بدری اصحاب نبویؐ کی سِیرِ مبارکہ: حضرت بلال بن رباحؓ
خطبہ جمعہ 18؍ ستمبر 2020ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
بدری صحابہ میں حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر گذشتہ خطبے میں چل رہا تھا۔ اس کا کچھ حصہ باقی تھا۔ آج بھی بیان کروں گا۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ خیبر سے واپس لَوٹ رہے تھے تو رات بھر چلتے رہے۔ پھر جب آپؐ کو نیند آئی تو آرام کے لیے پڑاؤ کیا اور بلالؓ سے فرمایا کہ ’’آج رات ہماری نماز کے وقت کی حفاظت تم کرو۔‘‘ پھر حضرت بلالؓ نے یہ فرمایا تھا کہ ’’ہماری نماز کی حفاظت کرو‘‘ کا مطلب یہ تھا کہ نماز کے وقت کی حفاظت کرو اور فجر کے وقت تم جگا دینا۔ جب آپؐ نے یہ فرمایا تو پھر حضرت بلالؓ نے جتنی ان کے لیے مقدر تھی نماز پڑھی۔ رات نفل پڑھتے رہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ سو گئے۔ جب فجر کا وقت قریب آیا تو بلالؓ نے صبح کی سمت رخ کرتے ہوئے یعنی سورج جہاں سے نکلتا ہے اس طرف رخ کرتے ہوئے اپنی سواری کا سہارا لیا اور بیٹھ گئے تو بلالؓ پر بھی نیند غالب آگئی جبکہ وہ اپنی اونٹنی سے ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ پس نہ تو بلالؓ بیدار ہوئے اور نہ ہی آپؐ کے اصحاب میں سے کوئی اَور یہاں تک کہ دھوپ ان پر پڑی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان میں سب سے پہلے جاگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فکر مند ہوئے اور فرمایا اے بلالؓ ! اے بلالؓ !۔ بلالؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہؐ ! میرے ماں باپ آپؐ پر قربان ہوں۔ میری روح کو بھی اسی ذات نے روکے رکھا جس نے آپؐ کو روکے رکھا یعنی نیند کا غلبہ مجھ پر بھی آ گیا۔ آپؐ نے فرمایا کہ روانہ ہو۔ چنانچہ انہوں نے اپنی سواریوں کو تھوڑا سا چلایا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روکا۔ پھر وضو فرمایا اور تھوڑی دیر بعد بلالؓ کو ارشاد فرمایا۔ انہوں نے نماز کی اقامت کہی۔ پھر آپؐ نے ان سب کو سورج نکلنے کے بعد صبح کی نماز پڑھائی۔ جب آپؐ نماز پڑھ چکے تو آپؐ نے فرمایا کہ جو نماز بھول جائے تو اسے چاہیے کہ جب یاد آئے اسے پڑھ لے کیونکہ اللہ عزّوجلّ نے فرمایا ہے کہ نماز کو میرے ذکر کے لیے قائم کرو۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الصلوٰۃ باب من نام عن الصلوٰۃ او نسیھا حدیث 697)
فتح مکہ کے روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب خانہ کعبہ میں داخل ہوئے تو آپؐ کے ساتھ حضرت بلالؓ بھی تھے۔ حضرت ابن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے روز مکہ میں آئے اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن طلحہ کو بلایا۔ انہوں نے دروازہ کھولا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت بلالؓ اور حضرت اسامہ بن زیدؓ اور حضرت عثمان بن طلحہؓ اندر گئے اور پھر دروازہ بند کر دیا اور آپؐ اس میں کچھ دیر ٹھہرے۔ پھر نکلے۔ حضرت ابن عمرؓ کہتے تھے کہ مَیں جلدی سے آگے بڑھا اور حضرت بلالؓ سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ آپؐ نے کعبہ میں نماز پڑھی ہے۔ یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ میں نماز پڑھی ہے۔ میں نے کہا کس جگہ؟ کہا ان ستونوں کے درمیان۔ حضرت ابن عمرؓ کہتے تھے مجھ سے رہ گیا کہ مَیں ان سے پوچھوں کہ آپؐ نے کتنی رکعتیں نماز پڑھی ہے۔ (صحیح البخاری کتاب الصلوٰۃ باب الابواب والغلق للکعبۃ والمساجد حدیث 468)
حضرت بلالؓ لوگوں کو بعد میں بتایا کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خانہ کعبہ کے اندر کس جگہ کھڑے ہو کر نماز پڑھی تھی۔ حضرت ابنِ اَبِی مُلَیْکَہسے مروی ہے کہ فتح مکہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلالؓ کو کعبےکی چھت پر اذان دینے کا حکم دیا۔ اس پر حضرت بلالؓ نے کعبےکی چھت پر اذان دی۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ 177 ’’بلال بن رباح‘‘، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2017ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فتح مکہ کے موقع پر حضرت بلالؓ کا ذکر کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں کہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابوسفیان کو لے کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں حاضر ہوئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوسفیان کو دیکھا اور فرمایا: تیرا برا حال ہو کیا تجھے ابھی یقین نہیں آیا کہ خدا ایک ہے؟ ابوسفیان نے کہا یقین کیوں نہیں آیا اگر کوئی دوسرا خدا ہوتا تو ہماری مددنہ کرتا!۔ آپؐ نے فرمایا: تیرا برا حال ہو کیا تجھے ابھی یقین نہیں آیا کہ محمد اللہ کا رسول ہے؟ کہنے لگا ابھی اس کے متعلق یقین نہیں ہوا۔ حضرت عباسؓ نے ابوسفیان کو کہا کمبخت! بیعت کر لو۔ اس وقت تیری اور تیری قوم کی جان بچتی ہے۔ کہنے لگا اچھا۔ کر لیتا ہوں۔ وہاں تو اس نے یونہی بیعت کر لی۔ ان کے کہنے پر بیعت کر لی۔ کوئی دل سے بیعت نہیں تھی لیکن بعد میں جا کر سچا مسلمان ہو گیا۔ خیر بیعت کر لی تو عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہنے لگے۔ اب مانگ اپنی قوم کے لیے ورنہ تیری قوم ہمیشہ کے لیے تباہ ہو جائے گی۔ مہاجرین کا دل اس وقت ڈر رہا تھا۔ وہ تو مکہ کے رہنے والے تھے اور سمجھتے تھے کہ ایک دفعہ مکہ کی عزت ختم ہوئی تو پھر مکہ کی عزت باقی نہیں رہے گی۔ وہ باوجود اس کے کہ انہوں نے بڑے بڑے مظالم برداشت کیے تھے۔ پھر بھی وہ دعائیں کرتے تھے کہ کسی طرح صلح ہو جائے۔ لیکن انصار ان کے مقابلے میں بڑے جوش میں تھے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ مانگو۔ کہنے لگا یا رسول اللہ!