رمضان اور ہماری ذمہ داریاں
خطبہ جمعہ 10؍ مئی 2019ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ٪﴿۷﴾
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ ﴿۱۸۴﴾ۙ اَیَّامًا مَّعۡدُوۡدٰتٍ ؕ فَمَنۡ کَانَ مِنۡکُمۡ مَّرِیۡضًا اَوۡ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنۡ اَیَّامٍ اُخَرَ ؕ وَ عَلَی الَّذِیۡنَ یُطِیۡقُوۡنَہٗ فِدۡیَۃٌ طَعَامُ مِسۡکِیۡنٍ ؕ فَمَنۡ تَطَوَّعَ خَیۡرًا فَہُوَ خَیۡرٌ لَّہٗ ؕ وَ اَنۡ تَصُوۡمُوۡا خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۱۸۵﴾ شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الۡہُدٰی وَ الۡفُرۡقَانِ ۚ فَمَنۡ شَہِدَ مِنۡکُمُ الشَّہۡرَ فَلۡیَصُمۡہُ ؕ وَ مَنۡ کَانَ مَرِیۡضًا اَوۡ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنۡ اَیَّامٍ اُخَرَ ؕ یُرِیۡدُ اللّٰہُ بِکُمُ الۡیُسۡرَ وَ لَا یُرِیۡدُ بِکُمُ الۡعُسۡرَ ۫ وَ لِتُکۡمِلُوا الۡعِدَّۃَ وَ لِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ہَدٰٮکُمۡ وَ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ ﴿۱۸۶﴾ وَ اِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیۡ عَنِّیۡ فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ ؕ اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۙ فَلۡیَسۡتَجِیۡبُوۡا لِیۡ وَ لۡیُؤۡمِنُوۡا بِیۡ لَعَلَّہُمۡ یَرۡشُدُوۡنَ ﴿۱۸۷﴾ (البقرہ: 184 تا 187)
ان آیات کا ترجمہ ہے کہ اے لوگوجو ایمان لائے ہو! تم پر (بھی) روزوں کا رکھنا (اسی طرح) فرض کیا گیا ہے جس طرح ان لوگوں پر فرض کیا گیا تھا جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں تا کہ تم تقویٰ اختیار کرو۔ (روحانی اور اخلاقی کمزوریوں سے) بچو۔ (سو تم روزے رکھو) چند گنتی کے دن۔ اور تم میں سے جو شخص مریض ہو یا سفرمیں ہو تو (اسے) اور دنوں میں تعداد (پوری کرنی) ہو گی اور ان لوگوں پر جو اس (یعنی روزے) کی طاقت نہ رکھتے ہوں (بطور فدیہ) ایک مسکین کا کھانا دینا (بشرطِ استطاعت) واجب ہے اور جو شخص پوری فرمانبرداری سے کوئی نیک کام کرے گا تو یہ اس کے لیے بہتر ہو گا اور اگر تم علم رکھتے ہو تو (سمجھ سکتے ہو) کہ تمہارے روزے رکھنا تمہارے لیے بہتر ہے۔
رمضان کا مہینہ وہ (مہینہ) ہے جس کے بارے میں قرآن (کریم) نازل کیا گیا۔ (وہ قرآن) جو تمام انسانوں کے لیے ہدایت (بنا کر بھیجا گیا) ہے یا جس میں قرآن کریم نازل کیا گیا ہےاور جو کھلے دلائل اپنے اندر رکھتا ہے۔ (ایسے دلائل) جو ہدایت پیدا کرتے ہیں اور اس کے ساتھ (قرآن میں) الٰہی نشان بھی ہیں۔ اس لیے تم میں سے جو شخص اس مہینے کو (اس حال میں ) دیکھے (کہ نہ مریض ہونہ مسافر) اسے چاہیے کہ اس کے روزے رکھے اور جو شخص مریض ہو یا سفر میں ہو تو اس پر اَور دنوں میں (تعداد پوری کرنی واجب) ہو گی۔ اللہ تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لیے تنگی نہیں چاہتا اور (یہ حکم اس نے اس لیے دیا ہے کہ تم تنگی میں نہ پڑو اور ) تاکہ تم تعداد کو پوری کر لو اور اس (بات) پر اللہ کی بڑائی کرو کہ اس نے تم کو ہدایت دی ہے اور تا کہ تم (اس کے) شکر گزار بنو۔ اور (اے رسول!) جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق پوچھیں (تو جواب دےکہ) میں (ان کے) پاس (ہی) ہوں۔ جب دعا کرنے والا مجھے پکارے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں۔ سوچاہیے کہ وہ (دعا کرنے والے بھی) میرے حکم کو قبول کریں اور مجھ پر ایمان لائیں تا وہ ہدایت پائیں۔
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے روزوں کی فرضیت، اس کی اہمیت، اس ماہ میں مومنوں کی ذمہ داریوں اور دعا کی قبولیت کے طریق بیان فرمائے ہیں۔ ایک ایسا مہینہ ہمارے لیے مقرر فرمایا ہے جس میں خدا تعالیٰ بندوں کے قریب ترین آ جاتا ہے اور شیطان کو جکڑ دیتا ہے۔ پس جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں پر اس قدر رحمتوں اور فضلوں کے دروازے کھولے جا رہے ہیں تو ہمیں کس قدر اللہ تعالیٰ کی بات کو سن کر روزوں کا حق ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقعے پر فرمایا کہ اگر تمہیں پتا ہو کہ رمضان کی کیا کیا فضیلتیں ہیں اور اللہ تعالیٰ کس طرح اور کس قدر تم پر مہربان ہوتا ہے تو تم یہ خواہش کرتے کہ سارا سال ہی رمضان ہو۔ سارا سال ہی ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹتے رہیں۔ پس روزے ہمارے ہی فائدے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہم پر فرض کیے ہیں۔ روحانی، جسمانی ہر قسم کے فوائد ہم روزوں سے حاصل کر سکتے ہیں۔ اب تو غیر مسلم ڈاکٹر بھی اس بات کے قائل ہو رہے ہیں۔ پہلے چند ایک تھے اب تعداد بڑھتی جا رہی ہےکہ روزوں سے انسان کی صحت پر بھی خوشگوار اثر پڑتا ہے۔ بلکہ بعض غیر مسلم یہ لکھنے لگ گئے ہیں کہ روزوں سے انسانی زندگی میں ڈسپلن بھی پیدا ہوتا ہے۔ بہرحال یہ دنیا دار چاہے کہیں یا نہ کہیں ایک حقیقی مومن تو یہ تجربہ رکھتا ہےکہ روزے ایک مومن کی جہاں جسمانی حالت کو بہتر کرتے ہیں وہاں اس سے بہت بڑھ کر روحانی طور پر بھی اس کی حالت بہتری کی طرف لے جانے کا باعث بنتے ہیں۔ پس ہمیں اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر عمل کرتے ہوئے رمضان کے مہینے میں بھرپور کوشش کرنی چاہیے کہ اپنی روحانی حالت میں ترقی کریں۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے جو باتیں بیان کی ہیں وہ یہ ہیں کہ ہر ایک مومن اور ہر ایک مسلمان جو حقیقی مسلمان ہے اس پر روزہ فرض کیا گیا ہے۔ صبح سے شام تک بھوکا رہنا، یہ روزہ نہیں ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ ’’خدا تعالیٰ کا منشا اس سے یہ ہے کہ ایک غذا کو کم کرو اور دوسری کو بڑھاؤ۔ ہمیشہ روزہ دار کو یہ مدّنظر رکھنا چاہیے کہ اس سے اتنا ہی مطلب نہیں ہے کہ بھوکا رہے بلکہ اسے چاہیے کہ خدا تعالیٰ کے ذکر میں مصروف رہے تا کہ تبتّل اور انقطاع حاصل ہو۔‘‘ یعنی خدا تعالیٰ سے تعلق میں، اس کی عبادت میں، ذکر الٰہی میں انسان بڑھے اور دنیا کی طرف کم توجہ ہو۔ دنیا کے کام تو ساتھ رہتے ہی ہیں وہ نہیں رکتے لیکن ان کو کرتے ہوئے بھی خدا تعالیٰ کی یاد رہے، اس کے احکامات پر نظر رہے، اس کا ذکرہوتا رہے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’پس روزے سے یہی مطلب ہے کہ انسان ایک روٹی کو چھوڑ کر جو صرف جسم کی پرورش کرتی ہے دوسری روٹی کو حاصل کرے جو روح کی تسلی اور سیری کا باعث ہے اور جو لوگ محض خدا کے لیے روزے رکھتے ہیں اور نرے رسم کے طور پرنہیں رکھتے انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی حمد اور تسبیح اور تہلیل میں لگے رہیں۔‘‘ (ملفوظات جلد 9صفحہ 123)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو تمہارے بھوکا رہنے سے کوئی غرض نہیں ہے۔ (صحیح البخاری کتاب الصوم باب من لم یدع قول الزور والعمل بہٖ فی الصوم حدیث 1903)
