حضرت عثمان بن عفانؓ
خطبہ جمعہ 5؍ مارچ 2021ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خلاف جو فتنہ اٹھا تھا اس بارے میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو بیان فرمایا ہے اس کا ذکر ہو رہا تھا۔ اس بارے میں مزید فرماتے ہیں اور زیادہ تر حوالے آپؓ نے طبری سے لے کر پھر ان کا تجزیہ کیا ہے یا اس کے مطابق آگے اپنا جو نقطہ ٔنظر ہے اور جو تجزیہ ہے وہ پیش کیا ہے۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ یہ تین لوگ یعنی محمد بن ابوبکر، محمد بن حذیفہ اور عمار بن یاسر جو تھے یہ باغیوں کے ساتھ مل گئے تھے، ان کی باتوں میں آ گئے تھے۔ فرمایا کہ اس کے سوا باقی شخص اہلِ مدینہ میں سے صحابی ہو یا غیر صحابی ان مفسدوں کا ہمدردنہ تھا اور ہر ایک شخص ان پر لعنت ملامت کرتا تھا مگر ان کے ہاتھ میں اس وقت انتظام نہ تھا۔ یہ کسی کی ملامت کی پروا نہ کرتے تھے۔ بیس دن تک یہ لوگ یعنی مخالفین جو تھے یہ صرف زبانی طور پر کوشش کرتے رہے کہ کسی طرح حضرت عثمانؓ خلافت سے دستبردار ہو جائیں مگر حضرت عثمانؓ نے اس امر سے صاف انکار کر دیا اور فرمایا کہ جو قمیص مجھے خدا تعالیٰ نے پہنائی ہے میں اسے اتار نہیں سکتا اور نہ امّتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بے پناہ چھوڑ سکتا ہوں کہ جس کا جو جی چاہے دوسرے پر ظلم کرے۔ ان لوگوں کو، باغیوں کو بھی یہ سمجھاتے رہے کہ اس فساد سے باز آ جائیں اور فرماتے رہے کہ آج یہ لوگ فساد کرتے ہیں اور میری زندگی سے بیزار ہیں۔ آپؓ نے فرمایا یہ لوگ جو آج فساد کر رہے ہیں اور میری زندگی سے بیزار ہیں مگر جب میں نہ رہوں گا تو خواہش کریں گے کہ کاش عثمان کی عمر کا ایک ایک دن ایک ایک سال سے بدل جاتا اور وہ ہم سے جلد رخصت نہ ہوتا کیونکہ میرے بعد سخت خونریزی ہو گی اور حقوق کا اتلاف ہو گا اور انتظام کچھ کا کچھ بدل جائے گا۔ چنانچہ بنو امیہ کے زمانے میں خلافت حکومت سے بدل گئی اور ان مفسدوں کو ایسی سزائیں ملیں کہ سب شرارتیں ان کو بھول گئیں۔ بہرحال بیس دن گزرنے کے بعد یہ مخالفین جو تھے، باغی جو تھے ان لوگوں کو خیال ہوا کہ جلد ہی کوئی فیصلہ کرنا چاہیے تا ایسا نہ ہو کہ صوبہ جات سے فوجیں آ جائیں اور ہمیں اپنے اعمال کی سزا بھگتنی پڑے۔ پتہ تھا کہ ہم غلط ہیں اور اکثریت جو مسلمانوں کی ہے وہ حضرت عثمانؓ کے ساتھ ہے۔ اس لیے انہوں نے حضرت عثمانؓ کا گھر سے نکلنا بند کر دیا اور کھانے پینے کی چیزوں کا اندر جانا بھی روک دیا اور سمجھے کہ شاید اس طرح مجبور ہو کر حضرت عثمانؓ ہمارے مطالبات کو قبول کر لیں گے لیکن آپؓ نے تو فرمایا تھا کہ جو قمیص مجھے اللہ تعالیٰ نے پہنائی ہے وہ میں کس طرح اتار سکتا ہوں۔ بہرحال مدینہ کا انتظام انہی لوگوں کے ہاتھ میں تھا اور انہوں نے مل کر مصر کی فوجوں کے سردار غَافِقِی کو اپنا سردار تسلیم کر لیا تھا۔ اس طرح مدینہ کا حاکم گویا اس وقت غَافِقِی تھا اور کوفہ کی فوج کا سردار اَشْتَرتھا اور بصرہ کی فوج کا سردار حکیم بن جَبَلَہتھا، وہی ڈاکو جسے اہل ذمہ کے مال لوٹنے پر حضرت عثمانؓ نے بصرہ میں نظر بند کر دینے کا حکم دیا تھا۔ وہ ڈاکو سردار بن گیا تھا۔ دونوں غَافِقِی کے ماتحت کام کرتے تھے۔ حکیم بن جَبَلَہبھی اور اشتر بھی غافقی کے ماتحت کام کرنے لگے اور آپؓ فرماتے ہیں کہ اس سے ایک دفعہ پھر یہ بات ثابت ہو گئی کہ اس فتنے کی جڑ مصری تھے جہاں عبداللہ بن سبا کام کر رہا تھا۔
مسجدنبویؐ میں غافِقِی نماز پڑھاتا تھا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ اپنے گھروں میں مقیّد رہتے یا اس کے پیچھے نماز ادا کرنے پر مجبور تھے۔ جب تک ان لوگوں نے حضرت عثمانؓ کے گھر کا محاصرہ کرنے کا فیصلہ نہیں کیا تھا تب تک تو لوگوں سے زیادہ تعارض نہیں کرتے تھے مگر محاصرہ کرنے کے ساتھ ہی ان باغیوں نے دوسرے لوگوں پر بھی سختیاں شروع کر دیں۔ اب مدینہ دارالامن کی بجائے دارالحرب ہو گیا تھا۔ اہل مدینہ کی عزت اور ننگ و ناموس خطرے میں تھی اور کوئی شخص اسلحہ کے بغیر گھر سے نہیں نکلتا تھا اور جو شخص ان کا مقابلہ کرتا اسے یہ لوگ قتل کر دیتے تھے۔ جب ان لوگوں نے حضرت عثمانؓ کا محاصرہ کر لیا اور پانی تک اندر جانے سے روک دیا تو حضرت عثمانؓ نے اپنے ایک ہمسائے کے لڑکے کو حضرت علیؓ اور حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ اور امہات المومنین کی طرف بھیجا کہ ان لوگوں نے ہمارا پانی بھی بند کر دیا ہے۔ آپ لوگوں سے اگر کچھ ہو سکے تو کوشش کریں اور ہمیں پانی پہنچائیں۔ مَردوں میں سب سے پہلے حضرت علیؓ آئے اور آپؓ نے ان لوگوں کو سمجھایا کہ تم لوگوں نے کیا رویہ اختیار کیا ہے۔ تمہارا عمل تو نہ مومنوں سے ملتا ہے نہ کافروں سے۔ حضرت عثمانؓ کے گھر میں کھانے پینے کی چیزیں مت روکو۔ حضرت علیؓ نے ان کوفرمایا کہ روم اور فارس کے لوگ بھی قید کرتے ہیں تو کھانا کھلاتے ہیں اور پانی پلاتے ہیں اور اسلامی طریق کے موافق تو تمہارا یہ فعل کسی طرح بھی جائز نہیں کیونکہ حضرت عثمانؓ نے تمہارا کیا بگاڑا ہے کہ تم ان کو قید کر دینے اور قتل کر دینے کو جائز سمجھنے لگے ہو۔ حضرت علیؓ کی اس نصیحت کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوا اور انہوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ خواہ کچھ ہو جائے ہم اس شخص تک دانہ پانی نہ پہنچنے دیں گے۔ یہ وہ جواب تھا جو انہوں نے اس شخص کو دیا جسے وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصی اور آپؐ کا حقیقی جانشین قرار دیتے تھے۔ حضرت علیؓ کے بارے میں ہی کہتے تھے ناں کہ یہ حقیقی جانشین ہے، اور اُن کو یہ جواب مل رہا ہے۔ اور کیا اس جواب کے بعد کسی اَور شہادت کی بھی اس امر کے ثابت کرنے کے لیے ضرورت باقی رہ جاتی ہے کہ یہ حضرت علیؓ کو وصی قرار دینے والا گروہ حق کی حمایت اور اہل بیت کی محبت کی خاطر اپنے گھروں سے نہیں نکلا تھا بلکہ یہ لوگ اپنی نفسانی اغراض کو پورا کرنے کے لیے آئے تھے۔
