بدری صحابہ کا ذکر خیر
خطبہ جمعہ 12؍ اکتوبر 2018ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
آج میں جن صحابہ کا ذکر کرنے لگا ہوں ان کے واقعات اور روایات کو تاریخ نے تفصیل سے محفوظ نہیں کیا۔ ان کا مختصر تعارف ہی ہے جو بعض کا چند سطروں میں بیان ہوا ہےلیکن کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ ایک دفعہ تمام بدری صحابہ کا ذکر ایک جگہ جماعتی لٹریچر میں بھی آ جائے اس لئے مختصر تعارف والے ناموں کو بھی میں لے رہا ہوں ۔ ویسے بھی ان صحابہ کا جو مقام تھا اور ہے ان کا چاہے مختصر ذکر ہی ہو، ان لوگوں کا ذکر خیر بھی یا ان کو یاد کرنا بھی ہمارے لئے یہ برکت کا موجب ہے۔ یہ وہ لوگ تھے جو غریب اور کمزور ہونے کے باوجود دین کی حفاظت کرنے والوں میں صف اول میں تھے۔ دشمن کی طاقت سے مرعوب نہیں ہوئے بلکہ ان کا تمام تر توکل اللہ تعالیٰ کی ذات پر تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے وفا اور محبت کا عہد کیا تو اس کے لئے اپنی جانیں قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا۔ ان کے اس عہد وفا کے نبھانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے بھی ان کو جنت کی بشارت دی اور ان سے راضی ہونے کا اعلان فرمایا۔
حضرت عَبْدُ رَبِّہِ بن حق بن اوس ایک صحابی تھے۔ ان کے بارے میں ایک سے زائد آراء ہیں ۔ بعض نے عَبْدُ رَبِّہِ اور بعض نے عبداللہ لکھا ہے۔ ابن اسحاق کے نزدیک ان کا نام عبداللہ بن حق جبکہ ابن عمارہ کے مطابق عبدِ رب بن حق ہے ان کا تعلق بنو خزرج کے خاندان بنو ساعدہ سے تھا اور آپ غزوہ بدر میں شامل ہوئے تھے۔ (اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ جلد3 صفحہ317-318 ’’عبد ربہ بن حق‘‘ مطبوعہ دار الفکر بیروت 2003ء)
پھر حضرت سَلَمَہ بن ثابت ہیں ان کا نام پورا نام سَلَمہ بن ثابت بن وقش ہے۔ حضرت سلمہ غزوہ بدر میں شریک ہوئے غزوہ احد میں ابو سفیان نے حضرت سلمہ بن ثابت کو شہید کیا تھا۔ حضرت سلمہ کے والد حضرت ثابت بن وقش اور چچا حضرت رفاعۃ بن وقش اور ان کے بھائی حضرت عمرو بن ثابت بھی غزوہ احد میں شہید ہوئے تھے۔ اس خاندان کے بہت سارے افراد غزوہ احد میں شریک ہوئے۔ ان کی والدہ کا نام لیلی بنت یمان تھا جو حضرت حذیفہ بن یمانؓ کی بہن تھیں ۔(الطبقات الکبری لابن سعدجلد3 صفحہ234سلمہ بن ثابت بن وقش، دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء) (اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابۃ جلد2 صفحہ291 سلمۃ بن ثابت، دار الفکر بیروت 2003ء)
پھر حضرت سنان بن صیفی ہیں ان کا تعلق خزرج کی شاخ بنو سلمہ سے تھا۔ ان کی والدہ کا نام نائلہ بنت قیس تھا۔ ان کا ایک بیٹا مسعود بھی تھا۔ 12نبوی میں مصعب بن عمیر کی تبلیغی مساعی کے نتیجہ میں انہوں نے اسلام قبول کیا۔ یہ بیعت عقبہ ثانیہ کے موقع پر دیگر ستر انصار کے ساتھ شامل ہوئے اور غزوہ بدر اور احد میں شریک ہوئے۔(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد3 صفحہ291، ومن بنی عبید بن عدی…، سنان بن صیفی، دار احیاء التراث العربی1996ء)،(حبیب کبریاءؐ کے تین سو اصحاب از طالب الہاشمی صفحہ325، ندیم یونس پرنٹرز لاہور1999ء) غزوہ خندق میں بھی یہ شریک تھے اور اس میں آپ کو شہادت نصیب ہوئی۔(السیرۃ النبویۃ لابن ھشام جزء اول صفحہ276 باب اسماء من شھد العقبۃ الاخیرۃ، دار الکتاب العربی بیروت2008ء)
پھر حضرت عبداللہ بن عبد مناف ہیں ان کا تعلق قبیلہ بنو نعمان سے تھا۔(السیرۃ النبویۃ لابن ھشام جزء دوم صفحہ410، من حضر بدراً من المسلمین،دار الکتاب العربی بیروت2008ء) ابو یحيٰ ان کی کنیت تھی ان کی والدہحُمَیمہ بنت عبید تھیں ۔ ان کی ایک بیٹی تھیں ان نام بھی حُمَیمہ تھا جن کی والدہ رُبَیِّع بنت طفیل تھیں ۔آپ غزوہ بدر اور احد میں شریک ہوئے تھے۔(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد3 صفحہ292 عبد اللہ بن عبد مناف، دار احیاء التراث العربی بیروت1996ء)
پھر حضرتمُحْرِز بن عامر بن مالک ہیں ۔ ان کی وفات غزوہ احد کے لئے نکلنے والی صبح کے وقت ہوئی۔ ان کا پورا ناممُحْرِز بن عامر تھا۔ ان کا تعلق بنو عدی بن نجار سے تھا۔ ان کی والدہ کا نام سُعْدٰی بنت خیثمہ بن حارث تھا اور ان کا تعلق اَوس قبیلہ سے تھا۔ ان کی والدہ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن خیثمہ کی ہمشیرہ تھیں ۔ ان کے بارے میں لکھا ہے کہ ام سھل بنت ابی خارجہ سے آپ کی اولاد اسماء اور کَلْثم تھیں ۔ آپ نے غزوہ بدر میں شرکت کی۔ جس دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ احد کے لئے نکلنا تھا اس دن صبح کے وقت ان کی وفات ہو گئی تھی۔ ان کا شمار ان لوگوں میں کیا گیا ہے جو غزوہ احد میں شامل ہوئے تھے۔(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد3 صفحہ388 محرز بن عامر، دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)کیونکہ شامل ہونے کی نیت تھی اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو شامل ہونے والوں میں شمار فرمایا۔
حضرت عائذ بن ماعص انصاری صحابی ہیں ۔ ان نام عائذ بن ماعص تھا۔ ان کا تعلق انصار کے قبیلہ بنو زُرَیق سے تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مؤاخات حضرت سُوَیْبِط بن حرملہ سے کروائی۔ آپ اپنے بھائی حضرت معاذ بن ماعص کے ساتھ غزوہ بدر میں شریک ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تمام غزوات میں شامل ہوئے۔ حضرت عائذ بن ماعص بئر معونہ اور غزوہ خندق میں شریک ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تمام غزوات میں شریک تھے۔ حضرت ابو بکر کے دور خلافت میں 12ہجری میں جنگ یمامہ میں شہید ہوئے۔ (اسد الغابۃفی معرفۃ الصحابۃ جلد3 صفحہ43 عائذ بن ماعص مطبوعہ دار الفکر بیروت 2003ء)، (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد3 صفحہ301 عائذ بن ماعص دار احیاء التراث العربی1996ء)
