حضرت عمر بن خطابؓ
خطبہ جمعہ 23؍ اپریل 2021ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
آج مَیں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر کروں گا۔ حضرت عمرؓ کا تعلق قبیلہ بنو عدی بن کعب بن لُؤیسے تھا۔ آپؓ کے والد کا نام خطاب بن نفیل تھا۔ ایک قول کے مطابق آپؓ کی والدہ کا نام حَنْتَمَہ بنت ہاشم تھا۔ اسی طرح آپؓ کی والدہ ابوجہل کی چچا زاد ہمشیرہ بنتی ہیں اور دوسرے قول کے مطابق ان کی والدہ کا نام حنتمہ بنت ہشام تھا۔ اس طرح وہ ابو جہل کی بہن بنتی ہیں لیکن یہ روایت جو بہن والی ہے یہ زیادہ تسلیم نہیں کی جاتی۔ ابو عمرؓ کہتے ہیں کہ جو یہ کہتا ہے کہ ابوجہل کی بہن تھیں تو اس نے خطا کی۔ اگر ایسا ہوتا تو ابو جہل اور حارث کی بہن ہوتیں جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ وہ ان دونوں کی چچا کی بیٹی تھیں۔ ان کے والد کا نام ہاشم ہے۔ (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ جلد 4 صفحہ 484 عمر بن الخطاب مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت2005ء) (اسدالغابۃ جلد 4 صفحہ 138 عمر بن الخطاب مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت 2003ء)
حضرت عمرؓ کی تاریخ پیدائش کے بارے میں مختلف روایات بیان ہوئی ہیں جن کے مطابق حضرت عمرؓ کی تاریخ پیدائش کا سال الگ الگ بنتا ہے۔ چنانچہ ایک رائے یہ ہے کہ حضرت عمرؓ بڑی جنگِ فجار سے چار سال قبل پیدا ہوئے تھے جبکہ دوسری جگہ لکھا ہے کہ بڑی جنگ فُجار کے چار سال بعد پیدا ہوئے تھے۔ اسے جنگ فُجار اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ یہ لڑائی حرمت والے مہینے میں ہوئی جو بہت فسق و فجور والی بات ہے۔ یہ جنگ چار مرحلوں میں ہوئی تھی۔ چوتھی جنگ کو اَلْفُجَارُ الْاَعْظَم، بڑی جنگ فجار کے علاوہ اَلْفُجَارُ الْاَعْظَمُ الْآخِر آخری بڑی جنگ فجار بھی کہتے ہیں۔ یہ قریش اور بنو کنانہ نیز ہوازن کے درمیان ہوئی تھی۔ ایک دوسری رائے یہ ہے کہ حضرت عمرؓ عام الفیل کے تیرہ سال بعد مکہ میں پیدا ہوئے تھے۔ (تاریخ دمشق لابن عساکر جلد 47 صفحہ45 عمر بن خطاب مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت 2001ء) (الاصابۃ فی تمییز الصحابہ جلد 4 صفحہ 484 عمر بن الخطاب مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت2005ء) (ماخوذ از اٹلس سیرت نبویﷺ صفحہ 102 مطبوعہ دار السلام ریاض 1424ھ)
عام الفیل 570 عیسوی کا سال ہے اور اس کے تیرہ سال بعد کے حساب سے حضرت عمرؓ کی پیدائش کا سال 583ء بنتا ہے۔ تیسری رائے یہ ہے کہ حضرت عمرؓ نے 6؍ نبوی میں اسلام قبول کیا اور اس وقت ان کی عمر26سال تھی۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 204 اسلام عمر رضی اللّٰہ عنہ۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء) (ماخوذ از اٹلس سیرت نبویﷺ صفحہ 75 مطبوعہ دار السلام ریاض 1424ھ)
سنہ عیسوی کے اعتبار سے 6؍ نبوی 616؍ عیسوی کا سال بنتا ہے۔ اگر اس وقت حضرت عمرؓ 26 سال کے تھے تو ان کی پیدائش کا سال 590ء بنتا ہے۔ چوتھی رائے یہ ہے کہ حضرت عمرؓ تب پیدا ہوئے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اکیس سال کے تھے۔ (تاریخ الخمیس فی احوال اَنفس نفیس جزء اول صفحہ 259، ولادۃ عمرؓ۔ مؤسسۃ شعبان بیروت)
بہرحال یہ مختلف آرا ہیں، تقریباً اکیس اور چھبیس سال کے درمیان کی عمر بنتی ہے جب انہوں نے اسلام قبول کیا۔
حضرت عمرؓ کی کنیت ابوحفص تھی۔ (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ جلد 4 صفحہ 484 عمر بن الخطاب مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت2005ء)
حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ بدر کے دن اپنے اصحاب سے فرمایا کہ مجھے پتہ چلا ہے کہ بنو ہاشم اور کچھ دوسرے لوگ قریش کے ساتھ مجبوراً آئے ہیں وہ ہم سے لڑنا نہیں چاہتے۔ پس تم میں سے جو کوئی بنو ہاشم کے کسی آدمی سے ملے تو اس کو قتل نہ کرے اور جو اَبُوالْبَخْتَرِی سے ملے وہ اس کو قتل نہ کرے اور جو عباس بن عبدالمطلب جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ہیں ان سے ملے تو وہ ان کو بھی قتل نہ کرے کیونکہ یہ لوگ مجبوراً قریش کے ساتھ آئے ہیں۔ حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوحُذَیفہؓ بن عُتْبہ نے کہا کہ ہم اپنے باپوں، بیٹوں، بھائیوں اور رشتہ داروں کو تو قتل کریں اور عباسؓ کو چھوڑ دیں۔ اللہ کی قسم! اگر مَیں اسے یعنی عباسؓ کو ملا تو میں تلوار سے ضرور اسے قتل کر دوں گا۔ راوی کہتے ہیں کہ یہ خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپؐ نے حضرت عمر بن خطابؓ سے فرمایا۔ اے ابوحفص! حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم! یہ پہلا دن تھا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ابوحفص کی کنیت سے مخاطب فرمایا تھا۔ آپؐ نے فرمایا کیا رسول اللہ کے چچا کے چہرے پر تلوار ماری جائے گی؟ حضرت عمرؓ نے عرض کیا یا رسول اللہؐ ! مجھے اجازت دیں کہ میں تلوار سے اس کی گردن اڑا دوں جس نے یہ کہا ہے۔ اللہ کی قسم! اس نے یعنی ابوحذیفہؓ نے منافقت دکھائی ہے۔ حضرت ابوحذیفہؓ بعد میں کہا کرتے تھے کہ مَیں اس کلمہ کی وجہ سے جو میں نے اس دن کہا تھا چین میں نہیں رہا اور ہمیشہ اس سے ڈرتا رہا سوائے اس کے کہ شہادت میری اس بات کا کفارہ کر دے چنانچہ حضرت ابوحذیفہؓ جنگ یمامہ کے دن شہید ہو گئے تھے۔ (سیرت ابن ہشام صفحہ 429 باب غزوہ بدر، نھی النبیؐ اصحابہ عن قتل ناس من المشرکین مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)
حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرؓ کو ’فاروق‘ کے لقب سے نوازا تھا۔ (ماخوذ از اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلد 4 صفحہ143دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان)
اس لقب کا پس منظر کیا تھا؟ اس کے بعد یہ روایت ملتی ہے کہ حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عمرؓ سے دریافت کیا کہ آپؓ کا لقب فاروق کس طرح رکھا گیا؟ انہوں نے فرمایا کہ حضرت حمزہؓ نے مجھ سے تین روز قبل اسلام قبول کیا تھا۔ میں اتفاقاً مسجد حرام کی طرف جا نکلا تو ابوجہل تیزی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گالیاں دیتے ہوئے گیا۔ پھر انہوں نے حضرت حمزہؓ کی وہ ساری بات بیان کی جو انہوں نے کیا کہ جب حضرت حمزہؓ کو خبر ہوئی تو اپنی کمان لے کر خانہ کعبہ کی طرف چلے اور قریش کے اس حلقے میں جس میں ابوجہل بیٹھا تھا اس کے سامنے اپنی کمان پر سہارا لے کر کھڑے ہو گئے اور اس کو مسلسل گھورنے لگے۔ ابوجہل نے آپؓ کے چہرے سے ناراضگی محسوس کی تو اس نے کہا اے ابوعمارہ!یہ حضرت حمزہؓ کی کنیت تھی، کیا معاملہ ہے؟ یہ سنتے ہی حضرت حمزہؓ نے اپنی کمان زور سے اس کی گال پر ماری کہ وہ کٹ گئی اور اس سے خون بہنے لگا۔ اور ان کے غصہ کے خوف کی وجہ سے قریش نے فوراً جھگڑا ختم کروا دیا۔
