حضرت عثمان بن عفانؓ
خطبہ جمعہ 5؍ فروری 2021ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات کے بارے میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر چل رہا ہے۔ ایک غزوہ تھا غزوۂ ذات الرقاع۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نجد میں غطفان کے قبیلہ بنو ثَعْلَبہ اور بنو مُحَارِبْ پر حملہ کے لیے چار سو یا ایک روایت کے مطابق سات سو صحابہ کی جمعیت کے ساتھ روانہ ہوئےاور مدینہ میں حضرت عثمانؓ کو امیر مقرر فرمایا اور ایک روایت کے مطابق حضرت ابوذر غِفَاریؓ کو امیر مقرر فرمایا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نجد میں نَخْل مقام پر پہنچے جسے ذَاتُ الرِّقَاع کہتے ہیں۔ وہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے کے لیے بڑا لشکر تیار تھا۔ دونوں گروہ ایک دوسرے کے بالمقابل ہوئے تاہم جنگ نہ ہوئی اور لوگ ایک دوسرے سے خوفزدہ رہے۔ اسی جنگ کے دوران پہلی مرتبہ مسلمانوں نے صلوٰۃِ خوف ادا کی۔ (سیرت ابن ہشام صفحہ 614تا615 غزوۃ ذات الرقاع مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001ء) (طبقات الکبری لابن سعد جزء 2 صفحہ280 غزوۃ رسول اللّٰہﷺ ذات الرقاع مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء)
اس غزوہ کی وجہ تسمیہ کے بارہ میں یہ بھی ذکر آتا ہے کہ اسے ذات الرقاع اس لیے کہتے ہیں کیونکہ اس میں صحابہ نے اپنے جھنڈوں میں پیوند لگائے ہوئے تھے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس علاقے میں درخت یا پہاڑ تھا جس کا نام ذات الرقاع ہے۔ بخاری کی ایک روایت میں اس طرح ذکر ہے:
حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک حملے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے اور ہم چھ آدمی تھے۔ ہمارے پاس ایک مشترکہ اونٹ تھا جس پر ہم باری باری سوار ہوتے تھے۔ ہمارے پاؤں پھٹ گئے یعنی غزوہ میں چھ آدمی نہیں تھے۔ یہ چھ آدمی اس اونٹ کے لیے تھے۔ اور میرے دونوں پاؤں بھی پھٹ گئے اور میرے ناخن گر گئے اور ہم اپنے پاؤں پر کپڑوں کے ٹکڑے لپیٹتے تھے۔ اس لیے اس کا نام غزوۂ ذات الرقاع یعنی چیتھڑوں والی لڑائی رکھا گیا کیونکہ ہم کپڑوں کے ٹکڑے اپنے پیروں پر باندھے ہوئے تھے۔ (صحیح البخاری کتاب المغازی غزوہ ذات الرّقاع حدیث نمبر 4128)
یہ ایک نوٹ ہے وہ بھی بیان کر دیتا ہوں۔ ریسرچ سیل نے ٹھیک نوٹ لکھا ہے کہ کتب تاریخ و سِیَر کے مطابق غزوۂ ذات الرقاع چار ہجری میں ہوا تھا جبکہ امام بخاری نے اس غزوہ کو غزوۂ خیبر کے بعد قرار دیا ہے کیونکہ حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ اس غزوہ میں شامل ہوئے تھے اور وہ غزوۂ خیبر کے بعد مسلمان ہوئے تھے اس لیے سات ہجری کی تاریخ اس غزوہ کی زیادہ قرین قیاس ہے۔ (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ 614غزوۃ ذات الرقاع مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت2001ء) (الطبقات الکبری لابن سعد الجزء 2 صفحہ280 غزوۃ رسول اللّٰہﷺ ذات الرقاع، دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء) (صحیح البخاری کتاب المغازی غزوہ ذات الرّقاع حدیث نمبر 4128)
فتح مکہ کے ضمن میں جو روایات ہیں جو 8؍ ہجری میں ہوئی اس میں ایک تفصیلی روایت سنن نسائی میں یوں مذکور ہے جس میں فتح مکہ کے موقع پر ان افراد کی تفصیل بیان ہوئی ہے جن کے قتل کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے ارشاد جاری ہوا تھا۔ حضرت مُصْعَبْ بن سَعدؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ فتح مکہ کے روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار مردوں اور دو عورتوں کے علاوہ باقی سب کفار کو امان دے دی تھی۔ آپؐ نے فرمایا ان چار کو قتل کر دو خواہ تم انہیں کعبہ کے پردوں سے چمٹے ہوئے پاؤ۔ وہ عکرمہ بن ابوجہل، عبداللہ بن خَطَل، مَقِیس بن صُبَابَہ اور عبداللہ بن سعد بن اَبِی سَرح تھے۔ عبداللہ بن خَطَل جب پکڑا گیا تو اس نے خانہ کعبہ کے پردوں کو پکڑا ہوا تھا۔ حضرت سعید بن حُرَیْثؓ اور حضرت عَمَّار بن یاسرؓ دونوں اس کی طرف لپکے اور سعیدؓ نے آگے بڑھ کر اسے قتل کر دیا۔ مَقِیْس کو لوگوں نے بازار میں پایا اور اسے قتل کر دیا۔ عکرمہ سمندر کی طرف بھاگ گیا۔ کشتی پر سوار لوگوں کو سمندری طوفان نے آ لیا۔ اس پر کشتی والوں نے کہا تم لوگ اخلاص اور سچائی سے کام لو کیونکہ تمہارے معبود یہاں کچھ فائدہ نہیں دیں گے۔ اس پر عکرمہ نے کہا بخدا!مجھے سمندر میں اگر کوئی چیز بچائے گی تو اخلاص و سچائی ہے اور خشکی پر بھی اخلاص و سچائی ہی مجھے بچائے گی۔ اے اللہ! میں تجھ سے پختہ عہد کرتا ہوں کہ اگر تُو مجھے اس طوفان سے محفوظ رکھے تو میں ضرور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاکر ان کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھوں گا اور مَیں ضرور انہیں عفو کرنے والا اور کریم پاؤں گا۔ پھر وہ واپس آیا اور اس نے اسلام قبول کر لیا۔ اس بارہ میں زیادہ مشہور روایت تو یہی ہے کہ جہاز پر چڑھنے سے پہلے ہی اس کی بیوی نے آ کر اسے قائل کر لیا تھا اور واپس لے گئی تھی۔ یہ روایت بھی آگے آ جائے گی۔ بہرحال یہ سنن نسائی کی ایک روایت ہے۔ جہاں تک عبداللہ بن ابی سرح کا تعلق ہے تو وہ حضرت عثمان بن عفانؓ کے ہاں چھپ گیا۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو بیعت کی دعوت دی تو حضرت عثمانؓ اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لائے اور عرض کی یا رسول اللہؐ ! عبداللہ کی بیعت قبول فرمائیں۔ آپؐ نے اپنا سر اٹھا کراس کی طرف تین مرتبہ دیکھا اور تینوں مرتبہ انکار کیا۔ بہرحال آخر آپؐ نے اس کی بیعت لے لی اور پھر آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ کوئی صاحب ِعقل شخص نہ تھا جو اس شخص کو قتل کر دیتا جس کی بیعت لینے سے میں نے تخلف کیا تھا۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہؐ ! ہمیں کیسے علم ہوتا کہ آپؐ کے دل میں کیا تھا۔ آپؐ نے کیوں نہ آنکھ سے ہمیں اشارہ کیا؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نبی کے لیے جائز نہیں کہ وہ آنکھوں کی خیانت کا مرتکب ہو۔ یہ روایت سنن ابوداؤد میں بھی ہے۔ البتہ سنن ابوداؤد میں ایک دوسری روایت بھی موجود ہے لیکن اس روایت کے آخری فقرات یعنی اس کو قتل کرنے وغیرہ کا ذکر نہیں ہے۔ چنانچہ اس روایت میں بیان ہے کہ حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن سعد بن ابی سرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کاتب تھا۔ اسے شیطان نے بہکا دیا۔ وہ کفار سے مل گیا۔ فتح مکہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے قتل کا حکم دیا۔ حضرت عثمان بن عفانؓ نے اس کے لیے پناہ طلب کی۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پناہ دے دی۔ (سنن النسائی کتاب المحاربۃ باب الحکم فی المرتد حدیث4072) (سنن ابو داؤد کتاب الحدود باب الحکم فی من ارتد، حدیث4358-4359)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد کہ قتل کرنا تھا کیوں نہیں قتل کیا؟ اس کے بارے میں ایک وضاحت یہ بھی کی جاتی ہے کہ اس روایت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابہ کو یہ فرمانا کہ جب میں نے بیعت لینے میں تامل کیا تو تم لوگوں نے اس کو قتل کیوں نہ کر دیا محلِ نظر ہے کیونکہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی بیعت نہ لینا چاہتے اور اس کے قتل کے فیصلہ پر قائم رہنا پسند فرماتے تو اس کو قتل کرنے کا ارشاد فرما سکتے تھے۔ آپؐ فاتح تھے، سربراہ ِریاست تھے اور اس کے قتل کا فیصلہ بھی مبنی بر انصاف تھا۔ اس لیے ہو سکتا ہے کہ اس روایت میں کسی راوی کی اپنی رائے یا خیال شامل ہو گیا ہو۔ مزید برآں یہ روایت بخاری اور مسلم میں موجودنہیں ہے اور ابوداؤد میں اسی مضمون کی ایک روایت حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے جس کا ذکر ہو چکا ہے اور اس میں قتل کرنے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سورۃ المؤمنون کی آیت نمبر 15کی تفسیر کرتے ہوئے اس واقعہ کا تذکرہ یوں بیان کرتے ہیں کہ
’’اس آیت کے ساتھ ایک تاریخی واقعہ بھی وابستہ ہے جس کا یہاں بیان کر دینا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک کاتب وحی تھا جس کا نام عبداللہ بن ابی سرح تھا۔ آپؐ پر جب کوئی وحی نازل ہوتی تو اسے بلوا کر لکھوا دیتے۔ ایک دن آپؐ یہی آیتیں اسے لکھوا رہے تھے۔ جب آپ ثُمَّ اَنْشَاْنٰہُ خَلْقًا اٰخَرَ پر پہنچے تو اس کے منہ سے بے اختیار نکل گیا کہ فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہی وحی ہے۔ اس کو لکھ لو۔ اس بدبخت کو یہ خیال نہ آیا کہ پچھلی آیتوں کے نتیجہ میں یہ آیت طبعی طور پر آپ ہی بن جاتی ہے۔ اس نے سمجھا کہ جس طرح میرے منہ سے یہ آیت نکلی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو وحی قرار دے دیا ہے اسی طرح آپؐ نعوذباللہ خود سارا قرآن بنا رہے ہیں۔ چنانچہ وہ مرتد ہو گیا اور مکہ چلا گیا۔ فتح مکہ کے موقعہ پر جن لوگوں کو قتل کرنے کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا ان میں ایک عبداللہ بن ابی سرح بھی تھا مگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اسے پناہ دے دی اور وہ آپؓ کے گھر میں تین دن چھپا رہا۔ ایک دن جب کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کے لوگوں سے بیعت لے رہے تھے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ عبداللہ بن ابی سرح کو بھی آپؐ کی خدمت میں لے گئے اور اس کی بیعت قبول کرنے کی درخواست کی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے توکچھ دیرتامل فرمایا مگر پھر آپؐ نے اس کی بیعت لے لی۔ اور اس طرح دوبارہ اس نے اسلام قبول کر لیا۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد6 صفحہ 139)
سنن نسائی کی بیان کردہ روایت میں عکرمہ بن ابو جہل کے قبولِ اسلام کا واقعہ یوں بیان ہوا ہے جبکہ کتب سیرت میں اس کے اسلام قبول کرنے کی جو تفصیلات بیان ہوئی ہیں جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی ذکر کیا تھا ذرا مختلف ہیں کہ عکرمہ بن ابوجہل ان لوگوں میں سے تھا جن کے قتل کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر حکم دیا ہوا تھا۔ عکرمہ اور اس کا والدنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت دیتا تھا اور وہ مسلمانوں پر بہت زیادہ سختی کرتا تھا۔ جب اسے علم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا خون بہانے کا حکم دیا ہے تو وہ یمن کی طرف بھاگ گیا۔ اس کی بیوی نے بعد اس کے کہ اس نے اسلام قبول کر لیا تھا اس کا پیچھا کیا اور اس نے عکرمہ کو سمندر کے ساحل پر پایا جب وہ کشتی پر سوار ہونے کا ارادہ کر رہا تھا۔ ایک قول کے مطابق اس نے عکرمہ کو تب پایا جبکہ وہ کشتی میں سوار ہو چکا تھا۔ اس نے عکرمہ کو یہ کہتے ہوئے روکا کہ اے میرے چچا کے بیٹے! مَیں تمہارے پاس اس انسان کی طرف سے آئی ہوں جو لوگوں میں سب سے زیادہ جوڑنے والے اور لوگوں میں سب سے زیادہ نیک اور لوگوں میں سب سے زیادہ خیر خواہ ہیں۔ تُو اپنی جان کو ہلاکت میں مت ڈال کیونکہ میں تمہارے لیے امان طلب کر چکی ہوں۔ اس پر وہ اپنی بیوی کے ساتھ آیا اور اس نے اسلام قبول کر لیا اور اس کا اسلام بہت خوبصورت رہا۔
روایت میں آتا ہے کہ جب عکرمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس نے عرض کیا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! میری بیوی نے مجھے بتایا ہے کہ آپؐ نے مجھے امان دی ہے۔ آپؐ نے فرمایا: تُو نے سچ کہا۔ یقینا ًتُو امن میں ہے۔ اس پر عکرمہ نے کہا مَیں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سِوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور آپؐ اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور اس نے اپنا سر شرم سے نیچے جھکا لیا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: اے عکرمہ! تُو مجھ سے جو بھی چیز مانگے گا اگر میں اس کی طاقت رکھتا ہوں گا تو ضرور تجھے دوں گا۔ عکرمہ نے عرض کیا کہ میری ہر اس عداوت کے لیے بخشش کی دعا کر دیں جو میں نے آپؐ سے روا رکھی۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا کی کہ اے اللہ! عکرمہ کی ہر وہ عداوت اس کو بخش دے جو اس نے مجھ سے روا رکھی یا ہر وہ بُری بات بخش دے جو اس نے کی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خوشی سے سرشار اٹھے اور اپنی چادر اس پر ڈال دی اور فرمایا: خوش آمدید اس شخص کو جو ایمان لانے کی حالت میں اور ہجرت کرنے کی حالت میں ہمارے پاس آیا۔ عکرمہ بعد میں بڑے جلیل القدر صحابہ میں شمار ہوتے تھے۔
