حضرت عمر بن خطابؓ
خطبہ جمعہ 7؍ مئی 2021ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر ہو رہا تھا اور ان کے اسلام لانے کے بارے میں ذکر ہوا تھا۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عمرؓ کے اسلام قبول کرنے کے متعلق جس طرح بیان فرماتے ہیں وہ یہ ہے کہ ’’حضرت عمرؓ اسلام کی برابر سختی سے مخالفت کرتے رہے۔‘‘ یعنی جب تک اسلام نہیں لائے مسلسل مخالفت کر رہے تھے۔ ’’ایک دن ان کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ کیوں نہ اس مذہب کے بانی کا ہی کام تمام کرد یا جائے اور اس خیال کے آتے ہی انہوں نے تلوار ہاتھ میں لی اور رسول کریمﷺ کے قتل کیلئے گھر سے نکل کھڑے ہوئے۔ راستہ میں کسی نے پوچھاکہ عمرؓ کہاں جا رہے ہو؟ انہوں نے جواب دیا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو مارنے کیلئے جا رہا ہوں۔ اس شخص نے ہنس کر کہا اپنے گھر کی تو پہلے خبر لو۔ تمہاری بہن اور بہنوئی تو اس پر ایمان لے آئے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے کہا یہ جھوٹ ہے۔ اس شخص نے کہا تم خود جا کر دیکھ لو۔ حضرت عمرؓ وہاں گئے۔ دروازہ بند تھا اور اندر ایک صحابیؓ قرآن کریم پڑھا رہے تھے۔ آپ نے دستک دی۔ اندر سے آپؓ کے بہنوئی کی آواز آئی۔ کون ہے؟ عمرؓ نے جواب دیا عمر۔ انہوں نے جب دیکھا کہ حضرت عمرؓ آئے ہیں اور وہ جانتے تھے کہ آپ اسلام کے شدید مخالف ہیں تو انہوں نے صحابیؓ کو جو قرآن کریم پڑھا رہے تھے کہیں چھپا دیا۔ اسی طرح قرآن کریم کے اور اق بھی کسی کونہ میں چھپا کر رکھ دیئے اور پھر دروازہ کھولا۔ حضرت عمرؓ چونکہ یہ سن کر آئے تھے کہ وہ مسلمان ہو گئے ہیں۔‘‘ یعنی ان کے بہنوئی اور بہن۔ ’’اس لئے انہوں نے آتے ہی دریافت کیا کہ دروازہ کھولنے میں دیر کیوں کی ہے؟ آپ کے بہنوئی نے جواب دیا آخر دیر لگ ہی جاتی ہے۔ حضرت عمرؓ نے کہا: یہ بات نہیں۔ کوئی خاص امر دروازہ کھولنے میں روک بنا ہے۔ مجھے آواز آرہی تھی کہ تم اس صابی کی باتیں سن رہے تھے۔ (مشرکین مکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو صابی کہا کرتے تھے۔)انہوں نے پردہ ڈالنے کی کوشش کی‘‘ ان کے بہنوئی نے ’’لیکن حضرت عمرؓ کو غصہ آیا اور وہ اپنے بہنوئی کو مارنے کیلئے آگے بڑھے۔ آپ کی بہن اپنے خاوند کی محبت کی وجہ سے درمیان میں آگئیں۔ حضرت عمرؓ چونکہ ہاتھ اٹھا چکے تھے اور ان کی بہن اچانک درمیان میں آگئیں وہ اپنا ہاتھ روک نہ سکے اور ان کا ہاتھ زور سے ان کی ناک پر لگا‘‘ یعنی بہن کی ناک پر ’’اور اس سے خون بہنے لگا۔ حضرت عمرؓ جذباتی آدمی تھے یہ دیکھ کر کہ انہوں نے عورت پر ہاتھ اٹھایا ہے جو عرب کے طریق کے خلاف تھا اور پھر بہن پر ہاتھ اٹھایا ہے۔ حضرت عمرؓ نے بات ٹلانے کیلئے کہا اچھا مجھے بتاؤ تم کیا پڑھ رہے تھے؟ بہن نے سمجھ لیا کہ عمرؓ کے اندر نرمی کے جذبات پیدا ہو گئے ہیں۔ اس نے کہا جاؤ تمہارے جیسے انسان کے ہاتھ میں مَیں وہ پاک چیز دینے کیلئے تیار نہیں۔ حضرت عمرؓ نے کہا پھر مَیں کیا کروں؟ بہن نے کہا وہ سامنے پانی ہے نہا کر آؤ تب وہ چیز تمہارے ہاتھ میں دی جاسکتی ہے۔ حضرت عمرؓ نہائے اور واپس آئے۔ بہن نے قرآن کریم کے اور اق جو وہ سن رہے تھے آپ کے ہاتھ میں دئیے چونکہ حضرت عمرؓ کے اندر ایک تغیر پیدا ہو چکا تھا اس لئے قرآنی آیات پڑھتے ہی ان کے اندر رقت پیدا ہوئی اور جب وہ آیات ختم کر چکے تو بےاختیار انہوں نے کہا کہ اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدً ارَّسُوْلُ اللّٰہِ۔ یہ الفاظ سن کروہ صحابیؓ بھی باہر نکل آئے جو حضرت عمرؓ سے ڈر کر چھپ گئے تھے۔ پھر حضرت عمرؓ نے دریافت کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آج کل کہاں مقیم ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان دنوں مخالفت کی وجہ سے گھر بدلتے رہتے تھے۔ انہوں نے بتا یا کہ آج کل آپؐ دارِ ارقم میں تشریف رکھتے ہیں۔ حضرت عمرؓ فوراً اسی حالت میں جب کہ ننگی تلوار انہوں نے لٹکائی ہوئی تھی اس گھر کی طرف چل پڑے۔ بہن کے دل میں شبہ پیدا ہوا کہ شاید وہ بُری نیت سے نہ جا رہے ہوں۔ انہوں نے آگے بڑھ کر کہا خدا کی قسم! مَیں تمہیں اس وقت تک نہیں جانے دوں گی جب تک تم مجھے اطمینان نہ دلا دو کہ تم کوئی شرارت نہیں کرو گے۔ حضرت عمرؓ نے کہا کہ مَیں پکا وعدہ کرتاہوں کہ مَیں کوئی فسادنہیں کرونگا۔ حضرت عمرؓ وہاں پہنچے۔‘‘ یعنی اس جگہ جہاں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم تھے ’’اور دستک دی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ اندر بیٹھے ہوئے تھے دینی درس ہو رہاتھا۔ کسی صحابیؓ نے پوچھا کون؟ حضرت عمرؓ نے جواب دیا عمر! صحابہؓ نے کہا یا رسول اللہؐ ! دروازہ نہیں کھولنا چاہئے۔ ایسا نہ ہو کہ کوئی فساد کرے۔ حضرت حمزہؓ نئے نئے ایمان لائے ہوئے تھے وہ سپاہیانہ طرز کے آدمی تھے۔ انہوں نے کہا دروازہ کھول دو۔ مَیں دیکھوں گا وہ کیاکرتا ہے۔ چنانچہ ایک شخص نے دروازہ کھول دیا۔ حضرت عمرؓ آگے بڑھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ عمر! تم کب تک میری مخالفت میں بڑھتے چلے جاؤ گے؟ حضرت عمرؓ نے کہا یا رسول اللہؐ ! مَیں مخالفت کیلئے نہیں آیا مَیں تو آپؐ کا غلام بننے کیلئے آیا ہوں۔ وہ عمرؓ جو ایک گھنٹہ پہلے اسلام کے شدید دشمن تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مارنے کیلئے گھر سے نکلے تھے ایک آن میں اعلیٰ درجہ کے مومن بن گئے۔ حضرت عمرؓ مکہ کے رئیسوں میں سے نہیں تھے لیکن بہادری کی وجہ سے نوجوانوں پر آپ کا اچھا اثر تھا۔ جب آپ مسلمان ہوئے تو صحابہؓ نے جوش میں آکر نعرہ ہائے تکبیر بلند کئے۔ اس کے بعدنماز کا وقت آیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھنی چاہی تو وہی عمرؓ جو دو گھنٹے قبل گھر سے اس لئے نکلا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مارے۔ اس نے دوبارہ تلوار نکال لی اور کہا۔ یارسول اللہؐ ! خداتعالیٰ کا رسول اور اس کے ماننے والے تو چھپ کر نمازیں پڑھیں اور مشرکین مکہ باہر دندناتے پھریں یہ کس طرح ہوسکتا ہے؟ مَیں دیکھوں گا کہ ہمیں خانہ کعبہ میں نماز ادا کرنے سے کون روکتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ جذبہ تو بہت اچھا ہے لیکن ابھی حالات ایسے ہیں کہ ہمارا باہر نکلنا مناسب نہیں۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد6 صفحہ141تا143)
