بدری اصحاب نبویؐ کی سِیرِ مبارکہ
خطبہ جمعہ 10؍ جولائی 2020ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
جیسا کہ گذشتہ خطبے میں ذکر کیا تھا کہ جنگِ احزاب کے بعد بنو قریظہ کی غداری کی سزا کا خدائی حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوا۔ چنانچہ ان سےجنگ ہوئی اور پھر بنو قریظہ نے جنگ بندی کر کے حضرت سعدؓ سے فیصلہ کروانے پر رضا مندی کا اظہار کیا۔ چنانچہ حضرت سعدؓ نے فیصلہ کیا۔ اس غزوہ کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک جگہ اس طرح بیان فرمایا ہے کہ
’’بیس دنوں کے بعد مسلمانوں نے اطمینان کا سانس لیا‘‘ یعنی جنگِ احزاب کے بعد ’’مگر اب بنو قریظہ کا معاملہ طے ہونے والا تھا۔ ان کی غداری ایسی نہیں تھی کہ نظر انداز کی جاتی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے واپس آتے ہی اپنے صحابہؓ سے فرمایاکہ گھروں میں آرام نہ کرو بلکہ شام سے پہلے پہلے بنو قریظہ کے قلعوں تک پہنچ جاؤ۔ اور پھر آپؐ نے حضرت علیؓ کو بنو قریظہ کے پاس بھجوایا کہ وہ ان سے پوچھیں کہ انہوں نے معاہدہ کے خلاف یہ غداری کیوں کی؟ بجائے اس کے کہ بنو قریظہ شرمندہ ہوتے یا معافی مانگتے یا کوئی معذرت کرتے، انہوں نے حضرت علیؓ اور ان کے ساتھیوں کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے خاندان کی مستورات کو گالیاں دینے لگے اور کہا ہم نہیں جانتے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کیا چیز ہیں۔ ہمارا ان کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں۔ حضرت علیؓ ان کا یہ جواب لے کر واپس لَوٹے تو اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہؓ کے ساتھ یہود کے قلعوں کی طرف جا رہے تھے۔ چونکہ یہود گندی گالیاں دے رہے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں اور بیٹیوں کے متعلق بھی ناپاک کلمات بول رہے تھےحضرت علیؓ نے اس خیال سے کہ آپ کو ان کلمات کے سننے سے تکلیف ہو گی، عرض کیا یا رسول اللہؐ ! آپؐ کیوں تکلیف کرتے ہیں۔ ہم لوگ اس لڑائی کے لیے کافی ہیں۔ آپؐ واپس تشریف لے جائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں سمجھتا ہوں کہ وہ گالیاں دے رہے ہیں اور تم یہ نہیں چاہتے کہ میرے کان میں وہ گالیاں پڑیں۔ حضرت علیؓ نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہ! بات تو یہی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر کیا ہوا اگر وہ گالیاں دیتے ہیں۔ موسیٰ نبی تو ان کا اپنا تھا اُس کو اِس سے بھی زیادہ انہوں نے تکلیفیں پہنچائی تھیں۔ یہ کہتے ہوئے آپؐ یہود کے قلعوں کی طرف چلے گئے مگر یہود دروازے بند کر کے قلعہ بند ہو گئے اور مسلمانوں کے ساتھ لڑائی شروع کر دی حتیٰ کہ ان کی عورتیں بھی لڑائی میں شریک ہوئیں۔ چنانچہ قلعہ کی دیوار کے نیچے کچھ مسلمان بیٹھے تھے کہ ایک یہودی عورت نے اوپر سے پتھر پھینک کر ایک مسلمان کومار دیا۔ لیکن کچھ دن کے محاصرہ کے بعد یہودنے یہ محسوس کر لیا کہ وہ لمبا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ تب ان کے سرداروں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خواہش کی کہ وہ ابولُبابہ انصاری کو، جو اُن کے دوست اور اوس قبیلہ کے سردار تھے، ان کے پاس بھجوائیں تا کہ وہ ان سے مشورہ کر سکیں۔ آپؐ نے ابولُبابہ کو بھجوا دیا۔ ان سے یہودنے یہ مشورہ پوچھا کہ کیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مطالبہ کو کہ فیصلہ میرے سپرد کرتے ہوئے تم ہتھیار پھینک دو ہم یہ مان لیں؟‘‘ یہودنے پوچھا۔ ’’ابولُبابہ نے منہ سے تو کہا‘ہاں ’! لیکن اپنے گلے پر اس طرح ہاتھ پھیرا جس طرح قتل کی علامت ہوتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت تک اپنا کوئی فیصلہ ظاہر نہیں کیا تھا مگر ابولُبابہ نے اپنے دل میں یہ سمجھتے ہوئے کہ ان کے اس جرم کی سزا‘‘ جو یہودیوں نے جرم کیا ہے اس کی سزا ’’سوائے قتل کے اَور کیا ہو گی، بغیر سوچے سمجھے اشارہ کے ساتھ ان سے ایک بات کہہ دی جو آخر ان کی تباہی کا موجب ہوئی‘‘ یعنی بنو قریظہ قبیلے کی۔ ’’چنانچہ یہودنے کہہ دیا کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ‘‘ ماننے کو تیار نہیں۔ اگر وہ آپ کا فیصلہ ’’مان لیتے تو دوسرے یہودی قبائل کی طرح ان کو زیادہ سے زیادہ یہی سزا دی جاتی کہ ان کو مدینہ سے جلا وطن کر دیا جاتا مگر ان کی بدقسمتی تھی۔ انہوں نے کہا ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ ماننے کے لیے تیار نہیں بلکہ ہم اپنے حلیف قبیلہ اوس کے سردار سعد بن معاذؓ کا فیصلہ مانیں گے۔ جو فیصلہ وہ کریں گے ہمیں منظور ہو گا لیکن اس وقت یہود میں اختلاف ہو گیا۔‘‘ آپس میں اختلاف ہوگیا۔ ’’یہود میں سے بعض نے کہا کہ ہماری قوم نے غداری کی ہے‘‘ واضح ہے ’’کہ ہم نے غداری کی ہے اور مسلمانوں کے رویہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کا مذہب سچا ہے وہ لوگ اپنا مذہب ترک کر کے اسلام میں داخل ہو گئے۔‘‘ یہ جنہوں نے اختلاف کیا تھا۔ ’’ایک شخص عمرو بن سُعدٰی نے جو اس قوم کے سرداروں میں سے تھا اپنی قوم کو ملامت کی اور کہا کہ تم نے غداری کی ہے کہ معاہدہ توڑا ہے اب یا مسلمان ہو جاؤ یا جزیہ پر راضی ہو جاؤ۔ یہودنے کہا نہ مسلمان ہوں گے نہ جزیہ دیں گے کہ اس سے قتل ہونا اچھا ہے۔ پھر ان سے اس نے کہا میں تم سے بری ہوں۔‘‘ جب ان کو سمجھایا اور نہیں سمجھے تو اس نے کہا پھر مَیں تم سے بری ہوں میں تمہارے ساتھ نہیں ’’اور یہ کہہ کر قلعہ سے نکل کر باہر چل دیا۔ جب وہ قلعہ سے باہر نکل رہا تھا تو مسلمانوں کے ایک دستہ نے جس کے سردار محمد بن مسلمہؓ تھے اسے دیکھ لیا اور اس سے پوچھا کہ وہ کون ہے؟ اس نے بتایا کہ میں فلاں ہوں۔ اس پر محمد بن مسلمہؓ نے فرمایا۔ اَللّٰھُمَّ لَا تَحْرِمْنِیْ اِقَالَۃَ عَثَرَاتِ الْکِرَامِ۔ یعنی آپ سلامتی سے چلے جائیے اور پھر اللہ تعالیٰ سے دعا کی‘‘ حضرت محمد بن مسلمہ نے یہ دعا کی کہ ’’الٰہی مجھے شریفوں کی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کے نیک عمل سے کبھی محروم نہ کیجیو۔ یعنی یہ شخص چونکہ اپنے فعل پر اور اپنی قوم کے فعل پر پچھتاتا ہے تو ہمارا بھی اخلاقی فرض ہے کہ اسے معاف کر دیں۔ اس لیے میں نے اسے گرفتار نہیں کیا اور جانے دیا ہے۔ خدا تعالیٰ مجھے ہمیشہ ایسے ہی نیک کاموں کی توفیق بخشتا رہے۔‘‘ کوئی ظلم کا ارادہ نہیں تھا۔ ’’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کا علم ہوا تو آپ نے محمد بن مسلمہؓ کوسرزنش نہیں کی‘‘ پوچھانہیں کہ کیوں تم نے نہیں اس کو پکڑا ’’کہ کیوں اس یہودی کو چھوڑ دیابلکہ اس کے فعل کو سراہا۔‘‘ آپ نے اس کی اس بات کی تعریف کی کہ تم نے بڑا اچھا کیا۔
