بدری اصحاب نبویؐ کی سِیرِ مبارکہ: حضرت علیؓ
خطبہ جمعہ 11؍ دسمبر 2020ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر چل رہا تھا۔ آج بھی اور آئندہ بھی چند خطبات میں وہی جاری رہے گا۔ ان شاء اللہ۔
غزوۂ احد کے موقعے پر جب ابن قمئہنے حضرت مصعب بن عمیرؓ کو شہید کیا تو اس نے یہ گمان کیا کہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کر دیا ہے۔ چنانچہ وہ قریش کی طرف لَوٹا اور کہنے لگا کہ میں نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو قتل کر دیا ہے۔ جب حضرت مصعبؓ شہید ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھنڈا حضرت علیؓ کے سپرد کیا۔ چنانچہ حضرت علیؓ اور باقی مسلمانوں نے لڑائی کی۔ (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ529 غزوہ احد، مقتل مصعب بن عمیرمطبوعہ دار الکتب العلمیۃ 2001ء)
ایک روایت میں آتا ہے کہ غزوۂ احد کے موقعے پر مشرکین کے علمبردار طلحہ بن ابو طلحہ نے حضرت علیؓ کو للکارا۔ انہوں نے آگے بڑھ کر ایسا وار کیا کہ وہ زمین پر ڈھیر ہو کر تڑپنے لگا۔ حضرت علیؓ نے یکے بعد دیگرے کفار کے علمبرداروں کو تہِ تیغ کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کی ایک جماعت دیکھ کر حضرت علیؓ کو ان پر حملہ کرنے کا ارشاد فرمایا۔ حضرت علیؓ نے عمرو بن عبداللہ جُمَحِی کو قتل کر کے انہیں منتشر کر دیا۔ پھر آپؐ نے کفار کے دوسرے دستہ پر حملہ کرنے کا حکم دیا۔ حضرت علیؓ نے شَیْبَہْ بِنْ مَالِکْ کو ہلاک کیا تو حضرت جبرئیلؑ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! یقیناً یہ ہمدردی کے لائق ہے، یعنی حضرت علیؓ کے بارے میں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں علیؓ مجھ سے ہے اور میں علیؓ سے ہوں۔ تو جبرئیلؑ نے کہا کہ میں آپ دونوں میں سے ہوں۔ (شرح العلامہ الزرقانی علی المواھب اللدنیۃ جلد 2 صفحہ 409باب غزوہ احد، دار الکتب العلمیۃ بیروت 1996ء) (تاریخ الطبری جلد 3 صفحہ 68 باب غزوہ احد، دار الفکر للطباعۃ ولنشر التوزیع بیروت 2002ء)
حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ غزوۂ احد میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے لوگ ہٹ گئے تو میں نے شہداء کی لاشوں میں دیکھنا شروع کیا تو ان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ پایا۔ تب میں نے کہا خدا کی قسم ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ بھاگنے والے تھے اور نہ ہی میں نے آپؐ کو شہداء میں پایا ہے لیکن اللہ ہم سے ناراض ہوا اور اس نے اپنے نبی کو اٹھا لیا ہے پس اب میرے لیے بھلائی یہی ہے کہ میں لڑوں یہاں تک کہ قتل کر دیا جاؤں۔ پھر میں نے اپنی تلوار کی میان توڑ ڈالی اور کفار پر حملہ کیا۔ وہ اِدھر اُدھر منتشر ہو گئے تو کیا دیکھتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے درمیان ہیں۔ (اسد الغابہ لمعرفۃ الصحابہ لابن اثیر جلد 04 صفحہ94 ذکر علی بن ابی طالب، دارالفکر للطباعۃ والنشر التوزیع بیروت 2003ء)
یہ عشق و وفا کی وہ داستان ہے جو بچپن کے عہد سے شروع ہوئی اور ہر موقعے پر اپنا جلوہ دکھاتی رہی۔ غزوۂ احد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جو زخم لگے اس حوالے سے ایک روایت ہے کہ حضرت سہل بن سعدؓ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زخم کی بابت پوچھا گیا تو انہوں نے کہا مجھ سے پوچھتے ہو تو اللہ کی قسم! میں خوب جانتا ہوں کہ کون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زخم دھو رہا تھا۔ یعنی یہ نظارہ سب کچھ میری آنکھوں کے سامنے ہے، اور کون پانی ڈال رہا تھا اور کیا دوا لگائی گئی تھی۔ حضرت سہلؓ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی حضرت فاطمہؓ زخم دھو رہی تھیں اور حضرت علیؓ ڈھال میں سے پانی ڈال رہے تھے۔ جب حضرت فاطمہؓ نے دیکھا کہ پانی خون کو اَور نکال رہا ہے تو انہوں نے بوریہ کا ایک ٹکڑا لیا اور اس کو جلایا اور ان کے ساتھ چپکا دیا۔ اس سے خون رک گیا اور اس دن آپؐ کا سامنے والا دانت بھی ٹوٹ گیا تھا اور آپؐ کا چہرہ زخمی ہو گیا تھا اور آپؐ کا خَود آپؐ کے سر پر ٹوٹ گیا تھا۔ (صحیح البخاری کتاب المغازی باب ما اصاب النبیﷺ من الجراح یوم احد حدیث نمبر4075)
حضرت سعید بن مُسَیِّبؓ سے روایت ہے کہ غزوۂ احد میں حضرت علیؓ کو سولہ زخم لگے تھے۔ (اسد الغابہ لمعرفۃ الصحابہ لابن اثیر جلد 04 صفحہ93ذکر علی بن ابی طالب، دارالفکر بیروت 2003ء)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ مضمون بیان فرما رہے تھے کہ مصائب کے نیچے برکتوں کے خزانے مخفی ہوتے ہیں تو یہ مضمون بیان فرماتے ہوئے آپؓ نے یہ بیان فرمایا کہ ’’حضرت علیؓ نے احد سے واپس آ کر حضرت فاطمہؓ کو اپنی تلوار دی اور کہا اس کو دھو دو۔ آج اس تلوار نے بڑا کام کیا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علیؓ کی یہ بات سن رہے تھے۔ آپؐ نے فرمایا: علیؓ ! تمہاری ہی تلوار نے کام نہیں کیا اَور بھی بہت سے تمہارے بھائی ہیں جن کی تلواروں نے جوہر دکھائے ہیں۔ آپؐ نے چھ سات صحابہؓ کے نام لیتے ہوئے فرمایا ان کی تلواریں تمہاری تلوار سے کم تو نہ تھیں۔‘‘ (مصائب کے نیچے برکتوں کے خزانے مخفی ہوتے ہیں، انوار العلوم جلد 19 صفحہ 59)
اور پھر انہی مصیبتوں میں سے گزرتے ہوئے ان لوگوں کو آخر فتح یابی ہوئی۔
غزوۂ خندق شوال پانچ ہجری میں ہوئی ہے۔ اس موقعے پر کفار کے لشکر نے جب مدینہ کا محاصرہ کیا ہوا تھا تو ان کے رؤساء نے اس امر پہ اتفاق کیا کہ مل کر حملہ کیا جائے۔ وہ خندق میں کوئی ایسی تنگ جگہ تلاش کرنے لگے جہاں سے وہ اپنے گھڑ سوار نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؓ کے اصحاب تک پہنچا دیں مگر انہیں کوئی جگہ نہ ملی۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایسی تدبیر ہے جس کو عرب میں آج تک کسی نے نہیں کیا تھا۔ ان سے کہا گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ایک فارسی شخص ہے جس نے آپؐ کو اس بات کا مشورہ دیاہے۔ انہوں نے کہا یہ اسی کی تدبیر ہے یعنی کفار نے کہا۔ پھر وہ لوگ ایسے تنگ مقام پر پہنچے جس سے مسلمان غافل تھے تو عِکْرِمہ بن ابوجہل، نَوفل بن عبداللہ اور ضُرَار بن خَطَّاباورھُبَیْرَہ بن ابووَھْباور عَمرو بن عبدِ وُدّ نے اس جگہ سے خندق کو پار کیا۔ عمرو بن عبدِوُدّ مقابلے کے لیے بلاتے ہوئے یہ شعر پڑھنے لگا کہ
وَلَقَدْ بَحِحْتُ مِنَ النِّدَاءِ
لِجَمْعِہِمْ ہَلْ مِنْ مُبَارِزْ