کیا آپ اپنی قوم پر رحم نہیں کریں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو بڑے رحیم و کریم ہیں اور پھر مَیں آپ کا رشتہ دار ہوں۔ بھائی ہوں۔ میرا بھی کوئی اعزاز ہونا چاہیے۔ میں مسلمان ہوا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا اچھا جاؤ اور مکہ میں اعلان کر دو کہ جو شخص ابو سفیان کے گھر میں گھسے گا اسے پناہ دی جائے گی۔ کہنے لگا یا رسول اللہؐ ! میرا گھر ہے کتنا اور اس میں کتنے آدمی آ سکتے ہیں؟ اتنا بڑا شہر ہے، اس کا میرے گھر میں کہاں ٹھکانہ ہو سکتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا جو شخص خانہ کعبہ میں چلا جائے گا اسے امان دی جائے گی۔ ابوسفیان نے کہا یا رسول اللہ! پھر بھی لوگ بچ رہیں گے۔ آپؐ نے فرمایا اچھا جو ہتھیار پھینک دے گا اسے بھی کچھ نہیں کہا جائے گا۔ کہنے لگا یا رسول اللہ! پھر بھی لوگ رہ جائیں گے۔ آپؐ نے فرمایا اچھا جو اپنے گھر کے دروازے بند کر لے گا اسے بھی پناہ دی جائے گی۔ اس نے کہا یا رسول اللہ! گلیوں والے جو ہیں وہ تو بیچارے مارے جائیں گے۔ آپؐ نے فرمایا بہت اچھا لاؤ۔ ایک جھنڈا بلالؓ کا تیار کرو۔ اَبِی رُوَیْحَہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک صحابی تھے۔ آپؐ نے جب مدینہ میں مہاجرین اور انصار کو آپس میں بھائی بھائی بنایا تھا تو اَبِی رُوَیْحَہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلال کا بھائی بنایا تھا۔ شاید اس وقت بلالؓ تھے نہیں یا کوئی اَور مصلحت تھی۔ بہرحال آپؐ نے بلالؓ کا جھنڈا بنایا اور اَبِی رُوَیْحَہ کو دیا اور فرمایا کہ یہ بلالؓ کا جھنڈا ہے۔ یہ اسے لے کر چوک میں کھڑا ہو جا ئے اور اعلان کر دے کہ جو شخص بلالؓ کے جھنڈے کے نیچے کھڑا ہو گا اس کو نجات دی جائے گی۔ ابوسفیان کہنے لگا بس اب کافی ہو گیا اب مکہ بچ جائے گا۔ کہنے لگا اب مجھے اجازت دیجئے کہ میں جاؤں۔ آپؐ نے فرمایا جا۔ اب سردار خود ہی ہتھیار پھینک چکا تھا، خبر پہنچنے یا نہ پہنچنے کا سوال ہی نہیں تھا۔ ابو سفیان گھبرایا ہوا مکہ میں داخل ہوا اور یہ کہتا جاتا تھا کہ لوگو! اپنے اپنے گھروں کے دروازے بند کر لو۔ لوگو! اپنے ہتھیار پھینک دو۔ لوگو !خانہ کعبہ میں چلے جاؤ۔ بلالؓ کا جھنڈا کھڑا ہوا ہے اس کے نیچے کھڑے ہو جانا۔ اتنے میں لوگوں نے دروازے بند کرنے شروع کر دیے۔ بعض نے خانہ کعبہ میں گھسنا شروع کر دیا۔ لوگوں نے ہتھیار باہر لا لا کر پھینکنے شروع کیے۔ اتنے میں اسلامی لشکر شہر میں داخل ہوا اور لوگ بلال کے جھنڈے کے نیچے جمع ہو گئے۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ اس واقعہ میں جو سب سے زیادہ عظیم الشان بات ہے وہ بلالؓ کا جھنڈا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بلالؓ کا جھنڈا بناتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ جو شخص بلالؓ کے جھنڈے کے نیچے کھڑا ہو جائے گا اس کو پناہ دی جائے گی حالانکہ سردار تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی جھنڈا نہیں کھڑا کیا جاتا۔ آپؐ کے بعد قربانی کرنے والے ابوبکرؓ تھے مگر ابوبکر کا بھی کوئی جھنڈا نہیں کھڑا کیا جاتا۔ ان کے بعد مسلمان ہونے والے رئیس عمرؓ تھے مگر عمر کا بھی کوئی جھنڈا نہیں کھڑا کیا جاتا۔ ان کے بعد عثمانؓ مقبول تھے اور آپؐ کے داماد تھے مگر عثمانؓ کا بھی جھنڈا نہیں کھڑا کیا جاتا۔ ان کے بعد علیؓ تھے جو آپؐ کے بھائی بھی تھے اور آپؐ کے داماد بھی تھے مگر علی کا کوئی جھنڈا نہیں کھڑا کیا جاتا۔ پھر عبدالرحمٰن بن عوفؓ وہ شخص تھے جن کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ آپؓ وہ شخص ہیں کہ جب تک آپؓ زندہ ہیں مسلمان قوم میں اختلاف نہیں ہو گا لیکن عبدالرحمٰنؓ کا کوئی جھنڈا نہیں بنایا جاتا۔ پھر عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپؐ کے چچا تھے اور بعض دفعہ وہ گستاخی بھی کر لیتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بول لیا کرتے تھے تو آپؐ خفا نہ ہوتے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا بھی کوئی جھنڈا نہیں بنایا۔ پھر سارے رؤساءاور چوٹی کے آدمی موجود تھے۔ خالد بن ولیدؓ جو ایک سردار کا بیٹا، خود بڑا نامور انسان تھا، موجود تھا۔ عمرو بن عاصؓ ایک سردار کا بیٹا تھا۔ اسی طرح اَور بڑے بڑے سرداروں کے بیٹے تھے مگر ان میں سے کسی ایک کاجھنڈا نہیں بنایا جاتا۔ جھنڈا بنایا جاتا ہے تو بلالؓ کا بنایا جاتا ہے۔ کیوں؟ اس کی کیا وجہ تھی؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ خانہ کعبہ پر جب حملہ ہونے لگا تھا تو ابوبکرؓ دیکھ رہا تھا کہ جن کو مارا جانے والا ہے وہ اس کے بھائی بند ہیں اور اس نے خود بھی کہہ دیا تھا کہ یا رسول اللہؐ ! کیا وہ اپنے بھائیوں کو ماریں گے؟ وہ ظلموں کو بھول چکا تھا اور جانتا تھا کہ یہ میرے بھائی ہیں۔ عمر بھی کہتے تو یہی تھے کہ یا رسول اللہؐ ! ان کافروں کو ماریے مگر پھر بھی جب آپؐ ان کو معاف کرنے پر آئے تو وہ اپنے دل میں یہی کہتے ہوں گے کہ اچھا ہوا ہمارے بھائی بخشے گئے۔ عثمانؓ اور علیؓ بھی کہتے ہوں گے کہ ہمارے بھائی بخشے گئے۔ انہوں نے ہمارے ساتھ سختیاں کر لیں تو کیا ہوا۔ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کو معاف کرتے وقت یہی سمجھتے ہوں گے کہ ان میں میرے چچا بھی تھے، بھائی بھی تھے۔ ان میں میرے داماد، عزیز اور رشتہ دار بھی تھے۔ اگر میں نے ان کو معاف کر دیا تو اچھا ہی ہوا۔ میرے اپنے رشتے دار بچ گئے۔ صرف ایک شخص تھا جس کی مکہ میں کوئی رشتہ داری نہیں تھی۔ جس کی مکہ میں کوئی طاقت نہیں تھی۔ جس کا مکہ میں کوئی ساتھی نہیں تھا اور اس کی بے کسی کی حالت میں اس پر وہ ظلم کیا جاتا جو نہ ابوبکرؓ پہ ہوا، نہ علیؓ پر ہوا، نہ عثمانؓ پر ہوا، نہ عمرؓ پر ہوا بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی نہیں ہوا۔
