بدری اصحاب نبویؐ کی سِیرِ مبارکہ: حضرت معوِّذ بن حارثؓ، حضرت اُبی بن کعبؓ
خطبہ جمعہ 16؍ اکتوبر 2020ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
آج جن صحابی کا مَیں پہلے ذکر کروں گا ان کا نام ہے حضرت مُعَوِّذ بن حارِثؓ۔ حضرت معوذؓ کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج سے تھا۔ حضرت معوذؓ کے والد کا نام حارث بن رِفاعہ تھا۔ ان کی والدہ کا نام عَفْراء بنت عبید تھا۔ حضرت معاذؓ اور حضرت عوفؓ ان کے بھائی تھے۔ یہ تینوں اپنے والد کے ساتھ ساتھ اپنی والدہ کی طرف بھی منسوب تھے اور ان تینوں کو بنو عفراء بھی کہا جاتا تھا۔ (اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ جزء 5 صفحہ 231 ’’مُعَوِّذؓ بِنْ عَفْرَاء‘‘ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان2003ء) (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء 3 صفحہ 374 ’’مُعَوِّذؓ بِنْ عَفْرَاء‘‘ دار الکتب العلمیۃ بیروت لبنان 1990ء)
صرف ابنِ اسحاق نے یہ بیان کیا ہے کہ حضرت معوذؓ ستر انصار کے ساتھ بیعتِ عقبہ ثانیہ میں شامل تھے۔ حضرت معوذؓ نے اُمِّ یزید بنتِ قَیس سے شادی کی۔ اس شادی سے ان کے ہاں دو بیٹیاں پیدا ہوئیں جن کے نام حضرت رُبَیّعْ بنتِ مُعَوِّذؓ اور حضرت عُمَیْرَہ بنتِ مُعَوِّذؓ تھا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء 3 صفحہ 374 ’’مُعَوِّذؓ بِنْ عَفْرَاء‘‘ دار الکتب العلمیۃ بیروت لبنان 1990ء)
حضرت معوذؓ کو اپنے دونوں بھائیوں حضرت معاذؓ اور حضرت عوفؓ کے ساتھ غزوۂ بدر میں شامل ہونے کی توفیق ملی۔ (اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ جزء 5 صفحہ 231 ’’مُعَوِّذؓ بِنْ عَفْرَاء‘‘ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان2003ء)
غزوہ ٔبدر میں حضرت معاذؓ، حضرت عوفؓ اور حضرت معوذؓ جو بنو عفراء کہلاتے تھے وہ اور ان کے آزاد کردہ غلام ابو حَمْرَاء کے پاس ایک ہی اونٹ تھا جس پر وہ باری باری سوار ہوتے تھے۔ (کتاب المغازی للواقدی جزء 1صفحہ38بدرالقتال، مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ 2013ء)
یہ روایت حضرت معاذؓ کے ضمن میں پہلے بیان کرچکا ہوں لیکن یہاں حضرت معوذؓ کے ضمن میں بھی اس کا آنا ضروری ہے اس لیے بیان کرتا ہوں۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگِ بدر کے دن فرمایا کہ کون دیکھے گا کہ ابو جہل کا کیا حال ہوا ہے؟ حضرت ابنِ مسعودؓ گئے اور جا کر دیکھا کہ اس کو عفراء کے دو بیٹوں نے تلواروں سے اتنا مارا ہے کہ وہ مرنے کے قریب ہو گیا ہے۔ حضرت ابنِ مسعودؓ نے پوچھا کیا تم ابوجہل ہو؟ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے ابوجہل کی داڑھی پکڑی۔ ابوجہل کہنے لگا کیا تم نے اس سے بڑے کسی آدمی کو قتل کیا ہے یا یہ کہا کہ اس کو اس کی قوم نے قتل کیا ہو؟ اس جیسے بڑے آدمی کو کبھی ان کی قوم نے قتل کیا ہو؟ (صحیح البخاری کتاب المغازی باب قتل ابی جہل حدیث نمبر3962)
یہ بخاری کی روایت ہے۔ اس کی شرح میں حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ بعض روایات میں ہے کہ عفرا ءکے دو بیٹوں مُعوِذؓ اور معاذؓ نے ابوجہل کو موت کے قریب پہنچا دیا تھا۔ بعد میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے اس کا سر تن سے جدا کیا تھا۔ امام ابنِ حجر نے اس احتمال کا اظہار کیا ہے کہ حضرت معاذ بن عمروؓ اور حضرت معاذ بن عفراءؓ کے بعد حضرت معوذ بن عفراءؓ نے بھی اس پر وار کیا ہو گا۔ (ماخوذ از صحیح بخاری کتاب فرض الخمس باب من لم یخمس الاسلاب…… حدیث 3141جلد 5 صفحہ 491حاشیہ، اردو ترجمہ شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابو جہل کے قتل کے واقعے کو بیان کرتے ہوئے بیان فرمایا کہ انسان بڑی خوشیاں کرتا ہے اور اپنے لیے ایک چیز کو مفید خیال کرتا ہے لیکن وہی اس کے لیے تباہی اور بربادی کا باعث ہو جاتی ہے۔ بدر کے موقعے پر کفارِ مکہ جب آئے تو انہوں نے سمجھا کہ بس ہم نے مسلمانوں کو مار لیا اور ابوجہل نے کہا ہم عید منائیں گے اور خوب شرابیں اڑائیں گے اور سمجھا کہ بس اب مسلمانوں کو مار کر ہی پیچھے ہٹیں گے لیکن اسی ابوجہل کو مدینے کے دو لڑکوں نے قتل کر دیا۔ کفارِ مکہ مدینہ والوں کو بڑا ذلیل خیال کرتے تھے اور اسے یعنی ابوجہل کو ایسی حسرت دیکھنی نصیب ہوئی کہ اس کی آخری خواہش بھی پوری نہ ہو سکی۔ عرب میں رواج تھا کہ جو سردار ہوتا وہ اگر لڑائی میں مارا جاتا تو اس کی گردن لمبی کر کے کاٹتے تا کہ پہچانا جاوے کہ یہ کوئی سردار تھا۔ عبداللہ بن مسعودؓ نے اسے دیکھا جب یہ بے حس وحرکت اور زخمی پڑا ہوا تھا اور پوچھا کہ تمہاری کیا حالت ہے؟ اس نے کہا مجھے اَور تو کوئی افسوس نہیں، صرف یہ ہے کہ مجھے مدینہ کے دو اَرائیں بچوں نے مار دیا یعنی ایسے بچوں نے جو سبزیاں اگانے والوں کی، کھیتی باڑی کرنے والوں کی اولاد ہیں اور مکہ والوں کی نظر میں یہ کام کم درجے کا سمجھا جاتا تھا اور خیال کیا جاتا تھا کہ مدینہ کے لوگوں کو جنگ و جدل اور جنگ و قتال کا کیا پتہ؟ لیکن مارا بھی اور اس کے اس تکبر کو توڑا بھی تو کس نے؟ انہی لوگوں نے۔ نہ صرف ان لوگوں نے بلکہ ان کے بچوں نے یا لڑکوں نے جو اتنے تجربہ کار نہیں تھے۔ عبداللہ نے دریافت کیا کہ تمہاری کوئی خواہش ہے؟ اس نے کہا میری یہ خواہش ہے کہ میری گردن ذرا لمبی کر کے کاٹ دو۔ انہوں نے کہا میں تیری یہ خواہش بھی پوری نہیں ہونے دوں گا اور اس کی گردن کو ٹھوڑی کے پاس سے سختی سے کاٹ دیا اور وہ جو عید منانی چاہتا تھا وہی اس کے لیے ماتم ہو گیا اور وہ شراب جو اس نے پی تھی اسے ہضم ہونی بھی نصیب نہ ہوئی۔ (ماخوذ از خطبات محمود(خطبات عید الفطر) جلد 1 صفحہ11)
غزوۂ بدر کے موقعے پر حضرت معوذؓ لڑتے لڑتے شہید ہو گئے۔ آپؓ کو ابو مُسَافِع نے شہید کیا تھا۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جزء 4صفحہ 1442 ’’مُعَوِّذؓ بِنْ عَفْرَاء‘‘ دار الجیل بیروت 1992ء)
اگلا ذکر جن صحابی کا ہے ان کا نام ہے حضرت اُبَی بن کعبؓ۔ حضرت اُبَیؓ انصار کے قبیلہ خزرج کی شاخ بنو معاویہ سے تھے۔ حضرت اُبَیؓ کے والد کا نام کَعْب بن قیس اور والدہ کا نام صُھَیْلَہ بنتِ اَسْوَد تھا۔ حضرت ابی بن کعبؓ کی دو کنیتیں تھیں ایک ابو مُنذِر جو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھی اور دوسری ابوطُفیل جو حضرت عمرؓ نے ان کے بیٹے طفیل کی وجہ سے رکھی تھی۔ (اسد الغابہ، جلد 1صفحہ 169، 168 مکتبہ دارالکتب العلمیۃ بیروت2016)
