حضرت عمر بن خطابؓ
خطبہ جمعہ 16؍ جولائی 2021ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر چل رہا تھا۔ آپؓ کے دَورِ خلافت میں جو جنگیں ہوئیں اور جو فتوحات ہوئیں اس ضمن میں لکھا ہے کہ حضرت عمرؓ کا دَورِ خلافت تقریباً ساڑھے دس سال پر محیط تھا۔ یہ تاریخ تیرہ ہجری سے تیئس ہجری تک ہے۔ اس دور میں ہونے والی فتوحات کی وسعت کا ذکر کرتے ہوئے علامہ شبلی نعمانی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کے مفتوحہ علاقوں کا کل رقبہ بائیس لاکھ اکاون ہزار تیس مربع میل بنتا ہے۔ ان مفتوحہ علاقوں میں یہ علاقے شامل ہیں۔ شام، مصر، ایران اور عراق، خوزستان، آرمینیا، آذربائیجان، فارس، کرمان، خراسان اور مکران جس میں بلوچستان کا بھی کچھ حصہ آتا ہے۔ (ماخوذ از الفاروق صفحہ 159 مطبوعہ ادارہ اسلامیات 2004ء)
اسلامی جنگوں اور فتوحات کا سلسلہ تو حضرت ابوبکرؓ کے دور میں شروع ہو گیا تھا۔ آپؓ کے دور میں، (حضرت ابوبکرؓ کے دور میں ) شام اور عراق میں اسلامی افواج جہاد میں مصروف تھیں اور بیک وقت کئی محاذوں پر جہاد جاری تھا اور پھر یہ سلسلہ چلتا گیا اور حضرت عمرؓ کے دَورِ خلافت میں بھی اسی طرح جاری رہا۔ حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دَورِ خلافت میں ایک بات جو بہت نمایاں نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت عمرؓ اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود گویا ہر فتح کے وقت مسلمانوں کے لشکر میں موجود تھے۔ اگرچہ آپؓ نے اپنے دور خلافت میں کسی جنگ میں بھی باقاعدہ حصہ نہیں لیا تاہم مسلمان کمانڈروں کو لشکر کے حوالے سے جملہ ہدایات مدینہ سے آپؓ بھجواتے یا جہاں بھی آپؓ موجود ہوتے وہاں ان سے رابطہ میں رہتے بلکہ بعض جنگوں کے حالات سے تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ کی مسلمان سپہ سالاروں سے خط و کتابت روزانہ کی بنیاد پر جاری رہی اور حضرت عمرؓ نے مدینہ میں بیٹھ کر مسلمانوں کو اپنے لشکروں کو ترتیب دینے کی ہدایات دیں اور ان کو ان علاقوں کے بارے میں ایسے بتایا، اس طرح کی ہدایات دیں گویا حضرت عمرؓ کے سامنے ان علاقوں کا نقشہ موجود تھا یا وہ علاقے حضرت عمرؓ کے سامنے تھے۔ امام بخاری نے صحیح بخاری میں حضرت عمرؓ کے متعلق لکھا ہے۔ وَقَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ إِنِّیْ لَأُجَہِّزُ جَیْشِیْ وَأَنَا فِی الصَّلَاۃِ۔ (صحیح البخاری کتاب العمل فی الصلوٰۃ باب تفکر الرجل الشیٔ فی الصلوٰۃ)
کہ حضرت عمرؓ فرمایا کرتے تھے کہ میں اپنے لشکر تیار کرتا ہوں اور میں نماز میں ہوتا ہوں۔ یعنی آپؓ اس قدر متفکر ہوتے تھے کہ نماز کے دوران میں بھی اسلامی فوجوں کی منصوبہ بندی اور پلاننگ کا کام جاری رہتا تھا۔ اس دوران دعا بھی کرتے رہتے ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں جا بجا نظر آتا ہے کہ آپؓ کی ہدایات کی پیروی کرتے ہوئے مسلمان فوجوں نے مشکل سے مشکل حالات میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے فتوحات حاصل کیں۔ سید میر محمود احمد صاحب نے بھی حضرت عمرؓ کے دَورِ خلافت پر ایک مقالہ لکھا تھا اور اس سے بھی ہمارے نوٹس تیار کرنے والوں نے مدد لی ہے۔ ریسرچ سیل نے بعض نوٹس لیے ہیں لیکن بہرحال یہ اصل مأخذ سے بھی چیک کیے گئے ہیں اور ٹھیک ہیں۔ فتوحات ایران و عراق کے بارے میں وہ لکھتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ کے دَور میں اہلِ فارس کے ساتھ جنگ جاری تھی کہ اس دوران حضرت ابوبکرؓ بیمار ہو گئے جس کی وجہ سے اسلامی افواج کو پیغامات موصول ہونے میں تاخیر ہو رہی تھی۔ اس لیے حضرت مُثَنّٰی اسلامی فوج میں اپنے نائب مقرر کر کے خود حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے تا کہ آپؓ کو جنگ کے حالات سے باخبر کریں اور مزید مدد کی درخواست کریں۔ حضرت مُثَنّٰی مدینہ پہنچے اور حضرت ابوبکرؓ کو واقعات کی اطلاع دی۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ نے حضرت عمرؓ کو بلایا اور یہ وصیت فرمائی کہ اے عمرؓ ! میں جو کچھ کہتا ہوں اسے غور سے سنو پھر اس پر عمل کرنا۔ آج سوموار کا دن ہے مَیں توقع کرتا ہوں کہ مَیں آج ہی فوت ہو جاؤں گا، یہ حضرت ابوبکرؓ فرما رہے ہیں۔ اگر میں فوت ہو جاؤں تو شام ہونے سے قبل لوگوں کو جہاد کی ترغیب دے کر مُثَنّٰی کے ساتھ بھیج دینا اور اگر میری وفات رات تک مؤخر ہو جائے تو صبح سے پہلے مسلمانوں کو جمع کر کے مُثَنّٰی کے ساتھ کر دینا۔ میری موت کی مصیبت خواہ کتنی ہی بڑی ہو وہ تمہیں دین کے احکام اور خدا تعالیٰ کے احکام کی تعمیل سے ہرگز باز نہ رہنے دے۔ تم نے دیکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے موقع پر میں نے کیا کیا تھا حالانکہ لوگوں کو اور مخلوق کو اس جیسی مصیبت کبھی پیش نہیں آئی تھی۔ خدا کی قسم! اگر میں اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل میں ذرا تاخیر جائز رکھتا تو خدا ہم کو ذلیل کر دیتا۔ ہم کو سزا دیتا اور مدینہ میں آگ کے شعلے بھڑک اٹھتے۔ چنانچہ حضرت ابوبکرؓ کی وفات کے بعد حضرت عمرؓ نے مسندِ خلافت پر متمکن ہوتے ہی اس وصیت کی تعمیل میں حضرت ابوبکرؓ کی تدفین سے اگلے روز لوگوں کو جمع کیا۔ بیعتِ خلافت کے لیے تمام اطراف سے بے شمار آدمی آئے ہوئے تھے اور تین دن تک ان کا تانتا بندھا رہا تھا۔ حضرت عمرؓ نے اس موقع کو غنیمت سمجھا اور مجمع عام میں جہاد کا وعظ کیا کیونکہ عرب قدیم سے مملکت ایران کی شان و شوکت اور زبردست فوجی طاقت سے خائف رہتے تھے اور لوگوں کا عام طور پر خیال تھا کہ عراق حکومت فارس کا پایہ تخت ہے اور وہ حضرت خالدؓ کے بغیر فتح نہیں ہو سکتا اس لیے سب خاموش رہے۔ حضرت عمرؓ نے کئی دن تک وعظ کیا لیکن کچھ اثر نہ ہوا۔ آخر چوتھے دن اس جوش سے تقریر کی کہ حاضرین کے دل دہل گئے اور لوگوں کی ایمانی حرارت جوش میں آئی اور حضرت ابو عُبَید بن مسعود ثَقَفِیؓ آگے بڑھے اور اَنَا لِھٰذَا کا نعرہ ماراکہ میں اس کے لیے حاضر ہوں۔ اور اس جہاد کے لیے اپنا نام پیش کیا۔ ان کے بعد حضرت سعد بن عُبَیدؓ اور سَلِیط بن قَیس سامنے آئے۔ ان لوگوں کا سامنے آنا تھا کہ ایمانی جوش مسلمانوں کے دلوں میں موجزن ہو گیا اور وہ بڑے جوش و خروش سے بڑھ بڑھ کر جہادِ عراق کے لیے اپنا اپنا نام پیش کرنے لگے۔ قبل ازیں عراقی افواج کی کمان حضرت خالد بن ولیدؓ کے ہاتھ میں تھی مگر حضرت ابوبکرؓ نے اپنے آخری زمانے میں شامی جنگوں کی اہمیت کے پیش نظر ان کو شام جانے کا حکم دے دیا تھا اور اب عراق کی اسلامی فوج کی کمان حضرت مُثَنّٰی بن حارثہؓ کر رہے تھے۔ اس موقع پر جب حضرت عمرؓ مسلمانوں کو عراق کی جنگوں کے لیے اپنا نام پیش کرنے کی دعوت دے رہے تھے حضرت مُثَنّٰی بھی مدینہ تشریف لائے ہوئے تھے۔ آپ نے بھی ایک ولولہ انگیز تقریر کی اور کہا کہ لوگو! یہ محاذ بہت سخت اور گراں نہ سمجھو۔ ہم نے فارس والوں سے لڑائی کی اور ان پر غلبہ پایا اور ان شاء اللہ اس کے بعد بھی ہماری ہی فتح ہو گی۔ یہ ساری تقریریں سننے کے بعد اب مدینہ اور اس کے نواح سے عراقی جنگوں میں شمولیت کے لیے مجاہدین کا لشکر تیار ہوا۔ طَبَرِی اور بَلَاذَرِی نے اس لشکر کی تعداد ایک ہزار بتائی ہے اور کتاب اَخْبَارُ الطِّوَال کے مصنف علامہ ابوحنیفہ دِیْنَوَرِی پانچ ہزار تعداد بتاتے ہیں۔ لگتا ہے کہ لشکر کی مدینہ سے روانگی کے وقت تعداد ایک ہزار تھی مگر محاذ جنگ تک پہنچتے پہنچتے یہ تعداد پانچ ہزار تک جا پہنچی کیونکہ بَلَاذَرِی اور ابوحنیفہ نے تصریح کی ہے کہ امیرِ لشکر راستہ میں جس عرب قبیلہ کے پاس سے گزرتے اسے لشکرمیں شمولیت کی دعوت دیتے۔ اب یہ سوال بھی پیدا ہوا کہ اس لشکر کا امیر کون ہو؟ گو حضرت مُثَنّٰی تھے لیکن جو نیا لشکر تیار ہوا تھا اس کا امیر کون ہو؟ حضرت عمرؓ کی جوہر شناس نظر نے ابوعُبَید ثَقَفِی کا انتخاب کیا۔ بعض لوگوں پر یہ امر گراں گزرا کہ سَابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْن مہاجرین اور انصار کو چھوڑ کر جنہوں نے اپنے خون سے اسلام کے پودے کو سینچا تھا ایک ایسے شخص کو امیر بنا دیا ہے جو بعد میں آنے والا ہے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ صحابہ کو اگر کوئی امتیازی مقام حاصل ہے تو محض اس لیے کہ وہ اسلام کی خدمت میں پیش پیش رہے اور دین کی طرف سے مدافعت کے لیے بڑھ چڑھ کے دشمن سے برسرپیکار ہوئے مگر اب اس موقع پر پیچھے رہ کر انہوں نے اپنا یہ حق کھو دیا۔ اس لیے اس موقع پر جو شخص اسلام کی حفاظت کے لیے سب سے پہلے سامنے آیا وہی امارت کا حق دار ہے۔ حضرت ابوعُبَیْدکے بعد سَعْدبِن عُبَیداور سَلِیط بن قَیس نے عراقی جنگوں کی دعوت کے موقع پر حضرت عمرؓ کی آواز پر لبیک کہا تھا۔ حضرت عمرؓ نے ان دونوں سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ اگر تم میری آواز پر لبیک کہنے میں سبقت اختیار کرتے تو قبولِ اسلام میں سبقت کے باعث میں تمہی کو یہ کمان سونپتا۔ گوسَلِیط بن قَیس پر ابو عُبیدکو ترجیح دینے کے متعلق علاوہ پہلی وجہ کے حضرت عمرؓ نے اس امر کا بھی اظہار فرمایا تھا کہ اس کام کے لیے کسی دھیمے شخص کی ضرورت ہے جو تحمل اور سوچ بچار سے جنگ کا اقدام کرے مگرسلیط بن قیس فوجی پیش قدمی کے سلسلہ میں بڑے جلد باز واقع ہوئے ہیں۔ اگرچہ حضرت عمرؓ نے شرف تقدم کے باعث ابو عُبیدکو یہ اہم کمان سونپی تھی لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بزرگ صحابہ کی قدیمی خدمات اور گذشتہ تجربات کو نظر انداز کر دینا بھی مناسب نہ تھا اس لیے آپؓ نے حضرت ابوعُبید ثَقَفِیؓ کو تاکید بھی کر دی تھی کہ وہ صحابہ کے مشورے سے مستفیدہوں اور انتظامی امور میں ان کی رائے پر چلیں۔ یہ مختلف تاریخی کتب میں ملتا ہے۔ تاریخ طبری میں یہ سارا واقعہ ہے جس سے یہ اخذ کیا گیا ہے۔ (تاریخ اسلام بعہد حضرت عمررضی اللہ عنہ مقالہ از مکرم سید میر محمود احمدناصر صاحب صفحہ7تا9) (تاریخ الطبری جلد دوم حصہ دوم مترجم صفحہ 194مطبوعہ نفیس اکیڈیمی کراچی 2004ء) (تاریخ الطبری جلد2صفحہ334و 360-361دارالکتب العلمیۃ بیروت2012ء) (اخبار الطوال از ابو حنیفہ دینوری صفحہ 165-166 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001ء) (فتوح البلدان علامہ بلاذری صفحہ 350 مطبوعہ مؤسسۃ المعارف بیروت 1987ء) (ماخوذ از سیرت امیر المومنین عمر بن خطاب از الصلابی صفحہ353، 354دارالمعرفہ بیروت 2007ء) (ماخوذ ازالفاروق از شبلی نعمانی صفحہ78، 79ادارہ اسلامیات 2004ء)
تیرہ ہجری میں ایک جنگ ہوئی جو جنگ نَمَارِقاور کَسْکَر کہلاتی ہے۔ حضرت ابوعُبَیدؓ کے لشکر لے کر روانہ ہونے سے قبل ہی حضرت مُثَنّٰی واپس حِیْرَہ(حیرہ عراق کی قدیمی عربی حکومت کا پایہ تخت تھا اور فرات کے مغرب میں اس مقام پر واقع تھا جہاں بعد میں کوفہ آباد ہوا وہاں ) چلے گئے اور بدستور اپنی فوج کی قیادت سنبھال لی لیکن جلد ہی ایسی صورت حال پیدا ہو گئی کہ حضرت مُثَنّٰی کو اپنی افواج سمیت پیچھے ہٹنا پڑا۔ اس کی تفصیل یوں ہے کہ ایرانی دربار رؤسا ء اور امراء کے باہمی مناقشات اور اختلافات کی آماجگاہ بنا ہوا تھاکہ ایک نئی اور زبردست شخصیت کا ظہور ہوا جو خراسان کے گورنر فَرُّخْ زَادْکے بیٹے رستم کی تھی۔ ایرانی دربار کی طرف سے رستم سیاہ و سفید کا مالک بنا دیا گیا اور وہ سب اراکین سلطنت جو تفرقہ اور انتشار سے ملک کی طاقت کمزور کرنے کا سبب بنے ہوئے تھے اب رستم کی اطاعت کا دم بھرنے لگے۔ رستم ایک بہادر اور صاحب تدبیر انسان تھا۔ اس نے عنان قیادت ہاتھ میں لیتے ہی مسلمانوں کے مفتوحہ علاقوں میں اپنے کارندے بھجوا کر بغاوت کروا دی اور فرات کے ملحقہ اضلاع میں مسلمانوں کے خلاف سخت جوش بھر دیا اور حضرت مُثَنّٰی کے مقابلہ کے لیے ایک لشکر روانہ کیا۔ ان حالات کو دیکھ کر حضرت مُثَنّٰی نے کچھ پیچھے ہٹ جانا مناسب سمجھا اور حِیرہکو چھوڑ کر خَفَّانْ(کوفہ کے قریب ایک مقام ہے اس جگہ) آ کر قیام پذیر ہو گئے۔ ادھر رستم برابر فوجی سرگرمیوں میں مشغول تھا۔ اس نے زبردست لشکر تیار کر کے دو مختلف راستوں سے مسلمانوں کے مقابلے کے لیے روانہ کیے۔ ایک لشکر جَابَانْکی سرکردگی میں تھا جو مقام نَمَارِقمیں اترا، نَمَارِقبھی عراق میں کوفہ کے قریب ایک جگہ ہے اور دوسرا لشکر نَرْسِیْ کی سرکردگی میں کَسْکَرْکی طرف روانہ کیا گیا۔ کَسْکَرْ بغداد اور بصرہ کے درمیان دجلہ کے قریب غربی کنارے پر ایک شہر ہے جس کے آثار پر وَاسِطْ کا شہر آباد ہے۔ حضرت مُثَنّٰی کو مدینہ سے آئے ہوئے ابھی ایک مہینہ ہی ہوا تھا کہ حضرت ابو عُبَید مجاہدین کا لشکر لیے ہوئے خَفَّانمیں ان سے آ ملے۔ خَفَّان بھی کوفہ کے قریب ایک مقام کا نام ہے۔ اور چند ہزار مسلمانوں کا یہ لشکر اس وقت محاذِ جنگ پر پہنچا جب عراق میں عام صورتِ حالات مسلمانوں کے لیے خوش کن نہ تھی اور مفتوحہ اضلاع ایک ایک کر کے ان کے ہاتھوں سے نکل رہے تھے۔ حضرت ابوعُبَیدنے خَفَّان میں اجتماع لشکر کی غرض سے چند روز قیام کے بعدنَمَارِق کا رخ کیا۔ وہاں ایک زبردست ایرانی لشکر ایک بوڑھے تجربہ کار ایرانی سپہ سالار جَابَانْ کی سرکردگی میں خیمہ زن تھا۔ حضرت ابوعُبَیدنے لشکر کی تنظیم کی۔ رسالہ حضرت مُثَنّٰی کی سرکردگی میں دیا۔ میمنہ کی کمان وَالِقْ بِنْ جِیْدَارَہ کو دی اور مَیْسَرہ کا کمانڈر عَمرو بن ھَیْثَم کو مقرر کیا۔ ایرانی لشکر کے دونوں بازوؤں کی کمان جُشْنَسْ مَاہ اور مَرْدَان شاہ کر رہے تھے۔ اسلامی اخلاق کا جو نمونہ اس جنگ میں پیش ہوا اس پر میر محمود احمد صاحب نے اپنا تبصرہ کیا ہوا ہے کہ اسلامی اخلاق کا ایک نمونہ جو ہمیں نظر آتا ہے یہ ہے کہ نَمَارِق کے مقام پر زبردست معرکہ ہوا اور ایرانی لشکر نے شکست کھائی۔ ایرانی لشکر کا سپہ سالار جَابَانْ زندہ گرفتار کر لیا گیا مگر مَطَر بن فِضَّہ جنہوں نے جَابَانْ کو گرفتار کیا تھا اسے پہچانتے نہ تھے۔ جَابَانْ نے ان کی لاعلمی سے فائدہ اٹھا کر ان کو فدیہ دیا اور رہائی حاصل کر لی۔ کچھ دیر بعد مسلمانوں نے دوبارہ جَابَانْ کو گرفتار کر لیا اور حضرت ابوعُبَید کے پاس لائے اور آپ کو بتایا کہ جَابَانْ کو ایرانی لشکر میں کیا پوزیشن حاصل ہے مگر حضرت ابوعُبَیدنے یہ برداشت نہ کیا کہ ایک شخص جس کو ایک مسلمان سپاہی ایک دفعہ فدیہ لے کر رہا کر چکا ہے دوبارہ قیدی بنا لیا جائے۔ لوگوں نے دوبارہ اصرار کیا کہ جَابَانْ کو تو گویا بادشاہ کی پوزیشن حاصل ہے۔ آپ نے فرمایا کہ میں تو پھر بھی بدعہدی کا مرتکب نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ رہا کر دیا گیا۔ اس واقعہ سے اس ضابطہ اخلاق پر روشنی پڑتی ہے جو اسلامی افواج کا لائحہ عمل ہوتا تھا اور معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح مسلمان زبردست جنگی فوائد کے حصول کے لیے بھی اخلاق کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے تھے۔ (مقالہ ’تاریخ اسلام بعہد حضرت عمررضی اللہ عنہ‘ از مکرم سید میر محمود احمدناصر صاحب صفحہ9تا12) (تاریخ الطبری جلد2صفحہ 362-363دارالکتب العلمیۃ بیروت2012ء) (معجم البلدان جلد5 صفحہ 351، جلد 2 صفحہ 434 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
پھر معرکہ سَقَاطِیَہ ہے جوتیرہ ہجری میں ہوا۔ نَمَارِق کے معرکہ سے شکست کھا کر ایرانی لشکر کَسْکَرْ کی طرف بھاگا جہاں ایرانی کمانڈر نَرْسِیْ پہلے سے ایک لشکر جرّار لیے ہوئے مسلمانوں کے مقابلہ کے لیے تیار تھا۔ ابوعُبَیداس کے مقابلے کے لیے کَسْکَرْکی طرف بڑھے۔ نَرْسِیْ جو کَسْکَرْمیں ایرانی لشکر کا سپہ سالار تھا ایرانی اراکین سلطنت میں خاص امتیازی مقام رکھتا تھا اور وہ اور اس کے لشکرکے دونوں بازوؤں کے کمانڈر بِنْدَوَیہ اور تِیْرَوَیہ ایران کے ساسانی بادشاہوں کے قریبی اور گہرے رشتہ داروں میں سے تھے۔ ایرانی دربار کو نَمَارِقمیں شکست کی خبر پہنچ چکی تھی اور رستم نَرْسِیْ کے لیے مزید امدادی افواج کے بھجوانے کا بندوبست کر رہا تھا کہ حضرت ابوعُبَیدنے اپنی فوج کی نقل و حرکت کو تیز کرتے ہوئے نَرْسِیْ کے لشکر کو اس کی امدادی فوج کے آنے سے قبل ہی کَسْکَرْکے نشیبی علاقوں میں جا لیا اور سَقَاطِیَہ کے نام سے جو معروف جگہ تھی اس پر حملہ کر دیا۔ سَقَاطِیَہ کے میدان میں ایک زبردست معرکہ کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسلمانوں کو فتح ہوئی۔ بڑے معرکہ کے بعد حضرت ابوعُبَیدنے کَسْکَرْ کے ارد گرد علاقے میں مختلف جگہوں پر جمع شدہ دشمن کے مقابلے کے لیے اسلامی دستے بھی بھیجنا شروع کر دیے۔ (مقالہ ’تاریخ اسلام بعہد حضرت عمررضی اللہ عنہ‘ از مکرم سید میر محمود احمدناصر صاحب صفحہ13، 12) (تاریخ الطبری جلد2صفحہ364دارالکتب العلمیۃ بیروت2012ء)
پھرجنگِ بَارُوسَمَا کا ذکر ہے۔ یہ بھی تیرہ ہجری کی ہے۔ بَارُوْسَمَا کَسْکَرْ اور سَقَاطِیَہ کے درمیان ایک مقام تھا جہاں پر ایرانی جرنیل جَالِیْنُوس سے مقابلہ ہوا جو جَابَانْ کی مدد کے لیے آیا تھا۔ رستم نے نَرْسِیْ کی مدد کے لیے ایک ایرانی کمانڈر کی سرکردگی میں ایک لشکر کَسْکَرْکی طرف روانہ کیا تھا۔ ابوعُبَیدکو اس کی اطلاع مل چکی تھی اور انہوں نے کمال ہوشیاری سے کام لے کر جالینوس کے لشکر کی آمد سے پہلے ہی نَرْسِیْ کی افواج سے ٹکر لے لی اور اس کو شکست دے کر دشمن کی فوجی طاقت کو صدمہ پہنچا دیا تھا۔ اب جالینوس بَارُوسَمَا کے علاقے میں بَاقُسْیَاثَاکے مقام پر لشکرانداز ہوا۔ بصرہ اور کوفہ کے درمیان کی بستیوں کو ارضِ سَوَاد کہا جاتا تھا اور بَارُوسَمَا اور بَاقُسْیَاثَا ان بستیوں میں سے دو بستیاں ہیں۔ ابوعُبَید باقُسیاثا پہنچے اور مختصر سی لڑائی کے بعد ایرانی افواج نے شکست کھائی اور جالینوس میدان سے بھاگ کھڑا ہوا اور ابوعُبَیدنے وہاں قیام کر کے ارد گرد کے علاقوں پرمکمل قبضہ کر لیا۔ مؤرخ طبری جو ہے یہ ان کا بیان ہے۔ بَلَاذَرِینے لکھا ہے کہ جالینوس سے مصالحت ہو گئی تھی البتہ بعد کے مؤرخین میں ابن خلدون اور ابن اثیرنے طبری کی تائید کی ہے۔ (مقالہ ’تاریخ اسلام بعہد حضرت عمررضی اللہ عنہ‘ از مکرم سید میر محمود احمدناصر صاحب صفحہ14) (ماخوذ از سیرت امیر المومنین عمر بن خطاب از الصلابی صفحہ357دارالمعرفہ بیروت 2007) (معجم البلدان جلد1 صفحہ261دار احیاء التراث العربی بیروت و المنجدزیر مادہ ’’ساد‘‘)
