بدری اصحاب نبویؐ کی سِیرِ مبارکہ
خطبہ جمعہ 23؍ اگست 2019ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ-بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
بدری صحابہ کے ذکر میں آج میں جن صحابی کا ذکر کروں گا ان کا نام ہے حضرت عاصم بن عدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ حضرت عاصمؓ کے والد کا نام عدی تھا۔ ان کا تعلق قبیلہ بنو عجلان بن حارثہ سے تھا جو قبیلہ بنو زید بن مالک کا حلیف تھا۔ حضرت عاصمؓ بنو عجلان کے سردار اور حضرت معن بن عدیؓ کے بھائی تھے۔
حضرت عاصمؓ کی کنیت ابوبکربیان کی جاتی ہے جبکہ بعض کے نزدیک ان کی کنیت ابوعبداللہ، ابو عمر اور ابوعمرو بھی تھی۔ حضرت عاصمؓ میانہ قد کے تھے اور بالوں پہ مہندی لگایا کرتے تھے۔ حضرت عاصمؓ کے بیٹے کا نام اَبُوالْبَدَّاح تھا۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 354-355 عاصم بن عدی مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء) (اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 111 عاصم بن عدی مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)
حضرت عاصمؓ کی بیٹی کا نام سہلہ تھا جس کی شادی حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کے ساتھ ہوئی اور ان کے اس شادی سے چار بچے تھے تین بیٹے: معن، عمر، زید اور ایک بیٹی امۃ الرحمٰن صغریٰ۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 94عبدالرحمٰن بن عوف، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب بدر کی طرف روانہ ہونے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عاصم بن عدیؓ کو قبا اور مدینہ کے بالائی حصہ ’’عالیہ‘‘ پر امیر مقرر فرمایا۔ ایک روایت میں یہ بھی آتا ہے کہ روحاء مقام سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عاصمؓ کو مدینہ کے بالائی حصے عالیہ پر امیر مقرر کرتے ہوئے واپس بھیج دیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عاصمؓ کو واپس بھجوایا لیکن آپؓ کو اصحابِ بدر میں شمار کیا اور ان کے لیے اموالِ غنیمت میں سے بھی حصہ مقرر فرمایا۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 355عاصم بن عدی مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء) (الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد 3 صفحہ 463 عاصم بن عدی مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء)
سیرت خاتم النبیینؐ میں اس واقعے کی تفصیل اس طرح بیان ہوئی جو حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے لکھی ہے کہ ’’مدینہ سے نکلتے ہوئے آپؐ نے اپنے پیچھے عبداللہ بن ام مکتومؓ کومدینہ کاامیر مقرر کیا تھا۔ مگر جب آپؐ روحاء کے قریب پہنچے جومدینہ سے 36میل کے فاصلہ پر ہے تو غالباً اس خیال سے کہ عبداللہ ایک نابینا آدمی ہیں اور لشکرقریش کی آمد آمد کی خبر کاتقاضا ہے کہ آپؐ کے پیچھے مدینہ کاانتظام مضبوط رہے آپؐ نے ابولبابہ بن منذر کومدینہ کا امیر مقرر کر کے واپس بھجوادیا اور عبداللہ بن ام مکتوم کے متعلق حکم دیا کہ وہ صرف امام الصلوٰة رہیں۔ مگر انتظامی کام ابولبابہ سرانجام دیں۔ مدینہ کی بالائی آبادی یعنی قباء کے لیے آپؐ نے عاصم بن عدی کو الگ امیر مقرر فرمایا۔‘‘ (سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے صفحہ 354)
حضرت عاصمؓ غزوۂ احد اور غزوۂ خندق سمیت تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئے۔ حضرت عاصمؓ نے 45ہجری میں حضرت معاویہؓ کے دور ِحکومت میں مدینے میں وفات پائی۔ اس وقت ان کی عمر115 سال تھی۔ بعض کے نزدیک انہوں نے 120سال کی عمر میں وفات پائی۔ جب حضرت عاصمؓ کی وفات کا وقت آیا تو ان کے گھر والوں نے رونا شروع کیا اس پر انہوں نے کہا کہ مجھ پر نہ روؤ کیونکہ میں نے تو اپنی عمر گزار لی۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 355عاصم بن عدی مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء) (الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد 3 صفحہ 464 عاصم بن عدی مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء) اور بہت لمبی عمر گزار لی۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب صحابہ کرام کو غزوۂ تبوک کی تیاری کے لیے حکم دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امراء کو اللہ کی راہ میں مال اور سواری مہیا کرنے کی تحریک بھی فرمائی اور اس پر مختلف لوگوں نے اپنی اپنی حیثیت کے مطابق قربانی پیش کی۔ اسی موقعے پر حضرت ابوبکرؓ اپنے گھر کا سارا مال لے آئے جو کہ چار ہزار درہم تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکرؓ سے دریافت فرمایا کہ اپنے گھر والوں کے لیے بھی کچھ چھوڑا ہے کہ نہیں؟ تو انہوں نے عرض کیا کہ گھر والوں کے لیے اللہ اور اس کا رسولؐ چھوڑ آیا ہوں۔ حضرت عمرؓ اپنے گھر کا آدھا مال لے کر آئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرؓ سے دریافت کیا کہ اپنے گھر والوں کے لیے بھی کچھ چھوڑ کے آئے ہو؟ تو انہوں نے عرض کیا کہ نصف چھوڑ کے آیا ہوں۔ اس موقعے پر حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے ایک سو اَوقیہ دیے۔ ایک اَوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عثمان بن عفانؓ اور عبدالرحمٰن بن عوفؓ زمین پر اللہ تعالیٰ کے خزانوں میں سے خزانے ہیں جو اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرتے ہیں۔ اس موقعے پر عورتوں نے بھی اپنے زیورات پیش کیے۔ اسی موقعے پر حضرت عاصم بن عدیؓ، جن کا ذکر ہو رہا ہے انہوں نے ستر وَسق کھجوریں پیش کیں۔ ایک وسق میں ساٹھ صاع ہوتے ہیں اور ایک صاع تقریباً اڑھائی سیر کا ہوتا ہے، یا اڑھائی کلو کا تو اس طرح کھجوروں کا کل وزن 262من بنتا ہے۔ (السیرۃ الحلبیہ جلد 3 صفحہ 183-184 غزوہ تبوک مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2002ء) (لغات الحدیث جلد 1 صفحہ 82‘‘ اوقیہ ’’جلد 4 صفحہ487 ’’وسق‘‘۔ جلد 2 صفحہ 648 ’’صاع‘‘ ناشر نعمانی کتب خانہ لاہور 2005ء)
