حضرت عثمان بن عفانؓ
خطبہ جمعہ 29؍ جنوری 2021ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی غزوات میں شمولیت کا ذکر کرتا ہوں۔ جیسا کہ غزوۂ بدر کے بارے میں یہ بیان ہو چکا ہے کہ حضرت عثمانؓ غزوۂ بدر میں شامل نہیں ہو سکے تھے کیونکہ آپ کی زوجہ حضرت رقیہؓ بنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سخت بیمار تھیں اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؓ کو ارشاد فرمایا کہ ان کی تیمار داری کے لیے مدینہ میں ٹھہریں اور آپؓ کو بدر میں شامل ہونے والوں کی طرح ہی قرار دیا۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؓ کے لیے بدر میں شامل ہونے والوں کی طرح مالِ غنیمت میں اور اجر میں حصہ مقرر فرمایا۔ (شرح العلامہ الزرقانی علی المواھب اللدنیہ جزء 2، صفحہ 334، باب غزوہ بدر الکبریٰ۔ دارالکتب العلمیۃ بیروت 1996ء)
غزوۂ غطفان محرم یا صفر 3؍ہجری میں ہوا۔ غزوۂ غطفان کے لیے نجد کے علاقے کی طرف نکلتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمانؓ کو مدینہ کا امیر مقرر فرمایا تو اس لحاظ سے اس میں بھی شامل نہیں ہوئے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد، الجزءالثالث صفحہ41، عثمان بن عفان، دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء) (سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ463)
اس غزوہ کی تفصیل حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے یوں بیان فرمائی ہے کہ
’’بنوغطفان کے بعض قبائل یعنی بنوثَعلَبَہ اور بنومُحَارِب کے لوگ اپنے ایک نامور جنگجو دُعْثُور بن حارِث کی تحریک پر پھر مدینہ پر اچانک حملہ کر دینے کی نیت سے نجد کے ایک مقام ذِی اَمَرمیں جمع ہونے شروع ہوئے لیکن چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دشمنوں کی حرکات وسکنات کا باقاعدہ علم رکھتے تھے، آپؐ کو ان کے اس خونی ارادے کی بروقت اطلاع ہو گئی اور آپؐ ایک بیدار مغز جرنیل کی طرح پیش بندی کے طور پر ساڑھے چار سو صحابیوں کی جمعیت کو اپنے ساتھ لے کر محرم 3؍ھ کے آخر یا صفر کے شروع میں مدینہ سے نکلے اور تیزی کے ساتھ کوچ کرتے ہوئے ذِی اَمَرکے قریب پہنچ گئے۔ دشمن کو آپؐ کی آمد کی اطلاع ہوئی تواس نے جھٹ پٹ آس پاس کی پہاڑیوں پر چڑھ کر اپنے آپ کو محفوظ کرلیااور مسلمان ذی امر میں پہنچے تو میدان خالی تھا۔ البتہ بنوثَعْلَبَہ کاایک بدوی جس کا نام جَبَّارْ تھا صحابہ کے قابو میں آ گیا جسے قید کرکے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے حالات دریافت کئے تو معلوم ہوا کہ بنوثعلبہ اور بنو محارب کے سارے لوگ پہاڑیوں میں محفوظ ہوگئے ہیں اور وہ کھلے میدان میں مسلمانوں کے سامنے نہیں آئیں گے۔ ناچار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو واپسی کا حکم دینا پڑا مگر اس غزوہ کا اتنا فائدہ ضرور ہو گیا کہ اس وقت جو خطرہ بنوغطفان کی طرف سے پیدا ہوا تھا وہ وقتی طور پر ٹل گیا۔‘‘ (سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ463)
غزوۂ احد جو شوال 3؍ہجری میں ہوا تھا۔ حضرت عثمانؓ غزوۂ احد میں شریک ہوئے تھے۔ پہلے دو غزوات میں تو (شامل) نہیں ہوئے تھے اس غزوۂ احد میں شریک ہوئے تھے۔ دورانِ جنگ صحابہ کا ایک گروہ ایسا تھا جو اچانک حملہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی خبر سن کر میدان سے اِدھر اُدھر ہو گیا اور ایک وقت ایسا آیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ صرف 12 صحابہ کا ایک چھوٹا سا گروہ رہ گیا تھا۔ حضرت عثمانؓ پہلے گروہ میں سے تھے۔ (ماخوذ از شرح العلامہ الزرقانی علی المواھب اللدنیہ جزء 2صفحہ 418-419 باب غزوۃ احد، دارالکتب العلمیۃ بیروت 1996ء)
مسلمانوں نے جب لشکرِ قریش پر غلبہ پا لیا اور وہ مالِ غنیمت اکٹھا کرنے لگے تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جن پچاس تیر اندازوں کو اپنی جگہ نہ چھوڑنے کا ارشاد فرمایا تھا انہوں نے فتح کو دیکھ کر اپنی جگہ کو چھوڑ دیا حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سختی سے اپنی جگہ نہ چھوڑنے کا ارشاد فرمایا تھا۔ خالد بن ولید جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے انہوں نے یہ منظر دیکھ کر فوراً وہاں سے مسلمانوں پر حملہ کر دیا۔ یہ حملہ ایسا اچانک، غیرمتوقع اور اس قدر شدید تھا کہ مسلمان منتشر ہو گئے۔ ان منتشر ہونے والے صحابہ میں حضرت عثمانؓ کا نام بھی بیان کیا جاتا ہے۔
قرآن شریف میں ان لوگوں کے ضمن میں ذکر آتا ہے کہ اس وقت کے خاص حالات اور ان لوگوں کے دلی ایمان اور اخلاص کو مدّنظر رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف فرما دیا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَلَّوْا مِنْکُمْ یَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعٰنِ اِنَّمَا اسْتَزَلَّہُمُ الشَّیْطٰنُ بِبَعْضِ مَا کَسَبُوْا وَ لَقَدْ عَفَااللّٰہُ عَنْہُمْ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ۔ (آل عمران: 156)
یقیناً تم میں سے وہ لوگ جو اس دن پھر گئے جس دن دو گروہ متصادم ہوئے یقیناً شیطان نے انہیں پھسلا دیا تھا بعض ایسے اعمال کی وجہ سے جو وہ بجا لائے اور یقیناً اللہ ان سے درگزر کر چکا ہے۔ یقیناً اللہ بہت بخشنے والا اور بہت بردبار ہے۔
اس غزوہ کے دوران مسلمانوں کی اس کیفیت کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے سیرت خاتم النبیین میں لکھا ہےکہ
