حضرت عمر بن خطابؓ
خطبہ جمعہ 21؍ مئی 2021ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر چل رہا تھا۔ آپؓ نے جن غزوات اور سرایا میں شرکت کی اس کے بارے میں آج کچھ بیان کرتا ہوں۔ حضرت عمر بن خطابؓ بدر، احد اور خندق سمیت تمام غزوات میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئے۔ اس کے علاوہ متعدد سرایا میں بھی شریک ہوئے جن میں سے بعض سرایا کے آپؓ امیر بھی تھے۔ (الطبقات الکبریٰ جلد3صفحہ206دارالکتب العلمیۃ بیروت2012ء)
غزوۂ بدر کے لیے روانگی کے وقت صحابہ کے اونٹوں کی تعداد جو ان کے پاس تھے ستر تھی۔ اس لیے ایک ایک اونٹ تین تین آدمیوں کے لیے مقرر کرنا پڑا اور ہر ایک باری باری سوار ہوتا تھا۔ حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ ایک اونٹ پر باری باری سوار ہوتے تھے۔ (السیرۃ الحلبیہ باب ذکر مغازیہ جلد2صفحہ204دارالکتب العلمیۃ بیروت2002ء)
بدر کے لیے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے روانگی فرمائی تو اس کے ذکر میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابوسفیان کے قافلہ کی روک تھام کے لیے مدینہ سے نکلے جو شام کی طرف سے آرہا تھا۔ جب مسلمانوں کا قافلہ ذَفِرَانْ پہنچا، یہ مدینہ کے نواح میں وادی صفراء کے قریب ایک وادی ہے، تو آپؐ کو خبر ملی کہ قریش اپنے تجارتی قافلے کو بچانے کے لیے نکل پڑے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ سے مشورہ طلب کیا اور ان کو یہ خبر دی کہ مکہ سے ایک لشکر انتہائی تیز رفتاری سے نکل پڑا ہے۔ اس بارے میں تم کیا کہتے ہو؟ کیا لشکر کے مقابلہ میں تجارتی قافلہ تم کو زیادہ پسند ہے؟ انہوں نے کہا ہاں۔ یعنی ایک گروہ نے کہا ہم دشمن کے مقابلے میں تجارتی قافلے کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔ ایک روایت میں ذکر ملتا ہے کہ ایک گروہ نے کہا کہ اگر آپؐ ہم سے جنگ کا ذکر کرتے تو ہم اس کی تیاری کر لیتے۔ ہم تو تجارتی قافلے کے لیے نکلے ہیں۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ انہوں نے کہا یا رسول اللہؐ ! آپؐ کو تجارتی قافلے کی طرف ہی جانا چاہیے اور آپؐ دشمن کو چھوڑ دیں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ مبارک کا رنگ متغیر ہو گیا۔ حضرت ابو ایوبؓ بیان کرتے ہیں کہ اس آیت کے نزول کا سبب بھی یہی واقعہ ہے کہ
کَمَآ اَخْرَجَکَ رَبُّکَ مِنْۢ بَیْتِکَ بِالْحَقِّ وَ اِنَّ فَرِیْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ لَکٰرِہُوْنَ۔ (الانفال: 6)
کہ جیسے تیرے رب نے تجھے حق کے ساتھ تیرے گھر سے نکالا تھا حالانکہ مومنوں میں سے ایک گروہ اسے یقیناً ناپسند کرتا تھا۔ اس وقت حضرت ابوبکرؓ کھڑے ہوئے اور گفتگو کی اور بہت عمدہ گفتگو کی۔ پھر حضرت عمرؓ کھڑے ہوئے اور گفتگو کی اور بہت عمدہ گفتگو کی۔ پھر مقدادؓ کھڑے ہوئے اور عرض کیایا رسول اللہؐ ! جس کا اللہ نے آپؐ کو حکم دیا ہے اس کی طرف چلیے۔ ہم آپؐ کے ساتھ ہیں۔ اللہ کی قسم! ہم آپؐ سے یہ نہ کہیں گے جیسا کہ بنی اسرائیل نے موسیٰ سے کہا تھا کہ فَاذْہَبْ اَنْتَ وَ رَبُّکَ فَقَاتِلَآ اِنَّا ہٰہُنَا قٰعِدُوْنَ(المائدۃ: 25)پس جاتُو اور تیرارب دونوں لڑو ہم تو یہیں بیٹھے رہیں گے۔ انہوں نے کہا نہیں بلکہ ہم لوگ آپؐ کے ساتھ قتال کریں گے جب تک کہ ہم میں جان ہے۔ (السیرۃ الحلبیہ باب ذکر مغازیہ جلد2صفحہ205-206دارالکتب العلمیۃ بیروت2002)(فرہنگ سیرت صفحہ 125)
حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ جب انہوں نے قیدیوں کو پکڑا یعنی بدر کے موقع پر مسلمانوں نے قیدیوں کو پکڑا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ سے فرمایا: ان قیدیوں کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا: اے اللہ کے نبیؐ ! وہ ہمارے چچازاد اور رشتہ دار ہیں۔ میرا خیال ہے آپؐ ان سے فدیہ لے لیں۔ وہ ہمارے لیے ان کفار کے مقابلے میں قوت کا باعث ہو گا اور قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی اسلام کی طرف راہنمائی فرمائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابن خطاب! تمہاری کیا رائے ہے؟ حضرت عمرؓ نے کہا: نہیں یا رسول اللہؐ ! اللہ کی قسم! میری وہ رائے نہیں ہے جو ابوبکرؓ کی رائے ہے، بلکہ میری رائے یہ ہے کہ آپؐ انہیں ہمارے سپرد کر دیں۔ ہم ان کی گردنیں مار دیں اور علیؓ کے سپرد عقیل کو کریں کہ وہ اس کی گردن مارے اور میرے سپرد فلاں کو کریں جو نسباً حضرت عمرؓ کا رشتہ دار تھا تو مَیں اس کی گردن مار دوں کیونکہ یہ سب کفار کے لیڈر اور ان کے سردار ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکرؓ کی بات کو ترجیح دی۔ حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ میری بات کو ترجیح نہ دی۔ اگلے دن مَیں آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکرؓ بیٹھے رو رہے تھے۔ مَیں نے عرض کیایا رسول اللہؐ ! مجھے بتائیے کس چیز نے آپؐ کو اور آپؐ کے ساتھی کو رلایا ہے۔ اگر مجھے رونا آیا تو مَیں بھی روؤں گا وگرنہ مَیں آپ دونوں کے رونے کی طرح رونے کی صورت بناؤں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے رونے کی وجہ یہ ہے جو تمہارے ساتھیوں نے میرے سامنے ان سے فدیہ لینے کی تجویز پیش کی تھی۔ میرے سامنے ان کا عذاب اس درخت سے زیادہ قریب پیش کیا گیا ہے جو درخت اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہی تھا اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔
مَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّکُوْنَ لَہٗ اَسْرٰى حَتّٰى یُثْخِنَ فِی الْاَرْضِ (الانفال: 68) یعنی کسی نبی کے لیے جائز نہیں کہ زمین میں خونریز جنگ کے بغیر قیدی بنائے اور پھر اگلی دو آیتیں چھوڑ کے ہے کہ فَکُلُوْا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلٰلًا طَیِّبًا(الانفال: 70)یعنی پس جو مال غنیمت تم حاصل کرو اس میں سے حلال اور پاکیزہ کھاؤ۔ پس اللہ نے ان کے لیے غنیمتیں جائز کر دیں۔ یہ صحیح مسلم کی روایت ہے۔ (صحیح مسلم کتاب الجہاد والسیر باب الْاِمْدَادِ بِالْمَلَائِکَۃِ حدیث 4588)
