بدری اصحاب نبویؐ کی سِیرِ مبارکہ
خطبہ جمعہ 3؍ جولائی 2020ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
گذشتہ خطبات سے حضرت سعد بن مُعاذؓ کا ذکر چل رہا تھا۔ جنگ ِبدر میں عہدِ وفا کے اظہار کا ایک واقعہ جس کا گذشتہ خطبے میں بھی ذکر ہوا تھا اسے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اپنے انداز میں بیان فرمایا ہے۔ آپؓ اس طرح فرماتے ہیں کہ
’’یہ ایک قدرتی بات ہے کہ جہاں عشق ہوتا ہے وہاں کوئی شخص بھی نہیں چاہتا کہ میرے محبوب کو کوئی تکلیف پہنچے اور کوئی بھی یہ پسندنہیں کرتا کہ اس کا محبوب لڑائی میں جائے بلکہ ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے کہ محبوب لڑائی سے بچ جائے۔ اسی طرح صحابہؓ بھی اس بات کو پسندنہیں کرتے تھے کہ آپؐ لڑائی پر جائیں۔‘‘ صحابہؓ اس بات کو ناپسندنہیں کرتے کہ ہم لڑائی پر کیوں جائیں بلکہ ان کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا لڑائی پر جانا ناپسند تھا اور یہ ان کی طبعی خواہش تھی جو ہر محب کو اپنے محبوب کے ساتھ ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ہم دیکھتے ہیں کہ تاریخ سے اس بات کا کافی ثبوت ملتا ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بدر کے قریب پہنچے تو آپؐ نے صحابہؓ سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے خبر دی ہے کہ ہمارا مقابلہ قافلے سے نہیں بلکہ فوج کے ساتھ ہو گا۔ پھر آپؐ نے ان سے مشورہ لیا اور فرمایا کہ بتاؤ تمہاری کیا صلاح ہے؟ جب اکابر صحابہؓ نے آپؐ کی یہ بات سنی تو انہوں نے باری باری اٹھ اٹھ کر نہایت جاں نثارانہ تقریریں کیں اور عرض کیا ہم ہر خدمت کے لیے حاضر ہیں۔ ایک اٹھتا اور تقریر کر کے بیٹھ جاتا۔ پھر دوسرا اٹھتا اور مشورہ دے کر بیٹھ جاتا۔ غرض جتنے بھی اٹھے انہوں نے یہی کہا کہ اگر ہمارا خدا ہمیں حکم دیتا ہے تو ہم ضرور لڑیں گے مگر جب کوئی مشورہ دے کر بیٹھ جاتا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے مجھے مشورہ دو اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ابھی تک جتنے صحابہؓ نے اٹھ اٹھ کر تقریریں کی تھیں اور مشورے دیے تھے وہ سب مہاجرین میں سے تھے مگر جب آپؐ نے بار بار یہی فرمایا کہ مجھے مشورہ دیا جائے تو سعد بن مُعاذؓ رئیس اوس نے آپؐ کا منشاء سمجھا اور انصار کی طرف سے کھڑے ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ ! آپؐ کی خدمت میں مشورہ تو عرض کیا جا رہا ہے مگر آپؐ پھر بھی یہی فرماتے ہیں کہ مجھے مشورہ دو۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ انصار کی رائے پوچھنا چاہتے ہیں۔ اس وقت تک اگر ہم خاموش تھے تو صرف اس لیے کہ اگر ہم لڑنے کی تائید کریں گے تو شاید مہاجرین یہ سمجھیں کہ یہ لوگ ہماری قوم اور ہمارے بھائیوں سے لڑنا اور ان کو قتل کرنا چاہتے ہیں۔ پھر انہوں نے کہا یا رسول اللہؐ ! شاید آپؐ کا بیعت عقبہ کے اس معاہدہ کے متعلق کچھ خیال ہے جس میں ہماری طرف سے یہ شرط پیش کی گئی تھی کہ اگر دشمن مدینے پر حملہ کرے گا تو ہم اس کا دفاع کریں گے لیکن اگر مدینہ سے باہر جا کر لڑنا پڑا تو ہم اس کے ذمہ دار نہیں ہوں گے۔ آپؐ نے فرمایا ہاں۔ سعد بن مُعاذؓ نے عرض کیایا رسول اللہؐ ! اس وقت جبکہ ہم آپؐ کو مدینہ لائے تھے ہمیں آپؐ کے بلند مقام اور مرتبہ کا علم نہیں تھا۔ اب تو ہم نے اپنی آنکھوں سے آپؐ کی حقیقت کو دیکھ لیا ہے۔ اب اس معاہدے کی ہماری نظروں میں کچھ بھی حقیقت نہیں۔‘‘ ہے یعنی جو بیعت عقبہ کے وقت معاہدہ ہوا تھا وہ تو دنیاوی لحاظ سے ایک عام معاہدہ تھا۔ اب جو ہم نے دیکھا ہے اور اس کے بعد ہماری روحانیت کی جو آنکھیں کھلی ہیں تو اس کی کچھ بھی حقیقت نہیں ہے۔ ’’اس لیے آپ جہاں چاہیں چلیں ہم آپؐ کے ساتھ ہیں اور خدا کی قسم! اگر آپؐ ہمیں سمندر میں کود جانے کا حکم دیں تو ہم کود جائیں گے اور ہم میں سے ایک فرد بھی پیچھے نہیں رہے گا۔ یا رسول اللہؐ ! ہم آپ کے آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے۔ آپؐ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور دشمن آپؐ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گزرے۔‘‘ (ایک آیت کی پُر معارف تفسیر، انوار العلوم جلد 18 صفحہ 620-621)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سورۂ رعد کی آیت 12 جو اس طرح شروع ہوتی ہے کہ لَہٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنْۢ بَیْنِ یَدَیْہِ وَ مِنْ خَلْفِہٖ (الرعد: 12) یعنی اس کے لیے اس کے آگے اور پیچھے چلنے والے محافظ مقرر ہیں۔ اس کی تفسیر فرماتے ہیں کہ