حضرت عمرؓ نے یہ واقعہ بیان کیا کہ اس طرح ہوا جو میں نے بھی دیکھا تھا۔ کہتے ہیں کہ اس واقعہ کے تیسرے دن میں باہر نکلا تو راستے میں مجھے بنو مخزوم کا ایک شخص ملا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کیا تم نے اپنے آباؤ اجداد کے دین کو ترک کر کے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا دین اختیار کر لیا ہے۔ اس نے کہا کہ اگر مَیں نے کر لیا ہے تو اس میں کون سی بڑی بات ہے۔ اس نے بھی تو کر لیا ہے جس پر تم کو مجھ سے زیادہ حق ہے۔ حضرت عمرؓ کہتے ہیں مَیں نے کہا وہ کون ہے؟ اس نے کہا تمہاری بہن اور بہنوئی۔ یہ سن کر جب میں اپنی بہن کے گھر گیا تو میں نے دروازے کو بند پایا اور مجھے وہاں کچھ پڑھنے کی سرگوشیاں سنائی دیں۔ میرے لیے دروازہ کھولا گیا اور میں اندر داخل ہو گیا اور ان سے کہا یہ میں نے تم سے کیا سنا ہے؟ انہوں نے کہا تم نے کیا سنا ہے؟ اس مکالمے میں بات بڑھ گئی اور میں نے بہنوئی کا سر پکڑ لیا اور اس کو مارا اور اسے لہولہان کر دیا۔ میری بہن اٹھی اور اس نے مجھے سر سے پکڑ لیا اور کہا یہ تمہاری خواہش کے خلاف ہوا ہے یعنی ہمارا اسلام لانا تمہاری خواہش کے خلاف ہے۔ بہرحال دوسری روایت میں بہن کے زخمی ہونے کا بھی ذکر ملتا ہے۔
حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ میں نے جب بہنوئی کا خون دیکھا یا ہو سکتا ہے کہ اس وقت بہن کا بھی ہو گیا ہو تو مجھے شرمندگی ہوئی اور میں بیٹھ گیا اور کہا مجھے یہ کتاب دکھاؤ۔ میری بہن نے کہا کہ اسے صرف پاک لوگ ہی چھو سکتے ہیں۔ اگر سچ بول رہے ہو تو جاؤ اور غسل کرو۔ چنانچہ میں نے غسل کیا اور آ کر بیٹھ گیا تو انہوں نے وہ صحیفہ میرے لیے نکالا۔ اس میں تھا بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ میں نے کہا یہ نام تو بڑے طیب اور پاکیزہ ہیں۔ اس کے بعد تھا۔ طٰہٰ مَا اَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰى یہاں سے لے کر لَہُ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰىتک، طٰہٰ کی آیت 2 سے 9 تک تھیں۔ کہتے ہیں میرے دل میں اس کلام کی بڑی عظمت پیدا ہوئی۔ میں نے کہا قریش اس سے بھاگتے ہیں۔ میں نے اسلام قبول کر لیا اور میں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہاں ہیں؟ میری بہن نے بتایا کہ وہ دارِ ارقم میں ہیں۔ میں وہاں پہنچا اور دروازہ کھٹکھٹایا تو وہاں موجود صحابہ جمع ہو گئے۔ حضرت حمزہؓ نے ان سے کہا تم لوگوں کو کیا ہوا ہے؟ انہوں نے کہا عمرؓ۔ حضرت حمزہؓ نے کہا کہ خواہ عمرؓ ہی ہو اس کے لیے دروازہ کھول دو۔ اگر وہ باہر دروازے پہ کھڑا ہے۔ اگر وہ اچھے ارادے سے آئے ہیں تو ہم انہیں قبول کر لیں گے اور اگر وہ بری نیت سے آئے ہیں تو ہم اسے قتل کر دیں گے۔ یہ باتیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی سن لیں۔ آپؐ باہر تشریف لائے تو حضرت عمرؓ نے کلمہ شہادت پڑھا اس پر گھر میں موجود تمام صحابہ نے بلند آواز سے اللہ اکبر! کہا جس کو اہل مکہ نے سنا۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہؐ ! کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟حضرت عمرؓ کہتے ہیں مَیں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی یا رسول اللہؐ ! کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ آپؐ نے فرمایا کیوں نہیں۔ میں نے کہا پھر یہ اخفاء کیوں ہے؟ ہم اپنے دین کو چھپا کے کیوں بیٹھے ہوئے ہیں؟ اس کے بعد ہم وہاں سے دو صفوں میں ہو کر نکلے۔ ایک صف میں مَیں تھا اور دوسری صف میں حضرت حمزہؓ تھے یہاں تک کہ ہم مسجد حرام میں داخل ہوئے۔ اس پر قریش نے مجھے اور حمزہؓ کو دیکھا اور ان کو ایسا شدید دکھ اور تکلیف پہنچی کہ اس طرح کی تکلیف پہلے کبھی نہیں پہنچی تھی۔ چنانچہ اس دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا نام ’فاروق‘ رکھا کیونکہ اسلام کو تقویت پہنچی اور حق اور باطل کے درمیان امتیاز پیدا ہو گیا۔ (تاریخ الخلفاء از جلال الدین عبدالرحمٰن بن ابی بکر السیوطی صفحہ 91 – 92 مطبوعہ دارالکتاب العربی بیروت لبنان 1999ء)
ایوب بن موسیٰ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بےشک اللہ تعالیٰ نے حق کو عمرؓ کی زبان و دل پر قائم کر دیا اور وہ ’فاروق‘ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے ذریعہ سے حق و باطل میں فرق کر دیا۔ (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلد 4 صفحہ143دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان)
حضرت عمرؓ دراز قد اور مضبوط جسم کے مالک تھے۔ سر کے اگلے حصہ پر بال نہیں تھے۔ رنگ سرخی مائل اور مونچھیں گھنی تھیں جن کے کناروں پر سرخی جھلکتی تھی اور آپؓ کے رخسار ہلکے پھلکے تھے۔ (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ جلد 4 صفحہ 484 عمر بن الخطاب مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت2005ء)
زمانۂ جاہلیت میں حضرت عمرؓ کے جو شغل تھے ان کے بارے میں اس طرح ذکر ملتا ہے کہ گھڑ سواری اور کُشتی حضرت عمرؓ کے محبوب مشاغل میں سے تھے۔ عُکاظ کے میلے میں ہر سال کُشتی کا مقابلہ عموماً حضرت عمرؓ ہی جیتا کرتے تھے۔ نوجوانی میں عرب کے عام رواج کے مطابق اپنے والد کے اونٹ چَرایا کرتے تھے۔ (ماخوذ از سیدنا حضرت عمر فاروق اعظمؓ از محمد حسین ہیکل (مترجم) صفحہ 51۔ 52مطبوعہ اسلامی کتب خانہ لاہور)
اسلام سے قبل عرب میں لکھنے پڑھنے کا چنداں رواج نہیں تھا۔ چنانچہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو قبیلہ قریش میں صرف سترہ آدمی ایسے تھے جو لکھنا جانتے تھے۔ حضرت عمرؓ نے اس وقت اس زمانے میں لکھنا اور پڑھنا سیکھ لیا تھا۔ (ماخوذ از سیر الصحابہ جلد 1 صفحہ 133 مطبوعہ دار الاشاعت کراچی 2004ء)
حضرت عمرؓ اشرافِ قریش میں سے تھے۔ قبل از اسلام قریش کی طرف سے سفارت کا عہدہ آپؓ کے سپرد تھا اور قریش کا دستور تھا کہ جب ان کے درمیان یا ان کے اور غیروں کے درمیان کوئی جنگ ہوتی تو وہ حضرت عمرؓ کو بطور سفیر بھیجتے تھے۔ (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابہ جلد 3صفحہ642 عمربن الخطاب مطبوعہ دارالفکر بیروت 2003ء)
جب حبشہ کی طرف بعض مسلمانوں نے ہجرت کی تو اس وقت حضرت عمرؓ کے جو واقف تھے ان کو ہجرت کرتے دیکھ کے حضرت عمرؓ کا جو ردّ عمل تھا باوجود اس کے کہ آپؓ ابھی اسلام نہیں لائے تھے اور سخت طبیعت کے بھی مالک تھے لیکن ردّ عمل نہایت رِقّت والا تھا۔ اس بارے میں حضرت امّ عبداللہ بنت ابو حَثْمَہؓ بیان کرتی ہیں کہ اللہ کی قسم! جب ہم سر زمین حبشہ کی جانب روانہ ہونے لگے اور میرے شوہر عامِر بن رَبِیْعَہ اپنے کسی کام سے گئے ہوئے تھے تو اسی دوران حضرت عمر بن خطابؓ آئے اور میرے پاس کھڑے ہو گئے اور وہ ابھی تک اپنے شرک پر ہی قائم تھے اور ہمیں ان کی طرف سے طرح طرح کی اذیتیں اور تکالیف برداشت کرنی پڑتی تھیں۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ انہوں نے مجھ سے کہا۔ اے ام عبداللہ! لگتا ہے کہیں روانگی کا ارادہ ہے۔ بیان کرتی ہیں کہ میں نے کہا کہ ہاں اللہ کی قَسم! ضرور ہم اللہ کی زمین میں نکل جائیں گے۔ کہیں جا رہے ہیں۔ تلاش کرتے ہیں کہ کہاں جانا ہے۔ بڑی وسیع زمین ہے اللہ کی۔ تم لوگوں نے تو ہمیں بہت ستایا ہے اور ہم پر بہت ظلم ڈھائے ہیں یہاں تک کہ اللہ نے ہمارے لیے اب نجات کی راہ پیدا کر دی ہے۔ ام عبداللہ بیان کرتی ہیں کہ وہ کہنے لگے اللہ تمہارے ساتھ ہو۔ ام عبداللہ کہتی ہیں کہ جیسی رقّت اس وقت میں نے ان پر طاری دیکھی پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ اس کے بعد وہ چلے گئے۔ میرا خیال ہے کہ ہمارے نکلنے نے انہیں غمگین کر دیا تھا۔ ام عبداللہ کہتی ہیں کہ جب عامر بن ربیعہ اپنے کام سے واپس آئے تو میں نے ان سے کہا اے عبداللہ! کاش ابھی تم عمر کی حالت دیکھتے اور ہمارے لیے ان کی رِقّت اور غم کو دیکھتے۔ عامر بن ربیعہ نے کہا کیا تم ان کے اسلام لانے کی امید رکھتی ہو؟ اس بات سے متاثر ہو گئی ہو گی کہ وہ اسلام لے آئیں گے۔ وہ کہتی ہیں میں نے کہا ہاں۔ اس پر اس نے یعنی عامر بن ربیعہ نے کہا کہ وہ کبھی اسلام قبول نہیں کرے گا۔ جسے تم نے دیکھا ہے وہ اسلام قبول نہیں کرے گا یہاں تک کہ خطاب کا گدھا اسلام قبول کر لے۔ ام عبداللہ کہتی ہیں حضرت عمرؓ کی اسلام کے متعلق سختی اور شدت کو دیکھ کر اس سے مایوس ہوتے ہوئے عامر بن ربیعہ نے یہ بات کہی تھی۔ (سیرت ابن ہشام صفحہ 159 باب ذکر اسلام عمر بن الخطابؓ مطبوعہ دار ابن حزم بیروت 2009ء)