ایک من تقریباً چالیس سیر کا پاکستان کا وزن ہے یا انتالیس کلو کا یا اڑتیس کلو کا ہوتا ہے۔ بہرحال حضرت عاصمؓ نے بھی اس موقعے پر جو اُن کے پاس کھجوریں تھیں وہ پیش کیں اور بڑی مقدار میں پیش کیں۔ حضرت عاصم بن عدیؓ ان صحابہ میں سے تھے جنہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد ضرار گرانے کا حکم دیاتھا۔ اس واقعہ کی تفصیل اس طرح بیان ہوئی ہے۔
حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ بنو عمرو بن عوف نے مسجد قبا بنائی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پیغام بھیجا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائیں اور اس میں نمازپڑھیں۔ جب بنو غنم بن عوف کے کچھ لوگوں نے اس مسجدکو دیکھا تو انہوں نے کہا کہ ہم بھی ایک مسجد بناتے ہیں جیسے بنو عمرو نے بنائی ہے تو ان کو ابو عمرو فاسق جو بڑا مخالف تھا۔ یہ فتنہ پیدا کرنے والا تھا۔ اس نے کہا کہ تم بھی ایک مسجد بناؤ اور حتی الوسع اس میں اسلحہ بھی جمع کرو۔ اس کی نیت یہ تھی کہ اس کو فتنے کا مرکز بنایا جائے۔ کہنے لگا کہ میں روم کے بادشاہ قیصر کے پاس جا رہا ہوں اور وہاں سے ایک رومی لشکر لاؤں گا۔ پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے ساتھیوں کو یہاں سے نکال دوں گا۔
جب مسجد مکمل ہو گئی تو ان کے لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ ہم نے یہ مسجد بیماروں اور معذوروں کی آسانی کے لیے بنائی ہے کہ وہ زیادہ دور نماز پڑھنے نہیں جا سکتے اور ساتھ ہی آپؐ سے یہ بھی درخواست کی کہ اس مسجد میں نماز پڑھانے کے لیے تشریف لائیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اس وقت سفر کی تیاری میں مصروف ہوں۔ سفر پہ جا رہے تھے، ان شاء اللہ جب ہم واپس آئیں گے تو مَیں نماز پڑھاؤں گا۔ یہ غزوۂ تبوک کا سفر تھا۔ غزوۂ تبوک سے واپسی پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے سے تھوڑے فاصلے پر ایک جگہ ذی أوان، اس کے اور مدینہ کے درمیان ایک گھنٹے کا فاصلہ ہے وہاں قیام فرمایا تو آپؐ کو مسجد ضرار کے بارے میں یہ وحی نازل ہوئی جس کا قرآن شریف میں سورۂ توبہ میں ذکر ہے کہ
وَ الَّذِیۡنَ اتَّخَذُوۡا مَسۡجِدًا ضِرَارًا وَّ کُفۡرًا وَّ تَفۡرِیۡقًۢا بَیۡنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ اِرۡصَادًا لِّمَنۡ حَارَبَ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ مِنۡ قَبۡلُ ؕ وَ لَیَحۡلِفُنَّ اِنۡ اَرَدۡنَاۤ اِلَّا الۡحُسۡنٰی ؕ وَ اللّٰہُ یَشۡہَدُ اِنَّہُمۡ لَکٰذِبُوۡنَ۔ (توبہ: 107)
اور وہ لوگ جنہوں نے تکلیف پہنچانے اور کفر پھیلانے اور مومنوں کے درمیان پھوٹ ڈالنے اور ایسے شخص کو کمین گاہ مہیا کرنے کے لیے جو اللہ اور اس کے رسولؐ سے پہلے ہی لڑائی کر رہا ہے ایک مسجد بنائی ہے ضرور وہ قسمیں کھائیں گے کہ ہم بھلائی کے سوا کچھ نہیں چاہتے تھے جبکہ اللہ گواہی دیتا ہے کہ وہ یقیناً جھوٹے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد مالک بن دخشم اور معن بن عدی کو بلایا اور ان کو مسجد ضرار گرانے کا حکم دیا۔ کچھ روایات میں یہ بھی ہے کہ حضرت عاصم بن عدی اور عمرو بن سکن اور وحشی، جس نے حضرت حمزہؓ کو شہید کیا تھا اور سوید بن عباس کو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مقصد کے لیے بھیجا۔ شرح زرقانی میں یہ بھی لکھا ہے کہ ممکن ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے دو افراد کو بھجوایا ہو پھر مزید چار افراد ان کی اعانت کے لیے بھجوائے ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مسجد ضرار کی طرف جانے کا ارشاد فرمایا کہ اسے گرا دیں اور آگ لگا دیں۔ یہ کہتے ہیں کہ یہ سب لوگ تیزی سے قبیلہ بنو سالم پہنچے جو کہ حضرت مالک بن دخشم کا قبیلہ تھا۔ حضرت مالک بن دخشمؓ نے حضرت معنؓ سے کہا کہ مجھے کچھ مہلت دو یہاں تک کہ میں گھر سے آگ لے آؤں۔ چنانچہ وہ گھر سے کھجور کی سوکھی ٹہنی کو آگ لگا کر لے آئے۔ پھر وہ مغرب اور عشاء کے درمیان مسجد ضرار کے پاس پہنچے اور وہاں جا کر اسے آگ لگا دی اور اس کو زمین بوس کر دیا۔ یہ کچھ حصہ میں نے پہلے حضرت مالک بن دخشم کے ضمن میں بیان کیا تھا۔ بہرحال اس وقت اس مسجد کے بنانے والے وہاں موجود تھے لیکن آگ لگنے کے بعد وہ اِدھر اُدھر بھاگ گئے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ مسجد والی جگہ عاصم بن عدی کو دینی چاہی کہ وہ اس جگہ کو اپنا گھر بنا لیں (جن صحابی کا ذکر ہو رہا ہے) لیکن عاصم بن عدیؓ نے کہا کہ میں جگہ نہیں لوں گا۔ اس لیے معذرت کی کہ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے جو نازل کرنا تھا کر دیا یعنی کہ یہ تو ایسی جگہ بنی ہے جو اللہ تعالیٰ کو اس کی عمارت وہاں پسندنہیں آئی تھی اس لیے میں نہیں چاہتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پھر ثابت بن اقرم کو دے دیا کیونکہ ان کے پاس کوئی گھر نہیں ہے۔ ہاں عاصم بن عدیؓ نے کہا کہ میرے پاس گھر بھی ہے اور مجھے انقباض بھی ہو رہا ہے۔ معذرت چاہتا ہوں۔ بہتر یہ ہے کہ اسے ثابت بن اقرم کو دے دیں اور وجہ یہ ہے کہ ان کے پاس گھر نہیں۔ وہ یہاں اپنا گھر بنا لیں گے۔ پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ مسجد، مسجد ضرار والی وہ جگہ جو تھی ثابت بن اقرم کو دے دی۔