جنگِ جِسر کا کچھ بیان کچھ عرصہ پہلے ہو چکا ہے یہاں بھی یہ ضروری ہے بیان کرتا ہوں۔ جنگ جِسْر، یہ بھی تیرہ ہجری میں ہوئی۔ دریائے فرات کے کنارے مسلمانوں اور ایرانیوں کے درمیان لڑی گئی تھی۔ مسلمانوں کی طرف سے لشکر کے سپہ سالار حضرت ابو عُبَید ثَقَفِی تھے جبکہ ایرانیوں کی طرف سے بَہْمَن جَاذْوَیہ سپہ سالار تھا۔ مسلمان فوج کی تعداد دس ہزار تھی جبکہ ایرانیوں کی فوج میں تیس ہزار فوجی اور تین سو ہاتھی تھے۔ دریائے فرات کے درمیان میں حائل ہونے کی وجہ سے دونوں گروہ کچھ عرصہ تک لڑائی سے رکے رہے یہاں تک کہ فریقین کی باہمی رضامندی سے فرات پر جِسر یعنی ایک پل تیار کیا گیا۔ اسی پل کی وجہ سے اس کو جنگ جِسر کہا جاتاہے۔ جب پل تیار ہو گیا تو بَہْمَن جَاذْوَیہ نے حضرت ابوعُبَیدکو کہلا بھیجا کہ تم دریا عبور کر کے ہماری طرف آؤ گے یا ہمیں عبور کرنے کی اجازت دو گے۔ حضرت ابوعُبَیدکی رائے تھی کہ مسلمانوں کی فوج دریا عبور کر کے مخالف گروہ سے جنگ کرے جبکہ لشکر کے سردار جن میں حضرت سَلِیط بھی تھے ان کی رائے اس کے خلاف تھی لیکن حضرت ابوعُبَیدنے دریائے فرات کو عبور کر کے اہل فارس کے لشکر پر حملہ کر دیا۔ تھوڑی دیر تک لڑائی ایسے ہی چلتی رہی کچھ دیر بعد بَہْمَن جَاذْوَیہ نے اپنی فوج کو منتشر ہوتے دیکھا تو اس نے ہاتھیوں کو آگے بڑھانے کا حکم دیا۔ ہاتھیوں کے آگے بڑھنے سے مسلمانوں کی صفیں بے ترتیب ہو گئیں اور اسلامی لشکر ادھر ادھر ہٹنے لگا۔ حضرت ابوعُبَیدؓ نے مسلمانوں کو کہا کہ اے اللہ کے بندو! ہاتھیوں پر حملہ کرو اور ان کی سونڈیں کاٹ ڈالو۔ حضرت ابوعُبَیدؓ یہ کہہ کر خود آگے بڑھے اور ایک ہاتھی پر حملہ کر کے اس کی سونڈ کاٹ ڈالی۔ باقی اسلامی لشکر نے بھی یہ دیکھ کر تیزی سے لڑائی شروع کر دی اور کئی ہاتھیوں کی سونڈیں اور پاؤں کاٹ کر ان کے سواروں کو قتل کر دیا۔ اتفاق سے حضرت ابوعُبَیدؓ ایک ہاتھی کے سامنے آ گئے۔ آپ نے وار کر کے اس کی سونڈ کاٹ دی مگر آپ اس ہاتھی کے پاؤں کے نیچے آ گئے اور دب کر شہید ہو گئے۔
تاریخ طبری کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابوعُبَیدؓ کی بیوی دَوْمہ نے جنگ سے قبل ایک خواب دیکھا تھا کہ ایک شخص آسمان سے ایک برتن میں جنت کا ایک مشروب لایا جس کو حضرت ابوعُبَیداور جَبْربن ابو عُبَیدنے پیا ہے۔ اسی طرح ان کے خاندان کے چند لوگوں نے بھی پیا ہے۔ دَوْمَہ نے یہ خواب اپنے شوہر سے بیان کی۔ حضرت ابوعُبَیدؓ نے کہا کہ اس خواب کی تعبیر شہادت ہے۔ اس کے بعد حضرت ابوعُبَیدؓ نے لوگوں کو وصیت کی کہ اگر میں شہید ہو جاؤں تو جبر سپہ سالار ہوں گے اور اگر وہ بھی شہید ہو جائیں تو فلاں فلاں شخص سپہ سالار ہو گا۔ چنانچہ جس جس شخص نے خواب میں اس برتن سے مشروب پیا تھا ان کو حضرت ابوعُبَیدؓ نے ترتیب وار سپہ سالار مقرر کر دیا اور پھر فرمایا کہ اگر ابوالقاسم بھی شہید ہو جائیں تو پھر حضرت مُثَنّٰی تمہارے سپہ سالار ہوں گے۔ دَوْمہ کا یہ خواب حرف بہ حرف پورا ہوا۔ اس جنگ میں حضرت ابو عُبَیدؓ کے بعد علی الترتیب بیان کردہ چھ اشخاص ایک ایک کر کے عَلَمِ امارت ہاتھ میں لیتے چلے گئے اور شہید ہوتے چلے گئے۔ آٹھویں شخص حضرت مُثَنّٰی تھے جنہوں نے اسلامی جھنڈے کو لے کر دوبارہ ایک پُرجوش حملے کا ارادہ کیا لیکن اسلامی لشکر کی صفیں بے ترتیب ہو گئی تھیں اور لوگوں نے مسلسل سات امیروں کو شہید ہوتے دیکھ کر بھاگنا شروع کر دیا تھا جبکہ کچھ دریا میں کود گئے تھے۔ حضرت مُثَنّٰی اور آپؓ کے ساتھی مردانگی سے لڑتے رہے۔ بالآخر حضرت مُثَنّٰی زخمی ہو گئے اور آپ لڑتے ہوئے دریائے فرات عبور کر کے واپس آ گئے۔ اس واقعہ میں مسلمانوں کو بہت زیادہ نقصان ہوا۔ مسلمانوں کے چار ہزار آدمی شہید ہوئے جبکہ ایرانیوں کے چھ ہزار فوجی مارے گئے۔ یہ شکست مسلمانوں کے لیے زیادہ دیر تک ضرر رساں نتائج پیدا کرنے کا موجب بنتی مگر خوش قسمتی یہ ہوئی کہ قدرتی موقع ایسا پیدا ہو گیا کہ دشمن مسلمانوں کا تعاقب نہ کر سکا کیونکہ خود ایرانی اراکین سلطنت میں باہمی اختلاف پیدا ہو جانے کی وجہ سے بَہْمَن جَاذْوَیہ کو واپس جانا پڑا۔ ابن اثیرنے اس کی وجہ یہ لکھی ہے کہ خود ایرانی دارالحکومت مَدَائِن میں اراکین سلطنت کے ایک فریق نے رستم کے خلاف بغاوت کر دی تھی۔ (مقالہ ’تاریخ اسلام بعہد حضرت عمررضی اللہ عنہ‘ از مکرم سید میر محمود احمدناصر صاحب صفحہ 18تا 21) (تاریخ طبری مترجم جلد دوم حصہ دوم صفحہ 229 نفیس اکیڈیمی کراچی 2004ء) (ماخوذ از تاریخ ابن خلدون مترجم جلد3حصہ اول صفحہ270تا 273 دارالاشاعت کراچی 2003ء) (الکامل فی التاریخ لابن اثیر صفحہ311 بیت الافکار الدولیۃ)
حضرت مصلح موعودؓ نے بھی جنگ جِسْرکے بارے میں کچھ بیان فرمایا ہے کہ
’’سب سے بڑی اور ہولناک شکست جو اسلام کو پیش آئی وہ جنگ جِسْر تھی۔ ایرانیوں کے مقابلہ میں مسلمانوں کازبردست لشکر گیا۔ ایرانی سپہ سالار نے دریا پار اپنے مورچے بنائے اور ان کا انتظار کیا۔ اسلامی لشکر نے جوش میں بڑھ کر ان پر حملہ کیا اور دھکیلتے ہوئے آگے نکل گئے مگر یہ ایرانی کمانڈر کی چال تھی۔ اس نے ایک فوج بازوسے بھیج کر پل پر قبضہ کرلیا اور تازہ حملہ مسلمانوں پر کردیا۔ مسلمان مصلحتاً پیچھے لوٹے مگر دیکھا کہ پل پر دشمن کا قبضہ ہے۔ گھبرا کر دوسری طرف ہوئے تودشمن نے شدید حملہ کردیا اور مسلمانوں کی بڑی تعداد دریا میں کودنے پر مجبور ہوگئی اور ہلاک بھی ہو گئی۔ مسلمانوں کایہ نقصان ایسا خطرناک تھا کہ مدینہ تک اِس سے ہل گیا۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے مدینہ والوں کو جمع کیا اور فرمایا: اب مدینہ اور ایران کے درمیان کوئی روک باقی نہیں۔ مدینہ بالکل ننگاہے اور ممکن ہے کہ دشمن چند دنوں تک یہاں پہنچ جائے۔ اِس لئے میں خود کمانڈر بن کر جانا چاہتا ہوں۔ باقی لوگوں نے تواِس تجویز کو پسند کیا مگر حضرت علیؓ نے کہاکہ اگر خدانخواستہ آپؓ کام آگئے تو مسلمان تتر بتر ہوجائیں گے اور ان کا شیرازہ بالکل منتشر ہوجائے گا اِس لئے کسی اَورکو بھیجنا چاہئے آپ خود تشریف نہ لے جائیں۔ اس پر حضرت عمرؓ نے حضرت سعدؓ کو جو شام میں رومیوں سے جنگ میں مصروف تھے لکھا کہ تم جتنا لشکر بھیج سکتے ہو بھیج دو کیونکہ اِس وقت مدینہ بالکل ننگا ہوچکاہے اور اگر دشمن کو فوری طورپر نہ روکا گیا تووہ مدینہ پر قابض ہو جائے گا۔‘‘ (مجلس خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع.. میں بعض اہم ہدایات، انوار العلوم جلد 22 صفحہ56-57)