پچھلی ایک روایت جو مَیں نے گذشتہ ہفتے بیان کی تھی اس میں بھی یہ بیان ہوا تھا کہ حضرت ابوبکرؓ پہ بھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ظلم ہوئے لیکن یہ رشتہ داریوں کی وجہ سے بچے رہے تھے لیکن مَیں نے وضاحت کی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ظلم ہوئے اور حضرت ابوبکرؓ پر بھی ظلم ہوئے۔ اور صرف بلالؓ پر ایسے ظلم ہوئے تھے جو کسی پر نہیں ہوئے۔ یہاں بھی حضرت مصلح موعودؓ نے یہ انکار نہیں کیا کہ آپ لوگوں پہ ظلم نہیں ہوئے بلکہ فرمایا کہ وہ ظلم جو بلالؓ پہ ہوا وہ کسی اَور پر نہیں ہوا۔
پھر آپؓ نے اس کی تفصیل بیان کی وہ کیا ظلم تھا۔ وہ ظلم یہ تھا کہ جلتی اور تپتی ہوئی ریت پر بلالؓ کو ننگا لٹا دیا جاتا تھا۔ تم دیکھو ننگے پاؤں میں مئی اور جون میں نہیں چل سکتے۔ اس کو ننگا کر کے تپتی ریت پر لٹا دیا جاتا تھا۔ پھر کیلوں والے جوتے پہن کر نوجوان اس کے سینے پر ناچتے تھے اور کہتے تھے کہ کہو خدا کے سوا اَور معبود ہیں۔ کہو محمد رسول اللہ جھوٹا ہے اور بلالؓ آگے سے اپنی حبشی زبان میں جب وہ بہت مارتے تھے کہتے تھے اَسْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ۔ اَسْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ کہ وہ شخص آگے سے یہی جواب دیتا تھا کہ تم مجھ پر کتنا بھی ظلم کرو میں نے جب دیکھ لیا ہے کہ خدا ایک ہے تو دو کس طرح کہہ دوں اور جب مجھے پتہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے سچے رسول ہیں تو میں انہیں جھوٹا کس طرح کہہ دوں؟ اس پر وہ اَور مارنا شروع کر دیتے تھے۔ گرمیوں کے مہینوں کے موسم میں، ان مہینوں میں جب گرمیاں ہوتی ہیں اس موسم میں اس کے ساتھ یہی حال ہوتا تھا۔ اسی طرح سردیوں میں وہ یہ کرتے تھے کہ ان کے پیروں میں رسّی ڈال کر انہیں مکہ کی پتھروں والی گلیوں میں گھسیٹتے تھے۔ ان کا چمڑازخمی ہو جاتا تھا یعنی کھال زخمی ہو جاتی تھی۔ وہ گھسیٹتے تھے اور کہتے تھے کہو جھوٹا ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم۔ کہو خدا کے سوا اَور معبود ہیں تو وہ کہتے اَسْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ۔ اَسْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ۔
اب جبکہ اسلامی لشکر دس ہزار کی تعداد میں داخل ہونے کے لیے آیا تو بلالؓ کے دل میں خیال آیا ہو گا کہ آج ان بوٹوں کا بدلہ لیا جائے گا جو میرے سینے پر ناچتے تھے۔ آج ان ماروں کا معاوضہ بھی مجھے ملے گا جس طرح مجھے ظالمانہ طور پر مارا گیا تھا لیکن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص ابو سفیان کے گھر میں داخل ہو گیا وہ معاف۔ جو خانہ کعبہ میں داخل ہو گیا وہ معاف۔ جس نے اپنے ہتھیار پھینک دیے وہ معاف۔ جس نے اپنے گھر کے دروازے بند کر لیے وہ معاف تو بلال کے دل میں خیال آیا ہو گا کہ یہ تو اپنے سارے بھائیوں کو معاف کر رہے ہیں اور اچھا کر رہے ہیں لیکن میرا بدلہ تو رہ گیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ آج صرف ایک شخص ہے جس کو میرے معاف کرنے سے تکلیف پہنچ سکتی ہے اور وہ بلالؓ ہے کہ جن کو میں معاف کر رہاہوں وہ اس کے بھائی نہیں۔ جو اس کو دکھ دیا گیا ہے وہ اَور کسی کو نہیں دیا گیا۔ آپؐ نے فرمایا میں اس کا بدلہ لوں گا اور اس طرح لوں گا کہ میری نبوت کی بھی شان باقی رہے اور بلالؓ کا دل بھی خوش ہو جائے۔ آپؐ نے فرمایا بلالؓ کا جھنڈا کھڑا کرو اور ان مکہ کے سرداروں کو جو جوتیاں لے کر اس کے سینے پر ناچا کرتے تھے، جو اس کے پاؤں میں رسّی ڈال کر گھسیٹا کر تے تھے، جو اسے تپتی ریتوں پر لٹایا کرتے تھے کہہ دو کہ اگر اپنی اور اپنے بیوی بچوں کی جان بچانی ہے تو بلالؓ کے جھنڈے کے نیچے آ جاؤ۔ میں سمجھتا ہوں جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے، جب سے انسان کو طاقت حاصل ہوئی ہے اور جب سے کوئی انسان دوسرے انسان سے اپنے خون کا بدلہ لینے پر تیار ہوا ہے اور اس کو طاقت ملی ہے اس قسم کا عظیم الشان بدلہ کسی انسان نے نہیں لیا۔ جب بلالؓ کا جھنڈا خانہ کعبہ کے سامنے میدان میں گاڑا گیا ہو گا۔ جب عرب کے رؤساء، وہ رؤساء جو اس کو پیروں سے مسلا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ بولتا ہے کہ نہیں کہ محمد رسول اللہ جھوٹا ہے۔ اور اب جب نظارہ بدلا، جب حالات بدلے تو اب وہ دوڑ دوڑ کر اپنے بیوی بچوں کے ہاتھ پکڑ پکڑ کر اور لا لا کر بلالؓ کے جھنڈے کے نیچے لاتے ہوں گے کہ ہماری جان بچ جائے۔ تو اس وقت بلالؓ کا دل اور اس کی جان کس طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نچھاور ہو رہی ہو گی۔ وہ کہتا ہو گا میں نے تو خبر نہیں ان کفار سے بدلہ لینا تھا یا نہیں یا لے سکتا تھا کہ نہیں اب وہ بدلہ لے لیا گیا ہے کہ ہر شخص جس کی جوتیاں میرے سینے پر پڑتی تھیں اس کے سر کو میری جوتی پر جھکا دیا گیا ہے۔ یہ وہ بدلہ ہے کہ وہ جوتیاں جو سینے پر ناچا کرتی تھیں آج ان کو پہننے والے سر بلال کی جوتی پر جھکا دیے گئے ہیں۔ یہ وہ بدلہ تھا جو یوسف کے بدلہ سے بھی زیادہ شاندار تھا۔ اس لیے کہ یوسف نے اپنے باپ کی خاطر اپنے بھائیوں کو معاف کیا تھا۔ جس کی خاطر کیا وہ اس کا باپ تھا اور جن کو کیا وہ اس کے بھائی تھے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچوں اور بھائیوں کو ایک غلام کی جوتیوں کے طفیل معاف کیا۔ بھلا یوسف کا بدلہ اس کے مقابلے میں کیا حیثیت رکھتا ہے۔ (ماخوذ از سیر روحانی، انوار العلوم جلد 24 صفحہ 268 تا 273)
پہلا جو حوالہ تھا ’سیر روحانی‘ کا تھا۔ اسی واقعہ کو دیباچہ تفسیر القرآن میں بھی اختصار کے ساتھ بیان فرمایا ہے اور یہ مَیں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ بعض لوگ لکھ دیتے ہیں کہ فلاں جگہ تو یوں فرمایا تھا۔ دونوں بیانوں میں تفصیل اور اختصار کے علاوہ کوئی فرق نہیں ہے۔ بعض لوگ بڑے نکتے نکال کر فرق بھی بتانے شروع کر دیتے ہیں۔ واقعاتی طور پر بھی اور نتیجے کے طور پر بھی ایک ہی چیز ہے۔