امہات المومنین میں سے سب سے پہلے حضرت اُمّ حبیبہؓ آپ کی مدد کے لیے آئیں۔ ایک خچر پر آپؓ سوار تھیں۔ آپؓ اپنے ساتھ ایک مشکیزہ پانی کا بھی لائیں لیکن اصل غرض آپؓ کی یہ تھی کہ بنو امیہ کے یتامیٰ اور بیواؤں کی وصیتیں حضرت عثمانؓ کے پاس تھیں اور آپؓ نے جب دیکھا کہ حضرت عثمانؓ کا پانی باغیوں نے بند کر دیا ہے تو آپؓ کو خوف ہوا کہ وہ وصایا بھی کہیں تلف نہ ہو جائیں اور آپؓ نے چاہا کہ کسی طرح وہ وصایا محفوظ کر لی جائیں ورنہ پانی آپؓ کسی اَور ذریعہ سے بھی پہنچا سکتی تھیں۔ جب آپؓ حضرت عثمانؓ کے دروازے تک پہنچیں تو باغیوں نے آپؓ کو روکنا چاہا۔ لوگوں نے بتایا کہ یہ اُمّ المومنین اُمّ حبیبہؓ ہیں مگر اس پر بھی وہ لوگ باز نہ آئے اور آپؓ کی خچر کو مارنا شروع کیا۔ اُمّ المومنین اُمّ حبیبہؓ نے ان لوگوں کو، باغیوں کو فرمایا کہ میں ڈرتی ہوں کہ بنوامیہ کے یتامیٰ اور بیوگان کی وصایا ضائع نہ ہو جائیں اس لیے اندر جانا چاہتی ہوں تا کہ ان کی حفاظت کا سامان کر دوں۔ مگر ان بدبختوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ کو جواب دیا کہ تم جھوٹ بولتی ہو اور آپؓ کی خچر پر حملہ کر کے اس کے پالان کے رسّے کاٹ دیے اور زین الٹ گئی اور قریب تھا کہ حضرت ام حبیبہؓ گر کر ان مفسدوں کے پیروں کے نیچے روندی جا کر شہید ہو جاتیں کہ بعض اہل مدینہ نے جو قریب تھے جھپٹ کر آپؓ کو سنبھالا اور گھر پہنچایا۔
یہ وہ سلوک تھا جو ان لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ سے کیا۔ حضرت اُمّ حبیبہؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا اخلاص اور عشق رکھتی تھیں کہ جب پندرہ سولہ سال کی جدائی کے بعد، والدین سے جو ان کی جدائی تھی اس کے بعد جب آپؓ کا باپ جو عرب کا سردار تھا اور مکہ میں ایک بادشاہ کی حیثیت رکھتا تھا ایک خاص سیاسی مشن پر مدینہ آیا اور آپؓ (اُمّ حبیبہؓ ) کو ملنے کے لیے بھی گیا تو آپ نے اس کے نیچے سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بستر کھینچ لیا۔ جب وہ بیٹھنے لگا تو نیچے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بستر بچھا ہوا تھا۔ جب آپؓ کا باپ بیٹھنے لگا تو آپؓ نے بستر کھینچ لیا اس لیے کہ خدا کے رسول کے پاک کپڑے سے ایک مشرک کے نجس جسم کو چھوتے ہوئے دیکھنا آپؓ کی طاقتِ برداشت سے باہر تھا، باپ کو بھی نہیں بیٹھنے دیا۔ تعجب ہے کہ حضرت اُمِّ حبیبہؓ نے تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غَیبت میں آپؐ کے کپڑے تک کی حرمت کا خیال رکھا مگر ان مفسدوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غَیبت میں آپؐ کی حرم ِمحترم کی حرمت کا بھی خیال نہ کیا۔ نادانوں نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی جھوٹی ہیں حالانکہ جو کچھ انہوں نے فرمایا تھا وہ درست تھا۔
حضرت عثمانؓ بنو امیہ کے یتامیٰ کے ولی تھے اور ان لوگوں کی بڑھتی ہوئی عداوت کو دیکھ کر آپؓ کا خوف درست تھا۔ ام حبیبہؓ کا خوف درست تھا کہ یتامیٰ اور بیواؤں کے اموال ضائع نہ ہو جائیں۔ جھوٹے وہ تھے جنہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا دعویٰ کرتے ہوئے ان کے دین کی تباہی کا بیڑا اٹھایا ہوا تھا، نہ ام المومنین اُمّ حبیبہؓ۔ آپؓ جھوٹی نہیں تھیں۔ حضرت اُمّ حبیبہؓ کے ساتھ جو کچھ سلوک کیا گیا تھا جب اس کی خبر مدینہ میں پھیلی تو صحابہ اور اہلِ مدینہ حیران رہ گئے اور سمجھ لیا کہ اب ان لوگوں سے کسی قسم کی خیر کی امید رکھنی فضول ہے۔ حضرت عائشہؓ نے اسی وقت حج کا ارادہ کر لیا اور سفر کی تیاری شروع کر دی۔ جب لوگوں کو معلوم ہوا کہ آپؓ مدینہ سے جانے والی ہیں تو بعض نے آپؓ سے درخواست کی کہ اگر آپؓ یہیں ٹھہریں تو شاید فتنہ کے روکنے میں کوئی مدد ملے اور باغیوں پر کچھ اثر ہو مگر انہوں نے انکار کر دیا اور فرمایا کہ کیا تم چاہتے ہو کہ مجھ سے بھی وہی سلوک ہو جو اُمّ حبیبہؓ سے ہوا ہے۔ خدا کی قسم! مَیں اپنی عزت کو خطرے میں نہیں ڈال سکتی کیونکہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت تھی۔ اگر کسی قسم کا معاملہ مجھ سے کیا گیا تو میری حفاظت کا کیا سامان ہو گا؟ خدا ہی جانتا ہے کہ یہ لوگ اپنی شرارتوں میں کہاں تک ترقی کریں گے اور ان کا کیا انجام ہو گا۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ نے چلتے چلتے ایک ایسی تدبیر کی، جب حج پر جانے لگیں تو ایک ایسی تدبیر کی جو اگر کارگر ہو جاتی تو شاید فساد میں کچھ کمی ہو جاتی اور وہ تدبیر یہ تھی کہ اپنے بھائی محمد بن ابی بکر کو کہلا بھیجا جو اپنی لاعلمی کی وجہ سےیا چھوٹے ہونے کی وجہ سے، کمزور ایمان کی وجہ سے ان باغیوں کے ساتھ تھے کہ تم بھی میرے ساتھ حج کو چلو مگر انہوں نے انکار کر دیا۔ اس پر حضرت عائشہؓ نے فرمایا کیا کروں بے بس ہوں۔ اگر میری طاقت ہوتی تو ان لوگوں کو اپنے ارادوں میں کبھی کامیاب نہ ہونے دیتی۔ حضرت عائشہؓ تو حج پر تشریف لے گئیں اور بعض صحابہ بھی جن سے ممکن ہو سکا اور مدینہ سے نکل سکے مدینہ سے تشریف لے گئے اور باقی لوگ سوائے چند اکابر صحابہ کے اپنے گھروں میں بیٹھ رہے اور آخر حضرت عثمانؓ کو بھی یہ محسوس ہو گیا کہ یہ لوگ نرمی سے مان نہیں سکتے اور آپؓ نے ایک خط تمام والیانِ صوبہ جات کے نام روانہ کیا جس کا خلاصہ یہ تھاکہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے بعد بلا کسی خواہش یا درخواست کے مجھے ان لوگوں میں شامل کیا گیا تھا جنہیں خلافت کے متعلق مشورہ کرنے کا کام سپرد کیا گیا تھا۔ حضرت عثمانؓ نے جو خط لکھا اس میں یہ فرمایا۔ پھر فرمایا پھر بلا میری خواہش یا سوال کے مجھے خلافت کے لیے چنا گیا اور میں برابر وہ کام کرتا رہا جو مجھ سے پہلے خلفاء کرتے رہے اور میں نے اپنے پاس سے کوئی بدعت نہیں نکالی لیکن چند لوگوں کے دلوں میں بدی کا بیج بویا گیا اور شرارت جاگزیں ہوئی اور انہوں نے میرے خلاف منصوبے کرنے شروع کر دیے اور لوگوں کے سامنے کچھ ظاہر کیا اور دل میں کچھ اَور رکھا اور مجھ پر وہ الزام لگانے شروع کیے جو مجھ سے پہلے خلفاء پر بھی لگتے تھے لیکن میں معلوم ہوتے ہوئے خاموش رہا اور یہ لوگ میرے رحم سے ناجائز فائدہ اٹھا کر شرارت میں اَور بھی بڑھ گئے اور آخر کفار کی طرح مدینہ پر حملہ کر دیا۔ پس آپ لوگ اگر کچھ کر سکیں تو مدد کا انتظام کریں۔ اسی طرح ایک خط، جس کا خلاصہ مطلب اس طرح ہے، جو حج پر آنے والوں کے نام لکھ کر کچھ دن کے بعد مکّہ میں روانہ کیا۔ آپؓ نے حاجیوں کے لیے لکھا کہ میں آپ لوگوں کو خدا تعالیٰ کی طرف توجہ دلاتا ہوں اور اس کے انعامات یاد دلاتا ہوں۔ اس وقت کچھ لوگ فتنہ پردازی کر رہے ہیں اور اسلام میں تفرقہ ڈالنے کی کوشش میں مشغول ہیں مگر ان لوگوں نے یہ بھی نہیں سوچا کہ خلیفہ خدا بناتا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِی الْاَرْضِ(النور: 56) یعنی اللہ تعالیٰ نے تم میں سے ایمان لانے والوں اور مناسب حال عمل کرنے والوں سے وعدہ کیا ہے کہ وہ ان کو زمین میں خلیفہ بنا دے گا اور اتفاق کی قدر نہیں کرتے۔ فرمایا کہ اور اتفاق کی قدر نہیں کرتے حالانکہ خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا(آل عمران: 104) کہ تم سب اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو۔ پھر آپ نے فرمایا اور مجھ پر الزام لگانے والوں کی باتوں کو قبول کیا اور قرآن کریم کے اس حکم کی پرواہ نہ کی کہ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ جَآءَکُمۡ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوۡۤا(الحجرات: 7) یعنی اے مومنو ! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق اہم خبر لائے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو۔ پھر فرمایا کہ اور میری بیعت کا ادب نہیں کیا حالانکہ اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت فرماتا ہے کہ اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ (الفتح: 11) یعنی وہ لوگ جو تیری بیعت کرتے ہیں وہ صرف اللہ کی بیعت کرتے ہیں۔ فرمایا اور میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نائب ہوں یعنی یہی حکم جو ہے یہی بات جو ہے مجھ پر بھی لاگو ہوتی ہے کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نائب ہوں۔ کوئی امّت بغیر سردار کے ترقی نہیں کر سکتی اور اگر کوئی امام نہ ہو تو جماعت کا تمام کام خراب و برباد ہو جائے گا۔ پھر آپؓ نے آگے تحریر فرمایا کہ یہ لوگ امّت اسلامیہ کو تباہ و برباد کرنا چاہتے ہیں اور اس کے سوا ان کی کوئی غرض نہیں کیونکہ میں نے ان کی بات کو قبول کر لیا تھا اور والیوں کے بدلنے کا وعدہ کر لیا تھا مگر انہوں نے اس پر بھی شرارت نہ چھوڑی۔ اب یہ تین باتوں میں سے ایک کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یہ تین مطالبے انہوں نے، باغیوں نے سامنے رکھے تھے۔ اوّل یہ کہ جن لوگوں کو میرے عہد میں سزا ملی ہے ان سب کا قصاص مجھ سے لیا جائے۔ اگر یہ مجھے منظور نہ ہو تو پھر خلافت کو چھوڑ دوں۔ اگر میں لوگوں کا قصاص نہیں دیتا جن کو سزا دی ہے تو پھر میں خلافت کو چھوڑ دوں اور یہ لوگ میری جگہ کسی اَور کو مقرر کر دیں۔ یہ بھی نہ مانوں تو پھر یہ لوگ دھمکی دیتے ہیں کہ یہ لوگ اپنے تمام ہم خیال لوگوں کو پیغام بھیجیں گے کہ میری اطاعت سے باہر ہو جائیں۔ اگر یہ نہ مانوں تو پھر یہ دھمکی دیتے ہیں کہ میری اطاعت سے باہر نکل جاؤ۔
پہلی بات کا تو یہ جواب ہے کہ مجھ سے پہلے خلفاء بھی کبھی فیصلوں میں غلطی کرتے تھے مگر ان کو کبھی سزا نہ دی گئی۔ جو غلط فیصلے بھی ہوئے ان کے قصاص پہلے خلفاء نےنہیں دیے۔ نہ ان کو کسی قسم کی کوئی سزا ملی اور اسی طرح میں نے کیا ہے اور اس قدر سزائیں مجھ پر جاری کرنے کا مطلب سوائے مجھے مارنے کے اَور کیا ہو سکتا ہے! یہ باتیں تم جو کر رہے ہو کہ قصاص دو یا سزا لو تو اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ تم مجھے مارنا چاہتے ہو۔ پھر فرمایا خلافت سے معزول ہونے کا جواب میری طرف سے یہ ہے کہ اگر یہ لوگ موچنوں سے نوچ نوچ کے میری بوٹیاں کر دیں تو یہ مجھے منظور ہے مگر خلافت سے میں جدا نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے قمیص پہنائی ہے کبھی نہیں ہو سکتا کہ چھوڑ دوں۔ باقی رہی تیسری بات کہ پھر یہ لوگ اپنے آدمی چاروں طرف بھیجیں گے کہ کوئی میری بات نہ مانے۔ سو میں خدا کی طرف سے ذمہ دار نہیں ہوں۔ اگر یہ لوگ ایک امر خلافِ شریعت کرنا چاہتے ہیں تو کریں۔ پہلے بھی جب انہوں نے میری بیعت کی تھی تو ان پر میں نے جبرنہیں کیا تھا۔ ان کو مجبور نہیں کیا تھا کہ ضرور میری بیعت کرو۔ جو شخص عہد توڑنا چاہتا ہے میں اس کے اس فعل پر راضی نہیں نہ خدا تعالیٰ راضی ہے۔ اب عہد کو توڑنا چاہتے ہو تو توڑو۔ میں نے نہ پہلے جبر کیا تھا نہ اب جبر کروں گا۔ ہاں میں راضی بہرحال نہیں۔ یہ بہرحال غلط کام ہے۔ اور اللہ تعالیٰ بھی اس پر راضی نہیں ہے۔ ہاں وہ اپنی طرف سے جو چاہے کرے۔ کیونکہ حج کے دن قریب آ رہے تھے اور چاروں طرف سے لوگ مکہ مکرمہ میں جمع ہو رہے تھے۔ حضرت عثمانؓ نے اس خیال سے کہ کہیں وہاں بھی یہ باغی کوئی فساد کھڑا نہ کریں اور اس خیال سے بھی کہ حج کے لیے جمع ہونے والے مسلمانوں میں اہل مدینہ کی مدد کی تحریک کریں، حضرت عبداللہ بن عباسؓ کو حج کا امیر بنا کر روانہ فرمایا۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے بھی عرض کی کہ ان لوگوں سے جہاد کرنا مجھے زیادہ پسند ہے۔ آپؓ مجھے حج کے لیے امیر بنا کے بھیج رہے ہیں لیکن میری خواہش یہ ہے کہ میں ان لوگوں سے جہاد کروں مگر حضرت عثمانؓ نے ان کو مجبور کیا کہ وہ حج کے لیے جاویں اور حج کے ایام میں امیر حج کا کام کریں تا کہ مفسد وہاں اپنی شرارت نہ پھیلا سکیں اور وہاں جمع ہونے والے لوگوں میں بھی مدینہ کے لوگوں کی مدد کی تحریک کی جاوے اور مذکورہ بالا خط آپ ہی کے ہاتھ روانہ کیا۔
