حضرت عمر بن خطابؓ
خطبہ جمعہ 11؍ جون 2021ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّآ إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
گذشتہ خطبہ میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے صلح حدیبیہ کا بھی ذکر ہوا تھا۔ اس حوالے سے یہ بھی ذکر آتا ہے کہ صلح حدیبیہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جب بنو بَکْر نے جو قریش کے حلیف تھے مسلمانوں کے حلیف قبیلہ بنو خُزاعہ پر حملہ کیا اور قریش نے ہتھیاروں اور سواریوں سے بنو بکر کی مدد بھی کی اور صلح حدیبیہ کی شرائط کا پاس نہ کیا تو اس وقت ابوسفیان مدینہ میں آیا اور صلح حدیبیہ کے معاہدہ کی تجدید چاہی۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا لیکن آپؐ نے اس کی کسی بات کا جواب نہیں دیا۔ پھر وہ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس گیا ان سے بات کی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کریں لیکن انہوں نے بھی کہا کہ مَیں ایسا نہیں کروں گا۔ پھر ابوسفیان حضرت عمرؓ کے پاس آیا اور ان سے بات کی۔ انہوں نے جواب دیا کہ کیا میں رسول اللہؐ کے پاس تیری سفارش کروں؟ خدا کی قسم! اگر میرے پاس ایک تنکا بھی ہو تب بھی مَیں اس کے ساتھ تم لوگوں سے جنگ کروں گا۔ (سیرت ابن ہشام صفحہ735دارالکتب العلمیۃ بیروت 2001ء) (الکامل فی التاریخ جلد 2 صفحہ 115 ذکر فتح مکہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2012ء)
فتح مکہ کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر علی محمد صلابی نے لکھا ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مَرُّالظَّہْرَان پہنچے تو ابوسفیان کو اپنے بارے میں فکر ہونے لگی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباسؓ نے اسے مشورہ دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے امان طلب کر لو۔ حضرت عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے ابوسفیان سے کہا تیرا بُرا ہو۔ دیکھو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں موجود ہیں۔ ابوسفیان کہنے لگا کہ میرے ماں باپ تم پر قربان! اس سے بچنے کی کیا ترکیب ہے؟ مَیں نے کہا اللہ کی قسم! اگر وہ تمہیں گرفتار کر لیں تو یقینا ًتمہیں قتل کر دیں گے۔ میرے پیچھے خچر پر سوار ہو جاؤ مَیں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے جاتا ہوں اور پھر تمہارے لیے آپؐ سے امان طلب کروں گا۔ حضرت عباسؓ کہتے ہیں کہ وہ میرے پیچھے سوار ہو گیا۔ مَیں جب بھی مسلمانوں کی آگوں میں سے کسی آگ کے پاس سے گزرتا تو وہ پوچھتے یہ کون ہے؟ رات کا وقت تھا، آگیں جلی ہوئی تھیں۔ جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خچر دیکھتے اور یہ کہ مَیں اس پر سوار ہوں تو وہ کہتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا آپؐ کے خچر پر ہیں۔ یہاں تک کہ جب مَیں عمر بن خطابؓ کی آگ کے پاس سے گزرا تو انہوں نے کہا یہ کون ہے؟ اور وہ میرے پاس کھڑے ہوئے۔ جب انہوں نے ابوسفیان کو دیکھا تو کہا ابوسفیان، اللہ کا دشمن! ہر قسم کی تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے بغیر کسی عہد و پیمان کے تجھ پر غلبہ عطا فرمایا ہے۔ پھر حضرت عباسؓ کھینچتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے یعنی ابوسفیان کو اور حضرت عمرؓ بھی آپؐ کے پاس داخل ہوئے اور حضرت عمرؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! مجھے اجازت دیجئے تا کہ میں اس کی گردن مار دوں۔ حضرت عباسؓ کہتے ہیں کہ مَیں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! مَیں نے اس کو پناہ دی ہے۔ جب حضرت عمرؓ اپنی بات پر اصرار کرتے رہے تو مَیں نے کہا اے عمرؓ ! ٹھہرو۔ اللہ کی قسم! اگر اس کا تعلق بنوعَدِی سے ہوتا تو تم ایسا نہ کہتے اور تم جانتے ہو کہ وہ بنو عَبدِ مَنَاف میں سے ہے۔ اس پر حضرت عمرؓ کہنے لگے کہ اے عباسؓ ! ٹھہرو۔ اللہ کی قسم! جب تم نے اسلام قبول کیا تھا تو مجھے اتنی خوشی ہوئی تھی کہ اگر میرا باپ خطاب بھی ایمان لاتا تو اتنی خوشی نہ ہوتی اور مَیں جانتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمہارا ایمان لانا خطاب کے اسلام لانے سے زیادہ محبوب تھا۔ اگر وہ اسلام قبول کرتا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عباسؓ ! ابوسفیان کو اپنے ساتھ لے جاؤ اور صبح لے کر آنا۔ (عمر بن خطابؓ از علی محمد محمد الصلابی صفحہ 51 دارالمعرفہ بیروت 2007ء)
بہرحال حضرت عمرؓ کا اور حضرت عباسؓ کا یہ مکالمہ ہوتا رہا اور آخر پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباسؓ کو یہی کہا کہ اس کو لے جاؤ۔ پناہ میں دے دیا ہےتو لے جاؤ۔ کچھ نہیں کہنا اس کو۔
ابوبکر بن عبدالرحمٰن سے مروی ہے کہ شعبان سات ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر بن خطابؓ کو ایک سریہ میں تیس آدمیوں کے ساتھتُرَبَہ میں قبیلہ ہوازن کی ایک شاخ کی طرف روانہ فرمایا۔ تُرَبَہمکہ سے دو دن کی مسافت پر ایک وادی ہے جہاں بنو ہوازن آباد تھے۔ جب دو دن کی مسافت وغیرہ کا ذکر ہوتا ہے۔ دو دن کے حوالے سے میری مراد یہ ہے کہ جب دنوں کے حوالے سے کہیں بھی حوالہ آئے، بات ہو۔ تو یہ پرانے زمانے کی سواریاں گھوڑے یا اونٹ تھے ان کے حوالے سے ذکر ہوتا ہے۔ بُرَیْدَہ اسلَمِیسے مروی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اہل خیبر کے میدان میں اترے تو آپؐ نے جھنڈا حضرت عمر بن خطابؓ کو دیا۔ (طبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ206دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان2012ء) (فرہنگ سیرت صفحہ75 زیر لفظ تربہ زوار اکیڈیمی کراچی 2003)
کتبِ سیرت میں لکھا ہے کہ سب سے پہلی مرتبہ غزوۂ خیبر میں پرچم کا ذکر ملتا ہے۔ اس سے قبل صرف جھنڈے ہوتے تھے۔ یہ ذکر ہو رہا تھا کہ بُریدہ اسلمی سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اہل خیبر کے میدان میں اترے تو آپؐ نے جھنڈا حضرت عمر بن خطابؓ کو دیا۔ آگے اس کی کتبِ سیرت میں سے وضاحت ہے کہ سب سے پہلی مرتبہ غزوۂ خیبر میں پرچم کا ذکر ملتا ہے، جھنڈے یعنی بڑے پرچم کا اس سے قبل صرف چھوٹے جھنڈے ہوتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پرچم سیاہ رنگ کا تھا جو ام المومنین حضرت عائشہؓ کی چادر سے بنایا گیا تھا۔ اس کا نام عُقَاب تھا اور آپؐ کا ایک جھنڈا سفید رنگ کا تھا جو آپؐ نے حضرت علیؓ کو عطا فرمایا۔ ایک جھنڈے کا پہلے ذکر ہوا ہے جو سیاہ رنگ کا تھا جو امّ المومنینؓ کی چادر سے بنایا گیا تھا۔ پھر دوسرے جھنڈے کا ذکر ہے جوسفید رنگ کا تھا یہ حضرت علیؓ کو آپؐ نے عطا فرمایا۔ ایک پرچم آپؐ نے حضرت حُبَابْ بن مُنذِرؓ کو اور ایک حضرت سعد بن عُبادہؓ کو عطا فرمایا۔ نیز جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خیبر میں تشریف فرما ہوئے تو آپؐ کو درد ِشقیقہ ہو گیا اور آپ باہر تشریف نہ لا سکے۔ اس موقع پر پہلے آپؐ نے حضرت ابوبکرؓ کو اپنا پرچم عطا فرمایا پھر وہی پرچم حضرت عمرؓ کو عطا فرمایا۔ اس روز شدید لڑائی ہوئی تاہم مسلمان قلعہ فتح نہ کر سکے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کل میں اس شخص کو جھنڈا دوں گا جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ فتح عطا فرمائے گا۔ چنانچہ اگلے روز وہ پرچم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ کو عطا فرمایا جن کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ نے فتح عطا فرمائی۔ (ماخوذ از سبل الہدیٰ والرشاد جلد 5صفحہ120، 124، 125دارالکتب العلمیۃ بیروت 1993ء)
