مساجد کے قیام کے مقاصد
خطبہ جمعہ 19؍ اکتوبر 2018ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
اِنَّمَا یَعۡمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰہِ مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ اَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَی الزَّکٰوۃَ وَ لَمۡ یَخۡشَ اِلَّا اللّٰہَ فَعَسٰۤی اُولٰٓئِکَ اَنۡ یَّکُوۡنُوۡا مِنَ الۡمُہۡتَدِیۡنَ۔(التوبۃ:18)
اس آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ اللہ کی مساجد تو وہی آباد کرتا ہے جو اللہ پر ایمان لائے اور یوم آخرت پر اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور اللہ کے سوا کسی سے خوف نہ کھائے پس قریب ہے کہ یہ لوگ ہدایت یافتہ لوگوں میں شمار کئے جائیں ۔
الحمد للہ اللہ تعالیٰ نے اس شہر میں ہمیں پہلی مسجد بنانے کی توفیق عطا فرمائی اور آج اس کا رسمی افتتاح ہے۔ دنیاوی عمارتوں یا وہ عمارتیں جو دنیاوی مفادات حاصل کرنے کے لئے بنائی جاتی ہیں ان کے افتتاحوں میں تو دنیا کے رواج کے مطابق ان ملکوں میں خاص طور پر اور دنیا میں عموماً دنیاوی ظاہری خوشیوں کے اظہار ہوتے ہیں اور یہ اعلان ہوتے ہیں کہ اس سے ہم یہ دنیاوی فائدہ اٹھائیں گے اور وہ دنیاوی فائدہ اٹھائیں گے۔ لیکن مسجد کا افتتاح جب ہم کرتے ہیں ، جب ہم مسجد تعمیر کرتے ہیں تو اس سوچ کے ساتھ کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنی ہے، اور اللہ تعالیٰ کے اس گھر کی تعمیر سے ہم نے اپنا مدّعا اور مقصد جو رکھنا ہے وہ صرف اور صرف یہ ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ان باتوں کا کرنا ضروری ہے جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم عطا فرمایا ہے، اور اس میں سب سے پہلا اور اوّلین مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کرنا ہے، اور اس طرح ادا کرنا ہے جس طرح اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتایا ہے۔ یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس میں جیسا کہ ترجمہ بھی پڑھ دیا گیا اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہی بتایا ہے کہ مسجد کی تعمیر کرنے والوں کا مقصد کیا ہونا چاہئے یا وہ کون لوگ ہیں جو مسجد کی تعمیر کا حق ادا کرتے ہیں ۔ وہ وہ لوگ ہیں جو اس کی آبادی کی فکر میں رہتے ہیں ، اس کو اچھی حالت میں رکھنے کی فکر میں رہتے ہیں ، جو اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان لانے والے ہیں ۔ کہنے کو تو سب کہتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان لاتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کا عملی اظہار بھی ضروری ہے اور وہ اس وقت ہی ہو سکتا ہے جب اقام الصلوٰۃ کا عملی نمونہ دکھایا جائے۔
اور اقام الصلوٰۃ کیا ہے؟ اس کا عملی اظہار کس طرح ہوتا ہے یا ہو سکتا ہے؟ اس کا عملی اظہار ایک تو نماز باجماعت کی ادائیگی میں ہے، دوسرے نماز میں اللہ تعالیٰ کی حضوری اور توجہ کو قائم رکھنا ہے اور یہی ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشادات اور تفسیر سے پتہ چلتا ہے۔ پس نماز کا حقیقی قیام کرنے والے وہ لوگ ہیں جو باجماعت نماز کے عادی ہوں اور اپنی توجہ خالص اللہ تعالیٰ کی طرف رکھتے ہوئے نمازیں پڑھنے والے ہوں ، دعا، استغفار اور توجہ سے نماز ادا کرنے والے ہوں ، توجہ ادھر ادھر ہو تو پھر اپنی توجہ کو خدا تعالیٰ کی طرف لے کر آئیں ۔ ہم میں سے ہر ایک اپنا جائزہ لے سکتا ہے کہ کس حد تک ہم اقام الصلوٰۃ کے اس معیار کو حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے ہیں ۔ اس مادی دنیا میں اکثریت اول تو باجماعت نماز کی ادائیگی کی طرف توجہ نہیں دیتی۔ اور اگر مسجد میں آ بھی جائیں تو نہ فرض نمازوں میں ، نہ سنتوں میں وہ توجہ رہتی ہے جو نماز کا حق ہے۔ ایسی حالت اگر ہے تو ہم خود ہی اپنی حالت کا اندازہ کر سکتے ہیں کہ کیا واقعی ہم ان لوگوں میں شامل ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے مساجد تعمیر کرنے والے اور اس کا حق ادا کرنے والے کہا ہے۔
