حضرت عمر بن خطابؓ
خطبہ جمعہ 10؍ ستمبر 2021ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانۂ خلافت کا ذکر چل رہا تھا اور اس زمانے کی جو جنگیں تھیں ان کا ذکر تھا۔ کتبِ تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کے دور میں دِمَشْق کا محاصرہ کئی ماہ تک جاری رہا اور ان کی وفات کے کچھ عرصہ کے بعد اس جنگ میں مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی۔ بہرحال کیونکہ یہ حضرت ابوبکرؓ کے دَور کی ہے اس لیے اس جنگ کی تفصیلات جب حضرت ابوبکرؓ کا ذکر ہو گا تو وہاں پیش کی جائیں گی انشاء اللہ۔ دِمَشْق کی فتح کے بعد جو واقعات ہیں وہ بیان کرتا ہوں۔ دِمَشْق کی فتح ہو جانے کے بعد ابوعُبَیدہ نے خالد بن ولیدؓ کو بِقَاع کی مہم پر روانہ کیا۔ بِقَاع: دِمَشْق، بَعْلَبَکْ اورحِمْص کے درمیان ایک وسیع علاقہ ہے جس میں بہت ساری بستیاں واقع ہیں۔ انہوں نے اسے فتح کیا اور ایک سریہ اگلی کارروائی کے لیے آگے بھیجا۔ مَیْسَنُون نامی چشمہ پر رومیوں اور سریہ والوں کی مڈھ بھیڑ ہوگئی۔ پھر دونوں میں لڑائی ہوئی۔ اتفاق سے رومیوں میں سے سِنَان نام کا ایک آدمی بیروت کے عقبی حصہ سے مسلمانوں پر حملہ کرنے میں کامیاب ہو گیا اور مسلمانوں کی اچھی خاصی تعداد کو شہید کر دیا۔ بیروت جو ہے یہ سمندر کے کنارے ملک شام کا ایک مشہور شہر تھا۔ اسی لیے ان شہداء کی طرف منسوب کرتے ہوئے اس چشمہ کا نام عین الشہداء پڑ گیا۔ ابوعُبَیدہ نے دِمَشْق پر یزید بن ابوسفیان کو اپنا قائم مقام بنایا اور یزیدنے دِحْیَہ بن خَلِیفہ کو ایک سریہ کے ساتھ تَدْمُرروانہ کیا تا کہ وہاں فتح کا راستہ ہموار کریں۔ تَدْمُرشام کے علاقے میں ایک قدیم اور مشہور شہر ہے جو حَلَبْ سے پانچ دن کی مسافت پر واقع ہے۔ یہ جس یزید کا ذکرہو رہا ہے یہ حضرت ابوسفیان کے بیٹے تھے۔
اسی طرح ابو زَہرا قُشَیرِی کو بَثَنِیَّہ اور حَوْرَان بھیجا لیکن وہاں کے لوگوں نے صلح کر لی۔ بَثَنِیَّہ دِمَشْق کے قریب ایک بستی کا نام ہے۔ حَوْرَان دِمَشْق کا ایک وسیع علاقہ تھا جس میں بہت ساری بستیاں اور کاشتکاری والی زمینیں تھیں۔ شُرَحْبِیْل بن حَسَنَہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اردن کے دارالحکومت طَبَرِیَّہ کو چھوڑ کر بقیہ پورے ملک پر بذریعہ جنگ یعنی کہ جنگ ٹھونسی گئی تو جنگ کے ذریعہ سے قبضہ کر لیا اور طبریہ والوں نے مصالحت کر لی۔ حضرت خالدؓ بِقَاع کے علاقے سے کامیاب ہو کر لَوٹے۔ بَعْلَبَکْ والوں نے آپ سے مصالحت کر لی اور آپ نے ان کے ساتھ معاہدہ تحریر کر دیا۔ (سیدنا عمر بن خطابؓ شخصیت اور کارنامے از محمد صلابی صفحہ 730مکتبہ الفرقان خان گڑھ) (معجم البلدان جلد اول صفحہ 623، 557، 402) (معجم البلدان جلد 2 صفحہ 20، 364)