جب ان خطوں کا ان مفسدوں کو علم ہوا تو انہوں نے اَور بھی سختی کرنا شروع کر دی اور اس بات کا موقع تلاش کرنے لگے کہ کسی طرح لڑائی کا کوئی بہانہ مل جائے تو حضرت عثمانؓ کو شہید کر دیں مگر ان کی تمام کوششیں فضول جاتی تھیں اور حضرت عثمانؓ ان کو کوئی موقع شرارت کا ملنے نہ دیتے تھے۔ آخر تنگ آ کر یہ تدبیر سوجھی کہ جب رات پڑتی اور لوگ سو جاتے تو یہ لوگ حضرت عثمانؓ کے گھر میں پتھر پھینکتے اور اس طرح اہلِ خانہ کو اشتعال دلاتے تا کہ جوش میں آ کر وہ بھی پتھر پھینکیں تو لوگوں کو کہہ سکیں کہ دیکھو انہوں نے ہم پہ حملہ کیا ہے اس لیے ہم بھی جواب دینے پر مجبور ہیں مگر حضرت عثمانؓ نے اپنے تمام اہلِ خانہ کو جواب دینے سے روک دیا۔ کچھ جواب نہیں دینا۔ ایک دن موقع پا کر دیوار کے پاس حضرت عثمانؓ تشریف لائے اور فرمایا کہ اے لوگو! مَیں تو تمہارے نزدیک تمہارا گناہگار ہوں، تم سمجھتے ہو ناں مجھے گناہگار تو گناہگار ہوں مگر دوسرے لوگوں نے کیا قصور کیا ہے؟ تم سمجھتے ہو کہ میں گناہ گار ہوں تو پھر مجھ سے جو زیادتی کرنی ہے کرو۔ دوسرے لوگوں نے کیا قصور کیا ہے کہ تم پتھر پھینکتے ہو۔ اس سے دوسروں کو بھی چوٹ لگنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ انہوں نے صاف انکار کر دیا کہ ہم نے پتھر نہیں پھینکے۔ حضرت عثمانؓ نے فرمایا کہ اگر تم نہیں پھینکتے تو اَور کون پھینکتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ خدا تعالیٰ پھینکتا ہو گا۔ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذَالِکَ۔ حضرت عثمانؓ نے فرمایا کہ تم لوگ جھوٹ بولتے ہو۔ اگر خدا تعالیٰ ہم پر پتھر پھینکتا تو اس کا کوئی پتھر خطا نہ جاتا۔ یہ نہ ہو تا کہ اس کا نشانہ اچک جاتالیکن تمہارے پھینکے ہوئے پتھر تو اِدھر اُدھر جا پڑتے ہیں۔ یہ فرما کر آپ ان کے سامنے سے ہٹ گئے۔
گو صحابہ کو اب حضرت عثمانؓ کے پاس جمع ہونے کا موقع نہ دیا جاتا تھا مگر پھر بھی وہ اپنے فرض سے غافل نہ تھے۔ مصلحت وقت کے ماتحت انہوں نے دو حصوں میں اپنا کام تقسیم کیا ہوا تھا۔ جو سِن رسیدہ تھے، بوڑھے تھے اور جن کا اخلاقی اثر عوام پر زیادہ تھا وہ تو اپنے اوقات کو لوگوں کو سمجھانے پر صرف کرتے اور جو لوگ ایسا کوئی اثر نہ رکھتے تھے یا نوجوان تھے وہ حضرت عثمانؓ کی حفاظت کی کوشش میں لگے رہتے۔ اوّل الذکر جماعت میں سے حضرت علیؓ اور حضرت سعد بن وقاصؓ فاتح فارس فتنہ کے کم کرنے میں سب سے زیادہ کوشاں تھے۔ خصوصاً حضرت علیؓ تو اس فتنہ کے ایام میں اپنے تمام کام چھوڑ کر اس کام میں لگ گئے تھے۔ چنانچہ ان واقعات کی رؤیت کے گواہوں میں سے ایک شخص عبدالرحمٰن نامی بیان کرتا ہے کہ ان ایام فتنہ میں مَیں نے دیکھا ہے کہ حضرت علیؓ نے اپنے تمام کام چھوڑ دیے تھے اور حضرت عثمانؓ کے دشمنوں کا غضب ٹھنڈا کرنے اور آپؓ کی تکالیف دور کرنے کی فکر میں ہی رات دن لگے رہتے تھے۔ ایک دفعہ آپؓ تک پانی پہنچنے میں کچھ دیر ہوئی تو حضرت طلحہؓ پر جن کے سپرد یہ کام تھا حضرت علیؓ سخت ناراض ہوئے اور اس وقت تک آرام نہ کیا جب تک پانی حضرت عثمانؓ کے گھر میں پہنچ نہ گیا۔ دوسرا گروہ ایک ایک دو دو کر کے جس جس وقت موقع ملتا تھا تلاش کر کے حضرت عثمانؓ یا آپؓ کے ہمسائے کے گھروں میں جمع ہونا شروع ہو گئے اور اس نے اس امر کا پختہ ارادہ کر لیا کہ ہم اپنی جانیں دے دیں گے مگر حضرت عثمانؓ کی جان پر آنچ نہ آنے دیں گے۔ اس گروہ میں حضرت علیؓ، حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ کی اولاد کے سوائے خود صحابہؓ میں سے بھی ایک جماعت شامل تھی۔ یہ لوگ رات اور دن حضرت عثمانؓ کے مکان کی حفاظت کرتے تھے اور آپؓ تک کسی دشمن کو پہنچنے نہ دیتے تھے۔ اور گو یہ قلیل تعداد اس قدر کثیر تعداد کا مقابلہ تو نہ کر سکتی تھی مگر چونکہ باغی چاہتے تھے کہ کوئی بہانہ رکھ کر حضرت عثمانؓ کو قتل کریں وہ بھی اس قدر زور نہ دیتے تھے۔ اس وقت کے حالات سے حضرت عثمانؓ کی اسلامی خیر خواہی پر جو روشنی پڑتی ہے اس سے عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ تین ہزار کے قریب باغیوں کا لشکر آپؓ کے دروازے کے سامنے پڑا ہے اور کوئی تدبیر اس سے بچنے کی نہیں مگر جو لوگ آپؓ کو بچانے کی کوشش کرنا چاہتے ہیں ان کو بھی آپؓ روکتے ہیں کہ جاؤ اپنی جانوں کو خطرے میں نہ ڈالو۔ ان لوگوں کو صرف مجھ سے عداوت ہے تم سے کوئی تعارض نہیں۔ آپؓ کی آنکھ اس وقت کو دیکھ رہی تھی جبکہ اسلام ان مفسدوں کے ہاتھوں سے ایک بہت بڑے خطرے میں ہو گا اور صرف ظاہری اتحاد ہی نہیں بلکہ روحانی انتظام بھی پراگندہ ہونے کے قریب ہو جاوے گا اور آپؓ جانتے تھے کہ اس وقت اسلام کی حفاظت اور اس کے قیام کے لیے ایک ایک صحابی کی ضرورت ہو گی۔ پس آپؓ نہیں چاہتے تھے کہ آپؓ کی جان بچانے کی بے فائدہ کوشش میں صحابہ کی جانیں جاویں اور سب کو یہی نصیحت کرتے تھے کہ ان لوگوں سے تعارض نہ کرو اور چاہتے تھے کہ جہاں تک ہو سکے آئندہ فتنوں کو دور کرنے کے لیے وہ جماعت محفوظ رہے جس نے رسول کریم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت پائی ہے مگر باوجود آپؓ کے سمجھانے کے جن صحابہ کو آپؓ کے گھر تک پہنچنے کا موقع مل جاتا وہ اپنے فرض کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کرتے اور آئندہ کے خطرات پر موجودہ خطرے کو مقدم رکھتے اور اگر ان کی جانیں اس عرصہ میں محفوظ تھیں تو صرف اس لیے کہ ان لوگوں کو جلدی کی کوئی ضرورت نہ معلوم ہوتی تھی۔ یعنی ان لوگوں کو جو باغی تھے جلدی کی کوئی ضرورت محسوس نہ ہوتی تھی اور بہانہ کی تلاش تھی۔ بہانہ یہ تھا کہ اس دن حضرت عثمانؓ پہ حملہ کریں۔ لیکن وہ وقت بھی آخر آ گیا جبکہ زیادہ انتظار کرنا ناممکن ہو گیا کیونکہ حضرت عثمانؓ کا دل کو ہلا دینے والا وہ پیغام جو آپؓ نے حج پر جمع ہونے والے مسلمانوں کو بھیجا تھا حجاج کے مجمع میں سنا دیا گیا اور وادی مکہ ایک سرے سے دوسرے سرے تک اس کی آواز سے گونج رہی تھی۔ اور حج پر جمع ہونے والے مسلمانوں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ حج کے بعد جہاد کے ثواب سے بھی محروم نہ رہیں گے اور مصری مفسدوں اور ان کے ساتھیوں کا قلع قمع کر کے چھوڑیں گے۔ مفسدوں کے جاسوسوں نے انہیں اس ارادے کی اطلاع دے دی اور اب ان مفسدوں کے کیمپ میں سخت گھبراہٹ کے آثار تھے۔ حتیٰ کہ ان میں چہ میگوئیاں ہونے لگی تھیں کہ اب اس شخص کے قتل کے سوا کوئی چارہ نہیں اور اگر اسے ہم نے قتل نہ کیا تو مسلمانوں کے ہاتھوں سے ہمارے قتل میں اب کوئی شبہ نہیں۔ اس گھبراہٹ کو اس خبر نے اَور بھی دوبالا کر دیا کہ شام اور کوفہ اور بصرہ میں بھی حضرت عثمانؓ کے خطوط پہنچ گئے ہیں اور وہاں کے لوگ جو پہلے سے ہی حضرت عثمانؓ کے احکام کے منتظر تھے ان خطوط کے پہنچنے پر اَور بھی جوش سے بھر گئے ہیں اور صحابہؓ نے اپنی ذمہ داری کو محسوس کر کے مسجدوں اور مجلسوں میں تمام مسلمانوں کو ان کے فرائض کی طرف توجہ دلا کر ان مفسدوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ دے دیا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ جس نے آج جہادنہ کیا اس نے گویا کچھ بھی نہ کیا۔ کوفہ میں عُقبہ بن عمرو، عبداللہ بن ابی اَوْفیٰ اور حَنْظَلَہ بن رَبِیع التَّمِیْمِی اور دیگر صحابہ کرامؓ نے لوگوں کو اہل مدینہ کی مدد کے لیے ابھارا ہے تو بصرہ میں عمران بن حُصَین، انس بن مالک، ہشام بن عامر اور دیگر صحابہ نے۔ شام میں اگر عُبَادَہ بن صامِت، ابواُمَامہ اور دیگر صحابہؓ نے حضرت عثمانؓ کی آواز پر لبیک کہنے پر لوگوں کو اکسایا ہے تو مصر میں خارجہ اور دیگر لوگوں نے اور سب ملکوں سے فوجیں اکٹھی ہو کر مدینہ کی طرف بڑھتی چلی آتی ہیں۔ غرض ان خبروں سے باغیوں کی گھبراہٹ اَور بھی بڑھ گئی۔ آخر حضرت عثمانؓ کے گھر پر حملہ کر کے بزور اندر داخل ہونا چاہا۔ صحابہؓ نے مقابلہ کیا اور آپس میں سخت جنگ ہوئی۔ گو صحابہ کم تھے مگر ان کی ایمانی غیرت ان کی کمی کی تعداد کو پورا کر رہی تھی۔ جس جگہ لڑائی ہوئی یعنی حضرت عثمانؓ کے گھر کے سامنے وہاں جگہ بھی تنگ تھی اس لیے بھی مفسد اپنی کثرت سے زیادہ فائدہ نہ اٹھا سکے۔ حضرت عثمانؓ کو جب اس لڑائی کا علم ہوا تو آپؓ نے صحابہ کو لڑنے سے منع کیا مگر وہ اس وقت حضرت عثمانؓ کو اکیلا چھوڑ دینا ایمانداری کے خلاف اور اطاعت کے حکم کے متضاد خیال کرتے تھے اور باوجود حضرت عثمانؓ کے اللہ کی قسم دینے کے انہوں نے لَوٹنے سے انکار کر دیا۔ آخر حضرت عثمانؓ نے ڈھال ہاتھ میں پکڑی اور باہر تشریف لائے اور صحابہ کو اپنے مکان کے اندر لے گئے اور دروازے بند کرا دیے اور آپؓ نے سب صحابہؓ اور ان کے مددگاروں کو وصیت کی کہ خداتعالیٰ نے آپ لوگوں کو دنیا اس لیے نہیں دی کہ تم اس کی طرف جھک جاؤ بلکہ اس لیے دی ہے کہ تم اس کے ذریعہ سے آخرت کے سامان جمع کرو۔ یہ دنیا تو فنا ہو جائے گی اور آخرت ہی باقی رہے گی۔ پس چاہیے کہ فانی چیز تم کو غافل نہ کرے۔ باقی رہنے والی چیز کو فانی ہو جانے والی چیز پر مقدم کرو اور خدا تعالیٰ کی ملاقات کو یاد رکھو اور جماعت کو پراگندہ نہ ہونے دو اور اس نعمتِ الٰہی کو مت بھولو کہ تم ہلاکت کے گڑھے میں گرنے والے تھے اور خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے تم کو نجات دے کر بھائی بھائی بنا دیا۔ اس کے بعد آپؓ نے سب کو رخصت کیا اور کہا کہ خدا تعالیٰ تمہارا حافظ و ناصر ہو۔ تم سب اب گھر سے باہر جاؤ اور ان صحابہ کو بھی بلواؤ جن کو مجھ تک آنے نہیں دیا تھا خصوصاً حضرت علیؓ، حضرت طلحہؓ، حضرت زبیرؓ کو۔ یہ لوگ باہر آ گئے اور دوسرے صحابہ کو بھی بلوایا گیا۔ اس وقت کچھ ایسی کیفیت پیدا ہو رہی تھی اور ایسی افسردگی چھا رہی تھی کہ باغی بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہے۔ وقتی طور پر ایسے حالات پیدا ہو گئے۔ جب آپ نے کہا کہ باہر جاؤ، یہ لوگ نکلے تو باغیوں نے حملہ نہیں کیا لیکن بہرحال یہ باہر گئے اور بڑے صحابہ کو اکٹھا کیا اور کیوں نہ ہوتا سب دیکھ رہے تھے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جلائی ہوئی ایک شمع اب اس دنیا کی عمر کو پوری کر کے اس دنیا کے لوگوں کی نظر سے اوجھل ہونے والی ہے۔
غرض باغیوں نے زیادہ تعارض نہ کیا اور سب صحابہؓ جمع ہوئے۔ انہوں نے بھی کچھ نہیں کہا۔ صحابہ کو جمع ہونے دیا۔ جب لوگ جمع ہو گئے تو آپؓ گھر کی دیوار پر چڑھے اور فرمایا میرے قریب ہو جاؤ۔ جب سب قریب ہو گئے تو فرمایا کہ اے لوگو! بیٹھ جاؤ۔ اس پر صحابہ بھی اور مجلس کی ہیبت سے متاثر ہو کر باغی بھی بیٹھ گئے۔ جب سب بیٹھ گئے تو آپؓ نے فرمایا کہ اہلِ مدینہ! مَیں تم کو خدا تعالیٰ کے سپرد کرتا ہوں اور اس سے دعا کرتا ہوں کہ وہ میرے بعد تمہارے لیے خلافت کا کوئی بہتر انتظام فرما دے۔ آج کے بعد اس وقت تک کہ خدا تعالیٰ میرے متعلق کوئی فیصلہ فرما دے، میں باہر نہیں نکلوں گا اور مَیں کسی کو کوئی ایسا اختیار نہیں دے جاؤں گا کہ جس کے ذریعہ سے دین یا دنیا میں وہ تم پر حکومت کرے اور اس امر کو خدا تعالیٰ پر چھوڑ دوں گا کہ وہ جسے چاہے اپنے کام کے لیے پسند کرے۔ اس کے بعد صحابہ اور دیگر اہل مدینہ کو قَسم دی کہ وہ آپؓ کی حفاظت کر کے اپنی جانوں کو خطرہ عظیم میں نہ ڈالیں اور اپنے گھروں کو چلے جاویں۔ آپؓ کے اس حکم نے صحابہ میں ایک بہت بڑا اختلاف پیدا کر دیا۔ ایسا اختلاف کہ جس کی نظیر پہلے نہیں ملتی۔ صحابہ ماننے کے سوا اَور کچھ جانتے ہی نہ تھے مگر آج اس حکم کے ماننے میں ان میں سے بعض کو اطاعت نہیں، غداری کی بُو نظر آتی تھی کہ ہم نے مانا تو یہ اطاعت نہیں ہے غداری ہے۔ بعض صحابہ نے اطاعت کے پہلو کو مقدم سمجھ کر بادِلِ نخواستہ آئندہ کے لیے دشمنوں کا مقابلہ کرنے کا ارادہ چھوڑ دیا اور غالباً انہوں نے سمجھا کہ ہمارا کام صرف اطاعت ہے۔ یہ ہمارا کام نہیں ہے کہ ہم دیکھیں کہ اس حکم پر عمل کرنے کے کیا نتائج ہوں گے۔ مگر بعض صحابہ نے اس حکم کو ماننے سے انکار کر دیا کیونکہ انہوں نے دیکھا کہ بیشک خلیفہ کی اطاعت فرض ہے مگر جب خلیفہ یہ حکم دے کہ تم مجھے چھوڑ کر چلے جاؤ تو اس کے یہ معنی ہیں کہ خلافت سے وابستگی چھوڑ دو۔ پس یہ اطاعت درحقیقت بغاوت پیدا کرتی ہے۔ اور وہ یہ بھی دیکھتے تھے کہ حضرت عثمانؓ کا ان کو گھروں کو واپس کرنا ان کی جانوں کی حفاظت کے لیے تھا یعنی صحابہ کی جانوں کی حفاظت کے لیے تھا تو پھر کیا وہ ایسے محبت کرنے والے وجود کو خطرے میں چھوڑ کر اپنے گھروں میں جا سکتے تھے کہ حضرت عثمانؓ تو ان کی محبت کی خاطر ان کی جانوں کو ضائع ہونے سے بچا رہے ہیں اور وہ حضرت عثمانؓ کو چھوڑ دیں یہ ممکن نہیں تھا۔ اس مؤخر الذکر گروہ میں سب اکابر صحابہ شامل تھے۔ چنانچہ باوجود اس حکم کے حضرت علیؓ، حضرت طلحہؓ، حضرت زبیرؓ کے لڑکوں نے اپنے اپنے والد کے حکم کے ماتحت حضرت عثمانؓ کی ڈیوڑھی پر ہی ڈیرہ جمائے رکھا اور اپنی تلواروں کو میانوں میں نہ داخل کیا۔