اس حدیث کے شروع کے الفاظ جو ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکرؓ رو رہے تھے اور پھر آگے جو قرآنی آیات کے الفاظ ہیں ان میں جو مضمون بیان ہوا ہے وہ اس روایت کو مبہم سا کر دیتا ہے۔ واضح نہیں کرتا، بات واضح نہیں ہوتی۔ بہرحال اس روایت کو صحیح سمجھ کے اکثر کتب تاریخ اور سیرت اور مفسرین نے بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے گویا جنگ بدر کے قیدیوں سے فدیہ لینے والے فیصلے پر ناراضگی کا اظہار فرمایا اور حضرت عمرؓ کی رائے کو پسند فرمایا۔ حضرت عمرؓ کی سیرت و سوانح لکھنے والے جب ایک الگ باب باندھتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کی رائے پر کون کون سے قرآنی احکام نازل ہوئے تو ان میں سے ایک یہ بھی درج کیا جاتا ہے کہ جنگ بدر کے قیدیوں کے بارے میں حضرت عمرؓ کی رائے کو اللہ تعالیٰ نے ترجیح دی، لیکن یہ مبہم ہے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا واضح نہیں ہوتا بلکہ لگتا ہے کہ سیرت نگاروں اور مفسرین کو اس کو سمجھنے میں غلطی لگی ہے۔ بہرحال حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو جو بیان فرمایا ہے تو آپؓ کے غیر مطبوعہ تفسیری نوٹس میں سے ایک نوٹ ملا ہے جو ان روایات کی تردید کرتا ہے اور حضرت مصلح موعودؓ کی جو یہ وضاحت ہے وہی صحیح لگتی ہے۔ بلا وجہ حضرت عمرؓ کے مقام کو اونچا کرنے کے لیے لگتا ہے کہ انہوں نے یہ روایت بنا دی یا اس کو غلط سمجھا گیا۔ بہرحال حضرت مصلح موعودؓ سورۂ انفال کی آیت نمبر اڑسٹھ (68) کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اسلام سے پہلے عرب میں رواج تھا اور لکھتے ہیں کہ افسوس ہے کہ دنیا کے بعض حصوں میں اب تک یہ چلا آتا ہے کہ اگر جنگ نہ بھی ہو اور لڑائی نہ بھی ہو تب بھی قیدی پکڑ لیتے ہیں اور ان کو غلام بنا لیتے ہیں۔ یہ آیت اس قبیح رسم کو منسوخ کرتی ہے اور صاف صاف الفاظ میں حکم دیتی ہے کہ صرف جنگ کی حالت میں اور لڑائی کے بعد ہی دشمن کے آدمی قیدی بنائے جا سکتے ہیں۔ اگر لڑائی نہ ہو رہی ہو تو کسی آدمی کو قیدی بنانا جائز نہیں۔ اس آیت کی بڑی غلط تفسیر کی گئی ہے۔ کہتے ہیں کہ جب مسلمانوں نے جنگِ بدر کے موقع پر مکہ والوں کے کچھ قیدی پکڑ لیے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ سے مشورہ کیا کہ ان کے متعلق کیا فیصلہ کرنا چاہیے۔ حضرت عمرؓ کی رائے تھی کہ ان کو قتل کر دینا چاہیے۔ حضرت ابوبکرؓ کی رائے تھی کہ فدیہ لے کر چھوڑ دینا چاہیے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکرؓ کی رائے کو پسند فرمایا اور یہ سورۂ انفال کی 68آیت ہے جس میں یہ ہے کہ کسی نبی کے لیے جائز نہیں کہ زمین میں خونریز جنگ کرے۔
بہرحال حضرت مصلح موعودؓ اسی کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جو رائے لی گئی تھی اس میں تو حضرت ابوبکرؓ کی رائے مختلف تھی، حضرت عمرؓ کی رائے مختلف تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکرؓ کی رائے کو پسند فرمایا اور فدیہ لے کر قیدیوں کو چھوڑ دیا۔ لیکن (مفسّرین) کہتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو گویا خدا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل کو ناپسند فرمایا۔ قیدیوں کو قتل کر دینا چاہیے تھا اور فدیہ نہیں لینا چاہیے تھا۔ یہ طبری کی تفسیر میں ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں مگر یہ تفسیر غلط ہے۔ اول اس وقت تک خدا نے کوئی ایسا حکم نازل نہیں کیا تھا کہ قیدیوں کو فدیہ لے کر نہ چھوڑا جائے۔ اس لیے فدیہ قبول کرنے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی الزام نہیں آ سکتا تھا۔ دوم اس سے پیشتر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نخلہ کے مقام پر دو آدمیوں سے فدیہ لے کر ان کو چھوڑ دیا تھا اور خدا نے آپؐ کے اس فعل کو ناپسندنہیں فرمایا تھا۔ سوم صرف دو آیتیں اور آگے چل کر خدا مسلمانوں کو اجازت دیتا ہے کہ مال غنیمت سے جو کچھ تم کو ملے اس کو کھاؤ وہ حلال اور طیب ہے۔ یہ بات کسی کے وہم میں بھی نہیں آ سکتی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فدیہ لینے کو خدا ناپسند کرے اور اس طرح جو روپیہ حاصل ہو اس کو حلال اور طیب فرمائے اس لیے یہ تفسیر ہی غلط ہے اور صحیح تفسیریہی ہے کہ اس آیت میں ایک عام اصول مقرر فرما دیا ہے کہ قیدی اسی صورت میں پکڑے جا سکتے ہیں کہ باقاعدہ جنگ ہو اور دشمن کو کاری ضربیں لگا کر مغلوب کر دیا گیا ہو۔ (ماخوذ از دروس حضرت مصلح موعودؓ (غیرمطبوعہ) سورۃ الانفال، رجسٹر نمبر36صفحہ968-969)
مفسرین قرآن میں سے علامہ امام رازی اور معروف سیرت نگار علامہ شبلی نعمانی کا بھی یہی موقف ہے جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان فرمایا ہے۔ (تفسیر کبیر علامہ امام رازی جلد 8 جزء 15 صفحہ 158 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2004ء) (سیرت النبیﷺ از شبلی نعمانی جلد اول صفحہ 194 مطبوعہ آر۔ زیڈ پیکجز لاہور 1408ھ)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ ’’مدینہ پہنچ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قیدیوں کے متعلق مشورہ کیا کہ ان کے متعلق کیا کرنا چاہئے۔ عرب میں بالعموم قیدیوں کو قتل کر دینےیا مستقل طور پر غلام بنا لینے کا دستور تھا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت پر یہ بات سخت ناگوار گزرتی تھی اور پھر ابھی تک اس بارہ میں کوئی الٰہی احکام بھی نازل نہیں ہوئے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا کہ میری رائے میں تو ان کو فدیہ لے کر چھوڑ دینا چاہئے کیونکہ آخر یہ لوگ اپنے ہی بھائی بند ہیں اور کیا تعجب کہ کل کو انہی میں سے فدایانِ اسلام پیدا ہو جائیں مگر حضرت عمرؓ نے اس رائے کی مخالفت کی اور کہا کہ دین کے معاملہ میں رشتہ داری کا کوئی پاس نہیں ہونا چاہئے اور یہ لوگ اپنے افعال سے قتل کے مستحق ہو چکے ہیں۔ پس میری رائے میں ان سب کو قتل کر دینا چاہئے بلکہ حکم دیا جاوے کہ مسلمان خود اپنے ہاتھ سے اپنے اپنے رشتہ داروں کو قتل کریں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فطری رحم سے متاثر ہو کر حضرت ابوبکرؓ کی رائے کو پسند فرمایا اور قتل کے خلاف فیصلہ کیا اور حکم دیا کہ جو مشرکین اپنا فدیہ وغیرہ ادا کر دیں انہیں چھوڑ دیا جاوے۔ چنانچہ بعد میں اسی کے مطابق الٰہی حکم نازل ہوا۔‘‘ جب الٰہی حکم بھی فدیہ دینے کے بارے میں نازل ہو گیا جیسا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے بھی لکھا ہے تو پھر اس حدیث کو بنیاد بنا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکرؓ کے رونے کا جواز پیدا کرنا تو عجیب سی بات لگتی ہے۔ بہرحال حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں ’’چنانچہ ہر شخص کے مناسب حال ایک ہزار درہم سے لے کر چار ہزار درہم تک اس کا فدیہ مقرر کر دیا گیا اس طرح سارے قیدی رہا ہوتے گئے۔‘‘ (سیرت خاتم النبیینؐ صفحہ 367-368)