ابن اسحاق کہتے ہیں کہ مَیں نے ابنِ شہاب زُہری سے دریافت کیا کہ حضورؐ نے خیبر کی کھجوروں کے باغات کس شرط پر یہودیوں کو عطا کیے تھے؟ زُہری نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑائی کے بعد خیبر پر فتح حاصل کی تھی اور خیبر مالِ فَے میں سے تھا جو اللہ عز وجل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمایا۔ اس کا پانچواں حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تھا اور اسے آپؐ نے مسلمانوں میں تقسیم فرمایا اور یہود میں سے جو لوگ لڑائی کے بعد جلا وطنی پر آمادہ ہوتے ہوئے اپنے قلعوں سے نیچے اترے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بلایا اور بلا کر فرمایا کہ اگر تم چاہو تو یہ اموال تمہارے سپرد کیے جا سکتے ہیں اس شرط پر کہ تم ان میں کام کرو اور اس کا پھل ہمارے اور تمہارے درمیان تقسیم ہو گا۔ اس جائیداد کا بٹائی پر کام ہو جائے گا اگر تم چاہو تو یہاں رہنا۔ اور میں تم لوگوں کو ٹھہراؤں گا جہاں اللہ تم لوگوں کو ٹھہرائے گا تو یہودنے قبول کر لیا۔ یہود ان میں کام کرتے رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عبداللہ بن رَوَاحہؓ کو بھیجا کرتے تھے کہ وہ ان باغات کے پھل تقسیم کرتے اور یہود کے لیے پھلوں کا اندازہ کرنے میں عدل سے کام لیا کرتے تھے۔ یہ نہیں کہ اچھا والا پھل اپنے لیے رکھ لیا بلکہ انصاف سے تقسیم ہوتی تھی۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو وفات دے دی تو حضرت ابوبکرؓ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اسی طرح یہود سے معاملہ رکھا جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے۔ حضرت عمرؓ نے بھی اپنی خلافت کے ابتدا میں یہی معاملہ رکھا پھر حضرت عمرؓ کو معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس بیماری میں آپؐ کی وفات ہوئی تھی اس میں فرمایا تھا کہ جزیرۂ عرب میں دو دین اکٹھے نہ رہیں گے۔ حضرت عمرؓ نے اس کی تحقیق کی اور جب یہ بات ثابت ہو گئی۔ تب انہوں نے خیبر کے یہود کو لکھاکہ اللہ عزوجل نے تمہاری جلا وطنی کے بارے میں حکم دیا ہے۔ مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جزیرۂ عرب میں دو دین اکٹھے نہ رہیں گے۔ پس یہود میں سے جس کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی عہد ہے تو وہ اسے لے کر میرے پاس آئے تا کہ مَیں اس کے لیے اسے نافذ کر دوں اور جس کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی عہدنہیں وہ جلاوطنی کے لیے تیاری کر لے۔ اگر کسی نے کوئی عہد لیا ہوا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رہنے کا کوئی وعدہ کیا تھا تو ٹھیک ہے اس کو مَیں پورا کروں گا لیکن اگر کوئی نہیں تو پھر تمہیں یہ جگہ چھوڑنی ہوگی۔ چنانچہ حضرت عمرؓ نے انہیں جلا وطن کر دیا جن کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی عہدنہ تھا۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ مَیں، حضرت زبیر بن عوامؓ اور حضرت مقداد بن اسودؓ خیبر میں اپنا مال دیکھنے گئے اور وہاں پہنچ کر ہم الگ الگ اپنے اموال کے پاس گئے۔ رات کے وقت مجھ پر حملہ کیا گیا جبکہ مَیں اپنے بستر میں سو رہا تھا۔ میرے بازوؤں کے جوڑ کہنیوں سے اتر گئے۔ جب صبح ہوئی تو میرے دونوں ساتھی چیختے ہوئے میرے پاس آئے اور دونوں نے پوچھا تمہارے ساتھ یہ کس نے کیا ہے؟ مَیں نے کہا مَیں نہیں جانتا۔ وہ کہتے ہیں ان دونوں نے میرے بازو درست کیے پھر مجھے لے کر حضرت عمرؓ کے پاس آئے۔ حضرت عمرؓ نے کہا یہ یہودیوں کا فعل ہے۔ پھر وہ یعنی حضرت عمرؓ لوگوں سے خطاب کرنے کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا: اے لوگو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے یہودیوں سے اس شرط پر معاملہ کیا تھا کہ جب ہم چاہیں گے ان کو نکال دیں گے۔ اب یہودنے حضرت عبداللہ بن عمرؓ پر حملہ کیا اور اس کے بازوؤں کے جوڑ نکال دیے جیسا کہ تم تک یہ بات پہنچ چکی ہے۔ اس سے پہلے انصاری پر بھی ان لوگوں نے حملہ کیا تھا۔ ہم کو اس میں کوئی شک نہیں رہا کہ وہ ان کے ہی ساتھی ہیں۔ وہاں ان کے سوا ہمارا کوئی دشمن نہیں ہے۔ پس جس کا خیبر میں کوئی مال ہے تو وہ اسے سنبھال لے کیونکہ میں یہود کو نکالنے والا ہوں اور آپؓ نے انہیں نکال دیا۔ عبداللہ بن مَکْنَفْ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عمرؓ نے یہود کو خیبر سے نکالا تو خود انصار اور مہاجرین کے ساتھ سوار ہوئے اور حضرت جَبَّار بن صَخْرؓ اور حضرت یزید بن ثابتؓ بھی ان کے ساتھ نکلے۔ حضرت جبارؓ اہلِ مدینہ کے لیے پھلوں کا اندازہ لگانے والے اور ان کے محاسب تھے۔ ان دونوں نے خیبر کو اس کے اہل کےدرمیان اسی تقسیم کے موافق تقسیم کیا جو پہلے سے تھی۔ (سیرت ابن ہشام صفحہ710دارالکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)
حضرت حاطبؓ کے حوالے سے ایک عورت کو خط دے کر مکہ روانہ کرنے کا یہ واقعہ ملتا ہے کہ انہوں نے جب خط دے کر خفیہ طور پر مکہ کے مشرکوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض ارادے کے بارے میں خبر بھیجی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اطلاع ہوئی اور حضرت علیؓ کو آپؐ نے بھیجا اور وہ عورت راستے میں پکڑی گئی۔ اس کے بعد جب حاطب سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تو انہوں نے اپنا عذر پیش کیا اور اپنے ایمان کے بارے میں بتایا کہ ایمان میں میرے کوئی لغزش نہیں ہے بلکہ میرا کامل ایمان ہے۔ حضرت حاطبؓ نے اس کی یقین دہانی کرائی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تسلیم فرمایا لیکن حضرت عمرؓ نے کہا یا رسول اللہؐ ! مجھے اس منافق کی گردن اڑانے دیجیے۔ آپؐ نے فرمایا دیکھو وہ غزوۂ بدر میں شریک ہوا ہے اور تمہیں کیا علم کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں جھانک کر دیکھا جو بدر میں شریک ہوئے اور فرمایا جو چاہو کرو مَیں نے تمہارے گناہوں سے پردہ پوشی کر کے تم سے درگذر کر دیا ہے۔ (بخاری کتاب المغازی باب غزوہ الفتح حدیث 4274)
