خلافت: اللہ تعالیٰ کی رحمت
خطبہ جمعہ 25؍ مئی 2018ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ۪ وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَ لَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا ؕ یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا ؕ وَ مَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ ۔وَ اَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ (النور:56-57)
ان آیات کا ترجمہ ہے کہ تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے اُن سے اللہ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اس نے ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا۔ اور ان کے لئے ان کے دین کو جو اس نے ان کے لئے پسند کیا ضرور تمکنت عطا کرے گا۔ اور ان کی خوف کی حالت کے بعد ضرور انہیں امن کی حالت میں بدل دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے۔ میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ اور جو اس کے بعد بھی ناشکری کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو نافرمان ہیں۔ اور نماز قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو اور رسول کی اطاعت کرو تا کہ تم پر رحم کیا جائے۔
ان آیات میں اللہ تعالیٰ کے ایک وعدے کے بارے میں بیان ہوا ہے۔ واضح ہو کہ اللہ تعالیٰ نے ایک وعدہ فرمایا ہے کہ اگر اس اس طرح ہو تو اللہ تعالیٰ تمہیں انعام سے نوازے گا۔ اور وہ خلافت کا انعام ہے۔ جس کے نتیجہ میں تمہیں تمکنت بھی حاصل ہو گی اور خوف کی حالتوں کے بعد امن کی حالت بھی ملے گی۔ پس یہ وعدہ ہے، پیشگوئی نہیں کہ ضرور اللہ تعالیٰ دے گا۔ یہ نہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہاں دے گا اور ضرور دے گا بلکہ یہ اس وعدے کے ساتھ ہے کہ جو اس کی شرائط پوری کرنے والے ہوں گے۔ اور وہ شرائط کیا ہیں؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ میری عبادت کرنے والے ہوں گے۔ شرک سے مکمل طور پر پرہیز کرنے والے ہوں گے۔ اگر عبادت کرنے والے نہیں۔ جو عبادت کا حق ہے اس سے عبادت کرنے والے نہیں۔ اگر شرک سے کُلّی طور پر اجتناب کرنے والے نہیں اور اس سے بچنے والے نہیں جس طرح کہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے تو پھروہ اس وعدہ سے بھرپور فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے۔ پس خلافت ہو گی بھی تو ایسے لوگ اگر یہ شرائط پوری نہیں کر رہے، جو عمل کرنے والے نہیں وہ خلافت سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے۔
قرآن کریم سے بھی ہمیں واضح ہوتا ہے کہ آخری زمانے میں خلافت علی منہاج نبوت قائم ہو گی۔ احادیث سے بھی ہمیں پتہ چلتا ہے کہ خلافت علی منہاج نبوت قائم ہو گی اور یہ دائمی خلافت ہے۔ اور ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی بڑی کھول کر وضاحت فرمائی کہ میرے بعد خلافت ہو گی اور ہمیشہ رہے گی۔ لیکن ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں مسلمانوں کو یہ بھی واضح فرما دیا کہ خلافت کے وعدہ سے فیض اٹھانے کے لئے، اس کے انعام سے حصہ لینے کے لئے اپنی حالتوں کو بدلنا ہو گا۔ صرف مسلمان کہلانا، صرف ظاہری ایمان کا اظہار کرنا خلافت کے ایمان کا حقدار نہیں بنا دے گا۔ پس اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو یہ نصیحت فرماتا ہے کہ عبادت کا حق ادا کرنے کے لئے، شرک سے بچنے کے لئے نمازوں کو قائم کرو۔ زکوۃ ادا کرو۔ رسول کی اطاعت کرو تبھی تم اللہ تعالیٰ کے رحم کو حاصل کر سکتے ہو۔
اطاعت رسول میں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں فرمائی کہ جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی اور جو خلافت کا نظام ہے اس میں سب سے بڑھ کر جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقرر کردہ امیر ہے وہ خلیفہ ہی ہے۔ پس اس بات سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ خلافت کی اطاعت بھی اسی طرح ضروری ہے جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی۔ لیکن یہاں وہ خلافت نہیں جو زبردستی چھین کر دنیاوی آقاؤں کی مدد سے حاصل کی جاتی ہے۔ یہاں وہ خلافت مراد ہے جو منہاج نبوت پر قائم ہو اور جس کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم واضح ارشاد فرما چکے ہیں اور جو مسیح موعود کے آنے کے بعد قائم ہونی تھی۔ ان سے خلافت کا یہ سلسلہ چلنا تھا کیونکہ وہ مسیح موعود خاتم الخلفاء ہو گا۔ اور اس خلافت نے پھر جنگ نہیں کرنی، ظلم نہیں کرنا بلکہ اس طرف توجہ دلانی ہے کہ نمازوں کا قیام کرو۔ اس طرف توجہ دلانی ہے کہ دین کی اشاعت کے لئے اور حقوق العباد کی ادائیگی کے لئے زکوٰۃ دو اور مالی قربانی کی طرف توجہ کرو۔ پس یہ نظام بھی اِس وقت صرف جماعت احمدیہ میں رائج ہے۔
اسی طرح اطاعت رسول کا ایک مقصد جو وحدت کی لڑی میں پرویا جانا ہے وہ بھی خلافت کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ دوسرے مسلمان بیشک نمازیں بھی پڑھتے ہیں لیکن ایک وحدت نہ ہونے کی وجہ سے ان کے دل میں پھوٹ ہے۔ ایک ہی مسلک ہونے کے باوجود جزئیات میں پڑ کر تفرقہ پیدا کیا ہوا ہے۔ علماء اپنے منبروں کے لئے اور اپنے مقاصد کے لئے، اب تو پاکستان میں علماء کے سیاسی مقاصد بھی ہو گئے ہیں ایک دوسرے سے لڑتے رہتے ہیں۔ یہی حال پھر ان کے پیچھے چلنے والوں کا ہے۔
کچھ عرصہ ہوا جب پاکستان میں دھرنے وغیرہ ہو رہے تھے، حکومت کے خلاف احتجاج ہو رہے تھے۔ تو اس کے بعد پھر علماء کے دو گروپوں کی آپس میں بھی ٹھن گئی۔ کوئی لبّیک یارسول اللہ کے نام پر اپنے ذاتی مقاصد حاصل کرنے اور لیڈر بننے کی کوشش کر رہا تھا تو کوئی ختم نبوت کے نام پر اپنی دکان چمکانے کی کوشش کر رہا تھا اور ٹی وی پر یہ تماشا دنیا دیکھ رہی تھی۔ پاکستان کے ٹی وی نے دکھایا۔ اس کے باوجود پھر بھی وہ لوگ جو اُن کے پیچھے چلتے ہیں ان کو سمجھ نہیں آتی کہ وہ کن لوگوں کے پیچھے چل رہے ہیں۔ کیا یہ لوگ عوام النّاس کے لئے، عامّۃ المسلمین کے لئے دین کی تمکنت کا ذریعہ بنیں گے؟ کیا یہ لوگ صحیح رہنمائی کریں گے؟ یہ ہرگز نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ یہ لوگ تو خود بگڑے ہوئے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کے مطابق بگڑے ہوئے ہیں کہ اُس زمانے کے علماء بدترین مخلوق ہوں گے۔ (الجامع لشعب الایمان جلد 3 صفحہ 317-318 حدیث 1763 مطبوعہ مکتبۃ الرشدناشرون ریاض 2003ء)
