ وہ مجھے سمجھاوے کہ یہودیوں کے سوال کے جواب میں (کہ مسیح سے پہلے ایلیا کا آنا ضروری ہے) جو کچھ مسیح نے کہا وہ صحیح ہے یا نہیں؟ یہودی تو اپنی کتاب پیش کرتے تھے کہ ملاکی نبی کے صحیفہ میں ایلیا کا آنا لکھا ہے۔ مثیل ایلیا کا ذکر نہیں‘‘۔ (ایلیا کے خود آنے کا ذکر ہے۔ مثیل کا ذکر تو نہیں۔ اس کے نمونے پر کسی آنے والے کا ذکر تو نہیں لکھا ہوا۔) آپ فرماتے ہیں کہ’’مسیح یہ کہتے ہیں کہ آنے والا یہی یوحنا ہے چاہو تو (اسے) قبول کرو۔ اب کسی منصف کے سامنے فیصلہ رکھو اور دیکھو کہ ڈگری کس کو دیتا ہے‘‘۔ (ظاہری بات پر اگر فیصلہ کروانا ہے کسی بھی جج کے سامنے رکھ دو اور دیکھو وہ ڈگری کس کو دیتا ہے) ’’وہ یقیناً یہودیوں کے حق میں فیصلہ دے گا‘‘ (کیونکہ ظاہری طور پر جو لکھا ہوا ہے اس کے مطابق فیصلہ ہوگا۔ مگر آپ فرماتے ہیں لیکن یہ فیصلہ صحیح نہیں ہے کیونکہ) ’’مگر ایک مومن جو خدا تعالیٰ پر ایمان لاتا ہے اور جانتا ہے کہ خدا کے فرستادے کس طرح آتے ہیں وہ یقین کرے گا کہ مسیح نے جو کچھ کہا اور کیا وہی صحیح اور درست ہے‘‘۔ آپ فرماتے ہیں ’’اب اس وقت وہی معاملہ ہے یا کچھ اور ؟ (ہے۔ بتاؤ) ’’اگر خدا کا خوف ہو تو پھر بدن کانپ جاوے یہ کہنے کی جرأت کرتے ہوئے کہ یہ دعویٰ جھوٹا ہے۔ افسوس اور حسرت کی جگہ ہے کہ ان لوگوں میں اتنا بھی ایمان نہیں جتنا کہ اس شخص کا تھا جو فرعون کی قوم میں سے تھا اور جس نے یہ کہا کہ اگر یہ کاذب ہے تو خود ہلاک ہو جائے گا۔ میری نسبت اگر تقویٰ سے کام لیا جاتا تو اتنا ہی کہہ دیتے اور دیکھتے کہ کیا خدا تعالیٰ میری تائیدیں اور نصرتیں کر رہا ہے یا میرے سلسلہ کو مٹا رہا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 4 صفحہ 30-31۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ ایک آواز جو ایک چھوٹی سی بستی سے اٹھی تھی دنیا کے 210 ملکوں میں پھیلی ہوئی ہے اور یہی آپ کی سچائی کی دلیل بھی ہے۔ دور دراز کے علاقے جہاں تیس چالیس سال پہلے تک بھی احمدیت کے پہنچنے کا تصور نہیں تھا، نہ صرف وہاں پیغام پہنچا ہے بلکہ وہاں ایسے پختہ ایمان والے اللہ تعالیٰ پیدا فرما رہا ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔ ایک واقعہ بھی بیان کرتا ہوں۔ بینن افریقہ کا ایک چھوٹا سا ملک ہے۔ وہاں 2012ء میں ایک جماعت کا قیام عمل میں آیا۔ وہاں کے ایک گاؤں کے ایک احمدی، ان کا نام ابراہیم صاحب ہے۔ انہوں نے احمدیت قبول کی۔ اس سے پہلے یہ مسلمان تھے اور کافی علم رکھنے والے تھے اور احمدیت قبول کرنے کے بعد انہوں نے اخلاص و وفا میں ترقی کرنی شروع کی۔ اپنے رشتہ داروں کو بھائیوں وغیرہ کو تبلیغ کرنی شروع کی۔ ان کے بھائی نے ان کی تبلیغ سے تنگ آ کر کہ یہ تبلیغ کر کے ہمیں ہمارے دین سے ہٹا رہا ہے، ان سے لڑائی کرنی شروع کر دی لیکن یہ تبلیغ کرتے رہے۔ لوگوں کو احمدیت کا پیغام، حقیقی اسلام کا پیغام پہنچاتے رہے۔ اور اس طرح ان کی کوششوں سے ارد گرد کے تین گاؤں اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیت میں شامل ہو گئے۔ تو ابراہیم صاحب کے بھائی نے اپنے ایک دوست کے ساتھ مل کے ان کے قتل کا منصوبہ بنایا کہ یہ تو احمدیت کو پھیلاتا چلا جا رہا ہے اس لئے ایک ہی علاج ہے کہ ان کو قتل کر دیا جائے۔ ابراہیم صاحب کہتے ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ ان کا بڑا بھائی اور اس کا دوست کوئی گڑھا کھود کر اس میں کچھ ڈال رہے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ خواب کے تین دن بعد ہی ان کے بڑے بھائی کا دوست اچانک بیمار ہوا اور اس کی موت واقع ہو گئی۔ اس پر ان کے بھائی نے کہنا شروع کر دیا کہ یہ احمدی جو ہے اس نے میرے دوست کو کوئی جادو ٹونہ کر دیا۔ کچھ عرصہ بعد یہ کہتے ہیں کہ میں نے پھر ایک خواب دیکھی کہ ان کا بھائی ایک درخت کے ساتھ لگ کر خود کو ماپ رہا ہے۔ اس علاقے میں یہ رواج ہے کہ جب کوئی فوت ہو جاتا ہے تو اس کی قبر کھودنے کے لئے ایک درخت کے تنے کی چھال کے ساتھ میّت کو ماپا جاتا ہے تا کہ قبر اس کے سائز کے مطابق بنائی جائے۔ کہتے ہیں کچھ دن کے بعد بڑے بھائی کی حاملہ بیوی بیمار ہوئی اور دو دن کے اندر فوت ہو گئی۔ اور اس کے سارے بچے بیچارے بیمار ہونے شروع ہوئے۔ ان کو فرق نہیں پڑ رہا تھا۔ ان کے بھائی نے مشہور کر دیا کہ یہ جادو ٹونہ کرنے والا شخص ہے اور وہاں کا جو مقامی بادشاہ تھا، چیف تھا اس کے پاس شکایت کی۔ اس کو مدد کے لئے کہا۔ اس نے کچھ پیسے مانگے کہ یہ لے کر آؤ تو مَیں اس کا علاج کرتا ہوں۔ خیر ان کے بھائی نے رقم ادا کر دی۔ بادشاہ نے ابراہیم صاحب کو بلایا اور جب یہ گئے تو بڑے غصے اور طیش میں اس نے کہا کہ تم نے یہ کیا تماشا بنایا ہوا ہے۔ یہ نیا مذہب اختیار کیا ہے۔ نیا دین شروع کر دیا ہے۔ اس کو فوراً چھوڑو اور توبہ کرو ورنہ کل کا سورج نہیں تم دیکھ سکو گے۔ تمہارے پر کل کا دن نہیں چڑھے گا۔ ابراہیم صاحب کہنے لگے کہ مذہب تو مَیں نے سچ سمجھ کر قبول کیا ہے اس کو تو مَیں چھوڑ نہیں سکتا اور رہی بات مرنے کی تو زندگی موت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ اس پر اس چیف نے یا بادشاہ نے کہا کہ اس علاقے کا خدا مَیں ہوں۔ میں جو چاہتا ہوں کرتا ہوں اور تم لوگ یہ اچھی طرح جانتے ہو کہ میں کیا فیصلہ کرنے لگا ہوں اور جس کو میں یہ کہہ دوں کہ وہ کل تک مر جائے گا تو وہ ضرور مرتا ہے۔ ابراہیم صاحب نے کہا کہ ٹھیک ہے تم اپنے روایتی لوگوں کو کہتے ہو گے لیکن میں اس بات میں تمہیں کچھ نہیں کہتا۔ مگر مَیں دین نہیں چھوڑوں گا کیونکہ حقیقت یہی ہے اور سچا اسلام یہی ہے۔ اس پر چیف کو مزید غصہ آیا۔ اس نے اپنے لوگوں کو کہا ان کو لے جاکے کمرے میں بند کر دو۔ وہ لے کے جا رہے تھے تو ابراہیم صاحب نے ان لوگوں کو کہا کہ تم میرے بیچ میں نہ پڑو اور اس معاملے کو چھوڑو۔ مجھے بند کرنے کی بجائے جانے دو۔ خیر وہ لوگ بھی لالچی ہوتے ہیں کچھ رقم لے کے انہوں نے ان کو چھوڑ دیا۔ اس بادشاہ نے یا چیف نے ان پر صبح کا سورج کیا طلوع کروانا تھا اگلے دن ہی اطلاع ملی کہ اس بادشاہ کو فالج ہو گیا اور وہ ہلنے جلنے کے قابل نہیں رہا اور دو دن بعد ہی وہ فوت ہو گیا۔ یہ دیکھ کر ان کے بڑے بھائی جو اُن کے مخالف تھے انہوں نے خاندان والوں سے کہا کہ ہماری صلح کرا دیں۔ انہوں نے کہا میری تو لڑائی کسی سے تھی ہی نہیں۔ ہم تو ایسے ہی صلح جُو ہیں اور اسلام کا حقیقی پیغام بھی یہی ہے۔ تو اس چیف کے مرنے کا یہ نشان دیکھ کر وہاں علاقے میں اس کا بہت اثر ہوا اور بڑا چرچا ہوا۔ احمدیت کی سچائی ثابت ہوئی۔ تو یہ چیزیں ہیں جو آج بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تائید میں ثابت ہو رہی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
’’دیکھو مَیں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ہزاروں نشان میری تصدیق کے ظاہر ہوئے ہیں اور ہو رہے ہیں اور آئندہ ہوں گے‘‘۔ (یہ نہیں کہ بند ہو گئے۔ آپ فرماتے ہیں کہ آئندہ ہوں گے۔) ’’اگر یہ انسان کا منصوبہ ہوتا تو اس قدر تائید اور نصرت اس کی ہرگز نہ ہوتی۔‘‘ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 48) یہ اللہ تعالیٰ کا ہی منصوبہ ہے جس کی وجہ سے تائید ہو رہی ہے۔
ایک موقع پر ضرورت مصلح اور مسیح موعود کی ضرورت کے بارے میں بیان کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ:
’’جیسا کہ ہر ایک فصل کے کاٹنے کا وقت آ جاتا ہے۔ ایسا ہی اب مفاسد کے دُور کردینے کا وقت آگیا ہے‘‘۔ (جو فساد دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں، جو برائیاں پھیلی ہوئی ہیں ان کو دور کرنے کا وقت آ گیا ہے۔) آپ فرماتے ہیں۔ ’’صادق کی توہین اور گستاخی انتہا تک کی گئی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قدر‘‘ (آپ فرماتے ہیں نعوذ باللہ) ’’مکھی اور زنبور جتنی بھی نہیں کی گئی۔ زنبور سے بھی انسان ڈرتا ہے‘‘ (ایک بھڑ جو ہے) ’’اور چیونٹی سے بھی اندیشہ کرتا ہے لیکن حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو برا کہنے میں کوئی نہیں جھجکتا۔ کَذَّبُوْا بِاٰیَاتِنَا کے مصداق ہو رہے ہیں۔ جتنا منہ ان کا کھل سکتا ہے انہوں نے کھولا اور منہ پھاڑ پھاڑ کر سبّ وشتم کئے۔ اب واقعی وہ وقت آگیا ہے کہ خدا تعالیٰ ان کا تدارک کرے۔ ایسے وقت میں وہ ہمیشہ ایک آدمی کو پیدا کیا کرتا ہے جو اس کی عظمت اور جلال کے لئے بہت جوش رکھتا ہے۔ ایسے آدمی کو باطنی مدد کا سہارا ہوتا ہے۔ دراصل اللہ تعالیٰ سب کچھ آپ ہی کرتا ہے مگر اس کا پیدا کرنا ایک سنّت کا پورا کرنا ہوتا ہے۔ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللہِ تَبْدِیْلًا۔‘‘ اب وہ وقت آ گیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنی سنت کے موافق بھیجا ہے۔
