نمازوں، دعاؤں اور اعمالِ صالحہ سے انجام بخیر کی کوشش

خطبہ جمعہ 22؍ مئی 2020ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

سب سے پہلے تو ان سب احمدیوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے گذشتہ دنوں میرے گرنے پر، چوٹ لگنے پر اپنے غیر معمولی جذبات کا اظہار کیا اور بڑی تڑپ سے دعائیں کیں۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس کی بہترین جزا دے، اخلاص و وفا میں بڑھائے۔ اس زمانے میں خدا تعالیٰ کی خاطر اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق آپس کی محبت، خاص طور پر خلیفۂ وقت سے یہ اخلاص و وفا کی مثال صرف جماعت احمدیہ ہی میں مل سکتی ہے۔ یہ دو طرفہ محبت بھی اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی ہے۔ یہاں یہ بھی نہیں پتا چلتا کہ کون زیادہ دوسرے کے لیے درد رکھتا ہے۔ بعض دفعہ تو یہ لگتا ہے کہ افرادِ جماعت کی خلافت سے محبت انتہا کو پہنچی ہوئی ہے اور خلیفۂ وقت کی جماعت کے افراد کے ساتھ جو تعلق اور محبت ہے بعض لوگوں کی مثالیں ایسی ہیں جنہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ اس معیار کی نہیں ہے لیکن بہرحال یہ دوطرفہ محبت ہے، دو طرفہ تعلق ہے اور جیسا کہ مَیں نے کہاہے ایک ایسا تعلق ہے جس کی کوئی مثال دنیاوی رشتوں میں نہیں ملتی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کا یہ فقرہ مجھے بہت اچھا لگتا ہے کہ

’’خلیفۂ وقت اور جماعت ایک ہی وجود کے دو نام ہیں۔‘‘ (خطباتِ ناصر جلد 4 صفحہ 423 خطبہ جمعہ فرمودہ 29 ستمبر 1972ء)

یہ آپ لوگوں کی دعاؤں کی ہی قبولیت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے غیر معمولی طور پر جو زخم ہیں جلدی مندمل ہوئے۔ ڈاکٹر صاحب نے مجھے کہا کہ چہرے کے زخم عموماً جلدی ٹھیک ہو جاتے ہیں لیکن ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ جس رفتار سے یہ ٹھیک ہوئے ہیں مجھے بھی اتنا خیال نہیں تھا۔ ان کو مَیں نے یہی کہا تھا کہ علاج تو اپنی جگہ لیکن اصل چیز دعائیں ہیں جو احمدی کر رہے ہیں۔ مجھے بھی یہ خیال تھا کہ کئی زخم ہیں اور اس کے کھرنڈ اترتے ہوئے بھی کم از کم دو ہفتے تو لگیں گے پھر شاید زخموں کے کچھ نشان بھی رہ جائیں لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے سات آٹھ دن میں ہی سب صاف ہو گیا۔ اس چوٹ کی وجہ سے مجھے مرہم عیسیٰ لگانے کا جو تجربہ ہوا وہ بھی بتا دیتا ہوں کہ کچھ عرصہ ہوا میر محمود احمد صاحب ناصر نے سریانی نسخے کے مطابق بنا کے مجھے بھجوائی تھی۔ وہ مَیں نے اب استعمال کی۔ اسی طرح ہومیو پیتھک کریم کیلنڈولا (Calendula) ہے۔ بہرحال اصل فضل تو اللہ تعالیٰ کا ہے وہی شافی ہے۔ دوائیوں کا جو مَیں نے ذکر کیا تو وہ اس لیے کہ شاید دوسروں کو بھی فائدہ ہو جائے بعض دفعہ ضرورت پڑتی ہے۔ بہرحال اب یہ دعا کریں کہ چوٹ کے جو باقی اثرات ہیں اللہ تعالیٰ انہیں بھی جلد بہتر فرمائے۔ جو بداثرات ہیں دور فرمائے۔

اللہ تعالیٰ کا فضل ہی اصل طاقت ہے جو دعاؤں سے ملتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ کچھ عرصہ ہوا میرے کندھے اور بازوؤں میں شدید درد تھی۔ ہاتھ اٹھانا مشکل تھا۔ دوسرے ہاتھ کی مدد لینی پڑتی تھی۔ یہاں سپیشلسٹ ڈاکٹرکو دکھایا تو اس نے یہ کہا کہ یہ درد چھ ہفتے سے تین چار مہینے تک رہ سکتی ہے۔ بہرحال چند دن کے بعد پھر اس نے معائنہ کیا، دیکھا تو اس وقت اللہ تعالیٰ کے فضل سے نوے فیصد درد ختم ہو چکی تھی۔ اس نے بڑی حیرت کا اظہار کیا۔ اسے مَیں نے یہی کہا تھا کہ جب لاکھوں لوگ دعا کر رہے ہوں تو اسی طرح اللہ تعالیٰ فضل فرما دیتا ہے۔ انگریز تھا کہنے لگا میں عیسائی بھی ہوں اور ہمارا خاندان مذہبی بھی ہے۔ دعاؤں پر مجھے بھی یقین ہے اور کہنے لگا کہ یقیناً یہ دعا سے ہی ہوا ہے۔