’’یہ …… واقعات انفرادی تھے۔ بنو قریظہ بحیثیت قوم اپنی ضد پر قائم رہے۔‘‘ گو اِکّا دُکّا واقعات ایسے تھے، چند شخص ایسے تھے جو اس سے، بنو قریظہ کے فیصلوں سے اختلاف کرتے تھے اور چاہتے تھے کہ مسلمانوں سے معاہدہ کیا جائے، ان کی بات مانی جائے لیکن یہ انفرادی واقعات تھے۔ بحیثیت قوم وہ اس بات پر ضد کر رہے تھے اور اس بات پر قائم رہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حَکمنہ مانیں۔ ’’اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حَکم ماننے سے انکار کرتے ہوئے سعدؓ کے فیصلہ پر اصرار کیا۔‘‘ انہوں نے یہ پسندنہیں کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کو مانیں اور ان کوفیصلہ کرنے کے لیے حکم کے طور پر مقرر کر دیں بلکہ انہوں نے کہا کہ سعد ہمارا فیصلہ کرے گا۔ ’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان کے اس مطالبہ کو مان لیا۔ سعدؓ کو جو جنگ میں زخمی ہو چکے تھے اطلاع دی کہ تمہارا فیصلہ بنو قریظہ تسلیم کرتے ہیں‘‘ اس لیے ’’آ کر فیصلہ کرو۔ اس تجویز کا اعلان ہوتے ہی اوس قبیلہ کے لوگ جو بنو قریظہ کے دیر سے حلیف چلے آئے تھے وہ سعدؓ کے پاس دوڑ کر گئے اور انہوں نے اصرار کرنا شروع کیا کہ چونکہ خزرج نے اپنے حلیف یہودیوں کو ہمیشہ سزا سے بچایا ہے‘‘ اس لیے ’’آج تم بھی اپنے حلیف قبیلہ کے حق میں فیصلہ دینا۔ سعدؓ زخموں کی وجہ سے سواری پر سوار ہو کر بنو قریظہ کی طرف روانہ ہوئے اور ان کی قوم کے افراد ان کے دائیں بائیں دوڑتے جاتے تھے اور سعدؓ سے اصرار کرتے جاتے تھے کہ دیکھنا بنو قریظہ کے خلاف فیصلہ نہ دینا۔ مگر سعدؓ نے صرف یہی جواب دیا کہ جس کے سپرد فیصلہ کیا جاتا ہے وہ امانت دار ہوتا ہے۔ اسے دیانت سے فیصلہ کرنا چاہئے۔ میں دیانت سے فیصلہ کروں گا۔
جب سعدؓ یہود کے قلعہ کے پاس پہنچے جہاں ایک طرف بنو قریظہ قلعہ کی دیوار سے کھڑے سعدؓ کا انتظار کر رہے تھے اور دوسری طرف مسلمان بیٹھے تھے تو سعدؓ نے پہلے اپنی قوم سے پوچھا کیا آپ لوگ وعدہ کرتے ہیں کہ جو میں فیصلہ کروں گا وہ آپ لوگ قبول کریں گے؟ انہوں نے کہا ہاں۔ پھر سعدؓ نے بنوقریظہ کو مخاطب کر کے کہا کیا آپ لوگ وعدہ کرتے ہیں کہ جو فیصلہ میں کروں وہ آپ لوگ قبول کریں گے؟ انہوں نے کہا ہاں۔ پھر شرم سے دوسری طرف دیکھتے ہوئے نیچی نگاہوں سے اس طرف اشارہ کیا جدھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف رکھتے تھے اور کہا ادھر بیٹھے ہوئے لوگ بھی یہ وعدہ کرتے ہیں؟‘‘ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس لیے نظر اٹھا کر نہیں دیکھ سکتے تھے کہ شرم تھی، حیا تھی لیکن فیصلے کے لیے حَکممقرر کیے گئے تھے تو پوچھنا بھی ضروری تھا۔ اس لیے نظریں بڑی نیچی کر کے آپؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھی منہ کر کے پوچھا کہ آپ بھی وعدہ کرتے ہیں ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں۔ اس کے بعد سعدؓ نے‘‘ جب تینوں فریقوں سے وعدہ لے لیا تو سعدنے ’’بائبل کے حکم کے مطابق فیصلہ سنایا۔ بائبل میں لکھا ہے:‘اور جب تو کسی شہر کے پاس اس سے لڑنے کے لیے آ پہنچے تو پہلے اس سے صلح کا پیغام کر۔ تب یوں ہو گا کہ اگر وہ تجھے جواب دے کہ صلح منظور اور دروازہ تیرے لیے کھول دے تو ساری خَلق جو اس شہر میں پائی جائے تیری خراج گزار ہو گی اور تیری خدمت کرے گی اور اگر وہ تجھ سے صلح نہ کرے بلکہ تجھ سے جنگ کرے تو تُو اس کا محاصرہ کر اور جب خداوند تیرا خدا اسے تیرے قبضہ میں کر دے تو وہاں کے ہر ایک مرد کو تلوار کی دھار سے قتل کر۔ مگر عورتوں اور لڑکوں اور مواشی کو اور جو کچھ اس شہر میں ہو اس کا سارا لوٹ اپنے لیے لے اور تُو اپنے دشمنوں کی اس لوٹ کو جو خداوند تیرے خدا نے تجھے دی ہے کھائیو۔ اسی طرح سے تُو ان سب شہروں سے جو تجھ سے بہت دور ہیں اور ان قوموں کے شہروں میں سے نہیں ہیں، یہی حال کیجیو۔ لیکن ان قوموں کے شہروں میں جنہیں خداوند تیرا خدا تیری میراث کر دیتا ہے کسی چیز کو جو سانس لیتی ہے جیتا نہ چھوڑیو بلکہ تُو ان کو حرم کیجیو۔ حِتِّیْاور اَمُوْرِیاور کَنْعَانیاور فَرَزِّیاور حَوِّیاور یَبُوْسِی کو جیسا کہ خداوند تیرے خدا نے تجھے حکم کیا ہے تا کہ وے اپنے سارے کریہہ کاموں کے مطابق جو انہوں نے اپنے معبودوں سے کیے تم کو عمل کرنا نہ سکھائیں اور کہ تم خداوند اپنے خدا کے گنہگار ہو جاؤ’۔‘‘ (استثناء باب 20آیت10تا17)
یہ بائبل کے الفاظ ہیں۔ حضرت سعدؓ نے یہ پڑھے اور اس کے مطابق فیصلہ کیا۔ ’’بائبل کے اس فیصلہ سے ظاہر ہے کہ اگر یہودی جیت جاتے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہار جاتے تو بائبل کے اس فیصلہ کے مطابق اول تو تمام مسلمان قتل کر دئیے جاتے۔ مرد بھی اور عورت بھی اور بچے بھی اور جیسا کہ تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ یہودیوں کا یہی ارادہ تھا کہ مردوں، عورتوں اور بچوں سب کو یکدم قتل کر دیا جائے لیکن اگر وہ ان سے بڑی سے بڑی رعایت کرتے تب بھی کتاب استثناء کے مذکورہ بالا فیصلہ کے مطابق وہ ان سے دور کے ملکوں والی قوموں کا سا سلوک کرتے اور تمام مردوں کو قتل کر دیتے اور عورتوں اور لڑکوں اور سامانوں کو لوٹ لیتے۔ سعدؓ نے جو بنو قُریظہ کے حلیف تھے اور ان کے دوستوں میں سے تھے جب دیکھا کہ یہودنے اسلامی شریعت کے مطابق، جو یقینا ًان کی جان کی حفاظت کرتی، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کو تسلیم نہیں کیا تو انہوں نے وہی فیصلہ یہود کے متعلق کیا جو‘‘ حضرت ’’موسیٰؑ نے استثناء میں پہلے سے ایسے مواقع کے لیے کر چھوڑا تھا۔ اور اس فیصلہ کی ذمہ داری محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر یا مسلمانوں پر نہیں‘‘ یہ تو ان کی اپنی کتاب کے مطابق فیصلہ تھا ’’بلکہ موسیٰؑ پر اور تورات پر اور ان یہودیوں پر ہے جنہوں نے غیر قوموں کے ساتھ ہزاروں سال اس طرح معاملہ کیا تھا اور جن کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رحم کے لیے بلایا گیا تو انہوں نے انکار کر دیا اور کہا ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ماننے کے لیے تیار نہیں۔ ہم سعدؓ‘‘ حضرت سعدؓ ’’کی بات مانیں گے۔ جب سعدؓ نے موسیٰؑ کے فیصلہ کے مطابق فیصلہ دیا تو‘‘ حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں کہ ’’آج عیسائی دنیا شور مچاتی ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظلم کیا۔ کیا عیسائی مصنف اس بات کو نہیں دیکھتے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی دوسرے موقع پر کیوں ظلم نہ کیا؟‘‘ باقی توکہیں ظلم نظر نہیں آتا۔ ’’سینکڑوں دفعہ دشمن نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رحم پر اپنے آپ کو چھوڑا اور ہر دفعہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو معاف کر دیا۔ یہ ایک ہی موقع ہے کہ دشمن نے اصرار کیا کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کو نہیں مانیں گے بلکہ فلاں دوسرے شخص کے فیصلہ کو مانیں گے اور اس شخص نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے اقرار لے لیا کہ جو میں فیصلہ کروں گا اسے آپ مانیں گے۔‘‘ جیسا کہ تاریخ سےظاہر ہے اقرار آپؐ سے بھی لیا گیا تھا ’’اس کے بعد اس نے فیصلہ کیا بلکہ اُس نے فیصلہ نہیں کیا۔ اس نے موسیٰؑ کا فیصلہ دہرا دیا جس کی امت میں سے ہونے کے یہود مدعی تھے۔ پس اگر کسی نے ظلم کیا تو یہودنے اپنی جانوں پر ظلم کیا جنہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ ماننے سے انکار کر دیا۔ اگر کسی نے ظلم کیا تو موسیٰؑ نے ظلم کیا جنہوں نے محصور دشمن کے متعلق تورات میں خدا سے حکم پا کر یہی تعلیم دی تھی۔ اگر یہ ظلم تھا تو ان عیسائی مصنفوں کو چاہئے کہ موسیٰؑ کو ظالم قرار دیں بلکہ موسیٰؑ کے خدا کو ظالم قرار دیں جس نے یہ تعلیم تورات میں دی ہے۔
احزاب کی جنگ کے خاتمہ کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ آج سے مشرک ہم پر حملہ نہیں کریں گے۔ اب اسلام خود جواب دے گا اور ان اقوام پر جنہوں نے ہم پر حملے کئے تھے اب ہم چڑھائی کریں گے چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ احزاب کی جنگ میں بھلا کفار کا نقصان ہی کیا ہوا تھا؟ چند آدمی مارے گئے تھے۔ وہ دوسرے سال پھر دوبارہ تیاری کر کے آسکتے تھے۔ بیس ہزار کی جگہ وہ چالیس یا پچاس ہزار کا لشکر بھی لا سکتے تھے بلکہ اگر وہ اور زیادہ انتظام کرتے تو لاکھ ڈیڑھ کا لشکر لانا بھی ان کے لیے کوئی مشکل نہیں تھا مگر اکیس سال کی متواتر کوشش کے بعد کفار کے دلوں کو محسوس ہو گیا تھا کہ خدا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہے۔ ان کے بت جھوٹے ہیں اور دنیا کا پیدا کرنے والا ایک ہی خدا ہے۔ ان کے جسم صحیح سلامت تھے مگر ان کے دل ٹوٹ چکے تھے۔‘‘ یعنی کافروں کے ’’بظاہر وہ اپنے بتوں کے آگے سجدہ کرتے ہوئے نظر آتے تھے مگر ان کے دلوں میں سے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کی آوازیں اٹھ رہی تھیں۔‘‘ (دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد 20 صفحہ 282-287)
حضرت ابوسعیدخدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ کچھ لوگ حضرت سعد بن معاذؓ کے فیصلہ کو قبول کرنے کی شرط پر قلعہ سے اتر آئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعدؓ کو بلا بھیجا تو وہ ایک گدھے پر سوارہو کر آئے۔ جب مسجد کے قریب پہنچے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اپنے میں سے بہتر کے استقبال کے لیے اٹھو یا فرمایا اپنے سردار کے استقبال کے لیے اٹھو۔ پھر آپؐ نے فرمایا سعدؓ یہ لوگ آپ کے فیصلہ پر اترے ہیں۔ انہوں نے کہا: پھر مَیں ان کے متعلق یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ ان میں سے جو لڑنے والے تھے انہیں قتل کر دیا جائے اور ان کے اہل و عیال قید کر لیے جائیں۔ آپؐ نے فرمایا تم نے الٰہی منشاء کے مطابق فیصلہ کیا ہے یا فرمایا تم نے شاہانہ فیصلہ کیا ہے یعنی تم نے بادشاہوں جیسا فیصلہ کیا۔ یہ بخاری کی روایت ہے۔ (صحیح بخاری کتاب مناقب الانصار باب مناقب سعد بن معاذ حدیث 3804)
اس کی جو بعض زائد باتیں ہیں حضرت مرزا بشیراحمد صاحبؓ نے بھی تفصیل بیان کی ہے۔ کچھ باتیں مَیں یہاں بیان کر دیتا ہوں۔ وہ لکھتے ہیں بنوقریظہ کے تعلق میں ہی کہ آخر کم و بیش تیس (بیس) دن کے محاصرے کے بعد یہ بدبخت یہودایک ایسے شخص کو حَکممان کر اپنے قلعوں سے اترنے پر رضا مند ہوئے جو باوجود ان کا حلیف ہونے کے ان کی کارروائیوں کی وجہ سے ان کے لیے اپنے دل میں کوئی رحم نہیں پاتا تھا اور جو گوعدل وانصاف کامجسمہ تھا مگر اس کے قلب میں رحمۃ للعالمین کی سی شفقت اور رافت نہیں تھی۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ قبیلہ اوس بنوقریظہ کاقدیم حلیف تھا اور اس زمانہ میں اس قبیلہ کے رئیس سعد بن معاذؓ تھے جو غزوۂ خندق میں زخمی ہو کراب مسجد کے صحن میں زیرعلاج تھے۔ اس قدیم جتھہ داری کاخیال کرتے ہوئے بنوقریظہ نے کہا کہ ہم سعد بن معاذؓ کواپنا حَکممانتے ہیں۔ جو فیصلہ بھی وہ ہمارے متعلق کریں وہ ہمیں منظور ہوگا۔ لیکن یہود میں بعض ایسے لوگ بھی تھے (جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے) جواپنے اس قومی فیصلہ کو صحیح نہیں سمجھتے تھے اور اپنے آپ کو مجرم یقین کرتے تھے اور دل میں اسلام کی صداقت کے قائل ہوچکے تھے۔ ایسے لوگوں میں سے بعض آدمی جن کی تعداد تاریخی روایات میں تین بیان ہوئی ہے بطیب خاطر بڑی خوشی سے اسلام قبول کرکے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حلقہ بگوشوں میں داخل ہو گئے۔ ایک اَور شخص تھا وہ مسلمان تونہیں ہوا مگر وہ اپنی قوم کی غداری پر اس قدر شرمندہ تھا کہ جب بنوقریظہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ کرنے کی ٹھانی تووہ یہ کہتا ہوا کہ میری قوم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے سخت غداری کی ہے میں اس غداری میں شامل نہیں ہو سکتا، مدینہ چھوڑ کر کہیں باہر چلاگیا تھا مگر باقی قوم آخر تک اپنی ضد پر قائم رہی اور سعدؓ کواپنا ثالث بنانے پر اصرار کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسے منظور فرمایا (جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے) اس کے بعد آپؐ نے چند انصاری صحابیوں کو سعدؓ کے لانے کے لیے روانہ فرمایا۔ سعدؓ آئے اور راستہ میں ان کے قبیلے کے بعض لوگوں نے اصرار کیا اور بار بار یہ درخواست کی کہ قریظہ ہمارے حلیف ہیں اس لیے ان کا خیال رکھنا۔ جس طرح خزرج نے اپنے حلیف قبیلہ بَنُوقَیْنُقَاع کے ساتھ نرمی کی تھی تم بھی قریظہ سے رعایت کامعاملہ کرنا اور انہیں سخت سزانہ دینا۔ سعد بن معاذؓ پہلے تو خاموشی کے ساتھ ان کی باتیں سنتے رہے لیکن جب ان کی طرف سے زیادہ اصرار ہونے لگا توسعدؓ نے کہا کہ یہ وہ وقت ہے کہ سعدؓ اس وقت حق وانصاف کے معاملہ میں کسی ملامت گر کی ملامت کی پروا نہیں کر سکتا۔ جب سعدؓ کا یہ جواب سنا تولوگ خاموش ہوگئے۔
بہرحال جب سعدؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچے توآپؐ نے صحابہؓ سے فرمایا کہ اپنے رئیس کے لیے اٹھو اور سواری سے نیچے اترنے میں انہیں مدد دو۔ جب سعدؓ سواری سے نیچے اترے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آگے بڑھے۔ حضرت سعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے مخاطب ہو کر فرمایا سعد!ؓ بنو قریظہ نے تمہیں حَکم مانا ہے اور ان کے متعلق تم جوفیصلہ کرو انہیں منظور ہوگا۔ اس پر سعدؓ نے اپنے قبیلے اوس کے لوگوں کی طرف نظر اٹھا کر کہا کہ کیاتم خدا کو حاضر ناظر جان کر یہ پختہ عہد کرتے ہو کہ تم بہرحال اس فیصلہ پر عمل کرنے کے پابند ہوگے جو مَیں بنو قریظہ کے متعلق کروں؟ لوگوں نے کہا ہاں ہم وعدہ کرتے ہیں۔ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے جو ذکر فرمایا ہے اس میں بھی بیان ہوچکا ہے۔ بہرحال پھر سعدؓ نے اس طرف اشارہ کرتے ہوئے جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف رکھتے تھے کہاکہ وہ صاحب جو…۔ (انہوں نے اس طرح یہاں لکھا ہے کہ وہ صاحب جو) یہاں تشریف رکھتے ہیں کیا وہ بھی ایسا ہی وعدہ کرتے ہیں کہ وہ بہرحال میرے فیصلہ کے مطابق عمل کرنے کے پابند ہوں گے۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں وعدہ کرتا ہوں۔ اس عہدوپیمان کے بعد سعدؓ نے اپنا فیصلہ سنایا جویہ تھا کہ بنو قریظہ کے مقاتل یعنی جنگجولوگ قتل کردیے جائیں اور ان کی عورتیں اور بچے قید کرلیے جائیں اور ان کے اموال مسلمانوں میں تقسیم کر دیے جائیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ سنا تو بے ساختہ فرمایاکہ تمہارا یہ فیصلہ ایک خدائی تقدیر ہے جوٹل نہیں سکتی اور ان الفاظ سے آپؐ کا یہ مطلب تھا کہ بنوقریظہ کے متعلق یہ فیصلہ ایسے حالات میں ہوا ہے کہ اس میں صاف طورپر خدائی تصرف کام کرتا ہوا نظر آتا ہے اور اس لیے آپؐ کاجذبہ رحم اسے روک نہیں سکتا۔ اور یہ واقعی درست تھا کیونکہ بنوقریظہ کا ابولُبابہ کواپنے مشورہ کے لیے بلانا اور ابولُبابہ کے منہ سے ایک ایسی بات نکل جانا جوسراسر بے بنیاد تھی اور بنوقریظہ کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حَکمماننے سے انکار کرنا اور اس خیال سے کہ قبیلہ اوس کے لوگ ہمارے حلیف ہیں اور ہم سے رعایت کامعاملہ کریں گے سعد بن معاذؓ رئیس اوس کو اپنا حَکممقرر کرنا، پھر سعدؓ کاحق وانصاف کے رستے میں اس قدر پختہ ہوجانا کہ عصبیت اور جتھہ داری کااحساس دل سے بالکل محو ہو جاوے اور بالآخر سعدؓ کااپنے فیصلہ کے اعلان سے قبل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کا پختہ عہد لے لینا کہ بہرحال اس فیصلہ کے مطابق عمل ہو گا۔ یہ ساری باتیں اتفاقی نہیں ہوسکتیں اور یقینا ًان کی تہ میں خدائی تقدیر اپنا کام کررہی تھی اور یہ فیصلہ خداتعالیٰ کا تھا نہ کہ سعدؓ کا۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بنوقریظہ کی بدعہدی اور غداری اور بغاوت اور فتنہ وفساد اور قتل وخونریزی کی وجہ سے خدائی عدالت سے یہ فیصلہ صادر ہوچکا تھا کہ ان کے جنگجولوگوں کو دنیا سے مٹا دیا جاوے۔ چنانچہ ابتداءً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کواس غزوہ کے متعلق غیبی تحریک ہونا بھی یہی ظاہر کرتا ہے کہ یہ ایک خدائی تقدیر تھی مگر خدا کو یہ منظور نہ تھا کہ اس کے رسولؐ کے ذریعہ سے یہ فیصلہ جاری ہو اور اس لیے اس نے نہایت پیچ درپیچ غیبی تصّرفات سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوبالکل الگ رکھا اور سعد بن معاذؓ کے ذریعہ اس فیصلہ کا اعلان کروایا اور فیصلہ بھی ایسے رنگ میں کروایا کہ اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس میں بالکل دخل نہیں دے سکتے تھے کیونکہ آپؐ وعدہ فرما چکے تھے کہ آپؐ بہرحال اس فیصلہ کے پابند رہیں گے اور پھر چونکہ اس فیصلہ کا اثر بھی صرف آپؐ کی ذات پر نہیں پڑتا تھا بلکہ تمام مسلمانوں پر پڑتا تھا اس لیے آپؐ اپنا یہ حق نہیں سمجھتے تھے کہ اپنی رائے سے خواہ وہ کیسی ہی عفو اور رحم کی طرف مائل ہو اس فیصلہ کو بدل دیں۔ یہی خدائی تصرف تھاجس کی طاقت سے متاثر ہوکر آپؐ کے منہ سے بے اختیار طور پر یہ الفاظ نکلے کہ قَدْحَکَمْتَ بِحُکْمِ اللّٰہِ یعنی اے سعد! تمہارا یہ فیصلہ توخدائی تقدیر معلوم ہوتی ہے جس کے بدلنے کی کسی کو طاقت نہیں۔ یہ الفاظ کہہ کر آپؐ خاموشی سے وہاں سے اٹھے اور شہر کی طرف چلے آئے اور اس وقت آپؐ کا دل اس خیال سے درد مند ہو رہا تھا کہ ایک قوم جس کے ایمان لانے کی آپؐ کے دل میں بڑی خواہش تھی اپنی بدکرداریوں کی وجہ سے ایمان سے محروم رہ کر خدائی قہروعذاب کا نشانہ بن رہی ہے اور غالباً اسی موقع پر آپؐ نے یہ حسرت بھرے الفاظ فرمائے کہ اگر یہود میں سے مجھ پر دس آدمی یعنی دس بارسوخ آدمی بھی ایمان لے آتے تومیں خدا سے امید رکھتا کہ یہ ساری قوم مجھے مان لیتی اور خدائی عذاب سے بچ جاتی۔ بہرحال وہاں سے اٹھتے ہوئے آپؐ نے یہ حکم دیا کہ بنو قریظہ کے مردوں اور عورتوں اور بچوں کو علیحدہ علیحدہ کردیا جائے۔ چنانچہ دونوں گروہوں کو علیحدہ علیحدہ کر کے مدینہ میں لایا گیا اور شہر میں دو الگ الگ مکانات میں جمع کردیا گیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے ماتحت صحابہ نے جن میں سے غالباًکئی لوگ خود بھوکے رہے ہوں گے بنوقریظہ کے کھانے کے لیے ڈھیروں ڈھیر پھل مہیا کیا اور لکھا ہے کہ یہودی لوگ رات بھر پھل نوشی میں مصروف رہے۔ دوسرے دن صبح کو سعد بن معاذؓ کے فیصلہ کا اجرا ہونا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چند مستعد آدمی اس کام کی سرانجام دہی کے لیے مقرر فرما دیے اور خود بھی قریب ہی ایک جگہ میں تشریف فرما ہو گئے تا کہ اگر فیصلہ کے اجرا کے دوران میں کوئی ایسی بات پیدا ہو جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کی ضرورت ہو تو آپ بلا توقف ہدایت دے سکیں۔ نیز یہ بھی کہ اگر کسی مجرم کے متعلق کسی شخص کی طرف سے رحم کی اپیل ہو تو اس میں آپ فوراً فیصلہ صادر فرما سکیں کیونکہ گو سعد کے فیصلہ کی اپیل عدالتی رنگ میں آپؐ کے سامنے پیش نہیں ہو سکتی تھی مگر ایک بادشاہ یا صدر جمہوریت کی حیثیت میں آپؐ کسی فرد کے متعلق کسی خاص وجہ کی بنا پر رحم کی اپیل ضرور سن سکتے تھے۔ بہرحال آپؐ نے بتقاضائے رحم یہ بھی حکم فرمایا کہ مجرموں کوایک ایک کرکے علیحدہ علیحدہ قتل کیا جاوے۔ یعنی ایک کے قتل کے وقت دوسرے مجرم پاس موجودنہ ہوں۔ چنانچہ ایک ایک مجرم کوالگ الگ لایا گیا اور حسب فیصلہ سعد بن معاذؓ ان کو قتل کیا گیا۔
بنو قریظہ کے واقعہ کے متعلق بعض غیر مسلم مؤرخین نہایت ناگوار طریقے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف حملے کرتے ہیں یا انہوں نے حملے کیے۔ اور کم و بیش چار سو یہودیوں کی سزائے قتل کی وجہ سے آپؐ کو نعوذ باللہ ظالم اور سفاک فرمانروا کے رنگ میں پیش کیا جاتا ہے لیکن ہمارے ایک محقق نے یہ بھی تحقیق کی ہے کہ جو اصل تعداد ہے وہ سولہ سترہ بنتی ہے لیکن بہرحال یہ تحقیق طلب چیز ہے۔ ابھی بھی اس پہ تحقیق ہو سکتی ہے۔ کسی نے تعداد سو لکھی ہے۔ چار سو لکھی ہے۔ کسی نے زیادہ لکھی ہے۔ کسی نے ہزار لکھی ہے۔ نو سو لکھی ہے۔ بہرحال کیونکہ معین تعدادنہیں ہے اس لیے اس پر بحث ہو سکتی ہے۔ بہرحال اگر چار سو بھی ہے تو اس اعتراض کی بنا محض مذہبی تعصب پر واقع ہے جس سے جہاں تک کم از کم اسلام اور بانیٔ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق ہے بہت سے مغربی روشنی میں تربیت یافتہ مؤرخ بھی آزادنہیں ہوسکے۔ یہی الزام لگاتے ہیں۔ تو حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ اس اعتراض کے جواب میں اول تو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ بنو قریظہ کے متعلق جس فیصلہ کو ظالمانہ کہا جاتا ہے وہ سعد بن معاذؓ کا فیصلہ تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہرگز نہیں تھا۔ اور جب وہ آپؐ کا فیصلہ ہی نہیں تھاتو اس کی وجہ سے آپؐ پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔ دوسرے یہ کہ فیصلہ حالات پیش آمدہ کے ماتحت ہرگز غلط اور ظالمانہ نہیں تھا۔ سوم یہ کہ اس عہد کی وجہ سے جو سعدؓ نے فیصلے کے اعلان سے قبل آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے لیا تھا آپؐ اس بات کے پابند تھے کہ بہرحال اس کے مطابق عمل کرتے۔ چہارم یہ کہ خود مجرموں نے اس فیصلے کو قبول کیا اور اس پر اعتراض نہیں کیا اور اسے اپنے لیے ایک خدائی تقدیر سمجھا۔ تو اس صورت میں آپؐ کا یہ کام نہیں تھا کہ خواہ مخواہ اس میں دخل دینے کے لیے کھڑے ہو جاتے۔ سعدؓ کے فیصلے کے بعد اس معاملے کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق صرف اس قدر تھا کہ آپؐ اپنی حکومت کے نظام کے ماتحت اس فیصلے کو بصورت احسن جاری فرما دیں اور یہ بتایا جا چکا ہے کہ آپؐ نے اسے ایسے رنگ میں جاری فرمایا کہ جو رحمت و شفقت کا بہترین نمونہ سمجھا جا سکتا ہے۔ یعنی جب تک تو یہ لوگ فیصلے کے اجرا سے قبل قید میں رہے آپؐ نے ان کی رہائش اور خوراک کا بہتر سے بہتر انتظام فرمایا اور جب ان پر سعدؓ کا فیصلہ جاری کیا جانے لگا تو آپؐ نے ایسے رنگ میں جاری کیا کہ وہ مجرموں کے لیے کم سے کم موجب تکلیف تھا۔ یعنی اول تو ان کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے آپؐ نے یہ حکم دیا کہ ایک مجرم کے قتل کے وقت کوئی دوسرا مجرم سامنے نہ ہو بلکہ تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ جن لوگوں کو مقتل میں لایا جاتا تھا ان کو اس وقت تک علم نہیں ہوتا تھا کہ ہم کہاں جارہے ہیں جب تک وہ عین مقتل میں نہ پہنچ جاتے تھے۔ اس کے علاوہ جس شخص کے متعلق بھی آپؐ کے سامنے رحم کی اپیل پیش ہوئی آپؐ نے اسے فوراً قبول کر لیا اور نہ صرف ایسے لوگوں کی جان بخشی کی بلکہ ان کے بیوی بچوں اور اموال وغیرہ کے متعلق بھی حکم دے دیا کہ انہیں واپس دے دیے جائیں۔ ان کا سب کچھ، مال بھی لوٹا دیا۔ اس سے بڑھ کر ایک مجرم کے ساتھ رحمت و شفقت کا سلوک کیا ہو سکتا ہے؟ پس نہ صرف یہ کہ بنو قریظہ کے واقعہ کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر قطعاً کوئی اعتراض واردنہیں ہوسکتا بلکہ حق یہ ہے کہ یہ واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق فاضلہ اور حسن انتظام اور آپ کے فطری رحم و کرم کا ایک نہایت بیّن ثبوت ہے۔
