بدری اصحاب نبویؐ کی سِیرِ مبارکہ
خطبہ جمعہ 11؍ ستمبر 2020ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
آج جن بدری صحابی کا مَیں ذکر کروں گا وہ ہیں حضرت بِلال بن رباحؓ۔ حضرت بلال کے والد کا نام رباح تھا اور والدہ کا نام حمامہ۔ حضرت بلالؓ اُمَیَّہ بن خَلَفْ کے غلام تھے۔ حضرت بلالؓ کی کنیت ابوعبداللہ تھی جبکہ بعض روایات میں ابو عبدالرحمٰن اور ابوعبدالکریم اور ابو عمرو بھی مذکور ہے۔ حضرت بلالؓ کی والدہ حبشہ کی رہنے والی تھیں لیکن والد سرزمینِ عرب سے ہی تعلق رکھتے تھے۔ محققین نے لکھا ہے کہ وہ حبشی سامی نسل سے تعلق رکھتے تھے یعنی قدیم زمانے میں سامی یا بعض عربی قبیلے افریقہ میں جاکر آباد ہو گئے تھے جس کے باعث ان کی نسلوں کے رنگ تو افریقہ کی دوسری اقوام کی طرح ہو گئے لیکن وہاں کی خاص علامات اور عادات ان میں ظاہر نہ ہوئیں۔ بعد میں ان میں سے بعض لوگ غلام بن کر عرب واپس لَوٹ گئے۔ چونکہ ان کا رنگ سیاہ تھا اس لیے عرب انہیں حبشی یعنی حبشہ کے رہنے والے ہی سمجھتے تھے۔
ایک روایت کے مطابق حضرت بلالؓ مکہ میں پیدا ہوئے اور مُوَلَّدِیْن میں سے تھے۔ مُوَلَّدِیْن ان لوگوں کو کہتے تھے جو خالص عرب نہ ہوں۔ ایک دوسری روایت کے مطابق آپ سُرَاۃ میں پیدا ہوئے اور سُرَاۃ یمن اور حبشہ کے قریب ہے جہاں مخلوط نسل کثرت سے پائی جاتی ہے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ174-175 ’’بلال بن رباح‘‘، دارالکتب العلمیۃ بیروت 2017ء) (اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ المجلد الاول صفحہ 415 ’’بلال بن رباح‘‘ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان2008ء) (روشن ستارے از غلام باری سیف صاحب جلد 01 صفحہ 145) (اسدالغابہ (مترجم) جلد اول صفحہ 283 شائع کردہ مکتبہ خلیل)
حضرت بلالؓ کا رنگ گندم گوں سیاہی مائل تھا۔ دبلا پتلا جسم تھا۔ سر کے بال گھنے تھے اور رخساروں پر گوشت بہت کم تھا۔ (روشن ستارے جلد 1صفحہ 145 از غلام باری سیف صاحب)
حضرت بلالؓ نے متعدد شادیاں کیں۔ ان کی بعض بیویاں عرب کے نہایت شریف اور معزز گھرانوں سے تعلق رکھتی تھیں۔ آپؓ کی ایک بیوی کا نام ہالہ بنت عوف تھا جو حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کی ہمشیرہ تھیں۔ ایک زوجہ کا نام ہند خَوْلَانِیَہ تھا۔ بنو ابو بُکَیرکے خاندان میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلالؓ کا نکاح کروایا۔ حضرت ابودَرْدَاء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خاندان میں بھی حضرت بلالؓ کا رشتہ مُصَاہَرت قائم ہوا تھا۔ البتہ کسی سے کوئی اولادنہیں ہوئی۔ (سیر الصحابہ جلد دوم ’’بلال بن رباح‘‘ صفحہ 159، دار الاشاعت اردو بازار کراچی 2004) (الاصابہ فی تمییز الصحابہ لابن حجر عسقلانی جلد8صفحہ339 ’’ہالۃ بنت عوف‘‘، دار الکتب العلمیہ بیروت 2005ء) (تاریخ دمشق الکبیر لابن عساکر جلد 10 صفحہ 334، ذکر من اسمہ بلال بن رباح، دار احیاء التراث العربی بیروت 2001)
حضرت بلالؓ کے ایک بھائی تھے جن کا نام خالد تھا اور ایک بہن تھیں جن کا نام غُفَیْرَہ تھا۔ (اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 418 بلال بن رباح۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2016ء)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بلال سَابِقُ الْحَبَشَۃہیں۔ یعنی اہل حبشہ میں سے سب سے پہلے اسلام لانے والے ہیں۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ 175 ’’بلال بن رباح‘‘، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2017)
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسلام لانے میں سبقت لے جانے والے اشخاص چار ہیں۔ أَنَا سَابِقُ الْعَرَبِ۔ یعنی مَیں عربوں میں سے سبقت لے جانے والا ہوں۔ سَلْمَانُ سَابِقُ الْفُرْسِ۔ سلمان اہل فارس میں سے سبقت لے جانے والے ہیں اور بِلَالٌ سَابِقُ الْحَبَشَۃِ۔ بلال اہلِ حبشہ میں سے سبقت لے جانے والے ہیں اور صُہَیْبٌ سَابِقُ الرُّوْمِ اور صہیب رومیوں میں سے سبقت لے جانے والے ہیں۔ (سیر اعلام النبلاء لامام الذھبی جلد 01 صفحہ 349، ’’بلال بن رباح‘‘ مؤسسہ الرسالۃ 2014)
عروہ بن زبیر سے مروی ہے کہ حضرت بلال بن رباحؓ ان لوگوں میں سے تھے جو کمزور سمجھے جاتے تھے۔ جب وہ اسلام لائے تو ان کو عذاب دیا جاتا تھا تا کہ وہ اپنے دین سے پھر جائیں مگر انہوں نے ان لوگوں کے سامنے کبھی وہ کلمہ ادا نہ کیا جو وہ چاہتے تھے یعنی اللہ تعالیٰ کا انکار کرنا۔ انہیں اُمَیّہ بن خَلَف عذاب دیا کرتا تھا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ 175 ’’بلال بن رباح‘‘، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2017ء)
حضرت بلالؓ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تو ان کو طرح طرح کا عذاب دیا جاتا تھا۔ جب لوگ حضرت بلالؓ کے عذاب دینے میں سختی کرتے تو حضرت بلالؓ اَحَد، اَحَد کہتے۔ وہ لوگ کہتے اس طرح کہو جس طرح ہم کہتے ہیں تو حضرت بلالؓ جواباً کہتے کہ میری زبان اسے اچھی طرح ادا نہیں کر سکتی جو تم کہہ رہے ہو۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ حضرت بلال کو جب ایذا پہنچائی جاتی اور مشرکین یہ ارادہ کرتے کہ ان کو اپنی طرف مائل کر لیں تو حضرت بلالؓ کہتے اللّٰہ، اللّٰہ۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ 175 ’’بلال بن رباح‘‘، داراحیاء التراث بیروت 2017ء) (اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 283 ’’بلال بن رباح‘‘ دار الفکر بیروت 2003ء)
ایک روایت میں ہے کہ جب حضرت بلالؓ ایمان لائے تو حضرت بلالؓ کو ان کے مالکوں نے پکڑ کر زمین پر لٹا دیا اور ان پر سنگریزے اور گائے کی کھال ڈال دی اور کہنے لگے تمہارا رب لات اور عُزّیٰہے مگر آپؓ اَحد اَحد ہی کہتے تھے۔ ان کے مالکوں کے پاس حضرت ابوبکرؓ آئے اور کہا کہ کب تک تم اس شخص کو تکلیف دیتے رہو گے۔ حضرت ابوبکرؓ نے حضرت بلالؓ کو سات اوقیہ میں خرید کر انہیں آزاد کر دیا۔ اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے یعنی دو سو اسّی درہم میں۔ پھر حضرت ابوبکرؓ نے یہ واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوبکر! مجھے بھی اس میں شریک کر لو۔ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا یا رسول اللہؐ ! مَیں نے اسے آزاد کر دیا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ175 ’’بلال بن رباح‘‘ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2017ء) (لغات الحدیث جلد4صفحہ 527مطبوعہ علی آصف پرنٹرز لاہور)
حضرت ابوبکرؓ نے حضرت بلالؓ کو خرید کر اللہ کی راہ میں آزاد کیا تھا اور خرید کے متعلق جیسا کہ پہلے ذکر کیا ہے دو سو اسّی درہم۔ بعض روایات کے مطابق حضرت ابوبکرؓ نے انہیں پانچ اوقیہ یعنی دو سو درہم میں، بعض کے مطابق سات اوقیہ دو سو اسّی درہم اور بعض کے مطابق نو اوقیہ تین سو ساٹھ درہم میں خریدا تھا۔ (اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ المجلد الاول صفحہ 415 ’’بلال بن رباح‘‘ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان2016ء)