عکرمہ کے ایمان لانے سے وہ پیشگوئی بھی پوری ہوئی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے بیان فرمائی تھی کہ آپؐ نے خواب میں دیکھا کہ آپؐ جنت میں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں انگور کا ایک خوشہ دیکھا جو آپؐ کو بہت اچھا لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ کس کے لیے ہے تو کہا گیا کہ ابوجہل کے لیے ہے۔ یہ بات آپؐ پر گراں گزری۔ آپ کو اچھی نہیں لگی، پریشان ہوئے اور آپؐ نے فرمایا: جنت میں تو سوائے مومن جان کے اَور کوئی داخل نہیں ہوتا تو یہ ابو جہل کے لیے کس طرح؟ پھر جب عکرمہ بن ابوجہل نے اسلام قبول کیا تو آپؐ اس سے خوش ہوئے اور اس خوشہ کی تعبیر یہ بیان فرمائی کہ اس سے مراد عکرمہ تھا۔ (السیرۃ الحلبیہ جلد 3 صفحہ 132-133 باب ذکر مغازیہ غزوۂ فتح مکّہ، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)
غزوۂ تبوک جو رجب 9؍ ہجری میں ہوئی اس غزوۂ تبوک کو جَیشُ الْعُسْرَۃ یعنی تنگی والا لشکر بھی کہتے ہیں۔ اس غزوہ کی تیاری کے لیے حضرت عثمانؓ کو جس مالی خدمت کی توفیق ملی اس کا تذکرہ یوں ملتا ہے کہ غزوۂ تبوک کو جَیش العسرۃ یعنی تنگی والا لشکر بھی کہتے ہیں۔ اس غزوہ کی تیاری کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تحریک فرمائی تو حضرت عثمانؓ نے شام کی طرف تجارت کی غرض سے تیار کیا جانے والا اپنا سو اونٹوں کا قافلہ ان کے کجاووں اور پالانوں سمیت پیش کر دیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر تحریک فرمائی تو اس غزوہ کی ضروریات کے پیش نظر حضرت عثمانؓ نے مزید سو اونٹ کجاووں اور پالانوں کے ساتھ تیار کروا کر پیش کر دیے۔ آپؐ نے پھر تحریک فرمائی تو تیسری مرتبہ حضرت عثمانؓ نے پھر مزید ایک سو اونٹ کجاووں اور پالانوں کے ساتھ تیار کروا کے آپؐ کی خدمت میں پیش کیے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب منبر سے نیچے اترے تو آپؐ نے فرمایا مَا عَلٰی عُثْمَانَ مَا عَمِلَ بَعْدَ ھٰذِہٖ۔ مَا عَلٰی عُثْمَانَ مَا عَمِلَ بَعْدَ ھٰذِہٖ۔ اس کے بعد عثمان جو بھی کرے اس کا کوئی مؤاخذہ نہیں ہو گا۔ اس کے بعد عثمان جو بھی کرے اس کا کوئی مؤاخذہ نہیں ہو گا۔ اس کے علاوہ حضرت عثمانؓ نے دو سو اوقیہ سونا بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور پیش کیا۔
ایک دوسری روایت میں ہے کہ حضرت عثمانؓ نے حاضر ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جھولی میں ایک ہزار دینار ڈال دیے۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جھولی میں پڑے دیناروں کو الٹتے پلٹتے رہے اور دو مرتبہ فرمایا: مَا ضَرَّ عُثْمَانَ مَا عَمِلَ بَعْدَ الْیَوْمِ۔ آج کے بعد عثمان جو بھی کرے گا اس کو کوئی ضرر نہیں پہنچے گا۔ ایک روایت کے مطابق حضرت عثمانؓ نے اس موقع پر دس ہزار دینار عطا کیے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمانؓ کے لیے یہ دعا کی۔ غَفَرَ اللّٰہُ لَکَ یَا عُثْمَانُ مَااَسْرَرْتَ وَمَا اَعْلَنْتَ وَمَا ھُوَ کَائِنٌ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ مَا یُبَالِیْ مَا عَمِلَ بَعْدَھَا کہ اے عثمان ! اللہ تجھ سے مغفرت کا سلوک فرمائے جو تُو نے مخفی طور پر کیا اور جو تُو نے اعلانیہ کیا اور جو قیامت تک ہونے والا ہے۔ اس کے بعد وہ جو بھی عمل کرے اسے کوئی فکر نہیں ہونی چاہیے۔
ایک روایت کے مطابق آپؓ نے اس جنگ کی تیاری کے لیے ایک ہزار اونٹ اور ستر گھوڑے پیش کیے۔ ایک روایت کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر حضرت عثمانؓ سے فرمایا: اے عثمان ! اللہ تعالیٰ تجھے وہ سب کچھ معاف فرمائے جو تُو نے مخفی طور پر کیا اور جو تُو نے اعلانیہ کیا اور جو قیامت تک ہونے والا ہے۔ اس عمل کے بعد یہ جو بھی کرے اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی پروا نہیں۔ ایک روایت کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر حضرت عثمانؓ کے حق میں یہ دعا کی کہ اَللّٰھُمَّ ارْضِ عَنْ عُثْمَانَ فَاِنِّیْ عَنْہُ رَاضٍکہ اے اللہ! تُو عثمان سے راضی ہو جا کیونکہ مَیں اس سے راضی ہوں۔ (شرح الزرقانی علی المواھب اللدنیۃ جلد4 صفحہ66، 68تا71 غزوۃ تبوک۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1996ء) (سنن الترمذی کتاب المناقب باب فی مناقب عثمان ……… حدیث3701، 3700)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ’’صحابہ نے بعض دفعہ اپنے گھر کا مال و اسباب بیچ کر جنگ کے اخراجات پورے کیے بلکہ یہ بھی نظر آتا کہ بعض دفعہ انہوں نے اپنی جائیدادیں بیچ کر دوسروں پر خرچ کر دیں اور ان کے لیے تمام ضروریات مہیا کیں۔ چنانچہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور آپؐ نے فرمایا کہ فلاں سفر پر ہماری فوج جانے والی ہے مگر مومنوں کے پاس کوئی چیز نہیں۔ کیا کوئی تم میں سے ہے جو ثواب حاصل کرے؟ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ یہ سنتے ہی اٹھے اور آپؓ نے اپنا اندوختہ نکال کر وہ رقم مسلمانوں کے اخراجات کے لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ دیکھا تو فرمایا عثمانؓ نے جنت خرید لی۔ اسی طرح ایک دفعہ ایک کنواں بک رہا تھا۔ مسلمانوں کو چونکہ ان دنوں پانی کی بہت تکلیف تھی اس لیے آپؐ نے اس موقع پر پھر فرمایا کوئی ہے جو ثواب حاصل کرے؟ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہؐ ! مَیں حاضر ہوں۔ چنانچہ آپؓ نے وہ کنواں خرید کر مسلمانوں کے لئے وقف کر دیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ عثمان نے جنت خرید لی۔ اسی طرح ایک اَور موقع پر بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے متعلق یہی الفاظ کہے۔ غرض تین موقعے ایسے آئے ہیں جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے متعلق فرمایا کہ انہوں نے جنت خرید لی ہے۔‘‘ (خطبات محمود جلد19صفحہ98-99 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ18فروری1938ء)
حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ ’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے متعلق بارہا یہ فرمایا ہے کہ انہوں نے جنت خرید لی اور وہ جنتی ہیں اور ایک دفعہ صلح حدیبیہ کے موقع پر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے دوبارہ بیعت لی اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اس وقت موجودنہ تھے تو آپؐ نے اپنا ہاتھ دوسرے ہاتھ پر رکھا اور فرمایا یہ عثمانؓ کا ہاتھ ہے۔ میں اس کی طرف سے اپنے ہاتھ پر رکھتا ہوں۔ اس طرح آپؐ نے اپنے ہاتھ کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا ہاتھ قرار دیا اور پھر ایک دفعہ آپؐ نے فرمایا اے عثمان! خدا تعالیٰ تجھے ایک قمیص پہنائے گا۔ منافق چاہیں گے کہ وہ تیری اس قمیص کو اتار دیں مگر تُو اس قمیص کو اُتاریو نہیں۔‘‘ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’اب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے یہ فرماتے ہیں کہ اس قمیص کو نہ اتارنا اور جو تم سے اس قمیص کے اتارنے کا مطالبہ کریں گے وہ منافق ہوں گے۔‘‘ (خطبات محمود جلد19صفحہ100 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ18فروری1938ء)
تو اس سے یہ بھی ظاہر ہو گیا کہ وہ لوگ جو بھی تھے وہ منافق تھے کیونکہ ان کی پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ہی فرما دی۔
حضرت خلیفہ ثالثؒ نے ایک جگہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قربانی کا ذکر اس طرح فرمایا ہے کہ ’’جنگی ضرورت تھی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ کے سامنے ضرورت حقہ کو رکھا اور مالی قربانیاں پیش کرنے کی انہیں تلقین کی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تو اپنا سارا مال لے کر آ گئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنا نصف مال لے کر آ گئے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ میری یہ پیشکش قبول کرلی جائے کہ میں دس ہزار صحابہؓ کا پورا خرچ برداشت کروں گا اور اس کے علاوہ آپؓ نے ایک ہزار اونٹ اور ستر گھوڑے دئیے۔‘‘ (خطبات ناصر جلد 2 صفحہ 341 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 اکتوبر 1968ء)
حضرت عثمانؓ کا حضرت ابوبکرؓ کے عہد میں کیا کردار تھا اور آپ کامقام اور مرتبہ کیا تھا؟ حضرت ابوبکرؓ آپ کو کس طرح کا مقام دیتے تھے۔ کیا سمجھتے تھے؟ حضرت ابوبکر کے دورِ خلافت میں حضرت عثمانؓ ان صحابہ اور اہل شوریٰ میں سے تھے جن سے اہم ترین مسائل میں رائے لی جاتی تھی۔ جب حضرت ابوبکرؓ نے فتنۂ ارتداد کا مقابلہ کر کے اسے ختم کر دیا تو روم پر چڑھائی کرنے اور مختلف اطراف میں مجاہدین کو روانہ کرنے کا ارادہ فرمایا اور اس سلسلہ میں لوگوں سے مشورہ طلب کیا۔ بعض صحابہ نے مشورہ دیا۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ نے مزید مشورہ طلب فرمایا۔ جس پر حضرت عثمانؓ نے عرض کیا کہ آپؓ اس دین کے ماننے والوں کے خیرخواہ اور مشفق ہیں۔ پس آپؓ جس رائے کو عام لوگوں کے لیے مفید سمجھیں تو اس پر عمل کرنے کا پختہ عزم کر لیں کیونکہ آپؓ کے بارے میں بدظنی نہیں کی جا سکتی۔ یعنی حضرت ابوبکر کو عرض کیا کہ آپؓ کے بارے میں بدظنی نہیں کی جا سکتی۔ اس پر حضرت طلحہؓ، حضرت زبیرؓ، حضرت سعدؓ، حضرت ابوعبیدہؓ، حضرت سعید بن زیدؓ اور اس مجلس میں موجود مہاجرین و انصار نے کہا حضرت عثمانؓ نے سچ کہا ہے۔ آپؓ جو مناسب سمجھیں کر گزریں۔ ہم نہ تو آپؓ کی مخالفت کریں گے اور نہ ہی آپؓ پر کوئی الزام لگائیں گے۔ اس کے بعد حضرت علیؓ نے گفتگو کی۔ پھر حضرت ابوبکرؓ لوگوں میں کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کا ذکر بیان کیا جس کا وہ اہل ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجا۔ پھر فرمایا: اے لوگو! اللہ تعالیٰ نے تم پر اسلام کے ذریعے سے فضل نازل فرمایا اور جہاد کے ذریعہ تمہیں عزت بخشی اور اس دین کے ذریعہ تم لوگوں کو تمام ادیان پر فضیلت بخشی۔ پس اے اللہ کے بندو! ملک شام میں روم کے ساتھ جنگ کے لیے لشکر کی تیاری کرو۔ (ماخوذ از تاریخ دمشق الکبیر لابن عساکر جلد1 جز2صفحہ46داراحیاءالتراث العربی 2001ء)
حضرت ابوبکرؓ نے جب اپنے اصحاب سے مشورہ کیا کہ حضرت اَبَان بن سعیدؓ کے بعد کس کو بحرین کا گورنر بنا کر بھیجا جائے تو حضرت عثمان بن عفانؓ نے عرض کیا اس آدمی کو بھیجیں جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بحرین والوں پر گورنر مقرر فرمایا تھا اور وہ ان کے قبول اسلام اور اطاعت کرنے کا موجب ہوا تھا اور وہ ان لوگوں سے اور ان کے علاقے سے بھی اچھی طرح واقف ہے۔ وہ عَلَاء بن حَضْرَمی ہے۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ نے عَلَاء بن حَضْرَمی کو بحرین بھیجنے پر اتفاق کر لیا۔ (کنز العمال جلد 3 جز5 صفحہ 248 کتاب الخلافۃ مع الامارۃ روایت 14089دارالکتب العلمیہ بیروت2004ء)
حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد خلافت میں ایک مرتبہ بارش نہیں ہوئی۔ لوگ حضرت ابوبکر کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا آسمان بارش نہیں برسا رہا اور زمین فصلیں نہیں اگا رہی۔ لوگ سخت شدید مصیبت کا شکار ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا تم لوگ جاؤ اور شام تک صبر سے کام لو۔ اللہ تعالیٰ تمہاری پریشانی کو دور فرما دے گا۔ اتنے میں حضرت عثمانؓ کا سواونٹوں کا تجارتی قافلہ گندم یا کھانے کا سامان لادے شام سے مدینہ پہنچ گیا۔ اس کی خبر سن کر لوگ حضرت عثمانؓ کے دروازے پر گئے اور دروازہ کھٹکھٹایا۔ حضرت عثمانؓ لوگوں میں نکلے اور پوچھا کہ آپ کیا چاہتے ہیں۔ لوگوں نے کہا کہ آپ جانتے ہیں کہ قحط سالی کا زمانہ ہے۔ آسمان بارش نہیں برسا رہا اور زمین بھی فصلیں نہیں اگا رہی۔ لوگ شدید پریشانی کا شکار ہیں۔ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ آپ کے پاس غلّہ ہے۔ آپ اسے ہمارے پاس فروخت کر دیں تا کہ ہم اسے فقراء اور مساکین تک پہنچا دیں۔ حضرت عثمانؓ نے فرمایا: بہت اچھا! اندر آ جاؤ۔ اندر آ کے خرید لیں۔ تاجر لوگ آپ کے گھر میں داخل ہوئے اور غلے کو حضرت عثمانؓ کے گھر میں پڑا ہو اپایا۔ حضرت عثمانؓ نے تاجروں سے کہا جو سامان میں نے ملک شام سے، جو جہاں سے میں نے خریدا ہے میری قیمت خرید پر آپ کتنا منافع دیں گے؟ شام سے سامان لے کر آیا ہوں۔ میں یہاں وہاں سے خرید کے لایا ہوں۔ تم مجھے بتاؤ تم مجھے اس پر کتنا منافع دو گے؟ وہاں جتنے لوگ تھے کچھ مفت تقسیم کرنا چاہتے تھے کچھ تاجر تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہم دس کے بارہ دے دیں گے۔ اگر اس کی قیمت دس درہم ہے تو ہم بارہ دے دیتے ہیں۔ حضرت عثمانؓ نے کہا مجھے اس سے زیادہ مل رہا ہے۔ تو انہوں نے کہا ہم دس کے پندرہ دے دیں گے۔ دس کے بجائے ہم پندرہ دینے کو تیار ہیں۔ حضرت عثمانؓ نے کہا مجھے اس سے بھی زیادہ مل رہا ہے۔ تاجروں نے کہا اے ابوعمرو! مدینہ میں تو ہمارے علاوہ اَور کوئی تاجر نہیں ہے۔ تو کون آپ کو اس سے زیادہ دے رہا ہے۔ حضرت عثمانؓ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ مجھے ہر درہم کے بدلے دس زیادہ دے رہا ہے۔ ہر ایک کے بدلے میں دس گنا دے رہا ہے۔ کیا آپ لوگ اس سے زیادہ دے سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا نہیں ہم تو اس سے زیادہ نہیں دے سکتے۔ اس پر حضرت عثمانؓ نے فرمایا: مَیں اللہ کو گواہ بناتے ہوئے اس غلے کو مسلمانوں کے فقراء پر صدقہ کرتا ہوں۔ یعنی یہ سارے کا سارا غلہ میں غریبوں کو دیتا ہوں اور اس کی کوئی قیمت نہیں لوں گا۔ حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ جس دن یہ واقعہ ہوا، غلہ تقسیم کیا گیا، صدقہ دیا گیا میں نے اس رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا۔ آپؐ ایک غیر عربی گھوڑے پر سوار ہیں جو بڑے جثے والا ہے۔ آپؐ پر نور کی پوشاک ہے اور آپؐ کے پیروں میں نور کی جوتیاں ہیں اور ہاتھ میں نور کی چھڑی ہے اور آپؐ جلدی میں ہیں۔ مَیں نے عرض کی یا رسول اللہؐ ! مَیں آپؐ کا اور آپؐ سے گفتگو کا بہت مشتاق ہوں۔ آپؐ اتنی جلدی میں کہاں تشریف لے جا رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابن عباس! عثمان نے ایک صدقہ کیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے قبول فرما لیا ہے اور جنّت میں اس کی شادی کی ہے اور ہمیں ان کی شادی میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔ (سیرۃامیر المؤمنین عثمان بن عفان لعلی محمد الصلابی صفحہ 51-52 الفصل الاول، ذو النورین عثمان بن عفان بین مکۃ والمدینۃ، دارالمعرفۃ بیروت 2006ء)
حضرت عثمانؓ کا ’’حضرت عمرؓ کے عہد میں کرداراور مقام اور مرتبہ‘‘ کے بارے میں یہ چند باتیں بیان کرتا ہوں۔ جب حضرت عمرؓ خلیفہ بنے تو آپؓ نے بڑے صحابہ سے بیت المال سے اپنے وظیفہ کے متعلق مشورہ کیا۔ اس پر حضرت عثمانؓ نے عرض کیا۔ کھائیے اور کھلائیے۔ (سیرۃامیر المؤمنین عثمان بن عفان لعلی محمد الصلابی صفحہ 53 الفصل الاول، ذو النورین عثمان بن عفان بین مکۃ والمدینۃ، دارالمعرفۃ بیروت 2006ء)
جو آپ کی ضروریات ہیں آپ پوری کریں اور جو لوگوں کی ضروریات ہیں وہ بھی پوری کریں۔ کوئی فکس (fix)کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جب اسلامی فتوحات کا سلسلہ وسیع ہوا اور مال کی کثرت ہوئی تو حضرت عمرؓ نے صحابہ میں سے بعض کو اس مال کے بارے میں مشاورت کے لیے اکٹھا کیا۔ حضرت عثمانؓ نے عرض کیا: مَیں دیکھتا ہوں کہ مال بہت ہو گیا ہے جو لوگوں کے لیے کافی ہے۔ اگر لوگوں کے اعدادو شمار اکٹھے نہ کیے گئے تا کہ یہ معلوم ہو سکے کہ کس نے لے لیا ہے اور کس نے نہیں لیا تو مجھے ڈر ہے کہ مشکلات پیدا ہوں گی۔ بعض دفعہ لوگ دو دو دفعہ لے جائیں گے۔ باقاعدہ انتظام ہونا چاہیے۔ کھاتے بننے چاہئیں۔ اس پر حضرت عمرؓ نے حضرت عثمانؓ کی رائے کو اختیار فرمایا اور مردم شماری کر کے لوگوں کے نام رجسٹروں میں محفوظ کرنے کا کام عمل میں آیا۔ (سیرۃامیر المؤمنین عثمان بن عفان لعلی محمد الصلابی صفحہ 54 الفصل الاول، ذو النورین عثمان بن عفان بین مکۃ والمدینۃ، دارالمعرفۃ بیروت 2006ء)
اور پھر باقاعدہ اس کے حساب سے ہر ایک کو امداد ملنی شروع ہوئی۔
حضرت عثمانؓ کی خلافت کی بابت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی بھی ہے۔ اس کا پہلے اشارۃًقمیص پہننے کا اور منافقوں کا قمیص اتارنے کا ذکر ہو چکا ہے۔ حضرت اَبُوْبَکْرَہ سے یہ روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن فرمایا تم میں سے کسی نے خواب دیکھی ہے۔ ایک شخص نے کہا۔ میں نے دیکھا گویا ایک ترازو آسمان سے اترا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور حضرت ابوبکرؓ کو تولا گیا تو آپؐ ابوبکر سے بھاری نکلے۔ پھر حضرت عمرؓ اور حضرت ابوبکرؓ کو تولا گیا تو حضرت ابوبکرؓ بھاری نکلے۔ پھر حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کو تولا گیا تو حضرت عمرؓ بھاری نکلے۔ پھر ترازو اٹھا لیا گیا تو ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے سے ناپسندیدگی دیکھی۔ آپؐ نے اس خواب پر خوشی کا اظہار نہیں کیا۔ بڑی ناپسندیدگی ہوئی۔ (سنن ابی داؤد کتاب السنۃ باب فی الخلفاء حدیث نمبر 4634)
ایک اَور روایت یوں ہے کہ حضرت جابر بن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آج کی رات ایک صالح شخص کو خواب میں دکھایا گیا کہ حضرت ابوبکر کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جوڑ دیا گیا ہے اور حضرت عمر کو حضرت ابوبکر سے اور حضرت عثمان کو حضرت عمرؓ سے۔ حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے اٹھ کر آئے تو ہم نے کہا کہ مرد صالح سے مراد تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور بعض کا بعض سے جوڑے جانے کا مطلب یہ ہے کہ یہی لوگ اس امر یعنی دین کے والی ہوں گے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا ہے۔ (سنن ابی داؤد کتاب السنۃ باب فی الخلفاء حدیث نمبر 4636)
حضرت سَمُرَہ بن جُنْدُبؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا یا رسول اللہؐ ! میں نے دیکھا گویا کہ آسمان سے ایک ڈول لٹکایا گیا۔ پہلے حضرت ابوبکر آئے تو اس کی دونوں لکڑیاں پکڑ کر اس میں سے تھوڑا سا پیا۔ پھر عمر آئے تو اس کی دونوں لکڑیاں پکڑیں اور انہوں نے خوب سیر ہو کر پیا۔ پھر عثمان آئے اور اس کی دونوں لکڑیاں پکڑیں اور خوب سیر ہو کر پیا۔ پھر حضرت علی آئے اور اس کی دونوں لکڑیاں پکڑیں تو وہ چھلک گیا اور اس میں سے کچھ ان کے اوپر بھی پڑ گیا۔ (سنن ابی داؤد کتاب السنۃ باب فی الخلفاء حدیث نمبر 4637)