آپ فرماتے ہیں کہ ’’خداتعالیٰ کے صحیفہ قدرت پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب بات حد سے گزر جاتی ہے تو آسمان پر تیاری کی جاتی ہے۔ یہی اس کا نشان ہے کہ یہ تیاری کا وقت آ گیا ہے۔ سچے نبی و رسول و مجدد کی بڑی نشانی یہی ہے کہ وہ وقت پر آوے اور ضرورت کے وقت آوے۔ لوگ قسم کھا کر کہیں کہ کیا یہ وقت نہیں کہ آسمان پر کوئی تیاری ہو؟‘‘ (آپ پوچھ رہے ہیں۔ لوگوں سے سوال کر رہے ہیں کہ قسم کھا کے بتاؤ کہ کیا یہ وقت نہیں ہے۔ وہ زمانہ بھی تھا اور آج بھی لوگ یہی کہہ رہے ہیں کہ ہمیں کسی مصلح کی ضرورت ہے بلکہ پاکستان میں تو مولوی خود یہ کہتے ہیں لیکن مسیح موعود کا انکار ہے۔) آپ فرماتے ہیں ’’مگر یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ سب کچھ آپ ہی کیا کرتا ہے۔ ہم اور ہماری جماعت اگر سب کے سب حجروں میں بیٹھ جائیں تب بھی کام ہو جائے گا اور دجّال کو زوال آجائے گا۔ تِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ۔‘‘ (اس طرح دن آپس میں پھرا کرتے ہیں۔) فرمایا کہ ’’اس کا کمال بتاتا ہے کہ اب اس کے زوال کا وقت قریب ہے‘‘۔ (کسی چیز کو جب عروج حاصل ہو جائے، جب انتہا پہ پہنچ جائے تو وہ سمجھنے لگے کہ اب میں سب طاقتوں کا مالک ہو گیا ہوں اور سب ترقیاں میرے ہاتھ میں آ گئی ہیں تو پھر وہ جو عروج ہے اس پر پہنچ کر پھر وہاں سے زوال شروع ہو جاتا ہے۔ اسی طرح اب ان طاقتوں کا بھی زوال شروع ہوگیا ہے۔ چاہے وہ اسلام کے خلاف طاقتیں ہیں یا وہ لوگ جو احمدیت کے خلاف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف ہیں۔) آپ فرماتے ہیں کہ ’’اس کا ارتفاع ظاہر کرتا ہے کہ اب وہ نیچا دیکھے گا۔‘‘ (انتہائی بلندی پہ پہنچ گیا۔ اب یہ ظاہر کر رہا ہے کہ اب وہ نیچے کی طرف آئے گا۔) ’’اس کی آبادی اس کی بربادی کا نشان ہے۔‘‘ (وہ سمجھتا ہے کہ اس کی طاقت اور آبادی بہت زیادہ ہے تو اب یہ بربادی کا نشان بن جائے گی۔) ’’ہاں ٹھنڈی ہوا چل پڑی (ہے)۔ اللہ تعالیٰ کے کام آہستگی کے ساتھ ہو تے ہیں‘‘۔ (ٹھیک ہے۔ نشان شروع ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ کے کام آہستگی سے ہوتے ہیں اور وہ انشاء اللہ ہو جائیں گے۔) آپ فرماتے ہیں کہ’’اگر ہمارے پاس کوئی بھی دلیل نہ ہوتی تاہم زمانے کے حالات پر نظر کر کے مسلمانوں پر واجب تھا کہ وہ دیوانہ وار پھرتے اور تلاش کرتے کہ مسیح اب تک کیوں نہیں کسرِ صلیب کے لئے آیا۔ ان کو یہ نہ چاہئے تھا کہ اسے اپنے جھگڑوں کے لئے بلاتے۔‘‘ (اسلام کی غیرت تھی تو اسلام کے دفاع کے لئے بلاتے۔ مسیح کو تلاش کرتے، نہ کے اپنے جھگڑوں کو حل کرنے کے لئے۔) فرمایا ’’کیونکہ اس کا کام کسرِ صلیب ہے اور اسی کی زمانے کو ضرورت ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ 396 تا 398۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
اسی طرح ایک جگہ فرمایا کہ ’’دہریت بھی پھیل رہی ہے زیادہ اور میں اس کے ردّ کے لئے بھی آیا ہوں۔‘‘ (ماخوذ از ملفوظات جلد 7 صفحہ 28۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
آپ فرماتے ہیں کہ ’’اسی لئے اس کا نام مسیح موعود ہے۔ اگر مُلّانوں کو بنی نوع انسان کی بھلائی اور بہبودی مدّ نظر ہوتی تو وہ ہر گز ایسا نہ کرتے جیسا ہم سے کر رہے ہیں۔ ان کو سوچنا چاہئے تھا کہ انہوں نے ہمارے خلاف فتوی لکھ کر کیا بنا لیا ہے۔ جسے خدا تعالیٰ نے کہا کہ ہو جائے اسے کون کہہ سکتا ہے کہ نہ ہو۔‘‘ (فتوی لکھا تو اس کا کیا فائدہ ہوا۔ جماعت تو اسی طرح ترقی کر رہی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کیا کہ ہو جا تو وہ ہو جاتا ہے۔ پھر کوئی اس کو روک نہیں سکتا۔)