ابنِ اسحاق کے مطابق مسجد ضرار بنانے والے منافقین کے نام یہ ہیں۔ خِذام بن خالد، معتب بن قشیر، ابو حبیبۃ بن أزعر، عباد بن حُنیف، جاریہ بن عامر اور اس کے دونوں بیٹے مُجَمَّع بن جاریہ اور زید بن جاریہ، نفیل بن حَرْث، بَحْزَج بن عثمان، ودیعہ۔ تو بہرحال یہ لوگ تھے جو ابو عامر رہب جس کا نام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاسق رکھا تھا اس کے ساتھ یہ سب ملے ہوئے تھے۔ (سبل الہدیٰ والرشاد جلد 5 صفحہ 470تا 472 غزوہ تبوک مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1993ء) (شرح الزرقانی علی المواھب اللدنیۃ الجزء الرابع صفحہ 97-98 ثم غزوۃ تبوک۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1996ء)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے بھی ایک دفعہ دہلی کے سفر پر جب گئے تو دہلی کی جامع مسجد کو دیکھ کر فرمایا بڑی خوبصورت مسجد ہے لیکن فرمایا کہ ’’مسجدوں کی اصل زینت عمارتوں کے ساتھ نہیں ہے بلکہ ان نمازیوں کے ساتھ ہے جو اخلاص کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں۔‘‘ فرمایا کہ ’’ورنہ یہ سب مساجد ویران پڑی ہوئی ہیں۔‘‘ اس زمانے میں بہت ساری مساجد تھیں، ویران تھیں۔ ’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد چھوٹی سی تھی۔‘‘ آپؑ نے فرمایا ’’کھجور کی چھڑیوں سے اس کی چھت بنائی گئی‘‘ شروع میں ’’اور بارش کے وقت (مسجد کی) چھت میں سے پانی ٹپکتا تھا۔‘‘ فرمایا کہ ’’مسجد کی رونق نمازیوں کے ساتھ ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں دنیا داروں نے ایک مسجد بنوائی تھی۔ وہ خدا تعالیٰ کے حکم سے گِرا دی گئی۔ اس مسجد کا نام مسجد ضرار تھا۔ یعنی ضرررساں۔ اس مسجد کی زمین خاک کے ساتھ ملا دی گئی تھی۔ مسجدوں کے واسطے حکم ہے۔‘‘ آپؑ نے فرمایا کہ مسجدوں کے واسطے یہ حکم ہے ’’کہ تقویٰ کے واسطے بنائی جائیں۔‘‘ (ملفوظات جلد8 صفحہ170)
پس یہ ہےمسجد کی اصل حقیقت۔ آج کل مسلمانوں کے ایک طبقے کا مسجدوں کی آبادی کی طرف بھی رجحان ہوا ہے اور عجیب بات یہ ہے کہ یہ رجحان بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی بعثت کے بعد ہوا ہے۔ اگر کچھ موقع پیدا ہوا، جرأت پیدا ہوئی یا عبادت کی طرف توجہ ہوئی یا ظاہری عبادت کی طرف توجہ ہوئی تو یہ بھی آپؑ کے دعوے کے بعد ہی ہے۔ لیکن اس کے باوجود بڑی توجہ سے مسجدیں بناتے ہیں اور مسجدیں بھی بڑی خوبصورت بناتے ہیں اور آج کل خاص طور پر پاکستان وغیرہ میں ان کی آبادی کی طرف بھی بعض لوگوں نے توجہ کی ہے لیکن یہ تقویٰ سے خالی مسجدیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مسجد ضرار کو گرانے کا جو حکم فرمایا تھا اس کے آگے آیات میں یہ بھی بڑا واضح فرمایا تھا کہ مسجد وہی حقیقی ہے جس کی بنیاد تقویٰ پر ہو لیکن ان غیر احمدی علماء نے اپنی دانست میں تقویٰ صرف اسی بات کو سمجھ لیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے خلاف مسجدوں میں کھڑے ہو کے ہرزہ سرائی کی جائے۔ گندی اور غلیظ زبان آپؑ کے متعلق استعمال کی جائے، جماعت کو گالیاں دی جائیں اور پھر صرف یہی نہیں ہے بلکہ آئے دن یہ واقعات ہوتے ہیں کہ ان مسجدوں کی امامت اور فرقوں کے اختلاف کی وجہ سے آپس میں بھی ان کی گالم گلوچ رہتی ہے۔ اب تواکثر واقعات وائرل ہوتے رہتے ہیں کہ مسجدوں میں دنگا فساد ہو رہا ہے یا ایک دوسرے کوگالیاں دی جارہی ہیں۔ پس یہ سب باتیں بتاتی ہیں کہ ان میں تقویٰ کی کمی ہے اور ان کی مساجد میں مسجد کا حقیقی جو حق ہے وہ ادا نہیں ہو رہا اور ان کے عمل جو ہیں ان سے ہم احمدیوں کو بھی سبق لینا چاہیے اور ہمیں یہ کوشش کرنی چاہیے کہ ہماری مسجدیں تقویٰ کی بنیاد پر ہوں۔ پس ہم تقویٰ کو سامنے رکھتے ہوئے ان مسجدوں کو آباد کرنے کے لیے آئیں۔ پس یہی اصل حقیقت ہے۔ اگر یہ قائم رہے گی اور جب تک قائم رہے گی اس وقت تک ان شاء اللہ تعالیٰ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے بھی وارث بنتے رہیں گے۔
حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس بارے میں فرماتے ہیں کہ۔ ’’لِمَنْ حَارَبَ اللّٰہ‘‘ اس کی تشریح فرماتے ہیں کہ ’’یہ ابوعامر کی طرف اشارہ ہے جو عیسائی تھا۔ اس کے مکروں سے ایک مکر یہ بھی تھا کہ رسول کریمؐ اس مسجد میں نماز پڑھ لیں۔ پھر کچھ مسلمان ادھر بھی آ جایا کریں اور اس طرح مسلمانوں کی جماعت کو توڑ لوں گا۔ اس ابو عامر نے اپنا ایک رؤیا بھی مشتہر کر رکھا تھا کہ میں نے دیکھا ہے کہ نبی کریمؐ وَحِیْدًا طَرِیْدًا شَرِیْدًا۔‘‘ کہ دھتکارے ہوئے (نعوذ باللہ) تن تنہا ’’فوت ہوں گے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے‘‘ اس کی یہ بات سن کر ’’فرمایا کہ خواب سچا ہے۔‘‘ یہ ٹھیک کہتا ہے۔ اصل میں بات یہ ہے کہ اس لیے سچا ہے کہ ’’اس نے اپنی حالت دیکھی ہے چنانچہ ایسا ہی ہوا۔‘‘ آپؐ نے نام نہیں لیا اور اس کی بابت لکھتے ہیں کہ یہ نام نہ لینے میں اصل میں۔ ’’یہ بلاغت ہے کہ آئندہ بھی اگر کوئی ایسا کرے گا تو اس کا انجام بھی یہی ہو گا۔‘‘ (حقائق الفرقان جلد2صفحہ310 زیر آیت وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مَسْجِدًا ضِرَارًا)
اور پھر ہم دیکھتے ہیں کہ آج بھی ایسے ہی دشمنوں کے انجام ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ دوسرے صحابی جن کا ذکر ہے ان کا نام حضرت عمرو بن عوفؓ ہے۔ حضرت عمروؓ کا نام عمیر بھی ملتا ہے اور والد کا نام عوف تھا۔ حضرت عمروؓ کی کنیت ابوعمرو تھی۔ ان کی ولادت مکے میں ہوئی اور ابن سعد کے مطابق یہ یمن سے تھے۔ (الاصابہ فی تمییز الصحابہ لابن حجر عسقلانی جلد 4 صفحہ553-552 «عمرو بن عوف « دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان 2005ء) (الطبقات الکبریٰ لابن سعد‘عمرو بن عوف’جزء3 صفحہ254 دار الفکر بیروت لبنان2012ء)