ایک اَور واقعہ ہے جس کا حضرت عمرؓ سے براہ راست تو تعلق نہیں ہے لیکن ضمناً حضرت عمرؓ کا ذکر آتا ہے اس لیے بیان کرتا ہوں۔ حضرت ابوقتادہؓ کہتے ہیں کہ جب حنین کا واقعہ ہوا تو مَیں نے مسلمانوں میں سے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ ایک مشرک شخص سے لڑ رہا ہے اور ایک اَورمشرک ہے جو دھوکا دے کر چپکے سے اس کے پیچھے سے اس پر حملہ کرنا چاہتا ہے کہ اس کو مار ڈالے۔ یہ دیکھ کر مَیں اس شخص کی طرف جلدی سے لپکا جو ایک مسلمان پر اس طرح دھوکے سے جھپٹنا چاہتا تھا۔ اس نے مجھے مارنے کے لیے اپنا ہاتھ اٹھایا اور مَیں نے اس کے ہاتھ پر وار کر کے اس کو کاٹ ڈالا۔ اس کے بعد اس نے مجھے پکڑ لیا اور اس زور سے مجھے بھینچا کہ مَیں بے بس ہو گیا۔ پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا وہ ڈھیلا پڑ گیا اور مَیں نے اس کو دھکا دیا اور اس کو مار ڈالا۔ ادھر یہ حال ہوا کہ مسلمان شکست کھا کر بھاگ گئے۔ مَیں بھی ان کے ساتھ بھاگ گیا۔ پھر مَیں کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت عمر بن خطابؓ لوگوں کے ساتھ ہیں۔ مَیں نے ان سے کہا لوگوں کو کیا ہوا کہ بھاگ کھڑے ہوئے؟ انہوں نے، حضرت عمرؓ نے کہا کہ اللہ کا منشا۔ پھر لوگ لوٹ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص کسی مقتول کے متعلق یہ ثبوت پیش کر دے کہ اس نے اس کو قتل کیا ہے تو اس مقتول کا سامان اس کے قاتل کا ہو گا۔ مَیں اٹھا کہ اپنے مقتول کے متعلق کوئی شہادت ڈھونڈوں مگر کسی کو نہ دیکھا جو میری شہادت دیتا اور مَیں بیٹھ گیا۔ پھر مجھے خیال آیا اور مَیں نے اس مقتول کا واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا۔ آپؐ کے ساتھ بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے ایک شخص نے کہا اس مقتول کے ہتھیار جس کا یہ ذکر کرتے ہیں میرے پاس ہیں۔ آپ ان ہتھیاروں کی بجائے ان کو کچھ دے دلا کر راضی کر دیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قریش کے ایک معمولی سے شخص کو تو سامان دلا دیں اور اللہ کے شیروں میں سے ایک شیر کو چھوڑ دیں جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے لڑ رہا ہو۔ حضرت ابو قتادہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور آپؐ نے مجھے وہ سامان دلا دیا۔ مَیں نے اس سے کھجوروں کا ایک چھوٹا سا باغ خرید لیا اور یہ پہلا مال تھا جو میں نے اسلام میں بطور جائیداد پیدا کیا۔ (صحیح البخاری کتاب المغازی باب قول اللّٰہ تعالیٰ ویوم حنین حدیث 4322)
حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ جب ہم حنین سے لوٹے تو حضرت عمرؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک نذر کے بارے میں پوچھا جو انہوں نے جاہلیت میں مانی ہوئی تھی یعنی اعتکاف بیٹھنے کی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ نذر پوری کرنے کا ارشاد فرمایا۔ (صحیح البخاری کتاب المغازی باب قول اللّٰہ تعالیٰ ویوم حنین حدیث 4320)کہ چاہے وہ جاہلیت کے زمانے کی تھی اسے پورا کرو۔ ساتھ یہ شرط بھی ہے کہ اسلامی تعلیم کے اندر رہتے ہوئے جو بھی شرط ہو سکتی ہے اسے پورا کرنا ضروری ہے۔
غزوۂ تبوک میں حضرت عمرؓ کا کیا کردار تھا۔ اس کے بارے میں کیا ذکر ملتا ہے۔ غزوۂ تبوک کے موقع پر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے چندے کی ایک خاص تحریک ہوئی تو اس کے متعلق حضرت عمرؓ اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہم صدقہ کریں۔ اس وقت میرے پاس مال تھا۔ مَیں نے کہا اگر مَیں کسی دن حضرت ابوبکرؓ سے سبقت لے جاسکا تو آج لے جاؤں گا تو مَیں اپنا نصف مال لایا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے اہل کے لیے کیا باقی چھوڑ آئے ہو؟ مَیں نے کہا جتنا لے کے آیا ہوں اتنا ہی چھوڑ کے آیا ہوں۔ اور حضرت ابوبکرؓ سب کچھ جو اُن کے پاس تھا لے آئے۔ مَیں تو نصف لے آیا اور حضرت ابوبکرؓ جو کچھ تھا لے آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے بھی پوچھا۔ اپنے اہل کے لیے کیا چھوڑ آئے ہو؟ تو انہوں نے کہا مَیں ان کے لیے اللہ اور اس کا رسول چھوڑ آیا ہوں۔ حضرت عمرؓ کہتے ہیں مَیں نے سوچا کہ مَیں آپؓ سے کسی چیز میں کبھی سبقت نہیں لے جا سکوں گا۔ (سنن ابو داؤد کتاب الزکاۃ باب فی الرخصۃ فی ذٰلک حدیث1678)
اس واقعہ کو حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ ’’ایک جہاد کے موقع کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں۔ مجھے خیال آیا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہمیشہ مجھ سے بڑھ جاتے ہیں۔ آج مَیں ان سے بڑھوں گا۔ یہ خیال کر کے مَیں گھر گیا اور اپنے مال میں سے آدھا مال نکال کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرنے کیلئے لے آیا۔ وہ زمانہ اسلام کے لئے انتہائی مصیبت کا دور تھا لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنا سارا مال لے آئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا۔ ابوبکرؓ ! گھر میں کیا چھوڑ آئے ہو؟ انہوں نے عرض کیا۔ اللہ اور اس کا رسولؐ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔ یہ سن کر مجھے سخت شرمندگی ہوئی اور مَیں نے سمجھا کہ آج مَیں نے سارا زور لگا کر ابوبکرؓ سے بڑھنا چاہا تھا مگر آج بھی مجھ سے ابوبکرؓ بڑھ گئے۔‘‘ (فضائل القرآن(3)، انوار العلوم جلد11 صفحہ577)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’ایک وہ زمانہ تھا کہ الٰہی دین پر لوگ اپنی جانوں کو بھیڑ بکری کی طرح نثار کرتے تھے مالوں کا تو کیا ذکر۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک سے زیادہ دفعہ اپنا کُل گھر بار نثار کیا۔‘‘ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ کا واقعہ نہیں ہے ایک سے زیادہ دفعہ ’’حتی کہ سوئی تک کو بھی اپنے گھر میں نہ رکھا اور ایسا ہی حضرت عمرؓ نے اپنی بساط و انشراح کے موافق اور عثمانؓ نے اپنی طاقت و حیثیت کے موافق۔ عَلٰی ہٰذَا الْقِیَاسِ عَلٰی قَدْرِ مَرَاتِب۔ تمام صحابہؓ اپنی جانوں اور مالوں سمیت اس دین الٰہی پر قربان کرنے کے لئے تیار ہو گئے۔‘‘ پھر آگے اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام جماعت کے بارے میں بات فرماتے ہیں کہ ’’ایک وہ ہیں کہ بیعت تو کر جاتے ہیں اور اقرار بھی کر جاتے ہیں کہ ہم دنیا پر دین کو مقدم کریں گے مگر مدد و امداد کے موقعہ پر اپنی جیبوں کو دبا کر پکڑ رکھتے ہیں۔ بھلا ایسی محبتِ دنیا سے کوئی دینی مقصد پا سکتا ہے؟ اور کیا ایسے لوگوں کا وجود کچھ بھی نفع رساں ہو سکتا ہے؟ ہرگز نہیں ہرگز نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ(آل عمران: 93) جب تک تم اپنی عزیز ترین اشیاء اللہ جل شانہ کی راہ میں خرچ نہ کرو تب تک تم نیکی کو نہیں پا سکتے۔‘‘ (ملفوظات جلد6صفحہ40حاشیہ)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جب وصال ہوا، آپؐ کی وفات ہوئی تو اس وقت حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کیا ردّعمل تھا؟ حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا وقت قریب آیا اور گھر میں کچھ مرد تھے جن میں حضرت عمر بن خطابؓ بھی تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ آؤ مَیں تمہیں ایک تحریر لکھ دوں جس کے بعد تم گمراہ نہیں ہو گے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کے آخری دنوں کی بات ہے۔ اس پر حضرت عمرؓ نے لوگوں سے کہا جو ارد گرد بیٹھے ہوئے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سخت بیمار ہیں اور تمہارے پاس قرآن بھی ہے۔ تمہارے لیے اللہ کی کتاب کافی ہے۔ گھر میں موجود لوگوں نے اختلاف کیا اور تکرار کی۔ بحث شروع ہو گئی۔ اس پر ان میں سے بعض کہتے تھے کہ کاغذ قلم قریب لے آؤ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں ایسی تحریر لکھ دیں جس کے بعد تم گمراہ نہیں ہو گے اور ان میں سے بعض وہ بات کہہ رہے تھے جو حضرت عمرؓ نے کہی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف نہ دو۔ پھر جب انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بہت باتیں کیں یعنی بحث شروع ہو گئی اور اختلاف کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چلے جاؤ یہاں سے۔ (صحیح مسلم کتاب الوصیت باب الوصیۃ لمن لیس لہ شیء یوصی فیہ حدیث 4234)
یہ مسلم کی روایت ہے۔ اس کی کچھ تفصیل بخاری میں بھی ہے۔ وہاں عبیداللہ بن عبداللہ سے مروی ہے۔ انہوں نے حضرت ابن عباسؓ سے روایت کی ہے۔ وہ کہتے تھے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر آپؐ کی بیماری نے سخت حملہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے پاس کوئی لکھنے کا سامان لاؤ تا مَیں تمہیں ایک ایسی تحریر لکھ دوں کہ جس کے بعد تم بھولو نہیں۔ حضرت عمرؓ نے اردگرد لوگوں کو کہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اس وقت بیماری نے غلبہ کیا ہے اور ہمارے پاس اللہ کی کتاب ہے یعنی قرآن کریم ہے جو ہمارے لیے کافی ہے۔ اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دینے کی ضرورت نہیں۔ اس پر انہوں نے آپس میں اختلاف کیا اور شور بہت ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اٹھو میرے پاس سے چلے جاؤ۔ میرے پاس جھگڑنا نہیں چاہیے۔ اس پر حضرت ابن عباسؓ باہر چلے گئے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ بڑا نقصان سارے کا سارا یہی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لکھنے سے روک دیا۔ (صحیح البخاری کتاب العلم باب کتاب العلم حدیث114)
اس کی تشریح میں حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ نے جو لکھا ہے۔ اس کا کچھ حصہ بیان کرتا ہوں کہ ’’لَا تَضِلُّوْا بَعْدَہُ۔‘‘ یہ الفاظ جو حدیث میں ہیں ’’…… یہ امر واضح کر دیا ہے کہ آخری وقت میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کی فکر رہی۔ لَا تَضِلُّوْا بَعْدَہُ۔ کہ کہیں تم بھول نہ جاؤ۔ تحریر لکھ دوں۔ ضلال کے معنی بھولنا‘‘ بھی ہوتے ہیں ’’بھول کر راہ سے بے راہ ہو جانا‘‘ بھی ہیں۔ ’’… غَلَبَہُ الْوَجَعُ۔ یعنی آپؐ کو بیماری نے نڈھال کر دیا ہے کہیں تکلیف بڑھ نہ جائے۔‘‘ عمرؓ نے جو بات کی تھی یہ اس کے الفاظ ہیں۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ ’’آپؐ کے فوت ہو جانے کا تو وہم بھی حضرت عمرؓ کو نہیں تھا۔ عِنْدَنَا کِتَابُ اللّٰہِ حَسْبُنَا۔ حضرت عمرؓ نے‘‘ جب یہ کہا تھا تو ’’یہ اس لئے کہا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَا فَرَّطْنَا فِی الْکِتٰبِ مِنْ شَیْءٍ (الانعام: 39)‘‘ یہ سورت انعام میں ہے اور پھر ’’تِبْیَانًا لِّکُلِّ شَیْءٍ (النحل: 90)یعنی یہ کتاب ہربات کو واضح کر کے بیان کرتی ہے۔ ہم نے اس میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔‘‘ پھر لکھتے ہیں کہ لَا یَنْبَغِیْ عِنْدِیْ التَّنَازُعُ۔ یعنی بعض لوگ جن کے جذبات حضرت عمرؓ کی طرح رقیق تھے انہوں نے کہا کہ ایسے وقت میں تکلیف نہیں دینی چاہئے اور بعض نے کہا کہ حکم کی تعمیل کرنی چاہئے‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا تو لے آؤ قلم دوات۔ ’’مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو چلے جانے کا حکم دیا‘‘ جب آپس میں بحث شروع ہو گئی ’’اور فرمایا کہ میرے پاس شور نہ کرو۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ کو کتاب اللہ کی عزت کا اس حالتِ بیقراری میں بھی اس قدر پاس تھا کہ حضرت عمرؓ کی بات سننے کے بعد کاغذ، قلم، دوات منگوانے کا ارادہ نہیں فرمایا جیسا کہ بخاری کی دوسری روایتوں سے معلوم ہو گا کہ آپؐ اس واقعہ کے بعد بھی چند روز زندہ رہے اور اس دن کچھ اَور وصیتیں بھی کی ہیں مگر اس خیال کا اعادہ نہیں فرمایا‘‘ یعنی اس بات کو دوبارہ نہیں فرمایا ’’ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جن احکام کے لکھوانے کی ضرورت سمجھی تھی وہ کتاب اللہ میں موجود تھے۔ گویا کہ قرآن مجید سے چمٹے رہنے کی تاکید فرمانا چاہتے تھے اور آپؐ نے حضرت عمرؓ کی تائید کی اور خاموش ہو رہے۔ یہ وہ ادب ہے جس کی پروا نام نہاد علماء کو نہیں ہوتی۔‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قرآن کریم کا یہ ادب تھا جس کی پروا نام نہاد علماء کو نہیں ہوتی۔ شاہ صاحب آگے لکھتے ہیں۔ ’’ایک رائے کا جو اظہار کر بیٹھیں تو پھر وہ اسے وحی الٰہی کی طرح سمجھتے ہیں۔‘‘ پھر لکھتے ہیں کہ ’’ہمیں اس پاکیزہ نمونہ کو کبھی بھولنا نہیں چاہئے‘‘ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پاکیزہ نمونہ تھا۔ ’’کتاب اللہ کے سامنے سب دوسری باتیں کالعدم ہیں۔‘‘ (صحیح البخاری کتاب العلم باب کتاب العلم حدیث114 مترجم از سید زین العابدین ولی اللہ شاہ جلد 1صفحہ190 شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ)
عروہ بن زبیر نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہؓ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے اور حضرت ابوبکرؓ اس وقت سُنْح میں تھے۔ سُنْح بھی مدینہ سے دو میل کے فاصلہ پر ایک جگہ ہے۔ اسماعیل نے کہا یعنی مضافات میں تھے۔ جب وفات کی خبر سنی تو حضرت عمرؓ کھڑے ہوئے۔ حضرت ابوبکرؓ تو باہر مضافات میں گئے ہوئے تھے لیکن جب وفات کی خبر ہوئی تو یہ خبر سن کر حضرت عمرؓ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے اللہ کی قسم !رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت نہیں ہوئے۔ حضرت عائشہؓ کہتی تھیں۔ حضرت عمرؓ کہا کرتے تھے بخدا! میرے دل میں یہی بات آئی تھی۔ اور انہوں نے کہا یعنی حضرت عمرؓ نے کہا کہ اللہ آپؐ کو ضرور ضرور اٹھائے گا تا بعض آدمیوں کے ہاتھ پاؤں کاٹ دے۔ اتنے میں حضرت ابوبکرؓ آ گئے۔ حضرت عمرؓ یہ ماننے کو تیار نہیں تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ دوبارہ زندہ ہو جائیں گے۔ اتنے میں حضرت ابوبکرؓ آ گئے۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ سے کپڑا ہٹایا۔ آپؐ کوبوسہ دیا۔ کہنے لگے میرے ماں باپ آپؐ پر قربان۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم زندگی میں بھی اور موت کے وقت بھی پاک و صاف ہیں۔ اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اللہ آپؐ کو کبھی دو موتیں نہیں چکھائے گا۔ یہ کہہ کر حضرت ابوبکرؓ باہر چلے گئے یعنی لوگوں کے پاس گئے اور کہنے لگے۔ اے قَسم کھانے والے ٹھہر جا۔ یعنی حضرت عمرؓ کو مخاطب کیا اور فرمایا قَسم کھانے والے ٹھہر جا۔ جب حضرت ابوبکرؓ بولنے لگے تو حضرت عمرؓ بیٹھ گئے۔ حضرت ابوبکرؓ نے حمد وثنا بیان کی اور کہا کہ اَلَا مَنْ کَانَ یَعْبُدُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَإِنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ مَاتَ، وَمَنْ کَانَ یَعْبُدُ اللّٰہَ فَاِنَّ اللّٰہَ حَیٌّ لَا یَمُوْتُ۔ کہ دیکھو جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پوجتا تھا سن لے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو یقینا ًفوت ہو گئے ہیں اور جو اللہ کو پوجتا تھا تو اسے یاد رہے کہ اللہ زندہ ہے کبھی نہیں مرے گا اور حضرت ابوبکرؓ نے یہ آیت پڑھی۔ اِنَّکَ مَیِّتٌ وَّ اِنَّہُمْ مَّیِّتُوْنَ (الزمر: 31) کہ تم بھی مرنے والے ہو اور وہ بھی مرنے والے ہیں۔ پھر انہوں نے یہ آیت پڑھی۔ وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ اَفَائِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓى اَعْقَابِکُمْ وَ مَنْ یَّنْقَلِبْ عَلٰى عَقِبَیْہِ فَلَنْ یَّضُرَّ اللّٰہَ شَیْـًٔا وَ سَیَجْزِی اللّٰہُ الشّٰکِرِیْنَ۔ (آل عمران: 145) کہ محمد صرف اللہ کے رسول ہیں۔ آپ سے پہلے سب رسول فوت ہو چکے ہیں تو پھر کیا اگر آپؐ فوت ہو جائیں یا قتل کیے جائیں توتم اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے اور جو کوئی اپنی ایڑیوں کے بل پھر جائے تو وہ اللہ کو ہرگز نقصان نہ پہنچا سکے گا اور عنقریب اللہ شکر کرنے والوں کو بدلہ دے گا۔ سلیمان کہتے تھے یہ سن کر لوگ اتنے روئے کہ ہچکیاں بندھ گئیں۔ (صحیح البخاری کتاب فضائل اصحاب النبی باب قول النبی لو کنت متخذا خلیلا حدیث 3667، 3668) (فرہنگ سیرت صفحہ 157زوار اکیڈمی پبلی کیشنز اردو بازار کراچی 2003ء)
حضرت ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم ! ایسا معلوم ہوا کہ گویا لوگ اس وقت تک کہ حضرت ابوبکرؓ نے وہ آیت پڑھی جانتے ہی نہ تھے کہ اللہ نے یہ آیت بھی نازل کی تھی۔ گویا تمام لوگوں نے ان سے یہ آیت سیکھی۔ پھر لوگوں میں سے جس آدمی کو بھی مَیں نے سنا یہی آیت پڑھ رہا تھا۔ زُہری کہتے تھے سعید بن مُسَیَّبْ نے مجھے بتایا کہ حضرت عمرؓ نے کہا اللہ کی قَسم! جونہی کہ مَیں نے ابوبکر کو یہ آیت پڑھتے سنا مَیں اس قدر گھبرایا کہ دہشت کے مارے میرے پاؤں مجھے سنبھال نہ سکے اور مَیں زمین پر گر گیا۔ جب مَیں نے حضرت ابوبکرؓ کو یہ آیت پڑھتے سنا تو مَیں نے جان لیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں۔ (صحیح البخاری کتاب المغازی باب مرض النبی و وفاتہ حدیث 4454)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بیان فرماتے ہیں۔ عربی کے الفاظ بھی حدیث میں آپؑ نےquote فرمائے ہیں تو اس کے بجائے مَیں ترجمہ پڑھ دیتا ہوں۔ الفاظ تو جب چھپے گا اس میں آ جائیں گے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ
صحیح بخاری میں جو اَصَحُّ الکتب کہلاتی ہے مندرجہ ذیل عبارت ہے۔
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبَّاسٍ اَنَّ اَبَا بَکْرٍ خَرَجَ وَ عُمَرُ یُکَلِّمُ النَّاسَ فَقَالَ اِجْلِسْ یَا عُمَرُ فَاَبٰى عُمَرُ اَنْ یَجْلِسَ فَاَقْبَلَ النَّاسُ اِلَیْہِ وَتَرَکُوْا عُمَرَ فَقَالَ اَبُو بَکْرٍ اَمَّا بَعْدُ مَنْ مِنْکُمْ یَعْبُدُ مُحَمَّدًا فَاِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ وَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ یَعْبُدُ اللّٰہَ فَاِنَّ اللّٰہَ حَیٌّ لَا یَمُوْتُ۔ قَالَ اللّٰہُ وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ۔ اِلَى الشَّاکِرِینَ۔ وَقَالَ وَاللّٰہِ کَاَنَّ النَّاسَ لَمْ یَعْلَمُوْا اَنَّ اللّٰہَ اَنْزَلَ ہَذِہِ الآیَۃَ حَتّٰى تَلَاہَا اَبُوْ بَکْرٍ فَتَلَقَّاہَا مِنْہُ النَّاسُ کُلُّہُمْ فَمَا اَسْمَعُ بَشَرًا مِنَ النَّاسِ اِلَّا یَتْلُوہَا اَنَّ عُمَرًا قَالَ وَاللّٰہِ مَا ہُوَ اِلَّا اَنْ سَمِعْتُ اَبَا بَکْرٍ تَلَاہَا فَعَقِرْتُ حَتَّى مَا یُقِلُّنِی رِجْلَایَ وَحَتَّى اَہْوَیْتُ اِلَى الْاَرْضِ حَتَّی سَمِعْتُہُ تَلَاہَا اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ مَاتَ۔ یعنی۔ ابن عباس سے روایت ہے کہ ابوبکرؓ نکلا (یعنی بروز وفات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم) اور عمرؓ لوگوں سے کچھ باتیں کر رہا تھا (یعنی کہہ رہا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت نہیں ہوئے بلکہ زند ہ ہیں۔) پس ابوبکرؓ نے کہا اے عمرؓ ! بیٹھ جا۔ مگر عمرؓ نے بیٹھنے سے انکار کیا۔ پس لوگ ابوبکرؓ کی طرف متوجہ ہوگئے اور عمرؓ کو چھوڑ دیا۔ پس ابوبکرؓ نے کہا کہ بعد حمد و صلوٰۃ واضح ہو کہ جو شخص تم میں سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پرستش کرتا ہے اس کو معلوم ہو کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) فوت ہوگئے اور جو شخص تم میں سے خدا کی پرستش کرتا ہے تو خدا زندہ ہے جو نہیں مرے گا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موت پر دلیل یہ ہے کہ خدا نے فرمایا ہے کہ محمدؐ صرف ایک رسول ہے اور اس سے پہلے تمام رسول اس دنیا سے گذر چکے ہیں یعنی مرچکے ہیں اور حضرت ابوبکرؓ نے اَلشَّاکِرِیْن تک یہ آیت پڑھ کر سنائی۔‘‘ پھر آپ لکھتے ہیں کہ ’’کہا راوی نے پس بخدا گویا لوگ اس سے بےخبر تھے کہ یہ آیت بھی خدا نے نازل کی ہے اور ابوبکرؓ کے پڑھنے سے ان کو پتہ لگا۔ پس اس آیت کو تمام صحابہؓ نے ابوبکرؓ سے سیکھ لیا اور کوئی بھی صحابی یا غیر صحابی باقی نہ رہا جو اِس آیت کو پڑھتا نہ تھا اور عمرؓ نے کہا کہ بخدا میں نے یہ آیت ابوبکرؓ سے ہی سنی جب اس نے پڑھی۔ پس میں اس کے سننے سے ایسابے حواس اور زخمی ہوگیا ہوں کہ میرے پیر مجھے اٹھا نہیں سکتے اور میں اس وقت سے زمین پر گراجاتا ہوں جب سے کہ میں نے یہ آیت پڑھتے سنا اور یہ کلمہ کہتے سنا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے۔‘‘ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’اور اس جگہ قَسْطَلَانِی شرح بخاری کی یہ عبارت ہے۔ وَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ یُکَلِّمُ النَّاسَ یَقُوْلُ لَہُمْ مَا مَاتَ رَسُوْلُ اللّٰہِ وَلَا یَمُوْتُ حَتّٰى یَقْتُلَ الْمُنَافِقِیْنَ یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ لوگوں سے باتیں کرتے تھے اور کہتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت نہیں ہوئے اور جب تک منافقوں کو قتل نہ کرلیں فوت نہیں ہوں گے۔‘‘ پھر آپؑ فرماتے ہیں ’’اور مَلِلْ وَ نَحلْ شہرستانی میں اس قصہ کے متعلق یہ عبارت ہے۔ [قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ مَنْ قَالَ اَنَّ مُحَمَّدًا مَاتَ فَقَتَلْتُہٗ بِسَیْفِیْ ھٰذَا۔ وَاِنَّمَا رُفِعَ اِلَی السَّمَآءِ کَمَارُفِعَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ عَلَیْہِ السَّلَامَ وَقَالَ اَبُوْبَکْرٍ بْنُ قُحَافَۃَ مَنْ کَانَ یَعْبُدُ مُحَمَّدًا فَاِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ وَمَنْ کَانَ یَعْبُدُ اِلٰہَ مُحَمَّدٍ فَاِنَّہٗ حَیٌّ لَا یَمُوْتُ وَقَرَءَ ھَذِہِ الْاٰیَۃَ وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ اَفَائِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓى اَعْقَابِکُمْ (آل عمران: 145) فَرَجَعَ الْقَوْمُ اِلٰی قَوْلِہٖ۔ ]