یعنی ان کی جماعت کو آواز دیتے دیتے خود میری آواز بیٹھ گئی ہے کہ ہے کوئی جو مقابلے کے لیے نکلے۔ اس کے جواب میں حضرت علیؓ نے یہ اشعار کہے۔
لَا تَعْجَلَنَّ فَقَدْ اَتَاکَ
مُجِیْبُ صَوْتِکَ غَیْرُ عَاجِزْ
فِیْ نِیَّۃٍ وَ بَصِیْرَۃٍ
وَالصِّدْقُ مَنْجٰی کُلِّ فَائِزْ
اِنِّیْ لَاَرْجُوْ اَنْ اُقِیْمَ
عَلَیْکَ نَائِحَۃَ الْجَنَائِزْ
مِنْ ضَرْبَۃٍ نَجْلَاءَ یَبْقَی
ذِکْرُھَا عِنْدَ الْھَزَاھِزْ
تم ہرگز جلدی نہ کرو۔ تمہاری آواز کا جواب دینے والا تمہارے پاس آ گیا ہے جو بے بسی اور کمزوری کا اظہار کرنے والا نہیں۔ مضبوط ارادے اور مکمل بصیرت کے ساتھ اور میدان میں ثابت قدمی اور ڈٹ جانا ہی ہر کامیاب ہونے والے کی نجات کا ذریعہ ہے۔ میں یقیناً امید رکھتا ہوں کہ میں تجھ پر میتوں پر نوحہ کرنے والیاں اکٹھی کر دوں گا۔ ایسا بڑا زخم لگا کر جس کا تذکرہ جنگوں میں باقی رہے گا۔
حضرت علی بن ابوطالبؓ نے جب کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں اس سے مقابلے کے لیے نکلوں گا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنی تلوار دی اور عمامہ باندھا اور دعا کی کہ اے اللہ! اس یعنی عمرو بن عبدِوُدّ کے مقابل میں اس کی مدد کر۔ حضرت علیؓ اس کے مقابلہ کے لیے نکلے۔ دونوں ایک دوسرے سے مقابلہ کے لیے ایک دوسرے کے قریب ہوئے اور جب مقابلے پہ آئے تو وہاں ان دونوں کے درمیان مٹی کا غبار اٹھا۔ حضرت علیؓ نے اسے مار کر قتل کر دیا اور اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا تو ہم نے جان لیا کہ حضرت علیؓ نے اسے قتل کر دیا ہے۔ اس کے ساتھی پشت پھیر کر بھاگ گئے اور اپنے گھوڑوں کی وجہ سے جان بچانے میں کامیاب ہو گئے۔ (سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ573) (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء 2 صفحہ283 غزوۃ رسول اللّٰہﷺ الخندق و ھی غزوۃ الاحزاب۔ داراحیاء التراث العربی بیروت 1996ء)(البدایہ و النھایہ جلد 2جزء4 صفحہ 115 غزوۃ الخندق و ھی غزوۃ الاحزاب، مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 2001ء)
اس کی مزید تفصیل بیان فرماتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے یوں تحریر فرمایا ہے کہ عمرو ایک نہایت نامور شمشیرزن تھا اور اپنی بہادری کی وجہ سے اکیلا ہی ایک ہزار سپاہی کے برابر سمجھا جاتا تھا اور چونکہ وہ بدر کے موقع پر خائب وخاسر ہو کر واپس گیا تھا اس لئے اس کا سینہ مسلمانوں کے خلاف بغض وانتقام کے جذبات سے بھرا ہوا تھا۔ اس نے میدان میں آتے ہی نہایت مغرورانہ لہجے میں مبارز طلبی کی۔ کہا کوئی ہے جو میرے مقابلے پہ آئے۔ بعض صحابہ اس کے مقابلہ سے کتراتے تھے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے حضرت علیؓ اس کے مقابلہ کے لئے آگے نکلے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تلوار ان کو عنایت فرمائی اور ان کے واسطے دعا کی۔ حضرت علیؓ نے آگے بڑھ کر عمرو سے کہا۔ میں نے سنا ہے کہ تم نے یہ عہد کیا ہوا ہے کہ اگر قریش میں سے کوئی شخص تم سے دوباتوں کی درخواست کرے گا تو تم ان میں سے ایک بات ضرور مان لو گے۔ عمرو نے کہا ہاں۔ حضرت علیؓ نے کہا تو پھر میں پہلی بات تم سے یہ کہتا ہوں کہ مسلمان ہو جاؤ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مان کر خدائی انعامات کے وارث بنو۔ عمرو نے کہا یہ نہیں ہو سکتا۔ حضرت علیؓ نے کہا کہ اگر یہ بات منظور نہیں ہے توپھر آؤمیرے ساتھ لڑنے کو تیار ہو جاؤ۔ اس پر عمرو ہنسنے لگا اور کہنے لگا میں نہیں سمجھتا تھا کہ کوئی شخص مجھ سے یہ الفاظ کہہ سکتا ہے۔ پھر اس نے حضرت علیؓ کانام ونسب پوچھا اور ان کے بتانے پرکہنے لگا کہ بھتیجے تم ابھی بچے ہو۔ میں تمہارا خون نہیں گرانا چاہتا۔ اپنے بڑوں میں سے کسی کو بھیجو۔ حضرت علیؓ نے جواب میں کہا کہ تم میرا خون تو نہیں گرانا چاہتے مگر مجھے تمہارا خون گرانے میں تامل نہیں ہے۔ اس پر عمرو جوش میں اندھا ہوکر اپنے گھوڑے سے کود پڑا اور اس کی کونچیں کاٹ کر اسے نیچے گرا دیا تا کہ گھوڑے سے واپسی کا بھی کوئی رستہ نہ رہے اور پھر ایک آگ کے شعلہ کی طرح دیوانہ وار حضرت علیؓ کی طرف بڑھا اور اس زور سے حضرت علیؓ پرتلوار چلائی کہ وہ ان کی ڈھال کوقلم کرتی ہوئی ان کی پیشانی پر لگی اور ان کی پیشانی کو کسی قدر زخمی بھی کیا مگر ساتھ ہی حضرت علیؓ نے اللہ اکبر! کا نعرہ لگاتے ہوئے ایسا وار کیا کہ وہ اپنے آپ کو بچاتا رہ گیا اور حضرت علی کی تلوار اسے شانے پرسے کاٹتی ہوئی نیچے اترگئی اور عمرو تڑپتا ہوا گرا اور جان دے دی۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے صفحہ 588-589)
عمرو بن عبدِ وُدّ کے قتل ہونے کے بعد کفار نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ وہ اس کی لاش دس ہزار درہم کے بدلے میں خرید لیں گے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے لے جاؤ۔ ہم مُردوں کی قیمت نہیں کھاتے۔ (البدایۃ والنہایۃ جلد 2 جزء4 صفحہ 116 مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)
حضرت بَرَاء بن عَازِب رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل حدیبیہ سے صلح کی تو حضرت علی بن ابوطالبؓ نے ان کے درمیان ایک تحریر لکھی اور اس میں آپؐ کا نام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لکھا۔ مشرکوں نے کہا کہ محمد رسول اللہ نہ لکھو۔ اگر آپؐ رسول ہوتے تو ہم آپ سے نہ لڑتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ سے کہا کہ اسے مٹا دو۔ حضرت علیؓ نے کہا کہ میں وہ شخص نہیں جو اسے مٹائے گا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے ہاتھ سے مٹا دیا اور ان سے اس شرط پر صلح کر لی کہ آپؐ اور آپؐ کے صحابہ تین دن مکہ میں رہیں گے اور وہ اس میں ہتھیار جُلُبَّان میں رکھ کر داخل ہوں گے۔ لوگوں نے پوچھا کہ یہ جُلُبَّان کیا ہوتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ وہ غلاف جس میں تلوار مع میان کے رکھی جاتی ہے۔ (صحیح البخاری کتاب الصلح بَابٌ: کَیْفَ یُکْتَبُ ہَذَا: مَا صَالَحَ فُلاَنُ بْنُ فُلاَنٍ، وَفُلاَنُ بْنُ فُلاَنٍ، وَإِنْ لَمْ یَنْسُبْہُ إِلَى قَبِیلَتِہِ أَوْ نَسَبِہِ حدیث 2698، اردو ترجمہ صحیح البخاری جلد 5 صفحہ 12-13 شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ)