لیکن اس کے بعد پھر خانہ کعبہ میں نماز بھی ادا کی گئی جیسا کہ پہلے بھی اس کا ذکر ہو چکا ہے۔ اس کو حضرت مصلح موعودؓ نے بھی بیان فرمایا ہے کہ ’’ابتدائے زمانہ اسلام میں صرف دو شخص مسلمانوں میں بہادر سمجھے جاتے تھے۔ ایک حضرت عمرؓ اور دوسرے امیر حمزہؓ۔ جب یہ دونوں اسلام میں داخل ہوئے تو انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ ہم یہ پسندنہیں کرتے کہ ہم گھروں میں چھپ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کیا کریں۔ جب کعبہ پر ہمارا بھی حق ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اپنے اس حق کو حاصل نہ کریں اور کھلے بندوں اللہ تعالیٰ کی عبادت نہ کریں۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو کفار کو فساد کے جرم سے بچانے کے لئے گھر میں نماز ادا کر لیا کرتے تھے خانہ کعبہ میں عبادت کے لئے تشریف لے گئے اور اس وقت آپ کے ایک طرف حضرت عمرؓ تلوار کھینچ کر چلے جا رہے تھے اور دوسری طرف امیر حمزہؓ اور اس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خانہ کعبہ میں علی الاعلان نماز ادا کی۔‘‘ (خطبات محمود جلد23 صفحہ10)
جب حضرت عمرؓ کے اسلام کی خبر قریش میں پھیلی تو وہ سخت جوش میں آ گئے اور اسی جوش کی حالت میں انہوں نے حضرت عمرؓ کے مکان کا محاصرہ کر لیا۔ حضرت عمرؓ باہر نکلے تو ان کے ارد گرد لوگوں کا ایک بڑا مجمع اکٹھا ہو گیا اور قریب تھا کہ بعض جوشیلے ان پر حملہ آور ہو جائیں لیکن حضرت عمرؓ بھی نہایت دلیری کے ساتھ ان کے سامنے ڈٹے رہے۔ آخر اسی حالت میں مکہ کا رئیس اعظم عاص بن وائل وہاں آ گیا اور اس ہجوم کو دیکھ کر اس نے اپنے سردارانہ انداز میں آگے بڑھ کر پوچھا کہ یہ کیا معاملہ ہے؟ لوگوں نے کہا: عمر صابی ہو گیا ہے۔ اس رئیس نے موقع شناسی سے کام لیتے ہوئے کہا: تو خیر، پھر بھی اس ہنگامے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں عمرؓ کو پناہ دیتا ہوں۔ اس آواز کے سامنے عربی دستور کے مطابق لوگوں کو خاموش ہونا پڑا اور وہ آہستہ آہستہ منتشر ہو گئے۔ اس کے بعد حضرت عمرؓ چند دن تک امن میں رہے کیونکہ عاص بن وائل کی پناہ کی وجہ سے کوئی ان سے تعرض نہیں کرتا تھا لیکن اس حالت کو حضرت عمرؓ کی غیرت نے زیادہ دیر تک برداشت نہ کیا۔ چنانچہ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گذرا تھا کہ انہوں نے عاص بن وائل سے جا کر کہہ دیا کہ مَیں تمہاری پناہ سے نکلتا ہوں۔ حضرت عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد میں مکہ کی گلیوں میں بس پٹتا اور پیٹتا ہی رہتا تھا۔ یعنی لڑائی جھگڑا ہی رہتا تھا مگر حضرت عمرؓ نے کبھی کسی کے سامنے آنکھ نیچی نہیں کی۔ (ماخوذ ازسیرت خاتم النبیین از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ159)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ’’دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کتنے کتنے شدید دشمن تھے مگرپھر ان میں کیسی تبدیلی پیداہوئی۔ نہ صرف ان کی اصلاح ہوئی بلکہ وہ روحانیت کے ایسے اعلیٰ مقام پر پہنچ گئے کہ ان کا پہچاننا بھی مشکل ہو گیا۔‘‘ یعنی بالکل کایا پلٹ گئی۔ پہچانے نہیں جاتے تھے کہ یہ وہی لوگ ہیں۔ ’’حضرت عمرؓ جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف لٹھ لئے پھرتے تھے جب انہیں اسلام لانا نصیب ہوا تو ان میں ایسی تبدیلی پیدا ہوئی کہ دنیاکے فائدہ کے لئے اپنی جان جوکھوں میں ڈالنے لگے اور دن رات اسلام کی خدمت میں مصروف ہو گئے۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد7 صفحہ45)
یہاں ’’جان جوکھوں میں ڈالنے لگے‘‘ دین کے فائدہ کے لیے ہونا چاہیے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام حضرت عمرؓ کے قبول اسلام کا واقعہ بیان کرتے ہوئے اس طرح فرماتے ہیں: ’’حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دیکھو کس قدر فائدہ پہنچا۔ ایک زمانہ میں یہ ایمان نہ لائے تھے اور چار برس کا توقف ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ خوب مصلحت سمجھتا ہے کہ اس میں کیا سرّ تھا۔ ابوجہل نے تلاش کی کہ کوئی ایسا شخص تلاش کیا جاوے جو رسول اللہؐ کو قتل کر دے۔ اس وقت حضرت عمرؓ بڑے بہادر اور دلیر مشہور تھے اور شوکت رکھتے تھے۔ انہوں نے آپس میں مشورہ کر کے رسول اللہؐ کے قتل کا بیڑا اٹھایا اور معاہدہ پر حضرت عمرؓ اور ابو جہل کے دستخط ہو گئے اور قرار پایا کہ اگر عمرؓ قتل کر آویں تو اس قدر روپیہ دیا جاوے۔‘‘ فرماتے ہیں دیکھو ’’اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے کہ وہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو ایک وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوشہید کرنے کے لئے جاتے ہیں دوسرے وقت وہی عمرؓ اسلام میں ہو کر خود شہید ہوتے ہیں۔ وہ کیا عجیب زمانہ تھا۔ غرض اس وقت یہ معاہدہ ہوا کہ مَیں قتل کرتا ہوں۔ اس تحریر کے بعد آپؐ کی تلاش اور تجسس میں لگے راتوں کو پھرتے تھے۔‘‘ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں حضرت عمرؓ تجسس میں لگے رہتے تھے، راتوں کو پھرتے تھے ’’کہ کہیں تنہا مل جاویں تو قتل کر دوں‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو۔ ’’لوگوں سے دریافت کیا کہ آپؐ تنہا کہاں ہوتے ہیں۔ لوگوں نے کہا کہ نصف رات گزرنے کے بعد خانہ کعبہ میں جا کر نماز پڑھا کرتے ہیں۔ حضرت عمرؓ یہ سن کر بہت ہی خوش ہوئے۔ چنانچہ خانہ کعبہ میں آ کر چھپ رہے۔ جب تھوڑی دیر گزری تو جنگل سے لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ کی آواز آتی ہوئی معلوم ہوئی اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی آواز تھی۔ اس آواز کو سن کر اور یہ معلوم کر کے کہ وہ ادھر ہی کو آرہی ہے۔ حضرت عمرؓ اور بھی احتیاط کر کے چھپے اور یہ ارادہ کر لیا کہ جب سجدہ میں جائیں گے تو تلوار مار کر سر مبارک تن سے جدا کر دوں گا۔ آپؐ نے آتے ہی نماز شروع کر دی۔ پھر اس سے آگے کے واقعات خود حضرت عمرؓ بیان کرتے ہیں۔‘‘ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ ’’اس سے آگے کے واقعات حضرت عمرؓ خود بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ میں اس قدر رو رو کر دعائیں کیں کہ مجھ پر لرزہ پڑنے لگا۔ یہاں تک کہ آنحضرتﷺ نے یہ بھی کہا کہ سَجَدَ لَکَ رُوْحِیْ وَجَنَانِیْ۔ یعنی اے میرے مولیٰ! میری روح اور میرے دل نے بھی تجھے سجدہ کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ان دعاؤں کو سن سن کر جگر پاش پاش ہوتا تھا۔ آخر میرے ہاتھ سے ہیبت حق کی وجہ سے تلوار گر پڑی۔ میں نے آنحضرتﷺ کی اس حالت سے سمجھ لیا کہ یہ سچاہے اور ضرور کامیاب ہو جائے گا مگر نفس امارہ برا ہوتا ہے۔‘‘ بار بار ابھارتا ہے۔ ’’جب آپؐ نماز پڑھ کر نکلے مَیں پیچھے پیچھے ہو لیا۔ پاؤں کی آہٹ جو آپؐ کو معلوم ہوئی۔ رات اندھیری تھی۔ آنحضرتﷺ نے پوچھا کون ہے؟ مَیں نے کہا عمر۔ آپؐ نے فرمایا اے عمرؓ !نہ تو رات کو پیچھا چھوڑتا ہے اور نہ دن کو۔ اس وقت مجھے رسول اللہؐ کی روح کی خوشبو آئی اور میری روح نے محسوس کیا کہ آنحضرتﷺ بددعا کریں گے۔ مَیں نے عرض کیا: یا حضرت! بددعا نہ کریں۔ حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ وہ وقت اور وہ گھڑی میرے اسلام کی تھی۔ یہاں تک کہ خدا نے مجھے توفیق دی کہ میں مسلمان ہو گیا۔‘‘ (ملفوظات جلد 2صفحہ 180-181)