پھر اللہ تعالیٰ یہ بیان فرما کر کہ روزہ تم پر فرض کیا گیا ہے اس آیت میں فرماتا ہے جو پہلی آیت ہے کہ یہ اس لیے فرض ہے کہ تا کہ تم تقویٰ اختیار کرو۔ اور تقویٰ کیا ہے؟ تقویٰ یہ ہے کہ تم روحانی اور اخلاقی کمزوریوں سے بچو۔ جیسا کہ پہلے میں نے بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو تمہارے بھوکا رہنے سے کوئی غرض نہیں۔ جب تک روزہ تمہارے اندر تقویٰ کا وہ معیار پیدا نہ کرے، جس سے تم تمام روحانی کمزوریوں اور اخلاقی کمزوریوں سے اپنے آپ کو بچاؤ، روزہ رکھنا بے فائدہ ہے۔ اور تقویٰ کی وضاحت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک موقعے پر اس طرح فرمائی۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ
’’متقی بننے کے واسطے یہ ضروری ہے کہ بعد اس کے کہ موٹی باتوں جیسے زنا، چوری، تلف حقوق‘‘ (لوگوں کے حقوق کی تلفی کرنا، حق مارنا) ’’ریا‘‘ (بناوٹ) ’’عُجب، حقارت، بخل کے ترک میں پکا ہو۔‘‘ (یعنی یہ برائیاں جو ہیں ان کو چھوڑنے میں پکا ہو۔) ’’تو اخلاق رذیلہ سے پرہیز کر کے اُن کے بالمقابل‘‘ (یہ اخلاق جو برے اخلاق ہیں ان سے پرہیز کر کے اس کے بالمقابل) ’’اخلاق فاضلہ میں ترقی کرے۔‘‘ (اچھے اخلاق اپنائے۔) ’’لوگوں سے مروّت‘‘ (سے پیش آئے) ’’لوگوں سے مروّت، خوش خُلقی، ہمدردی سے پیش آوے۔‘‘ (اپنے اخلاق بہتر کرے)۔ آپؑ فرماتے ہیں ’’خدا تعالیٰ کے ساتھ سچی وفا اور صدق دکھلاوے۔‘‘ (یہ بھی تقویٰ کے لیے ضروری ہے۔ روحانیت کے لیے ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ سچی وفا ہو اور سچا تعلق ہو۔) ’’خدمات کے مقام محمود تلاش کرے۔‘‘ (اس میں اللہ تعالیٰ کے جو حقوق ہیں وہ بھی آ گئے۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات کو پورا کرنا اور لوگوں کے جو تعلقات ہیں، ان کی خدمت ہے وہ بھی آ گئی۔ یعنی ایسی بے نفس خدمت ہو کہ لوگ کہیں کہ یہ واقعی خدا تعالیٰ کی خاطر خدمت کر رہا ہے، کسی قسم کا اپنا کوئی ذاتی مفادنہ ہو۔) فرمایا کہ ’’ان باتوں سے انسان متقی کہلاتا ہے اور جو لوگ ان باتوں کے جامع ہوتے ہیں۔‘‘ (جن میں سب چیزیں جمع ہو جائیں ) ’’وہی اصل متقی ہوتے ہیں۔ یعنی اگر ایک ایک خُلق فرداً فرداً کسی میں ہوں تو اُسے متقی نہ کہیں گے جب تک بحیثیت مجموعی اخلاق فاضلہ اس میں نہ ہوں اور ایسے ہی شخصوں کے لیے لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ (البقرہ: 63) ہے‘‘ (یعنی نہ ہی ان کو کوئی خوف ہو گا اور نہ ہی وہ غم کریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ ضمانت دے دی، جب اللہ تعالیٰ کی یہ ضمانت مل گئی تو اَور اس کے بعد ان کو کیا چاہیے۔ ’’اللہ تعالیٰ ایسوں کا متولّی ہو جاتا ہے جیسے کہ وہ فرماتا ہے وَھُوَ یَتَوَلَّی الصَّالِحِیْنَ۔ (الاعراف: 197) حدیث شریف میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے ہاتھ ہو جاتا ہے جس سے وہ پکڑتے ہیں۔ ان کی آنکھ ہو جاتا ہے جس سے وہ دیکھتے ہیں۔ ان کے کان ہو جاتا ہے جن سے وہ سنتے ہیں۔ ان کے پاؤں ہو جاتا ہے جن سے وہ چلتے ہیں۔ اور ایک اَور حدیث میں ہے کہ جو میرے ولی کی دشمنی کرتا ہے میں اس سے کہتا ہوں کہ میرے مقابلہ کے لیے تیار رہو۔ ایک جگہ فرمایا ہے کہ جب کوئی خدا کے ولی پر حملہ کرتا ہے تو خدا تعالیٰ اس پر ایسے جھپٹ کر آتا ہے جیسے ایک شیرنی سے کوئی اس کا بچہ چھینے تو وہ غضب سے جھپٹتی ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 4 صفحہ 400-401)
پس روزوں کا حق ادا کر کے جب تقویٰ کے یہ معیار ہوں تو تب ہی وہ روزے بھی ایک انسان کو، ایک مومن کو، ایک مسلمان کو اللہ تعالیٰ کی ڈھال کے پیچھے لے آتے ہیں۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان کا ہر عمل اس کی ذات کے لیے ہوتا ہے سوائے روزوں کے۔ پس روزہ میری خاطر رکھا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ روزہ انسان میری خاطر رکھتا ہے۔ وہ لوگ جو حقیقی مومن ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی خاطر روزہ رکھتے ہیں اور پھر فرمایا کہ جو میری خاطر روزہ رکھتا ہے میں ہی اس کی جزا ہوتا ہوں کہ میں اس کو اپنی طرف سے جو چاہوں جزا دوں گا۔ اور روزے ڈھال ہیں۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا کہ روزے ڈھال ہیں اور جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو وہ شہوانی باتیں اور گالی گلوچ نہ کرے، کسی قسم کی شہوانی باتیں نہ ہوں، گالی گلوچ نہ ہو اور اگر اسے کوئی گالی دے یا اس سے جھگڑا کرے تو اسے جواب میں کہنا چاہیے کہ میں تو روزے دار ہوں۔ میں کسی قسم کی لغویات میں نہیں پڑتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان کرنے کے بعد فرمایاکہ اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی جان ہے کہ روزہ داروں کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک کستوری سے زیادہ اچھی ہے۔ اس کی جو خوشبو ہے وہ کستوری کی خوشبو سے زیادہ اچھی ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں جو اسے خوش کرتی ہیں۔ ایک جب وہ روزہ افطار کرتا ہے تو خوش ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے روزے کی افطاری کے سامان پیدا فرمائے اور دوسرے جب وہ اپنے رب سے ملے گا تو روزے کی وجہ سے خوش ہو گا کیونکہ وہاں پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اس کی جزا ہوں۔ میں اس کو اجر دوں گا اور وہ (بے بہا) اجر جو اللہ تعالیٰ اسے دے گا جو اللہ کی خاطر روزے رکھتا ہے تو وہاں اس کی خوشی کا مقام ہی اور ہو گا۔ (صحیح البخاری کتاب الصوم باب ھل یقول انی صائم اذا شتم حدیث 1904)
