حقیقی مومن کی خصوصیات
خطبہ جمعہ 25؍ اکتوبر 2019ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ-بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰہُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ وَلِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ۔ (الحج: 42)
یعنی وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم ان کو دنیا میں طاقت بخشیں تو وہ نمازوں کو قائم کریں گے اور زکوٰة دیں گے اور نیک باتوں کا حکم دیں گے اور بُری باتوں سے روکیں گے اور سب کاموں کا انجام خدا کے ہاتھ میں ہے۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو اس طرف توجہ دلائی ہے کہ حقیقی مومن وہ ہیں جو طاقت ملنے کی صورت میں، کم زوری اور بے چینی کے بعد امن ملنے کی صورت میں، بہتر حالات ہونے پر، آزادی سے اپنی عبادت اور مذہب پر عمل کرنے کے حالات پیداہونے کے بعد اپنی خواہشات اور اپنے ذاتی مفادات کی طرف توجہ دینے والے نہیں بن جاتے بلکہ نماز قائم کرنے والے ہوتے ہیں۔ اپنی نمازوں کی طرف توجہ دینے والے ہوتے ہیں۔ اپنی مسجدوں کو آباد کرنے والے ہوتے ہیں۔ انسانیت کی خدمت کرنے والے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا خوف رکھتے ہوئے غریبوں اور مسکینوں کے لیے اپنے مال میں سے خرچ کرنے والے ہوتے ہیں۔ اشاعتِ دین کے لیے قربانیاں کرنے والے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے دین کی اشاعت کے لیے اپنے مال میں سے خرچ کر کے اسے پاک مال بناتے ہیں۔ نیک باتوں کی طرف خود بھی توجہ دیتے ہیں اور دوسروں کو بھی نیک باتیں کرنے اور اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے حق ادا کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔ برائیوں سے خود بھی رکتے ہیں اور دوسروں کو بھی برائیوں سے روکنے والے ہیں اور کیونکہ یہ سب کام اللہ تعالیٰ کا خوف رکھتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرنے کی وجہ سے کرتے ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ بھی ان کے کاموں کے بہترین نتائج پیدا فرماتا ہے کیونکہ ہر چیز کا فیصلہ خدا تعالیٰ نے ہی کرنا ہے۔ پس جو کام خدا تعالیٰ کی ہدایت پر، اُس کے حکم پر، اُس کی خشیت کو دل میں رکھتے ہوئے کیا جائے تو یقیناً اس کا انجام تو بہتر ہی ہو گا۔ پس یہ اصولی بات اگر ہم میں سے ہر ایک سمجھ لے تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے و الے بنتے چلے جائیں گے۔
آپ نے یہاں مہدی آباد میں مسجد بنائی ہے۔ اسی طرح گذشتہ دنوں میں فلڈا (Fulda) میں اور ویزبادن (Wiesbaden) میں بھی مسجد کا افتتاح ہوا ہے۔ جماعت جرمنی سو مساجد کے تحت اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسجدیں بنانے کی توفیق پا رہی ہے اور یقینا ًاحبابِ جماعت مساجد کی تعمیر کے لیے اس لیے مالی قربانی کر رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرتے ہوئے ہم نے اپنی عبادتوں کے معیار بلند کرنے ہیں۔ پاکستان سے ہجرت کر کے آنے کے بعد یہاں آ کر ہمارے مالی حالات بہتر ہوئے ہیں۔ یہ بات ہم میں سے ہر ایک کو اس طرف توجہ دلانے والی ہونی چاہیے کہ ہم خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کریں اور اس کا گھر تعمیر کریں جہاں ہم جمع ہو کر نماز کا قیام کر سکیں۔ باجماعت نمازیں ادا کر سکیں۔ اپنی نمازوں میں ایسی حالت پیدا کر سکیں جس سے اللہ تعالیٰ کی طرف خالص توجہ پیدا ہو۔ آزادی سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کر سکیں۔ پاکستان میں ہمیں مذہبی آزادی نہیں ہے۔ وہاں ملکی قانون ہمیں مسجدیں بنانے کی اجازت نہیں د یتا۔ ہمیں آزادی سے عبادت کرنے کی اجازت نہیں دیتا کہ ہم وہاں اللہ تعالیٰ کا حق ادا کر سکیں، اس کی عبادت کر سکیں۔ یہاں اللہ تعالیٰ کے حق کی ادائیگی کے لیے ہم مسجدیں بنا رہے ہیں۔ ہم پر اللہ تعالیٰ نے مالی لحاظ سے بھی فضل فرمایا ہے۔ اس لیے ہر ایک کو یہ سوچنا چاہیے کہ ہم اس کے بندوں کے حقوق ادا کرنے کی بھی کوشش کریں گے اور کر رہے ہیں۔ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کی ہے تاکہ اپنی روحانی اور اخلاقی حالتوں کو بہتر کریں تو ہماری یہ مسجدیں ہمیں اس بات کی طرف توجہ دلانے والی ہیں اور ہونی چاہئیں۔ پس یہ سوچ ہے اور اس پر بھرپور عمل کی کوشش ہے جو ہر ایک احمدی کو یہاں رہتے ہوئے اپنے دماغوں میں بھی رکھنی چاہیے، دلوں میں رکھنی چاہیے اور اپنے عمل سے ثابت کرنی چاہیے ورنہ مسجدیں بنانا بے فائدہ ہے۔