’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تمام زمانہ ٔنبوت اس حفاظت کا ثبوت دیتا ہے۔‘‘ جو اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا تھا۔ آگے اور پیچھے ہم نے محافظ مقرر کیے ہوئے ہیں۔ ’’چنانچہ مکہ معظمہ میں آپؐ کی حفاظت فرشتے ہی کرتے تھے ورنہ اس قدر دشمنوں میں گھرے ہوئے رہ کر آپؐ کی جان کس طرح محفوظ رہ سکتی تھی۔ ہاں مدینہ تشریف لانے پر دونوں قسم کی حفاظت آپؐ کو حاصل ہوئی۔ آسمانی فرشتوں کی بھی اور زمینی فرشتوں یعنی صحابہؓ کی بھی۔ بدر کی جنگ اس ظاہری اور باطنی حفاظت کی ایک نہایت عمدہ مثال ہے۔ حضوؐ ر جب مدینہ تشریف لے گئے تھے تو آپؐ نے اہلِ مدینہ سے معاہدہ کیا تھا کہ اگر آپ مدینہ سے باہر جا کر لڑیں گے تو مدینہ والے آپؐ کا ساتھ دینے پر مجبور نہ ہوں گے۔ بدر کی لڑائی میں آپؐ نے انصار اور مہاجرین سے لڑنے کے بارہ میں مشورہ فرمایا۔ مہاجرین بار بار آگے بڑھ کر مقابلہ کرنے پر زور دیتے تھے لیکن حضوؐ ر ان کی بات سن کر پھر فرما دیتے کہ اے لوگو مشورہ دو۔ جس پر ایک انصاری (سعد بن مُعاذؓ) نے کہا کیا حضؐ ور کی مراد ہم سے ہے؟ حضوؐ ر نے فرمایا ہاں۔ اس نے کہا کہ بیشک ہم نے حضوؐ ر سے معاہدہ کیا تھا کہ اگر باہر جا کر لڑنے کا موقع ہو گا تو ہم حضورؐ کا ساتھ دینے پر مجبور نہ ہوں گے لیکن وہ وقت اَور تھا جبکہ ہم نے دیکھ لیا…‘‘، اب ’’جبکہ ہم نے دیکھ لیا کہ آپؐ خدا کے رسول برحق ہیں تو اب اس مشورہ کی کیا ضرورت ہے۔ اگر حضوؐ ر ہمیں حکم دیں تو ہم اپنے گھوڑے سمندر میں ڈال دیں گے۔ ہم اصحابِ موسیٰؑ کی طرح یہ نہ کہیں گے کہ تُو اور تیرا رب جا کر لڑو، ہم یہاں بیٹھے ہیں۔ بلکہ ہم حضوؐ ر کے دائیں بائیں، آگے اور پیچھے لڑیں گے اور دشمن آپؐ تک ہرگز نہ پہنچ سکے گا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گزرے۔‘‘ آپؓ فرماتے ہیں کہ ’’یہ مخلصین بھی میرے نزدیک ان مُعَقِّبَاتْ میں سے تھے۔‘‘ یعنی ان محافظوں میں سے تھے ’’جو خدا تعالیٰ نے حضورؐ کی حفاظت کے لیے مقرر فرما دیے تھے۔ ایک صحابیؓ کہتے ہیں کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں تیرہ جنگوں میں شریک ہوا ہوں مگر میرے دل میں بارہا یہ خواہش پیدا ہوئی ہے کہ میں بجائے ان لڑائیوں میں حصہ لینے کے اس فقرہ کا کہنے والا ہوتا جو سعد بن مُعاذؓ کے منہ سے نکلا تھا۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد 03 صفحہ392) یعنی کہ اپنے عہدِ وفا کا فقرہ۔
جنگ بدر کے موقعےپر حضرت سعد بن مُعاذؓ کے اخلاص کا ذکر کرتے ہوئے سیرت خاتم النبیینؐ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے تحریر فرمایا ہے کہ
’’جس جگہ اسلامی لشکر نے ڈیرہ ڈالا تھا وہ کوئی ایسی اچھی جگہ نہ تھی۔‘‘ جنگی لحاظ سے۔ ’’اس پر حُبَاب بن مُنذِرؓ نے آپؐ سے دریافت کیا کہ آیا خدائی الہام کے ماتحت آپؐ نے یہ جگہ پسند کی ہے یا محض فوجی تدبیر کے طور پر اسے اختیار کیا ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس بارہ میں کوئی خدائی حکم نہیں ہے۔ تم کوئی مشورہ دینا چاہتے ہو توبتاؤ۔ حُبَاب نے عرض کیا تو پھر میرے خیال میں یہ جگہ اچھی نہیں ہے۔‘‘ جنگی لحاظ سے۔ ’’بہتر ہو گا کہ آگے بڑھ کر قریش سے قریب ترین چشمہ پر قبضہ کرلیا جاوے۔ میں اس چشمہ کو جانتا ہوں۔ اس کا پانی اچھا ہے اور عموماً ہوتا بھی کافی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تجویز کو پسند فرمایا اور چونکہ ابھی تک قریش ٹیلہ کے پرے ڈیرہ ڈالے پڑے تھے اور یہ چشمہ خالی تھا مسلمان آگے بڑھ کر اس چشمہ پر قابض ہو گئے لیکن جیسا کہ قرآن شریف میں اشارہ پایا جاتا ہے اس وقت اس چشمہ میں بھی پانی زیادہ نہیں تھا اور مسلمانوں کوپانی کی قلت محسوس ہوتی تھی۔ پھر یہ بھی تھا کہ وادی کے جس طرف مسلمان تھے وہ ایسی اچھی نہ تھی کیونکہ اس طرف ریت بہت تھی جس کی وجہ سے پاؤں اچھی طرح جمتے نہیں تھے۔
جگہ کے انتخاب کے بعد سعد بن مُعاذؓ رئیسِ اوس کی تجویز سے صحابہؓ نے میدان کے ایک حصہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے ایک سائبان سا تیار کر دیا اور سعدؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری سائبان کے پاس باندھ کر عرض کیا کہ یارسول اللہؐ ! آپؐ اس سائبان میں تشریف رکھیں اور ہم اللہ کا نام لے کر دشمن کا مقابلہ کرتے ہیں۔ اگر خدا نے ہمیں فتح دی تو یہی ہماری آرزو ہے‘‘ تو الحمد للہ۔ ’’لیکن اگر خدانخواستہ معاملہ دگرگوں ہوا تو آپؐ اپنی سواری پرسوار ہو کر جس طرح بھی ہو مدینہ پہنچ جائیں۔‘‘ اس خیمہ کے ساتھ ہی اچھی قسم کی سواری، ایک اونٹ بھی باندھ کر رکھ دیا۔ پھر انہوں نے عرض کیا کہ آپؐ وہاں مدینہ پہنچ جائیں۔ ’’وہاں ہمارے ایسے بھائی بند موجود ہیں جو محبت واخلاص میں ہم سے کم نہیں ہیں لیکن چونکہ ان کو یہ خیال نہیں تھا کہ اس مہم میں جنگ پیش آ جائے گی اس لیے وہ ہمارے ساتھ نہیں آئے ورنہ ہرگز پیچھے نہ رہتے لیکن جب انہیں حالات کا علم ہو گا تووہ آپؐ کی حفاظت میں جان تک لڑا دینے سے دریغ نہیں کریں گے۔ یہ سعدؓ کا جوشِ اخلاص تھا جو ہر حالت میں قابلِ تعریف ہے ورنہ بھلا خدا کا رسول اور میدان سے بھاگے!‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو جنگوں میں سب سے آگے ہوتے تھے۔ ’’چنانچہ حنین کے میدان میں‘‘ ہم دیکھتے ہیں کہ ’’بارہ ہزار فوج نے پیٹھ دکھائی مگر یہ مرکز توحید اپنی جگہ سے متزلزل نہیں ہوا۔ بہرحال سائبان تیار کیا گیا‘‘ جیسا کہ سعدؓ نے کہا تھا ’’اور سعدؓ اور بعض دوسرے انصار اس کے گرد پہرہ دینے کے لیے کھڑے ہو گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکرؓ نے اسی سائبان میں رات بسر کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رات بھر خدا کے حضور گریہ وزاری سے دعائیں کیں اور لکھا ہے کہ سارے لشکر میں صرف آپؐ ہی تھے جو رات بھر جاگے۔ باقی سب لوگ باری باری اپنی نیند سولیے۔‘‘ (سیرت خاتم النبیینؐ ازحضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ صفحہ 356-357)
غزوۂ احد کے موقعے پر جمعے کی شب حضرت سعد بن مُعاذؓ، حضرت اُسید بن حُضیرؓ اور حضرت سعد بن عُبادہؓ مسجدنبوی میں ہتھیار پہنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر پہرہ دیتے رہے۔ غزوۂ احد کے موقعے پر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھوڑے پر سوار ہو کر اور کمان کندھے پر ڈال کر اور نیزہ ہاتھ میں لے کر مدینے سے روانہ ہوئے تو دونوں سعدؓ یعنی حضرت سعد بن مُعاذؓ اور حضرت سعد بن عُبادہؓ آپ کے آگے آگے دوڑ رہے تھے۔ ان دونوں نے زرہ پہنی ہوئی تھی۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثانی صفحہ28تا 30 غزوۃ رَسُول اللّٰہِ۔ أحدًا، دارالکتب العربیۃ بیروت 1990ء)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ غزوۂ احد کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ
’’آپؐ صحابہؓ کی ایک بڑی جماعت کے ہمراہ نمازِ عصر کے بعد مدینے سے نکلے۔ قبیلہ اوس اور خزرج کے رؤساء سعد بن مُعاذؓ اور سعد بن عُبادہؓ آپؐ کی سواری کے سامنے آہستہ آہستہ دوڑتے جاتے تھے اور باقی صحابہؓ آپؐ کے دائیں اور بائیں اور پیچھے چل رہے تھے۔‘‘ (سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ صفحہ486)
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ احد سے مدینہ واپس آئے اور اپنے گھوڑے سے اترے تو آپؐ حضرت سعد بن مُعاذؓ اور حضرت سعد بن عُبادہؓ کا سہارا لیتے ہوئے اپنے گھر میں داخل ہوئے۔ (سبل الہدیٰ والرشاد جلد 4صفحہ 229 باب غزوہ اُحد ذکر رحیل رسول اللّٰہﷺ إلى المدینۃ، دار الکتب العلمیۃ بیروت 1993ء)
حضرت سعد بن مُعاذؓ کی والدہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کس قدر محبت تھی اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جنگ احد سے واپسی پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کی باگ حضرت سعد بن مُعاذؓ پکڑے ہوئے فخر سے چل رہے تھے۔ جنگ میں آپؓ کا بھائی بھی مارا گیا تھا۔ مدینہ کے قریب پہنچ کر حضرت سعدؓ نے اپنی ماں کو آتے ہوئے دیکھا اور کہا یا رسول اللہؐ ! میری ماں آ رہی ہے۔ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی والدہ کی عمر اس وقت کوئی اسّی بیاسی سال کی تھی۔ آنکھوں کا نور جا چکا تھا۔ بہت کمزور نظر تھی۔ دھوپ چھاؤں مشکل سے نظر آتی تھی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی خبر سن کر، مدینہ میں یہ مشہور ہو گیا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کر دیا گیا ہے تو یہ خبر سن کر وہ بڑھیا بھی لڑکھڑاتی ہوئی مدینہ سے باہر نکلی جا رہی تھی۔ حضرت سعدؓ نے کہا یا رسول اللہؐ ! میری ماں آ رہی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم قریب پہنچے تو آپؐ نے فرمایا میری سواری کو ٹھہرا لو۔ تمہاری ماں آ رہی ہے وہاں اس کے قریب میری سواری کو کھڑا کر دو۔ جب آپؐ اس بوڑھی عورت کے قریب آئے تو اس نے اپنے بیٹوں کے متعلق کوئی خبر نہیں پوچھی۔ پوچھا تو یہ پوچھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہاں ہیں؟ حضرت سعدؓ نے جواب دیا آپ کے سامنے ہیں۔ اس بوڑھی عورت نے اوپر نظر اٹھائی اور اس کی کمزور نگاہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر پھیل کر رہ گئیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بی بی مجھے افسوس ہے تمہارا جوان بیٹا اس جنگ میں شہید ہو گیا ہے۔ بڑھاپے میں کوئی شخص ایسی خبر سنتا ہے تو اس کے اوسان خطا ہو جاتے ہیں لیکن اس بڑھیا نے کیسا محبت بھرا جواب دیا کہ یا رسول اللہؐ ! آپؐ کیسی باتیں کر رہے ہیں۔ مجھے تو آپؐ کی خیریت کی فکر تھی۔
