حضرت عمر بن خطابؓ
خطبہ جمعہ 23؍ جولائی 2021ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
آج کل ہم حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر کر رہے ہیں اور ان کے زمانے میں جو بعض جنگیں ہوئی تھیں ان کا ذکر ہو رہا تھا۔ اسی حوالے سے آج بھی بیان کروں گا۔ ایک جنگ جنگ بُوَیب کہلاتی ہے جو تیرہ ہجری میں اور بعض مؤرخین کے نزدیک یہ سولہ ہجری میں ہوئی۔ جِسر کے مقام پر یا جِسر کی جنگ میں جس کا پہلے گذشتہ خطبہ میں ذکر ہو چکا ہے، مسلمانوں کی شکست کے بعد حضرت مُثَنّٰی نے حضرت عمرؓ کو جنگ کے بارے میں اطلاع بھجوائی۔ حضرت عمرؓ نےقاصد کو فرمایا کہ اپنے اصحاب کے پاس واپس جاؤ اور ان کو کہو کہ اسلامی لشکر جہاں ہے وہیں ٹھہرا رہے۔ جلد ہی امداد آتی ہے۔ (الاخبار الطوال از ابو حنیفہ دینوری صفحہ 166-167 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)
جِسر کی جنگ میں شکست سے حضرت عمرؓ کو سخت تکلیف پہنچی۔ آپؓ نے تمام عرب میں خطیب بھیجے جنہوں نے پُرجوش تقریروں سے سارے عرب میں جوش بھر دیا۔ عرب کے قبائل اس قومی معرکہ میں شامل ہونے کے لیے جوق در جوق آنا شروع ہو گئے۔ ان میں عیسائی قبائل بھی تھے۔ صرف مسلمان ہی نہیں تھے بلکہ عیسائی قبائل بھی تھے۔ حضرت عمرؓ نے مسلمانوں کا ایک لشکر عراق روانہ کیا اور حضرت مُثَنّٰی نے بھی عراق کے سرحدی مقامات سے فوج اکٹھی کر لی۔ رستم کو جب اس کی خبر ملی تو اس نے مہران کے ہمراہ ایک لشکر مسلمانوں کے مقابلہ کے لیے روانہ کیا۔ حِیرہ ایک مقام ہے، ایک شہر ہے جو کوفہ سے تین میل کے فاصلے پر ہے اس کے قریب بُوَیب، یہ بویب جو ہے یہ کوفہ کے پاس ایک نہر ہے جودریائے فرات سے نکلتی ہے۔ اس مقام پر دونوں حریف صف آرا ہوئے۔ یہ جنگ رمضان کے مہینہ میں لڑی گئی۔ اس مقام کے قریب ہی بعد میں کوفہ شہر آباد ہوا تھا۔ ایرانی جرنیل مہران نے کہا ہم دریا عبور کر کے آئیں یا تم آؤ گے؟ حضرت مُثَنّٰی نے کہا تم پار کر کے آؤ۔ پچھلی جنگ میں مسلمان دریا پار کر کے گئے تھے۔ اس دفعہ انہوں نے یہ حکمت ِعملی اختیار کی کہ ان کو، ایرانیوں کو کہا کہ تم آؤ۔ حضرت مُثَنّٰی نے اپنے لشکر کی تنظیم اور صف آرائی کی اور پھر ان کے الگ الگ حصوں پر تجربہ کار سردار مقرر کیے اور اپنے مشہور گھوڑے شموس نامی پر سوار ہو کر اسلامی لشکر کی صفوں کا چکر کاٹ کر معائنہ کیا اور ہر جھنڈے کے پاس ٹھہر کر جنگ کے بارے میں ہدایاتِ جنگ دیں اور ولولہ خیز الفاظ میں ان کے حوصلے بڑھاتے ہوئے یوں فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ آج عرب پر تمہاری وجہ سے داغ نہیں لگے گا۔ خدا کی قسم! مَیں اپنی ذات کے لیے آج وہی کچھ پسند کرتا ہوں جو تم میں سے عام آدمی کے لیے میری نظر میں پسندیدہ ہے یعنی مَیں اور تم برابر ہیں۔ اور سرفروشانِ اسلام نے پرجوش الفاظ سے اپنے محبوب قائد کی آواز پر پورے جوش سے لبیک کہا اور کیوں نہ کہتے جبکہ اس نے اپنے ہر قول و فعل میں ہمیشہ ہی ان سے نہایت منصفانہ سلوک روا رکھا تھا اور راحت و تکلیف دونوں میں ان کا ساتھ دیا تھا اور کسی کی مجال نہ تھی کہ وہ ان کی کسی بات پر انگلی رکھ سکے۔ (تاریخ الطبری جلد2صفحہ372دارالکتب العلمیۃ بیروت2012ء) (مقالہ ’تاریخ اسلام بعہد حضرت عمر رضی اللہ عنہ‘ از مکرم سید میر محمود احمدناصر صاحب صفحہ23-24) (معجم البلدان جلد 2 صفحہ376) (معجم البلدان جلد1 صفحہ607)
حضرت مُثَنّٰی نے لشکر کو ہدایت کی کہ میں تین تکبیریں کہوں گا۔ تم تیار اور مستعد ہو جانا اور چوتھی تکبیر سنتے ہی دشمن پر حملہ کر دینا۔ حضرت مُثَنّٰی نے پہلی مرتبہ نعرۂ تکبیر بلند کیا تو ایرانی فوج نے جلدی سے حملہ کر دیا۔ اس لیے مسلمانوں نے بھی جلدی کی اور پہلی تکبیر کے بعد ہی قبیلہ بنو عجل کے بعض افراد اپنی صفوں سے نکل کر مقابلہ کے لیے بڑھے۔ اس طرح صفوں میں خلل پیدا ہو گیا۔ حضرت مُثَنّٰی نے ایک شخص کو پیغام دے کر ان کی طرف بھیجا کہ پیغام یہ تھا کہ امیرِ لشکر سلام کہتا ہے اور کہتا ہے کہ آج مسلمانوں کو رسوا نہ کرو۔ اس کے بعد وہ قبیلہ سنبھل گیا۔ پھر ایک شدید جنگ کے بعد ایرانیوں میں بھگدڑ پڑ گئی۔ اس جنگ میں ایرانیوں کے مقتولین کی تعداد ایک لاکھ بیان کی جاتی ہے۔ ایرانی لشکر کا سالار مہران بھی اس جنگ میں قتل ہوا۔ اس جنگ کو یَوْمُ الْاَعْشَاربھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس جنگ میں سَو لوگ ایسے تھے جن میں سے ہر ایک نے دس دس آدمیوں کو قتل کیا تھا۔ ایرانی لشکر شکست کھا کر پل کی طرف بھاگا تا کہ دریا عبور کر کے اپنے محفوظ علاقے میں چلا جائے لیکن حضرت مُثَنّٰی نے اپنا دستہ لے کر ان کا تعاقب کیا اور پل پار کرنے سے پہلے ہی ان کو گھیر لیا اور دریا کا پل توڑ کر بہت سے ایرانی فوجیوں کو قتل کر دیا۔ بعد میں حضرت مُثَنّٰی افسوس کا اظہار فرمایا کرتے تھے کہ میں نے شکست خوردہ لوگوں کا تعاقب کیوں کیا؟ مجھے یہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ آپ فرماتے کہ مجھ سے بڑی غلطی ہوئی ہے۔ میرے لیے زیبا نہیں کہ میں ان سے مقابلہ کروں جو مقابلے کی طاقت نہیں رکھتے تھے۔ آئندہ میں کبھی ایسا نہیں کروں گا اور پھر آپ نے مسلمانوں کو نصیحت کی کہ اے مسلمانو! تم بھی کبھی ایسی حرکت نہ کرنا اور اس معاملہ میں میری پیروی نہ کرنا۔ اس معرکے میں یہ غلطی میرے سے ہو گئی کہ دوڑتے ہوؤں کا تعاقب کیا یہ نہیں ہونا چاہیے۔ اصل میں تو یہ اسلامی اخلاق ہیں۔ اس معرکے میں اسلامی لشکر کے بعض بڑے بڑے کردار مثلاً خالد بن ہلال اور مسعود بن حارثہ بھی شہید ہوئے تھے۔ حضرت مُثَنّٰی نے شہداء کا جنازہ پڑھایا اور فرمایا خدا کی قسم! میرے رنج و غم کو یہ بات ہلکا کرتی ہے کہ یہ لوگ اس جنگ میں شامل ہوئے اور انہوں نے جرأت اور بہادری سے کام لیا اور ثابت قدم رہے اور ان کو کسی قسم کی گھبراہٹ اور پریشانی نہیں ہوئی اور پھر یہ بات میرے غم کو ہلکا کرتی ہے کہ شہادت گناہوں کی معافی کے لیے کفّارہ بن جاتی ہے۔
اس جنگ کے ذکر میں مؤرخین ایک واقعہ بیان کرتے ہیں جس سے مسلمان خواتین کی ہمت و دلیری پر روشنی پڑتی ہے۔ میدانِ جنگ سے دور مقام قوادس پر اسلامی لشکر کی خواتین اور بچوں کا کیمپ تھا۔ لڑائی کے خاتمہ پر جب مسلمانوں کا ایک دستہ گھوڑے دوڑاتا ہوا کیمپ کے سامنے پہنچا تو مسلمان خواتین کو یہ غلط فہمی ہوئی کہ یہ دشمن کی فوج ہے جو ہم پر حملہ کرنے آئی ہے۔ انہوں نے بڑی تیزی سے بچوں کو تو گھیرے میں لے لیا اور خود پتھر اور چوبیں لے کر مرنے مارنے پر تل گئیں۔ فوجی دستہ کے قریب پہنچنے پر ان کو یہ معلوم ہوا کہ یہ تو مسلمان ہیں تو اس پارٹی کے راہنما عمرو بن عبدالمسیح نے بے ساختہ کہا کہ اللہ کے لشکر کی خواتین کویہی زیبا ہے۔
