بدری اصحاب نبویؐ کی سِیرِ مبارکہ
خطبہ جمعہ 17؍ جولائی 2020ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
گذشتہ خطبے میں حضرت سعد بن مُعَاذؓ کا ذکر ہو رہا تھا۔ غزوہ احزاب اور حضرت سعد بن مُعَاذؓ کا ذکر کرتے ہوئے سیرت خاتم النبیینؐ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے یوں لکھا ہے کہ
’’اس لڑائی میں مسلمانوں کا جانی نقصان زیادہ نہیں ہوا۔ یعنی صرف پانچ چھ آدمی شہید ہوئے مگر قبیلہ اوس کے رئیس اعظم سعد بن مُعَاذؓ کو ایسا کاری زخم آیا کہ وہ بالآخر اس سے جانبر نہ ہو سکے اور یہ نقصان مسلمانوں کے لئے ایک ناقابل تلافی نقصان تھا۔ کفار کے لشکر میں سے صرف تین آدمی قتل ہوئے لیکن اس جنگ میں قریش کو کچھ ایسا دھکا لگا کہ اس کے بعد ان کو پھر کبھی مسلمانوں کے خلاف اس طرح جتھہ بناکر نکلنے یامدینہ پر حملہ آور ہونے کی ہمت نہیں ہوئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی لفظ بلفظ پوری ہوئی۔‘‘ (سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ: 595)
جیسا کہ پچھلے خطبے میں ذکر ہو چکا ہے کہ آپؐ نے فرمایا تھا: آئندہ سے کفار کو ہمت نہیں ہوگی کہ ہم پر حملہ کریں۔ حضرت سعد بن مُعَاذؓ کو غزوۂ خندق کے موقعے پر کلائی میں زخم آیا جس سے آپؓ کی شہادت ہوئی۔ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ میں غزوۂ خندق کے روز نکلی اور لوگوں کے قدموں کے نشان پر چل رہی تھی کہ مَیں نے پیچھے سے آہٹ سنی۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو حضرت سعد بن مُعَاذؓ اپنے بھتیجے حارث بن اوس کے ہمراہ ڈھال لیے ہوئے تھے۔ مَیں زمین پر بیٹھ گئی۔ حضرت سعد بن مُعَاذؓ میرے پاس سے رجزیہ شعر پڑھتے ہوئے گزرے کہ
لَبِّثْ قَلِیْلًا یُدْرِکُ الْہَیْجَا حَمَلْ
مَا أَحْسَنَ الْمَوْتَ إِذَا حَانَ الْأَجَلْ!
کہ کچھ دیر انتظار کرو یہاں تک کہ حَمَلْ جنگ کے لیے حاضر ہو جائے۔ موت کیا ہی اچھی ہوتی ہے جب مقررہ میعاد کا وقت آ گیا ہو۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضرت سعد بن مُعَاذؓ کے بدن پر ایک زرہ تھی جس سے آپ کی دونوں اطراف باہر تھیں۔ یعنی جسم بھاری ہونے کی وجہ سے، چوڑا ہونے کی وجہ سے اس سے باہر نکل رہا تھا۔ کہتی ہیں کہ مجھے اس بات پر حضرت سعدؓ کی دونوں اطراف کے زخمی ہونے کا اندیشہ ہوا کہ زرہ سے باہر ہیں۔ حضرت سعد طویل القامت اور عظیم الجثہ لوگوں میں سے تھے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ: 322 ’’سَعْد بِنْ مُعَاذ‘‘، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 1990ء)
حضرت سعد بن مُعَاذؓ کو ابن عَرِقَہ نے زخمی کیا تھا۔ ا بن عرقہ کا نام حَبَّانْ بن عَبدِ مُنَاف تھا۔ قبیلہ بنو عَامِر بن لُؤیّ سے تعلق رکھتا تھا۔ عَرِقَہ اس کی والدہ کا نام تھا۔ (الاصابہ فی تمییز الصحابہ لابن حجر عسقلانی جلد03صفحہ71زیرلفظ ’’سَعْد بِنْ مُعَاذ”، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2005ء)
حضرت جابرؓ سے روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حضرت سعد بن مُعَاذؓ کے بازو کی رَگ میں تیر لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے تیر کے پھل کو نکال کر پھل سے اس کو پھر بعد میں کاٹ کر داغ دیا، اس زخم کو کاٹ کر داغ دیا پھر وہ سوج گیا۔ آپؐ نے اس کو دوبارہ کاٹ کر دوبارہ داغ دیا۔ جو زخم لگا تھا تیر کے پھل سے ہی اس کو کاٹا اور پھر داغ دیا۔ (صحیح مسلم کتاب السلام باب لِکُلِّ دَاءٍ دَوَاءٌ وَاسْتِحْبَابِ التَّدَاوِیحدیث: 2208)
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ مشرکین میں سے ایک شخص ابن عرقہ حضرت سعد بن مُعَاذؓ کو تیر مار رہا تھا۔ اس نے ایک تیر مارتے ہوئے کہا: یہ لو مَیں ابن عرقہ ہوں۔ وہ تیر حضرت سعدؓ کے بازو کی رگ میں لگا۔ زخمی ہونے پر حضرت سعدؓ نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کی کہ اے اللہ! مجھے اس وقت تک موت نہ دینا جب تک کہ تو بنو قریظہ سے میری تسلی نہ کرا دے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ322زیر لفظ ’’سَعْد بِنْ مُعَاذ‘‘، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 1990ء)
حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ خندق کے روز حضرت سعدؓ کو زخم آیا۔ قریش کے ایک شخص حَبَّان بن عَرِقَہ نے آپؓ کی کلائی پر تیر مارا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں ان کے لیے ایک خیمہ نصب کیا تاکہ قریب رہ کر ان کی عیادت کر سکیں۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ325 ’’سَعْد بِنْ مُعَاذ‘‘، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 1990ء)
حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ حضرت سعدؓ کا زخم خشک ہو کر اچھا ہونے لگا تو انہوں نے دعا کی کہ اے اللہ ! تُو جانتا ہے کہ مجھے تیری راہ میں اس قوم کے خلاف جہاد کرنے سے بڑھ کر کوئی چیز زیادہ محبوب نہیں جس نے تیرے رسول کو جھٹلایا اور اسے نکال دیا۔ اے اللہ ! میں خیال کرتا ہوں کہ تو نے ہمارے اور ان کے درمیان جنگ کا خاتمہ کر دیا ہے۔ اگر قریش کی جنگ میں سے کچھ باقی ہے تو مجھے ان کے مقابلے کے لیے زندہ رکھ۔ اگر ابھی مزید کچھ جنگیں ہونی ہیں تو پھر مجھے اس وقت تک زندہ رکھ تا کہ میں تیری راہ میں ان سے جہاد کر سکوں اور اگر تُو نے ہمارے اور ان کے درمیان جنگ کا خاتمہ کر دیا ہے جس طرح کہ میری سوچ ہے تو پھر میری رَگ کھول دے اور اس زخم کو میری شہادت کا ذریعہ بنا دے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ زخم اسی رات پھٹ گیا اور اس میں سے خون بہ نکلا۔ مسجدنبویؐ میں بنو غفار کے لوگ خیمہ زن تھے۔ خون بہ کر جب ان کے پاس پہنچا تو وہ خوفزدہ ہو گئے۔ لوگوں نے کہا اے خیمے والو ! یہ خون کیسا ہے جو تمہاری طرف سے ہمارے پاس آ رہا ہے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ حضرت سعدؓ کے زخم سے خون بہ رہا تھا اور اسی سے ان کی وفات ہو گئی۔
حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ حضرت سعد بن مُعَاذؓ کا خون بہنے لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کر ان کی طرف گئے اور انہیں اپنے ساتھ چمٹایا۔ خون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ اور داڑھی پر لگ رہا تھا۔ جس قدر کوئی شخص آپ کو خون سے بچانا چاہتا تھا یعنی جس طرح وہ بہ رہا تھا لوگوں کی کوشش تھی کہ آپؐ کو خون نہ لگے، اس سے زیادہ آپؐ حضرت سعدؓ کے قریب ہو جاتے تھے یہاں تک کہ حضرت سعدؓ وفات پا گئے۔
ایک اَور روایت میں ہے کہ جب حضرت سعد بن مُعَاذؓ کا زخم پھٹ گیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپؐ ان کے پاس تشریف لائے، ان کا سر اپنی گود میں رکھا اور انہیں سفید چادر سے ڈھانپ دیا گیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی کہ اے اللہ! سعدؓ نے تیری راہ میں جہاد کیا اور تیرے رسول کی تصدیق کی اور جو اس کے ذمے تھا اسے ادا کر دیا پس تُو اس کی روح کو اس خیر کے ساتھ قبول فرما جس کے ساتھ تُوکسی روح کو قبول کرتا ہے۔ جب حضرت سعدؓ نے، کچھ تھوڑی سی ہوش تھی، اس وقت قریب المرگ تھے، حضرت سعدؓ نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلمات سنےتو انہوں نے اپنی آنکھیں کھولیں اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ پر سلام ہو۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپؐ اللہ کے رسول ہیں۔ جب سعدؓ کے گھر والوں نے دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعدؓ کا سر اپنی گود میں رکھا ہوا ہے تو وہ ڈر گئے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کا ذکر کیا گیا کہ سعدؓ کے گھر والے آپؐ کی گود میں اس کا سر دیکھ کر ڈر گئے تھے تو آپؐ نے یہ دعا دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَیں اللہ سے اس بات کا طالب ہوں کہ جس قدر تم لوگ اس وقت گھر میں موجود ہو اتنی ہی زیادہ تعداد میں فرشتے حضرت سعدؓ کی وفات کے وقت حاضر ہوں۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ325-326 ’’سَعْد بِنْ مُعَاذ‘‘، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 1990ء)
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو باریک ریشمی کپڑے کا ایک چوغہ تحفہ دیا گیا۔ آپ ریشمی کپڑا پہننے سے منع فرمایا کرتے تھے۔ وہ کپڑا دیکھ کر لوگوں کو تعجب ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اُس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمدؐ کی جان ہے سعد بن مُعَاذؓ کے رومال جنت میں اس سے زیادہ خوبصورت ہوں گے۔ یہ بخاری کی حدیث ہے۔ (صحیح بخاری کتاب الھدیہ بَابُ قَبُولِ الہَدِیَّۃِ مِنَ المُشْرِکِینَ حدیث: 2615)
انہوں نے ہاتھ میں کپڑا دیکھا۔ ان کا خیال تھا شایدنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کو استعمال کریں گے کیونکہ آپ تو منع فرمایا کرتے تھے لیکن بہرحال آپؐ نے اس کو دیکھ کے یہ مثال دی کہ تم اس پر حیران ہو رہے ہو بلکہ حیرت کا اظہار کیا۔ اصل میں تو دوسری حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ لوگوں نے حیرت کا اظہار کیا جیسا کہ مسلم کی حدیث میں ہے۔ اس کی روایت اس طرح ہے کہ حضرت براءؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک ریشمی چوغہ تحفۃً پیش کیا گیا جسے آپؐ کے صحابہؓ چھُونے لگے اور اس کی نرمی پر تعجب کا اظہار کرنے لگے۔ اس پر آپؐ نے فرمایا کیا تم اس کی نرمی پر تعجب کرتے ہو! یقینا ًجنت میں سعد بن مُعَاذؓ کے رومال اس سے زیادہ بہتر اور زیادہ نرم ہیں۔ (صحیح مسلم کتاب فَضَائِلِ الصَّحَابَۃِ بَابُ مِنْ فَضَائِلِ سَعْد بِنْ مُعَاذ2468)
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپؐ فرماتے تھے سعد بن مُعَاذؓ کی وفات پر عرش کانپ گیا۔ یہ بخاری کی روایت ہے۔ (صحیح بخاری کِتَاب مَنَاقِبِ الْأَنْصَارِ بَابُ مَنَاقِبِ سَعْد بِنْ مُعَاذ حدیث: 3803)
اور مسلم میں اس طرح ہے کہ حضرت انس بن مالکؓ نے بیان کیا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جبکہ حضرت سعدؓ کا جنازہ رکھا ہوا تھا فرمایا کہ اس کی وجہ سے رحمان کا عرش لرز اُٹھا۔ (صحیح مسلم کتاب فَضَائِلِ الصَّحَابَۃِ بَابُ مِنْ فَضَائِلِ سَعْد بِنْ مُعَاذ حدیث نمبر 2467)
ان باتوں کی تفصیل اور تھوڑی سی وضاحت حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے یوں فرمائی ہے۔ آپؓ لکھتے ہیں کہ
’’حضرت سعدبن مُعَاذؓ رئیس قبیلہ اوس کی کلائی میں جو زخم غزوۂ خندق کے موقعہ پر آیا تھا وہ باوجود بہت علاج معالجہ کے اچھا ہونے میں نہیں آتا تھااورمندمل ہو ہو کر پھر کھل کھل جاتا تھا۔ چونکہ وہ ایک بہت مخلص صحابی تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی تیمارداری کا خاص خیال تھا۔ اس لیے آپؐ نے غزوۂ خندق کی واپسی پر ان کے متعلق ہدایت فرمائی تھی کہ انہیں مسجد کے صحن میں ایک خیمہ میں رکھا جائے تاآپؐ آسانی کے ساتھ ان کی تیمارداری فرما سکیں۔ چنانچہ انہیں ایک مسلمان عورت رَفِیْدَہ نامی کے خیمہ میں رکھا گیا جو بیماروں کی تیمارداری اور نرسنگ میں مہارت رکھتی تھی‘‘ یعنی وہ ایسا خیمہ تھا جہاں مریض رکھے جاتے تھے ’’اور عموماً مسجد کے صحن میں خیمہ لگا کر مسلمان زخمیوں کاعلاج کیا کرتی تھی۔ مگرباوجود اس غیر معمولی توجہ کے سعدؓ کی حالت روبہ اصلاح نہ ہوئی اور اسی دوران میں بنوقریظہ کاواقعہ پیش آ گیاجس کی وجہ سے سعدؓ کو غیرمعمولی مشقت اور کوفت برداشت کرنی پڑی اور ان کی کمزوری بہت بڑھ گئی۔ انہی ایام میں ایک رات سعدؓ نے نہایت گریہ وزاری سے یہ دعا کی کہ اے میرے مولا! تُوجانتا ہے کہ میرے دل میں یہ خواہش کس طرح بھری ہوئی ہے کہ میں اس قوم کے مقابل میں تیرے دین کی حفاظت کے لیے جہاد کروں جس نے تیرے رسولؐ کی تکذیب کی اور اسے اس کے وطن سے نکال دیا۔ اے میرے آقا! میرے خیال میں اب ہمارے اور قریش کے درمیان لڑائی کا خاتمہ ہوچکا ہے لیکن اگرتیرے علم میں کوئی جنگ ابھی باقی ہے تو مجھے اتنی مہلت دے کہ میں تیرے رستے میں ان کے ساتھ جہاد کروں لیکن اگران کے ساتھ ہماری جنگ ختم ہوچکی ہے تو مجھے اب زندگی کی تمنا نہیں ہے۔ مجھے اس شہادت کی موت مرنے دے۔ لکھا ہے کہ اسی رات سعدؓ کازخم کھل گیا اور اس قدر خون بہا کہ خیمے سے باہر نکل آیا اور لوگ گھبرا کر خیمہ کے اندر گئے توسعدؓ کی حالت دگرگوں تھی۔ آخر اسی حالت میں سعدؓ نے جان دے دی۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوسعدؓ کی وفات کا سخت صدمہ ہوا اور واقعی اس وقت کے حالات کے ماتحت سعدؓ کی وفات مسلمانوں کے لئے ایک ناقابل تلافی نقصان تھی۔ سعدؓ کو انصار میں قریباً قریباً وہی حیثیت حاصل تھی جو مہاجرین میں ابوبکرصدیقؓ کوحاصل تھی۔ اخلاص میں، قربانی میں، خدمت اسلام میں، عشقِ رسول میں یہ شخص ایسا بلند مرتبہ رکھتا تھا جوکم ہی لوگوں کوحاصل ہوا کرتا ہے اور اس کی ہر حرکت وسکون سے یہ ظاہر ہوتاتھا کہ اسلام اور بانیٔ اسلام کی محبت اس کی روح کی غذا ہے اور بوجہ اس کے کہ وہ اپنے قبیلہ کا رئیس تھا اس کا نمونہ انصار میں ایک نہایت گہراعملی اثر رکھتا تھا۔ ایسے قابل روحانی فرزند کی وفات پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا صدمہ ایک فطری امر تھا مگر آپؐ نے کامل صبر سے کام لیا اور خدائی مشیت کے سامنے تسلیم ورضا کا سرجھکا دیا۔
جب سعدؓ کا جنازہ اٹھا تو سعدؓ کی بوڑھی والدہ نے بتقاضائے محبت کسی قدر بلند آواز سے ان کا نوحہ کیا اور اس نوحہ میں زمانہ کے دستور کے مطابق سعدؓ کی بعض خوبیاں بیان کیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نوحہ کی آواز سنی تو گو آپؐ نے اصولاً نوحہ کرنے کو پسندنہیں کیا مگر فرمایا کہ نوحہ کرنے والیاں بہت جھوٹ بولا کرتی ہیں لیکن اس وقت سعدؓ کی ماں نے جو کچھ کہا ہے وہ سچ کہا ہے۔ یعنی جو خوبیاں سعدؓ میں بیان کی گئی ہیں وہ سب درست ہیں۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز جنازہ پڑھائی اور دفنانے کے لیے خود ساتھ تشریف لے گئے اور قبر کی تیاری تک وہیں ٹھہرے رہے اور آخر وہاں سے دعا کرنے کے بعد تشریف لائے۔
غالباً اسی دوران میں کسی موقعہ پرآپؐ نے فرمایا کہ اِھْتَزَّ عَرْشُ الرَّحْمٰنِ لِمَوْتِ سَعْدٍ یعنی سعدؓ کی موت پر خدائے رحمان کاعرش جھومنے لگ گیا ہے۔‘‘ باقیوں نے (ترجمہ) کیا ہے کہ لرز اٹھا ہے یا کانپ اٹھا۔ آپؐ نے فرمایا کہ جھومنے لگ گیا ’’یعنی عالَمِ آخرت میں خدا کی رحمت نے خوشی کے ساتھ سعدؓ کی روح کااستقبال کیا۔‘‘ عرش کے جھومنے سے یہ مراد ہے۔ ’’ایک عرصہ کے بعد جب آپؐ کو کسی جگہ سے کچھ ریشمی پارچات ہدیۃً آئے تو بعض صحابہ نے انہیں دیکھ کر ان کی نرمی اور ملائمت کا بڑے تعجب کے ساتھ ذکر کیا اور اسے ایک غیر معمولی چیز جانا۔ آپؐ نے فرمایاکیا تم اس کی نرمی پرتعجب کرتے ہو؟ خدا کی قسم جنت میں سعدؓ کی چادریں ان سے بہت زیادہ نرم اور بہت زیادہ اچھی ہیں۔‘‘ (سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 613-614)
بخاری اور مسلم کی آدھی احادیث میں جو پہلے ذکر ہوئی ہیں وہاں رومال کا ذکر ہے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے یہاں اس کا ترجمہ چادریں کیا ہے۔ بہرحال عربی کا جو لفظ استعمال ہوا ہے اس کے لحاظ سے کپڑے کو بھی کہتے ہیں۔ حضرت سعدؓ کی والدہ آپ کے غم میں روتے ہوئے یہ شعر پڑھ رہی تھیں۔
وَیْلُ أُمِّ سَعْدٍ سَعْدَا
بَرَاعَۃً وَ نَجْدَا
بَعْدَ أَیَادٍ یَا لَہٗ وَ مَجْدَا
مُقَدَّمًا سَدَّ بِہٖ مَسَدَّا
ام سعد کو سعد کی جدائی پر افسوس ہے جو ذہانت اور شجاعت کا پیکر تھا۔ جو بہادری اور شرافت کا مجسمہ تھا۔ اس محسن کی بزرگی کے کیا کہنے جو سب خلا پُر کرنے والا سردار تھا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
کُلُّ الْبَوَاکِیْ یَکْذِبْنَ إِلَّا أُمَّ سَعْدٍ۔
کہ کسی کے مرنے پر ہر رونے والی جھوٹ بولتی ہے۔ غیر ضروری مبالغے سے کام لیتی ہے سوائے سعد کی والدہ کے۔ طبقات الکبریٰ کا یہ حوالہ ہے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ328 ’’سَعْد بِنْ مُعَاذ‘‘، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 1990ء)
حضرت سعدؓ بھاری بھرکم آدمی تھے جب ان کا جنازہ اٹھایا گیا تو منافقین کہنے لگے کہ ہم نے کسی آدمی کا جنازہ اس قدر ہلکا نہیں دیکھا جتنا حضرت سعدؓ کا تھا اور یہ کہتے جاتے تھے کہ ایسا ان کے بنو قریظہ کے متعلق فیصلے کی وجہ سے ہوا ہے یعنی اس کو منفی رنگ دینا چاہتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس کے بارے میں آگاہ کیا گیا تو آپؐ نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! سعدؓ کا جنازہ جو تمہیں ہلکا لگا تو وہ اس لیے کہ سعدؓ کا جنازہ ملائکہ اٹھائے ہوئے ہیں۔ ایک دوسری روایت کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ستر ہزار فرشتے سعد بن مُعَاذؓ کے جنازے پر حاضر ہیں جو آج سے قبل کبھی زمین پر نہیں اترے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ328 ’’سَعْد بِنْ مُعَاذ‘‘، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 1990ء) (اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ المجلد الثانی صفحہ 464 ’’سَعْد بِنْ مُعَاذ‘‘ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان2003ء)
حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت سعد بن مُعَاذؓ کے جنازے کے آگے آگے چلتے ہوئے دیکھا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ329 ’’سَعْد بِنْ مُعَاذ‘‘، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 1990ء)
حضرت ابوسعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ میں ان لوگوں میں شامل تھا جنہوں نے جنۃالبقیع میں حضرت سعد بن مُعَاذؓ کی قبر کھودی تھی۔ جب ہم مٹی کا کوئی حصہ کھودتے تو مُشک کی خوشبو آتی یہاں تک کہ ہم لحد تک پہنچ گئے۔ جب ہم قبر کھود چکے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ حضرت سعدؓ کا جنازہ قبر کے پاس رکھا گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ جنازہ پڑھائی۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ میں نے اتنی کثرت سے آدمی دیکھے جنہوں نے جنۃ البقیع کو بھر دیا تھا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ329-330 ’’سَعْد بِنْ مُعَاذ‘‘، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 1990ء)
عبدالرحمٰن بن جابر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت سعدؓ کی قبر تیار ہو چکی تو چار افراد حارث بن اوسؓ، اُسَید بن حُضَیرؓ، ابونائلہ سِلکان بن سَلَامہؓ اور سَلَمہ بن سَلَامہ بن وَقْشؓ حضرت سعدؓ کی قبر میں اترے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سعدؓ کے قدموں کی جانب کھڑے تھے۔ جب حضرت سعؓ د کو قبر میں اتار دیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کا رنگ تبدیل ہو گیا۔ آپؐ نے تین مرتبہ سبحان اللہ کہا۔ آپؐ کے ساتھ تمام صحابہؓ نے بھی تین مرتبہ سبحان اللہ کہا۔ یہاں تک کہ جنۃ البقیع گونج اٹھا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ اللہ اکبرکہا۔ آپؐ کے ساتھ تمام صحابہؓ نے بھی اللہ اکبرکہا۔ یہاں تک کہ جنۃ البقیع اللہ اکبر سے گونج اٹھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہؐ ! ہم نے آپؐ کے چہرے کی تبدیلی دیکھی اور آپؐ نے تین مرتبہ سبحان اللہ کہا۔ اس کی کیا وجہ ہے۔ تو آپؐ نے فرمایا کہ سعدؓ پر قبر میں تنگی ہوئی اور انہیں دبایا گیا۔ اگر اس سے کسی کو نجات ہوتی تو سعدؓ کی ضرور ہوتی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے اسے کشادہ کر دیا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ330 ’’سَعْد بِنْ مُعَاذ‘‘، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 1990ء)
مِسْوَر بن رِفَاعَہ قُرَظِی بیان کرتے ہیں کہ حضرت سعد بن مُعَاذؓ کی والدہ انہیں لحد میں اتارنے کے لیے آئیں تو لوگوں نے انہیں واپس بھیج دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انہیں چھوڑ دو۔ وہ آئیں اور قبل اس کے کہ ان کی قبر پر اینٹ اور مٹی ڈالی جاتی انہوں نے حضرت سعدؓ کو لحد میں دیکھا اور کہا مجھے یقین ہے کہ تم اللہ کے پاس ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعدؓ کی قبر پر ان کی والدہ سے تعزیت کی اور ایک جانب بیٹھ گئے۔ مسلمانوں نے قبر پر مٹی ڈال کر اسے برابر کر دیا اور اس پر پانی چھڑک دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبر کے پاس تشریف لائے کچھ دیر وہاں ٹھہرے اور پھردعا کی اور واپس تشریف لے گئے۔
حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے دو ساتھیوں حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے بعد مسلمانوں پر کسی کی جدائی اتنی شاق نہ تھی جتنی حضرت سعد بن مُعَاذؓ کی۔ حضرت سعد بن مُعَاذؓ کی عمر وفات کے وقت 37سال تھی۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ330-331 ’’سَعْد بِنْ مُعَاذ‘‘، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 1990ء)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن مُعَاذؓ کی والدہ کو فرمایا کیا تمہارا غم ختم نہ ہو گا اور تمہارے آنسو نہیں تھمیں گےکیونکہ تمہارا بیٹا وہ پہلا شخص ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ مسکرایا اور جس کے لیے عرش لرز اٹھا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ332 ’’سَعْد بِنْ مُعَاذ‘‘، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 1990ء)
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعدؓ کو دفن کیا اور ان کے جنازے سے لوٹے تو آپؐ کے آنسو آپؐ کی داڑھی پر بہ رہے تھے۔ (اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ المجلد الثانی صفحہ 463 ’’سَعْد بِنْ مُعَاذ‘‘ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان2003ء)
ایک روایت حضرت سعد کے حوالے سے ہے۔ حضرت سعدؓ نے بیان کیا کہ مَیں بے شک کمزور ہوں مگر تین باتوں میں مَیں بہت پختہ ہوں۔ جو اپنی باتیں انہوں نے بتائیں کہ میرے اندر تین باتیں کیا ہیں۔ بہت کمزور انسان ہوں لیکن یہ تین باتیں ہیں جو میرے اندر بہت پکی ہیں اور ان پر میں عمل کرتا ہوں۔ پہلی یہ کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو سنا اسے حق جانا۔ کوئی کبھی ان کو انقباض نہیں ہوا۔ دوسرا یہ کہ میں نے اپنی نماز میں نماز کے علاوہ کوئی دوسرا خیال نہیں آنے دیا یہاں تک کہ نماز مکمل کر لوں۔ بڑی توجہ سے نماز پڑھتے تھے۔ تیسرا یہ کہ کوئی جنازہ حاضر نہیں ہوتا تھا مگر میں اپنے آپ کو اس کی جگہ مردہ خیال کر کے سوچتا ہوں کہ وہ کیا کہے گا اور اس سے کیا پوچھا جائے گا۔ گویا کہ وہ سوال و جواب مجھ سے ہو رہے ہیں۔ آخرت کی فکر تھی۔ (مجمع الزوائد کتاب المناقب بَابُ مَا جَاءَ فِی أُسَیْدِ بْنِ حُضَیْرٍ حدیث: 15689 جلد 09 صفحہ 375 دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)
حضرت عائشہؓ فرماتی تھیں کہ انصار کے تین افراد ایسے تھے جو سب بنو عَبْدُالْاَشْھَل میں سے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو ان پر فضیلت نہیں دی جاتی تھی اور وہ حضرت سعد بن مُعَاذؓ، حضرت اُسَید بن حُضَیرؓ، اور حضرت عَبَّاد بن بِشْرؓ تھے۔ (الاصابہ فی تمییز الصحابہ لابن حجر عسقلانی جلد03صفحہ71 ’’سَعْد بِنْ مُعَاذ‘‘ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 1995ء)
اگلے جن صحابی کا ذکر ہے ان کا نام ہے حضرت سعد بن ابی وقّاصؓ۔ حضرت سعدؓ کی کنیت ابو اسحاق تھی۔ آپؓ کے والد کا نام مالک بن اُھَیْب جبکہ بعض روایات میں مالک بن وُھَیْب بھی بیان ہوا ہے۔ آپؓ کے والد اپنی کنیت ابو وَقَّاصْ کی وجہ سے زیادہ مشہور ہیں اس لیے آپ کا نام سعد بن ابی وقّاصؓ بیان کیا جاتا ہے۔ آپؓ کی والدہ کا نام حَمْنَہ بنتِ سُفْیَان تھا۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جزء ثانی صفحہ 606-607، دار الجیل بیروت) (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء ثالث صفحہ 101، سعد بن ابی وقّاص، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان، 1990ء)
حضرت سَعْد بن ابی وَقّاصؓ کا تعلق قریش کے قبیلہ بَنُو زُہْرَہ سے تھا۔ (سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ123) (سیرت ابن ہشام جلد 1 صفحہ 680-681، من بنی زُہْرَہ، مکتبہ مصطفیٰ البابی الحلبی و اولادہ، مصر۔ 1955ء)
حضرت سعد بن ابی وقّاصؓ ان دس صحابہ میں سے ہیں جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں جنت کی بشارت دی تھی۔ ان دس صحابہ کو عشرہ مبشرہ کہتے ہیں اور حضرت سعد بن ابی وقّاصؓ ان میں سب سے آخر پر فوت ہوئے۔ (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ جزء الثانی صفحہ 324، دارالفکر بیروت لبنان، 2001ء)
یہ تمام اصحاب یعنی عشرہ مبشرہ مہاجرین میں سے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات کے وقت ان سے راضی تھے۔
حضرت سعد بن ابی وقّاصؓ اپنے ایمان لانے کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ کسی نے بھی اسلام قبول نہیں کیا مگر اس دن جس دن کہ میں نے اسلام قبول کیا اور میں سات دن تک ٹھہرا رہا اور حالت یہ تھی کہ میں مسلمانوں کا ایک تہائی تھا۔ (صحیح بخاری کتاب فضائل اصحاب النبیﷺ باب مناقب سعد بن ابی وقّاص حدیث نمبر 3727) (صحیح بخاری کتاب مناقب انصار باب اسلام سعدحدیث نمبر 3858)
تین آدمی تھے۔ آپ کا بیان ہے کہ میں نماز کے فرض ہونے سے پہلے مسلمان ہو چکا تھا۔ (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جزء ثانی صفحہ 453، سعد بن مالک، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان، 2003ء)
حضرت سعدؓ کے اسلام لانے کا واقعہ ان کی بیٹی بیان کرتی ہیں کہ حضرت سعدؓ نے فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں تاریکی میں ہوں اور مجھے کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ اچانک میں دیکھتا ہوں کہ چاند طلوع ہوا اور میں اس کی طرف چل پڑا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ مجھ سے پہلے حضرت زید بن حارثہؓ، حضرت علیؓ اور حضرت ابوبکرؓ چاند کی طرف جا رہے ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کب پہنچے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم بھی ابھی پہنچے ہیں۔ حضرت سعدؓ فرماتے ہیں کہ مجھے خبر مل چکی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مخفی طور پر اسلام کی طرف بلا رہے ہیں۔ چنانچہ میں شِعْبِ اَجْیَاد میں آ کر آپ کو ملا۔ اَجْیَاد مکےّ میں صفا پہاڑی سے متصل ایک مقام کا نام ہے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بکریاں چرائی ہیں۔ آپؐ عصر کی نماز پڑھ کر فارغ ہوئے تھے کہ میں پہنچ گیا اور بیعت کر کے مسلمان ہو گیا۔ (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جزو ثانی صفحہ 455، سعد بن مالک، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان، 2003ء) (روشن ستارے از غلام باری سیف صاحب جلد 2صفحہ 63-64)(فرہنگ سیرت صفحہ30زوار اکیڈمی کراچی 2003ء)
حضرت سعدؓ کی بیٹی عائشہ بنت سعد روایت کرتی ہیں کہ میں نے اپنے والد کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ جب میں مسلمان ہوا اس وقت میری عمر سترہ سال تھی۔ بعض روایات میں ایمان لانے کے وقت ان کی عمر انیس سال بھی بیان ہوئی ہے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء ثالث صفحہ 103، سعد بن ابی وقّاص، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان، 1990ء)
اوّلین اسلام لانے والوں میں حضرت ابوبکرؓ کی تبلیغ سے پانچ ایسے اشخاص ایمان لائے جو اسلام میں جلیل القدر اور عالی مرتبہ اصحاب میں شمار کیے جاتے ہیں۔ ان میں تیسرے حضرت سعد بن ابی وقّاصؓ تھے جو اس وقت بالکل نوجوان تھے۔ یہ سیرت خاتم النبیینؐ میں جو لکھا ہے اسی سے اخذ کیا گیا ہے یعنی اس وقت ان کی عمر انیس سال تھی۔ یہ بنو زُہْرَہ میں سے تھے اور نہایت دلیر اور بہادر تھے۔ حضرت عمرؓ کے زمانے میں عراق انہی کے ہاتھ پر فتح ہوا اور امیر معاویہ کے زمانہ میں فوت ہوئے تھے۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 122-123)
حضرت سعد بن ابی وقّاصؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت سی روایات بیان کی ہیں۔ (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ جزء الثانی صفحہ 324، دارالفکر بیروت لبنان، 2001ء)
حضرت سعدؓ کے بیٹے مُصْعَب بیان کرتے ہیں کہ میرے والد سعدؓ نے مجھے بیان کیا کہ میری ماں نے یعنی حضرت سعدؓ کی ماں نے قسم کھائی تھی کہ وہ ان سے کبھی بات نہیں کرے گی یہاں تک کہ وہ اپنے دین کا انکار کر دے یعنی اسلام سے پِھر جائیں۔ چنانچہ نہ وہ کھاتیں اور نہ پیتی تھیں۔ کہتے ہیں کہ میری ماں نے کہا تو بیان کیا کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے والدین سے احسان کی تاکید کرتا ہے۔ تم کہتے ہو ناں کہ تمہارا دین یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ اپنے والدین سے احسان کرو۔ اس کی تاکید کی جاتی ہے۔ میں تمہاری ماں ہوں اور میں تمہیں اس کا حکم دے رہی ہوں کہ اب اس کو چھوڑو اور میری بات جو میں کہتی ہوں وہ مانو۔ راوی کہتے ہیں کہ تین روز تک وہ اس حالت میں رہیں یہاں تک کہ کمزوری کی وجہ سے ان پر غشی طاری ہو گئی۔ پھر ان کا بیٹا جسے عُمَارَہ کہا جاتا تھا کھڑا ہوا اور انہیں پانی پلایا۔ پھر جب ہوش آئی تو وہ سعدؓ کو بددعا دینے لگیں۔ تب اللہ عز و جل نے قرآن میں یہ آیت اتاری کہ
وَوَصَّیْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حُسْنًا (العنکبوت: 9)
کہ ہم نے انسان کو اس کے والدین کے حقوق میں احسان کی تاکیدی نصیحت کی۔ وَوَصَّیْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حُسْنًا۔ یہ عنکبوت کی آیت ہے اور پھر سورۂ لقمان میں یہ ہے کہ وَإِنْ جَاہَدَاکَ عَلٰى أَنْ تُشْرِکَ بِیْ (لقمان: 16)اگر وہ دونوں تجھ سے جھگڑا کریں کہ تُو میرا شریک ٹھہرا تو اطاعت نہ کر۔ وَإِنْ جَاہَدَاکَ عَلٰى أَنْ تُشْرِکَ بِیْ کہ اگر وہ کہیں تو میرا شریک ٹھہرا تو پھر ان کی اطاعت نہیں کرنی اور اس میں پھر آگے یہ بھی ہے کہ وَصَاحِبْہُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوفًا(لقمان: 16) دونوں کے ساتھ دنیا میں دستور کے مطابق رفاقت جاری رکھو۔ ان سے تعلق رکھو۔ ان سے نیکی کرو۔ (صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابہ باب فضل سعد بن ابی وقّاص حدیث: 1748)
یہ جھگڑا اگر شرک کے بارے میں کرنا ہے تو پھر بات نہیں ماننی۔ یہ جو تفصیلی بات ہے یہ مضمون اسی طرح پورا آگے چلتا ہے۔ لیکن جو دنیاوی معاملات ہیں ان میں ان سے رفاقت جاری رکھو۔ وَصَاحِبْہُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوفًا ان سے تعلق رکھو۔ ان سے نیکی کرو۔
یہ پہلی روایت مسلم میں تھی۔ آگے پھر سیرت میں ایک اَور حوالے سے لکھا ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقّاصؓ بیان کرتے ہیں کہ میں اپنی والدہ کے ساتھ بہت پیار کرتا تھا مگر جب میں نے اسلام قبول کیا تو اس نے کہا کہ اے سعد! یہ کون سا دین تُو نے اختیار کر لیا ہے۔ یا تو تُو اس نئے دین کو ترک کر دے یا مَیں کچھ نہ کھاؤں اور نہ پیوں گی یہاں تک کہ میں مر جاؤں گی۔ حضرت سعدؓ کہتے ہیں کہ میں نے ان سے کہا کہ اے پیاری ماں ! ایسا نہ کرنا کیونکہ میں اپنے دین کو چھوڑنے والا نہیں ہوں۔ حضرت سعدؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن اور ایک رات تک میری ماں نے نہ کچھ کھایا اور نہ پیا اور اس کی حالت خراب ہونے لگی تو میں نے ان سے کہا کہ اللہ کی قسم! اگر تمہاری ایک ہزار جانیں ہوں اور وہ ایک ایک کر کے نکلیں تب بھی میں کسی کی خاطر اپنے دین کو ترک نہیں کروں گا۔ جب آپ کی والدہ نے یہ دیکھا تو کھانا پینا شروع کر دیا۔ اس موقعے پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ
وَإِنْ جَاہَدَاکَ عَلٰى أَنْ تُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْہُمَا وَصَاحِبْہُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًا (لقمان: 16)
یعنی اگر وہ دونوں تجھ سے بحث کریں کہ تُو کسی کو میرا شریک مقرر کرے جس کا تجھ کو کوئی علم نہیں مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ کوئی علم نہیں ہے فَلَا تُطِعْہُمَا۔ تو ان دونوں کی بات مت ماننا۔ ہاں دنیاوی معاملات میں ان کے ساتھ نیک تعلقات قائم رکھو۔ (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جزء ثانی صفحہ 455، سعد بن مالک، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان، 2003ء)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سعدؓ کو اپنا ماموں کہا کرتے تھے۔ (اصحاب بدر از قاضی محمد سلیمان سلمان منصورپوری صفحہ 91 مکتبہ اسلامیہ لاہور 2015ء)
ایک دفعہ حضرت سعدؓ سامنے سے آ رہے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھ کر فرمایا یہ میرے ماموں ہیں۔ کسی کا ایسا ماموں ہو تو دکھائے۔ امام ترمذی نے اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ کا تعلق بنو زُہْرَہ سے تھا اور حضرت سعد بن ابی وقّاصؓ کا تعلق بھی بنو زُہْرَہ سے تھا۔ (جامع ترمذی کتاب المناقب باب مناقب ابو اسحاق سعد بن ابی وقّاص حدیث نمبر 3752)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حرا پہاڑ پر تھے کہ وہ ہلنے لگا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے حرا !ٹھہر جا کیونکہ تجھ پر نبی یا صدیق یا شہید کے علاوہ کوئی نہیں ہے۔ اس پہاڑ پر اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ، حضرت زبیر بن العوامؓ، حضرت سعد بن ابی وقّاصؓ تھے۔ یہ مسلم کی روایت ہے۔ (صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابہ باب فضائل طلحۃ و الزبیرحدیث 2417)
اسلام کے ابتدائی ایام میں جب مسلمان چھپ کر نمازیں ادا کیا کرتے تھے تو ایک مرتبہ حضرت سعدؓ مکےکی ایک گھاٹی میں کچھ صحابہ کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے کہ وہاں مشرکین آ پہنچے اور انہوں نے مسلمانوں کا مذاق اڑانا شروع کیا اور ان کے دین یعنی اسلام میں عیب نکالنا چاہے یہاں تک کہ لڑائی تک نوبت پہنچ گئی۔ حضرت سعدؓ نے ایک مشرک کے سر پر اونٹ کی ہڈی اس زور سے ماری کہ اس کا سر پھٹ گیا۔ پس یہ پہلا خون تھا جو اسلام میں بہایا گیا تھا۔ (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ جزء الثانی صفحہ 324، دارالفکر بیروت لبنان، 2001ء)
مکے میں جب کفار نے مسلمانوں کے ساتھ بائیکاٹ کیا اور ان کو شِعْبِ ابی طالب میں محصور کر دیا گیا تو وہ مسلمان جو ان تکالیف کا شکار ہوئے ان میں سے ایک حضرت سعد بن ابی وقّاصؓ بھی تھے۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے‘ سیرت خاتم النبیینؐ ’میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس طرح لکھا ہے کہ
’’جو جو مصائب اور سختیاں ان ایام میں ان محصورین کو اٹھانی پڑیں ان کا حال پڑھ کر بدن پر لرزہ پڑ جاتا ہے۔ صحابہ کا بیان ہے کہ بعض اوقات انہوں نے جانوروں کی طرح جنگلی درختوں کے پتے کھا کھا کر گزارہ کیا۔ سعد بن ابی وقّاصؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رات کے وقت ان کا پاؤں کسی ایسی چیز پر جا پڑا جو تر اور نرم معلوم ہوتی تھی‘‘ غالباًکھجور کا کوئی ٹکڑا ہو گا ’’اس وقت ان کی بھوک کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے فوراً اسے اٹھا کر نِگل لیا اور وہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے آج تک پتہ نہیں کہ وہ کیا چیز تھی۔ ایک دوسرے موقعہ پر بھوک کی وجہ سے ان کا یہ حال تھا کہ انہیں ایک سو کھا ہوا چمڑا زمین پر پڑا ہوا مِل گیا تو اسی کو انہوں نے پانی میں نرم اور صاف کیا اور پھر بھون کر کھا یا اور تین دن اسی غیبی ضیافت میں بسر کیے۔‘‘ (سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 166-167)
جب اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ہجرت کا حکم دیا تو حضرت سعدؓ نے بھی مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی اور وہاں اپنے مشرک بھائی عُتْبَہ بن ابی وقّاص کے ہاں قیام کیا۔ عُتْبَہ سے مکہ میں ایک خون ہو گیا تھا جس کی وجہ سے وہ مدینہ میں آ کر آباد ہو گیا تھا۔ (روشن ستارے از غلام باری سیف صاحب جلد 2صفحہ 66-67)
حضرت سعدؓ اوّلین ہجرت کرنے والوں میں سے تھے۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ آمد سے پہلے ہجرت کر کے مدینہ آ گئے تھے۔ (عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری جلد 1صفحہ 305، دارالکتب العلمیۃ بیروت، 2001ء)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن ابی وقّاصؓ کی مؤاخات حضرت مُصْعَب بن عُمَیرؓ کے ساتھ فرمائی جبکہ ایک دوسری روایت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن ابی وقّاصؓ کی مؤاخات حضرت سعد بن مُعَاذؓ سے فرمائی۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء ثالث صفحہ 103، سعد بن ابی وقّاص، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان، 1990ء)
مؤاخات میں اس اختلاف کی مولانا غلام باری صاحب سیف نے یہ توجیہ پیش کی ہے کہ مکہ میں آپ کی مؤاخات حضرت مُصْعَبؓ کے ساتھ تھی اور مدینہ میں حضرت سعد بن مُعَاذؓ کے ساتھ تھی۔ (روشن ستارے از غلام باری سیف صاحب جلد 2صفحہ 64)
حضرت سعدؓ قریش کے بہادر شہ سواروں میں سے تھے۔ غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت اور دفاع کی ذمہ داری جن اصحاب کے سپرد ہوتی تھی ان میں سے ایک حضرت سعد بن ابی وقّاصؓ بھی تھے۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جزء ثانی صفحہ 172، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان، 2010ء)
ابو اسحاق روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے چار اشخاص بہت سخت حملہ آور تھے۔ حضرت عمرؓ، حضرت علیؓ، حضرت زُبیرؓ اور حضرت سعدؓ۔ (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ جزء الثانی صفحہ 325، دارالفکر بیروت لبنان، 2001ء)
ہجرت مدینہ کے بعد مسلمانوں کو کفار کی طرف سے حملے کا خوف اور پریشانی رہتی تھی جس کی وجہ سے شروع میں مسلمان اکثر راتوں کو جاگا کرتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی عموماً راتوں کو جاگتے رہتے تھے۔ اس بارے میں ایک روایت ملتی ہے حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں کہ مدینہ تشریف آوری کے زمانےمیں ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سو نہ سکے تو آپؐ نے فرمایا کاش ! میرے صحابہ میں سے کوئی نیک آدمی آج رات میرا پہرہ دے۔ وہ کہتی ہیں ہم اسی حال میں تھے کہ ہم نے اسلحہ کی آواز سنی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کون ہے؟ تو باہر سے یہ آواز آئی۔ آنے والے نے یہ عرض کیا کہ سعد بن ابی وقّاص، کہ میں سعد بن ابی وقّاص ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا کہ تم یہاں کیسے آئے؟ انہوں نے کہا کہ میرے دل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں خوف پیدا ہوا اس لیے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہرے کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد کو دعا دی اور سو گئے۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 282-283) (صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابہ باب فضل سعد بن ابی وقّاص حدیث2410)
یہ بھی ایک حوالہ ہے کہ بخاری اور مسلم دونوں میں اس واقعے کا ذکر تو ہے لیکن اس کے ساتھ دعا کی تفصیل نہیں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا دعا دی تھی لیکن حضرت سعدؓ کے مناقب میں جو امام ترمذی نے بیان کیے ہیں ان میں ان کے بیٹے قیس سے روایت ہے کہ میرے والد سعدؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے دعا کی تھی کہ اَللّٰہُمَّ اسْتَجِبْ لِسَعْدٍ اِذَا دَعَا۔ کہ اے اللہ ! سعدؓ جب تجھ سے دعا کریں تو ان کی دعا کو قبول کیجیؤ اور اِکْمَال فِیْ اَسْمَاءِ الرِّجَال میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہ دعا دی تھی کہ اَللّٰہُمَّ سَدِّدْ سَھْمَہٗ وَاَجِبْ دَعْوَتَہ کہ اے اللہ ! ان کا تیر ٹھیک نشانے پر بیٹھے اور ان کی دعا قبول کرنا۔ (روشن ستارے از غلام باری سیف صاحب جلد 2صفحہ 67-68)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اسی دعا کی وجہ سے حضرت سعدؓ قبولیت دعا کی وجہ سے مشہور تھے۔ (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ جزء الثانی صفحہ 324-325، دارالفکر بیروت لبنان، 2001ء)
حضرت سعد بن ابی وقّاصؓ مستجاب الدعوات تھے۔ ایک شخص نے آپؓ پر جھوٹ گھڑا تو آپؓ نے اس کے خلاف دعا کی کہ اے اللہ! اگر یہ جھوٹ بول رہا ہے تو اس کی بصارت جاتی رہے اور اس کی عمر طویل ہو اور اسے فتنہ میں مبتلا کر دے۔ پس اس شخص کو یہ تمام چیزیں پہنچیں۔ (جامع العلوم و الحکم فی شرح خمسین حدیثا من جوامع الکلم جلد 2 صفحہ 350، مؤسسۃ الرسالۃ بیروت 2001ء)
ایک روایت میں آتا ہے کہ قیس بن ابی حازم بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں مدینہ کے بازار میں جارہا تھا کہ میں اَحْجَارُ الزَّیْت مقام پر پہنچا تو میں نے دیکھا کہ لوگوں کا ایک ہجوم ایک شخص کے پاس موجود تھا جو سواری پر بیٹھا تھا اور حضرت علیؓ کو گالیاں نکال رہا تھا۔ اتنے میں حضرت سعد بن ابی وقّاصؓ وہاں آگئے اور ان میں کھڑے ہو گئے اور ان سے پوچھا کہ کیا ہوا ہے؟ لوگوں نے جواب دیا کہ یہ آدمی حضرت علیؓ کو گالیاں دے رہا ہے۔ حضرت سعدؓ آگے بڑھے تو لوگوں نے انہیں راستہ دیا یہاں تک کہ آپؓ اس کے سامنے جا کھڑے ہوئے اور پوچھا اے شخص! تُو کیوں حضرت علیؓ کو گالیاں دے رہا ہے؟ کیا وہ سب سے پہلے اسلام نہیں لائے تھے؟ کیا وہ پہلے شخص نہیں تھے جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی؟ کیا وہ لوگوں میں سب سے زیادہ متقی انسان نہیں ہیں؟ کیا وہ لوگوں میں سب سے زیادہ علم والے انسان نہیں ہیں؟ حضرت سعدؓ بیان کرتے گئے یہاں تک کہ انہوں نے فرمایا کہ نیز کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اپنی بیٹی بیاہ کر ان کو اپنی دامادی کا شرف نہیں بخشا تھا؟ کیا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوات میں جھنڈا اٹھانے والے نہیں تھے؟ راوی کہتے ہیں کہ اس کے بعد حضرت سعدؓ نے قبلے کی طرف رخ کیا اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھایا اور دعا کی کہ اے اللہ! اگر اس نے تیرے اولیاء میں سے ایک ولی یعنی حضرت علیؓ کو گالیاں دی ہیں تو تُو اس مجمعےکے منتشر ہونے سے پہلے اپنی قدرت کا نشان دکھا۔ یہ مستدرک کا حوالہ ہے۔ راوی قیس کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم ! ابھی ہم وہاں سے منتشر نہیں ہوئے تھے کہ اس شخص کی سواری نے اسے نیچے گر ادیا اور اس کے سر کو اپنے پیروں سے پتھر پر مارا جس سے اس کا سر پھٹ گیا اور وہ مر گیا۔ (المستدرک کتاب معرفۃ الصحابہ باب سعد بن ابی وقّاص روایت 6121 جلد 3 صفحہ 571-572 دار الکتب العلمیہ بیروت 2002ء)
حضرت سعدؓ نے جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت مدینہ کے فوراً بعد رات کو حفاظت کی تھی، اسی طرح کا ان کا ایک اور واقعہ غزوۂ خندق کے موقعےپر بھی تاریخ میں نظر آتا ہے۔ اس کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ آپؐ پہرہ دیتے ہوئے تھک جاتے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم۔ جس طرح باقی صحابہ پہرہ دے رہے ہوتے تھے آپؐ بھی صحابہ کے ساتھ پہرہ دیتے اور سردی سے نڈھال ہو جاتے۔ تب واپس آ کر تھوڑی دیر میرے ساتھ لحاف میں لیٹ جاتے مگر جسم کے گرم ہوتے ہی پھر اس شگاف کی حفاظت کے لیے چلے جاتے۔ اسی طرح متواتر جاگنے سے آپؐ ایک دن بالکل نڈھال ہو گئے اور رات کے وقت فرمایا کاش اس وقت کوئی مخلص مسلمان ہوتا تو مَیں آرام سے سو جاتا۔ اتنے میں باہر سے سعد بن ابی وقّاصؓ کی آواز آئی۔ آپؐ نے پوچھا کیوں آئے ہو۔ انہوں نے کہا آپؐ کا پہرہ دینے آیا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا مجھے پہرے کی ضرورت نہیں۔ تم فلاں جگہ جہاں خندق کا کنارا ٹوٹ گیا ہے جاؤ اور اس کا پہرہ دو تا مسلمان محفوظ رہیں۔ چنانچہ سعد اس جگہ کا پہرہ دینے چلے گئے اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ دیر کے لیے سو گئے۔ (ماخوذ از دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد 20 صفحہ 279)
حضرت سعد بن ابی وقّاص کا باقی ذکر ان شاء اللہ آئندہ ہو گا۔
آج بھی مَیں دو تین غائب جنازے پڑھاؤں گا جن کا اب اس وقت ذکر کروں گا۔ پہلا ذکر مکرم ماسٹر عبدالسمیع خان صاحب کاٹھگڑھی کا ہے جو 6؍ جولائی کو ربوہ میں وفات پا گئے تھے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ 1937ء میں قادیان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والدعبدالرحیم صاحب کاٹھگڑھی سلسلہ کے پرانے خدمت گزاروں میں سے تھے۔ آپ کے دادا حضرت چودھری عبدالسلام خان صاحب کاٹھگڑھی نے 1903ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دستِ مبارک پر بیعت کی سعادت پائی۔ آپ صحابی تھے۔ ابتدائی تعلیم پرائمری تو ماسٹر سمیع صاحب کی قادیان میں ہی ہوئی۔ پھر پارٹیشن ہو گئی تو میٹرک ربوہ آ کر کیا۔ آپ کی اولاد میں ایک بیٹا اور دو بیٹیاں شامل ہیں۔ ان کی اہلیہ تین چار سال پہلے وفات پا گئی تھیں۔ 1960ء میں بی ایس سی کرنے کے بعد اسی سال عارضی استاد کے طور پر تعلیم الاسلام سکول میں پڑھانا شروع کیا۔ پھر 1962ء میں بی ایڈ کیا اور باقاعدہ استاد مقرر ہوئے۔ 1969ء میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم ایڈ کیا تو سینئر استاد بن گئے۔ پھر1972ء میں آپ تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ کے ہیڈ ماسٹر مقرر ہوئے۔ پھر سکول نیشنلائز ہو گیا۔ پھر 1970ء میں آپ کا تبادلہ کیونکہ وہ نیشنلائزڈ سکول تھا تو گورنمنٹ نے باہر اپنے کسی دوسرے سکول میں کر دیا اور پھر مختلف سکولوں میں یہ پڑھاتے رہے۔ 2005ء سے 2009ء تک زعیم انصار اللہ اور 2013ء سے 16ء تک بطور صدر حلقہ دارالرحمت شرقی ربوہ میں خدمت کی توفیق ملی۔ میرے بھی یہ سکول میں استاد تھے۔ بڑے اچھے انداز میں پڑھایا کرتے تھے۔ چہرے پر ہمیشہ نرمی رہتی تھی اور سمجھاتے بھی بڑے اچھے انداز میں تھے۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحمت کا سلوک فرمائے۔ ان کے درجات بلند فرمائے۔ ان کی اولاد کو بھی ہمیشہ جماعت اور خلافت سے وابستہ رکھے۔
دوسرا جنازہ مکرم سید مجیب اللہ صادق صاحب کا ہے جو 28؍مئی کو 83 سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ آپ مکرم سید صادق علی صاحب اور سیدہ سلمیٰ بیگم صاحبہ بنت سید محبوب عالم بہاری صاحب کے بیٹے تھے۔ قادیان کی مقدس بستی میں آپ نے آنکھ کھولی۔ قادیان کے پاکیزہ ماحول میں پروان چڑھے۔ آپ کے والد سید صادق علی صاحب آف سہارنپورنے حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کے دستِ مبارک پر شرفِ بیعت حاصل کیا تھا۔ آپ کے نانا حضرت سید محبوب عالم صاحب بہار ی نے پارٹیشن کے وقت 19ستمبر 1947ء کو قادیان میں کسی مخالف کی گولی کا نشانہ بن کر جامِ شہادت نوش فرمانے کی سعادت حاصل کی اور اسی طرح آپ کے نانا کے بھائی سید محبوب عالم صاحب جو صدر انجمن احمدیہ کے آڈیٹر تھے اور ان کو بھی یہ اعزاز تھا کہ بہار سے پیدل چل کے قادیان پہنچے اور انہوں نے بیعت کی تھی۔ آپ کو یہاں یوکے میں حلقہ ارلزفیلڈ (Earlsfield) میں بطور صدر جماعت خدمت کی توفیق بھی ملی۔ پھر بعد از ریٹائرمنٹ محترم امیر صاحب برطانیہ کے دفتر میں رضاکار کارکن کے طور پر سولہ سال تک خدمت بجا لاتے رہے۔ بڑی جانفشانی کے ساتھ اپنی ڈیوٹی ادا کرتے تھے اور ہمیشہ ان کے چہرے پر نرمی اور مزاح کی نرمی رہتی تھی۔ مزاح کی طبیعت تھی اور کام پوری توجہ سے کرتے اور کبھی کہیں اس طرح کے بوجھ نہیں لیتے تھے اور دوسروں کو پریشان نہیں کرتے تھے۔ کوشش یہ ہوتی تھی کہ زیادہ سے زیادہ کام دوسروں کا بھی خود کر لیں۔ ان کی شادی ربوہ میں مکرمہ عائشہ صادق صاحبہ بنت بابو محمد عالم صاحب ریٹائرڈ سٹیشن ماسٹر سے ہوئی۔ اور 1968ء میں ان کی اہلیہ کو بھی ربوہ میں لجنہ کے مختلف شعبوں میں کام کرنے کی توفیق ملی۔ ان کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ ڈاکٹر کلیم اللہ صادق صاحب تو ایم ٹی اے میں کافی رضاکارانہ خدمت کرتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑے تہجد گزار تھے۔ عمرہ کرنے کے لیے گئے۔ گھٹنوں میں ان کے شدید تکلیف تھی۔ ان کی اہلیہ کہتی ہیں کہ باوجود ان کو وہیل چیئر مہیا کرنے کے انہوں نے یہ کہا کہ میں تو عمرے کا ثواب لینا چاہتا ہوں اس لیے پیدل ہی چلوں گا۔ اسی طرح اپنے چندوں کی بھی بڑی فکر رہتی تھی اور ان کے بچوں نے اور دوسرے کافی لوگوں نے جومجھے خط لکھے ہیں ان میں ان کی خوبیاں بیان کی ہیں۔ بچے تو خوبیوں کا ذکر کرتے ہی ہیں اور ان کے بچے جس طرح ماشاء اللہ جماعت کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اس سے ظاہر ہے کہ انہوں نے خلافت اور جماعت کے ساتھ محبت بچوں کے دلوں میں پیدا کی ہے اور اعلیٰ رنگ میں تربیت کی ہے لیکن جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ انسان کے ہمسائے اور ملنے جلنے والے جو ہیں وہ اس کی نیکیوں کے اس کے کردار کےاصل گواہ ہوتے ہیں۔ اس کی نیکیوں کی تصدیق کرنے والے ہوتے ہیں اور یہ بات مجیب اللہ صادق صاحب پر حقیقت میں صادق آتی ہے۔ ان کے غیر مسلم ہمسائے ان کی وفات پر نہایت غمزدہ تھے۔ ان کی بھی آپ خدمت کرتے رہے اور اپنے بچوں سے بھی ان کی خدمت کرواتے رہے۔ اسی طرح ان کے دفتر میں ساتھ کام کرنے والے ہر شخص نے ان کی خوش مزاجی اور کام میں لگن اور سنجیدگی اور اس کے ساتھ ہر کارکن کی خدمت کرنے کی خصوصیت کا ذکر کیا ہے۔ کام بھی کرتے تھے اور لوگوں کی خدمت بھی کرتے تھے۔ کسی کو چائے بھی پلانی ہو تو خود پلاتے تھے۔ مَیں گذشتہ سال جب اسلام آباد منتقل ہوا ہوں تو ان کو جو فکر تھی جس کا انہوں نے ملاقات میں مجھ سے اظہار کیا وہ یہ تھی کہ اب ہم ہر ہفتے آپ کے پیچھے جمعہ کس طرح پڑھیں گے؟تو بہرحال اس پر میں نے ان کی تسلی کروائی کہ ان شاء اللہ اکثر جمعے بیت الفتوح میں ہی ہوں گے اور جب اسلام آباد میں ہوں تو وہاں آ سکتے ہیں۔ یہ بات سن کے پھر ان کے چہرے پر رونق آئی۔ اسی لیے انہوں نے اپنے بچوں کو مسجد کے قریب رکھنے کے لیے خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی ہجرت کے بعد مسجد فضل کے قریب گھر لے لیا اور (خود) روزانہ ایک گھنٹہ دور کام پر جاتے تھے تا کہ بچے مسجد کے ساتھ اٹیچڈ (attached) رہیں اور یہی فکر ان کو اب بھی تھی کہ دور جانے کی وجہ سے جمعہ کس طرح پڑھا جائے گا۔ بہرحال انتہائی مخلص اور نیک انسان تھے۔ بڑی وفا کے ساتھ انہوں نے اپنی زندگی گزاری اور یہ وفا اپنے بچوں میں بھی پیدا کرنے کی کوشش کی۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کے بچوں کو بھی ہمیشہ خلافت اور جماعت سے ان کی خواہش کے مطابق بلکہ اس سے بڑھ کر وابستہ رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ان کی اہلیہ کو بھی اپنی حفاظت میں رکھے اور سکون اور تسکین کے سامان پیدا فرمائے۔
تیسرا جو جنازہ ہے وہ ہمارے پرانے کارکن اور اسیر ِراہ مولیٰ رانا نعیم الدین صاحب مرحوم کا ہے اس کا ذکر تو مَیں پہلے بھی کر چکا ہوں۔ گذشتہ جمعے رہ گیا تھا۔ ان کا بھی جنازہ ان جنازوں میں شامل ہو گا جو ان شاءاللہ جمعے کے بعد ادا کروں گا۔ اللہ تعالیٰ ان سب کے ساتھ مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔
(الفضل انٹرنیشنل 7اگست2020ءصفحہ 5تا10)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ستر ہزار فرشتے سعد بن معاذؓ کے جنازے پر حاضر ہیں جو آج سے قبل کبھی زمین پر نہیں اترے۔
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت بدری صحابہ اوس قبیلہ کے رئیس اعظم حضرت سَعد بن مُعاذرضی اللہ عنہ جو اخلاص میں، قربانی میں، خدمت اسلام میں، عشقِ رسول میں یہ شخص ایسا بلند مرتبہ رکھتا تھا جوکم ہی لوگوں کوحاصل ہوا کرتا ہے اور اس کی ہر حرکت وسکون سے یہ ظاہر ہوتاتھا کہ اسلام اور بانیٔ اسلام کی محبت اس کی روح کی غذا ہے اور بوجہ اس کے کہ وہ اپنے قبیلہ کا رئیس تھا اس کا نمونہ انصار میں ایک نہایت گہراعملی اثر رکھتا تھا۔
اور ابتدائے اسلام میں ایمان لانے والے، مکّی دور میں تکالیف برداشت کرنے والے، نبی اکرمﷺ کی پہرےداری کا شرف پانے والے، دینِ اسلام اور خلافت کی غیرت رکھنے والے، بہادر شہ سوار، مستجاب الدعوات حضرت سعد بن ابی وقّاص رضی اللہ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ۔
دو مرحومین مکرم ماسٹر عبدالسمیع خان صاحب کاٹھگڑھی آف ربوہ اور محترم سید مجیب اللہ صادق صاحب آف لندن کا ذکرِ خیر اور ان کے ساتھ سلسلہ کے دیرینہ خادم، اسیرِ راہ مولیٰ مکرم رانا نعیم الدین صاحب کی نمازِ جنازہ غائب۔
فرمودہ 17؍جولائی2020ء بمطابق 17؍ وفا 1399 ہجری شمسی، بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