اطاعت، اخلاص اور وفا کے پیکر بدری اصحاب نبویؐ
خطبہ جمعہ 23؍ نومبر 2018ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
آج سے پھر میں بدری صحابہ کا ذکر دوبارہ شروع کروں گا۔ پہلے جن صحابی کا ذکر ہے ان کا نام ہے حضرت سنان بن ابی سنان جو بنو اسد قبیلہ سے تھے اور بنو عبدشمس کے حلیف تھے۔ غزوہ بدر میں آپ نے حصہ لیا۔ غزوہ احد میں اور خندق میں اور حدیبیہ سمیت جتنی لڑائیاں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش آئیں ان تمام میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمرکاب تھے۔ بیعت رضوان میں سب سے پہلے کس نے بیعت کی اس کے متعلق اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض کے نزدیک حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے بیعت کی اور بعض حضرت سلمہ الاکوع کا نام بیان کرتے ہیں لیکن واقدی کے نزدیک حضرت سنان بن ابی سنان نے سب سے پہلے بیعت کی۔ اور بعض کے نزدیک حضرت سنان کے والد نے سب سے پہلے بیعت کی سعادت حاصل کی۔ بہرحال تاریخ میں بیان ہوا ہے کہ بیعت رضوان میں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی بیعت لینی شروع کی تو حضرت سنان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی ہاتھ بڑھایا کہ میری بیعت لیں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کس چیز پر بیعت کرتے ہو۔ حضرت سنان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ جو آپؐ کے دل میں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے دل میں کیا ہے؟ تمہیں پتہ ہے؟ صحابہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کا بھی اثر تھا تو انہوں نے عرض کیا کہ فتح مند ہونا یا شہادت پانا۔ اس پر دوسرے لوگوں نے بھی کہنا شروع کر دیا کہ ہم بھی اسی بات پر بیعت کرتے ہیں جس پر حضرت سنان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیعت کرتے ہیں۔(روض الانف جلد 4 صفحہ 62 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت) ، (سیرۃ الحلبیۃ جلد 3 صفحہ 26 باب ذکر مغازیہؐ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2002ء)، (الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 69 سنان بن ابی سنانؓ ومن حلفاء بنی عبد شمس مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)، (اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 561 سنان بن ابی سنانؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)
حضرت سنان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کبار مہاجرین صحابہ میں سے تھے۔(سیرت ابن کثیر صفحہ 280 اسماء اھل بدر حرف السین مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2005ء) ، (تاریخ الاسلام ووفیات المشاھیر والاعلام جلد 3 صفحہ 371دار الکتاب العربی بیروت 1993ء از مکتبۃ الشاملۃ)
طلیحہ بن خویلد نے دعویٰ نبوت کیاتو سب سے پہلے حضرت سنانؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خط لکھ کر خبر دی جو اس وقت بنو مالک پر عامل تھے۔ (تاریخ الطبری جلد 3 صفحہ 245 سنۃ احدی عشرۃ … الخ مطبوعہ دار الفکر بیروت 2002ء)
دوسرے صحابی جن کا ذکر ہو گا وہ ہیں حضرت مھجع جو حضرت عمرؓ کے غلام تھے۔ ان کے والد کا نام صالح تھا۔ غزوۂ بدر میں یہ سب سے پہلے شہید تھے۔ان کا تعلق یمن سے تھا۔ شروع میں قیدی ہونے کی حالت میں یہ حضرت عمرؓ کے پاس لائے گئے۔ اس وقت حضرت عمرؓ نے احسان کرتے ہوئے ان کو آزاد کر دیا۔ آپ اوّل المہاجرین میں سے تھے۔ غزوہ بدر میں شریک ہوئے اور آپ کو یہ اعزاز حاصل ہے جیسا کہ پہلے ذکر ہوا کہ آپ اسلامی لشکر کے سب سے پہلے شہید تھے۔ دو صفوں کے درمیان تھے کہ اچانک ایک تیر آپ کو لگا جس سے آپ شہید ہو گئے۔ عامر بن حضرمی نے آپ کو شہید کیا تھا، اس کا تیر لگا تھا۔ حضرت سعید بن مسیّب کی روایت ہے کہ حضرت مھجع شہید ہوئے تو آپ کی زبان پر یہ الفاظ تھے۔ انا مھجع والی ربی ارجع۔ کہ میں مھجع ہوں اور اپنے پروردگار کی طرف لوٹنے والا ہوں۔ حضرت مھجع ان لوگوں میں شامل تھے جن کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی تھی کہ وَلَا تَطْرُدِ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْھَہٗ (الانعام53:)اور تو ان لوگوں کو نہ دھتکار جو اپنے رب کو اس کی رضا چاہتے ہوئے صبح بھی پکارتے ہیں اور شام کو بھی پکارتے ہیں۔ ان کے علاوہ اس میں مندرجہ ذیل اصحاب بھی شامل تھے۔ حضرت بلالؓ، حضرت صہیبؓ، حضرت عمارؓ، حضرت خبابؓ، حضرت عتبہ ؓبن غزوان، حضرت اوسؓ بن خولی، حضرت عامرؓ بن فھیرۃ۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 299-300 مہجع بن صالحؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء) ، (اسد الغابہ جلد 5صفحہ 268 مہجعؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)، (کنز العمال جلد 10 صفحہ 408 کتاب الغذوات حدیث 29985 مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ بیروت 1985ء)
اس کا مطلب یہ نہیں ہے نعوذ باللہ کہ یہ جو آیت نازل ہوئی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم غریبوں کو دھتکارتے تھے۔ آپ کا پیار اور عزت اور احترام اور شفقت غریبوں کے لئے بے مثال اور غیر معمولی تھی جس کا ہمیں حدیثوں سے بھی، ان غرباء کے اپنے حوالوں سے بھی پتہ لگتا ہے۔ اس آیت میں اصل میں تو ان امیر لوگوں اور بڑے لوگوں کو جواب ہے جو یہ چاہتے تھے کہ ہمیں زیادہ عزت اور احترام دیا جائے اس پہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ میں نے تو رسول کو یہ کہا ہوا ہے اور یہ حکم ہے کہ غریب لوگ جو ذکر اور عبادت میں بڑھے ہوئے ہیں ان کی عزت اور احترام اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمہاری دولت اور خاندانی عزت سے زیادہ ہے اور اللہ کا رسول تو وہی کرتا ہے جس کا اللہ تعالیٰ اسے حکم دیتا ہے۔ پس اس آیت سے اصل میں تو ان امیروں کو یہ جواب دیا گیا جن کے خیال میں یہ تھا کہ ان کا مقام زیادہ بلند ہے کہ اللہ کے رسول کو تمہاری عزت اور تمہاری دولت کی کوئی پروا نہیں ہے۔ اس کو تو یہی لوگ پیارے ہیں۔
پھر حضرت عامر بن مخلد ایک صحابی تھے۔ ان کی والدہ کا نام عمارہ بنت خنساء تھا۔ ان کا تعلق خزرج کے قبیلے بنو مالک بن نجار سے تھا۔ غزوہ بدر اور غزوہ احد میں شریک ہوئے اور احد کے دن یہ شہید ہوئے۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 375-376 عامر بن مخلدؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