پھر حضرت عبداللہ بن سلمہ بن مالک انصاری ہیں ۔ آپ انصار کے قبیلہ بَلِیّ سے تعلق رکھتے تھے۔ غزوہ بدر اور احد میں شریک ہوئے اور غزوہ احد میں شہید ہوئے۔ حضرت عبداللہ بن سلمہ جب شہید ہوئے تو ان کو اور حضرت مجذّر بن ذیاد کو ایک ہی چادر میں لپیٹ کر اونٹ پر مدینہ لایا گیا۔ حضرت عبداللہ بن سلمہ کی والدہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور عرض کی یا رسول اللہ! میرا بیٹا غزوہ بدر میں شریک ہوا تھا اور غزوہ احد میں شہید ہو گیا ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ اسے اپنے پاس لے آؤں ، یعنی اس کی تدفین مدینہ میں ہو جائے، تا میں اس کی قربت سے مانوس ہو سکوں ۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت عنایت فرمائی۔ حضرت عبداللہ بن سلمہ جسیم اور بھاری وزن کے تھے اور حضرت مجذّر بن ذیاد دبلے پتلے تھے تاہم روایتوں میں یہ لکھا ہے کہ اونٹ پر دونوں کا وزن برابر رہا۔ اس پر لوگوں نے تعجب کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان دونوں کے اعمال نے انہیں برابر کر دیا ہے۔(اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلد3 صفحہ160-161 عبد اللہ بن سلمۃ، مطبوعہ دار الفکر بیروت 2003ء)
پھر ایک صحابی حضرت مسعود بن خلدہ ہیں ۔ ان کا نام مسعود بن خلدہ تھا اور بعض روایات میں مسعود بن خالد بیان ہوا ہے۔ ان کا تعلق انصار کے قبیلہ بنو زُرَیق سے تھا۔ غزوہ بدر اور احد میں شریک ہوئے اور بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ آپ واقعہ بئر معونہ میں شہید ہوئے جبکہ بعض دیگر روایات میں ہے کہ آپ غزوہ خیبر میں شہید ہوئے۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جلد3 صفحہ448 مسعود بن خلدۃ، دار الکتب العلمیۃ بیروت2002ء)، (الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد6 صفحہ281 مسعود بن خلدۃ، دار الکتب العلمیۃ بیروت2005ء)
پھر حضرت مسعود بن سعد انصاری ہیں ۔ حضرت مسعود کا تعلق انصار کے قبیلہ بنو زُرَیق سے تھا۔ غزوہ بدر اور احد میں آپ شریک ہوئے اور بعض کے نزدیک حضرت مسعود بن سعد واقعہ بئر معونہ میں شہید ہوئے جبکہ محمد بن عُمارہ اور ابونُعَیْم کے نزدیک آپ غزوہ خیبر میں شہید ہوئے۔ (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلد4 صفحہ369-370 مسعود بن سعد، دار الفکر بیروت2003ء)
پھر ایک صحابی حضرت زید بن اسلم ہیں ۔ یہ بھی انصاری ہیں ۔ حضرت زید بن اسلم کا تعلق انصار کے قبیلہ بنو عجلان سے تھا۔ یہ غزوہ بدر اور احد میں شامل ہوئے اور حضرت ابو بکر کے دور خلافت میں طُلَیْحہ بن خُوَیلِد الاسدی کے خلاف لڑتے ہوئے بُزاخَہ کے دن شہید ہوئے۔ بزاخہ نجد میں ایک چشمہ ہے جہاں مسلمانوں کی اسلامی حکومت کے باغی اور مدعی نبوت طلیحہ بن خویلد الاسدی سے جنگ ہوئی تھی۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد3 صفحہ246 طبقات البدریین من الانصار، زیدبن اسلم، دار احیاء التراث العربی بیروت1996ء) (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلد2صفحہ135-136 زیدبن اسلم، دار الفکر بیروت2003ء)
پھر ایک صحابی ہیں ابوالمُنذِر یزید بن عامر۔ ان کا نام یزید بن عمرو بھی بیان ہوا ہے۔ ان کا تعلق انصار کے قبیلہ بنو سوا د سے تھا۔ بیعت عقبہ اور غزوہ بدر اور احد میں شامل ہوئے اور ان کی اولاد مدینہ اور بغداد میں بھی تھی۔(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد3 صفحہ294 طبقات البدریین من الانصار، یزید بن عامر، دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء)، (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ جلد6 صفحہ525 یزید بن عمرو، دار الکتب العلمیۃ بیروت2005ء)ان کی اولاد کافی پھیلی۔
پھر حضرت عمرو بن ثعلبہ انصاری صحابی ہیں ۔ ان کا تعلق انصار کے قبیلہ بنو عدی سے تھا۔ اپنی کنیت سے زیادہ مشہور تھے۔ آپ غزوہ بدر اور احد میں شریک ہوئے۔ حضرت عمرو بن ثعلبہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیالہ مقام پر ملا اور یہاں پر اسلام قبول کیا اور آپ نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا۔ وضّاح بن سلمہ ایک صحابی ہیں وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ سو سال کی عمر میں بھی حضرت عمرو بن ثعلبہ کے سر پر جس جگہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ پھیرا تھا وہاں بال سفید نہ ہوئے تھے۔ (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلد3 صفحہ700 عمرو بن ثعلبۃ الانصاری، دار الفکر بیروت2003ء)(الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جلد3 صفحہ253 عمرو بن ثعلبۃ بن النجار، دار الکتب العلمیۃ بیروت2002ء)
حضرت ابو خالد حارث بن قیس بن خالد بن مُخَلَّد ایک صحابی تھے۔ ان کا تعلق انصار کے قبیلہ بنو زُرَیق سے تھا۔ آپ اپنی کنیت سے زیادہ مشہور ہیں ۔ آپ بیعت عقبہ اور غزوہ بدر سمیت تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئے۔ حضرت خالد بن ولید کے ہمراہ جنگ یمامہ میں شامل ہوئے اور زخمی ہو گئے۔ زخم مندمل ہو گیا لیکن حضرت عمرؓ کے دور میں دوبارہ زخم پھٹ پڑا جس سے آپ کی وفات ہو گئی۔ اس لئے آپ کو جنگ یمامہ کے شہداء میں شامل کیا جاتا ہے۔ (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلد5 صفحہ81 ابو خالد الحارث بن قیس، دار الفکر بیروت2003ء) (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جلد1 صفحہ363 الحارث بن قیس الزرقی، دار الکتب العلمیۃ بیروت2002ء)
پھر ایک صحابی حضرت عبداللہ بن ثَعْلَبَہ البَلَوِیّ ہیں ۔ یہ بھی انصاری ہیں ۔ ان کا نام حضرت عبداللہ بن ثعلبہ تھا آپ نے غزوہ بدر اور احد میں شرکت کی۔ غزوہ بدر میں اپنے بھائی حضرت بَحَّاث بن ثعلبہ کے ساتھ شامل ہوئے۔ (اسد الغابۃجلد3 صفحہ85 عبد اللہ بن ثعلبۃ البلوی، دار الفکر بیروت2003ء)،(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 418 عبد اللہ بن ثعلبہ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