اس واقعہ کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ذرا تفصیل سے بیان فرمایا ہے۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ ’’جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم صلح حدیبیہ کی مجلس میں تشریف رکھتے تھے اور کفار صلح کے لئے شرائط پیش کر رہے تھے۔ صحابہ اپنے دلوں میں ایک آگ لئے بیٹھے تھے اور ان کے سینے ان مظالم کی تپش سے جل رہے تھے جو کفار کی طرف سے بیس سال سے ان پر کئے جا رہے تھے۔ ان کی تلواریں میانوں سے باہر نکلی پڑتی تھیں اور وہ چاہتے تھے کہ کسی طرح موقع آئے تو ان مظالم کا جو انہوں نے اسلام پر کئے ہیں بدلہ لیا جائے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے کفار کی باتیں سنیں اور جب یہ تجویز ان کی طرف سے پیش ہوئی کہ آؤ ہم آپس میں صلح کر لیں تو آپ نے فرمایا بہت اچھا ہم صلح کر لیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شرط یہ ہے کہ اس سال تم عمرہ نہیں کر سکتے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا بہت اچھا اس سال ہم عمرہ نہیں کریں گے۔ پھر انہوں نے کہا کہ دوسرے سال جب آپ عمرہ کے لئے آئیں تو یہ شرط ہو گی کہ آپ مکہ میں تین دن سے زیادہ نہ ٹھہریں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا بہت اچھا۔ مجھے یہ شرط بھی منظور ہے۔ پھر انہوں نے کہا کہ آپ کو مسلح ہو کر مکہ میں داخل ہونے کی اجازت نہ ہو گی۔ آپؐ نے فرمایا: بہت اچھا ہم مسلح ہو کر مکہ میں داخل نہیں ہوں گے۔ صلح کا معاہدہ طے ہو رہا تھا اور صحابہ کے دل اندر ہی اندر جوش سے ابل رہے تھے۔ وہ غصہ سے تلملا رہے تھے مگر کچھ کر نہیں سکتے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صلح نامہ لکھنے کے لئے مقرر کیا گیا۔ انہوں نے جب یہ معاہدہ لکھنا شروع کیا تو انہوں نے لکھا کہ یہ معاہدہ ایک طرف تو محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے ہے اور دوسری طرف مکہ کے فلاں فلاں رئیس اور مکہ والوں کی طرف سے ہے۔ اس پر کفار بھڑک اٹھے اور انہوں نے کہا ہم ان الفاظ کو برداشت نہیں کر سکتے کیونکہ ہم محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو رسول اللہ نہیں مانتے۔ اگر مانتے تو ان سے لڑائی کس بات پر ہوتی۔ ہم تو ان سے محمد بن عبداللہ کی حیثیت سے معاہدہ کر رہے ہیں، محمد رسول اللہ کی حیثیت سے معاہدہ نہیں کر رہے۔ پس یہ الفاظ اس معاہدہ میں نہیں لکھے جائیں گے۔ اس وقت صحابہ کے جوش کی کوئی انتہا نہ رہی اور وہ غصہ سے کانپنے لگ گئے۔ انہوں نے سمجھا اب خدا نے ایک موقع پیدا کر دیا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ان کی بات نہیں مانیں گے اور ہمیں ان سے لڑائی کر کے اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کا موقع مل جائے گا مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا یہ لوگ ٹھیک کہتے ہیں۔ معاہدہ میں سے رسول اللہ کا لفظ کاٹ دینا چاہئے۔‘‘ آپؐ نے حضرت علیؓ کو فرمایا کہ ’’علی! اس لفظ کو مٹا دو مگر حضرت علیؓ ایسے انسان جو فرمانبرداری اور اطاعت کا نہایت ہی اعلیٰ درجہ کا نمونہ تھے ان کا دل بھی کانپنے لگ گیا۔ ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور انہوں نے کہا یا رسول اللہؐ ! یہ لفظ مجھ سے نہیں مٹایا جاتا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا لاؤ مجھے کاغذ دو اور کاغذ لے کر جہاں رسول اللہ کا لفظ لکھا تھا اسے اپنے ہاتھ سے مٹا دیا۔‘‘ (خطبات محمود جلد20صفحہ379تا381خطبہ فرمودہ 8ستمبر1939ء)
غزوۂ خیبر جو محرم اور صفر سات ہجری میں ہوئی تھی اس کے بارے میں صحیح مسلم کی ایک لمبی روایت ہے۔ حضرت سَلَمَہْ بن اَکْوَع بیان کرتے ہیں کہ جب ہم خیبر پہنچے تو ان کا سردار مَرْحَبْاپنی تلوار لہراتا ہوا نکلا اور وہ کہہ رہا تھا کہ خیبر جانتا ہے کہ میں مَرحب ہتھیار بند بہادر تجربہ کار ہوں جب کہ جنگیں شعلے بھڑکاتی ہوئی آئیں یعنی میری بہادری کا پتہ لگتا ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ اس کے مقابلے کے لیے میرے چچا عامر نکلے اور انہوں نے کہا خیبر جانتا ہے کہ میں عامر ہتھیار بند بہادر خطرات میں اپنے آپ کو ڈالنے والا ہوں۔ راوی کہتے ہیں دونوں نے ضربیں لگائیں۔ مَرحب کی تلوار عامر کی ڈھال پر پڑی اور عامر اس پر نیچے سے وار کرنے لگے کہ ان کی اپنی تلوار ہی ان کو آن لگی اور اس نے ان کی رگ کاٹ دی اور وہ اسی سے شہید ہو گئے۔ سَلَمَہْ کہتے ہیں۔ میں نکلا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض صحابہ کہہ رہے تھے کہ عامر کے عمل باطل ہو گئے اس نے اپنے آپ کو قتل کیا۔ وہ کہتے ہیں۔ مَیں روتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ میں نے کہا یا رسول اللہؐ ! عامرؓ کے عمل ضائع ہو گئے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کس نے کہا؟ وہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا آپؐ کے بعض صحابہ نے۔ آپؐ نے فرمایا جس نے یہ کہا غلط کہا۔ اس کے لیے تو دوہرا اجر ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حضرت علیؓ کی طرف بھیجا۔ ان کی آنکھیں آئی ہوئی تھیں۔ آپؐ نے فرمایا: میں اس شخص کو جھنڈا دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے یا اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں مَیں حضرت علیؓ کے پاس گیا اور انہیں ساتھ لے کر چل پڑا۔ ان کی آنکھیں آئی ہوئی تھیں۔ یعنی بیماری سے آنکھیں ابلی ہوئی تھیں، سوجی ہوئی تھیں۔ یہاں تک کہ میں انہیں لے کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا۔ آپؐ نے ان کی آنکھوں میں لعابِ دہن لگایا۔ وہ ٹھیک ہو گئیں۔ آپؐ نے انہیں جھنڈا دیا اور مَرحب نکلا اور اس نے کہا کہ خیبر جانتا ہے کہ میں مَرحب ہوں۔ ہتھیار بند بہادر تجربہ کار جبکہ جنگیں شعلے بھڑکا رہی ہوتی ہیں۔ حضرت علیؓ نے کہا۔
أَنَا الَّذِی سَمَّتْنِی أُمِّی حَیْدَرَہْ
کَلَیْثِ غَابَاتٍ کَرِیْہِ الْمَنْظَرَہْ
اُوفِیْھِمُ بِالصَّاعِ کَیْلَ السَّنْدَرَہْ
کہ میرا نام میری ماں نے حیدر رکھا ہے۔ ہیبت ناک شکل والے شیر کی مانند جو جنگلوں میں ہوتا ہے۔ میں ایک صاع کے بدلے سَنْدَرَہ دیتا ہوں۔ یہ عربی کا ایک محاورہ ہے جس کا مفہوم یہ ہے۔ اس طرح بھی ہوسکتا ہے کہ سیر کے مقابلے میں سواسیر جو اردو محاورہ استعمال ہوتا ہے کہ ایسے کو تیسا۔ اینٹ کا جواب پتھر سے دینے والا۔ سندرہ کے لفظی معنی ’مِکْیَالٌ وَاسِع‘ یعنی بہت بڑا پیمانہ ہے۔ صاع صرف تین سیر کا ہوتا ہے سَنْدَرَہ بڑا ہوتا ہے۔ پھر راوی کہتے ہیں کہ یہ کہنے کے بعد حضرت علیؓ نےمَرحب کے سر پر ضرب لگائی اور قتل کر دیا اور حضرت علیؓ کے ہاتھوں فتح ہوئی۔ یہ بھی مسلم کی روایت ہے۔ (سیرت خاتم النبیین از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے صفحہ837) (صحیح مسلم کتاب الجہاد و السیر باب غزوہ ذی قرد و غیرھا حدیث نمبر 4678، اردو ترجمہ صحیح مسلم جلد 9 صفحہ 240 مع حاشیہ، شائع کردہ نور فاؤنڈیشن ربوہ)