حضرت مصلح موعوؓ دنے یہ واقعہ بیان کیا اس کے بعد آپؓ نے احمدی خواتین کو مخاطب ہو کر فریضہ تبلیغ پر توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ یہی وہ عورتیں تھیں جو اسلام کی اشاعت اور تبلیغ میں مردوں کے دوش بدوش چلتی تھیں اور یہی وہ عورتیں تھیں جن کی قربانیوں پر اسلامی دنیا فخر کرتی ہے۔ تمہارا بھی دعویٰ ہے، آج کل جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے والی عورتیں ہیں، تمہارا بھی یہ دعویٰ ہے کہ تم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ایمان لائی ہو اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بروز ہیں۔ گویا دوسرے لفظوں میں تم صحابیات کی بروز ہو لیکن تم صحیح طور پر بتاؤکہ کیا تمہارے اندر دین کا وہی جذبہ موجزن ہے جو صحابیات میں تھا؟ کیا تمہارے اندر وہی نور موجود ہے جو صحابیات میں تھا؟ کیا تمہاری اولادیں ویسی ہی نیک ہیں جیسی صحابیات کی تھیں؟ اگر تم غور کرو گی تو تم اپنے آپ کو صحابیات سے بہت پیچھے پاؤ گی۔ صحابیات نے تو جو قربانیاں کیں آج تک دنیا کے پردے پر اس کی مثال نہیں ملتی۔ ان کی قربانیاں جو انہوں نے اپنی جان پر کھیل کر کیں اللہ تعالیٰ کو ایسی پیاری لگیں کہ اللہ تعالیٰ نے بہت جلد ان کو کامیابی عطا کی اور دوسری قومیں جس کام کو صدیوں میں نہ کر سکیں ان کو صحابہ اور صحابیات نے چند سالوں کے اندر کر کے دکھا دیا۔ (ماخوذ از فریضۂ تبلیغ اور احمدی خواتین، انوار العلوم جلد 18 صفحہ 400-401)
یہاں کیونکہ مخاطب آپ احمدی خواتین سے تھے اس لیے ان کا ذکر ہے ورنہ بے شمار جگہ پر ہمیشہ خلفاء یہ کہتے آئے ہیں، میں بھی بیشمار دفعہ کہہ چکا ہوں کہ ہمارے مردوں کو بھی وہی نمونے دکھانے پڑیں گے تبھی ہم جو دعویٰ کرتے ہیں اور جو اس دعویٰ کو لے کر اٹھے ہیں کہ دنیا میں اسلام کا پیغام پھیلانا ہے اور دنیا کو اسلام کے جھنڈے تلے لے کے آنا ہے اس پر عمل کر سکتے ہیں۔ جب ہماری قربانیاں اور ہمارے عمل اس کے مطابق ہوں گے جس کے نمونے صحابہؓ نے ہمارے سامنے قائم فرمائے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’عیسائی دنیا مریم مگدلینی اور اس کی ساتھی عورتوں کی اس بہادری پر خوش ہے کہ وہ مسیح کی قبر پر صبح کے وقت دشمنوں سے چھپ کر پہنچی تھیں۔ میں ان سے کہتا ہوں آؤ اور ذرا میرے محبوب کے مخلصوں اور فدائیوں کو دیکھو کہ کن حالتوں میں انہوں نے اس کا ساتھ دیا اور کن حالتوں میں انہوں نے توحید کے جھنڈے کو بلند کیا۔ اس قسم کی فدائیت کی ایک اَور مثال بھی تاریخ میں ملتی ہے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہداء کو دفن کر کے مدینہ واپس گئے۔‘‘ پھر ایک اَورموقع پر دوبارہ حضرت سعد بن مُعاذؓ کی والدہ کی یہی مثال دے رہے ہیں کہ شہداء کو دفن کر کے جب مدینہ واپس گئے۔ ’’تو پھر عورتیں اور بچے شہر سے باہر استقبال کے لیے نکل آئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کی باگ سعد بن مُعاذؓ مدینہ کے رئیس نے پکڑی ہوئی تھی اور فخر سے آگے آگے دوڑے جاتے تھے۔ شاید دنیا کو یہ کہہ رہے تھے کہ دیکھا ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خیریت سے اپنے گھر واپس لے آئے۔ شہر کے پاس انہیں اپنی بڑھیا ماں جس کی نظر کمزور ہو چکی تھی آتی ہوئی ملی۔ احد میں اس کا ایک بیٹا عَمرو بن مُعاذؓ بھی مارا گیا تھا۔ اسے دیکھ کر سعد بن مُعاذؓ نے کہا یا رسول اللہؐ ! اُمّی۔ اے اللہ کے رسولؐ ! میری ماں آ رہی ہے۔ آپؐ نے فرمایا خدا تعالیٰ کی برکتوں کے ساتھ آئے۔ بڑھیا آگے بڑھی اور اپنی کمزور پھٹی آنکھوں سے اِدھر اُدھر دیکھا کہ کہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل نظر آ جائے۔ آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ پہچان لیا اور خوش ہو گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مائی! مجھے تمہارے بیٹے کی شہادت پر تم سے ہمدردی ہے۔ اس پر نیک عورت نے کہا حضورؐ ! جب میں نے آپ کو سلامت دیکھ لیا تو سمجھو کہ میں نے مصیبت کو بھون کر کھا لیا۔ ’’مصیبت کو بھون کر کھا لیا‘‘ کیا عجیب محاورہ ہے۔ محبت کے کتنے گہرے جذبات پر دلالت کرتا ہے۔ غم انسان کو کھا جاتا ہے۔ وہ عورت جس کے بڑھاپے میں اس کا عصائے پیری ٹوٹ گیا کس بہادری سے کہتی ہے کہ میرے بیٹے کے غم نے مجھے کیا کھانا ہے جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں تو میں اس غم کو کھا جاؤں گی۔ میرے بیٹے کی موت مجھے مارنے کا موجب نہیں ہو گی بلکہ یہ خیال کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اس نے جان دی۔‘‘ یہ خیال تو ’’میری قوت کے بڑھانے کا موجب ہو گا۔‘‘ میری طاقت کو بڑھانے کا موجب ہو گا۔ حضرت مصلح موعود انصار کی تعریف کرتے ہوئے اور ان کو دعا دیتے ہوئے فرماتے ہیں۔ ’’اے انصار! میری جان تم پر فدا ہو۔ تم کتنا ثواب لے گئے۔‘‘ (دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد 20 صفحہ 256-257)