یعنی یمن کے رہنے والے تھے۔ مؤرخین نے اور سیرت نگاروں نے اور محدثین نے ان صحابی کے نام کے بارے میں مختلف رائے دی ہیں اور ان کے بارے میں بہت زیادہ اشتباہ پایا جاتا ہے۔ چنانچہ امام بخاری، ابن اسحاق، ابن سعد، علامہ ابن عبدالبَرّ، علامہ ابن اثیر جزری وغیرہ نے ان کا نام عمرو بیان کیا ہے جبکہ ابن ہشام، موسیٰ بن عقبہ، ابو معشر محمد بن عمر واقدی وغیرہ نے ان کا نام عمیر بیان کیا ہے۔ علامہ بدرالدین عینی اور علامہ ابن حجر عسقلانی یہ دونوں صحیح بخاری کے شارح بھی ہیں۔ ان کی تشریح لکھی ہے ان کے مطابق عمرو بن عوف اور عمیر بن عوف دونوں ہی ایک شخص کے نام ہیں۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد‘‘ عمیر بن عوف ’’جلد 3 صفحہ 310، جلد 4 صفحہ 269۔ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء) (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جلد 3 صفحہ 274 «عمرو بن عوف الأنصاری» دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان 2002ء) (عمدةالقاری الجزء 15صفحہ 121 کتاب الجزیۃ داراحیاء التراث بیروت۔ لبنان2003ء) (الاصابہ فی تمییز الصحابہ لابن حجر عسقلانی جلد 4 صفحہ552-553 «عمرو بن عوف « دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان 2005ء) (اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 246 «عمرو بن عوف « مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء) (ابن ہشام صفحہ 463 ومن بنی عامر مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2001ء)
امام بخاری کے مطابق حضرت عمرو بن عوفؓ انصاری قریش کے قبیلہ بنو عامر بن لوئی کے حلیف تھے جبکہ ابنِ ہشام اور ابنِ سعدنے انہیں قریش کے خاندان بنو عامر بن لوئی سے قرار دیا ہے۔ علامہ بدرالدین عینی جو بخاری کے شارح ہیں انہوں نے اس کی تطبیق کی ہے۔ اس کو (دونوں مختلف بیانوں کو) اس طرح اس کے ساتھ آپس میں ملایا ہے کہ کہتے ہیں کہ حقیقت میں حضرت عمرو بن عوفؓ انصار کے قبیلہ اوس یا خزرج میں سے تھے اور انہوں نے مکے جا کر قیام کیا تھااور وہاں بعض لوگوں کے حلیف ہوئے تھے اور اس اعتبار سے وہ انصاری بھی ہوئے اور مہاجر بھی ہوئے۔ (صحیح بخاری کتاب الجزیہ بَابُ الْجِزْيَةِ وَالْمُوَادَعَةِ مَعَ أَهْلِ الْحَرْبِ حدیث نمبر 3158) (عمدةالقاری الجزء 15صفحہ 121 کتاب الجزیۃ داراحیاء التراث بیروت۔ لبنان2003ء) (ابن ہشام صفحہ 463 ومن بنی عامر مطبوعہ دار الکتب بیروت 2001ء) (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 310 «عمیر بن عوف « مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
حضرت عمرو بن عوفؓ قدیمی اسلام قبول کرنے والوں میں سے تھے۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 254 «عمرو بن عوف « مطبوعہ دار الفکر بیروت 2012ء)
حضرت عمرو بن عوفؓ نے مکے سے ہجرتِ مدینہ کے وقت قبا میں حضرت کلثوم بن الہدمؓ کے ہاں قیام کیا۔
حضرت عمرو بن عوفؓ غزوۂ بدر، غزوۂ احد، غزوۂ خندق اور اس کے علاوہ دیگر تمام غزوات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد ’عمیر بن عوف‘ جزء3 صفحہ217 دار احیاء التراث العربی بیروت1996ء) (الاصابہ جلد 3 صفحہ 46 سعد بن خیثمہ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء)
حضرت عمرو بن عوفؓ کی وفات حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں ہوئی اور ان کی نمازِ جنازہ حضرت عمرؓ نے پڑھائی۔ (الاصابہ فی تمییز الصحابہ لابن حجر عسقلانی جلد 4 صفحہ553 «عمرو بن عوف « دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان 2005ء)
اگلے صحابی جن کا ذکر ہے ان کا نام حضرت معن بن عدیؓ ہے۔ حضرت معنؓ انصار کے قبیلہ بنو عمرو بن عوف کے حلیف تھے۔ (ابن ہشام صفحہ 29 اسماء من شھد العقبۃ مطبوعہ دار ابن حزم بیروت 2009ء)
حضرت معنؓ حضرت عاصم بن عدیؓ کے بھائی تھے۔ اس حوالے سے پہلے ان کا ذکر ہو چکا ہے۔ حضرت معنؓ ستّر انصار کے ساتھ بیعتِ عقبہ میں شامل ہوئے۔ حضرت معنؓ اسلام قبول کرنے سے پہلے عربی میں لکھنا جانتے تھے، کتابت جانتے تھے۔ جبکہ اس وقت عرب میں کتابت بہت کم تھی۔ حضرت معنؓ غزوۂ بدر، احد اور خندق سمیت تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل ہوئے۔ حضرت زید بن خطابؓ نے مکے سے مدینے ہجرت کی تو اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معن بن عدیؓ اور حضرت زید بن خطابؓ کے درمیان عقد مؤاخات قائم فرمایا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ244-245معن بن عدی دار الاحیاء التراث العربی بیروت 1996ء)
حضرت عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو میں نے حضرت ابوبکرؓ سے کہا کہ آپؓ ہمارے بھائی انصار کے پاس ہمارے ساتھ چلیں۔ چنانچہ ہم گئے اور ان میں سے دو نیک آدمی ہمیں ملے جو بدر میں شریک ہوئے تھے۔ میں نے عروہ بن زبیر سے بیان کیا تو انہوں نے کہا کہ وہ حضرت عُویم بن سَاعِدہؓ اور حضرت مَعْن بن عدیؓ ہی تھے۔ (صحیح البخاری کتاب المغازی باب شھود الملائکۃ بدراً حدیث 4021)
راوی نے آگے جو لکھا ہے، حضرت عمرؓ کی جو روایت ابھی بیان ہوئی ہے اس کی مزید تفصیلات بخاری کی ایک اَور روایت میں بھی درج ہیں جس کا کچھ حصہ میں پیش کرتا ہوں۔ حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ میں مہاجرین میں سے کئی افراد کو قرآن پڑھایا کرتا تھا۔ ان میں سے عبدالرحمٰن بن عوفؓ بھی تھے۔ ایک بار میں ان کے اس گھر میں تھا جو منیٰ میں ہے اور وہ عمر بن خطابؓ کے پاس گئے ہوئے تھے۔ یہ واقعہ اس آخری حج کا ہے جو حضرت عمرؓ نے کیا تھا۔ جب عبدالرحمٰن بن عوفؓ میرے پاس واپس لوٹ کر آئے تو انہوں نے کہا کاش تم بھی اس شخص کو دیکھتے جو آج امیر المومنین کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ امیر المومنین! کیا آپ کو فلاں حکم کے متعلق علم ہوا کہ جو کہتا ہے کہ اگر عمرؓ گئے تو میں فلاں کی بیعت کروں گا یعنی پہلے ہی بتا رہا ہے حضرت عمرؓ کے خلافت کے وقت میں کہ آپؓ کے بعد پھر میں فلاں کی بیعت کروں گا اور پھر اس نے کہا کہ اللہ کی قسم! ابوبکرؓ کی بیعت تو یوں ہی افراتفری میں ہو گئی تھی۔ پھر یہ ہی نہیں کہ اگلی کا اظہار کر دیا بلکہ یہ بھی اظہار کر دیا کہ حضرت ابوبکرؓ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت نعوذ باللہ افراتفری میں غلطی سے ہو گئی تھی اور اس طرح ان کی خلافت کا وہ مقام ان کو ملا۔ یہ سن کر حضرت عمرؓ رنجیدہ ہوئے۔ پھر انہوں نے کہا اگر اللہ نے چاہا تو میں آج شام لوگوں میں کھڑا ہوں گا اور انہیں ان لوگوں سے چوکس کروں گا جو ان کے معاملات کو زبردستی اپنے ہاتھ میں لینا چاہتے ہیں۔ عبدالرحمٰنؓ کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ امیر المومنین! ایسا نہ کریں کیونکہ حج میں عامی لوگ اور اوباش بھی اکٹھے ہوئے ہوتے ہیں تو جب آپؓ لوگوں میں کھڑے ہوں گے تو یہی لوگ زبردستی آپ کے قریب ہو جائیں گے، اکٹھے ہو جائیں گے اور میں ڈرتا ہوں کہ کہیں آپؓ کھڑے ہو کر ایسی بات نہ کہہ دیں کہ ہر بات اڑانے والا آپؓ کے متعلق کچھ اَور کا اَور نہ اڑا دے۔ اپنی طرف سے باتیں لگا کے کچھ اَور ہی مشہور نہ کر دے اور لوگ اسے نہ سمجھیں اور نہ ہی مناسب محل پر اسے چسپاں کریں۔ سمجھ بھی نہ آئے اور پھر صحیح موقعے پر اس کو چسپاں بھی نہ کریں۔ اس کی وضاحت بھی نہ ہو سکے۔ پھر انہوں نے حضرت عمرؓ کو مشورہ دیا کہ آپؓ اس وقت تک انتظار کریں کہ مدینے میں پہنچیں۔ حج کے دن تھے۔ مدینے پہنچیں گے تو کیونکہ وہ ہجرت اور سنت کا مقام ہے۔ وہاں کیا ہو گا کہ سمجھ دار اور شریف لوگوں کو الگ تھلگ لے کر جو آپؓ نے کہنا ہو انہیں اطمینان سے کہیں۔ اور کہا کہ میں نے کہا کہ اہلِ علم آپؓ کی بات سمجھیں گے اور مناسب محل پر اسے چسپاں بھی کریں گے۔ اپنی اپنی تشریحیں نہیں کرنے لگ جائیں گے۔ پھر حضرت عمرؓ نے کہا کہ اچھا ٹھیک ہے۔ اللہ کی قسم! ان شاء اللہ پہلی بار جو مدینے میں خطبہ کے لیے کھڑا ہوں گا تو پھر میں وہاں جاتے ہی یہ بات بیان کروں گا۔ ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ ہم مدینہ ذوالحجہ کے اخیر میں پہنچے اور جب جمعے کا دن ہوا تو جونہی سورج ڈھلا اور جمعے کا وقت ہوا توہم جلدی مسجد میں آ گئے۔ وہاں پہنچ کر میں نے سعید بن زیدؓ کو منبر کے پاس بیٹھے ہوئے پایا تو میں بھی ان کے پاس بیٹھ گیا۔ میرا گھٹنا ان کے گھٹنے سے لگ رہا تھا۔ اب یہ پوری تفصیل بیان کر رہے ہیں۔ ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ حضرت عمرؓ بن خطاب نکلے۔ جب میں نے انہیں سامنے سے آتے دیکھا تو میں نے سعید بن زیدؓ سے کہا کہ آج وہ ایسی بات کہیں گے جو انہوں نے جب سے کہ وہ خلیفہ ہوئے نہیں کہی۔ انہوں نے میری بات کو عجیب سمجھا۔ ان کے پاس جو صحابی بیٹھا تھا انہوں نے عجیب سمجھا۔ کہنے لگے امیدنہیں کہ وہ ایسی بات کہیں جو انہوں نے اس سے پہلے نہیں کہی۔
حضرت عمرؓ منبر پر بیٹھ گئے۔ جب اذان دینے والا خاموش ہو گیا تو وہ کھڑے ہوئے اور اللہ کی وہ تعریف کی جس کا وہ اہل ہے۔ پھر کہا کہ اما بعد میں تم سے ایک ایسی بات کہنے لگا ہوں کہ میرے لیے مقرر تھا کہ میں وہ کہوں۔ میں نہیں جانتا کہ شاید یہ بات میری موت کے قریب کی ہو۔ اس لیے جس نے اس بات کو سمجھا اور اچھی طرح یاد رکھا تو جہاں بھی اس کی اونٹنی اس کو پہنچا دے وہ اس کو بیان کرے یعنی ان باتوں کو جہاں تک تم پہنچا سکتے ہو دوسروں تک صحیح رنگ میں ان کو پہنچانا اور جس کو یہ خدشہ ہو کہ اس نے اس کو نہیں سمجھا تو میں کسی کے لیے جائز نہیں رکھتا کہ میرے متعلق جھوٹ کہے۔ غلط بات نہ پہنچانا۔ پھر آپؓ نے فرمایا کہ اللہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سچائی کے ساتھ بھیجا اور آپؐ پر احکام شریعت نازل کیے۔ پھر بعض احکام کا بھی ذکر کیا ایک لمبی تفصیل ہے۔ یہ حدیث ہے اس کو میں چھوڑتا ہوں۔ پھر آپؓ نے فرمایا کہ سنو! پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ بڑھا چڑھا کر میری تعریف نہ کرو جیساکہ عیسیٰ بن مریم کی تعریف میں مبالغہ کیا گیا اور فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نےیہ فرمایا تھا کہ میرے متعلق یہ کہا کرو کہ وہ اللہ کا بندہ اور اس کا رسولؐ ہے۔ پھر حضرت عمرؓ نے کہا کہ مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ تم میں سے کوئی کہنے والا یہ کہتا ہے۔ اس بات کو بیان کیا کہ حضرت ابوبکرؓ کو تو خلافت یونہی مل گئی۔ آپؓ نے فرمایا کہ اس شخص نے ابوبکرؓ کے متعلق بھی کہا ہے اور پھر میرے متعلق بھی کہا ہے کہ اللہ کی قسم! اگر عمر مر گیا تو میں فلاں کی بیعت کروں گا۔ آپؓ نے فرمایا اس لیے کوئی شخص دھوکے میں رہ کر یہ نہ کہے۔ اس بارے میں وضاحت کر دوں کہ پھر آپؓ بات کو پہلے حضرت ابوبکرؓ کی طرف لے گئے اور آپؓ نے فرمایا کہ کوئی شخص دھوکے میں رہ کر یہ نہ کہے کہ ابوبکرؓ کی بیعت یونہی افراتفری میں غلطی سے ہو گئی تھی اور وہ سرانجام پا گئی اور اس طرح آپؓ خلیفہ بن گئے۔ سنو! یہ درست ہے کہ وہ بیعت اسی طرح ہوئی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے اس افراتفری کی بیعت کے شر سے بچائے رکھا۔ ٹھیک ہے وہ افراتفری میں ہی ہوئی تھی۔ ایسا موقع آیا تھا لیکن اس کے شر سے اللہ تعالیٰ نے بچایا اور تم میں ابوبکرؓ جیسا کوئی نہیں کہ جس کے پاس اونٹوں پر سوار ہو کر لوگ آئیں۔ یعنی کہ ایسا عالم با عمل اور مخلص اور تقویٰ کے معیار پر پہنچا ہوا اَور کوئی شخص نہیں تھا۔ پھر آگے باقی باتوں کی کچھ تفصیل بیان ہوئی ہے۔ پھر آپؓ نے فرمایا کہ جس نے مسلمانوں کے مشورے کے بغیر کسی شخص کی بیعت کی تو اس کی بیعت نہ کی جائے یعنی کہ جو بیعت ہوئی تھی وہ بڑے مشورے سے ہوئی تھی اور یہ بھی یاد رکھو کہ جس نے مسلمانوں کے مشورے کے بغیر کسی شخص کی بیعت کی تو اس کی بیعت نہ کی جائے اور نہ اس شخص کی جس نے اس کی بیعت کی۔ اس لیے کہ کہیں وہ اپنے آپ کو مروا نہ ڈالے۔