پھر فرمایا کہ زکوٰۃ ادا کرنے والے ہیں ۔ دین کی خاطر بھی مالی قربانی کرنے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی بہتری کے لئے بھی، ان کے حق ادا کرنے کے لئے بھی مالی قربانی کرنے والے ہیں ۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان کو سوائے اللہ تعالیٰ کے خوف کے اور کوئی خوف نہیں ہوتا۔ اس فکر میں رہتے ہیں کہ کہیں ہمارے کسی عمل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ناراض نہ ہو جائے، اللہ تعالیٰ کے پیار سے ہم محروم نہ ہو جائیں ۔ اپنے اعمال ان ہدایات کے مطابق کرنے والے ہوتے ہیں ، ان حکموں کو اپنے پیش نظر ہر وقت رکھنے والے ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے ایک حقیقی مسلمان کو حکم دیا ہے اور جو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائے ہیں ۔ پس یہ کوئی معمولی ذمہ داری نہیں ہے جو ایک مومن، مسلمان کی ہے۔ اور اس مسجد بننے کے بعد یہاں آنے والوں یا اس مسجد سے اپنے آپ کو منسوب کرنے والوں کی ذمہ داریاں پہلے سے بہت بڑھ گئی ہیں ۔ آپ نے اپنی عبادتوں کے بھی حق ادا کرنے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے بھی حق ادا کرنے ہیں تبھی اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہدایت یافتہ لوگوں میں شمار کئے جانے والے ہوں گے، تبھی ان لوگوں میں شمار ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظر رہتی ہے۔ اس آیت سے پہلے کی آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ مشرکوں کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ مساجد کی تعمیر کریں یا ان کی آبادی کریں ، ان کے دل تو غیر اللہ سے بھرے پڑے ہیں ۔ اور جس کا دل غیر اللہ سے بھرا ہو وہ اللہ تعالیٰ کا حق ادا کر ہی نہیں سکتا نہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کا حق ادا کر سکتا ہے۔
اور شرک بھی کئی قسم کا ہوتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک موقع پر فرمایا کہ:
شرک کئی قسم کے ہیں ۔ ایک تو موٹا اور صحیح شرک ہے جس میں کسی انسان یا پتھر یا اور بے جان چیزوں یا قوتوں یا خیالی دیویوں اور دیوتاؤں کو خدا بنا لیا گیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ اگرچہ یہ شرک ابھی دنیا میں موجود ہے، ظاہری طور پر موجود ہے لیکن فرمایا کہ یہ زمانہ روشنی اور تعلیم کا ایسا زمانہ ہے کہ عقلیں اس قسم کے شرک کو نفرت کی نگاہ سے دیکھنے لگ گئی ہیں ۔ گو یہ شرک ہے لیکن تعلیم نے انسان کو اس قابل بنا دیا ہے کہ عقل اس بات کو تسلیم نہیں کرتی کہ یہ پتھر کی مورتیاں اور بت جو ہیں یہ ہمارا کچھ کر سکتے ہیں ۔ لیکن فرمایا کہ مگر ایک اور قسم کا شرک ہے جو مخفی طورپر زہر کی طرح اثر کر رہا ہے اور وہ اس زمانے میں بہت بڑھتا جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ پر بھروسہ اور اعتماد بالکل نہیں رہا۔(ماخوذ از ملفوظات جلد3 صفحہ79-80۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان) اور اس بات کی آپ نے یہ وضاحت فرمائی کہ اَسباب اور دوسری چیزوں پر خدا تعالیٰ کی نسبت زیادہ بھروسہ ہے۔ اپنی نوکریوں ، اپنے کاروباروں ، اپنی دنیاوی مصروفیات کی طرف زیادہ توجہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ نمازوں کی طرف توجہ نہیں ہے، مسجدیں آباد کرنے کی طرف توجہ نہیں ہے۔
پس ہمیں یہ دعا کرنی چاہئے، اللہ تعالیٰ سے عاجزانہ طور پر یہ مانگنا چاہئے کہ اے خدا ہمیں کامل مومن بندہ بنا۔ کیونکہ مومن بننا بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں پر منحصر ہے اس لئے اس کے مانگنے سے ہی یہ مقام حاصل ہو سکتا ہے۔