حضرت اُبیؓ متوسط قامت تھے یعنی درمیانے قد کے تھے۔ حضرت اُبیؓ کے سر اور داڑھی کا رنگ سفید تھا۔ خضاب کے ذریعے سے اپنا بڑھاپا تبدیل نہیں کرتے تھے۔ (طبقات الکبری لابن سعد جلد 3 صفحہ378 مکتبہ دارالکتب العلمیۃ بیروت2017) یعنی بالوں کو یا داڑھی کو رنگ نہیں لگاتے تھے۔ حضرت اُبَی بن کعبؓ ستر افراد کے ہمراہ بیعتِ عقبہ ثانیہ میں شامل تھے۔ حضرت اُبَیؓ اسلام سے پہلے بھی لکھنا پڑھنا جانتے تھے اور اسلام کے بعد حضرت اُبَیؓ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی وحی لکھنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اُبیؓ اور حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی تھی جبکہ دوسری روایت کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اُبیؓ اور حضرت سعید بن زیدؓ کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی تھی۔ (طبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ378 مکتبہ دارالکتب العلمیۃ بیروت2017)
حضرت ابی بن کعبؓ کے متعلق آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ وہ اُبیؓ کو قرآن پڑھ کر سنائیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امّت کے سب سے بڑے قاری اُبیؓ ہیں۔ (طبقات الکبری لابن سعد جلد 3 صفحہ378 مکتبہ دارالکتب العلمیۃ بیروت2017)
اور اسی وجہ سے ان کے بارے میں یہی آتا ہے کہ ان کو قرآن کا بہت علم تھا اور آگے اَور بھی اس بارے میں روایتیں آئیں گی۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان چار آدمیوں میں سے تھے جن کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ یہ قُرَّائےامّت ہیں یعنی اگر کسی نے قرآن سیکھنا ہو تو ان سے سیکھے۔ (ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 10 صفحہ 84)
پھر حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ ’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جن کاتبوں کو قرآن کریم لکھواتے تھے ان میں سے مندرجہ ذیل پندرہ نام تاریخ سے ثابت ہیں۔ زید بن ثابتؓ، اُبَی بن کعبؓ، عبداللہ بن سعد بن ابی سَرْحؓ، زبیر بن العوامؓ، خالد بن سعید بن العاصؓ، ابان بن سعید العاصؓ، حنظلہ بن الرَّبِیْعَ الْاَسَدِیؓ، مُعَیْقِیْب بن اَبِی فاطمہؓ، عبداللہ بن اَرْقَم الزُّہْریؓ، شُرَحْبِیْل بن حَسَنَہؓ، عبداللہ بن رَوَاحہؓ، حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن شریف نازل ہوتا تو آپؐ ان لوگوں میں سے کسی کو بلا کر وحی لکھوا دیتے تھے۔‘‘ (دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد 20صفحہ 425-426)
حضرت مصلح موعودؓ نے ایک جگہ فرمایا کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن پڑھانے والے استادوں کی ایک جماعت مقرر فرمائی تھی جو سارا قرآن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حفظ کر کے آگے لوگوں کو پڑھاتے تھے۔ یہ چار چوٹی کے استاد تھے جن کا کام یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن شریف پڑھیں اور لوگوں کو قرآن پڑھائیں۔ پھر ان کے ماتحت اَور بہت سے صحابہؓ ایسے تھے جو لوگوں کو قرآن شریف پڑھاتے تھے۔ ان چار بڑے استادوں کے نام یہ ہیں۔ 1۔ عبداللہ بن مسعودؓ، 2۔ سالم مولیٰ ابی حذیفہؓ، 3۔ معاذ بن جبلؓ، 4۔ ابی بن کعبؓ۔ ان میں سے پہلے دو مہاجر ہیں اور دوسرے دو انصاری۔ کاموں کے لحاظ سے عبداللہ بن مسعودؓ ایک مزدور تھے، سالمؓ ایک آزاد شدہ غلام تھے، معاذ بن جبلؓ اور ابی بن کعبؓ مدینہ کے رؤسا میں سے تھے۔ گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام گروہوں کو مدّنظر رکھتے ہوئے ہر گروہ میں سے قاری مقرر کر دیے تھے۔ حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے خُذُوا الْقُرْاٰنَ مِنْ اَرْبَعَۃٍ (مِنْ) عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ وَ سَالِمٍ وَ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ وَ اُبَیِّ بِنْ کَعْبٍ۔ جن لوگوں نے قرآن پڑھنا ہو وہ ان چار سے قرآن پڑھیں۔ عبداللہ بن مسعودؓ، سالمؓ، معاذ بن جبلؓ اور ابی بن کعبؓ۔ یہ چار تو وہ ہیں جنہوں نے سارا قرآن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھا یا آپؐ کو سنا کر اس کی تصحیح کرا لی لیکن ان کے علاوہ بھی بہت سے صحابہؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے براہِ راست بھی کچھ نہ کچھ قرآن سیکھتے رہتے تھے۔‘‘ (دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد20 صفحہ 427-428)
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اُبَیؓ کو فرمایا اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ مَیں تمہیں سورۃ لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ اَھْلِ الْکِتَابِ۔ پڑھ کر سناؤں۔ حضرت اُبَیؓ نے پوچھا کیا میرا نام لیا تھا؟آپؐ نے فرمایا ہاں۔ حضرت اُبَیؓ یہ سن کر رو پڑے۔ یہ بخاری کی روایت ہے۔ (صحیح بخاری کتاب مناقب الانصارباب مناقب ابی بن کعب حدیث نمبر3809)
جبکہ ایک دوسری روایت میں ذکر ہے کہ حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابی بن کعبؓ سے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہےکہ مَیں تمہیں قرآن پڑھ کر سناؤں۔ حضرت اُبَیؓ نے پوچھا کیا اللہ نے آپؐ سے میرا نام لیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا ہاں۔ حضرت اُبَیؓ نے عرض کیا: دونوں جہانوں کے پالنے والے کے ہاں میرا ذکر ہوا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں۔ اس پر حضرت اُبَیؓ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ (صحیح بخاری کتاب التفسیر باب سورۃ لم یکن، حدیث نمبر 4961)