معرکہ بُوَیب ختم ہو گیا مگر اپنے پیچھے گہرے نشانات اور گہرے اثرات چھوڑ گیا۔ ایران کی اسلامی مہم میں اس سے قبل کبھی اتنا جانی نقصان نہ ہوا تھا۔ اس معرکہ کا یہ اثر ہوا کہ عراق کے اکثر نواح میں مسلمانوں کے پاؤں مضبوط ہو گئے اور سواد عراق پر دجلہ تک ان کا قبضہ ہو گیا اور معمولی جھڑپوں کے بعد ارد گرد کے علاقوں پر بھی مسلمان از سر نو قابض ہو گئے جو پہلے چھوڑ گئے تھے اور ایرانی افواج نے اس میں خیریت دیکھی کہ پسپا ہو کر دجلہ کے دوسرے کنارے پر جا اتریں۔ اس فتح کے بعد مسلمان عراق کے مختلف علاقوں میں پھیل گئے۔ (تاریخ الطبری جلد2صفحہ373-374دارالکتب العلمیۃ بیروت2012ء) (ماخوذ از سیرت امیر المومنین عمر بن خطاب از الصلابی صفحہ 361تا 363دارالمعرفہ بیروت 2007ء) (ماخوذ ازالفاروق از شبلی نعمانی صفحہ82 تا84 ادارہ اسلامیات 2004ء) (ماخوذ از الکامل فی التاریخ جلد 2صفحہ 288تا 291سنۃ 13ھ، ذکر وقعۃ البویب، دارالکتب العلمیۃ بیروت 2006ء) (ماخوذ از تاریخ طبری مترجم جلد دوم حصہ دوم صفحہ 237-238، 240-241 نفیس اکیڈیمی کراچی 2004ء) (مقالہ ’تاریخ اسلام بعہد حضرت عمررضی اللہ عنہ‘ از مکرم سید میر محمود احمدناصر صاحب صفحہ28-29)
پھر جنگ قادسیہ ہوئی جو چودہ ہجری میں ہوئی۔ قادسیہ موجودہ عراق میں ایک مقام ہے اور کوفہ سے پینتالیس میل کے فاصلہ پر واقع ہے۔ چودہ ہجری میں حضرت عمرفاروقؓ کے دورِ خلافت میں مسلمانوں اور ایرانیوں کے درمیان قادسیہ کے مقام پر ایک فیصلہ کن جنگ لڑی گئی جس کے نتیجہ میں ایرانی سلطنت مسلمانوں کے قبضہ میں آ گئی۔ جب اہل فارس کو مسلمانوں کے کارناموں کا علم ہوا تو انہوں نے رستم اور فَیْرُزَان سے جو اُن کے دو سردار تھے کہا کہ تم دونوں آپس میں اختلاف کرتے رہے اور تم دونوں نے اہل ِفارس کو کمزور کر کے دشمن کے حوصلے بڑھا دیے ہیں۔ اب معاملہ اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ اگر ہم یونہی رہتے ہیں تو ایران تباہ ہو جائے گا کیونکہ بغداد، سَابَاطْ جو مدائن کے قریب مقام ہے اور تِکْرِیْت جو بغداد اور موصل کے درمیان بغداد سے تیس فرسخ یا نوے میل کے فاصلے پر ایک مشہور شہر ہے۔ اس کے بعد اب محض مدائن شہر ہی باقی بچا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر تم دونوں متفق نہ ہوئے تو پہلے ہم تم دونوں کو ہلاک کریں گے پھر خود ہلاک ہو کر سکون حاصل کر لیں گے یعنی پھر ہم جنگ خود ہی کریں گے۔ رستم اور فَیْرُزَان نے بُوْرَان کو معزول کر کے یَزْدَجَرْدکو تخت پر بٹھا دیا جو اس وقت اکیس سال کا تھا۔ تمام قلعوں اور فوجی چھاؤنیوں کو مستحکم کر دیا گیا۔ حضرت مُثَنّٰی نے جب اہل ِفارس کی ان سرگرمیوں سے حضرت عمرؓ کو مطلع کیا تو حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ خدا کی قسم! میں اہل عجم کے بادشاہوں کا مقابلہ عربوں کے امراء اور بادشاہوں سے کراؤں گا۔ چنانچہ ہر رئیس، صائب الرائے، معزز، خطیب اور شاعر کو مقابلے کے لیے روانہ کیا گیا نیز حضرت مُثَنّٰی کو حکم دیا کہ وہ عجمی علاقے سے نکل کر ان ساحلی علاقوں میں آ جائیں جو تمہاری اور ان کی حدود کے پاس ہیں۔ قبیلہ ربیعہ اور مُضَر کے لوگوں کو بھی ساتھ شامل کرنے کا حکم دیا۔ (ماخوذ از الکامل فی التاریخ جلد 2صفحہ 294تا 295دارالکتب العلمیۃ بیروت 2006ء) (فرہنگ سیرت صفحہ 229) (معجم البلدان جلد3 صفحہ187) (معجم البلدان جلد 2 صفحہ45)
حضرت عمرؓ نے عرب میں چاروں طرف نقیب بھیجے اور سرداروں اور رؤساء کو مکہ میں جمع ہونے کے لیے فرمایا۔ چونکہ حج قریب آ چکا تھا تو حضرت عمرؓ حج کے لیے روانہ ہوئے۔ حج کے دوران عرب قبائل ہر طرف سے جمع ہو گئے۔ جب آپؓ حج سے واپس تشریف لائے تو مدینہ میں ایک بڑا لشکر جمع تھا۔ حضرت عمرؓ نے اس لشکر کی کمان خود سنبھالی اور حضرت علیؓ کو مدینہ میں امیر مقرر کر کے روانہ ہوئے اور صِرار میں پڑاؤ ڈالا۔ (صِرار مدینہ سے تین میل کے فاصلہ پر ایک چشمہ ہے۔) کہتے ہیں کہ ابھی حضرت عمرؓ کا خود محاذِ جنگ پر جانے کا معین فیصلہ نہیں ہوا تھا۔ (ماخوذ ازالفاروق از شبلی نعمانی صفحہ85 تا86 ادارہ اسلامیات 2004ء) (فرہنگ سیرت صفحہ 172)
لشکر لے کے روانہ تو ہو گئے تھے لیکن فیصلہ نہیں کیا تھا کہ خود جائیں گے یا آگے جا کے کسی اَور کو کمانڈر بنا کے روانہ کریں گے۔ بہرحال تاریخ طبری میں ہے کہ حضرت عمرؓ نے لوگوں سے مشورہ کیا۔ سب نے آپؓ کو فارس جانے کا مشورہ دیا۔ انہوں نے کہا سارے لشکر کو اپنی کمان میں ہی لے کر جائیں۔ صِرار آنے تک حضرت عمرؓ نے کسی سے مشورہ نہیں کیا تھا لیکن حضرت عبدالرحمٰنؓ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے آپؓ کو جانے سے روکا۔ باقیوں نے تو کہا کہ ضرور لشکر لے کے جائیں لیکن حضرت عبدالرحمٰنؓ نے کہا نہیں۔ حضرت عبدالرحمٰنؓ نے کہا کہ آج سے پہلے مَیں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سِوا کسی پر اپنے ماں باپ کو قربان نہیں کیا اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کبھی ایسا کروں گا مگر آج میں کہتا ہوں کہ اے وہ کہ جس پر میرے ماں باپ فدا ہوں ! اس معاملہ کا آخری فیصلہ آپؓ مجھ پر چھوڑ دیں۔ حضرت عمرؓ کو انہوں نے کہا اور پھر انہوں نے حضرت عمرؓ کو مشورہ دیا کہ آپؓ صِرار مقام پر ہی رک جائیں اور ایک بڑے لشکر کو یہاں سے روانہ فرما دیں۔ پھر انہوں نے حضرت عمرؓ کو کہا کہ شروع سے لے کر اب تک آپؓ دیکھ چکے ہیں کہ آپؓ کے لشکروں کے متعلق اللہ تعالیٰ کا کیا فیصلہ رہا ہے۔ اگر آپؓ کی فوج نے شکست کھائی تو وہ آپؓ کی شکست کی مانندنہ ہو گی۔ اگر ابتدا میں آپؓ شہید ہو گئے یا شکست کھا گئے تو مجھے اندیشہ ہے کہ پھر کبھی مسلمان نہ تکبیر پڑھ سکیں گے اور نہ ہی لاالہ الا اللہ کی گواہی دے سکیں گے۔ چیدہ اور برگزیدہ اہل الرائے اصحاب کی مجلس شوریٰ کے بعد حضرت عمرؓ نے ایک عام جلسہ منعقد کیا۔ جب ان کو حضرت عبدالرحمٰنؓ کا یہ مشورہ مل گیا تو پھر اس کے بعد چیدہ لوگوں سے مشورہ کیا اور اس کے بعد ایک جلسہ عام منعقد کیا جس میں تقریر کرتے ہوئے حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو اسلام پر جمع کر دیا ہے اور ان کے دلوں میں ایک دوسرے کی الفت پیدا کر دی ہے اور اسلام نے سب کو بھائی بھائی بنا دیا ہے اور مسلمانوں کی باہمی حالت جسم کی طرح ہے کہ ایک حصہ کو تکلیف ہو تو دوسرا بھی اس کو محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ لہٰذا مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ ان کے معاملات باہمی مشورے سے فیصل ہوا کریں۔ خصوصاً ان میں سے سمجھدار لوگوں کا مشورہ لے لیا جایا کرے اور لوگوں کے لیے ضروری ہے کہ جس امر پہ متفق اور راضی ہو جائیں اس کی پیروی اور اطاعت کریں اور امیر کے لیے ضروری ہے کہ وہ لوگوں میں سے اہل الرائے کے مشورے کو منظور کرے اور لوگوں کے متعلق اُن کی جو رائے ہو اور جنگوں کے متعلق جو اُن کی تدبیر ہو۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا اے لوگو! میں تمہاری طرح ایک فرد بن کر تمہارے ساتھ ہونا چاہتا تھا، جنگ میں شامل ہونا چاہتا تھا مگر تمہارے اہل الرائے اشخاص نے مجھے اس سے روکا ہے۔ اس لیے اب میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں نہ جاؤں اور کسی اَور شخص کو بھیج دوں۔ (تاریخ الطبری جلد2صفحہ381دارالکتب العلمیۃ بیروت2012ء) (مقالہ ’تاریخ اسلام بعہد حضرت عمررضی اللہ عنہ‘ از مکرم سید میر محمود احمدناصر صاحب صفحہ35تا37)
اس وقت حضرت عمرؓ کسی شخص کی تلاش میں تھے۔ اسی دوران ان کی خدمت میں حضرت سعؓ د کا خط آیا۔ حضرت سعدؓ اس وقت نجد کے صدقات پر مامور تھے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ مجھے کوئی آدمی بتاؤ جس کو کمانڈر بنایا جائے۔ حضرت عبدالرحمٰنؓ نے کہاکہ آدمی تو آپ کو مل گیا ہے۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا وہ کون ہے؟ حضرت عبدالرحمٰنؓ نے کہا کہ کچھار کا شیر سعد بن مالکؓ یعنی سعد بن ابی وقاصؓ۔ باقی لوگوں نے بھی اس مشورے کی تائید کی۔ (تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 382 باب ذکر امر القادسیۃ دارالکتب العلمیۃ بیروت 1987ء)
تاریخ طبری میں ہے کہ حضرت عمرؓ نے حضرت سعدؓ کو امیر مقرر فرما کر نصیحت فرمائی کہ اے سعد! تم کویہ گمان نہ ہو کہ تم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ماموں اور صحابی کہا جاتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ برائی کو برائی سے نہیں مٹاتا بلکہ برائی کو نیکی سے مٹاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان اطاعت کے سِوا اَور کوئی رشتہ نہیں ہے۔ روانگی کے وقت حضرت عمرؓ نے حضرت سعدؓ کو یہ نصیحت فرمائی اور آپؓ نے فرمایا میری نصیحت کو یاد رکھنا۔ ایک اَور نصیحت یہ فرمائی کہ تم نے ایک مشکل اور سخت کام کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ پس اپنے نفس کو اور اپنے ساتھیوں کو نیکی کی عادت ڈالو اور اس کے ذریعہ فتح چاہو اور یاد رکھو کہ ہرعادت ڈالنے کا ایک ذریعہ ہوتا ہے اور نیکی کی عادت ڈالنے کا ذریعہ صبر ہے۔ صبر کرو گے تو نیکی کی عادت پڑے گی۔ پس ہر مصیبت جو تمہیں پہنچے اور تکلیف جو تم پر آئے اس پر صبر کرو۔ اس سے اللہ تعالیٰ کا خوف تمہیں حاصل ہو گا۔ (تاریخ طبری مترجم جلد دوم حصہ دوم صفحہ 253-254 نفیس اکیڈیمی کراچی 2004ء)
پھر آپؓ نے فرمایا: اپنے ساتھی مسلمانوں کو لے کر شَرَافْ سے ایران کی طرف مارچ کرو۔ شَرَافْ نجد میں پانی کا ایک چشمہ ہے۔ اس مقام سے آپ نے کہا کہ یہاں سے فوج اکٹھی ہوئی ہے اور یہاں سے شروع کر دو۔ اللہ تعالیٰ پر توکّل کرو اور اپنے تمام امور میں اسی سے مدد چاہو اور یاد رکھو کہ تم اس قوم کے مقابلہ کے لیے جا رہے ہو جن کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ سازو سامان بڑی کثرت سے ہے۔ جنگی طاقت نہایت مضبوط ہے اور ایسے علاقے کے مقابلے کے لیے جا رہے ہو جو جنگی لحاظ سے سخت اور محفوظ ہے اور گو اپنی زرخیزی اور سیرابی کے باعث عمدہ علاقہ ہے اور دیکھو! ان کے دھوکے میں نہ آ جانا کیونکہ وہ چالاک اور دھوکا دینے والے لوگ ہیں اور جب تم قادسیہ پہنچو تو تم لوگ پہاڑی علاقے کے آخری کنارے اور میدانی علاقے کے شروع کنارے پر ہو گے۔ پس تم اس جگہ پر ہی مقیم رہنا اور یہاں سے نہ ہٹنا، جگہ بھی بتا دی کہ وہیں رہنا۔ جب دشمن کو تمہارے آنے کا علم ہو گا تو وہ مشتعل ہوں گے اور اپنے تمام رسالوں اور پیادہ فوجوں اور پوری قوت کے ساتھ تم پر حملہ آور ہوں گے۔ اس صورت میں اگر تم دشمن کے سامنے پوری ثابت قدمی سے جمے رہو گے اور تمہیں دشمن سے لڑائی میں ثواب کی خواہش ہو گی اور تمہاری نیت ٹھیک ہو گی تو مجھے امید ہے کہ تمہیں ان پر غلبہ حاصل ہو گا اور پھر وہ کبھی اس طرح جمع ہو کر تمہارا مقابلہ نہ کر سکیں گے اور اگر ہوئے بھی تو ان کے قلوب ان کے ساتھ نہ ہوں گے۔ ڈرے ہوئے دلوں کے ساتھ مقابلہ کریں گے۔ اور اگر کوئی دوسری صورت پیدا ہو گئی تو تم ایرانی علاقے کے قریب ترین میدانوں سے ہٹ کر یعنی اگر پیچھے ہٹنے کی صورت پیدا ہوتی ہے، شکست کی صورت پیدا ہوتی ہے تو قریب ترین میدانوں سے ہٹ کر اپنے علاقے کے قریب ترین پہاڑوں میں آ جاؤ گے۔ اس کے نتیجہ میں تمہیں اپنے علاقے میں زیادہ جرأت ہو گی اور اس علاقے سے تم زیادہ واقف ہو گے اور ایرانی تمہارے علاقے میں خوفزدہ ہوں گے اور انہیں اس علاقے سے ناواقفیت بھی ہو گی یہاں تک کہ خدا تعالیٰ دوبارہ ان کے خلاف تمہاری فتح کا موقع پیدا کرے۔ آپ کو یہ یقین تھا کہ فتح تو ہونی ہے اگر عارضی طور پر کوئی ایسے حالات پیدا بھی ہو جاتے ہیں تب بھی آخری فتح تمہاری ہے۔ غرض اس لشکر کی تمام نقل و حرکت حضرت عمرؓ کے مدینہ سے آنے والے تفصیلی احکام کے مطابق ہو رہی تھی۔ چنانچہ طبری نے لکھا ہے کہ حضرت عمرؓ نے شَرَافْ سے لشکر کی روانگی کی تاریخ بھی مقرر فرما دی تھی اور یہ بھی ہدایت کی کہ قادسیہ پہنچ کر لشکر کا قیام عُذَیْبُ الْہَجَانَات اور عُذَیْبُ الْقَوَادِس کے مقامات کے درمیان ہو اور یہاں پر لشکر کو شرقاً غرباً پھیلا دیا جائے۔ عذیب قادسیہ اور مُغِیْثَہْ کے رستہ میں پانی کا ایک گھاٹ ہے جو قادسیہ سے چار میل کے فاصلے پر اور مُغِیْثَہْ سے بتیس میل کے فاصلہ پر ہے۔ حضرت عمرؓ کے حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کے نام خط سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں دو عُذَیب تھے۔ یہ بھی تاریخ سے پتہ لگتا ہے۔ (تاریخ الطبری جلد2صفحہ386-387دارالکتب العلمیۃ بیروت2012ء) (مقالہ ’تاریخ اسلام بعہد حضرت عمررضی اللہ عنہ‘ از مکرم سید میر محمود احمدناصر صاحب صفحہ48تا50) (معجم البلدان جلد 3 صفحہ 131) (معجم البلدان جلد 3صفحہ 304)