پھر حضرت عمرؓ نے بیان فرمایااور اصل میں ہمارا واقعہ یوں ہوا تھاکہ جب اللہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات دی تو انصار ہمارے مخالف ہو گئے اور وہ سب ثقیفہ بنو ساعدہ میں اکٹھے ہوگئے اور علیؓ اور زبیرؓ اور جو ان دونوں کے ساتھ تھے، ہمارے مخالف تھے، اور مہاجر اکٹھے ہو کر ابوبکرؓ کے پاس آئے۔ میں نے ابوبکرؓ سے کہا کہ ابوبکرؓ ! آؤ ہم اپنے ان انصار بھائیوں کے پاس چلیں۔ ہم انہیں کا قصہ بیان کرتے ہوئے چلے۔ وہی باتیں کرتے ہوئے چلے جا رہے تھے کہ وہ کیا باتیں کر رہے ہیں۔ جب ہم ان کے قریب پہنچے تو ان میں سے دو نیک مرد ہمیں ملے اور پہلی روایت جو میں نے بیان کی تھی اس کے مطابق وہ جو دو نیک مرد تھے ان میں سے ایک حضرت معن بن عدیؓ تھے۔ بہرحال آپؓ فرماتے ہیں اور جس مشورے پر وہ لوگ یعنی انصار جو تھے بالاتفاق آمادہ تھے ان دونوں نے جو ہمیں رستہ میں ملے ان کا ذکر کیا اور انہوں نے کہا کہ اے مہاجرین کی جماعت! تم کہاں جانا چاہتے ہو؟ ہم نے کہا کہ ہم ان انصاری بھائیوں کو ملنا چاہتے ہیں۔ تو ان دونوں نے جو راستے میں ملے تھے یہ کہا جن میں حضرت معن بن عدیؓ بھی تھے کہ ہرگز نہ وہاں جانا۔ تمہیں یہی مناسب ہے کہ ان کے پاس نہ جاؤ۔ تم نے جو مشورہ کرنا ہے وہ خود ہی کر لو۔ حضرت عمرؓ کہتے ہیں میں نے کہا کہ اللہ کی قسم! ہم ضرور ان کے پاس جائیں گے اور یہ کہہ کر ہم چل پڑے اور بنو ساعدہ کے شامیانے میں ان کے پاس پہنچے۔ (صحیح البخاری کتاب الحدودباب رجم الحبلی من الزنا اذا احصنت حدیث نمبر6830)
وہاں انصار کی حضرت ابوبکرؓ کی اور حضرت عمرؓ کی ایک لمبی بحث ہوئی اور جو گفتگو تھی وہ خلافت کے انتخاب کے بارے میں تھی اور پھرآگے اس کی ایک لمبی تفصیل ہے۔ اس ثقیفہ بنو ساعدہ والے واقعہ کی کچھ حد تک تفصیل جو حضرت مصلح موعودؓ نے بیان فرمائی ہے وہ میں بیان کر دیتا ہوں۔ یہاں انصار کی جگہ پر بیٹھے ہوئے تھے۔ اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر صحابہ کے تین گروہ بن گئے تھے۔ ایک گروہ نے یہ خیال کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایک ایسا شخص ضرور ہونا چاہیے جو نظام اسلامی کو قائم کرے مگر چونکہ نبی کے منشا کو اس کے اہل و عیال ہی بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل میں سے ہی کوئی شخص مقرر ہونا چاہیے۔ ایک گروہ یہ کہتا تھا کہ آپ کی اولاد میں سے کوئی شخص ہونا چاہیے۔ کسی اَور خاندان میں سے کوئی اَور شخص نہیں ہونا چاہیے۔ اس گروہ کے ذہن میں یہ بات تھی کہ اگر کسی اَور خاندان میں سے کوئی شخص خلیفہ مقرر ہو گیا تو لوگ اس کی باتیں مانیں گے نہیں اور اس طرح نظام میں خلل واقع ہو گا۔ خاندان سے اولاد مراد ہے یا ان کے قریبی داماد وغیرہ بھی ہو سکتے ہیں۔ بہرحال حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں لیکن اگر آپؐ کے خاندان میں سے ہی کوئی خلیفہ مقرر ہو گیا تو چونکہ لوگوں کو اس خاندان کی اطاعت کی عادت ہے اس لیے وہ خوشی سے اس کی اطاعت قبول کر لیں گے۔ جیسے ایک بادشاہ کی بات ماننے کے لوگ عادی ہو چکے ہوتے ہیں جب وفات پا جاتا ہے تو اس کا بیٹا جانشین بنتا ہے تو اس کی اطاعت بھی شوق سے کرنے لگ جاتے ہیں۔ مگر دوسرا فریق جو تھا اس نے سوچا کہ اس کے لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل میں سے ہونے کی شرط ضروری نہیں ہے۔ مقصد تو یہ ہے کہ رسول کریمؐ کا ایک جانشین ہو۔ پس جو سب سے زیادہ اس کا اہل ہو اس کے سپردیہ کام ہونا چاہیے۔ اس دوسرے گروہ کے پھر آگے دو حصے ہو گئے اور گو وہ دونوں اس بات پر متحد تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی جانشین ہونا چاہیے مگر ان میں سے اس بات پر اختلاف ہو گیا کہ رسول کریمؐ کا جانشین کن لوگوں میں سے ہو۔ ایک گروہ کا خیال تھا کہ جو لوگ سب سے زیادہ عرصے تک آپؐ کے زیر تعلیم رہے ہیں وہ اس کے مستحق ہیں یعنی مہاجر اور ان میں سے بھی قریش جن کی بات ماننے کے لیے عرب تیار ہو سکتے ہیں اور بعض نے یہ خیال کیا کہ چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات مدینے میں ہوئی ہے اور مدینے میں انصار کا زور ہے اس لیے وہی اس کام کو اچھی طرح چلا سکتے ہیں۔ بہرحال اس پر انصار اور مہاجرین میں اختلاف بھی ہوا۔ غرض اب انصار اور مہاجرین میں اختلاف ہو گیا۔ انصار کا یہ خیال تھا کہ چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اصل زندگی جو نظام کے ساتھ تعلق رکھتی ہے ہمارے اندر گزاری ہے۔ انصار یہ کہتے تھے کہ مدینے میں گزاری ہے اور مکے میں کوئی نظام نہیں تھا اس لیے نظامِ حکومت ہم ہی بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں اور خلافت کے متعلق ہمارا ہی حق ہے کسی اور کا حق نہیں ہے۔ دوسری دلیل وہ یہ دیتے تھے کہ یہ علاقہ ہمارا ہے اور طبعاً ہماری بات کا ہی لوگوں پر زیادہ اثر ہو سکتا ہے مہاجرین کا اثر نہیں ہو سکتا۔ پس رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جانشین ہم میں سے ہونا چاہیے مہاجرین میں سے نہیں۔ اس کے مقابلے میں مہاجرین یہ کہتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جتنی لمبی صحبت ہم نے اٹھائی ہے اتنی لمبی صحبت انصار نے نہیں اٹھائی، اتنا عرصہ ان کے ساتھ نہیں رہے اس لیے دین کو سمجھنے کی جو قابلیت ہمارے اندر ہے وہ انصار کے اندر نہیں ہے۔ آپؓ لکھتے ہیں کہ اس اختلاف پر ابھی دوسرے لوگ غور ہی کر رہے تھے اور وہ کسی نتیجے پر نہیں پہنچے تھے کہ اس آخری گروہ نے جو انصار کے حق میں تھا بنی ساعدہ کے ایک برآمدہ میں جمع ہو کر اس بارہ میں مشورہ شروع کر دیا اور سعد بن عُبادہؓ جو خزرج کے سردار تھے اور نقباء میں سے تھے ان کے بارے میں طبائع کا اس طرف رجحان ہو گیا کہ انہیں خلیفہ مقرر کیا جائے۔ چنانچہ انصار نے آپس میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملک ہمارا ہے، زمینیں ہماری ہیں، جائیدادیں ہماری ہیں اور اسلام کا فائدہ اسی میں ہے کہ ہم میں سے کوئی خلیفہ مقرر ہو۔ اس بات پر فیصلہ کیا کہ اس منصب کے لیے سعد بن عُبادہؓ سے بہتر اَور کوئی شخص نہیں۔ یہ گفتگو ہو رہی تھی کہ بعض نے کہا کہ اگر مہاجرین اس کا انکار کریں گے تو کیا ہوگا؟ سوال اٹھا۔ اس پر کسی نے کہا کہ پھر ہم کہیں گے کہ مِنَّا اَمِیْرٌ وَمِنْکُمْ اَمِیْرٌ۔ یعنی ایک امیر تم میں سے ہو اور ایک ہم میں سے۔ سعد جو بہت دانا آدمی تھے انہوں نے کہا کہ یہ تو پہلی کمزوری ہے۔ انصار جن کو امیر خلیفہ بنانا چاہتے تھے، انہوں نے کہا کہ یہ تو پہلی کمزوری ہے یعنی یا تو ہم میں سے خلیفہ ہونا چاہیے یا ان میں سے۔ مِنَّا اَمِیْرٌ وَمِنْکُمْ اَمِیْرٌ کہنا تو گویا خلافت کے مفہوم کو نہ سمجھنا ہے اور اس سے اسلام میں رخنہ پڑے گا اور یہ رخنہ ڈالنا ہے۔ اس مشورے کے بعد جب مہاجرین کو اطلاع ہوئی تو وہ جلدی سے وہیں آ گئے جیسا کہ حضرت عمرؓ نے بیان فرمایا جو پہلے ذکر ہو چکا کہ آپ حضرت ابوبکرؓ اور کچھ اَور لوگ وہاں گئے۔ کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ اگر مہاجرین میں سے کوئی خلیفہ نہ ہوا تو عرب اس کی اطاعت نہیں کریں گے۔ صرف مدینہ کی بات نہیں بلکہ پورے عرب کی بات ہے۔ مدینے میں بے شک انصار کا زور تھا مگر تمام عرب مکہ والوں کی عظمت اور ان کے شرف کا قائل تھا۔ پس مہاجرین نے سمجھا کہ اگر اس وقت انصار میں سے کوئی خلیفہ مقرر ہو گیا تو اہل عرب کے لیے سخت مشکل پیش آئے گی اور ممکن ہے کہ ان میں سے اکثر اس ابتلا میں پورے نہ اتریں چنانچہ جب سب مہاجرین وہیں آگئے اور ان میں حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت ابوعبیدہؓ بھی شامل تھے۔ حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ میں نے اس موقع پر بیان کرنے کے لیے ایک بہت بڑا مضمون سوچا ہوا تھا اور میرا ارادہ تھا کہ میں جاتے ہی ایک ایسی تقریر کروں گا جس سے تمام انصار میرے دلائل کے قائل ہو جائیں گے اور وہ اس بات پر مجبور ہو جائیں گے کہ انصار کے بجائے مہاجرین میں سے کسی کو خلیفہ منتخب کریں۔ مگر جب ہم وہاں پہنچے تو حضرت ابوبکرؓ تقریر کرنے کے لیے کھڑے ہو گئے۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ انہوں نے بھلا کیا بیان کرنا ہے مگر خدا کی قسم! جتنی باتیں میں نے سوچی ہوئی تھیں وہ سب انہوں نے، حضرت ابوبکرؓ نے بیان کر دیں بلکہ اس کے علاوہ انہوں نے اپنے پاس سے بھی بہت سے دلائل دیے۔ تب میں نے سمجھا کہ میں ابوبکرؓ کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ غرض مہاجرین نے انہیں بتایا کہ اس وقت قریش میں سے ہی امیر ہونا ضروری ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بھی پیش کی کہ اَلْاَئِمَّۃُ مِنْ قُرَیْشٍ کہ قریش میں سے تمہارے امام ہوں اور ان کی سبقتِ دین اور ان کی قربانیوں کا ذکر کیا جو وہ دین کے لیے کرتے چلے آئے تھے۔ اس پر حُبَاب بن مُنْذِرْ خزرجی نے مخالفت کی اور کہا کہ ہم اس بات کو نہیں مان سکتے کہ مہاجرین میں سے خلیفہ ہونا چاہیے۔ ہاں اگر آپ لوگ کسی طرح نہیں مانتے اور آپ کو اس پر بہت اصرار ہے تو پھر یہی ہے کہ ایک امیر آپ میں سے ہو جائے ایک ہمارے میں سے۔ اس پر عمل کیا جائے کہ ایک خلیفہ ہم میں سے ہو اور ایک آپ لوگوں میں سے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ سوچ سمجھ کر بات کرو۔ تمہیں معلوم نہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ایک وقت میں دو امیروں کا ہونا جائز نہیں ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حدیثیں تو ایسی موجود تھیں جن میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نظامِ خلافت کی تشریح کی ہوئی تھی مگر آپؐ کی زندگی میں صحابہ کا ذہن اُدھر منتقل نہیں ہوا اور اس کی وجہ وہی خدائی حکمت تھی جس کا ذکر حضرت مصلح موعودؓ اپنے اس کے پہلے سیاق میں کر چکے ہیں جو بیان کررہے ہیں۔ بہرحال کہتے ہیں کہ پس حضرت عمرؓ نے کہا کہ تمہارا یہ مطالبہ کہ ایک امیر تم میں سے ہو اور ایک ہم میں سے عقلاً اور شرعاً کسی طرح جائز نہیں۔ پھر حضرت ابوبکرؓ کا انتخاب کس طرح ہوا؟ کچھ بحث مباحثہ کے بعد حضرت ابو عُبیدہؓ کھڑے ہوئے اور انہوں نے انصار کو توجہ دلائی کہ تم پہلی قوم ہو جو مکے کے باہر ایمان لائی۔ اب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد تم پہلی قوم نہ بنو جنہوں نے دین کے منشا کو بدل دیا اور کہتے ہیں کہ اس کا طبائع پر ایسا اثر ہوا کہ بشیر بن سعد خزرجی کھڑے ہوئے اور انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ یہ لوگ سچ کہتے ہیں۔ ہم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو خدمت کی اور آپؐ کی نصرت و تائید کی وہ دنیاوی اغراض سے نہیں کی تھی اور نہ اس لیے کی تھی کہ ہمیں آپ کے بعد حکومت ملے بلکہ ہم نے خدا تعالیٰ کے لیے کی تھی۔ پس حق کا سوال نہیں ہے کہ ہمارا حق ہے امیر بنے یا ہم میں سے خلیفہ بنے بلکہ سوال اسلام کی ضرورت کا ہے اور اس لحاظ سے مہاجرین میں سے ہی امیر مقرر ہونا چاہیے کیونکہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لمبی صحبت پائی ہے۔ اس پر کچھ دیر تک اَور بحث ہوتی رہی مگرآخر آدھ پون گھنٹے کے بعد لوگوں کی رائے اسی طرف ہوتی چلی گئی کہ مہاجرین میں سے کسی کو خلیفہ مقرر کرنا چاہیے۔ چنانچہ حضرت ابوبکرؓ نے حضرت عمرؓ اور حضرت ابوعُبیدہؓ کو اس منصب کے لیے پیش کیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے پھر خود پیش کیا کہ یا حضرت عمرؓ ہیں یا حضرت ابوعُبیدہؓ ہیں ان دونوں میں سے کسی کی بیعت کر لینی چاہیے مگر دونوں نے انکار کیا اور کہا کہ جسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بیماری کے دنوں میں نماز کا امام بنایا تھا اور جو سب مہاجرین میں سے بہتر ہے ہم تو اس کی بیعت کریں گے۔