ہم صرف اس بات پر خوش نہ ہو جائیں کہ ہم نے ایک بڑی خوبصورت مسجد فلاڈلفیا میں بنا دی ہے، اس شہر میں بنا دی ہے، بلکہ ہم اس کا حق ادا کرتے ہوئے جب اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوں تو ہم یہ سننے والے ہوں کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے مسجدیں خدا تعالیٰ کی خاطر بنائی ہیں اور پھر اس کا حق ادا کرنے کی بھی کوشش کی۔ چنانچہ انہی ہدایت یافتہ لوگوں میں اور ان لوگوں میں ان کا شمار کیا جاتا ہے جن سے اللہ راضی ہوتا ہے، جن سے خدا تعالیٰ خوش ہوتا ہے۔ پس اس سوچ کو ہمیں اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ جب یہ سوچ ہو گی اور اس کے لئے کوشش ہو گی تو اس مسجد کے افضال اور برکات ہم اس دنیا میں بھی محسوس کریں گے، ہماری اولادیں اور نسلیں بھی دین سے جڑی ہوئی ہوں گی اور ہم اللہ تعالیٰ کے پیغام کو بھی اس علاقے اور اس شہر میں پھیلانے والے ہوں گے۔ توحید کو دنیا میں قائم کرنے والے ہوں گے اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کو دنیا میں لہرانے والے ہوں گے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مسجدوں کی تعمیر کا ایک مقصد یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ جس علاقے میں اسلام کی حقیقی تعلیم اور حقیقی پیغام پہنچانا چاہتے ہو وہاں مسجد بنا دو۔ آپ نے فرمایا کہ ’’اس وقت ہماری جماعت کو مساجد کی بڑی ضرورت ہے۔ یہ خانہ خدا ہوتا ہے۔ جس گاؤں یا شہر میں ہماری جماعت کی مسجد قائم ہو گئی تو سمجھو کہ جماعت کی ترقی کی بنیاد پڑ گئی۔ اگر کوئی ایسا گاؤں ہو یا شہر جہاں مسلمان کم ہوں یا نہ ہوں اور وہاں اسلام کی ترقی کرنی ہو تو ایک مسجد بنا دینی چاہئے پھر خدا خود مسلمانوں کو کھینچ لاوے گا۔ لیکن شرط یہ ہے…‘‘ صرف مسجد بننے سے نہیں ہوتا، فرمایا’’… شرط یہ ہے کہ قیام مسجد میں نیّت بہ اخلاص ہو۔‘‘ اخلاص سے بنائی جائے مسجد نہ دکھاوے کے لئے۔ فرمایا کہ’’ محض للہ اسے کیا جاوے۔‘‘ یعنی مسجد کی تعمیر کا کام اللہ کی خاطر صرف کیا جائے۔’’ نفسانی اغراض یا کسی شرّ کو ہرگز دخل نہ ہو تب خدا برکت دے گا۔‘‘(ملفوظات جلد7 صفحہ119۔ ایڈیشن1985ء مطبوعہ انگلستان)پس یہ بات ہمیں ہمیشہ اپنے سامنے رکھنی چاہئے کہ مسجد ہم بناتے ہیں ، مسجد کی خاطر ہم مالی قربانی بھی اگر کرتے ہیں تو اس میں کوئی دکھاوا نہ ہو بلکہ یہ نیت ہو کہ مسجد بنے گی تو ہم بھی عبادت کا حق ادا کرنے والے ہوں گے ہماری آئندہ نسلیں بھی محفوظ ہوں گی اور دین سے جڑی رہیں گی۔ پس اس مسجد کی تعمیر اور آبادی کے ساتھ ایک اور بڑی ذمہ داری بھی یہاں کے رہنے والوں پہ بڑھ گئی ہے کہ اس شہر میں اسلام کی تبلیغ کا ذریعہ اس مسجد کو بنا دیں ۔
کہا جاتا ہے یہاں اس شہر میں مسلمانوں کی سینتالیس مساجد یا سینٹر ہیں لیکن باقاعدہ مسجد کے طور پر تعمیر ہونے والی یہ پہلی مسجد ہے۔ پس جب مسجد کے طور پر یہ عمارت اس شہر میں تعمیر ہوئی ہے تو صرف یہ بتانے کے لئے نہیں کہ مسلمانوں کی مسجد کی حقیقی شکل کس طرح کی ہوتی ہے بلکہ یہ بتانے کے لئے ہے کہ اس مسجد سے اسلام کی خوبصورت اور امن پسند تعلیم کی اصل شکل ابھر کر دنیا کے سامنے آئے گی۔ ہم ہیں جو دعاؤں اور عبادتوں کے ساتھ اسلام کا حقیقی پیغام دنیا میں پھیلاتے ہیں اور یہاں اب پہلے سے بڑھ کر اپنے عملی نمونوں کے ذریعہ سے پھیلائیں گے۔ اس علاقے میں اسلام کی تعلیم کی عملی صورت کا اظہار کر کے ہم نے احمدی مسلمانوں کی آبادی کو بھی بڑھانا ہے لیکن مجھے بتایا گیا ہے کہ ہماری احمدی آبادی بھی ایک دو گھروں کے علاوہ یہاں سے عموماً فاصلے پر ہی ہے۔ امیر صاحب سے بات ہو رہی تھی انہوں نے بتایا، اس بات کا اظہار کیا کہ اس مسجد کا کافی بڑا رقبہ ہے اور بڑا پلاٹ ہے جس میں تعمیر کی اجازت بھی مل سکتی ہے۔ اگر یہاں فلیٹس بنائے جائیں یا گھر بنائے جائیں یا احمدیوں کو بنانے کی اجازت دی جائے تو مسجد کے قریب آبادی ہو سکتی ہے۔ میرے خیال میں یہ ایک اچھی تجویز ہے اس پر غور ہونا چاہئے۔ اگر یہ تجویز قابل عمل ہے تو ضرور کوشش ہونی چاہئے کہ یہاں احمدی گھر آکر آباد ہوں اور جب احمدی آبادی ہو گی اور اس نیت سے آئے گی کہ مسجد کو بھی آباد کرنا ہے اور اسلام کی خوبصورت تعلیم کا پیغام بھی پہنچانا ہے تو اللہ تعالیٰ پھر اس نیت میں بھی برکت ڈالے گا اور یہ بات انشاء اللہ تعالیٰ احمدی آبادی میں اضافے کا باعث بھی ہو گی۔