پھر حضرت نَحَّاب بن ثعلبہ انصاری ہیں ۔ ان کا تعلق انصار کے قبیلہ بَلِیّ سے تھا۔ ان کے دو بھائی حضرت عبداللہ اور حضرت یزید تھے۔ ان کے بھائی حضرت یزید بیعت عقبہ اولیٰ اور ثانیہ دونوں میں شامل تھے۔ حضرت نحّاب بن ثعلبہ اپنے بھائی حضرت عبداللہ بن ثعلبہ کے ساتھ غزوہ بدر اور احد میں شریک ہوئے۔ حضرت نحّاب بن ثعلبہ کا نام بحّاث بن ثعلبہ بھی بیان ہوا ہے۔ (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلد1 صفحہ230 بحاث بن ثلبۃ، دار الفکر بیروت2003ء) (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جلد1 صفحہ267 بحاث بن ثعلبۃ، دار الکتب العلمیۃ بیروت2002ء)
پھر حضرت مالک بن مسعود انصاری ہیں ۔ ان کا نام مالک بن مسعود تھا۔ ان کا تعلق انصار کے قبیلہ بنو ساعدہ سے تھا۔ آپ غزوہ بدر اور احد میں شریک ہوئے ۔ (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلد4 صفحہ255، مالک بن مسعود، دار الفکر بیروت2003ء)
پھر عبداللہ بن قَیس بن صخر انصاری ہیں ۔ ان کا تعلق انصار کے قبیلہ بنو سلمہ سے تھا۔ آپ اپنے بھائی مَعبد بن قَیس کے ساتھ غزوہ بدر اور غزوہ احد میں شامل ہوئے تھے۔ (اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 366 عبد اللہ بن قیس مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت) (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 437 معبد بن قیس مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت1990ء)
پھر حضرت عبداللہ بن عبس انصاری ہیں ۔ ان کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج کی شاخ بنو عدی سے تھا۔ بعض نے ان کا نام عبداللہ بن عُبَیْس بیان کیا ہے۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ بدر اور اس کے بعد ہونے والے تمام غزوات میں شامل ہوئے۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جلد3 صفحہ75 عبد اللہ بن عبس، دار الکتب العلمیۃ بیروت2002ء)
پھر حضرت مُعَتِّب بن قُشَیْر انصاری ہیں ۔ بعض روایات میں آپ کا نام مُعَتِّب بن بشیر بھی بیان ہوا ہے۔ ان کا تعلق انصار کے قبیلہ اوس کی شاخ بنو ضُبَیعۃ سے تھا۔ حضرت مُعتِّب بن قشیر بیعت عقبہ میں شامل تھے۔ آپ غزوہ بدر اور احد میں شریک ہوئے۔ (اسد الغابۃفی معرفۃ الصحابۃ جلد4 صفحہ432 معتب بن قشیر، دار الفکر بیروت2003ء)
حضرت سواد بن رُزْن انصاری ایک صحابی ہیں ۔ ان کا نام سواد بن رُزْن تھا اوربعض روایات میں آپ کا نام اسود بن رُزْن اور سواد بن زُرَیْق بھی بیان ہوا ہے۔ یہ غزوہ بدر اور احد میں شریک ہوئے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد3 صفحہ293 سواد بن رزن، دار احیاء التراث العربی بیروت1996ء)
پھر حضرت مُعَتِّب بن عوف صحابی تھے۔ حضرت مُعَتِّب بن عوف کا تعلق قبیلہ بنو خُزاعہ سے ہے۔ یہ بنو مَخزوم کے حلیف تھے۔ آپ کو مُعَتِّب بن الحمراء بھی کہا جاتا ہے۔ آپ کی کنیت ابو عوف ہے۔ حضرت مُعَتِّب بن عوف دوسری ہجرت حبشہ میں شامل تھے۔ جب حضرت مُعَتِّب بن عوف نے مکہ سے مدینہ ہجرت کی تو آپ حضرت مبشر بن عبدالمنذر کے ہاں ٹھہرے۔ مؤاخات مدینہ کے وقت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ثعلبہ بن حاطب انصاری کے ساتھ آپ کی مؤاخات کروائی تھی۔ حضرت مُعَتِّب بن عوف غزوہ بدر، احد، خندق سمیت تمام غزوات میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ شامل ہوئے۔ حضرت مُعَتِّب بن عوف کی وفات 57ہجری میں بعمر 78 سال ہوئی۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد1 صفحہ141، معتب بن عوف، دار احیاء التراث العربی بیروت1996ء)
پھر حضرت بُجَیر بن ابی بُجَیر ہیں ۔ حضرت بُجَیر بن ابی بُجَیر غزوہ بدر اور احد میں شریک تھے۔ ان کے بارے میں بس اتنا ہی لکھا گیا ہے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد3 صفحہ395 بجیر بن ابی بجیر، دارالکتب العلمیۃ بیروت1990ء)
پھر حضرت عامر بن بُکَیْر تھے۔ حضرت عامر بن بُکَیْر کا تعلق قبیلہ بنو سعد سے تھا۔ حضرت عامر غزوہ بدر میں شریک ہوئے اور آپ کے ساتھ آپ کے بھائی حضرت ایاس بن بُکَیْر ، حضرت عاقل بن بُکَیْر اور حضرت خالد بن بُکَیْر غزوہ بدر میں شامل ہوئے اور یہ سب بعد کے غزوات میں بھی شامل ہوئے۔ ان سب بھائیوں نے دارارقم میں اسلام قبول کیا تھا۔ حضرت عامر بن بُکَیْر جنگ یمامہ والے دن شہید ہوئے۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جلد2 صفحہ788 عامر بن بکیر، دار الجیل بیروت 1992ء)
پھر حضرت عمرو بن سراقہ بن المُعْتَمِر ہیں ۔ ان کا پورا نام حضرت عمرو بن سراقہ بن معتمرجیسا کہ میں نے کہا ہے۔ حضرت عثمان کے دور خلافت میں ان کی وفات ہوئی تھی۔ ان کی والدہ کا نام قدامہ بنت عبداللہ بن عمر تھا۔ بعض کے نزدیک ان کی والدہ کا نام آمنہ بنت عبداللہ بن عمیر بن اُھَیب تھا۔ حضرت عمرو بن سراقہ کا تعلق قبیلہ بنو عدی سے تھا اور حضرت عبداللہ بن سراقہ آپ کے بھائی تھے۔ حضرت عمرو بن سراقہ اپنے بھائی حضرت عبداللہ کے ساتھ ہجرت کر کے مدینہ آئے تو حضرت رفاعہ بن عبدالمنذر انصاری نے آپ کو اپنے ہاں ٹھہرایا۔(الطبقات الکبریٰ جلد3 صفحہ295، عمرو بن سراقۃ، دار الکتب العلمیۃ بیروت1990ء)،(الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ جلد4 صفحہ523عمرو بن سراقۃ، دار الکتب العلمیۃ بیروت2005ء) آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرو بن سراقہ کی حضرت سعد بن زید کے ساتھ مؤاخات قائم فرمائی۔(اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلد2 صفحہ436سعد بن زید بن مالک الاشھلی، دار الکتب العلمیۃ بیروت ) حضرت عمرو بن سراقہ نے غزوہ بدر، احد، خندق سمیت تمام غزوات میں شرکت کی۔ حضرت عامر بن ربیعہ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سریہ نخلہ پر بھیجا اور ہمارے ساتھ حضرت عمرو بن سراقہ بھی تھے۔ آپ کا جسم دبلا اور قد لمبا تھا۔ دوران سفر حضرت عمر بن سراقہ پیٹ پکڑ کر بیٹھ گئے، کیونکہ کھانے پینے کا وہاں کچھ نہیں تھا، بھوک کی شدت کی وجہ سے چل نہیں سکتے تھے۔ کہتے ہیں ہم نے ایک پتھر لے کر آپ کے پیٹ کے ساتھ کس کر باندھ دیا پھر آپ ہمارے ساتھ چلنے لگے۔ پھر ہم عرب کے ایک قبیلہ میں پہنچے تو قبیلہ والوں نے ہماری ضیافت کی۔ اس کے بعد پھر آپ چل پڑے۔ حس مزاح بھی تھی صحابہ میں تو وہاں سے کھانا کھانے کے بعد جب چل پڑے تو حضرت عمرو بن سراقہ کہنے لگے کہ پہلے مَیں سمجھتا تھا کہ انسان کی دونوں ٹانگیں اس کے پیٹ کو اٹھاتی ہیں لیکن آج مجھے معلوم ہوا ہے کہ اصل میں پیٹ ٹانگوں کو اٹھاتا ہے۔ خالی پیٹ ہو تو آدمی چل نہیں سکتا۔ حضرت عمر نے آپ کو خیبر کی زمین کا ایک حصہ عطا فرمایا تھا۔ حضرت عمروؓبن سراقہ کی وفات جیسا کہ میں نے کہا حضرت عثمان کے دور خلافت میں ہوئی۔ (اسد الغابۃ جلد3 صفحہ723 عمرو بن سراقۃالقرشی، دار الفکر بیروت2003ء)، (الاصابۃ جلد4 صفحہ523 ’’عمرو بن سراقہ‘‘ دار الکتب العلمیۃ بیروت1995ء)
پھر حضرت ثابت بن ھزّال ایک صحابی ہیں ۔ ان کا تعلق خزرج کی شاخ بنو عمروبن عوف سے تھا۔ غزوہ بدر، احد، خندق سمیت تمام غزوات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئے۔ 12ہجری کو حضرت ابوبکر کے دورخلافت میں ہونے والی جنگ یمامہ میں شہید ہوئے۔ (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلد1 صفحہ456 ثابت بن ھزال، دار الکتب العلمیۃ بیروت ) (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد3صفحہ283 ثابت بن ھزال، دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء)
پھر حضرت سُبَیْع بن قَیس ہیں ۔ آپ انصاری خزرجی تھے۔ غزوہ بدر اور احد میں شامل ہوئے۔ حضرت سُبَیْع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی والدہ کا نام خدیجہ بنت عمرو بن زید ہے۔ حضرت سُبَیْع کا ایک بیٹا تھا جس کا نام عبداللہ تھااور اس کی ماں قبیلہ بنو جُدارہ سے تھیں ۔ وہ فوت ہو گیاتھا۔ اس کے علاوہ آپ کا کوئی بچہ نہ تھا۔ حضرت عبادۃبن قیس آپ کے بھائی تھے۔ حضرت سُبَیْع بن قیس اور حضرت عبادۃ بن قیس حضرت ابو درداء کے چچا تھے اور حضرت سُبَیْع کے حقیقی بھائی زید بن قیس بھی تھے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد3 صفحہ275 سبیع بن قیس، دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء)
پھر حضرت خبّاب مولیٰ عُتبہ بن غزوان تھے۔ حضرت خباب رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عتبہ بن غزوان کے آزاد کردہ غلام تھے۔ آپ کی کنیت ابویحيٰ تھی۔ بنو نوفل کے حلیف تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت مدینہ کے وقت آپ کی مؤاخات حضرت تمیم مولیٰ خِراش بن الصِّمَّہ سے کروائی تھی۔ حضرت خبّاب غزوہ بدر، احد، خندق سمیت تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل ہوئے ۔ 19ہجری میں آپ کی وفات مدینہ میں ہوئی۔ اس وقت آپ کی عمر پچاس سال تھی۔ ان کا جنازہ حضرت عمرؓ نے پڑھایا۔ (الطبقات الکبریٰ جلد3 صفحہ73 خباب مولی عتبۃ، دار الکتب العلمیۃ بیروت1990ء)، (اسد الغابۃ جلد2صفحہ151 خباب مولی عتبۃ، دار الکتب العلمیۃ بیروت )
حضرت سفیان رضی اللہ عنہ بن نَسر انصاری ایک صحابی تھے۔ حضرت سفیان کا تعلق قبیلہ خزرج کے خاندان بنو جُشم سے تھا۔ ان کے والد کے نام میں اختلاف ہے بعض نے نَسر لکھا ہے اور بعض نے بِشر بیان کیا ہے۔ غزوہ بدر اور احد میں یہ شریک ہوئے۔ (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلد2 صفحہ274 سفیان بن نسر، دار الفکر بیروت 2003ء) ایک روایت کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سفیان کی مؤاخات حضرت طفیل بن حارث کے ساتھ کروائی ہے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعدجلد3 صفحہ30 طفیل بن حارث، دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء)
پھر ایک صحابی ابو مَخشی الطائی ہیں ۔یہ اپنی کنیت ابو مَخشی سے ہی مشہور تھے۔ ان کا نام سُوَیْد بن مَخشی ہے۔ ابومَخشی الطائی بنو اسد کے حلیف تھے۔ اولین مہاجرین میں سے تھے۔ غزوہ بدر میں شامل ہوئے۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جلد4 صفحہ1754 ابومخشی الطائی، دار الجیل بیروت1992ء) (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ جلد7 صفحہ304 ابو مخشی الطائی، دار الکتب العلمیۃ بیروت1995ء)
پھر حضرت وہب بن ابی سرح ایک صحابی ہیں ۔ موسیٰ بن عقبہ کہتے ہیں کہ آپ اپنے بھائی عمرو کے ساتھ غزوہ بدر میں شامل ہوئے تھے۔
ھیثم بن عدی نے ان کا ذکر مہاجرین حبشہ میں کیا ہے لیکن بَلاذُری نے کہا ہے کہ یہ بات ثابت نہیں ہے۔ صرف بدر میں شریک ہوئے تھے ہجرت حبشہ کا ذکر نہیں ملتا۔ (الاصابۃفی تمییز الصحابۃ جلد6 صفحہ489 وھب بن ابی سرح، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2005ء)
پھر حضرت تمیم مولیٰ بنو غنم انصاری تھے۔ حضرت تمیم بنو غنم بن السِّلم کے آزاد کردہ غلام تھے۔ آپ غزوہ بدر اور احد میں شریک ہوئے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد3 صفحہ253 تمیم مولی بنی غنم بن السلم، دار احیاء التراث العربی بیروت1996ء)
حضرت ابوالحمراء مولیٰ حضرت حارث بن عفراء یہ غزوہ بدر اور احد میں شریک ہوئے۔ غزوہ بدر میں حضرت معاذ، حضرت عوف اور حضرت معوذ اور ان کے آزاد کردہ غلام ابوالحمراء کے پاس ایک اونٹ تھا جس پر وہ باری باری سوار ہوتے تھے۔(اسد الغابہ جلد 6 صفحہ75 ابو الحمراء، دار الکتب العلمیہ بیروت)،(کتاب المغازی للواقدی جلد1 صفحہ38 بدر القتال، دار الکتب العلمیۃ بیروت2004ء)