زکوٰۃ دیتے ہیں تو اس کے استعمال کا بھی حکومت کو پتہ نہیں لگتا۔ وہ یہ دعویٰ تو کرتی ہے کہ غریبوں پر ہم خرچ کر رہے ہیں لیکن زکوۃ فنڈ میں اربوں کے غبن ہوتے ہیں جس کی خبریں میڈیا پر آتی ہیں۔ اشاعت اسلام کا تو سوال بھی نہیں پیدا ہوتا۔ اسلام کے نام پر قائم حکومتیں، تیل کی دولت سے مالا مال حکومتیں کیا کر رہی ہیں۔ کوئی بھی اشاعتِ اسلام کا کام ان سے نہیں ہو رہا ہے۔ یہ کام بھی قربانیاں کر کے اگر کوئی کر رہا ہے تو جماعت احمدیہ کر رہی ہے۔ یہ نظام بھی اسی وقت چل سکتا ہے جب خلافت کا نظام ہو۔ بعض علماء اور سنجیدہ طبقہ اس بات کا اظہار تو کرتے ہیں کہ خلافت کا نظام ہونا چاہئے لیکن جب کہو کہ اللہ تعالیٰ نے جو نظام قائم کیا ہے اسے مانو تو ماننے کے لئے تیار نہیں بلکہ مخالفت میں بڑھے ہوئے ہیں۔ اس مخالفت کا تازہ واقعہ دو دن ہوئے سیالکوٹ میں ہماری مسجد میں ہوا۔ مسجد اور اس کے ساتھ جو گھر تھا۔ پولیس اور انتظامیہ دونوں نے مل کر بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ ان کی سرکردگی میں مولویوں نے اور ان کے چند سو چیلوں نے دھاوا بولا، حملہ کیا۔ بہت بڑا کارنامہ انہوں نے انجام دیا۔ انہوں نے اسلام کو بچانے کے لئے بڑا شب خون مارا۔ اس گھر کو جس کو چند دن پہلے پولیس خود ہی بلا وجہ سِیل (seal) کر چکی تھی، اس کا کوئی جواز نہیں تھا۔ اور وہاں تھا بھی کوئی نہیں۔ پھر بھی اس سِیل (seal) ہوئے ہوئے گھر کوپولیس نے باقاعدہ انتظام کے تحت حملہ کر کے نقصان پہنچایا، اندر سے توڑ پھوڑ کی۔ یہ پاکستان بننے سے بھی ایک لمبا عرصہ بلکہ سو سال سے بھی زیادہ عرصہ پہلے بنے ہوئے گھر اور مسجد تھے۔ اور کوئی جواز نہیں بنتا تھا کہ احمدیوں نے آج بنایا ہے تو ہم نے منارے گرانے ہیں، گنبد گرانے ہیں۔ پس یہ ان کا حال ہے جو مخالفت میں بڑھے ہوئے ہیں۔ اب یہ بھی اعلان کر رہے ہیں کہ ہم اور مسجدوں کو بھی نقصان پہنچائیں گے اور گرائیں گے۔ حافظ ہیں، ایک سیاسی پارٹی کے کوئی صاحب قاری ہیں۔ کہنے کو تو حافظ ہیں لیکن قرآن کریم کی تعلیم کی روح سے بالکل ہی خالی ہیں۔ خالی تو بہرحال انہوں نے ہونا تھا اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے خاتم الخلفاء اور اس زمانے کے حَکَم اور عَدل کی دشمنی میں بڑھے ہوئے ہیں تو پھر قرآن کریم کے علم سے بھی خالی ہو جاتے ہیں۔ ظاہری الفاظ تو رَٹے ہوں گے۔ قرآن کریم کی تعلیم کو سمجھنے کے لئے ان کے ذہنوں کو تالے لگے ہوئے ہیں اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی ایک سزا ہے کہ یہ سمجھ نہیں سکتے۔ ہاں فتنہ و فساد کا جہاں تک سوال ہے اس میں ان کے ذہن جو ہیں بہت رسا ہیں۔ بہت کھلے ہوئے ہیں۔ جتنا چاہیں ان سے فتنہ و فساد کروا لیں۔ اس کے لئے نئے نئے طریقے ایجاد کر لیں گے۔ ان چیزوں میں ہم بہرحال ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ بہرحال یہ تو ان کا حال ہے۔ اپنی مسجدوں میں بھی ایک دوسرے کے خلاف بولتے ہیں اور فتنوں اور فسادوں کی منصوبہ بندیاں کر کے اپنی مسجدوں کے تقدّس بھی پامال کرتے ہیں۔ اور ہماری مساجد میں بھی جو خالصۃً اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے بنائی گئی ہیں ان کو بھی تالے لگا کر، بند کر کے اور پھر باقاعدہ حملہ کر کے نقصان پہنچا کر ان کے تقدّس کو بھی پامال کرتے ہیں۔ یہ نتیجہ ہے ان کے اپنے ذاتی مقاصد کو دین پر ترجیح دینے کا۔ اور جب تک یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق قائم ہونے والی خلافت کو نہیں مانیں گے یہ ایسی حرکتیں کرتے رہیں گے اور ان سے کسی بھی قسم کی اچھائی کی توقع رکھی ہی نہیں جاسکتی۔
ہاں چند ایک شریف لوگ بھی ہوتے ہیں۔ سینیٹ میں ایک خاتون نے بڑی ہمت سے اس پر کل اظہار تشویش بھی کیا اور اسے ردّ بھی کیا۔ اب دیکھیں اس بیچاری کا مولوی اور مولوی طبع لوگ جو ہیں اور مفاد پرست سیاستدان جو ہیں وہ کیا حشر کرتے ہیں۔ ابھی تک تو یہی دیکھنے میں آیا ہے کہ پھر وہ اس حد تک ایسے شریف لوگوں کے پیچھے پڑتے ہیں کہ ان کو یا تو سیاست سے الگ ہونا پڑتا ہے یا معافی مانگنی پڑتی ہے۔
جہاں تک ہمارے جذبات کا تعلق ہے کہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے کی ایک یادگار کو نقصان پہنچایا اور حکومت نے اسے اپنے قبضے میں لیا ہوا ہے تو ہمارا تو ہمیشہ کی طرح یہی جواب ہے اور ہونا چاہئے کہ اِنَّمَآ اَشْکُوْا بَثِّیْ وَ حُزْنِیْٓ اِلَی اللّٰہِ (یوسف: 87)۔ کہ میں تو اپنے رنج اور غم کی فریاد کو اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کرتا ہوں۔ بیشک اس کے ساتھ ہمارا جذباتی تعلق بھی ہو لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اعلیٰ تعلق کا اظہار صرف عمارتوں کی حفاظت سے نہیں بلکہ آپ کی تعلیم پر عمل کرنے سے ہے۔ آپ کے بعدنظام خلافت کے ساتھ جڑنے سے ہے۔ ان چیزوں کے حصول سے ہے جو اللہ تعالیٰ نے خلافت کے انعام سے فائدہ اٹھانے کے لئے بتائی ہیں۔ اپنی عبادتوں کے معیار بہتر کرنے سے ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے سے ہے۔ اپنی اطاعت کے معیاروں کو بڑھانے سے ہے۔ پس اس کے لئے ہمیں کوشش کرنی چاہئے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کسی نے سوال کیا کہ خلیفہ کے آنے کا مدّعا کیا ہوتا ہے؟ مقصد کیا ہوتاہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو جواب دیا وہ ہمارے سامنے ہر وقت رہنا چاہئے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ’’اصلاح‘‘۔ یہ مقصد ہے۔ اور پھر وضاحت بھی فرمائی کہ ’’دیکھو حضرت آدم سے اِس نسل انسانی کا سلسلہ شروع ہوا اور ایک مدت دراز کے بعد جب انسان کی عملی حالتیں کمزور ہو گئیں اور انسان زندگی کے اصل مدّعا اور خدا کی کتاب کی اصل غایت بھول کر ہدایت کی راہ سے دور جا پڑے تو پھر اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے ایک مامور اور مُرسَل کے ذریعہ سے دنیا کو ہدایت کی۔ اور ضلالت کے گڑھے سے نکالا۔‘‘ آپ فرماتے ہیں کہ ’’شان کبریائی نے جلوہ دکھایا اور ایک شمع کی طرح نور معرفت دنیا میں دوبارہ قائم کیا گیا۔ ایمان کو نورانی اور روشنی والا ایمان بنا دیا‘‘۔ فرماتے ہیں کہ ’’غرض اللہ تعالیٰ کی ہمیشہ سے یہی سنّت چلی آتی ہے‘‘۔ حضرت آدم سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک یہی ہم نے دیکھا۔ پھر فرمایا کہ ’’غرض اللہ تعالیٰ کی یہی سنّت چلی آتی ہے کہ ایک زمانہ گزرنے پر جب پہلے نبی کی تعلیم کو لوگ بھول کر راہ راست اور متاع ایمان اور نور معرفت کو کھو بیٹھتے ہیں اور دنیا میں ظلمت اور گمراہی، فسق و فجور کا چاروں طرف سے خطرناک اندھیرا چھا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی صفات جوش مارتی ہیں اور ایک بڑے عظیم الشان انسان کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کا نام اور توحید اور اخلاق فاضلہ پھر نئے سرے سے دنیا میں اس کی معرفت قائم کر کے خدا تعالیٰ کی ہستی کے بیّن ثبوت ہزاروں نشانوں سے دئیے جاتے ہیں اور ایسا ہوتا ہے کہ کھویا ہوا عرفان اور گمشدہ تقویٰ طہارت دنیا میں قائم کی جاتی ہے‘‘۔ (پس مسلمانوں میں بھی اور غیر مسلموں میں بھی ایمان کھویا ہوا ہے۔ تقویٰ کھویا ہو اہے۔ اس لئے اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق خاتم الخلفاء کو بھیجا اور آپ نے اسے قائم کیا۔ آپ فرماتے ہیں ’’اور ایک عظیم الشان انقلاب واقع ہوتا ہے۔ غرض اسی سنت قدیمہ کے مطابق‘‘۔ (یہ غور سے سننے والی بات ہے۔) آپ نے فرمایا ’’اسی سنت قدیمہ کے مطابق ہمارا یہ سلسلہ قائم ہوا ہے‘‘۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد 10 صفحہ 274-275۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس جماعت احمدیہ کا قیام بھی اس لئے ہوا ہے کہ خدا تعالیٰ کی ہستی کے بیّن ثبوت پیش کئے جائیں۔ توحید کو دوبارہ قائم کیا جائے۔ اخلاق فاضلہ کو نئے سرے سے قائم کیا جائے۔ جیسے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کی اکثریت کی عملی حالت کمزور ہے۔ قبروں کی پوجا، شرک اور بدعات میں یہ لوگ مبتلا ہیں۔ فسق و فجور عام ہے اور خود اس بات کو یہ مانتے ہیں۔ اس پر اخباروں میں کالم لکھے جاتے ہیں لیکن جیسا کہ میں نے کہا جسے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں ہدایت دینے اور ضلالت کے گڑھے سے نکالنے کے لئے بھیجا ہے اسے یہ ماننے کو تیار نہیں۔ مخفی شرک میں یہ مبتلا ہیں اور اخلاق فاضلہ کا نام و نشان ہی نہیں ہے۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا آخری فقرہ جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ ہمیں ہر وقت ہوشیار رکھنے والا ہونا چاہئے کہ اس سنّت قدیمہ کے مطابق ہمارا یہ سلسلہ قائم ہوا ہے کہ جب دنیا میں ہر طرف فسق و فجور اور فساد پھیل جاتا ہے، اخلاق کا خاتمہ ہو جاتا ہے، لوگ توحید کو بھول جاتے ہیں، شرک پھیلنا شروع ہو جاتا ہے تو اس وقت پھر اللہ تعالیٰ اپنے کسی پیارے کو بھیجتا ہے۔ اور پھر نئے سرے سے تجدید دین ہوتی ہے۔ پس اگر ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مان کر اپنے اندر یہ تبدیلیاں نہیں پیدا کر رہے تو پھر بڑی قابل فکر بات ہے۔
ہمیں ہر وقت اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے خلافت کے ساتھ وابستہ انعامات کے حصول کے لئے جن باتوں اور جن کاموں کے کرنے کی نصیحت فرمائی ہے اس کے مطابق ہم اپنی زندگیوں کو ڈھالنے کی کوشش کر رہے ہیں یا نہیں؟ ان کے معیار کیا ہیں؟ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ہماری عبادتیں کیسی ہیں؟ ہماری نمازوں کے قیام کیسے ہیں؟ ہمارا ہر قول و عمل شرک سے پاک ہے یا نہیں؟ ہماری مالی قربانیوں کے معیار کیا ہیں؟ ہماری اطاعت کے معیار کس درجہ کے ہیں؟ کیا اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم جس طرح چاہتے ہیں ہم ان معیاروں کو حاصل کرنے والے ہیں یا نہیں؟ اور پھر اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جس معیار پر اپنے سلسلہ کے ماننے والوں کو دیکھنا چاہتے ہیں ہم اس تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں یا نہیں؟
عبادتوں اور نمازوں کی اہمیت کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ارشاد ہے۔ حدیث میں آتا ہے۔ حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن سب سے پہلے جس چیز کا بندوں سے حساب لیا جائے گا وہ نماز ہے۔ اگر یہ حساب ٹھیک رہا تو وہ کامیاب ہو گیا اور اس نے نجات پا لی۔ اور اگر یہ حساب خراب ہوا تو وہ ناکام ہو گیا اور گھاٹے میں رہا‘‘۔ فرمایا کہ’’اگر اس کے فرضوں میں کچھ کمی ہوئی تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا دیکھو میرے بندے کے کچھ نوافل بھی ہیں۔ اگر نوافل ہوئے تو فرضوں کی کمی ان نوافل کے ذریعہ سے پوری کر دی جائے گی۔ اسی طرح اس کے باقی اعمال کا معائنہ ہو گا اور اس کا جائزہ لیا جائے گا۔ (سنن الترمذی کتاب الصلاۃ باب ما جاء ان اوّل ما یحاسب بہ العبد … الخ حدیث 413)
پس یہ اہمیت ہے نمازوں کی۔ آجکل رمضان کی وجہ سے سب کی نمازوں کی طرف اور مسجدوں کی طرف بڑی توجہ ہے۔ لیکن یہ رمضان کے مہینے کی بات نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ صرف رمضان کے مہینہ کی نمازوں کے بارے میں نہیں پوچھے گا بلکہ تمام زندگی کی نمازوں کا حساب ہو گا۔ پس یہ بڑے فکر کا مقام ہے۔
اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر بے انتہا مہربانی ہے کہ فرمایا کہ فرضوں میں جو کمی ہو جاتی ہے، بشری کمزوری کی وجہ سے انسانی طبیعت میں بھی اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں بعض دفعہ حق ادا نہیں کر سکتا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ پھر نفلوں کے ذریعہ سے جو زندگی میں ادا کئے گئے ہوں گے ان سے یہ فرضوں کی کمی پوری کرو۔
پھر ایک روایت میں ہے ’’حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ نماز کو چھوڑنا انسان کو شرک اور کفر کے قریب کر دیتا ہے‘‘۔ (صحیح مسلم کتاب الایمان باب بیان اطلاق اسم الکفر علی من ترک الصلوٰۃ حدیث 246)