اتنا سخت دشمن ہو تو کس طرح ہو سکتا ہے وہ اسلام قبول کر لے۔ اس واقعہ کا ذکر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اپنے انداز میں بیان فرمایا ہے۔ ’’حضرت عمرؓ کو اسلام سے شدید دشمنی تھی۔‘‘ آپؓ فرماتے ہیں ’’لیکن ان میں روحانی قابلیت بھی موجود تھی یعنی باوجود آپؓ میں شدید غصہ ہونے کے، باوجود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہؓ کو تکالیف پہنچانے کے ان کے اندر جذبہ رِقّت بھی موجود تھا۔ چنانچہ جب حبشہ کی طرف پہلی ہجرت ہوئی تو مسلمانوں نے نماز فجر سے پہلے مکہ سے روانگی کی تیاری کی تاکہ مشرک انہیں روکیں نہیں اور انہیں کوئی تکلیف نہ پہنچائیں۔ مکہ میں یہ رواج تھا کہ رات کو بعض رؤساء شہر کا دورہ کیا کرتے تھے تاکہ چوری وغیرہ نہ ہو۔‘‘ جائزہ لیتے تھے گلیوں میں۔ ’’اسی دستور کے مطابق حضرت عمرؓ بھی رات کو پھر رہے تھے کہ آپؓ نے دیکھا۔ ایک جگہ گھر کا سب سامان بندھا پڑا ہے۔‘‘ سارا سامان۔ ’’آپؓ آگے بڑھے۔ ایک صحابیہؓ سامان کے پاس کھڑی تھیں۔ اس صحابیہؓ کے خاوند کے ساتھ شاید حضرت عمرؓ کے تعلقات تھے۔ اس لئے آپ نے اس صحابیہؓ کو مخاطب کر کے کہا۔ بی بی یہ کیا بات ہے، مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تم کسی لمبے سفر پر جارہی ہو۔ اس صحابیہؓ کا خاوند وہاں نہیں تھا۔ اگر وہ وہاں ہوتا تو ہو سکتا تھا کہ مشرکینِ مکہ کی عداوتوں اور دشمنیوں کی وجہ سے حضرت عمرؓ کی یہ بات سن کر وہ کوئی بہانہ بنا دیتا۔‘‘ کہ جا رہے ہیں کہ نہیں جا رہے۔ یا تھوڑا سفر ہے یا کس جگہ جا رہے ہیں یا قریب ہی کوئی جگہ ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’لیکن عورت کو یہ حِس نہیں تھی۔‘‘ اس عورت کو یہ خیال نہیں آیا۔ یا تھی بھی تو اس نے سچائی سے کام لیا۔ ’’اس صحابیہؓ نے کہا عمرؓ ! ہم تو مکہ چھوڑ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا تم مکہ چھوڑ رہی ہو؟ صحابیہؓ نے کہا ہاں ہم مکہ چھوڑ رہے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا تم کیوں مکہ چھوڑ رہے ہو؟ صحابیہؓ نے جواب دیا کہ عمرؓ ! ہم اس لئے مکہ چھوڑ رہے ہیں کہ تم اور تمہارے بھائی ہمارا یہاں رہنا پسندنہیں کرتے اور ہمیں خدائے واحد کی عبادت کرنے میں یہاں آزادی میسر نہیں۔ اس لئے ہم وطن چھوڑ کر کسی دوسرے ملک میں جارہے ہیں۔ اب باوجود اس کے کہ حضرت عمرؓ اسلام کے شدید دشمن تھے۔ باوجود اس کے کہ وہ خود مسلمانوں کو مارنے پر تیار رہتے تھے۔ رات کے اندھیرے میں اس صحابیہؓ سے یہ جواب سن کر کہ ہم وطن چھوڑ رہے ہیں اس لئے کہ تم اور تمہارے بھائی ہمارا یہاں رہنا پسندنہیں کرتے اور ہمیں خدائے واحد کی عبادت آزادی سے نہیں کرنے دیتے حضرت عمرؓ نے اپنا منہ دوسری طرف پھیر لیا۔‘‘ یہ بات سن کے ’’اور اس صحابیہؓ کا نام لے کر کہاکہ اچھا جاؤ خدا تمہارا حافظ ہو۔ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ پر رقّت کا ایسا جذبہ آیا کہ آپؓ نے خیال کیا کہ اگر میں نے دوسری طرف منہ نہ کیا تو مجھے رونا آجائے گا۔ اتنے میں اس صحابیہؓ کے خاوند بھی آ گئے۔ وہ سمجھتے تھے کہ عمرؓ ! اسلام کے شدید دشمن ہیں۔ انہوں نے جب آپؓ کو وہاں کھڑا دیکھا تو خیال کیا یہ ہمارے سفر میں کوئی روک پیدا نہ کر دیں۔ انہوں نے اپنی بیوی سے دریافت کیا کہ یہ یہاں کیسے آگیا؟ اس نے بتا یا کہ وہ اِس اس طرح آیا تھا اور اس نے سوال کیا تھا کہ تم کہاں جارہے ہو؟ انہوں نے کہا کہ یہ کوئی شرارت نہ کر دے۔‘‘ اس وقت جانے لگے ہوں گے، وہاں کھڑے دیکھا ہو گا۔ اس کے بعد ان کے آنے سے پہلے ہی یا قریب پہنچنے سے پہلے ہی حضرت عمرؓ وہاں سے روانہ ہو چکے تھے۔ یا ان کے ملنے کے بعد روانہ ہوئے۔ بہرحال انہوں نے کہا کوئی شرارت نہ کر دے۔ ’’اس صحابیہؓ نے کہا کہ اے میرے چچا کے بیٹے (عرب عورتیں عام طورپر اپنے خاوندوں کو چچا کا بیٹا کہا کرتی تھیں )تم تو یہ کہتے ہو کہ وہ کہیں کوئی شرارت نہ کر دے مگر مجھے تو ایسا معلوم ہو تا ہے کہ اس نے کسی دن مسلمان ہو جانا ہے کیونکہ جب میں نے کہا عمرؓ !ہم اس لئے مکہ چھوڑ رہے ہیں کہ تم اور تمہارے بھائی ہمیں خدائے واحد کی عبادت آزادی سے نہیں کرنے دیتے تو اس نے منہ پھیر لیا اور کہا۔ اچھا جاؤ خدا تمہارا حافظ ہو۔ اس کی آواز میں ارتعاش تھا اور میں سمجھتی ہوں کہ اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے تھے۔ اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ضرور کسی دن مسلمان ہو جائیگا۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد6 صفحہ140۔ 141)
حضرت عمرؓ کے اسلام قبول کرنے کے لیے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دعائیں بھی کی تھیں۔ اس بارے میں روایت میں آتا ہے۔ حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اَللّٰہُمَّ أَعِزَّ الْاِسْلَامَ بِأَحَبِّ ہٰذَیْنِ الرَّجُلَیْنِ إِلَیْکَ بِأَبِیْ جَہْلٍ أَوْ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ۔ اے اللہ! تو ان دو اشخاص ابوجہل اور عمر بن خطاب میں سے اپنے زیادہ محبوب شخص کے ذریعہ اسلام کو عزت عطا کر۔ ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ ان دونوں میں سے اللہ کو زیادہ محبوب حضرت عمرؓ تھے۔ (سنن الترمذی ابواب المناقب باب فی مناقب ابی حفص عمر بن الخطاب حدیث 3681)
حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اَللّٰہُمَّ أَیِّدِ الدِّیْنَ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ۔ اے اللہ! عمر بن خطاب کے ذریعہ سے دین کی تائید فرما۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اَللّٰہُمَّ أَعِزَّ الْإِسْلَامَ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ خَاصَّۃً کہ اے اللہ! خاص طور پر عمر بن خطاب کے ذریعہ اسلام کو عزت عطا کر۔ (مستدرک للحاکم علی الصحیحین جلد 3 صفحہ89 کتاب معرفۃ الصحابہ باب من مناقب امیر المومنین عمر بن الخطابؓ حدیث نمبر4485۔ 4483 دارالکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)
حضرت عمرؓ کے اسلام لانے سے ایک دن پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا فرمائی تھی۔ اَللّٰہُمَّ أَیِّدِ الْإِسْلَامَ بِأَحَبِّ الرَّجُلَیْنِ إِلَیْکَ، عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَوْ عَمْرِو بْنِ ہِشَامٍ اے اللہ! ان دو لوگوں میں سے جو تجھے زیادہ محبوب ہے اس کے ذریعہ سے اسلام کی تائید فرما۔ عمر بن خطابؓ یا عمرو بن ہشام۔ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَوْ عَمْرِو بْنِ ہِشَامٍ عمر بن خطابؓ سے یا عمرو بن ہشام سے۔ جب حضرت عمرؓ نے اسلام قبول کیا تو حضرت جبرئیل نازل ہوئے اور کہا اے محمدؐ ! عمرؓ کے اسلام لانے سے آسمان والے بھی خوش ہیں۔ طبقات الکبریٰ کی یہ روایت ہے۔ (الطبقات الکبٰری لابن سعد جلد 3 صفحہ 143 باب اسلام عمرؓ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت لبنان 1996ء)