ہماری تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ 1920ء میں جب حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ امریکہ بطور مبلغ تشریف لائے تو یہاں فلاڈلفیا کی بندرگاہ پر اترے تھے لیکن آپ کو ملک میں داخل نہیں ہونے دیا گیا، اس وقت اس کی اجازت نہیں ملی اور ان کو ایک گھر میں قید کر دیا گیا۔ وہاں اور بھی قیدی تھے۔ آپ کی تبلیغ سے دو مہینے میں پندرہ قیدیوں نے اسلام قبول کر لیا۔(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد4 صفحہ250) تبلیغ کے ساتھ ساتھ ان کا عملی نمونہ بھی تھا، ان کا تقویٰ بھی تھا، ان کی دعائیں بھی تھیں ۔ پس تبلیغ کے ساتھ یہ بھی ایک ضروری چیز ہے۔ اور پھر کہا جاتا ہے کہ آپ کے قیام کے دوران یہاں پانچ چھ ہزار احمدی ہوئے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس وقت یہ فرمایا تھا کہ اگر یہی بیعتوں کی تعداد ہو تو چند دہائیوں میں لاکھوں تک یہ تعداد پہنچ سکتی ہے۔(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد 19 صفحہ 477) بہر حال وہ ٹارگٹ تو حاصل نہ ہو سکا جو بھی روکیں تھیں یا حالات تھے یا ہماری کمزوریاں تھیں لیکن اب موقع ہے کہ ہم ایک عزم کے ساتھ اس کی کوشش کریں ،بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں بھی یہاں پیغام پہنچ گیا تھا جس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی کتاب براہین احمدیہ میں فرمایا ہے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ’’… ایسا ہی اور کئی انگریز ان ملکوں میں اس سلسلہ کے ثنا خوان ہیں اور اپنی موافقت اس سے ظاہر کرتے ہیں ۔…‘‘ بڑی تعریف کرتے ہیں اور یہ اظہار کرتے ہیں کہ ہم بالکل اس تعلیم کے قائل ہیں ۔ تو فرماتے ہیں ’’… چنانچہ ڈاکٹر بیکر جن کا نام ہے اے جارج بیکر نمبر 404 سیس کوئی ہینا ایونیو (Susquehanna Avenue)فلاڈلفیا امریکہ۔ میگزین ریویو آف ریلیجنز میں میرا نام اور تذکرہ پڑھ کر اپنی چٹھی میں یہ الفاظ لکھتے ہیں ۔…‘‘ جس نے مضمون لکھا تھا ان کو بیکر صاحب یہ لکھتے ہیں کہ ’’مجھے آپ کے امام کے خیالات کے ساتھ بالکل اتفاق ہے۔ انہوں نے اسلام کو ٹھیک اُس شکل میں دنیا کے سامنے پیش کیا ہے جس شکل میں حضرت نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش کیا تھا۔ ‘‘ (براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد21 صفحہ106)
پھر حضرت مفتی محمد صادق صاحب بھی اپنی ایک رپورٹ میں لکھتے ہیں کہ عاجز راقم کو ان تھوڑے سے ایام میں جو ملک امریکہ میں داخل ہوئے گزرے ہیں باوجود بڑی مشکلات اور رکاوٹوں کے جو متعصّب عیسائیوں کی طرف سے پیش آئیں معتدبہ کامیابی حاصل ہوئی۔ الحمد للہ علی ذالک۔ پھر لکھتے ہیں کہ اس وقت 29 نئے جنٹلمین اور لیڈیاں عاجز کی تبلیغ سے داخل دین متین ہو چکے ہیں جن کے اسمائے گرامی مع جدید اسلامی نام پیش کئے جاتے ہیں ۔ پھر وہ تفصیل پیش کی پھر آپ نے لکھا کہ نمبر 1 اور 2 ڈاکٹر جارج بیکر اور مسٹر احمد اینڈرسن یہ ہر دو صاحبان ایک عرصے سے عاجز کے ساتھ خط و کتابت رکھتے تھے اور مدت سے مسلمان ہو چکے ہیں ۔ مخلص مسلمان ہیں ، مَیں ضروری سمجھتا ہوں ان کا نام اس فہرست میں سب سے اوّل رکھا جائے۔(ماخوذ از الفضل 22 جولائی 1920ء جلد 8 نمبر 4 صفحہ 1) پھر جیسا کہ مَیں نے کہا بعض دوسرے لوگوں کا ذکر ہے۔ اب یہ سنا ہے کہ یہاں فلاڈلفیا میں ڈاکٹر بیکر کی قبر بھی تلاش کر لی گئی ہے۔ ان کی وفات 1918ء میں ہوئی تھی۔ ان کی یہیں تدفین ہے۔ تو اس زمانے میں آج سے تقریباً سو سال پہلے سے یہاں احمدیت آئی ہوئی ہے لیکن بہرحال اب جبکہ جیسا کہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ نےاس شہر میں ہمیں ایک خوبصورت مسجد بنانے کی توفیق دی ہے تو اس کے ذریعہ سے اب ایک نئے عزم کے ساتھ یہاں کی جماعت اور مبلغ کو بھی تبلیغ کے ایسے پروگرام بنانے چاہئیں جس سے اسلام کی خوبصورت تعلیم اور یہ پیغام ہر طرف پھیل جائے اور یہ علاقہ امن اور خوبصورتی کے لحاظ سے ایسا علاقہ بن جائے کہ لوگ کوشش کر کے اس علاقے میں آکر رہائش کے خواہش مند ہوں ۔ آبادی کے لحاظ سے یہ شہر امریکہ کا چھٹا بڑا شہر ہے۔ اگر اس شہر میں اور اس کے ارد گرد علاقے میں اسلام کا صحیح پیغام پہنچایا جائے تو انشاء اللہ انہی لوگوں سے وہ لوگ پیدا ہوں گے جو صحیح عابد اور مسجدوں کو آباد کرنے والے ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کا خوف رکھنے والے اور ہدایت یافتہ لوگ ہوں گے۔
پس ہر مسجد جو ہم بناتے ہیں ہمارے لئے ایک بہت بڑا چیلنج لے کر آتی ہے کہ اپنی حالتوں کو بھی درست کرنا ہے، اللہ تعالیٰ سے تعلق میں بھی اور عملی نمونے میں بھی اپنی حالتیں بہتر کرنی ہیں اور تبلیغ کے میدان بھی کھولنے ہیں ، صرف اتنی بات پر خوش ہو کر نہیں بیٹھ جانا کہ ہم نے مسجد بنا لی۔ ہم نے اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس غلامِ صادق کو مانا ہے جس نے اسلام کا احیائے نو کرنا تھا، نئی زندگی شروع کرنی تھی۔ آپ نے ان تمام غلط فہمیوں کو دنیا کے دماغوں سے نکالنا تھا جو اسلام کے متعلق پیدا ہو چکی ہیں چاہے وہ غیر مسلموں کے ذریعہ سے پیدا ہوئی ہوں یا نام نہاد علماء کی غلط تفسیروں سے پیدا ہوئی ہوں ۔ اور اب یہ کام ہمارا، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ماننے والوں کا ہے کہ اس لحاظ سے اپنی تمام تر کوششوں اور صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں ، اپنی حالتوں اور عبادتوں کو ان معیاروں تک لے کر جائیں جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک قابل قبول ہیں ، جن کے بارے میں ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بار بار توجہ دلائی ہے۔
اس مسجد کی تعمیر میں جو خرچ ہوا جو مجھے بتایا گیا اب تک 8.1 ملین ڈالرز خرچ ہوئے ہیں ۔ 1/3 حصہ جماعت نے دیا ہے، کچھ نیشنل ہیڈ کوارٹر نے دیا ہے، باقی تفصیل مَیں آگے بھی بتا دوں گا، لیکن اس 8.1 ملین ڈالرز کے خرچ کا فائدہ تو تب ہے جب اس کے مقصد کو پورا کریں اور دور رہنے کے باوجود، اگر فی الحال لوگوں کی آبادی یہاں قریب نہیں ہے، جو بھی اس شہر میں رہتے ہیں اس مسجد کی آبادی کی پانچ وقت کوشش کریں ۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک موقع پر فرمایا کہ:
’’ مسجدوں کی اصل زینت عمارتوں کے ساتھ نہیں ہے بلکہ ان نمازیوں کے ساتھ ہے جو اخلاص کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں ۔ ورنہ یہ سب مساجد ویران پڑی ہوئی ہیں …۔‘‘ اُس زمانے میں ویران پڑی ہوئی تھیں اور آجکل بھی جو آباد ہیں تو وہاں غلط قسم کے نام نہاد علماء کے غلط نعروں نے ان کو امن کی بجائے فساد کی جگہ بنا دیا ہوا ہے۔ پھر آپ فرماتے ہیں کہ ’’…رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد چھوٹی سی تھی۔ کھجور کی چھڑیوں سے اس کی چھت بنائی گئی تھی اور بارش کے وقت چھت میں سے پانی ٹپکتا تھا…‘‘ لیکن کیا کچھ کام ہوئے وہاں ۔ فرماتے ہیں کہ’’… مسجد کی رونق نمازیوں کے ساتھ ہے‘‘۔ پھر فرمایا’’… مسجدوں کے واسطے حکم ہے کہ تقویٰ کے واسطے بنائی جائیں ۔ ‘‘(ملفوظات جلد8 صفحہ170۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)پس اگر اخلاص کے ساتھ نمازیں پڑھیں اور تقویٰ پر چلتے ہوئے آکر اس مسجد کو آباد رکھیں گے تو عبادتیں بھی قبول ہوں گی اور غیر مسلموں میں اسلام کی تبلیغ صحیح رنگ میں ہو سکے گی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا کہ جو ہماری مسجد میں اس نیت سے داخل ہو گا کہ بھلائی کی بات سیکھے وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہو گا۔(مسند احمد بن حنبل جلد3 صفحہ322 مسند ابی ھریرۃ، حدیث 8587 عالم الکتب بیروت1998ء)پس یہ ہے حقیقی مسلمان کا مقصد۔ آجکل اسلام کو بدنام کیا جاتا ہے کہ اسلام جہاد کی تعلیم دیتا ہے اور بعض مسلمانوں کے عمل بھی اس بدنامی میں شامل ہیں لیکن حقیقی مومن کا کام یہ ہے کہ نیکیاں سیکھے، نیکیوں پر عمل کرے، نیکیاں پھیلائے تو گویا وہ جہاد کر رہا ہے اور یہ جہاد کرنا آج ہم احمدیوں کا کام ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بار بار ہمیں نیکیوں پر چلنے اور تقویٰ پر قدم مارنے کی طرف توجہ دلاتے ہیں چنانچہ ایک موقع پر آپؑ نے فرمایا کہ :