پس یہ بہت خوف کا مقام ہے۔ شرک ایسا جرم ہے جو اللہ تعالیٰ کو انتہائی ناپسند ہے۔ شرک اللہ تعالیٰ معاف نہیں کرتا۔ کیا ہم ایسے جرم کے مرتکب ہو کر اللہ تعالیٰ کے انعام خلافت سے فیضیاب ہو سکتے ہیں۔ ہرگز نہیں۔ نماز کیسی ہونی چاہئے؟ اس کی حقیقت اور روح کے معیار کیا ہیں؟ اس بات کو بیان فرماتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’بعض لوگ مسجدوں میں بھی جاتےہیں۔ نمازیں بھی پڑھتے ہیں اور دوسرے ارکان اسلام بھی بجا لاتے ہیں مگر خدا تعالیٰ کی نصرت اور مدد ان کے شامل حال نہیں ہوتی اور ان کے اخلاق اور عادات میں کوئی نمایاں تبدیلی دکھائی نہیں دیتی‘‘۔ (نمازیں پڑھنے والوں کے عادات و اخلاق میں بھی ایک نمایاں تبدیلی نظر آنی چاہئے۔) ’’جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی عبادتیں بھی رسمی عبادتیں ہیں۔ حقیقت کچھ بھی نہیں۔ کیونکہ احکام الٰہی کا بجا لانا تو ایک بیج کی طرح ہوتاہے جس کا اثر روح اور وجود دونوں پر پڑتا ہے‘‘۔ (بیج ہے تو اس کا روح پر بھی اثر ہونا چاہئے۔ جس طرح پودے لگاؤ تو پودا اُگتا ہے، نشوونما پاتا ہے، نظر آتا ہے۔ اسی طرح ہماری روح پر بھی اور ہمارے جسم پر بھی اور ظاہری اخلاق پر بھی نمازوں کا اثر نظر آنا چاہئے۔) فرمایا کہ’’ایک شخص جو کھیت کی آبپاشی کرتا اور بڑی محنت سے اس میں بیج بوتا ہے اگر ایک دو ماہ تک اس میں انگوری نہ نکلے تو ماننا پڑتا ہے کہ بیج خراب ہے‘‘۔ (یعنی کہ انگوری سے مطلب ہے کہ بیج اگر Germinate نہ کرے۔ نہ اُگے، باہر نہ نکلے، دانے سے باہرshoot نہ کرے۔ میں نے انگوری کی یہ وضاحت اس لئے کر دی کہ بعض ترجمہ کرنے والے بعد میں آ کر پوچھتے ہیں کہ آپ نے بعض الفاظ استعمال کئے جن کا ہمیں پتہ نہیں تھا۔) ’’یہی حال عبادات کا ہے۔ اگر ایک شخص خدا کو وحدہٗ لاشریک سمجھتا ہے، نمازیں پڑھتا ہے، روزے رکھتا ہے اور بظاہر نظر احکامِ الٰہی کو حتی الوسع بجا لاتا ہے لیکن خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی خاص مدد اس کے شامل حال نہیں ہوتی تو ماننا پڑتا ہے کہ جو بیج وہ بو رہا ہے وہی خراب ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 10 صفحہ43۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس یہ وہ نکتہ ہے جسے ہمیں ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے کہ اپنی عبادات اور اپنے اخلاق و اطوار کی بہتری کے معیار سے اللہ تعالیٰ کے قرب کو پہچانیں۔ اگر ہمارے معیار بہتر ہوئے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ نمازیں ہمیں فائدہ دے رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ہم قریب ہو رہے ہیں۔ اگر ہماری ظاہری حالتیں نہیں بدل رہیں تو پھر اللہ تعالیٰ کا قرب بھی حاصل نہیں ہو رہا اور نمازیں بھی کوئی فائدہ نہیں دے رہیں۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس بارے میں مزید فرماتے ہیں کہ’’نماز کیا چیز ہے؟ وہ دعا ہے جو تسبیح، تحمید، تقدیس اور استغفار اور درود کے ساتھ تضرّع سے مانگی جاتی ہے۔ سو جب تم نماز پڑھو تو بے خبر لوگوں کی طرح اپنی دعاؤں میں صرف عربی الفاظ کے پابندنہ رہو‘‘۔ (یعنی عربی تمہاری زبان نہیں ہے۔ اس لئے جو عربی نہیں جانتے وہ صرف اسی پر پابندنہ رہیں کیونکہ اس وجہ سے پھر دل کی وہ کیفیت پیدا نہیں ہوتی جو دعا کرنے والے کے دل میں ہونی چاہئے۔) فرماتے ہیں کہ’’کیونکہ ان کی نماز اور ان کا استغفار سب رسمیں ہیں جن کے ساتھ کوئی حقیقت نہیں۔ لیکن تم جب نماز پڑھو تو بجز قرآن کے جو خدا کا کلام ہے اور بجز بعض ادعیہ ماثورہ کے کہ وہ رسول کا کلام ہے‘‘ (بعض دعائیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہیں، اور بعض قرآن کریم کی دعائیں ہیں ان کو پڑھنا بھی چاہئے اور ان کو سمجھنا بھی چاہئے۔ ان کے معنی بھی یاد کرنے چاہئیں تا کہ ان کی روح کا بھی پتہ لگے۔ باقی جو دعائیں ہیں، بعض لوگوں نے اپنی دعائیں بنائی ہوئی ہیں یا دوسری دعائیں یاد کر لیتے ہیں) فرمایا کہ ’’باقی اپنی تمام دعاؤں میں اپنی زبان میں ہی الفاظ متضرعانہ ادا کر لیا کرو تا کہ تمہارے دلوں پر اس عجز و نیاز کا کچھ اثر ہو‘‘۔ (کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 68-69)
پھر آپ فرماتے ہیں کہ ’’نماز ایسی شئے ہے کہ اس کے ذریعہ سے آسمان انسان پر جھک پڑتا ہے‘‘۔ (آسمان انسان پر جھک پڑتا ہے کہ اللہ تعالیٰ قریب آ جاتا ہے۔) ’’نماز کا حق ادا کرنے والا یہ خیال کرتا ہے کہ میں مر گیا اور اس کی روح گداز ہو کر خدا کے آستانہ پر گر پڑی ہے…‘‘۔ فرماتے ہیں کہ ’’جس گھر میں اس قسم کی نماز ہو گی وہ گھر کبھی تباہ نہ ہو گا۔ حدیث شریف میں ہے کہ اگر نوحؑ کے وقت میں یہ نماز ہوتی تو وہ قوم کبھی تباہ نہ ہوتی‘‘۔ آپ فرماتے ہیں کہ’’حج بھی انسان کے لئے مشروط ہے۔‘‘ (بعض شرائط ہیں اس کے ساتھ حج ادا کیا جاتا ہے۔ ہر ایک پر فرض نہیں ہے)۔ ’’روزہ بھی مشروط ہے۔‘‘ (یہ بھی بیمار پر، مسافر پر فرض نہیں۔ یا مسافر تو بعد میں رکھ سکتا ہے لیکن بیمار بعض دفعہ مستقل نہیں رکھتے۔ بعض شرطیں ہیں۔ روزہ بھی مشروط ہے۔) ’’زکوٰۃ بھی مشروط ہے‘‘۔ (جن کے پاس مال ہے انہوں نے زکوۃ دینی ہے) ’’مگر نماز مشروط نہیں۔ سب ایک سال میں ایک ایک دفعہ ہیں‘‘۔ (باقی عبادتیں جو فرض ہیں وہ بھی سال میں ایک دفعہ ہیں ) ’’مگر اس (نماز) کا حکم ہر روز پانچ دفعہ ادا کرنے کا ہے۔ اس لئے جب تک پوری پوری نماز نہ ہو گی تو وہ برکات بھی نہ ہوں گی جو اس سے حاصل ہوتی ہیں اور نہ اس بیعت کا کچھ فائدہ حاصل ہو گا‘‘۔ (ملفوظات جلد 6 صفحہ 421-422۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
آپ فرماتے ہیں جب تک پوری پوری نماز نہ ہو گی وہ برکات بھی نہ ہوں گی جو اس سے حاصل ہوتی ہیں۔ یعنی نماز سے حاصل ہوتی ہیں پھر آپ نے فرمایا اور نہ اس بیعت کا کچھ فائدہ حاصل ہو گا جو تم نے میری کی ہے۔ پس یہ ہے وہ معیار جو ہمیں حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ شرک سے بچو۔ اس بارے میں ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امّت میں شرک کا خدشہ تھا۔ چنانچہ ایک حدیث ہے کہ عبادہ بن نسي نے ہمیں شدّاد بن اَوس کے بارے میں بتایا کہ وہ رو رہے تھے۔ ان سے پوچھا گیا کہ آپ کیوں رو رہے ہیں؟ اس پر انہوں نے کہا کہ مجھے ایک ایسی چیز یاد آ گئی تھی جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی اس پر مجھے رونا آ گیا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اپنی امت کے بارے میں شرک اور مخفی خواہشوں سے ڈرتا ہوں۔ راوی کہتے ہیں میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ کی امّت آپ کے بعد شرک میں مبتلا ہو جائے گی؟ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں۔ البتہ میری امّت شمس و قمر، بتوں اور پتھروں کی عبادت تو نہیں کرے گی مگر اپنے اعمال میں ریا سے کام لے گی۔ (ان کے اپنے عمل میں دھوکہ ہو گا۔ بناوٹ ہو گی۔ تصنع ہو گا) اور مخفی خواہشات میں لوگ مبتلا ہو جائیں گے۔ اگر ان میں سے کوئی روزہ دار ہونے کی حالت میں صبح کرے گا پھر اس کی کوئی خواہش معارض ہو گی تو وہ روزہ ترک کر کے اس خواہش میں مبتلا ہو جائے گا۔‘‘ (مسند احمد بن حنبل جلد 5 صفحہ 835 حدیث 17250 مسند شداد بن اوس مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء)