یہ ایک روایت ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اور ایک اَور جگہ دوسری بھی اسی کی تفصیل بیان کرتے ہوئے ایک وقفہ کے بعد آپؑ نے بیان فرمائی ہے۔ وہ بھی یہی باتیں ہیں لیکن اس میں آخر میں ایک دو الفاظ ذرا مزید مختلف نتیجہ نکالے ہوئے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ ’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ ابو جہل کے ساتھ اسلام سے پہلے ملتے تھے۔ بلکہ لکھا ہے کہ ایک مرتبہ ابوجہل نے منصوبہ کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا خاتمہ کر دیا جاوے اور کچھ روپیہ بھی بطور انعام مقرر کیا۔ حضرت عمرؓ اس کام کے لیے منتخب ہوئے۔ چنانچہ انہوں نے اپنی تلوار کو تیز کیا اور موقع کی تلاش میں رہے۔ آخر حضرت عمرؓ کو پتہ ملا کہ آدھی رات کو آپؐ کعبہ میں آکر نماز پڑھتے ہیں۔ چنانچہ یہ کعبہ میں آکر چھپ رہے اور انہوں نے سنا کہ جنگل کی طرف سے لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ کی آواز آتی ہے اور وہ آواز قریب آتی گئی۔ یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ میں آ داخل ہوئے اور آپؐ نے نماز پڑھی۔ حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ آپؐ نے سجدہ میں اس قدر منا جات کی کہ مجھے تلوار چلانے کی جرأت نہ رہی۔ چنانچہ جب آپؐ نماز سے فارغ ہوئے تو آپؐ آگے چلے۔ پیچھے پیچھے مَیں تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو میرے پاؤں کی آہٹ معلوم ہوئی اور آپؐ نے پوچھا کون ہے؟ مَیں نے کہا کہ عمر۔ اس پر آپؐ نے فرمایا۔ اے عمرؓ ! نہ تُو دن کو میرا پیچھا چھوڑتا ہے نہ رات کو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول سے حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ مَیں نے محسوس کیا کہ آپؐ بددعا کریں گے۔ اس لیے میں نے کہا کہ حضرت آج کے بعد میں آپؐ کو ایذا نہ دوں گا۔ عربوں میں چونکہ وعدہ کا لحاظ بہت بڑا ہوتا تھا۔ اس لیے آنحضرتؐ نے یقین کر لیا مگر دراصل حضرت عمرؓ کا وقت آپہنچا تھا۔‘‘ یہ باتیں پچھلے حوالے سے ذرا نئی ہیں۔ ’’آنحضرتؐ کے دل میں گذرا کہ اس کو خدا ضائع نہیں کرے گا۔ چنانچہ آخر حضرت عمر مسلمان ہوئے اور پھر وہ دوستیاں وہ تعلقات جو ابو جہل اور دوسرے مخالفوں سے تھے یکلخت ٹوٹ گئے اور ان کی جگہ ایک نئی اخوت قائم ہوئی۔ حضرت ابو بکرؓ اور دوسرے صحابہؓ ملے اور پھر ان پہلے تعلقات کی طرف کبھی خیال تک نہ آیا۔‘‘ (ملفوظات جلد3صفحہ340)
ایک جگہ حضرت عمرؓ کے قبول اسلام کا وہی واقعہ اسی طرز پہ بیان کرتے ہوئے پھر آپؑ نے بیان فرمایا ہے۔ ہلکے سے چند ایک الفاظ مختلف ہوں گے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’حضرت عمرؓ کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے لیے جانا آپ لوگوں نے سنا ہو گا۔ ابو جہل نے ایک قسم کا اشتہار قوم میں دے رکھا تھا کہ جو جناب رسالت مآب کو قتل کرے گا وہ بہت کچھ انعام و اکرام کا مستحق ہو گا۔ حضرت عمرؓ نے مشرف باسلام ہونے سے پہلے ابو جہل سے معاہدہ کیا اور قتل حضرت کے لیے آمادہ ہو گیا۔ اس کو کسی عمدہ وقت کی تلاش تھی۔ دریافت پر اسے معلوم ہوا کہ حضرت نصف شب کے وقت خانہ کعبہ میں بغرض نماز آتے ہیں۔ یہ وقت عمدہ سمجھ کر حضرت عمرؓ سر شام خانہ کعبہ میں جا چھپے۔ آدھی رات کے وقت جنگل میں سے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کی آواز آنا شروع ہوئی۔ حضرت عمرؓ نے ارادہ کیا کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں گریں تو اس وقت قتل کروں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے درد کے ساتھ مناجات شروع کی اور سجدہ میں اس طرح حمدِ الٰہی کا ذکر کیا کہ حضرت عمرؓ کا دل پسیج گیا۔ اس کی ساری جرأت جاتی رہی اور اس کا قاتلانہ ہاتھ سست ہو گیا۔‘‘ یہاں اس میں حضرت عمرؓ کی نرمی کو آپؑ نے اس طرح بیان کیا ہے۔ ’’نماز ختم کر کے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم گھر کو چلے تو ان کے پیچھے حضرت عمرؓ ہو گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آہٹ پا کر دریافت کیا اور معلوم ہونے پر فرمایا کہ اے عمرؓ !کیا تُو میرا پیچھا نہ چھوڑے گا۔ حضرت عمرؓ بد دعا کے ڈر سے بول اٹھے کہ حضرت مَیں نے آپؐ کے قتل کا ارادہ چھوڑ دیا۔ میرے حق میں بد دعا نہ کیجئے گا۔ چنانچہ حضرت عمرؓ فرمایا کرتے تھے کہ وہ پہلی رات تھی جب مجھ میں اسلام کی محبت پیدا ہوئی۔‘‘ (ملفوظات جلد 7صفحہ61)
یہ بتانے کے لیے اب مَیں نے تین مختلف حوالے پڑھے ہیں۔ ایک جنوری 1901ء کا ہے، ایک اگست 1902ء کا، ایک جون 1904ءکا ہے یا شاید 1907ء کا ہے۔ بہرحال ان تینوں جگہوں پر رات کو خانہ کعبہ میں حملے کا ذکر آپؑ نے فرمایا ہے۔ شاید اس کے بعد پھر نفس کے ہاتھوں مجبور ہو کر دن کو بھی نکلے ہوں گے اور وہ بہن بھائی والا واقعہ پیش آیا جس کو عام بیان کیا جاتا ہے لیکن بہرحال آپ نے تینوں دفعہ یہی فرمایا اور یہ ہوا کیونکہ نفس امارہ کا بھی آپ نے ذکر کیا۔ ہو سکتا ہے پھر ایک جوش آیا ہو اور اس وقت نکلے ہوں اور دونوں واقعات میں یہ ذکر تو بہرحال ہے چاہے وہ بہن والا واقعہ، بہن بہنوئی والا یایہ رات کو قتل والا کہ ابوجہل کے بھڑکانے اور انعام مقرر کرنے پہ آپؓ نے، حضرت عمرؓ نے یہ ارادہ کیا تھا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’ابوجہل کو فرعون کہا گیا ہے مگر میرے نزدیک وہ تو فرعون سے بڑھ کر ہے فرعون نے تو آخر کہا۔ اٰمَنۡتُ اَنَّہٗ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا الَّذِیۡۤ اٰمَنَتۡ بِہٖ بَنُوۡۤا اِسۡرَآءِیۡلَ(یونس: 91) مگر یہ آخر تک ایمان نہ لایا مکہ میں سارا فساد اسی کا تھا اور بڑا متکبر اور خود پسند، عظمت اور شرف کو چاہنے والا تھا اس کا اصل نام بھی عمرو تھا اور یہ دونوں عمر مکہ میں تھے۔ خدا کی حکمت کہ ایک عمرؓ کو کھینچ لیا اور ایک بے نصیب رہا۔ اس کی روح تو دوزخ میں جلتی ہوگی اور حضرت عمرؓ نے ضد چھوڑ دی تو بادشاہ ہوگئے۔‘‘ (ملفوظات جلد 4 صفحہ 247)