حضرت مصلح موعودؓ اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’خیبر کے دن حضرت علیؓ کو موقع ملا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آج مَیں اسے موقع دوں گا جو خدا سے محبت کرتا ہے اور جس سے خداتعالیٰ محبت کرتا ہے اور تلوار اس کے سپرد کروں گا جسے خدا تعالیٰ نے فضیلت دی ہے۔ حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ میں اس مجلس میں موجود تھا اور اپنا سر اونچا کرتا تھا کہ شاید رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے دیکھ لیں اور مجھے دے دیں۔ مگر آپؐ دیکھتے اور چپ رہتے۔ مَیں پھر سر اونچا کرتا اور آپؐ پھر دیکھتے اور چپ رہتے حتی کہ علیؓ آئے، ان کی آنکھیں سخت دکھتی تھیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ علی! آگے آؤ۔ وہ آپ کے پاس پہنچے تو آپؐ نے لعاب دہن ان کی آنکھوں پر لگایا اور فرمایا: اللہ تعالیٰ تمہاری آنکھوں کو شفا دے۔ یہ تلوار لو جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے سپرد کی ہے۔‘‘ (خطبات محمود جلد 19 صفحہ614 خطبہ فرمودہ 2ستمبر 1938ء)
ایک اَور جگہ بھی حضرت مصلح موعودؓ اس کا اس طرح بیان فرماتے ہیں کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ سے واپس آنے کے قریباً پانچ ماہ بعد یہ فیصلہ کیا کہ یہودی خیبر سے جو مدینہ سے صرف چند منزل کے فاصلہ پر تھا اور جہاں سے مدینہ کے خلاف آسانی سے سازش کی جا سکتی تھی نکال دئیے جائیں۔ چنانچہ آپؐ نے سولہ سو صحابہؓ کے ساتھ اگست 628ء میں خیبر کی طرف کوچ فرمایا۔ خیبر ایک قلعہ بند شہر تھا اور اس کے چاروں طرف چٹانوں کے اوپر قلعے بنے ہوئے تھے۔ ایسے مضبوط شہر کو اتنے تھوڑے سے سپاہیوں کے ساتھ فتح کر لینا کوئی آسان بات نہ تھی۔ ارد گرد کی چھوٹی چھوٹی چوکیاں تو چھوٹی چھوٹی لڑائیوں کے بعد فتح ہو گئیں۔ لیکن جب یہودی سمٹ سمٹا کر شہر کے مرکزی قلعہ میں آگئے تو اس کے فتح کرنے کی تمام تدابیر بیکار جانے لگیں۔ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ نے بتایا کہ اس شہر کی فتح حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر مقدر ہے۔ آپؐ نے صبح کے وقت یہ اعلان کیا کہ میں اسلام کا سیاہ جھنڈا آج اس کے ہاتھ میں دوں گا جس کو خدا اور اس کا رسول اور مسلمان پیار کرتے ہیں۔ خدا تعالیٰ نے اس قلعہ کی فتح اس کے ہاتھ پر مقدر کی ہے۔ اس کے بعد دوسری صبح آپؐ نے حضرت علیؓ کو بلایا اور جھنڈا ان کے سپرد کیا۔ جنہوں نے صحابہؓ کی فوج کو ساتھ لے کر قلعہ پر حملہ کیا۔ باوجود اس کے کہ یہودی قلعہ بند تھے اللہ تعالیٰ نے حضرت علیؓ اور دوسرے صحابہؓ کو اس دن ایسی قوت بخشی کہ شام سے پہلے پہلے قلعہ فتح ہو گیا۔‘‘ (دیباچہ تفسیر القران، انوار العلوم جلد 20صفحہ 325-326)
پھر ایک اَور جگہ حضرت علیؓ کا ذکر کرتے ہوئے اسی واقعہ کے تعلق میں حضرت مصلح موعودؓ نے اس طرح فرمایا ہے کہ ’’خیبر کی فتح کا سوال پیدا ہوا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ کو بلایا اور لشکر اسلامی کا علم آپؓ کے سپرد کرنا چاہا مگر حضرت علیؓ کی آنکھیں دُکھ رہی تھیں‘‘ یہاں آنکھوں کے دکھنے کا بھی ذکر آ گیا ’’اور شدت تکلیف کی وجہ سے وہ سوجی ہوئی تھیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ کو اس حالت میں دیکھاتو آپؐ نے علیؓ سے فرمایا ادھر آؤ۔ وہ سامنے آئے تو آپؐ نے اپنا لعاب دہن حضرت علیؓ کی آنکھوں پر لگایا اور ان کی آنکھیں اسی وقت اچھی ہو گئیں۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد 8 صفحہ 398-399)
پھر ایک اَور جگہ آنحضرتؐ کے دست شفا کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں ایسے نظارے نظر آتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے غیر معمولی طور پر شفاء بعض مریضوں کو ملتی ہے بغیر اس کے کہ طبعی ذرائع استعمال ہوں یا ان موقعوں پر شفاء ملتی ہے کہ جب طبعی ذرائع مفیدنہیں ہوا کرتے۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے واقعات میں سے اس قسم کی شفاء کی ایک مثال جنگ خیبر کے وقت ملتی ہے۔ خیبر کی جنگ کے دوران میں ایک دن آپؐ نے صحابہ سے فرمایا کہ خیبر کی فتح اس شخص کے لئے مقدر ہے جس کے ہاتھ میں میں جھنڈا دوں گا۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں جب وہ وقت آیا تو میں نے گردن اونچی کر کر کے دیکھنا شروع کیا کہ شاید مجھے ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جھنڈا دیں۔ مگر آپؐ نے انہیں اس کام کے لئے مقرر نہ فرمایا۔ اتنے میں حضرت علیؓ آئے اور ان کی آنکھیں سخت دکھ رہی تھیں۔ آپؐ نے ان کی آنکھوں پر اپنا لعاب دہن لگا دیا اور آنکھیں فوراً اچھی ہو گئیں اور آپؐ نے ان کے ہاتھ میں جھنڈا دے کر خیبر کی فتح کا کام ان کے سپرد کیا۔‘‘ (ہستی باری تعالیٰ، انوار العلوم جلد 6صفحہ 327)
حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ ’’حضرت علیؓ کی ایک مثال بڑی ایمان افزاء ہے۔ جنگ خیبر میں ایک بہت بڑے یہودی جرنیل کے مقابلہ کے لئے نکلے اور بڑی دیر تک اس سے لڑتے رہے کیونکہ وہ بھی لڑائی کے فن کا ماہر تھا اس لئے کافی دیر تک مقابلہ کرتا رہا، آخر حضرت علیؓ نے اسے گرا لیا اور آپ اس کی چھاتی پر چڑھ کر بیٹھ گئے اور ارادہ کیا کہ تلوار سے اس کی گردن کاٹ دیں۔ اتنے میں اس یہودی نے آپؓ کے منہ پر تھوک دیا۔ اس پر حضرت علیؓ اسے چھوڑ کر الگ کھڑے ہو گئے۔ وہ یہودی سخت حیران ہوا کہ انہوں نے یہ کیا کیا؟‘‘ کہ حضرت علیؓ نے مجھ پر قابو پا لیا تھا پھر مجھے چھوڑ دیا۔ ’’جب یہ میرے قتل پر قادر ہو چکے تھے تو انہوں نے مجھے چھوڑ کیوں دیا؟ چنانچہ اس نے حضرت علیؓ سے دریافت کیاکہ آپ مجھے چھوڑ کر الگ کیوں ہو گئے؟ آپؓ نے فرمایا کہ میں تم سے خدا کی رضا کے لئے لڑ رہا تھا مگر جب تم نے میرے منہ پر تھوک دیا تو مجھے غصہ آ گیا اور میں نے سمجھا کہ اب اگر میں تم کو قتل کروں گا تو میرا قتل کرنا اپنے نفس کے لئے ہو گا، خدا کے لئے نہیں ہو گا۔ پس میں نے تمہیں چھوڑ دیا تا کہ میرا غصہ فرو ہو جائے اور میرا تمہیں قتل کرنا اپنے نفس کے لئے نہ رہے۔ یہ کتنا عظیم الشان کمال ہے کہ عین جنگ کے میدان میں انہوں نے ایک شدید دشمن کو محض اس لئے چھوڑ دیا تا کہ ان کا قتل کرنا اپنے نفس کے غصہ کی وجہ سے نہ ہو بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہو۔‘‘ (سیر روحانی نمبر2، انوار العلوم جلد 16صفحہ74)