حضرت عمرؓ نے حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کو چار ہزار مجاہدین کے ساتھ ایران کی طرف بھیجا۔ بعد میں دو ہزار یمنی، دو ہزار نجدی بھی جا ملے۔ راستہ میں بنو اسد کے تین ہزار افراد اور اَشْعَثْ بن قَیس کِندی ایک ہزار سات سو یمنی سپاہیوں کے ساتھ شامل ہوئے۔ مسلمانوں کے پاس یا پہلے بھی لشکر تھا اور اس لشکر کی تعداد آہستہ آہستہ پھر وہاں تیس ہزار سے زائد ہو گئی۔ اس فوج کی اہمیت کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ اس میں ننانوے ایسے صحابی تھے جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوۂ بدر میں شامل ہو چکے تھے۔ طبری نے ان کی تعداد ستر سے زائد بیان کی ہے۔ تین سو دس سے زائد وہ تھے جنہیں ابتدائے اسلام سے لے کر بیعت رضوان تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کا شرف حاصل ہو چکا تھا۔ تین سو ایسے اصحاب تھے جو فتح مکہ میں شامل تھے۔ سات سو ایسے تھے جو خود صحابی نہ تھے لیکن صحابہ کی اولاد ہونے کا فخر انہیں حاصل تھا۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے شَرَافْ پہنچ کر پڑاؤ کیا۔ مُثَنّٰی آٹھ ہزار آدمیوں کے ساتھ مقام ذُوْقَارْ جو کوفہ کے قریب پانی کا ایک گھاٹ ہے اس پر مسلمانوں کی کمک کا انتظار کر رہے تھے کہ اسی اثنا میں ان کا انتقال ہو گیا۔ انہوں نے بشیر بن خَصَاصِیَّہ کو اپنا جانشین مقرر کیا۔ (ماخوذ از الکامل فی التاریخ جلد 2صفحہ 299-302 دارالکتب العلمیۃ بیروت 2006ء) (معجم البلدان جلد 4 صفحہ333)
مُثَنّٰی تووہاں فوت ہو گئے۔ شَرَافْ پہنچ کر حضرت سعدنے حضرت عمرؓ کو لشکر کے قیام کے مفصل حالات بھجوائے۔ اس پر حضرت عمرؓ نے لشکر کی ترتیب خود مقرر فرمائی اور خط میں تحریر فرمایا کہ تمام لشکر کو دس دس مجاہدین کے احزاب میں تقسیم کر کے ان پر ایک ایک نگران مقرر کردو اور ان دستوں پر ایک بڑا افسر مقرر کر دینا۔ پھر ان کی تعداد کا حساب کر کے ان کو قادسیہ کی طرف روانہ کر دینا۔ اپنی کمان میں مُغِیرہ بن شعبہ کے دستہ کو رکھنا۔ حضرت عمرؓ نے سعد کو یہ ہدایت فرمائی کہ مُغِیرہ بن شعبہ کو، اس کے دستہ کواپنی کمان میں رکھنا۔ اس کے بعد کے حالات کی تفصیل مجھے روانہ کرنا اور پھر جو روز کی development ہو گی یا جو حالات پیدا ہوں گے مجھے بتاتے رہنا۔ حضرت سعدؓ نے ان ہدایات کے مطابق لشکر کی ترتیب لگائی اور حضرت عمرؓ کو مفصل حالات لکھے۔ ہر دس آدمیوں پر نگران مقرر کرنا اسی نظام کے تحت تھا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں رائج تھا۔ (تاریخ الطبری جلد 4 صفحہ 115-116دارالفکر 2002ء)
ایک اَور خط میں حضرت عمرؓ نے حضرت سعدؓ کو تحریر فرمایا کہ اپنے دل کو نصیحت کرتے رہو اور اپنی فوج کو وعظ و نصیحت کرتے رہو۔ صبر اختیار کرو۔ صبر اختیار کرو کیونکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے بدلہ نیت کے مطابق ملتا ہے۔ جو ذمہ داری تمہارے سپرد ہے اور جو کام تم کرنے جا رہے ہو اس میں پوری احتیاط سے کام کرو۔ خوب احتیاط سے کام کرو۔ خدا سے عافیت چاہو اور لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ کثرت سے پڑھا کرو۔ مجھے تحریر کرو کہ تمہارا لشکر کہاں تک پہنچ گیا ہے اور تمہارے مقابلے میں دشمن کا سپہ سالار کون مقرر کیا گیا ہے کیونکہ بعض ہدایات جو میں تحریر کرنا چاہتا تھا صرف اس وجہ سے تحریر نہیں کر سکا کہ مجھے تمہارے اور تمہارے دشمن کے بعض کوائف کا پوری طرح علم نہیں۔ سارے کوائف بھیجو۔ پھر میں تمہیں مزید ہدایات دوں گا۔ پس مسلمانوں کے لشکر کی منازل میرے پاس بہ تفصیل لکھ بھیجو اور اس علاقے کی کیفیت جو تمہارے درمیان اور ایرانی دارالحکومت مدائن کے درمیان ہے اس طرح لکھ بھیجو کہ گویا مجھے آنکھوں سے نظر آ جائے یعنی پوری باریکی سے ساری تفصیل لکھو اور اپنی تمام کیفیت مجھے وضاحت سے تحریر کرو اور خدا تعالیٰ سے ڈرو اور اس سے امید رکھو اور اپنے کام کے سلسلہ میں اسی پر توکّل کرو اور اس بات سے ڈرتے رہو کہ خدا تمہیں ہٹا کر کوئی اور قوم یہ کام سرانجام دینے کے لیے لے آئے۔ (تاریخ الطبری جلد2صفحہ387دارالکتب العلمیۃ بیروت2012ء) (مقالہ ’تاریخ اسلام بعہد حضرت عمررضی اللہ عنہ‘ از مکرم سید میر محمود احمدناصر صاحب صفحہ50-51)
یعنی ہمیشہ خدا کا تمہیں خوف رہنا چاہیے۔ یہ نہیں کہ تمہارا کوئی ٹھیکیدار بنا دیا۔ اگر تم نے یہ ذمہ داری نہ سنبھالی تو خدا تعالیٰ تمہیں اس کام سے ہٹا دے گا اور کوئی اس کام کو سرانجام دینے کے لیے لے آئے گا اور یہ کام تو بہرحال ہونا ہے۔
قادسیہ پہنچ کر حضرت سعدؓ نے حضرت عمرؓ کو اپنے لشکر کے قیام اور حدود اربعہ کے متعلق مفصل لکھ کر بھیجا۔ حضرت عمرؓ نے جواب تحریر فرمایا کہ اپنی جگہ پر مقیم رہو یہاں تک کہ دشمن خود حملہ آور ہو اور اگر دشمن کو شکست ہو گئی تو مدائن تک پیش قدمی کرنا۔ (تاریخ الطبری جلد 4 صفحہ 117-118 دارالفکر 2002ء)
حضرت سعدؓ کے ضمن میں یہ بیان ہو چکا ہے لیکن یہاں حضرت عمرؓ کے حوالے سے بھی بیان کرنا ضروری ہے کہ حضرت سعدؓ نے دربارِ خلافت کی ہدایت کے مطابق قادسیہ میں ایک ماہ قیام کیا۔ تاہم ایرانیوں میں سے کوئی بھی ان کے مقابلے کے لیے نہ آیا۔ اس پر اس علاقے کے لوگوں نے ایران کے بادشاہ یَزْدَجَرْدکے نام خط لکھا کہ اہلِ عرب کچھ عرصہ سے قادسیہ میں مقیم ہیں اور آپ لوگوں نے ان کے مقابلے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ انہوں نے فرات تک کا علاقہ برباد کر دیا ہے، مویشی وغیرہ لوٹ لیے ہیں۔ اگر مددنہ آئی تو ہم سب کچھ ان کے حوالے کر دیں گے۔ اس خط کے بعد یَزْدَجَرْدنے رستم کو بلایا اور وہ حیلے بہانوں سے جنگ میں شرکت سے گریز کرتا رہا۔ رستم بچتا رہا اور اپنی جگہ جالینوس کو فوج کا سپہ سالار مقرر کرنے کا مشورہ دیا مگر بادشاہ کے سامنے رستم کی ایک نہ چلی اور اسے لشکر کو ساتھ لے کر جانا پڑا۔