حضرت عمرؓ کی بیٹی حضرت حفصہؓ کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے شادی کے بارے میں جو ذکر ملتا ہے کہ حضرت حفصہؓ کے شوہر جنگ بدر میں شریک ہوئے اور جنگ سے واپسی پر بیمار ہو کر انتقال کرگئے تو بعد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حفصہؓ کے ساتھ شادی کی۔ اس کی تفصیل بخاری میں یوں درج ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے بیان کیا کہ جب حضرت حفصہ بنت عمرؓ خُنَیْس بن حُذَافَہ سَہْمِیسے بیوہ ہوئیں اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے تھے جو بدر میں شریک تھے۔ مدینہ میں انہوں نے وفات پائی تو حضرت عمرؓ نے کہا: مَیں حضرت عثمان بن عفانؓ سے ملا ان کے پاس حفصہ کا ذکر کیا اور کہا کہ اگر آپ چاہیں تو حفصہ بنت عمرؓ کا نکاح آپؓ سے کر دوں۔ حضرت عثمانؓ نے کہا مَیں اپنے اس معاملے پر غور کروں گا۔ حضرت عمرؓ کہتے ہیں چنانچہ میں کئی روز تک ٹھہرا رہا۔ پھر حضرت عثمانؓ نے کچھ دنوں کے بعد کہا کہ مجھے یہی مناسب معلوم ہوا ہےکہ میں ان دنوں شادی نہ کروں۔ حضرت عمرؓ کہتے تھے۔ پھر مَیں حضرت ابوبکرؓ سے ملا کہ اگر آپؓ چاہیں تو میں حفصہ بنت عمرؓ کا نکاح آپؓ سے کر دوں۔ حضرت ابو بکرؓ خاموش ہو گئے اور مجھے کچھ جواب نہ دیا۔ اور حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ عثمانؓ کی نسبت مَیں نے ان سے زیادہ محسوس کیایعنی احساس زیادہ ہوا کہ انہوں نے بھی انکار کر دیا ہے۔ پھر مَیں کچھ دن ٹھہرا رہا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حفصہؓ سے نکاح کا پیغام بھیجا اور مَیں نے آپؐ سے ان کا نکاح کر دیا۔ جب نکاح ہو گیا تو پھر حضرت ابوبکرؓ مجھ سے ملے اور کہا جب آپؓ نے حفصہؓ کا ذکر کیا تھا اور میں نے آپؓ کو کوئی جواب نہ دیا تو شاید آپؓ نے مجھ سے میرے نہ کرنے پہ، انکار کرنے پہ کچھ محسوس کیا تھا۔ مَیں نے کہا جی ہاں مَیں نے محسوس کیا تھا تو انہوں نے کہا کہ دراصل جو بات آپؓ نے پیش کی تھی اس کی نسبت آپؓ کو جواب دینے سے مجھے نہیں روکا تھا مگر اس بات نے کہ مجھے علم ہو چکا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حفصہؓ کا ذکر کیا تھا اور مَیں ایسا نہیں تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ راز ظاہر کرتا۔ یعنی حضرت ابوبکرؓ کو یہ علم تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حفصہؓ سے رشتہ کا اظہار کیا تھا۔ تو کہتے ہیں یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا راز تھا مَیں اس کو ظاہر نہیں کر سکتا تھا اور اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسے ترک کر دیتے تو مَیں ضرور تمہارے اس رشتہ کو قبول کر لیتا۔ (صحیح البخاری کتاب المغازی باب، حدیث نمبر 4005)
یہ حضرت ابوبکرؓ نے جواب دیا۔ اس واقعہ کی کچھ تفصیل سیرت خاتم النبیین میں بھی حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے لکھی ہے۔ کہتے ہیں کہ ’’حضرت عمر بن خطابؓ کی ایک صاحبزادی تھیں جن کا نام حفصہؓ تھا۔ وہ خُنَیْس بن حُذَافَہؓ کے عقد میں تھیں جوایک مخلص صحابی تھے اور جنگ بدر میں شریک ہوئے تھے۔ بدر کے بعد مدینہ واپس آنے پر خُنَیْسؓ بیمار ہو گئے اور اس بیماری سے جانبر نہ ہوسکے۔ ان کی وفات کے کچھ عرصہ بعد حضرت عمرؓ کو حفصہ کے نکاح ثانی کافکر دامن گیر ہوا۔ اس وقت حفصہؓ کی عمر بیس سال سے اوپرتھی۔ حضرت عمرؓ نے اپنی فطرتی سادگی میں خود عثمان بن عفانؓ سے مل کر ان سے ذکر کیا کہ میری لڑکی حفصہ اب بیوہ ہے آپ اگرپسند کریں تواس کے ساتھ شادی کر لیں مگر حضرت عثمانؓ نے ٹال دیا۔ اس کے بعد حضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکرؓ سے ذکر کیا لیکن حضرت ابوبکرؓ نے بھی خاموشی اختیار کی اور کوئی جواب نہیں دیا۔ اس پر حضرت عمرؓ کو بہت ملال ہوا اور انہوں نے اسی ملال کی حالت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر آپؐ سے ساری سرگذشت عرض کر دی۔ آپؐ نے فرمایا۔ عمر! کچھ فکر نہ کرو۔ خدا کو منظور ہوا تو حفصہ کوعثمان وابوبکر کی نسبت بہتر خاوند مل جائے گا اور عثمان کو حفصہ کی نسبت بہتر بیوی ملے گی۔ یہ آپؐ نے اس لئے فرمایا کہ آپؐ حفصہ کے ساتھ شادی کر لینے اور اپنی لڑکی ام کلثوم کوحضرت عثمانؓ کے ساتھ بیاہ کردینے کاارادہ کرچکے تھے جس سے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عثمانؓ دونوں کواطلاع تھی اور اسی لئے انہوں نے حضرت عمرؓ کی تجویز کوٹال دیا تھا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمانؓ سے اپنی صاحبزادی ام کلثومؓ کی شادی فرما دی ……اور اس کے بعد آپؐ نے خود اپنی طرف سے حضرت عمرؓ کو حفصہ کے لئے پیغام بھیجا۔ حضرت عمرؓ کو اس سے بڑھ کراَورکیا چاہئے تھا۔ انہوں نے نہایت خوشی سے اس رشتہ کو قبول کیا اور شعبان تین ہجری میں حضرت حفصہؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آکر حرم نبویؐ میں داخل ہو گئیں۔ جب یہ رشتہ ہوگیا تو حضرت ابوبکرؓ نے حضرت عمرؓ سے کہا کہ شاید آپ کے دل میں میری طرف سے کوئی ملال ہو۔ بات یہ ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارادے سے اطلاع تھی لیکن میں آپؐ کی اجازت کے بغیر آپؐ کے راز کو ظاہر نہیں کرسکتا تھا۔ ہاں اگر آپؐ کا یہ ارادہ نہ ہوتا تومیں بڑی خوشی سے حفصہ سے شادی کر لیتا۔
حفصہؓ کے نکاح میں ایک تو یہ خاص مصلحت تھی کہ وہ حضرت عمرؓ کی صاحبزادی تھیں جوگویا حضرت ابوبکرؓ کے بعد تمام صحابہ میں افضل ترین سمجھے جاتے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقربین خاص میں سے تھے۔ پس آپس کے تعلقات کو زیادہ مضبوط کرنے اور حضرت عمرؓ اور حفصہ کے اس صدمہ کی تلافی کرنے کے واسطے جو خُنَیْس بن حُذَافَہؓ کی بے وقت موت سے ان کو پہنچا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مناسب سمجھا کہ حفصہ سے خود شادی فرما لیں اور دوسری عام مصلحت یہ مدنظر تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جتنی زیادہ بیویاں ہوں گی اتنا ہی عورتوں میں جو بنی نوع انسان کانصف حصہ بلکہ بعض جہات سے نصف بہتر حصہ ہیں دعوت وتبلیغ اور تعلیم و تربیت کا کام زیادہ وسیع پیمانے پر اور زیادہ آسانی سے اور زیادہ خوبی کے ساتھ ہو سکے گا۔‘‘ (سیرت خاتم النبیین از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اےصفحہ 477-478)