حضرت ابنِ عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عمر بن خطابؓ نے اسلام قبول کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا کرتے ہوئے آپؓ کے سینے پر تین دفعہ ہاتھ مارا۔ اَللّٰھُمَّ اَخْرِجْ مَا فِیْ صَدْرِہٖ مِنْ غِلٍّ، وَ أَبْدِلْہُ اِیْمَانًا۔ اے اللہ ! اس کے سینے میں جو کچھ بھی بغض ہے اس کو دور کر دے اور اس کو ایمان سے بدل دے۔ آپؐ نے یہ دعا تین دفعہ فرمائی۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جزء 3صفحہ 237 باب عمربن الخطاب دارالکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)
جیسا کہ ہم حضرت عمرؓ کے اسلام لانے سے پہلے کی زندگی میں دیکھ آئے ہیں کہ حضرت عمرؓ اسلام لانے سے پہلے مسلمانوں کے سخت خلاف تھے لیکن جب آپؓ اسلام لائے تو آپ کا اسلام قبول کرنا مسلمانوں کے لیے فتح اور تنگی سے نجات کا ذریعہ ثابت ہوا۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے اس وقت تک کھل کر اللہ کی عبادت نہیں کی جب تک کہ حضرت عمرؓ ایمان نہ لے آئے۔ (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ الجزء 4صفحہ 484 ذکر عمر بن الخطاب دارالکتب العلمیۃ بیروت2005ء)
عبدالرحمٰن بن حارث بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ جس رات مَیں نے اسلام اختیار کیا تو مَیں نے سوچا کہ اہلِ مکہ میں سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عداوت میں سب سے زیادہ کون بڑھا ہوا ہے کہ مَیں اس کے پاس جاؤں اور اس کو بتاؤں کہ مَیں نے اسلام قبول کر لیا ہے۔ حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ مَیں نے سوچا وہ ابوجہل ہی ہے۔ اس پر حضرت عمرؓ نے کہا کہ جب صبح ہوئی تو مَیں اس کے پاس گیا اور اس کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ آپؓ کہتے ہیں کہ ابوجہل میرے پاس آیا اور کہا: اے میرے بھانجے خوش آمدید۔ حضرت عمرؓ کو اس نے کہا کہ میرے بھانجے خوش آمدید۔ تم کس لیے آئے ہو؟ حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ مَیں نے کہا کہ مَیں تمہیں بتانے آیا ہوں کہ مَیں اللہ پر اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آیا ہوں اور مَیں نے اس کی تصدیق کی ہے جو وہ لایا ہے۔ حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ اس نے دروازہ مجھ پر بند کر دیا اور کہا کہ اللہ تجھ کو اور اس چیز کو جو تُو لایا ہے برباد کرے۔ (سیرت ابن ہشام صفحہ162 ذکر اسلام عمر بن خطاب دار ابن حزم بیروت 2009ء)
یہ ابوجہل کے الفاظ تھے۔
حضرت ابنِ عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ جب میرے والد حضرت عمرؓ نے اسلام قبول کیا تو انہوں نے لوگوں سے پوچھا کہ قریش میں سب سے زیادہ باتیں پھیلانے کی عادت کس شخص کو ہے؟ انہوں نے بتایا کہ جمیل بن مَعْمَرْ جُمْحِی۔ حضرت ابنِ عمرؓ کہتے ہیں کہ آپؓ صبح صبح اس کے پاس چلے گئے اور مَیں بھی آپؓ کے پیچھے پیچھے گیا اور مَیں دیکھ رہا تھا کہ آپؓ کیا کرتے ہیں اور مَیں کم عمر تو تھا لیکن جو کچھ دیکھتا تھا اس کو سمجھتا تھا۔ یہ ابنِ عمرؓ کہہ رہے ہیں۔ یہاں تک کہ جب آپؓ اس کے پاس پہنچے تو اس سے کہا کہ اے جمیل!کیا تجھے معلوم ہے کہ مَیں نے اسلام قبول کر لیا ہے اور دین ِمحمد صلی اللہ علیہ وسلم میں داخل ہو چکا ہوں۔ حضرت ابنِ عمرؓ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم ! آپؓ نے اس بات کو دہرایا نہیں تھا یعنی دوسری دفعہ کہنے کی ضرورت نہیں پڑی کہ وہ اپنی چادر کو گھسیٹتے ہوئے نکل پڑا اور حضرت عمرؓ بھی اس کے پیچھے پیچھے ہو لیے۔ حضرت ابنِ عمرؓ کہتے ہیں کہ مَیں بھی اپنے والد کے پیچھے ہو لیا یہاں تک کہ جب وہ یعنی وہ شخص جمیل خانہ کعبہ کے دروازے پر کھڑا ہو گیا اور بلند آواز سے پھر چیخا کہ اے قریش کے گروہ! اس نے کعبہ کے دروازے پر کھڑے ہو کے یہ اعلان کیا کہ اے قریش کے گروہ! اور وہ لوگ کعبہ کے گرد اپنی اپنی مجلسوں میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اس کی طرف متوجہ ہوئے۔ اس نے کہا کہ سن لو عمرؓ بن خطاب صابی ہو گیا ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ اس کے پیچھے سے یہ کہہ رہے تھے کہ اس نے جھوٹ کہا ہے۔ مَیں نے تو اسلام قبول کیا ہے۔ صابی نہیں ہوا بلکہ مَیں نے اسلام قبول کیا ہے اور اس بات کی گواہی دی ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبودنہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ پھر قریش آپؓ پر جھپٹے۔ آپؓ ان سے اور وہ آپؓ سے برابر لڑتے رہے یعنی پھر لڑائی ہوتی رہی یہاں تک کہ سورج ان کے سروں پر آگیا۔ راوی نے کہا کہ آپ تھک گئے یعنی حضرت عمرؓ تھک گئے تو بیٹھ گئے اور لوگ آپؓ کے سر پر کھڑے ہو گئے۔ آپؓ کہہ رہے تھے تم جو چاہو کرو میں اللہ کی قسم کھاتا ہوں کہ اگر ہم تین سو مرد ہو گئے تو ہم اسے یعنی مکہ کو تمہارے لیے چھوڑ دیں گے یا تم اسے ہمارے لیے چھوڑ دو گے۔ یعنی پھر ہم آزادی سے ہر چیز کریں گے۔ راوی نے کہا کہ وہ لوگ اسی حالت میں تھے کہ قریش میں سے ایک بوڑھا شخص آیا جو یمنی کپڑے کا نیا لباس اور نقش و نگار والی قمیص پہنے ہوئے تھا یہاں تک کہ وہ ان کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا اور کہا کہ تمہارا کیا معاملہ ہے؟ انہوں نے کہا کہ عمر صابی ہو گیا ہے۔ اس نے کہا کہ پھر کیا ہوا۔ ایک شخص نے اپنے لیے ایک بات اختیار کر لی ہے۔ پھرتم کیا چاہتے ہو؟کیا تم سمجھتے ہو کہ بنو عدی بن کعب اپنے آدمی کو اس طرح تمہارے حوالے کر دیں گے۔ اس شخص کو چھوڑ دو۔ راوی کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم! پھر وہ لوگ آپ سے یکدفعہ الگ ہو گئے۔ حضرت عمرؓ کے بیٹے ابنِ عمرؓ کہتے ہیں کہ مَیں نے اپنے والد سے یعنی حضرت عمرؓ سے پوچھا جبکہ انہوں نے مدینہ کی طرف ہجرت کر لی تھی۔ بہت عرصہ بعد مدینہ ہجرت کرنے کے بعد ان سے پوچھا کہ اے میرے باپ! وہ شخص کون تھا جس نے مکہ میں آپؓ کے اسلام قبول کرنے کے دن لوگوں کو جھڑک کر آپ سے دُور کر دیا تھا جبکہ وہ آپ سے لڑ رہے تھے۔ فرمایا: اے میرے پیارے بیٹے! وہ عاص بن وائل سَہْمِی تھا۔ (سیرت ابن ہشام صفحہ 161-162 ذکر اسلام عمر بن خطاب دار ابن حزم بیروت 2009ء)