باغیوں کی گھبراہٹ اور جوش کی کوئی حد باقی نہ رہی جبکہ حج سے فارغ ہو کر آنے والے لوگوں میں سے اکّے دکّے مدینہ میں داخل ہونے لگے اور ان کو معلوم ہو گیا کہ اب ہماری قسمت کے فیصلہ کا وقت بہت نزدیک ہے۔ چنانچہ مُغِیرہ بن الْاَخْنَس سب سے پہلے شخص تھے جو حج کے بعد ثواب جہاد کے لیے مدینہ میں داخل ہوئے اور ان کے ساتھ ہی یہ خبر باغیوں کو ملی کہ اہلِ بصرہ کا لشکر جو مسلمانوں کی امداد کے لیے آ رہا ہے صِرَارْ مقام پر جو مدینہ سے صرف ایک دن کے فاصلے پر ہے آ پہنچا ہے۔ ان خبروں سے متاثر ہو کر انہوں نے فیصلہ کیا کہ جس طرح ہو اپنے مدعا کو جلد پورا کیا جائے اور چونکہ وہ صحابہ اور ان کے ساتھی، جنہوں نے باوجود حضرت عثمانؓ کے منع کرنے کے حضرت عثمانؓ کی حفاظت نہ چھوڑی تھی اور صاف کہہ دیا تھا کہ اگر ہم آپ کو باوجود ہاتھوں میں طاقت مقابلہ ہونے کے چھوڑ دیں تو خدا تعالیٰ کو کیا منہ دکھلائیں گے بوجہ اپنی قلت تعداد اب مکان کے اندر کی طرف سے حفاظت کرتے تھے اور دروازہ تک پہنچنا باغیوں کے لیے مشکل نہ تھا۔ انہوں نے دروازے کے سامنے لکڑیوں کے انبار جمع کر کے آگ لگا دی تا کہ دروازہ جل جائے اور اندر پہنچنے کا رستہ مل جاوے۔ صحابہؓ نے اس بات کو دیکھا تو اندر بیٹھنا مناسب نہ سمجھا۔ تلواریں پکڑ کر باہر نکلنا چاہا مگر حضرت عثمانؓ نے اس بات سے روکا اور فرمایا گھر کو آگ لگانے کے بعد اَور کون سی بات رہ گئی ہے۔ اب جو ہونا تھا وہ ہو چکا۔ تم لوگ اپنی جانوں کو خطرے میں نہ ڈالو اور اپنے گھروں کو چلے جاؤ۔ ان لوگوں کو صرف میری ذات سے عداوت ہے مگر جلد یہ لوگ اپنے کیے پر پشیمان ہوں گے۔ مَیں ہر ایک شخص کو جس پر میری اطاعت فرض ہے اس کے فرض سے سبکدوش کرتا ہوں اور اپنا حق معاف کرتا ہوں۔ مگر صحابہؓ نے اور دیگر لوگوں نے اس بات کو تسلیم نہ کیا اور تلواریں پکڑ کر باہر نکلے۔ ان کے باہر نکلتے وقت حضرت ابوہریرہؓ بھی آ گئے اور باوجود اس کے کہ وہ فوجی آدمی نہ تھے وہ بھی ان کے ساتھ مل گئے اور فرمایا کہ آج کے دن کی لڑائی سے بہتر اَور کون سی لڑائی ہو سکتی ہے اور پھر باغیوں کی طرف دیکھ کر فرمایا۔ یٰقَوۡمِ مَا لِیۡۤ اَدۡعُوۡکُمۡ اِلَی النَّجٰوۃِ وَ تَدۡعُوۡنَنِیۡۤ اِلَی النَّارِ (المومن: 42) یعنی اے میری قوم! کیا بات ہے کہ میں تم کو نجات کی طرف بلاتا ہوں اور تم لوگ مجھے آگ کی طرف بلاتے ہو۔
یہ لڑائی ایک خاص لڑائی تھی اور مٹھی بھر صحابہؓ جو اس وقت جمع ہو سکے انہوں نے اس لشکر عظیم کا مقابلہ جان توڑ کر کیا۔ حضرت امام حسنؓ جو نہایت صلح جُو بلکہ صلح کے شہزادے تھے انہوں نے بھی اس دن رَجز پڑھ پڑھ کر دشمن پر حملہ کیا۔ ان کا اور محمد بن طَلْحہ کا اس دن کا رَجز خاص طور پر قابل ذکر ہے کیونکہ ان سے ان کے دلی خیالات کا خوب اندازہ ہو جاتا ہے۔ حضرت امام حسنؓ یہ شعر پڑھ کر باغیوں پر حملہ کرتے تھے کہ
لَا دِیْنُھُمْ دِیْنِیْ وَلَا اَنَا مِنْھُمُ
حَتّٰی اَسِیْرَ اِلٰی طَمَارِ شَمَامٖ
یعنی ان لوگوں کا دین میرا دین نہیں اور نہ ان لوگوں سے میرا کوئی تعلق ہے اور میں ان لوگوں سے اس وقت تک لڑوں گا کہ شَمام پہاڑ کی چوٹی تک پہنچ جاؤں۔ (شَمام عرب کا ایک پہاڑ ہے جس کو بلندی پر پہنچنے اور مقصد کے حصول سے مشابہت دیتے ہیں۔) بہرحال حضرت امام حسنؓ کا یہ مطلب ہے کہ جب تک مَیں اپنے مدعا کو نہ پہنچ جاؤں اس وقت تک مَیں برابر ان سے لڑتا رہوں گا اور ان سے صلح نہ کروں گا کیونکہ ہم میں کوئی معمولی اختلاف نہیں کہ بغیر ان پر فتح پانے کے ہم ان سے تعلق قائم کر لیں۔ یہ تو وہ خیالات ہیں جو اس شہزادہ صلح کے دل میں موجزن تھے۔ اب ہم طلحہ کے لڑکے محمد کا رَجز لیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں۔
اَنَا ابْنُ مَنْ حَامٰی عَلَیْہِ بِاُحُدٍ
وَرَدَّ اَحْزَابًا عَلٰی رَغْمِ مَعَدٍّ
یعنی میں اس کا بیٹا ہوں جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت اُحُد کے دن کی تھی اور جس نے باوجود اس کے کہ عربوں نے سارا زور لگایا تھا ان کو شکست دے دی تھی۔ یعنی آج بھی اُحُد کی طرح کا ایک واقعہ ہے اور جس طرح میرے والدنے اپنے ہاتھ کو تیروں سے چھلنی کروا لیا تھا مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آنچ نہ آنے دی تھی میں بھی ایسا ہی کروں گا۔ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ بھی اس لڑائی میں شریک ہوئے اور بری طرح زخمی ہوئے۔ مروان بھی سخت زخمی ہوا اور موت تک پہنچ کر لَوٹا۔ مغیرہ بن الاخنس مارے گئے۔ جس شخص نے ان کو مارا تھا اس نے دیکھ کر کہ آپ زخمی ہی نہیں ہوئے بلکہ مارے گئے ہیں زور سے کہا اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ سردارِ لشکر نے اسے ڈانٹا کہ اس خوشی کے موقع پر افسوس کا اظہار کرتے ہو۔ اس نے کہا کہ آج رات میں نے رؤیا میں دیکھا تھا کہ ایک شخص کہتا ہے کہ مُغِیرہ کے قاتل کو دوزخ کی خبر دو۔ پس یہ معلوم کر کے کہ میں ہی اس کا قاتل ہوں مجھے اس کا صدمہ ہونا لازمی تھا۔ مذکورہ بالا لوگوں کے سوا اور لو گ بھی زخمی ہوئے اور مارے گئے اور حضرت عثمانؓ کی حفاظت کرنے والی جماعت اَور بھی کم ہو گئی لیکن اگر باغیوں نے باوجود آسمانی اِنذار کے اپنی ضدنہ چھوڑی اور خدا تعالیٰ کی محبوب جماعت کا مقابلہ جاری رکھا تو دوسری طرف مخلصین نے بھی اپنے ایمان کا اعلیٰ نمونہ دکھانے میں کوئی کمی نہیں کی۔ باوجود اس کے کہ اکثر محافظ مارے گئے یا زخمی ہو گئے پھر بھی ایک قلیل گروہ برابر دروازے کی حفاظت کرتا رہا۔ (ماخوذ از اسلام میں اختلافات کا آغاز، انوار العلوم جلد4صفحہ 314تا327)
بہرحال اس کا تسلسل ابھی آگے بھی چلے گا۔ آئندہ جمعہ پہ پیش کروں گا۔ ان شاء اللہ۔
پاکستان کے احمدیوں کے لیے دوبارہ دعا کی درخواست ہے، الجزائر کے لیے بھی، وہاں بھی دوبارہ کیس کھل رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کے لیے آسانیاں پیدا کرے اور مخالفین کی سختیوں کو اللہ تعالیٰ جلد دور فرمائے۔ آسانیاں پیدا فرمائے۔
اب نمازوں کے بعد میں کچھ جنازے بھی ادا کروں گا۔ ان کا ذکر بھی یہاں کر دیتا ہوں۔ جنازہ غائب ہوں گے۔
پہلا ذکر مکرم مولوی محمدنجیب خان صاحب نائب ناظر دعوت الی اللہ جنوبی ہند قادیان کا ہے جو ماسٹر وی ایم محمد صاحب مرحوم آف جماعتِ احمدیہ کاکناڈ ضلع ارناکلم کیرالہ کے بیٹے تھے۔ 14؍فروری کو ہارٹ اٹیک کی وجہ سےان کی وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