پس ہر احمدی کو یاد رکھنا چاہیے کہ ان کا مقصد مسجدیں بنانے سے پورا نہیں ہو گا بلکہ اس وقت پورا ہو گا جب وہ خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف توجہ دیں گے اور اپنی نمازوں کو قائم کریں گے۔ باجماعت نمازوں کے لیے مسجد میں آئیں گے۔ اپنی توجہ نمازوں میں اللہ تعالیٰ کی طرف رکھیں گے، اسے قائم کریں گے۔ اگر توجہ اِدھر اُدھر ہوتی ہے تو فوراً واپس توجہ نماز کی طرف اور خدا تعالیٰ کی طرف پھیریں گے۔ اس بات کی حقیقت کو سمجھیں گے کہ نماز میں ہمیں اللہ تعالیٰ سے باتیں کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ صرف ٹھونگے نہیں مارنے، صرف سجدے نہیں کرنے، صرف عربی الفاظ نہیں اد اکرنے بلکہ اپنی زبان میں بھی باتیں کرنی ہیں۔ ایسی نمازوں کی کوشش ہونی چاہیے جس میں اللہ تعالیٰ کا لقا حاصل ہو۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام متقی کی صفات بیان کرتے ہوئے، حقیقی مومن کی صفات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ وہ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کرنے والے ہیں۔ وہ نماز کو کھڑی کرتے ہیں۔ متقی سے جیسا ہو سکتا ہے وہ نماز کھڑی کرتا ہے یعنی کبھی نماز گر پڑتی ہے پھر اسے کھڑا کرتا ہے۔ فرمایا یعنی متقی خدا تعالیٰ سے ڈرا کرتا ہے اور وہ نماز کو قائم کرتا ہے۔ اس حالت میں مختلف قسم کے وساوس اور خطرات بھی ہوتے ہیں جو پیدا ہو کر اس کے حضور میں حارج ہوتے ہیں۔ دلوں کے وسوسے، خیالات اللہ تعالیٰ کی طرف سے توجہ پھیرتے ہیں۔ یہ دلوں کے وسوسے اور خیالات جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے توجہ پھیرتے ہیں یہی نماز کا گرنا ہے اور واپس اس کو کھڑی کرنا یہی ہے کہ پھر دوبارہ توجہ اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے لیکن اگر دل میں تقویٰ ہے۔ تو فرمایا ایک متقی، ایک حقیقی مومن نفس کی اس کشاکش میں بھی نماز کو کھڑا کرتا ہے یعنی نماز تو گرتی ہے، بعض دفعہ توجہ ادھر ادھر چلی جاتی ہے لیکن تقویٰ یہ تقاضا کرتا ہے کہ کوشش کر کے پھر نماز کو کھڑا کریں۔ پھر اپنی توجہ دوبارہ نماز کی طرف لے کر آئیں اور خدا تعالیٰ کی طرف لے کر آئیں تو یہ اسے کھڑا کرنا ہے۔ فرمایا کہ وہ تکلّف اور کوشش سے بار بار اسے کھڑا کرتا ہے اور اگر مستقل مزاجی سے نماز پر انسان قائم رہے اور اس بات کی کوشش کرتا رہے کہ میں نے اپنی نماز کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے ہیں تو پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے کلام کے ذریعہ ہدایت عطا کر دیتا ہے۔
پھر آپؑ نے ہدایت کی وضاحت فرمائی کہ ہدایت کیا ہوتی ہے؟ فرمایا کہ وہ ایسی حالت ہوتی ہے کہ جب نماز کے کھڑی کرنے، اس کو قائم کرنے کی کوشش کا معاملہ نہیں رہتا۔ یہ نہیں ہوتا کہ نماز گر گئی۔ نماز سے توجہ ہٹ گئی اور پھردوبارہ نماز کی طرف توجہ پیدا ہوئی۔ یہ معاملہ نہیں رہتا بلکہ ہدایت حاصل کرنے کے بعدنماز اس کے لیے بمنزلہ غذا ہو جاتی ہے۔ اس طرح ہو جاتی ہے جس طرح خوراک ہے۔ کھانا کھانا انسان کے جسم کے لیے ضروری ہے۔ اسی طرح روحانی نشوونما کے لیے نماز اس کا حصہ بن جاتی ہے، غذا بن جاتی ہے۔ فرمایا جس طرح مادی غذا کے بغیر زندگی نہیں رہتی، یہ وضاحت مَیں اس کی کر رہا ہوں کہ جس طرح مادی غذا کے بغیر زندگی نہیں رہتی اسی طرح نماز کے بغیر بھی زندگی نہیں رہتی اور صرف یہی نہیں کہ صرف زندگی قائم رکھنے کے لیے غذا کھانی ہے بلکہ فرمایا کہ یہ غذا ایسی ہے کہ اس کا مزہ بھی آتا ہے۔ آپؑ نے فرمایا کہ نماز میں اس کو وہ لذت اور ذوق عطا کیا جاتا ہے جیسے سخت پیاس کے وقت ٹھنڈا پانی پینے سے حاصل ہوتا ہے کیونکہ وہ نہایت رغبت سے اسے پیتا ہے اور سیر ہو کر اس سے حظّ اٹھاتا ہے۔ پیاس لگی ہو، شدید پیاس ہو، برا حال ہو، پانی نہ مل رہا ہو، پھر پانی مل جائے اور ٹھنڈا پانی مل جائے تو اس سے جو لطف آتا ہے وہ اسی طرح ہے جس طرح ایک حقیقی ہدایت یافتہ کو نماز پڑھنے سے آتا ہے یا پھر ایک اَور مثال آپؑ نے دی کہ کوئی بھوکا ہو اور اسے نہایت اعلیٰ قسم کا خوش ذائقہ کھانا مل جائے تو اسے کھا کر خوشی ملتی ہے۔ ایسے ہی حقیقت میں خوشی حقیقی نماز پڑھنے والے کو ملتی ہے۔ پس یہ وہ نمازیں ہیں جو حقیقت میں نمازیں ہیں کہ خوش ہو کر نماز پڑھنی ہے نہ کہ بوجھ سمجھ کر نمازیں پڑھنی ہیں بلکہ آپؑ نے یہ مثال بھی دی ہے کہ حقیقی مومن کے لیے نماز ایک قسم کا نشہ ہو جاتی ہے جس کے بغیر وہ سخت کرب محسوس کرتا ہے۔ جس طرح کہ نشئی آدمی جو ہوتا ہے اس کو نشہ نہ ملے تو بڑی تکلیف محسوس کرتا ہے۔ بڑا اضطراب اور بے چینی محسوس کرتا ہے لیکن نماز کے ادا کرنے سے اس کے دل میں ایک خاص سرور اور ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے۔ آپؑ نے فرمایا کہ الفاظ میں وہ لذت بیان نہیں ہو سکتی جو حقیقی نماز پڑھنے والے کو لذت ملتی ہے۔ آپؑ نے فرمایا کہ مومن متقی نماز میں لذت پاتا ہے اس لیے نماز کو خوب سنوار سنوار کر پڑھنا چاہیے۔ فرمایا نماز ساری ترقیوں کی جڑ اور زینہ ہے۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ نماز مومن کا معراج ہے اور اس کے ذریعہ خدا تعالیٰ تک پہنچا جا سکتا ہے۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد 8صفحہ 309-310)
پس اگر ہماری مسجدیں بنیں تو ایسی نمازیں ادا کرنے کے لیے مسجدیں بنیں۔ ہم مسجدیں بنانے کی طرف توجہ دیں تو اس معراج کو حاصل کرنے کے لیے۔ یہ ہماری معراج ہونی چاہیے۔ یہی وہ ذریعہ ہے جو خدا تعالیٰ تک لے جاتا ہے اور خدا تعالیٰ سے باتیں کرنے کا موقع ملتا ہے۔ پس مایوس نہیں ہونا چاہیے کہ یہ مقام کس طرح ملے۔ مسلسل کوشش سے یہ مقام اللہ تعالیٰ دیتا ہے۔