روایت میں آتا ہے کہ حضرت علیؓ نے سورۂ توبہ کی ابتدائی آیات کا حج کے موقع پر اعلان کیا۔ یہ روایت اس طرح ہے۔ ابوجعفر محمد بن علی سے روایت ہے کہ جب سورۂ براءت (سورۂ توبہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکرؓ کو بطور امیر حج بھجوا چکے تھے۔ آپؐ کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہؐ ! اگر آپؐ یہ سورت حضرت ابوبکرؓ کی طرف بھیج دیں تاکہ وہ وہاں پڑھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے اہل بیت میں سے کسی شخص کے سوا کوئی یہ فریضہ میری طرف سے ادانہیں کر سکتا۔ پھر آپؐ نے حضرت علیؓ کو بلوایا اور انہیں فرمایا: سورۂ توبہ کے آغاز میں جو بیان ہوا ہے اس کو لے جاؤ اور قربانی کے دن جب لوگ منٰیمیں اکٹھے ہوں تو ان میں اعلان کر دو کہ جنت میں کوئی کافر داخل نہیں ہوگا اور اس سال کے بعد کسی مشرک کو حج کرنے کی اجازت نہ ہو گی۔ نہ ہی کسی کو ننگے بدن بیت اللہ کے طواف کی اجازت ہو گی اور جس کسی کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی معاہدہ کیا ہے اس کی مدت پوری کی جائے گی۔ حضرت علی بن ابوطالبؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی عَضْبَاء پر سوار ہو کر روانہ ہوئے۔ راستہ میں ہی حضرت ابوبکرؓ سے جا ملے۔ جب حضرت ابوبکرؓ نے حضرت علیؓ کو راستے میں دیکھا تو کہا کہ آپؓ کو امیر مقرر کیا گیا ہے یا آپؓ میرے ماتحت ہوں گے؟ حضرت علیؓ نے کہا کہ آپؓ کے ماتحت۔ پھر دونوں روانہ ہوئے۔ حضرت ابوبکرؓ نے لوگوں کی حج کے امور پر نگرانی کی اور اس سال اہلِ عرب نے اپنی انہی جگہوں پر پڑاؤ کیا ہوا تھا جہاں وہ زمانہ جاہلیت میں پڑاؤ کیا کرتے تھے۔ جب قربانی کا دن آیا تو حضرت علیؓ کھڑے ہوئے اور لوگوں میں اس بات کا اعلان کیا جس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا اور کہا اے لوگو! جنت میں کوئی کافر داخل نہیں ہو گا اور اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہیں کرے گا۔ نہ ہی کسی کو ننگے بدن بیت اللہ کے طواف کی اجازت ہو گی اور جس کسی کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی معاہدہ کیا ہے اس کی مدت پوری کی جائے گی اور لوگوں کو اس اعلان کے دن سے چار ماہ تک کی مہلت دی تا کہ ہر قوم اپنے امن کی جگہوں یا اپنے علاقوں کی طرف لَوٹ جائے۔ پھر نہ کسی مشرک کے لیے کوئی عہد یا معاہدہ ہو گا اور نہ ذمہ داری سوائے اس عہد یا معاہدہ کے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کسی مدت تک ہو۔ یعنی جس معاہدے کی مدت ابھی باقی ہے ان معاہدوں کے علاوہ کوئی نیا معاہدہ نہیں ہو گا۔ تو اس کا مقررہ مدت تک پاس کیا جائے گا۔ پھر اس سال کے بعدنہ کسی مشرک نے حج کیا اور نہ کسی نے ننگے بدن حج کیا۔ پھر وہ دونوں (حضرت علیؓ اور حضرت ابوبکرؓ ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔ (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام۔ حج ابی بکر بالناس سنۃ تسع واختصاص النبیﷺ علی بن ابی طالب… صفحہ 832 دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 2001ء)
یہ روایت جو اَب میں پڑھنے لگا ہوں پہلے بھی ایک صحابی کے ذکر میں بیان ہو چکی ہے لیکن یہاں حضرت علیؓ کے حوالے سے بھی بیان کرتا ہوں۔ فتح مکہ کے موقعےکی ہے جو رمضان 8؍ ہجری میں جنوری 630ء کا واقعہ ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے۔ انہوں نے کہاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے، زبیرؓ اور مقداد بن اسودؓ کو بھیجا۔ آپؐ نے فرمایا تم چلے جاؤ تم روضہ خاخ، یہ فتح مکہ سے پہلے کا واقعہ ہے جو عورت کا واقعہ بیان کیا جاتا ہے۔ تو آپؐ نے فرمایا کہ تم چلے جاؤ۔ جب تم روضہ خاخ ایک جگہ ہے وہاں پہنچو تو وہاں ایک شتر سوار عورت ہو گی اور اس کے پاس ایک خط ہے تم وہ خط اس سے لے لو۔ ہم چل پڑے۔ ہمارے گھوڑے سرپٹ دوڑتے ہوئے ہمیں لے گئے۔ جب ہم روضہ خاخ میں پہنچے تو ہم کیا دیکھتے ہیں کہ وہاں ایک شتر سوار عورت موجود ہے۔ ہم نے اسے کہا کہ خط نکالو۔ وہ کہنے لگی کہ میرے پاس کوئی خط نہیں ہے۔ ہم نے کہا تمہیں خط نکالنا ہو گا ورنہ ہم تمہارے کپڑے اتار دیں گے اور تلاشی لیں گے۔ اس پر اس نے وہ خط اپنے جُوڑے سے نکالا اور ہم وہ خط رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے۔ دیکھا تو اس میں لکھا تھا کہ حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے اہل مکہ کے مشرکوں کے نام۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی ارادہ کی ان کو اطلاع دے رہا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حاطب بن ابی بلتعہ کو بلایا اور پوچھا حاطب یہ کیا ہے؟ اس نے کہا یارسول اللہؐ !میرے متعلق جلدی نہ فرمائیں۔ میں ایک ایسا آدمی تھا جو قریش میں آ کر مل گیا تھا۔ ان میں سے نہ تھا اور دوسرے مہاجرین جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ان کی مکہ میں رشتہ داریاں تھیں جن کے ذریعہ سے وہ اپنے گھر بار اور مال و اسباب کو بچاتے رہے ہیں۔ میں نے چاہا کہ ان مکہ والوں پر کوئی احسان کر دوں کیونکہ ان میں کوئی رشتہ داری تو میری تھی نہیں شاید وہ اس احسان ہی کی وجہ سے میرا پاس کریں اور میں نے کسی کفر یا ارتداد کی وجہ سے یہ نہیں کیا، (نہ میں نے انکار کیا ہے، نہ مرتد ہوا ہوں، نہ میں نے اسلام کو چھوڑا ہے، نہ میں منافق ہوں۔ میں نے یہ کام اس لیے نہیں کیا۔) اسلام قبول کرنے کے بعد کفر کبھی پسندنہیں کیا جا سکتا۔ (میں آپ کو یقین دلاتا ہوں ) یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس نے تم سے سچ بیان کیا ہے۔ یعنی ان کی بات مان لی۔ (سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے صفحہ840) (ماخوذ از صحیح البخاری کتاب الجہاد باب الجاسوس حدیث 3007، اردو ترجمہ صحیح البخاری از حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب جلد 5 صفحہ 350 تا 352 شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ)