اس واقعےکی تفصیل حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اپنے الفاظ میں اس طرح بیان فرمائی ہے۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ ’’اَبُوحَیَّہْ بدریسے روایت ہے کہ جب سورۃ لَمْ یَکُنِ سب کی سب نازل ہوئی ہے (یعنی یہ اکٹھی نازل ہوئی ہے) تو جبریلؑ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ یہ سورۃ ابی بن کعبؓ کو یاد کرا دیں۔ اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے حضرت ابی بن کعبؓ سے کہا کہ جبریلؑ نے مجھے حکم دیا ہے یعنی خدا تعالیٰ کا یہ حکم مجھے پہنچایا ہے کہ مَیں یہ سورۃ تم کو یاد کرا دوں۔ ابی بن کعبؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ ! میرا بھی خدا تعالیٰ کے حضور میں ذکر آیا تھا؟ آپؐ نے فرمایا ہاں۔ اس پر ابی بن کعبؓ خوشی کے مارے رو پڑے۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد 8 صفحہ 342)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت عمر فاروقؓ نے اس جملے کی یاد کو کئی مرتبہ تازہ کیا۔ ایک مرتبہ مسجدنبویؐ کے منبر پر کہا کہ سب سے بڑے قاری اُبَیؓ ہیں۔ شام کے مشہور سفر میں مقام جَابِیَہ، یہ جابیہ دمشق کے علاقے کی ایک بستی کا نام ہے، وہاں اس کے خطبہ میں فرمایا کہ مَنْ اَرَادَ الْقُرْآنَ فَلْیَاْتِ اُبَیًّا۔ یعنی جس کو قرآن کا ذوق ہو وہ اُبَیؓ کے پاس آئے۔ (سیر الصحابہ جلد3صفحہ149مکتبہ دارالاشاعت اردو بازار کراچی) (معجم البلدان جلد2صفحہ 91)
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ چار شخصوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قرآن سارے کا سارا حفظ کیا تھا۔ یہ سب انصاری تھے۔ حضرت ابی بن کعبؓ، حضرت معاذ بن جبلؓ، حضرت ابوزیدؓ اور حضرت زید بن ثابتؓ۔ یہ بخاری کی حدیث ہے۔ (صحیح بخاری کتاب مناقب الانصارباب مناقب زید بن ثابت حدیث نمبر3810مترجم جلد7صفحہ290 شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ)
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’انصار میں سے جو مشہور حفاظ تھے ان کے نام یہ ہیں۔ عبادہ بن صامتؓ، معاذؓ، مُجَمِّعْ بن حَارِثَہؓ، فَضَالَہ بن عُبَیدؓ، مَسْلَمَہ بن مُخَلَّدؓ، ابو درداءؓ، ابوزیدؓ، زید بن ثابتؓ، اُبَیبن کعبؓ، سعد بن عُبادہؓ اور ام وَرَقہؓ۔‘‘ (دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد 20صفحہ 430)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امّت پر سب سے زیادہ مہربان حضرت ابوبکرؓ ہیں اور خدا کے دین کی بابت سب سے زیادہ سخت حضرت عمرؓ ہیں، یعنی ان میں اصولوں کی بڑی سختی ہے اور حیا میں سب سے زیادہ کامل حضرت عثمانؓ ہیں۔ حیا کے اعلیٰ معیار پر پہنچے ہوئے حضرت عثمانؓ ہیں اور حلال و حرام کا سب سے زیادہ علم رکھنے والے حضرت معاذ بن جبلؓ ہیں اور فرائض کے سب سے زیادہ جاننے والے حضرت زید بن ثابتؓ ہیں اور قراءت کے سب سے زیادہ جاننے والے حضرت ابی بن کعبؓ ہیں اور ہر امّت کا ایک امین ہوتا ہے اور اس امّت کے امین حضرت ابوعبیدہ بن جَرَّاحؓ ہیں۔ (جامع ترمذی ابواب المناقب باب مناقب معاذ بن جبل…..حدیث 3790) جن کا ذکر پہلے ہو چکا ہے حضرت ابو عبیدہ کا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ تشریف آوری پر سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی لکھنے والے حضرت ابی بن کعبؓ ہی تھے۔ اس زمانے میں کتاب یا قرآن کے اخیر میں کاتب کا نام لکھنے کا دستور نہیں تھا۔ سب سے پہلے حضرت اُبیؓ نے اس کی ابتدا کی۔ بعد میں اَور بزرگوں نے بھی اس کی تقلید کی۔ (اسد الغابہ جلد 1صفحہ 170 مکتبہ دارالکتب العلمیۃ بیروت2016) (ماخو ذ از سیر الصحابہ جلد 3 صفحہ158مکتبہ دارالاشاعت اردو بازار کراچی)
یعنی لکھنے والے کا نام نہیں لکھا جاتا تھا صرف کتابت کی جاتی تھی۔ حضرت اُبَیؓ نے اس کام کو شروع کیا کہ لکھنے کے بعد آخر میں اپنا نام لکھ دیا کہ یہ مَیں نے لکھا ہے اس کے بعد پھر یہ طریق باقاعدہ رائج ہو گیا۔
حضرت اُبیؓ نے قرآن کا ایک ایک حرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دہنِ مبارک سے سن کر یاد کر لیا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے شوق کو دیکھ کر ان کی تعلیم کی طرف خصوصی توجہ فرماتے تھے۔ نبوت کا رعب بڑے بڑے صحابہ کو سوال کرنے سے مانع ہوتا تھا، روکتا تھا لیکن حضرت اُبَیؓ بےجھجک جو چاہتے تھے سوال کرتے تھے۔ یعنی یہ نہیں کہ بے تکے سوال کرتے تھے۔ ایک جو نبوت کا رعب ہے اس کے اور مقام کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے جس طرح سوال کرنا چاہیے اس طرح سوال کرتے تھے لیکن جھجک نہیں تھی۔ ان کے شوق کو دیکھ کر بعض اوقات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود ابتدا فرماتے تھے اور بغیر پوچھے بھی بتا دیتے تھے۔ (ماخوذ از سیر الصحابہ جلد3صفحہ148مکتبہ دارالاشاعت اردو بازار کراچی)
ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز فجر پڑھائی۔ اس میں ایک آیت پڑھنا بھول گئے۔ حضرت اُبَیؓ نمازمیں شروع سے شریک نہیں ہوئے تھے بلکہ درمیان میں شریک ہوئے تھے۔ نماز ختم کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے پوچھا کہ کسی نے میری قراءت پر خیال کیا تھا؟ تمام لوگ خاموش رہے۔ پھر پوچھا ابی بن کعب ہیں؟ حضرت اُبَیؓ اس وقت تک نماز ختم کر چکے تھے۔ غالباً دوسری رکعت پڑھی ہو گی جو یہ غلطی ہوئی ہو گی یا سہو ہوا ہو گا یا آیت کو بھولے ہوں گے جس کو حضرت ابی بن کعبؓ نے بعد میں شامل ہونے کے بعد بہرحال سن لیا تھا۔ ابی نماز ختم کر چکے تھے مگر بولے کہ آپؐ نے فلاں آیت نہیں پڑھی۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہؐ ! ٹھیک ہے آپؓ نے تلاوت میں فلاں آیت نہیں پڑھی۔ کیا یہ منسوخ ہو گئی ہے یا آپؐ پڑھنا بھول گئے تھے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں، مَیں پڑھنا بھول گیا تھا۔ اس کے بعد فرمایا کہ مَیں جانتا تھا۔ حضرت اُبَیؓؓ کو مخاطب کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مَیں جانتا تھا کہ تمہارے سِوا اَور کسی کو ادھر خیال نہیں ہوا ہو گا۔ (ماخوذ از سیر الصحابہ جلد3صفحہ، 148، مکتبہ دارالاشاعت، اردو بازار کراچی)
حضرت ابی بن کعبؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں مسجد میں تھا۔ ایک آدمی اندر آیا اور نماز پڑھنے لگا۔ پھر اس نے ایسی قراءت کی جو مجھے اَوپری لگی۔ پھر ایک اَور آدمی اندر آیا اس نے اپنے ساتھی کی قراءت سے مختلف قراءت کی۔ پھر جب ہم نماز پڑھ چکے تو ہم سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ مَیں نے عرض کیا کہ اس شخص نے ایسی قراءت میں قرآن پڑھا ہے جو مجھے اَوپری لگی۔ پھر دوسرا شخص آیا اس نے اپنے ساتھی کی قراءت سے مختلف قراءت کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو ارشاد فرمایا کہ اچھا۔ کہا اب مجھے پڑھ کے سناؤ۔ ان دونوں نے قراءت کی۔ قرآن کریم پڑھ کے سنایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پڑھنے کو ٹھیک قرار دیا۔ دونوں کو کہا کہ تم دونوں ٹھیک ہو۔ اپنی رائے کی تردید پر حضرت اُبَیؓ کہتے ہیں کہ مَیں نے جو رائے قائم کی تھی کہ اس نے غلط پڑھا ہے اس کی جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تردید کر دی اور دونوں کو صحیح قرار دے دیا تو مَیں انتہائی شرمندہ ہوا جو جاہلیت میں بھی نہ ہوا تھا جب مجھے کچھ بھی نہیں پتہ تھا۔ ایسی شرمندگی اس وقت مجھے ہوئی کہ کبھی زندگی میں نہیں ہوئی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حالت کو دیکھا جو مجھ پر طاری ہوئی تھی، شرمندگی کی کیفیت چہرے سے ظاہر ہو گئی ہو گی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سینے پر ہاتھ مارا۔ مَیں پسینے میں شرابور تھا گویا کہ مَیں ڈر کی حالت میں اللہ عز و جل کو دیکھ رہا تھا تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ اے اُبَیؓ ! مجھے پیغام بھجوایا گیا کہ مَیں قرآن کو ایک قراءت میں پڑھوں۔ مَیں نے اس کا جواب دیا کہ میری امت کے لیے آسانی پیدا کر دے۔ چنانچہ اس نے مجھے دوسری مرتبہ یہ جواب دیا کہ مَیں اسے یعنی قرآن کو دو قراءتوں میں پڑھوں۔ پھر مَیں نے عرض کیا کہ میری امت کے لیے آسانی فرما دے۔ پھر اس نے تیسری مرتبہ مجھے جواب دیا کہ اسے سات قراءتوں پر پڑھ لو۔ پس ہر سوال کے بدلے جس کا مَیں نے تجھے جواب دیا ہے ایک دعا کا تجھے حق دیا گیا ہے یعنی اس فرشتے نے کہا۔ جبرئیل نے کہا اللہ تعالیٰ کا یہ پیغام ہے کہ ہر قراءت کے بدلے دعا کا حق دیا گیا ہے۔ جو تُو مجھ سے مانگ سکتا ہے تب مَیں نے عرض کیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے ہیں کہ تب مَیں نے عرض کیا کہ اے اللہ ! میری امت کو بخش دے۔ اے اللہ! میری امّت کو بخش دے۔ اور تیسری دعا مَیں نے اس دن کے لیے چھوڑ رکھی ہے جس دن ساری مخلوق میری طرف رغبت کرے گی یہاں تک کہ ابراہیمؑ بھی۔ (صحیح مسلم کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا باب بیان ان القرآن ….، مترجم نور فاؤنڈیشن جلد 3صفحہ 308-309)
حضرت اُبَی بن کعبؓ کو فنِ قراءت میں جو کمال حاصل تھا اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان سے قرآن کا دَور کرواتے تھے۔ چنانچہ جس سال آپؐ نے وفات پائی حضرت اُبَیؓؓ کو قرآن سنایا اور فرمایا مجھ سے جبرئیل نے کہا تھا کہ اُبیؓ کو قرآن سنا دیجیے۔ (ماخوذ از سیر الصحابہ جلد3صفحہ149مکتبہ دارالاشاعت اردو بازار کراچی)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اُبَی کو قرآن سنایا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانۂ مبارک میں حضرت اُبَیؓ ایک ایرانی کو قرآن پڑھاتے تھے۔ جب اس کو یہ آیت پڑھائی إِنَّ شَجَرَۃَ الزَّقُّوْمِ طَعَامُ الْأَثِیْمِ تو اس سے ’اَثِیم‘ ادا نہ ہوتا تھا۔ ایرانی کا تلفظ تھا۔ وہث کے لفظ کو صحیح طرح ادا نہیں کر سکتا تھا۔ ہر دفعہ جب یہ اثیم کہتے تو وہ یتیم کہہ دیتا تھا۔ حضرت اُبَیؓؓ نہایت پریشان تھے کہ کس طرح اس کو سکھاؤں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وہاں سے گزر ہوا اور ان کی پریشانی دیکھ کر ٹھہر گئے اور جب یہ بات سنی تو ایرانی زبان میں فرمایا اسے یہ کہو کہ طَعَامُ الظَّاثِمْ یہ ظ سے۔ اس نے جب اس طرح اس کو کہا تو اس نے صاف طور پر ادا کر دیا اور اثیم کہہ دیا۔ انہوں نے ظَاثِمْ کہا تھا تو اس نے اثیم کہہ دیا اور صحیح تلفظ ادا کر دیا۔ اس پر آپؐ نے حضرت اُبیؓ سے فرمایا کہ اس کی زبان درست کرو۔ جس طرح اس کی زبان ہے اس زبان میں اس کو بتاؤ تا کہ وہ صحیح تلفظ سے قرآن کریم پڑھ سکے اور اس سے حرف نکلواؤ، خدا تمہیں اس کا اجر دے گا۔ (ماخوذ از سیر الصحابہ جلد3صفحہ152مکتبہ دارالاشاعت اردو بازار کراچی)
ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جمعے کے دن خطبہ دے رہے تھے اور سورۂ براءت تلاوت فرمائی۔ یہ سورہ حضرت ابو درداءؓ اور ابو ذرؓ کو معلوم نہ تھی۔ اثنائے خطبہ میں حضرت اُبَیؓ سے اشارہ سے پوچھا کہ یہ سورۃ کب نازل ہوئی ہے؟ مَیں نے تو اب تک نہیں سنی تھی۔ حضرت اُبَیؓ نے اشارے سے کہا خاموش رہو۔ نماز کے بعد جب اپنے گھر جانے کے لیے اٹھے تو دونوں بزرگوں نے حضرت اُبَیؓؓ سے کہا کہ تم نے ہمارے سوال کا جواب کیوں نہیں دیا تھا؟ جواب میں اُبَیؓ نے کہا آج تمہاری نماز بیکار ہو گئی ہے اور وہ بھی محض ایک لغو حرکت کی وجہ سے۔ یہ سن کر وہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے اور بیان کیا کہ اُبَیؓ ایسا کہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’سچ کہتے ہیں‘‘۔ یعنی خطبے میں تمہیں بولنا نہیں چاہیے تھا۔ (سیر الصحابہ جلد3صفحہ157مکتبہ دارالاشاعت اردو بازار کراچی)
حضرت اُبَیّبِن کعبؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابو مُنذِر!کیا تمہیں پتہ ہے کہ اللہ کی کتاب میں جو تمہارے پاس ہے سب سے عظیم آیت کون سی ہے؟ حضرت اُبَیؓ کہتے ہیں مَیں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسولؐ بہتر جانتے ہیں۔ آپؐ نے دوبارہ پوچھا اور فرمایا اے ابومنذر! کیا تم جانتے ہو کہ اللہ کی کتاب میں جو تمہارے پاس ہے سب سے عظیم آیت کون سی ہے؟ وہ کہتے ہیں جب دوبارہ پوچھا تو اس پر پھر میں نے عرض کیا کہ اَللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ۔ وہ کہتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سینے پر ہاتھ مارا اور فرمایا بخدا اے ابو منذر! علم تمہیں مبارک ہو۔ (صحیح مسلم کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا باب فضل سورۃ الکھف و آیۃ الکرسی، مترجم نور فاؤنڈیشن جلد 3 صفحہ 300)
آپؐ نے فرمایا ٹھیک ہے۔ اس بات کو، جواب کو پسند کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِمقدس میں حضرت اُبیؓ نے حضرت طفیل بن عمرو دَوْسِی کو قرآن پڑھایا تھا۔ انہوں نے ایک کمان ہدیۃً پیش کی۔ حضرت اُبَیؓ اس کو لگا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ یہ کہاں سے لائے ہو؟ حضرت اُبَیؓ نے کہا کہ ایک شاگرد کا ہدیہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کو واپس کر دو۔ آئندہ ایسے ہدیے سے پرہیز کرنا۔ اسی طرح ایک شاگردنے کپڑا ہدیہ میں پیش کیا اس میں بھی یہی صورت پیش آئی۔ اس لیے بعد میں ان باتوں سے بکلّی اجتناب کر لیا یعنی قرآن پڑھانے کے عوض میں کوئی ہدیہ نہیں لینا۔ ملک شام کے لوگ جب آپؓ سے قرآن مجید پڑھتے اور مدینہ کے کاتبوں سے لکھواتے بھی تھے اور کتابت کا معاوضہ اس طرح ادا ہوتا تھا کہ شامی اپنے ساتھ کاتبوں کو کھانے میں شریک کر لیا کرتے تھے۔ معاوضہ یہ ہوتا تھا کہ اپنے ساتھ کھانا کھلا دیا لیکن حضرت اُبیؓ ایک وقت بھی ان کی دعوت منظور نہ کرتے تھے۔ حضرت عمرؓ نے ایک دن ان سے دریافت کیا کہ ملک شام کا کھانا کیسا ہوتا ہے؟ حضرت اُبَیؓ نے کہا مَیں ان کے ہاں کھانا نہیں کھاتا مَیں تو اپنا ہی کھاتا ہوں۔ (سیر الصحابہ جلد3صفحہ، 152، 151، مکتبہ دارالاشاعت، اردو بازار کراچی)