بہت سے لوگ اب بھی سوال کرتے ہیں، مجھے بھی لکھتے ہیں کہ نماز میں توجہ قائم نہیں رہتی تو یہی اس کا علاج ہے کہ کوشش کر کے بار بار توجہ قائم رکھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس میں بھی کسی دوست نے یہ سوال کیا کہ میرا دل آج کل ایسا ہو رہا ہے کہ نماز میں لذت اور رقّت پیدا نہیں ہوتی اور مَیں اس وجہ سے نہایت سخت تکلیف میں رہتا ہوں کیونکہ ایک دفعہ نماز کی لذت کا مزہ چکھ چکا ہوں۔ خواہ مخواہ شبہات پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ اگرچہ ان کو بہت ردّ کرتا ہوں تاہم وساوس پیچھا نہیں چھوڑتے۔ کیاکروں؟ فرمایا کہ یہ بھی خد اتعالیٰ کا فضل اور احسان ہے کہ انسان ایسے وساوس کا مغلوب نہیں ہوتا۔ وساوس پیدا ہو رہے ہیں، آپ کو احساس پیدا ہو گیا ہے۔ ان کو غالب نہیں ہونے دیا۔ فرمایا کہ جب ایسی حالت ہو کہ انسان ان وسوسوں کو غالب نہ آنے دے اپنے اوپر تو یہ بھی ثواب کی حالت ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کا بھی ثواب دیتا ہے، ایسا رحیم و کریم خدا ہے۔ فرمایا کہ نفسِ امّارہ والے کو تو خبر ہی نہیں ہوتی کہ بدی کیا شَے ہے۔ وہ تو بدیاں کرتا چلا جاتا ہے اس کو تو کچھ نہیں پتا لگتا۔ نفسِ لوّامہ ہے جو بدی کرتا ہے پر بدی پر ہمیشہ گھبراتا ہے اور شرمندہ ہوتا ہے۔ پس یہ نفسِ لوّامہ کی حالت جو ہے اس میں جب بدی پر شرمندہ ہو، گھبرائے، احساس پیدا ہو، خیال پیدا ہو تو اس کو جھٹکے۔ اس کا بھی اللہ تعالیٰ ثواب دے دیتا ہے اور شرمندہ ہوتا ہے اور توبہ کرتا رہتا ہے۔ ایسا شخص نفس کا غلام نہیں ہے۔ فرمایا کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے۔ اگر خیالات اور وسوسے آتے ہیں اور پھر ان کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہو تو تمہیں ثواب مل جاتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کا بھی ثواب دے دیتا ہے۔ ایسا شخص نفس کا غلام نہیں ہے اور اس حالت میں ہونا ایک حد تک ضروری بھی ہے۔ اس سے دل برداشتہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اس میں بڑے بڑے ثواب ہیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ خود بخودنور اور سکینت نازل کرتا ہے۔ خدا کی رحمت کا وقت آتا ہے اور ایک ٹھنڈ پڑ جاتی ہے اور وہ بات ہوا ہو جاتی ہے۔ انسان کو چاہیے کہ تھک نہ جاوے۔ سجدے میں یَاحَیُّ یَاقَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ بہت پڑھا کرو۔ فرمایا سجدے میں یَاحَیُّ یَاقَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ بہت پڑھا کرو۔ لیکن یاد رکھو کہ جلد بازی خوف نا ک ہے۔ جلد بازی نہیں دکھانی۔ اسلام میں انسان کو بہادر بننا ہے۔ جو جلد بازی دکھاتا ہے وہ بہادر نہیں ہے، وہ بزدل ہے۔ برسوں کی محنت اور مشقت کے بعد آخر شیطان کے حملے کمزور ہو جاتے ہیں اور وہ بھاگ جاتا ہے۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد 7صفحہ 347)
پس یہ اصولی بات ہمیشہ یاد رکھنے والی ہے کہ جلد بازی نہیں کرنی اور مستقل اللہ تعالیٰ کو پکڑے رکھنا ہے۔ اس کے آگے جھکے رہنا ہے۔ آخر ایک دن شیطان ہار مان کر بھاگ جائے گا لیکن اگر جلد بازی دکھائی، نماز کو قائم کرنے کی بھرپور کوشش نہ کی تو پھر انسان شیطان کے پنجے میں آ جاتا ہے۔ عموماً دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ انسان جلد باز ہے۔ فوری نتائج نہ ملیں تو کہتا ہے کہ دعائیں کرنے کا کچھ فائدہ نہیں ہوا۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ انسان اگر صرف دنیا ہی دنیا مانگتا رہے تو صرف ایسی دعائیں پھر اللہ تعالیٰ قبول نہیں کرتا۔ ہاں اللہ تعالیٰ سے اپنی روحانی اور دینی ترقی مانگی جائے، اللہ تعالیٰ کا قرب مانگا جائے تو اللہ تعالیٰ پھر قریب آتا ہے اور پھر اس شخص کی دنیاوی ضروریات بھی پوری کر دیتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ سے مانگنے کے لیے بھی کچھ طریقے اور اصول ہیں اور ان پر چلنا پڑے گا۔ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک طرف تو یہ فرمائے کہ اُدْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ کہ تم مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں سنوں گا اور دوسری طرف بندہ پکارتا رہے اور اللہ تعالیٰ سنے ہی نہ۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس مضمون کو بیان فرماتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