اس واقعہ کا ذکر فرماتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں۔ ’’صرف ایک کمزور صحابیؓ نے مکہ والوں کو خط لکھ دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دس ہزار کا لشکر لے کر نکلے ہیں۔ مجھے معلوم نہیں آپؐ کہاں جا رہے ہیں لیکن مَیں قیاس کرتا ہوں کہ غالباً وہ مکہ کی طرف آ رہے ہیں۔ میرے مکہ میں بعض عزیز اور رشتہ دار ہیں مَیں امید کرتا ہوں کہ تم اس مشکل گھڑی میں ان کی مدد کرو گے اور انہیں کسی قسم کی تکلیف نہیں پہنچنے دو گے۔ یہ خط ابھی مکہ نہیں پہنچا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کے وقت حضرت علیؓ کو بلایا اور فرمایا تم فلاں جگہ جاؤ۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ وہاں ایک عورت اونٹنی پر سوار تم کو ملے گی اس کے پاس ایک خط ہو گا جو وہ مکہ والوں کی طرف لے جا رہی ہے۔ تم وہ خط اس عورت سے لے لینا اور فوراً میرے پاس آجانا۔ جب وہ جانے لگے تو آپؐ نے فرمایا۔ دیکھنا وہ عورت ہے اس پر سختی نہ کرنا۔ اصرار کرنا اور زور دینا کہ تمہارے پاس خط ہے لیکن اگر پھر بھی وہ نہ مانے اور منتیں سماجتیں بھی کام نہ آئیں تو پھر تم سختی بھی کر سکتے ہو اور اگر اسے قتل کرنا پڑے تو قتل بھی کر سکتے ہو لیکن خط نہیں جانے دینا۔ چنانچہ حضرت علیؓ وہاں پہنچ گئے۔ عورت موجود تھی۔ وہ رونے لگ گئی اور قسمیں کھانے لگ گئی کہ کیا میں غدار ہوں؟ دھوکے باز ہوں؟ آخر کیا ہے؟ تم تلاشی لے لو۔ چنانچہ انہوں نے اِدھر اُدھر دیکھا، اس کی جیبیں ٹٹولیں، سامان دیکھا مگر خط نہ ملا۔ صحابہؓ کہنے لگے معلوم ہوتا ہے خط اس کے پاس نہیں۔ حضرت علیؓ کو جوش آ گیا۔ آپؓ نے کہا تم چپ رہو اور بڑے جوش سے کہا کہ خدا کی قسم! رسول کبھی جھوٹ نہیں بول سکتا۔ چنانچہ انہوں نے اس عورت سے کہا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ہے کہ تیرے پاس خط ہے اور خدا کی قسم! میں جھوٹ نہیں بول رہا۔ پھر آپؓ نے تلوار نکالی اور کہا یا تو سیدھی طرح خط نکال کر دے دے ورنہ یاد رکھ اگر تجھے ننگا کر کے بھی تلاشی لینی پڑی تو میں تجھے ننگا کروں گا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ بولا ہے اور تُو جھوٹ بول رہی ہے۔ چنانچہ وہ ڈر گئی اور جب اسے ننگا کرنے کی دھمکی دی گئی تو اس نے جھٹ اپنی مینڈھیاں کھولیں۔ ان مینڈھیوں میں اس نے خط رکھا ہوا تھا جو اس نے نکال کر دے دیا۔‘‘ (سیر روحانی (7)، انوار العلوم جلد 24صفحہ 262-263)
پھر ایک جگہ اس واقعے کی تفصیل حضرت مصلح موعودؓ اس طرح بیان فرماتے ہیں کہ ’’آنحضرتﷺ کے زمانہ میں ایک صحابی نے اپنے رشتہ داروں کو مکہ پر مسلمانوں کے حملہ کی خبر پوشیدہ طور پر پہنچانی چاہی تا کہ اس ہمدردی کے اظہار کی وجہ سے وہ اس کے رشتہ داروں سے نیک سلوک کریں۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو الہام کے ذریعہ یہ بات بتا دی گئی۔ آپؐ نے حضرت علیؓ اور چند ایک اَور صحابہ کو بھیجا کہ فلاں جگہ ایک عورت ہے اس سے جا کر کاغذ لے آؤ۔ انہوں نے وہاں پہنچ کر اس عورت سے کاغذ مانگا تو اس نے انکار کر دیا۔ بعض صحابہ نے کہا کہ شاید رسول کریمؐ کو غلطی لگی ہے۔ حضرت علیؓ نے کہا نہیں۔ آپؐ کی بات کبھی غلط نہیں ہو سکتی۔ جب تک اس سے کاغذ نہ ملے میں یہاں سے نہ ہٹوں گا۔ انہوں نے اس عورت کو ڈانٹا تو اس نے وہ کاغذ نکال کر دے دیا۔‘‘ (خطبات محمود جلد 4 صفحہ 182، 183خطبہ فرمودہ 25ستمبر1914ء)
فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مسجد الحرام میں تشریف فرما تھے تو حضرت علیؓ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان کے ہاتھ میں کعبہ کی چابی تھی۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہمارے لیےسِقَایَہیعنی حج کے موقع پر پانی پلانے کی ڈیوٹی کے ساتھحِجَابَہ، خانہ کعبہ کو کھولنے اور بند کرنے کی ڈیوٹی کی ذمہ داریاں سونپ دیں۔ آپؐ نے فرمایا عثمان بن طلحہ کدھر ہے؟ اسے بلایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عثمان! یہ تیری چابی ہے۔ آج کا دن نیکی اور وفا کا دن ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ سے فرمایا کہ میں تم لوگوں کو ایسی چیز نہیں دوں گا جس سے تم لوگ مشقت اور تکلیف میں پڑو بلکہ وہ دوں گا جس میں تم لوگوں کے لیے خیر اور برکت ہو گی اور میں تم کو وہ چیز نہیں دوں گا جس کی تم خود ذمہ داری لینا چاہو۔ خود مانگ کے لے رہے ہو تو نہیں (دوں گا)۔ (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ 744دخول الرسول الحرم، مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 2001ء)
حضرت ام ہانی بنت ابی طالبؓ کہتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کے بالائی حصہ میں پڑاؤ فرمایا تو بنی مَخْزُوم میں سے میرے دو سسرالی رشتہ دار بھاگ کر میرے پاس آ گئے۔ حضرت ام ہانیؓ کہتی ہیں کہ میرا بھائی علی میرے پاس آیا اور کہا خدا کی قسم! میں ان دونوں کو قتل کر دوں گا۔ حضرت ام ہانیؓ کہتی ہیں کہ میں نے ان دونوں کے لیے اپنے گھر کا دروازہ بند کر دیا۔ پھر مَیں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مکہ کے بالائی حصہ میں آئی۔ میں نے آپؐ کو پانی کے ایک برتن میں سے غسل کرتے پایا جس میں گوندھے ہوئے آٹے کے نشانات موجود تھے اور آپؐ کی بیٹی حضرت فاطمہؓ ایک کپڑے کے ساتھ آپؐ کے لیے پردہ کیے ہوئے تھیں۔ غسل کے بعد آپؐ نے اپنے کپڑے تبدیل کیے۔ پھر چاشت کے وقت آٹھ رکعت نماز ادا کی۔ پھر آپؐ میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: اے ام ہانیؓ۔ خوش آمدید۔ تمہارا کیسے آنا ہوا؟ انہوں نے ان دونوں آدمیوں اور حضرت علیؓ کے متعلق سارا معاملہ بتایا کہ اس طرح حضرت علیؓ ان کو قتل کرنا چاہتے تھے اور میں ان کو اپنے گھر میں چھپا کے آئی ہوں۔ آپؐ نے فرمایا جن کو تم نے پناہ دی انہیں ہم نے پناہ دی اور جن کو تم نے امان دی ان کو ہم نے بھی امان دی۔ پس وہ ان دونوں کو قتل نہ کرے یعنی رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت علیؓ ان کو قتل نہیں کریں گے۔ (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ 743-744من امر رسول اللّٰہؐ بقتلھم، مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 2001ء)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حُوَیْرَث بن نُقَیدکے قتل کا حکم نامہ جاری فرمایا ہوا تھا کیونکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ میں ایذا پہنچاتا تھا اور آپؐ کی اذیت کے لیے بڑی بڑی باتیں کرتا تھا اور ہجو کیا کرتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباسؓ نے جب حضرت فاطمہؓ اور حضرت اُمّ کلثوم کو مکہ سے مدینہ بھجوانے کے لیے اونٹ پر بٹھایا تو حُوَیْرَثنے اس اونٹ کو گرا دیا تھا۔ حضرت علیؓ نے فتح مکہ کے موقع پر حُوَیْرَث بن نُقَیدکو قتل کیا تھا جبکہ وہ بھاگنے کے لیے نکل چکا تھا۔ (السیرۃ الحلبیۃ جلد 3صفحہ 131 باب ذکر مغازیہؐ، مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان2002ء)