آپ فرماتے ہیں ’’یہ لوگ جو ہمارے مخالف ہیں یہ بھی ہمارے نوکر چاکر ہیں کہ کسی نہ کسی رنگ میں ہماری بات مشرق و مغرب تک پہنچا دیتے ہیں‘‘۔ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ 398۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
جو مخالفت کر رہے ہیں وہ بھی حقیقت میں مخالفت کے ذریعہ سے ہی احمدیت اور حقیقی اسلام کا پیغام پہنچا رہے ہیں کیونکہ اس طرح بھی لوگوں کو توجہ پیدا ہوتی ہے۔ بہت سارے لوگ خط لکھتے ہیں اور رابطہ کرتے ہیں کہ فلاں مولوی کی مخالفت کی وجہ سے یا فلاں جگہ آپ کے خلاف باتیں ہو رہی تھیں۔ ان کی وجہ سے ہمیں تجسّس پیدا ہوا تو ہم نے تحقیق کرنی شروع کی۔ اور اب تو انٹرنیٹ کے ذریعہ سے ہر جگہ جماعتی لٹریچر بھی میسر ہے اور بہت ساری باتیں مل جاتی ہیں۔ موازنہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ تو تحقیق کر کے اب ہم جماعت میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ تو مولویوں کا، مخالفین کا یہ ذریعہ بھی تبلیغ کا ایک ذریعہ بن رہا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بعض لوگوں کے اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے کہ ہم اسلام کی تعلیم پر عمل کر رہے ہیں اور پہلے ہی جو اتنے فرقے ہیں تو پھر ایک نیا فرقہ بنانے کی کیا ضرورت ہے اور آپ کی جماعت میں شامل ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ آپ فرماتے ہیں کہ بعض دفعہ ہمارے احمدی بھی معترضین کی یہ باتیں سن کر خاموش ہو جاتے ہیں۔ اُس زمانے میں اور آجکل بھی بعض ایسے ہیں جو خاموش ہو جاتے ہیں کہ کیا جواب دیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ’’بہت سے ایسے لوگ ہیں جو یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اس سلسلہ کی ضرورت کیا ہے؟ کیا ہم نماز روزہ نہیں کرتے ہیں؟ وہ اس طرح پر دھوکہ دیتے ہیں۔ اور کچھ تعجب نہیں کہ بعض لوگ جو ناواقف ہوتے ہیں ایسی باتوں کو سن کر دھوکہ کھا جاویں اور ان کے ساتھ مل کر یہ کہہ دیں کہ جس حالت میں ہم نماز پڑھتے ہیں، روزہ رکھتے ہیں اور وِرد وظائف کرتے ہیں۔ پھر کیوں یہ پھوٹ ڈال دی؟‘‘ (کہ نیا فرقہ بنا دیا۔ تو کیوں پھوٹ ڈال دی۔ ہم نماز روزہ کر رہے ہیں تو تمہارے اندر شامل ہونے کی، ایک نیا فتنہ فساد پیدا کرنے کی کیا ضرورت ہے۔) آپ فرماتے ہیں کہ ’’یاد رکھو کہ ایسی باتیں کم سمجھی اور معرفت کے نہ ہونے کا نتیجہ ہے۔ میرا اپنا کام نہیں ہے۔ یہ پھوٹ اگر ڈال دی ہے تو اللہ تعالیٰ نے ڈالی ہے جس نے اس سلسلہ کو قائم کیا ہے۔‘‘ (میں نے تو قائم نہیں کیا۔ یہ تو اللہ تعالیٰ نے قائم کیا ہے۔) ’’کیونکہ ایمانی حالت کمزور ہوتے ہوتے یہاں تک نوبت پہنچ گئی ہے کہ ایمانی قوت بالکل ہی معدوم ہو گئی ہے اور اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ حقیقی ایمان کی روح پھونکے جو اس سلسلہ کے ذریعہ سے اس نے چاہا ہے۔ ایسی صورت میں ان لوگوں کا اعتراض بیجااور بیہودہ ہے۔ پس یادرکھو کہ ایسا وسوسہ ہرگز ہر گز کسی کے دل میں نہیں آنا چاہئے اور اگر پورے غور اور فکر سے کام لیا جاوے تو یہ وسوسہ آہی نہیں سکتا۔ غور سے کام نہ لینے کے سبب ہی سے وسوسہ آتا ہے جو ظاہری حالت پر نظر کر کے کہہ د یتے ہیں کہ اور بھی مسلمان ہیں۔ اس قسم کے وسوسوں سے انسان جلد ہلاک ہو جاتا ہے‘‘۔ فرمایا کہ ’’میں نے بعض خطوط اس قسم کے لوگوں کے دیکھے ہیں جو بظاہر ہمارے سلسلہ میں ہیں‘‘ (بیعت کی ہوئی ہے) ’’اور کہتے ہیں کہ ہم سے جب یہ کہا گیا کہ دوسرے مسلمان بھی بظاہر نماز پڑھتے ہیں اور کلمہ پڑھتے ہیں، روزے رکھتے ہیں اور نیک کام کرتے ہیں اور نیک معلوم ہوتے ہیں پھر اس نئے سلسلہ کی کیا حاجت ہے؟‘‘ آپ فرماتے ہیں کہ’’یہ لوگ باوجود یکہ ہماری بیعت میں داخل ہیں ایسے وسوسے اور اعتراض سن کر لکھتے ہیں کہ ہم کو اس کاجواب نہیں آیا۔ ایسے خطوط پڑھ کر مجھے ایسے لوگوں پر افسوس اور رحم آتا ہے کہ انہوں نے ہماری اصل غرض اور منشاء کو نہیں سمجھا۔ وہ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ رسمی طور پر یہ لوگ ہماری طرح شعائرِ اسلام بجالاتے ہیں اور فرائض الٰہی ادا کرتے ہیں حالانکہ حقیقت کی روح ان میں نہیں ہو تی‘‘۔ (صرف فرضی طور پہ نہیں کرنا۔ ظاہری طور پر نہیں کرنا بلکہ حقیقی طور پر عبادت بھی ہونی چاہئے اور دوسرے فرائض بھی ادا ہونے چاہئیں۔) ’’اس لیے یہ باتیں اور وساوس سحر کی طرح کام کرتے ہیں۔‘‘ (وسوسے آجاتے ہیں اور جو باتیں کر رہے ہوتے ہیں اس کا اثر پھر ان پہ جادو کی طرح ہو جاتا ہے۔) ’’وہ ایسے وقت نہیں سوچتے کہ ہم حقیقی ایمان پیدا کر نا چا ہتے ہیں جو انسان کو گناہ کی موت سے بچا لیتا ہے اور ان رسوم وعادات کے پیرو لوگوں میں وہ بات نہیں۔ ان کی نظر ظاہر پر ہے حقیقت پر نگاہ نہیں۔ ان کے ہاتھ میں چھلکا ہے جس میں مغزنہیں۔‘‘ (ملفوظات جلد 6 صفحہ 237 تا 239۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان) پس بیشک ظاہری عمل تو مسلمان کرتے ہیں لیکن روح ان میں نہیں ہے۔ تقویٰ نہیں ہے۔
اس بات کو بیان کرتے ہوئے کہ اگر مسلمان کہلانے والوں کے اعمال، اعمال صالحہ ہیں تو پھر ان کے پاک نتائج کیوں نہیں پیدا ہوتے۔
آپ بیان فرماتے ہیں کہ’’یہ لوگ‘‘ (یعنی بعض مسلمان) ’’سمجھتے نہیں کہ ہم میں کون سی بات اسلام کے خلاف ہے۔ ہم لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہتے ہیں اور نمازیں بھی پڑھتے ہیں اور روزے کے دنوں میں روزے بھی رکھتے ہیں اور زکوۃ بھی دیتے ہیں۔‘‘ (یعنی کہ یہ لوگ جو غیر از جماعت مسلمان ہیں، دوسرے مسلمان ہیں کہتے ہیں ہماری ہر بات جو ہے وہ تو ہم اسلام کے مطابق کر رہے ہیں۔ کوئی ایسی بات تو ہے نہیں کہ تمہارے ساتھ جُڑ کے ہم زیادہ اچھی طرح اسلام کی حقیقت کو سمجھ جائیں کیونکہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ہم کہتے ہیں۔ نمازیں ہم پڑھتے ہیں۔ روزے ہم رکھتے ہیں۔ زکوۃ بھی ہم دیتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ یہی کچھ نہیں۔) فرمایا کہ’’مگر مَیں کہتا ہوں کہ ان کے تمام اعمالِ اعمال صالحہ کے رنگ میں نہیں ہیں بلکہ محض ایک پوست کی طرح ہیں جن میں مغز نہیں ہے۔ ورنہ اگر یہ اعمالِ صالحہ ہیں تو پھر ان کے پاک نتائج کیوں پیدا نہیں ہوتے؟ اعمال صالحہ تو تب ہو سکتے ہیں کہ وہ ہر قسم کے فساد اور ملاوٹ سے پاک ہوں۔ لیکن ان میں یہ باتیں کہاں ہیں؟ مَیں کبھی یقین نہیں کر سکتا کہ ایک شخص مومن اور متقی ہو اور اعمالِ صالحہ کرنے والا ہو اور وہ اہل حق کا دشمن ہو حالانکہ یہ لوگ ہم کو بے قید اور دہریہ کہتے ہیں اور خدا تعالیٰ سے نہیں ڈرتے۔ میں نے اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر بیان کیا کہ مجھ کو اللہ تعالیٰ نے مامور کر کے بھیجا ہے اور اگر اللہ تعالیٰ کی کچھ عظمت ان کے دل میں ہوتی تو وہ انکار نہ کرتے اور اس سے ڈر جاتے کہ ایسا نہ ہو کہ ہم خدا تعالیٰ کے نام کی تخفیف کرنے والے ٹھہریں۔ لیکن یہ تب ہوتا جب کہ ان میں حقیقی اور اصل ایمان اللہ تعالیٰ پر ہوتا اور وہ یوم الجزاء سے ڈرتے اور لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْم پر اُن کا عمل ہوتا۔‘‘ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ 343۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان) یعنی وہ بات نہ کرو جس کا تمہیں علم نہیں ہے۔
اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ مسیح موعود کی آمد کا مقصد اندرونی اور بیرونی فتنوں اور حملوں سے اسلام کو محفوظ کرنا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی بات کی خبر دی ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ:
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری زمانے کے واسطے خبر دی تھی کہ اس وقت دو رنگ کے فتنے ہوں گے۔ ایک اندرونی۔ دوسرا بیرونی۔ اندرونی فتنہ یہ ہوگا کہ مسلمان سچی ہدایت پر قائم نہ رہیں گے اور شیطانی عمل دخل کے نیچے آ جائیں گے۔‘‘ (اعمال صالحہ ان میں کوئی نہیں ہو گا۔) ’’قماربازی، زناکاری، شراب خوری اور ہر قسم کے فسق و فجور میں مبتلا ہو کر حدود اللہ سے نکل جائیں گے اور خدا تعالیٰ کی نواہی کی پرواہ نہ کریں گے۔ صوم و صلوۃ کو ترک کر دیویں گے اور امر الٰہی کی بے حرمتی کی جائے گی اور قرآنی احکام کے ساتھ ہنسی ٹھٹھا کیا جائے گا۔