’’اس وصیّت کو توجّہ سے سنیں …‘‘، فرمایا’’… اس وصیت کو توجّہ سے سنیں کہ وہ جو اس سلسلہ میں داخل ہو کر میرے ساتھ تعلق ارادت اور مریدی کا رکھتے ہیں اس سے غرض یہ ہے کہ تا وہ نیک چلنی اور نیک بختی اور تقویٰ کے اعلیٰ درجہ تک پہنچ جائیں اور کوئی فساد اور شرارت اور بدچلنی ان کے نزدیک نہ آ سکے۔ وہ پنجوقت نمازجماعت کے پابند ہوں ۔ وہ جھوٹ نہ بولیں ۔ وہ کسی کو زبان سے ایذا نہ دیں …‘‘۔ کوئی تکلیف نہ پہنچائیں ۔’’… وہ کسی قسم کی بدکاری کے مرتکب نہ ہوں اور کسی شرارت اور ظلم اور فساد اور فتنہ کا خیال بھی دل میں نہ لاویں ۔‘‘ فرمایا’’ غرض ہر ایک قسم کے معاصی( گناہ) اور جرائم اور ناکردنی اور ناگفتنی…‘‘ یعنی ہر قسم کی نہ کرنے والی اور نہ کہنے والی کوئی بھی برائیاں جو ہیں ، کسی قسم کی برائی کا اظہار نہ ہو ان سے۔’’_… اور تمام نفسانی جذبات اور بیجا حرکات سے مجتنب رہیں اور خدا تعالیٰ کے پاک دل اور بے شرّ اور غریب مزاج بندے ہو جائیں ۔ اور کوئی زہریلا خمیر ان کے وجود میں نہ رہے۔… اور تمام انسانوں کی ہمدردی ان کا اصول ہو اور خدا تعالیٰ سے ڈریں اور اپنی زبانوں اور اپنے ہاتھوں اور اپنے دل کے خیالات کو ہر ایک ناپاک اور فساد انگیز طریقوں اور خیانتوں سے بچاویں ۔ اور پنجوقتہ نماز کو نہایت التزام سے قائم رکھیں ۔ اور ظلم اور تعدّی اور غبن اور رشوت اور اِتلاف حقوق اور بیجا طرفداری سے باز رہیں ۔…‘‘ کسی کی بے جا طرفداری بھی غلط چیز ہے اور لوگوں کا حق مارنا بھی غلط چیز ہے اور اس پہ خاص طور پر توجہ دینی چاہئے۔’’… اور کسی بدصحبت میں نہ بیٹھیں ۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلد3 صفحہ46-47۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان) خاص طور پر نوجوانوں کو اس کی طرف توجہ دینی چاہئے اور بد صحبت میں آجکل کے بہت سارے مختلف قسم کے جدید ذرائع ہیں جو سوشل میڈیا پہ اور دوسری جگہوں پہ غلط قسم کی باتیں ہوتی ہیں یہ سب بدصحبتیں ہیں ان سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
اب یہاں پاکستان سے بہت سے لوگ اسائلم لے کر بھی آ کے آباد ہوئے ہیں یا رفیوجی (refugee) بن کر آئے ہیں ان کے لئے بہت توجہ کی ضرورت ہے۔ ہر احمدی کے سامنے صرف اس دنیا کی خوشیاں اور چاہتیں نہیں ہونی چاہئیں بلکہ اگلے جہان کی فکر ہونی چاہئے، وہاں کے انعامات اور فائدے ہمیشہ رہنے والے ہیں ۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا کہ :
’’خدا تعالیٰ بھی انسان کے اعمال کا روزنامچہ بناتا ہے۔…‘‘ روز کے روز اعمال لکھے جاتے ہیں ، فرماتے ہیں کہ’’… پس انسان کو بھی اپنے حالات کا ایک روزنامچہ تیار کرنا چاہئے۔…‘‘ خود بھی انسان کو کوشش کرنی چاہئے کہ دیکھے آج سارے دن میں مَیں نے کیا نیکیاں کی ہیں اور کیا برائیاں کی ہیں ۔ کن باتوں پر، نیکیوں پر عمل کیا ہے اور کن پر نہیں کیا۔ فرمایا ’’…اور اس میں غور کرنا چاہئے…‘‘ صرف تیار نہیں کر لینا، بلکہ غور کریں تب ہی انسان نیکیوں کی طرف جا سکتا ہے، اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہدایت یافتہ ہو سکتا ہے۔ فرمایا’’… کہ نیکی میں کہاں تک آگے قدم رکھا ہے۔…‘‘ یہ دیکھو۔’’… انسان کا آج اور کل برابر نہیں ہونے چاہئیں ۔ جس کا آج اور کل اس لحاظ سے کہ نیکی میں کیا ترقی کی ہے برابر ہو گیا وہ گھاٹے میں ہے۔…‘‘ فرماتے ہیں ،اگربرابر کیا تو کوئی فائدہ نہیں یہ تو نقصان ہے۔’’… انسان اگر خدا کو ماننے والا اور اسی پر کامل ایمان رکھنے والا ہو تو کبھی ضائع نہیں کیا جاتا۔