جب حضرت ابوبکرؓ نے حضرت عمرؓ کا اور حضرت ابو عُبیدہؓ کا نام خلافت کے لیے پیش کیا تو اس پہ حضرت عمرؓ نے خود جو بیان کیا ہے، جو پچھلا تسلسل چل رہا تھا۔ حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ اس بات کے سوا جیسا کہ انہوں نے کہا ناں کہ حضرت ابوبکرؓ نے یہ بڑی اعلیٰ تقریر کی اس میں یہ باتیں بھی ہوئیں۔ حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ ساری باتیں بڑی اعلیٰ تھیں لیکن اس بات کے سوا میں نے اَور کوئی بات ناپسندنہیں کی جو انہوں نے کہی یعنی کہ حضرت عمرؓ کا نام پیش کیا یا حضرت ابوعبیدہؓ کا نام پیش کیا۔ آپؓ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم! یہ حال تھا جب حضرت ابوبکرؓ نے میرا نام پیش کیا کہ اگر مجھے آگے بڑھا کر میری گردن اڑاد ی جاتی تا کہ یہ موت مجھے کسی گناہ کے قریب نہ پھٹکنے دے تو مجھے یہ بات اس سے زیادہ پسند تھی کہ میں ایسی قوم کا امیر بنوں جس میں ابوبکرؓ ہوں یعنی ان کا مقام ایسا ہے کہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ اس وقت مجھے حضرت ابوبکرؓ کی موجودگی میں امیر بنا دیا جائے تو میں نے اس کو ناپسند کیا۔ باقی تقریر بہت اعلیٰ تھی۔
بہرحال حضرت مصلح موعودؓ کہتے ہیں حضرت عمرؓ نے جب کہا کہ جو مہاجرین میں سے سب سے بہتر ہے ہم اس کی بیعت کریں گے تو مطلب یہ تھا کہ اس منصب کے لیے حضرت ابوبکرؓ سے بڑھ کر اور کوئی شخص نہیں۔ چنانچہ اس پر حضرت ابوبکرؓ کی بیعت شروع ہو گئی۔ پہلے حضرت عمرؓ نے بیعت کی۔ پھر حضرت ابوعبیدہؓ نے بیعت کی۔ پھر بشیر بن سعد خزرجی نے بیعت کی اور پھر اوس اور پھر خزرج کے دوسرے لوگوں نے اور اس قدر جوش اس وقت پیدا ہواکہ سعد جو بیمار تھے اور اٹھ نہ سکتے تھے۔ ان کی قوم ان کو روندتی ہوئی آگے بڑھ کر بیعت کرتی تھی۔ چنانچہ تھوڑی ہی دیر میں سعدؓ اور حضرت علیؓ کے سوا سب نے بیعت کر لی۔ حتٰی کہ سعدؓ کے اپنے بیٹے نے بھی بیعت کر لی۔ حضرت علیؓ نے کچھ دنوں بعد بیعت کی۔ چنانچہ بعض روایات میں تین دن آتے ہیں اور بعض روایات میں یہ ذکر آتا ہے کہ آپؓ نے چھ ماہ کے بعد بیعت کی تھی۔ چھے ماہ والی روایت میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ حضرت فاطمہؓ کی تیمار داری میں مصروفیت کی وجہ سے آپ حضرت ابوبکرؓ کی بیعت نہ کر سکے اور جب آپؓ بیعت کرنے کے لیے آئے تو آپؓ نے یہ معذرت بھی کی کہ چونکہ فاطمہؓ بیمار تھیں اس لیے بیعت میں مجھے دیر ہو گئی ہے۔ (ماخوذ از خلافت راشدہ صفحہ 39 تا 42، انوارالعلوم جلد 15)
بہرحال اس وقت سب نے بیعت کی۔
حضرت عُروہ بن زبیرؓ بیان کرتے ہیں کہ جس وقت اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات دی تو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر روئے اور انہوں نے کہا کہ اللہ کی قسم! ہم یہ چاہتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے مر جاتے۔ ہمیں اندیشہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد فتنہ میں نہ پڑ جائیں۔ حضرت معنؓ صحابی جن کا ذکر ہو رہا ہے انہوں نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں نہیں چاہتا تھا۔ لوگ تو یہ کہہ رہے تھے کہ ہم پہلے مر جاتے لیکن حضرت معنؓ نے کہا نہیں۔ میں نہیں یہ چاہتا تھا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے مر جاتا۔ کیوں؟ اس لیے کہ میں جب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُسی طرح تصدیق نہ کر لوں جیسا کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کی تھی۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ244-245معن بن عدی دار الاحیاء التراث العربی بیروت 1996ء)
جس طرح میں نے آپؐ کو نبی مانا تھا اسی طرح وفات کے بعد بھی اس بات کی تصدیق نہ کر لوں کہ خلافت راشدہ کا وہی نظام جس کی پیش گوئی آپؐ نے فرمائی تھی وہ جاری ہو چکا ہے اور اسی کو جاری رکھنا ہے اور منافقین اور مرتدین کے جال میں نہیں آنا۔
پس یہی وہ ایمان کا معیار ہے جسے ہر احمدی کو بھی اپنے اندر قائم کرنا چاہیے۔ ایک روایت کے مطابق حضرت معنؓ حضرت خالد بن ولیدؓ کے ہمراہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مرتدین اور باغیوں کی سرکوبی میں شامل تھے اور حضرت خالد بن ولیدؓ نے دو سو گھڑ سواروں کے ہم راہ حضرت معنؓ کو یمامہ کی طرف بطور ہراول دستے کے بھیجا تھا۔ (الاصابۃ فی تمیز الصحابہ جلد6 صفحہ151 معن بن عدی، دارالکتب العلمیہ بیروت 2005ء)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معنؓ کا حضرت زید بن خطّابؓ کے ساتھ عقدِ مؤاخات قائم فرمایا تھا۔ ان دونوں اصحاب نے حضرت ابوبکرصدیقؓ کے دور ِخلافت میں جنگِ یمامہ میں 12 ہجری میں شہادت پائی تھی۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ244 معن بن عدی دار الاحیاء التراث العربی بیروت 1996ء)
اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو بھی نبوت کے مقام کو پہچاننے کی بھی توفیق عطا فرمائے اور خلافت کے ساتھ وفا اور اخلاص کا تعلق پیدا کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے۔
(الفضل انٹرنیشنل 13؍ستمبر2019ء صفحہ5تا9)
مسجد وہی حقیقی ہے جس کی بنیاد تقویٰ پر ہو۔
ہمیں یہ کوشش کرنی چاہیے کہ ہماری مسجدیں تقویٰ کی بنیاد پر ہوں۔
اخلاص و وفا کے پیکر بدری اصحاب نبیؐ حضرت عاصم بن عدی، حضرت عمرو بن عوف اور حضرت معن بن عدی رضی اللہ عنہما کی سیرت مبارکہ کا دل نشیں تذکرہ
نبی اکرمﷺ کی جانب سے مسجد ضرارکے گرائے جانےکا حکم اور اس کا پس منظر۔
نبی اکرمﷺ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے انتخابِ خلافت کا تفصیلی بیان۔
اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو بھی نبوت کے مقام کو پہچاننے کی بھی توفیق عطا فرمائے اور خلافت کے ساتھ وفا اور اخلاص کا تعلق پیدا کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے۔
فرمودہ 23؍ اگست 2019ء بمطابق 23؍ ظہور 1398 ہجری شمسی، بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ سرے (یوکے)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