حضرت عمرؓ نے حضرت سعدؓ کو لکھا کہ رستم کے پاس دعوت اسلام دینے کے لیے تم ایسے لوگوں کو بھیجو جو وجیہ، عقل مند اور بہادر ہوں۔ یونہی جنگ نہیں کر دینی۔ دشمن کو بھی دعوت اسلام دینی ہے اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس دعوت کو ان کی توہین اور ہماری کامیابی کا ذریعہ بنائے گا۔ تم روزانہ مجھے خط لکھتے رہو۔ اس کے بعد حضرت سعدؓ نے چودہ نامور اشخاص کو منتخب کر کے دربارِ ایران میں سفیر بنا کر بھیجا تاکہ وہ شاہِ ایران یَزْدَجَرْدکو دعوت اسلام دیں۔ مسلمان گھوڑوں پر سوار تھے۔ ان مسلمانوں پر چادریں تھیں اور ان کے ہاتھوں میں کوڑے تھے۔ سب سے پہلے حضرت نعمان بن مُقَرِّن نے بادشاہ سے بات کی۔ پھر مُغِیرہ بن زُرَارَہْ نے۔ مُغِیرہ نے بادشاہ سے یہ کہا کہ تمہارے ساتھ یا تو جنگ ہو گی یا پھر تمہیں جزیہ دینا ہوگا۔ اب تمہارے اختیار میں ہے کہ ہماری ماتحتی تسلیم کرتے ہوئے جزیہ دو یا پھر جنگ کے لیے تیار رہو۔ تاہم ایک تیسری بات بھی ہے۔ اگر اسلام قبول کر لو گے تو ہر چیز سے اپنے آپ کو محفوظ کر لو گے۔ اس پر یَزْدَجَرْدنے کہا کہ اگر قاصدوں کو قتل کرنا ممنوع نہ ہوتا تو مَیں تم سب کو قتل کر دیتا۔ میرے پاس تمہارے لیے کچھ نہیں ہے۔ دوڑ جاؤ یہاں سے۔ پھر اس نے مٹی کا ایک ٹوکرامنگوا کر کہا کہ میری طرف سے یہ لے جاؤ اور اس نے حکم دیا کہ ان قاصدوں کو مدائن کے دروازے سے باہر نکال دو۔ عاصم بن عمرو نے وہ مٹی لی اور جا کر حضرت سعدؓ کو دیتے ہوئے کہا کہ خوشخبری ہو اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس ملک کی چابیاں عطا کر دی ہیں۔ اس واقعہ کے بعد کئی مہینے تک دونوں طرف سکوت رہا۔ رستم اپنی فوج کے ساتھ سَابَاطْ میں پڑا رہا اور یَزْدَجَرْدکی تاکید کے باوجود جنگ سے جی چراتا رہا۔ یَزْدَجَرْدکو بار بار لوگوں نے کہا کہ ہماری حفاظت کریں ورنہ ہم اہلِ عرب کے مطیع ہو جائیں گے۔ اس پر مجبور ہو کر رستم کو مقابلے کے لیے بڑھنا پڑا اور ایرانی فوجیں سَابَاط سے نکل کر قادسیہ کے میدان میں خیمہ زن ہوئیں۔ رستم جب سَابَاط سے نکلا تو اس کے لشکر کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار تھی اور اس کے ہمراہ تینتیس ہاتھی تھے۔ رستم نے مدائن سے قَادِسِیّہ پہنچنے تک چار ماہ کا عرصہ لگایا۔ رستم نے قادسیہ میں پڑاؤ ڈالنے کے بعد اگلی صبح اسلامی لشکر کا جائزہ لیا اور مسلمانوں کو واپس جانے اور صلح کی پیش کش کی۔ رستم نے مسلمانوں کو کہا صلح کر لو اور واپس چلے جاؤ جس کا جواب مسلمانوں کی طرف سے یہ دیا گیا کہ ہم دنیا طلبی کے لیے نہیں آئے بلکہ ہمارا مقصد آخرت ہے۔ رستم نے مطالبہ کیا کہ اس کے دربار میں مسلمانوں کی طرف سے ایلچی مذاکرات کے لیے آئیں۔ رستم کے دربار میں عمدہ اور قیمتی قالین بچھائے گئے اور مکمل آرائش و زیبائش کا انتظام کیا گیا۔ رستم کے لیے سونے کا تخت بچھایا گیا اور اس پر قالین بچھا کر اور سونے کے دھاگوں سے تیار کردہ تکیے لگا کر خوب مزین کیا گیا۔ مسلمانوں کی جانب سے سب سے پہلے حضرت رِبْعیِّ بنِ عَامِرؓ گئے۔ وہ رستم کی طرف اس حال میں گئے کہ اپنے نیزے کا سہارا لیتے ہوئے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے رہے جس سے نیزے کی نوک سے قالین اور گدے پھٹتے چلے جاتے تھے۔ وہ رستم کے پاس پہنچے اور نیچے بیٹھ کر اپنا نیزہ قالین میں گاڑ دیا۔ حضرت رِبْعِیؓ نے تین باتیں رستم کے سامنے رکھیں کہ (۱) آپ لوگ اسلام لے آئیں ہم آپ کا پیچھا چھوڑ دیں گے اور آپ کے ملک سے بھی ہمیں کوئی سروکار نہیں ہو گا۔ پھرٹھیک ہے ملک کو سنبھالو۔ (۲) ہمیں جزیہ دیں جسے قبول کر کے ہم آپ کی حفاظت کریں گے۔ جزیہ دے دو تو پھر ہم تمہاری حفاظت بھی کریں گے۔ (۳) اگر کوئی بھی صورت منظور نہ ہو تو پھر چوتھے دن آپ سے لڑائی ہوگی۔ ان تین دنوں میں ہماری طرف سے جنگ کی ابتدا نہیں ہوگی۔ لیکن یہ بھی ہے کہ چوتھے دن لڑائی تو ہو گی لیکن ان تین دنوں میں ہماری طرف سے جنگ کی ابتدا نہیں ہوگی۔ لیکن اگر آپ لوگوں نے جنگ شروع کر دی تو پھر ہم لڑنے پر مجبور ہو ں گے۔ اگلے روز حضرت سعدؓ نے حُذَیفہ بن مِحْصِنکو بھجوایا۔ انہوں نے بھی حضرت رِبْعِیؓ والی تینوں باتیں دہرائیں۔ تیسرے روز حضرت مُغِیرہ بن شعبہؓ گئے۔ جب انہوں نے اپنی گفتگو کے آخر میں اپنے پہلے دونوں ساتھیوں کی مانند اسلام، جزیہ اور قتال کا ذکر کیا تو رستم نے کہا تب ضرور تم لوگ مرو گے۔ اس پر حضرت مُغِیرہؓ نے کہا جو ہم میں سے قتل ہو گا وہ جنت میں جائے گا اور جو تم میں سے قتل ہو گا وہ جہنم میں جائے گا اور جو ہم میں سے زندہ رہیں گے وہ تم لوگوں پر کامیاب رہیں گے۔ حضرت مغیرؓ ہ کی بات سن کر رستم نے سخت برہم ہو کر قسم کھا کر کہا کہ آفتاب کی قسم !کل ابھی دن مکمل نکلنے بھی نہ پائے گا کہ ہم اس سے قبل ہی تم سب کو تہِ تیغ کر دیں گے۔
حضرت مُغِیرہؓ کے بعد بھی چند سمجھدار مسلمانوں کو حضرت سعدؓ نے رستم کے دربار میں بھیجا جن کی شام کو واپسی ہوئی۔ حضرت سعدؓ نے مسلمانوں کو مورچہ بند ہونے کا حکم دیا اور ایرانیوں کی طرف پیغام بھجوایا کہ دریا عبور کرنا تمہارا کام ہے۔ پل پر مسلمانوں کا قبضہ تھا اس لیے ایرانیوں کو دوسری جگہ ساری رات دریائے عتیق پر پل بنانا پڑا۔ رستم نے پل عبور کرتے وقت کہا کہ کل ہم مسلمانوں کو پیس کر رکھ دیں گے۔ آگے سے ایک شخص نے کہا۔ اس کے ساتھیوں میں سے کسی نے کہاکہ اگر اللہ چاہے تو۔ شاید اس کو اللہ پر بھی یقین تھا۔ اس پر رستم نے کہا ! اگر اللہ نہ بھی چاہے (نعوذ باللہ) تب بھی ہم پیس دیں گے۔ مسلمان اپنی صف بندی مکمل کر چکے تھے اور حضرت سعدؓ کے جسم میں پھوڑے نکل آئے۔ اس دوران ان کو بیماری ہو گئی، پھوڑا نکل آیا اور وہ عِرْقُ النَّسَا یعنی شیاٹیکا کی بیماری کے باعث بیٹھ بھی نہیں سکتے تھے۔ وہ سینے کے بل لیٹے رہتے تھے۔ ان کے سینے کے نیچے تکیہ رکھا ہوتا تھا جس کے سہارے وہ محل کی چھت سے یا درخت کے اوپر جو مچان بنائی تھی اس کے اوپر سے لشکر کی طرف دیکھتے رہتے۔ حضرت سعدؓ نے خالد بن عَرفَطہکو اپنا نائب مقرر کیا۔ حضرت سعدؓ نے مسلمانوں سے خطاب کیا اور انہیں جہاد کی ترغیب دی اور اللہ کی فتح کا وعدہ یاد دلایا۔