پھر ایک صحابی تھے حضرت حاطب بن عمرو بن عبد شمس۔ ابوحاطب ان کی کنیت تھی۔ ان کا تعلق قبیلہ بنوعامر بن لُؤَیّ سے تھا۔ ان کی والدہ اسماء بنت حارث بن نوفل تھیں جو قبیلہ اشجع سے تھیں۔ حضرت سہیل بن عمرو، حضرت سلیط بن عمرواور حضرت سکران بن عمرو آپ کے بھائی تھے۔ حضرت حاطب بن عمرو کی اولاد میں عمرو بن حاطب تھے۔ ان کی والدہ رَیطہ بنت علقمہ تھیں۔(اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 662 حاطب بن عمروؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)، (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 309 حاطب بن عمروؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دارارقم میں تشریف آوری سے پہلے آپ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی تبلیغ سے اسلام لائے تھے۔ حبشہ کی سرزمین کی طرف دو دفعہ ہجرت کی اور ایک روایت کے مطابق ہجرت اولیٰ میں سب سے پہلے جو شخص ملک حبشہ میں آئے وہ حضرت حاطب بن عمرو بن عبد شمس تھے۔ جب آپؓ نے مکہ سے مدینہ ہجرت کی تو حضرت رفاعہ بن عبد المنذر جو حضرت ابولبابہ بن عبدالمنذر کے بھائی تھے ان کے گھر میں آپ اترے۔ غزوۂ بدر میں اپنے بھائی حضرت سلیط بن عمرو کے ساتھ شریک تھے اور غزوۂ احد میں بھی شریک ہوئے۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 309 حاطب بن عمروؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)،(سیرت ابن ہشام صفحہ 117, 119 باب اسلام ابی بکر و من معہ من السابقین مطبوعہ دار ابن حزم بیروت 2009ء)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت سودہؓ بنت زمعہ کی شادی حضرت سلیط بن عمرو نے کروائی اور بعض کے نزدیک حضرت ابوحاطب بن عمرو نے شادی کروائی اور اس وقت مہر جو باندھا گیا تھا وہ چار سو درہم تھا۔
اس شادی کی تفصیل طبقات الکبریٰ میں اس طرح درج ہے کہ حضرت سودہؓ کے خاوند اول حضرت سکران بن عمرو جو کہ حضرت حاطب بن عمرو کے بھائی تھے ان کی حبشہ سے مکہ واپسی پر مکہ میں وفات ہو گئی۔ جب حضرت سودہؓ کی عدت پوری ہوئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف نکاح کا پیغام بھجوایا۔ حضرت سودہ نے عرض کیا کہ میرا معاملہ آپؐ کے سپرد ہے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنی قوم میں سے کوئی مرد مقرر کریں کہ وہ آپ یعنی حضرت سودہ کی شادی مجھ سے کروائے۔ اس پر حضرت سودہ نے حضرت حاطب بن عمرو کو مقرر کیا۔ اس طرح حضرت حاطب نے حضرت سودہؓ کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شادی کروائی۔ حضرت سودہ حضرت خدیجہ کے بعد پہلی خاتون تھیں جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی کی۔(سیرت ابن ہشام صفحہ 661 باب ذکر ازواجہ ؐ سودہ بن زمعہؓ مطبوعہ دار ابن حزم بیروت 2009ء)، (الطبقات الکبریٰ جلد 8 صفحہ 42 ذکر ازواج رسول اللہ ﷺ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
حدیبیہ کے مقام پر ہونے والی بیعت رضوان میں بھی یہ شریک تھے۔ (کتاب المغازی جلد دوم صفحہ 92 باب غزوہ حدیبہ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2004ء)
پھر ایک صحابی تھے حضرت ابو خُزیمہ بن اوس۔ ان کی والدہ کا نام عمرہ بنت مسعود تھا۔ حضرت مسعود بن اوس کے بھائی ہیں۔ حضرت مسعود بن اوس بھی جنگ بدر میں شامل ہوئے۔ انہوں نے غزوۂ بدر میں، احد میں اور خندق سمیت تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ شرکت کی۔ ان کی وفات حضرت عثمانؓ کے دورِ خلافت میں ہوئی۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 373 ابو خزیمہ بن اوسؓ، مسعود بن اوسؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
پھر ایک صحابی حضرت تمیم مولیٰ خراش ہیں۔ حضرت تمیم حضرت خراش کے آزاد کردہ غلام تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے اور حضرت خباب جو عتبہ بن غزوان کے آزاد کردہ غلام تھے ان کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی۔ غزوہ بدر، احد میں انہوں نے شرکت کی۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 429 تمیم مولیٰ خراشؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
پھر حضرت منذر بن قدامہ ایک صحابی تھے۔ حضرت منذر بن قدامہ کا تعلق قبیلہ بنو غنم سے تھا۔ انہوں نے غزوہ بدر اور غزوہ احد میں شرکت کی۔ علامہ واقدی کے مطابق ان کو بنو قینقاع کے قیدیوں پر مقرر کیا گیا تھا۔ (الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد 6 صفحہ 172 منذر بن قدامہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء)،(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 367 منذر بن قدامہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
پھر حضرت حارث بن حاطب ایک بدری صحابی تھے۔ ان کی کنیت ابوعبداللہ ہے۔ آپ کی والدہ کا نام اُمامہ بنت صامت تھا۔ آپ کا تعلق انصار قبیلہ اوس سے تھا۔ حضرت ثعلبہ بنت حاطب کے بھائی تھے۔ حضرت حارث بن حاطب اور حضرت ابو لبابہ بن عبدالمنذر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ غزوۂ بدر کے لئے جارہے تھے کہ روحاء کے مقام پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابولبابہ بن عبدالمنذر کو مدینہ کا حاکم جبکہ حضرت حارث بن حاطب کو قبیلہ بنو عمرو بن عوف کا امیر بنا کر مدینہ واپس بھجوا دیا۔ لیکن ان دونوں کو اصحاب بدر میں شامل فرماتے ہوئے مال غنیمت میں سے بھی حصہ دیا۔ حضرت حارث بن حاطب کو غزوۂ بدر، احد اور خندق سمیت بیعت رضوان میں بھی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ شامل ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ کیونکہ یہ تیار ہو کے جا رہے تھے اور ان کی پوری نیت تھی کہ بدر میں شامل ہوں گے اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے باوجود اس کے کہ ان کو امیر مقرر کر کے واپس بھجوایا تھا لیکن ان کا شمار بدر میں شامل ہونے والوں میں کیا۔ غزوہ خیبر میں جنگ کے دوران ایک یہودی نے قلعہ کے اوپر سے تیر مارا جو کہ حضرت حارث بن حاطب کے سر پر لگا جس سے آپ شہید ہو گئے۔ (اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 598 حارث بن حاطبؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء) ،(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 351 حارث بن حاطبؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
حضرت ثعلبہ بن زید ایک صحابی تھے۔ ان کا تعلق انصار کے قبیلہ بنو خزرج سے ہے۔ غزوۂ بدر میں یہ شامل ہوئے تھے۔ حضرت ثابت بن الجِذْع کے والد تھے۔ حضرت ثعلبہ بن زید کا لقب الجذع ہے۔ الجذع آپ کی مضبوطی قلب اور مضبوط عزم و ہمت کی وجہ سے کہا جاتا ہے یعنی جو مضبوط تنا، درخت کا تنا ہو اس کو بھی جذع کہا جاتاہے اور چھت کا شہتیر اور بیم جو ہے اس کو بھی کہا جاتا ہے۔ بہرحال بڑے مضبوط دل کے مالک تھے اور مضبوط عزم و ہمت کے مالک تھے اس لئے ان کا لقب الجذع پڑ گیا۔ حضرت ثعلبہ بن زید کے متعلق اس کے علاوہ کوئی روایت محفوظ نہیں ہے۔ (اسد الغابہ جلد 1صفحہ 467 ثعلبہ بن زیدؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)،(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 428 ثابت بن ثعلبہ ؓمطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء) ،(Arabic-English Lexicon by Edward William Lane part 2 page 396 librairie du liban 1968)
حضرت عقبہ بن وہب ایک صحابی تھے۔ حضرت عقبہ بن وہب کو ابن ابی وہب بھی کہا جاتا ہے۔ یہ قبیلہ بنو عبد شمس بن عبد مناف کے حلیف تھے۔ غزوۂ بدر اور احد اور خندق سمیت تمام غزوا ت میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل تھے۔(اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 59 عقبہ بن وھبؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)،(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 70 عقبہ بن وھبؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