ایک روایت میں ہے کہ جب حضرت ابوبکرؓ نے حضرت بلالؓ کو خریدا تو وہ پتھروں میں دبے ہوئے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ نے سونے کے پانچ اوقیہ کے بدلے ان کو خریدا۔ لوگوں نے حضرت ابوبکرؓ سے کہا کہ اگر آپؓ صرف ایک اوقیہ دینے پر بھی راضی ہوتے یعنی چالیس درہم تو ہم ایک اوقیہ میں بھی اس کو بیچ دیتے۔ اس پر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اگر تم اس کو سو اوقیہ یعنی چار ہزار درہم میں بھی بیچنے کو تیار ہوتے تو مَیں سو اوقیہ میں بھی اس کو خرید لیتا۔ (سیر اعلام النبلاء لامام الذھبی جلد 1صفحہ 353، ’’بلال بن رباح‘‘ مؤسسہ الرسالۃ 2014)
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے سات ایسے غلاموں کو آزاد کروایا جنہیں تکالیف دی جاتی تھیں۔ ان میں حضرت بلالؓ اور حضرت عَامِر بن فُہَیْرَہؓ شامل تھے۔ (المستدرک علی الصحیحین للحاکم، ذکر بلال بن رباح، جلد 3 صفحہ321، حدیث 5241، دار الکتب العلمیۃ بیروت)
حضرت جابر بن عبداللہؓ سے مروی ہے کہ حضرت عمرؓ کہا کرتے تھے کہ ابوبکرؓ ہمارے سردار ہیں اور انہوں نے ہمارے سردار یعنی بلال کو آزاد کیا۔ (صحیح البخاری کتاب فضائل اصحاب النبیﷺ باب مناقب بلال بن رباح مولیٰ ابی بکر حدیث 3754)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ حضرت بلالؓ کو دی جانے والی تکالیف اور حضرت ابوبکرؓ کا آپؓ کو آزاد کرانے کے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
’’یہ غلام جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے مختلف اقوام کے تھے۔ ان میں حبشی بھی تھے جیسے بلالؓ۔ رومی بھی تھے جیسے صہیبؓ۔ پھر ان میں عیسائی بھی تھے جیسے جبیرؓ اور صہیبؓ اور مشرکین بھی تھے جیسے بلالؓ اور عمارؓ۔ بلالؓ کو ان کے مالک تپتی ریت پر لٹا کر اوپر یا تو پتھر رکھ دیتے یا نوجوانوں کو سینے پر کودنے کے لیے مقرر کر دیتے۔ حبشی النسل بلالؓ امیہ بن خلف نامی ایک مکی رئیس کے غلام تھے۔ امیہ انہیں دوپہر کے وقت گرمی کے موسم میں مکہ سے باہر لے جا کر تپتی ریت پر ننگا کر کے لٹا دیتا تھا اور بڑے بڑے گرم پتھر ان کے سینہ پر رکھ کر کہتا تھا کہ لات اور عُزّیٰکی الوہیت کو تسلیم کر اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)سے علیحدگی کا اظہار کر۔ بلالؓ اس کے جواب میں کہتے اَحَدٌ اَحَدٌ۔ یعنی اللہ ایک ہی ہے۔ اللہ ایک ہی ہے۔ بار بار آپؓ کا یہ جواب سن کر امیہ کو اَور غصہ آ جاتا اور وہ آپؓ کے گلے میں رسّہ ڈال کر شریر لڑکوں کے حوالے کر دیتا اور کہتا کہ ان کو مکہ کی گلیوں میں پتھروں کے اوپر گھسیٹتے ہوئے لے جائیں۔ جس کی وجہ سے ان کا بدن خون سے تر بتر ہو جاتا مگر وہ پھر بھی اَحَدٌ اَحَدٌ کہتے چلے جاتے۔ یعنی خدا ایک، خدا ایک۔ عرصہ کے بعد جب خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو مدینہ میں امن دیا، جب وہ آزادی سے عبادت کرنے کے قابل ہو گئے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلالؓ کو اذان دینے کے لیے مقرر کیا۔ یہ حبشی غلام جب اذان میں اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کی بجائے اَسْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہتا تو مدینہ کے لوگ جو اس کے حالات سے ناواقف تھے ہنسنے لگ جاتے۔ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو بلالؓ کی اذان پر ہنستے ہوئے پایا تو آپؐ لوگوں کی طرف مڑے اور کہا تم بلالؓ کی اذان پر ہنستے ہو مگر خدا تعالیٰ عرش پر اس کی اذان سن کر خوش ہوتا ہے۔ آپؐ کا اشارہ اسی طرف تھا کہ تمہیں تو یہ نظر آتا ہے کہ یہ ’’ش‘‘ نہیں بول سکتا مگر ’’ش‘‘ اور ’’س‘‘ میں کیا رکھا ہے۔ خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ جب تپتی ریت پر ننگی پیٹھ کے ساتھ اس کو لٹا دیا جاتا تھا اور اس کے سینہ پر ظالم اپنی جوتیوں سمیت کودا کرتے تھے اور پوچھتے تھے کہ کیا اب بھی سبق آیا ہے یا نہیں؟ تو یہ ٹوٹی پھوٹی زبان میں اَحَدٌ اَحَدٌ کہہ کر خدا تعالیٰ کی توحید کا اعلان کرتا رہتا تھا اور اپنی وفا داری، اپنے توحید کے عقیدہ اور اپنے دل کی مضبوطی کا ثبوت دیتا تھا۔ پس اس کا اَسْھَدُ بہت سے لوگوں کے اَشْھَدُسے زیادہ قیمتی تھا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب ان پر یہ ظلم دیکھے تو ان کے مالک کو ان کی قیمت ادا کر کے انہیں آزاد کروا دیا۔ اسی طرح اور بہت سے غلاموں کو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے مال سے آزاد کرایا۔‘‘ (دیباچہ تفسیر القرآن انوار العلوم جلد 20 صفحہ 193۔ 194)
حضرت بلالؓ کا شمار اَلسَّابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْن میں ہوتا ہے۔ آپؓ نے اس وقت اسلام کا اعلان کیا جب صرف سات آدمیوں کو اس کے اعلان کی توفیق ہوئی تھی۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ 176 ’’بلال بن رباح‘‘، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2017ء)
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے بیان کیا کہ سب سے پہلے جنہوں نے اسلام کا اعلان فرمایا وہ سات ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکرؓ اور عمارؓ اور ان کی والدہ سمیہؓ اور صہیبؓ اور بلالؓ اور مقدادؓ۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تو اللہ تعالیٰ نے آپ کے چچا ابوطالب کے ذریعے سے محفوظ رکھا اور ابوبکر کو اللہ تعالیٰ نے ان کی قوم کے ذریعے سے محفوظ رکھا۔ جیسا کہ میں گذشتہ ایک خطبے میں بیان کر چکا ہوں کہ نہ ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دشمنوں کی اذیتوں سے محفوظ رہے اور نہ قوم حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ظلموں سے بچا سکی۔ آپ دونوں پر بھی ظلموں کی انتہا ہوئی تھی۔ شروع میں کچھ عرصہ نرمی ہوئی لیکن بعد میں تو بڑی سختیاں ہوتی رہیں لیکن بہرحال یہ راوی کا بیان ہے۔ بیان کرنے والے کہتے ہیں کہ ان کا تو کوئی نہ کوئی سپورٹ کرنے والا تھا۔ کوئی بات کہہ دیتا تھا، آواز اٹھا دیتا تھا لیکن باقیوں کو مشرکوں نے پکڑ لیا جو کمزور تھے یا غلام تھے اور لوہے کی زرہیں پہنائیں اور انہیں دھوپ میں جلاتے تھے۔ پس ان میں سے کوئی بھی ایسا نہ تھا جس نے ان کے ساتھ جس میں وہ چاہتے تھے موافقت نہ کر لی ہو سوائے بلال کے کیونکہ ان پر اپنا نفس اللہ کی خاطر بے حیثیت ہو گیا تھا۔ حضرت بلالؓ تھے جو ہمیشہ ثابت قدم رہے اور وہ اپنی قوم کے لیے بھی بے حیثیت تھے۔ وہ ان کو پکڑتے اور لڑکوں کے سپرد کر دیتے اور وہ انہیں مکہ کی گھاٹیوں میں گھماتے پھرتے اور بلالؓ احدٌ احدٌکہتے جاتے۔ یہ ابن ماجہ کی روایت ہے۔ (سنن ابن ماجہ فضائل بلال حدیث 150 ترجمہ از نور فاؤنڈیشن)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ حضرت بلالؓ کے اول زمانے میں ایمان لانے کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ یوں بیان فرماتے ہیں کہ ’’حضرت خَبَّابؓ جو اَلسَّابِقُوْنَ الْأَوَّلُوْنَ صحابہؓ میں سے تھے اور جن کے متعلق یہ اختلاف ہے کہ انہوں نے پہلے بیعت کی یا بلالؓ نے۔ کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا کہ ایک غلام اور ایک حُرّ نے مجھے سب سے پہلے قبول کیا تھا۔ بعض لوگ اس سے حضرت بلالؓ اور حضرت ابوبکرؓ مراد لیتے ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد حضرت ابوبکرؓ اور حضرت خَبَّابؓ ہیں۔‘‘ (مصری صاحب کے خلافت سے انحراف کے متعلق تقریر، انوار العلوم جلد 14 صفحہ 598)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے ’سیرت خاتم النبیینؐ‘ میں حضرت بلالؓ کی تکالیف کا ذکر کرتے ہوئے جو بیان فرمایا ہے وہ اس طرح ہے کہ