حضرت اُبَیؓ غزوۂ بدر، احد، خندق اور دیگر تمام غزوات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہے۔ (طبقات الکبری لابن سعد جلد 3 صفحہ378 مکتبہ دارالکتب العلمیۃ بیروت2017)
غزوۂ احد میں ایک تیر آپؓ کی رگ پر لگا، ایسی مین (main) رگ جس کو medium veinکہتے ہیں جو سر، سینے، پشت اور ہاتھ پاؤں وغیرہ تک خون پہنچاتی ہے۔ اس پہ لگا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک طبیب بھیجا، علاج کرنے والے کو بھیجا جس نے رگ کاٹ دی۔ پھر اس رگ کو اپنے ہاتھ سے داغ دیا۔ (سیر الصحابہ جلد3صفحہ142، 141مکتبہ دارالاشاعت اردو بازار کراچی) (اردو لغت جلد 22 صفحہ 29 اردو لغت بورڈ کراچی) (کحلLexicon under word)
غزوۂ احد کا ایک واقعہ جو پہلے بھی بیان ہو چکا ہے، مختصر بیان یہاں بھی کر دیتا ہوں۔ جنگ کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابی بن کعبؓ کو فرمایا کہ جاؤ اور زخمیوں کو دیکھو۔ وہ دیکھتے ہوئے حضرت سعد بن ربیعؓ کے پاس پہنچے جو سخت زخمی تھے اور آخری سانس لے رہے تھے۔ انہوں نے ان سے کہا کہ اپنے متعلقین اور اعزاء کو اگر کوئی پیغام دینا ہو تو مجھے دے دیں۔ حضرت سعدؓ نے مسکراتے ہوئے کہا کہ مَیں منتظر ہی تھا کہ کوئی مسلمان ادھر آئے تو پیغام دوں۔ پھر کہنے لگے کہ میرے ہاتھ میں ہاتھ دو اور وعدہ کرو کہ میرا پیغام ضرور پہنچا دو گے۔ اور پیغام کیا تھا۔ وہ یہ تھا کہ میرے بھائی! مسلمانوں کو میرا سلام پہنچا دینا اور میری قوم اور میرے رشتہ داروں سے کہنا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس خدا تعالیٰ کی ایک بہترین امانت ہیں اور ہم اپنی جانوں سے اس امانت کی حفاظت کرتے رہے ہیں۔ اب ہم جاتے ہیں اور اس امانت کی حفاظت تمہارے سپرد کرتے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ تم اس کی حفاظت میں کمزوری دکھاؤ۔ (ماخوذ از تفسیر کبیر جلد7صفحہ 338)
9؍ ہجری میں جب زکوٰۃ فرض ہوئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تحصیلِ صدقات کے لیے عرب کے صوبہ جات میں عُمال روانہ فرمائے تو حضرت اُبَیؓ قبیلہ بنوبَلِّی بنو عَذَراور بنو سعد میں صدقہ کے عامل مقرر ہو کر گئے۔ ایک دفعہ حضرت اُبیؓ ایک گاؤں میں گئے تو ایک شخص نے تمام جانور لا کر سامنے کھڑے کر دیے کہ ان میں سے زکوٰۃ کے طور پر جس کو چاہیں انتخاب کر لیں۔ حضرت اُبیؓ نے اونٹوں میں سے دو برس کا ایک بچہ چُنا۔ صدقہ دینے والے نے کہا کہ اس کے لینے سے کیا فائدہ؟ نہ تو یہ دودھ دے سکتا ہے نہ سواری کے قابل ہے۔ اگر آپؓ لینا چاہتے ہیں تو یہ اونٹنی حاضر ہے۔ موٹی تازی بھی ہے اور جوان بھی ہے۔ حضرت اُبیؓ نے کہا کہ یہ کبھی نہیں ہو گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے خلاف مَیں نہیں کر سکتا۔ اس سے یہ بہتر ہے کہ تم میرے ساتھ چلو۔ مدینہ یہاں سے کچھ دُور نہیں ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاتے ہیں آپؐ جو ارشاد فرمائیں گے اس کی تعمیل کرنا۔ وہ اس پہ راضی ہو گیا اور حضرت اُبَیؓ کے ساتھ اونٹنی لے کر مدینے آیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تمام قصہ دہرایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تمہاری مرضی یہی ہے تم بڑی اونٹنی دینا چاہتے ہو تو تم اونٹنی دے دو قبول کر لی جائے گی اور خدا تم کو اس کا اجر دے گا۔ وہ اونٹنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر کے واپس چلا گیا۔
حضرت ابوبکرؓ کے عہد میں قرآن مجید کی ترتیب اور تدوین کا کام شروع ہوا۔ صحابہ کی جو جماعت اس خدمت پر مامور کی گئی حضرت اُبَیؓ اس کے نگران تھے۔ وہ قرآن کے الفاظ بولتے تھے اور لوگ ان کو لکھتے جاتے تھے۔ یہ جماعت چونکہ ارباب ِعلم پر مشتمل تھی اس لیےکسی کسی آیت پر مذاکرہ اور مباحثہ بھی ہوتا رہتا تھا۔ چنانچہ جب سورۂ توبہ کی آیت کہ ثُمَّ انْصَرَفُوْا صَرَفَ اللّٰہُ قُلُوْبَہُمْ بِاَنَّہُمْ قَوْمٌ لَّا یَفْقَہُوْنَ لکھی گئی تو لوگوں نے کہا کہ یہ سب سے آخر میں نازل ہوئی تھی۔ حضرت اُبَیؓ نے کہا نہیں۔ اس کے بعد دو آیتیں مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھائی تھیں۔ یہ آخری نہیں بلکہ یہ آخری دو آیتوں سے پہلے ہے۔ (سیر الصحابہ جلد3صفحہ142مکتبہ دارالاشاعت اردو بازار کراچی)
حضرت عمرؓ نے اپنے عہد ِخلافت میں سینکڑوں مفید باتوں کا اضافہ فرمایا جس میں ایک مجلس شوریٰ کا قیام بھی تھا۔ اسلام میں مجلس شوریٰ کا قیام حضرت عمرؓ کے زمانے میں ہوا۔ یہ مجلس انصار اور مہاجرین کے مقتدر اصحاب پر مشتمل تھی جن میں قبیلہ خزرج کی طرف سے حضرت ابی بن کعبؓ بھی ممبر تھے۔ (سیر الصحابہ جلد3صفحہ143، 142مکتبہ دارالاشاعت اردو بازار کراچی)
ایک شخص جن کا نام جابریا جُوَیبر تھا بیان کرتے ہیں کہ مَیں حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں اپنے کسی کام کے لیے آپؓ کے پاس حاضر ہوا۔ حضرت عمرؓ کے پہلو میں ایک شخص کھڑا تھا جس کے بال اور کپڑے سفید تھے۔ اس نے کہا یقینا ًاس دنیا میں ہمارے لیے مقصود تک پہنچنے کے ذرائع اور آخرت کے لیے زادِ راہ موجود ہے اور اسی میں ہمارے وہ اعمال ہیں جن کا بدلہ ہمیں آخرت میں ملے گا۔ جابر کہتے ہیں کہ مَیں نے پوچھا اے امیرالمومنین! یہ کون ہیں؟ حضرت عمرؓ نے جواب دیا کہ یہ مسلمانوں کے سردار ابی بن کعبؓ ہیں۔ (طبقات الکبری لابن سعد جلد 3 صفحہ379، 378 مکتبہ دارالکتب العلمیۃ بیروت2017)
عبدالرحمٰن بن عبد قاری سے روایت ہے کہ مَیں رمضان کی ایک رات حضرت عمر بن خطابؓ کے ساتھ مسجد کی طرف نکلا تو کیا دیکھتے ہیں کہ لوگ الگ الگ گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ کوئی شخص اپنے طور پر اکیلے نماز پڑھ رہا ہے اور کوئی شخص ایسے طور پر نماز پڑھ رہا ہے کہ اس کی اقتدا میں چند ایک لوگ نماز پڑھ رہے ہیں تو حضرت عمرؓ نے کہا مَیں سمجھتا ہوں کہ اگر ان کو ایک ہی قاری کی اقتدا میں اکٹھا کر دو تو یہ بہتر ہو گا۔ پھر انہوں نے پختہ ارادہ کر لیا اور حضرت ابی بن کعبؓ کی اقتدا میں انہیں اکٹھا کیا۔ (صحیح بخاری کتاب الصلوٰۃ التراویح باب فضل من قام رمضان حدیث نمبر2010مترجم جلد3صفحہ681، 680شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ) یعنی اس وقت وہ رات کو نوافل پڑھ رہے ہوں گے۔