یہ ذکر ابھی چل رہا ہے ان شاء اللہ آئندہ بیان کروں گا۔ یہ تو اس جنگ کے بارے میں تھا۔ باقی جنگوں کی بھی مزید تفصیلات آئندہ آئیں گی۔
اب میں اس وقت کچھ مرحومین کا بھی ذکر کرنا چاہتا ہوں جن کے جنازے بھی پڑھاؤں گا۔ ان شاءاللہ۔ اس میں سے پہلا ذکر فتحی عبدالسلام صاحب کا ہے۔ ان کا پورا نام فتحی عبدالسلام مبارک صاحب ہے۔ یہ مصر کے تھے۔ 75سال کی عمر میں گذشتہ دنوں ان کی وفات ہو گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ان کے والدنقشبندی طریقے کے پیروکار تھے۔ انہوں نے اپنے ایک بچہ کو دینی تعلیم کے لیے وقف کرنے کا عہد کیا اور فتحی صاحب کو اس کے لیے منتخب کیا گیا۔ فتحی صاحب نے دس سال کی عمر میں حفظ قرآن مکمل کر لیا۔ قرآن کریم سے عشق کی وجہ سے فتحی صاحب کے والدنے بھی ان کے ساتھ ہی قرآن کریم حفظ کرنا شروع کر دیا اور مکمل قرآن حفظ کیا۔ بعد میں خدا کا ایسا فضل ہوا کہ ان کے والدنے 88 سال کی عمر میں بیعت بھی کر لی۔ قرآن حفظ کرنے کے بعد فتحی صاحب نے الازہر کے تحت ایک ہائی سکول سے امتیازی کامیابی کے ساتھ تعلیم مکمل کی۔ پھر قاہرہ یونیورسٹی سے انجینئرنگ میں ڈگری لی۔ زمانہ طالبعلمی میں مطالعہ کے بےحد شوق کی وجہ سے اپنے جیب خرچ سے پیسے بچا بچا کر کتب خریدتے اور مطالعہ کرتے۔ پھر مصر کی ایئر فورس میں افسر مقرر ہوئے۔ فوج میں ان پر یہ الزام لگا کہ آپ بعض انقلابی اسلامی تحریکوں کے مخفی منصوبوں میں شامل ہیں حالانکہ آپ ان کے مخالف تھے اور ان کی اصلاح کے لیے کوشاں تھے۔ بہرحال اس الزام میں ایک عرصہ جیل میں گزارنے کے بعد آپ کو بری کر دیا گیا۔ اس کے بعد آپ عراق چلے گئے۔ کچھ عرصہ وہاں بطور انجینئر کام کیا۔ 1991ء میں عراق میں جنگ کے دوران انہوں نے بڑا خطرناک وقت گزارا۔ جس علاقے میں آپ رہتے تھے وہاں ایک رات میں دس بم گرے۔ آپ اپنی فیملی کو لے کر دعاؤں میں مصروف رہے اور اللہ تعالیٰ نے حیرت انگیز طور پر ان کو محفوظ رکھا۔ پھر آپ اردن آ گئے اور معتزلی فرقہ کے ساتھ شامل ہو گئے۔ پھر مصر آئے اور کسی قدر اہل قرآن کی طرف مائل تھے کہ جماعت سے تعارف ہوا۔ احمدیت میں آپ کو تمام پریشان کن مسائل کا حل ملا تو آپ نے بیعت کر لی۔ بیعت کا واقعہ فتحی صاحب خود بیان کرتے ہیں کہ 1995ء میں مصر میں ابن خلدون نامی ایک علمی مرکز میں مختلف لیکچرز ہوتے تھے۔ وہاں مجھے بھی متعدد بار لیکچر دینے اور مختلف موضوعات پر سوالات کے جوابات دینے کی توفیق ملی۔ 1998ء میں مکرم مصطفیٰ ثابت صاحب نے اس مرکز میں میرا لیکچر سنا تو بہت تعریف کی اور اپنے گھر دعوت دی جہاں مجھے تین گھنٹے کی ایک ویڈیو کیسٹ دکھائی جس میں مکرم حلمی الشّافعی صاحب مرحوم نے دجال کے متعلق احادیث میں مذکورہ امور کی ایک ایسی تاویل بیان کی جو مجھے بہت پسند آئی۔ فتحی صاحب کہتے ہیں کہ میرے پوچھنے پر ثابت صاحب مرحوم نے بتایا کہ یہ تفسیر جو ہے یہ قاتلِ دجال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہے۔ کہتے ہیں کہ 1999ء میں مصطفیٰ ثابت صاحب نے مجھے کتاب ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ دی جس نے میرے اندر ایک عجیب انقلاب پیدا کر دیا اور میں نے امام مہدی علیہ السلام کے بارے میں تفصیلی تحقیق کا فیصلہ کر لیا۔ میں اپنی ذاتی تحقیق سے اس نتیجہ پر پہنچا ہوا تھا کہ ناسخ و منسوخ کا عقیدہ غلط اور قرآن کی حرمت کے خلاف ہے۔ نیز آزادی مذہب کا میں قائل تھا۔ احمدیت کے بارے میں تحقیق کرنے لگا تو دیکھا کہ احمدیت تو انہی باتوں کا پرچار کرتی ہے۔ پھر بعض آیات قرآنیہ کے بارے میں سوال کرنے پر مصطفیٰ ثابت صاحب نے مجھے Five Volume commentary دی اور کہا کہ اس میں سب سوالوں کا جواب موجود ہے۔ میں نے دیکھا اس میں میرے تمام سوالوں کے جوابات میرے ہی طرز فکر اور میری توقع کے عین مطابق موجود تھے۔ فتحی صاحب کہتے ہیں کہ میں نے بہت سوچا کہ وحی الٰہی کا جھوٹا دعویٰ کرنا تو ظلم عظیم ہے لیکن جو امور امام مہدی علیہ السلام لے کر آئے ہیں سب حق و ہدایت اور روحانی علوم پر مشتمل ہیں۔ اِکا دُکا مفہوم تو کوئی نہ کوئی بیان کر دیتا ہے لیکن اس قدر سچے مفاہیم اور اتنی بڑی تعداد میں اس پوری صدی میں کسی بھی شخص کو اللہ تعالیٰ نے عطا نہیں فرمائے تو کیا اللہ تعالیٰ نے اس عظیم انعام سے ایسے شخص کو نوازا ہے جو ظلم عظیم کرتے ہوئے وحی الٰہی کا دعویٰ کرتا ہے۔ آخر دعاؤں سے، پڑھ کے، سوچ کے 2001ء میں مصطفیٰ ثابت صاحب جب مصر تشریف لائے تو کہتے ہیں کہ میں نے انہیں بتایا کہ میں امام مہدی علیہ السلام پر ایمان لے آیا ہوں۔ انہیں شدت جذبات کی وجہ سے ایک لمحہ کے لیے میری بات کا یقین نہ آیا۔ اس کے بعد میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عربی کتب کا مطالعہ شروع کیا اور معانی اور مفاہیم کا ایک بحر ذخار میرے سامنے ٹھاٹھیں مارنے لگا۔
فتحی صاحب کی جماعت کے لیےجو علمی خدمات ہیں ان میں 2005ء میں حضرت مصلح موعوؓ د کی کتاب حیات محمد صلی اللہ علیہ وسلم(Life of Muhammad) کا انگریزی سے عربی میں ترجمہ کیا۔ الحوار المباشر کے پروگراموں میں شامل ہوتے رہے اور بڑے پُرجوش انداز میں مدلّل اور مفصّل جوابات دیتے تھے جنہیں احباب بہت پسند کرتے تھے۔ ایک مصری عیسائی پادری نے قرآن کریم پر اعتراضات پر مبنی ایک سیریز چلائی جس کا عنوان تھا۔ ھل القرآن کلام اللّٰہ؟ یعنی کیا قرآن خدا کاکلام ہے؟ اس کے جواب میں فتحی صاحب نے 2006ء میں پروگراموں کی ایک سیریز ریکارڈ کروائی جس کا نام تھا۔ ’’نَعَمْ! اِنَّہُ کَلَامُ اللّٰہِ‘‘۔ یعنی ہاں !بےشک یہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عربی قصائد کی تشریح پر مشتمل پروگرام روح القدس معہ کیا جس میں قصائد کے لفظی و معنوی اعجاز کو بہت خوبصورت انداز سے واضح کیا۔ اس کے علاوہ متعدد پروگراموں میں شرکت کرتے رہے جن میں ’’نَبُؤَاتْ تَحَقَّقَتْ یعنی پیشگوئیاں جو پوری ہو گئیں، براہین احمدیہ کے علمی معارف، فِیْ سَمَوَاتِ الْقُرآنِ، تاریخ اسلام اور خاتم النبیین وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ آپ کی جماعتی خدمات بھی ہیں۔ مقامی جماعت میں ایک لمبا عرصہ تک سیکرٹری تبلیغ کے طور پر خدمت بجا لاتے رہے۔ اپنے آپ کو وقف کے لیے بھی پیش کیا۔ کئی سال تک بطور واقف زندگی جماعتی خدمات بجا لاتے رہے۔ جماعتی سینٹر میں درس بھی دیا کرتے تھے۔