بخاری میں ایک روایت یہ بھی بیان ہوئی ہے۔ حضرت ابنِ عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار حضرت عمرؓ اپنے گھر میں خوفزدہ بیٹھے تھے کہ اتنے میں ابو عمرو عاص بن وائل سَہْمِی آیا اور وہ ایک نقش دار چادر اور ایک ریشمی حاشیہ دار قمیص پہنے ہوئے تھا اور وہ بنو سہم قبیلہ میں سے تھا جو زمانہ جاہلیت میں ہمارا حلیف تھا۔ عاص نے حضرت عمرؓ سے کہا تمہارا یہ کیا حال ہے؟حضرت عمرؓ نے کہا تمہاری قوم یہ خیال کرتی ہے کہ مَیں مسلمان ہو گیا تو مجھے مار ڈالیں گے۔ انہوں نے کہا کہ تم تک کوئی نہیں پہنچ سکے گا۔ جب عاص نے یہ بات کہی تو میں مطمئن ہو گیا۔ عاص چلا گیا اور لوگوں سے ملا۔ یہ حالت تھی کہ وادی مکہ ان لوگوں سے بھری ہوئی تھی۔ عاص نے پوچھا کہاں کا قصد ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہم اس خطاب کے بیٹے کی طرف جا رہے ہیں جو بے دین ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا: اس کے پاس نہیں جانا۔ یہ سن کر لوگ واپس آ گئے۔ (صحیح البخاری کتاب مناقب الانصار باب اسلام عمر بن الخطاب حدیث3864)
حضرت عمرؓ کے خوفزدہ ہونے والی یہ بات جو روایت میں آتی ہے وہ صحیح نہیں لگتی۔ یہ تو حضرت عمرؓ کی طبیعت کے خلاف بات ہے۔ ہو سکتا ہے کہ پریشانی کے آثار ہوں جسے راوی نے خوف سمجھا ہو جیسا کہ پہلے بھی ایک روایت میں آ چکا ہے کہ کچھ عرصہ بعد حضرت عمرؓ نے یہ پناہ واپس بھی کر دی تھی اور اس کا ذکر آگے بھی ملے گا۔ حضرت عمرؓ کے اسلام قبول کرنے کی روایات کی تشریح میں عاص بن وائل سَہْمِی کا ذکر کرتے ہوئے حضرت زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ لکھتے ہیں کہ
حضرت عمرؓ کے اسلام قبول کرنے سے پہلے چند لوگ جو ایمان لائے تھے ان پر سختی کیے جانے کا بھی ذکر ہے اور بتایا گیا ہے کہ حضرت عمرؓ بھی مسلمان ہونے پر سختی کا نشانہ بنتے اگر عاص بن وائل سہمی انہیں اپنی پناہ میں لینے کا اعلان نہ کرتا۔ عاص بن وائل قریش کے معزز ترین اشخاص میں سے تھا اور بنو سہم قبیلہ میں سے تھا۔ اس کا نسب نامہ یہ ہے۔ عاص بن وائل بن ہاشم بن سعید بن سہم۔ ہجرت سے قبل بحالت کفر ہی فوت ہو گیا تھا اور حضرت عمرؓ بنو عدی خاندان میں سے تھے اور بنو عدی اور بنو سہم کے خاندان ایک دوسرے کے حلیف تھے اور اس معاہدہ اور دوستی اور مدد کی وجہ سے عاص بن وائل نے اپنا اخلاقی فرض جانا کہ حضرت عمرؓ کی مدد کریں۔ (ماخوذ ازصحیح البخاری (مترجم) کتاب مناقب الانصار باب اسلام عمر بن الخطاب جلد 7 صفحہ 346-347)
جیسا کہ مَیں نے پہلے بتایا کہ حضرت عمرؓ نے عاص بن وائل کی پناہ کو ایک وقت میں ردّ کر دیا تھا۔ چنانچہ اس بارے میں حضرت عمرؓ خود ہی بیان کرتے ہیں کہ مَیں نہیں چاہتا تھا کہ کسی مسلمان کو مار پڑتے ہوئے دیکھتا رہوں اور مجھے نہ مارا جائے۔ آپؓ کہتے ہیں کہ میں نے سوچا یہ تو کوئی بات نہیں۔ یہاں تک کہ مجھے بھی وہی تکلیف پہنچے جو دوسرے مسلمانوں کو پہنچ رہی ہے۔ آپؓ کہتے ہیں میں اس وقت تک رکا رہا یہاں تک کہ وہ لوگ کعبہ میں اکٹھے ہوئے۔ مَیں اپنے ماموں عاص بن وائل کے پاس گیا۔ مَیں نے کہا میری بات سنیں اس نے کہا مَیں کیا بات سنوں۔ آپؓ کہتے ہیں مَیں نے کہا کہ آپ کی پناہ آپ کو واپس لوٹاتا ہوں۔ حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ اس نے کہا کہ اے میرے بھانجے ایسا نہ کر۔ میں نے کہا: بس ایسا ہی ہے۔ اس نے کہا: جیسے تمہاری مرضی۔ حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ مَیں نے پناہ واپس لوٹا دی تو اس کے بعد بس مَیں مار کھاتا اور مارتا ہی رہا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کو عزت عطا کی۔ (اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 141 عمر بن الخطابؓ دارالکتب العلمیۃ 2003)
محمد بن عبید بیان کرتے ہیں کہ مجھے یاد ہے ہم بیت اللہ میں نماز ادا نہیں کر سکتے تھے یہاں تک کہ حضرت عمرؓ نے اسلام قبول کر لیا۔ جب حضرت عمرؓ اسلام لے آئے تو آپؓ نے ان کفار سے لڑائی کی یہاں تک کہ انہوں نے ہمیں چھوڑ دیا اور ہم نماز ادا کرنے لگے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد3 صفحہ 143 اسلام عمرؓ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت1996ء)
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ جب سے حضرت عمرؓ مسلمان ہوئے ہم عزت سے ہی رہے۔ (صحیح البخاری کتاب فضائل اصحاب النبی باب حضرت عمرؓ حدیث 3684)
جو بعد کی سختیاں تھیں سختیاں تو وہی جاری رہی ہیں لیکن پہلی سختیوں کے مقابلے میں یہ لوگ ان سختیوں کو سختیاں نہیں سمجھتے تھے حالانکہ تاریخ بتاتی ہے کہ حضرت عمرؓ کو بھی سختیاں جھیلنی پڑیں۔ حضرت عبداللہ بن ہشامؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ آپؐ حضرت عمر بن خطابؓ کا ہاتھ تھامے ہوئے تھے۔ حضرت عمرؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ ! آپ مجھے ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں سوائے میرے نفس کے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے فرمایا: نہیں۔ اس کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے تمہارا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا جب تک مَیں تمہارے نفس سے زیادہ تمہیں محبوب نہ ہو جاؤں۔ یہ بڑی ضروری چیز ہے۔ حضرت عمرؓ نے آپؐ سے عرض کیا۔ اللہ کی قسم! اب آپؐ مجھے میرے نفس سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں اب ہے عمرؓ، اب ہے عمرؓ۔ (صحیح البخاری کتاب الایمان والنذور باب کیف کانت یمین النبیﷺ۔ ۔ حدیث 6632)
یعنی اب ٹھیک ہے۔ یہ ہے ایمان کی حالت۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ حضرت عمرؓ کی مدینہ کی طرف ہجرت کا ذکر کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ مجھے علی بن ابوطالبؓ نے بتایا کہ مَیں مہاجرین میں سے کسی کو نہیں جانتا جس نے چھپ کر ہجرت نہ کی ہو سوائے حضرت عمر بن خطابؓ کے۔ جب آپؓ نے ہجرت کا ارادہ کیا تو آپؓ نے تلوار لٹکائی، کندھے پر اپنی کمان رکھی، تیر ہاتھ میں لیے اور نیزہ پکڑے ہوئے کعبہ کی طرف گئے۔ سردارانِ قریش اس کے صحن میں تھے۔ آپؓ نے وقار کے ساتھ کعبہ کے سات چکر لگائے۔ پھر آپؓ مقام ابراہیم پر آئے اور اطمینان سے نماز ادا کی۔ پھر آپؓ ہر گروہ کے پاس ایک ایک کر کے کھڑے ہوئے اور ان سے کہا: چہرے بگڑ جائیں اللہ ناکوں کو خاک آلودہ کر دے۔ جو چاہتا ہے کہ اس کی ماں اسے کھوئے اس کی اولاد یتیم ہو اور اس کی بیوی بیوہ ہو وہ اس وادی کے پار مجھے مل لے۔ حضرت علیؓ کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کا سوائے چند کمزور مسلمانوں کے کسی نے پیچھا نہ کیا اور آپؓ نے انہیں معلومات فراہم کیں اور ان کی رہنمائی کی۔ پھر اپنے رستے پر چل پڑے۔ (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلدنمبر 3صفحہ648 649-عمر بن الخطاب ھجرتہ مطبوعہ دارالفکر بیروت2003ء)