حضرت عمرؓ کے قبول اسلام کے بارے میں مزید یہ ہے کہ حضرت عمر بن خطابؓ نے ذوالحجہ 6؍ نبوی میں اسلام قبول کیا تھا۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 204 مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ 1990ء)
قبول اسلام کی وجہ بننے والے متعدد واقعات و روایات کتب حدیث اور سیرت میں مذکور ہیں۔ اسلام قبول کرنے کے متعلق ایک روایت یہ ہے۔ سیرۃ الحلبیۃ میں یہ روایت ہے کہ ایک مرتبہ ابوجہل نے لوگوں سے کہا کہ اے گروہِ قریش! محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے معبودوں کو برا بھلاکہتا ہے اور تمہیں بے عقل ٹھہراتا ہے۔ نیز تمہارے بزرگوں کے بارے میں کہتا ہے کہ وہ جہنم کا ایندھن بن رہے ہیں۔ اس لیے میں اعلان کرتا ہوں کہ جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرے گا میری طرف سے وہ ایک سو سرخ و سیاہ اونٹوں اور ایک ہزار اوقیہ چاندی کے انعام کا حق دار ہو گا۔ ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا تھا یعنی تقریباً 126گرام اور بعض کے نزدیک اس سے بھی زیادہ بنتی ہے لیکن بہرحال ایک بہت بڑی رقم تھی جو اس نے (اوقیہ جو ہے 126گرام ہے تو یہ بہت بڑی رقم بنتی ہے) انعام کے طور پر مقرر کی تھی اور ایک دوسری روایت جو ہے وہ اس طرح ہے کہ جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرے اس کو اتنے اوقیہ سونا اور اتنے اوقیہ چاندی اور اتنا مشک اور اتنے قیمتی کپڑے اور اس کے علاوہ دوسری بہت سی چیزیں دینے کا اعلان کیا۔ یہ سن کر حضرت عمرؓ بولے کہ میں اس انعام کا حق دار بنوں گا۔ لوگوں نے کہا بےشک عمرؓ یہ انعام تمہارا ہو گا۔ اس کے بعد حضرت عمرؓ نے ان سے اس بارے میں باقاعدہ معاہدہ کیا۔ حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں ننگی تلوار اپنے کندھے سے لٹکا کر رسول اللہؐ کی تلاش میں نکلا۔ راستے میں ایک جگہ سے گزرا جہاں ایک بچھڑا ذبح کیا جا رہا تھا۔ میں نے اس بچھڑے کے پیٹ میں سے آواز سنی۔ اے آل ذَرِیْح! (ذَرِیْح اس بچھڑے کا نام تھا جو ذبح کیا جا رہا تھا) ایک پکارنے والا پکار رہا ہے اور صاف آواز میں کہہ رہا ہے اور اس بات کی گواہی کی طرف بلا رہاہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبودنہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے آپ سے کہا اس میں میری طرف ہی اشارہ ہے۔ (السیرۃ الحلبیۃ جلد اول صفحہ 470 باب الہجرۃ الاولیٰ الی ارض الحبشۃ…دارالکتب العلمیۃ بیروت 2002ء) (لغات الحدیث جلد 4 صفحہ 527)
اگر سیرۃ الحلبیۃ کی یہ روایت صحیح ہے تو لگتا ہے کوئی کشفی نظارہ تھا جو آپؓ نے وہاں اس وقت دیکھا یاکسی طرف سے آواز آئی۔ تیسری روایت حضرت عمرؓ کے اسلام قبول کرنے کے بارے میں جو ملتی ہے یہ ہے کہ حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ ایک دن میں حرم میں طواف کرنے کے ارادے سے آیا۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے۔ آپؐ جب نماز پڑھا کرتے تھے تو ملک شام کی طرف منہ کر لیا کرتے تھے یعنی بیت المقدس کے پتھر کی طرف اس طرح کہ آپؐ کعبہ کو اپنے اور شام یعنی بیت المقدس کے درمیان کر لیا کرتے تھے۔ اس طرح آپؐ کی نماز کی جگہ حجر اسود اور رکن یمانی کے درمیان ہوا کرتی تھی۔ رکن یمانی کعبہ کا جنوب مغربی کونہ ہے جو یمن کی طرف ہے کیونکہ اس کے بغیر بیت المقدس کا سامنا نہیں ہوتا تھا۔ غرض حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ جب میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو میں نے سوچا کہ آج کی رات میں بھی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا کلام سنوں کہ یہ کیا کہتے ہیں۔ پھر میں نے سوچا کہ اگر میں سننے کے لیے ان کے قریب گیا تو میں انہیں ہوشیار کر دوں گا اس لیے میں حجر اسود کی طرف سے آیا اور خانہ کعبہ کے غلاف کے پیچھے ہو گیا اور آہستہ آہستہ چلنے لگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح نماز میں مشغول رہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ الرحمٰن کی تلاوت کی۔ یہاں تک کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالکل سامنے ہو گیا جس طرف آپؐ نے منہ کیا ہوا تھا۔ میرے اور آپؐ کے درمیان غلاف کعبہ کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ جب میں نے قرآن کریم سنا تو میرا دل اس کی وجہ سے پگھل گیا اور میں رو پڑا اور اسلام میرے اندر داخل ہو گیا۔ میں اسی طرح اپنی جگہ کھڑا رہا یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نماز مکمل کی اور وہاں سے واپس تشریف لے گئے تو میں آپؐ کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے پیروں کی آہٹ سنی تو مجھے پہچان لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سمجھے کہ میں آپؐ کو کوئی تکلیف پہنچانے کے لیے آپؐ کا پیچھا کر رہا ہوں۔ آپؐ نے مجھے ڈانٹا اور پھر کہا: اے ابن خطاب! تم اتنی رات گئے کس ارادے سے آئے ہو؟ میں نے عرض کیا: میں اللہ پر اور اس کے رسولؐ پر اور اس پر جو اللہ کی طرف سے آیا ہے ایمان لانے کے لیے آیا ہوں۔ ایک چوتھی روایت جو ہے وہ اس طرح ملتی ہے کہ حضرت عمرؓ کہتے ہیں ایک رات میری بہن کو دردِ زہ اٹھاتو میں گھر سے نکل آیا اور دعا کرنے کے لیے کعبہ کے پردوں کے ساتھ لپٹ گیا۔ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور حجر اسود کے پاس جتنی اللہ نے چاہی نماز پڑھی اور پھر تشریف لے گئے۔ اس وقت میں نے ایسا کلام سنا جو اس سے پہلے کبھی نہیں سنا تھا۔ چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے نکلے تو میں آپ کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ آپؐ نے پوچھا کون ہے؟ میں نے جواب دیا کہ عمر ہوں تو آپؐ نے فرمایا اے عمر! تم مجھے نہ رات کو چھوڑتے ہو اور نہ دن کو۔ یہ سن کر میں ڈرا کہ کہیں آپؐ میرے لیے بددعا نہ فرما دیں تو میں نے فوراً کہا اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَنَّکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودنہیں اور یقیناً آپؐ اللہ کے رسول ہیں۔ تب آپؐ نے مجھ سے فرمایا اے عمر!کیا تم اپنے اسلام کو چھپانا چاہتے ہو؟ میں نے عرض کیا: نہیں۔ قَسم ہے اس ذات کی جس نے آپؐ کو دینِ حق دے کر بھیجاہے کہ میں اپنے اسلام کا بھی اسی طرح اعلان کروں گا جیسے اپنے شرک کا اعلان کیا کرتا تھا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کی اور فرمایا اے عمر! اللہ تعالیٰ تجھے ہدایت پر قائم رکھے۔ اس کے بعد آپؐ نے میرے سینے پر ہاتھ پھیرا اور میرے لیے ثابت قدمی کی دعا فرمائی۔ اس کے بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے چلا گیا اور آپؐ اپنے گھر میں تشریف لے گئے۔ (السیرۃ الحلبیہ جلد اول صفحہ 469باب الہجرۃ الاولیٰ الی ارض الحبشۃ… دارالکتب العلمیۃ بیروت 2002ء) (فرہنگ سیرت صفحہ135)