روزہ کی پرواہ نہیں کرے گا۔ ظاہراً روزہ ہو گا۔ پچھلی دفعہ بھی میں نے واقعہ سنایا تھا کہ امّاں ابّا کے لئے ہم روزہ رکھ لیتے ہیں لیکن دوپہر کو جا کر بازار سے کھانا کھا لیا اور پھر شام کو بڑے اہتمام سے گھر والوں کے ساتھ بیٹھ کر افطاری کر رہے ہیں جس طرح سارا دن کے ہم ہی سب سے بڑے روزہ دار ہیں۔ تو یہ بعض لوگوں کا حال ہے۔ یہاں کے اخباروں نے اپنا ایک آرٹیکل لکھا اور اس میں بیان بھی کیا تھا جیسا کہ گزشتہ ہفتہ مَیں نے بتایا تھا۔
پس بڑے ہی خوف کا مقام ہے۔ اگر ہم گہرائی سے اپنا جائزہ لیں تو شرک خفیکی کئی مثالیں نظر آئیں گی۔ ہماری نمازیں بھی بعض دفعہ اپنی خواہشات کی پیروی کی وجہ سے چھوٹ جاتی ہیں اور ہمارے روزے بھی دنیاوی عذروں کی نظر ہو جاتے ہیں یا چھوٹ جاتے ہیں۔ مجھے ایک جوان ملا کہنے لگا کیونکہ میں پِیزے کا کاروبار کرتا ہوں اور پِیزا بناتے ہوئے چکھنا پڑتا ہے اس لئے مَیں روزہ نہیں رکھتا یا کچھ روزے چھوڑ دیتا ہوں۔ اس پر صرف اِنَّا لِلہ ہی پڑھا جا سکتا ہے کہ ہم احمدی ہو کر ایسی حرکتیں کریں۔ اسے تو پتہ نہیں کچھ احساس ہوا یا نہیں لیکن بعض ایسے لوگوں کی باتیں سن کے مجھے بہرحال شرمندگی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے انعام کو حاصل کرنے کا دعویٰ تو ہے لیکن اگر اس کے احکام سے دُوری ہے تو پھر یہ دعویٰ جھوٹا ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: ’’خدا نے قرآن میں فرمایا کہ وَ یَغْفِرُ مَادُوْنَ ذٰلِکَ۔ یعنی ہر ایک گناہ کی مغفرت ہو گی۔‘‘ (پوری آیت ہے لیکن آپ نے ایک فقرہ بولا اور فرمایا کہ) ’’مگر شرک کو خدا نہیں بخشے گا۔ پس شرک کے نزدیک مت جاؤ اور اس کو حرمت کا درخت سمجھو‘‘۔ (تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 323-324 حاشیہ)
اب شرک کی بات ہو رہی ہے۔ پھر آپ نے فرمایا۔ ’’توحید صرف اس بات کا نام نہیں کہ منہ سے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ کہیں اور دل میں ہزاروں بُت جمع ہوں۔ بلکہ جو شخص اپنے کسی کام اور مکر اور فریب اور تدبیر کو خدا کی سی عظمت دیتا ہے یا کسی انسان پر بھروسہ رکھتا ہے جو خدا تعالیٰ پر رکھنا چاہئے یا اپنے نفس کو وہ عظمت دیتا ہے جو خدا کو دینی چاہئے۔ ان سب صورتوں میں وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک بُت پرست ہے‘‘۔ یہ اس حدیث کی وضاحت ہے۔ ’’بُت صرف وہی نہیں ہیں جو سونے یا چاندی یا پیتل یا پتھر وغیرہ سے بنائے جاتے ہیں اور ان پر بھروسہ کیا جاتا ہے بلکہ ہر ایک چیز یا قول یا فعل جس کو وہ عظمت دی جائے جو خدا تعالیٰ کا حق ہے وہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں بت ہے‘‘۔ (سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب، روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 349)
پس بہت باریکی سے ہمیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ پھر خلافت کا انعام پانے والوں کے لئے زکوٰۃ اور مالی قربانی کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔ حدیث میں آتا ہے حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دو شخصوں کے سوا کسی پر رشک نہیں کرنا چاہئے۔ ایک وہ آدمی جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور اس نے اسے راہ حق میں خرچ کر دیا۔ دوسرے وہ آدمی جسے اللہ تعالیٰ نے سمجھ دانائی اور علم و حکمت دی جس کی مدد سے وہ لوگوں کے فیصلے کرتا ہے اور لوگوں کو سکھاتا بھی ہے۔ (صحیح البخاری کتاب العلم باب الاغتباط فی العلم والحکمۃ حدیث 73)
پھر حضرت حسن بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے اموال کو زکوۃ ادا کر کے محفوظ کر لو اور اپنے بیماروں کا علاج صدقات کے ذریعہ بھی کرو‘‘۔ (الجامع لشعب الایمان جلد 5 صفحہ 185 حدیث 3280 مطبوعہ مکتبۃ الرشدناشرون ریاض 2003ء)۔ یعنی زکوۃ اور صدقات، ہر چیز کی مالی قربانی اس طرف توجہ دلا دی۔
پس زکوۃ جن پر واجب ہے وہ تو زکوۃ دیں گے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ہر ایک پر واجب بھی نہیں۔ لیکن جن پر واجب نہیں انہیں بھی یہاں نصیحت فرمائی کہ صدقات کی طرف توجہ کرو اور ضرورتمندوں اور غریبوں کا خیال رکھو۔ پس اس میں جہاں ضرورتمندوں کی ضرورت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے، جو ضروری چیز ہے، وہاں وحدت پیدا کرنے کی طرف بھی توجہ ہے۔ کیونکہ زکوۃ اور اموال کا خرچ خلافت کے تابع ہی بہترین رنگ میں ہو سکتا ہے۔ جماعت کا نظام بھی ہے جس کے پاس ضرورتمندوں کے کوائف بہتر رنگ میں میسر ہوتے ہیں اور ہو سکتے ہیں۔ ا ور جو جماعتیں ہیں ان کو چاہئے کہ اس کا جائزہ لے کے میسر کریں۔ عموماً تو ایسے لوگوں کی فہرستیں آتی ہیں۔ پھر خلیفہ وقت کے پاس مختلف جگہوں کی معلومات ہیں جو مختلف لوگوں کی طرف سے آ جاتی ہیں۔ بعض لوگوں کی اپنی طرف سے بھی آ جاتی ہیں ان کے مطابق وہ خود بھی وہاں خرچ کرنے کے لئے نظام کو کہتا ہے کہ ہاں خرچ کرو۔ یہی وجہ ہے کہ افریقہ میں بھی اور دوسرے ممالک میں بھی جماعت وہاں کے لوگوں کو جس حد تک ہو سکتا ہے اپنے وسائل کے مطابق سہولت پہنچانے کی، مدد کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ علاج کی سہولتیں بھی دی جاتی ہیں۔ تعلیم کی سہولتیں بھی دی جاتی ہیں۔ دوسری خوراک وغیرہ کے لئے بھی۔ اور اکثر احمدیوں کو میں نے دیکھا ہے بڑے درد کے ساتھ اپنے غریب بھائیوں کی مدد کے لئے مالی قربانی کرتے بھی ہیں اور اسی ذریعہ سے پھر ایک وحدت بھی پیدا ہوتی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نمازوں کے حق ادا کرنے اور زکوۃ ادا کرنے کے آپس کے تعلق کو خدا تعالیٰ کی تعلیم کے مطابق جوڑتے ہوئے یہ فرماتے ہیں کہ ’’لوگ اپنی نمازوں میں خشوع خضوع کرتے ہیں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ طبعاً وہ لغو سے اعراض کرتے ہیں۔