پس اللہ تعالیٰ کا فضل ہی ہے جو ہمیں ہر وقت مانگنا چاہیے اور اس کے آگے جھکنا چاہیے۔ آج کل ہم جس حالت سے گزر رہے ہیں اس میں خاص طور پر خدا تعالیٰ کے آگے جھکنے کی ضرورت ہے۔ یوکے سے بھی رپورٹیں آ رہی ہیں اور باقی ممالک سے بھی یہ رپورٹس آ رہی ہیں کہ ان حالات میں احبابِ جماعت کو اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنے کی بہت توجہ پیدا ہوئی ہے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے گھروں میں خاص طور پر گھر والے مل کر نماز باجماعت کا اہتمام کرتے ہیں۔ درس و تدریس بھی ہوتا ہے۔ کسی نہ کسی کتاب، حدیث اور قرآن کا درس بھی ہوتا ہے جس سے بڑوں کا علم بھی بڑھ رہا ہے اور بچوں کو بھی دینی علم سے آگاہی ہو رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فضل ہوا کہ اس عرصے میں رمضان بھی آ گیا اور لوگوں کی عبادت کی طرف جو توجہ پیدا ہو رہی تھی اس میں پہلے سے بڑھ کر اضافہ ہوا۔ اب یہ رمضان تو ختم ہو رہا ہے اور اسی طرح کچھ حد تک لاک ڈاؤن پر بھی مختلف حکومتیں پابندیاں نرم کرنے کا ارادہ کررہی ہیں۔ بعض حکومتیں کر بھی چکی ہیں۔ بعض جگہ یہ نرمی پیدا ہو گئی ہے۔ ایک بات تو مَیں یہ کہنا چاہوں گا کہ پابندیوں پر نرمی کے ساتھ جو حکومت نے شرائط لگائی ہیں ان پر ہر احمدی کو کاربند ہونے کی کوشش کرنی چاہیے لیکن سب سے بڑی بات اور اہم چیز جو ہر احمدی کو اپنے سامنے رکھنی چاہیے یہ ہے کہ کاروباروں کی اجازت اور باہر نکلنے کی نرمی اور پھر رمضان کے مہینے کا گزر جانا کسی احمدی کو اللہ تعالیٰ کی عبادت اور جو نیکیاں انہوں نے اپنائی تھیں انہیں ختم کرنے والا یا ان میں کمی کرنے والا نہ بنائے بلکہ ان نیکیوں کو اور باجماعت نمازوں کو جب تک مسجد میں جانے پر پابندی ہے گھروں میں جاری رکھنا اور جب مسجد جانے کی اجازت مل جائے گی تو مسجد کو آباد رکھنا اپنے پر پہلے سے بڑھ کر فرض کریں۔ عورتیں گھروں میں نمازوں کا خاص اہتمام کریں تا کہ بچے بھی اپنے سامنے نمونے دیکھنے والے ہوں۔ ان کا بھی خدا تعالیٰ پر ایمان اور یقین بڑھے۔ گھروں میں درس و تدریس کا چند منٹ کے لیے سلسلہ جاری رہے تا کہ دینی علم بھی بڑھے اور علم و معرفت بھی بڑھے۔ اسی طرح ایم ٹی اے کے پروگراموں کو دیکھنے کی طرف بھی توجہ رکھیں۔ پہلے بھی مَیں اس بارے میں کہہ چکا ہوں۔ پس نہ لاک ڈاؤن کے بعد اور نہ ہی رمضان کے بعد ان نیکیوں کو ہم میں سے کسی کو بھولنا چاہیے بلکہ جاری رکھنا چاہیے۔ کبھی کسی احمدی کو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں آ کر اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کا عہد کرتا ہے اپنے عہدِ بیعت کو بھولنا نہیں چاہیے۔ مومن کا یہ کام نہیں کہ کبھی ان لوگوں میں شامل ہو جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مشکل میں گرفتار ہوں تو اللہ تعالیٰ کی طرف جھکتے ہیں، اس کی پناہ میں آنے کی کوشش کرتے ہیں، اس سے مدد مانگتے ہیں، اسے پکارتے ہیں اور جب تکلیف دور ہو جائے تو خدا تعالیٰ کو بھول جاتے ہیں۔ آج کل لوگ اس تلاش میں ہیں کہ یہ کورونا وائرس کی بیماری طبعی حادثہ ہے یا عذابِ الٰہی ہے۔ اس قسم کی آفات اور وبائیں جو آتی ہیں ان میں ایک مومن کا کام ہے کہ پہلے سے بڑھ کر خدا تعالیٰ کی طرف جھکے۔ صرف اسی کی تلاش میں نہ رہے کہ یہ کیا چیز ہے؟ اور یہ زمانہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ ہے اس میں اللہ تعالیٰ کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ بےشمار وعدے ہیں جو پورے ہوئے اور ہو رہے ہیں اور آئندہ بھی ہوں گے۔ اگر کوئی انذاری پہلو رکھنے والی باتیں ہیں تو سب سے پہلے ایک مومن کا کام ہے کہ لرزاں و ترساں ہو۔ خوفزدہ ہو اور اپنے ایمان و ایقان کو مضبوط کرے۔ اپنے اچھے انجام کے لیے دعا کرے۔ اصل چیز یہی ہے کہ انجام بخیر ہو۔ مَیں نے کئی مرتبہ بتایا ہے کہ یہ آفات اور طوفان اور بلائیں جو اس زمانے میں آ رہی ہیں ان کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے سے خاص تعلق ہے۔ پس ہمیں اپنے ایمان و ایقان اور انجام بخیر کے لیے بھی بہت دعائیں کرنی چاہئیں اور دنیا کے بچانے کے لیے بھی دعائیں کرنی چاہئیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس وقت بھی جب اللہ تعالیٰ نے طاعون کو نشان کے طور پر ظاہر ہونے کی آپؑ کو واضح خبر دی تھی بے چین ہو ہو کر دنیا کے لیے دعا کیا کرتے تھے۔ بند دروازوں کے پیچھے سے آپؑ کی دعاؤں کی حالت کو سننے والے بیان کرتے ہیں کہ اس طرح شدتِ گریہ کی آوازیں آ رہی ہوتی تھیں جیسے کہ آگ پر رکھی ہوئی ہنڈیا میں پانی کے ابلنے کی آوازیں آتی ہیں کہ انسانیت کو اللہ تعالیٰ بچا لے۔ (ماخوذ از خدا تعالیٰ دنیا کی ہدایت کے لیے ہمیشہ نبی مبعوث فرماتا ہے، انوار العلوم جلد 18 صفحہ 514) (ماخوذ از رجسٹر روایات (غیر مطبوعہ) جلد 7 صفحہ 107 روایات حضرت ماسٹر محمد اللہ داد صاحبؓ )

پس انسانیت کے لیے آپؑ کا رحم اور شفقت اللہ تعالیٰ کے آپؑ کو نشان کے بتانے کے باوجود غالب تھا اور ان کے اس بیماری کی تباہی سے بچنے کے لیے، اس وبا کی تباہی سے بچنے کے لیے آپؑ دعا کر رہے ہوتے تھے۔ پس بڑے درد سے دعا کر رہے ہوتے تھے۔ پس ہم نے بھی آپؑ کے اس نمونے کو دیکھنا ہے۔

بعض لوگ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے ایک مضمون‘حوادث طبعی یا عذاب الٰہی ’کو لے کرآج کل جو وائرس کی وبا پھیلی ہوئی ہے اس سے ملانے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے تبصرے بھی کرتے ہیں۔ واضح ہو کہ جیسا کہ مَیں کہہ چکا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے کے بعد آفات اور بلاؤں کی تعداد بڑھی ہے اور اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے واضح فرمایا ہوا ہے کہ یہ آئیں گی اور تباہیاں آئیں گی۔ اس میں تو کوئی شک نہیں لیکن جیسا کہ مَیں گذشتہ خطبات میں بیان کر چکا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ بھی فرمایا ہے کہ بعض ایمان والے بھی قانونِ قدرت کے تحت اس کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں لیکن ان کا مقام شہید کا ہوتا ہے اور ان کا انجام بخیر ہوتا ہے۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد 9 صفحہ 252)

اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق بھی ان کا انجام انہیں جنت میں لے جانے والا ہوتا ہے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس جنازے پر لوگ اس شخص کی تعریف کریں، اس کی خدمات کی تعریف کریں، اس کے حقوق العباد اور حقوق اللہ کی ادائیگی کی گواہی دیں اور تعریف کریں اس پر جنت واجب ہو جاتی ہے۔ (صحیح مسلم کتاب الجنائز باب فیمن یثنی علیہ خیر او شر من الموتیٰ حدیث (949))

اور ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سارے لوگ ہیں، بعض ایسے احمدی مخلصین ہیں جن کے بارے میں ہر ایک کے یہی تأثرات تھے لیکن ان وباؤں کے اثرات کو دیکھنے والی جو اصل چیز ہے وہ یہ ہے کہ اس سے عمومی طور پر دنیاداروں پر کیا اثر ہو رہا ہے۔ دنیا داروں کے تو ہوش و حواس گم ہو رہے ہیں اور ہوتے ہیں اور آج کل یہ دنیا میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح ان کی حالت ہو چکی ہے۔ نہ صرف لوگوں کی بلکہ بڑی بڑی حکومتوں کی، بڑے بڑے پہاڑوں کی، حکومتیں جو اپنے آپ کو پہاڑوں کی طرح مضبوط سمجھتی ہیں۔ ان بڑی بڑی مضبوط حکومتوں کی معیشتیں اور نظام درہم برہم ہو گئے ہیں اور اس کے اثر سے اپنے عوام کی توجہ پھیرنے کے لیے جو کوشش وہ کر رہے ہیں وہ اَور بھی زیادہ خطرناک ہے۔ وہ ان کو جنگ اور معیشت کی مزید تباہی میں دھکیل دے گی۔ پس جب تک یہ لوگ اپنے اندر ایسی تبدیلی پیدا نہیں کریں گے جس سے فسادوں کی کیفیت دور نہ ہو تو ایک کے بعد دوسری تباہی میں یہ لوگ خود ڈوبتے چلے جائیں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی یہی فرمایا ہے کہ مسلمان ہونا یا مذہبی غلطیوں کا نہ ہونا یا مذہبی غلطیوں کا جو مؤاخذہ ہے یہ تو قیامت کے دن ہے، اللہ تعالیٰ اس وقت دیکھے گا لیکن فتنہ و فساد اور حقوق غصب کرنا اور خدا کے بندوں کا استہزا کرنا یہ بے چین کرنے والی تباہیاں لاتا ہے۔ (ماخوذ از کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 5)