حضرت اُبیؓ ان بزرگوں میں سے ہیں جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے احادیث کا بہت بڑا حصہ سنا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے صحابہ درسِ حدیث میں آپؓ کی شاگردی اختیار کر چکے تھے۔ چنانچہ ان کے حلقہ تابعین سے زیادہ صحابہ کا مجمع ہوتا تھا۔ صحابہ بھی آپؓ سے حدیثیں سنا کرتے تھے۔ حضرت عمر بن خطابؓ، حضرت ابو ایوب انصاریؓ، حضرت عبادہ بن صامتؓ، حضرت ابوہریرہؓ، حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ، حضرت انس بن مالکؓ، حضرت عبداللہ بن عباسؓ، حضرت سہل بن سعدؓ، حضرت سلیمان بن صَردؓ یہ سب بھی حضرت اُبیؓ سے علمِ حدیث میں استفادہ کرتے تھے۔ (ماخوذ از سیر الصحابہ جلد3صفحہ153مکتبہ دارالاشاعت اردو بازار کراچی)
حضرت قیس بن عُبادہؓ مدینے میں صحابہ سے ملنے آئے۔ ان کا بیان ہے کہ مَیں نے حضرت ابی بن کعبؓ سے بڑھ کر کسی کو نہ پایا۔ نماز کا وقت تھا۔ لوگ جمع تھے اور حضرت عمرؓ بھی تشریف رکھتے تھے۔ کسی چیز کی تعلیم دینے کی ضرورت تھی۔ نماز ختم ہوئی تو حضرت اُبَیؓ اٹھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث لوگوں تک پہنچائی۔ ذوق و شوق کا یہ عالَم تھا کہ تمام لوگ ہمہ تن گوش تھے۔ قیس پر حضرت اُبیؓ کی اس شان عظمت کا بڑا اثر ہوا۔ (ماخوذ از سیر الصحابہ جلد3صفحہ، 154، مکتبہ دارالاشاعت، اردو بازار کراچی)
حضرت عمرؓ کے پاس ایک عورت آئی۔ اس نےکہا کہ میرا شوہر مر گیا ہے۔ مَیں حاملہ ہوں۔ قرآن کریم کی رو سے استنباط اور فقہی مسائل بھی یہ حل کیا کرتے تھے تو بہرحال حاملہ عورت آئی۔ اس نے کہا کہ میرا خاوند مر گیا ہے۔ اب حمل وضع ہوا ہے۔ جب فوت ہوا حاملہ تھی اب وضع حمل ہو گیا ہے لیکن عدت کے ایام ابھی پورے نہیں ہوئے جو خاوند کے فوت شدہ ہونے کے لیے چار مہینے دس دن کی عدت ہے وہ پوری نہیں ہوئی لیکن میں حمل میں تھی اور اس سے پہلے میرا وہ حمل ہو گیا ہے۔ اس صورت میں آپؓ کیا فرماتے ہیں؟کیا مَیں عدت ابھی پوری کروں یا یہ کافی ہے؟ حضرت عمرؓ نے کہا کہ معین میعاد تک رکی رہو۔ یعنی ایک بیوہ عورت کے لیے عدت کی جو معین میعاد ہے اس کو پورا کرو۔ وہ حضرت عمرؓ کے پاس سے حضرت اُبَیؓ کے پاس آئی اور ان سے مسئلہ پوچھا۔ حضرت عمرؓ سے فتویٰ پوچھنے کا حال بیان کیا اور جو حضرت عمرؓ کا جواب تھا وہ حضرت اُبَیؓ کو بتایا۔ حضرت اُبَیؓ نے کہا کہ جاؤ اور حضرت عمرؓ سے کہنا کہ اُبَی کہتا ہے کہ عورت حلال ہو گئی یعنی اب عدت کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر وہ میرے بارے میں پوچھیں تو مَیں یہیں بیٹھا ہوا ہوں آ کر بلا لینا۔ وہ عورت حضرت عمرؓ کے پاس گئی۔ حضرت عمرؓ نے کہا کہ حضرت اُبَیؓ کو بلا کے لاؤ۔ حضرت اُبَیؓ آئے۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا آپؓ نے یہ کہاں سے کہا ہے؟ اُبَیؓ نے جواب دیا قرآن سے اور یہ آیت پڑھی۔ وَاُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُہُنَّ اَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَہُنَّ۔ اور جہاں تک حمل والیوں کا تعلق ہے ان کی عدت وضع حمل ہے۔ اس کے بعد کہا جو حاملہ بیوہ ہو گئی ہو وہ بھی اس میں داخل ہے اور مَیں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق حدیث سنی ہے۔ حضرت عمرؓ نے عورت سے کہا کہ جو یہ کہہ رہے ہیں اس کو سنو یعنی یہ ٹھیک ہے۔ جس طرح حضرت اُبَیؓ کہتے ہیں اس پر عمل کرو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباسؓ کا گھر مسجدنبویؐ سے متصل تھا۔ حضرت عمرؓ نے مسجد کو وسیع کرنا چاہا تو حضرت عباسؓ سے کہا کہ اپنا مکان فروخت کر دیں مَیں اس کو مسجد میں شامل کروں گا۔ حضرت عباسؓ نے کہا یہ نہیں ہو گا۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا اچھا تو ہبہ کر دو۔ عباسؓ نے اس سے بھی انکار کر دیا۔ وہ اپنی مرضی کے بڑے مالک تھے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا اچھا آپؓ خود مسجد کو وسیع کر دیں۔ چلیں اپنی طرف سے یہ کر دیں۔ آپ کی طرف سے بڑا اچھا gesture ہو جائے گا۔ اور امّت کے لیے مسجد وسیع ہو گی اپنا مکان اس میں داخل کر دیں۔ اس پہ بھی حضرت عباسؓ نے کہا یہ بھی نہیں ہو گا۔ اس پہ بھی وہ راضی نہیں ہوئے۔ حضرت عمرؓ نے کہا ان تین باتوں میں سے کوئی ایک بات آپؓ کو ماننی ہو گی۔ حضرت عباسؓ نے کہا مَیں ایک بھی نہیں مانوں گا۔ آخر دونوں نے حضرت اُبی بن کعبؓ کو اپنا حکَم بنا لیا۔ حکَم تک بات پہنچی۔ حضرت اُبَیؓ نے حضرت عمرؓ کو کہا: بلا رضامندی آپؓ کو ان کی چیز لینے کا کیا حق ہے۔ حضرت اُبَیؓ نے کہا کہ نہیں۔ آپؓ نہیں لے سکتے۔ حضرت عمرؓ نے اُبیؓ سے پوچھا اس کے متعلق قرآن مجید کی رو سے حکم نکالا ہے یا حدیث سے۔ حضرت اُبَیؓ نے کہا کہ حدیث سے اور وہ یہ ہے کہ حضرت سلیمانؑ نے جب بیت المقدس کی عمارت بنوائی تو اس کی ایک دیوار جو کسی دوسرے کی زمین پر بنوائی تھی گر پڑی۔ حضرت سلیمان کے پاس وحی آئی کہ اس سے اجازت لے کر بنائیں۔ بات سنی تو حضرت عمرؓ اس پہ خاموش ہو گئے لیکن بہرحال حضرت عباسؓ کا اخلاص و وفا تو تھا۔ بہرحال خلافت کے لیے عہدِ بیعت بھی تھا تو وہ خیال بھی اپنی طبیعت پر غالب آ گیا اور ایک دفعہ انکار تو کر چکے تھے لیکن بہرحال اب نیکی اور تقویٰ تو تھا ہی ناں اور دین کی غیرت بھی تھی اور خلافت کا احترام بھی تھا۔ بہرحال پھر ظاہر ہو گیا۔ جب حضرت عمرؓ خاموش ہو گئے تو پھر انہوں نے حضرت عمرؓ سے کہا کہ اچھا مَیں اس کو، اپنے مکان کو مسجد میں شامل کرتا ہوں۔ (ماخوذ از سیر الصحابہ جلد3صفحہ155مکتبہ دارالاشاعت اردو بازار کراچی)