’’بلال بن رباح، امیہ بن خلف کے ایک حبشی غلام تھے۔ امیہ ان کو دوپہر کے وقت جبکہ اوپر سے آگ برستی تھی اور مکہ کا پتھریلا میدان بھٹی کی طرح تپتا تھا باہر لے جاتا اور ننگا کر کے زمین پر لٹا دیتا اور بڑے بڑے گرم پتھر ان کے سینے پر رکھ کر کہتا لات اور عزیٰ کی پرستش کر اور محمد سے علیحدہ ہو جا، ورنہ اسی طرح عذاب دے کر مار دوں گا۔ بلالؓ زیادہ عربی نہ جانتے تھے۔ بس صرف اتنا کہتے اَحد اَحد یعنی اللہ ایک ہی ہے۔ اللہ ایک ہی ہے۔ اور یہ جواب سن کر امیہ اَور تیز ہو جاتا اور ان کے گلے میں رسہ ڈال کر انہیں شریر لڑکوں کے حوالے کر دیتا اور وہ ان کو مکہ کے پتھریلے گلی کوچوں میں گھسیٹتے پھرتے جس سے ان کا بدن خون سے تر بتر ہو جاتا مگر ان کی زبان پر سوائے اَحد اَحد کے اور کوئی لفظ نہ آتا۔ حضرت ابو بکرؓ نے ان پر یہ جوروستم دیکھا تو ایک بڑی قیمت پر خرید کر انہیں آزاد کر دیا۔‘‘ (سیرت خاتم النبیینؐ صفحہ140)
حضرت بلالؓ جب ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو آپؓ نے حضرت سعد بن خَیْثَمَہؓ کے گھر قیام کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلالؓ کی مؤاخات حضرت عُبَیدہ بن حارثؓ سے کروائی جبکہ ایک دوسری روایت کے مطابق آپؐ نے حضرت بلال کی مؤاخات حضرت اَبُورُوَیْحَہ خَثْعَمِی سے کروائی۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ 176 ’’بلال بن رباح‘‘ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2017ء)
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ پہنچے تو صحابہ وہاں بیمار ہونے لگے جن میں حضرت ابوبکرؓ، حضرت بلالؓ اور حضرت عامر بن فُہَیْرَہ بھی شامل تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آئے۔ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت بلالؓ کو بخار ہو گیا۔ حضرت ابوبکرؓ کو جب بخار ہوتا تو یہ شعر پڑھتے۔ عربی شعر تھا اس کا ترجمہ یہ ہے کہ ہر شخص جب وہ اپنے گھر میں صبح کواٹھتا ہے تو اسے صباح الخیر کہا جاتا ہے بحالیکہ موت اس کی جوتی کے تسمے سے نزدیک تر ہوتی ہے اور حضرت بلالؓ جب ان کا بخار اتر جاتا تو بلند آواز سے رو کر یہ شعر پڑھتے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ کاش مجھے معلوم ہو آیا مَیں کوئی رات وادیٔ مکہ میں بسر کروں گا اور میرے ارد گرد اِذْخَر اور جَلِیْل گھاس پات ہوں اور کیا مَیں کسی دن مَجَنَّہ میں پہنچ کر اس کا پانی پیوں گا۔ مَجَنَّہ بھی مکے سے چند میل پر مَرُّ الظَّھْرَان کے قریب ایک جگہ ہے۔ زمانہ جاہلیت میں عرب کا ایک مشہور میلہ مَرُّ الظَّھْرَان میں عُکَاظْ کے بعد لگتا تھا اور عرب کے لوگ عُکَاْظ کے بعد مَجَنَّہ منتقل ہو جاتے اور بیس روز قیام کرتے تھے۔ بہرحال وہ کہتے ہیں کہ وہاں میں پانی پیوں گا اور کیا شَامَہ اور طَفِیْل پہاڑ میرے سامنے ہوں گے۔ شعر میں عرض کر رہے ہیں، بیان کر رہے ہیں۔ طَفِیْل بھی مکہ سے تقریباً دس میل پر ایک پہاڑ ہے اور اس کے قریب ایک اَور پہاڑ تھا جس کو شَامَہ کہتے تھے۔ پھر حضرت بلالؓ کہتے کہ اے اللہ! شَیْبَہ بن رَبِیْعَہ، عُتْبَہ بن ربیعہ اور اُمَیّہ بن خَلَفپر لعنت ہو کیونکہ انہوں نے ہماری سرزمین سے ہمیں وبا والی زمین کی طرف نکال دیا ہے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی کہ اے اللہ! مدینہ کو ہمیں ایسا ہی پیارا بنا دے۔ جب حضرت ابوبکرؓ کی بھی اور حضرت بلالؓ کی بھی یہ باتیں سنیں تو آپؐ نے فرمایا اے اللہ! مدینہ کو ہمیں ایسا ہی پیارا بنا دے جیسا کہ ہمیں مکّہ پیارا ہے یا اس سے بڑھ کر۔ اے اللہ! ہمارے صاع میں اور ہمارے مُدّ میں برکت دے۔ یہ صَاعَ اور مُدّبھی مشہور پیمانوں کے نام ہیں۔ وزن کرنے کے لیے (استعمال) کیے جاتے ہیں اور مدینہ کو ہمارے لیے صحت بخش مقام بنا اور اس کے بخار کو جُحْفہکی طرف منتقل کر دے۔ جُحْفہ بھی ایک دوسرا شہر ہے مکےکی جانب۔ حضرت عائشہؓ کہتی تھیں کہ ہم مدینہ آئے اور وہ اللہ کی زمین میں سب سے زیادہ وَبَا زَدہ مقام تھا۔ انہوں نے کہا بُطْحَاننالے میں تھوڑا سا پانی بہتا تھا وہ پانی بھی بدمزہ بودار تھا۔ بُطْحَان بھی مدینےکی ایک وادی کا نام ہے۔ یہ بخاری میں روایت ہے۔ (صحیح البخاری کتاب فضائل المدینۃ باب کراھیۃ النبیﷺ ان تعری المدینۃ حدیث: 1889) (ماخوذ از فرہنگ سیرت صفحہ58، 180، 259 زوار اکیڈمی پبلی کیشنز) (شمائل النبیﷺ صفحہ 76 حاشیہ) (شرح زرقانی علی مواہب اللدنیۃ جلد 2 صفحہ 172 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت)
جب قادیان سے ہجرت ہوئی ہے تو اس وقت احمدیوں کو خاص طور پر ہجرتِ مدینہ کے حوالے سے نصیحت کرتے ہوئے کہ ہمیں اس ہجرت سے پریشان نہیں ہونا چاہیے، حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت بلالؓ کے اس واقعےکا حوالہ دیتے ہوئے اور اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا ذکر کرتے ہوئے اس وقت جماعت کو یہ کہتے ہوئے فرمایا تھا کہ مَیں اَوروں کو تو نہیں جانتا، اَوروں کو تو نہیں کہہ سکتا جو دوسرے لوگ غیر احمدی مسلمان ہجرت کر کے آئے ہیں لیکن احمدیوں سے یہ کہتا ہوں کہ یہ خیال چھوڑ دو کہ تم لُٹے ہوئے ہو۔ تم نے ہجرت کی ہے اور لُٹ پُٹ کے آئے ہو۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان مہاجرین پر افسوس کیا کرتے تھے جو وطن اور جائیدادوں کے چھوٹ جانے پر افسوس کرتے تھے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینے تشریف لائے اس وقت مدینہ کا نام یثرب ہوا کرتا تھا اور وہاں ملیریا بخار بھی کثرت سے ہوتا تھا۔ ملیریا پھیلنا شروع ہوا تو مہاجرین کو بخار چڑھے۔ ادھر وطن کی جدائی کا صدمہ تھا۔ ان میں سے بعض نے رونا اور چِلَّانا شروع کر دیا کہ ہائے مکہ! ہائے مکہ! ایک دن حضرت بلالؓ کو بھی بخار ہو گیا انہوں نے شعر بنا بنا کر شور مچانا شروع کر دیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تو آپؐ خفا ہوئے اور فرمایا کہ کیا تم ایسے کام کے لیے یہاں آئے ہو؟ ہجرت کی ہے تو شور مچانا کیسا؟ حضرت مصلح موعودؓ احمدیوں کو جو اس وقت ہجرت کر کے ہندوستان سے پاکستان آئے تھے، نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں بھی تمہیں یہ کہتا ہوں کہ خوش رہو۔ تم یہ نہ دیکھو کہ ہم نے کیا کھویا ہے۔ تم دیکھو کہ ہم نے کس کے لیے کھویا ہے۔ اگر تم نے جو کھویا وہ خدا تعالیٰ کے لیے اور اسلام کی ترقی کے لیے کھویا ہے تو تم خوش رہو اور کسی موقع پر بھی اپنی کمریں خم نہ ہونے دو۔ تمہارے چہرے افسردہ نہ ہوں بلکہ ان پر خوشی کے آثار پائے جائیں۔ (ماخوذ از قادیان سے ہماری ہجرت ایک آسمانی تقدیر تھی، انوار العلوم جلد 21 صفحہ 379)
