بدری اصحاب نبویؐ کی سِیرِ مبارکہ: حضرت علیؓ
خطبہ جمعہ 15؍ جنوری 2021ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر چل رہا تھا آج بھی آپؓ کا ذکر ہی ہو گا اور آج آپ کے بارے میں جو معلومات، جو مواد میں نے اکٹھا کیا ہوا تھا وہ مکمل ہو جائے گا۔ ان شاء اللہ۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں ’’حضرت امام حسین صاحبؓ نے ایک دفعہ سوال کیا‘‘ یعنی حضرت علیؓ سے ’’کہ آپ مجھ سے محبت کرتے ہیں؟ حضرت علیؓ نے فرمایا ہاں۔ حضرت حسین علیہ السلام نے اس پر بڑا تعجب کیا اور کہا کہ ایک دل میں دو محبتیں کس طرح جمع ہو سکتی ہیں؟ پھر حضرت امام حسین علیہ السلام نے کہا کہ وقت مقابلہ پر آپؓ کس سے محبت کریں گے؟فرمایا‘‘ (حضرت علیؓ نے فرمایا) ’’اللہ سے۔‘‘ (ملفوظات جلد 7 صفحہ 57)
اس واقعہ کا ذکر فرماتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ
’’حضرت حسنؓ نے حضرت علیؓ سے ایک سوال کیا کہ آپ کو مجھ سے محبت ہے؟ حضرت علیؓ نے فرمایا ہاں۔ حضرت حسنؓ نے پھر سوال کیا کہ کیا آپ کو خدا تعالیٰ سے بھی محبت ہے؟ حضرت علیؓ نے فرمایا ہاں۔ حضرت حسنؓ نے کہا تب تو آپ ایک رنگ میں شرک کے مرتکب ہوئے۔ شرک اسی کو کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ اس کی محبت میں کسی اور کو شریک بنا لیا جائے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا حسنؓ ! میں شرک کا مرتکب نہیں ہوں۔ مَیں بیشک تجھ سے محبت کرتا ہوں لیکن جب تیری محبت خدا تعالیٰ کی محبت سے ٹکرا جائے تو میں فوراً اسے چھوڑ دوں گا۔‘‘ (قرونِ اولیٰ کی نامور خواتین اور صحابیات کے ایمان افروز … انوار العلوم جلد 21 صفحہ 623)
پھر حضرت مصلح موعودؓ حضرت علیؓ کے بارے میں ایک جگہ ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’حضرت علیؓ کو جب کوئی بڑی مصیبت پیش آتی تو وہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کیا کرتے تھے کہ یَا کھٰیٰعص اِغْفِرْلِیْ۔ یعنی اے کھٰیٰعص! مجھے معاف فرما دے۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد 5صفحہ 17)
اُمّ ہانی کی ایک روایت کے مطابق ان مقطعات کے یہ معنی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کاف قائم مقام صفت کافی کا ہے، ہاءقائم مقام صفت ہادی کا ہے اور عین قائم مقام صفت عالم یا علیم کی ہے اور ص قائم مقام صفت صادق کی ہے۔ (ماخوذ ازتفسیر کبیر جلد 5صفحہ 17)
یعنی اللہ تعالیٰ سے یہ دعا مانگ رہے ہیں کہ اے اللہ! تُو کافی ہے۔ تُو ہادی ہے۔ تُو علیم ہے اور تُو سچا ہے، صادق ہے۔ تیری تمام صفات کا واسطہ ہے کہ مجھے بخش دے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ’’مفسرین حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ایک واقعہ بھی بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے ایک دفعہ اپنے ایک نوکر کو آواز دی مگر وہ نہ بولا۔ آپؓ نے بار بار آواز دی مگر پھر بھی اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ لڑکا اتفاقاً آپؓ کو سامنے نظر آ گیا تو آپ نے اس سے پوچھا مَا لَکَ لَمْ تُجِبْنِی کہ تجھے کیا ہو گیا کہ میں نے تجھے اتنی بار بلایا مگر تُو پھر بھی نہیں بولا۔ قَالَ لِثِقَتِیْ بِحِلْمِکَ وَاَمْنٍ مِنْ عُقُوْبَتِکَ فَاسْتَحْسَنَ جَوَابَہٗ وَاَعْتَقَہٗ۔ اس نے کہا کہ اصل بات یہ ہے کہ مجھے آپ کی نرمی کا یقین تھا اور آپ کی سزا سے میں اپنے آپ کو محفوظ سمجھتا ہوں۔ اس لئے میں نے آپ کی بات کا جواب نہ دیا۔ حضرت علیؓ کو اس لڑکے کا یہ جواب پسند آیا تو آپ نے اسے آزاد کر دیا۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد 8 صفحہ 255)
اب کوئی دنیا دار ہوتا تو شاید اسے سزا دیتا کہ تُو میری نرمی سے ناجائز فائدہ اٹھا رہا ہے لیکن آپؓ نے اس کو انعام سے نوازا۔
حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ ’’حضرت علیؓ کے بیٹوں حسنؓ اور حسینؓ کو ایک شخص پڑھایا کرتا تھا۔ حضرت علیؓ ایک دفعہ اپنے بچوں کے پاس سے گزرے تو آپؓ نے سنا کہ آپؓ کے بچوں کو ان کا استاد خَاتِمَ النبیین پڑھا رہا تھا۔ حضرت علیؓ نے فرمایا: میرے بچوں کو خَاتِمَ النبیین نہ پڑھاؤ بلکہ خَاتَمَ النبیین پڑھایا کرو‘‘ یعنی ’ت‘ کے نیچے زیر کے بجائے ’ت‘ کے اوپر زبر کے ساتھ پڑھاؤ۔ ’’یعنی بیشک یہ دونوں قراءتیں ہیں لیکن مَیں خَاتَمَ النبیینکی قرا ءت کو زیادہ پسند کرتا ہوں کیونکہ خَاتَمَ النبیینکے معنی ہیں نبیوں کی مہر اور خَاتِمَ النبیین کے معنی ہیں نبیوں کو ختم کرنے والا۔ میرے بچوں کو تاءکی زبر سے پڑھایا کرو۔‘‘ (فریضۂ تبلیغ اور احمدی خواتین، انوار العلوم جلد 18 صفحہ404)
پھر حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں ’’حضرت علیؓ کی نسبت بھی ثابت ہوتا ہے کہ وہ قرآن شریف کے حافظ تھے بلکہ انہوں نے قرآن شریف کے نزول کی ترتیب کے لحاظ سے قرآن لکھنے کا کام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے معاً بعد شروع کر دیا تھا۔‘‘ (دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد 20 صفحہ 429)
ایک جگہ حضرت مصلح موعوؓ د فرماتے ہیں کہ ’’رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو کسی صحابیؓ نے کھانے پر بلایا۔ بعض صحابہؓ بھی مدعو تھے جن میں حضرت علیؓ بھی شامل تھے۔ آپؓ کی عمر نسبتاً چھوٹی تھی‘‘ حضرت علی کی عمر چھوٹی تھی ’’اس لئے بعض صحابہؓ کو آپ سے مذاق کی سوجھی۔ وہ کھجوریں کھاتے جاتے تھے اور گٹھلیاں حضرت علیؓ کے سامنے رکھتے جاتے تھے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بھی اسی طرح کر رہے تھے۔ حضرت علیؓ جوان تھے کھانے میں مصروف رہے اور اس طرف نہیں دیکھا۔ جب دیکھا تو گٹھلیوں کا ڈھیر آپؓ کے سامنے لگا ہوا تھا۔ صحابہؓ نے مذاقاً حضرت علیؓ سے کہا تم نے ساری کھجوریں کھا لی ہیں !! یہ دیکھو! ساری گٹھلیاں تمہارے آگے پڑی ہیں۔ حضرت علیؓ کی طبیعت میں بھی مذاق تھا۔ چڑچڑا پن نہیں تھا۔ چڑچڑا پن ہوتا تو آپ صحابہؓ سے لڑ پڑتے اور کہتے کہ آپ مجھ پر الزام لگاتے ہیں یا مجھ پر بدظنی کرتے ہیں۔ حضرت علیؓ سمجھ گئے کہ یہ مذاق ہے جو اُن سے کیا گیا ہے۔‘‘ حضرت علیؓ نے سوچا کہ ’’اب میری خوبی یہ ہے کہ میں بھی اس کا جواب مذاق میں دوں۔‘‘ چنانچہ ’’آپؓ نے فرمایا: آپ سب گٹھلیاں بھی کھا گئے ہیں لیکن مَیں گٹھلیاں رکھتا رہا ہوں‘‘ کہ آپ سب لوگ جب کھا رہے تھے تو گٹھلیوں سمیت کھجوریں کھا گئے ہیں لیکن میں نے گٹھلیاں رکھی ہوئی ہیں ’’اور ثبوت اس کا یہ ہے کہ گٹھلیوں کا ڈھیر میرے سامنے پڑا ہے۔ صحابہؓ پر یہ مذاق الٹ پڑا۔‘‘ (خطبات محمود جلد33 صفحہ259-260)