بہرحال یہاں جو بیان ہے وہ اس طرح ہے کہ ’’ابوسفیان نے کہا یا رسول اللہؐ ! اگر مکہ کے لوگ تلوار نہ اٹھائیں تو کیا وہ امن میں ہوں گے؟ آپؐ نے فرمایا ہاں ! ہر شخص جو اپنے گھر کا دروازہ بند کر لے اسے امن دیا جائے گا۔ حضرت عباسؓ نے کہا یا رسول اللہؐ ! ابوسفیان فخر پسند آدمی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ میری عزت کا بھی کوئی سامان کیا جائے۔‘‘ یہ حضرت عباسؓ کے حوالے سے زائد چیز ہے۔ ’’آپؐ نے فرمایا بہت اچھا، جو شخص ابوسفیان کے گھر میں چلا جائے اس کو بھی امن دیا جائے گا۔ جو مسجد کعبہ میں گھس جائے اس کو بھی امن دیا جائے گا۔ جو اپنے ہتھیار پھینک دے اس کو بھی امن دیا جائے گا۔ جو اپنا دروازہ بند کر کے بیٹھ جائے گا اس کو بھی امن دیا جائے گا۔ جو حکیم بن حِزام کے گھر میں چلا جائے اس کو بھی امن دیا جائے گا۔ اس کے بعد اَبِی رُوَیْحَہؓ جن کو آپؐ نے بلالؓ حبشی غلام کا بھائی بنایا ہوا تھا ان کے متعلق آپؐ نے فرمایا ہم اس وقت اَبِی رُوَیْحَہؓ کو اپنا جھنڈا دیتے ہیں جو شخص ابی رویحہؓ کے جھنڈے کے نیچے کھڑا ہو گا ہم اس کو بھی کچھ نہ کہیں گے اور بلالؓ سے کہا تم ساتھ ساتھ یہ اعلان کرتے جاؤ کہ جو شخص ابی رویحہؓ کے جھنڈے کے نیچے آ جائے گا اس کو امن دیا جائے گا۔‘‘ یہ چیز یہاں زائد ہے کہ بلالؓ ساتھ اعلان کرتے جائیں۔ ’’اس حکم میں کیا ہی لطیف حکمت تھی۔ مکہ کے لوگ بلالؓ کے پیروں میں رسی ڈال کر اس کو گلیوں میں کھینچا کرتے تھے، مکہ کی گلیاں، مکہ کے میدان بلال کے لیے امن کی جگہ نہیں تھے بلکہ عذاب اور تذلیل اور تضحیک کی جگہ تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیال فرمایا کہ بلالؓ کا دل آج انتقام کی طرف بار بار مائل ہوتا ہو گا۔ اس وفادار ساتھی کا انتقام لینا بھی نہایت ضروری ہے مگر یہ بھی ضروری ہے کہ ہمارا انتقام اسلام کی شان کے مطابق ہو۔ پس آپؐ نے بلالؓ کا انتقام اس طرح نہ لیا کہ تلوار کے ساتھ اس کے دشمنوں کی گردنیں کاٹ دی جائیں بلکہ اس کے بھائی کے ہاتھ میں ایک بڑا جھنڈا دے کر کھڑا کر دیا اور بلالؓ کو اس غرض کے لیے مقرر کر دیا کہ وہ اعلان کر دے کہ جو کوئی میرے بھائی کے جھنڈے کے نیچے آ کر کھڑا ہو گا اسے امن دیا جائے گا۔ کیسا شاندار یہ انتقام تھا، کیسا حسین یہ انتقام تھا۔ جب بلالؓ بلند آواز سے یہ اعلان کرتا ہو گا کہ اے مکہ والو! آؤ میرے بھائی کے جھنڈے کے نیچے کھڑے ہو جاؤ تمہیں امن دیا جائے گا تو اس کا دل خود ہی انتقام کے جذبات سے خالی ہوتا جاتا ہو گا اور اس نے محسوس کر لیا ہو گا کہ جو انتقام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لیے تجویز کیا اس سے زیادہ شاندار اور اس سے زیادہ حسین انتقام میرے لیے اور کوئی نہیں ہو سکتا۔‘‘ (دیباچہ تفسیر القرآن انوار العلوم جلد 20 صفحہ 340۔ 341)
پھر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت بلالؓ کے صبر اور فتح مکہ کے وقت ان کی حالت کا تذکرہ کرتے ہوئے یوں بیان فرمایا ہے کہ ’’یہ تکالیف تھیں جو بلال کو پہنچائی گئیں۔‘‘ مکے میں جو تکالیف ہوتی تھیں ان کا ذکر پہلے بھی ہو چکا ہے۔ ’’مگر جانتے ہو جب مکہ فتح ہوا تو وہ بلالؓ حبشی غلام جس کے سینے پر مکہ کے بڑے بڑے افسر ناچا کرتے تھے اس کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا عزت دی؟ اور کس طرح اس کا کفار سے انتقام لیا؟ جب مکہ فتح ہوا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلالؓ کے ہاتھ میں ایک جھنڈا دے دیا اور اعلان کر دیا کہ اے مکہ کے سردارو! اگر اب تم اپنی جانیں بچانا چاہتے ہو تو بلالؓ کے جھنڈے کے نیچے آ کر کھڑے ہو جاؤ۔ گویا وہ بلالؓ جس کے سینے پر مکہ کے بڑے بڑے سردار ناچا کرتے تھے اس کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ والوں کو بتایا کہ آج تمہاری جانیں اگر بچ سکتی ہیں تو اس کی یہی صورت ہے کہ تم بلالؓ کی غلامی میں آ جاؤ حالانکہ بلالؓ غلام تھا اور وہ چوہدری تھے۔‘‘ (آئندہ وہی قومیں عزت پائیں گی جو مالی و جانی قربانیوں میں حصہ لیں گی۔ انوار العلوم جلد 21 صفحہ 164)
پس ہر جگہ یہی نتیجہ ہے۔ چاہے جھنڈا ان کے بھائی کے سپرد کیا تب بھی بلالؓ کو ساتھ کیا۔ بلالؓ کے نام پر جھنڈا کیا تب بھی اور بلالؓ کے ہاتھ میں دیا تو نتیجہ وہی ہے۔ تھوڑے سے فرق کے ساتھ واقعاتی طور پر ایک ہی بات بیان ہو رہی ہے اور نتیجہ بھی وہی نکالا جا رہا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ عید کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے آگے نیزے کو لے کر چلا جاتا تھا۔ عید والے دن ایک شخص آگے چلتا تھا اس کے ہاتھ میں نیزہ ہوتا تھا اور جس کو عموماً حضرت بلالؓ اٹھائے ہوئے ہوتے تھے۔ محمد بن عمر بیان کرتے ہیں کہ حضرت بلالؓ اسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے گاڑ دیتے تھے۔ اس زمانے میں عید گاہ میدان ہوتا تھا۔ کھلا میدان تھا وہی عیدگاہ تھی۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ 177 ’’بلال بن رباح‘‘، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2017ء)