تو ہم احمدی تو اس سوچ کے رکھنے والے تھے اور یہ ہمیں اس وقت کے خلیفہ نے نصیحت کی تھی کہ ہماری ہجرت اللہ تعالیٰ کی خاطر اور اسلام کی خدمت کے لیے ہے۔ وہ لوگ جو پاکستان کی تعمیر کے خلاف تھے، پاکستان کی اساس اور بنیاد کے دعویدار بن کر اپنے جھوٹ اور فریب سے آج احمدیوں کو اس ملک کے بنیادی شہری حقوق سے محروم کر رہے ہیں جس کی خاطر سب سے زیادہ قربانیاں احمدیوں نے دیں۔ جس دین کی برتری اور خدمت کے لیے ہم نے ہجرت کی پاکستان کی پارلیمنٹ نے اپنے سیاسی مقاصد کی خاطر اس دین کا نام لینے پر بھی ہم پر پابندی لگا دی۔ ہمیں بہرحال ان کی کسی سند کی ضرورت نہیں ہے لیکن ہمیں افسوس اس بات پر ضرور ہوتا ہے کہ ان نام نہاد ملک کے ٹھیکیداروں نے احمدیوں پر یہ ظلم کر کے صرف احمدیوں پر ظلم نہیں کیا بلکہ پاکستان پر ظلم کیا ہے اور کر رہے ہیں اور دنیا میں ملک کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔ اس کی ترقی میں روک بن رہے ہیں۔ اگر یہ لوگ نہ ہوں جو ملک کو کھا رہے ہیں، دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں تو ملک اس وقت ترقی کر کے کہیں کا کہیں پہنچ چکا ہو لیکن اس کے باوجود ہم پاکستانی احمدیوں کا یہ کام ہے، خاص طور پر جو پاکستان میں رہنے والے ہیں، کہ ملک کی ترقی کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ کوشش کرتے رہیں اور دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان ظالموں سے اس ملک کو پاک کرے۔ بہرحال یہ واقعہ آیا تو اس ضمن میں ذکر ہو گیا۔ اب مَیں دوبارہ حضرت بلالؓ کی طرف کے واقعات، روایات بیان کرتا ہوں۔ طبقات الکبریٰ میں لکھا ہے حضرت بلالؓ بدر، احد اور خندق سمیت تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل ہوئے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ 180 ’’بلال بن رباح‘‘، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2017ء)
غزوۂ بدر میں حضرت بلالؓ نے امیہ بن خلف کو قتل کیا جو اسلام کا بہت بڑا دشمن تھا اور حضرت بلالؓ کو اسلام لانے پر دکھ دیا کرتا تھا۔ (ماخوذ از سیر الصحابہ جلد دوم ’’بلال بن رباح‘‘ صفحہ 156، دار الاشاعت اردو بازار کراچی 2004ء)
امیہ بن خَلَف کے قتل کا واقعہ صحیح بخاری میں بیان ہوا ہے جس کی تفصیل خُبَیْب بن اساف کے ذکر میں مَیں پہلے بیان کر چکا ہوں۔ تاہم یہاں بھی کچھ بیان کر دیتا ہوں کیونکہ اس کا براہِ راست تعلق حضرت بلالؓ کے ساتھ بھی ہے۔
حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے امیہ بن خَلَف کو خط لکھا کہ وہ مکّے میں، جو اس وقت دارالحرب تھا، میرے مال اور بال بچوں کی حفاظت کرے اور مَیں اس کے مال و اسباب کی مدینے میں حفاظت کروں گا۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کا اس سے پرانا تعلق تھا۔ امیہ بن خَلَف بدر کی جنگ میں بھی شامل ہوا۔ کافروں کی فوج میں کافروں کے ساتھ آیا تھا اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کو اس کے بدر میں شامل ہونے کا علم ہو گیا تھا۔ اس پرانے تعلق کی وجہ سے وہ اس پر احسان کر کے جنگ کے بعد رات کو اس کو بچانا بھی چاہتے تھے۔ چنانچہ وہ بیان کرتے ہیں کہ جب وہ بدر کی جنگ میں تھا تو جب لوگ سو چکے تھے مَیں ایک پہاڑ کی طرف نکل گیا تا میں اس کی حفاظت کروں کیونکہ پتہ تھا کہ اس طرف کہیں گیا ہوا ہے تو میں بھی گیا تا کہ اس کو حفاظت کر کے بچا لوں۔ حضرت بلالؓ نے اس وقت اسے کہیں دیکھ لیا۔ چنانچہ حضرت بلالؓ گئے اور انصار کی ایک مجلس میں کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے کہ یہ امیہ بن خَلَف ہے اگر بچ نکلا تو میری خیر نہیں۔ اس پر بلالؓ کے ساتھ کچھ لوگ ہمارے تعاقب میں نکلے۔ میں ڈرا کہ وہ ہمیں پا لیں گے، پکڑ لیں گے۔ اس لیے میں نے اس کے بیٹے کو اس کی خاطر پیچھے چھوڑ دیا کہ وہ اس کے ساتھ لڑائی میں مشغول ہو جائیں اور ہم ذرا آگے نکل جائیں۔ کہتے ہیں چنانچہ انہوں نے اس بیٹے کو تو لڑائی میں مار دیا۔ میرا یہ داؤ جو تھا وہ کارگر نہیں ہوا اور اس کو مار کے پھر انہوں نے ہمارا پیچھا شروع کر دیا اور امیہ چونکہ بھاری بھرکم آدمی تھا اس لیے جلدی اِدھر اُدھر نہیں ہو سکتا تھا۔ آخر جب انہوں نے ہمیں پکڑ لیا، قریب پہنچ گئے تو میں نے اسے کہا کہ بیٹھ جاؤ تو وہ بیٹھ گیا اور میں نے اپنے آپ کو اس پر ڈال دیا کہ اسے بچاؤں تو انہوں نے جو پیچھا کر رہے تھے میرے نیچے سے اس کے بدن میں تلواریں گھونپیں یہاں تک کہ اسے مار ڈالا۔ ان میں سے ایک نے اپنی تلوار سے میرے پاؤں پر زخم بھی کر دیا۔ (صحیح البخاری کتاب الوکالۃ باب اذا وکل المسلم … الخ حدیث: 2301)
ایک دوسری روایت میں یہ واقعہ یوں درج ہے۔ اس کا کچھ حصہ بیان کر دیتا ہوں۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کہتے ہیں کہ میں ان دونوں یعنی امیہ بن خَلَف اور اس کے بیٹے کو لے کر چل رہا تھا کہ اچانک حضرت بلالؓ نے امیہ کو میرے ساتھ دیکھ لیا۔ مکّے میں امیہ حضرت بلالؓ کو اسلام سے پھیرنے کے لیے بڑا عذاب دیا کرتا تھا۔ حضرت بلالؓ امیہ کو دیکھتے ہی بولے۔ کافروں کا سردار امیہ بن خلف یہاں ہے۔ اگر یہ بچ گیا تو سمجھو میں نہیں بچا۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کہتے ہیں کہ یہ سن کر مَیں نے کہا تم میرے قیدیوں کے بارے میں ایسا کہہ رہے ہو؟ حضرت بلالؓ نے بار بار یہی کہا اور میں بھی ہر بار یہی کہتا رہا کہ یہ میرے قیدی ہیں۔ حضرت بلالؓ بلند آواز سے چِلّائے۔ انہوں نے شور مچا کے آواز دی کہ اے اللہ کے انصار! یہ کافروں کا سردار امیہ بن خلف ہے۔ اگر یہ بچ گیا تو سمجھو مَیں نہیں بچا اور بار بار ایسا کہا۔ حضرت عبدالرحمٰنؓ کہتے ہیں کہ یہ سن کر انصاری دوڑ پڑے اور انہوں نے ہمیں چاروں طرف سے گھیر لیا۔ پھر حضرت بلالؓ نے تلوار سونت کر امیہ کے بیٹے پر حملہ کیا جس کے نتیجہ میں وہ نیچے گر گیا۔ امیہ نے اس پر خوف کی وجہ سے ایسی بھیانک چیخ ماری کہ ایسی چیخ میں نے کبھی نہیں سنی تھی۔ اس کے بعد انصاریوں نے ان دونوں کو تلواروں کے وار سے کاٹ ڈالا۔ (السیرۃ الحلبیہ الجزء الثانی صفحہ232-233 باب ذکر مغازیہﷺ / غزوۃ بدر الکبریٰ مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت)
ایک روایت میں یہ آتا ہے کہ حضرت بلالؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سیکرٹری یا خزانچی بھی تھے۔ (اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ المجلد الاول صفحہ 415 ’’بلال بن رباح‘‘ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان2016ء)
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک شخص نے پوچھا کیا آپؓ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی سفر میں شریک ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا اگر میرا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق نہ ہوتا تو میں شریک نہ ہوتا۔ اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ چھوٹے ہونے کی وجہ سے انہیں یہ موقع ملا۔ رشتہ داری تھی اس لیے سفر میں شریک ہوئے تھے۔ پھر کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس نشان کے قریب آئے جو کہ حضرت کثیر بن صَلْت کے گھر کے قریب تھا اور صحابہ کو خطاب فرمایا۔ پھر آپؐ عورتوں کے پاس آئے اور انہیں وعظ و نصیحت کی۔ اور انہیں صدقہ دینے کے لیے فرمایا تو عورتیں اپنے ہاتھوں کو جھکا جھکا کر اپنی انگوٹھیاں اتارتیں اور حضرت بلالؓ کے کپڑے میں ڈالتی جاتی تھیں۔ حضرت بلالؓ ساتھ تھے۔ جوچادر تھی اس میں وہ ڈالتی جاتی تھیں۔ یہ روایت حضرت ابن عباسؓ نے بیان کی ہے۔ اس کے بعد آپؐ اور حضرت بلالؓ گھر آئے۔ (صحیح البخاری کتاب الاذان باب وضو ء الصبیان و متی یجب علیھم الغسل … الخ حدیث: 863)
حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا کہ مجھے اللہ کی خاطر اتنی اذیت دی گئی جتنی کسی کو نہیں دی جا سکتی۔ مجھے اللہ کی خاطر اتنا ڈرایا گیا ہے جتنا کسی کو نہیں ڈرایا جا سکتا۔ اور مجھ پر تیسری رات آ جاتی کہ میرے اور بلالؓ کے پاس کوئی ایسا کھانا نہ ہوتا جسے کوئی جاندار کھا سکے مگر اتنا جسے بلال کی بغل چھپا سکتی۔ بہت تھوڑا معمولی کھانا ہوتا تھا۔ (سنن ابن ماجہ ابواب المناقب باب فضائل بلالؓ حدیث 151 ترجمہ از نور فاؤنڈیشن ربوہ)
حضرت بلالؓ کو سب سے پہلا مؤذن ہونے کا بھی شرف حاصل ہوا۔ حضرت بلالؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی میں ان کے لیے سفر و حضر میں مؤذن رہے اور آپ اسلام میں پہلے شخص تھے جنہوں نے اذان دی۔ (اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ المجلد الاول صفحہ 416 ’’بلال بن رباح‘‘ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان2016ء)
محمد بن عبداللہ بن زَید اپنے والد سے روایت کرتے ہیں۔ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے بلانے کے لیے بِگل کا سوچا۔ پھر ناقوس کا ارشاد فرمایا۔ پس وہ بنایا گیا۔ یہ بخاری کی حدیث ہے اور اس کے مطابق بُوق اور ناقوس کے استعمال کا مشورہ صحابہ نے دیا تھا۔ پھر حضرت عبداللہ بن زیدؓ کو خواب دکھائی گئی۔ انہوں نے بتایا کہ میں نے خواب میں ایک آدمی دیکھا جس پر دو سبز کپڑے تھے اور وہ آدمی ناقوس اٹھائے ہوئے تھا۔ میں نے اس کو خواب میں ہی کہا اے اللہ کے بندے! تم یہ ناقوس فروخت کرو گے؟ اس نے کہا تم اس سے کیا کرو گے؟ میں نے کہا میں اس کے ذریعے نماز کے لیے بلایا کروں گا۔ اس نے کہا کیا میں تجھے اس سے بہتر نہ بتاؤں۔ میں نے کہا وہ کیا ہے؟ اس نے پھر وہ اذان کے الفاظ سنائے اللّٰہُ أَکْبَرُ اللّٰہُ أَکْبَرُ اور پوری اذان۔ أَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ۔ أَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ۔ أَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللّٰہِ۔ أَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللّٰہ۔ حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃِ۔ حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃِ۔ حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ۔ حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ۔ اللّٰہُ أَکْبَرُ اللّٰہُ أَکْبَرُ۔ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن زیدؓ نکلے اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی رؤیا بتائی۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے خواب میں ایک آدمی دیکھا۔ اس پر دو سبز کپڑے تھے۔ وہ ناقوس اٹھائے ہوئے تھا۔ پھر ساری بات آپؐ کے سامنے بیان کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا۔ تمہارے دوست نے رؤیا دیکھی ہے۔ پھر عبداللہ بن زَید کو ارشاد فرمایا تم بلالؓ کے ساتھ مسجد جاؤ اور اسے یہ کلمات بتاتے جاؤ اور وہ ان کو بلند آواز سے پکاریں کیونکہ تمہاری نسبت وہ زیادہ بلند آواز والے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن زیدؓ نے کہا کہ مَیں بلالؓ کے ساتھ مسجد کی طرف گیا اور میں انہیں یہ کلمات بتاتا جاتا اور وہ بلند آواز کے ساتھ پکارتے جاتے۔ حضرت عمر بن خَطّابؓ نے آواز سنی۔ وہ باہر تشریف لائے اور انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ !خدا کی قَسم! میں نے بھی خواب میں وہی دیکھا جو انہوں نے دیکھا۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الاذان بَابُ بدء الاذان حدیث 706) (صحیح البخاری کتاب الاذان باب بدء الاذان حدیث 604)
اس کو بیان کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے لکھا ہے کہ
’’ابھی تک نماز کے لیے اعلان یااذان وغیرہ کا انتظام نہیں تھا۔ صحابہ عموماً وقت کااندازہ کر کے خودنماز کے لیے جمع ہوجاتے تھے لیکن یہ صورت کوئی قابل اطمینان نہیں تھی۔ اب مسجدنبویؐ کے تیار ہوجانے پر یہ سوال زیادہ محسوس طور پر پیدا ہوا کہ کس طرح مسلمانوں کو وقت پر جمع کیا جاوے۔ کسی صحابی نے نصاریٰ کی طرح ناقوس کی رائے دی۔ کسی نے یہود کی مثال میں بوق کی تجویز پیش کی۔ کسی نے کچھ کہا مگر حضرت عمرؓ نے مشورہ دیا کہ کسی آدمی کومقرر کر دیا جاوے کہ وہ نماز کے وقت یہ اعلان کر دیا کرے کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رائے کوپسند فرمایااور حضرت بلالؓ کوحکم دیا کہ وہ اس فرض کو ادا کیا کریں۔ چنانچہ اس کے بعد جب نماز کا وقت آتا تھا بلالؓ بلندآواز سے اَلصَّلٰوۃُ جَامِعَۃٌ کہہ کر پکارا کرتے تھے اور لوگ جمع ہوجاتے تھے بلکہ اگر نماز کے علاوہ بھی کسی غرض کے لیے مسلمانوں کو مسجد میں جمع کرنا مقصود ہوتا تھا تویہی نِدا دی جاتی تھی۔ اس کے کچھ عرصہ کے بعد ایک صحابی عبداللہ بن زَید انصاریؓ کو خواب میں موجودہ اذان کے الفاظ سکھائے گئے اور انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنے اس خواب کاذکر کیا اور عرض کیا کہ میں نے خواب میں ایک شخص کواذان کے طریق پریہ یہ الفاظ پکارتے سنا ہے۔ آپؐ نے فرمایایہ خواب خدا کی طرف سے ہے اور عبداللہؓ کو حکم دیا کہ بلالؓ کو یہ الفاظ سکھا دیں۔ عجیب اتفاق یہ ہوا کہ جب بلالؓ نے الفاظ میں پہلی دفعہ اذان دی تو حضرت عمرؓ اسے سن کر جلدی جلدی آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یارسول اللہؐ ! آج جن الفاظ میں بلالؓ نے اذان دی ہے بعینہٖ یہی الفاظ میں نے بھی خواب میں دیکھے ہیں۔ اور ایک روایت میں یہ ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اذان کے الفاظ سنے توفرمایا کہ اسی کے مطابق وحی بھی ہوچکی ہے۔ الغرض اس طرح موجودہ اذان کاطریق جاری ہوگیا اور جوطریق اس طرح جاری ہوا وہ ایسا مبارک اور دلکش ہے کہ کوئی دوسرا طریق اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ گویا ہر روز پانچ وقت اسلامی دنیا کے ہر شہر اور ہر گاؤں میں ہر مسجد سے خدا کی توحید اور محمد رسول اللہؐ کی رسالت کی آواز بلند ہوتی ہے اور اسلامی تعلیمات کاخلاصہ نہایت خوبصورت اور جامع الفاظ میں لوگوں تک پہنچا دیا جاتا ہے۔‘‘ (سیرت خاتم النبیینؐ صفحہ271۔ 272)
موسیٰ بن محمد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت بلالؓ اذان دے کر فارغ ہو کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دینا چاہتے تو آپؐ کے دروازے پر کھڑے ہو جاتے اور کہتے حَیَّ عَلَى الصَّلٰوۃِ۔ حَیَّ عَلَى الْفَلَاحِ۔ اَلصَّلٰوۃُ یَا رَسُولَ اللّٰہِ یعنی نماز کے لیے آئیے، فلاح و کامیابی کے لیے آئیے۔ نماز، یا رسول اللہ۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نمازکے لیے نکلتے اور حضرت بلالؓ دیکھ لیتے تو اقامت شروع کر دیتے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ 176-177 ’’بلال بن رباح‘‘، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2017ء)
یہ واضح نہیں ہے۔ اقامت تو اسی وقت ہو گی جب امام محراب میں آ جائے۔ بہرحال جو بھی ہے۔ روایت کا صحیح ترجمہ نہیں ہے یا یہ بیان صحیح نہیں ہے لیکن اصل طریق وہی ہے جو محراب میں امام آجائے تو پھر اقامت ہو۔