حضرت مصلح موعوؓ د ایک جگہ حضرت علیؓ کے بارے میں بیان فرماتے ہیں کہ ’’حدیثوں میں آتا ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن مجید کی تلاوت فرما رہے تھے کہ حضرت علیؓ نے لقمہ دیا۔ نماز کے بعد آپ نے حضرت علیؓ سے فرمایا کہ یہ تمہارا کام نہ تھا۔ غلطی کی طرف توجہ دلانے کے لئے میں نے آدمی مقرر کئے ہوئے ہیں۔‘‘ (خطبات محمود جلد 25صفحہ 299)
نماز میں قرآن کریم کی تلاوت کر رہے تھے تو کہیں آگے پیچھے ہو گیا ہو گا اور حضرت علیؓ نے لقمہ دیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے اس کے لیے مقرر کیے ہوئے ہیں تم نہ دو۔ حالانکہ حضرت علیؓ بھی کافی عالم تھے۔
حضرت مصلح موعودؓ ایک اَور جگہ بیان فرماتے ہیں کہ
’’قرآن کریم میں حکم ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) سے کوئی مشورہ لو تو پہلے صدقہ دے لیا کرو۔ کہتے ہیں حضرت علیؓ نے اس حکم سے پہلے کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی مشورہ نہ لیا تھا مگر جب یہ حکم نازل ہوا تو حضرت علیؓ آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کچھ رقم بطور صدقہ پیش کر کے عرض کیا کہ میں کچھ مشورہ لینا چاہتا ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے الگ جا کر حضرت علیؓ سے باتیں کیں۔ کسی دوسرے صحابی نے حضرت علیؓ سے دریافت کیا کہ کیا بات تھی جس کے متعلق آپؓ نے مشورہ لیا؟ حضرت علیؓ نے جواب دیا کہ کوئی خاص بات تو مشورہ طلب نہ تھی مگر میں نے چاہا کہ قرآن کریم کے اس حکم پر بھی عمل ہو جائے۔‘‘ (خطبات محمود جلد 25 صفحہ 752)
یہ تھے صحابہ کے طریق۔ ایک جگہ یہ واقعہ اس طرح بھی ملتا ہے کہ ایک صحابی لوگوں کے گھروں میں جایا کرتے تھے کہ قرآن کریم کا یہ جو حکم ہے کہ اگر تمہیں کوئی گھر والا کہے کہ واپس چلے جاؤ تو واپس چلے جاؤ۔ کہتے ہیں میں نےکئی دفعہ کوشش کی بلکہ بعض دفعہ روزانہ کوشش کی، کسی نہ کسی گھر میں جاتا کہ کوئی مجھے کہے کہ واپس چلے جاؤ اور میں خوشی خوشی واپس آ جاؤں تا کہ قرآن کریم کے حکم کی تعمیل ہو جائے لیکن میری یہ خواہش کبھی پوری نہیں ہوئی۔ کسی گھر والے نے کبھی مجھے یہ نہیں کہا کہ واپس چلے جاؤ۔ (تفسیر الجامع لاحکام القرآن للقرطبی جلد15 صفحہ199 سورۃ النور زیر آیت 29 مؤسسۃ الرسالۃ بیروت 2006ء)
آج کل اگر ہم کسی کو کہیں کہ مصروف ہیں، واپس چلے جاؤ یا ملاقات نہیں ہو سکتی تو لوگ بُرا مان جاتے ہیں لیکن صحابہ کاتقویٰ یہ تھا کوشش کرتے تھے کہ قرآن کریم کے ہر حکم پر عمل کریں۔ حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ ’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ کسی غرض کے لئے صحابہؓ سے چندہ مانگا۔ حضرت علیؓ باہر گئے گھاس کاٹا اور اسے بیچ کر جو قیمت ملی وہ چندہ میں دے دی۔‘‘ (خطبات محمود جلد 33 صفحہ 357)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے ایک دفعہ واقعات بیان فرماتے ہوئے ایک جگہ غالباً اپنے درس میں بیان فرمایا تھا کہ حضرت علامہ عبیداللہ صاحب بسمل ایک چوٹی کے شیعہ عالم تھے۔ اتنے بزرگ اور اتنے علم میں گہرے اور متبحر کہ جب یہ احمدی ہو گئے تو اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں ہی نہیں بعد میں پارٹیشن تک، پارٹیشن کے بعد بھی ان کی بعض کتب ابھی تک تدریس کے طور پر شیعہ مدرسوں میں پڑھائی جا رہی ہیں کیونکہ مجھے یاد ہے خلیفۃ المسیح الرابع کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک شیعہ دوست میرے پاس گفتگو کے لیے آئے جب میں وقفِ جدید میں ہوتا تھا تو گفتگو کے بعد انہوں نے اطمینان کا اظہار کیا اور اللہ کے فضل سے احمدی ہو گئے۔ اس فیصلہ کے بعد انہوں نے بتایا کہ میں پہلے آپ کو بتایا نہیں کرتا تھا۔ پہلے وہ ایک شیعہ عالم تھے، ان کا مجھے عہدہ یادنہیں مگر وہ شیخوپورہ کے کسی گاؤں یا فیصل آباد کے کسی گاؤں، ان کے بازو کے علاقے کے تھے کہیں کے، انہوں نے بتایا کہ مَیں شیعوں میں یہ مرتبہ رکھتا ہوں، عالم ہوں۔ یعنی کہ یہ جو آدمی جنہوں نے بیعت کی ان کے بارے میں خلیفہ رابعؒ بتا رہے ہیں کہ وہ شیعہ عالم تھے۔ اور (وہ کہتے ہیں ) میں عالم ہوں اور شیعوں میں کافی مرتبہ رکھتا ہوں لیکن آج میں آپ کو یہ بتا رہا ہوں کہ ابھی تک عبیداللہ صاحب بسمل کی کتب ہمارے مدرسوں میں پڑھائی جا رہی ہیں۔ اتنا ان کا رعب ہے، ان کے علم کا اور ہمیں یہ لوگ بتاتے نہیں۔ خلیفہ رابع کہتے ہیں ہمیں یہ شیعہ لوگ نہیں بتاتے کہ کس طرح وہ بسمل صاحب کی کتابیں پڑھا رہے ہیں۔ آپ بتا رہے ہیں کہ مجھے تو ویسے پتہ لگ گیا ہے اس عالم کے ذریعہ سے۔ لیکن یہ وہاں پڑھاتے ہوئے نہیں بتاتے کہ وہ کون تھا اور بعد میں، بسمل صاحب کے ساتھ کیا ہوا۔ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو قبول کیا اور ان ساری عزتوں کو پیٹھ کے پیچھے پھینک دیا جو ان کو اس زمانے میں شیعہ مسلک سے حاصل تھیں۔ یہ ان کی کتب کا حوالہ ہے یعنی کسی معمولی آدمی کا حوالہ نہیں ہے۔ اس کتاب کا حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ حوالہ دے رہے ہیں۔ یہ ساری تمہید باندھ کے کہ البزارنے اپنی مسند میں لکھا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں سے دریافت کیا کہ بتاؤ کہ سب سے زیادہ بہادر کون ہے؟ جواب دیا کہ آپ سب سے زیادہ بہادر ہیں۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میں تو ہمیشہ اپنے برابر کے جوڑ سے لڑتا ہوں پھر میں سب سے زیادہ بہادر کیسے ہوا؟ اب تم یہ بتاؤ کہ سب سے زیادہ بہادر کون ہے؟ حضرت علیؓ نے دوبارہ پوچھا۔ یہ بسمل صاحب نے ایک کتاب کے حوالے سے اپنی کتاب میں لکھا ہوا ہے۔ لوگوں نے کہا کہ جناب ہم کو نہیں معلوم آپ ہی فرمائیں۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد کیا کہ سب سے زیادہ بہادر اور شجاع حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد کیا یعنی حضرت علیؓ نے ارشاد کیا کہ سب سے زیادہ بہادر اور شجاع حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ سنو! جنگ بدر میں ہم نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک سائبان بنایا تھا۔ ہم نے آپس میں مشورہ کیا کہ اس سائبان کے نیچے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کون رہے گا؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی مشرک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کر دے۔ بخدا ہم میں سے کوئی بھی آگے نہیں بڑھا کہ اتنے میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ شمشیر برہنہ کے ساتھ، شمشیر برہنہ ہاتھ میں لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے ہوگئے اور پھر کسی مشرک کو آپ کے پاس آنے کی جرأت نہ ہو سکی۔ اگر کسی نے ایسی جرأت کی بھی تو آپ فوراً اس پر ٹوٹ پڑے۔ اس لیے آپؓ ہی سب سے زیادہ بہادر ہیں یعنی حضرت ابوبکرؓ۔ یہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں۔ ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے نرغے میں لے لیا اور وہ آپ کو گھسیٹ رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ تم ہی وہ ہو جو کہتے ہو کہ خدا ایک ہے۔ حضرت علیؓ فرما رہے ہیں کہ خدا کی قَسم! کسی کو مشرکین سے مقابلہ کرنے کی جرأت نہ ہوئی لیکن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ آگے بڑھے اور مشرکین کو مار مار کر اور دھکے دے دے کر ہٹاتے جاتے اور فرماتے جاتے، تم پر افسوس ہے کہ تم ایسے شخص کو ایذا پہنچا رہے ہو جو یہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار صرف اللہ ہے۔ یہ فرماکر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی چادر اٹھائی، چادر منہ پر رکھ کر اتنا روئے کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی داڑھی بھیگ گئی اور فرمایا: اللہ تعالیٰ تم کو ہدایت دے۔ اے لوگو! بتاؤ کہ مومن آل فرعون اچھے تھے کہ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اچھے ہیں۔ آل فرعون سے جو لوگ ایمان لائے انہوں نے اپنے پیغمبر پر اس قدر جاں نثاری نہیں کی جتنی ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کی ہے۔ لوگ یہ سن کر خاموش رہے تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اے لوگو! جواب کیوں نہیں دیتے۔ خدا کی قسم! ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک ساعت آل فرعون کے مومن کی ہزار ساعتوں سے بہتر ہے اور بڑھ کر ہے اس لیے کہ وہ لوگ اپنا ایمان چھپاتے پھرتے تھے اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے ایمان کا اظہار علی الاعلان کیا۔ (ماخوذ از درس القرآن حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ بیان فرمودہ 16 فروری 1994ء)
حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ ’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ کو نصیحت کی۔ فرمایا اے علیؓ ! اگر تیری تبلیغ سے ایک آدمی بھی ایمان لے آئے تو یہ تیرے لئے اس سے بہتر ہے کہ دو پہاڑوں کے درمیان تیری بھیڑوں اور بکریوں کا ایک بڑا بھاری گلّہ جا رہا ہو اور تُو اسے دیکھ کر خوش ہو۔‘‘ (ہمارے ذمہ تمام دنیا کو فتح کرنے کا کام ہے، انوار العلوم جلد 18 صفحہ464)
اُمّ المومنین حضرت اُم ّسَلَمہؓ بیان کرتی ہیں کہ مَیں گواہی دیتی ہوں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا جس نے علیؓ سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی اس نے اللہ سے محبت کی اور جس نے علیؓ سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا اور جس نے مجھ سے بغض رکھا اس نے اللہ سے بغض رکھا۔ (مجمع الزوائد جلد 09 صفحہ 126 کتاب المناقب، مناقب علی بن طالب حدیث 14757 دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)
حضرت زر بیان کرتے ہیں کہ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس نے دانے کو پھاڑا اور روح کو پیدا کیا۔ یقیناً نبی اُمّی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مجھ سے عہد تھا کہ مجھ سے صرف مومن محبت رکھے گا اور صرف منافق مجھ سے بغض رکھے گا۔ (صحیح مسلم کتاب الایمان باب الدلیل علی ان حب الانصار …… الخ حدیث نمبر240)
حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا اور فرمایا کہ تمہاری مثال حضرت عیسیٰ کی سی ہے جن سے یہودیوں نے اتنا بغض کیا کہ ان کی والدہ پر بہتان باندھ دیا اور عیسائی لوگ آپؑ کی محبت یعنی عیسیٰ علیہ السلام کی محبت میں اس قدر بڑھ گئے کہ انہوں نے آپؑ کو وہ مقام دے دیا جو کہ ان کا مقام نہ تھا۔ پھر حضرت علیؓ نے فرمایا: خبردار !میرے بارے میں دو طرح کے آدمی ہلاک ہوں گے۔ ایک وہ جو محبت میں غلو کر کے مجھے وہ مقام دیں گے جو کہ میرا مقام نہیں ہے اور دوسرے وہ لوگ جو مجھ سے بغض رکھیں گے اور میری دشمنی میں مجھ پر بہتان باندھیں گے۔ (مسند احمد بن حنبل جلد1 صفحہ 439مسند علی بن ابی طالب حدیث1377عالم الکتب بیروت 1998ء)
حضرت علیؓ فَے کے مال یعنی وہ مالِ غنیمت جو دشمن سے جنگ کیے بغیر ہاتھ لگے، اس کی تقسیم میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے طریق کو اختیار کرتے تھے۔ آپؓ کے پاس جب بھی مال آتا تو آپؓ وہ سارے کا سارا تقسیم کر دیتے اور اس میں سے کچھ بھی بچا کر نہ رکھتے سوائے اس کے جو اس روز تقسیم ہونے سے رہ جاتا۔ آپؓ فرمایا کرتے تھے کہ اے دنیا! جا میرے علاوہ کسی اَور کو جا کر دھوکا دے۔ آپ فَے کے مال میں سے نہ تو خود لیتے اور نہ کسی گہرے دوست یا عزیز کو اس میں سے کچھ دیتے۔ آپؓ گورنری اور عہدہ وغیرہ صرف دیانت دار اور امین لوگوں کو دیتے۔ جب آپ کو ان میں سے کسی کی خیانت کی خبر پہنچتی تو آپ ان کو یہ آیات لکھ کر بھیجتے۔ قَدْ جَاءَتْکُمْ مَوْعِظَۃٌ مِنْ رَبِّکُمْ (یونس: 58) یقیناًتمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت کی بات آ چکی ہے اور اَوْفُوا الْمِکْیَالَ وَالْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَاءَہُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِی الْأَرْضِ مُفْسِدِیْنَ۔ بَقِیَّۃُ اللّٰہِ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ وَمَا اَنَا عَلَیْکُمْ بِحَفِیْظٍ (ہود: 86-87) ماپ اور تول کو انصاف کے ساتھ پورا کیا کرو اور لوگوں کی چیزیں ان کو کم کر کے نہ دیا کرو اور زمین میں مفسد بنتے ہوئے بدامنی نہ پھیلاؤ۔ اللہ کی طرف سے جو تجارت میں بچتا ہے وہی تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم سچے مومن ہو اور میں تم پر نگران نہیں ہوں۔ نیز اسے لکھتے جب میرا یہ خط تمہارے پاس پہنچے تو تمہارے پاس ہمارے جو اموال ہیں وہ سنبھال کر رکھنا یہاں تک کہ ہم تمہاری طرف کسی ایسے شخص کو بھیجیں جو تم سے وہ اموال وصول کرے۔
پھر آپؓ اپنی نظریں آسمان کی طرف کر کے فرماتے اے اللہ! یقیناً تُو جانتا ہے کہ میں نے انہیں تیری مخلوق پر ظلم کرنے اور تیرے حق کو چھوڑنے کا حکم نہیں دیا تھا۔
اَبْجَر بن جُرْمُوز اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا مَیں نے حضرت علی بن ابوطالبؓ کو دیکھا کہ آپؓ کوفہ سے نکل رہے تھے اور آپؓ کے اوپر دو قِطْریچادریں تھیں۔ قِطر بحرین کی ایک بستی کا نام ہے جہاں سرخ دھاری دار چادریں بنتی تھیں۔ جن میں سے ایک کو آپ نے تہبند کے طور پر باندھا ہوا تھا اور دوسری کو اوپر لیا ہوا تھا۔ آپ کی تہبندنصف پنڈلی تک تھی۔ آپ ایک کوڑا تھامے ہوئے بازار میں چل رہے تھے اور لوگوں کو اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے، سچی بات کہنے، عمدگی سے خریدو فروخت کرنے اور ماپ تول اور وزن کو پورا کرنے کی تلقین فرما رہے تھے۔