مدینہ میں یہود کا ایک وفد آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کے لئے آیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تبلیغ کی جس کا انہوں نے کھلے طور پر انکار کیا۔ اس پر جن صحابہ نے انہیں اس کھلے انکار پر ملامت کی ان میں حضرت عقبہ بن وہب بھی شامل تھے۔ چنانچہ یہ واقعہ اس طرح ملتا ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نعمان بن اَضا، بحری بن عمرو اور شائس بن عدی آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے بات چیت کی اور انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف بلایا، اسلام کی دعوت دی۔ اور اس کے عذاب سے انہیں ڈرایا جس پر انہوں نے کہا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) ہمیں آپ کس بات سے ڈراتے ہیں؟ ہم تو اللہ کے بیٹے ہیں اور اس کے محبوب ہیں۔ جس طرح نصاریٰ نے کہا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے متعلق یہ آیت نازل فرمائی۔ وَقَالَتِ الْیَھُوْدُ وَالنَّصَارٰی نَحْنُ اَبْنَاءُ اللہِ وَأَحِبَّاؤُہٗ۔ قُلْ فَلِمَ یُعَذِّبُکُمْ بِذُنُوْبِکُمْ۔ بَلْ اَنْتُمْ بَشَرٌ مِّمَّنْ خَلَقَ۔ یَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَاءُ وَیُعَذِّبُ مَنْ یَّشَاءُ وَلِلہِ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَیْنَھُمَا وَاِلَیْہِ الْمَصِیْرُ۔(المائدہ 19:)اور یہود اور نصاریٰ نے کہا کہ ہم اللہ کی اولاد ہیں اور اس کے محبوب ہیں۔ تو کہہ دے پھر وہ تمہیں تمہارے گناہوں کی وجہ سے عذاب کیوں دیتا ہے۔ نہیں بلکہ تم ان میں سے ہو جن کو اس نے پیدا کیا محض بشر ہو۔ وہ جسے چاہتا ہے معاف کر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے عذاب دیتا ہے۔ اور آسمانوں اور زمین کی بادشاہت اللہ ہی کی ہے اور اس کی بھی جو ان دونوں کے درمیان ہے اور آخر اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
ابن اسحاق کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہود کے گروہ کو قبول اسلام کی دعوت دی اور انہیں اس کی طرف ترغیب دلائی اور غیر اللہ کے معاملہ میں اللہ کی سزا کے متعلق انہیں ڈرایا تو انہوں نے نہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بلکہ آپ کی لائی ہوئی تعلیم کا انکار کیا۔ اس پر حضرت معاذ بن جبل، حضرت سعد بن عبادۃ اور حضرت عقبہ بن وہب نے انہیں کہا اے گروہِ یہود اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔ اللہ کی قسم تم جانتے ہو کہ وہ رسول اللہ ہیں۔ تم خود ہمارے سامنے ان کی بعثت سے پہلے اس کا تذکرۃ کیا کرتے تھے اور ہمارے سامنے ان کی صفات بیان کیا کرتے تھے اس پر رافع بن حُرَیملہ اور وہب بن یہوزا نے کہا کہ ہم نے تو تمہیں یہ نہیں کہا۔ اور نہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد کوئی کتاب نازل کی ہے نہ کرنی ہے۔ اور نہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کے بعد کوئی بشارت دینے والا اور نہ ہی کوئی ڈرانے والا بھیجا ہے نہ بھیجنا ہے۔(سیرت ابن ہشام صفحہ 265-266باب ما نزل فی المنافقین ویھود مطبوعہ دار ابن حزم بیروت 2009ء)
گویا کہ وہ لوگ صاف مکر گئے حالانکہ توریت میں یہ پیشگوئیاں موجود ہیں۔ یہی حال آجکل کے بعض مسلمان علماء کا ہے جو مسیح موعود کو ماننے سے انکاری ہیں۔ پہلے آنے کا شور مچاتے تھے اب کہتے ہیں کسی نے نہیں آنا۔
پھر ایک صحابی حضرت حبیب بن اسود ہیں۔ حضرت حبیب بن اسود بن سعد انصار کے قبیلہ بنو حرام کے آزاد کردہ غلام تھے۔ آپ جنگ بدر اور احد میں شامل ہوئے۔ ان کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ آپ کا ذکر خبیب کے نام سے بھی ملتا ہے۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 429 حبیب بن الاسودؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)،(الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد 2صفحہ 18 حبیب بن سعدؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء)،(اسد الغابہ جلد 1صفحہ 671 حبیب بن الاسودؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)
پھر حضرت عُصَیمہ انصاری ایک صحابی تھے۔ حضرت عُصَیمہ کا تعلق قبیلہ بنو اشجع سے تھا۔ بنو غنم بن مالک بن نجار کے حلیف تھے۔ غزوہ بدر اور احد اور خندق اور دیگر تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہے۔ آپ نے حضرت معاویہ بن ابی سفیانؓ کے دور میں وفات پائی۔(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 377 عصیمۃؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
حضرت رافع بن حارث ایک صحابی تھے۔ ان کا نام رافع بن حارث بن سواد ہے۔ ان کا تعلق انصار کے قبیلہ بنو نجار سے تھا۔ غزوہ بدر اور احد اور خندق سمیت تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ شریک ہوئے۔ حضرت عثمانؓ کے دورِ خلافت میں ان کی وفات ہوئی۔ حضرت رافع بن حارث کا ایک بیٹا تھا جس کا نام حارث تھا۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 373 رافع بن الحارثؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
پھر حضرت رُخَیلہ بن ثعلبہ انصاری ایک بدری صحابی تھے۔ ان کا نام بھی مختلف طریقوں سے بیان کیا جاتا ہے۔ بعض کہتے ہیں رُخَیلہ بعض رُجَیلہ اور رُحیلہ وغیرہ۔ آپ کے والد کا نام ثعلبہ بن خالد تھا۔ غزوہ بدر اور احد میں یہ شریک ہوئے۔ ان کا تعلق قبیلہ خزرج کی ایک شاخ بنو بیاضہ سے تھا اور آپ جنگ صفین میں حضرت علی کے ہمراہ تھے۔ (اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 273 رخیلۃ بن ثعلبۃؓ۔ جلد 1 صفحہ 509 جبلۃ بن ثعلبۃؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)،(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 450 رخیلۃ بن ثعلبۃؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
پھر حضرت جابر بن عبداللہ بن رئاب ایک صحابی تھے۔ حضرت جابر کو ان چھ آدمیوں میں بیان کیا جاتا ہے جو انصار میں سب سے پہلے مکہ میں اسلام لائے۔ حضرت جابر بدر اور احد اور خندق اور تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمرکاب تھے، ساتھ شامل ہوئے۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیثیں بھی بیان کی ہیں۔(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 431 جابر بن عبد اللہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
بیعت عقبہ اولیٰ میں انصار میں سب سے پہلے جو اسلام لائے وہ یہی ہیں۔ انصار کے چند لوگوں کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عقبہ اولیٰ کی رات جب ملاقات ہوئی تو آپ نے پوچھا کہ تم کس قبیلہ سے ہو اس کے بعد انہوں نے پوری تفصیل اپنی بیان کی اور یہ قبیلہ بنو نجار کے چھ آدمی تھے۔ اسعد بن زُرارہ اور عوف بن حارث بن رفاعہ بن عفراء اور رافع بن مالک بن عجلان اور قطبہ بن عامر بن حدیدۃ اور عقبہ بن عامر بن نابی بن زید اور جابر بن عبداللہ بن رئاب۔ یہ سب لوگ مسلمان ہو گئے تھے۔ جب یہ لوگ مدینہ آئے تو انہوں نے مدینہ والوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا اور پھر وہاں تبلیغ کی۔ (اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 492 جابر بن عبد اللہ بن رئابؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)
حضرت ثابت بن اقرم بن ثعلبہ ایک بدری صحابی تھے۔ ان کا نام حضرت ثابت بن اقرم بن ثعلبہ بن عدی بن عجلان تھا۔ انصاری قبیلہ بنو عمرو بن عوف کے حلیف تھے۔ آپ بدر سمیت تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ شریک رہے۔(الاستیعاب جلد 1 صفحہ 199 ثابت بن اقرمؓ مطبوعہ دار الجیل بیروت 1992ء)