خلافت کی ترتیب کے لحاظ سے یہ بھی اشارہ تھا اور علیؓ کے ساتھ جو سارا دور گزرا وہ مشکلات کا ہی تھا۔ اس طرف اشارہ تھاکہ صحیح طرح پینے کا موقع نہیں ملا۔
حضرت عثمانؓ کے انتخابِ خلافت کے لیے جو مجلس شوریٰ قائم ہوئی تھی اس بارے میں حضرت مِسْوَر بن مَخْرَمَہؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطابؓ اپنے اوپر ہونے والے حملے کے بعد جب ابھی ٹھیک تھے تو آپؓ سے بار بار درخواست کی جاتی کہ آپؓ کسی کو خلیفہ مقرر فرما دیں لیکن آپؓ انکار فرماتے۔ ایک روز آپؓ منبر پر تشریف لائے اور چند کلمات کہے اور فرمایا اگر مَیں مر جاؤں تو تمہارا معاملہ ان چھ افراد کے ذمہ ہو گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس حالت میں جدا ہوئے جبکہ آپؐ ان سے راضی تھے۔ علی بن ابوطالبؓ اور آپؓ کے نظیر زبیر بن عوامؓ، عبدالرحمٰن بن عوفؓ اور آپؓ کے نظیر عثمان بن عفانؓ، طلحہ بن عبیداللہؓ اور آپؓ کے نظیر سعد بن مالکؓ۔ پھر آپؓ نے فرمایا خبردار! مَیں تم سب کو فیصلہ کرنے میں اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے اور تقسیم میں انصاف اختیار کرنے کا حکم دیتا ہوں۔ ابوجعفر بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطابؓ نے انتخابِ خلافت کے لیے مجلس شوریٰ کے اراکین سے کہا کہ اپنے اس معاملے میں باہم مشورہ کرو۔ پھر اگر دونوں طرف دو دو ووٹ ہوں تو دوبارہ مشورہ کرو اور اگر چار اور دو ووٹ ہوں تو پھر جس کے ووٹ زیادہ ہوں اسے اختیار کرو۔ زید بن اسلم اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے فرمایا اگر دونوں طرف تین تین ووٹ ہوں تو جس طرف حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ ہوں گے اس طرف کے لوگوں کی سننا اور اطاعت کرنا۔
عبدالرحمٰن بن سعید بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عمرؓ زخمی ہوئے تو آپؓ نے فرمایا صہیبؓ تم لوگوں کو تین دن تک نماز پڑھائیں گے۔ یعنی کہ صہیبؓ کو امام الصلوٰۃ مقرر فرمایا۔ پھر فرمایا: اپنے اس معاملے میں یعنی خلافت کے بارے میں مشاورت کرو اور یہ معاملہ ان چھ افراد کے سپرد ہے۔ پھر اس کے بعد جو تمہاری مخالفت کرے اس کی گردن اڑا دو۔ حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے اپنی وفات سے کچھ دیر قبل حضرت ابوطلحہؓ کی طرف پیغام بھیجا اور فرمایا اے ابوطلحہ ! تُو اپنی قوم انصار میں سے پچاس افراد کو لے کر ان اصحاب شوریٰ کے پاس چلے جاؤ اور انہیں تین دن تک نہ چھوڑنا یہاں تک کہ وہ اپنے میں سے کسی کو امیر منتخب کر لیں۔ اے اللہ !تو ان پر میرا خلیفہ ہے۔
اسحاق بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوطلحہؓ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ حضرت عمرؓ کی قبر تیار ہوتے وقت کچھ دیر رکے اور اس کے بعد اصحاب شوریٰ کے ساتھ ہی رہے۔ پھر جب ان اصحاب شوریٰ نے اپنا معاملہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کے سپرد کر دیا اور کہا کہ وہ جسے چاہیں امیر مقرر کر دیں تو حضرت ابوطلحہؓ اس وقت تک حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کے گھر کے دروازے پر رہے جب تک کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے حضرت عثمانؓ کی بیعت نہ کر لی۔
حضرت سلمہ بن ابو سلمہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ سب سے پہلے حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے حضرت عثمانؓ کی بیعت کی۔ پھر اس کے بعد حضرت علیؓ نے۔ حضرت عمرؓ کے آزاد کردہ غلام عمر بن عَمِیْرَہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ مَیں نے دیکھا کہ سب سے پہلے حضرت علیؓ نے حضرت عثمانؓ کی بیعت کی۔ اس کے بعد لوگوں نے پے در پے آپؓ کی بیعت کی۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد، الجزءالثالث صفحہ34-35 ذکر الشوریٰ وماکان من امرھم، ذکر بیعۃ عثمان…، داراحیاء التراث العربی بیروت، 1996ء)
صحیح بخاری میں حضرت عمرؓ کی آخری بیماری میں اپنے بعد میں آنے والے خلیفہ کو نصائح اور مجلس شوریٰ کے حوالے سے جو تفصیل بیان ہوئی ہے اس کا ذکریوں ملتا ہے کہ لوگوں نے کہا امیر المومنین! وصیت کر دیں۔ کسی کو خلیفہ مقرر کر جائیں۔ انہوں نے فرمایا میں اس خلافت کا حقدار ان چند لوگوں میں سے بڑھ کر اَور کسی کو نہیں پاتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسی حالت میں فوت ہوئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے راضی تھے اور انہوں نے حضرت علیؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت زبیرؓ، حضرت طلحہؓ، حضرت سعدؓ اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کا نام لیا اور کہا عبداللہ بن عمر تمہارے ساتھ شریک رہے گا اور اس خلافت میں اس کا کوئی حق نہیں۔ یہ روایت پہلے بھی مَیں بیان کر چکا ہوں۔ اس لیے یہاں مختصر بیان کرتا ہوں۔ بہرحال حضرت عمرؓ کی وفات کے بعد جب ان کی تدفین سے فراغت ہوئی تو وہ آدمی جمع ہوئے جن کا نام حضرت عمرؓ نے لیا تھا۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے کہا اپنا معاملہ اپنے میں سے تین آدمیوں کے سپرد کر دو۔ حضرت زبیرؓ نے کہا میں نے اپنا اختیار حضرت علیؓ کو دیا اور حضرت طلحہؓ نے کہا میں نے اپنا اختیار حضرت عثمانؓ کو دیا اور حضرت سعدؓ نے کہا میں نے اپنا اختیار حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کو دیا۔ حضرت عبدالرحمٰن نے حضرت علیؓ اور حضرت عثمانؓ سے کہا آپ دونوں میں سے جو بھی اس امر سے دستبردار ہو گا ہم اسی کے حوالے اس معاملے کو کر دیں گے اور اللہ اور اسلام اس کا نگران ہو گا یعنی انتخاب خلافت کا معاملہ اس کے سپرد کر دیا جائے گا۔ ان میں سے اسی کو تجویز کرے گا جو اس کے نزدیک افضل ہے۔ اس بات نےدونوں بزرگوں کو خاموش کر دیا۔ پھر حضرت عبدالرحمٰنؓ نے کہا کہ کیاآپ اس معاملے کو میرے سپرد کرتے ہیں اور اللہ میرا نگران ہے کہ جو آپ میں سے افضل ہے اس کو تجویز کرنے کے متعلق کوئی بھی کمی نہیں کروں گا۔ پھر یہی ہے کہ میرے سپرد کر دو۔ اب اس کمیٹی کی جو صدارت ہے وہ پھر میرے سپرد ہو جائے گی۔ پہلے تو ان دونوں سے کہا کہ کسی ایک کو صدر بنا دیا جائے۔ انہوں نے کہا وہ علیحدہ نہیں ہوتے، دستبردار نہیں ہوتے تو انہوں نے کہا اچھا پھر میں اس معاملے سے دستبردار ہوتا ہوں اور صدارت اس طرح ہو گی۔ بہرحال انہوں نے کہا پھر میں جو فیصلہ کروں گا وہ انصاف سے کروں گا اور اللہ میرا نگران ہے۔ ان دونوں نے کہا اچھا۔ پھر عبدالرحمٰن ان دونوں میں سے ایک کا ہاتھ پکڑ کر الگ لے گئے اور کہنے لگے آپ کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے رشتہ کا تعلق ہے اور اسلام میں آپ کا جو مقام ہے وہ آپ جانتے ہی ہیں۔ اللہ آپ کا نگران ہے۔ بتائیں اگر میں آپ کو امیر بناؤں تو کیا آپ ضرور انصاف کریں گے؟ اور اگر میں عثمان کو امیر بناؤں تو آپ اس کی بات سنیں گے اور ان کا حکم مانیں گے؟ یعنی پہلے حضرت علیؓ کا ہاتھ پکڑ کر لے گئے۔ ان سے پوچھا۔ پھر حضرت عبدالرحمٰنؓ دوسرے کو تنہائی میں لے گئے یعنی اب حضرت عثمانؓ کی باری آئی اور ان سے بھی ویسے ہی کہا جب انہوں نے پختہ عہد لے لیا تو پھر آپ نے حضرت عثمانؓ کو کہا کہ آپ اپنا ہاتھ اٹھائیں اور انہوں نے ان سے بیعت کی اور حضرت علیؓ نے بھی ان سے بیعت کی اور گھر والے اندر آ گئے اور انہوں نے بھی ان سے بیعت کی۔ (صحیح البخاری کتاب فضائل اصحاب النبیﷺ باب قصۃالبیعۃ حدیث 3700)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عمرؓ کی وفات اور حضرت عثمانؓ کے خلیفہ منتخب ہونے کی بابت بیان فرماتے ہیں کہ ’’حضرت عمرؓ جب زخمی ہوئے اور آپؓ نے محسوس کیا کہ اب آپ کا آخری وقت قریب ہے تو آپؓ نے چھ آدمیوں کے متعلق وصیت کی کہ وہ اپنے میں سے ایک کو خلیفہ مقرر کر لیں۔ وہ چھ آدمی یہ تھے۔ حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، حضرت زبیرؓ، حضرت طلحہؓ۔ اس کے ساتھ ہی حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو بھی آپ نے اس مشورہ میں شریک کرنے کے لیے مقرر فرمایا مگر خلافت کا حقدار قرار نہ دیا اور وصیت کی کہ یہ سب لوگ تین دن میں فیصلہ کریں اور تین دن کے لیے صہیبؓ کو امام الصلوٰۃ مقرر کیا اور مشورہ کی نگرانی مقداد بن الاسودؓ کے سپرد کی اور انہیں ہدایت کی کہ وہ سب کو ایک جگہ جمع کر کے فیصلہ کرنے پر مجبور کریں اور خود تلوار لے کر دروازہ پر پہرہ دیتے رہیں۔ اور فرمایا کہ جس پر کثرت رائے سے اتفاق ہو سب لوگ اس کی بیعت کریں اور اگر کوئی انکار کرے تو اسے قتل کر دو لیکن اگر دونوں طرف تین تین ہو جائیں تو عبداللہ بن عمر اُن میں سے جس کو تجویز کریں وہ خلیفہ ہو۔ اگر اس فیصلہ پر وہ راضی نہ ہوں تو جس طرف عبدالرحمٰن بن عوفؓ ہوں وہ خلیفہ ہو۔ آخر پانچوں اصحاب نے مشورہ کیا (کیونکہ طلحہؓ اس وقت مدینہ میں نہیں تھے) مگر کوئی نتیجہ برآمدنہ ہوا۔ بہت لمبی بحث کے بعد حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے کہا کہ اچھا جو شخص اپنا نام واپس لینا چاہتا ہے وہ بولے۔ جب سب خاموش رہے تو حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے کہا کہ سب سے پہلے میں اپنا نام واپس لیتا ہوں۔ پھر حضرت عثمانؓ نے کہا‘‘ کہ میں بھی لیتا ہوں ’’پھر باقی دو نے‘‘ بھی کہا۔ ’’حضرت علیؓ خاموش رہے۔ آخر انہوں نےحضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ سے عہد لیا کہ وہ فیصلہ کرنے میں کوئی رعایت نہیں کریں گے۔ انہوں نے عہد کیا اور سب کام ان کے سپرد ہو گیا۔‘‘ یعنی حضرت عبدالرحمٰن بن عوف کے سپرد ہو گیا۔ ’’حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ تین دن مدینہ کے ہر گھر گئے اور مردوں اور عورتوں سے پوچھا کہ ان کی رائے کس شخص کی خلافت کے حق میں ہے۔ سب نے یہی کہا کہ انہیں حضرت عثمانؓ کی خلافت منظور ہے۔ چنانچہ انہوں نے حضرت عثمانؓ کے حق میں اپنا فیصلہ دے دیا اور وہ خلیفہ ہو گئے۔‘‘ (خلافت راشدہ، انوار العلوم جلد15صفحہ484-485)
علامہ ابن سعد لکھتے ہیں کہ حضرت عثمان بن عفانؓ کی 29 ذوالحجہ 23 ہجری کو پیر کے روز بیعت کی گئی۔
نَزَّال بن سَبْرَہ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عثمانؓ خلیفہ منتخب ہوئے تو حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا: ہم نے باقی رہ جانے والوں میں سے سب سے بہترین شخص کا انتخاب کیا ہے اور ہم نے اس انتخاب میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔
حضرت عثمانؓ نے خلافت پر متمکن ہونے کے بعد جب پہلا خطاب فرمایا تو اس کے بارے میں یہ روایت ہے کہ اسماعیل بن ابراہیم بن عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن ابوربیعہ مخزومی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت عثمانؓ کی بیعت کی گئی تو آپ یعنی حضرت عثمانؓ لوگوں میں تشریف لائے اور ان سے خطاب فرمایا۔ جس میں آپؓ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرنے کے بعد فرمایا۔ اے لوگو ! پہلے پہل جو کام کیا جائے وہ مشکل ہو تا ہے۔ نیا نیا کام کوئی پہلی دفعہ کر رہا ہو تو مشکل ہوتا ہے۔ آج کے بعد اور بھی دن آنے والے ہیں اگر میں زندہ رہا تو ان شاء اللہ تمہارے سامنے مناسب خطاب بھی کر سکوں گا۔ آج تو یہ مختصر خطاب کر رہا ہوں۔ آئندہ دن بھی آئیں گے میں مناسب خطاب کروں گا۔ پھر فرمایا: ہم کوئی خطیب نہیں ہیں مگر اللہ تعالیٰ ہمیں سکھا دے گا۔ اللہ تعالیٰ خطاب کرنے کے طریقے بھی سکھا دے گا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد، الجزءالثالث صفحہ35، عثمان بن عفان، داراحیاء التراث العربی بیروت، 1996ء)
بدر بن عثمان اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں کہ جب اہل شوریٰ نے حضرت عثمانؓ کی بیعت کر لی تو آپؓ اس حال میں باہر تشریف لائے کہ آپؓ ان سب سے زیادہ غمگین تھے۔ پھر آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر پر آئے اور لوگوں سے خطاب کیا۔ آپؓ نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجا۔ پھر فرمایا! یقیناً تم لوگ ایک ایسے گھر میں ہو جسے چھوڑ جانا ہے یعنی یہ دنیا اور تم عمر کے آخری حصوں میں ہو اس لیے موت سے پہلے پہل جس قدر نیک کام کر سکتے ہو کر لو۔ یقینا ًتم موت کے گھیرے میں ہو اور یہ دشمن صبح یا شام تم پر حملہ آور ہونے والا ہے۔ خبردار ! یقیناً دنیا مکرو فریب سے آراستہ ہے۔ پس تمہیں دنیاوی زندگی دھوکا نہ دے دے اور اللہ کے بارے میں سخت دھوکے باز شیطان تمہیں ہرگز دھوکے میں مبتلا نہ کرے۔ گزرے ہوئے لوگوں سے عبرت حاصل کرو اور پھر بھرپور کوشش کرواور غافل نہ رہو کیونکہ اللہ تعالیٰ تم سے غافل نہیں۔ وہ دنیادار اور ان کے بھائی کہاں ہیں جنہوں نے زمین کو پھاڑا اور اسے آباد کیا اور ایک لمبا عرصہ اس سے فائدہ حاصل کرتے رہے؟ کیا اس نے انہیں نکال باہر نہیں پھینکا؟ پس تم بھی دنیا کو وہاں پھینک دو جہاں اللہ تعالیٰ نے اسے پھینکا ہوا ہے اور آخرت کو طلب کرو۔ آخرت کو طلب کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آخرت کی مثال اور اس چیز کی جو بہترین ہے مثال دیتے ہوئے فرمایا ہے۔ وَ اضْرِبْ لَہُمْ مَّثَلَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا کَمَآءٍ اَنْزَلْنٰہُ مِنَ السَّمَآءِ فَاخْتَلَطَ بِہٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ فَاَصْبَحَ ہَشِیْمًا تَذْرُوْہُ الرِّیٰحُ وَکَانَ اللّٰہُ عَلٰى کُلِّ شَیْءٍ مُّقْتَدِرًا۔ اَلْمَالُ وَ الْبَنُوْنَ زِیْنَۃُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ الْبٰقِیٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَیْرٌ عِنْدَ رَبِّکَ ثَوَابًاوَّخَیْرٌ اَمَلًا۔ (الکہف: 46-47)
الکہف کی یہ آیات ہیں۔ اور ان کے سامنے دنیا کی زندگی کی مثال بیان کرجو ایسے پانی کی طرح ہے جسے ہم نے آسمان سے اتارا۔ پھر اس کے ساتھ زمین کی روئیدگی شامل ہو گئی۔ پھر وہ چُورا چُورا ہو گئی جسے ہوائیں اڑائے لیے پھرتی ہیں اور اللہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔ مال اور اولاد دنیا کی زندگی کی زینت ہیں اور باقی رہنے والی نیکیاں تیرے رب کے نزدیک ثواب کے طور پر بہتر اور امنگ کے لحاظ سے بہت اچھی ہیں۔ اس کے بعد لوگ آپ کی بیعت کرنے کے لیے لپکے۔ (تاریخ طبری جلد5 صفحہ87سنہ اربع وعشرین/ خطبۃ عثمان وقتل عبید اللّٰہ بن عمر الھر مزان، دارالفکر بیروت 2002ء)
حضرت عثمانؓ کے دورِ خلافت میں جو فتوحات ہوئیں ان کا ذکر کرتا ہوں۔ حضرت عثمانؓ کے دور خلافت میں درج ذیل علاقوں میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتوحات سے نوازا۔ فتح افریقیہ۔ یہ الجزائر اور مراکش کے علاقے ہیں۔ فتح اندلس، سپین 27؍ ہجری۔ فتح قبرص، سائپرس (cyprus)۔ 28؍ہجری۔ فتح طبرستان 30؍ہجری۔ فتح صَوَارِی۔ فتح آرمینیا۔ فتح خراسان 31؍ ہجری۔ بلادِ روم کی طرف پیش قدمی مَروْ رُوْذ، طَالَقَان، فَارِیَاب، جُوْزَجَان اور طَخَارِسْتَان کی فتوحات۔ بَلْخ، ہَرَات کی مہم 32؍ ہجری۔ اس کے علاوہ اس امر کا تذکرہ بھی ملتا ہے کہ حضرت عثمانؓ کے دَور میں ہندوستان میں اسلام کی آمد ہو گئی تھی۔ (ماخوذ از سیر الصحابہ جلداول صفحہ165تا168 دار الاشاعت کراچی 2004) (البدایۃ والنہایۃ جلد10 صفحہ237 سنۃ31 دار ھجر 1998ء) (تاریخ الطبری جلد2 صفحہ625 سنۃ31ھ و صفحہ632 سنۃ32 دار الکتب العلمیۃ بیروت 1987ء) (بر صغیر میں اسلام کے اولین نقوش از محمد اسحاق بھٹی ریسرچ انسٹیٹیوٹ صفحہ65، 63)
ان مہمات اور فتوحات کی مختصر تفصیل یوں ہے۔ 27؍ ہجری میں حضرت عثمانؓ نے حضرت سعدبن ابی سرح کو دس ہزار فوج دے کر افریقیہ روانہ فرمایا۔ افریقیہ سے مراد وہی مراکش اور الجزائر کا علاقہ ہے۔ پس اللہ نے مسلمانوں کو فتح دی۔
اندلس، 27؍ ہجری، سپین۔ حضرت عثمان نے عبداللہ بن نَافِع بن حُصَین فَہْری اور عبداللہ بن نَافِع بن عبدِقیَس فہری کو افریقیہ سے اندلس کی طرف پیش قدمی کا حکم دیا۔ پس یہ اَنْدُلَسْ کی طرف چلے اور مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے فتح سے نوازا۔ (البدایۃ و النھایۃ لابن کثیر جزء 7 صفحہ147-148، سنۃ26، 27ھ دارالکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)
فتح قبرص 28؍ ہجری۔ ابومَعْشَرکا قول ہے کہ قبرص 33؍ ہجری میں فتح ہوا۔ بعض لوگوں کے مطابق 27؍ ہجری میں قبرص کی جنگ لڑی گئی۔ تاریخ طبری اور بِدَایَۃوَالنِّھَایَۃدونوں نے اس کو 28؍ ہجری کے واقعات میں بیان کیا ہے۔ اس جنگ میں صحابہ میں سے حضرت ابوذر غِفَاریؓ، حضرت عُبَادہ بن صامِتؓ اور آپ کی زوجہ حضرت اُمِّ حَرَام بنت مِلْحَانؓ، حضرت مِقدادؓ، حضرت ابودَرْدَاءؓ، حضرت شَدَّادْ بن اوسؓ شامل تھے۔
قبرص ملک شام کے غربی جانب ایک اکیلا جزیرہ ہے۔ اس میں باغات اور کانیں بکثرت تھیں۔ قَبْرَص حضرت عثمانؓ کے دور میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اجازت اور حکم سے امیر معاویہ کے ہاتھ پر فتح ہوا۔ اس جنگ میں حضرت ام حَرام بنت مِلحانؓ بھی شامل تھیں جن کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادت کی خبر پہلے ہی دے دی تھی۔ اس جنگ سے واپسی پر آپ کے لیے سواری لائی گئی۔ آپ اس پر سوار ہوئیں لیکن اس پر سے گر پڑیں اور آپ کی گردن کی ہڈی ٹوٹ گئی جس سے آپ کی شہادت ہو گئی۔ (تاریخ الطبری جلد 5 صفحہ 96 سنۃ28ھ۔ دارالفکر 2002ء) (البدایۃ والنہایۃلابن کثیر جزء 7 صفحہ148-149 سنۃ 28ھ۔ دارالکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)
یہ ذکر ابھی چل رہا ہے۔ آئندہ بھی ان شاء اللہ بیان ہو گا۔
دعا کی طرف تو آج بھی مَیں توجہ دلاتا ہوں۔ پاکستان کے احمدیوں کے لیے دعا کرتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے حالات بہتر کرے۔ ان کو پاکستان میں رہنے والے احمدیوں کو بھی دعاؤں کی توفیق دے۔ اپنی اصلاح کی بھی توفیق دے۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق بڑھانے کی بھی توفیق دے اور اللہ تعالیٰ جلد یہ اندھیرے دن ہیں روشنیوں میں بدل دے اور ہم وہاں کے احمدیوں کو بھی آزادی کے ساتھ اپنے فرائض ادا کرتے ہوئے دیکھیں۔
(الفضل انٹرنیشنل 26؍فروری 2021ء صفحہ 5تا10)
تین موقعے ایسے آئے ہیں جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے متعلق فرمایا کہ انہوں نے جنت خرید لی ہے۔
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد، ذوالنّورین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا بیان۔
غزوۂ ذات الرقاع، فتح مکہ، غزوۂ تبوک کے بعض واقعات نیز حضرت عثمانؓ کے دور میں ہونے والی فتوحات کا تذکرہ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آج کی رات ایک صالح شخص کو خواب میں دکھایا گیا کہ حضرت ابوبکرؓ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جوڑ دیا گیا ہے اور حضرت عمرؓ کو حضرت ابوبکرؓ سے اور حضرت عثمانؓ کو حضرت عمرؓ سے۔
فرمودہ 05؍فروری2021ء بمطابق 05؍تبلیغ 1400 ہجری شمسی، بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