بہرحال ہمارا کام دعا کرنا اور دنیا کو سمجھانا اور اپنی حالتوں کو پاک بنانا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے جس مضمون کی میں نے بات کی ہے وہ لمبا مضمون ہے لیکن ہر احمدی کو جس بات کی طرف توجہ دینی چاہیے اس مضمون کے پڑھنے سے وہ صرف یہ نہیں کہ پہلی قوموں کے ساتھ کیا ہوا یا اب کیا ہوگا یا کیا ہو رہا ہے اور کیا تباہی ہے اور کیا نہیں۔ یقیناً یہ باتیں بھی خوفزدہ کرنے والی ہونی چاہئیں۔ اپنی حالتوں کی طرف توجہ دینے والی ہونی چاہئیں لیکن جو اصل بات ہے جو الفاظ قابلِ غور ہیں وہ یہ ہے جو کہ آپؒ نے لکھا ہوا ہے کہ جماعت احمدیہ کے لیے اس میں تنبیہ اور بشارت بھی ہے۔

تنبیہ یہ کہ صرف احمدیت کا عنوان بچانے کے لیے کافی نہیں ہو گا بلکہ تقویٰ کی شرط بھی ساتھ لگی ہوئی ہے اور بشارت کا پہلو یہ ہے کہ جماعت میں جو عملی کمزوریاں آ چکی ہوں گی بڑی تیزی کے ساتھ ان کی اصلاح کی کوشش احمدی کرے گا۔ پس خلاصہ یہ کہ جنہوں نے بیعت کا صرف نام لگایا ہوا ہے، ایک لیبل (label)ہے وہ آپؑ کی پاک تعلیم کی طرف لوٹیں گے تو پھر ہی بچت ہے اور خدا کی طرف یہ لوٹنا ہی ان کے لیے بشارت ہے ورنہ کوئی بشارت نہیں۔ (ماخوذ از حوادث طبعی یا عذاب الٰہی صفحہ 121)

اور جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ ان دنوں میں جو خاص توجہ پیدا ہوئی ہوئی ہے اسے اب قائم رکھیں اور خود بھی اور اپنے بچوں کو بھی حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ دلائیں کیونکہ دنیا کی تباہی کے بعد خدا تعالیٰ کی طرف جب دنیا کی نظر ہو گی، توجہ ہو گی، حقوق کی ادائیگی کی طرف جب نظر ہو گی تو پھر لوگ جماعت کی طرف ہی دیکھیں گے، پھر احمدی ہی ہوں گے جو دنیا کی صحیح رہ نمائی کر سکیں گے لیکن اس سے پہلے ہمیں درد کے ساتھ یہ دعا کرنی چاہیے کہ وہ نوبت ہی نہ آئے جب دنیا اس حد تک آگے چلی جائے کہ وہاں سے روشنی اور امن کی طرف آنے کے راستے ہی بند ہو جائیں۔ اس سے پہلے ہی لوگوں کی نظر اس طرف پھر جائے۔ پس ہمیں دعاؤں کے ساتھ اپنے نمونے بھی دکھانے کی ضرورت ہے، دنیا کو بتانے کی ضرورت ہے کہ ایک دوسرے کے حق ادا کر کے ہی تم اللہ تعالیٰ کے رحم کو حاصل کر سکتے ہو اور خدا تعالیٰ جو واحد خدا ہے اس کا رحم حاصل کیے بغیر نہ دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے ہماری کوشش کامیاب ہو سکتی ہے اور نہ مرنے کے بعد انجام بخیر ہو سکتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان دنوں میں جہاں جماعت کے افراد عبادتوں کی طرف توجہ دے رہے ہیں وہاں نوجوان بھی اور صحت مند انصار بھی اور لجنہ بھی خدمت خلق کے کام بھی کر رہے ہیں۔ اس بارے میں بھی ہر جگہ سے بڑی اچھی رپورٹس آ رہی ہیں۔ یہ خدمت خلق بعض بھٹکے ہوؤں کو، دنیا داروں کو راستے دکھانے کا بھی باعث بن رہی ہے۔

گذشتہ دنوں کینیڈا کی رپورٹ تھی کہ ایک عورت نے رات دو بجے خدام کی جو ہمسایوں کی ہیلپ لائن ہے اس کو ہر جگہ سے مایوس ہو کر فون کیا کہ یہ میری مجبوری ہے، میرا لڑکا بیمار ہے اور دوائی حاصل کرنے کے تمام راستے بند ہو چکے ہیں، ہر جگہ سے انکار ہو گیا ہے۔ وہ کہتی تھی سب نے یہی کہا ہے کہ صبح سے پہلے نہیں مل سکتی اور اس کی بہت بری حالت ہے۔ وہ کہتی ہے کہ میں نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں خدا ہے۔ گو میں خدا کو نہیں مانتی چلو آج آزماتے ہیں۔ کہتی ہے میں نے انتہائی کرب اور اضطرار کی حالت میں کہا کہ اے خدا ! اگر تُو ہے تو میرا بیٹا اس بری حالت میں ہے اس کی دوائی کا انتظام کر دے اور ساتھ ہی کہتی ہے کہ مجھے خدام کی ہیلپ لائن (helpline) کا بھی خیال آیا۔ فون کیا تو کسی آدمی نے فون اٹھایا۔ اسے اپنی ضرورت بتائی تو اس نے کہا کوشش کرتا ہوں۔ تھوڑی دیر کے بعد پھر اسی شخص کا فون آیا کہ اس وقت رات کے دو بجے ہیں انتظام مشکل ہے۔ اس شخص نے کہا کہ تمہارے لڑکے کی حالت کیا ہے؟ میں نے پھر ساری صورتِ حال بتائی اور بڑی بے چینی کا اظہار کیا تو اس نے کہا اچھا مَیں خود جاکے دیکھتا ہوں، کسی جگہ جا کے دیکھتا ہوں۔ ایک فارمیسی فلاں جگہ پہ کھلی ہوتی ہے۔ اگر کھلی ہوئی تو دوائی لے آتا ہوں۔ وہ رات کو اٹھ کے گیا۔ کہتی ہے اس کو جب میں نے جگایا تھا تو وہ نیند کی حالت میں تھا لیکن پھر بھی وہ پچاس کلومیٹر کا سفر کر کے گیا اور مجھے دوائی لا کر دی۔ اس بات سے مجھے خدا کے ہونے کا یقین آ گیا اور یہ یقین احمدی خادم کی وجہ سے مجھے ملا اور میں اس کے لیے شکرگزار ہوں۔ پس ان دنوں میں ہم خدمتِ انسانیت کر کے بندوں کو خدا کے قریب لانے کا بھی ذریعہ بن سکتے ہیں اس کے لیے ہم میں سے ہر ایک کو کوشش کرنی چاہیے۔ نہ یہ کہ یہ دیکھتے رہیں کہ تباہی آتی ہے یا نہیں آتی۔ اور پھر رمضان میں جو سبق ہمیں دوسروں کی تکلیف کا احساس کرنے کا ملا ہے اسے بھی جاری رکھنا چاہیے کہ ہمیشہ دوسروں کی تکلیف کا احساس کرتے رہیں کیونکہ رمضان کے مقاصد میں سے ایک یہ بھی ہے کہ یہ احساس دلایا جائے کہ دوسروں کی تکلیف کا احساس کرو۔