حضرت عمرؓ کی اس طرح کھل کے ہجرت کرنے کے بارے میں حضرت علیؓ کی صرف یہی ایک روایت ہے جو بیان کی جاتی ہے لیکن کئی سیرت نگار اس سے مختلف رائے رکھتے ہیں۔ محمد حسین ہیکل نے حضرت عمرؓ کی سیرت و سوانح پر مشتمل ایک کتاب لکھی ہے۔ اس نے اس بحث کو اٹھایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا کہ خاموشی سے چپکے سے اور چھپ کر مکہ سے نکلیں تا کہ مخالفین کو علم نہ ہو مبادا وہ روک پیدا کریں اور مزید تنگ کریں۔ تو اس واضح حکم کے ہوتے ہوئے حضرت عمرؓ کیسے اس کی نافرمانی کر سکتے تھے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ طبقات ابن سعد اور ابن ہشام میں وضاحت سے لکھا ہے کہ حضرت عمرؓ نے بھی دیگر مسلمانوں کی طرح چپکے سے ہجرت کی تھی۔ بہرحال اگر حضرت علیؓ کی روایت کو کسی طرح صحیح قرار دینا بھی ہے تو ہو سکتا ہے کہ کسی وقت کھڑے ہو کر یہ اعلان کیا ہو اور اس وقت ہجرت نہ کی ہو۔ کعبہ میں کھڑے ہو کر سرداروں کے سامنے جو اعلان کیا تھا کہ مَیں جا رہا ہوں مجھے روک لینا لیکن ہجرت نہ کی ہو اور جب ہجرت کا پروگرام بنا تو خاموشی سے ہجرت کی۔ بہرحال ہیکل کی یہ بات اپنے اندر وزن رکھتی ہے۔ اور جیسا کہ مَیں نے بتایا کہ طبقات ابن سعد اور ابن ہشام بھی ایسا ہی لکھتے ہیں۔ لگتا یہی ہے کہ حضرت عمرؓ نے بھی دیگر مسلمانوں کی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق خاموشی سے ہجرت کی ہو گی کیونکہ مکہ میں جیسے حالات تھے ان کے پیش نظر کھلم کھلا ایسا کرنا ممکن نہیں تھا بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ فتح مکہ تک جس نے بھی ہجرت کی اس نے خاموشی سے ہجرت کرنے میں ہی عافیت جانی۔ بہرحال اگر حضرت علیؓ کی اس روایت کو صحیح بھی مانا جائے تو ہو سکتا ہے کہ انفرادی فعل ہو لیکن بظاہر شواہد یہی ہیں کہ لگتا ہے کہ یہ صحیح نہیں ہے۔ (الفاروق عمر از محمد حسین ہیکل جزء1 صفحہ53-54 باب فی صحبۃ النبیﷺ مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2007ء)
حضرت بَرَاء بن عَازِبؓ بیان کرتے ہیں کہ سب سے پہلے مہاجرین میں سے جو ہمارے پاس آئے وہ حضرت مُصْعَب بن عُمیرؓ تھے جو بنو عبدالدار میں سے تھے۔ پھر حضرت ابن ام مکتومؓ آئے جو نابینا تھے اور بنوفَہْر میں سے تھے۔ پھر حضرت عمر بن خطابؓ بیس لوگوں کے ساتھ سوار ہو کر آئے۔ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ آپؐ میرے پیچھے ہی ہیں یعنی کچھ عرصہ بعد آجائیں گے۔ پھر کچھ عرصہ بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ابوبکرؓ آپؐ کے ساتھ تھے۔ (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلد 4 صفحہ145دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان2003ء)
اگر یہ روایت صحیح ہے تو پھر زیادہ قوی امکان یہی ہے کہ حضرت عمرؓ نے کسی وقت مجلس میں ہجرت کا ذکر کر دیا ہو اور جوش میں کہہ دیا ہو کہ مجھے روک کر دکھانا لیکن ہجرت خاموشی سے ہی کی ہے کیونکہ یہ روایت بھی آتی ہے کہ بیس لوگ آپ کے ساتھ تھے۔ بہرحال واللّٰہ اعلم۔ حضرت عمرؓ مدینہ پہنچ کر قُبَامیں رِفَاعہ بن عبدالمنذِر کے مہمان ہوئے۔ (سیر الصحابہ جلد1 صفحہ93مکتبہ دارالاشاعت اردو بازار کراچی2004ء)
قُبَاجیسا کہ ہم جانتے ہیں مدینے سے تین میل کے فاصلے پر اس کی بالائی آبادی ہے اور یہاں انصار کے کچھ خاندان آباد تھے۔ ان سب میں ممتاز عمرو بن عوف کا خاندان تھا۔ اس خاندان کے سردار کلثوم بن ہِدْم تھے۔ قُبَاپہنچ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہی کے مکان پر قیام فرمایا تھا۔ (فرہنگ سیرت صفحہ 230)
حضرت عمرؓ کی مؤاخات کے متعلق مختلف روایات ملتی ہیں۔ ایک روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرؓ اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی لیکن یہ مؤاخات بھی دو مواقع پر ہوئی تھی ایک دفعہ مکہ میں اور ایک دفعہ ہجرت کے بعد مدینہ میں۔ مکہ میں جو مؤاخات قائم فرمائی تھی اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھ حضرت علیؓ کو رکھا تھا اور حضرت ابوبکرؓ کی حضرت عمرؓ کے ساتھ مؤاخات قائم فرمائی تھی۔ بہرحال مؤاخات قائم ہونے کے یہ دونوں علیحدہ علیحدہ واقعات ہیں۔ مدینہ میں مہاجر اور انصار کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی تھی اور ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد حضرت عمر بن خطابؓ اور حضرت عُوَیْم بن سَاعِدَہؓ کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی تھی۔ ایک دوسری روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر بن خطابؓ کی مؤاخات حضرت عِتْبَان بن مالِکؓ کے ساتھ قائم فرمائی تھی۔ ایک اَور روایت کے مطابق حضرت عمرؓ کی مؤاخات حضرت مُعَاذ بن عَفْرَاءؓ سے قائم فرمائی تھی۔ (سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد جلد3 صفحہ363 فی مواخاتہﷺ بین اصحابہ رضی اللّٰہ عنہم۔ مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1993ء)(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد3صفحہ206 دارالکتب العلمیۃ بیروت 2012ء)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے تو یہ لکھا ہے کہ حضرت عمرؓ کی مؤاخات حضرت عِتْبَان بن مالِکؓ سے ہوئی تھی۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحہ277)
اذان کی ابتدا کے بارے میں ایک روایت یوں ملتی ہے کہ محمد بن عبداللہ بن زید اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ہم صبح کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور میں نے آپؐ کو خواب سنائی۔ یہ حضرت عبداللہ کے ضمن میں بھی ذکر ہو چکا ہے تو یہاں بھی حضرت عمرؓ کا کیونکہ ذکر ہے اس لیے کچھ تھوڑا سا حصہ بیان کر دیتا ہوں یا دوسری روایات میں دیکھ کے کر دیتا ہوں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یقیناً یہ رؤیا سچی ہے جو خواب بیان کی۔ تم بلالؓ کے ساتھ جاؤ کیونکہ وہ تمہاری نسبت زیادہ بلند آواز والے اور منادی کرنے والے ہیں۔ ان کو بتاتے جاؤ جو تمہیں بتایا گیا ہے۔ پس وہ اس کی منادی کرے۔ وہ یعنی حضرت عبداللہ بن زیدؓ کہتے ہیں کہ جب حضرت عمر بن خطابؓ نے نماز کے لیے حضرت بلالؓ کی آواز سنی تو حضرت عمر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنی چادر گھسیٹتے ہوئے آئے اور وہ یہ کہہ رہے تھے کہ یا رسول اللہؐ ! اس کی قَسم جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے یقیناً مَیں نے بھی وہی دیکھا ہے جیسا کہ اس نے اذان میں کہا ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پس تمام حمد اللہ ہی کے لیے ہے۔ یہ بات زیادہ پختہ ہے۔ (سنن الترمذی کتاب الصلوٰۃ باب ما جاء فی بدء الاذان حدیث 189)