‘‘ (یہ تو اندرونی فتنہ ہے کہ مسلمانوں کی عملی حالت بگڑ گئی ہے۔ اکثریت مسلمانوں کی یہی ہے۔ آپس میں بھی آپ دیکھ لیں مسلمان دنیا میں بھی کس طرح ایک دوسرے پر ظلم ہو رہے ہیں۔) اور ’’بیرونی فتنہ یہ ہو گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک ذات پہ افتراء کئے جائیں گے۔‘‘ (اور یہ بھی آجکل بہت بڑھ کر ہو رہا ہے) ’’اور ہر قسم کے دل آزار حملوں سے اسلام کی توہین اور تخریب کی کوشش کی جاوے گی۔ مسیح کی خدائی کو منوانے کے لئے اور اس کی صلیبی لعنت پر ایمان لانے کے واسطے ہر قسم کے حیلے اور تدابیر عمل میں لائی جاویں گی۔ غرض ان دونوں اندرونی اور بیرونی عظیم الشان فتنوں کی اصلاح کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ساتھ ہی یہ بشارت ملی کہ ایک شخص آپ کی اُمّت میں سے مبعوث کیا جاوے گا، جو بیرونی فتنہ اور صلیبی مذہب کی حقیقت کو توڑ دینے والا ہوگا اور اسی لحاظ سے وہ مسیح ابن مریم ہو گا اور اندرونی تفرقوں اور بے راہیوں کو دور کر کے ہدایت کی سچی راہ پر قائم کرے گا اس لئے مہدی کہلائے گا۔ اسی بشارت کی طرف وَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ میں بھی اشارہ ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ 444-445۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس ہم نے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مانا ہے ہمارے اللہ تعالیٰ سے تعلق اور تقویٰ کے معیار دوسرے مسلمانوں سے بلند ہونے چاہئیں۔ آپ نے جو عام طور پہ نقشہ کھینچا ہے وہ ہمارا نقشہ نہیں ہونا چاہئے۔ ہماری عملی حالت دوسروں سے بہتر ہونی چاہئے۔ ہمارے عمل ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق اور صالح ہونے چاہئیں۔ چنانچہ اس بات کو بیان فرماتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ:
’’آدمی کو بیعت کر کے صرف یہی نہ ماننا چاہئے کہ یہ سلسلہ حق ہے‘‘۔ (سچائی کو مان لیا۔ کافی ہو گیا۔) ’’اور اتنا ماننے سے اسے برکت ہوتی ہے۔‘‘ فرماتے ہیں کہ’’صرف ماننے سے اللہ تعالیٰ خوش نہیں ہوتا جب تک اچھے عمل نہ ہوں۔ کوشش کرو کہ جب اس سلسلہ میں داخل ہوئے ہوتو نیک بنو۔ متقی بنو۔ ہر ایک بدی سے بچو۔ یہ وقت دعاؤں سے گزارو۔ رات اور دن تضرع میں لگے رہو۔ جب ابتلا کا وقت ہوتا ہے تو خد اتعالیٰ کا غضب بھی بھڑکا ہوا ہوتا ہے۔ ایسے وقت میں دعا، تضرع، صدقہ خیرات کرو۔ زبانوں کو نرم رکھو۔ استغفار کو اپنا معمول بناؤ۔ نمازوں میں دعائیں کرو۔ مثل مشہور ہے کہ منّتیں کرتا ہوا کوئی نہیں مرتا۔ نرا ماننا انسان کے کام نہیں آتا۔ اگر انسان مان کر پھر اسے پس پُشت ڈال دے تو اسے فائدہ نہیں ہوتا۔ پھر اس کے بعد یہ شکایت کرنی کہ بیعت سے فائدہ نہیں ہوا بے سود ہے۔ خدا تعالیٰ صرف قول سے راضی نہیں ہوتا۔‘‘
عملِ صالح کی تعریف کرتے ہوئے کہ عمل صالح کیا چیز ہے فرمایا کہ ’’قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے ایمان کے ساتھ عملِ صالح بھی رکھا ہے۔ عملِ صالح اسے کہتے ہیں جس میں ایک ذرہ فسادنہ ہو۔ یاد رکھو کہ انسان کے عمل پر ہمیشہ چور پڑا کرتے ہیں۔ وہ (چور) کیا ہیں؟‘‘ (کس قسم کے چور پڑتے ہیں عمل پر؟) ’’ریاکاری۔ (کہ جب انسان دکھاوے کے لئے ایک عمل کرتا ہے۔ عُجب (یہ ہے (کہ وہ عمل کر کے اپنے نفس میں خوش ہوتا ہے) اس کو عُجب کہتے ہیں ) ’’اور قسم قسم کی بدکاریاں اور گناہ جو اس سے صادر ہوتے ہیں ان سے اعمال باطل ہو جاتے ہیں۔‘‘ فرمایا کہ’’عملِ صالح وہ ہے جس میں ظلم، عُجب، ریا، تکبر اور حقوقِ انسانی کے تلف کرنے کا خیال تک نہ ہو۔ جیسے آخرت میں انسان عملِ صالح سے بچتا ہے ویسے ہی دنیا میں بھی بچتا ہے۔‘‘ (یعنی آخرت میں بھی نیک اعمال جو ہیں انہی کی وجہ سے بچاؤ کا سامان ہوگا۔ اچھے نیک عمل ہوں گے تو اللہ تعالیٰ راضی ہو گا اور انعامات سے نوازے گا۔ اسی طرح دنیا میں بھی اگر نیک عمل ہوں گے تو بہت سی دنیاوی پریشانیوں اور تکلیفوں سے انسان بچ جاتا ہے۔) فرمایا کہ ’’اگر ایک آدمی بھی گھر بھر میں عمل صالح والا ہو تو سب گھر بچا رہتا ہے۔ سمجھ لو کہ جب تک تم میں عملِ صالح نہ ہو صرف ماننا فائدہ نہیں کرتا۔ ایک طبیب نسخہ لکھ کر دیتا ہے تو اس سے یہ مطلب ہوتا ہے کہ جو کچھ اس میں لکھا ہے وہ لے کر اسے پیوے،‘‘ (استعمال کرے۔) ’’اگر وہ ان دواؤں کو استعمال نہ کرے اور نسخہ لے کر رکھ چھوڑے تو اسے کیا فائدہ ہوگا۔ اب اس وقت تم نے توبہ کی ہے۔ اب آئندہ خدا تعالیٰ دیکھنا چاہتا ہے کہ اس توبہ سے اپنے آپ کو تم نے کتنا صاف کیا۔ اب زمانہ ہے کہ خدا تعالیٰ تقویٰ کے ذریعہ سے فرق کرنا چاہتا ہے۔ بہت لوگ ہیں کہ خدا پر شکوہ کرتے ہیں اور اپنے نفس کو نہیں دیکھتے۔ انسان کے اپنے نفس کے ظلم ہی ہوتے ہیں ورنہ اللہ تعالیٰ رحیم و کریم ہے‘‘۔ فرمایا کہ’’بعض آدمی ایسے ہیں کہ ان کو گناہ کی خبر ہوتی ہے اور بعض ایسے کہ ان کو گناہ کی خبر بھی نہیں ہوتی۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لئے استغفار کا التزام کرایا ہے۔‘‘ (ہمیشہ استغفار کرتے رہنا چاہئے) ’’کہ انسان ہر ایک گناہ کے لئے خواہ وہ ظاہر کا ہو خواہ باطن کا، خواہ اسے علم ہو یا نہ ہو اور ہاتھ اور پاؤں اور زبان اور ناک اور کان اور آنکھ اور سب قسم کے گناہوں سے استغفار کرتا رہے۔‘‘ (یعنی کوئی بھی چیز ایسی نہ ہو، عمل ایسا نہ ہو یا جسم کا اس طرح کوئی استعمال نہ ہو جس سے گناہ صادر ہوتا ہو۔ اس لئے استغفار کرو تا کہ جسم کا ہر حصہ گناہوں سے بچا رہے۔) فرمایا ’’آجکل آدم علیہ السلام کی دعا پڑھنی چاہئے۔‘‘ (اور وہ کیا دعا ہے کہ) ’’رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ (الاعراف:24)۔ یہ دعا اوّل ہی قبول ہوچکی ہے۔ غفلت سے زندگی بسر مت کرو۔ جو شخص غفلت سے زندگی نہیں گزارتا ہرگز امیدنہیں کہ وہ کسی فوق الطاقت بلا میں مبتلا ہو۔‘‘ (یعنی اللہ تعالیٰ کے خوف سے زندگی گزارنے والا کبھی غیر معمولی مشکلات اور مصیبتوں میں گرفتار نہیں ہوتا۔) فرمایا کہ ’’کوئی بلا بغیر اذن کے نہیں آتی جیسے مجھے یہ دعا الہام ہوئی۔ رَبِّ کُلُّ شَیْءٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ۔‘‘ فرماتے ہیں کہ ’’ہمارا ایمان ہے کہ سب اس کے ہاتھ میں ہے خواہ اسباب سے کرے خواہ بلا اسباب۔‘‘ (ملفوظات جلد 4 صفحہ 274 تا 276۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان) اللہ تعالیٰ کوئی ذریعہ بناتا ہے یا نہیں بناتا، اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں سب کچھ ہے۔ اس لئے یہ دونوں دعائیں پڑھنی چاہئیں۔ اس کی طرف توجہ دیں اور سمجھیں۔ پس ہر احمدی کو، ہم میں سے ہر ایک کو اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ اگر ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مانا ہے تو کیا اس ماننے اور بیعت کا حق ادا کرنے والے بھی ہیں؟ اکثر میرے جائزے سے یہ بات سامنے آتی ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ ہم میں سے کئی ایسے ہیں جو نمازیں بھی پوری طرح ادا نہیں کرتے۔ نمازوں کی طرف توجہ ہی نہیں ہے۔ استغفار کی طرف تو بعضوں کی بالکل توجہ نہیں۔ ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ نہیں۔ اگر یہ حالت ہے تو ہم کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ ہم اعمال صالحہ بجا لانے والے ہیں۔ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کا حق ادا کرنے والے ہیں۔ دوسرے نہ مان کر گناہگار ہو رہے ہیں۔ جنہوں نے نہیں مانا اور انکار کیا وہ گناہگار ہو رہے ہیں۔ اور ہم مان کر پھر اپنے اندر تبدیلی پیدا نہ کر کے، ایک عہد کر کے پھر اسے پورا نہ کرنے کی وجہ سے گناہگار ہو رہے ہیں۔ پس بڑی فکر سے ہم میں سے ہر ایک کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم صرف رسمی طور پر یوم مسیح موعود منانے والے نہ ہوں بلکہ مسیح موعود کو قبول کرنے کا حق ادا کرنے والے ہوں اور ہر قسم کے اندرونی اور بیرونی فتنوں سے بچنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمیں اپنی پناہ میں رکھے اور ہر بلا اور ہر مشکل سے بچائے۔