ان کے بیٹے ابراہیم فتحی صاحب کہتے ہیں کہ ابا جان مرحوم سورۂ فاتحہ کی روشنی میں سچی زندگی جینے والے انسان تھے۔ ان کی زندگی نعمتِ خلافت کے نور سے فیضیاب تھی۔ خلیفۂ وقت کے لیے عشق اور تعظیم کے عجیب جذبات رکھتے تھے۔ ان کے نزدیک سب مشکلات کے حل اور سب مشکل مسائل کو سمجھنے اور اللہ تعالیٰ کی طرف جانے والا راستہ جاننے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے خلافت۔ لکھتے ہیں کہ والد صاحب قول و فعل میں کامل سچ سے کام لینے میں مشہور تھے۔ ہر کام سے پہلے ہمیشہ دعا اور خدا کے حضور گڑگڑاتے تھے۔ اگر ان سے کوئی کہتا کہ مجھے نصیحت کریں تو اسے کہتے کہ دعا کرو اور اللہ تعالیٰ سے صراطِ مستقیم طلب کرو اور خلیفۂ وقت کو دعا کے لیے لکھو۔ آپ گہرا علم اور وسیع معلومات رکھتے تھے۔ مطالعہ بہت وسیع تھا۔ ہر علم کی کتابیں پڑھتے اور نئے افکار اور جدید تحقیقات کو سمجھنے کی کوشش میں لگے رہتے۔ حاصل مطالعہ اور علم کو باریک دینی امور کو سمجھنے اور سمجھانے میں صرف کرتے۔ درس و تدریس میں ان کا انداز بہت خوبصورت تھا اور اس دوران کبھی کبھی مزاح بھی کرتے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کو ہمیشہ پڑھتے رہتے اور ان سے معارف کے موتی نکال کر انہیں اپنی روز مرہ زندگی میں مشعل راہ بناتے۔ جمعہ کے روز اپنے لیکچر میں اور ایم ٹی اے کے پروگراموں میں یہ معارف بیان کرتے تھے۔ خدمت دین کا جذبہ بہت تھا۔ پھر کہتے ہیں کہ ہسپتال میں جب بیمار تھے، داخل تھے تو سانس میں دشواری کے باوجودنرسوں کو احمدیت کی تبلیغ کرتے رہے۔ جن اعلیٰ اخلاق کی لوگوں کو نصیحت کرتے گھر میں ان پر عمل کر کے دکھاتے۔ عسر و یسرمیں سچائی اور تقویٰ سے چمٹے رہے۔ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی انہیں بہت تڑپ تھی۔ اکثر کہتے کہ اس دنیا کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اس دنیا میں آخرت کے لیے عمل کرنا ہی حقیقی نجات ہے۔ اکثر خدا تعالیٰ سے ملنے کے لیے شوق کی باتیں کرتے تھے۔ ان کے بیٹے کہتے ہیں کہ آخری دنوں میں جب مجھے پریشان دیکھتے تو کہتے کہ میرے پاس بیٹھ کر سورۂ فاتحہ اور درود شریف بار بار پڑھو کیونکہ بیماری سے شفا خدا تعالیٰ کے اذن سے ہوتی ہے اور اسی کو دوا کا بھی علم ہے۔ طب اس کے اذن کے بغیر کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ مجھے دنیا کی کوئی پروا نہیں ہے بلکہ خدا تعالیٰ سے ملنے کا شوق ہے۔ یہی بیٹے لکھتے ہیں کہ میری والدہ بیان کرتی ہیں کہ میرے میاں ہمیشہ جماعت کی خدمت کو ہر دوسرے کام پر ترجیح دیتے تھے۔ زیادہ وقت گھر سے باہر تبلیغ میں گزارتے تھے، اسی کی برکت سے اللہ تعالیٰ بھی ہمارے بچوں کی خارق عادت طور پر حفاظت فرماتا تھا۔
ڈاکٹر حاتم حلمی الشّافعی صاحب لکھتے ہیں کہ ہمارے بھائی اور استاذ مکرم فتحی عبدالسلام صاحب واقعۃً ایسے لوگوں میں سے تھے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مومنوں میں سے بعض ایسے لوگ ہیں جنہوں نے خدا سے کیا ہوا عہد پورا کر دیا۔ ڈاکٹر حاتم صاحب کہتے ہیں کہ بیعت سے وفات تک کے عرصہ میں مَیں نے آپ کو ایک عجیب انسان پایا۔ آپ کو خدا تعالیٰ اور اس کی صفات اور توحید کی محبت کا نشہ تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کے عاشق تھے۔ سورۂ فاتحہ کے عشق میں فنا تھے۔ اپنے قیمتی درسوں میں آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تفسیر سورہ فاتحہ کے آسمانوں میں پرواز کرتے نظر آتے تھے۔
حسین المصری صاحب اردن سے ہیں۔ لکھتے ہیں فتحی صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور قادیان کے عاشق تھے۔ خلافت پر آپ کو پختہ ایمان تھا۔ بہت علمی آدمی تھے۔ پھر اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ قادیان کے جلسہ 2018ء میں انہوں نے اکٹھے شرکت کی۔ کہتے ہیں جب میں قادیان پہنچا تو مجھے سرائے وسیم میں ٹھہرایا گیا۔ وہاں فتحی صاحب مجھے بڑی محبت سے ملے۔ جلسہ کی کارروائی کے بعد رات کو میرے ساتھ ’’براہین احمدیہ‘‘ کی باتیں شروع کر دیتے۔ آپ کو قادیان سے عشق تھا۔ قادیان کے بارے میں کہتے کہ یہ ہمارے پیارے کی بستی ہے۔ ہم نے مل کر قادیان کے مقدس مقامات دیکھے اور کہتے ہیں کہ میں حیران رہ گیا کہ فتحی صاحب کو ہر جگہ اور اس کی تاریخ کا تفصیلی علم تھا۔ جس دن انہوں نے قادیان سے رخصت ہونا تھا ہم نماز فجر کے بعد بیت الذکر اور بیت الدعا میں گئے۔ وہاں آپ کی شدت عجز و نیاز دیکھ کر میں بھی ضبط نہ کر سکا۔ وہاں سے فارغ ہو کر جب باہر نکلے اور بہشتی مقبرہ والے چوک کے قریب پہنچے تو حیران و پریشان اِدھر اُدھر دیکھنے لگے اور پھر تھوڑی دیر کے بعد میرے پوچھنے پر روتے جاتے تھے اور سسکیاں لیتے جاتے تھے اور پھر زمین پر سجدے میں گر گئے۔ پھر اٹھے اور آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر کانپتی آواز سے کہا کہ اے خدا! تجھے پتہ ہے کہ اپنے پیارے کی ہمسائیگی میں رہنا مجھے کتنا عزیز ہے۔ اے خدا !تجھے علم ہے کہ میں آج کی رات یہیں گزارنا چاہتا ہوں لیکن تھوڑی دیر بعد ہمارے رخصت ہونے کا وقت ہو جانا ہے۔ کیونکہ اس دن جس دن یہ واقعہ ہوا ان کو اطلاع دی گئی تھی کہ آج ان کی واپسی ہے۔ تُو ہر چیز پر قادر ہے۔ ہر کام تیرے ہاتھ میں ہے۔ تیرے اذن سے ہی سب کچھ ہوتا ہے اور قانون قائم ہیں اور بدلتے ہیں۔ میرا سفر ملتوی کر دے تا چند گھنٹے اَور میری آنکھوں کو ٹھنڈک نصیب ہو۔ اور بہرحال پھر ہوا یہ کہ گاڑی آئی اور کیونکہ ان کو کہا گیا تھا کہ اس دن ان کی سیٹیں ہیں تو فتحی صاحب کا سامان اس میں رکھ دیا گیا۔ تھوڑی دیر بعد سرائے وسیم میں فتحی صاحب کی آواز گونجی کہ اللہ اکبر! اللہ اکبر! یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میرے رحیم رب نے میری دعا سُن لی اور میرا سفر ملتوی کر دیا۔ وہ خدا تعالیٰ کی حمد و شکر میں مصروف تھے۔ کہتے ہیں میں نیچے اترا تو فتحی صاحب نے بڑے زور سے مجھے گلے سے لگا کر فرمایا کہ آپ نے دیکھا کیسے اللہ تعالیٰ نے ہمارے پیارے مسیح موعود علیہ السلام کی برکت سے ہماری دعائیں قبول فرمائیں اور کس طرح وہ قبول فرماتا ہے۔ پھر ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور انہیں دیکھ کر میں بھی اشکبار ہو گیا۔ بتانے لگے کہ منتظمین کو غلطی لگی تھی کہ میری فلائٹ آج ہے۔ وہ آج نہیں تھی بلکہ اگلے دن تھی یا کسی اَور دن تھی۔ یہ کہتے ہیں ان کو اپنی وفات کا بھی پتہ چل گیا تھا جس کا اظہار انہوں نے حسین صاحب سے کیا اور ایم ٹی اے کے لیے جو پروگرام وہ بنا رہے تھے اس کے لیے ہدایات بھی دیں کہ کس طرح اب بنانا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک الہام ہوا تھا کہ ’’یَدْعُوْنَ لَکَ اَبْدَالُ الشَّامِ وَعِبَادُ اللّٰہِ مِنَ الْعَرَبِ۔ یعنی تیرے لئے ابدال شام کے دعا کرتے ہیں اور بندے خدا کے عرب میں سے دعا کرتے ہیں۔‘‘ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ ’’خدا جانے یہ کیا معاملہ ہے اور کب اور کیونکر اس کا ظہور ہو۔ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ۔‘‘ (تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ 100)
لیکن بہرحال ہم نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جہاں جہاں بھی عرب جماعتیں قائم ہو رہی ہیں ان میں بھی اور اس مثال سے جو ابھی میں نے فتحی صاحب کی دی ہے یہ سامنے آتا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ عربوں میں سے مخلصین پیدا کر رہا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر درود و سلام بھی بھیجتے ہیں اور محبت اور پیار اور عشق کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ اس بات کی گواہی دیتے ہوئے حاتم صاحب بھی لکھتے ہیں کہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ اور آپؑ کی کتب اور اشعار سے فتحی صاحب کی محبت خارج از بیان ہے۔
خلافت سے مرحوم کی محبت اور اطاعت اور احترام ان کے ہر قول و فعل سے جھلکتا تھا اور ہر ایک کو نظر آتا تھا۔ راسخ یقین تھا کہ خلافت خدا تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے اور اس کے ملنے پر حمد و شکر کے گیت گاتے تھے۔ وہ اس حبل اللہ کو بڑی مضبوطی سے تھامے ہوئے تھے اور اطاعت خلافت میں فنا تھے۔ یہ تو میں نے بھی دیکھا ہے۔ ایسا پیار اور محبت ملاقات کے وقت ان کی آنکھوں میں اور ہر حرکت سے نظر آتا تھا اور جھلکتا تھا جو غیر معمولی معیار کا تھا اور ساتھ ادب اور احترام بھی بےشمار تھا۔ بڑے علمی مضامین لے کے آتے تھے۔ اگر ان کی کسی بات یا دلیل کی مجھے سمجھ نہیں آئی یا اگر آئی اور میں نے ردّ کر دیا یا مزید تحقیق کے لیے کہا تو کامل شرح سے اسے تسلیم کیا۔ گویا کہ خلافت کے فدائی اور سلطان نصیر تھے۔
اسامہ عبدالعظیم صاحب لکھتے ہیں کہ فتحی عبدالسلام صاحب بہت بڑے عالم تھے۔ عمر میں بھی بڑے ہونے کے باوجود بہت عاجز انسان تھے۔ ہم میں سے سب سے چھوٹے کے ساتھ بھی بڑے ادب سے پیش آتے اور اس کا مشورہ قبول کرتے تھے۔ بہت وسیع حوصلے کے مالک تھے۔ اگر کسی سے کوئی زیادتی ہو جاتی تو سب کے سامنے بڑے انکسار کے ساتھ اس سے معذرت کرتے اور اس کا سر چومتے۔ مرحوم کو اسلام سے بہت محبت تھی اور احمدی نوجوانوں کو جماعت کے ایسے خادم اور سپاہی بنانا چاہتے تھے جن میں علم بھی ہو اور روحانیت بھی۔ رات دیر تک ہمیں نصیحت کرتے اور جماعتی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے۔ کہتے ہیں کہ بہت حلیم تھے۔ اگر کوئی آپ سے اکھڑ پن سے بات کرتا تو بھی اس کا جواب سختی سے نہ دیتے تھے۔ میرے علم میں بھی ہے۔ بعض لوگوں نے ان کو سخت تکلیف بھی پہنچائی۔ ان سے سخت رویہ اختیار کیا لیکن اگر وقتی طور پر کسی وجہ سے ان کے منہ سے، فتحی صاحب کے منہ سے کوئی سخت لفظ نکل بھی گیاتو پھر معافی بھی مانگی اور بعض دفعہ مجھے بھی لکھ دیتے تھے کہ میں نے اس شخص سے فلاں بات کی ہے اور اس سے معافی بھی مانگ لی ہے۔ تو یہ حوصلہ کم لوگوں میں ہی ہوتا ہے۔
تمیم صاحب لکھتے ہیں کہ اکثر کہا کرتے تھے کہ اسلام میں کوئی کام خلافت کے بغیر درست نہیں ہو سکتا۔ جس چیز کی ہمیں ضرورت ہے وہ مختلف خیالات کی طرف مائل کرنا نہیں بلکہ ہمیں خلیفہ کی ضرورت ہے جو اختلافات کا فیصلہ کرتا ہے اور خدائی راہنمائی کے نتیجہ میں ہماری راہنمائی کرتا ہے۔ مرحوم ہمیشہ ہر اس بات کو چھوڑنے کے لیے تیار تھے جسے خلیفۂ وقت قبول نہیں کرتے تھے۔ کہتے ہیں حضور جب بھی آپ سے مل کر آتے ایک عجیب خوشی سے مخمور نظر آتے اور بڑے وجد اور محبت سے ملاقات اور اس میں ہونے والی باتوں کا تذکرہ کرتے۔ فلسطین سے ایک خاتون سماح صاحبہ ہیں۔ کہتی ہیں میں نے خواب میں دیکھا جو حقیقت لگتا تھا کہ میں اور میری بہن سحر بیٹھی ہیں اور اس نے مجھے کہا کہ اسے کسی نے بتایا ہے کہ ایک فرشتہ ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے احمدیوں کو گھیرے ہوئے تھا۔ جب فتحی صاحب آئے تو فرشتہ نے فتحی صاحب سے کہا کہ تم چنبیلی کا سب سے خوبصورت پھول ہو۔ اس پر میں اپنی بہن کو کہتی ہوں کہ فتحی صاحب کتنے پاک صاف ہیں۔ طاہر ندیم صاحب عربی ڈیسک کے ہیں، لکھتے ہیں کہ ان میں ایک خوبی یہ تھی کہ باوجود ایک بڑے عالم ہونے کے وہ شخص عاجزی کا پتلا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام سے ایسا والہانہ لگاؤ اور عشق تھا کہ براہین احمدیہ کو انہوں نے نہ جانے کتنی مرتبہ پڑھا اور اس کے نئے نئے مطالب نکال کر پیش کرتے رہتے تھے۔ اس پر انہوں نے کئی پروگرامز بھی ریکارڈ کروائے۔