سنن ابن ماجہ میں حضرت بلالؓ سے روایت ہے کہ وہ نماز فجر کی اطلاع دینے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ان سے کہا گیا کہ آپؐ سوئے ہوئے ہیں تو حضرت بلالؓ نے کہا اَلصَّلٰوۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ۔ اَلصَّلٰوۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ۔ پھر فجر کی اذان میں ان کلمات کا اضافہ کر دیا گیا اور یہی طریق قائم ہو گیا۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الاذان باب السنۃ فی الاذان حدیث: 716)
ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے بلالؓ ! یہ کتنے عمدہ کلمات ہیں۔ تم انہیں اپنی فجر کی اذان میں شامل کر لو۔ (معجم الکبیر للطبرانی باب بِلَالُ بْنُ رَبَاح جلد 01 صفحہ 355 حدیث 1081، دار احیاء التراث العربی 2002)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تین مؤذن تھے۔ حضرت بلالؓ، ابومَحْذُوْرَہؓ، عَمْرو بن اُمِّ مَکْتُومؓ۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ 177 ’’بلال بن رباح‘‘، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2017ء)
ابھی ان کا کچھ تھوڑا سا اَور ذکر باقی ہے جو ان شاء اللہ آئندہ۔ اس وقت مَیں نے کچھ مرحومین کے بارے میں بھی بتانا ہے۔ ان کے جنازے ہوں گے۔ اس لیے باقی ذکر پھر ان شاء اللہ آئندہ کریں گے۔
پہلا جو ذکر ہے وہ عزیزم رؤوف بن مقصود جونیئر بیلجیم کا ہے۔ یہ جامعہ احمدیہ یوکے کے طالب علم تھے۔ 4ستمبر کو ان کی وفات ہو گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ بیلجیم کی جماعت ہاسلٹ (Hasselt)سے ان کا تعلق تھا۔ 2018ء میں جامعہ میں داخل ہوئے تھے اور وہاں کا اپنا سیکنڈری سکول ختم کر کے یہاں آئے تھے۔ عزیزم اپنی خلوص سے بھر پور طبیعت، خدمت خلق کے جذبے اور مشقت کی عادت کی بنا پر طلباء اور اساتذہ میں بہت ہر دلعزیز تھے۔ کچھ دیر پہلے ان کو برین ٹیومر(Braim Tumor) ہوا تھا۔ چھ سات ماہ یہ بیمار رہے۔ بڑے صبر اور بہادری سے بیماری کا مقابلہ کیا۔ آخر اللہ کو پیارے ہو گئے۔
ان کے دادا کے ذریعے سے غالباً 1950ء میں ان کے خاندان میں احمدیت آئی تھی اور ان کے دادا کا اچھا اثر و رسوخ تھا۔ اس وقت تو رشتے داروں نے اور مخالفین نے کچھ نہیں کہا لیکن ان کی وفات کے بعد ان کی فیملی کو کافی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی والدہ کی طرف سے بھی ان کے پڑنانا عبدالعلی صاحب اور ان کی اہلیہ نے حضرت مصلح موعودؓ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ رؤوف بن مقصود کے جو پسماندگان ہیں ان میں والدین کے علاوہ تین بہنیں اور دو بھائی شامل ہیں۔ ہمایوں مقصود صاحب والد ہیں محسنہ بیگم صاحبہ والدہ ہیں۔ عزیزہ نشاط بیٹی ہے عمر اٹھارہ سال۔ عزیزم صالح بیٹا ہے عمر چودہ سال۔ عزیزہ تَثْنِیہ حُمَیْزَہیہ نو سال کی ہے۔ عزیزم فاتح بن مقصود سات سال کا ہے۔ عزیزہ جَنّۃالسَّامِیَہچار سال کی ہے۔
بیلجیم کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ مجھے بچپن سے انہیں دیکھنے کا موقع ملا اور عزیزم کو غیر معمولی بچہ پایا۔ جب بھی عزیزم کی جماعت میں جانے کا موقع ملا اس کو ہمیشہ مسجد کے ساتھ وابستہ اور خوش اخلاق پایا۔ وفات کے بعد دو دن بیت الرحیم آلکن میں افسوس کے لیے آنے والےلوگوں کا انتظام کیا ہوا تھا۔ جماعت سے بڑی تعداد میں لوگ اس میں شامل ہوئے اور ان میں بہت سے افراد کو روتے دیکھا۔ ان سب نے عزیزم کے بےشمار واقعات بتائے۔ بیماری کے شروع میں ڈاکٹر نے ان کو بتا دیا تھا کہ ان کو برین کینسر ہے جو کہ زندگی کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے لیکن اس کے باوجود کبھی نہ تو ان کے چہرے پر مایوسی آئی اور نہ ہمت چھوڑی۔ ڈاکٹر کے ساتھ میٹنگ میں ایک ڈاکٹر نے کہا کہ جب موصوف بول سکتے تھے تو ان سے میری گفتگو ہوتی رہی۔ میں نے ان کو بہت غیر معمولی نوجوان اور روشن دماغ پایا۔ ڈاکٹرز کا یہ بھی کہنا ہے کہ موصوف نے انتہائی تکلیف دہ بیماری میں بھی کبھی کوئی شکایت نہیں کی۔ ڈاکٹر زکے نزدیک اس حالت میں مریض کو بعض اوقات شدید غصہ آ جاتا ہے لیکن انہوں نے بڑی ہمت دکھائی اور صبر کا مظاہرہ کیا۔ امیر صاحب پھر لکھتے ہیں کہ عزیزم کمال درجہ کی خلافت سے محبت رکھنے والے اور کامل اطاعت کرنے والے تھے۔ ہمیشہ چہرے پر مسکراہٹ رہتی تھی اور ہر ایک سے چاہے چھوٹا ہو یا بڑا، بڑے احترام اور خندہ پیشانی سے پیش آتے۔
ہاسلٹ کے مربی صاحب کہتے ہیں کہ بیماری کی تشخیص سے قبل مَیں نے رمضان میں ان سے اطفال کی کلاسز آن لائن لینے کے لیے کہا تو بڑی باقاعدگی سے کلاسز لیتے رہے یہاں تک کہ جب اس بیماری سے ہسپتال داخل ہوئے تو بیماری کے باوجود ہسپتال سے بچوں کی کلاس لیتے رہے یہاں تک کہ بعض اوقات کلاس لیتے لیتے بیہوشی کی کیفیت طاری ہو جاتی تھی اور پھر جب طبیعت سنبھلتی تو دوبارہ کلاس شروع کر دیتے۔ کبھی یہ نہیں کہا کہ میں تکلیف میں ہوں، کلاس نہیں لے سکتا۔ اطفال نے بھی اس کا اظہار کیا کہ جب آپ کو تکلیف ہے تو کلاس نہ لیں تو موصوف نے ہمیشہ یہ کہا کہ جب واپس جامعہ کھلے گا تو میں جا کے خلیفۃ المسیح کو کیا جواب دوں گا کہ میں نے چھٹیوں کے دوران کیا جماعتی خدمت کی ہے۔ ایک شوق تھا۔ ایک جذبہ تھا۔ ایک لگن تھی۔
پھر دوسرے مربی سلسلہ ہیں وہ لکھتے ہیں کہ 2010ء میں ایک ہفتہ کے لیے انہوں نے وقفِ عارضی کیا۔ اس وقت ان کو ان کے والد میرے پاس چھوڑ گئے کہ یہاں رہیں گے کیونکہ اس نے جامعہ میں جانا ہے اس کی ٹریننگ کریں۔ کہتے ہیں اس وقت بھی مَیں نے اس کو دیکھا کہ پانچ نمازوں کی ادائیگی کے علاوہ صبح اٹھ کر نمازِ تہجد کی بھی ادائیگی کیا کرتے تھے۔ مسجد آلکن (Alken) جب تعمیر یا اس کی رینوویشن ہو رہی تھی، تبدیلی ہو رہی تھی تو اس وقت انہوں نے باقاعدہ وقارِ عمل میں حصہ لیا اور سیکرٹری جائیداد کہتے ہیں کہ بڑا مشکل اور بھاری کام پتھر اٹھانے، بجری اٹھانے وغیرہ کا اپنے ذمہ لیتے تھے اور بڑی خوشی سے یہ کام کرتے تھے اور ایک خوبی ان میں یہ تھی کہ سب کو سلام کرنے میں پہل کرتے تھے۔ ان کی والدہ بتاتی ہیں کہ دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دیا کرتے تھے۔ عام طور پر سکول اپنا کھانا لے کر جاتے اور وہاں کھاکے آیا کرتے تھے۔ ایک دن گھر آ کے والدہ کو کہا کہ مجھے کھانا دیں۔ مَیں نے کہا کہ تم لے کرتو گئے تھے تو انہوں نے کہا: ایک بچہ کھانا نہیں لے کے آیا تھا تو اسے مَیں نے اپنا کھانا دے دیا کہ میں گھرمیں جا کے کھالوں گا۔ اسی طرح اپنے دوستوں کے بارے میں فکرمند رہتے اور ان کو کہا کرتے تھے کہ مجھے تمہارے مستقبل کی فکر رہتی ہے۔ اپنے جو قریبی تھے ان کو کہا کرتے تھے کہ اچھے اخلاق والے دوست چنو اور اپنے مستقبل کو بہتر بنانے کی کوشش کرو۔ اجتماعات وغیرہ، جلسے وغیرہ میں لگن سے ڈیوٹی دیا کرتے تھے بلکہ ان کے افسر کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ان کی سیکیورٹی ڈیوٹی تھی مَیں نے رات کو کچھ کھانے کو پیش کیا تو موصوف نے کہا پہلے جو میرے ساتھی ہیں ان کو دے دیں۔ بعض والدین کو جن کے بچے وقفِ نو میں شامل ہیں ان سے بھی باوجود چھوٹے ہونے کے اکثر پوچھتے رہتے تھے اور تلقین کیا کرتے تھے کہ کوشش کریں کہ آپ کا بچہ جامعہ میں جائے۔