ایک روایت ہے کہ نجاشی حبشہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تین نیزے تحفے میں بھیجے تھے۔ ایک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھ لیا۔ ایک حضرت علی بن ابوطالب کو دیااور ایک حضرت عمربن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیا۔ حضرت بلالؓ اس نیزے کو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لیے رکھا تھا عیدین میں آپؐ کے آگے آگے لے کر چلتے تھے یہاں تک کہ اسے آپؐ کے آگے گاڑ دیتے اور آپؐ اسی کی طرف نماز پڑھتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت بلالؓ اسی طرح اس نیزے کو حضرت ابوبکرؓ کے آگے لے کر چلا کرتے تھے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ 178 ’’بلال بن رباح‘‘، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2017ء)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد روایات میں یہی آتا ہے کہ حضرت بلالؓ جہاد میں شامل ہونے کے لیے شام کی طرف چلے گئے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اس طرح بیان ہوا ہے کہ حضرت بلالؓ حضرت ابوبکرؓ کے پاس آئے اور کہا کہ اے خلیفۂ رسول! مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ مومن کا سب سے افضل عمل اللہ کی راہ میں جہاد ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا بلالؓ تم کیا چاہتے ہو؟ حضرت بلالؓ نے جواب دیا کہ میں چاہتا ہوں کہ مجھے اللہ کے رستہ میں جہاد کے لیے بھیج دیا جائے یہاں تک کہ میں مارا جاؤں۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ بلال میں تمہیں اللہ کا واسطہ دیتا ہوں اور اپنی حرمت اور حق یاد دلاتا ہوں کہ میں بوڑھا اور ضعیف ہو گیا ہوں۔ میری موت کا وقت قریب آ گیا ہے اس وجہ سے میرے پاس ٹھہر جاؤ۔ اس پر حضرت بلالؓ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات تک ان کے پاس ہی رہے۔ حضرت ابوبکرؓ کی وفات کے بعد حضرت بلالؓ حضرت عمرؓ کے پاس آئے اور ان سے بھی وہی بات کہی جو حضرت ابوبکرؓ کو کہی تھی۔ حضرت عمرؓ نے بھی انہیں ویسا ہی جواب دیا جیسا حضرت ابوبکرؓ نے دیا تھا مگر حضرت بلالؓ نہ مانے۔ حضرت بلالؓ جہاد پر جانے پر مصر تھے اور انہوں نے حضرت عمرؓ کے سامنے اسی بات کا اصرار کیا۔ حضرت عمرؓ نے ان سے فرمایا کہ میں تمہارے بعد اذان دینے کی ذمے داری کس کے سپرد کروں گا؟ حضرت بلالؓ نے عرض کی کہ حضرت سعدؓ کے کیونکہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اذان دی ہوئی ہے۔ پس حضرت عمرؓ نے حضرت سعدؓ اور ان کے بعد ان کی اولاد کے سپرد اذان کی ذمہ داری لگائی اور حضرت بلالؓ کو ان کے اصرار کی وجہ سے جہاد پر بھیج دیا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ 178 ’’بلال بن رباح‘‘، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 2017ء)
یہ ایک روایت ہے اور ایک روایت میں حضرت بلالؓ اور حضرت ابوبکرؓ کے اذان دینے کے حوالے سے جو مکالمہ ہوا اس کا بھی یوں ذکر ملتا ہے کہ موسیٰ بن محمد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو حضرت بلالؓ نے اس روز اس وقت اذان دی کہ ابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین نہ ہوئی تھی۔ جب انہوں نے أَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللّٰہِ کے الفاظ اپنی زبان میں کہے۔ اَسْھَدُ کہتے تھے۔ تو مسجد میں لوگوں کے رونے کی وجہ سے ہچکیاں بندھ گئیں۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین ہو گئی تو حضرت ابوبکرؓ نے حضرت بلالؓ کو اذان دینے کا کہا۔ حضرت بلالؓ نے جواباً کہا اگر تو آپ نے مجھے اس لیے آزاد کیا ہے کہ میں آپ کے ساتھ رہوں تو اس کا راستہ تو یہی ہے جس طرح آپ کہہ رہے ہیں لیکن اگر آپ نے مجھے اللہ کے لیے آزاد کیا ہے تو مجھے اس کے لیے چھوڑ دیجئے جس کے لیے مجھے آزاد کیا ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ میں نے تمہیں اللہ کی خاطر آزاد کیا ہے۔ اس پر حضرت بلالؓ نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کسی کے لیے اذان نہ دوں گا۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا یہ آپ کی مرضی ہے۔ اس کے بعد حضرت بلالؓ مدینے میں ہی مقیم رہے یہاں تک کہ حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں شام کے لیے لشکر روانہ ہوئے تو حضرت بلالؓ بھی ان لشکروں کے ساتھ شام چلے گئے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ 178 ’’بلال بن رباح‘‘، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2017ء)
اسد الغابہ کی ایک روایت کے مطابق حضرت بلالؓ نے حضرت ابوبکرؓ سے کہا کہ اگر آپ نے مجھے اپنے لیے آزاد کیا ہے تو مجھے اپنے پاس روک لیں لیکن اگر آپ نے مجھے اللہ کی راہ میں آزاد کیا ہے تو مجھے اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے جانے دیں۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ نے حضرت بلالؓ سے فرمایا جاؤ۔ اس پر حضرت بلالؓ شام چلے گئے اور وفات تک وہیں رہے جو اکثر روایتیں ہیں وہ یہی ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ کے زمانے میں نہیں گئے تھے بلکہ حضرت عمرؓ کے زمانے میں گئے تھے اور ایک قول کے مطابق حضرت بلالؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابوبکرؓ کے دورِ خلافت میں بھی اذان دیتے رہے ہیں۔ یہ بھی روایت ہے۔ (اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ المجلد الاول صفحہ 416 ’’بلال بن رباح‘‘ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان)