پھر حضرت ابو سَبْرۃ بن ابی رُھم تھے۔ ابو سَبرۃ ان کی کنیت تھی۔ اس کنیت نے اتنی شہرت پائی کہ آپ کا اصل نام لوگوں کو بھول گیا۔ ان کی والدہ کا نام برّہ بنت عبدالمطلب ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی تھیں ۔ اس طرح حضرت ابو سبرۃ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی ہوئے۔ حضرت ابو سبرۃ نے حبشہ کی طرف دونوں دفعہ ہجرت کی۔ دوسری ہجرت حبشہ میں ان کی بیوی ام کلثوم بنت سہیل بن عمرو بھی شامل تھیں ۔ ان کے تین بیٹے تھے جن کے نام محمد، عبداللہ اور سعد تھے۔ حضرت ابو سبرۃ جب مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کر کے آئے تو انہوں نے منذر بن محمد کے پاس قیام کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو سبرۃ اور سلمہ بن سلامہ کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی۔ حضرت ابو سبرۃ غزوہ بدر، احد، خندق اور باقی تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہمرکاب رہے۔ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مدینہ سے چلے گئے اور مکہ جا کر آباد ہو گئے تھے ۔ حضرت ابو سبرۃ نے حضرت عثمان کے زمانہ خلافت میں وفات پائی۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد3 صفحہ307-308 ابو سبرۃ بن ابی رھم، دار الکتب العلمیۃ بیروت1990ء)(سیر الصحابہ جلد2 صفحہ583 حضرت ابو سبرہ بن ابی رہم، دار الاشاعت کراچی2004ء)
پھر حضرت ثابت بن عمرو بن زید ہیں ۔ ابن اسحاق اور زہری جو تاریخ کے لکھنے والے ہیں انہوں نے حضرت ثابت بن عمرو کا سلسلہ نسب بنو نجّار سے بیان کیا ہے اور ابن مُندَہ نے ان کا سلسلہ نسب قبیلہ بنو اشجع سے قرار دیا ہے جو انصار کے حلیف تھے۔ غزوہ بدر میں یہ شامل ہوئے تھے اور غزوہ احد میں شہادت پائی۔ (اسد الغابۃفی معرفۃ الصحابۃ جلد1 صفحہ449 ثابت بن عمرو بن زید، دار الکتب العلمیۃ بیروت )
پھر حضرت ابوالاَعْوَر بن الحارث ہیں ۔ حضرت ابوالاعور بن حارث کے نام کے بارے میں اختلاف ہے۔ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ ابوالاعور کا نام کعب ہے جبکہ ابن عُمارہ کے نزدیک ان کا نام حارث بن ظالم ہے۔ آپ کے چچا کا نام کعب تھا۔ جو نسب کو نہیں جانتے انہوں نے ابوالاعور کو ان کے چچا کعب کے نام سے منسوب کیا ہے۔ ابن ہشام بھی یہی کہتے ہیں ۔ حضرت ابوالاعور کی والدہ ام نیار بنت ایاس بن عامر تھیں ان کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج کی شاخ بنو عدی بن نجّار سے تھا۔ غزوہ بدر اور احد میں یہ شریک ہوئے۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جلد4 صفحہ1599 ابو الاعوربن الحارث، دار الجیل بیروت1992ء) (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد3 صفحہ389-390 ابو الاعور، دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
پھر حضرت عبس بن عامر بن عدی ہیں ۔ ابن اسحاق نے آپ کا نام عبس بیان کیا ہے اور موسیٰ بن عقبہ نے آپ کا نام عبسی بیان کیا ہے۔ ان کی والدہ کا نام ام البنین بنت زھَیر بن ثعلبہ تھا۔ ان کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج کے خاندان بنو سلمہ سے تھا۔ حضرت عبس ان ستر انصار صحابہ میں شامل تھے جو بیعت عقبہ میں حاضر تھے اور آپ غزوہ بدر اور غزوہ احد میں شریک ہوئے۔ (طبقات الکبریٰ لابن سعد جلد3 صفحہ294، عبس بن عامر، دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء) (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلد3 صفحہ415 عبس بن عامر الانصاری، دار الفکر بیروت2003ء)
پھر حضرت ایاس بن بُکَیر ہیں ، ان کو ابن ابی بُکَیْر بھی کہا جاتا تھا۔ آپ قبیلہ بنو سعد بن لَیث سے تھے جو بنو عدی کے حلیف تھے۔ حضرت عاقل، حضرت عامر، حضرت ایاس اور حضرت خالد نے اکٹھے دار ارقم میں اسلام قبول کیا تھا۔ حضرت ایاس اور ان کے بھائیوں حضرت عاقل اور حضرت خالد اور حضرت عامر نے اکٹھی ہجرت کی اور مدینہ میں رفاعہ بن عبدالمنذر کے ہاں قیام کیا۔ ان کی والدہ کی طرف سے تین بھائی اور بھی تھے یہ سب کے سب غزوہ بدر میں شامل ہوئے۔ ابن یونس نے کہا ہے کہ ایاس فتح مصر میں بھی شریک تھے اور 34ہجری میں وفات پائی جبکہ ایک روایت کے مطابق حضرت ایاس نے جنگ یمامہ میں شہادت پائی۔ ان کے بھائی حضرت معاذ اور حضرت معوذ اور عاقل غزوہ بدر میں جبکہ حضرت خالد واقعہ رجیع میں اور حضرت عامر جنگ یمامہ میں شہید ہوئے۔ حضرت عامر کے متعلق ایک روایت یہ ہے کہ آپ نے بئر معونہ میں شہادت پائی۔ حضرت ایاس بن بُکَیْر غزوہ بدر، غزوہ احد، غزوہ خندق اور باقی تمام غزوات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ رہے۔ آپ سابقین اسلام میں سے تھے اور ابتدائی ہجرت کرنے والوں میں سے تھے۔ آپ محمد بن ایاس بن بُکَیْر کے والد تھے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ایاس بن بُکَیْر اور حضرت حارث بن خزمہ کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی تھی۔ یہ شاعر بھی تھے۔(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد3 صفحہ297-298 عاقل بن ابی البکیر، ایاس بن ابی البکیر، دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)،(اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلد1 صفحہ213 ایاس بن البکیر، دار الفکر بیروت 2003ء)،(الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ جلد1 صفحہ309-310 ایاس بن ابی البکیر، دار الکتب العلمیۃ بیروت2005ء)،(کتاب المحبر صفحہ399-400 دار نشر الکتب الاسلامیۃ لاہور)،(بدر البدور المعروف اصحاب بدر مصنفہ قاضی محمد سلیمان منصور پوری صفحہ44، ایاس بن البکیر، مکتبہ نذیر یہ لاہور)