اسلام قبول کرنے کے متعلق جو پانچویں اور مشہور روایت ہے اس کی کچھ مختصر تفصیل پہلے بھی بیان ہو چکی ہے۔ وہ اس طرح ہے کہ حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن حضرت عمرؓ تلوار سونتے ہوئے نکلے۔ راستے میں بنو زُہرہ کا ایک آدمی ملا اس نے آپؓ سے پوچھا عمر کہاں کا ارادہ ہے؟ حضرت عمرؓ نے جواب دیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے جا رہاہوں (نعوذ باللہ)۔ اس نے کہا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر کے کیا تم بنو ہاشم اور بنو زُہرہ سے امن پا لو گے؟ حضرت عمرؓ نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ تم صابی ہو گئے ہو۔ اس کو بھی کہا اور اپنے دین سے پھر گئے ہو جس پر تم تھے۔ اس آدمی نے کہا کہ اے عمر!کیا میں تمہیں اس سے زیادہ تعجب کی بات نہ بتاؤں۔ مجھے تم کہہ رہے ہو کہ صابی ہو گئے ہو تو اس سے بھی بڑی بات بتاتا ہوں کہ تمہاری بہن اور بہنوئی دونوں صابی ہو گئے ہیں اور اس دین سے منحرف ہو گئے ہیں جس پر تم ہو۔ یہ سن کر حضرت عمرؓ دونوں کو ملامت کرتے ہوئے ان کے گھر آئے۔ دونوں کے پاس مہاجرین میں سے ایک صحابی حضرت خَبَّابؓ تھے۔ حضرت خبابؓ کے ضمن میں یہ واقعہ میں نے پہلے بیان بھی کیا ہے۔ انہوں نے جب حضرت عمرؓ کی آواز سنی تو وہ گھر کے اندر چھپ گئے۔ حضرت عمرؓ گھر میں داخل ہوئے تو کہا تم کیا پڑھ رہے تھے؟ یہ کیا آواز تھی جو میں نے تمہاری طرف سے سنی ہے؟ اس وقت وہ لوگ سورۂ طٰہٰ پڑھ رہے تھے۔ انہوں نے کہا ایک بات کے سوا کچھ نہ تھا جو ہم آپس میں کر رہے تھے۔ حضرت عمرؓ نے کہا میں نے سنا ہے کہ تم دونوں اپنے دین سے منحرف ہو گئے ہو۔ حضرت عمرؓ کے بہنوئی نے کہا اے عمرؓ ! کیاتم نے کبھی غور کیا ہے کہ حق تمہارے دین کے سوا دوسرے دین میں ہو۔ سچائی کی تلاش کرنی ہے ناں تو کبھی تم نے غور کیا ہے کہ شاید دوسرے دین میں سچائی ہو۔ یہ سن کر حضرت عمرؓ نے اپنے بہنوئی کو پکڑ لیا اور سختی سے زدوکوب کیا۔ آپؓ کی بہن اپنے خاوند کو بچانے کے لیے آئیں تو حضرت عمرؓ نے ان پر بھی ہاتھ اٹھا دیا جس سےان کے چہرے سے (بہن کے چہرے سے) خون بہنے لگا۔ انہوں نے غصہ سے کہا اے عمرؓ ! اگر سچائی تیرے دین کے علاوہ کسی اور دین میں ہے تو تُو گواہی دے کہ اللہ کے سواکوئی معبودنہیں اور گواہی دے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ جب حضرت عمرؓ عاجز آ گئے تو کہنے لگے کہ مجھے وہ کتاب دو جو تمہارے پاس ہے تاکہ میں اسے پڑھوں اور حضرت عمرؓ پڑھنا جانتے تھے۔ آپؓ کی بہن نے کہا کہ تم ناپاک ہو اور اسے کوئی ناپاکی کی حالت میں نہیں چھو سکتا۔ پس اٹھو اور غسل کرو یا وضو کر لو۔ حضرت عمرؓ نے اٹھ کر وضو کیا۔ پھر کتاب لے کر پڑھنے لگے وہ سورۂ طٰہٰ تھی۔ جب اس آیت پر پہنچے کہ اِنَّنِیْ اَنَا اللّٰہُ لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنَا فَاعْبُدْنِیْ وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیْ (طٰہٰ: 15) یقیناً میں ہی اللہ ہوں میرے سوا اور کوئی معبودنہیں۔ پس میری عبادت کر اور میرے ذکر کے لیے نماز کو قائم کر۔ اس آیت کو پڑھنے کے بعد حضرت عمرؓ نے کہا کہ مجھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پتہ بتاؤ۔ یہ بات سن کر حضرت خَبَّاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی گھر سے نکلے اور کہنے لگے کہ اے عمرؓ ! تمہیں خوشخبری ہو۔ میری خواہش ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جمعرات کی رات کی دعا تمہارے حق میں قبول ہو۔ آپؐ نے فرمایا تھا کہ اَللّٰہُمَّ أَعِزَّ الْاِسْلَامَ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ اَوْ بِعَمْرِو بْنِ ہِشَامٍ کہ اے اللہ! اسلام کو عمر بن خطابؓ یا عمروبن ہشام کے ذریعہ سے عزت دے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت اس گھر میں تھے جو کوہِ صفا کے دامن میں تھا۔ حضرت عمرؓ چلے یہاں تک کہ اس گھرمیں داخل ہوئے۔ اس وقت گھر کے دروازے پر حضرت حمزہؓ، حضرت طلحہؓ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دیگر صحابہؓ تھے۔ حضرت حمزہؓ نے ان کو دیکھا کہ یہ لوگ عمرؓ سے ڈر رہے ہیں تو انہوں نے کہا کہ اچھا تو یہ عمرؓ ہیں۔ اگر اللہ ان کو خیر سے لایا ہے تو یہ اسلام قبول کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کریں گے اور اگر اس کے علاوہ کوئی اور ارادہ ہو تو ان کو قتل کرنا ہم پر آسان ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر کے اندر تھے اور آپؐ پر وحی کا نزول ہو رہا تھا۔ آپؐ بھی باہر نکلے اور عمرؓ کے پاس آئے اور ان کو سینے سے پکڑا اور فرمایا اے عمرؓ ! کیا تم اس وقت تک باز نہیں آؤ گے جب تک کہ اللہ تم پر رسوائی اور دردناک عذاب نازل نہ کر دے جس طرح ولید بن مغیرہ کے لیے نازل کیا۔ پھر آپؐ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی۔ اے اللہ! یہ عمر بن خطابؓ ہے۔ اے اللہ! دین کو عمر بن خطابؓ کے ذریعہ عزت دے۔ اس کے بعد حضرت عمرؓ نے کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ آپؐ اللہ کے رسول ہیں اور اسلام قبول کر لیا اور کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسلام کی اشاعت کے لیے باہر نکلیں۔ مَعْمَراور زُہری سے روایت ہے کہ حضرت عمرؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دَارِ اَرْقَم میں آنے کے بعد اسلام قبول کیا اور دَارِ اَرْقَم میں مسلمان ہونے والے چالیسویں یا چالیس سے کچھ زیادہ مردو خواتین کے بعد اسلام قبول کرنے والے تھے۔ دَارِ اَرْقَم وہ مکان یا مرکز ہے جو ایک نومسلم ارقم بن ارقم کا مکان تھا اور مکہ سے ذرا باہر تھا۔ وہاں مسلمان جمع ہوتے تھے اور یہ دین سیکھنے اور عبادت وغیرہ کرنے کے لیے ایک مرکز تھا اور اسی شہرت کی وجہ سے اس کا نام ’’دارالاسلام‘‘ بھی مشہور ہوا اور یہ مکہ میں تین سال تک مرکز رہا۔ وہیں خاموشی سے عبادت کیا کرتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلسیں لگا کرتی تھیں اور پھر جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسلام قبول کیا تو پھرکھل کر باہر نکلنا شروع کیا۔ روایت میں آتا ہے کہ حضرت عمرؓ اس مرکز میں اسلام لانے والے آخری شخص تھے جن کے اسلام لانے سے مسلمانوں کو بہت تقویت پہنچی اور وہ دار ارقم سے نکل کر برملا تبلیغ کرنے لگ گئے۔ (الطبقات الکبریٰ جزء 3 صفحہ 142۔ 143 مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت 1996ء) (ماخوذ ازسیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے صفحہ 129)
حضرت عمرؓ کے قبول اسلام کا یہی واقعہ تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ ایک اَور جگہ بھی ملتا ہے۔ اس جگہ سورۂ طٰہٰ کی ابتدائی آیات کا ذکر ہے جبکہ دوسری جگہ سورۃ الحدید کی ابتدائی آیات کا ذکر ہے جن کی حضرت عمرؓ نے اپنی بہن کے گھر میں تلاوت کی تھی۔ (اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 140 دار الکتب العلمیۃ بیروت 2003ء)