مُجَمِّعْ تَیْمِی سے روایت ہے کہ ایک دفعہ حضرت علیؓ نے بیت المال میں جتنا مال تھا وہ سارے کا سارا مسلمانوں میں تقسیم کر دیا۔ پھر آپ کے حکم سے اس میں چونا کروایا گیا۔ پھر آپ نے اس میں اس امید پر نمازپڑھی کہ قیامت کے دن وہ آپ کے لیے گواہی دے۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جلد 03 صفحہ 1111تا1113 ذکر علی بن ابی طالب، دارالجیل بیروت 1992ء) (لغات الحدیث جلد3 صفحہ575 نعمانی کتب خانہ لاہور 2005ء)
حضرت مصلح موعودؓ حضرت علیؓ کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 7؍دسمبر 1892ء کو اپنا ایک رؤیا بیان فرمایا کہ کیا دیکھتا ہوں کہ مَیں حضرت علی کرم اللہ وجہہ بن گیا ہوں یعنی خواب میں ایسا معلوم کرتا ہوں کہ وہی ہوں۔ اور خواب کے عجائبات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بعض اوقات ایک شخص اپنے تئیں دوسرا شخص خیال کر لیتا ہے سو اس وقت مَیں سمجھتا ہوں کہ مَیں علی مرتضیٰ ہوں اور ایسی صورت واقع ہے کہ ایک گروہ خوارج کا میری خلافت کا مزاحم ہو رہا ہے یعنی وہ گروہ میری خلافت کے امر کو روکنا چاہتا ہے اور اس میں فتنہ انداز ہے۔ تب میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس ہیں اور شفقت اور تودّد سے مجھے فرماتے ہیں کہ یَا عَلِیُّ! دَعْھُمْ وَ اَنْصَارَھُمْ وَزِرَاعَتَھُمْ۔ یعنی اے علی !ان سے اور ان کے مددگاروں اور ان کی کھیتی سے کنارہ کر اور ان کو چھوڑ دے اور ان سے منہ پھیر لے اور میں نے پایا کہ اس فتنہ کے وقت صبر کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مجھ کو فرماتے ہیں اور اعراض کے لئے تاکید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تُو ہی حق پر ہے مگر ان لوگوں سے ترکِ خطاب بہتر ہے۔‘‘ (برکات خلافت، انوار العلوم جلد 2 صفحہ 176)
حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خوارج کے لشکر کی تمام چیزوں پر قبضہ کر لیا۔ ہتھیار اور جنگی سواریاں تو لوگوں میں تقسیم کروائے لیکن سامان و غلام اور لونڈیوں کو کوفہ واپس آنے پر ان کے مالکوں کو لوٹا دیا۔‘‘ (مسئلہ وحی ونبوت کے متعلق اسلامی نظریہ، انوار العلوم جلد 23صفحہ 363)
پھر ایک اَور حوالے سے حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ
’’حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ کی نسبت حضرت عمرؓ کا زمانہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ دور تھا۔ یہی حال حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کا تھا۔ بیشک ان کا درجہ اپنے سے پہلے خلیفوں سے کم تھا لیکن ان کے وقت جو واقعات پیش آئے ان میں ان کے درجہ کا اتنا اثر نہیں تھا جتنا رسول کریمؐ کے زمانہ سے دور ہونے کا اثر تھا کیونکہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے وقت زیادہ تر وہ لوگ تھے جنہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اٹھائی تھی لیکن بعد میں دوسروں کا زیادہ دخل ہو گیا۔ چنانچہ جب حضرت علیؓ سے کسی نے پوچھا کہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے عہد میں تو ایسے فتنے اور فسادنہ ہوتے تھے جیسے آپؓ کے وقت میں ہو رہے ہیں تو انہوں نے کہا بات یہ ہے کہ ابوبکرؓ اور عمرؓ کے ماتحت میرے جیسے لوگ تھے اور میرے ماتحت تیرے جیسے لوگ ہیں۔‘‘ (جماعت احمدیہ اور ہماری ذمہ داریاں، انوار العلوم جلد 5 صفحہ 95)
پھر ایک اَور جگہ حضرت مصلح موعوؓ د ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’ایک شخص اس زمانہ میں جبکہ حضرت علیؓ اور معاویہؓ کے درمیان جنگ جاری تھی حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے پاس آ کر کہنے لگا کہ آپ حضرت علیؓ کے زمانہ کی جنگوں میں کیوں شامل نہیں ہوتے حالانکہ قرآن کریم میں صاف حکم موجود ہے کہ وَقٰتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ۔ انہوں نے جواب دیا کہ…… ہم نے یہ حکم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں پورا کر دیا ہے جبکہ اسلام بہت قلیل تھا اور آدمی کو اس کے دین کی وجہ سے فتنہ میں ڈالا جاتا تھا یعنی یا تو اسے قتل کیا جاتا تھا یا عذاب دیا جاتا تھا یہاں تک کہ اسلام پھیل گیا۔ پھر کسی کو فتنہ میں نہیں ڈالا جاتا تھا۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد 2 صفحہ 427-428)
یعنی اگر جنگیں تھیں تو دین بدلنے کے لیے تھیں اور ان کے خلاف تھیں جو دین بدلنا چاہتے تھے۔ اب یہاں تو دین قائم ہو گیا۔ اسلام قائم ہوگیا۔ عقیدے کا تو کوئی اختلاف نہیں ہے۔ بعض نظریاتی اختلاف ہیں اس لیے میں جنگوں میں شامل نہیں ہوتا۔ بہرحال یہ ان کا اپنا ایک نظریہ تھا۔
حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ ’’جب رومی بادشاہ نے حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ کی جنگ کی خبر معلوم کر کے اسلامی مملکت پر حملہ کرنا چاہا تو حضرت معاویہؓ نے اسے لکھا کہ ہوشیار رہنا ہمارے آپس کے اختلاف سے دھوکہ نہ کھانا۔ اگر تم نے حملہ کیا تو حضرت علیؓ کی طرف سے جو پہلا جرنیل تمہارے مقابلہ کے لئے نکلے گا وہ میں ہوں گا۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد 4 صفحہ430)
آپ نے اس کا ذرا تفصیل سے ذکر اس طرح بھی بیان فرمایا کہ ایک زمانہ وہ تھا کہ جب روم کے بادشاہ نے حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ میں اختلاف دیکھا تو اس نے چاہا کہ وہ مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لیے ایک لشکر بھیجے۔ اس وقت رومی سلطنت کی ایسی ہی طاقت تھی جیسی اس وقت امریکہ کی ہے۔ اس کی لشکر کشی کا ارادہ دیکھ کر ایک پادری نے جو بڑا ہوشیار تھا کہا بادشاہ سلامت آپ میری بات سن لیں اور لشکر کشی کرنے سے اجتناب کریں۔ یہ لوگ اگرچہ آپس میں اختلاف رکھتے ہیں لیکن آپ کے مقابلے میں متحد ہو جائیں گے اور باہمی اختلاف کو بھول جائیں گے۔ پھر اس نے ایک مثال دی وہ بھی شاید اس نے تحقیر کے رنگ میں ہی دی ہو بہرحال کس نیت سے دی، تحقیر کی نیت سے یا ویسے ہی سمجھا ہو گا کہ یہ بہتر مثال ہے۔ اس نے کہا کہ آپ کتے منگوائیں اور انہیں ایک عرصہ تک بھوکا رکھیں۔ پھر ان کے آگے گوشت ڈالیں وہ آپس میں لڑنے لگ جائیں گے۔ اگر آپ انہی کتوں پر شیر چھوڑ دیں تو وہ دونوں اپنے اختلاف کو بھول کر شیر پر جھپٹ پڑیں گے۔ اس مثال سے اس نے یہ بتایا کہ تُو چاہتا ہے کہ اس وقت حضرت علی اور معاویہ کے اختلاف سے فائدہ اٹھا لے لیکن مَیں یہ بتا دیتا ہوں کہ جب بھی کسی بیرونی دشمن سے لڑنے کا سوال پیدا ہو گا یہ دونوں اپنے باہمی اختلافات کو بھول جائیں گے اور دشمن کے مقابلے میں متحد ہو جائیں گے اور ہوا بھی یہی۔ جب حضرت معاویہ کو روم کے بادشاہ کے ارادے کا علم ہوا تو آپ نے اسے پیغام بھیجا کہ تُو چاہتا ہے کہ ہمارے اختلاف سے فائدہ اٹھا کر مسلمانوں پر حملہ کرے لیکن مَیں تمہیں بتا دینا چاہتا ہوں کہ میری حضرت علی کے ساتھ بیشک لڑائی ہے لیکن اگر تمہارا لشکر حملہ آور ہوا تو حضرت علی کی طرف سے اس لشکر کا مقابلہ کرنے کے لیے جو سب سے پہلا جرنیل نکلے گا وہ میں ہوں گا۔ (ماخوذ از مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع 1956ء میں خطابات، انوار العلوم جلد 25 صفحہ416-417)
حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ حضرت عمرؓ کہتے تھے کہ ہم میں سب سے بہتر قرآن پڑھنے والے اُبَیبن کعبؓ ہیں اور ہم میں سے بہتر فیصلہ کرنے والے علیؓ ہیں۔ (صحیح البخاری کتاب التفسیر سورۃ البقرۃ باب قولہ ما ننسخ من آیۃ او ننسھا نات بخیر منھا او مثلھا حدیث 4481)
حضرت اُمّ عَطِیَّہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر بھیجا جس میں حضرت علیؓ بھی تھے۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دعا کرتے سنا۔ اے اللہ !تُو مجھے موت نہ دینا جب تک کہ تو مجھے علیؓ کو دکھا نہ دے۔ (اسد الغابہ لمعرفۃ الصحابہ جلد 4 صفحہ100ذکر علی بن ابی طالب، دارالفکر بیروت 2003ء)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ حضرت علیؓ کو ایک سریہ پر بھیجا۔ جب وہ واپس آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: اللہ اور اس کارسول اور جبرئیل تجھ سے راضی ہیں۔ (کنز العمال جلد 13 صفحہ 107حدیث 36349 مؤسسۃ الرسالۃ بیروت 1985ء)
ایک جگہ ایک واقعہ آتا ہے کہ امیر معاویہ نے ضِرَارصُدَائِی سے کہا کہ مجھے حضرت علیؓ کے اوصاف بتاؤ۔ اس نے کہا کہ امیر المومنین! مجھے اس سے معاف فرمائیں۔ امیر معاویہ نے کہا تمہیں بتانا پڑے گا۔ ضرار نے کہا کہ اگر یہ بات ہے تو پھر سنیں۔ خدا کی قسم !حضرت علیؓ بلند حوصلہ اور مضبوط قویٰ کے مالک تھے۔ فیصلہ کن بات کہتے اور عدل سے فیصلہ کرتے تھے۔ آپ علم و معرفت کا بہتا چشمہ تھے اور آپ کی بات بات سے حکمت ٹپکتی تھی۔ آپؓ دنیا اور اس کی رونقوں سے وحشت محسوس کرتے اور رات اور اس کی تنہائی سے انس رکھتے تھے۔ آپؓ بہت رونے والے اور بہت غور و فکر کرنے والے انسان تھے۔ آپؓ مختصر لباس اور نہایت سادہ کھانا پسند کرتے تھے۔ آپ ہمارے درمیان ہمارے جیسے ایک عام شخص کی طرح رہتے تھے۔ ہم سوال کرتے تو آپ جواب دیتے اور کسی واقعہ کی بابت دریافت کرتے تو اس کے بارے میں بتاتے۔ خدا کی قسم! باوجودیکہ ہمارا ان سے اور ان کا ہم سے محبت اور قرب کا بڑا تعلق تھا مگر ہم ان کے رعب کی وجہ سے ان سے کم کم بات کرتے تھے۔ وہ دیندار لوگوں کی تعظیم کرتے اور مساکین کو اپنے قرب میں جگہ دیتے تھے۔ کوئی طاقتور شخص یہ طمع نہیں رکھ سکتا تھا کہ وہ اپنی جھوٹی بات آپ سے منوا لے گا اور کوئی کمزور شخص آپ کے عدل و انصاف سے مایوس نہ ہوتا تھا۔ خدا کی قسم! بعض موقعوں پر میں نے دیکھا کہ جب رات ڈھل جاتی اور ستارے ماند پڑ جاتے تو آپ اپنی داڑھی پکڑ کر ایسے تڑپتے جیسے سانپ کا ڈسا ہوا شخص تڑپتا ہے اور سخت غمگین شخص کی طرح روتے اور کہتے اے دنیا! جاتُو میرے سوا کسی اَور کو جا کر دھوکا دے۔ کیا تُو میرے منہ لگتی ہے اور مجھے بن سنور کر دکھاتی ہے۔ تُو جو چاہتی ہے وہ کبھی نہیں ہو گا، کبھی نہیں ہو گا۔ میں تو تمہیں تین طلاقیں دے چکا جن کے بعد کوئی رجوع نہیں ہوتا کیونکہ تیری عمر تھوڑی ہے اور تُو بے وقعت ہے۔ یہ تمثیلی زبان میں دنیا سے مخاطب ہیں کیونکہ تیری عمر تھوڑی ہے اور تُو بے وقعت ہے۔ آہ! زادِ راہ کم ہے اور سفر لمبا اور راستہ وحشت ناک ہے۔ آپ کی صفات کے بارے میں یہ ساری باتیں بتائیں تو یہ سن کر امیر معاویہ رو پڑے اور کہا۔ اللہ! ابوالحسن پر رحم کرے۔ خدا کی قسم وہ ایسے ہی تھے۔ اے ضِرار! علی کی وفات پر تمہیں کیسا غم ہوا؟ ضِرار نے کہا اس عورت کے غم جیسا جس کے بچے کو اس کی گود میں ہی ذبح کر دیا جائے۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جلد 3 صفحہ 1107-1108 ذکر علی بن ابی طالب، دار الجیل بیروت 1992ء)
حضرت علیؓ کے قضائی فیصلے بہت مشہور ہیں۔ ان میں سے بعض بیان کرتا ہوں جو حضرت مصلح موعودؓ نے بیان فرمائے ہیں۔ حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانہ کا ایک واقعہ جو طبری نے لکھا ہے، بتاتا ہے کہ ابتدائے اسلام سے اس احتیاط پر عمل ہوتا چلا آیا ہے۔ وہ واقعہ اس طرح ہے کہ عَدَل بن عثمان بیان کرتے ہیں۔‘‘ حضرت مصلح موعودؓ نے اس کی ساری عربی عبارت ھی لکھی ہے میں اس وقت وہ عربی کی عبارت چھوڑ دیتا ہوں۔ ان شاء اللہ خطبہ چھپے گا تو اس وقت یہ لکھی جائے گی۔ (رَاَیْتُ عَلِیًّا عَمَّ خَارِجًا مِنْ ھَمْدَانَ فَرَاَی فِئَتَیْنِ تَقْتُلَانِ فَفَرَّقَ بَیْنَھُمَا ثُمَّ مَضٰی فَسَمِعَ صَوْتًا یَاغَوْثًا بِاللّٰہِ فَخَرَجَ یَحُضُّ نَحْوَہٗ حَتّٰی سَمِعْتُ خَفْقَ نَعْلِہٖ وَھُوَ یَقُوْلُ اَتَاکَ الْغَوْثُ فَاِذَا رَجُلٌ یُلَازِمُ رَجُلًا فَقَالَ یَا اَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ بِعْتُ مِنْ ھٰذَا ثَوْ بًا بِتِسْعَۃِ دَرَاھِمَ وَشَرَطْتُ عَلَیْہِ اَنْ لَّا یُعْطِیَنِیْ مَغْمُوْرًا وَلَا مَقْطُوْعًا وَکَانَ شَرْطُھُمْ یَوْمَئِذٍ فَاَتَیْتُہٗ بِھٰذِہِ الدَّرَاھِمِ لِیُبَدِّلَھَا لِیْ فَاَبٰی فَلَزِمْتُہٗ فَلَطَمَنِیْ فَقَالَ اَبْدِلْہُ فَقَالَ بَیِّنَتُکَ عَلَی اللَّطْمَۃِ فَاَتَاہُ بِالْبَیِّنَۃِ فَاَقْعَدَہٗ ثُمَّ قَالَ دُوْنَکَ فَاقْتَصَّ فَقَالَ اِنِّیْ قَدْ عَفَوْتُ یَا اَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ قَالَ اِنَّمَا اَرَدْتُ اَنْ اَحْتَاطَہُ فِیْ حَقِّکَ ثُمَ ضَرَبَ الرَّجُلَ تِسْعَ دُرَّاتٍ وَقَالَ ھٰذَا حَقُّ السُّلْطَانِ۔)اس کا ترجمہ یہ ہے کہ ’’میں نے دیکھا کہ حضرت علیؓ ہمدان سے باہر مقیم تھے کہ اسی اثناء میں آپ نے دو گروہوں کو آپس میں لڑتے ہوئے دیکھا اور آپ نے ان میں صلح کرا دی لیکن ابھی تھوڑی دور ہی گئے تھے کہ آپ کو کسی شخص کی آواز آئی کہ کوئی خدا کے لیے مدد کو آئے۔ پس آپ تیزی سے اس آواز کی طرف دوڑے حتی کہ آپ کے جوتوں کی آواز بھی آ رہی تھی اور آپ کہتے چلے جاتے تھے کہ مدد آگئی۔ مدد آگئی۔ جب آپ اس جگہ کے قریب پہنچے تو آپ نے دیکھا کہ ایک آدمی دوسرے سے لپٹا ہوا ہے۔ جب اس نے آپ کو دیکھا تو عرض کیا کہ اے امیر المومنین! میں نے اس شخص کے پاس ایک کپڑا نو درہم کو بیچا تھا اور شرط یہ تھی کہ کوئی روپیہ‘‘ یعنی جو درہم ہے وہ ’’مشکوک یا کٹا ہوا نہ ہو اور اس نے (خریدنے والے نے) اس کو منظور کر لیا تھا لیکن آج جو میں اس کو بعض ناقص روپے دینے کے لئے آیا‘‘ (اس نے جب مجھے روپے دیے تو ان درہم میں سےبعض ناقص تھے۔ جب میں ان کو ناقص روپے دینے کے لیے آیا) ’’تو اس نے بدلانے سے انکار کر دیا۔ جب میں پیچھے پڑا تو اس نے مجھے تھپڑ مارا۔ آپ نے مشتری سے کہا کہ اس کو روپے بدل دے۔‘‘ جو خریدار تھا اس کو یہ کہا اس کو روپے بدل کے دو۔ رقم بدل کے دو ’’پھر دوسرے شخص سے کہا کہ تھپڑ مارنے کا ثبوت پیش کر۔ جب اس نے ثبوت دے دیا تو آپ نے مارنے والے کو بٹھا دیا اور اس سے کہا کہ اس سے بدلہ لے۔ اس نے کہا اے امیر المومنین! میں نے اس کو معاف کر دیا ہے۔ آپ نے فرمایا تُو نے تو اس کو معاف کر دیا مگر مَیں چاہتا ہوں کہ تیرے حق میں احتیاط سے کام لوں۔ معلوم ہوتا ہے وہ شخص سادہ تھا اور اپنے نفع نقصان کو نہیں سمجھ سکتا تھا۔‘‘ حضرت مصلح موعودؓ لکھ رہے ہیں۔ ’’اور پھر اس شخص کو‘‘ جس نے تھپڑ مارا تھا اس شخص کو ’’9 کوڑے مارے۔ اور فرمایا اس شخص نے تو تجھے معاف کر دیا تھا مگر یہ سزا حکومت کی طرف سے ہے۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد 2 صفحہ 362-363)
پھر ایک اَور واقعہ حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ ’’ایک عمدہ مثال حضرت علیؓ کے عمل سے ملتی ہے۔ آپ نے ایک دفعہ دیکھا کہ ایک شخص نے دوسرے کو پیٹا ہے۔ حضرت علیؓ نے اس کو روکا اور مضروب کو کہا کہ اب تم اس کو مارو۔ مگر مضروب نے کہا کہ میں اس کو معاف کرتا ہوں۔ حضرت علیؓ نے سمجھ لیا کہ ڈر کے مارے اس نے اسے مارنے سے انکار کیا ہے کیونکہ وہ مارنے والا بڑا جبار شخص تھا۔ اس لئے آپ نے فرمایا تم نے اپنا ذاتی حق معاف کر دیا ہے مگر میں اب قومی حق کو استعمال کرتا ہوں اور اسے اسی قدر پِٹوا دیا جس قدر کہ اس نے دوسرے کمزور شخص کو پیٹا تھا۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد 4 صفحہ331)
حضرت مصلح موعودؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے کہ ان کا ایک مقدمہ ایک اسلامی مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہوا تو مجسٹریٹ نے حضرت علیؓ کا کچھ لحاظ کیا۔ آپؓ نے فرمایا یہ پہلی بے انصافی ہے جو تم نے کی ہے‘‘ کہ میرا لحاظ کر رہے ہو ’’میں اور یہ اس وقت برابر ہیں۔‘‘ (خطبات محمود جلد 16صفحہ516)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام حضرت علیؓ کے فضائل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’کیا آپ قوم کے سب سے فصیح و بلیغ واعظ اور ان لوگوں میں سے نہ تھے جو لفظوں میں جان ڈال دیتے ہیں؟ اپنی بلاغت اور حسن بیان کے زور سے اور سامعین کے لئے اپنی پُرکشش تاثیر سے لوگوں کو اپنے گرد جمع کر لینا آپ کے لئے محض ایک گھنٹے بلکہ اس سے بھی کم تر وقت کا کام تھا۔‘‘ (سرالخلافۃ، روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 350، سرالخلافہ اردو ترجمہ صفحہ89-90 شائع کردہ نظارت اشاعت صدر انجمن احمدیہ پاکستان۔ ربوہ)
پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’میں تو یہ جانتا ہوں کہ کوئی شخص مومن اور مسلمان نہیں بن سکتا جب تک ابوبکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ، علیؓ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا سا رنگ پیدا نہ ہو۔ وہ دنیا سے محبت نہ کرتے تھے بلکہ انہوں نے اپنی زندگیاں خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کی ہوئی تھیں۔‘‘ (لیکچر لدھیانہ، روحانی خزائن جلد20صفحہ294)
پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’خوارج حضرت علی رضی اللہ عنہ کو فاسق قرار دیتے ہیں اور بہت سے امور خلافِ تقویٰ ان کی طرف منسوب کرتے ہیں بلکہ حِلْیَہ اِیْمَانسے بھی ان کو عاری سمجھتے ہیں۔‘‘ یعنی یہ سمجھتے ہیں کہ ان میں تو ایمان ہی نہیں تھا۔ یہ سمجھتے ہیں کہ ایمان کے زیور سے عاری تھے۔ ’’تو اس جگہ طبعاً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جبکہ صدیق کے لئے تقویٰ اور امانت اور دیانت شرط ہے تو یہ تمام بزرگ اور اعلیٰ طبقہ کے انسان جو رسول اور نبی اور ولی ہیں کیوں خدا تعالیٰ نے ان کے حالات کو عوام کی نظر میں مشتبہ کر دیا۔‘‘ کیوں یہ لوگ جو تھے ان کو صحیح طرح سمجھ نہیں آئی کیوں ان کی جو حالت تھی، ان کا جو سارا اسوہ تھا مشتبہ تھا؟ ’’اور وہ اُن کے افعال اور اقوال کو سمجھنے سے اس قدر قاصر رہے کہ ان کو دائرہ تقویٰ اور امانت اور دیانت سے خارج سمجھا اور ایسا خیال کر لیا کہ گویا وہ لوگ ظلم کرنے والے اور مالِ حرام کھانے والے اور خون ناحق کرنے والے اور دروغ گو اور عہد شکن اور نفس پرست اور جرائم پیشہ تھے حالانکہ دنیا میں بہت سے ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں کہ نہ رسول ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور نہ نبی ہونے کا اور نہ اپنے تئیں ولی اور امام اور خلیفۃ المسلمین کہلاتے ہیں لیکن بایں ہمہ کوئی اعتراض ان کے چال چلن اور زندگی پر نہیں ہوتا تو اس سوال کا جواب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے ایسا کیا کہ تا اپنے خاص مقبولوں اور محبوبوں کو بدبخت شتاب کاروں سے جن کی عادت بدگمانی ہے مخفی رکھے جیسا کہ خود وجود اس کا اس قسم کی بدظنی کرنے والوں سے مخفی ہے۔‘‘ (تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد15 صفحہ 422حاشیہ)
یعنی یہ کہنے والے خود بدبخت ہیں اور بدظنی کرنے والے ہیں اور جس طرح اللہ تعالیٰ نے خود اپنے آپ کو مخفی رکھا ہوا ہے اور لوگ اللہ تعالیٰ پر بدظنی کرتے ہیں اسی طرح اس کے جو مقرب ہیں ان پر بھی خود یہ بدبخت لوگ اعتراض میں جلدی کرنے والے ہیں یہی لوگ اصل میں ایسے ہیں جن میں تقویٰ نہیں ہے اور یہ متقیوں پر الزام لگاتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’اس میں ذرہ بھر شک نہیں کہ حضرت علیؓ متلاشیان (حق) کی امید گاہ اور سخیوں کا بے مثال نمونہ اور بندگان (خدا) کے لئے حجۃ اللہ تھے۔ نیز اپنے زمانے کے لوگوں میں بہترین انسان اور ملکوں کو روشن کرنے کے لئے اللہ کے نور تھے لیکن آپ کی خلافت کا دور امن و امان کا زمانہ نہ تھا بلکہ فتنوں اور ظلم و تعدی کی تُند ہواؤں کا زمانہ تھا۔ عوام الناس آپ کی اور ابن ابی سفیان کی خلافت کے بارے میں اختلاف کرتے تھے اور ان دونوں کی طرف حیرت زدہ شخص کی طرح ٹکٹکی لگائے بیٹھے تھے اور بعض لوگ ان دونوں کو آسمان کے فرقدنامی دو ستاروں کی مانند تصور کرتے تھے اور دونوں کو درجہ میں ہم پلہ سمجھتے تھے لیکن سچ یہ ہے کہ حق (علی) مرتضیؓ کے ساتھ تھا اور جس نے آپ کے دور میں آپ سے جنگ کی تو اس نے بغاوت اور سرکشی کی لیکن آپ کی خلافت اس امن کی مصداق نہ تھی جس کی بشارت خدائے رحمٰن کی طرف سے دی گئی تھی بلکہ (حضرت علی) مرتضیؓ کو ان کے مخالفوں کی طرف سے اذیت دی گئی اور آپ کی خلافت مختلف قسم اور طرح طرح کے فتنوں کے نیچے پامال کی گئی۔ آپ پر اللہ کا بڑا فضل تھا لیکن زندگی بھر آپ غمزدہ اور دل فگار رہے اور پہلے خلفاء کی طرح دین کی اشاعت اور شیطانوں کو رجم کرنے پر قادر نہ ہو سکے بلکہ آپ کو قوم کی طعن زنی سے ہی فرصت نہ ملی اور آپ کو ہر ارادے اور خواہش سے محروم کیا گیا۔ وہ آپ کی مدد کے لئے جمع نہ ہوئے بلکہ آپ پر پیہم ظلم ڈھانے پر یکجا ہو گئے اور اذیت دینے سے باز نہ آئے بلکہ آپ کی مزاحمت کی اور ہر راستے میں بیٹھے اور آپ بہت صابر اور صالحین میں سے تھے مگر یہ ممکن نہیں کہ ہم ان کی خلافت کو اس (آیت استخلاف والی) بشارت کا مصداق قرار دیں کیونکہ آپ کی خلافت فساد، بغاوت اور خسارے کے زمانے میں تھی۔‘‘ (سرالخلافۃ، روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 352-353، سرالخلافہ اردو ترجمہ صفحہ95-96 شائع کردہ نظارت اشاعت صدر انجمن احمدیہ پاکستان۔ ربوہ)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’یہ عقیدہ ضروری ہے کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت فاروق عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ذوالنورین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سب کے سب واقعی طور پر دین میں امین تھے۔‘‘ (مکتوباتِ احمد جلد دوم صفحہ 151 مکتوب نمبر 2مکتوب بنام حضرت خان صاحب محمد علی خان صاحب مطبوعہ ربوہ)
پھر آپؑ حضرت علیؓ کے مقام و مرتبہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’آپ‘‘ یعنی حضرت علی ’’رضی اللہ عنہ تقویٰ شعار، پاک باطن اور ان لوگوں میں سے تھے جو خدائے رحمان کے ہاں سب سے زیادہ پیارے ہوتے ہیں اور آپ قوم کے برگذیدہ اور زمانے کے سرداروں میں سے تھے۔ آپ خدائے غالب کے شیر، خدائے مہربان کے جوانمرد، سخی، پاک دل تھے۔ آپ ایسے منفرد بہادر تھے جو میدان جنگ میں اپنی جگہ نہیں چھوڑتے خواہ ان کے مقابلے میں دشمنوں کی ایک فوج ہو۔ آپ نے ساری عمر تنگدستی میں بسر کی اور نوع انسانی کے مقامِ زہد کی انتہا تک پہنچے۔ آپ مال و دولت عطا کرنے، لوگوں کے ہم و غم دور کرنے اور یتیموں، مسکینوں اور ہمسایوں کی خبر گیری کرنے میں اول درجے کے مرد تھے۔ آپ نے جنگوں میں طرح طرح کے بہادری کے جوہر دکھائے تھے۔ تیر اور تلوار کی جنگ میں آپ سے حیرت انگیز واقعات ظاہر ہوتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ نہایت شیریں بیان اور فصیح اللسان بھی تھے۔ آپ کا بیان دلوں کی گہرائی میں اتر جاتا اور اس سے ذہنوں کے زنگ صاف ہو جاتے اور برہان کے نور سے اس کا چہرہ دمک جاتا۔ آپ قسما قسم کے انداز بیان پر قادر تھے اور جو آپ سے ان میں مقابلہ کرتا تو اسے ایک مغلوب شخص کی طرح آپ سے معذرت کرنا پڑتی۔ آپ ہر خوبی میں اور بلاغت و فصاحت کے طریقوں میں کامل تھے اور جس نے آپ کے کمال کا انکار کیا تو اس نے بےحیائی کا طریق اختیار کیا اور آپ لاچاروں کی غمخواریوں کی جانب ترغیب دلاتے اور قناعت کرنے والوں اور خستہ حالوں کو کھانا کھلانے کا حکم دیتے۔ آپ اللہ کے مقرب بندوں میں سے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ آپ فرقان (حمید) کے جام (معرفت) نوش کرنے میں سابقین میں سے تھے اور آپ کو قرآنی دقائق کے ادراک میں ایک عجیب فہم عطا کیا گیا تھا۔ میں نے عالَمِ بیداری میں انہیں دیکھا ہے نہ کہ نیند میں۔ پھر (اسی حالت میں ) آپ نے خدائے علام (الغیوب) کی کتاب کی تفسیر مجھے عطا کی اور فرمایا یہ میری تفسیر ہے اور یہ اب آپ کو دی جاتی ہے۔ پس آپ کو اس عطا پر مبارک ہو‘‘ یعنی حضرت علیؓ نے یہ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دی اور فرمایا آپ کو اس عطا پر مبارک ہو۔ ’’جس پر میں نے اپنا ہاتھ بڑھایا۔‘‘ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ جس پر میں نے اپنا ہاتھ بڑھایا ’’اور وہ تفسیر لے لی اور میں نے صاحبِ قدرت عطا کرنے والے اللہ کا شکر ادا کیا اور میں نے آپ کو خَلق میں متناسب اور خُلق میں پختہ اور متواضع منکسر المزاج تاباں اور منور پایا اور میں یہ حلفاً کہتا ہوں کہ آپ مجھ سے بڑی محبت و الفت سے ملے اور میرے دل میں یہ بات ڈالی گئی کہ آپ مجھے اور میرے عقیدے کو جانتے ہیں اور میں اپنے مسلک اور مشرب میں شیعوں سے جو اختلاف رکھتا ہوں وہ اسے بھی جانتے ہیں لیکن آپ نے کسی بھی قسم کی ناپسندیدگی یا ناگواری کا اظہار نہیں کیا اور نہ ہی (مجھ سے) پہلو تہی کی بلکہ وہ مجھے ملے اور مخلص محبین کی طرح مجھ سے محبت کی اور انہوں نے سچے صاف دل رکھنے والے لوگوں کی طرح محبت کا اظہار فرمایا اور آپ کے ساتھ‘‘ یعنی حضرت علیؓ کے ساتھ ’’حسین بلکہ حسنؓ اور حسینؓ دونوں اور سید الرسل خاتم النبیینؐ بھی تھے اور ان کے ساتھ ایک نہایت خوبرو، صالحہ جلیلۃ القدر، بابرکت، پاکباز، لائق تعظیم، باوقار، ظاہر و باہر نور مجسم جوان خاتون بھی تھیں جنہیں میں نے غم سے بھرا ہوا پایا لیکن وہ اسے چھپائے ہوئے تھیں اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ آپ حضرت فاطمۃ الزہراءؓ ہیں۔ آپ میرے پاس تشریف لائیں اور مَیں لیٹا ہوا تھا۔ پس آپ بیٹھ گئیں اور آپ نے میرا سر اپنی ران پر رکھ لیا اور شفقت کا اظہار فرمایا اور مَیں نے دیکھا کہ وہ میرے کسی غم کی وجہ سے غمزدہ اور رنجیدہ ہیں اور بچوں کی تکالیف کے وقت ماؤں کی طرح شفقت و محبت اور بے چینی کا اظہار فرما رہی ہیں۔‘‘ (اس بات پہ بھی بعض غیر از جماعت لوگ اعتراض کر دیتے ہیں کہ یہ دیکھو جی۔ کیسی غلط بات کی ہے کہ ران پر سر رکھ لیا حالانکہ آپ نے یہ ماؤں کی مثال دی ہے اور اس سے پہلے جو باتیں کی ہیں اور وہ ساری جو صفات بیان کی ہیں اس کو اگر غور سے پڑھیں اور پھر یہ فقرہ دیکھیں کہ ماؤں کی طرح شفقت و محبت کی تو سارے اعتراض دور ہو جاتے ہیں لیکن گندی ذہنیت ہے اس لیے ان لوگوں میں اعتراض پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ بہرحال پھر آپ یعنی مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں ) ’’پھر مجھے بتایا گیا کہ دین کے تعلق میں ان کے نزدیک میری حیثیت بمنزلہ بیٹے کے ہے اور میرے دل میں خیال آیا کہ ان کا غمگین ہونا‘‘ یعنی حضرت فاطمہؓ کا غمگین ہونا ’’اس امر پر کنایہ ہے جو مَیں قوم، اہلِ وطن اور دشمنوں سے ظلم دیکھوں گا۔ پھر حسن اور حسین دونوں میرے پاس آئے اور بھائیوں کی طرح مجھ سے محبت کا اظہار کرنے لگے اور ہمدردوں کی طرح مجھے ملے اور یہ کشف بیداری کے کشفوں میں سے تھا اور اس پر کئی سال گزر چکے ہیں اور مجھے حضرت علیؓ اور حضرت حسینؓ کے ساتھ ایک لطیف مناسبت ہے اور اس مناسبت کی حقیقت کو مشرق و مغرب کے رب کے سوا کوئی نہیں جانتا اور مَیں حضرت علیؓ اور آپ کے دونوں بیٹوں سے محبت کرتا ہوں اور جو اُن سے عداوت رکھے اس سے مَیں عداوت رکھتا ہوں اور بایں ہمہ مَیں جور و جفا کرنے والوں میں سے نہیں اور یہ میرے لئے ممکن نہیں کہ مَیں اس سے اعراض کروں جو اللہ نے مجھ پر منکشف فرمایا اور نہ ہی میں حد سے تجاوز کرنے والوں میں سے ہوں۔ اگر تم قبول نہ کرو تو میرا عمل میرے لئے اور تمہارا عمل تمہارے لئے ہے اور اللہ ہمارے اور تمہارے درمیان ضرور فیصلہ فرمائے گا اور وہ فیصلہ کرنے والوں میں سے سب سے بہتر فیصلہ فرمانے والا ہے۔‘‘ (سرالخلافۃ، روحانی خزائن جلد 8صفحہ 358-359، سرالخلافہ اردو ترجمہ صفحہ 108تا112 شائع کردہ نظارت اشاعت صدرانجمن احمدیہ پاکستان۔ ربوہ)