حضرت عمرؓ کے حوالے سے غزوۂ احد کے بارے میں لکھا ہے۔ غزوۂ احد کے موقع پر جب خالد بن ولیدنے مسلمانوں پر حملہ کیا تو مسلمان اس اچانک حملے سے سنبھل نہ سکے۔ اس کی تفصیل حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے یوں لکھی ہے کہ قریش کے لشکر نے قریبا ًچاروں طرف گھیرا ڈال رکھا تھا اور اپنے پے درپے حملوں سے ہرآن دباتا چلاآتا تھا۔ اس پر بھی مسلمان شاید تھوڑی دیربعد سنبھل جاتے مگرغضب یہ ہوا کہ قریش کے ایک بہادرسپاہی عبداللہ بن قمئہ نے مسلمانوں کے علمبردار مصعب بن عمیرؓ پر حملہ کیا جنہوں نے جھنڈا اٹھایا ہوا تھا اور اپنی تلوار کے وار سے ان کا دایاں بازو کاٹ گرایا۔ مصعبؓ نے فوراً دوسرے ہاتھ میں جھنڈا تھام لیا اور ابن قمئہ کے مقابلہ کے لیے آگے بڑھے مگر اس نے دوسرے وار میں ان کا دوسرا ہاتھ بھی قلم کر دیا۔ اس پر مصعبؓ نے اپنے دونوں کٹے ہوئے ہاتھوں کوجوڑ کر گرتے ہوئے اسلامی جھنڈے کوسنبھالنے کی کوشش کی اور اسے چھاتی سے چمٹا لیا جس پر ابن قمئہ نے ان پر تیسرا وار کیا اور اب کی دفعہ مصعب شہید ہو کر گر گئے۔ جھنڈا توکسی دوسرے مسلمان نے فوراً آگے بڑھ کر تھام لیا مگر چونکہ مصعبؓ کاڈیل ڈول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا تھا ابن قمئہ نے سمجھا کہ میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کومار لیا ہے۔ یایہ بھی ممکن ہے کہ اس کی طرف سے یہ تجویز محض شرارت اور دھوکا دہی کے خیال سے ہو۔ بہر حال اس نے مصعبؓ کے شہید ہوکر گرنے پرشور مچادیا کہ میں نے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو مار لیا ہے۔ اس خبر سے مسلمانوں کے رہے سہے اوسان بھی جاتے رہے اور ان کی جمعیت بالکل منتشر ہو گئی۔ بہت سے صحابیؓ سراسیمہ ہو کر میدان سے بھاگ نکلے۔ اس وقت مسلمان تین حصوں میں منقسم تھے۔ ایک گروہ وہ تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی خبر سن کر میدان سے بھاگ گیا تھا مگر یہ گروہ سب سے تھوڑا تھا۔ لیکن جیسا کہ قرآن شریف میں ذکر آتا ہے اس وقت کے خاص حالات اور ان لوگوں کے دلی ایمان اور اخلاص کومدنظر رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف فرما دیا۔ دوسرا گروہ جو تھا اس گروہ میں وہ لوگ تھے جوبھاگے تونہیں تھے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی خبر سن کر یاتو ہمت ہار بیٹھے تھے اور یا اب لڑنے کو بیکار سمجھتے تھے اور اس لیے میدان سے ایک طرف ہٹ کرسرنگوں ہوکر بیٹھ گئے تھے اور تیسرا گروہ وہ تھا جو برابر لڑ رہا تھا۔ ان میں سے کچھ تو وہ لوگ تھے جوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد جمع تھے اور بے نظیر جان نثاری کے جوہر دکھا رہے تھے اور اکثر وہ تھے جومیدان جنگ میں منتشر طور پر لڑ رہے تھے۔ ان لوگوں اور نیز گروہِ ثانی کے لوگوں کوجوں جوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زندہ موجود ہونے کاپتہ لگتا جاتا تھا یہ لوگ دیوانوں کی طرح لڑتے بھڑتے آپؐ کے اردگرد جمع ہوتے جاتے تھے۔
بہرحال اس وقت نہایت خطرناک لڑائی ہورہی تھی اور مسلمانوں کے واسطے ایک سخت ابتلا اور امتحان کاوقت تھا اور جیسا بیان ہو چکا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی خبر سن کر بہت سے صحابہ ہمت ہار چکے تھے اور ہتھیار پھینک کر میدان سے ایک طرف ہو گئے تھے۔ انہی میں حضرت عمرؓ بھی تھے جو مایوس ہو کے ایک طرف ہو کے بیٹھ گئے تھے۔ چنانچہ یہ لوگ اسی طرح میدان جنگ کے ایک طرف بیٹھے تھے کہ اوپر سے ایک صحابی اَنَس بن نَضَر انصاریؓ آ گئے اور ان کو دیکھ کر کہنے لگے کہ تم لوگ یہاں کیا کرتے ہو؟ انہوں نے جواب دیاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادت پائی۔ اب لڑنے سے کیاحاصل ہے؟ انس نے کہا کہ یہی لڑنے کا وقت ہے تا جو موت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پائی وہ ہمیں بھی نصیب ہو اور پھر آپؐ کے بعد زندگی کا بھی کیا لطف ہے! اور پھر ان کے سامنے سعد بن معاذؓ آئے تو انہوں نے یعنی حضرت انسؓ نے کہاکہ سعدؓ مجھے تو پہاڑی سے جنت کی خوشبو آرہی ہے۔ یہ کہہ کر انسؓ دشمن کی صف میں گھس گئے اور لڑتے لڑتے شہید ہوئے اور جنگ کے بعد دیکھا گیا توان کے بدن پر اسّی سے زیادہ زخم تھے اور کوئی پہچان نہ سکتا تھا کہ یہ کس کی لاش ہے۔ آخر ان کی بہن نے ان کی انگلی دیکھ کر شناخت کیا۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ صفحہ493تا 495)
احد کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چند صحابہ کے ساتھ پہاڑ کی گھاٹی پر پہنچے ہی تھے کہ کفار کے ایک گروہ نے گھاٹی پر حملہ کیا۔ ان میں خالد بن ولید بھی تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت دعا کی کہ اَللّٰہُمَّ إنَّہٗ لَا یَنْبَغِیْ لَہُمْ أَنْ یَّعْلُوْنَا اے اللہ! یہ لوگ ہمارے پاس نہ پہنچ سکیں۔ اس پر حضرت عمر بن خطابؓ نے چند مہاجرین کے ساتھ ان مشرکین کا مقابلہ کیا اور مارتے مارتے ان کو بھگا دیا۔ (سیرۃ ابن ہشام صفحہ 537دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان2001)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ ابوسفیان اپنے چند ساتھیوں کوساتھ لے کر اس درہ کی طرف بڑھا جہاں مسلمان جمع تھے اور اس کے قریب کھڑے ہوکر پکار کر بولا کہ مسلمانو! کیا تم میں محمدؐ ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ کوئی جواب نہ دے۔ چنانچہ سب صحابہ خاموش رہے۔ پھر اس نے ابوبکرؓ و عمرؓ کا پوچھا مگر اس پر بھی آپ کے ارشاد کے ماتحت کسی نے جواب نہ دیا۔ جس پر اس نے بلند آواز سے فخر کے لہجہ میں کہا کہ یہ سب لوگ مارے گئے ہیں کیونکہ اگروہ زندہ ہوتے تو جواب دیتے۔ اس وقت حضرت عمرؓ سے نہ رہا گیا اور وہ بے اختیار ہو کر بولے۔ اے عَدُوَّاللّٰہِ! توجھوٹ کہتا ہے۔ ہم سب زندہ ہیں اور خدا ہمارے ہاتھوں سے تمہیں ذلیل کرے گا۔ ابوسفیان نے حضرت عمرؓ کی آواز پہچان کر کہا کہ عمرسچ سچ بتاؤ کیا محمدزندہ ہے؟ حضرت عمرؓ نے کہا کہ ہاں ہاں خدا کے فضل سے وہ زندہ ہیں اور تمہاری یہ باتیں سن رہے ہیں۔ ابوسفیان نے کسی قدر دھیمی آواز میں کہا۔ توپھر ابنِ قَمِئَہ نے جھوٹ کہا ہے کیونکہ مَیں تمہیں اس سے زیادہ سچاسمجھتا ہوں۔ اس کے بعد ابوسفیان نے نہایت بلند آواز سے پکار کر کہا۔ اُعْلُ ھُبَلْ یعنی اے ہبل تیری شان بلند ہو۔ صحابہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کاخیال کر کے خاموش رہے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو اپنے نام پر تو خاموش رہنے کا حکم دیتے تھے اب خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں بت کانام آنے پربے تاب ہو گئے اور فرمایا کہ تم جواب کیوں نہیں دیتے؟ صحابہ نے عرض کیایارسول اللہؐ ! کیا جواب دیں؟ آپؐ نے فرمایا کہو اَللّٰہُ اَعْلٰی وَ اَجَلُّ یعنی بلندی اور بزرگی صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے۔ ابوسفیان نے کہا لَنَا الْعُزّٰی وَلَا عُزّٰی لَکُمْ۔ ہمارے ساتھ عزیٰ ہے اور تمہارے ساتھ عزیٰ نہیں ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہو اَللّٰہُ مَوْلٰنَا وَلَا مَوْلٰی لَکُمْ۔ عزیٰ کیا چیز ہے۔ ہمارے ساتھ اللہ ہمارا مددگار ہے اور تمہارے ساتھ کوئی مدد گار نہیں۔ اس کے بعد ابوسفیان نے کہاکہ لڑائی ایک ڈول کی طرح ہوتی ہے جو کبھی چڑھتا اور کبھی گرتا ہے۔ پس یہ دن بدر کے دن کا بدلہ سمجھو اور تم میدان جنگ میں ایسی لاشیں پاؤ گے جن کے ساتھ مُثْلہ کیا گیا ہے۔ مَیں نے اس کا حکم نہیں دیا مگر جب مجھے اس کا علم ہوا تو مجھے اپنے آدمیوں کا یہ فعل کچھ بُرا بھی نہیں لگا۔ اور ہمارے اور تمہارے درمیان آئندہ سال انہی ایام میں بدر کے مقام میں پھر جنگ کا وعدہ رہا۔ ایک صحابی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے ماتحت جواب دیا کہ بہت اچھا یہ وعدہ رہا۔ بہرحال یہ کہہ کر ابوسفیان اپنے ساتھیوں کو لے کر نیچے اتر گیا اور پھر قریش کا لشکر مکہ کی طرف روانہ ہو ا۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیین از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 498-499)
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ احد کے بعد مدینہ پہنچےتو منافقین اور یہود خوشیاں منانے لگے اور مسلمانوں کو برا بھلا کہنے لگے اور کہنے لگے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم بادشاہت کے طلبگار ہیں اور آج تک کسی نبی نے اتنا نقصان نہیں اٹھایا جتنا انہوں نے اٹھایا۔ خود بھی زخمی ہوئے اور ان کے اصحاب بھی زخمی ہوئے۔ اور کہتے تھے کہ اگر تمہارے وہ لوگ جو قتل ہوئے ہمارے ساتھ رہتے تو کبھی قتل نہ ہوتے۔ حضرت عمرؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان منافقین کے قتل کی اجازت چاہی جو اس طرح یہ باتیں کر رہے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا وہ اس شہادت کا اظہار نہیں کرتے کہ اللہ کے سوا کوئی معبودنہیں اور مَیں اللہ کا رسول ہوں۔ کلمہ تو پڑھتے ہیں ناں یہ لوگ۔ اس پر حضرت عمرؓ نے عرض کیا کیوں نہیں۔ یہ تو کہتے ہیں لیکن ساتھ منافقانہ باتیں بھی کر رہے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے کہا لیکن یہ تلوار کے خوف سے اس طرح کہتے ہیں۔ پس ان کا معاملہ ظاہر ہو گیا ہے۔ اب جب ان کے دل کی باتیں نکل گئی ہیں اور اللہ نے ان کے کینوں کو ظاہر کر دیا ہے تو پھر ان سے انتقام لینا چاہیے۔ ان کو سزا دینی چاہیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اُس کے قتل سے منع کیا گیا ہے جو اس شہادت کا اظہار کرے۔ (السیرۃ الحلبیۃ باب ذکر مغازیہ غزوہ احد، جلد2صفحہ348دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان2002)
جس نے یہ کلمہ پڑھ لیا مجھے ایسے شخص کے قتل سے منع کیا گیا ہے۔ یہ ذکر ان شاء اللہ آئندہ چلے گا۔ کچھ مرحومین کا اب مَیں نے ذکر کرنا ہے۔ اس لیے یہاں ختم کرتا ہوں۔ لیکن اس سے پہلے مَیں دعا کے لیے بھی کہنا چاہتا ہوں۔ گذشتہ ہفتہ بھی میں نے کہا تھا۔ مظلوم فلسطینیوں کے لیے دعا کریں۔ گو کہ جنگ بندی ہو گئی ہے لیکن تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے کہ کچھ عرصہ کے بعد کہیں نہ کہیں سے، کسی نہ کسی طریقے سے، کسی نہ کسی بہانے سے دشمن ان فلسطینیوں کو ظلم کا نشانہ بناتے رہتے ہیں اور کوئی نہ کوئی وجہ بنتی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اور فلسطینیوں کے لیے بھی حقیقی آزادی میسر آئے۔ اللہ تعالیٰ ان کو ایسے لیڈر بھی عطا فرمائے جن میں عقل اور فراست بھی ہو اور مضبوطی بھی ہو، جو اپنی بات کو کہنے اور اپنے حق لینے والے بھی ہوں۔ اسی طرح احمدیوں کے لیے جو خاص طور پرپاکستان میں ظلم کا نشانہ بن رہے ہیں ان کے لیے بہت دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ انہیں بھی اپنی حفاظت میں رکھے۔
جنازوں میں سے آج جن کا پہلا ذکرہے وہ قریشی محمد فضل اللہ صاحب نائب ناظر اشاعت قادیان تھے جو 27؍ اپریل کو وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ ان کی والدہ کے دادا اور والد کے نانا حضرت منشی مہر دین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام تھے جن کے ذریعہ سے ان کے خاندان میں احمدیت آئی اور ان کا نام منارۃ المسیح کے چندہ دہنگان میں بھی درج ہے۔
جامعہ سے فراغت کے بعد قریشی صاحب نے تئیس سال پانچ ماہ جامعہ احمدیہ میں تدریس کا کام کیا اور قرآن مجید، اردو، کلام، صرف و نحو اور ادب عربی وغیرہ کے مضامین پڑھائے اور کل عرصۂ خدمت ان کا سینتیس سال سات ماہ بنتا ہے۔ اللہ کے فضل سے مرحوم موصی تھے۔ پسماندگان میں اہلیہ اور ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں۔ ان کے بارے میں ناظر اشاعت مخدوم صاحب لکھتے ہیں کہ جامعہ میں جب تھے بہت شفیق استاد تھے۔ طلبہ کے ساتھ بہت محبت اور دوستی کا سلوک تھا اور دوستانہ تھا اور نہایت ایمانداری سے اور وقف کی روح کے ساتھ کام کیا۔ ہمیشہ وقت کی پابندی کی۔ طلبہ سے بھی وقت کی پابندی کرواتے تھے۔ ہندوستان کے اکثر مبلغین ان کے شاگرد ہیں اور ان سے انہوں نے فیض پایا۔ اور طبیعت میں ان کی بہت سادگی تھی۔ کلام میں اختصار تھا، زیادہ باتیں نہیں کرتے تھے لیکن ان کی بات بڑی علمی اور ٹھوس ہوتی تھی۔ نائب صدر خدام الاحمدیہ بھارت کے طور پر ان کو خدمت کی توفیق ملی۔ چونتیس سال کا طویل عرصہ آپ نے بطور نائب ایڈیٹر اخبار بدر خدمت کی توفیق پائی۔ ایڈیٹر مشکوٰۃ بھی رہے۔ تاریخ احمدیت بھارت کی کمیٹی کے بھی ممبر تھے۔ روحانی خزائن کا جو کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن چھپا تھا اس میں انہوں نے پروف ریڈنگ کی بعض غلطیاں نکالیں۔ اس کے بعد پھر ان کے کہنے پر ان کی درستیاں کی گئیں۔ بڑی باریک بینی سے ہر چیز دیکھا کرتے تھے۔ پروف ریڈنگ کرتے تھے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بعض کتب جو علیحدہ علیحدہ شائع ہوئی ہیں ان کی مکمل پروف ریڈنگ کی خصوصاً براہین احمدیہ اور آریہ دھرم اور ست بچن وغیرہ۔ اور ان کتب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جانب سے دیے گئے جو حوالہ جات تھے ان کے اصل ماخذ اور گرنتھوں اور ویدوں سے نہایت باریکی سے چیک کرتے ہوئے ایک ایک لفظ کے تلفظ اور ترجمہ میں جو فرق نظر آتا تھا اس کی نشاندہی کرتے تھے۔ ان کی خاصیت تھی ہر معاملے میں اپنی تحقیق کو کمال تک پہنچاتے۔ انہوں نے آریہ دھرم اور ست بچن کے حوالہ جات کی تلاش اور جائزہ اور چیکنگ بڑی محنت سے کی۔ یہ کہا کرتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس کتاب کو ہندوؤں اور سکھوں کے لیے بطور سند پیش کیا گیا ہے اور کتب ان دونوں مذاہب کے مقابل پر بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ اس لیے بڑی باریکی سے ان کو چیک کرنا ہو گا اور حوالے درست کرنے ہوں گے۔
قرآن کریم جو شائع ہوا ہے اب ہماری طرف سے ’’خط منظور‘‘ میں اس کے سافٹ ویئر کی تیاری میں بھی ان کی بہت خدمات ہیں۔ یہ بمبئی کی کمپنی سے بنوایا گیا تھا اور اس میں انہوں نے بہت کام کیا ہے۔ دن رات انہوں نے اس کی اصلاح اور اس کی درستگی اور صحت کے لیے کام کیا۔ ’’خط منظور‘‘ میں سادہ قرآن کریم تو شائع ہو گیا ہے۔ اسی طرح اب قرآن مجید انگریزی ترجمہ حضرت مولوی شیر علی صاحب والا جوتھا اس کو تیار کرنے میں یہ مصروف تھے۔ وہ بھی تقریباً تیار ہے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ جلد ہی شائع ہو جائے گا۔ اس میں ان کا بہت کام ہے۔ اسی طرح ترجمہ حضرت میر اسحق صاحب والا جو ہے اس کے بھی کچھ سیپارے انہوں نے کر لیے تھے۔ قرآن کریم کے کام میں، اشاعت میں بھی بڑی محنت سے انہوں نے کام کیا ہے خاص طور پر خطِ منظور کی اشاعت میں۔ ان کے ناظر صاحب اشاعت لکھتے ہیں کہ خاکسار کے استاد بھی تھے اور ماموں خسر بھی تھے اس کے باوجودنائب ہونے کی حیثیت سے ہمیشہ اطاعت کا جذبہ اور بڑی عاجزی اور انکساری سے بات کرتے تھے۔ کبھی یہ نہیں کہا کہ مَیں تمہارا استاد ہوں یا رشتہ میں تمہارے سے بڑا ہوں۔ ان کے طلبہ میں سے لکھتے ہیں کہ انہوں نے کلاس میں بتایا کہ انہوں نے دوران طالب علمی کبھی جامعہ سے رخصت نہیں لی اور اس کے بعد تدریس کے دوران بھی جب جامعہ میں پڑھاتے تھے کبھی رخصت نہیں لی۔ اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔
دوسرا جو ذکر ہے وہ ہے سید بشیر الدین احمد صاحب مبلغ سلسلہ۔ یہ بھی قادیان کے ہیں۔ تراسی سال کی عمر میں بقضائے الٰہی وفات پا گئے تھے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ سیدسعید الدین صاحب صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پوتے تھے۔ نہایت عبادت گزار، تہجد گزار، دعا گو، سادہ مزاج آدمی تھے۔ مرحوم موصی بھی تھے۔ پسماندگان میں تین بیٹے چھوڑے ہیں اور تینوں بیٹے انجمن کے دفاتر میں کام کر رہے ہیں۔
اگلا ذکر بشارت احمد صاحب حیدر واقف زندگی قادیان ابن فیض احمد صاحب شحنہ کا ہے۔ ان کی گذشتہ دنوں اکہتر سال کی عمر میں وفات ہو گئی اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ یہ مرحوم حضرت عبدالکریم صاحب کے پوتے تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نشان سگ گزیدہ تھے۔ جو حضرت عبدالکریم صاحبؓ کا ہلکائے کتے کے کاٹنے کا معاملہ تھا یہ ان کے پوتے تھے اور یہ زندگی وقف کر کے کرناٹک سے قادیان آئے اور پھر مدرسہ احمدیہ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد مختلف دفاتر میں کام کیا اور پھر انچارج شعبہ رشتہ ناطہ مقرر ہوئے۔ وہاں خدمات سرانجام دیں اور چھیالیس سال تک سلسلہ کی خدمت کی۔ وسائل کم ہونے کے باوجود بڑی سفید پوشی سے اور سادگی سے گزارا کیا۔ بڑی سادہ زندگی تھی۔ بڑے بااخلاق اور بامروت انسان تھے۔ مرحوم موصی تھے۔ اہلیہ کے علاوہ تین بیٹیاں ہیں جن کو انہوں نے تعلیم بھی اچھی دلوائی اور پھر واقفین زندگی سے ان سب کی شادیاں کیں۔
اگلا ذکر مکرم محترم ڈاکٹر محمد علی خان صاحب امیر جماعت احمدیہ ضلع پشاور کا ہے۔ 67سال کی عمر میں گذشتہ ماہ ان کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ انہوں نے خود بیعت کی تھی۔ جب یہ وہاں ایف ایس سی کے طالبعلم تھے۔ کہتے ہیں کہ میں اپنے تایا کی دکان تھی وہاں بیٹھا ہوا تھا تو ایک شخص آیا جو بڑا معزز تھا اور جب چلا گیا تو تایا نے ان کو کہا تم جانتے ہو یہ قادیانی تھا اور قادیانی بہت اچھے لوگ ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں یہ میرا جماعت سے پہلا تعارف تھا۔ پھر میڈیکل کالج میں ایک ان کے کلاس فیلو تھے جو احمدی تھے۔ انہوں نے حضرت عیسیٰ کے بارے میں ان سے پوچھا کہ کیا نظریہ ہے؟ زندہ مانتے ہو یا فوت شدہ؟ تو ڈاکٹر محمد علی صاحب نے کہا کہ میں تو ان کو فوت شدہ مانتا ہوں۔ اس پر اس احمدی طالبعلم کو خیال ہوا کہ پھر ان کو تبلیغ کرنی چاہیے۔ بہرحال پھر مشن ہاؤس لے گئے وہاں انہوں نے جماعت کا تعارف کروایا۔ وہاں بشارت بشیر سندھی صاحب مربی تھے اور ان کو پتلون قمیص میں دیکھا تو متاثر ہوئے کہ مولوی بھی ہیں اور بڑے ماڈرن مولوی ہیں۔ بہرحال بشارت بشیر صاحب نے ان کو دعوۃ الامیر پڑھنے کے لیے دی اور وہ کہتے ہیں کہ میں نے اسی دن پڑھی تو ختم کرتے ہی مجھے یقین ہو گیا کہ احمدیت سچی ہے۔ 1973ء میں انہوں نے بیعت کی اور 1974ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے ان کی بیعت منظور فرمائی۔ 1974ء میں جب وہ احمدی ہو گئے تو اس میں فسادات بھی شروع ہو گئے اور مجمع کی صورت میں اپنے کالج سے لڑکوں نے ان کو پکڑ کے کہا کہ احمدیت سے انکار کرو۔ (پتہ لگ گیا کہ احمدی ہے) تمہیں شہید کر دیں گے یا قتل کر دیں گے۔ بہرحال کالج کی انتظامیہ کچھ نہیں کر سکی۔ اس وقت یونیورسٹی کے چانسلر باچا خان کے بیٹے علی خان تھے۔ وہ وہاں آئے اور ان کو ان لوگوں سے چھڑوا کر اپنے ساتھ اپنی سواری میں لے گئے اور شہر سے باہر جا کے ان کو چھوڑ دیا۔ یہ کہتے ہیں وہاں سے مَیں پیدل، ننگے پاؤں اپنے گاؤں پہنچا اور باپ نے کہا کہ تم اپنے آپ کو بھی تکلیف میں ڈال رہے ہو اور ہمیں بھی بدنام کر رہے ہو۔ کیوں نہیں احمدیت چھوڑ دیتے۔ انہوں نے کہا میں احمدیت نہیں چھوڑ سکتا۔ بہرحال کہتے ہیں میرا والد صاحب سے بھی مباحثہ جاری رہا اور حالات کی خرابی کی وجہ سے تعلیم بھی جاری نہیں رکھ سکا۔ بڑے برے حالات تھے لیکن احمدیت پہ قائم رہا۔ ایک دن ان کے والد صاحب نے کہا کہ دیکھو اس مسئلہ کو ختم کرو۔ چھوڑو احمدیت۔ تو انہوں نے کہا کہ اس کو ختم کرنے کا میراایک ہی حل ہے کہ جب آپ میرا کھانا بھجواتے ہیں تو اس میں زہر ملا دیں تا کہ میں مر جاؤں اور آپ کا مسئلہ حل ہو جائے۔ والد کو انہوں نے کہا کیونکہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپؑ کی جماعت کو نہیں چھوڑ سکتا۔ اور اس کے بعد آپ کے والد صاحب نے پھر کبھی آپ کو نہیں کہا کہ احمدیت چھوڑ دو۔ ان کے والد صاحب کی وفات ہوئی ہے تو آپ ان کی وفات پر گئے مگر نماز جنازہ نہیں پڑھی۔ لوگوں نے کہا کہ قبائلی روایات کے بڑا خلاف ہے اور بڑی نفرت کا اظہار کیا۔ کیسا بیٹا ہے باپ کا جنازہ نہیں پڑھا تو انہوں نے کہا کہ میرے لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام زیادہ اہمیت رکھتے ہیں باقی سب بعدمیں۔ اسی طرح ان کی والدہ نے ان کے ساتھ بہت برا سلوک کیا۔ انہوں نے کہا تم میرے بیٹے نہیں ہو اور ہر چیز سے، جائیداد وغیرہ سےان کو عاق کر دیا تو اس کے بعد پھر اپنے گاؤں نہیں گئے لیکن والدہ کی مدد کرتے رہے۔ اور اپنے تایا کے گھر جایا کرتے تھے۔ وہاں سے والدہ کا خیال رکھتے رہے۔ ان کی مالی امداد بھی کرتے رہے۔ وہ خود بھی جب فوت ہوئی ہیں تو ان کا جنازہ بھی نہیں پڑھا۔ اسی طرح انہوں نے اپنے ایک چھوٹے بھائی کو بھی احمدی کر لیاتھا۔ انہوں نے بھی جنازہ نہیں پڑھا۔ اور اس پر پھر لوگوں نے اعتراض کیا کہ کیسے بیٹے ہیں۔ پَر انہوں نے یہی کہا کہ جہاں تک جماعت کی غیرت کا سوال ہے یہ لوگ کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گالیاں دیتے رہے اس لیے ہم جنازہ نہیں پڑھ سکتے۔ انہوں نے غیر معمولی غیرت دکھائی۔ ستائیس سال انہوں نے فوج میں خدمت کی۔ لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے سے ریٹائرڈ ہوئے۔ ڈاکٹر تھے۔ ریٹائرمنٹ پر ان کو صدارتی تمغہ امتیاز ملٹری بھی ملا۔ اس کے بعد یہ نصیر ٹیچنگ ہاسپٹل پشاور میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طورپر کام کرتے رہے اور ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ شعبہ سائیکالوجی بھی رہے۔ بتیس سال کی عمر میں ان کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے سرحد اور ضلع پشاور اور پشاور جماعت کا امیر مقرر فرمایا تھا۔ 1985ء میں ان کو وقف جدید کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں تعینات کردیا۔ تاحیات اسی پوزیشن میں رہے، وقف جدید کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ممبر رہے۔ اسی طرح فضل عمر فاؤنڈیشن اور طاہر فاؤنڈیشن اور سٹینڈنگ شوریٰ کے بھی ممبر تھے۔ ان کے چھوٹے بھائی کرنل ایوب صاحب ہیں جن کا میں نے ذکر کیا انہوں نے بھی احمدیت قبول کرلی۔ اور شمس الدین خان صاحب امیر صوبہ سرحد کی صاحبزادی سے ان کی شادی ہوئی تھی۔ ان کے پسماندگان میں اہلیہ، ایک بیٹا اور تین بیٹیاں ہیں۔ بیٹا جو ہے وقف نو میں ہے اور آج کل ہیومینٹی فرسٹ کے زیر انتظام تنزانیہ میں خدمت انجام دے رہےہیں۔ یہ لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر محمد علی خان صاحب سچائی، دیانتداری، بے نفسی اور کھرے پن میں اپنا ایک خاص انفرادی مقام رکھتے تھے۔ کبھی بھی دولت، اخراجات، دنیاوی اموال یا کسی چیز کا ذکر نہ کرتے۔ ان کے ہر بچے نے یہی بات لکھی ہے۔ اور ہمیشہ نہایت ہی مطمئن اور خوش زندگی گزاری۔ انہوں نے پشاور کے ہر قسم کے نہایت مشکل حالات میں نہایت پیار اور خدا تعالیٰ کی مدد و نصرت پر بھروسا کرتے ہوئے پشاور جماعت کی قیادت کی۔ پشاور کے لوگ ان کی وفات پر بہت دکھی ہیں۔ خلافت سے بے انتہا تعلق تھا اور ان کی اطاعت بھی مثالی تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بھی محبت کا تعلق تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق کا تعلق تھا۔ اللہ تعالیٰ کی توحید کے لیے ہر قربانی کے لیے تیار رہنے والے بےشمار خوبیوں کے مالک تھے۔
اگلا ذکر مکرم محمد رفیع خان شہزادہ صاحب ربوہ کا ہے جو 30؍ مارچ کو وفات پا گئے تھے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ ان کی عمر بیاسی سال تھی۔ مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ حضرت غلام رسول صاحب افغانؓ اور عائشہ پٹھانی صاحبہ کے نواسے اور حضرت عبدالستار خان صاحبؓ المعروف بزرگ صاحب کے پڑنواسے تھے۔ عبادت گزار اور جوانی سے ہی تہجد گزار تھے۔ دین کی غیرت رکھنے والے تھے اور بڑا جوش رکھتے تھے۔ بڑی پاکیزہ شخصیت کے مالک تھے۔ آخری بیماری میں ہسپتال میں سانس کی تکلیف کے باوجود قرآن شریف اونچی آواز میں پڑھتے رہتے تھے۔ یہ ابوظہبی میں ایئر فورس میں جب بھرتی ہو گئے تو کچھ عرصہ بعد پھر ابوظہبی چلے گئے۔ وہاں ایئر فورس کی اسمبلی میں کسی مولوی نے کہا کہ قادیانی واجب القتل ہیں تو انہوں نے بڑی جرأت سے کھڑے ہو کر کہا کہ میں احمدی ہوں مجھے قتل کرو لیکن بہرحال پھر وہاں سے انہوں نے استعفیٰ دے دیا اور پاکستان آگئے۔ یہاں آ کے اپنا میڈیکل سٹور کھولا اور اس دوران میں دارالرحمت شرقی (راجیکی) کے صدر محلہ بھی رہے۔ اسی طرح ایم ٹی اے کے پروگرام پشتو مذاکرہ کی کم و بیش پچاس قسطوں میں شرکت کی۔ محلے کے ہر شخص کے ساتھ ان کا نہایت شفقت بھرا اور پدرانہ سلوک تھا۔ لوگوں کی خاموش مالی مدد کیا کرتے تھے۔ موصی تھے۔ اہلیہ کے علاوہ دو بیٹے اور چار بیٹیاں چھوڑی ہیں۔
اگلا ذکر ایازیونس صاحب آسٹریلیا کا ہے۔ ان کی چوبیس مارچ کو آسٹریلیا کی اسٹیٹ نیوساؤتھ ویلز میں سیلابی پانی میں ڈوب جانے کی وجہ سے وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ بڑے خدمت کرنے والے خادم تھے۔ انہوں نے صدر صاحب کو کہا کہ آپ کو کسی کام کی بھی ضرورت ہو تو مجھے جب بھی حکم کریں گے میں حاضر ہوں گا۔ ہمیشہ ہر وقت خدمت کے لیے حاضر رہنے والے تھے اور ہر ایک کو کہا ہوا تھا کہ میرے گھر کے دروازے کھلے ہوئے ہیں جب بھی ضرورت ہو مدد کی، آجاؤ۔ ہر ایک کی بڑھ چڑھ کر مدد کرنے والے تھے۔ نوجوان تھے ابھی شادی بھی نہیں ہوئی تھی۔ بہرحال ان کی وفات پہ حکومت نے والدین کو پاکستان سے آنے کے لیے ویزا بھی دیا اور حکومتی نمائندوں کی موجودگی میں ان کی تدفین ہوئی۔