حضرت عمرؓ کے اسلام لانے کے بارے میں ایک چھٹی روایت بھی ہے۔ حضرت عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن قبول اسلام سے پہلے مَیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں نکلا تو میں نے دیکھا کہ آپؐ مجھ سے پہلے مسجد میں پہنچ گئے ہیں۔ میں آپؐ کے پیچھے کھڑا ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ الحاقۃ کی تلاوت شروع کی۔ میں قرآن کریم کی بناوٹ اور ترکیب سے متعجب ہوا اور میں نے کہا بخدا یہ تو شاعر ہے جیسا کہ قریش کہتے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے کہا کہ جب میں نے یہ سوچا تو آپؐ نے اِنَّہٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ کَرِیْمٍ۔ وَّ مَا ہُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ۔ قَلِیْلًا مَّا تُؤْمِنُوْنَ(الحاقۃ: 41۔ 42) وَ مَا ہُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ۔ قَلِیْلًا مَّا تُؤْمِنُوْنَ کی تلاوت فرمائی۔ یعنی یقیناً یہ عزت والے رسول کا قول ہے اور یہ کسی شاعر کی بات نہیں۔ بہت کم ہے جو تم ایمان لاتے ہو۔ حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ یہ تو کاہن ہے، جادوگر ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پڑھا کہ وَلَا بِقَوْلِ کَاہِنٍ۔ قَلِیْلًا مَّا تَذَکَّرُوْنَ۔ تَنْزِیْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِیْلِ۔ لَأَخَذْنَا مِنْہُ بِالْیَمِیْنِ۔ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِیْنَ۔ فَمَا مِنْکُمْ مِّنْ أَحَدٍ عَنْہُ حَاجِزِیْنَ۔ (الحاقۃ: 43تا48)تو پھر آپؐ نے اس سورت کی آخر تک تلاوت فرمائی اور اس کا ترجمہ یہ ہے۔ اور نہ یہ کہ یہ کسی کاہن کا قول ہے۔ بہت کم ہے جو تم نصیحت پکڑتے ہو۔ ایک تنزیل ہے تمام جہانوں کے رب کی طرف سے اور اگر وہ بعض باتیں جھوٹے طور پر ہماری طرف منسوب کر دیتا تو ہم اسے ضرور داہنے ہاتھ سے پکڑ لیتے۔ پھر ہم یقیناً اس کی رگ جان کاٹ ڈالتے۔ پھر تم میں سے کوئی ایک بھی اس سے ہمیں روکنے والا نہ ہوتا۔ حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ اس وقت سے اسلام میرے دل میں گھر کر گیا۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 1 صفحہ 108۔ 109 مسند عمر بن الخطاب حدیث 107 مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء)
اور ایک ساتویں روایت بھی ملتی ہے جو بخاری کی روایت ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے بیان کیا ہے کہ میں نے جب بھی حضرت عمر کو کسی چیز کے بارے میں یہ کہتے ہوئے سنا کہ میرا خیال ہے کہ یہ ایسے ہے تو وہ ویسے ہی ہوتی ہے جیسا کہ وہ گمان کرتے تھے۔ ایک بار حضرت عمرؓ بیٹھے ہوئے تھے کہ ان کے پاس سے ایک خوبصورت شخص گزرا۔ حضرت عمرؓ نے کہا کہ شاید میرا گمان غلط ہو یا تو یہ شخص جاہلیت والے اپنے دین پر ہے یا یہ ان لوگوں کا کاہن تھا۔ اس شخص کومیرے پاس لاؤ۔ چنانچہ اسے آپؓ کے پاس بلا کر لایا گیا تو انہوں نے اس شخص سے وہی کہا۔ اس نے کہا کہ میں نے آج کی مانند کوئی دن نہیں دیکھا جس میں کسی مسلمان شخص کا یوں استقبال کیا گیا ہو۔ یہ شخص بعد میں مسلمان ہو گیا تھا۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: مَیں قسم دیتا ہوں کہ تمہیں مجھے ضرور بتانا ہو گا۔ اس نے کہا کہ میں زمانۂ جاہلیت میں ان کا کاہن تھا۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: کوئی بہت عجیب بات جو تمہاری جِنِّیتمہارے پاس لائی ہو۔ کاہن تھے جادو کرتے تھے۔ کوئی جِنِّی تمہارے پاس کوئی عجیب بات لائی ہو۔ اس نے کہا کہ ایک دفعہ جبکہ میں بازارمیں تھا کہ وہ میرے پاس آئی تو میں نے اس میں گھبراہٹ معلوم کی۔ اس جِنِّینے کہا۔ کیا تم نے جِنّوں کو نہیں دیکھا اور ان کی پریشانی اور حیرت کو اور اونٹنیوں اور ان کے پالانوں سے ان کے جا ملنے کو۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: تم نے سچ کہا۔ ایک بار مَیں ان کے بتوں کے پاس سویا ہوا تھا کہ ایک شخص گائے کا بچھڑا لایا اور اس نے اسے ذبح کیا تو ایک آواز دینے والے نے چیخ لگائی۔ میں نے اس سے بلند آواز میں چیخنے والا کبھی نہیں سنا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ اے حد سے بڑھے ہوئے دشمن! ایک بامراد اور عمدہ کام ہے۔ ایک خوش بیان شخص ہے وہ کہتا ہے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ یعنی تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ اس پر لوگ اٹھے۔ میں نے کہا میں نہیں نکلوں گا یہاں تک کہ میں جان لوں کہ اس کے پیچھے کون ہے۔ پھر آواز آئی اے حد سے بڑھے ہوئے دشمن! ایک بامراد اور عمدہ کام ہے۔ ایک خوش بیان شخص ہے وہ کہتا ہے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ۔ یعنی تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ اس پر میں بھی کھڑا ہو گیا۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ کہا جانے لگا کہ یہ نبی ہیں۔ بخاری کے بعض نسخوں میں لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کی جگہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ بھی آتا ہے۔ تو یہ بخاری کی روایت ہے۔ (صحیح البخاری کتاب مناقب الانصار باب اسلام عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ عنہ، حدیث 3866)
بہرحال حضرت عمرؓ کے قبول اسلام کے بارے میں تاریخ و سیرت کی کتب میں مختلف روایات ملتی ہیں اور ان میں سب سے مشہور یعنی جو اکثر کتب میں مذکور ہے وہ وہی روایت ہے جس میں حضرت عمرؓ تلوار لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذ باللہ قتل کرنے کے لیے نکلے تھے تو راستہ میں کسی نے بتایا کہ اپنے گھر کی خبر لیں، تو آپ اپنے بہن اور بہنوئی کے گھر گئے اور یہی روایت زیادہ تر مانی جاتی ہے اور اس کا ہی اکثر جگہوں پہ ذکر ہے۔ گو بےشمار روایتیں اَور بھی ہیں جو مَیں نے بیان کی ہیں۔ بہرحال مَیں نے جو روایتیں بیان کی ہیں اپنی اپنی ان روایتوں کو جنہوں نے بھی صحت پر سمجھا ہے، مؤرخین نے بھی اور سیرت لکھنے والوں نے بھی، اس پر بڑی بحثیں کی ہیں لیکن بہرحال ہم تو اسی روایت کو صحیح مانتے ہیں جو بہن اور بہنوئی کے گھر والا معاملہ تھا اور پھر وہاں سے دار ارقم میں آپؓ گئے۔ یہ کہا جا سکتا ہے اور یہ عین ممکن ہے کہ حضرت عمرؓ کے قبول اسلام کی مذکورہ تمام روایات ہی اپنی جگہ درست ہوں جن سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مختلف مواقع پر حضرت عمرؓ کے دل میں تبدیلی کے واقعات ہوتے رہے۔ بعض دفعہ تبدیلی کے واقعات ہوتے رہتے ہیں لیکن آخری قدم نہیں اٹھایا جاتا اور آخری واقعہ وہی ہوا جب اپنی بہن اور بہنوئی کے گھر میں قرآن کریم سنا اور اسلام قبول کرنے کے لیے دربار رسالت میں حاضر ہو گئے۔ بہرحال اللہ بہتر جانتا ہے۔
’’حضرت عمرؓ کی عمر اس وقت تینتیس سال کی تھی اور آپ اپنے قبیلہ بنو عدی کے رئیس تھے۔‘‘ جب آپؓ نے بیعت کی ہے، اسلام قبول کیا ہے تو ’’قریش میں سفارت کا عہدہ بھی انہی کے سپرد تھا۔‘‘ اور ویسے بھی نہایت بارعب اور جری اور دلیر تھے۔ ان کے اسلام لانے سے مسلمانوں کو بہت تقویت پہنچی اور انہوں نے دارِ ارقم سے نکل کر برملا مسجد حرام میں نماز ادا کی۔ حضرت عمرؓ آخری صحابی تھے جو دار ارقم میں ایمان لائے اور یہ بعثت نبوی کے چھٹے سال کے آخری ماہ کا واقعہ ہے۔ اس وقت مکہ میں مسلمان مردوں کی تعداد چالیس تھی۔‘‘ (سیرت خاتم النبیین از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ159)
باقی اس بارے میں ان شاء اللہ آئندہ بیان کروں گا۔