نمازوں میں دعائیں اور درود ہیں۔ یہ عربی زبان میں ہیں۔ مگر تم پر یہ حرام نہیں کہ نمازوں میں اپنی زبان میں بھی دعائیں مانگا کرو۔ خدا کا حکم ہے کہ نماز وہ ہے جس میں تضرّع ہو اور حضورِ قلب ہو۔ تضرّع پیدا کرو، دل کو نرم کرو۔ دل میں خشیت پیدا ہو کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہوں، اس سے مانگ رہا ہوں۔ ایسے ہی لوگوں کے گناہ دور ہوتے ہیں۔ فرمایا کہ ایسے ہی لوگوں کے گناہ دُور ہوتے ہیں جن میں تضرّع ہوتی ہے۔ چنانچہ فرمایا اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْہِبْنَ السَّیِّاٰتِ۔ یعنی نیکیاں بدیوں کو دور کرتی ہیں۔ یہاں حسنات کے معنی نماز کے ہیں اور حضور اور تضرّع اپنی زبان میں مانگنے سے حاصل ہوتا ہے یعنی جو تضرّع پیدا ہوتا ہے، انسان کا دل پگھلتا ہے وہ اپنی زبان میں انسان مانگے تو تبھی پیدا ہو سکتا ہے جب سمجھ بھی آ رہی ہو کہ کیا مانگ رہا ہے۔ پس فرمایا کہ اپنی زبان میں دعا کیا کرو۔ پھر آپؑ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے جو دعائیں سکھائی ہیں وہ دعائیں بھی بڑی ضروری ہیں، کرنی چاہییں اور ان میں سے بہترین دعا فاتحہ ہے کیونکہ وہ جامع دعا ہے۔ سورة فاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک دعا سکھائی ہے اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ اس کے معنے بڑے وسیع ہیں اور اس کی وضاحت فرماتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں کہ جب زمیندار کو زمینداری کا ڈھب آ جاوے تو وہ زمینداری کے صراطِ مستقیم پر پہنچ جاوے گا۔ جو زمیندار ہے ایک اس کو کھیتی باڑی کرنے کا طریقہ آ جائے، زمیندارہ کرنا آ جائے، ہل چلانا آ جائے، بیج پھینکنا آ جائے، یہ پتا ہو کہ کس وقت کھاد دینی ہے، کس وقت پانی دینا ہے، کس وقت سپرے کرنا ہے تو فرمایا کہ جب اس کی یہ حالت ہو جاتی ہے تو وہ صراطِ مستقیم پر پہنچ گیا، اپنے اس فیلڈ کے صراطِ مستقیم پر، زمینداری کے صراطِ مستقیم پر۔ اسی طرح تم خدا کے ملنے کی صراطِ مستقیم تلاش کرو اور دعا کرو کہ یا الٰہی میں تیرا گناہ گار بندہ ہوں اور افتادہ ہوں میری رہنمائی کر۔ ادنیٰ اور اعلیٰ سب حاجتیں بغیر شرم کے خدا سے مانگو کہ اصل معطی وہی ہے، وہی دینے والا ہے۔ بہت نیک وہی ہے جو بہت دعا کرتا ہے کیونکہ اگر کسی بخیل کے دروازے پر، بہت کنجوس آدمی ہو اس کے دروازے پر بھی سوالی ہر روز جا کر سوال کرے گا تو آخر ایک دن اس کو بھی شرم آ جاوے گی۔ پھر خدا تعالیٰ سے مانگنے والا اور وہ خدا جو بے مثل کریم ہے، ایسا کریم ہے جس کی مثال کوئی نہیں وہاں سے کیوں نہ پائے۔ پس مانگنے والا کبھی نہ کبھی ضرور پا لیتا ہے۔ نماز کا دوسرا نام ہی دعا ہے جیسے فرمایا اُدْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ کہ تم مجھے پکارو میں تمہاری دعا سنوں گا۔ پھر فرمایا وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ۔ جب میرا بندہ میری بابت سوال کرے پس میں بہت ہی قریب ہوں۔ میں پکارنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ پکارتا ہے۔ آپؑ نے فرمایا کہ بعض لوگ اس کی ذات پر، اللہ تعالیٰ کی ذات پر شک کرتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ میری ہستی کا نشان یہ ہے کہ تم مجھے پکارو اور مجھ سے مانگو۔ میں تمہیں پکاروں گا اور جواب دوں گا اور تمہیں یاد کروں گا۔
اگر یہ کہو، لوگ کہہ دیتے ہیں کہ ہم بڑا پکارتے ہیں تو جواب نہیں دیتا۔ آپؑ فرماتے ہیں دیکھو تم ایک جگہ کھڑے ہو کر ایک ایسے شخص کو جو تم سے بہت دُور ہے پکارتے ہو اور ایک تو فاصلے کی دوری ہے اور دوسرے تمہارے اپنے کانوں میں کوئی نقص بھی ہے، کان بھی تھوڑے سے خراب ہیں سن بھی نہیں سکتے۔ وہ شخص جس کو تم دور سے پکار رہے ہو وہ تمہاری آواز سن کر تمہیں جواب دے گا مگر جب وہ دور سے جواب دے گا تو تم بباعث بہرہ پن کے سن نہیں سکو گے۔ کیونکہ کانوں میں تمہارے نقص ہے اس لیے دور سے جواب سن نہیں سکو گے۔ پس فرمایا کہ جوں جوں تمہارے درمیانی پردے اور حجاب اور دوری دور ہوتی جاوے گی تو تم ضرور آواز سنو گے۔ جتنا کوشش کر کر کے اللہ تعالیٰ کے قریب آتے جاؤ گے تو اس کی آواز بھی سن لو گے۔ فرمایا کہ جب سے دنیا کی پیدائش ہوئی ہے اس بات کا ثبوت چلا آتا ہے کہ وہ اپنے خاص بندوں سے ہم کلام ہوتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو رفتہ رفتہ بالکل یہ بات نابود ہو جاتی کہ اس کی ہستی ہے بھی۔ پس خدا کی ہستی کے ثبوت کا سب سے زبردست ذریعہ یہی ہے کہ ہم اس کی آواز کو سن لیں یا دیدار یا گفتار۔ یا دیکھ لیا یا بات کر لی۔ پس آج کل کا گفتار قائم مقام ہے دیدار کے۔ ہاں جب تک خدا کے اور اس کے سائل کے درمیان کوئی حجاب ہے اس وقت تک ہم سن نہیں سکتے۔ جب درمیانی پردہ اٹھ جاوے گا تو اس کی آواز سنائی دے گی۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد 7صفحہ 226-227)
پس یہ درمیانی پردے اٹھانے کی ضرورت ہے اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جو میری طرف سنجیدگی سے آئے گا، میری ذات کی حقیقت کو سمجھ کر میری طرف بڑھے گا تو میں بھی اس کی طرف آؤں گا۔ اسی بات کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بندہ میری طرف ایک قدم آتا ہے تو میں اس کی طرف دو قدم آتا ہوں۔ بندہ چل کے آتا ہے تو میں دوڑ کے آتا ہوں۔ (صحیح البخاری کتاب التوحید باب ذکر النبی و روایتہ عن ربہ حدیث 7536)