پس یہ وہ تقویٰ کا معیار ہے جو ایک حقیقی روزے دار کو حاصل کرنا چاہیے اور حقیقی روزے دار پھر حاصل کرتا ہے کہ روزہ دنیا کی تمام قسم کی ملونیوں سے پاک ہو کر رکھا جائے اور ہر قسم کی روحانی اور اخلاقی کمزوریوں سے بچتے ہوئے روزے دار اپنا دن گزارے۔ اس بات پر خوش نہ ہو جائے کہ میں نے روزہ رکھا ہے۔ دنیا میں کتنے ہی روزے دار ہیں جو بظاہر روزہ رکھتے ہیں لیکن نہ ہی ان کی نمازوں کے وہ معیار ہیں جو ہونے چاہئیں، نہ ہی ان کے اخلاق کے وہ معیار ہیں جو ہونے چاہئیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ فرمایا ہے کہ شیطان اس مہینے میں جکڑا جاتا ہے، اسے باندھ دیا جاتا ہے تو پھر دنیا میں رمضان کے مہینے میں بھی برائیاں کیوں جاری رہتی ہیں؟ روزہ ڈھال ان کے لیے بنتا ہے، شیطان کے حملوں سے انہیں بچایا جاتا ہے جو روزے کی حقیقت کو سمجھتے ہوئے تقویٰ اختیار کرتے ہیں۔ پس یہ وہ اصل مقصد ہے جو ہمیں ہر وقت اپنے سامنے رکھنا چاہیے ورنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ بے شک رمضان میں جنت کے دروازے کھول دیےجاتے ہیں اور جہنم کے دروازوں کو تالے لگا دیے جاتے ہیں اور شیطانوں کو زنجیروں میں باندھ دیا جاتا ہے۔ (صحیح مسلم کتاب الصیام باب فضل شھر رمضان حدیث (1079))
لیکن اس کے باوجود آپؐ نے یہ بھی انذار فرما دیا، اس بات کی طرف بھی توجہ دلائی کہ اگر پھر بھی کوئی رمضان کو پائے اور بخشا نہ جائے تو پھر کب بخشا جائے گا۔ (سنن الترمذی ابواب الدعوات باب رغم انف رجل ذکرت عندہ … الخ حدیث 3545)
پس یہ بات آپؐ ہمیں فرما رہے ہیں۔ مسلمان کہلانے والوں کو فرما رہے ہیں، ان لوگوں کو فرما رہے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ روزہ تمہارے پر فرض کیا گیا ہے تا کہ تم ان دنوں میں صرف اور صرف خدا تعالیٰ کی عبادت اور اخلاقی معیاروں کی بلندیوں کو حاصل کرنے کی کوشش کرو لیکن اگر نہیں کرو گے تو صرف رمضان کا آنا، شیطان کا جکڑا جانا، جنت کے دروازے کھلنا، جہنم کے دروازوں پر تالے لگناکوئی فائدہ نہیں دے گا۔ یہ انذار آپؐ نے فرما دیا کہ اللہ تعالیٰ کی اتنی وسیع رحمت کے باوجود اگر بخشش کے سامان نہیں ہو سکے تو پھر کب ہوں گے؟ پس ہم خوش ہو کر صرف رمضان کے آنے اور روزوں کی مبارک بادیں دینے پر ہی نہ رہیں بلکہ ہمیں اپنے جائزے لینے چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزوں کا جو مقصد بیان فرمایا ہے، کیا ہم اس کے لیے کوشش کر رہے ہیں یا نہیں؟ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کے حصول کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی بخشش اور مغفرت کی چادر میں ہمیں لپیٹے رکھے۔
پھر اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ یہ بھی فرماتا ہے کہ کن حالات میں تم روزے سے رخصت لے سکتے ہو۔ لیکن یہ بتانے سے پہلے یہ واضح کر دیا کہ اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا کہ میں روزے کی خود جزا بنتا ہوں اور مومنوں کی خاص طور پر بخشش کے سامان کر رہا ہوں تو یہ خیال نہ آئے کہ ہم روزہ رکھ کر کوئی بہت بڑی قربانی کر رہے ہیں جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی مہربانی اور شفقت اور بخشش کی چادر ہم پر پھیلائی گئی ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ کا رحم اور اس کی شفقت بڑی وسیع کی گئی ہے لیکن یہ کوئی ایسی بھی غیر معمولی قربانی نہیں۔ سحری کے وقت بھی ہم پیٹ بھر کر کھا لیتے ہیں۔ افطاری کے وقت بھی اپنی مرضی کے مطابق ہر کوئی کھا لیتا ہے اور پھر کون سی یہ ایسی مستقل قربانی ہے۔ سال میں چند گنتی کے دن ہی ہیں۔ بعض لوگ روزہ رکھ کر بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ہم نے روزہ رکھا ہوا ہے تو یہ کوئی بہت بڑی قربانی نہیں ہے جس کے اظہار ہوں بلکہ حقیقی مومن تو بڑی سے بڑی قربانی کر کے بھی ڈرتا ہے کہ خدا تعالیٰ کب اور کس طرح راضی ہو، کجا یہ کہ اظہار کیا جائے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ گنتی کے چند دن ہیں۔ سال کے دنوں کا بارھواں حصہ ہیں۔ پھر فرمایا تو یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ تمہاری کوئی بہت بڑی قربانی ہے۔ پھر فرمایا کہ اس میں اللہ تعالیٰ تمہیں ان گنتی کے چند دنوں میں بھی اپنی رحمت سے نواز رہا ہے۔ اگر اس دوران تم بیمار ہو جاتے ہو یا سفر درپیش ہو جاتا ہے تو روزے سے ان دنوں میں رخصت ہے لیکن یہ تعداد، جو چُھوٹے ہوئے روزے ہیں، ان کو سال کے دوران کسی وقت بھی پورا کرنا ہو گا۔ اور جو مستقل مریض ہیں، بہانہ نہیں ہے بلکہ ڈاکٹر نے یہ کہا ہے کہ روزے نہیں رکھنے تو پھر اگر استطاعت ہے تو ایک مسکین کو روزے رکھواؤ اور استطاعت کی صورت میں یہ ضروری ہے سوائے اس کے کہ کوئی اس حد تک مالی لحاظ سے کمزور ہو کہ اس کا خود صدقے اور امداد پر گزارہ ہو رہا ہو۔ باقی ہر ایک کو جو کچھ وہ کھاتا ہے اسی خوراک سے ایک مسکین کو روزے رکھوانے ضروری ہیں۔ ہاں اگر اس کی استطاعت ہے اور بڑھ کے استطاعت ہے تو یہ بھی ٹھیک ہے کہ تم پھر فدیہ بھی دے دو اور بعد میں روزے بھی رکھ لو۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس بارے میں فرمایا کہ ’’خدا ہر ایک شخص کو اس کی وسعت سے باہر دکھ نہیں دیتا۔ وسعت کے موافق‘‘ آپؑ فرماتے ہیں کہ جتنی وسعت ہے۔ جتنی گنجائش ہے جو خود کھاتے پیتے ہو اس کے مطابق ’’گذشتہ کا فدیہ دے دو اور آئندہ عہد کرو کہ سب روزے ضرور رکھوں گا۔‘‘ (ملفوظات جلد 4صفحہ 350)