حضرت عمرؓ نے ایک مرتبہ ارادہ کیا کہ حج تَمَتُّع سے لوگوں کو روک دیں۔ تین قسم کے حج ہوتے ہیں۔ بعض نوجوانوں کو بھی شایدنہیں پتہ ہو۔ حج تَمَتُّع وہ ہوتا ہے کہ عمرہ کا احرام باندھ کے مکے پہنچتے ہیں اور پہلے عمرہ کرتے ہیں پھر احرام کھول دیتے ہیں پھر آٹھویں ذوالحجہ کو نیا احرام باندھتے ہیں پھر حج کرتے ہیں یہ حج تمتع ہے۔ اور عام جو حج ہے وہ حج مفرد ہے جو عموماً ہوتا ہے اور قِرَانجو ہے وہ یہی ہے کہ عمرہ اور حج ایک ہی احرام میں ہو جاتا ہے۔ بہرحال حضرت عمرؓ نے حج تمتع سے روکا۔ حضرت اُبیؓ نے کہا کہ اس کو روکنے کا آپؓ کو کوئی اختیار نہیں ہے۔ حضرت عمرؓ کو روک دیا کہ یہ نہیں ہو سکتا۔ یہ غلط ہے۔ بہرحال پھر حضرت عمرؓ نے نہیں کیا۔ پھر ایک دفعہ حضرت عمرؓ نے ارادہ کیا کہ حِیرہ کوفہ سے تین میل کے فاصلہ پر نجف کے علاقے میں ایک شہر ہے وہاں کے حُلِّے پہننے سے منع کریں۔ حضرت عمرؓ نے ارادہ کیا کیونکہ اس رنگ میں پیشاب کی آمیزش ہوتی ہے یا ہو سکتا ہے وہ رنگ کاٹنے کے لیے کسی جانور کا پیشاب شامل کیا جاتا ہو تو بہرحال حضرت اُبیؓ نے کہا اس کے بھی آپؓ مجاز نہیں ہیں۔ کہتے ہیں کیونکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رنگ کے کپڑے کو پہنا ہے اور وہاں کے حلے کو پہنا ہے اور ہم لوگوں نے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں پہنا ہے اور کبھی اعتراض نہیں ہوا اس لیے اس پر حضرت عمرؓ خاموش ہو گئے۔ انہوں نے کہا ٹھیک ہے۔ آپؓ ٹھیک کہتے ہیں۔ (ماخوذ از سیر الصحابہ جلد3صفحہ156مکتبہ دارالاشاعت اردو بازار کراچی) (معجم البلدان جلد 2 صفحہ 328) (ماخوذ از فقہ احمدیہ جلد اوّل صفحہ 335-336)
ایک مرتبہ حضرت عمرؓ کی خلافت کے زمانے میں حضرت عمرؓ اور حضرت اُبَیؓ میں ایک باغ کی بابت اختلاف ہو گیا۔ حضرت اُبَیؓ رونے لگے اور کہا کہ آپؓ کے عہد میں یہ باتیں؟ حضرت عمرؓ نے فرمایا میری نیت یہ نہیں تھی۔ آپؓ کا جس مسلمان سے جی چاہے فیصلہ کروا لیں۔ میرے اور آپ کے درمیان اختلاف تو ہے مَیں حکم نہیں دے رہا۔ فیصلہ کروا لیں کیونکہ مَیں سمجھتا ہوں کہ میری رائے ٹھیک ہے تو اُبَیؓ نے زید بن ثابت کا نام لیا کہ ان سے فیصلہ کراتے ہیں۔ حضرت عمرؓ راضی ہو گئے اور حضرت زیدؓ کے سامنے مقدمہ پیش ہوا۔ گو حضرت عمرؓ خلیفۂ اسلام تھے تاہم ایک فریق کی حیثیت سے حضرت زید بن ثابتؓ کے اجلاس میں حاضر ہوئے۔ حضرت عمرؓ کو اُبیؓ کے دعویٰ سے انکار تھا۔ حضرت عمرؓ نے ان سے کہا کہ آپؓ بھولتے ہیں۔ سوچ کے یاد کریں۔ حضرت اُبیؓ کچھ دیر سوچتے رہے پھر کہا مجھے کچھ یادنہیں آتا تو خود حضرت عمرؓ نے واقعہ کی صورت بیان کی اور ساری تفصیل بیان کی کہ اس طرح اس طرح ہوا تھا۔ حضرت زیدؓ نے حضرت اُبَیؓ سے پوچھا کہ آپ جو اپنا مطالبہ کر رہے ہیں اس کے لیے آپ کے پاس ثبوت کیا ہے؟ انہوں نے کہا کچھ نہیں۔ بولے ثبوت کوئی نہیں ہے۔ انہوں نے صرف یہ کہا کہ ثبوت تو کوئی نہیں۔ اس وقت آپؓ امیرالمومنین سے قسم نہ لیجیے۔ کچھ نہیں ثبوت تو کوئی نہیں ہے لیکن بولے آپ امیر المومنین سے ’قسم نہ لیجیے‘۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا اگر مجھ پر قسم ضروری ہے تو مجھے اس میں بھی کوئی تامل نہیں ہے لینی ہے یا نہیں لینی۔ تو بہرحال اس کے بعد وہ فیصلہ ہو گیا جو بھی تھا۔ (ماخوذ از سیر الصحابہ جلد3صفحہ146، 145مکتبہ دارالاشاعت اردو بازار کراچی)
حضرت عثمان بن عفانؓ نے قرآن جمع کرنے میں قریش اور انصار کے بارہ آدمیوں کو منتخب کیا جن میں حضرت ابی بن کعبؓ اور حضرت زید بن ثابتؓ بھی شامل تھے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ381 مکتبہ دارالکتب العلمیۃ بیروت2017)
حضرت عثمانؓ کے زمانے میں قرآن مجید میں لب و لہجے کا اختلاف تمام ملک میں عام ہو چکا تھا۔ اس بنا پر آپؓ نے اس اختلاف کو مٹانا چاہا اور خود اصحابِ قراءت کو طلب فرما کر ہر شخص سے جدا جدا قراءت سنی۔ حضرت ابی بن کعبؓ، حضرت عبداللہ بن عباسؓ اور حضرت مُعاذ بن جبلؓ سب کے لہجے میں اختلاف نظر آیا۔ یہ دیکھ کر حضرت عثمانؓ نے فرمایا کہ مَیں تمام مسلمانوں کو ایک تلفظ کے قرآن پر جمع کرنا چاہتا ہوں۔ قریش اور انصار میں بارہ اشخاص تھے جن کو قرآن پر پورا عبور تھا۔ حضرت عثمانؓ نے ان لوگوں کو یہ اہم کام تفویض فرمایا اور حضرت ابی بن کعبؓ کو اس مجلس کا رئیس مقرر کیا۔ آپ یعنی حضرت اُبیؓ قرآن کے الفاظ بولتے جاتے اور حضرت زیدؓ لکھتے جاتے تھے۔ آج قرآن مجید کے جس قدر نسخے موجود ہیں وہ حضرت اُبَی بن کعبؓ کی قراءت کے مطابق ہیں۔ (ماخوذ از سیر الصحابہ جلد3صفحہ143مکتبہ دارالاشاعت اردو بازار کراچی)
عُتَیّ بن ضَمْرَہ کہتے ہیں کہ مَیں نے ابی بن کعبؓ سے کہا کہ آپ لوگوں کو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ہیں کیا ہو گیا ہے کہ ہم دور دراز سے آپ کے پاس آتے ہیں تا کہ آپ ہمیں کچھ کوئی خبریں اور واقعات سنائیں۔ کوئی باتیں بتائیں اور ہمیں کچھ سکھائیں مگر جب ہم آپ کے پاس آتے ہیں تو آپ لوگ ہماری بات کو معمولی گردانتے ہیں گویا کہ ہماری آپ کے نزدیک کوئی وقعت ہی نہیں ہے، کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اس پر ابی بن کعبؓ نے کہا کہ اللہ کی قسم! اگر مَیں اگلے جمعےتک زندہ رہا تو اس دن ایک ایسی بات بتاؤں گا کہ پھر مجھے پروا نہیں کہ خواہ تم مجھے اس کی وجہ سے زندہ رہنے دو یا قتل کر دو۔ جب جمعہ آیا تو کہتے ہیں کہ مَیں مدینے گیا اور کیا دیکھتا ہوں کہ لوگ گلیوں میں موج در موج چل رہے ہیں۔ مَیں نے کہا کہ ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے؟ ایک شخص نے کہا کہ کیا تم اس شہر سے نہیں ہو؟ مَیں نے کہا نہیں۔ اس نے کہا کہ آج مسلمانوں کے سردار اُبی بن کعبؓ فوت ہو گئے ہیں۔ اس پر یہ کہنے لگا کہ مَیں نے پھر کہا کہ واللہ! مَیں نے کبھی ایسا دن نہیں دیکھا جس میں اس طرح کسی شخص کی ستاری ہوئی ہو۔ (طبقات الکبری لابن سعد جلد 3 صفحہ380 مکتبہ دارالکتب العلمیۃ بیروت2017)
جیسے اس شخص یعنی ابی بن کعبؓ کی ستّاری ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ مَیں ایسی بات بتاؤں گا کہ پتہ نہیں تم میرے ساتھ کیا کرو اس سے لگتا تو شاید یہی ہے، راوی کی یہی مراد لگتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت اُبیؓ کو اس بات کے اظہار سے بچا لیا جس کو وہ دلی خوشی سے بیان نہیں کرنا چاہتے تھے۔ باقی اللہ بہتر جانتا ہے کہ اس فقرے سے کیا مراد ہے۔ بہرحال اس نے ان کی وفات کا سن کر یہ فقرہ بولا کہ مَیں نے کبھی ایسا دن نہیں دیکھا جس میں اس طرح کسی شخص کی ستّاری ہوئی ہو جیسے اس شخص یعنی ابی بن کعبؓ کی ستاری ہوئی ہے۔
حضرت ابی بن کعبؓ سے روایت ہے کہ مَیں آٹھ راتوں میں قرآن کریم کا دَور مکمل کر لیتا ہوں۔ (طبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ379 مکتبہ دارالکتب العلمیۃ بیروت2017)