کعب بن اشرف کو اس کی ریشہ دوانیوں، اسلام کے خلاف بغض اور دشمنی پھیلانے حتیٰ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی سازش کرنے پر جو قتل کی سزا کا فیصلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا اس میں بھی بحیثیت سردار قبیلہ انصار کے، سردار قبیلہ کے طور پر حضرت سعد بن مُعاذؓ کے مشورے کو بھی شامل کیا گیا تھا۔ اس کی تفصیل یعنی اس سزا کے عمل درآمد ہونے اور کعب بن اشرف کے قتل کی یہ تفصیل جو ہے وہ میں کچھ عرصہ پہلے دو صحابہ کے ذکر میں بیان کر چکا ہوں (خطبہ جمعہ 7؍ دسمبر 2018ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 28؍ دسمبر 2018ء اور خطبہ جمعہ 7؍ فروری 2020ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 28؍ فروری 2020ء) تاہم اس کا کچھ حصہ یہاں بھی بیان کرتا ہوں جس کا تعلق حضرت سعد بن مُعاذؓ سے ہے۔ اور یہ جو مَیں بیان کروں گا اس میں بھی کچھ اخذ کیا ہے اور کچھ اقتباس میں نے سیرت خاتم النبیینؐ سے ہی لیا ہے۔
جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں ہجرت کر کے تشریف لائے توکعب بن اشرف نے دوسرے یہودیوں کے ساتھ مل کر اس معاہدہ میں شرکت کی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور یہود کے درمیان باہمی دوستی اور امن وامان اور مشترکہ دفاع کے متعلق تحریر کیا گیا تھا مگراندر ہی اندر کعب کے دل میں بغض وعداوت کی آگ سلگنے لگ گئی اور اس نے خفیہ چالوں اور مخفی ساز باز سے اسلام اور بانی اسلام کی مخالفت شروع کر دی۔ چنانچہ لکھا ہے کہ کعب ہرسال یہودی علماء ومشائخ کو بہت سی خیرات دیا کرتا تھا۔ اس نے ایک دن ان مشائخ سے ان کی مذہبی کتابوں کی رو سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق سوا ل کیا کہ تمہارا کیا خیال ہے یہ سچا ہے کہ نہیں؟ انہوں نے کہا کہ بظاہر تو یہ وہی نبی معلوم ہوتا ہے جس کا ہمیں وعدہ دیا گیا تھا، ہماری تعلیم میں ذکر ہے۔ کعب تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اور اسلام کا بڑا سخت مخالف تھا۔ اس جواب پر وہ بہت بگڑ گیا اور ان کو سخت سست کہہ کر، برا بھلا کہہ کر وہاں سے رخصت کردیا اور جو خیرات انہیں دیا کرتا تھا وہ بھی نہ دی۔ جب خیرات بند ہو گئی، جو ان کا وظیفہ جاری تھا وہ بند ہو گیا توکچھ عرصہ بعد انہوں نے کعب کے پاس جا کر کہا کہ ہم نے دوبارہ غور کیاہے۔ پیسے کو تو مولوی آج بھی نہیں چھوڑتا یہی حال اُن کا تھا۔ انہوں نے کہا جی ہم نے دوبارہ غور کیا ہے دراصل محمد صلی اللہ علیہ وسلم وہ نبی نہیں ہیں جس کا وعدہ دیا گیا تھا۔ اس پر اس نے خوش ہوکر ان کا وظیفہ دوبارہ جاری کر دیا۔ وہ جو خیرات دیتا تھا دے دی۔
بہرحال یہ تو معمولی بات تھی کہ یہودی علماء کو اپنے ساتھ ملا لیا لیکن خطرناک بات جو تھی وہ یہ تھی کہ جنگ بدر کے بعد اس نے ایسا رویہ اختیار کیا جو سخت مفسدانہ اور فتنہ انگیز تھا اور جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کے لیے نہایت خطرناک حالات پیدا ہو گئے تھے۔ جب بدر کے موقع پر مسلمانوں کوایک غیر معمولی فتح نصیب ہوئی اور رؤسائے قریش اکثر مارے گئے توکعب نے سمجھ لیا کہ اب یہ نیا دین یونہی مٹتا نظر نہیں آتا۔ پہلے تو ہمارا خیال تھاآپ ہی ختم ہو جائے گا۔ نہیں اب نہیں۔ لگتا ہے کہ یہ پھیلے گا۔ چنانچہ بدر کے بعد اس نےہر طرح اپنی پوری کوشش کی کہ اسلام کے مٹانے اور تباہ کرنے میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہ کیا جائے، کوئی دقیقہ نہ چھوڑا جائے اور یہ تہیہ کر لیا کہ میں نے اسلام کو تباہ و برباد کرنا ہی کرنا ہے۔ اور جیسا کہ میں نے کہا کہ بدر میں مسلمانوں کی فتح کے بعد تو وہ غیظ و غضب سے بہت زیادہ بھر گیا تھا۔ اس نے اس غصہ کی وجہ سے جب فیصلہ کیا کہ میں نے اسلام کو تباہ کرنا ہی کرنا ہے تو اس نے فوراً سفر کی تیاری کر کے مکہ کی راہ لی۔ وہاں جا کر اپنی چرب زبانی اور شعر گوئی کے زور سے قریش کے دلوں کی سلگتی ہوئی آگ کو شعلہ بارکر دیا اور بھڑکا دیا۔ ان کے دل میں مسلمانوں کے خون کی نہ بجھنے والی پیاس پیدا کردی۔ تم شکست کھا گئے۔ تمہارے لیڈروں کو انہوں نے مار دیا۔ تم اب بیٹھے ہو۔ جاؤ اور بدلہ لو۔ وہ بھڑک اٹھے۔ اپنی تقریروں سے اور شعروں سے ان کے سینے جذباتِ انتقام اور عداوت سے بھردیے۔ جب کعب کی اشتعال انگیزی سے ان کے احساسات میں ایک انتہائی درجہ کی بجلی پیدا ہو گئی تواس نے ان کو خانہ کعبہ کے صحن میں لے جاکر اور کعبہ کے پردے ان کے ہاتھوں میں دے دے کر ان سے قسمیں لیں کہ جب تک اسلام اور بانیٔ اسلام کو صفحہ دنیا سے ملیا میٹ نہ کردیں گے اس وقت تک چین نہیں لیں گے۔ مکہ میں یہ آتش فشاں فضاپیدا کرنے کے بعد اس نے یہیں بس نہیں کی بلکہ اس بدبخت نے دوسرے قبائلِ عرب کا رخ کیا اور پھر قوم بقوم ہر قبیلے میں پھر پھرکر مسلمانوں کے خلاف لوگوں کو بھڑکایا۔ پھر مدینہ میں واپس آکر وہاں اپنی اسلام مخالف سرگرمیاں تیز کیں اور غیر مسلموں میں اپنے جوش دلانے والے اشعار میں اور خاص طور پر یہودیوں میں بھی گندے اور فحش طریق پر مسلمان خواتین کاذکر کیا اور صرف یہاں تک نہیں کہ مخالفت کی آگ بھڑکائی بلکہ آخر میں اس نے یہ بھی کوشش کی بلکہ سازش کی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کیا جائے اور آپؐ کوکسی دعوت کے بہانے سے اپنے مکان پر اس نے بلایا اور چندنوجوان یہودیوں سے آپؐ کے قتل کروانے کا منصوبہ باندھا۔ خدا کے فضل سے وقت پر اطلاع ہو گئی۔ آپؐ کو خدا تعالیٰ نے اطلاع دے دی اور اس کی سازش کامیاب نہیں ہوئی۔ جب نوبت یہاں تک پہنچ گئی اور کعب کے خلاف جو معاہدہ کیا ہوا تھا اس کی عہد شکنی اور جو حکومت قائم تھی اس کے خلاف بغاوت، تحریک جنگ، فتنہ پردازی، فحش گوئی اور سازش ِقتل کے الزامات پایہ ثبوت کوپہنچ گئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اس بین الاقوام معاہدہ کی رو سے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ میں تشریف لانے کے بعد اہالیانِ مدینہ میں ہوا تھا، مدینہ کی جمہوری سلطنت کے آپؐ صدراورحاکم اعلیٰ تھے، آپؐ نے یہ فیصلہ فرمایا دیا کہ کعب بن اشرف اپنی کارروائیوں کی وجہ سے واجب القتل ہے اور اپنے بعض صحابہ کوارشاد فرمایا کہ اسے قتل کردیا جاوے۔ بعض حالات اور حکمت کے تقاضے کے تحت آپ نے یہ ہدایت فرمائی کہ کعب کو برملا طور پر قتل نہ کیا جائے بلکہ چند لوگ خاموشی کے ساتھ کوئی مناسب موقع نکال کر اسے قتل کر دیں اور یہ ڈیوٹی آپؐ نے قبیلہ اوس کے ایک مخلص صحابی محمد بن مَسْلمہؓ کے سپرد فرمائی اور انہیں تاکید فرمائی کہ جو طریق بھی اختیار کرو قبیلہ اوس کے رئیس جو سعد بن مُعاذؓ ہیں ان سے ضرور مشورہ کریں۔ چنانچہ محمد بن مسلمہؓ نے سعد بن مُعاذؓ کے مشورہ سے ابونائلہ اور دو تین اور صحابیوں کواپنے ساتھ لیا اور کعب کے قتل کی سزاکو عملی جامہ پہنایا۔ اس کی جو بھی حکمت تھی یا قتل کا طریق اختیار کیا گیا تھا اس کی تفصیل جیسا کہ میں نے کہا ہے میں گذشتہ بعض صحابہ کے ذکر میں بیان کر چکا ہوں۔ (خطبہ جمعہ 7؍ دسمبر 2018ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 28؍ دسمبر 2018ء اور خطبہ جمعہ 7؍ فروری 2020ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 28؍ فروری 2020ء)
بہرحال جو حکمت اختیار کی گئی تھی اس کے تحت اس کو رات کے وقت گھر سے نکال کر قتل کیا گیا تھا۔ اس کے قتل کی خبر جو مشہور ہوئی تو صبح کے وقت شہر میں ایک سنسنی پھیل گئی اور یہودی لوگ سخت جوش میں آگئے۔ اور دوسرے دن صبح کے وقت یہودیوں کا ایک وفد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور شکایت کی کہ ہمارا سردار کعب بن اشرف اس طرح قتل کر دیا گیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی باتیں سن کر فرمایا کیا تمہیں یہ معلوم نہیں کہ کعب کس کس جرم کا مرتکب ہوا ہے؟ قتل ہوا ہے ہاں ٹھیک ہے لیکن اس کے جرم تھے جس کی سزا اس کو ملی ہے۔ پھر آپؐ نے اجمالاً ان کو کعب کی عہد شکنی اور تحریک جنگ اور فتنہ انگیزی اور فحش گوئی اور سازش قتل وغیرہ کی کارروائیاں یاد کروائیں جس پر یہ لوگ ڈر کر خاموش ہوگئے۔ انہیں، سب کو پتہ تھاکہ یہ سب کچھ یہ کرتا رہا ہے۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ تمہیں چاہیے کم از کم آئندہ کے لیے امن اور تعاون کے ساتھ رہو اور عداوت اور فتنہ وفساد کابیج نہ بوؤ۔ چنانچہ یہود کی رضامندی کے ساتھ آئندہ کے لیے ایک نیا معاہدہ لکھا گیا اور یہودنے مسلمانوں کے ساتھ امن وامان کے ساتھ رہنے اور فتنہ وفساد کے طریقوں سے بچنے کا ازسرنو وعدہ کیا۔ اور یہ نیا معاہدہ لکھا گیا۔ تاریخ میں کسی جگہ بھی مذکور نہیں ہے کہ اس کے بعد یہودیوں نے کبھی کعب بن اشرف کے قتل کا ذکر کر کے مسلمانوں پر الزام قائم کیا ہو کیونکہ ان کے دل محسوس کرتے تھے کہ کعب اپنی مستحق سزا کو پہنچا ہے۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ صفحہ 467تا471)