آپؑ نے فرمایا کہ ایک دفعہ میرے دل میں خیال آیا کہ فدیہ کس لیے مقرر کیا گیا ہے تو معلوم ہوا (سوچا میں نے تو پھر مجھ پہ یہ کھلا) کہ توفیق کے واسطے۔ اس لیے مقرر کیا گیا ہے تا کہ اللہ تعالیٰ توفیق دے۔ تاکہ اس سے روزے کی توفیق حاصل ہو۔ فرمایا کہ خدا تعالیٰ تو قادر مطلق ہے وہ اگر چاہے تو ایک مدقوق کو بھی روزے کی طاقت عطا کر سکتا ہے۔ ایسا مریض جس کو دِق کی بیماری ہے، ٹی بی کا مریض ہے اس کو بھی اللہ تعالیٰ طاقت دے سکتا ہے کہ اس کی صحت اچھی کر دے اور روزہ رکھ لے تو آپؑ فرماتے ہیں کہ فدیہ سے یہی مقصود ہے کہ وہ طاقت حاصل ہو جاوے اور یہ خدا کے فضل سے ہی ہوتا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ پس میرے نزدیک خوب ہے کہ انسان دعا کرے کہ الٰہی یہ تیرا ایک مبارک مہینہ ہے اور میں اس سے محروم رہا جاتا ہوں اور کیا معلوم کہ آئندہ سال زندہ رہوں یا نہ یا ان فوت شدہ روزوں کو، جو روزے چھوٹ گئے ان کو ادا کر سکوں یا نہ کر سکوں، (دوبارہ صحت اجازت دے یا نہ دے) اور اس سے توفیق طلب کرے۔ آپؑ فرماتے ہیں یہ باتیں کہہ کے انسان اللہ تعالیٰ سے توفیق طلب کرے۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد 4 صفحہ 258)
پس فدیہ عارضی مریض بھی دے سکتے ہیں اور پھر سفر ختم ہونے پر، صحت ہونے پر روزہ رکھنا بھی ضروری ہے۔ یہ دونوں چیزیں اس سے ثابت ہوتی ہیں۔ آپؑ نے فرمایا کہ جو صحت پا کر روزے رکھنے کے قابل ہو جاتے ہیں ان کے لیے صرف فدیہ کا خیال کرنا اباحت کا دروازہ کھولنا ہے۔ جو ایسی صحت ہے جو صحت رمضان کے بعد پالی یا رمضان میں بیمار ہوئے تو بعد میں صحت یاب ہو گئے۔ اگر وہ صرف یہی کہہ دیں کہ ہم نے رمضان میں روزے نہیں رکھے اور فدیہ دے دیا تھا۔ تو یہ تو اباحت کا دروازہ کھولنا ہے۔ بلاوجہ کی اجازت کے راستے کھولنا ہے۔ غلط بدعتیں پیدا کرنا ہے۔ اگر رمضان میں فدیہ دے بھی دیا ہے تب بھی رمضان کے بعد پھر روزے رکھنے ضروری ہیں۔ سال کے دوران کسی وقت بھی رکھے جا سکتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ ہاں مستقل مریض، دودھ پلانے والی عورتیں، حاملہ عورتیں جو ہیں ان کے لیے اس حالت میں کہ اس پر سال گزر جائے صرف فدیہ ہی کافی ہوتا ہے لیکن فدیے کے ساتھ اس مہینے میں عبادتوں اور ذکر الٰہی اور دوسری نیکیوں کو جاری رکھنا ضروری ہے۔ یہ نہیں کہ فدیہ دے دیا تو ہر چیز سے ہم فارغ ہو گئے۔ اگر روزے نہ بھی رکھ رہے ہوں اور فدیہ دے دیں اور باقی نیکیاں جاری رکھیں تویہ بھی رمضان کا فیض پانے والے ہوں گے۔ صرف فدیہ دے کر نمازوں کو بھول جانا اور دوسری نیکیوں کو بھول جانا یہ صرف مومن نہیں بنا دیتا، حقیقی مومن نہیں بنا دیتا، رمضان کی برکات میں حصہ دار نہیں بنا دیتا۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد 9صفحہ 433)
پھر اللہ تعالیٰ اس آیت میں یہ فرماتا ہے کہ جو بھی نیکی تم پوری فرمانبرداری سے کرتے ہو دل نہیں بھی چاہ رہا ہو تو کرتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے بہتر نتائج پیداکرے گا۔ بعض کے نزدیک فَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا کا یہ بھی مطلب ہے کہ کوئی کام نفلی طور پر بھی تم کرتے ہو تو یہ بھی تمہارے لیے بہتر ہے۔ دونوں مطلب اس کے ہیں یعنی نفلی طور پہ زائد فدیہ دے دیا یا ایک کے بجائے دو مسکینوں کو کھلا دیا یا پتا ہونے کے باوجود کہ آج روزہ کسی وجہ سے نہیں رکھ سکا کل رکھ لوں گا پھر بھی فدیہ دے دیا تو یہ زائدنیکی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہارے لیے بہتر ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ تمہیں نیکیوں کے اجر دیتا ہے خواہ وہ اپنے پر بوجھ ڈال کر کی جائیں یا نفلی نیکیاں کی جائیں، خوشی سے کی جائیں۔ اس آیت کے آخر میں پھر اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ تمہارے لیے روزے رکھنا ہر لحاظ سے تمہارے لیے بہتر ہے۔
پھر اس سے اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس مہینے میں ہم نے قرآن نازل فرمایا جو تمہارے لیے ہدایت کا موجب ہے اور کھلے اور روشن دلائل اور نشان اپنے اندر رکھتا ہے۔
پس قرآن کو رمضان کے مہینے سے بھی ایک خاص نسبت ہے۔ اسی مہینے میں روزوں کے ساتھ اس کے پڑھنے، اس پر غور کرنے، اس کے احکامات کو تلاش کر کے ان پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تا کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کر کے ہم رمضان کے روزوں سے حقیقی فیض اٹھا سکیں۔ ہر ایک قرآن کریم کے گہرے مطالب کی گہرائی تک خودنہیں پہنچ سکتا اس لیے قرآن کریم کی تلاوت اور ترجمے کے ساتھ، جو کہ وہ خود پڑھ سکتا ہے، جماعت کی طرف سے جہاں جہاں مساجد میں درس کا انتظام ہے اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اسی طرح ایم۔ ٹی۔ اے پر باقاعدہ درس کا انتظام ہے اس سے استفادہ ضروری ہے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے درس اس پر چل رہے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی یہی ارشاد ہے کہ اس مہینے میں قرآن کریم کی تلاوت زیادہ کیا کرو۔ قرآن کریم کی تلاوت کی طرف، قرآن کریم پڑھنے کی طرف توجہ ایک احمدی کو تو عام دنوں میں بھی بہت زیادہ ہونی چاہیے لیکن رمضان میں تو خاص طور پر اس کا اہتمام ضروری ہے ورنہ صرف روزے رکھنا بے فائدہ ہے۔ خاص طور پر اللہ تعالیٰ نے اس مہینے میں قرآن کریم کے نازل ہونے کا ذکر فرمایا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید فرمائی ہے۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی جنہوں نے ہمیں جہاں قرآن کریم کے اسرارو رموز اور تفسیر اور معانی کے نئے نئے زاویے بتائے وہاں اس پر عمل کرنے اور قرآن کریم کو عزت دینے کی اور اسے پڑھنے اور غور کرنے کی طرف بھی خاص توجہ دلائی ہے اور بتایا کہ تمہیں کس خاص توجہ سے اس کو پڑھ کر اس پر عمل کرنا چاہیے اور اپنی حالتوں میں کیا تبدیلی پیدا کرنی چاہیے۔ چنانچہ ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں
علومِ ظاہری اور علومِ قرآنی کے حصول کے درمیان ایک عظیم الشان فرق ہے۔ جو ظاہری دنیاوی علوم ہیں اور قرآن کے علوم ہیں ان کے درمیان ایک بہت بڑا فرق ہے۔ فرماتے ہیں کہ ’’دنیوی اور رسمی علوم کے حاصل کرنے کے واسطے تقویٰ شرط نہیں ہے۔ فرمایا کہ صرف و نحو، طبعی، فلسفہ، ہیئت و طبابت پڑھنے کے واسطے یہ ضروری امر نہیں ہے۔ (صرف ونحو پڑھ لیا یا طبعیات پڑھ لی، فلسفہ پڑھ لیا، اسٹرانومی وغیرہ پڑھ لیا، طبابت، میڈیسن وغیرہ پڑھنے کے لیے یہ ضروری امر نہیں ہے کہ تقویٰ ضروری ہو یا یہ ضروری نہیں ہے)کہ وہ صوم و صلوٰۃ کا پابند ہو، نماز کا پابند ہو۔ یہ بڑی اہم بات ہے، قرآن کریم کو سمجھنے کے لیے روزوں کی پابندی بھی ضروری ہے۔ عبادتوں کی پابندی بھی ضروری ہے۔ نمازوں کی پابندی بھی ضروری ہے۔ تقویٰ میں بڑھنا بھی ضروری ہے۔ فرمایا کہ ضروری نہیں ہے کہ وہ صوم و صلوٰۃ کا پابند ہو اور امرِِالٰہی اور نواہی کو ہر وقت مدّنظر رکھتا ہو، جو اللہ تعالیٰ کے حکم ہیں، جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور جن کو نہ کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے ان کو ہر وقت سامنے رکھے، مدّنظر رکھے۔ یہ عام آدمی کے لیے ضروری تو نہیں ہے لیکن قرآنی علوم کو حاصل کرنے کے لیے یہ ضروری ہے۔ جو دنیاوی علوم ہیں ان کے حاصل کرنے کے لیے ضروری نہیں ہے لیکن قرآن کریم کو پڑھنے کے لیے ضروری ہے۔ اس کے علم کو حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کے تمام اوامر و نواہی جو ہیں ان کو آدمی سامنے رکھے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ اپنے ہر فعل اور قول کو اللہ تعالیٰ کے احکامات کی حکومت کے نیچے رکھے بلکہ بسا اوقات دیکھا گیا ہے کہ دنیاوی علوم کے ماہر اور طلب گار دہریہ منش ہو کر ہر قسم کے فسق و فجور میں مبتلا ہوتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ آج دنیا کے سامنے ایک زبردست تجربہ موجود ہے۔ یورپ اور امریکہ باوجودیکہ وہ لوگ ارضی علوم میں بڑی بڑی ترقیاں کر رہے ہیں اور آئے دن نئی ایجادات کرتے رہتے ہیں لیکن ان کی روحانی اور اخلاقی حالت بہت ہی قابلِ شرم ہے۔ اور آج کل تو ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس زمانے سے بڑھ کر آزادی کے نام پر اخلاقی گراوٹوں میں بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ لندن کے پارکوں اور پیرس کے ہوٹلوں کے حالات جو کچھ شائع ہوئے ہیں ہم تو ان کا ذکر بھی نہیں کر سکتے مگر علوم آسمانی اور اَسرار قرآنی کی واقفیت کے لیے تقویٰ پہلی شرط ہے۔ اس میں توبۃ النصوح کی ضرورت ہے، ایسی توبہ جو سچی توبہ ہو۔ جب تک انسان پوری فروتنی اور انکساری کے ساتھ، عاجزی کے ساتھ، انکساری کے ساتھ، اللہ تعالیٰ کے احکام کو نہ اٹھا لے، اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل نہ کرے اور اس کے جلال اور جبروت سے لرزاں ہو کر نیاز مندی کے ساتھ رجوع نہ کرے قرآنی علوم کا دروازہ نہیں کھل سکتا اور روح کے ان خواص اور قویٰ کی پرورش کا سامان اس کو قرآن شریف سے نہیں مل سکتا جس کو پا کر روح میں ایک لذت اور تسلی پیدا ہوتی ہے۔
پس قرآن کریم کے علوم کو سمجھنے کے لیے تقویٰ بہت ضروری ہے۔ آپؑ نے فرمایا کہ قرآن شریف اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اور اس کے علوم خدا کے ہاتھ میں ہیں۔ پس اس کے لیے تقویٰ بطور نَردبان کے ہے یعنی سیڑھی کے ہے۔ تقویٰ جو ہے بطور سیڑھی کے ہے۔ وہ سیڑھی لگاؤ گے، تقویٰ کی سیڑھی استعمال کروگے تو قرآنی علوم کا ادراک حاصل ہو گا۔ فرمایا کہ پھر کیونکر ممکن ہو سکتا ہے کہ بے ایمان، شریر، خبیث النفس، ارضی خواہشوں کے اسیر اِن سے بہرہ ور ہوں اس واسطے اگر ایک مسلمان مسلمان کہلا کر خواہ وہ صرف ونحو، معانی و بدیع وغیرہ علوم کا کتنا ہی بڑا فاضل کیوں نہ ہو دنیا کی نظر میں شیخ الکل فی الکل بنا بیٹھا ہو لیکن اگر سارے علوم اس کو آتے ہوں، گرائمر وغیرہ بھی آتی ہو، عربی دانی بھی اس کو بڑی اچھی آتی ہو، قرآن کریم کے معانی بھی بڑی اچھی طرح کر سکتا ہو لیکن اگر تزکیہ نفس نہیں کرتا تو قرآن شریف کے علوم سے اس کو حصہ نہیں دیا جاتا۔ فرمایا کہ میں دیکھتا ہوں کہ اس وقت دنیا کی توجہ ارضی علوم کی طرف بہت جھکی ہوئی ہے اور مغربی روشنی نے تمام عالم کو اپنی نئی ایجادوں اور صنعتوں میں حیران کر رکھا ہے۔ مسلمانوں نے بھی اگر اپنی فلاح اور بہتری کی کوئی راہ سوچی تو بدقسمتی سے یہ سوچی ہے کہ وہ مغرب کے رہنے والوں کو اپنا امام بنا لیں۔ دنیا کی طرف پڑگئے ہیں اور یہ ترقی جو دنیاوی ترقی ہے اسی کو سب کچھ سمجھنے لگ گئے ہیں۔ فرمایا یہ تو نئی روشنی کے مسلمانوں کا حال ہے۔ جو لوگ پرانے فیشن کے مسلمان کہلاتے ہیں اور اپنے آپ کو حامیٔ دین متین سمجھتے ہیں ان کی ساری عمر کی تحصیل کا خلاصہ یہ ہے اور لب لباب یہ ہے کہ صرف و نحو کے جھگڑوں اور الجھیڑوں میں پھنسے ہوئے ہیں اور ضَآلِّیْن کے لفظ پر مر مٹے ہیں۔ اسی بات میں الجھے ہوئے ہیں کہ گرائمر کیا ہے، عربی کی صَرف کیا ہے، نَحو کیا ہے اور کس طرح تلفظ صحیح طرح ادا کرنا ہے۔ فرمایا کہ قرآن شریف کی طرف بالکل توجہ ہی نہیں ہے اور ہو کیونکر جو تزکیہ نفس کی طرف توجہ ہی نہیں ہے۔ پس آپؑ فرماتے ہیں کہ احمدیوں کو اس بات پہ غور کرنا چاہیے کہ صرف دنیا میں نہ پڑ جاؤ بلکہ قرآن کریم کے علوم کو بھی حاصل کرنے کی کوشش کرو۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد 1صفحہ 425 تا 427)
پھر ایک موقعے پر ایک صاحب نے آپؑ سے سوال کیا کہ قرآن شریف کس طرح پڑھا جائے؟ آپؑ نے فرمایا کہ ’’قرآن شریف تدبّر وتفکّر وغور سے پڑھنا چاہیے۔ حدیث شریف میں آیا ہے رُبَّ قَارٍ یَلْعَنُہُ الْقُرْاٰن۔ یعنی بہت سے ایسے قرآن کریم کے قاری ہوتے ہیں جن پر قرآن کریم لعنت بھیجتا ہے۔ جو شخص قرآن پڑھتا اور اس پر عمل نہیں کرتا اس پر قرآن مجید لعنت بھیجتا ہے۔‘‘ فرمایا ’’تلاوت کرتے وقت جب قرآن کریم کی آیتِ رحمت پر گزر ہو۔‘‘ یعنی کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا ذکر ہو ’’تو وہاں خدا تعالیٰ سے رحمت طلب کی جاوے اور جہاں قرآن کریم میں کسی قوم کے عذاب کا ذکر ہو؟‘‘ آپؑ فرماتے ہیں ’’تو وہاں خدا تعالیٰ کے عذاب سے خدا تعالیٰ کے آگے پناہ کی درخواست کی جاوے۔‘‘ توبہ اور استغفار کی جائے۔ اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگی جائے ’’اور تدبّر و غور سے پڑھنا چاہیے اور اس پر عمل کیا جاوے۔‘‘ (ماخوذ از ملفوظات جلد 9صفحہ 199-200)
پس یہ ہے قرآن کریم پڑھنے کا طریق۔ ان دنوں میں جب ہمیں قرآن کریم پڑھنے کی طرف خاص توجہ ہوئی ہے تو اس سوچ اور اس انداز سے پڑھنے کی ہمیں کوشش کرنی چاہیے۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں
’’تم ہوشیار رہو۔ اور خدا کی تعلیم اور قرآن کی ہدایت کے برخلاف ایک قدم بھی نہ اٹھاؤ۔ میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو شخص قرآن کے سات سو حکم میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے وہ نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے اپنے پر بند کرتا ہے۔ حقیقی اور کامل نجات کی راہیں قرآن نے کھولیں اور باقی سب اس کے ظل تھے۔ سو تم قرآن کو تدبر سے پڑھو اور اس سے بہت ہی پیار کرو۔ ایسا پیار کہ تم نے کسی سے نہ کیا ہو۔ کیونکہ جیسا کہ خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا اَلْخَیْرُ کُلُّہٗ فِی الْقُرْاٰنِ کہ تمام قسم کی بھلائیاں قرآن میں ہیں۔ یہی بات سچ ہے۔‘‘ فرماتے ہیں ’’افسوس ان لوگوں پر جو کسی اَور چیز کو اس پر مقدم رکھتے ہیں۔‘‘ فرمایا ’’تمہاری تمام فلاح اور نجات کا سرچشمہ قرآن میں ہے۔ کوئی بھی تمہاری ایسی دینی ضرورت نہیں جو قرآن میں نہیں پائی جاتی۔ تمہارے ایمان کا مصدِّق یا مکذِّب قیامت کے دن قرآن ہے۔ اور بجز قرآن کے آسمان کے نیچے اَور کوئی کتاب نہیں جو بلاواسطہ قرآن تمہیں ہدایت دے سکے۔‘‘ قرآن کے واسطے سے گزرو گے تب ہی ہدایت ملے گی۔ فرمایا ’’خدا نے تم پر بہت احسان کیا ہے جو قرآن جیسی کتاب تمہیں عنایت کی۔ میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ کتاب جو تم پر پڑھی گئی اگر عیسائیوں پر پڑھی جاتی تو وہ ہلاک نہ ہوتے۔ اور یہ نعمت اور ہدایت جو تمہیں دی گئی۔ اگر بجائے توریت کے یہودیوں کو دی جاتی تو بعض فرقے ان کے قیامت سے منکر نہ ہوتے۔ پس اس نعمت کی قدر کرو جو تمہیں دی گئی۔‘‘ فرمایا کہ ’’یہ نہایت پیاری نعمت ہے۔ یہ بڑی دولت ہے۔ اگر قرآن نہ آتا تو تمام دنیا ایک گندے مضغہ کی طرح تھی۔‘‘ ایک گندے لوتھڑے کی طرح تھی۔ ’’قرآن وہ کتاب ہے جس کے مقابل پر تمام ہدایتیں ہیچ ہیں۔‘‘ (کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 26-27)
پس قرآن کریم پڑھنے، اسے سمجھنے اور اس کی ہدایات پر عمل کرنے کی طرف ہمیں خاص طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ رمضان میں بہت سے لوگوں کی اس طرف توجہ پیدا ہوتی ہے تو پھر اسے انہیں اپنی زندگی کا مستقل حصہ بنانے کی ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر رمضان کے مہینے میں قرآن کریم پڑھنے کی طرف جو مومنین کو توجہ دلائی ہے تو اس لیے کہ اس مجاہدے کے مہینے سے گزرتے ہوئے جب ہم قرآن کریم کی طرف خاص توجہ دے رہے ہوں گے تو پھر عام دنوں میں بھی اس طرف توجہ کی عادت پڑے گی ورنہ اللہ تعالیٰ کا رمضان کے مہینے میں قرآن کی طرف توجہ دلانے کا جو مقصد ہے وہی فوت ہو جاتا ہے۔ مومن تو وہی ہے جو مستقل مزاجی سے نیکیوں کو تلاش کرتا ہے اور انہیں جاری رکھتا ہے۔ پس یہ عظیم ہدایت اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے ہم تک پہنچائی ہے۔ اسے ہمیں اپنی ہدایت کا ذریعہ بنانے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔
پھر اس آیت سے آگے مزید واضح کر کے یہ ہدایت فرما دی کہ روزوں کی پابندی کرنی ہے اور مریض اور مسافر نے چھُوٹے ہوئے روزوں کو بعد میں پورا کرنا ہے۔ یہ ضروری ہے۔ صرف فدیہ دینے سے تمہیں چھوٹ نہیں مل گئی۔ سفر اور بیماری میں روزے نہ رکھنے کی چھوٹ دے کر اللہ تعالیٰ نے تم پر احسان کیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر تنگی واردنہیں کرتا۔ پھر فرمایا کہ روزوں کے دنوں کو خاص طور پر اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرنے اور ذکر الٰہی اور عبادت میں گزارو اور اس بات پر شکر کرو کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے ہدایت کی ایسی عظیم کتاب اتاری جو جامع اور مکمل ہدایت ہے اور شکر کا حق اسی وقت ادا ہوتا ہے جب ہم اس پر عمل کرنے والے بنتے ہیں۔ پھر اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے، میری تلاش کرنے والے میری تلاش میں خاص طور پر سوال کرتے ہیں، رمضان کے مہینے میں اس تلاش میں پہلے سے زیادہ بڑھ جاتے ہیں تو مَیں تو قریب ہوں، ان کی پکاریں سن رہا ہوں اور خالص ہو کر مجھ سے مانگیں گے تو پھر میں قبول بھی کرتا ہوں لیکن دعا قبول کروانے کے لیے ضروری ہے کہ دعا کرنے والا بھی میری بات مانے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے حکم کو قبول کرے۔ میرے پر ایمان مضبوط کرے۔ یہ شکوہ کہ ہم تو دعا کر دیتے ہیں، کرتے ہیں، ہم نے بہت دعا کی لیکن اللہ تعالیٰ نے نہیں سنی۔ چند دن بعد ہی بعضوں کے یہ شکوے شروع ہو جاتے ہیں۔ اگر ہم اللہ تعالیٰ کی ہدایت کو نہیں سنتے، اس پر ہم عمل نہیں کرتے، اللہ تعالیٰ سے محبت کی تلاش نہیں کرتے، اس کے حقیقی بندے نہیں بنتے۔ صرف مشکل وقت آنے یا کسی تکلیف کے وقت میں ہی اسے پکارتے ہیں اور پھر بھول جاتے ہیں تو پھر کس طرح شکوہ کر سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری دعائیں نہیں سُنیں۔ پس پہلے ہمیں اپنے آپ کو سنوارنا ہو گا۔ ہاں اپنے آپ کو سنوارنے کی کوشش کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے کے لیے دعا کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے دعا بھی کرنی ہو گی۔ پھر اللہ تعالیٰ ہماری تسکین اور سکون کے سامان بھی پیدا فرمائے گا۔ کس طرح قبولیت کرتا ہے؟ اگر دل کو تسکین مل جاتی ہے سکون مل جاتا ہے تو یہ بھی قبولیت ہی ہے۔ پھر اپنے خالص بندوں، اپنے عاشقوں کی دعاؤں کو قبول کرنے کی طرح پھر اللہ تعالیٰ ہماری دعاؤں کو بھی قبول فرمائے گا۔ پس ہماری طرف سے پہلی کوشش رمضان کے مہینے میں ہو گی تو مومنوں کے لیے اپنا قرب پانے، دعاؤں کو قبول کرنے کے لیے خاص انتظام بھی پھر اللہ تعالیٰ کر دیتا ہے۔ پس اس میں ہمیں خاص کوشش کرنے کی ضرورت ہے ورنہ ہمیں اللہ تعالیٰ سے شکوے کرنے کا کوئی حق نہیں کہ وہ دعا قبول نہیں کرتا۔ دعا کے طریق اور اپنی حالتوں کو قبولیت دعا کی کیفیت والا بنانے کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کس طرح رہنمائی فرمائی ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں: ’’یہ سچی بات ہے کہ جو شخص اعمال سے کام نہیں لیتا وہ دعا نہیں کرتا بلکہ خدا تعالیٰ کی آزمائش کرتا ہے۔ اس لیے دعا کرنے سے پہلے اپنی تمام طاقتوں کو خرچ کرنا ضروری ہے۔ اور یہی معنی اس دعا کے ہیں۔‘‘ (ملفوظات جلد 1 صفحہ 124)