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو عاصم بن عدی کو مسجد دی کہ وہ اس میں اپنا گھر بنائیں مگر عاصم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ میں اس مسجد کو گھر نہیں بناؤں گا جس میں اللہ تعالیٰ نے جو اتارنا تھا اس کو اتارا ہے۔ البتہ آپ اس کو ثابت بن اقرم کو دے دیں کیونکہ اس کے پاس کوئی گھر نہیں ہے تو آپؐ نے حضرت ثابت بن اقرم کو یہ جگہ عطا فرما دی۔ ان کے ہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی۔(سبل الہدیٰ والرشاد جلد 5صفحہ 677 باب ذکر امر مسجد الضرار … الخ مطبوعہ القاہرہ 1992ء)
غالباً یہ جگہ جو دی تھی وہ مسجد کا حصہ ہو گی یا اس کے قریب ترین جگہ ہو گی اور کسی وقت میں وہاں نمازیں بھی پڑھی جاتی ہوں گی بہرحال ترجمہ کرنے والوں نے جو ترجمہ کیا ہے میرے خیال میں ٹھیک نہیں ہے۔ بعض باتوں کی وضاحت ہوتی ہے اس لئے ریسرچ سیل والے جو یہ نوٹس بھجواتے ہیں اس کو ذرا تحقیق کر کے صحیح طرح بھیجا کریں۔ صرف سکول کے بچوں کی طرح ترجمے نہ کر دیا کریں۔
پھر جنگ موتہ میں حضرت عبداللہ بن رواحہ کی شہادت کے بعد اسلامی جھنڈا حضرت ثابت بن اقرم نے اٹھایا اور کہا کہ اے مسلمانوں کے گروہ! اپنے میں سے کسی ایک شخص کو اپنا سردار مقرر کرو۔ لوگوں نے کہا ہم آپ کو مقرر کرنا چاہتے ہیں۔ آپ نے کہا کہ میں ایسا نہیں کر سکتا۔ اس پر لوگوں نے حضرت خالد ؓبن ولید کو اپنا سردار مقرر کر لیا۔ ابن ہشام کی سیرۃ النبیؐ میں اس کا ذکر ہے۔(سیرت ابن ہشام صفحہ 533 باب ذکر غزوہ موتہ … الخ مطبوعہ دار ابن حزم بیروت 2009ء)
تاریخ میں آتا ہے کہ جنگ موتہ کے موقع پر جب مسلمانوں نے دشمن کا لشکر دیکھا تو اس کی تعداد اور سازو سامان کو دیکھ کر انہوں نے گمان کیا کہ اس لشکر کا کوئی مقابلہ نہیں۔ تو حضرت ابوہریرۃؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے جنگ موتہ میں شرکت کی۔ جب دشمن ہمارے قریب آیا تو ہم نے دیکھا کہ تعداد، اسلحہ، گھوڑوں اور سونے اور ریشم وغیرہ میں اس کا مقابلہ کرنا کسی کے بس میں نہیں ہے۔ یہ دیکھ کر میری آنکھیں چندھیا گئیں۔ اس پر حضرت ثابت بن اقرم نے مجھ سے کہا کہ اے ابوہریرہ! تیری حالت ایسی لگتی ہے جیسے تو نے کوئی بہت بڑا لشکر دیکھ لیا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں میں نے کہا ہاں۔ اس پر حضرت ثابت نے کہا کہ تم ہمارے ساتھ بدر میں شامل نہیں ہوئے۔ ہمیں وہاں بھی کثرت تعداد کے ذریعہ فتح نہیں ملی تھی۔ (سبل الہدیٰ والرشاد جلد 6 صفحہ 148 باب فی سریۃ موتہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1993ء)
بلکہ وہ تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ملی تھی اور یہاں بھی یہی ہو گا۔
حضرت ابوبکرؓکی خلافت میں حضرت خالد بن ولید کے ساتھ آپ مرتدین کی طرف روانہ ہوئے۔ حضرت خالد بن ولید لوگوں کے مقابلہ پر روانہ ہوتے وقت اگر اذان سنتے تو حملہ نہ کرتے اور اگر اذان نہ سنتے تو حملہ کر دیتے۔ جب آپؓ اس قوم کی طرف پہنچے جو بُزاخہ مقام میں تھی تو آپ نے حضرت عکاشہ بن محصن اور حضرت ثابت بن اقرم کو مخبر بنا کر بھیجا کہ دشمن کی خبر لائیں اور وہ دونوں گھوڑوں پر سوار تھے۔ حضرت عکاشہ کے گھوڑے کا نام الزرام تھا اور حضرت ثابت کے گھوڑے کا نام المحبرتھا۔ بہرحال ان دونوں کا سامنا طلیحہ اور اس کے بھائی سلمہ سے ہوا۔ یہ انہی کی طرح مخبری کرنے کے لئے آگے آئے ہوئے تھے ، اپنےلشکر سے آگے آئے ہوئے تھے۔ طلیحہ کا سامنا حضرت عکاشہ سے ہوا اور سلمہ کا حضرت ثابت سے۔ اور یہ جو بھائی تھے ان دونوں نے ان دونوں صحابہ کو شہید کر دیا۔ ابوواقد لَیثی سے ایک روایت ہے کہ ہم دو سو سوار لشکر کے آگے آگے چلنے والے تھے اور زید بن خطاب ہمارے امیر تھے اور ثابت اور عکاشہ ہمارے آگے تھے۔ جب ہم لوگ ان کے پاس سے گزرے تو ہمیں یہ منظر شدید ناگوار گزرا۔ (ان کی شہادت کے بعد جب پیچھے سے یہ لشکر گزرا۔) حضرت خالدؓ اور باقی مسلمان ہمارے پیچھے تھے۔ ہم ان مقتولوں کے پاس کھڑے رہے، یہ جو شہید ہوئے تھے یہاں تک کہ حضرت خالدؓ آئے اور ان کے حکم سے ہم نے ثابت اور عکاشہ کو ان کے خون آلود کپڑوں میں وہیں دفن کردیا۔(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 355-356 ثابت بن اقرمؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
روایت میں آتا ہے کہ جب طلیحہ مسلمان ہوئے تو حضرت امیر المومنین عمرؓ نے ان سے فرمایا کہ میں تم سے محبت نہیں کروں گا تم دو مسلمان حضرت عکاشہ اور حضرت ثابت بن اقرم کے شہید ہونے کی وجہ ہو۔ یہ شہید کرنے والے جو تھے بعد میں مسلمان بھی ہو گئے تو ان کو حضرت عمرؓ نے یہ جواب دیا کہ تمہارے سے محبت نہیں مجھ کو ہو سکتی کیونکہ تم دو مسلمانوں کو شہید کرنے والے ہو۔ اس پر طلیحہ نے کہا کہ یا امیر المومنین! ان کو تو اللہ تعالیٰ نے میرے ہاتھوں سے عزت عطا فرمائی ہے۔ (سنن الکبریٰ للبیہقی جلد 8 صفحہ 580-581 کتاب الاشربۃ باب قتال اھل الردۃ و … الخ حدیث 17631 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)
ان کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ محمد بن عمر کہتے ہیں کہ حضرت ثابت کو طلیحہ نے بارہ ہجری میں بُزاخہ کے مقام پر شہید کیا۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 355-356 ثابت بن اقرمؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
پھر حضرت سلمہ بن سلامہ بدری صحابی تھے۔ انصاری تھے اور قبیلہ اوس کے خاندان بنو اشھل سے ان کا تعلق تھا۔ جب مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی خبر پہنچی تو آپ ان اولین لوگوں میں سے تھے جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تھے۔(سیر الصحابہ جلد 3 صفحہ 391 سلمہ بن سلامہؓ مطبوعہ دار الاشاعت کراچی2004ء)
آپ بیعت عقبہ اولیٰ اور ثانیہ دونوں میں شامل ہوئے اور نیز آپ کو بدر سمیت تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شمولیت کی سعادت حاصل ہوئی۔ حضرت عمرؓ نے آپ کو اپنے دور خلافت میں یمامہ کا حکمران مقرر فرمایا۔(اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 523 سلمۃ بن سلامۃؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)
عمر بن قتادہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمہ بن سلامہ اور حضرت ابوسبرۃ بن ابی رُھَم کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی لیکن ابن اسحاق کے نزدیک سلمہ بن سلامہ اور حضرت زبیر بن العوام کے درمیان مؤاخات قائم ہوئی۔(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 335 سلمۃ بن سلامۃؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