ان کی والدہ نے بھی بلکہ دونوں والدین نے، والدنے اور والدہ نے بھی، بڑی ہمت سے ان کی بیماری کا یہ عرصہ گزارا ہے۔ والدہ ان سے کہا کرتی تھیں کہ ہم نے تمہیں خدا کی راہ میں وقف کر دیا تھا اب بھی جہاں تم جا رہے ہو، ڈاکٹروں نے مایوسی کا اظہار کیا تھا اور کوئی امیدنہیں تھی تو بڑے حوصلے سے انہوں نے کہا وہ جگہ جہاں تم اب جا رہے ہو، وہ بھی بڑی اچھی جگہ ہے۔ اور اللہ کی رضا پر راضی رہنے کی تلقین کرتی رہیں۔ وہ خود بھی اللہ کی رضا پر راضی تھے۔ پھر انہوں نے اپنی ایک تصویر جو میرے ساتھ کھنچوائی ہوئی تھی ہسپتال میں اپنے بیڈ کے سامنے رکھوا لی جو اکثر تبلیغ کا ذریعہ بنتی اور ڈاکٹر پوچھتے تھے کہ کون سی کمیونٹی سے تمہارا تعلق ہے؟ ان کو بتایا جاتا کہ ہم جماعت احمدیہ سے ہیں اور اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ مسیح جو آنے والا تھا وہ آ گیا ہے اس پر آگے تبلیغ چلتی تھی۔ امیر صاحب کہتے ہیں کہ میں انہیں کہا کرتا تھا کہ تم بے شک بیمار ہو لیکن اس کے باوجود تبلیغ کا ذریعہ بن رہے ہو اور اس بات پر بڑے خوش ہوتے تھے۔
پھر صدر خدام الاحمدیہ بیلجیم کہتے ہیں کہ ان کو خلافت سے انتہا کا عشق تھا۔ کہتے ہیں ایک دن میں نے اطفال اور وقفِ نو کی کلاس میں خلیفہ وقت کو خط لکھنے کے لیے کہا اور خط لکھوائے تو موصوف میرے پاس آئے اور کہنے لگے مربی صاحب مجھے اردو میں خط لکھنا نہیں آتا۔ مجھے آپ لکھ کے دیں میں نقل کر لوں گا۔ پھر اس کو دیکھ دیکھ کے ہاتھ سے لکھوں گا۔ تو مَیں نے اسے کہا کہ باقی بچے ڈچ میں لکھ رہے ہیں تم بھی لکھ دو۔ یہ جامعہ آنے سے پہلے کی بات ہے۔ تو موصوف نے جواب دیا کہ مَیں چاہتا ہوں کہ میرا خط براہِ راست خلیفۂ وقت تک پہنچے اور وہ میرے لیے دعا کریں۔ پھر یہ مربی صاحب کہتے ہیں کہ عزیزم رؤوف بن مقصود جو کھڑے ہو کر یہ عہد کرتے تھے کہ مَیں اپنی جان اور مال اور وقت اور عزت کو قربان کرنے کے لیے ہر دم تیار رہوں گا تو موصوف نے یہ عہد آخری سانس تک پورا کیا۔ بہت بڑی تعداد ان کے غیر از جماعت بیلج دوستوں کی تھی اور کہتے ہیں کہ میں نے اپنی آنکھوں سے انہیں بِلک بِلک کر روتے دیکھا ہے۔ جب میں نے ایک دوست سے عزیزم رؤوف بن مقصود کے بارے میں پوچھا تو وہ روتے ہوئے کہنے لگے کہ آج ہمارا بہت ہی پیارا اور خیال رکھنے والا دوست ہم سے جدا ہو گیا۔ کہتے ہیں کہ ایسے ہمدرد دوست بھی کسی کسی کو ملتے ہیں۔ پھر تبلیغ کا بڑا شوق تھا۔ یہ کہتے ہیں کہ Messiah has come کی ہم نے تحریک شروع کی تو جہاں بعض دفعہ دوسرے لوگ ہچکچاتے تھے یہ پکڑ پکڑ کے لوگوں کو لے کے آتے تھے اور ان کو تبلیغی لٹریچر دیتے تھے اور گفتگو کرواتے تھے اور مہمانوں کا تعارف بھی کرواتے۔ ہر تبلیغی نشست میں مہمان بھی لے کے آتے۔ بہرحال یہ جامعہ پاس کرنے سے پہلے ہی بہترین مربی اور مبلغ تھے۔ اللہ تعالیٰ اپنے فیصلوں کی حکمت خود جانتا ہے۔ بعض دفعہ بہترین انسانوں کو جلد اپنے پاس بلا لیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور درجات بلند کرے۔ ان کے والدین کو بھی صبر اور حوصلہ عطا فرمائے۔
دوسرا جنازہ ظفر اقبال قریشی صاحب کا ہے جو سابق نائب امیر ضلع اسلام آباد تھے۔ یہ تین ستمبر کو ستاسی سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ایک مخلص خاندان سے ان کا تعلق تھا اور آپ کے دادا عبیداللہ قریشی صاحب مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے جنہوں نے 1904ء میں بیعت کی تھی۔ امۃ الحمید صاحبہ جو آپ کی اہلیہ ہیں ان کے دادا حضرت خلیفہ نور الدین صاحب بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک صحابی تھے۔ یہ خلیفہ نور الدین اَور ہیں ان کا نام ہے خلیفہ نورالدین۔ یہ حضرت خلیفہ اول نہیں ہیں۔ حضور علیہ السلام نے اپنی معرکۃ الآراء کتاب ’تحفہ گولڑویہ‘ میں محلہ خانیار سری نگر کشمیر میں واقع قبر مسیح کی موجودگی کی تحقیق کرنے کے سلسلہ میں آپ کی خدمت کا بطور خاص ذکر فرمایا ہے۔ ظفر اقبال قریشی صاحب نے ابتدائی تعلیم امرتسر میں حاصل کی۔ پھر جب پارٹیشن ہندو پاکستان کی ہوئی ہے تو اس وقت پھر انہوں نے پنڈی آ کے وہاں سے میٹرک کیا۔ پھر انجنیئرنگ یونیورسٹی سے ڈگری لی۔ پھر سرکاری ملازمت میں چلے گئے۔ پھر یونان سے ایم ایس سی کی ڈگری انہوں نے حاصل کی۔ اس کے بعد ٹیکسلا میں یونیورسٹی پراجیکٹ مینیجرکی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ 94ء میں یہ چیف انجنیئر کی حیثیت سے سرکاری سروس سے ریٹائرڈ ہوئے۔ اس کے بعد یہ اسلام آباد شفٹ ہو گئے اور وہاں مختلف جماعتی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ اور پھر یہ 1998ء میں نائب امیر بنائے گئے۔ اس دوران میں مختلف وقتوں میں قائمقام امیر بھی بنتے رہے اور 2019ء تک اکیس سال سے زائد عرصہ نائب امیر کی حیثیت سے انہوں نے کام کیا۔ بڑی عمر میں عوارض لاحق ہو گئے تھے تو باوجود بیماری کے باقاعدگی سے مسجد آتے۔ اپنا روزمرہ کا کام کرتے۔ بہت کم گو اور صائب الرائے تھے اور انتظامی شعبہ میں بھی کافی تجربہ تھا۔ بڑی سنجیدگی سے احتیاط سے کام کرنے والے، جماعتی پیسے کا درد رکھنے والے اور بہت احساس کرنے والے تھے۔ مَیں جب ناظر اعلیٰ تھا تو اس وقت میں نے ان کو قریب سے دیکھا ہے ماشاء اللہ بڑی بےنفسی اور عاجزی سے یہ کام کرتے تھے اور جو ان کے افسر تھے عمر میں بہت زیادہ چھوٹے تھے ان کی بھی کامل اطاعت کیا کرتے تھے۔
ان کے پسماندگان میں اہلیہ امۃ الحمید ظفر صاحبہ کے علاوہ چار بیٹیاں امۃ الرشید صاحبہ، ڈاکٹر صدف ظفر صاحبہ، شازیہ چوہدری صاحبہ اور عائشہ طارق صاحبہ شامل ہیں۔ ایک لاہور میں ہے باقی کینیڈا میں ہیں۔ ایک بیٹی عائشہ ظفر کہتی ہیں کہ بچپن میں جب سکول جانا شروع کیا تو سالانہ امتحان سے قبل خلیفۂ وقت کی خدمت میں میری طرف سے دعائیہ خط لکھتے۔ پھر جب پوزیشن آتی تو دوبارہ خط لکھتے اور جب اس کا جواب آتا تو پڑھ کر سناتے۔ پھر جب بڑی ہوئی تو مجھے خود خط لکھنے کی تلقین کرتے اور اس خط کا خاکہ بنا کر دیا کرتے اور اس طرح نہایت پیار سے چھوٹی عمر میں ہی میرے دل میں خلافت سے پیار اور اطاعت کا جذبہ پختہ کر دیا۔
اللہ تعالیٰ مرحوم سے رحم اور مغفرت کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند فرمائے۔ لواحقین کو بھی صبر اور سکون عطا فرمائے۔
اگلا جنازہ آنریبل کابینے کاباجا کاٹے صاحب آف سینیگال کا ہےجو 24؍ اگست کو پچاسی سال کی عمر میں انتقال فرما گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ بڑے بہادر، اخلاص رکھنے والے، خلافت سے محبت کرنے والے، جماعتی غیرت رکھنے والے، خدمت کا جذبہ رکھنے والے، قربانی کرنے والے، مہمان نوازی کرنے والے تھے اور یہ ان کی بڑی نمایاں خصوصیات تھیں۔ جماعتی وفد کی ضیافت انتہائی پُر تکلف کرتے۔ اور ہمیشہ یہ خواہش و اصرار ہوتا کہ جب تک جماعتی وفد ان کے ریجن میں ہے آپ ہی ان کی مہمان نوازی کریں گے۔ اگر مہمانوں نے کبھی باہر سے کھانا کھا لیا تو آپ ناراض ہوتے تھے کہ مجھے کیوں موقع نہیں دیا۔ مہمانوں کے لیے اپنے کمرے کو خالی کر دیتے اور ہر سہولت فراہم کرتے۔ سوشلسٹ پارٹی کی طرف سے انتخابات میں حصہ لے کر 18 سال تک ملک کی پارلیمنٹ کے ممبر رہے۔ ایک مخلص اور باوفا احمدی تھے۔ جب تک جماعت رجسٹرڈنہیں ہوئی تھی جماعت کی پراپرٹی ان کے نام پر ہی تھی۔ مشنری انچارج لکھتے ہیں کہ جب 2012ء میں مَیں سینیگال آیا اور اس کے بعد جماعت رجسٹرڈہو گئی تو مرحوم فرمانے لگے کہ زندگی کا اب پتہ کوئی نہیں۔ آپ جلدی سے یہ امانت جو جماعت کی پراپرٹی ہے جماعت کے نام کروائیں۔ پھر یہ لکھتے ہیں کہ جب بھی مشکل وقت آیا دفاع کے لیے ہمیشہ پہلی صف میں کھڑے ہوتے۔ ایک مشنری سے بڑھ کر کام کرنے والے تھے۔ لمبا عرصہ وہاں جماعت احمدیہ تمبا کنڈا ریجن کے صدر کے طور پر خدمت بجا لاتے رہے۔ مرکزی عاملہ میں بطور سیکرٹری امورِخارجہ خدمت کی توفیق پائی۔ وفات سے قبل تین ایکڑ اراضی جماعت کو سکول کے لیے پیش کی۔ اسی طرح تین ایکڑ اراضی آپ نے جماعتی ریجنل مشن ہاؤس کے لیے بھی رکھی اور فوت ہونے سے قبل چھ ایکڑ کے کاغذات ہمارے مبلغ ڈیکوحمید صاحب کے سپرد کیےکہ یہ جماعت کی امانت ہے، سنبھال کے رکھیں۔ اور پھر کہنے لگے کہ میں گنی کناکری جا رہا ہوں۔ مجھے امیدنہیں کہ واپس آؤں گا۔