ایک روایت یوں بیان کی گئی ہے کہ ایک دفعہ حضرت بلالؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ آپؐ فرماتے ہیں اے بلالؓ ! یہ کیسی سنگ دلی ہے۔ کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ تم ہماری زیارت کے لیے آؤ۔ حضرت بلالؓ نہایت رنج کی حالت میں بیدار ہوئے، شام میں ہوتے تھے اور سوار ہو کر مدینے کی طرف چل دیے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ مبارک پر حاضر ہو کر زار و قطار رونے لگے اور تڑپنے لگے۔ اتنے میں حضرت حسنؓ اور حسینؓ بھی آ گئے۔ حضرت بلالؓ نے انہیں بوسہ دیا اور انہیں گلے لگایا تو حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ نے حضرت بلالؓ سے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ صبح کی اذان آپؓ دیں تو آپ مسجد کی چھت پر چڑھ گئے۔ جب حضرت بلالؓ نے أَللّٰہُ اَکْبَرُ أَللّٰہُ اَکْبَرُ کے الفاظ کہے تو راوی کہتے ہیں کہ مدینہ لرز اٹھا۔ پھر جب انہوں نے أَشْہَدُ أَنْ لَّا اِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ کے الفاظ کہے تو اَور زیادہ جنبش ہوئی۔ لوگوں میں ایک دم بیداری پیدا ہوئی۔ پھر جب انہوں نے أَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ کے الفاظ کہے تو عورتیں اپنے کمروں سے باہر آ گئیں۔ راوی کہتے ہیں کہ اس دن سے زیادہ رونے والے مرد اور رونے والی عورتیں نہیں دیکھی گئی تھیں۔ (اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ المجلد الاول صفحہ 417 ’’بلال بن رباح‘‘ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ اور یہ اذان یاد آ گئی اور لوگ بے چین ہو گئے۔
حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں جب حضرت بلالؓ نے جہاد کے لیے جانے کی اجازت طلب کی تو حضرت عمرؓ نے پوچھا کہ آپ کو کیا چیز اذان دینے سے مانع ہے۔ اس پر حضرت بلالؓ نے جواب دیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے اذان دی یہاں تک کہ آپؐ کی وفات ہو گئی۔ پھر میں نے حضرت ابوبکرؓ کے حکم سے اذان دی کیونکہ وہ میری نعمت کے نگران تھے یہاں تک کہ ان کی بھی وفات ہو گئی۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اے بلالؓ ! کوئی عبادت جہاد فی سبیل اللہ سے بڑھ کر نہیں ہے، چنانچہ حضرت بلالؓ شام چلے گئے۔ جب حضرت عمرؓ شام تشریف لے گئے تو حضرت عمرؓ کے کہنے پر حضرت بلالؓ نے اذان دی۔ راوی کہتے ہیں کہ ہم نے اس دن سے قبل آپ کو اتنا روتے ہوئے نہیں دیکھا۔ (اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ المجلد الاول صفحہ 416-417 ’’بلال بن رباح‘‘ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت بلالؓ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آخری زمانے کا ذکر کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں کہ حضرت بلالؓ آخری عمر میں شام چلے گئے تھے۔ یہاں یہ ذکر بھی ہے کہ ان کو لوگ رشتہ نہیں دیتے تھے لیکن پہلے بیان ہو چکا ہے کہ ان کی کئی شادیاں تھیں اور رشتے ہوئے تھے۔ ہو سکتا ہے کہ بعض شام جانے کے لیے رشتہ نہیں دیتے یا شام جا کر رشتہ نہیں ملتا ہو گا۔ بہرحال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں آپؓ کی کئی شادیوں کی روایت ملتی ہے تو حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں کہ انہوں نے شام میں ایک جگہ رشتے کے متعلق درخواست کی اور کہا کہ میں حبشی ہوں اگر چاہو تو رشتہ نہ دو اور اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابی سمجھ کر مجھے رشتہ دے دو تو بڑی مہربانی ہو گی۔ انہوں نے رشتہ دے دیا اور وہ شام میں ہی ٹھہر گئے۔ بہرحال پہلے بھی ان کی شادیاں تھیں۔ ہو سکتا ہے پہلی بیویاں فوت ہو گئی تھیں یا ساتھ جانے والی کوئی نہیں تھی یا شام میں شادی کرنا چاہتے تھے۔ لیکن بہرحال یہ تھوڑی وضاحت یہاں ہو جائے کہ شادیاں ان کی پہلے تھیں۔ گو کہ حضرت مصلح موعودؓ نے یہ لکھا ہے۔ باقی روایتیں بھی یہی کہتی ہیں کہ ان کوکوئی رشتہ نہیں دیتا تھا۔ کس سیاق و سباق کے تحت لکھا اللہ بہتر جانتا ہے۔ بہرحال وہاں انہوں نے رشتہ مانگا۔ وہاں ان کی شادی ہو گئی اور وہ شام میں ٹھہر گئے۔ جو اصل چیز ہے وہ یہی ہے جو آگے رؤیا کا ذکر ہے۔ شادی تو ایک ضمنی بات آ گئی۔
حضرت مصلح موعودؓ نے یہ لکھا ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم رؤیا میں ان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا بلالؓ ! تم ہم کو بھول ہی گئے۔ کبھی ہماری قبر کی زیارت کرنے کے لیے نہیں آئے۔ وہ اسی وقت اٹھے اور سفر کا سامان تیار کر کے مدینہ تشریف لے گئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر رو رو کر دعا کی۔ اس وقت ان کو اتنی رقت پیدا ہوئی کہ لوگوں میں عام طور پر مشہور ہو گیا کہ بلالؓ آئے ہیں۔ حضرت حسنؓ اور حسینؓ جو اس وقت بڑے ہو چکے تھے دوڑے ہوئے آئے اور کہنے لگے آپ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اذان دیا کرتے تھے۔ انہوں نے کہا ہاں۔ تو کہنے لگے ہمیں بھی اپنی اذان سنائیں۔ چنانچہ انہوں نے اذان دی اور لوگوں نے سنی۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 25 صفحہ 182 خطبہ جمعہ فرمودہ10مارچ 1944ء)
حضرت عمرؓ نے جب اپنے دورِ خلافت میں شام میں وظیفے کے لیے دفتر مرتب کروائے یعنی اکاؤنٹ کے رجسٹر وغیرہ بنوائے، کھاتے وغیرہ بنوائے اور سارا ریکارڈ مکمل کروایا تو حضرت بلالؓ شام چلے گئے اور وہیں مجاہدین کے ساتھ مقیم ہو گئے۔ حضرت عمرؓ نے حضرت بلالؓ سے پوچھا کہ اے بلالؓ ! تم اپنے وظیفے کا دفتر کس کے پاس رکھو گے۔ یعنی اپنے حساب کتاب کی نمائندگی کس کے سپرد کرنا چاہتے ہو۔ کون ہو گا تمہارا نمائندہ یہاں؟ تو انہوں نے جواب دیا ابورُوَیْحَہؓ کے پاس جن کو میں اس اخوت کی وجہ سے کبھی نہ چھوڑوں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے اور ان کے درمیان قائم فرمائی تھی۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ 176 ’’بلال بن رباح‘‘ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2017ء)
حضرت بلالؓ کی صاف گوئی کا واقعہ ایک روایت میں یوں ملتا ہے۔ عمرو بن میمون اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت بلالؓ کےایک بھائی خود کو عرب کی طرف منسوب کرتے تھے اور وہ خیال کرتے تھے کہ وہ انہی میں سے ہیں۔ انہوں نے عرب کی ایک عورت کو نکاح کا پیغام بھیجا تو انہوں نے کہا کہ اگر حضرت بلالؓ آئیں تو ہم تم سے نکاح کر دیں گے۔ حضرت بلالؓ آئے اور تشہد پڑھا۔ پھر کہا کہ مَیں بلال بن رباح ہوں اور یہ میرا بھائی ہے اور یہ اخلاق اور دین کے لحاظ سے اچھا آدمی نہیں ہے اگر تم اس سے نکاح کرنا چاہو تو کر دو اور اگر ترک کرنا چاہو تو ترک کر دو۔ انہوں نے کہا کہ جس کے آپؓ بھائی ہیں اس سے ہم نکاح کر دیں گے۔ پس انہوں نے آپؓ کے بھائی سے نکاح کر دیا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ 179 ’’بلال بن رباح‘‘، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2017ء)