‘‘ (جو نمازیں صحیح طرح پڑھی جائیں گی تو لغو سے اعراض ہو گا) ’’اور اس گندی دنیا سے نجات پا جاتے ہیں اور اس دنیا کی محبت ٹھنڈی ہو کر خدا(تعالیٰ) کی محبت ان میں پیدا ہو جاتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ھُمْ لِلزَّکٰوۃِ فٰعِلُوْن (المؤمنون:5)۔ یعنی وہ خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں‘‘۔ (جب لغویات سے پرہیز کیا۔ لغویات پہ خرچ نہیں کرنا تو پھر عبادتوں کی طرف توجہ پیدا ہوئی۔ اگر مالدار ہیں تو پھر خدا کی راہ میں خرچ کرنے کی طرف ان کو توجہ پیدا ہوتی ہے۔) فرمایا ’’اور یہ ایک نتیجہ ہے عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْن (المؤمنون: 4)کا‘‘۔ (لغو سے اعراض کا۔ لغو سے بچنے کا نتیجہ ہے کہ پھر مالی قربانی کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے۔ دوسروں کا احساس ہوتا ہے۔) ’’کیونکہ جب دنیا سے محبت ٹھنڈی ہو جائے گی تو اس کا لازمی نتیجہ ہو گا کہ وہ خدا کی راہ میں خرچ کریں گے اور خواہ قارون کے خزانے بھی ایسے لوگوں کے پاس جمع ہوں وہ پروا نہیں کریں گے اور خدا کی راہ میں دینے سے نہیں جھجھکیں گے‘‘۔ آپ فرماتے ہیں کہ ’’ہزاروں آدمی ایسے ہوتے ہیں کہ وہ زکوٰۃ نہیں دیتے یہاں تک کہ ان کی قوم کے بہت سے غریب اور مفلس آدمی تباہ اور ہلاک ہو جاتے ہیں مگر وہ ان کی پروا بھی نہیں کرتے۔ حالانکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہر ایک چیز پر زکوۃ دینے کا حکم ہے یہاں تک کہ زیور پر بھی۔ ہاں جواہرات وغیرہ چیزوں پر نہیں۔ اور جو امیر، نواب اور دولتمند لوگ ہوتے ہیں ان کو حکم ہے کہ وہ شرعی احکام کے بموجب اپنے خزانوں کا حساب کر کے زکوۃ دیں‘‘ (نہ کہ نقد روپیہ جو ہے۔ اگر وہ ایک حد تک، ایک مدت تک جمع ہو تو اس پر بھی زکوۃ دیں ) ’’لیکن وہ نہیں دیتے۔ اس لئے خدا (تعالیٰ) فرماتا ہے کہعَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْن کی حالت تو ان میں تب پیدا ہو گی جب وہ زکوۃ بھی دیں گے۔‘‘ (زکوٰۃ دیں گے تو لغویات سے بچنے کی کوشش بھی ہو گی۔ نمازوں کا خشوع و خضوع حاصل ہو گا۔ اگر صحیح نمازیں ہیں تو لغویات سے بچیں گے۔ لغویات سے بچیں گے تو مالی قربانی کی طرف توجہ پیدا ہو گی۔ آپ نے فرمایا مالی قربانی کرنے والےوہ لوگ ہوں گے جو لغویات سے بچتے ہیں۔ ہر چیز کا آپس میں تعلق ہے۔) آپ فرماتے ہیں ’’گویا زکوۃ کا دینا لغو سے اعراض کرنے کا ایک نتیجہ ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 10 صفحہ 64۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس نماز توجہ دلاتی ہے لغویات سے پرہیز کی طرف اور لغویات سے پرہیز پھر اللہ تعالیٰ کے احکامات کی بجا آوری کی طرف لے جاتا ہے۔ اور پھر اس طرف توجہ پیدا ہوتی ہے کہ اپنے مال کو ناجائز چیزوں پر خرچ کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کریں۔ پس آپ نے اس سے یہ بھی نتیجہ نکالا کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کرنا بھی بہت سی لغویات سے انسان کو بچا لیتا ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے خلافت کا انعام پانے والوں کو یہ نصیحت فرمائی کہ وہ اطاعت کے معیاروں کو بھی بلند کریں۔ ایک حدیث میں آتا ہے۔ یہ حضرت عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت اس نکتہ پر کی کہ سنیں گے اور اطاعت کریں گے خواہ ہمیں پسند ہو یا ناپسند۔ اور یہ کہ ہم جہاں کہیں بھی ہوں کسی امر کے حقدار سے جھگڑا نہیں کریں گے۔ حق پر قائم رہیں گے یا حق بات ہی کہیں گے اور اللہ تعالیٰ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے۔‘‘ (صحیح البخاری کتاب الاحکام باب کیف یبایع الامام الناس حدیث 7199۔ صحیح مسلم کتاب الامارۃ باب وجوب طاعۃ الامراء فی غیر معرصیۃ…الخ)
یہ صرف اپنے لئے ہی نہیں آپ نے فرمایا بلکہ آگے خلافت اور نظام کے بارے میں بھی یہی ارشاد ہے۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تنگدستی اور خوشحالی، خوشی اور نا خوشی، حق تلفی اور ترجیحی سلوک(چاہے حق تلفی ہو رہی ہے۔ ترجیحی سلوک ہو رہا ہے۔ امتیاز برتا جارہا ہے) غرض ہر حالت میں تیرے لئے حاکم وقت کے حکم کو سننا اور اطاعت کرنا واجب ہے‘‘۔ (صحیح مسلم کتاب الامارۃ باب وجوب طاعۃ الامراء فی غیر معصیۃ … الخ حدیث 4754)
اس بات کو اطاعت کے بارے میں بیان کرتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’اللہ اور اس کے رسول اور ملوک کی اطاعت اختیار کرو۔ اطاعت ایک ایسی چیز ہے کہ اگر سچے دل سے اختیار کی جائے تو دل میں ایک نور اور روح میں ایک لذت اور روشنی آتی ہے۔ مجاہدات کی اس قدر ضرورت نہیں ہے جس قدر اطاعت کی ضرورت ہے۔ مگر ہاں یہ شرط ہے کہ سچی اطاعت ہو اور یہی ایک مشکل امر ہے۔ اطاعت میں اپنے ہوائے نفس کو ذبح کر دینا ضروری ہوتا ہے۔ بِدُوں اس کے اطاعت ہو نہیں سکتی۔ اور ہوائے نفس ہی ایک ایسی چیز ہے جو بڑے بڑے موحّدوں کے قلب میں بھی بت بن سکتی ہے۔‘‘ (دل کی جو خواہشات ہیں وہ اگر ہوں تو بت بن جاتے ہیں۔ پھر اطاعت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔) فرمایا کہ ’’صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین پر کیسا فضل تھا اور وہ کس قدر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں فنا شدہ قوم تھی۔ یہ سچی بات ہے کہ کوئی قوم قوم نہیں کہلا سکتی اور ان میں ملّیت اور یگانگت کی روح نہیں پھونکی جاتی جب تک کہ وہ فرمانبرداری کے اصول کو اختیار نہ کرے اور اگر اختلاف رائے اور پھوٹ رہے تو پھر سمجھ لو کہ یہ ادبار اور تنزل کے نشانات ہیں۔‘‘ (اختلاف رائے ہو گا تو زیادہ پھوٹ پڑی رہے گی۔ پھر تنزل ہو گا۔ گراوٹ ہوتی چلی جائے گی۔ پھر ترقی نہیں ہو گی۔) فرمایا کہ ’’مسلمانوں کے ضعف اور تنزل کے منجملہ دیگر اسباب کے باہم اختلاف اور اندرونی تنازعات بھی ہیں۔ پس اگر اختلاف رائے کو چھوڑ دیں اور ایک کی اطاعت کریں جس کی اطاعت کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے پھر جس کام کو چاہتے ہیں وہ ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ جماعت پر ہوتا ہے۔ اس میں یہی تو سرّ ہے۔ اللہ تعالیٰ توحید کو پسند فرماتا ہے اور یہ وحدت قائم نہیں ہو سکتی جب تک اطاعت نہ کی جاوے۔ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں صحابہ بڑے بڑے اہل الرائے تھے۔ خدا نے ان کی بناوٹ ایسی ہی رکھی تھی۔ وہ اصولِ سیاست سے بھی خوب واقف تھے کیونکہ آخر جب حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دیگر صحابہ کرام خلیفہ ہوئے اور ان میں سلطنت آئی تو انہوں نے جس خوبی اور انتظام کے ساتھ سلطنت کے بارِ گراں کو سنبھالا ہے اس سے بخوبی معلوم ہو سکتا ہے کہ ان میں اہل الرائے ہونے کی کیسی قابلیت تھی۔ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور ان کا یہ حال تھا کہ جہاں آپ نے کچھ فرمایا اپنی تمام راؤں اور دانشوں کو اس کے سامنے حقیر سمجھا‘‘۔ (ہماری کوئی عقل کی بات نہیں۔) ’’اور جو کچھ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسی کو واجب العمل قرار دیا۔ ان کی اطاعت میں گمشدگی کا یہ عالم تھا کہ آپ کے وضو کے بقیہ پانی میں برکت ڈھونڈھتے تھے اور آپ کے لب مبارک کو متبرّک سمجھتے تھے۔ اگر ان میں یہ اطاعت، یہ تسلیم کا مادہ نہ ہوتا بلکہ ہر ایک اپنی ہی رائے کو مقدم سمجھتا اور پھوٹ پڑ جاتی تو وہ اس قدر مراتب عالیہ کو نہ پاتے‘‘۔ فرماتے ہیں کہ ’’میرے نزدیک شیعہ سنّیوں کے جھگڑوں کو چکا دینے کے لئے یہی ایک دلیل کافی ہے کہ صحابہ کرام میں باہم پھوٹ، ہاں باہم کسی قسم کی پھوٹ اور عداوت نہ تھی کیونکہ ان کی ترقیاں اور کامیابیاں اس امر پر دلالت کر رہی ہیں کہ وہ باہم ایک تھے اور کچھ بھی کسی سے عداوت نہ تھی۔ ناسمجھ مخالفوں نے کہا ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلایا گیا۔ مگر میں کہتا ہوں یہ صحیح نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ دل کی نالیاں اطاعت کے پانی سے لبریز ہو کر بہ نکلی تھیں۔ یہ اس اطاعت اور اتحاد کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے دوسرے دلوں کو تسخیر کر لیا۔ میرا تو یہ مذہب ہے کہ وہ تلوار جو اُن کو اٹھانی پڑی وہ صرف اپنی حفاظت کے لئے تھی ورنہ اگر وہ تلوار نہ بھی اٹھاتے تو یقیناً وہ زبان ہی سے دنیا کو فتح کر لیتے۔ سخن کز دل بروں آیدنشیند لا جرم بر دل‘‘ (کہ دل سے نکلی ہوئی نصیحت یقینا دوسروں کے دلوں پر اثر کرتی ہے۔) ’’انہوں نے ایک صداقت اور حق کو قبول کیا تھا اور پھر سچے دل سے قبول کیا تھا۔ اس میں کوئی تکلّف اور نمائش نہ تھی۔ ان کا صدق ہی ان کی کامیابیوں کا ذریعہ ٹھہرا۔ یہ سچی بات ہے کہ صادق اپنے صدق کی تلوار ہی سے کام لیتا ہے۔ آپ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل و صورت جس پر خدا پر بھروسہ کرنے کا نور چڑھا ہوا تھا اور جو جلالی اور جمالی رنگوں کو لئے ہوئے تھی اس میں ہی ایک کشش اور قوت تھی کہ وہ بے اختیار دلوں کو کھینچے لیتےتھے اور پھرآپ کی جماعت نے اطاعت الرسول کا وہ نمونہ دکھایا اور اس کی استقامت ایسی فوق الکرامت ثابت ہوئی کہ جو اُن کو دیکھتا تھا وہ بے اختیار ہو کر ان کی طرف چلا آتا تھا۔ غرض صحابہ کی سی حالت اور وحدت کی ضرورت اب بھی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کو جومسیح موعود کے ہاتھ سے تیار ہو رہی ہے اسی جماعت کے ساتھ شامل کیا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیار کی تھی اور چونکہ جماعت کی ترقی ایسے ہی لوگوں کے نمونوں سے ہوتی ہے‘‘۔ (جو خالصۃً اپنی حالت کو اس تعلیم کے مطابق ڈھالیں اور اطاعت میں بھی اعلیٰ معیار دکھائیں۔) ’’اس لئے تم جو مسیح موعود کی جماعت کہلا کر صحابہ کی جماعت سے ملنے کی آرزو رکھتے ہو اپنے اندر صحابہ کا رنگ پیدا کرو۔ اطاعت ہو تو ویسی ہو۔ باہم محبت اور اخوت ہو تو ویسی ہو۔ غرض ہر رنگ میں ہر صورت میں تم وہی شکل اختیار کرو جو صحابہ کی تھی۔‘‘ (تفسیر حضرت مسیح موعودؑ زیر سورۃ النساء آیت 59)
گو یہ بات آپ اپنے صحابہ کو اس وقت بتا رہے ہیں لیکن اگر جماعتی ترقی کو ہمیشہ قائم رکھنا ہے، خلافت کے نظام کے دائمی رہنے کے لئے کوشش کرنی ہے تو پھر جماعت کے اندر وہ نمونے بھی مستقل مزاجی سے قائم رکھنے پڑنے ہیں۔ تبھی وہ ترقیات بھی ملیں گی جو پہلے ملتی رہی ہیں۔ پس یہ وہ معیار ہیں جو اللہ تعالیٰ کے انعام سے فیض پانے کے لئے ضروری ہیں۔ ہمیں اپنی عبادتوں کے معیار بھی اونچے کرنے ہوں گے۔ اپنی نمازوں کی بھی حفاظت کرنی ہو گی۔ اپنے ہر قول و فعل کو ہر قسم کے شرک سے کلیۃً پاک کرنا ہو گا۔ اپنے اموال کو بھی خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا ہو گا۔ اور خلافت سے وفا اور اطاعت کے معیاروں کی بھی ہر وقت حفاظت کرنی ہو گی تبھی ہم خلافت کے انعام اور اس کے ساتھ رکھی ہوئی اللہ تعالیٰ کی برکات سے فیض پا سکتے ہیں اور تاقیامت رہنے والی خلافت سے جُڑے رہ سکتے ہیں اور اپنی نسلوں کو ان کے ساتھ جڑا رکھنے والا بن سکتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس دائمی خلافت کی خوشخبری دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا اور وہ دوسری قدرت نہیں آ سکتی جب تک میں نہ جاؤں۔ لیکن مَیں جب جاؤں گا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی۔ جیسا کہ خدا کا براہین احمدیہ میں وعدہ ہے اور وہ وعدہ میری ذات کی نسبت نہیں ہے بلکہ تمہاری نسبت وعدہ ہے جیسا کہ خدا فرماتا ہے کہ مَیں اِس جماعت کو جو تیرے پَیرو ہیں قیامت تک دوسروں پر غلبہ دوں گا۔ سو ضرور ہے کہ تم پر میری جدائی کا دن آوے تا بعد اس کے وہ دن آوے جو دائمی وعدہ کا دن ہے۔ وہ ہمارا خدا وعدوں کا سچا اور وفادار اور صادق خدا ہے۔ وہ سب کچھ تمہیں دکھائے گا جس کا اس نے وعدہ فرمایا ہے۔ اگرچہ یہ دن دنیا کے آخری دن ہیں اور بہت بَلائیں ہیں جن کے نزول کا وقت ہے پر ضرور ہے کہ یہ دنیا قائم رہے جب تک وہ تمام باتیں پوری نہ ہو جائیں جن کی خدا نے خبر دی۔ مَیں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا اور مَیں خدا کی ایک مجسّم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اَور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہرہوں گے۔‘‘ (رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 305-306)