اگلا ذکر میاں طاہر احمد صاحب ابن میاں قربان حسین صاحب کا ہے جو وکالت مال ثالث ربوہ کے سابق کارکن تھے اور ادریس احمد صاحب کے والد تھے جو ہمارے اسلام آباد میں یہاں کے پراجیکٹ کے انجنیئر ہیں۔ 67سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ مقامی جماعت میں سیکرٹری تربیت تھے۔ نائب صدر اور زعیم انصار اللہ کے طور پر بھی خدمت بجا لاتے رہے۔ تہجد گزار اور نوافل کی ادائیگی کرنے والے، قرآن مجید کی باقاعدہ تلاوت کرنے والے تھے۔ موصی تھے۔ پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ دو بیٹیاں اور تین بیٹے چھوڑے ہیں۔
اگلا ذکر رفیق آفتاب صاحب (یوکے) کا ہے جو فاروق آفتاب صاحب کے والد تھے۔ ان کی بھی گذشتہ مہینہ اپریل میں تریسٹھ سال کی عمر میں وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ فاروق صاحب لکھتے ہیں کہ میرے والد بہت خوبیوں کے مالک تھے۔ عاجز، شریف النفس، ہر ایک کے ساتھ میل ملاپ رکھنے والے، خوش مزاج اور قابل احترام۔ خوش مزاج تھے۔ لوگوں کا احترام کرنے والے، مہمان نواز اور بہت سارے لوگوں نے ہمیں فون کر کے یہی بتایا ہے اور ان خوبیوں کی گواہی دی ہے۔ بہت مخلص اور فدائی تھے۔ بچوں کو بھی خلافت کے قریب رہنے کی طرف ہمیشہ توجہ دلائی اور اسی کا نتیجہ ہے کہ بچے جماعت کی خدمت بھی کر رہے ہیں۔
اگلا ذکر محترمہ زرینہ اختر صاحبہ اہلیہ مرزا نصیر احمد صاحب چٹھی مسیح جامعہ احمدیہ یوکے کے استاد کا ہے جو گذشتہ مہینہ وفات پا گئیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ یہ بھی صحابہ کی اولاد میں سے تھیں اور بڑی صابر شاکر، اپنے والدین اور ساس اور سسر سب کی خدمت کا انہوں نے حق ادا کیا۔ واقف زندگی خاوند کے ساتھ وفا اور قناعت سے گزارہ کیا۔ گھانا میں رہیں تو بڑے بُرے معاشی حالات کے باوجود بڑے صبر اور شکر سے انہوں نے بچوں کے ساتھ گزارہ کیا۔ کبھی منہ پہ شکوہ نہیں لائیں۔ مرحومہ موصیہ تھیں۔ ان کے ایک بیٹے مرزا توقیر احمد واقف زندگی ہیں۔ ایم ٹی اے میں کام کر رہے ہیں۔
اگلا جنازہ حافظ محمد اکرم صاحب کا ہے جو اسی مہینے طاہر ہارٹ میں اسّی سال کی عمر میں وفات پاگئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ ان کے خاندان میں احمدیت حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے ذریعہ سے آئی تھی اور اس کے بعد ان کے دادا نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں تحریری بیعت کی تھی۔ دستی بیعت تو نہیں ہوئی لیکن تحریری بیعت کی تھی۔ ان کے ایک نواسے عبدالخبیر رضوان یہاں دفتر پی ایس یوکے میں خدمت بجا لا رہے ہیں۔ انہوں نے بھی جماعت کی خدمت کے لیے اپنے آپ کو پیش کیا اور تصدیق کے لیے جب محمد احمد صاحب مظہر جو ضلع فیصل آباد کے سابق امیرتھے ان کے پاس گئے تو انہوں نے کہا آپ نے دین کی خدمت کرنی ہے۔ آپ یہاں میرے پاس دین کی خدمت کریں اور وہاں پھر فیصل آباد جماعت میں بحیثیت کارکن آپ نے ساری عمر گزاری اور ہمیشہ دین کو دنیا پر مقدم کیا۔ اپنے آپ کووقف سمجھا۔ موصی تھے۔ اپنا حصہ جائیداد بھی اپنی زندگی میں ادا کر دیا۔ بڑے تہجد گزار اور بلا ناغہ تہجد ادا کرنے والے۔ فیصل آباد میں بہت سے بچوں کو انہوں نے قرآن کریم پڑھانے اور حفظ کرانے کی توفیق پائی۔ اپنے چھوٹے بیٹے کو بھی قرآن شریف حفظ کروایا۔
اگلا ذکر محترم چودھری نور احمدناصر صاحب کا ہے جو گذشتہ دنوں بیاسی سال کی عمر میں وفات پا گئے تھے۔ یہ چودھری محمد عبداللہ صاحب درویش قادیان کے سب سے بڑے بیٹے تھے۔ ان کے دو بیٹے اللہ تعالیٰ کے فضل سے واقف زندگی ہیں۔ ایک تو منصور احمدناصر ہیں جو ہمارے لائبیریا کے سکول میں پرنسپل ہیں اور دوسرے مسرور احمد مظفر گھانا میں بطور مبلغ خدمت سلسلہ کی توفیق پا رہے ہیں اور یہ دونوں بیٹے میدان عمل میں ہونے کی وجہ سے اپنے باپ کے جنازہ میں شامل نہیں ہوئے تھے۔ مرحوم موصی تھے۔
اگلا جنازہ مکرم محمود احمد منہاس صاحب ابن حکیم عبیداللہ منہاس صاحب کا ہے جو پچھتر سال کی عمر میں گذشتہ ماہ وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ ان کے ایک بیٹے راشد محمود منہاس مبلغ ہیں وہ کہتے ہیں مرحوم ایک درویش صفت انسان تھے۔ بے شمار خوبیوں کے مالک تھے۔ باقاعدگی سے تہجد ادا کرنے والے، خلافت کے شیدائی، غریبوں اور بیکسوں کی مدد کرنے کے لیے ہر وقت تیار تھے۔ ان کے یہ بیٹے بھی گھانا میں میدان عمل میں ہونے کی وجہ سے جنازہ میں شامل نہیں ہوئے۔ اسی طرح ایک دوسرے بیٹے ملائیشیا میں ہونے کی وجہ سے شامل نہیں ہوئے۔
اللہ تعالیٰ ان سب مرحومین کی اولادوں کو، ان کے لواحقین کو صبر اور حوصلہ عطا فرمائے اور ان سب کے درجات بلند فرمائے۔ مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ جمعہ کی نماز کے بعد ان کی نماز جنازہ ادا کروں گا۔ ان شاء اللہ۔
(الفضل انٹرنیشنل 11؍جون2021ءصفحہ 5تا10)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اُس کے قتل سے منع کیا گیا ہے جو اس شہادت (کلمہ)کا اظہار کرے۔
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد فاروق اعظم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ
حضرت عمر بن خطابؓ بدر، احد اور خندق سمیت تمام غزوات میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئے۔
بارہ مرحومین: مکرم قریشی محمد فضل اللہ صاحب نائب ناظر اشاعت قادیان، مکرم سیّد بشیرالدین احمد صاحب مبلغ سلسلہ قادیان، مکرم بشارت احمد صاحب حیدر واقفِ زندگی قادیان (ابن فیض احمد صاحب شحنہ)، مکرم ڈاکٹر محمد علی خان صاحب (امیر جماعت احمدیہ ضلع پشاور)، مکرم رفیع خان شہزادہ صاحب (سابق صدر محلہ دارالرحمت شرقی راجیکی ربوہ)، مکرم ایاز یونس صاحب آسٹریلیا، مکرم میاں طاہر احمد صاحب (سابق کارکن وکالت مال ثالث ربوہ)، مکرم رفیق آفتاب صاحب یوکے، مکرمہ زرینہ اختر صاحبہ (اہلیہ مرزا نصیر احمد صاحب چٹھی مسیح استاد جامعہ احمدیہ یوکے)، مکرم حافظ محمد اکرم صاحب، مکرم چودھری نور احمدناصر صاحب، مکرم محمود احمد منہاس صاحب (ابن حکیم عبیداللہ منہاس صاحب) کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب۔
فرمودہ 21؍مئی2021ء بمطابق 21؍ہجرت1400 ہجری شمسی، بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