آپ اپنے بچپن کا ایک واقعہ خود بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ جب کہ میں چھوٹی عمر کا تھا اور اپنے خاندان کے چند آدمیوں میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک یہودی عالم وہاں آ گیا اور اس نے ہمارے سامنے قیامت اور حساب اور میزان اور جنت اور دوزخ کا ذکر شروع کر دیا اور کہنے لگا کہ مشرک اور بت پرست جہنم میں ڈالے جائیں گے۔ آپ کے خاندان کے لوگ چونکہ بت پرست تھے اس لئے وہ اس حقیقت کو نہیں سمجھتے تھے کہ مرنے کے بعد لوگ دوبارہ زندہ کئے جائیں گے۔ ان لوگوں نے اس یہودی عالم سے پوچھا کہ کیا واقعی لوگ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جائیں گے؟ اور اپنے اعمال کا بدلہ پائیں گے۔ آخرت کی زندگی کا ان کو کوئی تصور نہیں تھا۔ اس نے کہا کہ ہاں۔ انہوں نے پوچھا کہ اس کی نشانی کیا ہے؟ اس پر اس نے مکہ اور یمن کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ اس جگہ سے ایک نبی آئے گا۔ اس پر ان لوگوں نے پوچھا کہ وہ کب آئے گا؟ تو اس نے میری طرف اشارہ کیا۔ کہتے ہیں میں بچہ تھا، چھوٹا تھا میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر اس لڑکے نے عمر پائی تو یہ ضرور اس نبی کو دیکھے گا۔ حضرت سلمہ کہتے ہیں کہ اس واقعہ کو کچھ سال ہی گزرے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی ہمیں اطلاع ملی اور ہم سب ایمان لے آئے، یہ جو بت پرست تھے آگ پرست تھے سب ایمان لے آئے۔ کہتے ہیں اس وقت وہ یہودی عالم بھی زندہ تھا مگر حسد کی وجہ سے وہ ایمان نہیں لایا اور ہم نے اس کو کہا کہ تم ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی خبریں سنایا کرتے تھے اب خود ہی ایمان نہیں لائے۔ اس پر اس نے کہا کہ یہ وہ نبی نہیں ہے جس کا میں نے ذکر کیا تھا۔ کہتے ہیں کہ آخر وہ شخص اسی طرح کفر کی حالت میں مر گیا۔
حضرت عثمان کے زمانے میں جب فتنوں نے سر اٹھایا تو آپ نے عزلت نشینی اختیار کر لی اور اپنے آپ کو عبادت الٰہی کے لئے وقف کر دیا۔(رحمت دارین کے سو شیدائی صفحہ 574 تا 576 ، طالب الہاشمی البدر پبلیکیشنز لاہور 2003ء)
یعنی کہ گوشہ نشین ہو گئے کیونکہ فتنے اس وقت کافی بڑھ رہے تھے اور صرف عبادت الٰہی کیا کرتے تھے۔ ان کی وفات کے بارے میں اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں 34ہجری میں وفات ہوئی بعض کہتے ہیں 45 ہجری میں وفات ہوئی۔ ان کی عمر 74 سال تھی جب ان کی وفات ہوئی اور مدینہ میں ہی وفات ہوئی۔ (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ جلد 3 صفحہ 125، سلمۃ بن سلامۃ بن وقش، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2005ء)
پھر حضرت جبر بن عتیک ایک بدری صحابی تھے۔ غزوہ بدر اور تمام غزوات میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ یہ شریک تھے۔ مدینہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک وہیں رہے۔ حضرت جبر بن عتیک کی کنیت عبداللہ تھی۔ اولاد میں دو بیٹے عتیک اور عبداللہ اور ایک بیٹی ام ثابت تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبر بن عتیک اور خباب بن الارت کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی۔ فتح مکہ کے موقع پر بنومعاویہ بن مالک کا جھنڈا آپ کے پاس تھا۔ حضرت جبر بن عتیک کی وفات 61ہجری میں یزید بن معاویہ کی خلافت میں اکہتر سال کی عمر میں ہوئی، دَور میں کہنا چاہئے خلافت نہیں تھی۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 357، جبر بن عتیک، دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
ایک صحابی کا نام حضرت ثابت بن ثعلبہ تھا۔ ان کو ثابت بن جزع بھی کہا جاتا ہے۔ ستر انصار کے ساتھ عقبہ ثانیہ میں حاضر ہوئے۔ غزوۂ بدر، احد اور خندق، حدیبیہ اور خیبر اور فتح مکہ اور غزوہ طائف میں آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے۔ غزوہ طائف شہید ہوئے۔ حضرت ثابت اپنے والد حضرت ثعلبہ کے ہمراہ غزوۂ بدر میں شامل ہوئے تھے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 428-429، ثابت بن ثعلبۃ، دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)، (اسد الغابۃ جلد 1 صفحہ 324،ثعلبۃ بن الحارث، دار الفکر النشر و التوزیع بیروت 2003ء)
پھر ایک صحابی حضرت سہیل بن وہب ہیں۔ ان کا نام حضرت سہیل بن وہب بن ربیعہ بن عمرو بن عامر قریشی تھا۔ ان کی والدہ کا نام دعد تھا مگر وہ بیضاء کے نام سے مشہور تھیں۔ اس لئے آپ بھی ابن بیضاء کے نام سے مشہور ہوئے۔ چنانچہ کتب میں آپ کا نام سہیل بن بیضاء بھی ملتا ہے۔ ان کا تعلق قبیلہ قریش کے خاندان بنو فِھْر سے تھا۔(الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ جلد 3 صفحہ 162، سھل بن بیضاء القرشی، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2005ء)،(اسد الغابۃ جلد 2 صفحہ 344، ثعلبۃ بن الحارث، دار الفکر النشر و التوزیع بیروت 2003ء)
ابتدائی زمانے میں یہ اسلام لائے۔ اسلام لانے کے بعد حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے۔ وہاں عرصہ تک مقیم رہے۔ جب اسلام کی اعلانیہ تبلیغ ہونے لگی تو مکہ واپس آ گئے اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مدینہ گئے۔(سیر الصحابۃؓ جلد 2 صفحہ 577 سھیل بن بیضاء ، دار الاشاعت کراچی)
حضرت سہیل کے ساتھ ان کے دوسرے بھائی حضرت صفوان بن بیضاء بھی غزوۂ بدر میں شامل ہوئے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 318، صفوان بن بیضاء، دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
جب آپ غزوۂ بدر میں شامل ہوئے اس وقت آپ کی عمر 34 سال تھی۔ غزوہ احد اور خندق اور تمام غزوات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے۔ ان کے تیسرے بھائی سہل مشرکین کی طرف سے غزوۂ بدر میں شامل ہوئے۔ علامہ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں کہ سہل مکہ میں اسلام لائے لیکن کسی سے اپنا مسلمان ہونا ظاہر نہیں کیا۔ قریش انہیں بدر میں ساتھ لے گئے اور پھر وہ گرفتار ہوئے تو حضرت ابن مسعود نے ان کے بارے میں گواہی دی کہ میں نے انہیں مکہ میں نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ اس پر وہ آزاد کر دئیے گئے پھر مدینہ میں ان کی وفات ہوئی اور آپ کا اور حضرت سہیل کا جنازہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں پڑھایا۔
حضرت سہیل بن بیضاء روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ تبوک کے سفر میں انہیں سواری پر پیچھے بٹھایا ہوا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز سے فرمایا اے سہیل! اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ یوں فرمایا تو ہر مرتبہ حضرت سہیل نے عرض کیا لبیک یا رسول اللہ۔ یہاں تک کہ لوگوں نے بھی جان لیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان سے مراد ہے۔ اس پر جو لوگ آگے تھے وہ آپ کی طرف لپکے اور جو پیچھے تھے وہ بھی آپ کے قریب ہو گئے۔ یہ بھی لوگوں کو بلانے کا، متوجہ کرنے کا انداز تھا۔ جب لوگ اکٹھے ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور وہ اکیلا ہے اورا س کا کوئی شریک نہیں تو ایسے شخص پر اللہ آگ کو حرام کر دے گا۔ (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ جلد 3 صفحہ 162-163، سھل بن بیضاء القرشی، دار الکتب العلمیۃ بیروت 1995ء)،(الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ جلد 3 صفحہ 176، سھیل بن السمط، دار الکتب العلمیۃ بیروت 1995ء)،(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 317، سھیل ابن بیضاء، دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
اب یہ تاریخ کی کتاب ہے اور یہ مسلمان پڑھتے ہیں کہ یہ مسلمان ہونے کی بھی ایک تعریف ہے لیکن ان کے عمل اس کے خلاف ہیں اور اس بات پر جو ان کے فتوے ہیں وہ بھی ان باتوں کے خلاف ہیں۔
حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ ہمارے پاس کوئی شراب نہ ہوتی تھی سوائے تمہاری فضیخ یعنی کھجور کی شراب کے۔ یہی وہ شراب تھی جس کو تم فضیخ کہتے ہو۔ کہتے ہیں مَیں ایک دفعہ کھڑا ابوطلحہ اور فلاں فلاں کو شراب پلا رہا تھا کہ اتنے میں ایک شخص آیا اور اس نے کہا کیا تمہیں خبر پہنچی ہے؟ کہنے لگا کیا خبر؟ اس نے کہا کہ شراب حرام کی گئی ہے۔ وہ لوگ جن کو یہ شراب پلا رہے تھے حضرت انس کو کہنے لگے کہ انس یہ مٹکے انڈیل دو۔ کہتے تھے پھر انہوں نے اس شخص کی خبر دینے کے بعد اس شراب سے متعلق پوچھا اور نہ کبھی اس کو دوبارہ پیا۔ (صحیح البخاری کتاب التفسیر باب انما الخمر و المیسر…حدیث 4617)
ایک حکم آیا اور اس کے بعد ایسی اطاعت تھی کہ دوبارہ پھر اس شراب کا ذکر بھی نہیں ہوا۔ ایک دوسری حدیث سے ثابت ہے کہ حضرت ابوطلحہ کے ساتھ حضرت ابودجانہ اور حضرت سہیل بن بیضاء تھے جو اس وقت شراب پی رہے تھے۔(صحیح البخاری کتاب الاشربۃ باب من رأی ان لا یخلط البسر…حدیث 5600)
غزوہ تبوک سے واپسی پر 9ہجری میں ان کی وفات ہوئی اور ان کی نماز جنازہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی میں پڑھائی اور وفات کے وقت ان کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 317، سھیل ابن بیضاء، دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
حضرت عباد بن عبداللہ بن زبیر سے روایت ہے کہ حضرت عائشہؓ نے ارشاد فرمایا کہ حضرت سعد بن ابی وقاص کا جنازہ مسجد سے گزارا جائے یعنی کہ مسجد میں لایا جائے تاکہ وہ بھی ان کی نماز جنازہ پڑھ لیں۔ لوگوں نے حضرت عائشہ کی اس بات کو اوپرا جانا کہ یہ عجیب بات کر رہی ہیں تو حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ لوگ کتنی جلدی بھول جاتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سہیل بن بیضاء کی نماز جنازہ مسجد میں ہی پڑھی تھی۔ (مترجم صحیح مسلم کتاب الجنائز باب الصلاۃ علی الجنازۃ فی المسجد حدیث 1603 جلد4 صفحہ 135از نور فاؤنڈیشن )
ان کا خیال تھا کہ کھلی جگہ پر پڑھنی چاہئے تو اس کی اصلاح حضرت عائشہؓ نے فرمائی کہ مسجد میں نماز جنازہ پڑھی جا سکتی ہے۔
حضرت طفیل بن حارث ایک صحابی تھے۔ حضرت طفیل اپنے بھائی حضرت عبیدہ اور حضرت حصین کے ساتھ غزوہ بدر، احد، خندق اور تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ شریک رہے۔(اسد الغابۃ جلد 2 صفحہ 466، طفیل بن الحارث، دار الفکر النشر و التوزیع بیروت 2003ء)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت طفیل بن حارث کی مؤاخات حضرت منذر بن محمد اور بعض روایات کے مطابق حضرت سفیان بن نسر سے قائم فرمائی۔ حضرت طفیل کی وفات ستر سال کی عمر میں 32 ہجری کو ہوئی۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 38، الطفیل بن الحارث، دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
پھر ایک صحابی حضرت ابو سلیط اُسَیرہ بن عمروؓ ہیں۔ اُسَیرۃ بن عمرو ان کا نام تھا اور کنیت ابو سلیط تھی اور ابوسلیط کے نام سے زیادہ مشہور ہیں۔ ان کے والد عمرو بھی ابو خارجہ کنیت سے معروف ہیں۔ بدر اور دیگر غزوات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ رہے۔(اصحاب بدر از قاضی محمد سلیمان منصورپوری صفحہ 131، مکتبہ اسلامیہ 2015ء)
آپ خزرج کی شاخ عدی بن نجار سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے والد ابو خارجہ عمرو بن قیس بھی صحابی تھے۔(صحابہ کرام کا انسائکلوپیڈیا از ڈاکٹر ذوالفقار کاظم صفحہ 508، ابوسیلط اسیرۃ بن عمرو ، بیت العلوم لاہور )
جنگ بدر میں شریک ہوئے۔ آپ کے بیٹے عبداللہ نے آپ سے روایت کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرما دیا تھا اور اس وقت دیگیں چڑھی ہوئی تھیں جن میں گدھے کا گوشت پک رہا تھا تو ہم لوگوں نے ان دیگوں کا الٹ دیا۔ (اسد الغابۃ جلد 5صفحہ 156، ابو سلیط الانصاری، دار الفکر النشر و التوزیع بیروت 2003ء)
حضرت ثعلبہ بن حاطب انصاری ایک صحابی تھے۔ ان کا تعلق بنو عمرو بن عوف سے تھا۔ غزوۂ بدر اور احد میں یہ شریک ہوئے۔(اصحاب بدر از قاضی محمد سلیمان منصورپوری صفحہ 136، مکتبہ اسلامیہ 2015ء)
جیسا کہ بتایا قبیلہ اوس کی شاخ بنو عمرو بن عوف سے تعلق تھا۔ غزوہ بدر اور بعض دوسرے غزوات میں بھی ان کی شرکت کی روایات ملتی ہیں۔ (صحابہ کرام کا انسائیکلوپیڈیا از ڈاکٹر ذوالفقار کاظم صفحہ 450، ثعلبۃ بن حاطب انصاری، بیت العلوم لاہور )
حضرت اُمامہ باھلی بیان کرتے ہیں کہ ثعلبہ بن حاطب انصاری نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر یہ عرض کی کہ اے اللہ کے رسول اللہ سے دعا کریں کہ وہ مجھے مال عطا کرے۔ آپؐ نے اس پر فرمایا کہ افسوس کی بات ہے کہ بہت تھوڑے ہیں جو شکر کرتے ہیں اور مال کو سنبھالنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ دعا نہیں کی کچھ دیر کے بعد پھر وہ آئے اور عرض کی کہ دعاکریں مجھے مال عطا ہو جائے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تیرے لئے میرا اسوۂ حسنہ کافی نہیں ہے جو مال کی خواہش کر رہے ہو؟ آپؐ نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر میں پہاڑ کو کہوں کہ وہ میرے لئے سونے اور چاندی کا بن جائے تو ایسا ہی ہو جائے لیکن آپؐ نے کہا میں ایسا نہیں کرتا۔ مال سے زیادہ رغبت نہیں رکھنی چاہئے۔ پھر تیسری دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور پھر اسی طرح عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے دعا کریں کہ مجھے مال عطا ہو۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی کہ ثعلبہ کو مال عطا کر دے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ ان کی چند بکریاں تھیں اور اس کے بعد اس میں اتنی برکت پڑی اور اس طرح وہ بڑھیں جس طرح کیڑے مکوڑے بڑھتے ہیں۔اور پھر یہ ہوا کہ ان کو سنبھالنے کے لئے انہوں نے ظہر عصر کی نمازوں پر بھی مسجد میں آنا چھوڑ دیا اور وہیں پھر پڑھنے لگے۔ اَور زیادہ بڑھ گئیں تو جمعہ پہ بھی نہیں آتے تھے۔ جمعہ پہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کا احوال پوچھا کرتے تھے تو ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ثعلبہ کے بارے میں پوچھا تو لوگوں نے کہا کہ اس کے پاس بکریوں کا اتنا بڑا ریوڑ ہے کہ پوری وادی بھری ہوئی ہے اس لئے ان کو سنبھالنے میں وقت لگ جاتا ہے، وہ نہیں آتے۔ بہرحال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر بڑے افسوس کا اظہار کیا۔ تین دفعہ افسوس کا اظہار کیا۔ پھر جب زکوٰۃ کی آیات نازل ہوئیں تو آپ نے زکوٰۃ لینے کے لئے دو آدمیوں کو بھیجا۔ یہ لوگ جب ثعلبہ کے پاس گئے تو انہوں نے کچھ بہانہ بنایا اور زکوٰۃ نہیں دی۔ انہوں نے کہا اچھا میں سوچتا ہوں۔ تم لوگ باقی جگہوں پہ زکوٰۃ لینے جا رہے ہو، وہاں سے ہو کے واپس آؤ۔ یہ لوگ اور جگہوں پر گئے اور دوسری جگہ جہاں گئے تھے ایک شخص نے اپنے بہترین اونٹوں میں سے زکوٰۃ دی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے بہترین تو نہیں مانگا تھا انہوں نے کہا نہیں ہم اپنی خوشی سے دے رہے ہیں۔ بہرحال یہ ایک لمبا قصہ ہے اور انہوں نے زکوٰۃ نہیں دی اور زکوٰۃ اکٹھی کرنے والے جولینے کے لئے گئے تھے انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آ کر جب یہ رپورٹ دی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اس وقت یہ آیات اتریں کہ وَمِنْھُمْ مَّنْ عَاھَدَ اللہَ لَئِنْ اٰتَانَامِنْ فَضْلِہٖ اور پھر یہ وَبِمَا کَانُوْا یَکْذِبُوْنَ (التوبہ 75-77) تک سورۃ توبہ کی پچھتر سے ستتر تک آیات ہیں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت ثعلبہ کا ایک عزیز بیٹھا ہوا تھا۔ یہ بات سن کر وہ ثعلبہ کے پاس گیا اور کہا اے ثعلبہ تجھ پر افسوس ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تیرے بارے میں فلاں فلاں آیت نازل کی ہے۔ ثعلبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جا کر عرض کرنے لگا کہ مجھ سے زکوٰۃ قبول کی جائے۔ آپؐ نے فرمایا کہ اب تجھ سے وصول کرنے کا اللہ تعالیٰ نے مجھے منع کر دیا ہے۔ چنانچہ واپس ناکام و نامراد گیا۔ پھر حضرت ابوبکرؓ کے زمانے میں وہ زکوٰۃ لے کے آئے حضرت ابوبکرؓ نے بھی قبول نہیں کی۔ حضرت عمرؓ کے زمانے میں آئے انہوں نے بھی قبول نہیں کی کہ جس بات کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول نہیں کیا میں کس طرح قبول کر سکتا ہوں۔ پھر حضرت عثمانؓ جب خلیفہ بنے تو ان کے پاس آ کر کہنے لگے میری زکوٰۃ قبول کریں تو یہ قبول نہیں کی گئی اور حضرت عثمانؓ کے زمانے میں ہی ان کی وفات ہو گئی۔(اسد الغابۃ جلد 1 صفحہ 325-326،ثعلبۃ بن حاطب، دار الفکر النشر و التوزیع بیروت 2003ء)
اب یہ واقعہ جو ہے یہ ساتھ ایک طرف بدری صحابہ کے بارے میں ہے کہ وہ جنت میں جانے والے ہیں۔ دوسری طرف زکوٰۃ قبول نہ کرنے کے بارے میں یہ ایک لمبی روایت چل رہی ہے۔ میرے دل میں بھی خیال پیدا ہوا تھا اس کو سن کے، پڑھ کے، آپ لوگوں کے دلوں میںبھی ہوا ہو گا کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے؟ لگتا ہے کہ یہ روایت غلط ہے، کسی اور کے بارے میں ہو گی۔ چنانچہ علامہ ابن حجر عسقلانی نے اس واقعہ کا ذکر کیا ہے۔ انہوں نے بھی اس کو اپنی رائے ظاہر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اگر یہ صحیح ثابت ہو جائے کہ کسی صحابی سے زکوٰۃ لینے کا اور نہ لینے کا یہ واقعہ اس طرح ہی ہوا تھا، تو پھر اس قصہ والی شخصیت کے بارے میں میرے خیال میں اسے حضرت ثعلبہ کی طرف منسوب کرنا صحیح نہیں ہوگا کیونکہ آپ بدری صحابی تھے اور بدری صحابہ کے بارے میں تو اللہ تعالیٰ نے کھلا بخشش کا اعلان فرمایا ہوا ہے اور ان میں منافقت اور کسی قسم کی کمزوری نہیں ہو سکتی تھی۔ علامہ ابن حجر عسقلانی یہ لکھتے ہیں کہ ابن قلبی کے قول سے اس بات میں فرق یقینی ہو جاتا ہے کہ بدری صحابی احد میں شہید ہو گئے جس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ ابن مردویہ نے عطیہ کی سند سے بحوالہ ابن عباس مذکورہ آیت کے متعلق اپنی تفسیر میں نقل کیا ہے جو فرماتے ہیں کہ ایک شخص تھا جسے ثعلبہ بن ابی حاطب کہا جاتا تھا وہ انصار میں سے تھا ان کی ایک مجلس میں آ کر کہنے لگا کہ اگر اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے فضل سے نوازے پھر، یہ سارا طویل قصہ جو بیان ہے بیان کیا۔ یہ ثعلبہ بن ابی حاطب ہے اور بدری صحابی کے متعلق سب کا اتفاق ہے کہ وہ ثعلبہ بن حاطب ہیں اور یہ روایت پایہ ثبوت تک پہنچی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جو لوگ بدر اور حدیبیہ میں شریک تھے ان میں سے کوئی مسلمان بھی جہنم میں نہیں جائے گا۔ نیز وہ ایک حدیث قدسی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل بدر سے فرمایا جو چاہے کرو، مَیں نے تمہاری مغفرت کر دی۔ تو یہ لکھتے ہیں کہ جس کا یہ مرتبہ ہو اسے اللہ تعالیٰ دل میں نفاق کا بدلہ کیسے دے گا؟ دل میں اگر نفاق ہے تو یہ نہیں ہو سکتا کہ جنت میں جانے کا بدلہ ملے۔ پھر لکھتے ہیں کہ اور جو کچھ نازل ہوا اس کے متعلق کیسے نازل ہو سکتا ہے جس کے دل میں نفاق ہو! لہٰذا یہ بات ظاہر ہو گئی کہ وہ اس شخصیت کے علاوہ ہیں۔(الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ جلد 1صفحہ 516-517، ثعلبۃ بن حاطب، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2005ء)
یعنی حضرت ثعلبہ جو تھے وہ نہیں تھے یہ اَور تھے۔ یہ پہلے شہید ہو گئے تھے۔ اور جس کا ذکر ہے وہ ثعلبہ بن ابی حاطب ہے۔ اب نام ملتے جلتے ہیں اس لئے یہ غلط فہمی ہوئی۔ اس لئے ثعلبہ بن حاطب اور ثعلبہ بن ابی حاطب دو مختلف شخصیتیں ہیں۔ پس یہ غلط فہمی کسی بدری صحابی کے بارے میں کبھی نہیں ہو سکتی کہ انہوں نے کوئی ایسی حرکت کی ہو گی۔ اللہ جزا دے علامہ ابن حجر عسقلانی کو کہ انہوں نے بھی اس مسئلہ کو بڑا کھول کے بیان کر دیا اور اس بدری صحابی پہ جو الزام لگ رہا تھا ان کی اس تاریخی روایت سے ہی ان کی بریت ثابت ہوگئی۔
پھر ایک صحابی حضرت سعد بن عثمان بن خلدۃ انصاری ہیں۔ بعض کے نزدیک ان کا نام سعید بن عثمان ہے۔ غزوہ بدر میں شامل ہوئے۔ ان اشخاص میں سے ہیں جن کے پاؤں جنگ احد میں اکھڑ گئے تھے اور پھر اللہ تعالیٰ نے ان سب کی معافی کو قرآن کریم میں نازل فرمایا۔ آپ حضرت عقبہ کے بھائی تھے۔ ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حَرَّہ کے مقام پر بئر اِھاب پر تشریف لائے جو ان دنوں آپ کی یعنی کہ ان صحابی کی ملکیت تھا جہاں آپ اپنے بیٹے عبادہ کو چھوڑ گئے تھے تا کہ وہ لوگوں کو پانی پلائیں۔ حضرت عبادہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ پہچان پائے۔ جو چھوٹے بیٹے تھے۔ بعد میں جب حضرت سعد آئے تو عبادہ نے آنے والی شخصیت کا حلیہ بیان کیا تو حضرت سعد نے کہا کہ یہی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے جن کو تم نے پہچانا نہیں۔ جاؤ جا کے ملو ان سے، فوری دوڑ کے جاؤ پیچھے۔ چنانچہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سر پر ہاتھ پھیر کر دعا دی۔ حضرت سعد بن عثمان کی 80 سال کی عمر تھی جب ان کی وفات ہوئی۔ (اصحاب بدر از قاضی محمد سلیمان منصورپوری صفحہ 148،سعد بن عثمان، مکتبہ اسلامیہ 2015ء)، (اسد الغابۃ جلد 2صفحہ 263،سعید بن عثمان، دار الفکر النشر و التوزیع بیروت 2003ء)، (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ جلد 3 صفحہ 58، سعد بن عثمان بن خلدۃ، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2005ء)
پھر ایک صحابی حضرت عامر بن امیہ ہیں۔ حضرت ھشام بن عامر کے والد تھے۔ بدر میں شامل تھے اور احد میں شہید ہوئے۔ قبیلہ بنو عدی بن نجار میں سے تھے۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 389 عامر بن امیہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
حضرت ھشام بن عامر سے روایت ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے احد کے شہداء کو دفنانے کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپؐ نے فرمایا کہ وسیع قبر کھودو اور دو یا تین کو ایک قبر میں اتار دو۔ فرمایا کہ جس کو قرآن زیادہ آتا ہو اس کو پہلے اتارو۔ حضرت ھشام بن عامر بیان کرتے ہیں کہ میرے والد عامر بن امیہ کو دو آدمیوں سے پہلے قبر میں اتارا گیا۔(سنن الترمذی ابواب فضائل الجھاد ، ما جاء فی دفن الشھداء حدیث 1713)
حضرت عامر کے بیٹے ھشام بن عامر ایک مرتبہ حضرت عائشہؓ کے پاس گئے تو انہوں نے فرمایا کہ عامر کیا خوب شخص تھا۔ لیکن آپ کی پھر نسل نہیں چلی۔ (اسد الغابۃ جلد 3 صفحہ 12، عامر بن امیۃ، دار الفکر النشر و التوزیع بیروت 2003ء)