جلسہ کی بھی رونق تھے۔ ہم سارے جانتے ہیں۔ بڑی پُرزور آواز تھی اور آخری دن بڑے پُرجوش نعرے بھی لگایا کرتے تھے۔ ان کے نعروں میں بھی ایک جوش ہوتا تھا اور لگتا تھا دل سے آواز پھوٹ رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے بچوں کو بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کی دعائیں جو ہیں بچوں کے لیے وہ بھی قبول فرمائے۔ ان کے درجات بلند فرمائے۔
اگلا ذکر ہے مکرمہ رضیہ بیگم صاحبہ جو خلیل احمد صاحب مبشر سابق مبلغ انچارج کینیڈا اور سابق امیر و مشنری انچارج سیرالیون کی اہلیہ تھیں۔ یہ بھی گذشتہ دنوں وفات پا گئی ہیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ خلیل صاحب لکھتے ہیں کہ میری اہلیہ رضیہ بیگم میدانِ تبلیغ کے طویل عرصہ کے دوران اپنے واقف زندگی خاوند کے ساتھ شانہ بشانہ صبر جوش اور ولولے کے ساتھ خدمت سلسلہ کی توفیق پاتی رہیں۔ افریقہ میں خصوصیت سے آپ کو بھرپور انداز میں مہمان نوازی اور خدمت کی توفیق ملتی رہی۔ کبھی بے جا مطالبہ نہیں کیا اور ہر حال میں صبر و شکر کے ساتھ وقف زندگی خاوند کے ساتھ مل کر خدمت دین کی توفیق پائی۔ مرحومہ عبادات میں باقاعدہ تھیں۔ صدقہ اور مالی قربانی میں دلی شغف اور جوش کے ساتھ حصہ لیتیں۔ وفات سے قبل تمام چندہ جات کی ادائیگی کو مکمل کیا۔ مرحومہ موصیہ تھیں۔ پسماندگان میں ایک بیٹا اور تین بیٹیاں باقی آگے ان کی نسلیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے درجات بلند فرمائے۔
اگلا ذکر محترمہ سائرہ سلطان صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر سلطان مبشر صاحب کا ہے۔ ان کی بھی گذشتہ دنوں ہارٹ اٹیک کی وجہ سے وفات ہو گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ان کو اللہ کے فضل سے لجنہ پاکستان میں مختلف شعبہ جات میں خدمت کی توفیق ملی اور خدمت خلق کے شعبہ میں خاص طور پر ان کوخدمت کی زیادہ توفیق ملی۔ ان کے میاں ڈاکٹر سلطان مبشر صاحب لکھتے ہیں کہ جماعت اور خلافت کی وفا دار تھیں۔ اس بات پر بہت خوش تھیں کہ ہمارا گھر مسجد مبارک کے قریب ہے۔ جب ان کی شادی ہوئی تو اس وقت ان کی ساس صاحبہ تو وفات پا چکی تھیں ان کے سسر مولانا دوست محمد شاہد صاحب حیات تھے۔ ان کی ہمیشہ بیٹیوں کی طرح خدمت کی اور ان کی تمام ضروریات کا خیال رکھا۔ ان کے پاس مختلف ممالک سے آنے والے مہمان جو دن کے کسی بھی حصہ میں آتے تھے ان کی مہمان نوازی بھرپور طریق پر کرتی تھیں۔ ایک واقف زندگی کی بہو ہونے کا انہوں نے حق ادا کر دیا۔ نہایت درجہ غریب پرور تھیں اور اس معاملہ میں ان کا ہاتھ بہت کھلا تھا حتی ٰکہ کبھی کبھی مقروض بھی ہو جایا کرتی تھیں۔ بعض اوقات اپنا زیور بھی بیچا لیکن غریبوں کی ہر لحاظ سے مدد کی۔ چندہ جات میں باقاعدہ تھیں۔ موصیہ تھیں۔ زیور بیچ کے بھی انہوں نے اپنے بعض چندے ادا کیے۔ بعض تحریکات میں زیور دیا۔ نہ صرف اپنا بلکہ اپنے مرحوم والدین کی طرف سے بھی چندہ ضرور دیتی تھیں۔ بہت نفاست پسند تھیں۔ دعا گو تھیں۔ صوم و صلوٰۃ کی پابند تھیں۔ تہجد گزار تھیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند فرمائے اور ان کے بچے جو دو بیٹے ہیں ان کو بھی ان کی نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ان بچوں کو بھی اور ڈاکٹر صاحب کو بھی صبر اور حوصلہ عطا فرمائے۔
اگلا ذکر مکرمہ غصون المعضّمانی صاحبہ کا ہے۔ یہ سیریا کی ہیں جو آج کل ترکی میں تھیں۔ ان کی بھی گذشتہ دنوں میں انتالیس سال کی عمر میں وفات ہو گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ لمبے عرصہ سے بیمار تھیں۔ اللہ کے فضل سے مرحومہ موصیہ بھی تھیں۔ ترکی کے صدر جماعت اور مربی سلسلہ صادق بٹ صاحب لکھتے ہیں کہ 2015ء میں سیریا سے ہجرت کر کے ترکی آئی تھیں۔ 2016ء میں ان کا تقرر بطور صدر لجنہ اسکندرون ہوا اور تادم آخر بطور صدر لجنہ خدمت بجا لاتی رہیں۔ کافی عرصہ سے بیمار تھیں اور صاحبِ فراش تھیں تاہم اس بیماری کی حالت میں بھی ہمہ وقت خدمت دین میں مصروف رہتیں۔ انٹرنیٹ کے ذریعہ مختلف فورمز پر تبلیغ کرتی رہتی تھیں۔ نیز سیرین احمدی خواتین کی تعلیم و تربیت میں اہم کردار ادا کیا۔ بڑی ہردلعزیز تھیں۔ سچی ہمدرد اور سب کی خیر خواہ تھیں۔ بعض اَور خواتین نے بھی مجھے لکھا ہے اور انہوں نے ان کی بڑی تعریف کی ہے۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند فرمائے۔
ان سب کے جیسا کہ میں نے کہا نماز کے بعد جنازہ غائب پڑھاؤں گا۔
(الفضل انٹرنیشنل 27جولائی تا 12 اگست 2021ءجلسہ سالانہ نمبر صفحہ 13-17)
حضرت عمرؓ فرمایا کرتے تھے کہ مَیں اپنے لشکر تیار کرتا ہوں اور مَیں نماز میں ہوتا ہوں۔
حضرت عمرؓ کا دَورِ خلافت تقریباً ساڑھے دس سال پر محیط تھا۔ ……حضرت عمرؓ کے مفتوحہ علاقوں کا کل رقبہ بائیس لاکھ اکاون ہزار تیس مربع میل بنتا ہے۔
حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دَورِ خلافت میں ایک بات جو بہت نمایاں نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت عمرؓ اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود گویا ہر فتح کے وقت مسلمانوں کے لشکر میں موجود تھے۔
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد فاروقِ اعظم حضرت عمربن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ۔
جنگِ نَمَارِق اور کَسْکَرْ، معرکۂ سقاطیہ، جنگِ باروسما اور جنگِ جِسر میں پیش آمدہ واقعات کا مختصر بیان۔
چار مرحومین: مکرم فتحی عبدالسلام مبارک صاحب، مکرمہ رضیہ بیگم صاحبہ اہلیہ خلیل احمد صاحب مبشر سابق مبلغ انچارج کینیڈا و سیرالیون، مکرمہ سائرہ سلطان صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر سلطان مبشر صاحب اور مکرمہ غصون المعضّمانیصاحبہ کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب۔
فرمودہ 16؍جولائی2021ء بمطابق 16؍وفا1400 ہجری شمسی، بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے۔
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