یہاں جلسے پر بھی کئی دفعہ آئے۔ جلسے پہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کے زمانے سے آتے رہتے تھے۔ آخری بار 2019ء کے جلسہ میں بھی شامل ہوئے۔ مجھے بھی ملے اور وہاں کے اپنے مقامی امیر صاحب کو کہنے لگے کہ زندگی کا بھروسہ کوئی نہیں۔ میری خواہش ہے کہ خلیفہ وقت کے سامنے بیٹھوں تا کہ زیادہ سے زیادہ دیکھ سکوں اور بیٹھے رہے۔ بعد میں ملاقات میں کہنے لگے کہ میرا مقصد پورا ہو گیا۔
مولانا منور خورشید صاحب کہتے ہیں کہ سینیگال میں ان کی بہت مقبول سیاسی اور انتظامی شخصیت تھی۔ سینیگال کے معروف شہر تمباکنڈا سے ان کا تعلق تھا۔ اور ان کا سیاسی خاندان تھا۔ بنیادی طور پر یہ شعبہ تعلیم سے وابستہ تھے۔ بعد میں سیاسی میدان میں آگئے۔ 95ء میں آنریبل جگ جینگ ڈپٹی سپیکر نیشنل اسمبلی کے ذریعے جماعت کا پیغام ان کو پہنچا۔ پھر جلد ہی اللہ تعالیٰ نے دل کی گرہ کھول دی جس کے بعد بشاشت قلبی اور انشراح صدر کے ساتھ بیعت کر کے احمدیت میں شامل ہو گئے۔ سینیگال میں اوائل میں بیعت کرنے والے زیادہ تر مزدور پیشہ تھے یا زمیندار تھے جو حسب توفیق مالی قربانی کرتے تھے۔ جب آپ نے بیعت کر لی تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیشہ دل کھول کر مالی قربانی پیش کرنے کی توفیق پائی۔ بہت نڈر اور بہادر احمدی تھے۔ دعوت الی اللہ کا ایک جنون تھا۔ ہر ملنے والے کو دعوت حق دیتے یہاں تک کہ سربراہ مملکت کو بھی جماعت کا تعارف کرانے کی توفیق ملی۔ مرحوم کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا۔ ہر ملنے والے تک پیغام پہنچانے کی کوشش کرتے۔ ہر وقت ان کی گاڑی میں جماعتی لٹریچر اور بیعت فارم دستیاب ہوتے تھے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند کرے۔ ان کی نسل میں بھی یہ اخلاص و وفا جاری رکھے۔ جو احمدی نہیں ان کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اگلا جنازہ مکرم مبشر لطیف صاحب کا ہے۔ سپریم کورٹ کے ایڈووکیٹ تھے آج کل کینیڈا میں تھے۔ پہلے یہ لاہور میں رہے ہیں۔ 5؍مئی کو پچاسی سال کی عمر میں ان کی وفات ہو گئی تھی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ان کو اللہ تعالیٰ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور خلافت احمدیہ سے بےانتہا محبت تھی۔ ان کے نانا محترم شیخ مہر علی صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بہت قریبی دوست تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کے گھر ہوشیار پور میں چلہ کاٹا جس کے دوران اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو مصلح موعود کی عظیم الشان پیشگوئی عطافرمائی۔ سترہ سال تک مبشر لطیف صاحب فیصل ٹاؤن لاہور کے صدر جماعت رہے۔ پاکستان میں جماعت کے وکلاء کی جو ٹیم تھی اس میں یہ شامل تھے اور اس بات پر فخر کرتے تھے۔ متعدد اسیران کی خدمت اور مدد کا ان کو موقع ملا۔ ان تین وکلاء میں سے ایک تھے جنہیں 1974ء میں جماعت کی نمائندگی کا موقع ملا۔ چھیالیس سال تک پنجاب یونیورسٹی میں درس و تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔ یہ یونیورسٹی کے لاء کالج میں پڑھاتے بھی تھے۔ لاہور کی مسجد ماڈل ٹاؤن پر جب حملہ ہوا تو اس وقت یہ وہاں موجود تھے۔ یہ تو اللہ کے فضل سے محفوظ رہے لیکن ان کے چھوٹے بھائی نعیم ساجد صاحب موقع پر شہید ہو گئے۔ اس کے بعد یہ بھی کینیڈا چلے گئے۔ صوم و صلوٰۃ کے پابند تو تھے ہی، تہجد کے بھی بڑے پابند تھے۔ قرآن کریم سے بے انتہا محبت کرنے والے تھے۔ اللہ کے فضل سے موصی تھے۔ پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ چھ بیٹیاں اور کافی نواسے نواسیاں اور پڑنواسیاں چھوڑے ہیں۔ ملک طاہر صاحب امیر جماعت لاہور لکھتے ہیں کہ محترم بیرسٹر مبشر لطیف صاحب ایک قابل اور اعلیٰ تعلیم یافتہ وکیل تھے۔ یہاں سے بھی انہوں نے اس زمانے میں لاء کی ڈگری حاصل کی تھی اور جن کی جوڈیشری (Judiciary) میں بہت عزت تھی۔ جماعتی مقدمات کے سلسلے میں 1984ءکے بعد ہمارے نوجوانوں کے خلاف جب کلمہ طیبہ کے بارے میں کیس بنے تو ان کی پیشی عام مجسٹریٹ کی عدالت میں ہو رہی تھی۔ گو مبشر صاحب ہائیکورٹ سے نیچے کی عدالتوں میں پیش نہیں ہوتے تھے لیکن جماعتی مفاد میں مجسٹریٹ کے سامنے بھی پیش ہوتے رہے اور جماعتی مقدمات میں بے لوث خدمت سرانجام دیا کرتے تھے۔ نہایت صائب اور قانونی مشورے دیتے تھے۔ بہت سے مجسٹریٹ اور جج بھی ان کے شاگرد رہے ہوئے ہیں لیکن ان کو اپنے شاگردوں کے سامنے پیش ہونے سے بھی کوئی عار نہیں تھا۔ عام طور پر مجسٹریٹ کی عدالت میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے وکیل پیش نہیں ہوتے۔
مبارک طاہر صاحب مشیر قانونی کہتے ہیں کہ مبشر لطیف صاحب کی جماعتی خدمات کا سلسلہ 1974ء سے شروع ہوا۔ آپ نے صمدانی کمیشن میں غیر از جماعت وکیل اعجاز حسین بٹالوی صاحب کو بھی اسسٹ (assist) کیا۔ 84ء کے آرڈیننس کے خلاف جو کیس شرعی عدالت میں دائر کیا گیا تھا اس کے پینل میں بھی مبشر لطیف صاحب شامل رہے۔ منصفانہ قانون کے تحت تو اس پر کچھ نہیں ہونا تھا اور یہ پتہ تھا کہ نہیں ہوگا لیکن انہوں نے اور ان کے ساتھیوں نے بڑی محنت سے یہ سارا کیس تیار کیا۔
اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند کرے اور ان کے لواحقین کو بھی ان کی نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور سکون عطا فرمائے۔
نماز کے بعد ان شاء اللہ ان سب کا نماز جنازہ بھی ہو گا۔
(الفضل انٹر نیشنل 2؍اکتوبر2020ءصفحہ 5تا10)
ابوبکرؓ ہمارے سردار ہیں اور انہوں نے ہمارے سردار یعنی بلال کو آزاد کیا (حضرت عمرؓ )
حضرت بلالؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی میں ان کے لیے سفر و حضر میں مؤذن رہے اور آپ اسلام میں پہلے شخص تھے جنہوں نے اذان دی۔
مؤذنِ رسولﷺ، سَابِقُ الْحَبَشَۃعظیم المرتبت بدری صحابی حضرت بلال بن رباح رضی اللہ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ۔
ہم پاکستانی احمدیوں کا یہ کام ہے خاص طور پر جو پاکستان میں رہنے والے ہیں کہ ملک کی ترقی کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ کوشش کرتے رہیں اور دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان ظالموں سے اس ملک کو پاک کرے۔
چار مرحومین عزیزم رؤوف بن مقصود جونیئر طالب علم جامعہ احمدیہ یوکے(از بیلجیم)، مکرم ظفر اقبال قریشی صاحب (سابق نائب امیر اسلام آباد، پاکستان)، آنریبل کابینے کاباجا کاٹے صاحب آف سینیگال اور مکرم مبشر لطیف صاحب ایڈووکیٹ آف لاہور (حال کینیڈا) کا ذکرِ خیر اور نماز ِجنازہ غائب۔
فرمودہ 11؍ستمبر2020ء بمطابق 11؍تبوک1399 ہجری شمسی، بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