اللہ کے فضل سے موصی تھے۔ ان کے پسماندگان میں بیوہ کے علاوہ تین بیٹے شامل ہیں اور تینوں بیٹے وقف نو کی بابرکت تحریک میں شامل ہیں۔ ایک بیٹا جامعہ احمدیہ میں پڑھ رہا ہے۔ مرحوم پیدائشی احمدی نہیں تھے بلکہ سترہ سال کی عمر میں مرحوم کو اپنے والد کے ذریعہ جماعت احمدیہ کا تعارف ہوا تھا جس پر آپ جماعتی لٹریچر اور کتاب ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ کا مطالعہ کرنے لگے اور ایک دن اپنے والد صاحب سے دریافت کیا کہ ایک بچہ کتنی عمر میں ازخود فیصلے لے سکتا ہے جس پر مرحوم کے والد صاحب نے کہا کہ انسان سترہ اٹھارہ سال کی عمر میں اپنے فیصلے لے سکتا ہے۔ اس پر مرحوم نے مولانا محمد علوی صاحب کے ذریعہ بیعت کر کے جماعت میں شمولیت اختیار کی۔ بیعت کے حوالے سے مولانا علوی صاحب اپنی ایک خواب بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے خواب میں دیکھا تھا کہ ان کی طرف کئی ستارے آ رہے ہیں جن میں سے ایک چھوٹا ستارہ بڑی تیزی سے آ رہا ہے تو علوی صاحب اس چھوٹے ستارے سے مراد مولوی محمدنجیب خان صاحب مرحوم کو لیا کرتے تھے۔ بہرحال آپ اپنے گھر میں سب سے پہلے بیعت کرنے والے تھے۔ ان کے والد گو جماعت کو جانتے تھے لیکن احمدی نہیں ہوئے تھے۔ بعد میں مرحوم کی کوششوں سے ہی والدہ، بھائیوں اور والدنے بیعت کی۔ بیعت کے بعد مرحوم نے ایک خواب کی بنا پر جامعہ احمدیہ میں داخلہ لیا اور بطور واقف زندگی سلسلہ کی خدمت کا فیصلہ کر لیا۔ پھر وہاں سے فراغت کے بعد ہندوستان میں ان کی تقرری ہوئی۔ انہوں نے پہلے چندی گڑھ میں، پھر مختلف جگہوں پہ مبلغ کے طور پر کام کیا۔ پھر ان کو مَیں نے نائب ناظر دعوت الی اللہ مقرر کیا۔ اسی طرح نائب انچارج شعبہ نور الاسلام میں انہوں نے کام کیا جو وہاں تبلیغ کا کام بڑی اچھی طرح کر رہا ہے۔
آپ صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے۔ تہجد گزار، خلافت سے سچی وابستگی رکھنے والے، وفاداری اور سچی محبت اور عقیدت رکھتے تھے۔ ہر کام خلوص کے ساتھ نہایت سنجیدگی اور سلیقے سے بروقت ادا کرتے تھے۔ ان کی فطرت میں شامل تھا کہ کام کو بڑی سنجیدگی سے کریں اور بروقت کریں۔ عبادت کی طرف خاص توجہ تھی۔ گھر والوں کو بھی اس طرف توجہ دلاتے تھے۔ حقوق العباد کی ادائیگی میں بھی خاص حصہ لیتے تھے۔
شیراز صاحب شعبہ نور الاسلام کے انچارج لکھتے ہیں کہ باقاعدگی کے ساتھ یہ بیت الدعا میں آ کے دعا کرتے تھے۔ بہت شریف النفس تھے۔ دین کی بے لوث خدمت کا جذبہ رکھتے تھے۔ خلیفۂ وقت کی تربیتی اور تبلیغی ٹارگٹس کو پورا کرنے میں مصروف رہتے تھے۔ جماعتی کتب کے ملیالم زبان میں تراجم اور ترجمہ شدہ کتب کے ریویو اور چیکنگ کی بھی ان کو توفیق ملی۔ ناظر نشرو اشاعت قادیان نے مرحوم کی ان خدمات کے حوالے سے لکھا ہے کہ مرحوم کو کتاب الوصیت، تجلیات الٰہیہ، عرفان الٰہی، قاعدہ یسرنا القرآن اور میرے خطبات بابت تحریک وقفِ نو کا ملیالم زبان میں ترجمہ کرنے کی توفیق ملی۔ اسی طرح تفسیر صغیر کے ملیالم ترجمہ کی ری پرنٹنگ کے وقت اس کی چیکنگ کی بھی ان کو توفیق ملی۔ ان کی ایک کتاب نصاب تعلیم تین حصص بزبان ملیالم میں بھی ہے۔ 2013ء سے 16ء تک ان کو صدر ریویو کمیٹی صوبہ کیرالہ خدمت کی توفیق ملی۔ امیر ضلع ارناکلم صوبہ کیرالہ ابوبکر صاحب کہتے ہیں کہ ان کے اندر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات کا ترجمہ کر کے لوگوں تک پہنچانے کا ایک جوش تھا۔ کمزور ایمان والوں کو استقامت کے معیار تک پہنچانے اور ان کی ثابت قدمی کے لیے بھی ہمیشہ کوشش کرتے رہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے۔
دوسرا جنازہ ہے، ذکر ہے نذیر احمد خادم صاحب کا جو چودھری احمد دین صاحب چٹھہ کے بیٹے تھے اور منیر بسمل صاحب ایڈیشنل ناظر اشاعت کے بڑے بھائی تھے۔ 6؍فروری کو یہ وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ان کے دادا چودھری شاہ دین صاحب کے ذریعہ سے ان کے خاندان میں احمدیت آئی تھی۔ نذیر خادم صاحب نے کالج کے زمانہ سے ہی خدمتِ دین کا آغاز کر دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو تحریر و تقریر میں خاص ملکہ عطا فرمایا تھا۔ جوانی سے لے کر زندگی کے آخری وقت تک تقریرو تحریر اور وعظ و نصیحت کے ذریعہ خدمتِ دین اور تبلیغِ دین میں لگے رہے۔ خدام الاحمدیہ ربوہ میں معاون صدر رہے۔ پھر معتمد کے طور پر خدمت کی توفیق ملی۔ پھر نائب امیر ضلع بہاولنگر بھی رہے۔ نائب قائد عمومی مجلس انصار اللہ کے طور پر خدمت کی توفیق ملی۔ دارالقضاء ربوہ کے قاضی بھی رہے۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت کا سلوک فرمائے اور ان کے لواحقین کو ان کی نیکیوں کو جاری رکھنے کی، ان کے بچوں کو ان کی نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اگلا ذکر مکرم الحاج ڈاکٹر نانا مصطفیٰ اوٹی بواٹنگ صاحب کا ہے جو الحاجی چوچو کے نام سےگھانا میں معروف تھے۔ 17؍ جنوری کو ستر سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
عیسائی گھرانے میں یہ پیدا ہوئے تھے۔ 1979ء میں ان کو قبول احمدیت کی توفیق ملی اور آپ نے اپنی عملی زندگی ایک ڈرائیور کے طور پر شروع کی۔ آپ کو امیر عبدالوہاب آدم صاحب کے ساتھ لمبا عرصہ بطور ڈرائیور خدمت کا موقع ملا۔ برطانیہ اور پھر گھانا میں جماعت کے پریس میں خدمت کرنے کا بھی موقع ملا۔ کچھ عرصہ جاپان میں بھی رہے جہاں آپ کو اپنی جماعت کا لوکل پریذیڈنٹ بھی بنا دیا گیا۔ میں بھی جب وہاں تھا تو اس وقت میں نے دیکھا ہے یہ بڑے ہنس مکھ اور ہر وقت دینی کام میں مصروف رہنے والے شخص تھے۔ باوجود اس کے کہ کوئی پوزیشن نہیں تھی لیکن کوشش ہوتی تھی کہ ہر وقت ہر کام کے لیے حاضر رہیں۔ انہوں نے بعد میں پھر اپنا بزنس شروع کر دیا اور پھر ترقی کرتے کرتے گھانا کے معروف بزنس مینوں میں ان کا شمار ہونے لگا۔ اور چوچو انڈسٹری کے نام سے ان کی ایک فیکٹری بھی تھی۔ اس بزنس کی کامیابی کو خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ خلیفہ وقت کی دعاؤں اور قربانی کے جذبہ کی طرف منسوب کیا کرتے تھے۔ مالی قربانیاں بھی بہت کیں۔ بطور نیشنل سیکرٹری جائیداد گھانا گیارہ سال تک ان کو خدمت کا موقع ملا۔ ریجنل پریذیڈنٹ کے طور پر خدمت کی توفیق ملی۔ مرحوم اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ آپ کے پسماندگان میں تین بیویاں اور تین بیٹیاں شامل ہیں۔ آپ کا ایک بیٹا بھی تھا جو چند سال قبل وفات پا گیا تھا۔