’’قریش کے لشکر نے قریباً چاروں طرف گھیرا ڈال رکھا تھا اور اپنے پے درپے حملوں سے ہرآن دباتا چلاآتا تھا۔ اس پر بھی مسلمان شاید تھوڑی دیربعد سنبھل جاتے مگر غضب یہ ہوا کہ قریش کے ایک بہادر سپاہی عبداللّٰہ بن قَمِئَہ نے مسلمانوں کے علمبردار مُصْعَبْ بن عُمَیرؓ پر حملہ کیا اور اپنی تلوار کے وار سے ان کا دایاں ہاتھ کاٹ گرایا۔ مُصْعَبْؓ نے فوراً دوسرے ہاتھ میں جھنڈا تھام لیا اور ابن قَمِئَہکے مقابلہ کے لئے آگے بڑھے مگر اس نے دوسرے وار میں ان کا دوسرا ہاتھ بھی قلم کر دیا۔ اس پر مُصْعَبْؓ نے اپنے دونوں کٹے ہوئے ہاتھوں کوجوڑ کر گرتے ہوئے اسلامی جھنڈے کو سنبھالنے کی کوشش کی اور اسے چھاتی سے چمٹا لیا۔ جس پر ابن قَمِئَہ نے ان پر تیسرا وار کیا اور اب کی دفعہ مُصْعَبْ شہید ہو کر گر گئے۔ جھنڈا تو کسی دوسرے مسلمان نے فوراً آگے بڑھ کر تھام لیا مگر چونکہ مُصْعَبْؓ کا ڈیل ڈول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا تھا ابن قَمِئَہنے سمجھا کہ میں نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو مار لیا ہے یا یہ بھی ممکن ہے کہ اس کی طرف سے یہ تجویز محض شرارت اور دھوکا دہی کے خیال سے ہو۔ بہرحال اس نے مُصْعَبْؓ کے شہید ہوکر گرنے پرشور مچا دیا کہ میں نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)کو مار لیا ہے۔ اس خبر سے مسلمانوں کے رہے سہے اوسان بھی جاتے رہے اور ان کی جمعیت بالکل منتشر ہو گئی اور بہت سے صحابی سراسیمہ ہو کر میدان سے بھاگ نکلے۔ اس وقت مسلمان تین حصوں میں منقسم تھے۔ ایک گروہ وہ تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی خبر سن کر میدان سے بھاگ گیا تھا مگر یہ گروہ سب سے تھوڑا تھا‘‘ یا یہ کہہ دیں کہ مایوس ہو کے منتشر ہو گیا تھا۔ ’’ان لوگوں میں حضرت عثمان بن عفانؓ بھی شامل تھے مگر جیسا کہ قرآن شریف میں ذکر آتا ہے اس وقت کے خاص حالات اور ان لوگوں کے دلی ایمان اور اخلاص کو مدنظر رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف فرما دیا۔ ان لوگوں میں سے بعض مدینہ تک جا پہنچے اور اس طرح مدینہ میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خیالی شہادت اور لشکر اسلام کی ہزیمت کی خبر پہنچ گئی جس سے تمام شہر میں ایک کہرام مچ گیا اور مسلمان مرد عورت بچے بوڑھے نہایت سراسیمگی کی حالت میں شہر سے باہر نکل آئے اور احد کی طرف روانہ ہو گئے اور بعض تو جلد جلد دوڑتے ہوئے میدان جنگ میں پہنچے اور اللہ کانام لے کر دشمن کی صفوں میں گھس گئے۔ دوسرے گروہ میں وہ لوگ تھے جوبھاگے تونہیں تھے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی خبر سن کر یاتو ہمت ہار بیٹھے تھے اور یا اب لڑنے کوبیکار سمجھتے تھے اور اس لئے میدان سے ایک طرف ہٹ کر سرنگوں ہوکر بیٹھ گئے۔ تیسرا گروہ وہ تھا جو برابر لڑ رہا تھا۔ ان میں سے کچھ تو وہ لوگ تھے جوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد جمع تھے اور بےنظیر جان نثاری کے جوہر دکھا رہے تھے اور اکثر وہ تھے جومیدان جنگ میں منتشر طور پر لڑ رہے تھے۔ ان لوگوں اور نیز گروہ ثانی کے لوگوں کو جوں جوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زندہ موجود ہونے کاپتہ لگتا جاتا تھا یہ لوگ دیوانوں کی طرح لڑتے بھڑتے آپؐ کے اردگرد جمع ہوتے جاتے تھے۔ اس وقت جنگ کی حالت یہ تھی کہ قریش کالشکر گویا سمندر کی مہیب لہروں کی طرح چاروں طرف سے بڑھا چلاآتا تھا اور میدان جنگ میں ہرطرف سے تیر اور پتھروں کی بارش ہورہی تھی۔ جاں نثاروں نے اس خطرہ کی حالت کو دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد گھیرا ڈال کر آپؐ کے جسم مبارک کواپنے بدنوں سے چھپا لیا مگر پھربھی جب کبھی حملہ کی رو اٹھتی تھی تو یہ چند گنتی کے آدمی ادھر ادھر دھکیل دئے جاتے تھے اور ایسی حالت میں بعض اوقات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قریباً اکیلے رہ جاتے تھے۔‘‘ (سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ493-494)
بہرحال اس میں یہ بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت عثمانؓ مایوس ہو کے یا کسی وجہ سے اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی خبر سن کے وہاں سے چلے گئے تھے اور اسی طرح مایوس ہو کر بیٹھنے والوں میں نہیں تھے لیکن بیٹھنے والوں میں حضرت عمرؓ کا بھی ذکر آتا ہے۔ بہرحال وہ تو اپنے وقت پر بیان ہو گا۔
اب مَیں بیان کرتا ہوں صلح حدیبیہ کے موقع پر جو سفارت کاری ہوئی اور بیعتِ رضوان ہوئی اس میں حضرت عثمانؓ کا کردار یا آپؓ کے بارے میں کیا واقعات ملتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رؤیا دیکھا کہ آپؐ اور آپؐ کے صحابہ امن کے ساتھ اپنے سروں کو منڈائے ہوئے اور بال چھوٹے کیے ہوئے بیت اللہ میں داخل ہو رہے ہیں۔ اس رؤیا کی بنا پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ذوالقعدہ 6؍ ہجری میں اپنے چودہ سو اصحاب کے ہمراہ عمرے کی ادائیگی کے لیے مدینہ سے نکلے۔ حدیبیہ کے مقام پر آپؐ نے پڑاؤ کیا۔ قریش نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عمرے کی ادائیگی سے روکا۔ فریقین کے درمیان جب سفارت کاری کا آغاز ہوا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکّہ کے جوش و خروش کا حال سنا تو آپؐ نے فرمایا کسی ایسے بااثر شخص کو مکہ میں بھجوایا جائے جو مکّہ ہی کا رہنے والا ہو اور قریش کے کسی معزز قبیلے سے تعلق رکھتا ہو۔ (شرح العلامۃالزرقانی علی المواھب اللدنیۃ للقسطلانی جزء3 صفحہ169-170، 222 امر الحدیبیہ، دارالکتب العلمیۃ بیروت 1996ء)
چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس مقصد کے لیے بھجوایا گیا۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس کی جو تفصیل بیان کی ہے اس کا کچھ ذکر مَیں کرتا ہوں۔ آپؓ نے لکھا ہے کہ
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خواب دیکھی کہ آپؐ اپنے صحابہ کے ساتھ بیت اللہ کا طواف کررہے ہیں۔ اس وقت ذوقعدہ کا مہینہ قریب تھا جوزمانہ جاہلیت میں بھی ان چار مبارک مہینوں میں سے سمجھا جاتا تھا جن میں ہر قسم کا جنگ وجدل منع تھا۔ گویا ایک طرف آپؐ نے یہ خواب دیکھی اور دوسری طرف یہ وقت بھی ایسا تھا کہ جب عرب کے طول وعرض میں جنگ کاسلسلہ رک کر امن وامان ہوجاتا تھا۔ گو یہ حج کے دن نہیں تھے اور ابھی تک اسلام میں حج باقاعدہ طورپر مقرر بھی نہیں ہوا تھا لیکن خانہ کعبہ کاطواف ہروقت ہو سکتا تھا۔ اس لیے آپؐ نے اس خواب دیکھنے کے بعد اپنے صحابہؓ سے تحریک فرمائی کہ عمرہ کے واسطے تیاری کر لیں۔ اس موقع پر آپؐ نے صحابہ میں یہ بھی اعلان فرمایا کہ چونکہ اس سفر میں کسی قسم کاجنگی مقابلہ مقصودنہیں ہے بلکہ محض ایک پُرامن دینی عبادت کابجا لانا مقصود ہے اس لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ اس سفر میں اپنے ہتھیار ساتھ نہ لیں۔ البتہ عرب کے دستور کے مطابق صرف اپنی تلواروں کو نیاموں کے اندر بند کر کے مسافرانہ طریق پر اپنے ساتھ رکھا جا سکتا ہے اور ساتھ ہی آپؐ نے مدینہ کے گردونواح کے بدوی لوگوں میں بھی جو بظاہر مسلمانوں کے ساتھ تھے یہ تحریک فرمائی کہ وہ بھی ہمارے ساتھ شریک ہو کر عمرہ کی عبادت بجا لائیں مگر افسوس ہے کہ ایک نہایت قلیل یعنی برائے نام تعداد کے سوا ان مسلمان کہلانے والے کمزور ایمان بدوی لوگوں نے جو مدینہ کے آس پاس آباد تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلنے سے احتراز کیا کیونکہ ان کاخیال تھا کہ خواہ مسلمانوں کی نیت عمرہ کے سوا کچھ نہیں مگر قریش بہرحال مسلمانوں کو روکیں گے اور اس طرح مقابلہ کی صورت پیدا ہو جائے گی اور وہ سمجھتے تھے کہ چونکہ یہ مقابلہ مکہ کے قریب اور مدینہ سے دور ہو گا اس لیے کوئی مسلمان بچ کر واپس نہیں آسکے گا۔ اس لیے ڈر کر وہ اس میں شامل نہیں ہوئے۔ بہرحال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کچھ اوپر چودہ سو صحابیوں کی جمعیت کے ساتھ ذوقعدہ 6؍ہجری کے شروع میں ہی پیر کے دن بوقت صبح مدینہ سے روانہ ہوئے۔ اس سفر میں آپؐ کی زوجہ محترمہ حضرت ام سلمہؓ آپؐ کے ہم رکاب تھیں اور مدینہ کا امیر نُمَیْلَہ بن عبداللہؓ کو اور امام الصلوٰۃ عَبْدُاللّٰہ بن اُمِّ مکْتُومؓ کو جو آنکھوں سے معذور تھے مقرر کیا گیا تھا۔
جب آپؐ ذُوالْحلَیْفَہ میں پہنچے جومدینہ سے قریباً چھ میل کے فاصلہ پر مکہ کے راستہ پرواقع ہے تو آپؐ نے ٹھہرنے کا حکم دیا اور نماز ظہر کی ادائیگی کے بعد قربانی کے اونٹوں کو جو تعداد میں ستّر تھے نشان لگائے جانے کا ارشاد فرمایا اور صحابہؓ کو ہدایت فرمائی کہ وہ حاجیوں کا مخصوص لباس جو اصطلاحاً احرام کہلا تا ہے پہن لیں اور آپؐ نے خود بھی احرام باندھ لیا اور پھر قریش کے حالات کا علم حاصل کرنے کے لیے کہ آیا وہ کسی شرارت کا ارادہ تو نہیں رکھتے ایک خبر رساں بُسر بن سُفْیَان نامی کو جو قبیلہ خزاعہ سے تعلق رکھتا تھا، جو مکہ کے قرب میں آ باد تھا، آگے بھجوا کر آہستہ آہستہ مکہ کی طرف روانہ ہوئے اور مزید احتیاط کے طور پر مسلمانوں کی بڑی جمعیت کے آگے آگے رہنے کے لیے عَبَّاد بن بِشْرؓ کی کمان میں بیس سواروں کا ایک دستہ بھی متعین فرمایا۔ جب آپؐ چند روز کے سفر کے بعد عَسْفَان کے قریب پہنچے جومکہ سے تقریباً دو منزل کے راستہ پر واقع ہے۔ (کہا جاتا ہے کہ ایک منزل نو میل کی ہوتی ہے۔) تو آپؐ کے خبر رساں نے واپس آ کر آپؐ کی خدمت میں اطلاع دی کہ قریش مکہ بہت جوش میں ہیں اور آپ کو روکنے کاپختہ عزم کیے ہوئے ہیں۔ حتی کہ ان میں سے بعض نے اپنے جوش اور وحشت کے اظہار کے لیے چیتوں کی کھالیں پہن رکھی ہیں اور جنگ کاپختہ عزم کر کے بہرصورت مسلمانوں کو روکنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ قریش نے اپنے چند جانباز سواروں کا ایک دستہ خالدبن ولید کی کمان میں جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے آگے بھجوا دیا ہے اور یہ کہ یہ دستہ اس وقت مسلمانوں کے قریب پہنچا ہوا ہے اور اس دستہ میں عکرمہ بن ابوجہل بھی شامل ہے وغیرہ وغیرہ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خبر سنی تو تصادم سے بچنے کی غرض سے صحابہ کو حکم دیا کہ مکہ کے معروف راستے کو چھوڑ کر دائیں جانب ہوتے ہوئے آگے بڑھیں۔ چنانچہ مسلمان ایک دشوار گزار اور کٹھن رستہ پر پڑ کر سمندر کی جانب ہوتے ہوئے آگے بڑھنا شروع ہوئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس نئے رستہ پر چلتے ہوئے حدیبیہ کے قریب پہنچے جو مکہ سے ایک منزل یعنی صرف نو میل کے فاصلہ پر ہے اور حدیبیہ کی گھاٹیوں پرسے مکہ کی وادی کاآغاز ہو جاتا ہے تو آپ کی اونٹنی جو اَلْقُصْوَاکے نام سے مشہور تھی اور بہت سے غزوات میں آپؐ کے استعمال میں رہ چکی تھی یکلخت پاؤں پھیلا کر زمین پر بیٹھ گئی اور باوجود اٹھانے کے اٹھنے کا نام نہ لیتی تھی۔ صحابہؓ نے عرض کیا کہ شاید یہ تھک گئی ہے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں نہیں۔ یہ تھکی نہیں اور نہ ہی اس طرح تھک کر بیٹھ جانا اس کی عادت میں داخل ہے بلکہ حق یہ ہے کہ جس بالاہستی نے اس سے پہلے اصحاب فیل کے ہاتھی کو مکہ کی طرف بڑھنے سے روکا تھا اسی نے اب اس اونٹنی کو بھی روکا ہے۔ پس خدا کی قسم !مکہ کے قریش جو مطالبہ بھی حرم کی عزت کے لیے مجھ سے کریں گے میں اسے قبول کروں گا۔ یہ آپؐ نے فرمایا۔ اس کے بعد آپؐ نے اپنی اونٹنی کوپھر اٹھنے کی آواز دی اور خدا کی قدرت کہ اس دفعہ وہ جھٹ اٹھ کر چلنے کو تیار ہوگئی۔ اس پر آپؐ اسے وادیٔ حدیبیہ کے پرلے کنارے کی طرف لے گئے اور وہاں ایک چشمہ کے پاس ٹھہر کراونٹنی سے نیچے اتر آئے اور اسی جگہ آپؐ کے فرمانے پرصحابہؓ نے ڈیرے ڈال دیے۔