اس وقت میں چند مرحومین کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جن کا جنازہ پڑھاؤں گا۔ اس میں پہلے احمد محمد عثمان شبوطی صاحب ہیں جو محمد عثمان شبوطی صاحب آف یمن کے بیٹے تھے۔ 9؍ اپریل 2021ء کو ستاسی سال کی عمر میں مصر میں ان کی وفات ہو گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
احمد محمد عثمان شبوطی صاحب کی پیدائش یمن کے شہر عدن میں ہوئی تھی۔ جب مکرم غلام احمد صاحب مبلغ عدن گئے ہیں تو اس وقت شبوطی صاحب نے چودہ سال کی عمر میں بیعت کی تھی۔ پھر اس کے بعد آپ کو جماعت احمدیہ یمن میں مختلف عہدوں پر کام کرنے کی توفیق ملی اور ایک لمبا عرصہ سے بحیثیت صدر جماعت احمدیہ یمن خدمت کی توفیق پا رہے تھے یہاں تک کہ ان کی وفات ہو گئی یعنی تاوفات اس عہدے پر قائم تھے۔ آپ کی شادی مکرمہ وسیمہ محمد صاحبہ بنت ڈاکٹر محمد احمد عدنی صاحب سے ہوئی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی حضرت حاجی محمد دین صاحب دہلوی اور صحابیہ حضرت حسینہ بی بی صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی پوتی ہیں۔ شبوطی صاحب کا نکاح بھی پھر ربوہ میں ہی ہوا تھا لیکن غیر حاضری میں ہوا تھا۔ بہرحال پھر ان کا مرکز سے تعلق پیدا ہوا۔ شبوطی صاحب کو ربوہ جانے کی بھی توفیق ملی اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملاقات کا بھی شرف حاصل ہوا۔ بزرگوں سے بھی وہاں ملے، صحابہ سے بھی ملے۔ شبوطی صاحب نے برطانیہ کی متعدد یونیورسٹیوں سے نرسنگ اور ہیلتھ مینجمنٹ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور لیور پول یونیورسٹی سے ہیلتھ ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کی ڈگری کی۔ یمن سینٹرل ہیلتھ انسٹی ٹیوٹ کے Deanکے عہدے سمیت صحت کے میدان میں تقریباً انتیس سال تک متعدد عہدوں پر فائز رہے۔ مشرق وسطیٰ کے ممالک کے علاوہ دیگر کئی ممالک میں عالمی ادارۂ صحت کے عارضی مشیر کے طور پر بھی خدمت کی توفیق ملی۔ کچھ عرصہ سے بیمار تھے اور چند ماہ سے مصر میں منتقل ہو گئے تھے اور کوشش یہ تھی کہ یہاں یوکے آ جائیں۔ وہاں علاج بھی ہو رہا تھا لیکن پھر زیادہ بیماری کی وجہ سے چند دن ہسپتال میں رہ کر آخر 9؍ اپریل کو اپنے خالق حقیقی کے حضور حاضر ہو گئے۔ مرحوم موصی تھے۔ ان کی اہلیہ کے علاوہ ایک بیٹے محمد شبوطی امریکہ میں ڈاکٹر اور تین بیٹیاں ہیں، پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں ہیں۔ بڑی بیٹی تو یمن میں ہیں۔ ایک بیٹی جرمنی میں ہیں اور مروٰی شبوطی صاحبہ ہمارے یہاں یوکے میں ہیں۔ ایم ٹی اے العربیۃ میں خدمت کی توفیق پا رہی ہیں۔ ان کی بیٹی مروٰی شبوطی کہتی ہیں کہ یہ درست ہے کہ جنت ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے لیکن میں نے اپنے باپ سے بھی ماؤں جیسی شفقت پائی۔ یا یوں کہیے کہ مجھے باپ کے اور ماں کے پیار میں کبھی فرق محسوس نہیں ہوا۔ کہتی ہیں میرے والد متقی، صالح، اعلیٰ اخلاق کے مالک، نہایت عاجز اور خاکسار تھے۔ صبر و صدق اور امانت کے پیکر، غریب پرور اور تمام لوگوں سے بلکہ انسانیت سے محبت کرنے والے تھے اور یہ بہت سے لکھنے والوں نے لکھا ہے۔ غیروں نے بھی جو ان کے واقف کار تھے یہی باتیں لکھی ہیں۔ اپنے کام کو نہایت باریک بینی سے سرانجام دیتے تھے۔ وقت کی پابندی اور وعدوں کا پاس کرنے والے تھے۔ اکثر عبادت و نوافل ادا کرتے تھے اور فرض نمازوں کی پابندی کا بہت خیال رکھتے تھے۔ کہتی ہیں کہ 2002ء میں ان کو، ان کے دونوں ماں باپ کو حج بیت اللہ کی بھی سعادت نصیب ہوئی۔
یمن کے قائمقام صدر جماعت خالد علی الصبری صاحب کہتے ہیں مرحوم کبر سنی کے باوجود رعب دار شخصیت کے مالک تھے۔ نیک دل، ہمیشہ مسکرانے والے، سخی اور مہمان نواز تھے۔ ہر احمدی سے مہربان باپ کی طرح سلوک کرتے تھے۔ جب بھی کوئی جماعتی ضرورت ہوتی تو اپنی ذاتی جیب سے خرچ کرتے اور جماعتی استعمال کی چیزیں جیسے پرنٹر اور فیکس مشین وغیرہ خود ہی خریدتے تھے۔ غریب لاچاروں کے لیے بڑے ہی رحمدل اور شفقت کرنے والے تھے۔ ہر غریب احمدی پر دل کھول کر خرچ کرتے تھے۔ احمدی یتامیٰ اور بیوگان کی کفالت کرتے تھے۔ جنگ سے متاثر ایک فیملی کے مکان کا کرایہ بھی خود جیب سے ادا کرتے تھے۔ بڑی عمر کے باوجود انہوں نے 2018ء میں عدن سے صنعاء کا بیس گھنٹے کا طویل اور پُر مشقت سفر کیا جبکہ سعودی حملوں کی وجہ سے راستہ نہایت خطرناک تھا اور جگہ جگہ چیکنگ بھی ہوتی تھی۔ بڑھاپے کے باعث ان کے لیے چلنا بھی مشکل تھا۔ انہوں نے یہ سفر صرف صنعاء جماعت کے ساتھ عید پڑھنے اور غریب فیملیوں کو عیدی دینے اور ان کی خوشی میں شریک ہونے کے لیے کیا تھا۔ تمام احباب جماعت اس وقت ان کی آمد سے خوش ہوئے۔
اگلا ذکر مکرم قریشی ذکاء اللہ صاحب کا ہے جو دفتر جلسہ سالانہ کے اکاؤنٹنٹ تھے۔ یہ بھی 9؍ اپریل کو ستاسی سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
قریشی صاحب کے خاندان میں احمدیت ان کے نانا اور ان کی اہلیہ کے دادا حضرت خورشید علی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذریعہ سے آئی تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب سیالکوٹ تشریف لائے تو حضرت خورشید علی صاحبؓ نے سولہ سال کی عمر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی سعادت حاصل کی تھی۔ قریشی صاحب کی اہلیہ وفات پا چکی ہیں۔ پانچ بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ اور بیٹا حافظ قرآن ہے۔ یہیں یوکے میں رہتے ہیں۔ ایک بیٹی دفتر پی ایس ربوہ کے ہمارے کارکن کی اہلیہ ہیں۔ دوسری بیٹی مانچسٹر میں ہیں۔ ایک بیٹی وفات پا چکی ہیں۔ 1954ء میں انہوں نے جماعتی خدمات کا آغاز کیا۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ صدر نگران بورڈ کے زیر سایہ انہوں نے بطور ریلیونگ کلرک کے کام کیا۔ 58سال سے اوپر انہوں نے صدر انجمن احمدیہ ربوہ کی ملازمت کی۔ ان کے بیٹے حافظ شمس الضحیٰ کہتے ہیں کہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کے ساتھ انہیں کام کا موقع ملا اور حضرت میاں بشیر احمد صاحبؓ کے گھر جایا کرتے تھے۔ ایک دن گھر گئے تو شروع میں پہلے دن حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے ان کو کہا کہ تشریف رکھیں تو کہتے ہیں میں نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد کے سامنے میں کس طرح برابری پہ بیٹھ سکتا ہوں۔ اس پہ حضرت میاں بشیر احمد صاحبؓ نے فرمایا اَلْاَمْرُ فَوْقَ الْاَدَبِیعنی حکم ادب اور احترام پر فوقیت رکھتا ہے۔ اس پر وہ بیٹھ گئے۔ بڑا احترام تھا۔ کہتے ہیں میرے والد صاحب خاموش طبیعت کے مالک تھے۔ پنجوقتہ نماز باجماعت کے پابند تو تھے ہی، تہجد کا التزام کرتے تھے۔ مرحومین کی طرف سے چندہ جات کی ادائیگی کرتے تھے۔ خاندان کے بزرگوں کو اپنے گھر رکھ کر ان کی خدمت کیا کرتے تھے۔ بعض کی وفات بھی ہمارے گھر میں ہوئی۔ خلافت سے بہت وفا اور پیار کا تعلق تھا اور ہم میں بھی اس کو یقینی بنانے کی کوشش کرتے تھے۔ کہتے ہیں بچپن میں مجھے نماز پر ساتھ لے جاتے اور اکثر راستے میں یہی کہا کرتے تھے کہ جب بھی کوئی خلیفہ وقت تمہیں کام کے لیے پکاریں تو ہمیشہ تیار رہنا۔ اور بعض غریبوں کے گھروں کے اخراجات بھی انہوں نے اٹھائے ہوئے تھے۔ ان کی بیٹی امۃ السلام کہتی ہیں کہ میرے والد صاحب نے اپنی ذاتی جائیداد سے ایک کنال پلاٹ محلہ نصیر آباد سلطان ربوہ میں مسجد کی تعمیر کی غرض سے صدر انجمن احمدیہ کے نام ہبہ کیا تھا۔ ایک ماہ میں دو مرتبہ عموماً قرآن کریم ختم کیا کرتے تھے۔ پانچ بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا سب بہن بھائیوں کو اچھی طرح پڑھایا لکھایا۔ ان کی اچھی تربیت کی۔