مبارک احمد عادل صاحب مشنری کوفو ریڈوا (Koforidua) کے ہیں وہ لکھتے ہیں کہ آپ کی خوبیوں میں دین اور انسانیت کی خدمت کے لیے وقت اور مال کی بے دریغ قربانی اور عاجزی بہت نمایاں تھی۔ نماز تہجد اور پنجوقتہ نمازوں کی ادائیگی کا خصوصی خیال رکھتے تھے۔ چندہ جات کی باقاعدہ اور بروقت ادائیگی کرتے۔ آپ نے ایک مسجد کلیۃً اپنے خرچ سے بنوائی اور متعدد مساجد کی تعمیر میں نصف سے زائد خرچ ادا کیے۔ اسی طرح بعض مشن ہاؤسز کی تعمیر اور مرمت میں بھی بڑا حصہ لیا۔ جماعتی زمینوں پر جب کوئی قبضہ یا دیگر مسئلہ وغیرہ پیدا ہوتا تو قانونی چارہ جوئی کرنے کے لیے خود وکیل کر کے اس کی پیروی کرتے۔ تمام اخراجات اپنی جیب سے ادا کرتے، جماعت سے نہیں لیتے تھے۔ احمدیت کے پیغام کی تبلیغ کے لیے آپ کے دل میں ایک خاص جذبہ اور شوق تھا۔ والدین کو بھی آپ نے تبلیغ کر کے احمدیت میں داخل کیا۔ دس سال سے زائد عرصہ تک ایک ریڈیو اسٹیشن جو گھانا کی نصف آبادی تک سنا جاتا ہے اس میں اپنے خرچ پر نصف گھنٹے کا تبلیغی پروگرام کرواتے رہے جو اب بھی جاری ہے۔ پھر ان کا ایک ٹی وی چینل بھی تھا اس میں بھی اپنے خرچ پر تبلیغ کا روزانہ ایک اور ایک ہفتہ وار پروگرام کرواتے رہے اور ویڈیو پروگرام بھی ہوتا تھا۔ تبلیغ کے حوالے سے نشریات ہوتی تھیں۔ ان پروگراموں کے ذریعہ سے لاکھوں افراد تک جماعت کا پیغام پہنچا اور سینکڑوں کو قبول احمدیت کی توفیق بھی ملی۔ ایک گاڑی محض تبلیغی کاموں کے لیے وقف کر رکھی تھی۔ تبلیغی وتربیتی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں سہولت اور تیزی پیدا کرنے کی غرض سے آپ نے بعض معلمین اور مربیان کو موٹر سائیکلیں اور بعض کو کاریں بھی لے کر دی تھیں۔ پوشیدہ طور پر ان کی مالی مدد کیا کرتے تھے اور افراد جماعت کو نصیحتاً کہا کرتے تھے کہ احمدیت کو اپنی ذاتی اور قیمتی پراپرٹی کی طرح محبوب اور عزیز جان کر اخلاص کے ساتھ اس کی خدمت اور حفاظت کرنی چاہیے۔ تبلیغ کے لیے ہر قسم کی قربانی کیا کریں۔ اس سے اللہ تعالیٰ بھی آپ پر اپنے بےشمار فضل اور احسان کرے گا اور یہ خود اس کا نمونہ تھے۔ دوسروں کو جو نصائح کرتے اپنا عملی نمونہ بھی اس کے مطابق رکھنے کی کوشش کرتے۔ کوفوریڈوا ریجن کا ہسپتال جو ریجن کا سب سے بڑا ہسپتال ہے اس کی بعض سڑکیں ٹوٹ پھوٹ گئی تھیں، اندر مریضوں کے لیے بہت دقتیں پیش آتی تھیں تو اپنے خرچ پر نئے سرے سے انہوں نے وہ سڑک تعمیر کروائی اور افتتاح کے لیے ریجنل منسٹر اور سیاسی شخصیات، ڈاکٹرز، میڈیا وغیرہ سب وہاں آیا ہوا تھا وہ سب تقریباً غیر احمدی تھے یا عیسائی تھے۔ آپ نے اس موقع پر اپنا اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ میں ایک احمدی مسلمان ہوں اور مسیح کی آمد ثانی مرزا غلام احمد قادیانی پر ایمان رکھتا ہوں۔ مسیح موعودؑ اور آپؑ کے خلفاء نے ہی مجھے حقوق اللہ کی ادائیگی کے لیے انسانیت کی خدمت کرنا بھی سکھایا ہے جس کی وجہ سے بطور احمدی مسلمان مَیں انسانوں سے ہمدردی اور ان کی تکلیف دور کرنے کی کوشش کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں اور یہی وجہ ہے کہ میں نے ہسپتال میں یہ سڑک بنائی ہے۔ اڑتالیس سال کی عمر میں آپ نے قرآن کریم دوبارہ معلم جمال الدین صاحب کے ذریعہ سے پڑھا اور یسرنا القرآن بھی دوبارہ سیکھا تا کہ تلفظ صحیح ہو۔ پھر باقاعدہ ترجمہ کے ساتھ تلاوت کی عادت رکھی اور بہت غور کیا کرتے تھے۔ بہت سے بچوں کو آپ نے اڈاپٹ (adopt)کیا تھا۔ ان کی رہائش کے لیے اپنے گھر میں کمرے مہیا کیے ہوئے تھے۔ ان کی دینی و دنیاوی تعلیم کا بھی انتظام کیا ہوا تھا۔ غرض کہ بےشمار نیکیاں کرنے والے یہ شخص تھے۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند کرے اور ان کے لواحقین کو بھی ان کی نیکیوں کو جاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اگلا جو ذکر ہے وہ مکرم غلام نبی صاحب ابن فضل دین صاحب ربوہ کا ہے۔ یہ ضیاء الرحمٰن صاحب طیب مربی سلسلہ گابون (Gabon)کے والد تھے جو2؍فروری کو وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ پیدائشی احمدی تھے۔ بینک کی ملازمت کیا کرتے تھے۔ وہاں سے ریٹائرڈ ہوئے تو پھر ڈسکہ میں آ کے آباد ہوئے۔ وہاں کے سیکرٹری مال رہے۔ نائب صدر بھی رہے۔ جنرل سیکرٹری بھی رہے۔ زعیم انصار اللہ بھی رہے۔ امام الصلوٰۃ کے طور پر خدمات انجام دیں۔ تہجد کے پابند، نمازیں کوشش کر کے مسجد میں ادا کرتے تھے۔ باقاعدہ بآواز بلند قرآن کریم کی تلاوت کرنے والے انتہائی شفیق، ہمدرد، نرم دل اور صابر و شاکر انسان تھے۔ ضیاءالرحمٰن صاحب طیب جو گابون کے مربی سلسلہ ہیں جیسا کہ میں نے کہا ان کے والد تھے اور حالات کی وجہ سے اپنے والد کے جنازے اور تدفین میں یہ مربی صاحب شامل نہیں ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی صبر اور حوصلہ عطا فرمائے اور مرحوم کے درجات بلند فرمائے۔
(الفضل انٹرنیشنل 19؍ مارچ2021ء صفحہ 11تا16)
حضرت عثمانؓ نے فرمایا: کوئی امت بغیر سردار کے ترقی نہیں کر سکتی اور اگر کوئی امام نہ ہو تو جماعت کا تمام کام خراب و برباد ہو جائے گا۔
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد ذوالنّورین حضرت عثمانؓ بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ
حضرت علیؓ کو وصی قرار دینے والا گروہ حق کی حمایت اور اہل بیت کی محبت کی خاطر اپنے گھروں سے نہیں نکلا تھا بلکہ یہ لوگ اپنی نفسانی اغراض کو پورا کرنے کے لیے آئے تھے۔
چار مرحومین مکرم مولوی محمدنجیب خان صاحب نائب ناظر دعوت الیٰ اللہ جنوبی ہند قادیان، مکرم نذیر احمد خادم صاحب ابن چودھری احمد دین صاحب چٹھہ، الحاج ڈاکٹر نانا مصطفیٰ اوٹی بواٹنگ صاحب آف گھانا اور مکرم غلام نبی صاحب ابن فضل دین صاحب ربوہ کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب۔
فرمودہ 05؍مارچ2021ء بمطابق 05؍امان 1400 ہجری شمسی، بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