پھر یہاں آگے ذکر آتا ہے کہ قریش کے ساتھ صلح کی گفتگو کا آغاز کس طرح ہوا۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کی وادی میں پہنچ کر قیام فرمایا تو اس وادی کے چشمہ کے پاس قیام کیا۔ جب صحابہؓ اس جگہ ڈیرے ڈال چکے توقبیلہ خُزَاعہ کاایک نامور رئیس بُدَیْل بن ورقا نامی جوقریب ہی کے علاقہ میں آباد تھا اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات کے لیے آیا اور اس نے آپؐ سے عرض کیا کہ مکہ کے رؤسا جنگ کے لیے تیار کھڑے ہیں اور وہ کبھی بھی آپؐ کو مکہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے۔ آپؐ نے فرمایا کہ ہم تو جنگ کی غرض سے نہیں آئے بلکہ صرف عمرہ کی نیت سے آئے ہیں اور افسوس ہے کہ باوجود اس کے کہ قریش مکہ کو جنگ کی آگ نے جلاجلا کر خاک کررکھا ہے مگر پھر بھی یہ لوگ باز نہیں آتے اور مَیں تو ان لوگوں کے ساتھ اس سمجھوتہ کے لیے بھی تیار ہوں کہ وہ میرے خلاف جنگ بند کر کے مجھے دوسرے لوگوں کے لیے آزاد چھوڑ دیں۔ مکہ والوں سے مَیں کوئی تعارض نہیں کرتا۔ کچھ ان سے تعلق نہیں رکھوں گا اور دوسرے لوگوں کو اسلام کا پیغام پہنچاؤں گالیکن اگر انہوں نے میری اس تجویز کو بھی ردّ کردیا اور بہرصورت جنگ کی آگ کوبھڑکائے رکھا تو مجھے بھی اس ذات کی قَسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ پھر مَیں بھی اس مقابلہ سے اس وقت تک پیچھے نہیں ہٹوں گا کہ یا تو میری جان اس رستہ میں قربان ہو جائے اور یا خدا مجھے فتح عطا کرے۔ اگر میں ان کے مقابلہ میں آکر مٹ گیا توقصہ ختم ہوا لیکن اگرخدا نے مجھے فتح عطا کی اور میرے لائے ہوئے دین کوغلبہ حاصل ہو گیا توپھر مکہ والوں کوبھی ایمان لے آنے میں کوئی تامل نہیں ہونا چاہیے۔ بُدَیْل بن وَرْقا پر آپؐ کی اس مخلصانہ اور دردمندانہ تقریر کا بہت اثر ہوا اور اس نے آپؐ سے عرض کیا کہ آپ مجھے کچھ مہلت دیں کہ مَیں مکہ جا کر آپ کاپیغام پہنچاؤں اور مصالحت کی کوشش کروں۔ آپؐ نے اجازت دے دی اور بُدَیْلاپنے قبیلہ کے چند آدمیوں کو اپنے ساتھ لے کر مکہ کی طرف روانہ ہو گیا۔
جب بُدَیْل بن وَرقا مکہ میں پہنچا تواس نے قریش کو جمع کر کے ان سے کہا کہ میں اس شخص یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے آرہا ہوں اور میرے سامنے اس نے ایک تجویز پیش کی ہے اگر آپ اجازت دیں تو میں اس کا ذکر کروں۔ اس پر قریش کے جوشیلے اور غیر ذمہ دار لوگ کہنے لگے کہ ہم اس شخص کی کوئی بات سننے کے لیے تیار نہیں مگر اہل الرائے اور ثقہ لوگوں نے کہا۔ ہاں جوتجویز بھی ہے وہ ہمیں بتاؤ۔ چنانچہ بُدَیْل نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ تجویز کااعادہ کیا۔ اس پر ایک شخص عُرْوَہ بن مسعودنامی جو قبیلہ ثقیف کا ایک بہت بااثر رئیس تھا اور اس وقت مکہ میں موجود تھا کھڑا ہو گیا اور قدیم عربی انداز میں قریش سے کہنے لگا کہ اے لوگو ! کیا میں تمہارے باپ کی جگہ نہیں ہوں؟ انہوں نے کہا ہاں۔ پھر اس نے کہاکیا آپ لوگ میرے بیٹوں کی طرح نہیں ہیں؟ انہوں نے کہا ہاں۔ پھر عُرْوَہنے کہاکیا تمہیں مجھ پر کسی قسم کی بے اعتمادی ہے؟ قریش نے کہا ہرگز نہیں۔ اس پر اس نے کہا کہ پھر میری یہ رائے ہے کہ اس شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے سامنے ایک عمدہ بات پیش کی ہے۔ آپ کو چاہیے کہ اس کی تجویز کوقبول کر لیں اور مجھے اجازت دیں کہ میں آپ کی طرف سے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس جا کر مزید گفتگو کروں۔ قریش نے کہا بے شک آپ جائیں اور گفتگو کریں۔ جب وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں پہنچا تو اس وقت وہاں ایک روح پرور نظارہ بھی اس نے دیکھا۔ عُرْوَہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور آپؐ کے ساتھ گفتگو شروع کی۔ آپؐ نے اس کے سامنے اپنی وہی تقریر دوہرائی جو اس سے قبل بُدَیْل بن وَرْقَا کے سامنے فرماچکے تھے۔ عُرْوَہ اصولاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے کے ساتھ متفق تھا مگر قریش کی سفارت کاحق ادا کرنا اور ان کے حق میں زیادہ سے زیادہ شرائط محفوظ کرانا چاہتا تھا۔ عُرْوَہآپؐ کے ساتھ گفتگو ختم کر کے قریش کی طرف لوٹا اور جاتے ہی قریش سے کہنے لگا۔ اے لوگو! مَیں نے دنیا میں بہت سفر کیے ہیں۔ بادشاہوں کے دربار میں شامل ہوا ہوں اور قیصروکسریٰ اور نجاشی کے سامنے بطوروفد کے پیش ہوچکا ہوں مگر خدا کی قسم ! جس طرح میں نے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)کے صحابیوں کو محمد کی عزت کرتے دیکھا ہے ایسا میں نے کسی اَورجگہ نہیں دیکھا۔ پھراس نے اپنا وہ سارا مشاہدہ بیان کیا جو اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں دیکھا تھا اور آخر میں کہنے لگا کہ مَیں پھر یہی مشورہ دیتا ہوں کہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کی تجویز ایک منصفانہ تجویز ہے اسے قبول کرلینا چاہیے۔