زید بن اسلم سے روایت ہے کہ ابوالبُکیر کے لڑکے یعنی یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ ہماری بہن کا فلاں شخص کے ساتھ نکاح کر دیا جائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلال کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے۔ بلال اس سے بہتر ہے اس کے متعلق سوچو۔ وہ لوگ چلے گئے۔ دوسری مرتبہ پھر آئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پھر عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری بہن کا فلاح شخص کے ساتھ نکاح کر دیجئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر دوبارہ یہی فرمایا کہ بلال کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے۔ وہ لوگ سوچنے کے لئے پھر چلے گئے۔ پھر وہ لوگ تیسری مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پھر یہی عرض کی کہ ہماری بہن کا فلاں شخص کے ساتھ نکاح کر دیجئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر یہی فرمایا کہ بلال کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے؟ اور پھر فرمایا کہ ایسے شخص کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے جو اہل جنت میں سے ہے۔ پھر ان لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ٹھیک ہےاور بلال سے اپنی بہن کا نکاح کر دیا۔(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد3 صفحہ179 بلال بن رباح، دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء) تو حضرت بلال کا یہ مقام تھا۔ اور کس طرح رشتے طے ہوتے تھے اس زمانے میں ۔ ٹھیک ہے ایک دو دفعہ انکار کیا لیکن تیسری دفعہ پھرا نہیں جو حکم ہوا وہ مان لیا۔ بہرحال ہر ایک کا اپنا اپنا مقام تھا۔ بعض لوگ پہلی دفعہ ہی عرض کر دیتے تھے کہ ٹھیک ہے جو آپ فرمائیں ، بعض سوچنے لگ جاتے تھے لیکن بہرحال حضرت بلال کے مقام کا اس سے بھی پتہ لگتا ہے۔
پھر ایک صحابی حضرت مالک بن نُمَیلہ ہیں ۔ ان کی والدہ کا نام نُمَیلہ تھا۔ ان کو ابن نُمَیلہ کہا جاتا تھا۔ ان کا تعلق قبیلہ مُزَیْنہ سے تھا جو قبیلہ اوس کی شاخ بنی معاویہ کے حلیف تھے۔ غزوہ بدر اور غزوہ احد میں شریک ہوئے اور غزوہ احد میں ان کی شہادت ہوئی۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد3 صفحہ358 مالک ابن نمیلۃ، دار الکتب العلمیۃبیروت1990ء) (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلد4 صفحہ258مالک بن نمیلۃ، دار الفکر بیروت2003ء)
پھر حضرت اُنَیس بن قتادہ بن ربیعہ ہیں ۔ ان کا تعلق انصار کے قبیلہ اوس سے تھا۔ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ شریک تھے۔ جنگ احد میں شہید ہوئے۔ ابوالحکم بن اخنس بن شریق نے ان کو شہید کیا تھا۔
حضرت خنساء بنت خِزام حضرت اُنیس بن قتادہ کے نکاح میں تھیں ۔ جب وہ احد کے دن شہید ہوئے تو حضرت خنساء کے والد نے ان کا نکاح قبیلہ مُزَیْنہ کے ایک شخص سے کر دیا مگر یہ اسے ناپسند کرتی تھیں ۔ پھر یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خنساء کا نکاح فسخ کر دیا۔ باپ نے نکاح کیا تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا اگر لڑکی کو یہ ناپسند ہے تو نکاح فسخ کر دیا۔ اس کے بعد حضرت خنساء نے حضرت ابولبابہ سے شادی کر لی اور اس نکاح سے پھر حضرت سائب بن ابی لبابہ پیدا ہوئے۔ (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلد1 صفحہ187 انیس بن قتادۃ بن ربیعۃ، دار الکتب العلمیۃ بیروت2003ء)،(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد3 صفحہ354 انیس بن قتادۃ، دار الکتب العلمیۃ بیروت1990ء) یہ ہے مثال عورت کی آزادی کی۔ رشتوں کے معاملے میں بعض لوگ جو اپنی لڑکیوں پہ زبردستی کرتے ہیں ان کو سوچنا چاہئے۔
پھر حضرت حارث بن عرفجۃ ایک صحابی تھے۔ ان کا تعلق قبیلہ بنو غنم سے تھا۔ غزوہ بدر اور احد میں یہ شامل ہوئے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد3 صفحہ253 الحارث بن عرفجۃ، دار احیاء التراث العربی بیروت1996ء)
پھر حضرت رافع بن عُنْجُدہ انصاری تھے۔ حضرت رافع کے والد کا نام عبدالحارث تھا، عُنْجُدہ آپ کی والدہ کا نام تھا۔ حضرت رافع نے اپنی والدہ کی ابنیت سے شہرت پائی،باپ کے بجائے والدہ کے نام سے مشہور ہوئے۔ ان کا تعلق قبیلہ بنو امیہ بن زید بن مالک سے تھا۔ غزوہ بدر، احد اور خندق میں یہ شریک ہوئے۔(اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلد2 صفحہ45 رافع بن عنجرۃ، دار الفکر بیروت2003ء)،(الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ جلد2 صفحہ369 رافع بن عنجدۃ، دار الکتب العلمیۃ بیروت2005ء) ایک روایت کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت رافع بن عُنْجُدہ اور حضرت حُصَین رضی اللہ عنہ بن حارث کے درمیان عقد مؤاخات کو قائم کیا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد3 صفحہ30ذکر الحصین بن الحارث، دار احیاء التراث العربی1996ء)
پھر حضرت خُلَیدۃ بن قَیس ایک صحابی تھے۔ ان کی والدہ کا نام اِدام بنت القین تھا جو کہ بنو سلمہ میں سے تھیں ۔ خُلَیدۃ بن قیس کے علاوہ آپ کا نام خلید بن قیس، خالد بن قیس اور خالدہ بن قیس بھی ملتاہے۔ یہ غزوہ بدر اور احد میں شریک تھے۔ ان کے حقیقی بھائی جن کا نام خلّاد تھا بعض مؤرخین کے نزدیک یہ بھی بدری صحابہ میں شامل تھے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد3 صفحہ292 خلید بن قیس، دار احیاء التراث العربی1996ء)
پھر حضرت ثقف بن عمرو ہیں ۔ حضرت ثقف بن عمرو کے قبیلہ کے بارے میں مختلف آراء ہیں ۔ بعض نے بنو اسلم، بعض کے نزدیک بنو اسد تھا، جبکہ بعض آپ کا تعلق قبیلہ بنو سُلَم سے بتاتے ہیں ۔ آپ بنو اسد کے حلیف تھے لیکن بعض کے نزدیک آپ بنو عبد شمس کے حلیف تھے۔ یہ اپنے دو بھائیوں کے ساتھ بدرمیں شریک ہوئے جن کے نام حضرت مالک بن عمرو اور مُدلاج بن عمرو ہیں ۔ حضرت ثقف بن عمرو اولین مہاجرین میں سے تھے۔ غزوہ بدر، احد، خندق، حدیبیہ اور خیبر میں شامل ہوئے اور غزوہ خیبر میں آپ کی شہادت ہوئی۔ (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلد1 صفحہ476 ثقف بن عمرو، دار الکتب العلمیۃ بیروت ) (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ جلد1 صفحہ525 ثقاف، دار الکتب العلمیۃ بیروت 1995ء) (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد3 صفحہ72 ثقف بن عمرو، دار الکتب العلمیۃ بیروت1990ء)