پس ایک دنیا کا ماحول جو عمومی طور پر اس وبا کی وجہ سے بنا ہوا ہے اور ایک رمضان کا ماحول اب ہمیں ہمیشہ اپنی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلانے والا بنا رہنا چاہیے۔ رمضان تو کل یا پرسوں چلا جائے گا، ختم ہو جائے گا لیکن اس کی نیکیاں ہمیں ہمیشہ اپنے اندر رکھنی چاہئیں۔ وہ پاک تبدیلیاں جو ہم نے کی ہیں وہ ہمیشہ اپنے اندر رکھنی چاہئیں اور پھر جب لاک ڈاؤن میں نرمی آئے تو ہمیں اپنی ذاتی بھی اور انسانیت کے لیے بھی ذمہ داریوں کو نہیں بھولنا چاہیے۔ ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے جہاں خود اللہ تعالیٰ کا حق اور بندوں کا حق ادا کرنے کی طرف توجہ دیں وہاں دوسروں کو بھی اس طرف توجہ دلاتے رہیں اور اپنے پاک نمونوں سے دنیا کو خدا تعالیٰ اور اس کی مخلوق کے حقوق ادا کرنے والا بنانے کی کوشش کریں۔ ہم نے اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مانا ہے۔ آپؑ کی کوئی مجلس ایسی نہیں ہوتی تھی جہاں آپ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کی روشنی میں ہمارے مقام و معیار کی طرف توجہ دلانے کی کوشش نہ فرماتے ہوں۔ پس ہمیں ہر وقت آپ کی نصائح کی جگالی کرتے رہنا چاہیے تا کہ حقیقی ایمان و ایقان ہمیں حاصل ہو۔ دوسروں کی کمزوریوں کی طرف نظر رکھنے کی بجائے ہم اپنی حالتوں کا جائزہ لیتے رہیں۔ اس حوالے سے اس وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعض حوالے بھی آپ کے سامنے پیش کروں گا جن پر ہمیں غور کرتے رہنا چاہیے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمیں کس مقام اور معیار پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایک جگہ ہمارے اس معیار کا ذکر فرماتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ

’’چاہیے کہ ہر ایک شخص تہجد میں اٹھنے کی کوشش کرے اور پانچ وقت کی نمازوں میں بھی قنوت ملا دیں۔ ہر ایک خدا کو ناراض کرنے والی باتوں سے توبہ کریں۔ توبہ سے یہ مراد ہے کہ ان تمام بد کاریوں اور خدا کی نارضامندی کے باعثوں کو چھوڑ کر ایک سچی تبدیلی کریں اور آگے قدم رکھیں اور تقویٰ اختیار کریں۔ اس میں بھی خدا کا رحم ہوتا ہے۔‘‘ فرمایا ’’عاداتِ انسانی کو شائستہ کریں۔ غضب نہ ہو۔ تواضع اور انکسار اس کی جگہ لے لے۔ اخلاق کی درستی کے ساتھ اپنے مقدور کے موافق صدقات کا دینا بھی اختیار کرو۔ یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰى حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّیَتِیْمًا وَّاَسِیْرًا۔ (الدھر: 9)یعنی خدا کی رضاکے لیے مسکینوں اور یتیموں اور اسیروں کو کھانا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خاص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہم دیتے ہیں اور اس دن سے ہم ڈرتے ہیں جو نہایت ہی ہولناک ہے۔ قصہ مختصر دعا سے، توبہ سے کام لو اور صدقات دیتے رہو تا کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم کے ساتھ تم سے معاملہ کرے۔‘‘ (ملفوظات جلد 1 صفحہ 208ایڈیشن1984ء)

پھر جماعت کو نصائح کرتے ہوئے فرمایا:

’’اللہ تعالیٰ کسی کی پروا نہیں کرتا مگر صالح بندوں کی۔ آپس میں اخوت اور محبت کو پیدا کرو اور درندگی اور اختلاف کو چھوڑ دو۔ ہر ایک قسم کے ہزل اور تمسخر سے مطلقاً کنارہ کش ہو جاؤ کیونکہ تمسخر انسان کے دل کو صداقت سے دور کر کے کہیں کا کہیں پہنچا دیتا ہے۔ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ عزت سے پیش آؤ۔ ہر ایک اپنے آرام پر اپنے بھائی کے آرام کو ترجیح دیوے۔ اللہ تعالیٰ سے ایک سچی صلح پیدا کرلو اور اس کی اطاعت میں واپس آجاؤ۔ اللہ تعالیٰ کا غضب زمین پر نازل ہو رہا ہے اور اس سے بچنے والے وہی ہیں جو کامل طور پر اپنے سارے گناہوں سے توبہ کر کے اس کے حضور میں آتے ہیں۔ تم یاد رکھو کہ اگر اللہ تعالیٰ کے فرمان میں تم اپنے تئیں لگاؤ گے اور اس کے دین کی حمایت میں ساعی ہو جاؤ گے تو خدا تمام رکاوٹوں کو دور کر دے گا اور تم کامیاب ہو جاؤ گے۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ کسان عمدہ پودوں کی خاطر کھیت میں سے ناکارہ چیزوں کو اکھاڑ کر پھینک دیتا ہے اور اپنے کھیت کو خوشنما درختوں اور بار آور پودوں سے آراستہ کرتا ہے اور ان کی حفاظت کرتا اور ہر ایک ضرر اور نقصان سے ان کو بچاتا ہے مگر وہ درخت اور پودے جو پھل نہ لاویں اور گلنے اور خشک ہونے لگ جاویں ان کی مالک پروا نہیں کرتا کہ کوئی مویشی آکر ان کو کھا جاوے یا کوئی لکڑہارا ان کو کاٹ کر تنور میں ڈال دیوے۔ سو ایسا ہی تم بھی یاد رکھو اگر تم اللہ تعالیٰ کے حضور میں صادق ٹھہرو گے تو کسی کی مخالفت تمہیں تکلیف نہ دے گی۔ پر اگر تم اپنی حالتوں کو درست نہ کرو اور اللہ تعالیٰ سے فرمانبرداری کا ایک سچا عہدنہ باندھو تو پھر اللہ تعالیٰ کو کسی کی پروا نہیں۔‘‘

فرمایا ’’…… چاہیے کہ تم خدا کے عزیزوں میں شامل ہو جاؤ …… ہرایک آپس کے جھگڑے اور جوش اور عداوت کو درمیان میں سے اٹھا دو کہ اب وہ وقت ہے کہ تم ادنیٰ باتوں سے اعراض کر کے اہم اور عظیم الشان کاموں میں مصروف ہو جاؤ۔ لوگ تمہاری مخالفت کریں گے۔‘‘ فرمایا کسی کی پروا نہ کرو۔ ’’……اس بات کو وصیت کے طور پر یاد رکھو کہ ہرگز تُندی اور سختی سے کام نہ لینا۔‘‘ مخالفت کریں گے لیکن تم نے ہر گزی تُندی اور سختی سے کام نہیں لینا۔ ’’بلکہ نرمی اور آہستگی اور خُلق سے ہر ایک کو سمجھاؤ۔‘‘ (ملفوظات جلد 1 صفحہ 266 تا 268ایڈیشن1984ء)

ہماری اخلاقی حالتوں کی درستی اور حقوق العباد کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ایک موقع پر آپؑ نے فرمایا:

’’ایک حدیث میں آیا ہے کہ قیامت میں اللہ تعالیٰ بعض بندوں سے فرمائے گا کہ تم بڑے برگزیدہ ہو اور میں تم سے بہت خوش ہوں کیونکہ میں بہت بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا کھلایا۔ میں ننگا تھا تم نے کپڑا دیا۔ میں پیاسا تھا تم نے مجھے پانی پلایا۔ میں بیمار تھا تم نے میری عیادت کی۔ وہ کہیں گے کہ یا اللہ! تُو تو ان باتوں سے پاک ہے۔ تُو کب ایسا تھا جو ہم نے تیرے ساتھ ایساکیا؟ تب وہ فرمائے گا کہ میرے فلاں فلاں بندے ایسے تھے تم نے ان کی خبر گیری کی۔ وہ ایسا معاملہ تھا کہ گویا تم نے میرے ساتھ ہی کیا۔ پھر ایک اَور گروہ پیش ہوگا۔ ان سے کہے گا کہ تم نے میرے ساتھ برا معاملہ کیا۔ میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا نہ دیا۔ پیاسا تھا پانی نہ دیا۔ ننگا تھا مجھے کپڑا نہ دیا۔ میں بیمار تھا میری عیادت نہ کی۔ تب وہ کہیں گے کہ یا اللہ تُو تو ایسی باتوں سے پاک ہے۔ تُو کب ایسا تھا جو ہم نے تیرے ساتھ ایسا کیا؟ اس پر وہ فرمائے گا کہ میرا فلاں فلاں بندہ اس حالت میں تھا اور تم نے ان کے ساتھ کوئی ہمدردی اور سلوک نہ کیا وہ گویا میرے ہی ساتھ کرنا تھا۔‘‘

یہاں کوئی شرط نہیں ہے کہ مسلمان ہے یا ہندو ہے یا عیسائی ہے یا کون ہے۔ فرمایا ’’غرض نوعِ انسان پر شفقت اور اس سے ہمدردی کرنا بہت بڑی عبادت ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے یہ ایک زبردست ذریعہ ہے مگر میں دیکھتا ہوں کہ اس پہلو میں بڑی کمزوری ظاہر کی جاتی ہے۔ دوسروں کو حقیر سمجھا جاتا ہے۔ ان پر ٹھٹھے کیے جاتے ہیں۔ ان کی خبر گیری کرنا اور کسی مصیبت اور مشکل میں مدد دینا تو بڑی بات ہے۔ جو لوگ غربا کے ساتھ اچھے سلوک سے پیش نہیں آتے بلکہ ان کو حقیر سمجھتے ہیں، مجھے ڈر ہے کہ وہ خود اس مصیبت میں مبتلا نہ ہو جاویں۔ اللہ تعالیٰ نے جن پر فضل کیا ہے اس کی شکر گزاری یہی ہے کہ اس کی مخلوق کے ساتھ احسان اور سلوک کریں اور اس خدا داد فضل پر تکبر نہ کریں اور وحشیوں کی طرح غرباء کو کچل نہ ڈالیں۔‘‘ (ملفوظات جلد 8 صفحہ 102-103ایڈیشن1984ء)

پھر اس کی مزید وضاحت فرماتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں کہ

’’اصل بات یہ ہے کہ سب سے مشکل اور نازک مرحلہ حقوق العباد ہی کا ہے کیونکہ ہر وقت اس کا معاملہ پڑتا ہے اور ہر آن یہ ابتلا سامنے رہتا ہے۔ پس اس مرحلہ پر بہت ہی ہوشیاری سے قدم اٹھانا چاہیے۔ میرا تو یہ مذہب ہے کہ دشمن کے ساتھ بھی حد سے زیادہ سختی نہ ہو۔ بعض لوگ چاہتے ہیں کہ جہاں تک ہو سکے اس کی تخریب اور بربادی کے لیے سعی کی جاوے۔ پھر وہ اس فکر میں پڑ کر جائز اور ناجائز امور کی بھی پروا نہیں کرتے۔ اس کو بدنام کرنے کے واسطے جھوٹی تہمت اس پر لگاتے۔ افترا کرتے اور اس کی غیبت کرتے اور دوسروں کو اس کے خلاف اکساتے ہیں۔ اب بتاؤ کہ معمولی دشمنی سے کس قدر برائیوں اور بدیوں کا وارث بنا اور پھر یہ بدیاں جب اپنے بچے دیں گی تو کہاں تک نوبت پہنچے گی۔‘‘

اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہی آج کل دنیا کا حال ہو رہا ہے۔ انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی اور قومی اور حکومتی طور پر بھی۔ فرمایا کہ ’’میں سچ کہتا ہوں کہ تم کسی کو اپنا ذاتی دشمن نہ سمجھو اور اس کینہ توزی کی عادت کو بالکل ترک کردو۔ اگر خدا تعالیٰ تمہارے ساتھ ہے اور تم خد اتعالیٰ کے ہو جاؤ تو وہ دشمنوں کو بھی تمہارے خادموں میں داخل کر سکتا ہے لیکن اگر تم خدا ہی سے قطع تعلق کیے بیٹھے ہو اور اس کے ساتھ ہی کوئی رشتہ دوستی کا باقی نہیں۔ اس کے خلاف مرضی تمہارا چال چلن ہے۔ پھر خدا سے بڑھ کر تمہارا دشمن کون ہو گا؟ مخلوق کی دشمنی سے انسان بچ سکتا ہے لیکن جب خد ادشمن ہو تو پھر اگر ساری مخلوق دوست ہو تو کچھ نہیں ہو سکتا۔ اس لیے تمہارا طریق انبیاء علیہم السلام کا سا طریق ہو۔ خدا تعالیٰ کا منشا یہی ہے کہ ذاتی اعداء کوئی نہ ہوں۔ خوب یاد رکھو کہ انسان کو شرف اور سعادت تب ملتی ہے جب وہ ذاتی طور پر کسی کا دشمن نہ ہو۔ ہاں اللہ اور اس کے رسول کی عزت کے لیے الگ امر ہے یعنی جو شخص خدا اور اس کے رسول کی عزت نہیں کرتا بلکہ ان کا دشمن ہے اسے تم اپنا دشمن سمجھو۔‘‘ لیکن اس دشمنی کے سمجھنے کی بھی وضاحت فرما دی۔ فرمایا ’’اس دشمنی سمجھنے کے یہ معنے نہیں ہیں کہ تم اس پر افترا کرو اور بلاوجہ اس کو دکھ دینے کے منصوبے کرو۔ نہیں۔ بلکہ اس سے الگ ہو جاؤ اور خدا تعالیٰ کے سپرد کرو۔ ممکن ہو تو اس کی اصلاح کے لیے دعا کرو۔ اپنی طرف سے کوئی نئی بھاجی اس کے ساتھ شروع نہ کرو۔‘‘ (ملفوظات جلد 8 صفحہ104-105ایڈیشن1984ء)

پھر اخلاقی معیاروں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں:

’’اخلاقی حالت ایسی درست ہو کہ کسی کو نیک نیتی سے سمجھانا اور غلطی سے آگاہ کرنا ایسے وقت پر ہو کہ اسے برامعلوم نہ ہو۔ کسی کو استخفاف کی نظر سے نہ دیکھا جاوے۔ دل شکنی نہ کی جاوے۔ جماعت میں باہم جھگڑے فسادنہ ہوں۔ دینی غریب بھائیوں کو کبھی حقارت کی نگاہ سے نہ دیکھو۔ مال و دولت یا نسبی بزرگی پر بے جا فخر کر کے دوسروں کو ذلیل اور حقیر نہ سمجھو۔ خدا تعالیٰ کے نزدیک مکرم وہی ہے جو متقی ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰىکُمْ۔ (الحجرات: 14) دوسروں کے ساتھ بھی پورے اخلاق سے کام لینا چاہیے۔ جوبد اخلاقی کا نمونہ ہوتا ہے وہ بھی اچھا نہیں۔ ہماری جماعت کے ساتھ لوگ مقدمہ بازی کا صرف بہانہ ہی ڈھونڈتے ہیں۔ لوگوں کے لیے ایک طاعون ہے۔ ہماری جماعت کے لیے دو طا عون ہیں۔ اگر کوئی جماعت میں سے ایک شخص برائی کرے گا تو اس ایک سے ساری جماعت پر حرف آئے گا۔ دانش مندی، حلم اور در گزر کے ملکہ کو بڑھاؤ۔ نادان سے نادان کی باتوں کا جواب بھی متانت اور سلامت روی سے دو۔ یاوہ گوئی کا جواب یاوہ گوئی نہ ہو۔‘‘ فرمایا کہ ’’…… مناسب ہے کہ ان ابتلا کے دنوں میں اپنے نفس کو مار کر تقویٰ اختیار کریں۔ میری غرض ان باتوں سے یہی ہے کہ تم نصیحت اور عبرت پکڑو۔ دنیا فنا کا مقام ہے، آخر مرنا ہے۔ خوشی دین کی باتوں میں ہے۔ اصلی مقصد تو دین ہی ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 1 صفحہ 208-209)

پھر ایک اَور موقعے پرجماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ

’’ہماری جماعت کو ایسا ہونا چاہیے کہ نری لفاظی پر نہ رہے بلکہ بیعت کے سچے منشا کو پور اکرنے والی ہو‘‘۔ (ہماری جماعت کو ایسا ہونا چاہیے کہ نری لفاظی پر نہ رہے بلکہ بیعت کے سچے منشا کو پور اکرنے والی ہو۔) ’’اندرونی تبدیلی کرنی چاہیے۔ صرف مسائل سے تم خدا تعالیٰ کو خوش نہیں کر سکتے۔‘‘ کہ مسائل جان لیے۔ یہ نہیں۔ اس سے اللہ تعالیٰ خوش نہیں ہو گا۔ ’’اگر اندرونی تبدیلی نہیں تو تم میں اور تمہارے غیر میں کچھ فرق نہیں۔ اگر تم میں مکر، فریب، کسل اور سستی پائی جائے تو تم دوسروں سے پہلے ہلاک کیے جاؤ گے۔ ہر ایک کو چاہیے کہ اپنے بوجھ کو اٹھائے اور اپنے وعدے کو پورا کرے۔ عمر کا اعتبار نہیں۔‘‘ فرمایا ’’…… جو شخص قبل از وقت نیکی کرتا ہے امید ہے کہ وہ پاک ہو جائے۔ اپنے نفس کی تبدیلی کے واسطے سعی کرو۔ نماز میں دعائیں مانگو۔ صدقات خیرات سے اور دوسرے ہر طرح کے حیلہ سے وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوْا فِیْنَا۔ (العنکبوت: 70)میں شامل ہو جاؤ۔ جس طرح بیمار طبیب کے پاس جاتا، دوائی کھاتا، مسہل لیتا، خون نکلواتا، ٹکور کرواتا اور شفا حاصل کرنے کے واسطے ہر طرح کی تدبیر کرتا ہے اسی طرح اپنی روحانی بیماریوں کو دور کرنے کے واسطے ہر طرح کوشش کرو۔ صرف زبان سے نہیں بلکہ مجاہدہ کے جس قدر طریق خدا تعالیٰ نے فرمائے ہیں وہ سب بجالاؤ۔ صدقہ خیرات کرو۔ جنگلوں میں جا کر دعائیں کرو۔‘‘ فرمایا کہ ’’…… اللہ تعالیٰ حیلے کرنے والے کو پسند کرتا ہے۔ جب انسان تمام حیلوں کو بجالاتا ہے تو کوئی نہ کوئی نشانہ بھی ہو جاتا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 8 صفحہ 188-189ایڈیشن 1984ء)

یعنی نشان بھی ہو جاتا ہے۔ پس ان دنوں میں خاص طورپر جبکہ پاکستان اور بعض ممالک میں احمدیوں کے خلاف ایک ابال اٹھا ہوا ہے ہمیں اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم کو جذب کرنے کے لیے ہر قسم کا حیلہ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ دشمن جب اپنی دشمنی میں انتہا کو پہنچا ہوا ہے تو ہمیں بھی خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم کو جذب کرنے کے لیے پہلے سے زیادہ کوشش کرنی چاہیے۔

اسی طرح اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام و مرتبہ اور آپؐ کے اسوہ کی حقیقت ہم پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے واضح فرمائی کہ یہ جو ساری چیزیں ہیں، یہ اعلیٰ اخلاق، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی یہ آپؐ کے اسوہ پر چل کر ہی ہو سکتی ہیں اور ہمیں بار بار یہی فرمایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ کو نہ چھوڑو۔ اس بارے میں نصیحت کرتے ہوئے ایک موقعے پر آپؑ نے فرمایا کہ

’’مَیں یہ بھی تمہیں بتا دینا چاہتا ہوں کہ بہت سے لوگ ہیں جواپنے تراشے ہوئے وظائف اور اور اد کے ذریعہ سے ان کمالات کو حاصل کرنا چاہتے ہیں یا خدا تعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق پیدا کرنا چاہتے ہیں لیکن میں تمہیں کہتا ہوں۔‘‘ یعنی اپنے بنائے ہوئے جو وِرد ہیں ان کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنا چاہتے ہیں فرمایا کہ میں تمہیں بتاتا ہوں، ’’میں تمہیں کہتا ہوں کہ جو طریق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار نہیں کیا وہ محض فضول ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر منعم علیہم کی راہ کا سچا تجربہ کار اَور کون ہو سکتا ہے جن پر نبوت کے بھی سارے کمالات ختم ہو گئے۔ آپؐ نے جو راہ اختیار کی وہ بہت ہی صحیح اور اقرب ہے۔ اس راہ کو چھوڑ کر دوسری راہ ایجاد کرنا خواہ وہ بظاہر کتنی ہی خوش کن معلوم ہوتی ہو میری رائے میں ہلاکت ہے اور خدا تعالیٰ نے مجھ پر ایسا ہی ظاہر کیا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 1 صفحہ 355ایڈیشن1984ء)

ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے علیحدہ کرنے والوں کی یہی حالت نظر آتی ہے کہ پیروں فقیروں اور نام نہاد علماء کی غلط تشریحوں سے اسلام کی تعلیم کا کچھ سے کچھ بگاڑ دیا ہے اور پھر بھی اپنے آپ کو حقیقی مسلمان کہتے ہیں اور ہمیں دائرہ اسلام سے خارج کرتے ہیں۔ پھر اس مقام محمدی کو مزید کھول کر بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں کہ ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی اتباع سے خدا ملتا ہے اور آپؐ کی اتباع کو چھوڑ کر خواہ کوئی ساری عمر ٹکریں مارتا رہے گوہرِ مقصود اس کے ہاتھ نہیں آ سکتا۔ چنانچہ سعدی بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی ضرورت بدیں الفاظ بتاتا ہے۔‘‘ فارسی کا شعر ہے۔‘‘ بزہد و وَرَع کُوش و صِدق و صَفا ولِیْکَن مَیْفَزَائے بَر مصطفےٰ ’’(کہ زہد و تقویٰ اور صدق و صفا کے لیے ضرور کوشش کرو مگر مصطفی ٰصلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریق سے تجاوز نہ کرو۔) ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی راہ کو ہر گز نہ چھوڑو۔ میں دیکھتا ہوں کہ قسم قسم کے وظیفے لوگوں نے ایجاد کر لیے ہیں۔ الٹے سیدھے لٹکتے ہیں اور جوگیوں کی طرح راہبانہ طریقے اختیار کیے جاتے ہیں لیکن یہ سب بے فائدہ ہیں۔ انبیاءؑ کی یہ سنت نہیں کہ وہ الٹے سیدھے لٹکتے رہیں یا نفی اثبات کے ذکر کریں اور ارّہ کے ذکر کریں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی لیے اسؤہ حسنہ فرمایا‘‘ (آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اسی لیے اسؤہ حسنہ فرمایا۔) ’’لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ۔‘‘ (الاحزاب: 22) یعنی تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ہی اسوہ ٔحسنہ ہے۔ فرمایا ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نقش قدم پر چلو اور ایک ذرہ بھر بھی ادھر یا ادھر ہونے کی کوشش نہ کرو۔‘‘ (ملفوظات جلد 1 صفحہ 356 ایڈیشن 1984ء)

پھر فرماتے ہیں

’’غرض منعم علیہم لوگوں میں جو کمالات ہیں اور صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ۔ (الفاتحہ: 7) میں جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے ان کو حاصل کرنا ہر انسان کا اصل مقصد ہے اور ہماری جماعت کو خصوصیت سے اس طرف متوجہ ہونا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ کے قائم کرنے سے یہی چاہا ہے کہ وہ ایسی جماعت تیار کرے جیسی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تیار کی تھی تا کہ اس آخری زمانہ میں یہ جماعت قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی اور عظمت پر بطور گواہ ٹھہرے۔‘‘ (ملفوظات جلد 1 صفحہ 356ایڈیشن1984ء)

پس ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی متبعین میں شامل ہیں اور اسی میں ہماری بقاہے کہ آپؐ کے غلام صادقؑ کی بیعت میں آ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی متبعین میں شامل ہوں اور آپؐ کے اسوہ کو اپنی تمام صلاحیتوں کے ساتھ اپنانے کی کوشش کریں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ اور آپؐ کے حکموں پر عمل کر کے منعم علیہ گروہ میں شامل ہوں اور اس گروہ کے بداثرات سے ہمیشہ بچے رہیں جو اللہ تعالیٰ کا غضب سہیڑنے والا اور گمراہ ہے۔ اپنی نمازوں میں خاص ذوق و شوق پیدا کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے حکموں پر چلتے ہوئے ہمیشہ اپنی زندگیاں گزارنے والے ہوں۔ اسیرانِ راہ ِمولیٰ کے لیے بھی دعائیں کریں اور اسیران میں سے بعض جن پر ظالمانہ طور پر بڑی سخت دفعات لگائی گئی ہیں ان کے لیے خاص طور پر دعا کریں۔ گذشتہ دنوں ایک احمدی خاتون رمضان بی بی صاحبہ کو توہین رسالت کی دفعہ لگا کر جیل میں ڈال دیا گیاہے۔ اس خاندان نے غالباً 2002ء میں بیعت کی تھی۔ ان کے خاوندنے مجھے لکھا کہ ہم قربانی سے نہیں ڈرتے اور نہ جیل میں جانے کا غم ہے۔ میری بیوی کو اور مجھے جو غم ہے تو اس بات کا ہے کہ جس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کی خاطر ہم مر مٹنے والے ہیں اس کی توہین کا ہم پر الزام لگایا گیا ہے۔ یہ درد ہے ہمیں۔ پس ان کو بھی اور ان اسیران کو بھی جن کو اس الزام میں سزائے موت سنائی گئی ہے ان کو ہمیشہ دعاؤں میں یاد رکھیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کی معجزانہ رہائی کےسامان پیدا فرمائے اور اپنا رحم فرمائے۔ عدلیہ اور حکومت کو توفیق دے کہ وہ انصاف پر قائم ہوں۔ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لیتے ہیں تو خدا اور اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حقیقی خوف اور محبت بھی ان میں پیدا ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر عمل کرنے والے بھی ہوں۔ اور اس کے علاوہ بھی مَیں بعض دعاؤں کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک کو توفیق دے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے مقصد کو پہچاننے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول حضرت خاتم الانبیاء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت تمام محبتوں پر غالب ہو۔ اسلام کی حقیقی تعلیم پر ہم عمل کرنے والے ہوں۔ ہمارے گھر پیار اور محبت کے نمونے ہوں۔ جو بچے اپنے ماں باپ کے آپس کے جھگڑوں سے پریشان ہیں اللہ تعالیٰ ان کی پریشانیاں بھی دور فرمائے۔ تمام واقفینِ زندگی کے لیے دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ انہیں بے نفس ہو کر خدمتِ دین کی توفیق عطا فرمائے اور وہ اپنا وقف نبھانے والے ہوں۔ واقفینِ نو کے لیے دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے اور اپنے ماں باپ کے عہد کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ شہدائے احمدیت اور ان کے خاندانوں کے لیے دعا کریں۔ مشکلات میں گھرے ہوئے تمام احمدیوں کے لیے دعا کریں۔ ایک دوسرے کے لیے اور اپنے لیے بھی دعائیں کریں۔ دوسروں کے لیے دعائیں کرنا، ایک دوسرے کے لیے جو دعائیں ہیں یہ پھر اپنے لیے بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کو حاصل کرنے والا بناتی ہیں۔ بچیوں کے رشتوں کے لیے دعائیں کریں خاص طور پر ان بچیوں کے لیے جن کے رشتوں میں بلا وجہ کی تاخیر ہو رہی ہے۔ ان حالات میں اور اس کے بعد جو دنیا کے معاشی حالات ہونے ہیں اس کے بد اثرات سے ہر احمدی کے محفوظ رہنے کے لیے دعا کریں۔ ان حالات کی وجہ سے جماعت کے کاموں اور منصوبوں میں بھی کوئی روک پیدا نہ ہو اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے جماعت کی ترقی کے سامان مہیا فرماتا رہے۔ ان حالات میں مالی قربانی کرنے والوں کے لیے بھی بہت دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کے اموال و نفوس میں بے انتہا برکت دے۔ ایم ٹی اے کے کارکنان کے لیے بھی دعائیں کریں۔ ان میں سے والنٹیئرز (volunteers)بھی ہیں اور کارکنان بھی ہیں۔ یہ بڑی محنت سے اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں اور اسلام کا پیغام دنیا میں پھیلا رہے ہیں۔ عالمِ اسلام کے لیے دعا کریں۔ ان کے آپس کے جھگڑے بھی ختم ہوں اور وہ لوگ امن کے ساتھ رہنا سیکھیں اور اسلام مخالف طاقتوں کے شر سے اللہ تعالیٰ ان کو محفوظ رکھے اور یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب ان کے آپس کے اختلافات ختم ہوں۔ بعض اَور دعائیں بھی مَیں اس وقت پڑھوں گا وہ بھی آپ میرے ساتھ دہراتے رہیں۔ اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِھِمْ وَنَعُوْذُبِکَ مِنْ شُرُوْرِھِمْ۔ (سنن ابو داؤد کتاب الوتر باب ما یقول الرجل اذا خاف قوما حدیث 1537)