عُرْوَہ کی یہ گفتگو سن کر قبیلہ بنی کنانہ کے ایک رئیس نے جس کا نام حُلَیْس بن عَلْقَمَہ تھا قریش سے کہا اگر آپ لوگ پسند کریں تو میں محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس جاتا ہوں۔ انہوں نے کہا ہاں بے شک جاؤ۔ چنانچہ یہ شخص حدیبیہ میں آیا اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دُور سے آتے دیکھا تو صحابہؓ سے فرمایا یہ شخص جو ہماری طرف آرہا ہے ایسے قبیلہ سے تعلق رکھتا ہے جو قربانی کے مناظر کو پسند کرتے ہیں۔ پس فوراً اپنے قربانی کے جانوروں کواکٹھا کر کے اس کے سامنے لاؤ تا کہ اسے پتہ لگے اور احساس پیدا ہو کہ ہم کس غرض سے آئے ہیں۔ چنانچہ صحابہؓ اپنے قربانی کے جانوروں کو ہنکاتے ہوئے اور تکبیروں کی آواز بلند کرتے ہوئے اس کے سامنے جمع ہو گئے۔ جب اس نے یہ نظارہ دیکھا تو کہنے لگا۔ سبحان اللہ! سبحان اللہ! یہ تو حاجی لوگ ہیں۔ انہیں بیت اللہ کے طواف سے کسی طرح روکا نہیں جا سکتا۔ چنانچہ وہ جلدی ہی قریش کی طرف واپس لوٹ گیا اور قریش سے کہنے لگا مَیں نے دیکھا ہے کہ مسلمانوں نے اپنے جانوروں کے گلے میں قربانی کے ہار باندھ رکھے ہیں اور ان پر قربانی کے نشان لگائے ہوئے ہیں۔ پس یہ کسی طرح مناسب نہیں کہ انہیں طوافِ کعبہ سے روکا جائے۔
قریش میں اس وقت ایک سخت انتشار کی کیفیت پیدا ہو رہی تھی اور لوگوں کی دو پارٹیاں بن گئی تھیں۔ ایک پارٹی بہرصورت مسلمانوں کو واپس لوٹانے پر مُصر تھی اور مقابلہ کے خیالات پر سختی سے قائم تھی مگر دوسری پارٹی اسے اپنی قدیم مذہبی روایات کے خلاف پا کر خوف زدہ ہو رہی تھی اور کسی باعزت سمجھوتہ کی متمنی تھی۔ اس لیے فیصلہ معلق چلا جا رہا تھا۔ اس موقع پر ایک عربی رئیس مِکْرَزْ بن حَفْصنامی نے قریش سے کہا کہ مجھے جانے دو۔ مَیں کوئی فیصلہ کی راہ نکالوں گا۔ قریش نے کہا اچھا تم بھی کوشش کر کے دیکھ لو۔ چنانچہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دُور سے آتے دیکھا تو فرمایا خدا خیر کرے یہ آدمی تواچھا نہیں۔ بہرحال مِکْرَزآپ کے پاس آیا اور گفتگو کرنے لگا مگر ابھی وہ بات کرہی رہا تھا کہ مکہ کا ایک نامور رئیس سُہَیل بن عَمْرو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا جسے غالباً قریش نے اپنی گھبراہٹ میں مِکْرَز کی واپسی کاانتظار کرنے کے بغیر بھجوادیا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سہیل کو آتے دیکھا تو فرمایا یہ سُہَیلآتا ہے۔ اب خدا نے چاہا تو معاملہ آسان ہو جائے گا۔
بہرحال یہ بات چیت ہوتی رہی۔ اس موقع پر یہ واقعہ بھی ہوا کہ جب قریش کی طرف سے پے درپے سفیر آنے شروع ہوئے تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ محسوس کرکے کہ آپ کی طرف سے بھی کوئی فہمیدہ شخص قریش کی طرف جانا چاہیے جو انہیں ہمدردی اور دانائی کے ساتھ مسلمانوں کازاویہ نظر سمجھا سکے ایک شخص خِرَاشْ بن اُمَیَّہ کواس کام کے لیے چنا جو قبیلہ خُزاعہ سے تعلق رکھتا تھا۔ یعنی وہی قبیلہ جس سے قریش کے سب سے پہلے سفیر بُدَیْل بن وَرْقَاکا تعلق تھا اور اس موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خِرَاشْ کو سواری کے لیے خود اپنا ایک اونٹ عطا فرمایا۔ خِرَاشْ قریش کے پاس گیا مگر چونکہ ابھی یہ گفتگو کا ابتدائی مرحلہ تھا اور نوجوانانِ قریش بہت جوش میں تھے۔ ایک جوشیلے نوجوان عکرمہ بن ابوجہل نے خراش کے اونٹ پرحملہ کر کے اسے زخمی کردیا جس کے عربی دستور کے مطابق یہ معنی تھے کہ ہم تمہاری نقل وحرکت کو جبرا ًروکتے ہیں۔ علاوہ ازیں قریش کی یہ جوشیلی پارٹی خود خِرَاشْ پر بھی حملہ کرنا چاہتی تھی مگربڑے بوڑھوں نے بیچ بچاؤ کرکے اس کی جان بچائی اور وہ اسلامی کیمپ میں واپس آگیا۔ کفار کی طرف سے وہ واپس آ گیا۔ قریش مکہ نے اسی پر اکتفانہیں کیا بلکہ اپنے جوش میں اندھے ہوکر اس بات کا بھی ارادہ کیا کہ اب جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ مکہ سے اس قدر قریب اور مدینہ سے اتنی دور آئے ہوئے ہیں تو ان پر حملہ کرکے جہاں تک ممکن ہو نقصان پہنچایا جائے۔ چنانچہ اس غرض کے لیے انہوں نے چالیس پچاس آدمیوں کی ایک پارٹی حدیبیہ کی طرف روانہ کی اور اس گفت وشنید کے پردے میں جو اس وقت فریقین میں جاری تھی ان لوگوں کوہدایت دی کہ اسلامی کیمپ کے ارد گرد گھومتے ہوئے تاک میں رہیں اور موقع پاکر مسلمانوں کا نقصان کرتے رہیں بلکہ بعض روایتوں سے یہاں تک پتہ لگتا ہے کہ یہ لوگ تعداد میں اسّی تھے اور اس موقع پر قریش نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی بھی سازش کی تھی مگربہرحال خدا کے فضل سے مسلمان اپنی جگہ ہوشیار تھے۔ چنانچہ قریش کی اس سازش کا راز کھل گیا اور یہ لوگ سب کے سب گرفتار کرلیے گئے۔ مسلمانوں کو اہل مکہ کی اس حرکت پرجو اَشْہرحرم میں اور پھر گویاحَرم کے علاقہ میں کی گئی تھی سخت طیش تھا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو معاف فرما دیا اور مصالحت کی گفتگو میں روک نہ پیدا ہونے دی۔ اہل مکہ کی اس حرکت کاقرآن شریف نے بھی ذکرکیا ہے چنانچہ فرماتا ہے۔ ہُوَ الَّذِیْ کَفَّ اَیْدِیَہُمْ عَنْکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ عَنْہُمْ بِبَطْنِ مَکَّۃَ مِنْ بَعْدِ اَنْ اَظْفَرَکُمْ عَلَیْہِمْ وَکَانَ اللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرًا۔ (الفتح: 25)یعنی خدا نے اپنے فضل سے کفار کے ہاتھوں کو مکہ کی وادی میں تم سے روک کر رکھا اور تمہاری حفاظت کی اور پھر جب تم نے ان لوگوں پر غلبہ پالیا اور انہیں اپنے قابو میں کرلیا توخدا نے تمہارے ہاتھوں کوان سے روک کر رکھا۔