پھر آپؑ فرماتے ہیں۔ ’’یہ خیال مت کرو کہ ہم بھی ہر روز دعا کرتے ہیں اور تمام نماز دعا ہی ہے جو ہم پڑھتے ہیں۔‘‘ بے شک نماز جو ہے دعا ہے لیکن وہ کیفیت پیدا ہونی چاہیے جو دعا کا حقیقی مقصد ہے، وہ بھی ضروری ہے۔ فرمایا ’’کیونکہ وہ دعا جو معرفت کے بعد اور فضل کے ذریعہ سے پیدا ہوتی ہے وہ اَور رنگ اور کیفیت رکھتی ہے۔ وہ فنا کرنے والی چیز ہے۔ وہ گداز کرنے والی آگ ہے۔ وہ رحمت کو کھینچنے والی ایک مقناطیسی کشش ہے۔ وہ موت ہے پر آخر کو زندہ کرتی ہے۔ وہ ایک تند سَیل ہے پر آخر کو کشتی بن جاتی ہے۔‘‘ ایک طوفان ہے سمندر کا لیکن وہی طوفان کشتی بن جاتا ہے، بچانے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ فرمایا کہ ’’ہر ایک بگڑی ہوئی بات اس سے بن جاتی ہے اور ہر ایک زہر آخر اس سے تریاق ہو جاتا ہے۔‘‘ پس حقیقی دعا تو اس طرح اثر دکھاتی ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں
’’مبارک وہ قیدی جو دعا کرتے ہیں، تھکتے نہیں، کیونکہ ایک دن رہائی پائیں گے۔ مبارک وہ اندھے جو دعاؤں میں سست نہیں ہوتے کیونکہ ایک دن دیکھنے لگیں گے۔ مبارک وہ جو قبروں میں پڑے ہوئے دعاؤں کے ساتھ خدا کی مدد چاہتے ہیں۔ کیونکہ ایک دن قبروں سے باہر نکالے جائیں گے۔‘‘ یعنی روحانی طور پر مردہ ہوئے ہوئے ہیں۔ ’’مبار ک تم جب کہ دعا کرنے میں کبھی ماندہ نہیں ہوتے اور تمہاری روح دعا کے لیے پگھلتی اور تمہاری آنکھ آنسو بہاتی اور تمہارے سینے میں ایک آگ پیدا کر دیتی ہے اور تمہیں تنہائی کا ذوق اٹھانے کے لیے اندھیری کوٹھڑیوں اور سنسان جنگلوں میں لے جاتی ہے اور تمہیں بے تاب اور دیوانہ اور از خود رفتہ بنا دیتی ہے کیونکہ آخر تم پر فضل کیا جاوے گا۔ وہ خدا جس کی طرف ہم بلاتے ہیں نہایت کریم و رحیم، حیا والا، صادق، وفادار، عاجزوں پر رحم کرنے والا ہے۔ پس تم بھی وفادار بن جاؤ اور پورے صدق اور وفا سے دعا کرو کہ وہ تم پر رحم فرمائے گا۔ دنیا کے شور و غوغا سے الگ ہو جاؤ اور نفسانی جھگڑوں کا دین کو رنگ مت دو۔‘‘ فرمایا ’’…… دعا کرنے والوں کو خدا معجزہ دکھائے گا اور مانگنے والوں کو ایک خارق عادت نعمت دی جائے گی۔ دعا خدا سے آتی ہے اور خدا کی طرف ہی جاتی ہے۔ دعا سے خدا ایسا نزدیک ہو جاتا ہے جیسا کہ تمہاری جان تم سے نزدیک ہے۔ دعا کی پہلی نعمت یہ ہے کہ انسان میں پاک تبدیلی پیدا ہوتی ہے۔‘‘ فرمایا ’’…… غرض دعا وہ اکسیر ہے جو ایک مُشتِ خاک کو کیمیا کر دیتی ہے اور وہ ایک پانی ہے جو اندرونی غلاظتوں کو دھو دیتا ہے۔ اس دعا کے ساتھ روح پگھلتی ہے اور پانی کی طرح بَہ کر آستانہ حضرتِ احد یت پر گرتی ہے۔ وہ خدا کے حضور میں کھڑی بھی ہوتی ہے اور رکوع بھی کرتی ہے اور سجدہ بھی کرتی ہے۔ اور اسی کی ظل وہ نماز ہے جواسلام نے سکھلائی ہے۔ اور روح کا کھڑا ہونا یہ ہے کہ وہ خدا کے لیے ہر ایک مصیبت کی برداشت اور حکم ماننے کے بارے میں مستعدی ظاہر کرتی ہے۔ اور اس کا رکوع یعنی جھکنا یہ ہے کہ وہ تمام محبتوں اور تعلّقوں کو چھوڑ کر خدا کی طرف جھک آتی ہے اور خدا کے لیے ہو جاتی ہے۔ اور اُس کا سجدہ یہ ہے کہ وہ خدا کے آستانہ پر گِر کر اپنے تئیں بکلی کھو دیتی ہے۔‘‘ اپنی ذات کو ختم کر دیتی ہے ’’اور اپنے نقشِ وجود کو مٹا دیتی ہے۔ یہی نماز ہے جو خدا کو ملاتی ہے اور شریعت اسلامی نے اس کی تصویر معمولی نماز میں کھینچ کر دکھلائی ہے تا وہ جسمانی نماز روحانی نماز کی طرف محرک ہو‘‘ لے جانے والی ہو۔‘‘ (لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 222 تا 224)
پس یہ وہ حالت ہے جو ہمیں اپنے اندر پیدا کرنی ہو گی تاکہ دعاؤں کی قبولیت کے نظارے ہم دیکھیں۔ رمضان کے روزوں کے ساتھ عبادت کی حقیقت سے بھی فیض یاب ہوں اور دعاؤں کی قبولیت کے نظارے بھی ہم دیکھیں۔ اگر دعاؤں کی قبولیت میں کہیں کمی ہے تو ہمارے اندر ہی کمی ہے۔ خدا تعالیٰ کا فرمان کبھی غلط نہیں ہو سکتا۔ ان دنوں میں اپنی حالتوں کی بہتری کے لیے ہمیں خاص طور پر دعائیں کرنی چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ جو اپنے بندوں کے پہلے ہی بہت قریب ہے ان دنوں میں اَور بھی قریب آ گیا ہے۔ اپنی فرض عبادتوں اور اپنے نوافل میں خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور ہمیں جھکنا چاہیے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس مہینے کا ابتدائی عشرہ رحمت ہے درمیانی عشرہ مغفرت کا موجب ہے اور آخری عشرہ جہنم سے نجات دلانے والا ہے۔ (کنز العمال جلد 8 صفحہ 477 فی فصل صوم شھر رمضان حدیث 23714 مؤسسۃ الرسالۃ بیروت 1985ء)
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنا حقیقی عبد بناتے ہوئے اپنی رحمت اور مغفرت کی چادر میں لے لے اور اس مہینے سے ہم فیض پانے والے ہوں۔ ان دنوں میں خاص طور پر جماعت کے لیے دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ دشمنان احمدیت کے شر ان پر الٹائے اور جہاں جہاں بھی جماعت کے خلاف منصوبے باندھے جا رہے ہیں اللہ تعالیٰ وہاں ان کی تدبیریں اور ان کے مکر ان پر الٹائے۔ مسلم امہ کے لیے بھی دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کو ظلم کرنے اور ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے سے روکے، بچائے اور خالص مسلمان بنائے۔ زمانے کے امام کو یہ ماننے والے ہوں۔ دنیا کے حالات کے لیے عمومی طور پر بھی دعا کریں۔ بڑی تیزی سے بہت بڑی تباہی کی طرف جا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ دنیا کو عقل دے اور یہ خدا تعالیٰ کو پہچانیں تا کہ اس تباہی سے بچ سکیں۔ نماز کے بعد میں دو جنازے غائب پڑھاؤں گا۔ ان کی وفات تو دو مہینے پہلے کی ہے لیکن یہ کوائف ابھی میرے سامنے آئے ہیں۔ پہلا نام مکرم ڈاکٹر طاہر عزیز احمد صاحب ابن ارشد اللہ بھٹی صاحب مرحوم اسلام آباد کا ہے اور دوسرے ڈاکٹر افتخار احمد صاحب ابن ڈاکٹر خواجہ نذیر احمد صاحب مرحوم امریکہ ہیں۔ یہ دونوں فتح جنگ کے قریب اپنی زمینوں کے معاملات دیکھنے کے لیے گئے ہوئے تھے وہاں ڈاکٹر افتخار احمد صاحب کے ایک ملازم نے 13؍مارچ کو انہیں اغوا کرنے کے بعد دونوں کو بے دردی سے قتل کر دیا تھا۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ وہاں قاتلوں کو یہ فکر نہیں ہوتی کہ اگر احمدی کو قتل کر دیا تو ہم پکڑے جائیں گے۔ کیونکہ احمدی کا قتل تو ان کے نزدیک ثواب بھی ہے اور پھر مولوی کی یہ اشیر باد بھی ہے کہ ان کو بچانے کی کوشش کریں گے بلکہ پوری کوشش کریں گے۔ اس لحاظ سے کچھ نہ کچھ احمدیت کا عنصر بھی اس میں شامل ہے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس لحاظ سے شہادت بھی ہے۔