اگلا ذکر مکرم ملک خالق داد صاحب کینیڈا کا ہے جو 85سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ان کے نانا حضرت شیخ نور الدین صاحب تاجر قادیان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے اور آپ کے دادا محترم مولا داد صاحب کو حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے ہاتھ پر بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہونے کی توفیق ملی۔ لمبا عرصہ کراچی میں بطور صدر حلقہ ان کو خدمت کی توفیق ملی۔ کینیڈا میں شعبہ مال میں خدمت بجا لاتے رہے۔ پابند صوم و صلوٰۃ، ہمدرد، شفیق، غریب پرور، نیک، مخلص اور باوفا انسان تھے۔ چندہ کی ادائیگی اور مالی تحریکات میں حصہ لینے کے لیے ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے۔ خلافت کے ساتھ عقیدت کا والہانہ تعلق تھا اور یہ میں نے بھی ان میں دیکھا ہے۔ خلافت کے لیے غیر معمولی تعلق کا اظہار تھا۔ مرحوم اللہ کے فضل سے ابتدائی موصیان میں سے تھے۔ پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ چار بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ ایک بیٹے ان کے کینیڈا کی نیشنل عاملہ میں خدمت کر رہے ہیں۔
اگلا ذکر محمد سلیم صابر صاحب کا ہے جو نظارت امور عامہ کے کارکن تھے۔ 27؍ مارچ کو 77سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ سلیم صابر صاحب کے خاندان میں احمدیت ان کے والد حضرت میاں نور محمد صاحب صحابی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ آئی تھی۔ ان کے والد قادیان کے قریب ونجواں نامی گاؤں کے رہنے والے تھے اور انہوں نے 1903ء میں خود قادیان جا کر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ 19 مئی 1962ء سے صدر انجمن احمدیہ میں ان کا تقرر ہوا۔ اس کے بعد 1968ء میں دیوان سے دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں ان کی ٹرانسفر ہو گئی، حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے خود ان کو اپنے دفتر کے لیے منتخب کیا۔ پھر87ء سے لے کر 06ء تک امور عامہ میں محتسب رہے۔ ان کا عرصہ خدمت تقریباً 59سال بنتا ہے۔
مرحوم موصی تھے۔ ان کے بھتیجے اور داماد کہتے ہیں کہ تہجد کے عادی تھے۔ نمازوں میں عموماً اور تہجد میں خصوصاً اتنی درد سے دعائیں کرتے تھے کہ انسان جو ساتھ بیٹھا تھا اس کا بھی دل پگھل جاتا تھا۔ نئی نسل کو باقاعدگی سے خلیفۂ وقت کی اطاعت کا درس دینے والے، اپنے دفتری اوقات کے علاوہ بھی دفتر کو وقت دینے والے، جماعت کے کسی بھی فرد کے دکھ کو اپنا سمجھنے والے، لوگوں کی مشکلات کو اپنی مشکلات سمجھنے والے اور لوگوں کے مسائل کو خلیفۂ وقت کی اطاعت اور جماعت کی اطاعت کو سامنے رکھ کر حل کرنے والے، ہر لمحہ درود شریف کا ورد کرنے والے، خاموشی سے غرباء کی مدد کرنے والے بےشمار خوبیوں کے مالک تھے۔
اگلا ذکر محترمہ نعیمہ لطیف صاحبہ کا ہے جو صاحبزادہ مہدی لطیف صاحب امریکہ کی اہلیہ تھیں۔ 10 مارچ کو ان کی وفات ہو گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
مرحومہ کے شوہر مکرم صاحبزادہ مہدی لطیف صاحب حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحبؓ شہید کے پوتے ہیں۔ مرحومہ نے 1969ء میں پشاور یونیورسٹی سے Botany میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ پھر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ پشاور کے باٹنی ڈیپارٹمنٹ میں ریسرچ کا کام شروع کیا۔ 1972ء تک اس سے منسلک رہیں۔ 1970ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی تحریک پر نصرت جہاں کے تحت اپنے آپ کو وقف کیا۔ ان کے چھوٹے بھائی سعید ملک صاحب بھی نائیجیریا روانہ ہوئے اور 1975ء تک وہاں قیام رکھا اور اس دوران آپ ویمن عریبک ٹیچرز کالج گساؤ (Women Arabic Teachers College Gusau)کی پرنسپل کے طور پر خدمت بجا لاتی رہیں۔ 1975ء میں امریکہ کے لیے روانہ ہو گئیں۔ یہاں پھر آپ نے یونیورسٹی آف نیبراسکا (University of Nebraska)کے باٹنی ڈیپارٹمنٹ میں ریسرچر کے طور پر کام کیا۔ پھر وہاں سے میری لینڈ آ گئیں۔ یہاں میری لینڈ میں لگاتار لجنہ میں آپ کو خدمات کا موقع ملا اور امریکہ کی نائب صدر لجنہ کے طور پر بھی خدمت کی توفیق ملی۔ واشنگٹن لجنہ کی صدارت کے فرائض بھی سرانجام دیے۔ بہت محبت کرنے والی، دوسروں کے دکھ درد میں شریک ہونے والی خاتون تھیں۔ مرحومہ موصیہ تھیں۔ پسماندگان میں شوہر کے علاوہ چار بھائی اور دو بہنیں شامل ہیں۔ ان کی اولادنہیں ہے۔ ایک بھائی نائب امیر امریکہ ہیں اور ایک دارالقضا امریکہ میں کام کر رہے ہیں۔
اگلا ذکر صفیہ بیگم صاحبہ اہلیہ محمد شریف صاحب کینیڈا کا ہے جو 80سال کی عمر میں 11 مارچ کو وفات پاگئی تھیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ آپ محترم مولوی چراغ دین صاحب سابق مربی سلسلہ پشاور کی بڑی بیٹی تھیں۔ واہ کینٹ میں لمبا عرصہ صدر لجنہ کے طور پر خدمت کی توفیق پائی۔ ان کے شوہر 1993ء میں ایک ایکسیڈنٹ میں فوت ہو گئے تھے۔ شوہر کی وفات کے بعد بچوں کی بہترین تربیت کی۔ صوم و صلوٰۃ کی پابند، تہجد گزار، صابر اور شاکر خاتون تھیں۔ ملنسار بہت زیادہ تھیں۔ نیک دل اور ہمدرد خاتون تھیں۔ وصیت بھی انہوں نے 1/3 حصہ کی کی ہوئی تھی۔ پسماندگان میں چار بیٹیاں اور ایک بیٹا شامل ہے۔ آپ کے سب بچے کسی نہ کسی رنگ میں جماعت کی خدمت کی توفیق پا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب مرحومین سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے، درجات بلند فرمائے۔
(الفضل انٹرنیشنل 15؍مئی2021ءصفحہ5تا10)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بےشک اللہ تعالیٰ نے حق کو عمرؓ کی زبان و دل پر قائم کر دیا اور وہ ’فاروق‘ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے ذریعہ سے حق و باطل میں فرق کر دیا۔
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت دوسرے خلیفہ ٔراشد فاروق اعظم، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اَللّٰہُمَّ أَعِزَّ الْإِسْلَامَ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ خَاصَّۃً کہ اے اللہ! خاص طور پر عمر بن خطاب کے ذریعہ اسلام کو عزت عطا کر۔
جب حضرت عمرؓ نے اسلام قبول کیا تو حضرت جبرئیل نازل ہوئے اور کہا اے محمدؐ ! عمرؓ کے اسلام لانے سے آسمان والے بھی خوش ہیں۔
چھ مرحومین مکرم احمد محمد عثمان شبوطی صاحب صدر جماعت احمدیہ یمن، مکرم قریشی ذکاءاللہ صاحب اکاؤنٹنٹ دفتر جلسہ سالانہ، مکرم ملک خالق داد صاحب کینیڈا، مکرم محمد سلیم صابر صاحب کارکن نظارت امورِ عامہ، محترمہ نعیمہ لطیف صاحبہ اہلیہ صاحبزادہ مہدی لطیف صاحب آف امریکہ اور محترمہ صفیہ بیگم صاحبہ اہلیہ محمد شریف صاحب آف کینیڈاکا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قبولِ اسلام کی بابت متعدد روایات کا بیان۔
فرمودہ 23؍اپریل2021ء بمطابق 23؍شہادت1400 ہجری شمسی، بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے۔
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