یہ سزا تھی جو اسے دی گئی اور نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا انکار کیا کہ ہم نے نہیں کیا، ہمیں پتہ نہیں، بلکہ سارا کچھ گنوایا اور ظاہر تھا یہ آپؐ کا فیصلہ تھا۔ آپؐ سربراہ حکومت تھے اور اس میں دو سردار جو مدینے کے رئیس تھے ان کی رائے بھی شامل تھی جو مسلمان تھے سعد بن مُعاذؓ وغیرہ۔
یہودی قبیلہ بنو نضیر نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک پتھر گرا کر دھوکے سے ہلاک کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے ہمراہ اس قبیلہ کی طرف گئے ہوئے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوراً واپس مدینہ تشریف لے آئے۔ بعد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قبیلے کے محاصرے کا حکم دیا۔ ربیع الاول چار ہجری میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خود حفاظتی کے خیال سے مجبور ہو کر بنو نضیر کے خلاف فوج کشی کرنی پڑی جس کے نتیجہ میں بالآخر یہ قبیلہ مدینہ سے جلا وطن ہو گیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غزوہ بنو نضیر کا اموال غنیمت ملا تو آپؐ نے حضرت ثابت بن قیسؓ کو بلا کر فرمایا کہ میرے لیے اپنی قوم کو بلاؤ۔ حضرت ثابتؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا خزرج کو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمام انصار کو بلا لو کسی بھی قبیلے کے ہوں۔ چنانچہ انہوں نے اوس اور خزرج کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بلایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے خطاب کیا۔ آپؐ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی جس کا وہ اہل ہے۔ پھر انصار کے مہاجرین پر کیے جانے والے احسانوں یعنی انصار کے مہاجرین کو اپنے گھر میں ٹھہرانے اور انصارکے مہاجرین کو اپنی جانوں پر ترجیح دینے کا ذکر فرمایا کہ کس طرح انصار نے مہاجرین پر احسان کیا ہے۔ پھر آپؐ نے فرمایا اگر تم پسند کرو تو میں بنو نضیر سے حاصل ہونے والا مال فَے تم میں اور مہاجرین میں تقسیم کر دوں۔ مہاجرین حسب سابق تمہارے گھروں میں اور اموال میں رہیں گے۔ غنیمت کا جو مال ملا ہے آدھا آدھا تقسیم کرلو لیکن اس کا یہ ہے کہ جس طرح وہ پہلے تمہارے گھروں میں رہ رہے ہیں اور جو تم ان سے احسان کا سلوک کر رہے ہو وہ کرتے رہو۔ مال یہ آدھا آدھا لے لو۔ لیکن دوسری صورت کیا ہے کہ اگر تم پسند کرو تو یہ اموال مَیں مہاجرین میں تقسیم کر دیتا ہوں۔ انصار کو کچھ نہیں دیتا۔ سارا مال جو ملا ہے وہ مہاجرین میں تقسیم کر دیتا ہوں پھر وہ تمہارے گھروں سے نکل جائیں گے۔ پھر تمہارے گھروں میں نہیں رہیں گے۔ اپنا اپنا انتظام کریں کیونکہ اب ان کو مال مل گیا ہے۔ اس پر حضرت سعد بن عُبادہؓ اور حضرت سعد بن مُعاذؓ نے آپس میں بات کی۔ دونوں نے مشورہ کیا اور دونوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپؐ یہ اموال مہاجرین میں تقسیم فرما دیں۔ مہاجرین میں مال تقسیم کر دیں لیکن ساتھ یہ بھی کہا کہ وہ حسب سابق ہمارے گھروں میں رہیں گے۔ ہم یہ نہیں چاہتے کہ مال لینے کے بعد وہ ہمارے گھروں سے نکل جائیں۔ جوجس طرح ہمارے گھروں میں رہ رہے ہیں اور جس طرح مؤاخات کا وہ سلسلہ قائم ہے اب بھی وہی قائم رہے گا۔ اور انصار نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم راضی ہیں اور ہمارا سر تسلیم خم ہے۔ اگر سارا مال آپؐ مہاجرین میں تقسیم کر دیں تو اس بات پر کوئی ہمیں شکوہ نہیں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ ! انصار پر رحم فرما اور انصار کے بیٹوں پر رحم فرما۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مالِ فَے مہاجرین میں تقسیم فرما دیا اور انصار میں سے کسی کو بھی اس میں سے کچھ نہیں دیا سوائے دو ضرورت مند آدمیوں کے۔ وہ دونوں سَہْل بن حُنَیف اور اَبُودُجَانہ تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن مُعاذؓ کو ابن ابی حقیق یہودی کی تلوار عطا کی اور اس تلوار کی یہودیوں میں بڑی شہرت تھی۔ پھر حضرت مُعاذؓ کو ایک تلوار دی۔ (اٹلس سیرت نبویﷺ صفحہ 264-265) (سبل الہدیٰ والرشاد جلد 4 صفحہ 325 ذکر خروج بنی النضیر من أرضہم، دار الکتب العلمیۃ بیروت 1993ء)