حضرت عمرو بن ابی سرح ایک صحابی تھے اور واقدی نے ان کا نام معمر بن ابی سرح بیان کیا ہے۔ قبیلہ بنو حارث بن فہر میں سے تھے۔ ابوسعید ان کی کنیت تھی۔ تیس ہجری کو مدینہ منورہ میں حضرت عثمانؓ کے دور میں ان کی وفات ہوئی۔ ان کے بھائی حضرت وہب بن ابی سرح مہاجرین حبشہ میں سے تھے۔ دونوں بھائی غزوۂ بدر میں شامل ہوئے۔ غزوۂ احد اور غزوۂ خندق اور دیگر مشاہد میں بھی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ شریک ہوئے۔ ان کی نسل کوئی نہیں چلی۔ (اسد الغابۃ جلد 3صفحہ 724-725، عمرو بن ابی سرح، دار الفکر النشر و التوزیع بیروت 2003ء)
مکہ سے مدینہ ہجرت کی تو حضرت کلثوم بن ہدم کے مکان پر آ کر قیام کیا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 318، معمر بن ابی سرح، دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
پھر حضرت عصمہ بن حصین ایک صحابی تھے جو قبیلہ بنو عوف بن خزرج سے تھے۔ ان کے بھائی ھُبَیل بن وبرۃ اپنے دادا وبرۃ کی طرف منسوب ہیں۔ یہ اور ان کے بھائی بدر میں شامل ہوئے تھے۔ بعض نے آپ کے بدر میں شامل ہونے سے اختلاف کیا ہے۔ (اصحاب بدر از قاضی محمد سلیمان منصورپوری صفحہ 177، عصمہ بن الحصین،مکتبہ اسلامیہ 2015ء)
لیکن بہرحال بعض نے لکھا ہے کہ شامل ہوئے۔
حضرت خلیفہ بن عدیّ۔ ان کے نام کے بارے میں بھی اختلاف ہے۔ ان کانام بعض نے خَلیفہ بن عدی لکھا اور بعض نے عُلَیْفہ بن عدیّ۔ غزوۂ بدر اور غزوۂ احد دونوں میں شریک تھے۔ عُلَیْفہ بن عدی بن عمرو بن مالک بن عمرو بن مالک بن علی بن بیاضہ اصحاب بدر میں سے تھے۔ (اسد الغابۃ جلد 1 صفحہ 710-711 ،خلیفۃ بن عدی، دار الفکر النشر و التوزیع بیروت 2003ء)، (اصحاب بدر از قاضی محمد سلیمان منصورپوری صفحہ 179،علیفۃ بن عدی، مکتبہ اسلامیہ 2015ء)
غزوۂ بدر سے پہلے مشرف با اسلام ہوئے اور سب سے پہلے غزوۂ بدر میں شریک ہو کر بدری صحابی ہونے کی سعادت حاصل کی۔ اس کے بعد غزوۂ احد میں شریک ہوئے۔ غزوۂ احد کے بعد ان کا نام پردۂ اخفاء میں چلا جاتا ہے، ظاہر نہیں ہوتا، مزید کوئی معلومات نہیں ان کے بارے میں، اور حضرت علیؓ کے عہد خلافت میں منظر عام پر آتا ہے۔ بڑا لمبا عرصہ ان کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں، پھر علیؓ کے عہد خلافت میں پیش آنے والی تمام لڑائیوں میں یہ حضرت علیؓ کے ساتھ شریک ہوئے۔ اور وفات کے سال کے بارے میں بھی سیرت کی کتابوں میں کچھ نہیں ملتا۔ (حبیب کبریاؐ کے تین سو اصحاب از طالب الہاشمی صفحہ 221 ،خلیفۃ بن عدی،القمر انٹر پرائزز لاہور 1999ء)
حضرت معاذ بن ماعص کی واقعہ بئر معونہ میں شہادت ہوئی۔ ان کے والد کا نام ناعص بھی بیان ہوتا ہے۔ ان کا تعلق خزرج قبیلہ زرقی سے تھا۔ بعض روایت کے مطابق آپ غزوۂ بدر اور احد میں شریک تھے اور بئر معونہ کے موقعہ پر شہید ہوئے۔ ایک روایت کے مطابق آپ غزوۂ بدر میں زخمی ہو گئے تھے اور کچھ عرصہ بعد اسی زخم کی وجہ سے وفات پا گئے تھے۔(اسد الغابۃ جلد 5 صفحہ 196 ، معاذ بن ماعص، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2003ء)
آپ کے ساتھ آپ کے بھائی عائذ بن ماعص بھی غزوہ بدر میں شامل ہوئے تھے۔ (اسد الغابۃ جلد 3 صفحہ 147 عائذ بن ماعص، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2003ء)
صلح حدیبیہ کے بعد جب عُیَینہ بن حصن نے غطفان قبیلہ کے ساتھ جنگل میں چرنے والی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنیوں پر حملہ کیا اور حفاظت پر مامور ایک شخص کو قتل کر کے اونٹنیوں کو ہانک کر لے گیا اور شہید ہونے والے شخص کی بیوی کو بھی اٹھا کر لے گیا تب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کی اطلاع ملی تو آپؐ نے آٹھ سواروں کو دشمن کے تعاقب میں بھیجا۔ ان آٹھ سواروں میں حضرت معاذ بن ماعص بھی شامل تھے۔
اس موقع پر ایک روایت یہ بھی ہے کہ ان آٹھ سواروں میں حضرت ابوعیاش بھی شامل تھے۔ بھیجنے سے پہلے آپ نے حضرت ابوعیاش سے فرمایا کہ تم اپنا گھوڑا کسی اَور کو دے دو جو تم سے اچھا شہسوار ہے۔ ابوعیاش نے عرض کی کہ یا رسول اللہ میں ان سب سے بہتر شہسوار ہوں۔ کہتے ہیں یہ کہہ کر ابھی میں پچاس گز ہی چلا تھا کہ گھوڑے نے گرا دیا۔ ابوعیاش کہتے ہیں کہ اس پر میں بہت زیادہ فکر مند ہوا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے اگر تم اپنا گھوڑا کسی اور کو دے دو تو بہتر ہے جبکہ میں کہہ رہا تھا کہ میں ان سب سے بہتر ہوں۔ پھر بنو زریق کے لوگوں کا خیال ہے کہ اس کے بعد حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عیاش کے گھوڑے پر معاذ بن ماعص یا عائذ بن ماعص کو سوار کر دیا۔(تاریخ الطبری جلد 3 صفحہ 113 ، 115 ،غزوۃ ذی قرد، دار الفکر بیروت 2002ء) ،(سیرت ابن ہشام صفحہ 486 باب غزوہ ذی قرد مطبوعہ دار ابن حزم بیروت 2009ء)
حضرت سعد بن زید الاشھلی ایک صحابی تھے۔ ان کا تعلق انصار کے قبیلہ بنو عبدالاشھل سے تھا۔ غزوۂ بدر میں شریک ہوئے۔ بعض کا خیال ہے کہ بیعت عقبہ میں بھی شریک ہوئے۔ غزوۂ بدر، احد اور خندق سمیت تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئے۔ نبی کریم کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے ہاتھ بنو قریظہ کے قیدی بھیجے تھے۔ آپ نے ان کے بدلے میں نجد میں گھوڑے اور ہتھیار خریدے تھے۔ (اسد الغابۃ جلد 2 صفحہ 217-218 ، سعد بن زید بن مالک، دار الفکر النشر و التوزیع بیروت 2003ء)
روایت ہے کہ حضرت سعد بن زید نے ایک نجرانی تلوار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تحفہ میں دی تھی۔ آپؐ نے وہ تلوار حضرت محمد بن مسلمہ کو عنایت کر دی اور فرمایا تھا کہ اس سے اللہ کی راہ میں جہاد کرنا اور جب لوگ آپس میں اختلاف کرنے لگیں تو اس کو پتھر پر دے مارنا اور گھر میں گھس جانا (اسد الغابۃ جلد 2 صفحہ 216 ،سعد بن زید الاشھلی، دار الفکر النشر و التوزیع بیروت 2003ء)
یعنی کسی بھی قسم کے فتنہ اور فسادمیں شامل نہیں ہونا۔
اللہ کرے کہ ان باتوں پر عمل کرنے والے آجکل وہ مسلمان بھی ہوں جو ایک دوسرے کی گردنیں کاٹ رہے ہیں اور دنیا میں امن قائم ہو۔ اللہ تعالیٰ ان صحابہ کے درجات بلند کرتا چلا جائے اور ہمیں بھی نیکیاں کرنے اور قربانیاں کرنے اور اخلاص و وفا کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔
٭…٭…٭
’’ایک حدیث قدسی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل بدر سے فرمایا جو چاہے کرو ،مَیں نے تمہاری مغفرت کر دی۔‘‘
اطاعت، اخلاص اور وفا کے پیکر بدری اصحاب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سنان بن ابی سنان، حضرت مھجع ، حضرت عامر بن مخلد، حضرت حاطب بن عمرو بن عبد قیس عبد شمس، حضرت ابو خزیمہ بن اوس، حضرت تمیم مولیٰ خراش، حضرت منذر بن قدامہ، حضرت حارث بن حاطب، حضرت ثعلبہ بن زید، حضرت عقبہ بن وہب، حضرت حبیب بن اسود، حضرت عصیمہ انصاری، حضرت رافع بن حارث، حضرت رخیلہ بن ثعلبہ انصاری، حضرت جابر بن عبداللہ بن رئاب، حضرت ثابت بن اقرم بن ثعلبہ، حضرت سلمہ بن سلامہ، حضرت جبر بن عتیک، حضرت ثابت بن ثعلبہ، حضرت سہیل بن وہب، حضرت طفیل بن حارث، حضرت ابو سلیط اسیرہ بن عمرو، حضرت ثعلبہ بن حاطب انصاری، حضرت سعد بن عثمان بن خلدہ انصاری، حضرت عامر بن امیہ، حضرت عمرو بن ابی سرح، حضرت عصمہ بن حصین، حضرت خلیفہ بن عدی، حضرت معاذ بن ماعص، حضرت سعد بن زید الاشھلی کی سِیَر مبارکہ کا تذکرہ۔
’’ اللہ تعالیٰ ان صحابہ کے درجات بلند کرتا چلا جائے اور ہمیں بھی نیکیاں کرنے اور قربانیاں کرنے اور اخلاص و وفا کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