غزوۂ حنین جو شوال آٹھ ہجری میں ہوئی۔ روایت میں آتا ہے کہ غزوۂ حنین کے موقعے پر مہاجرین کا جھنڈا حضرت علیؓ کے پاس تھا۔ غزوۂ حنین کے دوران جب گھمسان کی جنگ ہوئی اور کفار کے سخت حملے کی وجہ سے آپؐ کے گرد صرف چند صحابہ ہی رہ گئے تو ان چند صحابہ میں حضرت علیؓ بھی شامل تھے۔ (سیرت خاتم النبیین از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے صفحہ840) (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء2 صفحہ325 ذکر عدد مغازی رسول اللّٰہؐ و سرایاہ و اسمائھا و تواریخھا و جمل ما کان فی کل غزاۃ و سریۃ منھا/ غزوۃ رسول اللّٰہ الیٰ حنین مطبوعہ داراحیاء التراث بیروت لبنان 1996ء)
غزوۂ حنین میں مشرکوں کی صفوں کے آگے سرخ اونٹ پر سوار ایک شخص تھا جس کے ہاتھ میں ایک سیاہ پرچم تھا۔ یہ پرچم ایک بہت لمبے نیزے سے باندھا گیا تھا۔ بنو ہوازن کے لوگ اس شخص کے پیچھے تھے۔ اگر کوئی شخص اس کی زد میں آ جاتا تو وہ فوراً اس کو نیزہ مار دیتا اور اگر وہ اس کے نیزے کی زد سے بچ جاتا تو وہ اپنے پیچھے والوں کے لیے نیزہ اٹھا کر اشارہ کرتا اور وہ لوگ اس پر ٹوٹ پڑتے اور وہ سرخ اونٹ والے کے پیچھے رہتے۔ یہ شخص اسی طرح حملے کرتا پھر رہا تھا کہ اچانک حضرت علیؓ اور ایک انصاری شخص اس کی طرف متوجہ ہوئے اور اسے قتل کرنے کے لیے بڑھے۔ حضرت علیؓ نے اس کی پشت کی طرف سے آ کر اس کے اونٹ کے کولہوں پر وار کیا جس کے نتیجہ میں اونٹ الٹے منہ گرا۔ اسی وقت اس انصاری شخص نے اس پر چھلانگ لگائی اور ایسا سخت وار کیا کہ اس کی ٹانگ آدھی پنڈلی سے کٹ گئی۔ اسی وقت مسلمانوں نے مشرکوں پر ایک سخت حملہ کر دیا۔ (السیرۃ الحلبیۃ جلد 3صفحہ 158 باب ذکر مغازیہؐ، مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان2002ء)
سریہ حضرت علیؓ بطرف بنو طَیّٔ کے بارے میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ کو ڈیڑھ سو افراد کے ہمراہ بنو طَیّٔ کے بت فُلْس کو گرانے کے لیے روانہ فرمایا۔ (بنو طَیّٔ کا علاقہ مدینے کے شمال مشرق میں واقع تھا۔) آپؐ نے اس سریہ کے لیے حضرت علیؓ کو ایک کالے رنگ کا بڑا جھنڈا اور سفید رنگ کا چھوٹا پرچم عطا فرمایا۔ حضرت علیؓ صبح کے وقت آل حاتم پر حملہ آور ہوئے اور ان کے بت فُلْس کو منہدم کر دیا۔ حضرت علیؓ بنو طَیّٔ سے بہت سارا مالِ غنیمت اور قیدی لے کر مدینہ واپس آئے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء 2 صفحہ 331سریہ علی بن ابی طالب الی الفلس … داراحیاء التراث العربی بیروت لبنان 1996ء)
غزوۂ تبوک جو رجب 9؍ ہجری میں ہوا اس کے بارے میں روایت ہے جو مُصْعَب بن سعد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تبوک کے لیے نکلے اور حضرت علیؓ کو مدینہ میں اپنا قائمقام مقرر فرمایا۔ حضرت علیؓ نے کہا: کیا آپؐ مجھے بچوں اور عورتوں میں پیچھے چھوڑ کر جاتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: کیا تم خوش نہیں ہوتے کہ تمہارا مقام مجھ سے وہی ہے جو ہارون کا موسیٰ سے تھا مگر یہ بات ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ (سیرت خاتم النبیین از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے صفحہ842) (صحیح البخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَۃِ تَبُوکَ وَہِیَ غَزْوَۃُ العُسْرَۃِ حدیث 4416)
حضرت مصلح موعودؓ اس واقعہ کو بیان فرماتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ جنگ پر گئے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنے پیچھے قائمقام بنا گئے۔ پیچھے صرف منافق ہی منافق رہ گئے تھے۔ اس وجہ سے وہ گھبرا کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ مجھے بھی لے چلیں۔ آپؐ نے تسلی دی اور فرمایا۔ اَلَا تَرْضٰی اَنْ تَکُوْنَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ ھَارُوْنَ مِنْ مُّوْسٰی اِلَّا اَنَّہٗ لَیْسَ نَبِیٌّ بَعْدِیْ۔ یعنی اے علیؓ ! تمہیں مجھ سے ہارونؑ اور موسیٰؑ کی نسبت حاصل ہے۔ ایک دن ہارونؑ کی طرح تم بھی میرے خلیفہ ہو گے لیکن باوجود اس نسبت کے تم نبی نہ ہوگے۔‘‘ (خلافت راشدہ، انوار العلوم جلد 15صفحہ579)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت علیؓ کو یمن کی طرف بھیجنے کے بارے میں آتا ہے کہ دس ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ کو یمن کی طرف بھجوایا۔ اس سے قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خالد بن ولیدؓ کو ان کی طرف بھیجا کہ وہ ان کو اسلام کی طرف بلائیں، یعنی یمن والوں کی طرف، لیکن ان لوگوں نے انکار کر دیا پھر اس پر آپؐ نے حضرت علیؓ کو بھیجا۔ حضرت علیؓ نے اہل یمن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط پڑھ کر سنایا۔ پھر پورے ہمدان نے ایک ہی دن میں اسلام قبول کر لیا۔ حضرت علیؓ نے ان کے قبول اسلام کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خط لکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ یہ جملہ دُہرایا کہ ہمدان پر سلامتی ہو۔ ہمدان یمن میں مدینہ کے جنوب مشرق میں مدینہ سے تقریباً ساڑھے گیارہ سو کلو میٹر دور واقع ایک شہر ہے۔ پھر اس کے بعد اہل یمن نے بھی اسلام قبول کر لیا اور حضرت علیؓ نے اس کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لکھا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدۂ شکر ادا کیا۔ (الکامل فی التاریخ جلد 2 صفحہ 168 ذکر ارسال علی الی الیمن و اسلام ھمدان، مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 2006ء) (غزوات و سرایا از علامہ محمد اظہر فرید شاہ صفحہ 550مطبوعہ فرید پبلشرز ساہیوال2018ء)
حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یمن کی طرف قاضی بنا کر بھیجا تو میں نے عرض کیا یارسول اللہؐ ! آپؐ مجھے بھیج رہے ہیں اور میں نوجوان ہوں اور مجھے قضا کا کوئی علم بھی نہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یقیناً اللہ تیرے دل کو ضرور ہدایت دے گا اور تیری زبان کو ثبات بخشے گا۔ پس جب تیرے سامنے دو جھگڑا کرنے والے بیٹھیں تو فیصلہ نہ کرنا یہاں تک کہ تو دوسرے سے بھی سن لے جیسا کہ تُو نے پہلے سے سنا۔ ایسا کرنا اس بات کے زیادہ قریب ہے کہ تیرے لیے فیصلہ واضح ہو جائے۔ حضرت علیؓ کہتے ہیں کہ اس کے بعد مجھے فیصلہ کرنے میں کبھی کوئی شک پیدا نہیں ہوا۔ (سنن ابوداؤد کتاب الاقضیۃ باب کیف القضاء حدیث نمبر 3582)