اہلِ فارس کی افواج دریائے عتیق کے کنارے تھیں۔ یہ دریائے عتیق بھی ایک دریا ہے جو فرات سے نکلتا ہے اور مسلمانوں کی افواج قُدَیس کی دیوار اور خندق کے ساتھ تھیں۔ قُدَیس قادسیہ کے نزدیک ایک احاطہ ہے جو دریائے عتیق سے ایک میل کے فاصلے پر تھا۔ ایرانی فوج میں سے تیس ہزار زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھی یعنی آپس میں انہوں نے ایک دوسرے کے ساتھ زنجیریں باندھی ہوئی تھیں تا کہ کسی کو دوڑنے کا موقع نہ ملے۔ حضرت سعدؓ نے مسلمانوں کو سورۂ انفال پڑھنے کا حکم دیا۔ جب تلاوت کی گئی تو مسلمانوں نے سکینت محسوس کی۔ نماز ظہر کی ادائیگی کے بعد مسلمانوں اور اہل فارس کے درمیان لڑائی کا آغاز ہوا۔ انہوں نے مسلمانوں کو کافی نقصان پہنچایا۔ قبیلہ بنو تمیم کے ماہر تیر اندازوں کوبلا کر حضرت عاصمؓ نے کہا کہ اپنے تیروں کے ذریعہ ان ہاتھیوں پر بیٹھے سواروں پر حملہ کرو اور بہادر سپاہیوں سے کہا کہ ہاتھیوں کی پشت پر جا کر ان کےہودجوں کے بندھ کاٹ ڈالو۔ چنانچہ کوئی ہاتھی ایسا نہ بچا جس کے اوپر سے اس کا سامان اور سوار باقی بچا ہو۔ سورج غروب ہونے کے بعد تک لڑائی جاری رہی۔ پہلے روز قبیلہ بنو اسد کے پانچ سو مسلمان شہید ہوئے۔ اس دن کو یوم اَرْمَاثْ کہا جاتا ہے۔ دوسرے روز صبح ہوئی تو حضرت سعدؓ نے سب شہداء کو دفنایا اور زخمیوں کو عورتوں کے سپرد کیا تا کہ وہ ان کی دیکھ بھال کریں۔ اسی دوران ملک شام سے مسلمانوں کو کمک موصول ہوئی۔
حضرت ہاشم بن عُتْبَہ بن ابی وقاصؓ اس کمک کے امیر تھے۔ اس کے اگلے حصہ پر حضرت قَعْقَاع بن عمروؓ امیر تھے۔ قَعْقَاع بہت جلد سفر طے کر کے اغواث کی صبح عراق کے لشکر میں پہنچ گئے۔ قَعْقَاع نے یہ ہوشیاری کی کہ اپنے ہراول دستوں کو دس دس سپاہیوں کے گروپوں میں تقسیم کر دیا تھا جو ایک دوسرے سے کچھ فاصلہ پر حرکت کر رہے تھے اور باری باری اسلامی لشکر سے یہ دس دس کے دستے ملتے جاتے تھے۔ ہر دستہ کے آنے پر نعرہ ہائے تکبیر بلند ہوتا اور یوں معلوم ہوتا کہ اسلامی لشکر کو مسلسل کمک مل رہی ہے۔ خود حضرت قَعْقَاع پہلے حصہ میں پہنچے۔ جاتے ہی مسلمانوں کو سلام کیا اور لشکر کی آمد کی خوشخبری سنائی اور کہا اے لوگو! تم وہ کرو جو میں کر رہا ہوں۔ یہ کہہ کر وہ آگے بڑھے اور مُبَارزت طلب کی۔ یہ سن کر بَہْمَن جَاذْوَیہ مقابلہ کے لیے نکلا۔ دونوں میں مقابلہ ہوا اور حضرت قَعْقَاعؓ نے اسے قتل کر دیا۔ مسلمان بَہْمَن جَاذْوَیہ کے قتل اور مسلمانوں کے امدادی لشکر کی وجہ سے بہت خوش تھے۔ حضرت قَعْقَاعؓ کے بارے میں حضرت ابوبکرؓ کا ایک قول ہے کہ وہ لشکرناقابل شکست ہوتا ہے جہاں ان جیسے شخص موجود ہوں۔ اس دن ایرانی اپنے ہاتھیوں کے ذریعہ جنگ نہ کر سکے کیونکہ ان کے ہودج گذشتہ روز ٹوٹ گئے تھے۔ اس لیے وہ صبح سے ان کی درستگی میں مشغول تھے اور مسلمانوں نے یہ ترکیب اختیار کی کہ اپنے اونٹوں کو جھول پہنا دیے جس کے باعث اونٹ اوجھل ہو گئے۔ ان کے اوپر کپڑے ڈال دیے ان کے جسم اور گردنیں سب چھپ گئیں اور یوں معلوم ہوتا تھا گویا ہاتھی ہیں۔ یہ اونٹ جہاں جاتے ایرانیوں کے گھوڑے اس طرح بدکنے شروع کر دیتے جیسے گذشتہ روز مسلمانوں کے گھوڑے بدکتے رہے تھے۔ صبح سے لے کر دوپہر تک فریقین کے گھڑ سوار مقابلہ کرتے رہے۔ جب دن آدھے سے زیادہ گزر گیا تو عمومی جنگ شروع ہوئی جو آدھی رات تک جاری رہی۔ یہ دوسرا دن یوم اَغْوَاث کہلاتا ہے اور یہ دن مسلمانوں کے نام رہا یعنی اس میں مسلمانوں کو کامیابی ملی۔ تیسرے دن کی صبح ہوئی تو دونوں لشکر اپنے اپنے مورچوں میں تھے۔ اس روز خون ریز جنگ ہوئی۔ مسلمان شہداء کی تعداد دو ہزار تھی اور ایرانی فوج کے دس ہزار سپاہی قتل ہوئے۔ مسلمان اپنے مقتولین کو دفن کرتے رہے اور زخمیوں کو علاج کے لیے عورتوں کے سپرد کرتے رہے جبکہ ایرانیوں کے مقتولین کی لاشیں اسی طرح میدان میں پڑی رہیں۔ اس رات ایرانی اپنے ہاتھیوں کے ہودج وغیرہ درست کرتے رہے۔ پیدل فوج ہاتھیوں کی حفاظت کے لیے ساتھ تھی تاہم آج کے روزوہ ہاتھی اتنی تباہی نہ پھیلا سکے جتنی انہوں نے پہلے دن پھیلائی تھی۔ حضرت سعدؓ نے حضرت قَعْقَاعؓ اور حضرت عَاصِمؓ کی طرف پیغام بھیجا کہ ایرانیوں کے سفید ہاتھی سے میرا پیچھا چھڑاؤ۔ چنانچہ حضرت قَعْقَاعؓ اور حضرت عاصمؓ نے حملہ کر کے اس کی دونوں آنکھوں میں نیزے گھونپے جس سے ہاتھی نے بدحواس ہو کر اپنے سوار کو نیچے گرا دیا۔ اس کی سونڈ کاٹ دی گئی اور پھر تیروں کے حملے کر کے اسے نیچے گرنے پر مجبور کر دیا۔ اس کے بعد دوسرے مسلمانوں نے ایک اور ہاتھی کی آنکھوں میں نیزے مارے۔ کبھی وہ بھاگ کر مسلمانوں کے لشکر میں آتا تو وہ اس کو نیزے کی نوک چبھوتے اور کبھی ایرانیوں کے لشکر میں جاتا تو وہ اس کو نیزے چبھوتے۔ بالآخر وہ ہاتھی جسے اَجْرَبْ کہتے تھے دریائے عتیق کی طرف بھاگا اور اس کی دیکھا دیکھی دیگر ہاتھی بھی اس کے پیچھے دریا میں کود گئے اور وہ اپنے سواروں سمیت ہلاک ہو گئے۔ دن ڈھلنے تک یہ لڑائی جاری رہی۔ اسے یوم عَمَاسْکہتے ہیں۔ عشاء کی نماز کے بعد دوبارہ گھمسان کا رَن پڑا۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت تلواروں کی آوازیں یوں سنائی دے رہی تھیں جیسے لوہاروں کی دکانوں میں لوہا کاٹا جا رہا ہو۔ ساری رات حضرت سعدؓ بھی جاگتے رہے اور اللہ کے حضور دعا میں مشغول رہے۔ عرب و عجم نے اس رات جیسا واقعہ کبھی مشاہدہ نہیں کیا تھا۔ صبح ہوئی تو مسلمانوں کا جوش و جذبہ برقرار تھا اور وہ غالب رہے۔ اس رات کے بعد آنے والی صبح تمام لوگوں پر تھکن کی کیفیت تھی کیونکہ پوری رات وہ جاگتے رہے تھے۔ اس رات کو لَیْلَۃُ الْھَرِیْرکہتے ہیں۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ لکھی ہے کہ رات مسلمانوں نے آپس میں گفتگو نہ کی بلکہ صرف سرگوشیاں ہی کرتے رہے۔ ھَرِیْر کا مطلب بھی یہی لکھا ہے کہ جب تیر چلایا جاتا ہے تو جس طرح ہلکی سی آواز کمان میں سے نکلتی ہے یا چکی چلنے کی ہلکی سی آواز آ رہی ہو۔ طبری میں بھی لَیْلَۃُ الْھَرِیْر کی وجہ تسمیہ یہی لکھی ہے کہ مسلمان اس رات آغازِ شب سے لے کر صبح تک نہایت بہادری کے ساتھ جنگ کرتے رہے۔ وہ زور سے نہیں بول رہے تھے بلکہ وہ آہستہ آہستہ سے گفتگو کرتے تھے۔ اس وجہ سے اس رات کا نام لَیْلَۃُ الْھَرِیْر مشہور ہو گیا۔ بہرحال چوتھی صبح پھر دوپہر تک لڑائی جاری رہی اور ایرانی پسپائی اختیار کرتے رہے۔ اس کے بعد رستم پر حملہ کیا گیا تو وہ دریائے عتیق کی طرف بھاگ نکلا۔ جب اس نے دریا میں چھلانگ لگائی تو ہلال نامی مسلمان نے اسے پکڑ لیا اور گھسیٹ کر خشکی پر لے آیا اور اسے قتل کر ڈالا۔ اس کے بعد وہ مسلمان جس نے رستم کوقتل کیا تھا اعلان کرنے لگا کہ میں نے رستم کو قتل کر دیا ہے۔ میری طرف آؤ۔ مسلمانوں نے ہر طرف سے اس کو گھیر لیا اور زور سے نعرہ تکبیر لگایا۔ رستم کے قتل کی خبر سے اہل فارس شکست کھا کر بھاگ گئے۔ مسلمانوں نے ان کا تعاقب کر کے انہیں قتل بھی کیا اور ایک بڑی تعداد کو قیدی بھی بنایا۔ اس دن کو یوم قَادِسِیّہکہا جاتا ہے۔ حضرت عمرؓ روزانہ صبح ہوتے ہی میدان سے باہر آنے والے سواروں سے جنگ قادسِیہکے بارے میں پوچھا کرتے تھے۔ جب جنگ کی بشارت لانے والے قاصدنے بتایا کہ اللہ نے مشرکوں کو شکست دی ہے تو حضرت عمرؓ اس وقت دوڑتے جارہے تھے اور معلومات لیتے جا رہے تھے جبکہ وہ قاصد اپنی اونٹنی پر سوار تھا اور وہ حضرت عمرؓ کو پہچانتا بھی نہ تھا۔ جب وہ قاصد مدینہ میں داخل ہوا اور لوگ حضرت عمرؓ کو امیر المومنین کہہ رہے تھے اور سلام کر رہے تھے تو قاصدنے حضرت عمرؓ سے عرض کی کہ آپؓ نے مجھے کیوں نہیں بتایا کہ آپ امیر المومنین ہیں۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا اے میرے بھائی! کوئی بات نہیں۔ بہرحال فتح کی اطلاع کے بعد حضرت عمرؓ نے مجمع میں فتح کی خبر پڑھ کر سنائی اور اس کے بعد ایک پُراثر تقریر کی۔ آپؓ نے حکم بھیجا کہ لشکر اپنی جگہ پر ٹھہرا رہے اور فوج کی دوبارہ تنظیم و ترتیب کی جائے اور دوسرے قابلِ اصلاح امور کی طرف توجہ دی جائے۔ حضرت سعدؓ نے دربار ِخلافت سے راہنمائی لی تھی کہ قادسیہ کی جنگ میں بہت سے لوگ ایرانیوں کی طرف سے ایسے بھی تھے جو اس سے قبل مسلمانوں سے صلح کر چکے تھے اور ان میں بعض تو اس امر کے ایسے مدعی تھے کہ ایرانی حکومت نے ان کے خلافِ مرضی، جبراً انہیں اپنے ساتھ شامل کر لیا تھا۔ اپنی مرضی سے نہیں آئے تھے بلکہ مجبور ہو کے آئے تھے اور بہت سے لوگوں کا یہ دعویٰ صحیح بھی تھا۔ بہت سے لوگ جنگ کے باعث اس علاقے کو چھوڑ کر دشمن کے علاقے کی طرف چلے گئے تھے اور واپس آ رہے تھے۔ حضرت عمرؓ نے ان امور کے فیصلے کے لیے مدینہ میں مجلس شوریٰ منعقد کی اور بعد از فیصلہ یہ ہدایت بھیجی کہ جن لوگوں سے مسلمانوں کے معاہدات تھے اور انہوں نے اپنے معاہدات پورے کیے اور اپنے علاقے میں مقیم رہے، دشمن کی طرف نہیں گئے ان کے معاہدات کا پوری وفا داری سے احترام کیا جائے گا۔ جن لوگوں سے مسلمانوں کے معاہدات نہیں تھے مگر وہ اپنے علاقے میں رہے اور دشمن کی طرف جا کر تمہارے خلاف صف آرا نہیں ہوئے تو ان سے بھی وہی سلوک کیا جائے جو ان لوگوں سے کیا جا رہا ہے جن سے معاہدات ہیں۔ جو لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ایرانی حکومت نے جبراً ان کو لشکر میں شامل کر لیا تھا اور ان کا دعویٰ سچا نظر آتا ہے تو ان سے بھی مسلمانوں کے سلوک میں کوئی کمی نہیں کی جائے۔ ان کو بھی کچھ نہ کہا جائے اور جو لوگ اس امر کے جھوٹے مدعی ہیں کہ ان پر جبر کیا گیا بلکہ وہ خود اپنی مرضی سے دشمن کے ساتھ مل کر تمہارے خلاف سرگرم کار رہے تو ان کا پہلا معاہدہ تو منسوخ ہو گیا کیونکہ انہوں نے دشمن کا ساتھ دیا ہے۔ اب یا تو ان سے دوبارہ مصالحت کی جائے یا انہیں ان کی امن کی جگہ پر پہنچا دیا جائے یعنی پھر ان کو معاہدہ کر کے وہاں سے نکال دیا جائے اور جہاں وہ جانا چاہتے ہیں امن سے رہنے کے لیے چلے جائیں اور جن لوگوں سے معاہدات نہیں اور وہ اس علاقے کو چھوڑ کر دشمن کی طرف چلے گئے اور تمہارے خلاف جنگ آزما ہوئے ان کے متعلق اگر تم مناسب سمجھو تو انہیں بھی بلا لو اور وہ جزیہ ادا کر دیں اور تمہارے علاقے میں رہیں۔ نرمی کا سلوک جتنا ہو سکتا ہے کرنا ہے اور تم مناسب سمجھو تو انہیں نہ بلاؤ اور وہ بدستور تمہارے خلاف برسرپیکار رہیں اور تم ان کے خلاف لڑائی جاری رکھو۔ اگر وہ پھر لڑائی کرتے رہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہے، پھر تمہیں بھی لڑائی کا حق ہے لیکن اگر وہ باوجود دشمن کے ساتھ ملنے کے باز آجاتے ہیں تو پھر ان کو چھوڑ دو۔
یہ احکام مفید ثابت ہوئے اور نواح کے لوگ واپس آ کر اپنی زمینوں پر آباد ہو گئے اور یہ وسعت حوصلہ کی ایک عمدہ مثال ہے۔ کتنی وسعتِ حوصلہ ہے کہ مسلمانوں نے ان لوگوں کو بھی اپنی زمین آباد کرنے کے لیے بلا لیا جو ایک نہایت نازک وقت میں اپنے معاہدات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دشمن سے جا ملے تھے۔ گو مدینہ کی مجلسِ مشاورت نے انہیں اس امر کی اجازت دے دی تھی کہ چاہے ایسے ایرانیوں کو واپس بلا لیں چاہے نہ بلائیں اور ان کی اراضی آپس میں تقسیم کرلیں۔ مسلمانوں میں اراضی تقسیم کر دیں۔ مؤرخین نے ذکر کیا ہے کہ اس خطرے کے وقت میں بد عہدی کرنے والوں کو واپس بلایا گیا تو ان کی اراضی پر عام اراضی کی نسبت زیادہ ٹیکس لگایا گیا تھا۔ صرف یہ ایک شرط تھی کہ ٹھیک ہے تم نے بد عہدی کی ہے۔ واپس آ جاؤ اپنی زمینیں آباد کرو لیکن جو ٹیکس زمین کا ہے وہ تمہیں دوسروں کی نسبت زیادہ دینا پڑے گا لیکن بہرحال زمینوں کے مالک بےشک بنے رہو۔ عراق کی فتوحات کے سلسلہ میں اس جنگ کو فیصلہ کن حیثیت حاصل ہے۔ مسلمان مجاہدین نے شدید مخالف حالات کا نہایت ثابت قدمی سے مردانہ وار مقابلہ کیا اور مؤرخین نے ذکر کیا ہے کہ دربار خلافت سے جب لوگوں کے لیے گزارے مقرر ہوئے تو اس ضمن میں قادسیہ میں شرکت بھی ایک وجہ امتیاز سمجھی گئی۔ حضرت عمرؓ نے قادسیہ میں شریک لوگوں کے زیادہ وظیفے مقرر کیے۔ (مقالہ ’تاریخ اسلام بعہد حضرت عمررضی اللہ عنہ‘ از مکرم سید میر محمود احمدناصر صاحب صفحہ91تا95) (ماخوذ از الکامل فی التاریخ جلد 2صفحہ 301تا 333دارالکتب العلمیۃ بیروت 2006ء) (ماخوذ ازالفاروق از شبلی نعمانی صفحہ84تا89 ادارہ اسلامیات 2004ء) (تاریخ الطبری جلد2صفحہ435-436دارالکتب العلمیۃ بیروت2012ء) (ماخوذ از تاریخ طبری مترجم جلد دوم حصہ دوم صفحہ 263، 310، 325 نفیس اکیڈیمی کراچی 2004ء) (معجم البلدان جلد 4صفحہ 94، 356) (معجم البلدان جلد اول صفحہ 267)