پھر حضرت سَبرۃ بن فاتک تھے۔ یہ خُریم بن فاتک کے بھائی تھے اور خاندان بنو اسد سے تھے۔ ان کے والد کا نام فاتک بن الاخرم تھا۔ حضرت سبرۃ کا نام سَمُرَہ بن فاتک بھی ملتا ہے۔ ایمن بن خُریم بیان کرتے ہیں کہ میرے والد اور چچا دونوں غزوہ بدر میں شامل ہوئے اور انہوں نے مجھ سے پختہ عہد لیا تھا کہ میں کسی مسلمان سے قتال نہیں کروں گا، جنگ نہیں کروں گا۔ عبداللہ بن یوسف نے کہا ہے کہ سبرۃ بن فاتک وہی ہیں جنہوں نے دمشق کو مسلمانوں میں تقسیم کیا تھا۔ ان کا شمار شامیوں میں ہوتا ہے۔ یہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میزان خدائے رحمن کے ہاتھ میں ہے۔ وہ بعض قوموں کو بلند کرتا ہے اور بعض کو زوال دیتا ہے( یعنی ان کے اپنے عملوں کی وجہ سے)۔ حضرت سبرۃ بن فاتک کا گزر حضرت ابودرداء کے پاس سے ہوا تو انہوں نے کہا سبرۃ کے ساتھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نور ہے۔ عبدالرحمن بن عائذ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک شخص کو دیکھا جس نے حضرت سبرۃ کو برا بھلا کہاتو انہوں نے اس کا جواب دینے سے بچنے کے لئے غصہ پی لیا۔ جواب نہیں دیا، غصہ کے باوجود کوئی جواب نہیں دیا، خاموش رہے اور غصہ کو دبانے کی وجہ سے آبدیدہ ہو گئے۔ اتنا شدت سے ان کو غصہ تھا، اتنا برا بھلا کہا گیا ان کو کہ غصہ دبایا جس کی وجہ سے آنکھوں سے پانی آ گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا ہی اچھا آدمی ہے سَمُرہ اگر وہ اپنے لمبے بال کچھ چھوٹے کروا لے (ان کے لمبے بال تھے) اور اپنی تہ بند کو تھوڑا اوپر اٹھا لے۔ جب آپ تک یہ بات پہنچی تو انہوں نے فوری طور پر ایسا ہی کیا۔ آپ بیان کرتے تھے کہ مجھے اس بات کی خواہش ہے کہ ہر دن کسی مشرک سے میرا سامنا ہو جس نے زرہ پہن رکھی ہو۔ اگر وہ مجھے شہید کر دے تو ٹھیک اور اگر میں اسے قتل کر دوں تو اس جیسا اور میرے مقابل پر آ جائے۔ بعض کے نزدیک یہ بدر میں شامل نہیں تھے لیکن امام بخاری وغیرہ نے آپ کو اور آپ کے بھائی کو بدری اصحاب میں شامل کیا ہے۔ (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلد2 صفحہ190 سبرۃ بن فاتک، دار الفکر بیروت2003ء) (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ جلد3 صفحہ25-26 ،152سبرۃ،سمرۃ بن فاتک، دار الکتب العلمیۃ بیروت2005ء) (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جلد2 صفحہ29 خریم بن فاتک الاسدی، دار الکتب العلمیۃ بیروت2002ء)
یہ صحابہ کے ذکر تھے۔
اب جمعہ کے بعد میں دو جنازے غائب بھی پڑھاؤں گا جن میں سے پہلا جنازہ مکرم اُنگکو عدنان اسماعیل(Ungku Adnan Ismail) صاحب صدر جماعت ملائشیا کا ہے، آٹھ اکتوبر کو 74 سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی۔اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ان کے والد ابتدائی احمدیوں میں سے تھے جنہوں نے 1956ء میں سنگاپور کے مبلغ مکرم مولانا محمد صادق صاحب اور سنگاپور جماعت کے پہلے صدر محمد سالکین صاحب کے ذریعہ بیعت کی تھی۔ ان کے والد ملائشیا کی ایک سٹیٹ جوہور(Johor) کے مفتی تھے اور ننھیال کی طرف سے اس سٹیٹ کے بادشاہ کے رشتہ دار تھے۔ احمدی ہونے کے بعد ان کو گورنمنٹ کے ایک دوسرے شعبہ میں ٹرانسفر کر دیا گیا تھا۔عدنان صاحب اگست 1944ء میں پیدا ہوئے۔ 1968ء میں انہوں نے سنگاپور یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس میں بی اے آنرز کیا۔ پھر 1969ء میں گورنمنٹ کے انتظامی اور سفارتی شعبوں میں ملازمت کا آغاز کیا۔ 1969ء سے 1981ء تک وزیر اعظم کے شعبہ ریسرچ میں کام کیا۔ اس دوران ان کا تقرر سنگاپور، بیجنگ اور بنکاک میں ملائیشیا کی ایمبیسیز میں ہوتا رہا۔ پھر ان کی ترقی ہوئی اور انہیں وزیراعظم کی نیشنل سکیورٹی کونسل میں ڈویژنل ہیڈ بنا دیا گیا۔ یہاں انہوں نے 1984ء سے 1992ء تک کام کیا۔ اس کے علاوہ 1992ء سے 1997ء تک انہوں نے وزیر اعظم کے شعبہ سے باہر دوسرے حکومتی دفاتر میں بھی کام کیا۔ 1996ء میں دل کے بائی پاس کا آپریشن ہوا، پھر دوبارہ وزیر اعظم کے شعبہ ریسرچ میں 1997ء میں کام شروع کیا۔ 1999ء میں وہاں سے ریٹائرڈ ہوئے۔ آپ نے 1956ء میں گو اپنے والدین کے ساتھ بیعت کی تھی لیکن 1981ء میں بنکاک والی پوسٹنگ سے واپسی پر صحیح، ایکٹو احمدی بنے اور ان کا جماعت سے تعلق بڑھا۔ 1986ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ملائیشیا کے پہلے صدر جماعت کے طور پر مقرر فرمایا اور ان کے دور صدارت میں جماعت میں بڑی تبدیلیاں اور ترقیاں بھی ہوئیں ۔ بیت السلام اور بیت الرحمن کی عمارتوں کی تعمیر ان کے دور میں مکمل ہوئی۔ انڈونیشیا سے مبلغین کو ملائیشیا میں لانے، انہیں سیٹل کرنے میں انہوں نے بڑی مدد کی۔ اسی طرح سے ملائشیا سے جامعہ ربوہ اور قادیان میں طلباء بھجوائے۔ گذشتہ دو سالوں سے ان کی صحت کافی خراب تھی۔ کئی بار ہسپتال داخل رہے۔ پھر انہوں نے مجھے لکھا کہ میں طاہر ہارٹ بھی جانا چاہتا ہوں ۔ پھر اس سال مئی میں طاہر ہارٹ بھی گئے، کچھ عرصہ گزار کے آئے وہاں ، صحت بہتر ہو گئی تھی ان کی لیکن پھر دوبارہ صحت خراب ہوئی اور پھر ہسپتال میں داخل ہو گئے تھے۔ یہ اللہ کے فضل سے موصی تھے۔ پسماندگان میں ایک بیٹی اور دو بیٹے شامل ہیں ۔
اُنگکو عدنان اسماعیل صاحب جوہور(Johor) سٹیٹ کی رائل فیملی سے ہونے کے باوجود بڑے عاجز انسان تھے۔ اپنی حکومتی اور جماعتی ذمہ داری انتہائی احسن انداز میں ادا کرتے تھے۔ مرکز بھجوائی جانے والی رپورٹس میں باریک پہلوؤں کا خیال رکھتے اور اکثر جماعتی امور کی انجام دہی کے لئے رات دیر تک دفتر میں کام کرتے رہتے۔ جماعتی عہدیداران، کارکنان، احباب جماعت اور خاص کر مبلغین سے ان کا انتہائی اچھا سلوک تھا۔ بچوں کے حوالے سے خصوصی توجہ تھی۔ یعنی جماعت کے بچوں اور ان کی تعلیم و تربیت کی فکر میں رہتے تھے اور یہی کہتے تھے کہ یہ جماعت کا مستقبل ہیں ۔ ان کی اہلیہ کا کہنا ہے کہ آپ ہمیشہ جماعت میں بچوں کے لئے اعلیٰ تعلیم پر زور دیتے اور ہمیشہ جماعتی ترقی کے بارے میں سوچتے تھے۔