پس اگر نقص ہے تو ہمارے میں۔ پس ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف جانے کی ضرورت ہے۔ اس کے راستے تلاش کرنے اس سے ملاقات کرنے کے لیے بھی اسی کی مدد کی ضرورت ہے۔ ہم جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آنے کا دعویٰ کرتے ہیں ہمارے لیے یہ ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف جانے کے لیے اپنی پوری کوشش کریں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صرف ایک بات پر عمل کرلینا کہ مسجدیں بناؤ تا کہ اسلام کا تعارف ہو، کافی نہیں ہے بلکہ اس کے لیے عملی کوششوں کی بھی ضرورت ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کی مدد کی بھی ضرورت ہے اور جب کوشش کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مدد ملے گی تو پھر ہی کامیابی ہو گی۔ چنانچہ اس بات کو بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
یاد رکھو کہ بیعت کے وقت توبہ کے اقرار میں ایک برکت پیدا ہوتی ہے۔ اگر ساتھ اس کے دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کی شرط لگا لے تو ترقی ہوتی ہے۔ بیعت کر لی برکت پیدا ہو گئی۔ ساتھ یہ شرط ہو کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا تو پھر ترقی بھی ہوتی جائے گی مگر یہ مقدم رکھنا تمہارے اختیار میں نہیں بلکہ امدادِ الٰہی کی سخت ضرورت ہے۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی مدد چاہیے جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوْا فِیْنَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا کہ جو لوگ کوشش کرتے ہیں ہماری راہ میں انجام کار رہ نمائی پر پہنچ جاتے ہیں۔ فرمایا کہ جس طرح وہ دانہ تخم ریزی کا بدوں کوشش اور آب پاشی کے بے برکت رہتا ہے، ایک کسان بیج بوتا ہے یا انسان لگاتا ہے اگر اس کو اس کی پوری طرح محنت سے پالا نہ جائے، اسے پانی نہ لگایا جائے تو وہ بے برکت رہتا ہے۔ اس میں وہ برکت نہیں پڑتی۔ اگتا ہی نہیں یا اُگے گا تو بہت کم زور ہو گا بلکہ خود بھی فنا ہو جاتا ہے۔ اسی طرح تم بھی اس اقرار کو ہر روز یادنہ کرو گے۔ فرمایا کہ اس اقرار کو، دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے اقرار کو ہر روز یادنہ کرو گے اور دعائیں نہ مانگو گے کہ خدایا ہماری مدد کر تو فضلِ الٰہی واردنہیں ہو گا۔ فرمایا کہ بغیر امدادِ الٰہی کے تبدیلی ناممکن ہے۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر انسان میں تبدیلی آ جائے۔ اس لیے اس کی مدد مانگنے کے لیے، اس کا فضل مانگنے کے لیے دعا بہرحال کرنی پڑے گی۔ فرمایا کہ چور، بدمعاش، زانی وغیرہ جرائم پیشہ لوگ ہر وقت ایسے نہیں رہتے بلکہ بعض وقت ان کو ضرور پشیمانی ہوتی ہے۔ یہی حال ہر بدکار کا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان میں نیکی کا خیال ضرور ہے۔ پس اس خیال کے واسطے اس کو امدادِ الٰہی کی بہت ضرورت ہے۔ اسی لیے پنجوقتہ نماز میں سورۃ فاتحہ کے پڑھنے کا حکم دیا جس میں اِيَّاكَ نَعْبُدُ اور پھر اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ یعنی عبادت بھی تیری ہی کرتے ہیں اور مدد بھی تجھ سے ہی چاہتے ہیں۔ اس میں دو باتوں کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ یعنی ہر نیک کام میں قویٰ، تدابیر، جدوجہد سے کام لیں یعنی ہر نیک کام کرنے کے لیے جو انسانی طاقتیں اللہ تعالیٰ نے دی ہوئی ہیں جو تدبیریں ہو سکتی ہیں، جو کوشش ہو سکتی ہے وہ کرنی ہے۔ یہ اشارہ ہے نَعْبُدُ کی طرف، عبادت کرنے کی طرف۔ کیونکہ جو شخص نری دعا کرتا ہے اور جدوجہدنہیں کرتا وہ بہرہ یاب نہیں ہوتا۔ صرف دعا سے کام نہیں بنتا کوشش بھی کرنی پڑے گی وہ کامیاب ہی نہیں ہو سکتا۔ جیسے کسان بیج بو کر اگر جدوجہدنہ کرے تو پھل کا امیدوار کیسے بن سکتا ہے اور یہ سنت اللہ ہے، یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے۔ یہ اگر بیج بو کر صرف دعا کرتے ہیں تو ضرور محروم رہیں گے۔ اگر اس کو پانی نہیں لگاتے، اس کی گوڈی نہیں کرتے، اس کی نگہداشت نہیں کرتے تو انسان محروم رہے گا۔ مثلاً دو کسان ہیں ایک تو سخت محنت اور قلبہ رانی کرتا ہے، گوڈی کرتا ہے، محنت کرتا ہے تو یہ ضرور کامیاب ہو گا۔ دوسرا کسان محنت نہیں کرتا یا کم کرتا ہے اس کی پیداوار ہمیشہ ناقص رہے گی یعنی بالکل بہت کم ہو گی جس سے وہ شاید سرکاری محصول بھی ادا نہ کر سکے اور وہ ہمیشہ مفلس رہے گا۔ اسی طرح دینی کام بھی ہیں۔ انہی میں منافق، انہی میں نکمے، انہی میں صالح، انہی میں ابدال، قطب، غوث بنتے ہیں۔ لوگ ایک طرح کے ہی ہیں لیکن ان میں منافق لوگ بھی پیدا ہو جاتے ہیں، نکمے، کام نہیں کرنے والے بھی ہیں لیکن انہی میں صالح لوگ بھی ہیں جو ابدال تک پہنچ جاتے ہیں۔ قطب بن جاتے ہیں۔ غوث بنتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے نزدیک درجہ پاتے ہیں اور بعض چالیس چالیس برس سے نماز پڑھتے ہیں مگر ہنوز روز اول ہی ہے، کوئی ترقی نہیں اور کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ تیس روزوں سے کوئی فائدہ محسوس نہیں کرتے۔ رمضان کے تیس روزے بھی رکھ لیے تب بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ رمضان کے بعدپھر وہیں آ جاتے ہیں۔ بہت لوگ کہتے ہیں کہ ہم بڑے متقی اور مدت کے نماز خواں ہیں مگر ہمیں امدادِ الٰہی نہیں ملتی۔ دعویٰ تو متقی ہونے کا ہے اور بڑی نمازیں پڑھنے کا دعویٰ ہے لیکن ساتھ کہتے ہیں کہ امدادِ الٰہی نہیں ملتی۔ اس کا سبب یہ ہے کہ رسمی اور تقلیدی عبادت کرتے ہیں۔ صرف ظاہری عبادت ہوتی ہے۔ ترقی کا کبھی خیال نہیں کیا۔ گناہوں کی جستجو ہی نہیں۔ یہ کوشش ہی نہیں کرتے کہ تلاش کریں کہ میرے اندر کون کون سے گناہ ہیں۔ سچی توبہ کی طلب ہی نہیں۔ گناہوں کی طرف توجہ ہو گی، انسان تلاش کرے کون کون سے گناہ ہیں تو پھر سچی توبہ بھی ہو گی اور وہ (توبہ) طلب کرے گا۔ پس وہ پہلے قدم پر ہی رہتے ہیں۔ ایسے انسان بہائم سے کم نہیں۔ تو پھر تو یہ جانوروں والی حالت ہے۔ انسان اور جانور میں کوئی فرق نہیں۔ ایسی نمازیں خدا کی طرف سے وَیل لاتی ہیں، قبول نہیں ہوتیں بلکہ منہ پہ ماری جاتی ہیں۔ نماز تو وہ ہے جو اپنے ساتھ ترقی لے آوے جیسے طبیب کے زیرِ علاج ایک بیمار ہے۔ ایک نسخہ وہ دس روز استعمال کرتا ہے پھر اس سے اس کو روز بروز نقصان ہو رہا ہے۔ جب اتنے دنوں کے بعد فائدہ نہ ہو تو بیمار کو شک پڑ جاتا ہے کہ نسخہ ضرور میرے مزاج کے موافق نہیں اور یہ بدلنا چاہیے۔ پس رسم اور رسمی عبادت ٹھیک نہیں ہے۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد 7 صفحہ 225-226) اس کو بھی بدلنا پڑے گا۔ سوچنا پڑے گا کہ کیا وجہ ہے؟کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا دعویٰ ہے کہ میں خود دعا قبول کرتا ہوں اور میری دعائیں قبول نہیں ہو رہیں۔ پس عبادت وہی ہے جس سے اللہ تعالیٰ کا قرب پیدا ہو۔
پھر نماز کی حقیقت بیان فرماتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ ’’نمازاصل میں دعا ہے۔ نماز کا ایک ایک لفظ جو بولتا ہے وہ نشانہ دعا کا ہوتا ہے۔ اگر نماز میں دل نہ لگے تو پھر عذاب کے لیے تیار رہے کیونکہ جو شخص دعا نہیں کرتا وہ سوائے اس کے کہ ہلاکت کے نزدیک خود جاتا ہے اور کیا ہے۔ ایک حاکم ہے جو بار بار اس امر کی ندا کرتا ہے۔‘‘ آواز دیتا ہے ’’کہ میں دکھیاروں کا دکھ اٹھاتا ہوں۔‘‘ حکومت نے اعلان کیا، حاکم وقت نے اعلان کیا کہ میں جو مجبور ہیں، دکھی ہیں ان کا دکھ اٹھاتا ہوں ’’مشکل والوں کی مشکل حل کرتا ہوں۔ میں بہت رحم کرتا ہوں۔ بے کسوں کی امداد کرتا ہوں لیکن ایک شخص، جو کہ مشکل میں مبتلا ہے، اس کے پاس سے گزرتا ہے اور اس کی ند اکی پروا نہیں کرتا۔‘‘ وہ بلا رہا ہے اور مشکل میں گرفتار ایک شخص ہے جو اس کے پاس سے گزر جاتا ہے اور پروا نہیں کرتا ’’نہ اپنی مشکل بیان کر کے طلبِ امداد کرتا ہے تو سوائے اس کے کہ وہ تباہ ہو اَور کیا ہوگا؟ یہی حال خدا تعالیٰ کا ہے کہ وہ تو ہر وقت انسان کو آرام دینے کے لیے تیار ہے بشرطیکہ کوئی اس سے درخواست کرے۔ قبولیتِ دعا کے لیے ضروری ہے کہ نافرمانی سے باز رہے اور دعا بڑے زور سے کرے کیونکہ پتھر پر پتھر زور سے پڑتا ہے تب آگ پید اہوتی ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 7 صفحہ 70)
پس جب یہ حالت ہم اپنے اندر پیدا کر لیں کہ ہماری نمازیں بھی اور ہمارے عمل بھی خدا تعالیٰ کی ہی رضا حاصل کرنے کے لیے ہو جائیں تو پھر خدا تعالیٰ بھی ہمارے خوفوں کو ہمیشہ امن میں بدلتا چلا جائے گا۔ یہ بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ یہاں آ کر جو کچھ ہمیں ملا ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ملا ہے اور اس میں اضافہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی ہو گا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف توجہ اور اس کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی کے لیے کوشش اس کے فضلوں کو حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے۔ آپ لوگ خود اپنے جائزے لے سکتے ہیں کہ کس حد تک ہم نماز کے قیام کی کوششیں کر رہے ہیں؟ کس حد تک خدا تعالیٰ سے ہر ایک کا تعلق قائم ہو گیا ہے یا اس کے لیے کوشش کر رہے ہیں؟ کس حد تک دنیا کے کام ہماری نمازوں میں حائل ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہمیں ہمیشہ سامنے رکھنا چاہیے کہ کفر اور ایمان کے درمیان فرق کرنے والی بات، والی چیز جو ہے وہ ترکِ نماز ہے۔ (صحیح مسلم کتاب الایمان باب بیان اطلاق اسم الکفر علی من ترک الصلاۃ حدیث (82))
کفر اور ایمان کے درمیان فرق کس چیز سے ہو گا اسی سے ہو گا کہ نماز چھوڑ دی۔ پس یہ ارشاد ہمیں ہلا دینے والا ہونا چاہیے کہ مومن وہ ہے جو نمازوں میں باقاعدہ ہے ورنہ اس میں اور ایک کافر میں کوئی فرق نہیں ہے۔ نماز باجماعت پڑھنے والے کا ثواب بھی اللہ تعالیٰ نے صرف یہ نہیں کہا کہ نمازیں پڑھو بلکہ باجماعت پڑھے۔ حق ادا کر کے پڑھے تو پچیس گنا اور بعض جگہ ستائیس گنا ثواب رکھا ہوا ہے بیان کیا گیا ہے۔ (صحیح البخاری کتاب الاذان باب فضل صلاۃ الجماعۃ حدیث 645-646)