پس اللہ تعالیٰ نے ہمیں وہ انعام دیا اور گزشتہ تقریباً 110 سال سے ہم اللہ تعالیٰ کے اس فضل کے نظارے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کئے گئے وعدے کو دیکھ رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک کو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں آیا ہے اس بات کی توفیق دے کہ اللہ تعالیٰ کی جو ہدایات ہیں ان کو سامنے رکھتے ہوئے خلافت کی برکات سے ہمیشہ فیض پاتا چلا جائے۔
پچھلے ہفتہ بھی میں نے پاکستانیوں کے لئے خاص طور پر دعا کی تحریک کی تھی۔ دوبارہ کہتا ہوں کہ پاکستانیوں کو خاص طور پر دعا کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ اپنی نمازوں کو، اپنے نوافل کو، ذکر الٰہی کو پہلے سے بہت بڑھانا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
قرآن کریم سے بھی ہمیں واضح ہوتا ہے کہ آخری زمانے میں خلافت علی منہاج نبوت قائم ہو گی۔ احادیث سے بھی ہمیں پتہ چلتا ہے کہ خلافت علی منہاج نبوت قائم ہو گی اور یہ دائمی خلافت ہے۔ اور ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی بڑی کھول کر وضاحت فرمائی کہ میرے بعد خلافت ہو گی اور ہمیشہ رہے گی۔ لیکن ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں مسلمانوں کو یہ بھی واضح فرما دیا کہ خلافت کے وعدہ سے فیض اٹھانے کے لئے، اس کے انعام سے حصہ لینے کے لئے اپنی حالتوں کو بدلنا ہو گا۔ صرف مسلمان کہلانا، صرف ظاہری ایمان کا اظہار کرنا خلافت کے ایمان کا حقدار نہیں بنا دے گا۔ پس اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو یہ نصیحت فرماتا ہے کہ عبادت کا حق ادا کرنے کے لئے، شرک سے بچنے کے لئے، نمازوں کو قائم کرو۔ زکوۃ ادا کرو۔ رسول کی اطاعت کرو تبھی تم اللہ تعالیٰ کے رحم کو حاصل کر سکتے ہو۔
اطاعت رسول کا ایک مقصد جو وحدت کی لڑی میں پرویا جانا ہے وہ بھی خلافت کے بغیر نہیں ہو سکتا۔
دو دن قبل سیالکوٹ میں جماعت کی مسجد اور اس کے ساتھ گھر پر پولیس اور انتظامیہ کی سرکردگی میں مولویوں اور ان کے چند سو چیلوں نے حملہ کر کے توڑ پھوڑ کی اور مسجد کے گنبد اور میناروں کو گرایا اور اب بھی یہ اعلان کر رہے ہیں کہ ہم اَور مسجدوں کو بھی نقصان پہنچائیں گے اور گرائیں گے۔
جب تک یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق قائم ہونے والی خلافت کو نہیں مانیں گے یہ ایسی حرکتیں کرتے رہیں گے اور ان سے کسی بھی قسم کی اچھائی کی توقع رکھی ہی نہیں جا سکتی۔
جہاں تک ہمارے جذبات کا تعلق ہے کہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے کی ایک یادگار کو نقصان پہنچایا اور حکومت نے اسے اپنے قبضے میں لیا ہوا ہے تو ہمارا تو ہمیشہ کی طرح یہی جواب ہے اور ہونا چاہئے کہ اِنَّمَآ اَشْکُوْا بَثِّیْ وَ حُزْنِیْٓ اِلَی اللّٰہِ(یوسف: 87)۔ کہ میں تو اپنے رنج اور غم کی فریاد کو اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کرتا ہوں۔ بیشک اس کے ساتھ ہمارا جذباتی تعلق بھی ہو لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اعلیٰ تعلق کا اظہار صرف عمارتوں کی حفاظت سے نہیں بلکہ آپ کی تعلیم پر عمل کرنے سے ہے۔ آپ کے بعدنظام خلافت کے ساتھ جُڑنے سے ہے۔ ان چیزوں کے حصول سے ہے جو اللہ تعالیٰ نے خلافت کے انعام سے فائدہ اٹھانے کے لئے بتائی ہیں۔ اپنی عبادتوں کے معیار بہتر کرنے سے ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے سے ہے۔ اپنی اطاعت کے معیاروں کو بڑھانے سے ہے۔ پس اس کے لئے ہمیں کوشش کرنی چاہئے۔
جماعت احمدیہ کا قیام بھی اس لئے ہوا ہے کہ خدا تعالیٰ کی ہستی کے بیّن ثبوت پیش کئے جائیں۔ توحید کو دوبارہ قائم کیا جائے۔ اخلاق فاضلہ کو نئے سرے سے قائم کیا جائے۔
ہمیں ہر وقت اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے خلافت کے ساتھ وابستہ انعامات کے حصول کے لئے جن باتوں اور جن کاموں کے کرنے کی نصیحت فرمائی ہے اس کے مطابق ہم اپنی زندگیوں کو ڈھالنے کی کوشش کر رہے ہیں یا نہیں؟ ان کے معیار کیا ہیں؟ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ہماری عبادتیں کیسی ہیں؟ ہماری نمازوں کے قیام کیسے ہیں؟ ہمارا ہر قول و عمل شرک سے پاک ہے یا نہیں؟ ہماری مالی قربانیوں کے معیار کیا ہیں؟ ہماری اطاعت کے معیار کس درجہ کے ہیں؟ کیا اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم جس طرح چاہتے ہیں ہم ان معیاروں کو حاصل کرنے والے ہیں یا نہیں؟ اور پھر اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جس معیار پر اپنے سلسلہ کے ماننے والوں کو دیکھنا چاہتے ہیں ہم اس تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں یا نہیں؟
خلافت کا انعام پانے والوں کے لئے زکوٰۃ اور مالی قربانی کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔
زکوۃ اور اموال کا خرچ خلافت کے تابع ہی بہترین رنگ میں ہو سکتا ہے۔ جماعت کا نظام بھی ہے جس کے پاس ضرورتمندوں کے بہتر رنگ میں کوائف میسر ہوتے ہیں اور ہو سکتے ہیں۔ ا ور جو جماعتیں ہیں ان کو چاہئے کہ اس کا جائزہ لے کے میسر کریں۔ نماز توجہ دلاتی ہے لغویات سے پرہیز کی طرف اور لغویات سے پرہیز پھر اللہ تعالیٰ کے احکامات کی بجا آوری کی طرف لے جاتا ہے۔ اور پھر اس طرف توجہ پیدا ہوتی ہے کہ اپنے مال کو ناجائز چیزوں پر خرچ کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کریں۔ اللہ تعالیٰ نے خلافت کا انعام پانے والوں کو یہ نصیحت فرمائی کہ وہ اطاعت کے معیاروں کو بھی بلند کریں۔ ہمیں اپنی عبادتوں کے معیار بھی اونچے کرنے ہوں گے۔ اپنی نمازوں کی بھی حفاظت کرنی ہو گی۔ اپنے ہر قول و فعل کو ہر قسم کے شرک سے کلیۃً پاک کرنا ہو گا۔ اپنے اموال کو بھی خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا ہو گا۔ اور خلافت سے وفا اور اطاعت کے معیاروں کی بھی ہر وقت حفاظت کرنی ہو گی تبھی ہم خلافت کے انعام اور اس کے ساتھ رکھی ہوئی اللہ تعالیٰ کی برکات سے فیض پا سکتے ہیں اور تاقیامت رہنے والی خلافت سے جُڑے رہ سکتے ہیں اور اپنی نسلوں کو ان کے ساتھ جڑا رکھنے والا بن سکتے ہیں۔
فرمودہ مورخہ 25؍ مئی 2018ء بمطابق25؍ہجرت 1397 ہجری شمسی، بمقام مسجدبیت الفتوح، مورڈن، لندن، یوکے
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