اس کا ’’…… ترجمہ یہ ہے کہ عمر خطاب کہتے تھے کہ جو شخص یہ کہے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوگئے تو میں اپنی اِسی تلوار سے اس کو قتل کر دوں گابلکہ وہ آسمان پر اٹھائے گئے ہیں جیسا کہ عیسیٰ بن مریم اٹھائے گئے اور ابو بکرؓ نے کہا کہ جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا ہے تو وہ تو ضرور فوت ہوگئے ہیں اور جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خد اکی عبادت کرتا ہے تو وہ زندہ ہے۔ نہیں مرے گا یعنی ایک خدا ہی میں یہ صفت ہے کہ وہ ہمیشہ زندہ ہے اور باقی تمام نوع انسان و حیوان پہلے اس سے مر جاتے ہیں کہ ان کی نسبت خلود کا گمان ہو۔‘‘ ہمیشہ رہنے کا گمان بھی ہو۔ وہ اس سے پہلے ہی مر جاتے ہیں۔ ’’اور پھر حضرت ابوبکرؓ نے یہ آیت پڑھی جس کا یہ ترجمہ ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) رسول ہیں اور سب رسول دنیا سے گذر گئے۔ کیا اگر وہ فوت ہوگئے یا قتل کئے گئے تو تم مرتد ہو جاؤ گے۔ تب لوگوں نے اس آیت کو سن کر اپنے خیالات سے رجوع کر لیا۔ اب سوچو کہ حضرت ابوبکرؓ کا اگر قرآن سے یہ استدلال نہیں تھا کہ تمام نبی فوت ہوچکے ہیں اور نیز اگر یہ استدلال صریح اور قَطْعِیَّۃُ الدَّلَالَتْ نہیں تھا تووہ صحابہ جو بقول آپ کے ایک لاکھ سے بھی زیادہ تھے۔‘‘ یعنی وہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام دلیل دے رہے ہیں اور بتانے والے کو بتا رہے ہیں کہ صحابہؓ جو بقول آپ کے ایک لاکھ سے بھی زیادہ تھے، ’’محض ظنی اور شکی امر پر کیونکر قائل ہوگئے اور کیوں یہ حجت پیش نہ کی کہ یا حضرت! یہ آپ کی دلیل ناتمام ہے اور کوئی نص قطعیۃ الدلالت آپ کے ہاتھ میں نہیں۔ کیا آپ اب تک اِس سے بے خبر ہیں کہ قرآن ہی آیت رَافِعُکَ اِلَیَّ میں حضرت مسیح کا بَجِسْمِہِ الْعُنْصُرِی آسمان پر جانا بیان فرماتا ہے۔ کیا بَلْ رَفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ بھی آپ نے نہیں سنا۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا آسمان پر جانا آپ کے نزدیک کیوں مُسْتَعْبَدْ ہے بلکہ صحابہ نے جو مذاقِ قرآن سے واقف تھے آیت کو سن کر اور لفظ خَلَتْ کی تشریح فقرہ اَفَاِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ میں پاکر فی الفور اپنے پہلے خیال کو چھوڑ دیا۔ ہاں ان کے دل آنحضرتؐ کی موت کی وجہ سے سخت غمناک اور چُور ہوگئے اور ان کی جان گھٹ گئی اور حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اس آیت کے سننے کے بعد میری یہ حالت ہوگئی ہے کہ میرے جسم کو میرے پیر اٹھا نہیں سکتے اور مَیں زمین پر گرا جاتا ہوں۔ سبحان اللہ کیسے سعید اور وَقَّافْ عِنْدَالقُرآن تھے کہ جب آیت میں غور کرکے سمجھ آگیا کہ تمام گذشتہ نبی فوت ہوچکے ہیں تب بجز اس کے کہ رونا شروع کر دیا اور غم سے بھر گئے اور کچھ نہ کہا۔‘‘ (تحفہ غزنویہ روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 579 تا 583)
پھر ایک اَور موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ فرمانا کہ جو شخص حضرت سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت یہ کلمہ منہ پر لائے گا کہ وہ مرگئے ہیں تو مَیں اس کو اپنی اسی تلوار سے قتل کر دوں گا۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ کو اپنے کسی خیال کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر بہت غلو ہو گیا تھا اور وہ اس کلمہ کو جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم)مر گئے، کلمہ کفر اور ارتداد سمجھتے تھے۔ خدا تعالیٰ ہزارہا نیک اجر حضرت ابوبکر کو بخشے کہ جلد تر انہوں نے اس فتنہ کو فرو کر دیا اور نص صریح کو پیش کرکے بتلا دیا کہ گذشتہ تمام نبی مرگئے ہیں۔ اور جیسا کہ انہوں نے مسیلمہ کذّاب اور اسود عنسی وغیرہ کو قتل کیا۔ درحقیقت اس تصریح سے بھی بہت سے فیج اعوج کے کذّابوں کو تمام صحابہ کے اجتماع سے قتل کر دیا۔‘‘ یعنی جس طرح وہ جھوٹا قتل کیا اسی طرح یہ جو ایک نظریہ تھا اس کا بھی خاتمہ کر دیا۔ ’’گویا چار کذاب نہیں بلکہ پانچ کذاب مارے۔‘‘ پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’یا الٰہی ان کی جان پر کروڑہا رحمتیں نازل کر۔ آمین۔ اگر اِس جگہ خَلَتْ کے یہ معنے کئے جائیں کہ بعض نبی زندہ آسمان پر جا بیٹھے ہیں تب تو اِس صورت میں حضرت عمرؓ حق بجانب ٹھہرتے ہیں اور یہ آیت ان کو مضر نہیں بلکہ ان کی مؤید ٹھہرتی ہے۔ لیکن اس آیت کا اگلا فقرہ جو بطور تشریح ہے یعنی اَفَائِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ (اٰل عمران: 145) جس پر حضرت ابوبکرؓ کی نظر جاپڑی ظاہر کر رہا ہے کہ اس آیت کے یہ معنے لینا کہ تمام نبی گذر گئے گو مرکر گذر گئے یا زندہ ہی گذر گئے یہ دجل اور تحریف اور خدا کی منشاء کے برخلاف ایک عظیم افترا ہے اور ایسے افترا عمداً کرنے والے جو عدالت کے دن سے نہیں ڈرتے اور خدا کی اپنی تشریح کے برخلاف الٹے معنے کرتے ہیں وہ بلا شبہ ابدی لعنت کے نیچے ہیں۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس وقت تک اِس آیت کا علم نہیں تھا اور دوسرے بعض صحابہ بھی اسی غلط خیال میں مبتلا تھے اور اس سہو و نسیان میں گرفتار تھے جو مقتضائے بشریت ہے اور ان کے دل میں تھا کہ بعض نبی اب تک زندہ ہیں اور پھر دنیا میں آئیں گے۔ پھر کیوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کی مانندنہ ہوں لیکن حضرت ابوبکرؓ نے تمام آیت پڑھ کر اور اَفَائِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ سنا کر دلوں میں بٹھا دیا کہ خَلَتْ کے معنے دو قسم میں ہی محصور ہیں۔ 1۔ حَتْفِ اَنْف سے مرنا یعنی طبعی موت‘‘ مرنا اور ’’2۔ مارے جانا۔ تب مخالفوں نے اپنی غلطی کا اقرار کیا اور تمام صحابہ اِس کلمہ پر متفق ہو گئے کہ گذشتہ نبی سب مرگئے ہیں اور فقرہ اَفَائِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ۔ کا بڑا ہی اثر پڑا اور سب نے اپنے مخالفانہ خیالات سے رجوع کرلیا۔ فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذَالِکَ۔‘ (تحفہ غزنویہ روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 581-582 حاشیہ)یہ تحفہ غزنویہ میں آپؑ نے بیان فرمایا ہے۔
پھر ایک اَور جگہ بیان فرماتے ہیں کہ ’’تمام صحابہؓ کی شہادت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی وفات پر یہ ہوئی ہے کہ سب نبی مر گئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کہا کہ ابھی نہیں مرے اور تلوار کھینچ کر کھڑے ہو جاتے ہیں مگر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کھڑے ہو کر یہ خطبہ پڑھتے ہیں کہ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ۔ اب اس موقعہ پر جوایک قیامت ہی کا میدان تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں اور کل صحابہؓ جمع ہیں۔ یہاں تک کہ اسامہ کا لشکر بھی روانہ نہیں ہوا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے کہنے پر حضرت ابو بکرؓ بآواز بلند کہتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی اور اس پر استدال کرتے ہیں مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ سے۔ اب اگر صحابہؓ کے وہم گمان میں بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی ہوتی تو ضرور بول اٹھتے مگر سب خاموش ہو گئے اور بازاروں میں یہ آیت پڑھتے تھے اور کہتے تھے کہ گویا یہ آیت آج اتری ہے۔ معاذ اللہ صحابہؓ منافق نہ تھے جو وہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے رعب میں آکر خاموش ہو رہے اور حضرت ابو بکرؓ کی تر دیدنہ کی۔ نہیں اصل بات یہی تھی جو حضرت ابو بکرؓ نے بیان کی۔ اس لئے سب نے گردن جھکا لی۔ یہ ہے اجماع صحابہؓ کا۔ حضرت عمرؓ بھی تو یہی کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پھر آئیں گے۔ اگر یہ استدلال کامل نہ ہوتا (اور کامل تب ہی ہوتا کہ کسی قسم کا استثناء نہ ہوتا کیونکہ اگر حضرت عیسیٰؑ زندہ آسمان پر چلے گئے تھے اور انہوں نے پھر آنا تھا تو پھر یہ استدلال کیا یہ تو ایک مسخری ہوتی) تو خود حضرت عمرؓ ہی تردید کرتے۔‘‘ (ملفوظات جلد1صفحہ440-441)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس واقعہ کو مختلف جگہوں پر بار بار بیان کیا ہے۔ مَیں نے جو مختلف واقعات بیان کیے ہیں تو وہ اس لیے ہے کہ وہ لوگ جو حضرت عیسیٰ کو زندہ آسمان پر بیٹھا تصور کرتے ہیں ان کے دماغ سے یہ خیال نکالا جائے کہ کوئی بشر بھی زندہ آسمان پرنہیں گیا اور نہ جا سکتا ہے اور اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی وفات پا چکے ہیں۔ حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ حضرت عمرؓ کے زمانہ خلافت میں ایک دفعہ میں ان کے ساتھ جا رہا تھا اور اپنے کسی کام کے واسطے جاتے تھے۔ ان کے ہاتھ میں کوڑا تھا اور میرے سوا اور کوئی ان کے ساتھ نہ تھا اور وہ اپنے آپ سے باتیں کر رہے تھے اور اپنے پیروں کی پچھلی طرف کوڑا مارتے جاتے تھے۔ پس یکایک میری طرف مڑ کر کہنے لگے۔ اے ابن عباسؓ ! کیا تم جانتے ہو کہ جس روز حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی ہے مَیں نے وہ بات کیوں کہی تھی (یعنی حضور کا وصال نہیں ہوا ہے اور جو ایسا کہے گا اسے مَیں تلوار سے ماروں گا۔) حضرت ابن عباسؓ کہتے ہیں۔ مَیں نے کہا: اے امیر المومنین ! مَیں نہیں جانتا۔ آپؓ، (حضرت عمرؓ رضی اللہ تعالیٰ) ہی واقف ہوں گے۔ (یعنی حضرت عمرؓ کو کہا کہ آپ ہی واقف ہوں گے کہ کیوں کہی تھی۔) حضرت عمرؓ فرمانے لگے کہ اللہ کی قسم! اس کا باعث یہ تھا کہ میں اس آیت کو پڑھا کرتا تھا کہ وَ کَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَآءَ عَلَى النَّاسِ وَ یَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْدًا (البقرہ: 144)اور اسی طرح ہم نے تمہیں وسطی امت بنا دیا تا کہ تم لوگوں پر نگران ہو جاؤ اور رسول تم پر نگران ہو جائے۔) اور اللہ کی قسم! مَیں یہ سمجھتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت میں زندہ رہ کر ان کے اعمال کے گواہ ہوں گے۔ پس اس سبب سے مَیں نے اس روز وہ گفتگو کی تھی جو مَیں نے کی تھی۔ (سیرت ابن ہشام صفحہ901دارالکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)
حضرت ابوبکرؓ کی خلافت کے بارے میں بخاری میں جو ذکر ملتا ہے وہ پہلے بھی بیان ہوا ہے۔ دوبارہ مَیں بیان کرتا ہوں کہ انصار بَنِی سَاعِدَہ کے گھر حضرت سعد بن عبادہؓ کے پاس اکٹھے ہوئے اور کہنے لگے کہ ایک امیر ہم میں سے ہو اور ایک امیر تم میں سے۔ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمر بن خطابؓ اور حضرت ابوعُبَیدہ بن جَراحؓ ان کے پاس گئے۔ حضرت عمرؓ بولنے لگے تو حضرت ابوبکرؓ نے انہیں خاموش کیا۔ حضرت عمرؓ کہتے تھے کہ اللہ کی قسم! مَیں نے جو بولنا چاہا تھا تو اس لیے کہ مَیں نے ایسی تقریر تیار کی تھی جو مجھے بہت پسند آتی تھی۔ مجھے ڈر تھا کہ حضرت ابوبکرؓ اس تک نہ پہنچ سکیں گے یعنی ویسا نہیں بول سکیں گے۔ پھر اس کے بعد حضرت ابوبکرؓ نے تقریر کی اور ایسی تقریر کی جو بلاغت میں تمام لوگوں کی تقریروں سے بڑھ کر تھی۔ انہوں نے اپنی تقریر کے اثنا میں کہا کہ ہم امیر ہیں اور تم وزیر ہو۔ انصار کو کہا تم وزیر ہو۔ حُبَاب بن مُنذِر نے یہ سن کر کہا ہرگز نہیں۔ اللہ کی قسم! ہرگز نہیں۔ بخدا ہم ایسا نہیں کریں گے۔ ایک امیر ہم میں سے ہو گا اور ایک امیر آپ میں سے۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا نہیں بلکہ امیر ہم ہیں اور تم وزیر ہو کیونکہ یہ قریش لوگ (بلحاظ نسب) تمام عربوں سے اعلیٰ ہیں اور بلحاظِ حَسَب وہ قدیمی عرب ہیں۔ اس لیے عمرؓ یا ابوعبیدہؓ کی بیعت کرو۔ حضرت عمرؓ نے کہا نہیں۔ بلکہ حضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکرؓ کو کہا کہ ہم تو آپ کی بیعت کریں گے کیونکہ آپؓ ہمارے سردار ہیں اور ہم میں سے بہتر ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم میں سے زیادہ پیارے ہیں۔ یہ کہہ کر حضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکرؓ کا ہاتھ پکڑا اور ان سے بیعت کی اور لوگوں نے بھی ان سے بیعت کی۔ (صحیح البخاری کتاب فضائل اصحاب النبی باب قول النبی لو کنت متخذا خلیلا حدیث 3668)
جب حضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکرؓ کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا کہ ہماری بیعت لیں اور ساتھ ہی حضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکرؓ کی بیعت کر لی اور عرض کی کہ اے ابوبکرؓ ! آپؓ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا کہ آپؓ نماز پڑھایا کریں۔ پس آپ ہی خلیفۃ اللہ ہیں۔ ہم آپؓ کی بیعت اس لیےکرتے ہیں کہ آپؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم سے زیادہ محبوب ہیں۔ مرتدین کے فتنہ کے بارے میں سیرت ابن ہشام میں لکھا ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو مسلمانوں کے مصائب بڑھ گئے۔ ابن اسحاق یہ کہتے ہیں کہ حضرت عائشہؓ سے مجھے وہ روایت پہنچی۔ آپؓ کہتی ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو عرب مرتد ہو گئے اور یہود و نصاریٰ اٹھ کھڑے ہوئے اور نفاق ظاہر ہو گیا۔ (سیرت ابن ہشام صفحہ 903 باب تکفینہ و دفنہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)
حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اور آپؐ کے بعد حضرت ابوبکرؓ خلیفہ ہو ئے اور عربوں میں سے جس نے کفر کرنا تھا کفر کیا تو حضرت عمر بن خطابؓ نے حضرت ابوبکرؓ سے کہا کہ آپؓ لوگوں سے کیسے لڑیں گے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ ان لوگوں سے لڑائی کروں یہاں تک کہ وہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کا اقرار کریں یعنی جو لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کا اقرار کرنے والے ہیں ان سے لڑنا نہیں ہے اور جو شخص لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کا اقرار کرے گا وہ مجھ سے اپنا مال اور جان بچا لے گا سوائے کسی حق کی بنا پر اور اس کا حساب اللہ کے ذمہ ہے تو حضرت ابوبکرؓ نے کہا: اللہ کی قسم ! جو بھی نماز اور زکوٰۃ کے درمیان فرق کرے گا مَیں اس سے لڑوں گا کیونکہ زکوٰۃ مال کا حق ہے اور اللہ کی قسم! اور اگر انہوں نے مجھے ایک گھٹنا باندھنے والی رسی دینے سے بھی انکار کیا جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتے تھے تو اس کے نہ دینے پر بھی ان سے لڑوں گا۔ حضرت عمر بن خطابؓ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم ! پھر مَیں نے دیکھا کہ اللہ نے حضرت ابوبکرؓ کا لڑائی کے لیے سینہ کھول دیا تو مَیں سمجھ گیا کہ یہ حق ہی ہے۔ (صحیح البخاری کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃباب الاقتداء بسنن رسول اللّٰہ حدیث7284، 7285)
حضرت اسامہ بن زیدؓ کے لشکر کی روانگی کے وقت حضرت ابوبکرؓ نے حضرت اسامہ کو بعض ہدایات فرمائیں۔ حضرت اسامہؓ سوار تھے اور حضرت ابوبکرؓ ان کے ساتھ پیدل چل رہے تھے۔ حضرت اسامہؓ نے درخواست کی کہ آپؓ سوار ہوں وگرنہ مَیں بھی سواری سے اتر جاؤں گا۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایاکہ تم نہ اترو اور اللہ کی قسم ! مَیں سوار نہیں ہوں گا۔ فرمایا: اور مجھے کیا ہوا ہے کہ مَیں اپنے پاؤں کو کچھ دیر اللہ کے راستے میں غبار آلودنہ کروں کیونکہ غازی کے ہر قدم کے عوض جو وہ اٹھاتا ہے سات سو نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور اس کے ساتھ سات سو درجات بلند ہوتے ہیں اور اس کی سات سو خطائیں معاف کی جاتی ہیں۔ ہدایت دینے کے بعد حضرت ابوبکرؓ نے حضرت اسامہؓ سے فرمایا: اگر تم مناسب سمجھو تو عمرؓ کے ذریعہ میری مدد کرو۔ یعنی حضرت اسامہؓ سے عمرؓ کو اپنے پاس روکنے کی اجازت چاہی کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرؓ کو اس لشکر میں شامل فرمایا تھا۔ تو حضرت اسامہؓ نے آپ کو اس کی اجازت دے دی۔ (تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 246، ذکر أول أمر أبی بکر فی خلافتہ، دارالکتب العلمیۃ بیروت 1987ء)
حضرت ابوبکرؓ کے دور میں جنگِ یَمامہ میں ستّر حفاظِ قرآن شہید ہوئے تو اس بارے میں حضرت زَید بِن ثابِت انصاریؓ روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ نے مجھ کو جب یَمامہ کے لوگ شہید کیے گئے بلا بھیجا اور اس وقت ان کے پاس حضرت عمرؓ تھے۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا: عمرؓ میرے پاس آئے ہیں اور انہوں نے کہا ہے کہ یَمامہ کی جنگ میں لوگ بہت شہید ہو گئے ہیں اور مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں اَور لڑائیوں میں بھی قاری نہ مارے جائیں اور اس طرح قرآن کا بہت سا حصہ ضائع ہو جائے گا۔ سوائے اس کے کہ تم قرآن کو ایک جگہ جمع کر دو اور میری رائے یہ ہے کہ آپؓ قرآن کو ایک جگہ جمع کریں۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا: مَیں نے عمرؓ سے کہا کہ مَیں ایسی بات کیسے کروں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کی؟ عمرؓ نے کہا اللہ کی قسم !آپؓ کا یہ کام اچھا ہے۔ عمرؓ مجھے بار بار یہی کہتے رہے یہاں تک کہ اللہ نے اس کے لیے میرا سینہ کھول دیا اور اب مَیں بھی وہی مناسب سمجھتا ہوں جو عمرؓ نے مناسب سمجھا۔ حضرت زید بن ثابتؓ نے کہا اور اس وقت حضرت عمرؓ اُن کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور خاموش بیٹھے تھے، بات نہیں کرتے تھے۔ پھر حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا تم جوان عقلمند آدمی ہو اور ہم تم پر کوئی بدگمانی نہیں کرتے۔ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وحی لکھا کرتے تھے۔ اس لیے قرآن جہاں جہاں ہوتلاش کرو اور اس کو لے کر ایک جگہ جمع کر دو۔ حضرت زید بن ثابتؓ کہتے ہیں اور اللہ کی قسم! اگر وہ پہاڑوں میں سے کسی پہاڑ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے کا مجھے مکلف کرتے تو مجھ پر یہ کام اتنا بوجھل نہ ہوتا جتنا کہ یہ کام جس کے کرنے کے لیے انہوں نے مجھے حکم دیا یعنی قرآن کریم جمع کرنا۔ مَیں نے کہا آپؓ دونوں وہ کام کیسے کرتے ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا: اللہ کی قسم! وہ اچھا کام ہے۔ مَیں ان سے بار بار کہتا رہا یہاں تک کہ اللہ نے میرا سینہ اس امر کے لیے کھول دیا جس کے لیے اللہ نے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کا سینہ کھولا تھا۔ مَیں کھڑا ہو گیا اور قرآن مجید کی تلاش کرنے لگا۔ اسے چمڑے کے پرچوں اور کندھے کی ہڈیوں اور کھجوروں کی ٹہنیوں اور لوگوں کے سینوں سے اکٹھا کرنے لگا۔ یہاں تک کہ مَیں نے سورۂ توبہ کی دو آیتیں حضرت خُزَیْمَہ اَنْصَاریؓ کے پاس پائیں۔ وہ ان کے سوا مَیں نے کسی کے پاس نہ پائیں اور وہ یہ ہیں لَقَدْ جَاءَکُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ (التوبۃ: 128)یعنی یقینا ًتمہارے پاس تمہی میں سے ایک رسول آیا۔ اسے بہت شاق گزرتا ہے جو تم تکلیف اٹھاتے ہو اور وہ تم پر بھلائی چاہتے ہوئے حریص رہتا ہے۔ مومنوں کے لیے بےحد مہربان اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔ حدیث میں صرف اس آیت کا ذکر ہے ویسے دو آیات لکھا ہوا ہے شاید اگلی آیت بھی ہو۔
پھر روایت ہے کہ وہ ورق جس پہ قرآن مجید جمع کیا گیا تھا وہ حضرت ابوبکرؓ کے پاس رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو وفات دے دی۔ پھر حضرت عمرؓ کے پاس رہے یہاں تک کہ اللہ نے ان کو وفات دے دی۔ پھر حضرت حفصہ بنت عمرؓ کے پاس رہے۔ پھر بعد میں ان سے بھی جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے حضرت عثمانؓ نے لے لیے تھے۔ (صحیح البخاری کتاب التفسیرباب قولہ لقد جاء کم رسول من انفسکم حدیث4679)
ابھی یہ ذکر چل رہا ہے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ آئندہ بھی ذکر ہو گا۔
(الفضل انٹرنیشنل لندن 2 جولائی 2021ء صفحہ 5تا10)
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد فاروق اعظم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ
فرمودہ 11؍جون2021ء بمطابق 11؍احسان1400 ہجری شمسی، بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