بہرحال جب ہم ان تمام حالات اور اس پس منظر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مسلسل صبر اور حوصلہ اور امن کی کوشش کو دیکھتے ہیں جو انتہا کو پہنچا ہوا ہے تو ہمیں نظر آتا ہے کہ وہ ایک صبر اور امن کی کوشش ہے جس کی کوئی مثال دنیا میں نہیں مل سکتی۔ آپ مسلسل اس کوشش میں تھے کہ امن کی صورت پیدا ہو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب قریش کی شرارت کو دیکھا اور ساتھ ہی خِرَاشْ بن امیہسے اہل مکہ کے جوش وخروش کا حال سنا توقریش کو ٹھنڈا کرنے اور راہ راست پر لانے کی غرض سے ارادہ فرمایا کہ کسی ایسے بااثر شخص کو مکہ میں بھجوایا جائے جومکہ ہی کا رہنے والا ہو اور قریش کے کسی معزز قبیلہ سے تعلق رکھتا ہو۔ یعنی اس کے بعد بھی آپ نے کوشش چھوڑی نہیں بلکہ پھر بھی یہ رسک (risk)لیا کہ کسی کو دوبارہ بھیجنا چاہیے۔ چنانچہ آپ نے حضرت عمر بن الخطابؓ سے فرمایا کہ بہتر ہوگا کہ آپ مکہ میں جائیں اور مسلمانوں کی طرف سے سفارت کا فرض سرانجام دیں۔ حضرت عمرؓ نے عرض کیا یارسول اللہؐ ! آپ جانتے ہیں کہ مکہ کے لوگ میرے سخت دشمن ہورہے ہیں اور اس وقت مکّہ میں میرے قبیلہ کا کوئی بااثر آدمی موجودنہیں جس کا اہل ِمکّہ پر دباؤ ہو۔ اس لیے میرا مشورہ ہے کہ کامیابی کارستہ آسان کرنے کے لیے اس خدمت کے لیے عثمان بن عَفَّانؓ کوچنا جائے جن کا قبیلہ بنو امیہ اس وقت بہت بااثر ہے اور مکہ والے عثمان کے خلاف شرارت کی جرأت نہیں کر سکتے اور اگر حضرت عثمانؓ کو بھیجا جائے تو کامیابی کی زیادہ امید ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مشورہ کو پسند فرمایا اور حضرت عثمانؓ سے ارشاد فرمایا کہ وہ مکہ جائیں اور قریش کو مسلمانوں کے پُرامن ارادوں اور عمرہ کی نیت سے آگاہ کریں اور آپؐ نے حضرت عثمانؓ کو اپنی طرف سے ایک تحریر بھی لکھ کر دی جو رؤسائے قریش کے نام تھی۔ اس تحریر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آنے کی غرض بیان کی اور قریش کویقین دلایا کہ ہماری نیت صرف ایک عبادت کا بجا لانا ہے اور ہم پُرامن صورت میں عمرہ بجا لا کر واپس چلے جائیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمانؓ سے یہ بھی فرمایا کہ مکّہ میں جو کمزور مسلمان ہیں انہیں بھی ملنے کی کوشش کرنا اور ان کی ہمت بڑھانا اور کہنا کہ ذرا اَورصبر سے کام لیں۔ خدا عنقریب کامیابی کا دروازہ کھولنے والا ہے۔ یہ پیغام لے کر حضرت عثمانؓ مکہ میں گئے اور ابوسفیان سے مل کر جو اس زمانہ میں مکہ کا رئیس اعظم تھا اور حضرت عثمانؓ کا قریبی عزیز بھی تھا اہل ِمکہ کے ایک عام مجمع میں پیش ہوئے۔ اس مجمع میں حضرت عثمانؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تحریر پیش کی جو مختلف رؤسا ئے قریش نے فرداً فرداً بھی ملاحظہ کی مگر باوجود اس کے سب لوگ اپنی اس ضد پر قائم رہے کہ بہرحال مسلمان اس سال مکہ میں داخل نہیں ہو سکتے۔ حضرت عثمانؓ کے زور دینے پر قریش نے کہا کہ اگر تمہیں زیادہ شوق ہے تو ہم تم کوذاتی طور پر طواف بیت اللہ کاموقع دے دیتے ہیں مگراس سے زیادہ نہیں۔ حضرت عثمانؓ نے کہا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تومکہ سے باہر روکے جائیں اور میں طواف کروں !مگرقریش نے کسی طرح نہ مانا اور بالآخر حضرت عثمانؓ مایوس ہو کر واپس آنے کی تیاری کرنے لگے۔ اس موقع پر مکہ کے شریر لوگوں کو یہ شرارت سوجھی کہ انہوں نے غالباً اس خیال سے کہ اس طرح ہمیں مصالحت میں زیادہ مفید شرائط حاصل ہوسکیں گی حضرت عثمانؓ اور ان کے ساتھیوں کو مکہ میں روک لیا۔ اس پر مسلمانوں میں یہ افواہ مشہور ہوئی کہ اہل ِمکّہ نے حضرت عثمانؓ کو قتل کردیا ہے۔ یہ خبر جب پہنچی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی شدید غصہ اور صدمہ تھا۔ تب آپ نے وہاں بیعتِ رضوان لی۔
اس کے بارے میں لکھا ہے۔ یہ خبر حدیبیہ میں پہنچی تو مسلمانوں میں سخت جوش پیدا ہوا کیونکہ عثمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد اور معزز ترین صحابہ میں سے تھے اور مکہ میں بطور اسلامی سفیر کے گئے تھے اور یہ دن بھی اَشْہرِِحُرُمکے تھے، حرمت والا مہینہ تھا اور پھر مکہ خود حرم کا علاقہ تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً تمام مسلمانوں میں اعلان کر کے انہیں ایک ببول یعنی کیکر کے درخت کے نیچے جمع کیا اور جب صحابہ جمع ہو گئے تو اس خبر کا ذکر کر کے فرمایا کہ اگر یہ اطلاع درست ہے توخدا کی قسم! ہم اس جگہ سے اس وقت تک نہیں ٹلیں گے کہ عثمان کا بدلہ نہ لے لیں۔ پھر آپؐ نے صحابہؓ سے فرمایا: آؤ اور میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر جو اسلام میں بیعت کا طریقہ ہے یہ عہد کرو کہ تم میں سے کوئی شخص پیٹھ نہیں دکھائے گا اور اپنی جان پر کھیل جائے گا مگر کسی حال میں اپنی جگہ نہیں چھوڑے گا۔ اس اعلان پر صحابہؓ بیعت کے لیے اس طرح لپکے کہ ایک دوسرے پر گرے پڑے تھے اور ان چودہ پندرہ سو مسلمانوں کا کہ یہی اس وقت اسلام کی جمع پونجی تھی، کُل مسلمان تھے، ایک ایک فرد اپنے محبوب آقا کے ہاتھ پر گویا دوسری دفعہ بک گیا۔ جب بیعت ہورہی تھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا بایاں ہاتھ اپنے دائیں ہاتھ پر رکھ کر فرمایا کہ یہ عثمان کا ہاتھ ہے کیونکہ اگروہ یہاں ہوتا تواس مقدس سودے میں کسی سے پیچھے نہ رہتا لیکن اس وقت وہ خدا اور اس کے رسول کے کام میں مصروف ہے۔ اس طرح یہ بجلی کا سا منظر اپنے اختتام کو پہنچا۔