ہم تجھے ان کے سینوں میں رکھتے ہیں یعنی تیرا رعب ان کے سینوں میں بھر جائے اور ہم ان کے شر سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ الْعَظِیْمُ الحَلِیْمُ۔ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ۔ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ رَبُّ السَّمٰوَاتِ وَرَبُّ الْأَرْضِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِ۔ (صحیح البخاری کتاب الدعوات باب الدعاء عند الکرب حدیث 6346)

اللہ کے سوا کوئی معبودنہیں اور وہ عظمتوں والا اور بڑا ہی بردبار ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبودنہیں وہی عرش کا رب ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبو دنہیں جو کہ آسمان و زمین اور عرش کریم کا رب ہے۔

یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکَ۔ (سنن الترمذی ابواب القدر باب ما جاء ان القلوب بین اصبعی الرحمٰن حدیث 2140)

اے دلوں کے پھیرنے والے میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھ۔

اَللّٰہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ الْہُدٰى وَالتُّقٰى وَالْعَفَافَ وَالْغِنٰى۔ (صحیح مسلم کتاب الذکر والدعاء باب فی الادعیۃ (2721))

اے اللہ! میں تجھ سے ہدایت، تقویٰ، عفت اور غنیٰ مانگتا ہوں۔ اَللّٰہُمَّ إِنِّی أَعُوْذُ بِکَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِکَ وَتَحَوُّلِ عَافِیَتِکَ وَفُجَاءَۃِ نِقْمَتِکَ وَجَمِیْعِ سُخْطِکَ۔ (صحیح مسلم کتاب الرقاق باب اکثر اھل الجنۃ الفقراء …… الخ حدیث (2739))

اے اللہ! میں تیری نعمت کے زائل ہو جانے، تیری عافیت کے ہٹ جانے، تیری اچانک سزا اور ان سب باتوں سے پناہ مانگتا ہوں جن سے تُو ناراض ہو۔

رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ۔ (الاعراف: 24)

اے ہمارے رب ! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تُو ہمیں نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ کرے تو ہم ضرورگھاٹا پانے والوں میں ہوں گے۔

رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ہَدَیْتَنَا وَ ہَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً اِنَّکَ اَنْتَ الْوَہَّابُ۔ (آل عمران: 9)

اے ہمارے رب! ہمارے دل ٹیڑھے نہ کر دینا بعد اس کے جو تُو نے ہمیں ہدایت دی اور ہمیں اپنے حضور سے رحمت عطا کرنا۔ یقیناً تُو بہت عطا کرنے والا ہے۔

رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ۔ (البقرۃ: 202)

یعنی اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھی کامیابی عطا کر اور آخرت میں بھی کامیابی دے اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک دعا ہے کہ

اے ربُّ العالمین ! مَیں تیرے احسانوں کا شکریہ ادا نہیں کر سکتا۔ تُو نہایت ہی رحیم و کریم ہے۔ تیرے بے غایت مجھ پر احسان ہیں۔ میرے گناہ بخش تا مَیں ہلاک نہ ہو جاؤں۔ میرے دل میں اپنی خالص محبت ڈال تا مجھے زندگی حاصل ہو اور میری پردہ پوشی فرما اور مجھ سے ایسے عمل کرا جن سے تُو راضی ہو جائے۔ مَیں تیرے وجہِ کریم کے ساتھ اس بات سے بھی پناہ مانگتا ہوں کہ تیرا غضب مجھ پر وارد ہو۔ رحم فرما، رحم فرما، رحم فرما اور دنیا و آخرت کی بلاؤں سے مجھے بچا کیونکہ ہر ایک فضل و کرم تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔ آمین (ماخوذ از مکتوباتِ احمدؑ جلد دوم صفحہ 159 مکتوب بنام حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ مکتوب نمبر 3)

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ۔ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ۔

اس رمضان کا یہ آخری جمعہ ہے اس رمضان میں جو نیک کام ہم سے ہوئے یا جو تبدیلیاں ہم نے پیدا کی ہیں اللہ تعالیٰ ان کو جاری رکھنے کی ہمیں توفیق عطا فرمائے اور یہ دعائیں بھی ہمارے حق میں قبول فرمائے۔

عید کے بارے میں بھی اعلان کر دوں کہ بہت سارے لوگوں نے مجھے لکھا کہ یہاں کی جو ویب سائٹ ہے اس کے مطابق تو چوبیس کو عید کر رہے ہیں۔ چوبیس کو عیدنہیں بنتی۔ اتوار کو چاندنظر نہیں آسکتا۔ پھر مَیں نے دوبارہ لکھا۔ اور دو دفعہ، تین دفعہ یہاں جو ہمارے ماہرین ہیں ان کی بھی دوبارہ میٹنگ کروائی۔ پھر اس میں کچھ اَور بھی شامل کیے۔ امیر صاحب کو مَیں نے کہا تھا خود بھی دیکھیں۔ پھر انہوں نے ایک نقشہ بنا کے مجھے بھیجا اس میں جو ویب سائٹ پہ بڑے شہر ہیں ان میں تو یقیناً تئیس تاریخ کو چاندنظر نہیں آ سکتا لیکن جو انہوں نے نقشہ بنا کے بھیجا ہے اس کے مطابق ان میں بعض علاقے ہیں، فالمتھ (Falmouth) اور پینزینس (Penzance) اور ہیل (Hale) یہ علاقے ہیں جہاں کھلی آنکھ سے تیئس تاریخ کو چاندنظر آسکتا ہے اور اگر کسی ملک کے ایک علاقے میں چاندنظر آ سکتا ہو تو باقی جگہ بھی عید کی جا سکتی ہے۔ مسلمان ممالک میں جو رؤیت ہلال کمیٹیاں ہیں وہ بھی اسی طرح جائزے لیتی ہیں۔ بہرحال اس جائزے کے بعد، دو تین دفعہ دوبارہ جائزہ لینے کے بعد یہی فیصلہ ہے کہ ان شاء اللہ تعالیٰ عید اتوار کو چوبیس تاریخ کو ہوگی۔

(الفضل انٹرنیشنل 12؍جون 2020ء صفحہ 5تا 9)


  • خطبہ کا مکمل متن
  • پاؤر پوائنٹ PowerPoint
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 22؍ مئی 2020ء شہ سرخیاں

    ’’خلیفۂ وقت اور جماعت ایک ہی وجود کے دو نام ہیں۔‘‘

    آج کل ہم جس حالت سے گزر رہے ہیں اس میں خاص طور پر خدا تعالیٰ کے آگے جھکنے کی ضرورت ہے۔

    یہ آفات اور طوفان اور بلائیں جو اس زمانے میں آ رہی ہیں ان کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے سے خاص تعلق ہے۔ پس ہمیں اپنے ایمان و ایقان اور انجام بخیر کے لیے بھی بہت دعائیں کرنی چاہئیں اور دنیا کے بچانے کے لیے بھی دعائیں کرنی چاہئیں۔

    ’’مناسب ہے کہ ان ابتلا کے دنوں میں اپنے نفس کو مار کر تقویٰ اختیار کریں۔ میری غرض ان باتوں سے یہی ہے کہ تم نصیحت اور عبرت پکڑو۔ دنیا فنا کا مقام ہے، آخر مرنا ہے خوشی دین کی باتوں میں ہے۔ اصلی مقصد تو دین ہی ہے۔‘‘

    موجودہ حالات میں احمدیوں کے محفوظ رہنے، جماعت احمدیہ کی ترقیات، مالی قربانی کرنے والوں، ایم ٹی اے کے کارکنان اور عالمِ اسلام کے پُرامن اتحاد کے لیے دعاؤں کی تحریک۔

    بعض دعاؤں کے ورد کی تلقین۔

    فرمودہ 22؍مئی 2020ء بمطابق 22؍ہجرت 1399 ہجری شمسی،  بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور