بدری اصحاب نبویؐ کی سِیرِ مبارکہ
خطبہ جمعہ 24؍ جولائی 2020ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
حضرت سعدؓ کا ذکر چل رہا تھا۔ حضرت سعدؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوۂ بدر، احد، خندق، حدیبیہ، خیبر، فتح مکہ سمیت تمام غزوات میں شرکت فرمائی۔ آپؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہترین تیر انداز صحابہ میں سے تھے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء ثالث صفحہ 105، سعد بن ابی وقاص، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان، 1990ء)
حضرت سعدؓ کے بارے میں ایک روایت میں بیان ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو جنگیں لڑیں ان میں سے ایک جنگ میں ایک وقت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سوائے حضرت طلحہؓ اور حضرت سعدؓ کے کوئی نہ رہا۔ (صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابہ باب فضائل طلحۃ و الزبیر 2415)
حضرت سعدؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوات کے لیے نکلنے کی حالت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ کے لیے نکلتے تھے اور حالت یہ تھی کہ ہمارے پاس کھانے کی کوئی چیز نہ ہوتی سوائے درختوں کے پتے ہی۔ ہمارا یہ حال تھا کہ ہم میں سے ہر ایک اس طرح مینگنیاں کرتا جیسے اونٹ لید کرتا ہے یا بکریاں مینگنیاں کرتی ہیں یعنی خشک، ان میں نرمی بالکل نہیں ہوتی تھی۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپؓ بیان کرتے ہیں کہ ان ایام میں ہماری خوراک ببول کے درخت، یہ ایک قسم کا کانٹے دار درخت ہوتا ہے اس کی بیلیں ہوا کرتی تھیں۔ (صحیح بخاری کتاب فضائل اصحاب النبیﷺ باب مناقب سعد بن ابی وقاص حدیث نمبر3728) (جامع ترمذی ابواب الزہد باب ما جاء فی معیشۃ اصحاب النبیﷺ حدیث نمبر 2366)
حضرت سعدؓ وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے اللہ کی راہ میں خون بہایا اور آپؓ وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے اللہ کی راہ میں تیر چلایا اور یہ واقعہ سریہ حضرت عُبَیدہ بن حَارِث کا ہے۔ (سنن ابن ماجہ کتاب السنۃ باب فضل سعد بن ابی وقاص، حدیث نمبر 131) (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جزء ثانی صفحہ 607، دار الجیل بیروت) (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جزء ثانی صفحہ 453، سعد بن مالک، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان، 2003ء)
اس کی تفصیل یہ ہے کہ ربیع الاول سن دو ہجری میں ایک سریہ ہوا جسے سریہ حضرت عبیدہ بن حارث کہتے ہیں۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے سیرت خاتم النبیینؐ میں حضرت مرزابشیر احمد صاحبؓ نے لکھا ہے، یہ پہلے بھی کچھ حصہ بلکہ میرا خیال ہے سارا میں بیان کر چکا ہوں لیکن بہرحال یہاں بھی ان کے حوالے سے بیان کر دیتا ہوں۔ ماہ ربیع الاول کے شروع میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک قریبی رشتہ دار عُبَیْدَہْ بِنْ حَارِثْ مُطَّلَبِیْ کی امارت میں ساٹھ شتر سوار یا اونٹ سوار مہاجرین کاایک دستہ روانہ کیا۔ اس مہم کی غرض قریش مکہ کے حملوں کی پیش بندی تھی۔ چنانچہ جب عُبَیدہ بن حارث اور ان کے ساتھی کچھ مسافت طے کر کے ثَنِیَّۃُ الْمَرَّۃْ (ثَنِیَّۃُ الْمَرَّۃْ مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک مقام کا نام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ ہجرت کرتے ہوئے اس مقام سے گزرے تھے۔ بہرحال جب یہ اس) مقام کے پاس پہنچے توناگاہ کیا دیکھتے ہیں کہ قریش کے 200مسلح نوجوان عِکْرِمَہ بن ابوجہل کی کمان میں ڈیرہ ڈالے پڑے ہیں۔ فریقین ایک دوسرے کے سامنے ہوئے اور ایک دوسرے کے مقابلہ میں کچھ تیراندازی بھی ہوئی لیکن پھر مشرکین کاگروہ یہ خوف کھا کر کہ مسلمانوں کے پیچھے کچھ کمک مخفی نہ ہو ان کے مقابلہ سے پیچھے ہٹ گیا اور مسلمانوں نے ان کا پیچھا نہیں کیا۔ البتہ مشرکین کے لشکر میں سے 2شخص حضرت مقداد بن عمرو اور حضرت عُتْبہ بن غَزْوَان عکرمہ بن ابوجہل کی کمان سے خود بھاگ کر مسلمانوں کے ساتھ آملے اور لکھا ہے کہ وہ اسی غرض سے قریش کے ساتھ نکلے تھے کہ موقع پا کر مسلمانوں میں آ ملیں۔ کیونکہ وہ دل سے مسلمان تھے مگر بوجہ اپنی کمزوری کے قریش سے ڈرتے ہوئے ہجرت نہیں کرسکتے تھے۔ (معجم البلدان جلد 2 صفحہ 99-100 دار الکتب العلمیۃ بیروت) (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 328)
جمادی الاولیٰ 2ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد بن ابی وقاصؓ کو آٹھ مہاجرین کے ایک دستہ پر امیر مقرر فرما کر قریش کی خبر رسانی کے لیے خَرَّارْ مقام کی طرف روانہ فرمایا۔ خَرَّارْ بھی حجاز میں جُحْفَہ کے قریب ایک علاقہ ہے۔ بہرحال یہ لوگ وہاں گئے مگر دشمن سے ان کا سامنا نہیں ہوا۔ (معجم البلدان جلد 2 صفحہ 400 دار الکتب العلمیہ بیروت) (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 329-330)
پھر سریہ حضرت عبداللہ بن جحشؓ کا ذکر ہے جو جمادی الآخر دو ہجری میں ہوا تھا۔ اس سریے میں حضرت سعدؓ بھی شامل ہوئے تھے اور اس کا بھی ذکر میں پہلے ایک دفعہ کر چکا ہوں لیکن‘سیرت خاتم النبیینؐ ’کے حوالے سے یہاں مختصر ذکر کردیتا ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارادہ فرمایا کہ قریش کی حرکات وسکنات کا زیادہ قریب سے ہو کر علم حاصل کیا جاوے تاکہ ان کے متعلق ہرقسم کی ضروری اطلاع بروقت میسر ہوجاوے اور مدینہ ہر قسم کے اچانک حملوں سے محفوظ رہے۔ چنانچہ اس غرض سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ مہاجرین کی ایک پارٹی تیار کی اور مصلحتاً اس پارٹی میں ایسے آدمیوں کو رکھا جوقریش کے مختلف قبائل سے تعلق رکھتے تھے تاکہ قریش کے مخفی ارادوں کے متعلق خبر حاصل کرنے میں آسانی ہو اور اس پارٹی پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پھوپھی زاد بھائی حضرت عبداللہ بن جحش کوامیر مقرر فرمایا۔ آپؐ نے اس سریہ کو روانہ کرتے ہوئے اس سریہ کے امیر کوبھی یہ نہیں بتایا کہ تمہیں کہاں اور کس غرض سے بھیجا جارہا ہے بلکہ چلتے ہوئے ان کے ہاتھ میں ایک سربمہر خط دے دیا، sealed خط تھا اور فرمایا کہ اس خط میں تمہارے لیے ہدایات درج ہیں۔ جب تم مدینہ سے دودن کا سفر طے کرلو تو پھر اس خط کوکھول کر اس کی ہدایات کے مطابق عمل کرنا۔ بہرحال آخر دو دن کی مسافت کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو، اس خط کو کھول کر دیکھا تو اس میں یہ الفاظ درج تھے کہ تم مکہ اور طائف کے درمیان وادی نَخْلَہمیں جاؤ اور وہاں جاکر قریش کے حالات کاعلم لو اور پھر ہمیں اطلاع کر دو۔ آپؐ نے خط کے نیچے یہ ہدایت بھی لکھی تھی کہ اس مشن کے معلوم ہونے کے بعد اگرتمہارا کوئی ساتھی اس پارٹی میں شامل رہنے سے متأمل ہو اور واپس چلاآنا چاہے تو اسے واپس آنے کی اجازت دے دو۔ عبداللہ نے آپؐ کی یہ ہدایت اپنے ساتھیوں کو دی اور سب نے یک زبان ہوکر کہا کہ ہم بخوشی اس خدمت کے لیے حاضر ہیں۔ کوئی واپس نہیں جائے گا۔ اس کے بعد یہ جماعت وادیٔ نخلہ کی طرف روانہ ہوئی۔
راستے میں سعد بن ابی وقاصؓ اور عُتْبہ بن غَزْوَانؓ کا اونٹ کہیں کھو گیا اور وہ اس کو تلاش کرتے کرتے اپنے ساتھیوں سے بچھڑ گئے اور باوجود بہت تلاش کے انہیں نہ مل سکا۔ یہ جو آٹھ آدمیوں کی پارٹی تھی اب باقی یہ صرف چھ رہ گئے۔ یہ چلتے رہے۔ اس بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے ایک مستشرق مسٹر مارگولیس کا ذکر کیا ہے کہ وہ اپنی روایت کے مطابق شبہات پیدا کرنے کے لیے حضرت سعد بن ابی وقاصؓ اور ان کے ساتھی کے بارے میں لکھتا ہے کہ
سعد بن ابی وقاصؓ اور عتبہؓ نے جان بوجھ کراپنا اونٹ چھوڑ دیا تھا اور اس بہانہ سے پیچھے رہ گئے تھے۔ ان جاں نثارانِ اسلام پر، جن کی زندگی کاایک ایک واقعہ ان کی شجاعت اور فدائیت پر شاہد ہے اور جن میں سے ایک غزوۂ بئر معونہ میں کفار کے ہاتھوں شہید ہوا اور دوسرا کئی خطرناک معرکوں میں نمایاں حصہ لے کر بالآخر عراق کا فاتح بنا، اس قسم کا شبہ کرنا اور شبہ بھی محض اپنے من گھڑت خیالات کی بنا پر کرنا یہ مسٹر مارگولیس ہی کا حصہ ہے۔ اور پھر لطف یہ ہے کہ مارگولیس صاحب اپنی کتاب میں یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ میں نے یہ کتاب ہرقسم کے تعصّب سے پاک ہوکر لکھی ہے۔
بہرحال مسلمانوں کی یہ چھوٹی سی جماعت نخلہ پہنچی اور معلومات جو لینی تھیں ان کے لیے اپنے کام میں مصروف ہو گئی اور ان میں سے بعض نے اخفائے راز کے لیے اپنے سر کے بال منڈوادیے تاکہ راہگیر وغیرہ ان کو عمرے کے خیال سے آئے ہوئے لوگ سمجھ کر کسی قسم کا شبہ نہ کریں۔ لیکن ابھی ان کو وہاں پہنچے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ اچانک وہاں قریش کاایک چھوٹا سا قافلہ آ پہنچا جو طائف سے مکہ کی طرف جارہا تھا اور ہر دو جماعتیں ایک دوسرے کے سامنے ہو گئیں اور حالات ایسے بن گئے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی مسلمانوں نے آخراپنی مرضی کے خلاف یہی فیصلہ کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم بھی یہی تھا لیکن حالات کی وجہ سے یہی فیصلہ کیا کہ قافلے پرحملہ کر کے یا تو قافلے والوں کو قید کر لیا جاوے یا مار دیا جائے۔ چنانچہ انہوں نے اللہ کا نام لے کر حملہ کر دیا جس کے نتیجہ میں کفار کا ایک آدمی مارا گیا اور دو آدمی قید ہو گئے لیکن بدقسمتی سے چوتھا آدمی بھاگ کر نکل گیا اور مسلمان اسے پکڑ نہ سکے اور اس طرح ان کی یہ تجویز کامیاب ہوتے ہوتے رہ گئی۔ بہرحال اس کے بعد مسلمانوں نے قافلے کے سامان پر قبضہ کر لیا اور قیدی اور سامانِ غنیمت لے کر جلد جلد مدینےکی طرف واپس لوٹ آئے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ علم ہوا کہ صحابہ نے قافلے پر حملہ کیا تھا تو آپؐ سخت ناراض ہوئے اور فرمایا مَااَمَرْتُکُمْ بِقِتَالٍ فِی الشَّھْرِ الْحَرَامِ کہ میں نے تمہیں شہرِحَرام میں لڑنے کی اجازت نہیں دی تھی اور آپ نے مالِ غنیمت لینے سے انکار کر دیا۔ دوسری طرف قریش نے بھی شور مچا دیا کہ مسلمانوں نے شہر ِحرام کی حرمت کو توڑا ہے اور بڑا اس لیے بھی کہ جو آدمی مارا گیا تھا وہ عمر وبن حزرمی تھا۔ یہ ایک بہت بڑا رئیس تھا۔ بہرحال اس دوران میں ان کے آدمی، کفار کے آدمی اپنے دو قیدیوں کو چھڑانے کے لیے مدینہ بھی پہنچ گئے لیکن چونکہ حضرت سعدبن ابی وقاصؓ اور حضرت عُتبہ بن غَزْوَانؓ واپس نہیں آئے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے متعلق سخت خدشے میں تھے، خدشہ تھا کہ اگر قریش کے ہاتھ وہ پڑ گئے تو قریش انہیں زندہ نہیں چھوڑیں گے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی واپسی تک قیدیوں کو چھوڑنے سے انکار کر دیا اور فرمایا کہ میرے آدمی بخیریت مدینہ پہنچ جائیں گے تو پھر مَیں تمہارے آدمیوں کو چھوڑ دوں گا۔ چنانچہ وہ دونوں واپس پہنچ گئے تو آپؐ نے دونوں قیدیوں کو چھوڑ دیا۔ ان دو میں سے ایک شخص پر مدینہ کے قیام کا ایسا اثر ہوا کہ وہ مسلمان ہو گیا اور بئر معونہ کے موقع پر شہید ہوا۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 330تا334)
غزوۂ بدر کے موقعے پر جنگ سے پہلے کے حالات بیان کرتے ہوئے بھی حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے سیرت خاتم النبیینؐ میں یہ لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تیزی کے ساتھ بدر کی طرف بڑھنے شروع ہوئے اور جب آپؐ بدر کے قریب پہنچے توکسی خیال کے ماتحت جس کا ذکر روایات میں نہیں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر صدیق کو اپنے پیچھے سوار کر کے اسلامی لشکر سے کچھ آگے نکل گئے۔ اس وقت آپؐ کو رستےمیں ایک بوڑھا بدوی ملا جس سے آپؐ کو باتوں باتوں میں یہ معلوم ہوا کہ اس وقت قریش کا لشکر بدر کے بالکل پاس پہنچا ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ خبر سن کر واپس تشریف لے آئے اور حضرت علیؓ، حضرت زُبَیر بن عوامؓ اور حضرت سَعد بن ابی وَقَّاصؓ کو دریافت حال کے لیے آگے روانہ فرمایا۔ جب یہ لوگ بدر کی وادی میں گئے تو اچانک کیا دیکھتے ہیں کہ مکہ کے چند لوگ ایک چشمہ سے پانی بھررہے ہیں۔ ان صحابیوں نے اس جماعت پرحملہ کرکے ان میں سے ایک حبشی غلام کو پکڑ لیا اور اسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے۔ آپؐ نے نرمی سے اس سے دریافت فرمایا کہ لشکر اس وقت کہاں ہے؟ اس نے جواب دیا اس سامنے والے ٹیلے کے پیچھے ہے۔ آپؐ نے پوچھا کہ لشکر میں کتنے آدمی ہیں۔ اس نے کہا بہت ہیں مگر پوری تعداد مجھے معلوم نہیں ہے۔ آپؐ نے فرمایا: اچھا یہ بتاؤ کہ ان کے لیے ہر روز کتنے اونٹ ذبح ہوتے ہیں۔ اس نے کہا دس ہوتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا کہ اس لشکر میں ایک ہزارآدمی معلوم ہوتے ہیں اور حقیقتاً وہ اتنے ہی تھے۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 355-356)
یہ حصہ بھی شاید کچھ تفصیل سے مَیں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں۔ غزوۂ بدر کے موقعےپر حضرت سعدؓ کی بہادری کے بارے میں روایت ملتی ہے کہ غزوۂ بدر کے موقعے پر حضرت سعدؓ پیدل ہونے کے باوجود شہ سواروں کی طرح بہادری سے لڑ رہے تھے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء ثالث صفحہ 104، سعد بن ابی وقاص، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان، 1990ء)
اسی وجہ سے حضرت سعدؓ کو‘فارس الاسلام’کہا جاتا تھا یعنی اسلام کا شہ سوار۔ (عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری جلد 1صفحہ 305، دارالکتب العلمیۃ بیروت، 2001ء)
غزوۂ احد کے موقعے پر حضرت سعدبن ابی وقاصؓ اُن گنتی کے چندلوگوں میں سے تھے جو سخت افراتفری کی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ثابت قدم رہے۔ (ماخوذ از خطبات طاہر (تقاریر جلسہ سالانہ قبل از خلافت)تقریر جلسہ سالانہ 1979ء صفحہ 337)
غزوۂ احد کے موقعے پر حضرت سعدبن ابی وقاصؓ کا بھائی عتبہ بن ابی وقاص مشرکین کی طرف سے جنگ میں شریک ہوا تھا اور اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ بھی کیا تھا۔ اس واقعہ کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے اپنی ایک تقریر میں اس طرح بیان فرمایا تھا کہ عتبہ وہ بدبخت انسان تھا جس نے شدید حملہ کر کے حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے نیچے کے دو دندانِ مبارک شہید کیے اور دہنِ مبارک کوسخت زخمی کر دیا۔ عتبہ کے بھائی حضرت سعد بن ابی وقاصؓ مسلمانوں کی طرف سے لڑرہے تھے۔ جب ان کو عتبہ کی بدبختیکا علم ہوا تو جوشِ انتقام سے ان کا سینہ کھولنے لگا۔ آپؒ فرماتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں اپنے بھائی کے قتل پر ایسا حریص ہو رہا تھا کہ شاید کبھی کسی اَور چیز کی مجھے ایسی حرص نہ لگی ہو۔ دو مرتبہ دشمن کی صفوں کا سینہ چیر کر اس ظالم کی تلاش میں نکلا کہ اپنے ہاتھ سے اس کے ٹکڑے اڑا کر اپنا سینہ ٹھنڈاکروں مگر وہ مجھے دیکھ کر ہمیشہ اس طرح کترا کر نکل جاتا تھا جس طرح لومڑی کترا جایا کرتی ہے۔ آخر جب میں نے تیسری مرتبہ اس طرح گھس جانے کا ارادہ کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازراہِ شفقت مجھ سے فرمایا کہ اے بندۂ خدا! تیرا کیا جان دینے کا ارادہ ہے؟ چنانچہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روکنے سے اس ارادے سے باز رہا۔ (ماخوذ از خطبات طاہر (تقاریر جلسہ سالانہ قبل از خلافت)تقریر جلسہ سالانہ 1979ء صفحہ 346)
غزوۂ احد کے موقعے پر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ثابت قدم صحابہ تھوڑے رہ گئے اس وقت حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کے بارے میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے یوں لکھا ہے کہ
’’حضرت سعدبن ابی وقاصؓ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود تیر پکڑاتے جاتے تھے اور حضرت سعدؓ یہ تیر دشمن پر بے تحاشا چلاتے جاتے تھے۔ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعدؓ سے فرمایا تم پر میرے ماں باپ قربان ہوں برابر تیر چلاتے جاؤ۔ سعدؓ اپنی آخری عمر تک ان الفاظ کو نہایت فخر کے ساتھ بیان کیا کرتے تھے۔‘‘ (سیرت خاتم النبیینؐ از صاحبزادہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 495)
ایک روایت میں بیان ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ احد کے دن اپنے ترکش سے تیر نکال کر میرے لیے بکھیر دیے اور آپؐ نے فرمایا تیر چلاؤ تجھ پر میرے ماں باپ فدا ہوں۔ (صحیح بخاری کتاب المغازی باب اذ ہمت طائفتان منکم ان تفشلا……حدیث نمبر 4055)
حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی کسی کے لیے اپنے ماں باپ فدا کرنے کی دعا دیتے نہیں سنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعدؓ سے غزوۂ احد کے موقعے پر فرمایا تھا کہ میرے ماں باپ تم پر فدا ہوں تیر چلاتے جاؤ۔ اے بھرپور طاقتور نوجوان! تیر چلاتے جاؤ۔ (جامع ترمذی کتاب المناقب باب ارم فداک ابی و امی حدیث نمبر 3753)
یہاں یہ بیان بھی قابل ذکر ہے، یہ نوٹ بھی آیا ہوا ہے کہ حضرت سعدؓ کے علاوہ تاریخ میں حضرت زُبیربن عوامؓ کا نام بھی ملتا ہے جنہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فِدَاکَ اَبِیْ وَاُمِّیْ یعنی تم پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔ یہ بخاری کی روایت ہے۔ (بخاری کتاب فضائل اصحاب النبیﷺ باب مناقب الزبیر بن العوامؓ حدیث نمبر 3720)
غزوہ ٔاُحُد کا واقعہ بیان کرتے ہوئے حضرت سعدؓ بیان کرتے ہیں کہ اُحُد کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے اپنے والدین کو اکٹھا کیا۔ انہوں نے کہا کہ مشرکوں میں سے ایک آدمی تھا جس نے مسلمانوں میں آگ لگا رکھی تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان یعنی حضرت سعدؓ سے فرمایا تیر چلاؤ تم پر میرے ماں باپ قربان۔ حضرت سعدؓ کہتے ہیں کہ مَیں نے وہ تیر جس کا پھل نہیں تھا اس کے پہلومیں مارا جس کی وجہ سے وہ مر گیا اور اس کا ستر کھل گیا اور میں نے دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خوشی سے ہنس پڑے۔ (صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابہ باب فضل سعد بن ابی وقاص2412)
ایک دوسری روایت میں یہ واقعہ یوں بیان ہوا ہے کہ اس مشرک نے (تاریخ کی کتابوں میں اس کا نام حِبَّان بتایا جاتا ہے) ایک تیر چلایا جو حضرت امّ ایمن کے دامن میں جا لگا جبکہ وہ زخمیوں کو پانی پلانے میں مصروف تھیں۔ اس پر حِبَّان ہنسنے لگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعدؓ کو ایک تیر پیش کیا وہ تیر حِبَّان کے حلق میں جا لگا اور وہ پیچھے گر پڑا جس سے اس کا ننگ ظاہر ہو گیا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دیے۔ (الاصابہ جلد 3 صفحہ 64 سعد بن مالک، دار الکتب العلمیۃ بیروت 1995ء)
صحیح مسلم کی جو یہ حدیث بیان ہوئی ہے اس کے متعلق وہاں جو ہماری نور فاؤنڈیشن ہے انہوں نے ابھی جوترجمہ کیا ہے اس میں یہ نوٹ لکھا ہے اور اچھا نوٹ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خوشی اللہ کے اس احسان پر تھی کہ اس نے ایک خطرناک دشمن کو ایک ایسے تیر سے راستے سے ہٹایا جس کا پھل بھی نہیں تھا۔ (صحیح مسلم جلد 13 صفحہ 41 شائع کردہ نورفاؤنڈیشن)
ایک روایت میں ہے کہ غزوۂ احد کے دن حضرت سعدؓ نے ایک ہزار تیر برسائے۔ (روشن ستارے از غلام باری سیف جلد 2 صفحہ 71)
صلح حدیبیہ کے موقعے پر صلح نامہ پر جن صحابہ نے بطور گواہ دستخط کیے ان میں حضرت سعد بن ابی وقاصؓ بھی شامل تھے۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از صاحبزادہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 769)
فتح مکہ کے موقعے پر حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کے پاس مہاجرین کے تین جھنڈوں میں سے ایک جھنڈا تھا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء ثالث صفحہ 105، سعد بن ابی وقاص، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان، 1990ء)
حَجَّۃُ الْوَدَاع کے موقعے پر حضرت سعدؓ بیمار ہو گئے۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت سعدؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں مکہ میں بیمار ہو گیا اور موت کے قریب پہنچ گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کرنے میرے پاس تشریف لائے۔ میں نے عرض کی یا رسول اللہؐ ! میرے پاس بہت زیادہ مال ہے اور میری وارث میری صرف ایک بیٹی ہے تو کیا میں دو تہائی مال صدقہ کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں۔ مَیں نے عرض کیا پھر نصف مال صدقہ کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں۔ مَیں نے عرض کی پھر ایک تہائی مال صدقہ کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ٹھیک ہے مگر یہ بھی بہت زیادہ ہے۔ پھر فرمایا کہ اگر تم اپنی اولاد کو مال دار چھوڑو تو یہ اس سے بہتر ہے کہ تم انہیں تنگ دست چھوڑ دو کہ وہ لوگوں سے مانگتے پھریں اور جو بھی تم خرچ کرو گے اس کا تمہیں اجر ملے گا یہاں تک کہ اس لقمے پر بھی جو تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتے ہو۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ !کیا میں اپنی ہجرت میں پیچھے رہ جاؤں گا؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم پیچھے رہ بھی گئے تب بھی جو عمل تم اللہ کی رضا مندی کے لیے کرو گے اس سے تمہارا درجہ اور مرتبہ بلند ہو گا اور ساتھ یہ بھی اظہار فرما دیا کہ مجھے امید ہے تم میرے بعد زندہ رہو گے یہاں تک کہ قومیں تم سے فائدہ اٹھائیں گی اور کچھ لوگ نقصان اٹھائیں گے۔ (صحیح بخاری کتاب الفرائض باب میراث البنات حدیث نمبر 6733)
ایک دوسری روایت میں یہ ہے کہ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی کہ اے اللہ! میرے صحابہ کے لیے ان کی ہجرت پوری فرما اور ان کو ان کی ایڑھیوں کے بل نہ لوٹانا۔ (صحیح بخاری کتاب الجنائز باب رثاء النبیﷺ سعد بن خولہ حدیث نمبر 1295)
ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت سعدؓ بیان کرتے ہیں کہ جب میں بیمار ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کے لیے تشریف لائے اور پوچھا کیا تم نے وصیت کر دی ہے۔ مَیں نے عرض کی جی۔ آپؐ نے پوچھا کتنی؟ مَیں نے عرض کی میرا سارامال اللہ کی راہ میں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تو اپنی اولاد کے لیےکیا چھوڑا ہے؟ مَیں نے عرض کی وہ مال دار ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ پھر دسویں حصےکی وصیت کر دو۔ حضرت سعدؓ کہتے ہیں کہ مَیں اسی طرح کہتا رہا اور آپؐ اسی طرح فرماتے رہے۔ حضرت سعدؓ زیادہ مال صدقہ کرنا چاہتے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کم کرنے کی تلقین فرما رہے تھے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک تہائی مال کی وصیت کر دو اور ایک تہائی بھی بہت زیادہ ہے۔ (سنن نسائی کتاب الوصایا باب الوصیۃ بالثلث حدیث نمبر 3661)
بہرحال جو علم رکھنے والے ہیں اور فقہ والے بھی اس روایت سے یہ استنباط کرتے ہیں کہ ایک تہائی مال سے زیادہ کی وصیت نہیں ہو سکتی۔ (جامع ترمذی ابواب الوصایا باب ما جاء فی الوصیۃ بالثلث حدیث نمبر 2116)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس بارے میں بیان فرماتے ہیں کہ
’’احادیث بھی اس بات کی تائید کرتی ہیں کہ اپنے اخراجات نکال کر باقی سارا مال تقسیم کر دینا اسلامی حکم نہیں۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں یَجِیْءُ اَحَدُکُمْ بِمَالِہٖ کُلِّہٖ یَتَصَدَّقُ بِہٖ وَیَجْلِسُ یَتَکَفَّفُ النَّاسَ اِنَّمَا الصَّدَ قَۃُ عَنْ ظَھْرِ غِنًی۔ یعنی تم میں سے بعض لوگ اپنا سارا مال صدقہ کے لیے لے آتے ہیں اور پھر لوگوں کے آگے سوال کے لیے ہاتھ پھیلا دیتے ہیں۔ صدقہ صرف زائد مال سے ہوتا ہے۔ اسی طرح فرماتے ہیں إِنْ تَذَرْ وَرَثَتَکَ أَغْنِیَاءَ خَیْرٌ مِنْ أَنْ تَذَرَہُمْ عَالَۃً یَتَکَفَّفُونَ النَّاسَ یعنی اگر تو اپنے ورثاء کو دولت مند چھوڑ جائے تو یہ زیادہ اچھاہے بہ نسبت اس کے کہ تُو ان کو غریب چھوڑ جائے اور وہ لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔ اسی طرح حدیث میں آتا ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دو ثلث مال کے تقسیم کر دینے کی اجازت چاہی مگر آپؐ نے انہیں منع فرمایا۔ پھر انہوں نے آدھا مال تقسیم کرنا چاہا۔ تو اس سے بھی منع فرمایا۔ پھر انہوں نے تیسرے حصہ کے تقسیم کر دینے کی اجازت چاہی تو اس حصہ کی آپؐ نے اجازت دے دی مگر ساتھ ہی فرمایا‘‘ کہ یعنی تیسرے حصہ کی وصیت بھی کثیر ہے دو ثلث بھی کثیر ہے۔ ’’اَلثُّلُثُ وَالثُّلُثُ کَثِیرٌ …… غرض یہ خیال کہ اسلام کا یہ حکم ہے کہ جو مال ضرورت سے زائد بچے اسے تقسیم کر دینا چاہیے بالکل خلاف اسلام اور خلاف عمل صحابہؓ ہے۔‘‘ کیونکہ صحابہ کے عمل ایسے تھے۔ ’’جن میں سے بعض کی وفات پر لاکھوں روپیہ ان کے ورثاء میں تقسیم کیا گیا۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد 2 صفحہ 494)
ایک روایت میں بیان ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ بیان کرتے ہیں کہ جب میں مکہ میں بیمار ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کے لیے تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سینے پر ہاتھ رکھا تو میں نے آپؐ کے ہاتھ کی ٹھنڈک اپنے دل پر محسوس کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ رکھ کر مجھے فرمایا کہ تمہیں تو دل کی تکلیف ہے پس تم حارث بن کَلَدَہْ کے پاس جاؤ جو بنو ثَقِیف کا بھائی ہے وہ طبیب ہے اور اسے کہو کہ وہ مدینے کی سات عجوہ کھجوروں کو ان کی گٹھلیوں سمیت پِیس لے اور تمہیں بطور دوائی پلائے۔ (الطبقات الکبریٰ جزو ثالث صفحہ 108، سعد بن ابی وقاص، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان، 1990ء)
ایک روایت میں بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکے میں ایک شخص کو خاص طور پر متعین فرمایا کہ وہ حضرت سعدؓ کا خیال رکھے اور اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید فرمائی کہ اگر حضرت سعدؓ مکے میں فوت ہو جائیں تو انہیں ہرگزمکے میں نہ دفنایا جائے بلکہ مدینہ لایا جائے اور وہاں دفن کیا جائے۔ (طبقات ابن سعد جزو ثالث صفحہ 108، سعد بن ابی وقاص، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان، 1990ء)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت سعدؓ کا شکار کے بارے میں واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم گو خود شکار نہیں کیا کرتے تھے مگر حدیثوں سے ثابت ہے کہ آپؐ شکار کروایا کرتے تھے۔ چنانچہ ایک غزوہ میں آپؐ نے سعد بن ابی وقاصؓ کو بلایا اور فرمایا کہ دیکھو وہ ہرن جا رہا ہے اسے تیر مارو۔ جب وہ تیر مارنے لگے تو آپ نے پیار سے اپنی ٹھوڑی ان کے کندھے پر رکھ دی اور فرمایا اے خدا اس کا نشانہ بے خطا کر دے۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد 5 صفحہ 124)
حضرت سعدؓ کو اللہ تعالیٰ نے یہ سعادت بھی عطافرمائی کہ عراق آپؓ کے ہاتھوں پر فتح ہوا۔ غزوۂ خندق کے موقعے پر ایک مرتبہ صحابہ کرام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ خندق میں ایک چٹان آ گئی ہے جو ٹوٹتی نہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے اور تین کدالیں اس چٹان پر ماریں اور ہر بار چٹان کچھ ٹوٹی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز سے اللہ اکبر! کہا اور آپؐ کی اتباع میں صحابہ نے بھی نعرہ لگایا۔ اس موقع پر ایک ضرب پر آپؐ نے فرمایا کہ مجھے مَدَائن کے سفید محلات گرتے ہوئے دکھائے گئے ہیں۔ آپؐ نے جو دیکھا وہ حضرت سعدؓ کے ہاتھوں پورا ہوا۔ (ماخوذ از روشن ستارے جلد 2 صفحہ 79)
عرب کے ماحول میں دو بڑی طاقتیں تھیں۔ ایک کِسریٰ کی، دوسری قیصر کی۔ عراق کا بڑا حصہ کسریٰ کے زیرنگیں تھا اور مدین میں ان کے شاہی محلات تھے۔ مدائن، قادسیہ، نَہَاوَنْد اور جَلُولَاءکے مشہور معرکے حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کے زیر قیادت لڑے گئے۔
مدائن کا تعارف یہ ہے کہ عراق میں بغداد سے کچھ فاصلے پر جنوب کی طرف دریائے دجلہ کے کنارے واقع ہے۔ چونکہ یہاں یکے بعد دیگرے کئی شہر آباد ہوئے اس لیے عربوں نے اسے مدائن یعنی کئی شہروں کا مجموعہ کہناشروع کر دیا۔
قادسیہ بھی عراق کا ایک شہر تھا جہاں مسلمانوں اور فارسیوں کے درمیان مشہور جنگ لڑی گئی جسے جنگِ قادسیہ کہتے ہیں اور موجودہ قادسیہ کا شہر کوفے سے پندرہ فرسخ کے فاصلے پر ہے۔
نَہَاوَنْد: یہ موجودہ ایران میں واقع ایک شہر ہے جو ایرانی صوبہ ہمدان میں اس کے دارالحکومت ہمدان سے 70کلومیٹر جنوب میں واقع ہے۔
جَلُولَاء موجودہ عراق کا شہر ہے جو دریائے دَجْلَۃُ الْاَیْمَن کے کنارے واقع ہے۔ یہاں مسلمانوں اور فارسیوں کے درمیان جنگ لڑی گئی۔ اس کا نام جَلُولَاء اس لیے رکھا گیا کہ یہ شہر ایرانیوں کی لاشوں سے بھر گیا تھا۔
عراق میں حضرت ابوبکرؓ کے زمانے میں حضرت مُثَنّٰی بن حَارِثَہ نے ایرانیوں کے بار بار تنگ کرنے کی وجہ سے بارڈر پہ چڑھائی کی اجازت چاہی۔ حضرت ابوبکرؓ نے انہیں اجازت دے دی۔ حضرت خالدبن ولیدؓ کو ایک بڑی جمعیت کے ساتھ ان کی مدد کے لیے روانہ فرمایا۔ جب ملک شام سے حضرت ابوعبیدہؓ نے دربارِ خلافت سے کمک طلب کی تو حضرت ابوبکرؓ نے حضرت خالدؓ کو ان کی مدد کے لیے بھجوا دیا۔ حضرت خالد بن ولیدؓ نے عراق میں حضرت مُثَنّٰی کو اپنا جانشین مقرر کیا لیکن حضرت خالدؓ کے عراق سے جانے کے ساتھ ہی یہ مہم سرد پڑ گئی۔ جب حضرت عمرؓ خلیفہ ہوئے تو آپؓ نے از سر نو عراق کی مہم کی طرف توجہ فرمائی۔ حضرت مُثَنّٰی نے بُوَیْبْ اور دیگر جنگوں میں دشمنوں کو پے در پے شکست دے کر عراق کے ایک وسیع خطے پر قبضہ کر لیا۔ اس وقت عراق کا علاقہ کسریٰ کے زیر نگیں تھا۔ ایرانیوں کو جب مسلمانوں کی جنگی قوتوں کا اندازہ ہوا اور ان کی مسلسل فتوحات نے ان کی آنکھیں کھولیں تو انہوں نے پورَانْ دُخْتْ جو ان کی ملکہ تھی اس کی بجائے خاندان کسریٰ کے اصلی وارث جو یَزْدْگَرْدْ تھا اس کو تخت نشین کیا۔ اس نے تخت پر بیٹھتے ہی ایرانی سلطنت کی تمام طاقتوں کو مجتمع کیا۔ تمام ملک میں مسلمانوں کے خلاف جوش و انتقام کی آگ بھڑکائی۔ ان حالات میں حضرت مُثَنّٰیکو مجبوراً عرب کی سرحد سے ہٹنا پڑا۔ حضرت عمرؓ کو جب ان واقعات کا علم ہوا تو آپؓ نے عرب میں پُرجوش خطیب ہر طرف پھیلا دیے اور کسریٰ کے خلاف مسلمانوں کو کھڑا ہونے کے لیے کہا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ عرب میں ایک جوش پیدا ہوا اور ہر طرف سے جاں نثارانِ اسلام ہتھیلی پر جانیں رکھ کر دارالخلافہ کی جانب امڈ آئے۔ حضرت عمرؓ نے مشورہ کیا کہ اس مہم کی قیادت کس کے سپرد کی جائے۔ عوام کے مشورےسے حضرت عمرؓ خود اس مہم کی قیادت کے لیے تیار ہوئے لیکن حضرت علیؓ اور اکابر صحابہؓ کی رائے اس میں مانع ہوئی، انہوں نے روک دیا۔ اس غرض کے لیے حضرت سعید بن زیدؓ کا نام بھی پیش کیا گیا۔ اسی اثناء میں حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ اٹھے اور عرض کی یا امیر المومنین! اس مہم کے لیے مجھے صحیح آدمی معلوم ہو گیا ہے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ وہ کون ہے؟ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے عرض کیا کہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ ! اس کے بعد سب لوگوں نے حضرت سعدؓ کے نام پر اتفاق کیا اور حضرت عمرؓ نے حضرت سعدؓ کے بارے میں فرمایا۔ اِنَّہٗ رَجُلٌ شُجَاعٌ رَامٍ یعنی وہ ایک بہت بہادر نڈر اور زبردست تیر اندازانسان ہے۔ حضرت مُثَنّٰی مقام ذِی قَار، کوفہ اور وَاسِط کے درمیان ایک جگہ ہے اس میں آٹھ ہزارجاں نثار بہادروں کے ساتھ حضرت سعدؓ کا انتظار کر رہے تھے کہ ان کو خدا کی طرف سے بلاوا آ گیا اور ان کی وفات ہو گئی اور انہوں نے اپنے بھائی حضرت مُعَنّٰی کو سپہ سالار مقرر کیا۔ حضرت مُعنّٰی نے حسبِ ہدایت حضرت سعدؓ سے ملاقات کی اور حضرت مُثَنّٰی کا پیغام پہنچایا۔ حضرت سعدؓ نے اپنی فوج کا جائزہ لیا تو وہ کم و بیش تیس ہزار آدمیوں پر مشتمل لشکر تھا۔ آپؓ نے لشکر کو ترتیب دیا اور لشکرکا جو دایاں حصہ تھااور بایاں حصہ تھا اس کی تقسیم کر کے ان پر علیحدہ علیحدہ افسرمقرر کیے اور آگے بڑھے اور قادسیہ کا محاصرہ کر لیا۔ قادسیہ کا معرکہ 16؍ہجری کے آخر میں پیش آیا۔ کفّار کی تعداد دو لاکھ اسّی ہزار کے قریب تھی اور ان کے لشکر میں تیس ہاتھی تھے۔ ایرانی فوج کی کمان رُسْتَم کے ہاتھ میں تھی۔ حضرت سعدؓ نے کفار کو اسلام کی دعوت دی اس کے لیے آپ نے حضرت مغیرہ بن شعبہؓ کو بھیجا۔ رستم نے ان سے کہا کہ تم لوگ تنگ دست ہو اور تنگدستی کو دور کرنے کے لیے یہ سب کچھ کر رہے ہو۔ ہم تمہیں اتنا دیں گے کہ تم سیر ہو جاؤ گے۔ حضرت مغیرہؓ نے جواب میں کہا کہ ہم نے خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر لبیک کہا۔ ہم تمہیں خدائے واحد کی طرف اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ اگر تم یہ قبول کر لو تو تمہارے لیے بہتر ہے ورنہ پھر جنگ ہے، تلوار ہے جو ہمارے اور تمہارے درمیان فیصلہ کرے گی۔ اس جواب سے رستم کا چہرہ سخت سرخ ہو گیا کیونکہ ان کی طرف سے پہل ہوئی تھی اور وہ جنگ کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے کہا ہم تو ابھی بھی جنگ نہیں کرنا چاہتے ہم تو تمہیں اسلام کی تبلیغ کر رہے ہیں پیغام دے رہے ہیں لیکن تم اگر جنگ چاہتے ہو تو پھر ٹھیک ہے پھر تلوار ہی فیصلہ کرے گی۔ بہرحال اس کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ مشرک تھا۔ اس نے کہاسورج اور چاند کی قسم کہ صبح کے طلوع ہونے سے پہلے ہم جنگ کا آغاز کریں گے اور تم سب کو تہ تیغ کر دیں گے۔ حضرت مغیرہؓ نے کہا کہ لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ کہ ساری طاقتوں کا منبع اور مرکز اللہ تعالیٰ ہی ہے اور یہ کہہ کر وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہو گئے۔ حضرت سعدؓ کو حضرت عمرؓ کا پیغام ملا کہ پہلے ان کو دعوت حق دو۔ چنانچہ حضرت سعدؓ نے مشہور شاعر اور شہ سوار حضرت عَمر وبن مَعْدِیْ کَرِبؓ اور حضرت اَشْعَثْ بن قَیس کِنْدَیؓ کو اس وفد کے ساتھ بھیجا۔ رستم سے ان کا آمنا سامنا ہوا تو اس نے پوچھا کہ کدھر جا رہے ہو؟تو انہوں نے جواب دیا کہ تمہارے والی سے ملنے۔ اس پر رستم اور ان کے درمیان تفصیلی گفتگو ہوئی۔ وفد کے ممبران نے کہا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے وعدہ کیا ہے کہ ہم تمہارے علاقے پر قابض ہوں گے۔ اس پر رستم نے مٹی کی ٹوکری منگوائی اور کہا لو یہ ہے ہماری زمین۔ اسے سر پر اٹھا لو۔ حضرت عَمرو بن مَعدِی کَرِبؓ جلدی سے اٹھے اور مٹی کی ٹوکری اپنی جھولی میں رکھ لی اور چل دیے اور کہا کہ یہ فال ہے کہ ہم غالب ہوں گے اور ان کی زمین ہمارے قبضہ میں آ جائے گی۔ پھر وہ شاہِ ایران کے دربار میں پہنچے اور اسے اسلام کی دعوت دی جس پر وہ سخت ناراض ہوا اور کہا میرے دربار سے چلے جاؤ۔ اگر تم پیغامبر نہ ہوتے تو میں تمہیں قتل کروا دیتا۔ پھر اس نے رستم کو حکم دیا کہ انہیں ناقابل فراموش سبق سکھایا جائے۔ جمعرات کے دن ظہر کے بعد جنگ کا نقارہ بجا۔ حضرت سعدؓ نے تین بار اللہ اکبر! کا نعرہ بلند کیا اور چوتھے پر جنگ شروع ہو گئی۔ حضرت سعدؓ بیمار تھے اور میدانِ جنگ کے قریب قصر عُذَیْب کے بالا خانے میں بیٹھے فوج کو ہدایات دے رہے تھے۔ (ماخوذ از روشن ستارے از غلام باری سیف صاحب جلد 2 صفحہ 79 تا 82) (اٹلس فتوحات اسلامیہ صفحہ 81، 100، 118، 126) (معجم البلدان جلد 4 صفحہ 333 دار الکتب العلمیہ بیروت)
اس واقعہ کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی بیان فرمایا ہے کہ حضرت عمرؓ کے زمانے میں جب خسرو پرویز کے پوتے یَزْدْ جَرْدْکی تخت نشینی کے بعد عراق میں مسلمانوں کے خلاف وسیع پیمانے پر جنگی تیاریاں شروع ہو گئیں تو حضرت عمرؓ نے ان کے مقابلے کے لیے حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کی سرکردگی میں ایک لشکر روانہ کیا۔ حضرت سعدؓ نے جنگ کے لیے قادسیہ کا میدان منتخب کیا اور حضرت عمرؓ کو اس مقام کا نقشہ بھجوا دیا۔ حضرت عمرؓ نے اس مقام کو پسند کیا مگر ساتھ ہی لکھا کہ پیشتر اس کے کہ شاہ ایران کے ساتھ جنگ کی جائے تمہارا فرض ہے کہ ایک نمائندہ وفد شاہ ایران کے پاس بھیجو اور اسے اسلام قبول کرنے کی دعوت دو۔ چنانچہ انہوں نے اس حکم کے ملنے پر ایک وفد یَزْدْجَرْدْ کی ملاقات کے لیے بھجوا دیا۔ جب یہ وفد شاہ ایران کے دربار پر پہنچا۔ شاہ ایران نے اپنے ترجمان سے کہا کہ ان لوگوں سے پوچھو کہ یہ کیوں آئے ہیں؟ جب اس نے یہ سوال کیا تو وفد کے رئیس حضرت نعمان بن مُقَرِّنْ کھڑے ہوئے اور انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ آپؐ نے ہمیں حکم دیا ہےکہ ہم اسلام کو پھیلائیں اور دنیا کے تمام لوگوں کو دین ِحق میں شامل ہونے کی دعوت دیں۔ اس حکم کے مطابق ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں اور آپ کو اسلام میں شمولیت کی دعوت دیتے ہیں۔ یزدجرد اس جواب سے بہت برہم ہوا اور کہنے لگا کہ تم ایک وحشی اور مردار خور قوم ہو۔ تمہیں اگر بھوک اور افلاس نے اس حملے کے لیے مجبور کیا ہے تو مَیں تم سب کو اس قدر کھانے پینے کا سامان دینے کو تیار ہوں کہ تم اطمینان سے اپنی زندگی بسر کر سکو۔ حالانکہ ابتدا ان کی طرف سے ہی ہوئی تھی اور پھر الزام بھی مسلمانوں کو دے رہا تھا۔ بہرحال پھر کہنے لگا کہ اسی طرح تمہیں پہننے کے لیے لباس بھی دوں گا۔ تم یہ چیزیں لو اور اپنے ملک واپس چلے جاؤ۔ یہاں بارڈر پر بیٹھے اپنی سرحدوں کی حفاظت کررہے ہو اس کو چھوڑ دو اور مَیں جس طرح اس علاقے پر قبضہ کرنا چاہتا ہوں مجھے کرنے دو۔ تم ہم سے جنگ کر کے اپنی جانوں کو کیوں ضائع کرنا چاہتے ہو؟ جب وہ بات ختم کر چکا تو اسلامی وفد کی طرف سے حضرت مُغیرہ بن زُرَارَہؓ کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا آپ نے ہمارے متعلق جو کچھ بیان کیا ہے وہ بالکل درست ہے۔ ہم واقعی میں ایک وحشی اور مُردار خور قوم تھے۔ سانپ اور بچھو اور ٹڈیاں اور چھپکلیاں تک کھا جاتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے ہم پر فضل کیا اور اس نے اپنا رسول ہماری ہدایت کے لیے بھیجا۔ ہم اس پر ایمان لائے اور ہم نے اس کی باتوں پر عمل کیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب ہم میں ایک انقلاب پیدا ہو چکا ہے اور اب ہم میں وہ خرابیاں موجودنہیں جن کا آپ نے ذکر کیا ہے۔ اب ہم کسی لالچ میں آنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ہماری آپ سے جنگ شروع ہو چکی ہے۔ اب اس کا فیصلہ میدان جنگ میں ہی ہو گا۔ دنیوی مال و متاع کا لالچ ہمیں اپنے ارادے سے باز نہیں رکھ سکتا۔ یزدجردنے یہ بات سنی تو اسے سخت غصہ آیا اور اس نے ایک نوکر سے کہا کہ جاؤ اور مٹی کا ایک بورا لے آؤ۔ جب مٹی کا بورا آیا تو اس نے اسلامی وفد کے سردار کو آگے بلایا اور کہا چونکہ تم نے میری پیشکش کو ٹھکرا دیا ہے اس لیے اب اس مٹی کے بورے کے سوا تمہیں کچھ اَور نہیں مل سکتا۔ وہ صحابی نہایت سنجیدگی کے ساتھ آگے بڑھے۔ انہوں نے اپنا سر جھکا دیا اور مٹی کا بورا اپنی پیٹھ پر اٹھا لیا۔ پھر انہوں نے ایک چھلانگ لگائی اور تیزی کے ساتھ اس کے دربار سے نکل کھڑے ہوئے اور اپنے ساتھیوں کو بلند آواز سے کہا۔ آج ایران کے بادشاہ نے اپنے ہاتھ سے اپنے ملک کی زمین ہمارے حوالے کر دی ہے اور پھر گھوڑوں پر سوار ہو کر تیزی سے نکل گئے۔ بادشاہ نے جب ان کا یہ نعرہ سنا تو وہ کانپ اٹھا اور اس نے اپنے درباریوں سے کہا دوڑو اور مٹی کا بورا ان سے واپس لے آؤ۔ یہ تو بڑی بدشگونی ہو گئی ہے کہ میں نے اپنے ہاتھ سے اپنے ملک کی مٹی ان کے حوالے کر دی ہے مگر وہ اس وقت تک گھوڑوں پر سوار ہو کر بہت دور نکل چکے تھے۔ لیکن آخر وہی ہوا جو انہوں نے کہا تھا اور چند سال کے اندر اندر سارا ایران مسلمانوں کے ماتحت آ گیا۔ یہ عظیم الشان تغیر مسلمانوں میں کیوں پیدا ہوا؟ اس لیے کہ قرآنی تعلیم نے ان کے اخلاق، ان کی عادات میں ایک انقلاب پیدا کر دیا تھا۔ ان کی سفلی زندگی پر اس نے ایک موت طاری کر دی تھی اور انہیں بلند کردار اور اعلیٰ درجہ کے اخلاق پر لا کر کھڑا کر دیا تھا۔ اور اس کے نتیجہ میں پھر وہ دنیا میں اسلام پھیلانے والے بنے اور اسلام کی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے حقیقی مسلمان بنانے والے بنے اور کوئی خوف اور خطرہ کسی طاقت کا ان کو مرعوب نہیں کر سکا۔ (ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 6 صفحہ 204-205)
بہرحال ان کے ذکر کا ابھی کچھ حصہ رہتا ہے باقی حصہ ان شاء اللہ آئندہ بیان کروں گا۔
مَیں آج بھی کچھ جنازے غائب پڑھاؤں گا اور ان میں سے پہلا جنازہ مکرمہ بشریٰ اکرم صاحبہ اہلیہ محمد اکرم باجوہ صاحب کا ہے جو پاکستان میں ناظر تعلیم القرآن ووقف عارضی ہیں۔ 25؍ مارچ 2020ء کو 66سال کی عمر میں یہ وفات پا گئی تھیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ حالات کی وجہ سے اس وقت جنازہ نہیں پڑھا گیا تھا۔ مرحومہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصیہ تھیں۔ آپ کی اولاد میں دو بیٹے اور ایک بیٹی شامل ہیں۔ بشریٰ اکرم صاحبہ اپنے خاوند مکرم محمد اکرم باجوہ صاحب کے ساتھ پندرہ سال لائبیریا میں رہیں۔ اسی دوران صدر لجنہ اماء اللہ لائبیریا کے طور پر خدمت کی توفیق پائی۔ لائبیریا میں خانہ جنگی کے دوران اپنے خاوند اور بچوں سمیت پندرہ دن تک انہیں آرمی کی بیرکس میں زیر حراست رکھا گیا۔ محمد اکرم باجوہ صاحب لکھتے ہیں کہ مرحومہ نے ایک واقفِ زندگی کے ساتھ یعنی اکرم صاحب کے ساتھ 37؍سال کا عرصۂ رفاقت نہایت اخلاص، صبر اور وفا کے ساتھ بسر کیا خصوصاً خاکسار کی لائبیریا میں بطور مبلغ جب تقرری ہوئی اور وہاں امیر جماعت بھی تھے تو 23 سال کے قیام کے دوران تبلیغی اور تربیتی امور میں معاونت کی۔ مہمانوں کی تواضع کی۔ دیگر جماعتی معاملات میں مددگار رہیں۔ صدر لجنہ اماء اللہ لائبیریا کے طور پر خدمت کی توفیق پائی۔ لائبیریا میں مرحومہ اپنے پندرہ سالہ قیام کے دوران بارہا ملیریا اور ٹائیفائیڈ میں مبتلا ہوئیں لیکن اس کے باوجودنہایت صبر کے ساتھ خاکسار کی شریکِ کار رہیں۔ مرحومہ نے بچوں کی بہترین دینی اقدار پر تربیت کی ہے اور دو بچے ماشاء اللہ وفاکے ساتھ جماعت سے جڑے ہوئے ہیں۔ ایک واقفِ زندگی منصور ناصر صاحب جو وہاں شاید ہائی سکول کے پرنسپل ہیں وہ لکھتے ہیں کہ تین سال مسلسل جب تک میں اکیلا لائبیریا میں رہا مجھے اپنے گھر میں رکھ کر انہوں نے مہمان نوازی کی اور بچوں کی طرح رکھا، چھوٹے بھائیوں کی طرح رکھا۔ اللہ تعالیٰ ان کی اولاد کو بھی ان کی دعاؤں کا وارث بنائے اور نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق دے۔ مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔
دوسرا جنازہ اقبال احمدناصر پیر کوٹی کاہے جو کرونڈی ضلع خیر پور کے تھے۔ 14جولائی 2020ء کو بیاسی سال کی عمر میں ان کی وفات ہو گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ ان کے بیٹے اکبر احمد طاہر صاحب برکینا فاسو میں مبلغ سلسلہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ آپ مکرم میاں نورمحمد صاحب رفیق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بیٹے تھے، صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیٹے تھے۔ میاں امام دین صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پوتے اور میاں پیر محمد صاحب اور مکرم حافظ محمداسحاق صاحب صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بھتیجے تھے۔ جماعتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ لمبے عرصہ تک بطور سیکرٹری مال خدمت کی توفیق پائی۔ انصار اللہ کے زعیم بھی رہے۔ امام الصلوٰۃ بھی تھے۔ مربی اطفال وغیرہ کی خدمت بھی ادا کرتے رہے۔ کہتے ہیں کہ بچپن میں مَیں نے دیکھا کہ ایک ڈبے میں پیسے علیحدہ کر کےرکھتے تھے اور پوچھنے پر بتایا کرتے تھے کہ چندے کے پیسے ساتھ کے ساتھ علیحدہ کر کے رکھتا جاتا ہوں تا کہ وقت پر ادائیگی کر سکوں۔ بڑے جذبے اور شوق سے تبلیغ کیا کرتے تھے۔ آپ کے ذریعےکئی سعید روحیں جماعت میں شامل ہوئیں۔ دعا گو، پابندِ صوم و صلوٰۃ اور تہجد گزار تھے۔ یہ برکینا فاسو میں ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ ہمارے بڑے اصرار پر یہ 2016ء میں برکینا فاسو آئے اور اس دوران میں جتنے جماعتی جلسے ہوئے، اجتماعات ہوئے ان میں شرکت کی اور بڑے جوش سے وہاں نعرے لگاتے تھے اور حاضرین کا خون گرمایا اور دلی سکون حاصل کیا کیونکہ پاکستان میں لمبے عرصے سے جماعتی جلسہ جات نہ ہونے کی وجہ سے ان کے دل میں ایک تشنگی تھی۔ پسماندگان میں ان کی اہلیہ بشیراں بیگم صاحبہ اور تین بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ امیر مشنری انچارج برکینا فاسو لکھتے ہیں کہ جب برکینا فاسو آئے ہیں تواگرچہ ان کو زبان کا مسئلہ تھا۔ وہاں فرنچ بولی جاتی ہے لیکن ان کی محبت کی زبان کو ہر کوئی سمجھتا تھا اور وہ ہر ایک سے اتنا پیار سے ملتے کہ ہر کوئی ان کا گرویدہ ہو جاتا تھا۔ ان کی وفات پر یہاں کے مقامی لوگوں نے بہت محبت سے ان کا تذکرہ کیاہے۔ لکھتے ہیں کہ ہمارے نیشنل سیکرٹری اشاعت باپینا (Bapina) صاحب نے ان کی تصویر شیئر کی اور انہوں نے وفات کے بعد لکھا کہ برکینا فاسو کے قیام کے دوران ان سے ملا تو میں نے ان کو حقیقی عظیم احمدی پایا۔ اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور ان کی اولاد کو ان کی دعاؤں کا وارث بنائے۔ ان کے بیٹے جو وہاں مربی ہیں وہ جنازے میں شامل نہیں ہو سکے تھے۔
تیسرا جنازہ غلام فاطمہ فہمیدہ صاحبہ کا ہے جو محمد ابراہیم صاحب کی اہلیہ تھیں۔ دولیاہ جٹاں ضلع کوٹلی آزاد کشمیر کی ہیں۔ 18؍جولائی 2020ء کو 72سال کی عمر میں طویل علالت کے بعد ان کی وفات ہو گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ 1944ء میں ان کے والدنے بیعت کی تھی۔ ان کا نام نیک محمد عرف کالے خان تھا اور بیعت سے قبل انہوں نے خواب دیکھی تھی کہ میں کسی بزرگ سے ملنے جا رہا ہوں۔ جب میں نے بزرگ کو دیکھا تو ان کی طرف بڑھ کر معانقہ کیا۔ اس بزرگ نے کالے خان صاحب کو فرمایا کہ کالے خان آپ کب ہمارے پاس آ رہے ہیں؟ تو کالے خان صاحب نے کہا کہ مَیں تو آ ہی گیا ہوں۔ تو کہتے ہیں جب ایک شخص کے پاس حضرت خلیفہ ثانیؓ کی تصویر دیکھی تو آپ نے پہچان لیا اور کہا اسی بزرگ شخص کو میں نے خواب میں دیکھا تھا اور بذریعہ خط آپ نے بیعت کر لی اور ان کی بیعت کے بعد ان کی اہلیہ نے بھی کہا کہ میری بیعت بھی ساتھ ہی کروا دیں اور انہوں نے بھی بیعت کر لی۔ دونوں میاں بیوی مخلص تھے۔ اسی طرح ان کی اولاد فہمیدہ فاطمہ صاحبہ جو فوت ہوئی ہیں ان پر ان کی تربیت کا اثر ہے۔ یہ بھی پنجوقتہ نمازی اور تہجد گزار تھیں۔ تلاوت قرآن کریم باقاعدہ کرنے والی تھیں اور آپ کے بچوں نے اکثر آپ کو خدا کے حضور راتوں کو اٹھ اٹھ کر گریہ و زاری کرتے دیکھا ہے۔ نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے جب عورتوں کو اجازت تھی تو اس وقت آپ نمازِ جمعہ کے لیے ایک گھنٹہ قبل مسجد میں چلی جاتیں اور نوافل اور دعاؤں میں وقت گزارتیں۔ بہت بہادر، حوصلہ مند اور صبر کرنے والی تھی۔ آپ کے خاوند 1965ءاور 71ء کی جنگ میں دو مرتبہ قید ہوئے۔ پہلی مرتبہ تو لمبے عرصہ تک آپ کے خاوند کے زندہ ہونے کی کوئی خبر نہیں آئی اور ان کو شہید سمجھا گیاکہ وہ شہید ہو گئے ہیں۔ غائبانہ نماز جنازہ بھی ادا کر دی گئی لیکن اس کے باوجود آپ کو حوصلہ تھا کہ خاوند زندہ موجود ہیں اور ضرور واپس آئیں گے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور خاوند کو رہائی نصیب ہوئی اور واپس آ گئے۔ مرحومہ نے پسماندگان میں خاوند مکرم محمد ابراہیم صاحب کے علاوہ چار بیٹے اور دو بیٹیاں یادگار چھوڑے ہیں۔ تین بیٹے واقفِ زندگی ہیں اور محمد جاوید صاحب زیمبیا میں بطور مبلغ خدمت کی توفیق پا رہے ہیں۔ والدہ کی وفات پر پاکستان نہیں جا سکے۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ سے رحم اور مغفرت کا سلوک فرمائے۔ ان کے بچوں کو ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اگلا جنازہ مکرم محمد احمد انور صاحب حیدرآبادی کا ہے جو 22؍ مئی کو 94 سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ ان کے خاندان میں احمدیت ان کے دادا شیخ داؤد احمد صاحب کے ذریعے آئی تھی۔ ابتدائی عمر میں آپ کے والدنے اپنے دو بیٹوں کو یعنی محمداحمد صاحب انور اور مجید احمد صاحب کو تعلیم کی غرض سے قادیان بھجوا دیا تھا۔ قادیان میں منارۃ المسیح پر اذان دینے کا شرف بھی ان کو حاصل ہوا۔ محمد احمد صاحب ابتدا سے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہمراہ رہے اور پارٹیشن کے بعد حضور کے ہمراہ ربوہ آ گئے۔ اس کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان کے ڈرائیور کے طور پر بھی کام کیا۔ پھر انہوں نے اپنی تعلیم مکمل کی اور فزیکل ایجوکیشن میں ڈپلومہ لیا۔ پھر اردو میں اور اسلامیات میں ایم۔ اے کیا، ڈی پی کا امتحان پاس کیا۔ پھر تعلیم الاسلام کالج میں ان کو لمبا عرصہ خدمت کی توفیق ملی۔ 73ء سے 76ء تک تین سال کے لیے وقف کر کے گیمبیا چلے گئے۔ 78ء سے 86ء نائیجیریا میں لڑکیوں کے کالج میں اسلامیات کے ٹیچر رہے۔ اٹھاسی میں پاکستان سے جرمنی ہجرت کی اور 2009ء میں وہاں سے یوکے آ گئے اور پھر یہیں رہے۔ مرحوم کے چار بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں جو سب شادی شدہ ہیں۔ قضا بورڈ جرمنی کے نائب صدر رہے۔ ایک وقت میں جماعت جرمنی کے آڈیٹر بھی رہے۔ ان کی بیٹی امۃ المجید صاحبہ کہتی ہیں کہ میرے والد دعاؤں کا ایک خزانہ تھے۔ اپنی زندگی میں انہوں نے صرف نماز، قرآن، روزہ اور خلافت کی خدمت کرنے کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا اور ہم سب بچوں کو بھی یہی تلقین کی ہے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم سے رحم اور مغفرت کا سلوک فرمائے۔
آج کا جو آخری جنازہ ہے وہ مکرم سلیم حسن الجابی صاحب مرحوم آف سیریا کا ہے۔ 30؍جون کو 92سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ ان کی بیٹی لبنیٰ الجابی صاحبہ اور ان کی پوتی ہبہ الجابی صاحبہ جو ڈاکٹر بلال طاہر صاحب کی اہلیہ ہیں اور یہاں یوکے میں رہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ سلیم جابی صاحب کی پیدائش دسمبر 1928ء میں دمشق کے مضافاتی علاقے میں ہوئی تھی۔ 18سال کی عمر میں جابی صاحب کا احمدیت سے تعارف ایک سادہ سے احمدی کسان مکرم ابوذھب کے ذریعے سے ہوا۔ اس پر جابی صاحب نے استخارہ کیا تو خواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا اور خواب میں ہی آپؑ کی بیعت کی۔ بعد میں ابوذھب صاحب نے انہیں اسلامی اصول کی فلاسفی کا عربی ترجمہ دیا۔ اس کتاب پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر دیکھ کر اس وقت کے جماعت احمدیہ شام کے امیر مکرم منیر الحسنی صاحب کے پاس جا کر بیعت کر لی۔ ان کے خاندان کی طرف سے، والد کی طرف سے سخت مخالفت تھی لیکن مرحوم ثابت قدم رہے۔ پھر ان کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے زمانے میں پاکستان جانے کا موقع ملا۔ وہاں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زیر سایہ چھ سال انہوں نے ربوہ میں گزارے اور وہیں دینی تعلیم حاصل کی۔ نیز اردو زبان بھی سیکھی۔ حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد پر پاکستان میں ہی ان کی شادی ہوئی اور حضور نے ان کا نکاح پڑھایا۔ ان کی اہلیہ پاکستانی تھیں۔ مرحومہ کی پوتی ہبہ جابی صاحبہ لکھتی ہیں کہ ہمارے دادا ہمیشہ ہمیں نصیحت کرتے اور تعلیم و تربیت کے لیے وقت دیتے تھے اور روحانی ترقی اور خلافت کے ساتھ وابستگی جیسے امور پر زور دیتے تھے۔ آپ کی اہلیہ چند سال قبل وفات پا گئی تھیں۔ آپ کے چھ بچے تھے۔ ایک بیٹے ڈاکٹر نعیم الجابی صاحب چند سال پہلے اغوا ہو گئے تھے اور اب تک ان کا کوئی پتہ نہیں چلا۔ وسیم الجابی پولینڈ میں جماعت کے ممبر ہیں اور یہ ہبہ جابی کے والد ہیں۔ اسی طرح دو بیٹیاں اور دو بیٹے سیریا میں ہیں۔ ہبہ جابی صاحبہ بھی یہاں جماعت کی خدمت خاص طور پر کتب کے ترجمے میں اچھے مشورے دیتی ہیں اور کام کر رہی ہیں۔ ان کے میاں بلال طاہر بھی ترجمے کرتے ہیں۔ یہ ان کی مدد کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے اخلاص و وفا میں بھی برکت ڈالے اور ان کے عرفان کو بھی بڑھائے۔
ان کی بیٹی لبنیٰ عبدالخبیر الجابی لکھتی ہیں کہ ہمیں رسوم اور بدعات کی پیروی سے منع کرتے اور تعلق باللہ اور تبلیغ کی نصیحت کرتے۔ غریبوں پر بہت خرچ کرتے۔ مرحوم کے ذریعے شام اور لبنان میں کئی لوگوں نے بیعت کی جن میں عیسائی بھی شامل تھے۔ پھر کہتی ہیں کہ ہمیں آخری وصیت یہ کی کہ خلافت سے ہمیشہ چمٹے رہنا اور خلیفہ وقت کی نصائح پر عمل کرنا۔ تبلیغ میں سستی نہ کرنا اور ہمیشہ ہر کام کے لیے دعا سے کام لینا اور حق کے راستے میں کسی ظلم کی پروا نہ کرنا۔ صدر جماعت لبنان عمر علام صاحب لکھتے ہیں کہ احمدیت سے تعارف سے قبل ہم سلیم الجابی صاحب مرحوم کی کتب پڑھتے تھے اور اس میں ظہور امام الزمان علیہ السلام اور اس کی مبارک جماعت کی طرف اشارے ہوتے تھے۔ جب ہم یہ سب پڑھ چکے اور پھر انہوں نے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپؑ کی جماعت کے بارے میں کھل کر بتایا اور بیعت کا کہا کہ بیعت کرو۔ یہ ان کا اپنا ایک انداز تھا۔ ضروری نہیں کہ ہر جگہ ہی صحیح چلے لیکن بہرحال انہوں نے اس طرح تبلیغ کی اور بہت سوں کو تبلیغ کر کے احمدی بنایا۔ نیز کہا کہ اب میری کتب چھوڑ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپؑ کے خلفاء اور جماعت کی کتب پڑھیں۔ پھر کہتے ہیں کہ ہم دوستوں نے جو لبنان کے اولین احمدی ہیں مرحوم کے ذریعے سے بیعت کی تھی اور ہم اس بارے میں ان کے احسان کا اعتراف کرتے ہیں اور ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ ان کے لیے دعا کرتے ہیں۔ معتز قزق صاحب جو سیرین ہیں اور آج کل کینیڈا میں رہائش پذیر ہیں۔ کہتے ہیں سیریا میں ایک لوکل جماعت کا صدر تھا تو اس وقت متعدد دفعہ الجابی صاحب سے ملا۔ مَیں نے دیکھا کہ جب بھی خلافت کا ذکر آتا تو وہ اکثر کہتے تھے کہ میری خواہش ہے کہ خلافت کے قدموں میں میری موت آئے۔
میر انجم پرویز صاحب یہاں عربی ڈیسک کے مبلغ سلسلہ ہیں وہ کہتے ہیں جب بھی نظام خلافت کے نام پر کوئی بات کہی جاتی تو سرِتسلیم خم کرتے تھے اور برملا اس بات کا اظہار کرتے کہ جو بھی نظام ِجماعت مجھے حکم دے گا میں اس کی اطاعت کروں گا۔ 2011ء میں سیریا سے جلسہ سالانہ یوکے پر آئے تھے اور کہتے تھے کہ میری خواہش ہے کہ یہاں خلیفہ وقت کے قدموں میں میری جان نکل جائے اور میرے لیے اس سے بڑھ کر کوئی اعزاز نہیں۔ جابی صاحب کے ذریعے بہت سے لوگوں نے احمدیت قبول کی اور ان میں سے اکثر جماعت اور خلافت کے وفادار اور مخلص احمدی ہیں۔ بہتوں نے مجھے خط بھی لکھے ہیں کہ ہم نے ان سے بہت کچھ سیکھا اور ان کے ذریعہ سے احمدیت قبول کی۔ پھر جابی صاحب کہتے تھے کہ حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحبؓ نے خود مجھے فرمایا تھا کہ میری کتاب ’’حیات قدسی‘‘ کا ترجمہ کرو تا کہ عرب لوگوں کو پتہ چلے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کیسے تھے؟ چنانچہ انہوں نے حیات قدسی کا عربی ترجمہ بھی کیا تھا۔ عربی تو خیر ان کی اپنی زبان تھی۔ اس کے علاوہ اردو بھی ان کو آتی تھی اچھی بول لیتے تھے۔ فارسی بولتے تھے۔ انگریزی زبان بھی آتی تھی گزارہ کر لیتے تھے۔
2005ء میں مَیں قادیان کے جلسے میں جب گیا ہوں تو وہاں مجھے ملے۔ مختصر سی ملاقات تھی لیکن انتہائی عاجزی سے ملے۔ پھر یوکے میں مجھے ملے۔ جلسے پر یہاں آئے تھے اور بڑی عاجزی سے انہوں نے کہا کہ خلافت احمدیہ پر میرا کامل یقین ہے۔ پوری اطاعت اور پوری طرح عقیدت رکھتا ہوں اور میرے لیے دعا بھی کریں کہ نظام جماعت کے ساتھ ہمیشہ جڑا رہوں۔ اللہ تعالیٰ ان کی اولاد اور ان کی نسل کو بھی کامل وفا کے ساتھ جماعت اور خلافت کے ساتھ جوڑے رکھے۔ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔
اب جمعے کی نماز کے بعد جیسا کہ میں نے کہا (شایدنہیں کہا تھا لیکن بہرحال) جمعےکی نماز کے بعد ان سب کا نماز جنازہ غائب ادا کروں گا۔
(الفضل انٹر نیشنل لندن 14؍ اگست2020ء صفحہ 5تا 10)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعدؓ سے غزوۂ احد کے موقعے پر فرمایا تھا کہ میرے ماں باپ تم پر فدا ہوں تیر چلاتے جاؤ۔ اے بھرپور طاقتور نوجوان! تیر چلاتے جاؤ۔
ابتدائے اسلام میں ایمان لانے والے، مکّی دَور میں تکالیف برداشت کرنے والے، نبی اکرمﷺ کی پہرےداری کا شرف پانے والے، دینِ اسلام اور خلافت کی غیرت رکھنے والے، مستجاب الدعوات، فارس الاسلام، فاتح عراق، آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت بدری صحابی حضرت سعد بن ابی وقّاص رضی اللہ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ۔
پانچ مرحومین مکرمہ بشریٰ اکرم صاحبہ اہلیہ محمد اکرم باجوہ صاحب (ناظر تعلیم القرآن ووقفِ عارضی ربوہ)، مکرم اقبال احمدناصر صاحب پیرکوٹی، مکرمہ غلام فاطمہ فہمیدہ صاحبہ اہلیہ محمد ابراہیم صاحب آف دولیاہ جٹاں ضلع کوٹلی آزاد کشمیر، مکرم محمد احمد انور صاحب حیدرآبادی اور مکرم سلیم حسن الجابی صاحب آف سیریا کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب۔
فرمودہ 24؍جولائی2020ء بمطابق 24؍ وفا 1399 ہجری شمسی، بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے۔
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