جب افک کا واقعہ ہوا اور حضرت عائشہؓ پر الزام لگایا گیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور آپ کے خاندان کو بڑی تکلیف سے گزرنا پڑا اور اسی دوران میں کچھ عرصہ کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کے سامنے ایک موقع پر منافقین کے اس غلط رویے کا ذکر کیا تو اس وقت بھی حضرت سعد بن مُعاذؓ نے بے لوث فدائیت کا اظہار فرمایا تھا۔ یہ واقعہ بڑی تفصیل سے حضرت مصلح موعودؓ نے بیان فرمایا ہوا ہے جو ایک صحابی حضرت مِسْطَحْ کے ذکر میں پہلے مَیں تفصیل سے بیان کر چکا ہوں۔ تاہم حضرت سعدؓ سے متعلقہ حصہ یہاں میں پیش کر دیتا ہوں۔ جیسا کہ میں نے کہا ایک روز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دوران میں گھر سے باہر تشریف لا کر صحابہ کو جمع کیا اور فرمایا کوئی ہے جو مجھے اس شخص سے بچائے جس نے مجھے دکھ دیا ہے۔ اس سے آپؐ کی مراد عبداللہ بن اُبَیبن سلول سے تھی۔ حضرت سعد بن مُعاذؓ جو اوس قبیلے کے سردار تھے کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا یا رسول اللہؐ ! اگر وہ شخص ہم میں سے ہے تو ہم اس کو مارنے کے لیے تیار ہیں اور اگر وہ خزرج میں سے ہے تب بھی اس کو مارنے کے لیے تیار ہیں۔ (ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 06 صفحہ 268-270)
غزوۂ خندق کے دوران ابوسفیان نے بنو نَضیر کے رئیس حُیَیْ کو بنو قُریظہ کے رئیس کعب بن اسد کے پاس بھیجا کہ مسلمانوں سے کیے گئے معاہدے کو ختم کر دو۔ جب وہ نہ مانا تو سبز باغ دکھا کر اور مسلمانوں کی تباہی کا یقین دلا کر مسلمانوں سے کیے گئے معاہدے پر عمل نہ کرنے پر راضی کر لیا بلکہ اس بات پر بھی راضی کر لیا کہ وہ کفارِ مکہ کے مددگار بن جائیں گے۔
اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے سیرت خاتم النبیینؐ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے لکھا ہے کہ
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بنو قریظہ کی اس خطرناک غداری کا علم ہوا تو آپؐ نے پہلے تو دوتین دفعہ خفیہ خفیہ زبیربن العوام کو دریافت حالات کے لیے بھیجا اور پھر باضابطہ طور پر قبیلہ اوس وخزرج کے رئیس سعد بن مُعاذؓ اور سعد بن عُبادہؓ اور بعض دوسرے بااثر صحابہ کو ایک وفد کے طور پر بنو قریظہ کی طرف روانہ فرمایا اور ان کو یہ تاکید فرمائی کہ اگر کوئی تشویشناک خبر ہو تو واپس آ کر اس کا برملا اظہار نہ کریں بلکہ اشارہ کنایہ سے کام لیں تاکہ لوگوں میں تشویش نہ پیدا ہو۔ جب یہ لوگ بنو قریظہ کے مساکن میں پہنچے اور ان کے رئیس کعب بن اسد کے پاس گئے تو وہ بدبخت ان کو نہایت مغرورانہ انداز سے ملا اور سَعْدَیْن کی طرف‘‘ یعنی سعد بن مُعاذؓ اور سعد بن عُبادہؓ کی طرف ’’سے معاہدہ کاذکر ہونے پر وہ اور اس کے قبیلہ کے لوگ بگڑ کر بولے کہ جاؤ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور ہمارے درمیان کوئی معاہدہ نہیں ہے۔‘‘ ہم نے کوئی معاہدہ نہیں کیا۔ ’’یہ الفاظ سن کر صحابہ کا یہ وفد وہاں سے اٹھ کر چلاآیا اور سعد بن مُعاذؓ اور سعد بن عُبادہؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر مناسب طریق پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حالات سے اطلاع دی۔‘‘ (سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ صفحہ584-585)
بہرحال اس وقت تو ان کی یہ حرکت مسلمانوں کے لیے بڑا دھچکا تھی۔ چاروں طرف سےمکے کے کفار نے مدینےکو گھیرا ہوا تھا۔ کفار ِمکہ سے جنگ کی حالت کی وجہ سے اس قبیلے کے خلاف کوئی کارروائی بھی نہیں ہو سکتی تھی لیکن جنگ کے اختتام پر جب شہر میں واپس آئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کشفی رنگ میں بنو قریظہ کی غداری اور بغاوت کی سزا دینے کا بتایا۔ یہ حکم ہوا کہ ان کو سزا ملنی چاہیے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عام اعلان فرمایا کہ بنو قریظہ کے قلعوں کی طرف روانہ ہو جائیں اور نمازِ عصر وہیں پہنچ کر ادا ہو اور آپؐ نے حضرت علیؓ کو صحابہؓ کے ایک دستے کے ساتھ فوراً آگے روانہ کر دیا۔ اس جنگ کی تفصیل کچھ لمبی ہے جس میں حضرت سعد بن مُعاذؓ کا بھی آخر پرفیصلہ کرنے میں کردار ہے۔ اب وقت نہیں۔ اس لیے آئندہ ان شاء اللہ یہ تفصیل بیان کروں گا۔
(الفضل انٹر نیشنل 24؍جولائی 2020ء صفحہ 5تا8)
یا رسول اللہؐ ! ہم آپ کے آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے، آپؐ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور دشمن آپؐ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گزرے۔
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت بدری صحابی، اسلام اور بانی اسلامؐ کے ایک نہایت جاں نثار عاشِق، نہایت درجہ مخلص، باصفا، بے لَوث فدائی، بلندپایہ، وفادار اور قبیلہ اوس کے رئیس اعظم حضرت سَعد بن مُعاذ رضی اللہ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’اے اللہ ! انصار پر رحم فرما اور انصار کے بیٹوں پر رحم فرما‘
فرمودہ 03؍جولائی2020ء بمطابق 03؍ وفا 1399 ہجری شمسی، بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