حضرت مصلح موعودؓ اس کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں حضرت عبداللہ بن زیدؓ ایک صحابی تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کورؤیاکے ذریعہ سے اذان سکھائی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہی کی رؤیاپرانحصار کرتے ہوئے مسلمانوں میں اذان کارواج ڈالا۔ بعد میں قرآنی وحی نے بھی اس کی تصدیق کردی۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے بھی خدا تعالیٰ نے یہی اذان سکھائی تھی مگربیس دن تک میں خاموش رہا۔ اس خیال سے کہ ایک اَورشخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات بیان کرچکا ہے۔‘‘ کیونکہ یہ پہلے بیان ہو چکی تھی اس لیے میں خاموش رہا کہ بیان کی ضرورت نہیں۔ ’’اسی کی طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بھی اشارہ کرتی ہے کہ اَلْمُؤْمِنُ یَرٰی اَوْ یُرٰی لَہٗ۔ یعنی مومن کوکبھی توبراہ راست خبر دی جاتی ہے کبھی دوسروں کی معرفت اسے خبرپہنچائی جاتی ہے۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد7 صفحہ624-625)
باقی ان شاء اللہ آئندہ بیان کروں گا۔
اس وقت مختصراً میں اس طرف بھی توجہ دلانی چاہتا ہوں کہ آج رمضان کا آخری جمعہ ہے۔ اس کو صرف رمضان کے آخری جمعہ کے طور پر نہ لیں بلکہ یہ جمعہ ہمارے لیے آئندہ کے لیے نئی راہیں متعین کرنے والا ہونا چاہیے۔ رمضان میں جن باتوں کی طرف توجہ ہوئی ہے اور جو نیکیاں کرنے کی توفیق ملی ہے انہیں رمضان کے بعد بھی ہمیں جاری رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے بلکہ اس میں ترقی کرنی چاہیے ورنہ رمضان میں سے گزرنا ہمارے لیے بے فائدہ ہے اگر ہم ان نیکیوں اور پاکیزہ تبدیلیوں کو قائم نہیں رکھتے اور اس میں ترقی نہیں کرتے۔ گذشتہ جمعہ کو مَیں نے درود اور استغفار کی طرف توجہ دلائی تھی وہ صرف رمضان تک ہی محدودنہ رہے کہ رمضان گزرا اور ہم دنیاوی کاموں میں اس طرح غرق ہو جائیں کہ دعاؤں اور استغفار کو بھول ہی جائیں۔ اس طرف بھی مَیں نے خاص طور پر کہا تھا کہ ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے۔ فی زمانہ جب دجالی چالیں نئے نئے حربے استعمال کر رہی ہیں۔ دنیا کی چکاچوندنے اکثریت کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ ہمارے نوجوان اور بچے بھی بعض اوقات اس کے زیراثر آ جاتے ہیں۔ ایسے میں ہمیں اپنے لیے بھی بہت دعاؤں کی ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان شیطانی حملوں سے دجالی حملوں سے بچا کے رکھے۔
اور اپنے بچوں کو اپنے ساتھ چمٹا کر اپنے ساتھ لگا کر ایک ان کا خاص تعلق اپنے ساتھ پیدا کر کے انہیں خدا تعالیٰ کی ہستی اور اسلام کی خوبصورت تعلیم کے بارے میں بھی بتانے کی ضرورت ہے اور پھر مکمل یقین کروا کر، بچوں کے دلوں میں مکمل یقین پیدا کروا کر پھر انہیں خدا تعالیٰ کے ساتھ ایسا چمٹائیں کہ ان کا کوئی فعل، کوئی عمل، کوئی کام، ان کی کوئی سوچ خدا تعالیٰ کی رضا کے خلاف نہ ہو، اس کی تعلیم کے خلاف نہ ہو۔ ہر دنیاوی سوچ اور فتنہ کا ان کے پاس جواب ہو، یہ نہیں کہ بعض چیزوں کے جواب نہیں آتے اور دوسروں سے وہ متاثر ہو جائیں، اور اس جواب کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو ان فتنوں سے محفوظ رکھنے والے بن سکیں۔ اور یہی ہماری نسلوں کی زندگیوں کو سنوارنے اور ان کی بقا کی ضمانت ہے اور ہر قسم کے فتنوں سے اپنی نسل کو بچانے کا یہی صحیح طریق ہے لیکن یہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک ہم خود بھی ایمان اور یقین میں اپنے اعلیٰ معیار حاصل نہیں کرتے، اس معیار تک نہیں پہنچتے جو ایک مومن کا خاصہ ہونا چاہیے۔ یہ اس وقت ممکن ہو گا جب ہمارا تعلق خدا تعالیٰ سے مضبوط ہو گا۔ ہماری نمازیں، ہماری عبادتیں معیاری ہوں گی۔ ہم اپنی اس ذمہ داری کو سمجھنے والے ہوں گے کہ ہم نے کیوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کی ہے۔ یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے جو ہم پر عائد ہوتی ہے کہ اپنے ایمانوں کو مضبوط کرتے ہوئے، اپنے اعمال پر مستقل نظر رکھتے ہوئے اپنی نسلوں کو بچانے کا ذریعہ بنیں۔ بے حیائی اور لغویات کی انتہا جتنی آج کل ہے شاید ہی پہلے کبھی ہو۔ ہر گھر میں ٹی وی کے ذریعہ سے انٹرنیٹ کے ذریعہ سے یہ چیز پہنچی ہوئی ہے۔ پہلے تو باہر جا کے خطرہ ہوتا تھا اب تو گھروں کے اندر خطرہ ہے۔ چھپ کے بچے بیٹھ کے دیکھ رہے ہیں۔ پتہ ہی نہیں لگتا کیا کچھ دیکھ رہے ہیں۔ پس بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔
جو بزرگوں کی یا ابتدائی احمدیوں کی یا ان احمدیوں کی اولادیں ہیں جنہوں نے خود بیعت کر کے سلسلہ میں شمولیت اختیار کی ہے، زمانہ کے امام کو مانا ہے اور اپنے ایمانوں کو بچانے کے لیے ہر قربانی کے لیے تیار رہے اور کرتے رہے۔ قربانی دی۔ انہیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہم بھی دین کو دنیا پر مقدم رکھتے ہوئے اپنی حالتوں کی طرف نظر رکھیں گے تبھی ہم اپنے آپ کو بھی بچا سکتے ہیں اور اپنی نسلوں کو بھی بچا سکتے ہیں۔ کوئی خاندان چاہے وہ بزرگوں کا خاندان ہو یا کسی بزرگ کی جو اولاد ہے اُسے اس کا خاندان اور بزرگی یہ ضمانت نہیں دے سکتے کہ ضرور اللہ تعالیٰ انہیں نوازتا رہے گا یا ان سے راضی رہے گا۔ ہر شخص کا عمل بہرحال اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے۔ اپنے عمل ہی ہیں جو ہمیں بچائیں گے۔ کسی کی رشتہ داری، کسی کا خاندان کسی کو نہیں بچا سکتا۔ اس لیے اس کے لیے ہمیشہ بہت دعا بھی کرنی چاہیے۔ اپنی دینی کمزوریوں پر نظر بھی رکھنی چاہیے۔ اپنے بچوں اور نسلوں کی دنیا سے زیادہ دین میں ترقی کے لیے دعا کرنی چاہیے۔ دنیاوی ترقی کے لیے ہم بہت دعائیں کرتے ہیں دین کی ترقی کے لیے اُس سے زیادہ دعا کرنی چاہیے۔