بے شک اپنی ذات میں سعدؓ کا فیصلہ ایک سخت فیصلہ تھا اور فطرت انسانی بظاہر اس سے ایک صدمہ محسوس کرتی ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس کے بغیر کوئی اَور راستہ کھلا تھا جسے اختیار کیا جاتا۔ بنو قریظہ کے متعلق سعدؓ کا فیصلہ جیسا کہ ہم نے کہا گو اپنی ذات میں بڑا سخت ہے مگر وہ حالات کی مجبوری تھی اور حالات کی مجبوری کا ایک لازمی نتیجہ تھا جس کے بغیر کوئی چارہ نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مارگولیس (Margulis) جیسا مؤرخ بھی جو ہرگز اسلام کے دوستوں میں سے نہیں ہے اس موقع پر اس اعتراف پر مجبور ہواکہ سعدؓ کا فیصلہ حالات کی مجبوری پر مبنی تھا جس کے بغیر چارہ نہیں تھا۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ غزوۂ احزاب کا حملہ جس کے متعلق محمدصاحب (صلی اللہ علیہ وسلم) کا یہ دعویٰ تھا کہ وہ محض خدائی تصرفات کے ماتحت پسپا ہوا وہ بنونَضیر ہی کی اشتعال انگیز کوششوں کا نتیجہ تھا یا کم از کم یہ سمجھا جاتا تھا کہ وہ ان کی کوششوں کا نتیجہ ہے اور بنونَضیر وہ تھے جنہیں محمدصاحب (صلی اللہ علیہ وسلم) نے صرف جلاوطن کردینے پر اکتفا کی تھی۔ اب سوال یہ تھا کہ کیا محمدصاحب صلی اللہ علیہ وسلم بنوقُریظہ کو بھی جلاوطن کرکے اپنے خلاف اشتعال انگیز کوششیں کرنے والوں کی تعداد اور طاقت میں اضافہ کر دیں؟ دوسری طرف وہ قوم مدینہ میں بھی نہیں رہنے دی جاسکتی تھی جس نے اس طرح برملا طور پر حملہ آوروں کا ساتھ دیا تھا۔ ان کا جلاوطن کرنا غیر محفوظ تھا مگر ان کا مدینہ میں رہنا بھی کم خطرناک نہ تھا۔ پس اس فیصلہ کے بغیرچارہ نہ تھا کہ ان کے قتل کا حکم دیا جاتا۔‘‘
یہ مارگولیس لکھ رہا ہے۔ ’’پس سعدؓ کا فیصلہ بالکل منصفانہ اور عدل و انصاف کے قواعد کے بالکل مطابق تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بوجہ اپنے عہد کے اس فیصلے کے متعلق رحم کے پہلو کو کام میں نہیں لاسکتے تھے سوائے چند افراد کے اور اس کے لیے آپ نے ہر ممکن کوشش کی جنہوں نے رحم کی اپیل کی۔ عمومی فیصلہ نہیں دے سکتے تھے۔ مگر معلوم ہوتا ہے کہ یہودنے اس شرم سے کہ انہوں نے آپ کو جج ماننے سے انکار کر دیا تھا آپ کی طرف رحم کی اپیل کی صورت میں زیادہ رجوع نہیں کیا۔ صرف چند ایک نے کیا اور ظاہر ہے کہ بغیر اپیل ہونے کے آپؐ رحم نہیں کر سکتے تھے کیونکہ جو باغی اپنے جرم پر ندامت کااظہار بھی نہیں کرتا اسے خود بخود چھوڑ دینا سیاسی طورپر نہایت خطرناک نتائج پیدا کرسکتا ہے۔
ایک اَوربات یاد رکھنی ضروری ہے کہ جو معاہدہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور یہود کے درمیان ابتدا میں ہوا تھا اس کی شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی تھی کہ اگر یہود کے متعلق کوئی امر قابل تصفیہ پیدا ہو گا تو اس کا فیصلہ خود انہیں کی شریعت کے ماتحت کیا جائے گا یعنی یہود کی شریعت کے مطابق۔ چنانچہ تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ اس معاہدہ کے ماتحت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ یہود کے متعلق شریعت موسوی کے مطابق فیصلہ فرمایا کرتے تھے۔ اب ہم تورات پرنگاہ ڈالتے ہیں تو وہاں اس قسم کے جرم کی سزا جس کے مرتکب بنوقریظہ ہوئے بعینہ وہی لکھی ہوئی پاتے ہیں جو سعد بن معاذؓ نے بنوقریظہ پرجاری کی۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ صفحہ 599 تا 611)
بہرحال بنو قریظہ کے معاملے کے بارے میں حضرت سعد بن معاذؓ کا جہاں تک ان سے تعلق تھا اس کی اتنی ہی تفصیل یہاں کافی ہے۔ حضرت سعد بن معاذؓ کے ذکرکا کچھ حصہ باقی رہ گیا ہے جو ان شاء اللہ تعالیٰ آئندہ بیان کروں گا۔
اب میں چند وفات یافتگان کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جن کی گذشتہ دنوں میں وفات ہوئی ہے اور ان شاءاللہ نمازِ جمعہ کے بعد ان کا جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا۔
پہلا ذکر ہے مکرمہ حاجیہ رقیہ خالد صاحبہ جو صدر لجنہ اماء اللہ گھانا تھیں۔ 30؍جون کو 65؍سال کی عمر میں بقضائے الٰہی وفات پا گئیں۔ إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ان کو یوٹرین (uterine cancer) کینسر ہوا تھا۔ اس کے بعد یہ recover بھی کر گئی تھیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کو صحت عطا کی لیکن اس سال مئی میں دوبارہ ان کی صحت گرنی شروع ہو گئی۔ اچانک دوبارہ حملہ ہوا اور کچھ عرصہ ہسپتال میں بیمار رہنے کے بعد 30؍ جون کو ان کی وفات ہو گئی۔ حاجیہ رقیہ خالد صاحبہ گھانا کے شمالی علاقہ وا (Wa) میں اپریل 1955ء میں ایک احمدی گھرانے میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کے والد الحاج خالد صالح صاحب مرحوم وا (Wa) کے قریب ایک گاؤں میں امام تھے جہاں اکثر لوگ بت پرست تھے۔ انہوں نے بت پرست لوگوں میں تبلیغ کر کے احمدیت قائم کی تھی۔ مرحومہ کا بچپن وا (Wa) میں ہی گزرا۔ ایک سلجھی ہوئی، سلیقہ مند اور اصول پسند خاتون تھیں۔ پیشے کے اعتبار سے مرحومہ ایک ٹیچر تھیں اور اپنے پروفیشنل حلقہ احباب اور جماعت میں بھی دوسروں کے لیے ایک نمونہ تھیں۔ ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد بستان احمد میں احمدیہ انٹرنیشنل سکول کی ہیڈ مسٹرس کے طور پر خدمات بجا لا رہی تھیں۔ بچوں کی تعلیم و تربیت میں ان کو ایک خاص لگاؤ تھا۔ بہت سارے بچوں کے تعلیمی اخراجات برداشت کیا کرتی تھیں اور کئی بچوں کو اپنے گھر رکھ کر بغیر معاوضے کے پڑھایا کرتی تھی۔ 2017ء میں ان کو صدر لجنہ اماء اللہ مقرر کیا گیا تھا اور بڑی خوبی سے انہوں نے اپنی صدارت کا عرصہ، جتنے سال بھی یہ رہیں، بیماری کے باوجود پورا کیا۔ اور وفات کے وقت تک بحیثیت صدر لجنہ گھانا کام جاری رکھا۔ مختلف پروگرام بناتی رہیں۔ آج کل Covidکی وجہ سے جو پابندیاں لگی ہوئی ہیں اس کے باوجود انٹرنیٹ وغیرہ پر انہوں نے تربیت کے پروگرام جاری رکھے اور لجنہ کی تربیت کا کام کرتی رہیں۔ نمازوں کی پابند تھیں۔ نہایت شوق سے نیکیاں بجا لانے والی تھیں۔ تہجد گزار تھیں۔ باقاعدگی سے چندہ ادا کرنے والی خاتون تھیں۔ مرحومہ موصیہ بھی تھیں۔ خلافت سے ان کا بڑا تعلق تھا۔ پسماندگان میں دو بیٹے اور ایک بیٹی اور چار پوتے پوتیاں شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور درجات بلند فرمائے اور ان کی نسلوں کو بھی ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
دوسرا جنازہ جو آج ہو گا جن کا ذکر کرنا چاہتا ہوں وہ مکرمہ صفیہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم شیخ مبارک احمد صاحب مرحوم سابق مبلغ سلسلہ افریقہ انگلستان اور امریکہ ہیں۔ یہ 27؍جون کو 93سال کی عمر میں بقضائے الٰہی وفات پا گئیں۔ إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ آپ حضرت قاضی عبدالسلام بھٹی صاحب اور محترمہ مبارکہ بیگم صاحبہ کے ہاں اکتوبر 1926ءمیں پیدا ہوئی تھیں۔ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ حضرت قاضی عبدالرحیم صاحبؓ کی پوتی اور حضرت قاضی ضیاء الدین صاحبؓ کی پڑپوتی تھیں۔ بےشمار خوبیوں کی مالک، دعا گو بزرگ خاتون تھیں۔ خلافت سے بے لوث محبت کا تعلق تھا جو کم دیکھنے میں ملتا ہے۔ انہوں نے اپنی اولاد بلکہ اولاد در اولاد میں بھی یہ تعلق پیدا کیا۔ اور یہ بھی کہ کس طرح جاری رکھناہے۔ مرحومہ موصیہ تھیں۔ شیخ مبارک احمد صاحب سے ان کی یہ دوسری شادی تھی جن سے ان کی ایک بیٹی پیدا ہوئی اور پہلے خاوند سے بھی اولاد تھی۔ پہلے خاوند ان کے جو تھے ان کا نام نصیر احمد بھٹی صاحب تھا۔ بہرحال شیخ صاحب کا مختلف ملکوں میں خدمت کا جو عرصہ تھا اس میں انہوں نے بڑی وفا سے ان کے ساتھ زندگی گزاری۔ پسماندگان میں شیخ صاحب کی سابقہ اہلیہ سے ایک بیٹی کے علاوہ ان کی اپنی اولاد میں دو بیٹیاں اور تین بیٹے شامل ہیں۔ آپ کے ایک بیٹے فہیم احمد بھٹی صاحب یہاں ہمارے دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں بطور رضا کار خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ایک پوتے صبور بھٹی مربی سلسلہ ہیں۔ وکالت تبشیر یوکے میں کام کر رہے ہیں۔ ایک پوتے احمد فواد بھٹی وقف زندگی ہیں جو بطور ٹیچر احمدیہ کالج کانو (Kano)میں خدمت کی توفیق پا رہے ہیں۔ ایک پوتے خلیق بھٹی بھی تعلیم مکمل کر کے وقف کر کے اب ریویو آف ریلیجنز میں خدمت بجا لا رہے ہیں۔ ان کے ایک پوتے نبیل بھٹی ہیں جو دو سال پہلے شدید بیمار ہو گئے تھے۔ تقریباً قریب المرگ تھے۔ ان کے لیے انہوں نے بہت دعائیں کی اور اللہ تعالیٰ نے انہیں پھر اس بچے کی شفا کے بارے میں بتا بھی دیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کو شفا بھی عطا فرمائی لیکن بہرحال ابھی بھی نبیل بھٹی صاحب کو اس بیماری کی وجہ سے چھوٹی چھوٹی بعض پیچیدگیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو کامل شفا بھی عطا فرمائے اور صفیہ بیگم صاحبہ نے ان کے لیے جو دعائیں کی ہوئی ہیں وہ قبول فرمائے۔ یہ بھی وقف میں شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے بھی جماعت کا مفید وجود بنائے اور اس کو بھی اور اس کی اولاد کو بھی خادم دین بنائے۔
ان کی بیٹی فریدہ شیخ صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ ہماری اُمی کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بہت محبت تھی۔ ہر وقت ان کی تصویر کی طرف اشارہ کر کے بتاتی رہتی تھیں کہ ان کی وجہ سے ہمیں سب کچھ ملا ہے اور سب برکتیں انہیں کی ہیں۔ پھر اسی طرح افریقن امریکن بہنوں سے بھی ان کو ایک خاص تعلق تھا۔ اس کا بہت خیال رکھتی تھیں۔ ان میں سے اکثر کا تقریباً ہر روز آنا جانا رہتا تھا اور گھر میں بے تکلفی سے آتی تھیں۔ کچن میں بیٹھ کر امی کے ساتھ باتیں کرتیں گویا کہ وہ فیملی کا ہی حصہ ہیں۔ اسی طرح ان کی بڑی بیٹی جو نعیمہ شبیر صاحبہ ہیں وہ کہتی ہیں کہ نہایت شفیق محبت کرنے والی تھیں۔ بے انتہا صبر کرنے والی، اپنی جان پر ظلم کر کے دوسروں کا خیال رکھنے والی خاتون تھیں۔ خلافت کی محبت ہمارے دلوں میں ڈالی۔ باقاعدگی سے خط لکھنے کا کہتی تھیں۔ اپنی اولاد کے حق میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعائیں پڑھتی رہتی تھیں اور غرباء اور یتامیٰ کا بہت خیال رکھتی تھیں۔ چندے اور صدقات بڑی باقاعدگی سے دیاکرتی تھیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے خاص شفقت سے ان کا رشتہ اور نکاح شیخ مبارک احمد صاحب سے کروایا تھا جو مبلغ سلسلہ تھے۔ اُن کی پہلی بیوی فوت ہو گئی تھیں اور ان کے خاوند فوت ہو گئے تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے رشتہ کے وقت شیخ صاحب کو کسی جماعتی کام سے خوش ہو کے کہا کہ مَیں آپ کو ایک انعام دے رہا ہوں۔ شیخ صاحب نے بھی اس انعام کی قدر کی اور وہ انعام جو تھا وہ صفیہ بیگم صاحبہ کی صورت میں دیا۔ شیخ صاحب نے اس کی قدر کی اور ان کے بچوں کا جو پہلے خاوند سے بچے تھے اور خاوند ان کے جوانی میں فوت ہو گئے تھے ان کا بھی بہت خیال رکھا۔ ان کے بڑے بیٹے شمیم بھٹی صاحب سکول اور کالج میں میرے ساتھ پڑھتے بھی رہے ہیں اور مَیں نے دیکھا ہے کہ شیخ صاحب نے بھی ان بچوں کا بہت خیال رکھا اور اس کا حق ادا کیا لیکن صفیہ بیگم صاحبہ نے بھی شیخ صاحب کا میدانِ عمل میں اس طرح ساتھ دیا جو ایک واقف زندگی کی بیوی کا فرض ہے۔ بہت کم مبلغین کی بیویاں اس طرح حق ادا کرتی ہیں جس طرح انہوں نے حق ادا کیا۔ مہمانوں کی مہمان نوازی بے لوث ہو کر کی اور کبھی شکوہ نہیں کیا اور اسی طرح جماعت کے افراد کے لیے دعائیں بھی بڑی کیا کرتی تھیں۔ مبلغین جو شیخ صاحب کے ماتحت رہے ان کے ساتھ، ان کی فیملیوں کے ساتھ بڑا اچھا سلوک کیا۔ میرا تو خلافت کے بعد ان سے زیادہ تعلق پیدا ہوا، واقفیت بھی ہوئی تو مَیں نےیہ دیکھا کہ خلافت کی ایک شیدائی تھیں اور ایسے شیدائی اور فدائی لوگ کم ہی دیکھنے میں ملتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کی نسلوں کو بھی ہمیشہ جماعت اور خلافت کا وفا دار رکھے۔
اگلا جنازہ جو ہے وہ مکرم علی احمد صاحب ریٹائرڈمعلم وقف جدید کا ہے۔ یہ 18؍جون کو 86؍سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ آپ کے والد حضرت میاں اللہ دتہ صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے جنہوں نے 1903ء میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے سفر ِجہلم کے موقع پر اپنے گاؤں سے دس بارہ میل کا پیدل سفر کر کے حضور علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی توفیق پائی۔ بہرحال 1965ء میں انہوں نے وقف کیا۔ 1967ءسے 2008ء تک تقریباً اکتالیس سال سندھ اور پنجاب کی مختلف جماعتوں میں خدمات انجام دیں۔ سینکڑوں بچوں اور بچیوں اور مردوں اور خواتین کو قرآن پڑھایا۔ آپ کی تبلیغی کاوشوں اور دعاؤں کی بدولت بیسیوں سعید روحوں کوجماعت احمدیہ میں شامل ہونے کی سعادت نصیب ہوئی۔ مرحوم موصی تھے۔ پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ دو بیٹیاں اور تین بیٹے شامل ہیں۔ آپ کے ایک بیٹے عبدالہادی طارق صاحب مربی سلسلہ گھانا میں ہیں اور وہاں کے انٹرنیشنل جامعہ احمدیہ میں سات سال سے بطور استاد خدمت کی توفیق پا رہے ہیں۔ موجودہ حالات کی وجہ سے اپنے والد صاحب کے جنازے اور تدفین میں بھی شامل نہیں ہو سکے۔ آپ کے دو بھتیجے بھی مربی سلسلہ ہیں اور تین نواسے حافظِ قرآن ہیں۔ مغفور احمد منیب صاحب، جو ہمارے واقف زندگی مربی سلسلہ ہیں، آج کل مرکز میں تعینات ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مکرم مولوی صاحب واقفِ زندگی مربیان اور معلمین کے لیے بلا شبہ ایک نمونہ تھے۔ کم گو، غض بصر کرنے والے، اپنے کام سے کام رکھنے والے، دعا گو، منکسر المزاج، خندہ پیشانی سے ملنے والے، خلافت احمدیہ کے لیے سینہ سپر، ناراض بھی ہوتے تو سمجھانے میں دردنمایاں ہوتا۔ قناعت شعاری بہت تھی۔ آج وہ بچے اور بچیاں جو مولوی صاحب کے شاگرد تھے بڑے ہو گئے ہیں لیکن ان کے دلوں سے مولوی صاحب کے حسنِ اخلاق اور محبت کی یادیں محو نہیں ہوئیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کی اولاد اور نسل کو بھی ان کی خوبیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اگلا جنازہ مکرمہ رفیقاں بی بی صاحب اہلیہ بشیر احمد ڈوگر صاحب عہدی پور ضلع نارووال کا ہے جو 22؍مئی کو بقضائے الٰہی وفات پا گئیں۔ إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ان کے خاندان میں احمدیت آپ کے دادا حضرت ملک سردار خان ڈوگر صاحب نمبر دار کے ذریعےآئی جو صحابیؓ تھے۔ آپ کے بیٹے ریاض احمد ڈوگر صاحب کہتے ہیں کہ مَیں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے آپ کو بہت نمازی اور پرہیز گار دیکھا ہے۔ صوم و صلوٰۃ کی پابند تھیں۔ بہت سی سورتیں آپ کو زبانی یاد تھیں۔ صبح دودھ بلوتے ہوئے اکثر آپ سورت تغابن کی تلاوت کرتی رہتی تھیں۔ پنجوقتہ نماز بہت اہتمام سے ادا کرتی تھیں۔ ہر نماز سے پہلے ایک دو پوتا پوتی، نواسہ نواسی کو ضرور اپنے ساتھ کھڑا کرتیں تا کہ بچوں کو بھی نماز کا شوق پیدا ہو۔ نماز کے بعد کافی دیر جائے نماز پر بیٹھ کر تسبیح کرتی رہتی تھیں۔ اسی طرح تلاوت بھی بآواز بلند کرتیں اور سارے گھر میں ان کی تلاوت کی آواز گونجتی تھی۔ آپ کو بہت ساری سورتیں زبانی یاد تھیں۔ خلافت سے آپ کو والہانہ لگاؤ اور محبت اور عقیدت تھی اور خلیفۂ وقت کی دعاؤں پر بڑا یقین تھا۔ اس بات کو بڑے فخر سے لوگوں کو بتاتیں کہ میرا بیٹا بھی مربی ہے۔ میراپوتا بھی مربی بن رہا ہے۔ میرا نواسہ بھی مربی ہے اور باوجود اس کے کہ اپنے بچوں کو بہت یاد کرتیں مگر ساتھ یہ بھی کہا کرتی تھیں کہ خدا کا بہت فضل ہے مجھ پر کہ اس نے میری شاخیں دنیا کے کونے کونے میں پھیلا دی ہیں۔ پسماندگان میں چھ بیٹے اور ایک بیٹی اور پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں شامل ہیں۔ آپ کے ایک بیٹے ریاض احمد ڈوگر صاحب تنزانیہ میں خدمت سلسلہ کی توفیق پا رہے ہیں اور وہ بھی موجودہ حالات کی وجہ سے اور میدانِ عمل میں مصروف ہونے کی وجہ سے آپ کے جنازے اور تدفین میں شرکت نہیں کر سکے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کو صبر اور حوصلہ عطا فرمائے۔ آپ کے ایک نواسے عدیل احمد ڈوگر پاکستان میں مربی سلسلہ کے طور پر خدمت کی توفیق پار ہے ہیں۔ ایک پوتا عزیزم ایاز احمد ڈوگر جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا میں درجہ خامسہ کا طالب علم ہے۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند فرمائے۔ ان کی نسل کو بھی ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اسی طرح آج مَیں ان لوگوں کو بھی جنازے میں شامل کروں گا جن کا گذشتہ خطبات میں صرف ذکر کر چکا ہوں اور حالات کی وجہ سےجنازہ نہیں پڑھایا گیا جن میں ناصر سعید صاحب شامل ہیں۔ غلام مصطفیٰ صاحب شامل ہیں۔ اسلام آباد کے ڈاکٹر نقی الدین صاحب ہیں وہ شامل ہیں۔ ذوالفقار صاحب مربی انڈونیشیا شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔
(الفضل انٹرنیشنل31جولائی2020ءصفحہ5تا9)
اگر یہود میں سے مجھ پر دس آدمی یعنی دس بارسوخ آدمی بھی ایمان لے آتے تو مَیں خدا سے امید رکھتا کہ یہ ساری قوم مجھے مان لیتی اور خدائی عذاب سے بچ جاتی۔
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت بدری صحابی، اسلام اور بانیٔ اسلامؐ کے ایک نہایت جاں نثار عاشِق، نہایت درجہ مخلص، باصفا، بے لَوث فدائی، بلندپایہ، وفادار اور قبیلہ اوس کے رئیس اعظم حضرت سَعد بن مُعاذ رضی اللہ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ۔
غزوۂ احزاب کے دوران بنو قریظہ کی غداری اور خدائی تصرفات کے تحت ان کی سزا کے واقعہ کا تفصیلی بیان۔
چار مرحومین مکرمہ حاجیہ رقیہ خالد صاحبہ صدر لجنہ اماء اللہ گھانا، مکرمہ صفیہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم شیخ مبارک احمد صاحب مرحوم (مبلغ سلسلہ)، مکرم علی احمد صاحب ریٹائرڈ معلّم وقفِ جدید اور مکرمہ رفیقاں بی بی صاحبہ نارووال کا ذکر خیر۔
اور ان کے ساتھ بعض دیگر مرحومین (مکرم ناصر سعید صاحب، مکرم غلام مصطفیٰ صاحب، ڈاکٹر پیر محمدنقی الدین صاحب اور مکرم ذوالفقار احمد دامانک صاحب مربی سلسلہ انڈونیشیا) کی بھی نمازِ جنازہ غائب۔
فرمودہ 10؍جولائی2020ء بمطابق 10؍ وفا 1399 ہجری شمسی، بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