ڈاکٹر طاہر عزیز احمد صاحب 27؍نومبر 1967ء کو مٹھہ ٹوانہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے خاندان میں احمدیت کا آغاز ان کے پڑدادا حضرت مولوی نور احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ لودھی ننگل ضلع گورداسپور کے ذریعے ہوا۔ حضرت مولوی نور احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مولوی محمد حسین بٹالوی کے اس فتویٰ کفر پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا جو اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف تیار کیا تھا اور اس کو، مولوی محمد حسین بٹالوی کو اس بارے میں مولوی صاحب نے خط لکھا تھا جو الحکم کے پہلے شمارے 8 ؍اکتوبر1897ء میں شاملِ اشاعت ہے۔ (ماخوذ از الحکم 8 اکتوبر 1897ء صفحہ 5-6)
نیز حضرت مولوی نور احمد صاحب کے والد مولوی اللہ دتہ بھٹی صاحب آف لودھی ننگل کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے بچوں مرزا سلطان احمد صاحب اور مرزا فضل احمد صاحب کی تعلیم کے لیے بھی قادیان بلایا تھا جس کا ذکر ’’تاریخ احمدیت‘‘ جلد اول میں ہے۔ (ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد 1 صفحہ 119)
مرحوم نے میٹرک کے بعد اسلام آباد ہومیو پیتھک میڈیکل کالج سے ڈی۔ ایچ۔ ایم۔ ایس کا امتحان پاس کیا۔ پھر چٹھہ بختاور اسلام آباد میں پریکٹس شروع کی۔ بڑے ہر دل عزیز ڈاکٹر تھے، بے حد خلیق تھے، متواضع تھے، ہمدرد اور نفیس طبع انسان تھے۔ ایک عرصے تک ڈاکٹر صاحب کا گھر نماز سینٹر کے لیے بھی استعمال ہوتا رہا۔ خلافت کے ساتھ بھی بہت پیار کا تعلق تھا۔ آپ کی وفات پر سینکڑوں غیر از جماعت مردوزَن نے تعزیت کی اور آپ کی وفات کو ایک قومی نقصان قرار دیا۔ پسماندگان میں ان کی اہلیہ کے علاوہ دو بیٹیاں اور ایک بیٹا یادگار چھوڑے ہیں۔ ان کا بیٹا یہاں لندن میں ہے رانا خالد صاحب کا داماد ہے۔ ان کے بڑے بھائی فضَیل عیاض صاحب ہیں جو واقفِ زندگی ہیں، مربی ہیں۔ پہلے ایم۔ ٹی۔ اے میں خدمات بجا لا رہے تھے، اب جامعہ احمدیہ ربوہ میں ہیں۔ دوسرے جو مرحوم ہیں وہ ڈاکٹر افتخار احمد صاحب ہیں ان کا تعلق ترگڑی ضلع گوجرانوالہ سے تھا۔ آپ حضرت محمد جمال صاحب صحابی مسیح موعودؑ کے نواسے تھے۔ ان کے خاندان میں احمدیت کا آغاز آپ کے دادا خواجہ جلال الدین صاحب کے ذریعے خلافتِ ثانیہ میں ہوا۔ ان کے والد خواجہ نذیر احمد صاحب کو تعلیم الاسلام کالج ربوہ میں کیمسٹری پڑھانے کی توفیق ملی۔ مرحوم ڈاکٹر صاحب نے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور سے ایم۔ بی۔ بی۔ ایس کرنے کے بعد تقریباً تین سال احمدیہ کلینک کانو، نائیجیریا میں خدمت کی توفیق پائی۔ تین سال بعد امریکہ چلے گئے جہاں انہوں نے ایم۔ ڈی کیا۔ اس کے بعد تقریباً پندرہ سال رہنے کے بعد وہاں سے ایم ڈی کر کے پھرپاکستان آ گئے۔ پھر پندرہ سال یہاں پاکستان میں رہے۔ پھر تین سال پہلے امریکہ منتقل ہو گئے تھے جہاں کیلے فورنیا میں آپ نے امتحان پاس کر کے وہیں کام شروع کر دیا۔ پھر بچیوں کی وجہ سے پاکستان آ گئے۔ مرحوم بڑے غریب پرور، خدمت ِخلق کے جذبے سے سرشار تھے۔ مالی تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے تھے اور ایک مخلص انسان تھے۔
پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ تین بیٹیاں یادگار چھوڑی ہیں۔ اللہ تعالیٰ دونوں مرحومین کے ساتھ رحمت اور مغفرت کا سلوک فرمائے اور ان کی اولاد کو بھی جماعت اور خلافت سے وابستہ رکھے۔
(الفضل انٹرنیشنل 31؍مئی 2019ءصفحہ 5تا 10)
اَلْخَیْرُ کُلُّہٗ فِی الْقُرْاٰنِ کہ تمام قسم کی بھلائیاں قرآن میں ہیں۔
’’حقیقی مومن تو بڑی سے بڑی قربانی کر کے بھی ڈرتا ہے کہ خدا تعالیٰ کب اور کس طرح راضی ہو‘‘
روزے ہمارے ہی فائدے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہم پر فرض کیے ہیں۔
روزوں سے انسان کی صحت پر بھی خوشگوار اثر پڑتا ہے۔
روزوں سے انسانی زندگی میں ڈسپلن بھی پیدا ہوتا ہے۔
’’روزے سے یہی مطلب ہے کہ انسان ایک روٹی کو چھوڑ کر جو صرف جسم کی پرورش کرتی ہے دوسری روٹی کو حاصل کرے جو روح کی تسلّی اور سیری کا باعث ہے‘‘
ہم خوش ہو کر صرف رمضان کے آنے اور روزوں کی مبارک بادیں دینے پر ہی نہ رہیں بلکہ ہمیں اپنے جائزے لینے چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزوں کا جو مقصد بیان فرمایا ہے کیا ہم اس کے لیے کوشش کر رہے ہیں یا نہیں؟
’’تمہاری تمام فلاح اور نجات کا سرچشمہ قرآن میں ہے۔ کوئی بھی تمہاری ایسی دینی ضرورت نہیں جو قرآن میں نہیں پائی جاتی۔ تمہارے ایمان کا مصدِّق یا مکذِّب قیامت کے دن قرآن ہے اور بجز قرآن کے آسمان کے نیچے اَور کوئی کتاب نہیں جو بلاواسطہ قرآن تمہیں ہدایت دے سکے۔‘‘
مومن تو وہی ہے جو مستقل مزاجی سے نیکیوں کو تلاش کرتا ہے اور انہیں جاری رکھتا ہے۔
اگر دعاؤں کی قبولیت میں کہیں کمی ہے تو ہمارے اندر ہی کمی ہے خدا تعالیٰ کا فرمان کبھی غلط نہیں ہو سکتا۔
رمضان المبارک کی مناسبت سے آیاتِ قرآنیہ، احادیثِ نبویہؐ اور ارشادات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی روشنی میں روزوں کی فرضیت، ان کی اہمیت اور مومنوں کی ذمہ داریوں نیز دعا کی قبولیت کے طریق کا پُر حکمت اور بصیرت افروز بیان۔
جماعتِ احمدیہ کے دشمنوں کے شر سے محفوظ رہنے، امّتِ مسلمہ کی باہمی ہم آہنگی اور پوری دنیا کے تباہی سے بچنے کے لیے دعا کی تحریک۔
مکرم ڈاکٹر طاہر عزیز احمد صاحب آف اسلام آباد پاکستان اور مکرم ڈاکٹر افتخار احمد صاحب آف امریکہ کی افسوس ناک وفات پر ان کا ذکرِ خیر اور نمازِ جمعہ کے بعدنمازِ جنازہ غائب۔
فرمودہ مورخہ10؍مئی 2019ء بمطابق 10؍ہجرت 1398 ہجری شمسی، بمقام مسجدبیت الفتوح، مورڈن، لندن، یوکے
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