‘‘(ملفوظات جلد10 صفحہ137-138۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان) پس یہ بہت سوچنے کا مقام ہے۔ اللہ تعالیٰ جب ہم پر فضل فرما رہا ہے تو اس کی شکر گزاری ہم پر فرض ہے۔ پس وہ لوگ جو اپنے دنیاوی کاروباروں کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے حق کو اور اپنی عبادتوں کو بھول گئے ہیں یا اس پر وہ توجہ نہیں جو ہونی چاہئے وہ اپنے جائزے لے لیں کہ ہمارا عہد بیعت کیا ہے اور ہمارے عمل کیا ہیں ۔ اور جو یہاں نئے آئے ہیں وہ بھی یاد رکھیں کہ دنیامیں ڈوبنا ترقی نہیں ہے بلکہ تباہی ہے۔ اور انہوں نے ہمیشہ اس بات کو سامنے رکھنا ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے ہوں ۔ مسجدوں کے حق ادا کرنے والے ہوں اللہ کی عبادت کاحق ادا کرنے والے ہوں ۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک اور اقتباس پیش کرتا ہوں آپ فرماتے ہیں کہ :
’’یاد رکھو ہماری جماعت اس بات کے لئے نہیں ہے جیسے عام دنیا دار زندگی بسر کرتے ہیں ، نرا زبان سے کہہ دیا کہ ہم اس سلسلہ میں داخل ہیں اور عمل کی ضرورت نہ سمجھی جیسے بدقسمتی سے مسلمانوں کا حال ہے کہ پوچھو تم مسلمان ہو؟ تو کہتے ہیں شکر الحمد للہ۔ مگر نماز نہیں پڑھتے اور شعائر اللہ کی حرمت نہیں کرتے۔ پس میں تم سے یہ نہیں چاہتا کہ صرف زبان سے ہی اقرار کرو اور عمل سے کچھ نہ دکھاؤ۔ یہ نکمّی حالت ہے۔ خدا تعالیٰ اس کو پسند نہیں کرتا۔ اور دنیا کی اس حالت نے ہی تقاضا کیا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے اصلاح کیلئے کھڑا کیا ہے۔ پس اب اگر کوئی میرے ساتھ تعلق رکھ کر بھی اپنی حالت کی اصلاح نہیں کرتا اور عملی قوتوں کو ترقی نہیں دیتا بلکہ زبانی اقرار ہی کو کافی سمجھتا ہے وہ گویا اپنے عمل سے میری عدم ضرورت پر زور دیتا ہے۔ …‘‘
اور عملی قوتوں کی ترقی یہی ہے جیسے کہ بیان ہو چکا کہ اللہ تعالیٰ کا بھی حق ادا کرنا عبادتوں کا بھی حق ادا کرنا اور اس کی مخلوق کا حق ادا کرنا، اللہ تعالیٰ کے پیغام کو دنیا میں پہنچانا۔ فرماتے ہیں ’’… پھر تم اگر اپنے عمل سے ثابت کرنا چاہتے ہو کہ میرا آنا بے سود ہے، تو پھر میرے ساتھ تعلق کرنے کے کیا معنی ہیں ؟ میرے ساتھ تعلق پیدا کرتے ہو تو میری اغراض و مقاصد کو پورا کرو۔ اور وہ یہی ہیں کہ خدا تعالیٰ کے حضور اپنا اخلاص اور وفا داری دکھاؤ اور قرآن شریف کی تعلیم پر اسی طرح عمل کرو جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کر کے دکھایا اور صحابہ نے کیا۔ قرآن شریف کے صحیح منشا کو معلوم کرو۔ اور اس پر عمل کرو۔ خدا تعالیٰ کے حضور اتنی ہی بات کافی نہیں ہو سکتی کہ زبان سے اقرار کر لیا اور عمل میں کوئی روشنی اور سرگرمی نہ پائی جاوے۔ یاد رکھو کہ وہ جماعت جو خدا تعالیٰ قائم کرنی چاہتا ہے وہ عمل کے بدوں زندہ نہیں رہ سکتی۔_…‘‘ جماعت بغیر عمل کے زندہ نہیں رہ سکتی۔’’… یہ وہ عظیم الشّان جماعت ہے جس کی تیاری حضرت آدم کے وقت سے شروع ہوئی۔ کوئی نبی دنیا میں نہیں آیا جس نے اس دعوت کی خبرنہ دی ہو۔ پس اس کی قدر کرو اور اس کی قدر یہی ہے کہ اپنے عمل سے ثابت کر کے دکھاؤ کہ اہلِ حق کا گروہ تم ہی ہو۔‘‘ (ملفوظات جلد3 صفحہ370-371۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس یہ کوئی آسان کام نہیں ہے، بہت فکر کے ساتھ اس طرف توجہ کی ضرورت ہے۔ ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ دنیا یا دنیا کی دولت ہمیں اور ہماری نسلوں کی بقا کی ضمانت نہیں ہے بلکہ دونوں جہان میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں کو حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنا بقا کی ضمانت ہے، اس کے حکموں پر چلنا بقا کی ضمانت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اس کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔
جیسا کہ عموماً مساجد کے افتتاح پر میں مسجد کی کچھ تھوڑی سی تفصیل بھی بیان کر دیتا ہوں وہ بھی اس وقت پیش کروں گا۔ کچھ کوائف یہ ہیں ، اس مسجد کی عمارت کے لئے زمین 2007ء میں خریدی گئی تھی پھر تقریباً چھ سال بعد 2013ء میں اس پہ کام شروع ہوا۔ پھر بعض روکیں بیچ میں آتی رہیں ، جو بھی تھیں جائز یا ناجائز جس کی وجہ سے اب یہ مسجد اس سال مکمل ہوئی ہے۔ اور جیسا کہ میں نے بتایا کہ 8.1ملین ڈالرز خرچ ہوئے تھے جس میں سےفلاڈلفیا کی مقامی جماعت نے دو ملین چار لاکھ 35 ہزار سے کچھ اوپر ڈالر دئیے۔ ایک ملین دو لاکھ43ہزار سے اوپر امریکہ کی باقی جماعتوں نے اس کے لئے ادا کئے اور چار ملین چار لاکھ78ہزار سے اوپر نیشنل ہیڈ کوارٹر نے ادا کئے۔ تقریباً نصف سے زیادہ نیشنل ہیڈ کوارٹر کا ہے۔ شروع میں تو صرف دو ایکڑ زمین لی گئی تھی پھر بعد میں مزید ایک ایکڑ خریدا گیا۔ پھر 2015ء میں کسی غیر مسلم نے غالباً عیسائی نے زمین سے ملحقہ اپنا پونہ ایکڑ کا پلاٹ جماعت کو ھبہ کیا جو بھی اس کا دنیاوی مقصد تھا، لیکن بہرحال جماعت کو اس نے چیریٹی میں دے دیا۔ اب اس کا کل قطعہ یا رقبہ چار ایکڑہے۔ جیسا کہ مَیں نے پہلے کہا تھا کہ یہاں کوئی ہاؤسنگ سکیم یا فلیٹ وغیرہ بنائے جا سکتے ہیں ۔ اس عمارت کا جو کوَرڈ(covered) ایریا ہے وہ اکیس ہزار چار سو مربع فٹ ہے۔ تین منزلہ عمارت ہے، بیسمنٹ میں ایک کمرشل کچن ہے، درمیانی منزل میں مبلغ کی رہائش کے لئے ایک اپارٹمنٹ تعمیر کیا گیا ہے۔ اوپر والی منزل میں دفاتر اور لائبریری بنائی گئی ہیں ۔ایک مسجد والا حصہ ہے اور دوسرا حصہ بھی دو منزلہ ہے۔ مردوں اور عورتوں کا ایک بڑا ہال ہے جو کہ پانچ ہزار مربع فٹ پر مشتمل ہے۔ اس میں بھی پارٹیشن کر کے دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ 350 کے لگ بھگ مرد اور اسی طرح 350 کے لگ بھگ عورتوں کے نماز پڑھنے کی جگہ ہے۔ عمارت کے اس حصے میں مردوں اور عورتوں کے علیحدہ علیحدہ واش رومز بنائے گئے ہیں ، باقی ضروریات ہیں ۔ چھ ہزار مربع فٹ کا ملٹی پرپز ہال(multi-purpose hall) بھی ہے جس میں سات سو افراد بیٹھ سکتے ہیں اور کھیلیں بھی ہو سکتی ہیں ، جماعتی دفاتر بھی موجود ہیں ۔ چھیالیس گاڑیوں کی پکی پارکنگ بھی بنائی گئی ہے۔ کل چھیاسی گاڑیاں اَور ایکسٹرا بھی آ سکتی ہیں ۔
اللہ تعالیٰ کرے کہ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے مسجد کی تعمیر کا مقصد بیان فرمایا ہے جو میں نے ابھی بیان کیا ہے ہر احمدی اس مقصد کو پورا کرنے والا ہو اور یہ مسجد اس علاقے میں ا سلام کا حقیقی پیغام پہنچانے میں سنگ میل کی حیثیت رکھنے والی ہو۔
نماز کا حقیقی قیام کرنے والے وہ لوگ ہیں جو باجماعت نماز کے عادی ہوں اور اپنی توجہ خالص اللہ تعالیٰ کی طرف رکھتے ہوئے نمازیں پڑھنے والے ہوں ، دعا، استغفار اور توجہ سے نماز ادا کرنے والے ہوں ، توجہ ادھر ادھر ہو تو پھر اپنی توجہ کو خدا تعالیٰ کی طرف لے کر آئیں ۔
کیا واقعی ہم ان لوگوں میں شامل ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے مساجد تعمیر کرنے والے اور اس کا حق ادا کرنے والے کہا ہے؟
اس مسجد کی تعمیر اور آبادی کے ساتھ ایک اور بڑی ذمہ داری بھی یہاں کے رہنے والوں پہ بڑھ گئی ہے کہ اس شہر میں اسلام کی تبلیغ کا ذریعہ اس مسجد کو بنا دیں ۔
اس مسجد سے اسلام کی خوبصورت اور امن پسند تعلیم کی اصل شکل دنیا کے سامنے ابھر کر سامنے آئے گی۔
مسجد کی رونق نمازیوں کے ساتھ ہے۔
’’انسان اگر خدا کو ماننے والا اور اس پر کامل ایمان رکھنے والا ہو تو کبھی ضائع نہیں کیا جاتا۔ ‘‘
دنیامیں ڈوبنا ترقی نہیں ہے بلکہ تباہی ہے۔
پونے چار ایکڑ کے رقبہ پر اکیس ہزار چار سو مربع فٹ کی تعمیر پر مشتمل آٹھ ملین ڈالرز سے زائد لاگت سے تعمیر ہونے والی مسجد ’بیت العافیت‘ فلاڈلفیا کا افتتاح، قرآنِ کریم اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشادات کے حوالہ سے
مساجد کے قیام کے مقاصد اور انہیں پورا کرنے کی بابت احبابِ جماعت کو نصائح۔ (بمقام مسجد بیت العافیت ، فلاڈلفیا(Philadelphia)،امریکہ)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