حضرت اُبیؓ کی محبتِ رسول کا یہ عالَم تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجدنبویؐ کے ستونوں میں سے کھجور کے ایک تنے کے ساتھ کھڑے ہو کر خطبہ دیا کرتے تھے۔ پھر جب آپؐ کے لیے منبر بنایا گیا اور آپ جمعے کے دن اس پر بیٹھ کر خطبہ دینے لگے تو اس ستون میں سے چِلَّانے کی آواز آئی جسے تمام اہل مسجدنے سنا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس ستون کے پاس آئے اور اس پر اپنا ہاتھ رکھا۔ پھر اسے اپنے سینے سے لگایا تو وہ تنا اس معصوم بچہ کی طرح رونے لگا جسے چپ کرایا جاتا ہے یہاں تک کہ اسے قرار آ گیااور آواز آنا بند ہو گئی۔ پھر جب مسجد گرائی گئی اور اس میں تبدیلی کر دی گئی تو حضرت ابی بن کعبؓ نے وہ تنا لے لیا۔ وہ ان کے پاس تھا صرف اس وجہ سے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑے ہوتے تھے تو وہ تنا لے لیا۔ اس کو اپنے گھر لے گئے یہاں تک کہ بوسیدہ ہو گیا۔ دیمک نے اس کو کھا لیا۔ ریزہ ریزہ ہو گیا۔ لیکن انہوں نے اس کو اس محبت کی وجہ سے اپنے پاس رکھا۔ یہ مسند احمد بن حنبل کی روایت ہے اور کچھ حصہ اس میں صحیح بخاری کا بھی ہے۔ (مسند احمد بن حنبل مسند المکثرین من الصحابۃ، مسند جابر بن عبد اللّٰہ، حدیث نمبر 14075) (صحیح بخاری کتاب البیوع باب النجار حدیث نمبر 2095) (سنن ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلوٰ ۃ و السنۃ فیھا باب ما جاء فی بدء شأن المنبر حدیث1414) (ماخوذ از سیرالصحابہ جلد 3 صفحہ158مکتبہ دارالاشاعت اردو بازار کراچی)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں چھ قاضی تھے حضرت عمرؓ، حضرت علیؓ، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ، حضرت زید بن ثابتؓ، حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ اور حضرت اُبی بن کعبؓ۔ (اسد الغابہ جلد 1صفحہ 170 مکتبہ دارالکتب العلمیۃ بیروت2016)
سَمُرَہ بن جُنْدُبؓ بڑے رتبے کے صحابی تھے۔ وہ نماز میں تکبیر کہنے اور سورت پڑھنے کے بعد ذرا توقف کیا کرتے تھے۔ اللہ اکبر کہہ کے کچھ دیر خاموش رہتے تھے پھر سورہ فاتحہ پڑھتے تھے۔ لوگوں نے ان پر اعتراض کیا۔ انہوں نے حضرت اُبیؓ کی خدمت میں لکھ کر بھیجا کہ اس کے متعلق تحریر فرمائیے کہ حقیقت کیا ہے۔ حضرت اُبیؓ نے نہایت مختصر جواب تحریر کیا اور لکھا کہ آپ کا طریق عمل شریعت کے مطابق ہے۔ یہ جو وقفہ آپ دیتے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں۔ یہ شریعت کے مطابق ہے اور جو معترضین ہیں، اعتراض کرنے والے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔ (ماخوذاز سیر الصحابہ جلد3صفحہ، 154، مکتبہ دارالاشاعت، اردو بازار کراچی)
حضرت سُوَیْد بن غَفَلَہ، زید بن صَوجَان اور سُلَیْمَان بن رَبِیْعَہ کے ہمراہ کسی غزوہ میں گئے تھے۔ مقام عُذَیب میں کَوڑا پڑا ہوا تھا۔ عُذیب بنو تمیم کی ایک وادی ہے اور قادسیہ اور مُغِیثَہ کے درمیان پانی کی ایک جگہ ہے جو قادسیہ سے چار میل کے فاصلے پر ہے۔ بہرحال سُوَیدنے اسے اٹھا لیا۔ کوڑا پڑاتھا۔ ان لوگوں نے کہا کہ اسے پھینک دو، شاید کسی مسلمان کا ہو۔ انہوں نے کہا مَیں ہرگز نہیں پھینکوں گا۔ پڑا رہے گا تو بھیڑئیے اس کو کھا لیں گے۔ ان کی غذا بن جائے گا۔ اس سے بہتر ہے کہ مَیں اسے کام میں لاؤں۔ اس سے کچھ دنوں بعد سُوَید حج کے ارادہ سے روانہ ہوئے۔ راستے میں مدینہ پڑتا تھا۔ حضرت اُبیؓ کے پاس گئے اور کوڑے والا واقعہ بیان کیا۔ حضرت اُبیؓ نے کہا کہ اس قسم کا واقعہ مجھ کو بھی پیش آچکا ہے۔ مَیں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں سو دینار پائے تھے۔ اب چاہے وہ کَوڑا ہے یا سو دینار ہیں ہر ایک کی اپنے اپنے لحاظ سے ایک ویلیو (value) ہے وہ امانت ہی ہے۔ اب آگے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ سنیں۔ حضرت اُبیؓ کہنے لگے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا کہ سال بھر تک لوگوں کو خبر کرتے رہو۔ بتاتے رہو۔ اعلان کر دو۔ سال گزرنے کے بعد فرمایا روپے کی تعداد کا نشان وغیرہ یاد رکھنا اور ایک سال اَور انتظار کرنا۔ اگر کوئی نشان کے موافق طلب کرے تو اس کے حوالے کرنا ورنہ وہ تمہارا ہو چکا۔ (ماخوذ از سیر الصحابہ جلد3صفحہ156مکتبہ دارالاشاعت اردو بازار کراچی) (فرہنگ سیرت صفحہ 197)
یعنی پورے دو سال۔ کوئی بھی چیز ملے تو ایک سال اعلان کرو، ایک سال تک اس کی نشانیاں یاد رکھو اور اگر کوئی مطالبہ کرے تو دے دو۔
ایک شخص مسجد میں کسی گمشدہ چیز پر شور کر رہا تھا، اعلان کر رہا تھا میری فلاں چیز گم گئی ہے۔ حضرت اُبیؓ نے دیکھا تو غصے ہوئے۔ اس نے کہا کہ مَیں نے مسجد میں کوئی فحش بات تو نہیں کی۔ انہوں نے کہا یہ ٹھیک ہے مگر یہ بات بھی مسجد کے ادب کے خلاف ہے کہ یہاں کسی دنیاوی چیز کا اعلان کیا جائے۔ (ماخوذ از سیر الصحابہ جلد 3 صفحہ157مکتبہ دارالاشاعت اردو بازار کراچی)
حضرت اُبیؓ کی وفات کے سال میں مختلف روایات ملتی ہیں۔ ایک روایت کے مطابق حضرت اُبیؓ کی وفات حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں بائیس ہجری میں ہوئی جبکہ ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت عثمانؓ کے دورِ خلافت میں تیس ہجری میں ہوئی اور یہی زیادہ درست قول ہے کیونکہ حضرت عثمانؓ نے حضرت اُبیؓ کے ذمہ جمع قرآن کا کام سپرد کیا تھا۔ (طبقات الکبریٰ جلد3صفحہ381 مکتبہ دارالکتب العلمیۃ بیروت2017) (الاصابہ جلد 1صفحہ36، 35مکتبہ دارالفکر بیروت2001)
حضرت اُبیؓ کی اولاد میں طفیل اور محمد تھے اور ان بچوں کی والدہ کا نام ام طفیل بنت ِطفیل تھا۔ وہ قبیلہ دوس سے تعلق رکھتی تھیں۔ حضرت اُبیؓ کی ایک بیٹی کا نام اُمِّ عَمْرو بیان ہوا ہے۔ (طبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ378 مکتبہ دارالکتب العلمیۃ بیروت2017)
یہاں ان کے یہ واقعات ختم ہوئے۔
(الفضل انٹر نیشنل 3تا10؍نومبر2020ءصفحہ5تا10)
آج قرآن مجید کے جس قدر نسخے موجود ہیں وہ حضرت ابی بن کعبؓ کی قراءت کے مطابق ہیں۔
میرے بھائی! مسلمانوں کو میرا سلام پہنچا دینا اور میری قوم اور میرے رشتہ داروں سے کہنا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس خدا تعالیٰ کی ایک بہترین امانت ہیں اور ہم اپنی جانوں سے اس امانت کی حفاظت کرتے رہے ہیں۔ اب ہم جاتے ہیں اور اس امانت کی حفاظت تمہارے سپرد کرتے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ تم اس کی حفاظت میں کمزوری دکھاؤ۔
آنحضرتﷺ کے بدری صحابہ، جنگِ بدر میں شہادت کا رتبہ پانے والے حضرت معوِّذ بن حارث اور کاتبِ وحی، مسلمانوں کے سردار اور اُمّت کے سب سے بڑے قاری حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہما کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ۔
فرمودہ 16؍اکتوبر2020ء بمطابق 16؍اخاء1399 ہجری شمسی، بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