اسی طرح جو خود احمدی ہوئے ہیں انہیں بھی اپنی سوچوں کو، اپنے عمل کو اس نہج پر چلانا ہو گا تبھی ہماری بھی بقا ہے اور ہماری نسلوں کی بھی بقا ہے۔ پس رمضان کے ان بقیہ ایام میں اس کے لیے بھی بہت دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اور ہماری نسلوں کے دین کو سلامت رکھے اور ہماری روحانی ترقی ہو۔ رمضان کے بعد بھی ہماری عبادتوں کے معیار اونچے سے اونچے ہوتے رہیں۔ ہمارا خدا تعالیٰ سے پختہ تعلق قائم ہو۔ ہم دجال کی چالوں میں آنے سے محفوظ رہیں۔ صرف دنیاوی آسائشیں ہمارا مقصودنہ ہوں بلکہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان دینی اور دنیاوی نعماء سے نوازے جو ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بناتے ہوئے ہمیشہ اس کے آگے جھکنے والا بنائے رکھیں ہمیشہ اس کا کامل عابد بنائے رکھیں۔ اسی طرح اس بات کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ آج کل جو کورونا کی وبا پھیلی ہوئی ہے جس نے تمام دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے اس سے بچنے کے لیے اور اللہ تعالیٰ کا رحم حاصل کرنے کے لیے بھی خاص طور پر بہت دعائیں کریں۔ اسی طرح خاص طور پر جن ممالک میں احمدیت کی مخالفت زوروں پر ہے اور زندگیاں ان کے لیے اجیرن کی ہوئی ہیں ان کے لیے بھی بہت دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کے لیے آسانیاں پیدا فرمائے۔ پاکستان کے احمدی جو ہیں ان کو تو خاص طور پر صدقہ اور خیرات اور دعاؤں پر، ان دنوں میں بھی اور بعد میں بھی، ہمیشہ بہت زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ یہ دعائیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی یہ جو کوششیں ہیں دشمن کے ہر حیلے اور حربے کو ناکام و نامراد کر دیں گی۔ رَبِّ کُلُّ شَیْءٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ اور اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِھِمْ وَنَعُوْذُبِکَ مِنْ شُرُوْرِھِمْ۔ دعائیں جو ہیں یہ بہت پڑھیں لیکن یہ بھی یاد رکھیں کہ صرف زبانی دعائیں کام نہیں آتیں، لوگ خطوں میں پوچھ لیتے ہیں کہ مَیں کون سی دعا کروں؟ جب تک ہم اپنی نمازوں کو سنوار کے نہیں پڑھیں گے، جب تک ان کے حق نہیں ادا کریں گے منہ سے صرف ساری دعائیں کرنا کام نہیں آتا۔ نمازوں کا جس طرح اہتمام رمضان میں ہے یہ بعد میں بھی جاری رہنا چاہیے تبھی اللہ تعالیٰ کے رحم اور نصرت کو ہم حقیقی رنگ میں جذب کرنے والے بن سکتے ہیں۔ اسی طرح ہر قسم کے فتنے سے بچنے کے لیے بھی بہت دعائیں کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اس رمضان میں جو بقایا چار پانچ دن رہ گئے ہیں ان میں کامیابی سے گزرنے والے ہوں اور پھر رمضان کے بعد ان نیکیوں کو جاری رکھنے والے ہوں۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ ہم اپنی دعاؤں کے دائرے کو جتنا وسیع کریں گے اتنا ہی اللہ تعالیٰ کے فضل ہم پر ہوں گے۔ اس لیے خاص طور پر ہر احمدی کو ہر احمدی کی ہر قسم کی مشکلات دور ہونے کے لیے بھی دعائیں کرتے رہنا چاہیے اس سے غیر محسوس طور پر آپس کی محبت اور بھائی چارے اور تعلق کی فضا بھی پیدا ہو گی۔ اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے حصہ تو ملے گا ہی لیکن ایک عملی فائدہ بھی ہو گا کہ زیادہ پیار و محبت پیدا ہو گا۔
عمومی طور پر مسلم امہ کے لیے بھی دعا کریں۔ جس طرف یہ چل پڑی ہے اور جو زمانے کے امام کا انکار کر کے اپنی دنیا و عاقبت خراب کر رہی ہے اس سے اللہ تعالیٰ ان کو محفوظ رکھے۔ انسانیت کے لیے مجموعی طور پر دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ انہیں بھی صحیح رستے پر چلائے اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے بچنے کی توفیق دے۔ بہرحال ہمارا کام ہے دعائیں کرنا اور دعائیں کرنا اور دعائیں کرتے چلے جانا۔ رمضان میں بھی اور رمضان کے بعد بھی۔ سب کو اللہ تعالیٰ اس کی توفیق عطا فرمائے۔
(الفضل انٹر نیشنل 21تا31؍مئی 2021ء صفحہ 10تا15)
جب حضرت عمر بن خطابؓ نے اسلام قبول کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا کرتے ہوئے آپؓ کے سینے پر تین دفعہ ہاتھ مارا۔ اَللّٰھُمَّ اَخْرِجْ مَا فِیْ صَدْرِہٖ مِنْ غِلٍّ وَ أَبْدِلْہُ اِیْمَانًا۔ اے اللہ ! اس کے سینے میں جو کچھ بھی بغض ہے اس کو دور کر دے اور اس کو ایمان سے بدل دے۔ آپؐ نے یہ دعا تین دفعہ فرمائی۔
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد فاروق اعظم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے اس وقت تک کھل کر اللہ کی عبادت نہیں کی جب تک کہ حضرت عمرؓ ایمان نہ لے آئے۔
آج رمضان کا آخری جمعہ ہے۔ اس کو صرف رمضان کے آخری جمعہ کے طور پر نہ لیں بلکہ یہ جمعہ ہمارے لیے آئندہ کے لیے نئی راہیں متعین کرنے والا ہونا چاہیے۔
رمضان میں جن باتوں کی طرف توجہ ہوئی ہے اور جو نیکیاں کرنے کی توفیق ملی ہے انہیں رمضان کے بعد بھی ہمیں جاری رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے بلکہ اس میں ترقی کرنی چاہیے ورنہ رمضان میں سے گزرنا ہمارے لیے بے فائدہ ہے۔
یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے جو ہم پر عائد ہوتی ہے کہ اپنے ایمانوں کو مضبوط کرتے ہوئے اپنے اعمال پر مستقل نظر رکھتے ہوئے اپنی نسلوں کو بچانے کا ذریعہ بنیں۔
ہمارا کام ہے دعائیں کرنا اور دعائیں کرنا اور دعائیں کرتے چلے جانا۔
رمضان میں بھی اور رمضان کے بعد بھی۔ سب کو اللہ تعالیٰ اس کی توفیق عطا فرمائے۔
رَبِّ کُلُّ شَیْءٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَ انْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ اور اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِھِمْ وَ نَعُوْذُبِکَ مِنْ شُرُوْرِھِمْ یہ دعائیں بہت زیادہ پڑھیں۔
احمدیوں کو اللہ تعالیٰ سے مضبوط تعلق قائم کرتے ہوئے ایمان اور یقین کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے، نمازوں اور عبادتوں کو معیاری بنانے اور پھر اپنی اولادوں کو اللہ تعالیٰ پر پختہ ایمان کی نعمت سے سرفراز کرنے کی نصیحت۔
کورونا وبا سے بچنےکے لیے۔ پاکستان سمیت جن ممالک میں جماعت احمدیہ کے مخالفانہ حالات ہیں وہاں کے احمدیوں کے لیے۔ ہر قسم کے فتنے سے بچنے کے لیے۔ عمومی طور پر امتِ مسلمہ کے لیے۔ مجموعی طور پر انسانیت کے لیے دعائیں کرنے کی تحریک۔
پاکستان کے احمدیوں کو خاص طور پر صدقہ و خیرات اور دعاؤں پر توجہ دینے کی تلقین۔
فرمودہ 7؍مئی2021ء بمطابق 7؍ہجرت1400 ہجری شمسی، بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