اس کے باوجود اگر بغیر کسی جائز عذر کے ہم اس طرف توجہ نہ دیں تو پھر ہماری کس قدر بدقسمتی ہے۔ پس اگر ہم نے مساجد بنائی ہیں تو مسجدوں کے حق ادا کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ اپنی عبادتوں کے معیار بلند کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ اپنی مالی قربانیوں کی طرف توجہ دینے کی بھی ضرورت ہے۔ خودنیکیاں کرنے اور اپنے اخلاق بلند کرنے اور دوسروں کو نیکیاں کرنے کی تلقین کی ضرورت ہے۔ خود یہاں کے ماحول کی برائیوں سے بچنے اور دوسروں کو بچانے کی ضرورت ہے ورنہ ہمارا عہدِ بیعت بھی صرف لفظی عہدِ بیعت ہے۔ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس ارشاد کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہیے۔ آپؑ فرماتے ہیں:
پس تم ایسے ہو جاؤ کہ خدا تعالیٰ کے ارادے تمہارے ارادے ہو جاویں اسی کی رضا میں رضا ہو۔ اپنا کچھ بھی نہ ہو سب کچھ اس کا ہو جاوے۔ صفائی کے یہی معنے ہیں کہ دل سے خدا تعالیٰ کی عملی اور اعتقادی مخالفت اٹھا دی جاوے۔ اور خدا تعالیٰ کسی کی نصرت نہیں کرتا جب تک وہ خودنہیں دیکھتا کہ اس کا ارادہ میرے ارادے اور اس کی مرضی میری رضا میں فنا نہیں ہے۔
فرمایا میں کثرتِ جماعت سے کبھی خوش نہیں ہوتا۔ اب اگراس وقت جس وقت آپؑ بات فرما رہے ہیں احمدیوں کی تعداد چار لاکھ بیان کی جاتی تھی کہ چار لاکھ یا اس سے بھی زیادہ ہے مگر حقیقی جماعت کے معنے یہ نہیں ہیں کہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر صرف بیعت کر لی بلکہ جماعت حقیقی طور سے جماعت کہلانے کی تب مستحق ہو سکتی ہے کہ بیعت کی حقیقت پر کار بند ہو۔ سچے طور سے ان میں ایک پاک تبدیلی پیدا ہو جاوے اور ان کی زندگی گناہ کی آلائش سے بالکل صا ف ہو جاوے۔ نفسانی خواہشات اور شیطان کے پنجے سے نکل کر خدا تعالیٰ کی رضا میں محو ہو جاوے۔ حق اللہ اور حق العباد کو فراخ دلی سے پورے اور کامل طور سے ادا کریں۔ دین کے واسطے اور اشاعت دین کے لیے ان میں ایک تڑپ پیدا ہو جاوے۔ اپنی خواہشات اور ارادوں اور آرزوؤں کو فنا کر کے خدا کے بن جاویں۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم گمراہ ہو پر جسے میں ہدایت دوں۔ تم سب اندھے ہو مگر وہ جس کو میں نور بخشوں۔ تم سب مردے ہو مگر وہی زندہ ہے جس کو میں روحانی زندگی کا شربت پلاؤں۔ انسان کو خد اتعالیٰ کی ستاری ڈھانکے رکھتی ہے ورنہ اگر لوگوں کے اندرونی حالات اور باطن دنیا کے سامنے کر دیے جائیں تو قریب ہے کہ بعض بعض کے قریب تک بھی جانا پسندنہ کریں۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کی ستاری ہے جو ہمارے عیب ڈھانپے ہوئے ہیں۔ اگر عیب ظاہر ہو جائیں اور ایک دوسرے پر ظاہر ہونا شروع ہو جائیں تو بعض لوگ شاید بعض دوسرے لوگوں کے قریب بھی نہ جائیں۔ فرمایا خدا تعالیٰ بڑا ستار ہے۔ انسانوں کے عیوب پر ہر ایک کو اطلاع نہیں دیتا۔ پس انسان کو چاہیے کہ نیکی میں کوشش کرے اور ہر وقت دعا میں لگا رہے۔ یقیناً جانو کہ جماعت کے لوگوں میں اور ان کے غیر میں اگر کوئی مابہ الامتیاز ہی نہیں ہے تو پھر خدا کوئی کسی کا رشتہ دار تو نہیں ہے۔ ہم احمدی ہوئے، بیعت ہوئے، ہمارے میں اور دوسروں میں کوئی فرق نہیں ہے تو پھر خدا کوئی کسی کا رشتے دار نہیں ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ان کو عزت دے اور ہر طرح سے حفاظت میں رکھے۔ اگر فرق نہیں ہے تو اللہ تعالیٰ کسی کا رشتہ دار تو نہیں ہے کہ ضرور ہمیں عزت دے اور ان کو ذلت دے اور عذاب میں گرفتار کرے۔ فرمایا کہ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ۔ متقی وہی ہیں کہ خدا تعالیٰ سے ڈر کر ایسی باتوں کو ترک کر دیتے ہیں جو منشا ئےالٰہی کے خلاف ہیں۔ نفس اور خواہشاتِ نفسانی کو اور دنیا و مافیہا کو اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں ہیچ سمجھیں۔ ایمان کا پتا مقابلے کے وقت لگتا ہے۔ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ایک کان سے سنتے ہیں دوسری طرف سے نکال دیتے ہیں ان باتوں کو دل میں نہیں اتارتے۔ چاہے جتنی نصیحت کرو مگر ان کو اثر نہیں ہوتا۔ یا د رکھو کہ خدا تعالیٰ بڑا بے نیاز ہے جب تک کثرت سے اور بار بار اضطراب سے دعا نہیں کی جاتی وہ پروا نہیں کرتا۔ دیکھو کسی کی بیوی یا بچہ بیمار ہو، کسی پر سخت صدمہ آجاوے تو ان باتوں کے واسطے اس کو کیسا اضطراب ہوتا ہے۔ پس دعا میں بھی جب تک سچی تڑپ اور حالتِ اضطراب پیدا نہ ہو تب تک وہ بالکل بے اثر اور بیہودہ کام ہے۔ قبولیت کے واسطے اضطراب شرط ہے جیسا کہ فرمایا۔ اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَیَکْشِفُ السُّوْءَ۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد 10 صفحہ 136-137)
یعنی کون کسی بے کس کی دعا سنتا ہے جب وہ خدا سے دعا کرتا ہے اور اس کی تکلیف کو دور کر دیتا ہے۔
پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ اپنی اصلاح جو کرتے ہو تو اپنے اہل و عیال کو بھی اپنی اصلاح میں شامل کرو۔ بیوی بچوں کی اصلاح کرنا بھی تمہارا فرض ہے۔ فرمایا ’’خدا تعالیٰ کی نصرت انھی کے شامل حال ہوتی ہے جو ہمیشہ نیکی میں آگے ہی آگے قدم رکھتے ہیں ایک جگہ نہیں ٹھہر جاتے اور وہی ہیں جن کا انجام بخیر ہوتا ہے۔ بعض لوگوں کو ہم نے دیکھا ہے کہ ان میں بڑا شوق ذوق اور شدتِ رقّت ہوتی ہے مگر آگے چل کر بالکل ٹھہر جاتے ہیں اور آخر ان کا انجام بخیر نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں یہ دعا سکھلائی ہے کہ اَصْلِحْ لِیْ فِیْ ذُرِّیَّتِیْ (الاحقاف: 16) میرے بیوی بچوں کی بھی اصلاح فرما۔ اپنی حالت کی پاک تبدیلی اور دعاؤں کے ساتھ ساتھ اپنی اولاد اور بیوی کے واسطے بھی دعا کرتے رہنا چاہیے کیونکہ اکثر فتنے اولاد کی وجہ سے انسان پر پڑ جاتے ہیں اور اکثر بیوی کی وجہ سے۔ دیکھو پہلا فتنہ حضرت آدم پر بھی عورت ہی کی وجہ سے آیا تھا۔ حضرت موسیٰؑ کے مقابلے میں بلعم کا ایمان جو حبط کیا گیا اصل میں اس کی وجہ بھی توریت سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ بلعم کی عورت کو اس بادشاہ نے بعض زیورات دکھا کر طمع دے دیا تھا اور پھر عورت نے بلعم کو حضرت موسیٰؑ پر بددعا کرنے کے واسطے اکسایا تھا۔ غرض ان کی وجہ سے بھی اکثر انسان پر مصائب شدائد آ جایا کرتے ہیں تو ان کی اصلاح کی طرف بھی پوری توجہ کرنی چاہیے اور ان کے واسطے بھی دعائیں کرتے رہنا چاہیے۔‘‘ (ملفوظات جلد 10 صفحہ 139)
اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنی حالتوں میں پاک تبدیلیاں پیدا کرنے والے ہوں۔ اپنی نمازوں کو قائم کر کے پھر انہیں اعلیٰ معیار تک لے جانے والے ہوں۔ اپنے مالوں کو بھی پاک کرنے والے ہوں۔ اپنے اخلاق اعلیٰ کرنے والے ہوں۔ نیکیوں کو کرنے والے اور پھیلانے والے ہوں۔ برائیوں سے رکنے والے اور برائیوں سے اپنی نسلوں کو بھی روکنے والے ہوں۔ اور پھر اپنے ماحول کو بھی روکنے والے ہوں۔ مساجد کی تعمیر کے ساتھ اسلام کا حقیقی پیغام اس ملک کے شہریوں تک پہنچانے والے ہوں اور انہیں خدائے واحد کا عبادت گزار بنانے والے ہوں اور یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ جب ہم اپنے اندر بھی اعلیٰ تبدیلیاں پیدا کریں۔ اللہ تعالیٰ اس کی توفیق عطا فرمائے۔
اب اس مسجد کے بعض کوائف بھی بیان کر دیتا ہوں۔ یہاں اس جگہ کا نام تو ہم نے‘مہدی آباد’رکھا ہوا ہے۔ ناہے (Nahe) گاؤں کانام ہے جہاں یہ مسجد اب بنائی گئی ہے۔ مقامی جماعت تو یہاں کی تھوڑی سی ہے اور یہ جگہ جو ہے یہ زرعی زمین تھی جو 1989ء میں، Nineteen eighty-nine میں خریدی گئی تھی۔ اس میں کچھ حصہ زراعت کے لیے ہے جو جماعت نے ٹھیکے پر دیا ہوا ہے۔ یہاں پہلے جب جگہ لی گئی تھی تو فارم ہاؤس بھی تھا، بلڈنگ بھی تھی۔ اس کو بطور مشن ہاؤس استعمال کرنے کی اجازت بھی مل گئی۔ پھر جو بڑا ہال تھا اس میں مسجد بنانے کی اجازت بھی مل گئی اور وقار عمل کے ذریعہ سے یہ سارے کام ہوئے۔ یہ دو منزلہ عمارت ہے۔ اس میں ایک مربی ہاؤس بھی ہے جو پہلے بنا ہوا تھا۔ پھر 2010ء میں اس کونسل نے یہاں کی جو فارم والی زمین کے ایک حصے کو رہائشی قرار دے دیا اور اس طرح یہاں بارہ پلاٹ بھی گھروں کے بنا دیے گئے اور باقاعدہ مسجد بنانے کی بھی اجازت مل گئی۔ اور بارہ پلاٹوں میں سے دو جماعت نے اپنے لیے رکھے ہوئے ہیں۔ باقی لوگوں کو فروخت کر دیے اور اس میں سے جو رقم حاصل ہوئی یا اس سے پہلے کونسل نے جو زمین واپس لی تھی اس سے جو رقم حاصل ہوئی وہ اس سے تقریباً بلکہ زائد رقم ہی مل گئی جس پر یہ زمین خریدی گئی تھی۔ بہرحال چھ سات سال پہلے بلکہ آٹھ سال پہلے اس کی بنیاد میں نے رکھی تھی اور یہ مسجد بھی اب مکمل ہو رہی ہے اور مسجد جو ہے یہ دو منزلہ ہے۔ مسقف حصہ اس کا تین سو پچاسی مربع میٹر ہے۔ 210 نمازیوں کی گنجائش ہے۔ مسجد کا اوپر والا حصہ مردانہ ہے اور نچلے والا حصہ خواتین کے لیے بنایا گیا ہے۔ وضو اور غسل خانے وغیرہ کی سہولیات ہیں۔ تقریباً پانچ لاکھ ساٹھ ہزار یورو میں یہ تعمیر ہوئی تھی۔ اس میں سے دو لاکھ یورو سے کچھ اوپر یہاں کے مقامی احباب نے چندہ دیا ہے جو باقی رقم ہے وہ سو مساجد سکیم میں سے ادا کی گئی تھی۔ اللہ تعالیٰ ان سب قربانی کرنے والوں کے اموال اور نفوس میں برکت عطا فرمائے اور اس مسجد کی تعمیر کے بعد عبادت کا حق پہلے سے بڑھ کر ادا کرنے والے ہوں۔
(الفضل انٹر نیشنل 15 نومبر2019ءصفحہ 5تا 9)
’’نماز ساری ترقیوں کی جڑ اور زینہ ہے اسی لیے کہا گیا ہے کہ نماز مومن کا معراج ہے‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ )
مومن وہ ہے جو نمازوں میں باقاعدہ ہے۔
اللہ تعالیٰ سے مانگنے کے لیے کچھ طریقے اور اصول ہیں اور ان پر چلنا پڑے گا۔
نماز وہ ہے جس میں تضرع ہو اور حضور ِقلب ہو۔
بہترین دعا فاتحہ ہے۔
ادنیٰ اور اعلیٰ سب حاجتیں بغیر شرم کے خدا سے مانگو کہ اصل معطی وہی ہے۔
صرف دعا سے کام نہیں بنتا کوشش بھی کرنی پڑے گی۔
عبادت وہی ہے جس سے اللہ تعالیٰ کا قرب پیدا ہو۔
فرمودہ 25؍اکتوبر 2019ء بمطابق 25؍اخاء 1398 ہجری شمسی، بمقام مسجد‘بیت البصیر’مہدی آباد، Nahe (جرمنی)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