حضرت عَمرو بِن شَاس اَسْلَمِیؓ جو صلح حدیبیہ کے شاملین میں سے تھے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہمراہ یمن کی طرف روانہ ہوا۔ سفر کے دوران انہوں نے میرے ساتھ سختی کی یہاں تک کہ میں اپنے دل میں ان کے بارے میں کچھ محسوس کرنے لگا۔ پس جب میں یمن سے واپس آیا تو میں نے ان کے خلاف مسجد میں شکایت کی یہاں تک کہ یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ گئی۔ ایک دن مَیں مسجد میں داخل ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چند صحابہ کے ساتھ تشریف فرما تھے۔ جب آپؐ کی نظر مجھ پر پڑی تو آپؐ نے مجھے غور سے دیکھا۔ وہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تیز نظر سے دیکھا یہاں تک کہ جب میں بیٹھا تو آپؐ نے فرمایا: اے عَمرو! خدا کی قَسم! تو نے مجھے اذیت دی ہے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! مَیں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ آپ کو تکلیف پہنچاؤں۔ آپؐ نے فرمایا: کیوں نہیں جس نے علیؓ کو اذیت دی تو اس نے مجھے اذیت دی۔ یہ مسند احمد بن حنبل کی روایت ہے۔ (مسند احمد بن حنبل جلد05 صفحہ 478-479حدیث عمرو بن شاس حدیث: 16056عالم الکتب بیروت 1998ء)
حضرت ابو سعید خدریؓ بیان کرتے ہیں۔ یہ روایت جو میں نے پہلے پڑھی ہے وہ مسند کی ہے۔ اگلی ایک روایت یہ ہے کہ حضرت ابوسعید خدریؓ نے بیان کیا کہ ایک موقع پر لوگوں نے حضرت علیؓ کی شکایت کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں خطاب کے لیے کھڑے ہوئے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا، اے لوگو ! تم علی کی شکایت نہ کرو۔ خدا کی قسم ! وہ اللہ کی ذات کے بارے میں بہت ڈرنے والا ہے یا فرمایا وہ اللہ کے رستے میں بہت ڈرنے والا ہے اس بات سے کہ اس کی شکایت کی جائے۔ (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ867-868 موافاۃ علی فی قفولہ من الیمن رسول اللّٰہ فی الحج، دار الکتب العلمیۃ 2001ء)
یہ ذکرابھی چل رہا ہے۔ ان شاء اللہ آئندہ بھی بیان ہو گا۔ آج بھی میں دعا کی طرف توجہ دلانی چاہتا ہوں۔ گذشتہ جمعے الجزائر کے بارے میں ذکر نہیں ہوا تھا وہاں بھی احمدیوں پر کافی سخت حالات ہیں اور بعض کو اسیر بھی بنایا گیا ہے۔ ان کے لیے بھی دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کے بھی حالات میں آسانی پیدا کرے اور اسیروں کی جلد رہائی کے بھی سامان ہوں اور وہاں کے جو سختی کے حالات ہیں حکومت کو بھی عقل دے کہ وہ انصاف سے کام لیتے ہوئے احمدیوں کے حق ادا کرنے والی ہو۔ اسی طرح پاکستان کے حالات بھی سختی کی طرف ہیں۔ میں نے کہا تھا انفرادی طور پر بعض افسران ایسے ہیں ان کے لیے بھی دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ اگر ان مولویوں اور افسران کو عقل نہیں دینا چاہتا یا ان کو عقل نہیں آئے گی یا ان کا مقدر ہی یہی ہے کہ وہ اسی طرح کرتے رہیں اور اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں آئیں تو پھر اللہ تعالیٰ جلد ان کی پکڑ کے سامان پیدا فرمائے اور احمدیوں کے لیے آسانیاں پیدا فرمائے۔
نماز کے بعد مَیں جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا جو رشید احمد صاحب ابن محمد عبداللہ صاحب ربوہ کا ہے۔ یہ طاہر ندیم صاحب جو ہمارے عربی ڈیسک کے مربی ہیں ان کے والد تھے۔ 28؍اکتوبر کو 76سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
ان کے خاندان میں احمدیت ان کے دادا حضرت عبدالغفور صاحب کے ذریعے آئی تھی جنہوں نے اپنے خالہ زاد حضرت مولوی اللہ دتہ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ 92-1891ء میں قادیان جا کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دستی بیعت کی تھی۔ حضرت مولوی اللہ دتہ صاحب رضی اللہ عنہ پڑھے لکھے عالم تھے اور آپ کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ دعویٰ سے پہلے بھی میل ملاقات تھی۔ آپ نے خواب میں دیکھا کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا مسیح موعودعلیہ السلام نے ہاتھ میں پکڑا ہوا ہے۔ چنانچہ حضرت مولوی اللہ دتہ صاحب اپنے خالہ زاد حضرت مولوی عبدالغفور صاحب جو مرحوم کے دادا تھے ان کو ساتھ لے کر قادیان گئے اور دونوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کر لی۔ بعد میں مولوی اللہ دتہ صاحب کی تبلیغ سے علی پور اور موضع حسن پور ملتان میں بہت سے لوگ احمدیت میں شامل ہوئے۔ ایک لمبا عرصہ تک مرحوم کو اپنی جماعت میں، ضلع بہاولپور میں ان کی جماعت تھی، اس میں سیکرٹری مال کے طور پر خدمت کی توفیق ملی۔ مرحوم بڑے نیک، صالح، شریف النفس، مہمان نواز، ایک ہمدرد انسان تھے۔ رشتہ داروں اور اہل محلہ سے غریبوں سے تعلق رکھنے والے تھے۔ غریبوں کا خاموشی سے خیال رکھنے والے تھے۔ ان کے لواحقین میں ان کی اہلیہ صدیقہ بیگم صاحبہ ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی قادر بخش صاحب کی نواسی ہیں۔ اور مرحوم اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ اس کے علاوہ ان کے لواحقین میں، ان کے پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ ان کے بچے تین بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔ اور ایک بیٹے توجیسا کہ میں نے کہا وقفِ زندگی ہیں۔ یہاں مربی سلسلہ ہیں۔ عربی ڈیسک میں خدمات بجا لا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند کرے۔
(الفضل انٹرنیشنل 01؍جنوری 2021ءصفحہ5تا10)
جبرئیلؑ نے رسول اللہﷺ سے علیؓ کی تعریف کی تو آپؐ نے فرمایا کہ علی مجھ سےہے اور مَیں علی سے ہوں۔ اس پر جبرئیلؑ نے کہا مَیں آپ دونوں میں سے ہوں۔
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفۂ راشد اور داماد ابو تراب حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے …یہ اعلان کیا کہ میں اسلام کا سیاہ جھنڈا آج اس کے ہاتھ میں دوں گا جس کو خدا اور اس کا رسول اور مسلمان پیار کرتے ہیں۔ خدا تعالیٰ نے اس قلعہ کی فتح اس کے ہاتھ پر مقدر کی ہے۔ اس کے بعد دوسری صبح آپؐ نے حضرت علیؓ کو بلایا اور جھنڈا ان کے سپرد کیا جنہوں نے صحابہؓ کی فوج کو ساتھ لے کر قلعہ پر حملہ کیا۔ باوجود اس کے کہ یہودی قلعہ بند تھے اللہ تعالیٰ نے حضرت علیؓ اور دوسرے صحابہؓ کو اس دن ایسی قوت بخشی کہ شام سے پہلے پہلے قلعہ فتح ہو گیا۔
غزوۂ تبوک رجب 9 ہجری کے موقعے پر نبی کریمﷺ نے حضرت علیؓ کو مدینے میں اپنا قائم مقام مقرر فرمایا۔
رشید احمد صاحب ابن محمد عبداللہ صاحب ربوہ کا ذکر ِخیر اور نماز ِجنازہ غائب۔
الجزائر اور پاکستان میں احمدیوں کی شدید مخالفت کے پیش نظر خصوصی دعا کی تحریک۔
فرمودہ 11؍دسمبر2020ء بمطابق 11؍فتح1399 ہجری شمسی، بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