یہاں اب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر ختم ہوتا ہے ان شاء اللہ آئندہ آگے شروع ہو گا۔
اس وقت میں یہ بھی ایک اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ ان شاء اللہ نمازوں کے بعد مَیں ایک نیا ٹی وی چینل لانچ کروں گا جو ایم ٹی اے گھانا کے نام سے چوبیس گھنٹے براڈ کاسٹ(broadcast) ہو گا۔ گھانا میں وہاب آدم سٹوڈیو 2017ء میں قائم ہوا تھا اور عبدالوہاب آدم صاحب مرحوم امیر مشنری انچارج گھانا تھے ان کے نام پر اس کا نام رکھا گیا تھا۔ بہرحال ایم ٹی اے افریقہ چینلز کے موجودہ پروگراموں کا ساٹھ فیصد حصہ اس سٹوڈیو میں تیار ہوتا ہے۔ سٹوڈیو میں سترہ فل ٹائم (full time)کارکنان ہیں اور ساٹھ سے زیادہ رضا کار بھی ہیں جو مختلف محکموں میں تربیت یافتہ ہیں۔ وہاب آدم سٹوڈیو گھانا کے جدید ترین سٹوڈیوز میں سے ایک ہے اور اس میں کئی بہترین سہولیات مہیاہیں۔ مختلف میڈیا تنظیمیں اور براڈکاسٹر تربیتی مقاصد اور کام کے تجربہ کے لیے اپنے عملے کو اس سٹوڈیو میں بھیجتے ہیں۔ سٹوڈیو نے بہت سے براہ راست پروگرام نشر کیے ہیں جن میں افریقہ کا پہلا قرآن کریم کی تلاوت کا مقابلہ اور رمضان المبارک کی نشریات شامل ہیں۔ ایم ٹی اے گھانا کے نام سے اب ایک نیا چینل لانچ کیا جا رہاہے۔ یہ گھانا میں ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر چوبیس گھنٹے نشر ہونے والا نیا ملکی ٹی وی چینل ہو گا۔ ایم ٹی اے گھانا سیٹلائٹ ڈش کی ضرورت کے بغیر ایک عام ایریل (aerial)کے ذریعہ دیکھا جا سکے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ گھانا کے لوگ عام انٹینا پر بھی بآسانی اس چینل تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ چینل اسی جگہ، اسی لوکیشن پر دستیاب ہوگا جہاں گھانا کے بڑے بڑے چینل موجود ہیں اور اس طرح ملک کے طول وعرض میں لاکھوں گھروں تک اس کی رسائی ہو گی اور تمام علاقے ساؤتھ سے لے کر نارتھ تک یہ کور (cover)کرے گا۔ ان شاء اللہ۔ گھانا کی مختلف زبانوں میں بھی وہاب آدم سٹوڈیو سے پروگرام تیار کیے جائیں گے جن میں انگریزی، چوئی (Twi)، گا (GA)، ہاؤسا اور دوسری زبانیں شامل ہیں۔ چینل کی ٹرانسمیشن اور شیڈیولنگ کا کام وہاں لجنہ کی رضا کار اور دیگر ٹیمیں کریں گی۔ اخلاقی اور تعلیمی اور تربیتی پروگرام بنائے جائیں گے۔ اس حوالے سے اسلام کی صحیح اور خوبصورت تعلیم سے لوگوں کو آگاہ کیا جائے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔ اس چینل کے ذریعہ سے ایم ٹی اے گھانا ملک میں ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر اسلامی تعلیمات کے لیے مکمل طور پر وقف واحد چینل ہو گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔
ایک جگہ ہمارے مخالفین راستہ بند کرنے کی کوشش کرتے ہیں اللہ تعالیٰ دوسری جگہ اَور کئی راستے کھول دیتا ہے۔ یہ ہیں اللہ تعالیٰ کے جماعت پر فضل۔ ان شاء اللہ تعالیٰ جو بند راستے ہیں وہ بھی اپنے وقت پہ کھلیں گے۔ ان شاء اللہ۔ لیکن اللہ تعالیٰ ہمیں ساتھ ہی ساتھ خوشی کے سامان بھی پہنچا دیتا ہے۔ تو یہ چینل ان شاء اللہ تعالیٰ اس ملک کو کور کرے گا بلکہ ہمسایوں کے کچھ علاقوں کو بھی شاید کور کرے۔ ان شاء اللہ جیسا کہ میں نے کہا جمعہ کے بعد، نمازوں کے بعد مَیں اس کا افتتاح کروں گا۔
دوسری بات جیسا کہ میں آج کل توجہ دلا رہا ہوں۔ پاکستان اور الجزائر کے اسیران کے لیے خاص طور پر دعا کریں اللہ تعالیٰ ان کی رہائی کے سامان پیدا فرمائے۔ پاکستان کے عمومی حالات کے لیے بھی دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ احمدیوں کو وہاں سکون کی زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ مخالفین احمدیت کو عقل اور سمجھ دے۔ اگر نہیں ہے تو پھر جو بھی اللہ تعالیٰ نے ان سے سلوک کرنا ہے وہ کرے اور جلد ہم ان سے نجات پانے والے بنیں۔ اور ہم کو، خاص طور پر پاکستان کے احمدیوں کو خود بھی آج کل نوافل اور دعاؤں اور صدقات پر زور دینا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ان کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔
(الفضل انٹرنیشنل 05؍فروری2021ء صفحہ 5تا10)
رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جس نے علی سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی اس نے خدا سےمحبت کی۔
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفۂ راشد اور داماد ابو تراب حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ۔
آپ ہر خوبی میں اور بلاغت و فصاحت کے طریقوں میں کامل تھے اور جس نے آپ کے کمال کا انکار کیا تو اس نے بےحیائی کا طریق اختیار کیا (حضرت مسیح موعودؑ )
حضرت علیؓ نے فرمایا خبردار میرے بارے میں دو طرح کے آدمی ہلاک ہوں گے ایک وہ جو محبت میں غلو کر کے مجھے وہ مقام دیں گے جو کہ میرا مقام نہیں ہے اور دوسرے وہ لوگ جو مجھ سے بغض رکھیں گے اور میری دشمنی میں مجھ پر بہتان باندھیں گے۔
صحابہ کاتقویٰ یہ تھا کوشش کرتے تھے کہ قرآن کریم کے ہر حکم پر عمل کریں۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ کو نصیحت کی۔ فرمایا اے علیؓ ! اگر تیری تبلیغ سے ایک آدمی بھی ایمان لے آئے تو یہ تیرے لئے اس سے بہتر ہے کہ دو پہاڑوں کے درمیان تیری بھیڑوں اور بکریوں کا ایک بڑا بھاری گلہ جا رہا ہو اور تو اسے دیکھ کر خوش ہو۔
ایم ٹی اے کےچوبیس گھنٹے نشر ہونے والے نئے چینل ’ایم ٹی اے گھانا‘ کے اجرا کا اعلان۔
پاکستان اور الجزائر کے احمدیوں کی مخالفت کے پیش نظر دعاؤں کی مکرر تحریک۔
پاکستان کے احمدیوں کو نوافل اور دعاؤں اور صدقات پر زور دینے کی تلقین۔
فرمودہ 15؍جنوری2021ء بمطابق 15؍صلح 1400 ہجری شمسی، بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