وفات کے دن ہسپتال میں کوئی ایمبولینس فارغ نہیں تھی، میت کو مسجد میں لے جانے کے لئے ٹرانسپورٹ میسر نہیں تھی۔ تو جماعت کے ممبر نے ایک چینی رضا کار کوان چی(Kuan Chee) صاحب سے رابطہ کیا جو اپنی گاڑی بطور ایمبولینس چلاتے تھے اور لوگوں کی میتیں منتقل کرنے میں مدد کرتے تھے۔ اس چینی آدمی نے اپنے فیس بک پہ ذکر کیا کہ اس میت کو لے جانے میں اسے عجیب غیر معمولی تجربہ ہوا ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ جب اس نے وین کو چلانا شروع کیا توجس سڑک پر ہمیشہ شدید ٹریفک جام ہوتا تھا وہاں اچانک ٹریفک ختم ہو گیا اور عام طور پر تقریباً ایک گھنٹے کا سفر ہوتا ہے لیکن اس دن مسجد پہنچنے میں صرف پچیس منٹ لگے۔ پھر کہتے ہیں مسجد پہنچ کر مجھے احساس ہوا کہ لگتا ہے کسی خادم دین کی میت تھی۔
وکیل التبشیر ربوہ منصور خان صاحب نے لکھا ہے کہ عدنان اسماعیل صاحب نے طویل عرصہ جماعت ملائیشیا کے صدرکے طور پر خدمت کی۔ اپنے احباب جماعت کے لئے والد کی طرح تھے۔ کہتے ہیں ملائیشیا کے دورے کے دوران مجھے جماعتی معلومات پر ان سے بات چیت کا موقع ملا تو میں نے ان کو ایک حکمت عملی سے کام لینے والا شخص پایا اور جس نے ناقابل یقین حالات میں جماعتی کاموں کو کامیابی سے انجام دیا۔ بہت پیچیدہ اور مشکل معاملات میں ان کی رائے پر اعتماد کیا جاتا تھا۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے، ان کی اولاد کو بھی ان کی نیکیوں پر قائم رکھے اور ہمیشہ جماعت سے مضبوط تعلق رکھنے والے ہوں ۔
دوسرا جنازہ حمیدہ بیگم صاحبہ کا ہے جو چوہدری خلیل احمد صاحب ربوہ کی اہلیہ تھیں ۔ 5؍اکتوبر کو 84 سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی۔اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ قادیان سے ملحقہ گاؤں بھینی بانگر میں احمدی فیملی میں پیدا ہوئیں ۔ نمازوں کی پابند، تہجد گزار، دنیاوی تعلیم تو کوئی نہیں تھی لیکن قرآن کریم سے آپ کو بڑا محبت اور عشق تھا۔ دن میں متعدد بار قرآن کریم کی تلاوت کیا کرتی تھیں ۔ رمضان میں باقاعدگی سے قرآن کریم سننے کے شوق سے نماز تراویح پر بھی جایا کرتی تھیں ۔ جب ربوہ میں عورتیں جمعہ پر جایا کرتی تھیں اس وقت ان کی کوشش ہوتی تھی کہ مسجد اقصیٰ ربوہ میں نماز جمعہ پر پہنچے والی سب سے پہلی عورت وہ ہوں اس لئے بہت پہلے جمعہ پر چلی جایا کرتی تھیں ۔ رہن سہن میں بہت سادگی تھی۔ جو پیسے جمع کرتیں اسے چندے کی مختلف تحریکات میں اور تعمیر مساجد میں پیش کر کے بہت خوش ہوتیں اور خدا کا شکر ادا کرتیں ۔ کئی بچیوں کی شادیاں کروائیں ۔ غریب بچیوں کا جہیز بھی خود تیار کروا کر دیتیں ۔ کئی مرتبہ اپنا زیور چندے میں یا غریبوں کو دے دیا۔ ہمیشہ باقاعدگی سے غرباء کے پاس جانا ان کی سب سے بڑی خوشی ہوتی تھی۔ صدقہ و خیرات بہت کھلے ہاتھ سے کرتیں ۔ گھر سے کسی کو خالی ہاتھ نہ جانے دیتیں ۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصیہ تھیں ۔ پسماندگان میں دو بیٹیاں اور آٹھ بیٹے یادگار چھوڑے ہیں ۔ لطیف احمد صاحب کاہلوں ریٹائرڈ مربی سلسلہ کی بڑی بہن تھیں اور ان کے بڑے بیٹے ڈاکٹر مظفر چوہدری صاحب کو بھی وقف عارضی کی توفیق ملتی رہتی ہے، یہیں یوکے میں ،سکنتھارپ(Scunthorpe) میں رہتے ہیں ۔ ان کے بیٹے بشارت نوید صاحب مربی سلسلہ ہیں اور آج کل جزیرہ ری یونین میں خدمت کی توفیق پا رہے ہیں ۔ ان کےداماد حافظ عبدالحلیم صاحب بھی ربوہ میں مربی ہیں ۔ نواسے بھی ایک مربی ہیں اور دو نواسے حافظ قرآن بھی ہیں ۔ ایک پوتا ان کا یہاں یوکے جامعہ میں پڑھ رہا ہے۔ عام طور پر ان مربیان کی والدہ کا میں جنازہ پڑھاتا ہوں جومربیان میدان عمل میں ہوں اور اپنے والدین کے یا والد یا والدہ کے جنازے پر شامل نہ ہو سکتے ہوں ۔ بشارت نوید صاحب بھی میدان عمل میں تھے اور ان کی وفات پر وہاں پہنچ نہیں سکے تھے اس لئے ان کی والدہ کا بھی جنازہ غائب مَیں نے آج پڑھانے کے لئے رکھا ہے۔
بشارت نوید صاحب لکھتے ہیں کہ جامعہ احمدیہ مکمل کرنے کے بعد جب میں میدان عمل میں گیا تو ایک مرتبہ گھر واپس آیا تو صبح کی نماز کے لئے مسجد نہیں جا سکا۔ اس پر مجھے کہنے لگی کہ بیٹا تم جب جہاں اپنی پوسٹنگ ہے وہاں ہوتے ہو تو تمہیں لوگ دیکھتے ہیں اور شاید تم لوگوں کی وجہ سے مسجد میں چلے جاتے ہو لیکن یاد رکھو یہاں تمہیں خدا دیکھ رہا ہے اس لئے ہمیشہ نمازوں کی طرف توجہ رکھو اور یہ دیکھتے رہو کہ خدا تمہیں دیکھ رہا ہے۔
کہتے ہیں کہ میں جامعہ میں پڑھ رہا تھا تو والد صاحب کی اچانک وفات ہو گئی۔ بڑے بھائی بیرون ملک جا چکے تھے۔ بڑی ہمت سے انہوں نے گھر کو سنبھالا۔ کہتے ہیں ایک دن میں نے مذاق سے ان کو کہہ دیا کہ جماعت کو مَیں کہہ دوں کہ میری والدہ اکیلی ہیں تو مَیں ان کی خدمت کرنا چاہتا ہوں اس لئے مجھے دور کسی جگہ نہ بھیجا جائے؟ اس پر بڑی سنجیدہ ہو گئیں اور بڑی سختی سے کہا کہ جہاں جماعت بھیجے وہاں جانا ہے۔ یہ تو ممکن نہیں ہے کہ جس کو میں نے وقف کیا ہے اس کو میں اپنے پاس رکھوں اور جو دنیا کمانے والے ہیں انہیں کہوں کہ جاؤ اور دنیا کماؤ۔ اگر میں نے اپنے پاس کسی کو رکھنا ہوا تو تمہیں نہیں بلکہ دنیا کمانے والوں کو بلاؤں گی۔ یہ ان کا جذبہ تھا ۔ پھر یہ لکھتے ہیں کہ 2013ء میں جب آخری مرتبہ ان کے پاس رخصت پر پاکستان گیا تو ان کو میں نے کہا کہ اپنے بیوی بچوں کو آپ کے پاس چھوڑ دوں ؟ حالانکہ بہت کمزور ہو چکی تھیں ، بستر سے اٹھنا بھی مشکل تھا لیکن پھر بھی اس بات کی اجازت نہیں دی۔ کہنے لگیں نہیں ! بیوی بچوں کو اپنے پاس رکھو،انہیں خاوند کے پاس ہی رہنا چاہئے۔ یہ ہے سبق ان بزرگوں کا جو آج کل بھی لوگوں کے لئے بڑا اہم ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کی نسلوں کو بھی وفا کے ساتھ دین پر قائم رکھے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے وفا کا عہد باندھ کر اسے آخری دَم تک نبھانے والے بدری صحابہ کا ذکر خیر۔
پہلے صدر جماعت ہائے احمدیہ ملائشیا اُنگکو عدنان اسماعیل(Ungku Adnan Ismail)صاحب اور محترمہ حمیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ چوہدری خلیل احمد صاحب ربوہ کا نماز جنازہ غائب اور ذکر خیر۔
بمقام مسجدبیت الفتوح،مورڈن،لندن، یوکے۔
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