آج ایک اعلان یہ بھی ہے اور خوشی کی خبر بھی ہے کہ اخبار الحکم جو قادیان سے نکلا کرتا تھا اور دوبارہ اس کی اشاعت 1934ء میں شروع ہوئی۔ پھر بند ہوگیا۔ آج انگریزی زبان میں اس کا یہاں سے اجراء ہو رہا ہے اور آج یوم مسیح موعود بھی ہے۔ یہ اخبار جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے کا پہلا اخبار تھا یہ پرنٹ میں تو تھوڑا آئے گا لیکن انٹرنیٹ پہ available ہوگا اور خطبہ کے فوراً بعد یہ اس ویب سائٹ www.alhakam.org پہ دستیاب ہو جائے گا۔ اسی طرح موبائل فون اور ٹیبلٹس (Tablets) وغیرہ کے لئے Al Hakamنام سے اَیپ (App) بھی دستیاب ہو گا جسے ڈاؤن لوڈ کر کے اس پر اخبار کو بسہولت پڑھ سکیں گے۔ یہ ایپ (App) جو ہے یہ معروف موبائل فون سسٹم مثلاً ایپل (Apple) اور اینڈرائڈ (Android) پر ڈاؤن لوڈ کرنے کے لئے خطبہ کے بعد فوراً دستیاب ہو جائے گی۔ اس دفعہ کا جو یہ شمارہ ہے۔ یہ یوم مسیح موعود کے حوالے سے خصوصی شمارہ ہے اور آئندہ ہر جمعہ کے روز تازہ شمارہ اَپ لوڈ ہو جایا کرے گا اور پرنٹ میں اس کی تعداد غالباً تھوڑی ہو گی۔ بہرحال اس سے لوگ استفادہ کر سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ اب اس دفعہ کا جو اس کا اجراء ہے وہ ہمیشہ جاری رہنے والا ہو اور کیونکہ یہ انگریزی زبان میں ہو گا اس لئے انگریزی دان طبقہ کواس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہئے۔
آج 23؍مارچ ہے اور یہ دن جماعت میں ’یوم مسیح موعود‘ کے حوالے سے یاد کیا جاتا ہے۔ یوم مسیح موعود کے جلسے بھی جماعتیں اس دن کی مناسبت سے منعقد کرتی ہیں۔ بہت سی جماعتیں یہ جلسے منعقد کریں گی اور اس میں اس کی تاریخ، پس منظر، سارا کچھ بیان کیا جائے گا۔
اس وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعض ارشادات پیش کروں گا جن میں آپ نے مسیح موعود کی بعثت کے مقصد اور ضرورت اور مقام کے حوالے سے بیان فرمایا ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے ارشادات کے حوالہ سے مسیح موعود کی بعثت کے مقصد اور ضرورت اور مقام کا تذکرہ اور اسی حوالہ سے افراد جماعت کو نصائح۔
آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ ایک آواز جو ایک چھوٹی سی بستی سے اٹھی تھی دنیا کے 210 ملکوں میں پھیلی ہوئی ہے اور یہی آپ کی سچائی کی دلیل بھی ہے۔ دور دراز کے علاقے جہاں تیس چالیس سال پہلے تک بھی احمدیت کے پہنچنے کا تصور نہیں تھا، نہ صرف وہاں پیغام پہنچا ہے بلکہ وہاں ایسے پختہ ایمان والے اللہ تعالیٰ پیدا فرما رہا ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔
بینن کے ایک گاؤں میں نو احمدی کے ایمان و اخلاص اور استقامت اور اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے روح پرور واقعہ کا بیان۔
ہم میں سے ہر ایک کو اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ اگر ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مانا ہے تو کیا اس ماننے اور بیعت کا حق ادا کرنے والے بھی ہیں؟ اکثر میرے جائزے سے میں نے دیکھا ہے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ہم میں سے کئی ایسے ہیں جو نمازیں بھی پوری طرح ادا نہیں کرتے۔ نمازوں کی طرف توجہ ہی نہیں ہے۔ استغفار کی طرف تو بعضوں کی بالکل توجہ نہیں۔ ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ نہیں۔ اگر یہ حالت ہے تو ہم کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ ہم اعمال صالحہ بجا لانے والے ہیں۔ پس بڑی فکر سے ہم میں سے ہر ایک کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم صرف رسمی طور پر یوم مسیح موعود منانے والے نہ ہوں بلکہ مسیح موعود کو قبول کرنے کا حق ادا کرنے والے ہوں اور ہر قسم کے اندرونی اور بیرونی فتنوں سے بچنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمیں اپنی پناہ میں رکھے اور ہر بلا اور ہر مشکل سے بچائے۔
23؍مارچ 2018ء سے انگریزی زبان میں ہفتہ وار اخبار الحکم کے اجرا کی خوشخبری۔ یہ اخبار انٹرنیٹ پر دستیاب ہو گا۔ موبائل فون اور ٹیبلٹس کے لئے اس کا App بھی دستیاب ہو گا۔ انگریزی دان طبقہ کو اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی تاکید۔
فرمودہ مورخہ 23؍ مارچ 2018ء بمطابق23؍امان 1397 ہجری شمسی، بمقام مسجدبیت الفتوح، مورڈن، لندن، یوکے
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