زید بن اسلم سے مروی ہے کہ بَنُو اَبُو بُکَیْررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے کہ فلاں شخص سے ہماری بہن کا نکاح کر دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلالؓ کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟ لوگ دوسری مرتبہ آئے اور عرض کیا یارسول اللہؐ ! ہماری بہن کا فلاں شخص سے نکاح کر دیں۔ آپؐ نے فرمایا تم لوگوں کا بلالؓ کے بارے میں کیا خیال ہے؟ یہ لوگ انکار کر کے چلے گئے۔ پھر تیسری مرتبہ آئے اور عرض کیا یا رسول اللہؐ ! ہماری بہن کا فلاں شخص سے نکاح کردیں۔ آپؐ نے فرمایا تم لوگوں کا بلالؓ کے بارے میں کیا خیال ہے؟ تم لوگوں کا ایسے شخص کے بارےمیں کیا خیال ہے جو اہلِ جنت میں سے ہے؟ راوی کہتے ہیں اس پر ان لوگوں نے حضرت بلالؓ سے اپنی بہن کا نکاح کر دیا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ 179 ’’بلال بن رباح‘‘، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2017ء)
حوالہ جو پہلے مَیں نے کہا تھا کہ حضرت مصلح موعودؓ نے لکھا ہے کہ شادیاں نہیں ہوئی تھیں۔ وہ بات شاید کسی اَور سیاق و سباق کے تحت ہو۔ شادیاں پہلے ہوئی تھیں۔ اور یہ بھی ایک حوالہ ہے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے لکھا ہے کہ ’’ایک دفعہ حضرت عمرؓ کے عہد خلافت میں وہ (یعنی سہیل بن عمرو) اور ابوسفیان اور بعض دوسرے رؤسا ئے مکہ جو فتح کے وقت مسلمان ہوئے تھے حضرت عمرؓ کوملنے کے لیے گئے۔ حضرت عمرؓ کے عہدِ خلافت میں ابوسفیان اور بعض دوسرے رؤسائے مکہ جو فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوئے تھے حضرت عمرؓ کو ملنے کے لیے گئے۔ اتفاق سے اسی وقت بلالؓ اور عمارؓ اور صہیبؓ وغیرہ بھی حضرت عمرؓ سے ملنے کے لیے آگئے۔ یہ وہ لوگ تھے جو غلام رہ چکے تھے اور بہت غریب تھے مگر ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے ابتدا میں اسلام قبول کیا تھا۔ حضرت عمرؓ کو اطلاع دی گئی تو انہوں نے بلال وغیرہ کوپہلے ملاقات کے لیے بلایا۔ ابوسفیان نے جس کے اندر غالباً ابھی تک کسی قدر جاہلیت کی رگ باقی تھی یہ نظارہ دیکھا تو اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ چنانچہ کہنے لگا یہ ذلت بھی ہمیں دیکھنی تھی کہ ہم انتظار کریں اور ان غلاموں کوشرفِ ملاقات بخشا جاوے۔ سہیل نے فوراً سامنے سے جواب دیا کہ پھر یہ کس کا قصور ہے؟ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سب کو خدا کی طرف بلایا لیکن انہوں نے فوراً مان لیا اور ہم نے دیر کی۔ پھر ان کو ہم پر فضیلت حاصل ہویانہ ہو؟‘‘ (سیرت خاتم النبیینؐ صفحہ369)
حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس واقعہ کا ذکر اس طرح کیا ہے اور حضرت بلالؓ کے مقام و مرتبہ کا ذکر فرماتے ہوئے کہ حضرت عمرؓ اپنی خلافت کے زمانے میں ایک دفعہ مکہ میں آئے تو وہی غلام جن کو سر کے بالوں سے پکڑ کر لوگ گھسیٹا کرتے تھے ایک ایک کر کے حضرت عمرؓ کی ملاقات کے لیے آنا شروع ہوئے۔ وہ عید کا دن تھا اور ان غلاموں کے آنے سے پہلے مکہ کے بڑے بڑے رؤسا ءکے بیٹے آپ کو سلام کرنے کے لیے حاضر ہو چکے تھے۔ ابھی وہ بیٹھے ہی تھے کہ بلالؓ آئے۔ وہی بلال جو غلام رہ چکے تھے، جن کو لوگ مارا پیٹا کرتے تھے، جن کو کھردرے اور نوکیلے پتھروں پر ننگے جسم سے گھسیٹا کرتے تھے، جن کے سینے پر بڑے بڑے وزنی پتھر رکھ کر کہا کرتے تھے کہ کہو میں لات اور عزیٰ کی پرستش کروں گا مگر وہ یہی کہتے تھے کہ اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ۔ حضرت عمرؓ نے جب بلالؓ کو دیکھا تو ان رؤساء سے فرمایا: ذرا پیچھے ہٹ جاؤ اور بلالؓ کو بیٹھنے کی جگہ دو۔ ابھی وہ بیٹھے ہی تھے کہ ایک اَور غلام صحابی آ گئے۔ حضرت عمرؓ نے پھر ان رؤساء سے فرمایا: ذرا پیچھے ہٹ جاؤ اور ان کو بیٹھنے دو۔ تھوڑی دیر گزری تھی توایک اَور غلام صحابی آ گئے۔ حضرت عمرؓ نے حسب معمول ان رؤساء سے پھر فرمایا کہ ذرا پیچھے ہٹ جاؤ اور ان کو بیٹھنے کی جگہ دو۔ اتفاق کی بات ہے چونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ذلیل کرنا تھا اس لیے یکے بعد دیگرے آٹھ دس غلام آ گئے اور ہر دفعہ حضرت عمرؓ ان رؤساء سے یہی کہتے چلے گئے کہ پیچھے ہٹ جاؤ اور ان کو بیٹھنے کی جگہ دو۔ ان دنوں بڑے بڑے ہال نہیں بنائے جاتے تھے بلکہ معمولی کوٹھڑیاں ہوتی تھیں جن میں زیادہ آدمی نہیں بیٹھ سکتے تھے۔ جب تمام غلام صحابہؓ کمرے میں بھر گئے تو مجبوراً ان رؤساء کو جوتیوں والی جگہ میں بیٹھنا پڑا۔ یہ ذلت ان کے لیے ناقابل برداشت ہو گئی۔ وہ اسی وقت اٹھے اور باہر آ کر ایک دوسرے سے کہنے لگے۔ دیکھا! آج ہمیں کیسا ذلیل کیا گیا ہے۔ یہ غلام جو ہماری خدمتیں کیا کرتے تھے ان کو تو اوپر بٹھایا گیا ہے مگر ہمیں پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا گیا ہے یہاں تک کہ ہٹتے ہٹتے ہم جوتیوں والی جگہ پر جا پہنچے اور سب لوگوں کی نگاہ میں ذلیل اور رسوا ہوئے۔ ایک شخص جو ان میں سے زیادہ سمجھدار تھاجب اس نے یہ باتیں سنیں تو کہا یہ ٹھیک ہے کہ ہماری رسوائی ہوئی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ آخر ایسا کس کی کرتوتوں سے ہوا۔ ہمارے باپ بھائی جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں کو مارا پیٹا کرتے تھے اس وقت یہ غلام آپؐ پر اپنی جانیں فدا کیا کرتے تھے۔ آج چونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت ہے اس لیے تم خود ہی فیصلہ کر لو کہ ان کو ماننے والے کن لوگوں کو عزت دیں گے۔ آیا تم کو جو مارا کرتے تھے یا ان غلاموں کو جو اپنی جانیں اسلام کے لیے قربان کیا کرتے تھے۔ اگر انہی کو عزت ملنی چاہیے تو پھر تمہیں آج کے سلوک پر شکوہ کیوں پیدا ہوا؟ تمہارے اپنے باپ دادا کے اعمال کا یہ نتیجہ ہے کہ تمہارے ساتھ وہ سلوک نہیں ہو رہا جو غلاموں کے ساتھ ہو رہا ہے۔ یہ بات ان لوگوں کی سمجھ میں آ گئی۔ جب ایک عقلمند شخص نے یہ بات کہی تو کہنے لگے ہم حقیقت کو سمجھ گئے مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس رسوائی کا کوئی علاج بھی ہے یا نہیں۔ بیشک ہمارے باپ دادا سے بڑا قصور ہوا ہے مگر آخر اس قصور کا کوئی علاج بھی ہونا چاہیے جس سے یہ ذلت کا داغ ہماری پیشانی سے دھل سکے۔ اس پر سب نے فیصلہ کیا کہ ہماری سمجھ میں تو کوئی بات نہیں آتی۔ چلو حضرت عمرؓ سے ہی پوچھیں کہ اس رسوائی کا کیا علاج ہے۔ جب وہ دوبارہ حضرت عمرؓ کے پاس گئے۔ اس وقت تک مجلس برخاست ہو چکی تھی اور صحابہ سب جا چکے تھے۔ انہوں نے حضرت عمرؓ سے کہا کہ آج ہمیں اس مجلس میں آ کر جو دکھ پہنچا ہے اس کے متعلق ہم آپؓ سے مشورہ کرنے آئے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے کہا دیکھو برا نہ منانا۔ یہ لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں ہمیشہ آگے بیٹھا کرتے تھے۔ اس لیے میں بھی مجبور تھا کہ انہیں آگے بٹھاتا۔ بیشک تمہیں میرے اس فعل سے تکلیف ہوئی ہو گی مگر میں مجبور تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہم آپ کی اس مجبوری کو سمجھتے ہیں۔ ہم صرف یہ دریافت کرنا چاہتے ہیں کہ کیا اس ذلت کا کوئی علاج بھی ہے اور کیا کوئی پانی ایسا ہے جس سے یہ داغ دھویا جا سکے۔ حضرت عمرؓ جو اُن نوجوانوں کے باپ دادا کی شان و شوکت اور ان کے رعب اور دبدبے کو دیکھ چکے تھے جب انہوں نے ان نوجوانوں کی یہ بات سنی تو آپؓ کی آنکھوں میں آنسو ڈبڈبا آئے کہ یہ لوگ اپنے گناہوں کی وجہ سے کہاں سے کہاں آ گرے ہیں اور آپؓ پر رِقّت اس قدر غالب آئی کہ آپؓ ان کی بات کا جواب تک نہ دے سکے۔ صرف ہاتھ اٹھا کر شام کی طرف جہاں ان دنوں قیصر کی فوجوں سے لڑائی ہو رہی تھی اشارہ کر دیا۔ مطلب یہ تھا کہ اب ذلّت کا یہ داغ اسی طرح دھل سکتا ہے کہ اس لڑائی میں شامل ہو کر اپنی جان دے دو۔ چنانچہ وہ اسی وقت باہر نکلے اپنے اونٹوں پر سوار ہوئے اور شام کی طرف روانہ ہو گئے اور تاریخ بتاتی ہے کہ ان میں سے ایک شخص بھی زندہ واپس نہیں آیا۔ اس طرح انہوں نے اپنے خون کے ساتھ اس ذلت کے داغ کو مٹایا جو ان کی پیشانی پر اپنے باپ دادا کے افعال کی وجہ سے لگ گیا تھا۔ (ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 09 صفحہ 289-290)
پس ایک تو یہ ہے کہ قربانیاں دینی پڑتی ہیں تبھی مقام ملتا ہے اور اسلام کی یہ خوبصورت تعلیم ہے کہ جو قربانیاں کرنے والے ہیں، جو شروع سے ہی وفا دکھانے والے ہیں ان کا مقام بہرحال اونچا ہے چاہے وہ حبشی غلام ہو یا کسی نسل کا غلام ہو۔ اور یہ وہ مقام ہے جو اسلام نے حق پر رکھا ہے، جو اپنے میرٹ پر رکھا ہے اور ہرایک کو ملتا ہے۔ یہ نہیں کہ کون امیر ہے کون غریب ہے۔ قربانیاں کرنے والے ہوں گے، وفا کرنے والے ہوں گے، اپنی جانیں نثار کرنے والے ہوں گے، ہر چیز قربان کرنے والے ہوں گے تو ان کو مقام ملے گا۔
ان شاء اللہ تعالیٰ حضرت بلالؓ کا یہ ذکر ابھی جاری ہے۔ آئندہ بھی بیان ہو گا۔
(الفضل انٹر نیشنل 9؍اکتوبر 2020ء صفحہ 5-9)
مکے کے لوگ بلالؓ کے پیروں میں رسّی ڈال کر اس کو گلیوں میں کھینچا کرتے تھے، مکہ کی گلیاں، مکہ کے میدان بلال کے لیے امن کی جگہ نہیں تھے بلکہ عذاب اور تذلیل اور تضحیک کی جگہ تھے۔
جب مکہ فتح ہوا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلالؓ کے ہاتھ میں ایک جھنڈا دے دیا اور اعلان کر دیا کہ اے مکہ کے سردارو! اگر اب تم اپنی جانیں بچانا چاہتے ہو تو بلالؓ کے جھنڈے کے نیچے آ کر کھڑے ہو جاؤ گویا وہ بلالؓ جس کے سینے پر مکہ کے بڑے بڑے سردار ناچا کرتے تھے اس کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ والوں کو بتایا کہ آج تمہاری جانیں اگر بچ سکتی ہیں تو اس کی یہی صورت ہے کہ تم بلالؓ کی غلامی میں آ جاؤ۔
قربانیاں دینی پڑتی ہیں تبھی مقام ملتا ہے اور اسلام کی یہ خوبصورت تعلیم ہے کہ جو قربانیاں کرنے والے ہیں، جو شروع سے ہی وفا دکھانے والے ہیں ان کا مقام بہرحال اونچا ہے چاہے وہ حبشی غلام ہو یا کسی نسل کا غلام ہو۔
یہ وہ بدلہ تھا جو یوسف کے بدلہ سے بھی زیادہ شاندار تھا۔ اس لیے کہ یوسف نے اپنے باپ کی خاطر اپنے بھائیوں کو معاف کیا تھا۔ جس کی خاطر کیا وہ اس کا باپ تھا اور جن کو کیا وہ اس کے بھائی تھے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچوں اور بھائیوں کو ایک غلام کی جوتیوں کے طفیل معاف کیا۔ بھلا یوسف کا بدلہ اس کے مقابلے میں کیا حیثیت رکھتا ہے۔
آپؐ نے فرمایا کہ جو نماز بھول جائے تو اسے چاہیے کہ جب یاد آئے اسے پڑھ لے کیونکہ اللہ عزّوجلّ نے فرمایا ہے کہ نماز کو میرے ذکر کے لیے قائم کرو۔
ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم رؤیا میں ان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا بلالؓ ! تم ہم کو بھول ہی گئے۔ کبھی ہماری قبر کی زیارت کرنے کے لیے نہیں آئے۔ وہ اسی وقت اٹھے اور سفر کا سامان تیار کر کے مدینہ تشریف لے گئے۔
مؤذنِ رسولﷺ، سَابِقُ الْحَبَشَۃ، اہلِ جنت میں شامل عظیم المرتبت بدری صحابی حضرت بلال بن رباح رضی اللہ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ
فرمودہ 18؍ستمبر2020ء بمطابق 18؍تبوک1399 ہجری شمسی، بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