حضرت مصلح موعودؓ نے جنگ قادسیہ کا ذکر کرتے ہوئے جو فرمایا ہے اس میں سے کچھ حصہ بیان کرتا ہوں۔ ’’حضرت عمرؓ کے زمانہ میں جب خسرو پرویز کے پوتے یَزْدَ جَرْد کی تخت نشینی کے بعد عراق میں مسلمانوں کے خلاف وسیع پیمانہ پر جنگی تیاریاں شروع ہو گئیں تو حضرت عمرؓ نے ان کے مقابلہ کے لئے حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کی سر کردگی میں ایک لشکر روانہ کیا۔ حضرت سعدؓ نے جنگ کیلئے قادسیہ کا میدان منتخب کیا اور حضرت عمرؓ کو اس مقام کا نقشہ بھجوا دیا۔ حضرت عمرؓ نے اس مقام کو بہت پسند کیا مگر ساتھ ہی لکھا کہ پیشتر اس کے کہ شاہِ ایران کے ساتھ جنگ کی جائے تمہارا فرض ہے کہ ایک نمائندہ وفد شاہِ ایران کے پاس بھیجو اور اسے اسلام قبول کرنے کی دعوت دو۔ چنانچہ انہوں نے اس حکم کے ملنے پر ایک وفد یزد جرد کی ملاقات کے لئے بھجوا دیا۔ جب یہ وفد شاہِ ایران کے دربار میں پہنچا تو شاہِ ایران نے اپنے ترجمان سے کہا کہ ان لوگوں سے پوچھو کہ یہ کیوں آئے ہیں اور انہوں نے ہمارے ملک میں کیوں فساد بر پا کر رکھا ہے۔ جب اس نے یہ سوال کیا تو وفد کے رئیس حضرت نعمان بن مُقَرِّنؓ کھڑے ہوئے اور انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ آپؐ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم اسلام کو پھیلائیں اور دنیا کے تمام لوگوں کو دین حق میں شامل ہونے کی دعوت دیں۔ اس حکم کے مطابق ہم آپ کی خدمت میں بھی حاضر ہوئے ہیں اور آپ کو اسلام میں شمولیت کی دعوت دیتے ہیں۔ یَزْدَ جَرْد اس جواب سے بہت برہم ہوا اور کہنے لگا کہ تم ایک وحشی اور مُردار خور قوم ہو۔ تمہیں اگر بھوک اور افلاس نے اس حملہ کے لئے مجبور کیا ہے تو میں تم سب کو اس قدر کھانے پینے کا سامان دینے کے لئے تیار ہوں کہ تم اطمینان کے ساتھ اپنی زندگی بسر کر سکو۔ اسی طرح تمہیں پہننے کے لئے لباس بھی دونگا۔ تم یہ چیزیں لو اور اپنے ملک کو واپس چلے جاؤ۔ تم ہم سے جنگ کرکے اپنی جانوں کو کیوں ضائع کرنا چاہتے ہو۔ جب وہ بات ختم کر چکا تو اسلامی وفد کی طرف سے حضرت مُغِیرہ بن زُرَارَہؓ کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا۔ آپ نے ہمارے متعلق جو کچھ بیان کیا ہے یہ بالکل درست ہے۔ ہم واقعہ میں ایک وحشی اور مُردار خور قوم تھے۔ سانپ اور بچھو اور ٹڈیاں اور چھپکلیاں تک کھا جاتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے ہم پر فضل کیا اور اس نے اپنا رسولؐ ہماری ہدایت کے لئے بھیجا۔ ہم اس پر ایمان لائے اور ہم نے اس کی باتوں پر عمل کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب ہم میں ایک انقلاب پیدا ہو چکا ہے۔ اوراب ہم میں وہ خرابیاں موجودنہیں جن کا آپ نے ذکر کیا ہے۔ اب ہم کسی لالچ میں آنے کے لئے تیار نہیں۔ ہماری آپ سے جنگ شروع ہو چکی ہے۔ اب اس کا فیصلہ میدانِ جنگ میں ہی ہو گا۔‘‘ اگر آپ کو یہی منظور ہے کہ دعوت نہیں مانتے اور ہمارے ساتھ جنگ کرنا چاہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہے ہم بھی جنگ کریں گے۔ ’’دنیوی مال و متاع کا لالچ ہمیں اپنے ارادہ سے باز نہیں رکھ سکتا۔ یَزْ َدَجَرْدنے یہ بات سنی تو اسے سخت غصہ آیا اور اس نے ایک نوکر سے کہا کہ جاؤ اور مٹی کا ایک بورا لے آؤ۔ مٹی کا بورا آیا تو اس نے اسلامی وفد کے سردار کو آگے بلایا اور کہا کہ چونکہ تم نے میری پیشکش کو ٹھکرا دیا ہے۔ اس لئے اب اس مٹی کے بورے کے سِوا تمہیں اَور کچھ نہیں مل سکتا۔ وہ صحابیؓ نہایت سنجیدگی کے ساتھ آگے بڑھے۔ انہوں نے اپنا سر جھکا دیا۔‘‘ جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے لیکن یہ تھوڑی سی تفصیل ہے اپنا سر جھکا دیا ’’اور مٹی کابورا اپنی پیٹھ پر اٹھا لیا پھر انہوں نے ایک چھلانگ لگائی اور تیزی کے ساتھ اس کے دربار سے نکل کھڑے ہوئے اور اپنے ساتھیوں کو بلند آواز سے کہا آج ایران کے بادشاہ نے اپنے ہاتھ سے اپنے ملک کی زمین ہمارے حوالے کر دی ہے اور پھر گھوڑوں پر سوار ہو کر تیزی سے نکل گئے۔ بادشا ہ نے جب ان کایہ نعرہ سنا تو وہ کانپ اٹھا اور اس نے اپنے درباریوں سے کہا دوڑو اور مٹی کا بورا ان سے واپس لے آؤ۔ یہ تو بڑی بد شگونی ہوئی ہے کہ میں نے اپنے ہاتھ سے اپنے ملک کی مٹی ان کے حوالے کر دی ہے مگر وہ اس وقت تک گھوڑوں پر سوار ہو کر بہت دور نکل چکے تھے۔ لیکن آخر وہی ہو اجو انہوں نے کہا تھا اور چند سال کے اندر اندر سارا ایران مسلمانوں کے ماتحت آ گیا۔‘‘ حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں کہ ’’یہ عظیم الشان تغیر مسلمانوں میں کیوں پیدا ہو ا؟ اسی لئے کہ قرآنی تعلیم نے ان کے اخلاق اور ان کی عادات میں ایک انقلاب پیدا کر دیا تھا۔ ان کی سفلی زندگی پر اس نے ایک موت طاری کر دی تھی اور انہیں بلند کردار اور اعلیٰ درجہ کے اخلاق کی سطح پرلا کر کھڑا کر دیا تھا۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد6 صفحہ 204-205)جس کی وجہ سے یہ انقلاب پیدا ہوا۔ پس قرآنی تعلیم پر عمل کرنے سے ہی حقیقی انقلاب آیا کرتے ہیں۔ ان شاء اللہ تعالیٰ آئندہ بھی یہ ذکر چلے گا۔
(الفضل انٹرنیشنل 13 ؍ اگست 2021 صفحہ 5تا10)
چودہ ہجری میں حضرت عمرفاروقؓ کے دورِ خلافت میں مسلمانوں اور ایرانیوں کے درمیان قادسیہ کے مقام پر ایک فیصلہ کن جنگ لڑی گئی جس کے نتیجہ میں ایرانی سلطنت مسلمانوں کے قبضہ میں آ گئی۔
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد فاروقِ اعظم حضرت عمربن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ۔
’’اللہ تعالیٰ برائی کو برائی سے نہیں مٹاتا بلکہ برائی کو نیکی سے مٹاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان اطاعت کے سِوا اَور کوئی رشتہ نہیں ہے۔ ……تم نے ایک مشکل اور سخت کام کا بیڑہ اٹھایا ہے پس اپنے نفس کو اور اپنے ساتھیوں کو نیکی کی عادت ڈالو اور اس کے ذریعہ فتح چاہو اور یاد رکھو کہ ہرعادت ڈالنے کا ایک ذریعہ ہوتا ہے اور نیکی کی عادت ڈالنے کا ذریعہ صبر ہے۔‘‘ (حضرت عمرؓ )
جنگِ بُوَیب اور جنگِ قادسیہ میں پیش آمدہ واقعات کا تفصیلی بیان۔
جنگِ قادسیہ میں ایرانی فوج میں سے تیس ہزار زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھی تا کہ کسی کو دوڑنے کا موقع نہ ملے۔ حضرت سعدؓ نے مسلمانوں کو سورۂ انفال پڑھنے کا حکم دیا۔
جب تلاوت کی گئی تو مسلمانوں نے سکینت محسوس کی۔ ’’یہ عظیم الشان تغیر مسلمانوں میں کیوں پیدا ہو ا؟ اسی لئے کہ قرآنی تعلیم نے ان کے اخلاق اور ان کی عادات میں ایک انقلاب پیدا کر دیا تھا۔ ان کی سفلی زندگی پر اس نے ایک موت طاری کر دی تھی اور انہیں بلند کردار اور اعلیٰ درجہ کے اخلاق کی سطح پرلا کر کھڑا کر دیا تھا۔‘‘ (حضرت مصلح موعودؓ )
فرمودہ 23؍جولائی2021ء بمطابق 23؍وفا1400 ہجری شمسی، بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