اسلامی تاریخ میں یہ بیعت بیعتِ رضوان کے نام سے مشہور ہے یعنی وہ بیعت جس میں مسلمانوں نے خدا کی کامل رضا مندی کا انعام حاصل کیا۔ قرآن شریف نے بھی اس بیعت کا خاص طور پر ذکر فرمایا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہےلَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوْبِہِمْ فَاَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ عَلَیْہِمْ وَاَثَابَہُمْ فَتْحًا قَرِیْبًا۔ (الفتح: 19)یعنی اللہ تعالیٰ خوش ہو گیا مسلمانوں سے جب کہ اے رسول! وہ ایک درخت کے نیچے تیری بیعت کررہے تھے کیونکہ اس بیعت سے ان کے دلوں کا مخفی اخلاص خدا کے ظاہری علم میں آ گیا سو خدا نے بھی ان پر سکینت نازل فرمائی اور انہیں ایک قریب کی فتح کا انعام عطا کیا۔
صحابہ کرامؓ بھی ہمیشہ اس بیعت کو بڑے فخر اور محبت کے ساتھ بیان کیا کرتے تھے اور ان میں سے اکثر بعد میں آنے والے لوگوں سے کہا کرتے تھے کہ تم تو مکہ کی فتح کو فتح شمار کرتے ہو مگر ہم بیعت رضوان ہی کو فتح خیال کرتے تھے اور اس میں شبہ نہیں کہ یہ بیعت اپنے کوائف کے ساتھ مل کر ایک نہایت عظیم الشان فتح تھی۔ نہ صرف اس لیے کہ اس نے آئندہ فتوحات کا دروازہ کھول دیا بلکہ اس لیے بھی کہ اس سے اسلام کی اس جاں فروشانہ روح کا جو دینِ محمدی کا گویا مرکزی نقطہ ہے ایک نہایت شاندار رنگ میں اظہار ہوا اور فدائیان اسلام نے اپنے عمل سے بتا دیا کہ وہ اپنے رسولؐ اور اس رسولؐ کی لائی ہوئی صداقت کے لیے ہر میدان میں اور اس میدان کے ہر قدم پر موت وحیات کے سودے کے لیے تیار ہیں۔ اسی لیے صحابہ کرامؓ بیعتِ رضوان کا ذکر کرتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ یہ بیعت موت کے عہد کی بیعت تھی یعنی اس عہد کی بیعت تھی کہ ہر مسلمان اسلام کی خاطر اور اسلام کی عزت کی خاطر اپنی جان پر کھیل جائے گا مگر پیچھے نہیں ہٹے گا اور اس بیعت کاخاص پہلو یہ تھا کہ یہ عہد وپیمان صرف منہ کا ایک وقتی اقرار نہیں تھا جوعارضی جوش کی حالت میں کردیا گیا ہو بلکہ دل کی گہرائیوں کی آواز تھی جس کے پیچھے مسلمانوں کی ساری طاقت ایک نقطۂ واحد پر جمع تھی۔
جب قریش کو اس بیعت کی اطلاع پہنچی تو وہ خوف زدہ ہو گئے اور نہ صرف حضرت عثمانؓ اور ان کے ساتھیوں کوآزاد کردیا بلکہ اپنے ایلچیوں کوبھی ہدایت دی کہ اب جس طرح بھی ہو مسلمانوں کے ساتھ معاہدہ کر لیں مگر یہ شرط ضرور رکھی جائے کہ اس سال کی بجائے مسلمان آئندہ سال آ کر عمرہ بجا لائیں اور بہرحال اب واپس چلے جائیں۔ دوسری طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی ابتدا سے یہ عہد کرچکے تھے کہ میں اس موقع پر کوئی ایسی بات نہیں کروں گا جو حرم المحرم اور بیت اللہ کے احترام کے خلاف ہو اور چونکہ آپؐ کوخدا نے یہ بشارت دے رکھی تھی کہ اس موقع پر قریش کے ساتھ مصالحت آئندہ کامیابیوں کا پیش خیمہ بننے والی ہے اس لیے گویا فریقین کے لحاظ سے یہ ماحول مصالحت کاایک نہایت عمدہ ماحول تھا اور اسی ماحول میں سُہَیل بن عمرو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا اور آپؐ نے اسے دیکھتے ہی فرمایا کہ اب معاملہ آسان ہوتا نظر آتا ہے۔ صلح کی گفتگو شروع ہوئی جب سُہَیل بن عمرو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آیا تو آپؐ نے اسے دیکھتے ہی فرمایا جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ سُہَیل آتا ہے۔ اب خدا نے چاہا تو معاملہ سہل ہو جائے گا۔ بہرحال سہیل آیا اور آتے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگا۔ آؤ جی۔ اب لمبی بحث جانے دو۔ ہم معاہدے کے لیے تیار ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم بھی تیار ہیں اور اس ارشاد کے ساتھ ہی آپؐ نے اپنے سیکرٹری حضرت علیؓ کو بلوایا۔ اس معاہدہ کی شرائط حسب ذیل تھیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے ساتھی اس سال واپس چلے جائیں۔ آئندہ سال وہ مکہ میں آکر رسم عمرہ اداکرسکتے ہیں مگر سوائے نیام میں بند تلوار کے کوئی ہتھیار ساتھ نہ ہو اور مکہ میں تین دن سے زیادہ نہ ٹھہریں۔ اگرکوئی مرد مکہ والوں میں سے مدینہ جائے تو خواہ وہ مسلمان ہی ہو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسے مدینہ میں پناہ نہ دیں اور واپس لوٹا دیں۔ لیکن اگر کوئی مسلمان مدینہ کوچھوڑ کر مکہ میں آجائے تو اسے واپس نہیں لوٹایا جائے گا۔ ایک اَور روایت میں یہ ہے کہ اگر مکہ والوں میں سے کوئی شخص اپنے ولی یعنی گارڈین (guardian)کی اجازت کے بغیر مدینہ آ جائے تو اسے واپس لوٹا دیا جائے گا۔
قبائل عرب میں سے جو قبیلہ چاہے مسلمانوں کاحلیف بن جائے اور جو چاہے اہل مکہ کا۔
یہ معاہدہ فی الحال دس سال تک کے لیے ہوگا اور اس عرصہ میں قریش اور مسلمانوں کے درمیان جنگ بندرہے گی۔
اس معاہدہ کی دو نقلیں کی گئیں اور بطورگواہ کے فریقین کے متعدد معززین نے ان پر دستخط کیے۔ مسلمانوں کی طرف سے دستخط کرنے والوں میں حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ جو اس وقت تک مکہ سے واپس آچکے تھے یعنی کفار نے جو ان کو روکا تھا تو اس وقت چھوڑد یا تھا۔ انہوں نے بھی اس معاہدے پردستخط کیے۔ عبدالرحمٰن بن عوفؓ، سعد بن ابی وقاصؓ اور ابوعبیدہؓ تھے۔ معاہدہ کی تکمیل کے بعد سُہیل بن عمرو معاہدہ کی ایک نقل لے کر مکہ کی طرف واپس لوٹ گیا اور دوسری نقل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رہی۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 749تا 769)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس واقعہ کو اپنے الفاظ میں اس طرح بیان فرمایا ہے۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ بعض ارد گرد کے لوگوں نے مکہ والوں سے اصرار کیا کہ یہ لوگ صرف طواف کے لیے آئے ہیں آپ ان کو کیوں روکتے ہیں؟مگر مکہ کے لوگ اپنی ضد پر قائم رہے۔ اس پر بیرونی قبائل کے لوگوں نے مکہ والوں سے کہا کہ آپ لوگوں کا یہ طریق بتاتا ہے کہ آپ کو شرارت مدّنظر ہے، صلح مدّنظر نہیں۔ اس لیے ہم لوگ آپ کا ساتھ دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہ ایک نئی بات ہے جو حضرت مصلح موعودؓ نے بیان فرمائی ہے کہ ارد گرد کے قبائل کا بھی پریشر (pressure)تھا۔ اس پر مکہ کے لوگ ڈر گئے اور انہوں نے اس بات پر آمادگی ظاہر کی کہ مسلمانوں کے ساتھ سمجھوتے کی کوشش کریں گے۔ جب اس امر کی اطلاع رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپؐ نے حضرت عثمانؓ کو جو بعد میں آپؐ کے تیسرے خلیفہ ہوئے، مکّہ والوں سے بات چیت کرنے کے لیے بھیجا۔ جب حضرت عثمانؓ مکہ پہنچے تو چونکہ مکہ میں ان کی بڑی وسیع رشتہ داری تھی۔ ان کے رشتہ دار ان کے گرد اکٹھے ہو گئے اور ان سے کہا کہ آپ طواف کر لیں لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگلے سال آ کر طواف کریں مگر حضرت عثمانؓ نے کہا کہ میں اپنے آقاؐ کے بغیر طواف نہیں کر سکتا۔ چونکہ رؤسائے مکہ سے آپ کی گفتگو لمبی ہو گئی تو مکّہ میں بعض لوگوں نے شرارت سے یہ خبر پھیلا دی کہ عثمان کو قتل کر دیا گیا ہے اور یہ خبر پھیلتے پھیلتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک جا پہنچی۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو جمع کیا اور فرمایا: سفیر کی جان ہر قوم میں محفوظ ہوتی ہے۔ تم نے سنا ہے کہ عثمان کو مکہ والوں نے مار دیا ہے۔ اگر یہ خبر درست نکلی تو ہم بزور مکہ میں داخل ہوں گے۔ یعنی ہمارا پہلا ارادہ صلح کے ساتھ مکہ میں داخل ہونے کا تھا، جن حالات میں وہ کیا گیا تھا وہ حالات چونکہ تبدیل ہو جائیں گے اس لیے ہم اس ارادہ کے پابندنہیں رہیں گے۔ جو لوگ یہ عہد کرنے کے لیے تیار ہوں کہ اگر ہمیں آگے بڑھنا پڑا تو یا ہم فتح کر کے لوٹیں گے یا ایک ایک کر کے میدان میں مارے جائیں گے وہ اس عہد پر میری بیعت کریں۔ آپؐ کا یہ اعلان کرنا تھا کہ پندرہ سو زائر جو آپ کے ساتھ آیا تھا یکدم پندرہ سو سپاہی کی شکل میں بدل گیا اور دیوانہ وار ایک دوسرے پر پھاندتے ہوئے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر دوسروں سے پہلے بیعت کرنے کی کوشش کی۔ یہ بیعت تمام اسلامی تاریخ میں بہت بڑی اہمیت رکھتی ہے اور درخت کا عہدنامہ کہلاتی ہے کیونکہ جس وقت یہ بیعت لی گئی اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک درخت کے نیچے بیٹھے تھے۔ جب تک اس بیعت میں شامل ہونے والا آخری آدمی بھی دنیامیں زندہ رہا وہ فخر سے اس بات کا ذکر کیا کرتا تھا کیونکہ پندرہ سو آدمیوں میں سے ایک شخص نے بھی یہ عہد کرنے سے دریغ نہ کیا تھا کہ اگر دشمن نے اسلامی سفیر کو مار دیا ہے تو آج دو صورتوں میں سے ایک ضرور پیدا کر کے چھوڑیں گے یا وہ شام سے پہلے پہلے مکہ کو فتح کر کے چھوڑیں گے یا شام سے پہلے پہلے میدان جنگ میں مارے جائیں گے۔ لیکن ابھی بیعت سے مسلمان فارغ ہی ہوئے تھے کہ حضرت عثمانؓ واپس آ گئے اور انہوں نے بتایا کہ مکہ والے اس سال تو عمرے کی اجازت نہیں دے سکتے مگر آئندہ سال اجازت دینے کے لیے تیار ہیں۔ چنانچہ اس بارے میں معاہدہ کرنے کے لیے انہوں نے اپنے نمائندے مقرر کر دیے۔ حضرت عثمانؓ کے آنے کے تھوڑی دیر کے بعد مکہ کا ایک رئیس سُہَیل نامی معاہدہ کے لیے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ معاہدہ لکھا گیا۔ (ماخوذ از دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد20صفحہ307-308)
حضرت عثمانؓ کا یہ ذکر ابھی چل رہا ہے۔ باقی ان شاء اللہ آئندہ بیان ہو گا۔
دعاؤں کی طرف اب بھی میں توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ پاکستان کے حالات کے لیے خاص طور پر دعا کریں۔ گھروں کی چار دیواری میں بھی اب تو محفوظ نہیں ہیں۔ اپنی جگہوں پہ بھی محفوظ نہیں ہیں۔ ہر جگہ جہاں مولوی کہتا ہے پولیس والے پہنچ جاتے ہیں۔ بعض شریف پولیس والے ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہماری ہمدردیاں آپ کے ساتھ ہیں لیکن ہم کیا کریں کہ ہمیں پریشر اتنا پڑتا ہے کہ ہمارے افسران جو کہتے ہیں پھر ہمیں کرنا پڑتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ ایسے بدفطرت افسران سے بھی ہماری جان چھڑائے، ملک کی جان چھڑائے اور ہر احمدی کو آزادی سے اور محفوظ طریقے پر اپنے وطن میں رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ خاص طور پر دعائیں کرتے رہیں۔ ان شاء اللہ تعالیٰ یہ دعائیں اگر جاری رہیں تو جلد ہم دیکھیں گے کہ مخالفین کا انجام نہایت عبرتناک ہو گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دعاؤں کی بھی توفیق دے اور انہیں قبول بھی فرمائے۔
(الفضل انٹرنیشنل 19؍فروری 2021ء صفحہ 5تا10)
حضرت عثمانؓ نے کفارِ مکہ کو جواب دیا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تومکہ سے باہر روکے جائیں اور میں طواف کروں !
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد، ذوالنّورین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ۔
غزوۂ غطفان، غزوۂ احد، بیعتِ رضوان اور صلح حدیبیہ کے حالات و واقعات کا بیان۔
اگر یہ اطلاع درست ہے توخدا کی قسم! ہم اس جگہ سے اس وقت تک نہیں ٹلیں گے کہ عثمان کا بدلہ نہ لے لیں۔ پھر آپؐ نے صحابہؓ سے فرمایا: آؤ اور میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر یہ عہد کرو کہ تم میں سے کوئی شخص پیٹھ نہیں دکھائے گا اور اپنی جان پر کھیل جائے گا مگر کسی حال میں اپنی جگہ نہیں چھوڑے گا۔
فرمودہ 29؍جنوری2021ء بمطابق 29؍صلح 1400 ہجری شمسی، بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