بَعْلَبَکْ بھی دِمَشْق سے تین دن کی مسافت (یہ تاریخ میں جو لکھا ہوا ہے) پر واقع ایک قدیم شہر ہے۔ (معجم البلدان جلد اول صفحہ 537-538)
یہاں دنوں کی مسافت سے مراد یہ ہے کہ اس زمانے میں اونٹوں یا گھوڑوں کے ذریعہ سے (سفر کا جو ذریعہ تھا اس کے ذریعہ) جو مسافت ہوتی تھی۔
فِحْل ایک جگہ ہے۔ اس کی فتح چودہ ہجری میں ہوئی۔ حضرت ابوعُبَیدہؓ نے حضرت عمرؓ کی خدمت میں تحریر کیا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ ہرقل حِمْص میں مقیم ہے اور وہاں سے دِمَشْق فوجیں روانہ کر رہا ہے لیکن یہ فیصلہ کرنا میرے لیے دشوار ہے کہ پہلے دِمَشْق پر حملہ کروں یا فِحْل پر۔ فِحْل بھی شام میں ایک جگہ کا نام ہے۔ حضرت عمرؓ نے جواباً تحریر فرمایا: پہلے دِمَشْق پر حملہ کر کے اسے فتح کرو کہ وہ شام کا قلعہ ہے اور اس کا صدر مقام ہے۔ ساتھ ہی فِحْل میں بھی سوار دستے بھیج دو جو انہیں تمہاری طرف نہ بڑھنے دیں۔ اگر دِمَشْق سے پہلے فِحْل فتح ہو جائے تو بہتر ورنہ دِمَشْق فتح کر لینے کے بعد تھوڑی سی فوج وہاں چھوڑ دینا اور تمام سرداروں کو اپنے ساتھ لے کر فِحْل روانہ ہو جانا اور اگر اللہ تعالیٰ تمہارے ہاتھوں فِحْل کو فتح کرا دے تو خالد اور تم حِمْص چلے جانا اور شُرَحْبِیْل اور عَمرو کو اردن اور فلسطین بھیج دینا۔ حضرت عمرؓ کا جو خط تھا، جب یہ حضرت ابوعُبَیدہؓ کو ملا تو انہوں نے فوج کے دس افسروں کو جن میں سب سے نمایاں اَبُوالْاَعْوَر سُلْمِی تھے فِحْل بھیج دیا اور خود حضرت خالد بن ولیدؓ کے ساتھ دِمَشْق روانہ ہو گئے۔ رومی فوجوں نے مسلمانوں کو اپنی طرف آتے دیکھا تو اپنے گردوپیش کی زمین میں بُحَیْرَہ طَبَرِیَّہ اور دریائے اردن کا پانی چھوڑ دیا جس سے ساری زمین دلدل بن گئی اور اسے عبور کرنا دشوار ہو گیا۔ (سیدنا عمر فاروق اعظم از محمد حسین ہیکل مترجم صفحہ 194-195 اسلامی کتب خانہ لاہور) (الفاروق از علامہ شبلی صفحہ 114 دار الاشاعت کراچی 1991ء) (معجم البلدان جلد 4 صفحہ 268)
بہرحال ہرقل نے دِمَشْق کی امداد کے لیے جو فوجیں بھیجی تھیں وہ بھی دِمَشْق تک نہ پہنچ سکی تھیں۔ پانی کھولنے کی وجہ سے تمام راستے بند ہو گئے مگر مسلمان ثابت قدم رہے۔ مسلمانوں کا استقلال دیکھ کر عیسائی صلح پر آمادہ ہوئے اور ابوعُبَیدہ کے پاس پیغام بھیجا کہ کوئی شخص سفیر بن کر آئے۔ ابوعُبَیدہ نے حضرت مُعَاذ بن جبلؓ کو سفارت کے لیے بھیجا۔ حضرت مُعَاذ بن جبلؓ نے ان کے سامنے اسلامی تعلیم پیش کی مگر انہوں نے یعنی دشمنوں نے اسے قبول نہ کیا۔ دیگر امور کے علاوہ رومیوں نے حضرت معاذ کو یہ پیشکش کی کہ ہم تم کو بَلْقَاء کا ضلع اور اردن کا وہ حصہ جو تمہاری زمین سے متصل ہے دیتے ہیں تم یہ ملک چھوڑ کر فارس چلے جاؤ۔ پہلے خود ہی فوجیں اکٹھی کر رہے تھے جب دیکھا کہ ہارنے کا وقت آیا ہے تو یہ پیشکش کی۔ حضرت معاذؓ نے انکار کیا اور اٹھ کے واپس چلے آئے کہ نہیں۔ رومیوں نے براہ راست ابوعُبَیدہ سے گفتگو کرنی چاہی۔ چنانچہ اس غرض سے ایک خاص قاصد بھیجا۔ جس وقت وہ قاصد وہاں مسلمانوں کے کیمپ میں پہنچا تو ابوعُبَیدہ زمین پر بیٹھے ہوئے تھے اور ہاتھ میں تیر تھے جن کو الٹ پلٹ کر رہے تھے۔ قاصدنے خیال کیا کہ سپہ سالار بڑے جاہ و حشم رکھتا ہو گا اور یہی اس کی شناخت کا ذریعہ ہو گا لیکن وہ جس طرف آنکھ اٹھا کر دیکھتا تھا سب ایک رنگ میں ڈوبے نظر آتے تھے۔ آخر گھبرا کر پوچھا کہ تمہارا سردار کون ہے؟ لوگوں نے ابوعُبَیدہ کی طرف اشارہ کیا۔ وہ حیران رہ گیا اور تعجب سے ان کی طرف مخاطب ہو کر کہا کہ کیا درحقیقت تم ہی سردار ہو؟ ابوعُبَیدہ نے کہا ہاں۔ قاصدنے کہا کہ ہم تمہاری فوج کو فی کس دو دو اشرفیاں دے دیں گے، تم یہاں سے چلے جاؤ۔ حضرت ابوعُبَیدہؓ نے انکار کیا۔ قاصد اس پر بڑا ناراض ہوا اور اٹھ کر چلا گیا۔ ابوعُبَیدہ نے اس کے تیور دیکھ کر فوج کو کمربندی کا حکم دیا، تیار رہنے کا حکم دیا اور تمام حالات حضرت عمرؓ کو لکھے۔ حضرت عمرؓ نے اجازت فرمائی کہ ٹھیک ہے پیش قدمی کرو کیونکہ رومی فوجیں اکٹھی ہو رہی ہیں اور حوصلہ دلایا کہ ثابت قدم رہو۔ خدا تمہارا مددگار ہے۔ ابوعُبَیدہ نے اسی دن کمر بندی کا حکم دے دیا تھا لیکن رومی مقابلے میں نہ آئے اور اگلی صبح پھر حضرت خالد بن ولیدؓ صرف سواروں کے ساتھ میدان میں گئے۔ رومی لشکر بھی تیار تھا۔ دونوں میں جنگ ہوئی۔ مسلمانوں کی ثابت قدمی دیکھ کر رومی سپہ سالار نے زیادہ لڑنا بیکار سمجھا اور واپس جانا چاہا۔ حضرت خالدؓ نے پکارا۔ رومی اپنا زور لگا چکے ہیں اب ہماری باری ہے۔ اس کے ساتھ ہی مسلمانوں نے اچانک حملہ کیا اور رومیوں کو پسپا کر دیا۔ عیسائی مدد کے انتظار میں لڑائی کو ٹال رہے تھے۔ حضرت خالدؓ ان کی چال سمجھ گئے تو انہوں نے حضرت ابوعُبَیدہؓ کی خدمت میں کہا کہ رومی ہم سے مرعوب ہو چکے ہیں حملے کا یہی وقت ہے۔ چنانچہ اسی وقت اعلان کیا گیا کہ اگلے روز حملہ ہو گا فوج تیار ہو جائے۔ رات کے پچھلے پہر حضرت ابوعُبَیدہؓ نے لشکر کو ترتیب دیا۔ رومی لشکر کی تعداد تقریباً پچاس ہزار تھی۔ حضرت عمرؓ کی سیرت و سوانح لکھنے والے دو سیرت نگار ہیکل اور صلابی نے یہ تعداد اسّی ہزار سے ایک لاکھ تک بھی بیان کی ہے۔ بہرحال ایک گھنٹے کی شدید جنگ ہوئی۔ اس کے بعد رومی لشکر کے پاؤں اکھڑ گئے اور وہ نہایت بدحواسی سے بھاگے۔ بعدمیں حضرت عمرؓ نے حکم دیا کہ تمام زمین جو قبضے میں کی گئی ہے ان کے مالکوں کے پاس ہی رہے گی۔ کوئی زمین کسی سے لی نہیں جائے گی اور لوگوں کی جانیں اور مال اور زمین اور مکانات اور عبادت گاہیں سب محفوظ رہیں گی۔ صرف مساجد کے لیے جگہ لی جائے گی۔ (ماخوذ از الفاروق از علامہ شبلی صفحہ 114 تا 118 دار الاشاعت کراچی 1991ء) (سیدنا عمر بن خطابؓ شخصیت اور کارنامے از محمد صلابی صفحہ 730 مکتبہ الفرقان خان گڑھ) (سیدنا عمر فاروق اعظم از محمد حسین ہیکل مترجم صفحہ 213 اسلامی کتب خانہ لاہور)
کوئی زمین اگر لینی ہے تو مساجد کے لیے لینی ہے۔ باقی زمینیں ان کے مالکوں کے پاس ہی رہیں گی۔ پھر فتحِ بَیْسَان کا بیان ہے۔ جب شُرَحْبِیل فِحْل کی جنگ سے فراغت پا چکے تو وہ اپنی فوج اور عمرو کو لے کر اہل بَیْسَان کی طرف بڑھے اور ان کا محاصرہ کر لیا۔ اس وقت اَبُوالْاَعْور اور ان کے ساتھ چند اَور سردار طَبَرِیّہ کا محاصرہ کیے ہوئے تھے۔ بَیْسَان طبریہ کے جنوب میں اٹھارہ میل کے فاصلے پر واقع جگہ ہے۔ اردن کے علاقوں میں دِمَشْق اور اس کے بعد کی دیگر مہمات میں رومیوں کی پے در پے شکستوں کی خبر پھیل چکی تھی اور لوگوں کو معلوم ہوگیا تھا کہ شُرَحْبِیْل اور ان کے ساتھ عَمْروبن العاص اور حَارِث بن ہشام اور سُہیل بن عمرو اپنی فوج کو لیے ہوئے بَیْسَان کے ارادے سے جا رہے ہیں اس لیے ہر جگہ لوگ قلعہ میں جمع ہو گئے۔ شُرَحْبِیْل نے بَیْسَان پہنچ کر اس کا محاصرہ کر لیا جو چند روز تک جاری رہا مگر بعد میں وہاں کے کچھ لوگ مقابلے کے لیے باہر نکلے۔ مسلمان ان سے لڑے اور ان کا خاتمہ کر دیا۔ باقی لوگوں نے مصالحت کی درخواست کی جس کو مسلمانوں نے دِمَشْق کی شرائط پر منظور کر لیا۔ جو فتح دِمَشْق کی شرائط تھیں اسی بنیاد پر وہ بھی منظور ہوئیں۔ (تاریخ طبری (مترجم) جلد دوم حصہ دوم صفحہ 216 نفیس اکیڈیمی کراچی) (الفاروق از شبلی نعمانی صفحہ114 دار الاشاعت کراچی 1991ء)
پھر فتحِ طَبَرِیَّہ ہے۔ جب اہل طَبَرِیّہ کو بَیْسَان کی فتح اور اس کے معاہدہ کی اطلاع پہنچی تو انہوں نے ابوالاَعْور سے اس شرط پر صلح کی کہ ان کو شُرَحْبِیْل کی خدمت میں پہنچا دیا جائے۔ ابوالاعور نے ان کی درخواست کو منظور کر لیا۔ چنانچہ اہل طبریہ اور اہل بَیْسَان سے دِمَشْق والی شرائط پر ہی مصالحت ہو گئی اور یہ بھی طے ہوا کہ شہروں اور اس کے قریبی دیہات کی آبادیوں کے تمام مکانات میں سے آدھے مسلمانوں کے لیے خالی کر دیے جائیں اور باقی نصف میں خود رومی رہائش اختیار کریں اور وہ فی کس سالانہ ایک دینار اور زمین کی پیداوار میں سے معین حصہ ادا کریں گے۔ اس کے بعد مسلمان قائدین اور ان کی فوجیں آبادی میں مقیم ہو گئیں اور اردن کی صلح پایہ تکمیل کو پہنچ گئی اور تمام امدادی دستے اردن کے علاقے میں مختلف مقامات میں سکونت پذیر ہو گئے اور فتح کی بشارت، خوشخبری حضرت عمرؓ کی خدمت میں روانہ کر دی گئی۔ (تاریخ طبری (مترجم) جلد دوم حصہ دوم صفحہ 216-217 نفیس اکیڈیمی کراچی)
پھر فتح حِمْص، یہ چودہ ہجری میں ہوئی۔ اس کے بعد حضرت ابوعُبَیدہؓ نے حِمْص کی طرف پیش قدمی کی جو شام کا ایک مشہور شہر تھا اور جنگی اور سیاسی اہمیت رکھتا تھا۔ حِمْص دِمَشْق اور حَلَب کے درمیان شام میں واقع ہے۔ حِمْص میں ایک بڑا ہیکل تھا جس کی زیارت کے لیے دور دور سے لوگ آتے اور اس کے پجاری بننے پر فخر محسوس کرتے۔ بہرحال حِمْص کے قریب رومیوں نے ہی خود بڑھ کر مقابلہ کرنا چاہا اور آگے بڑھے۔ چنانچہ ایک فوجِ کثیر حِمْص سے نکل کر جُوسِیَہمیں مسلمانوں کے مقابل ہوئی لیکن ان کو شکست ہوئی۔ حضرت ابوعُبَیدہؓ اور حضرت خالد بن ولیدؓ نے حِمْص پہنچ کر شہر کامحاصرہ کر لیا۔ سخت سردی کا موسم تھا۔ رومیوں کو یقین تھا کہ مسلمان کھلے میدان میں دیر تک نہیں لڑ سکیں گے۔ اس کے ساتھ ہِرَقْل کی طرف سے مدد کی امید بھی تھی۔ چنانچہ اس نے جزیرے سے ایک فوج بھی روانہ کی لیکن حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے جو عراق کی مہم پر مامور تھے کچھ فوج اس لشکر کی طرف بھیج دی جس نے اس لشکر کو وہیں روک لیا۔ (ماخوذ از الفاروق از مولانا شبلی نعمانی صفحہ 118-119 دار الاشاعت کراچی 1991ء) (معجم البلدان جلد 2 صفحہ 347)
مؤرخین نے لکھا ہے کہ رومیوں کے پاؤں میں چمڑے کے موزے ہوتے تھے پھر بھی ان کے پاؤں شَل ہو جاتے جبکہ صحابہ کے پاؤں یا مسلمانوں کی جو فوج تھی ان کے پاؤں میں جوتوں کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا تھا۔ (سیدنا عمر بن خطابؓ شخصیت اور کارنامے از محمد صلابی صفحہ 734 مکتبہ الفرقان خان گڑھ)
ہِرَقل اہلِ حِمْص سے مدد کا وعدہ کر کے اور انہیں مقابلے کی ہمت دلا کر خود رُھَاءچلا گیا۔ وعدہ کیا اور خود وہاں سے چلا گیا۔ حِمْص والے قلعہ بند ہو کر بیٹھ رہے۔ وہ اسی دن مسلمانوں سے لڑنے کے لیے نکلتے جس دن سخت سردی ہوتی۔ رومی ہرقل کی مدد کے انتظار میں تھے اور چاہتے تھے کہ مسلمان سردی سے عاجز آ کر بھاگ جائیں لیکن مسلمانوں نے ثباتِ قدم دکھایا اور ہرقل کی مدد بھی ان کو نہ پہنچی یعنی اس شہر کے لوگوں کو اور سردی کے دن بھی گزر گئے تو اہل حِمْص کو یقین ہو گیا کہ اب ان لوگوں کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ انہوں نے صلح کی درخواست کی۔ مسلمانوں نے اسے قبول کر لیا اور شہر کے سارے مکان اہل شہر کے لیے چھوڑ دیے گئے اور دِمَشْق کی طرح خراج اور جزیہ پر صلح کر لی گئی۔ حضرت ابوعُبَیدہؓ نے حضرت عمرؓ کو تمام واقعات سے مطلع کیا جس کے جواب میں حضرت عمرؓ کا حکم آیا کہ تم ابھی وہیں ٹھہرو اور شام کے طاقتور قبائلِ عرب کو اپنے جھنڈے تلے جمع کرو۔ میں بھی ان شاء اللہ تعالیٰ برابر یہاں سے کمک بھیجتا رہوں گا۔ (ماخوذ از سیدنا عمر فاروق اعظم از محمد حسین ہیکل مترجم صفحہ 331-332 اسلامی کتب خانہ لاہور)
پھر مَرْجُ الرُّوْم ایک جگہ ہے اسی سال مَرْجُ الرُّوْم کا واقعہ پیش آیا۔ مَرْجُ الرُّوم دِمَشْق کے قریب ایک مقام تھا۔ واقعہ یہ ہوا کہ حضرت ابوعُبَیدہؓ فِحْل سے حِمْص جانے کے لیے حضرت خالد بن ولیدؓ کے ساتھ روانہ ہوئے۔ سب نے ذُوالکَلَاع مقام پر پڑاؤ ڈالا۔ ان کی اس نقل و حرکت کی اطلاع ہرقل کو ہوئی تو اس نے تُوْذَرَابِطْرِیق کو روانہ کیا۔ وہ مَرْج دِمَشْق اور اس کی مغربی جانب میں قیام پذیر ہوا۔ ابوعُبَیدہ نے مَرْجُ الرُّوم اور اس کے لشکر سے ابتدا کی۔ اس وقت ان کی یعنی مسلمانوں کی حالت یہ تھی کہ سردی کا موسم آ چکا تھا اور ان کے جسم زخموں سے بھرے ہوئے تھے۔ جب یہ لوگ مرج الروم پہنچے تو شَنَسْ رومی بھی ادھر آ گیا اور تُوْذَرَاکے قریب ہی شاہ سواروں کے ساتھ اس نے پڑاؤ ڈال لیا۔ یہ شَنَسْ دراصل تُوْذَرَاکی مدد اور حِمْص والوں کے بچاؤ کے لیے آیا تھا۔ وہ ایک کنارے پر اپنے لشکر کے ساتھ فروکش ہو گیا۔ جب رات آئی تو ان کا دوسرا سپہ سالار تُوْذَرَا وہاں سے روانہ ہو گیا اور اس کے جانے کی وجہ سے وہ جگہ خالی ہو گئی۔ تُوْذَرَاکے مدّمقابل حضرت خالد بن ولیدؓ تھے جبکہ شَنَس کے مقابلے میں حضرت ابوعُبَیدہؓ تھے۔ حضرت خالد بن ولیدؓ کو جب اس بات کی خبر ملی کہ تُوْذَرَا یہاں سے دِمَشْق روانہ ہو چکا ہے تو حضرت خالدؓ اور حضرت ابوعُبَیدہؓ نے باتفاق رائے اس بات کا فیصلہ کیا کہ تُوْذَرَا کے تعاقب میں حضرت خالدؓ روانہ ہو جائیں۔ چنانچہ حضرت خالد بن ولیدؓ گھڑ سواروں کا ایک دستہ لے کر اسی رات اس کے تعاقب میں چل پڑے۔ ادھر یزید بن ابوسفیان کو تُوْذَرَا کی اس حرکت کی خبر مل گئی تھی۔ چنانچہ وہ تُوْذَرَا کے مقابلے پر آگئے اور دونوں لشکروں میں جنگ کا میدان گرم ہو گیا۔ ابھی دونوں کے درمیان لڑائی جاری تھی کہ پیچھے سے حضرت خالد بن ولیدؓ اپنے لشکر کے ساتھ موقع پر پہنچ گئے اور انہوں نے تُوْذَرَا کی پشت سے ہلہ بول دیا۔ نتیجۃً کشتوں کے پشتے لگ گئے اور دشمن سامنے اور پیچھے دونوں طرف سے مارا گیا۔ مسلمانوں نے ان کو موت کی نیند سلا دیا۔ ان میں سے زندہ صرف وہی بچے جنہوں نے راہ فرار اختیار کر لی۔ مسلمانوں کو اس معرکے میں جو مالِ غنیمت ہاتھ آیا اس میں سواری کے جانور، ہتھیار، لباس وغیرہ تھے۔ اس کو حضرت یزید بن ابوسفیانؓ نے اپنے اور حضرت خالد بن ولیدؓ کے سپاہیوں میں بانٹ دیا۔ اس کے بعد حضرت یزیدؓ دِمَشْق کی جانب روانہ ہو گئے اور حضرت خالد بن ولیدؓ حضرت ابوعُبَیدہؓ کی جانب واپس چلے گئے۔ اسلام کی تاریخ میں جو بدنام یزید ہے وہ معاویہ کے بیٹے تھےاور یہ یزید ابوسفیان کے بیٹے یزید ہیں۔ تُوْذَرَاجورومیوں کا سردارتھا، اس کو حضرت خالد بن ولیدؓ نے قتل کیا تھا۔ حضرت خالد بن ولیدؓ جب تُوْذَرَاکے تعاقب میں روانہ ہو گئے تو حضرت ابوعُبَیدہؓ نے شَنَسْ کا مقابلہ کیا۔ دونوں فوجوں میں مَرْجُ الرُّوم کے مقام پر جنگ چھڑ گئی۔ اسلامی لشکر نے بہت سے لوگوں کو قتل کیا اور حضرت ابوعُبَیدہؓ نے شَنَسْ کا کام تمام کر دیا۔ مَرْجُ الرُّوم دشمن کی لاشوں سے بھر گیا۔ ان لاشوں کی بنا پر وہ مقام بدبودار ہو گیا تھا۔ رومیوں میں سے جو بھاگ گئے وہ تو بچ گئے۔ باقی کوئی موت کے منہ سے نہ بچ سکا۔ مسلمانوں نے بھاگنے والوں کا حِمْص تک پیچھا کیا۔ (الکامل فی التاریخ جلد 2 صفحہ 321 دار الکتب العلمیہ بیروت) (تاریخ الطبری (مترجم) جلد دوم حصہ دوم صفحہ 359-360 نفیس اکیڈیمی کراچی)
پھر حضرت ابوعُبَیدہؓ فوج لے کر حَمَاۃ کی طرف روانہ ہوئے۔ حَمَاۃبھی شام کا ایک قدیم شہر ہے جو اس وقت دِمَشْق سے پانچ روز کی مسافت پر واقع تھا۔ اہلِ حَمَاۃنے ان کے آگے سر اطاعت خم کر دیا، تسلیم کر لیا۔ شَیْزَر والوں کو جب معلوم ہوا تو انہوں نے بھی اہل حَمَاۃکی مانند صلح کر لی۔ شَیْزَر حَمَاۃسے نصف روز کی مسافت پر واقع ایک بستی تھی۔ پھر حضرت ابوعُبَیدہؓ نے سَلَمْیَہ کو فتح کیا۔ سَلَمْیَہ بھی حَمَاۃسے دو دن کی مسافت پر واقع ایک بستی تھی۔ (سیدنا عمر فاروق اعظم از محمد حسین ہیکل مترجم صفحہ 333اسلامی کتب خانہ لاہور) (معجم البلدان جلد 2 صفحہ 345) (معجم البلدان جلد 3صفحہ 272)
اس کے بعد پھر لَاذِقِیَّہ کی فتح ہوئی جو چودہ ہجری کی ہے۔ اسلامی لشکر نے حضرت ابوعُبَیدہؓ کی سرکردگی میں لَاذِقِیَّہ کا رخ کیا جو شام کا ایک شہر ہے اور ساحل سمندر پر واقع ہے اور حِمْص کے نواحی علاقوں میں اس کو شمار کیا جاتا ہے۔ لَاذِقِیَّہ والوں نے جب اسلامی لشکر کو اپنی طرف آتے دیکھا تو قلعہ بند ہو کر بیٹھ گئے اور شہر کے دروازے بند کر کے مقابلے کے لیے آمادہ ہو گئے۔ انہیں اطمینان تھا کہ اگر مسلمانوں نے ان کا محاصرہ کیا تو وہ مقابلے کی طاقت رکھتے ہیں اور اتنی دیر میں سمندر کے راستے انہیں ہِرَقْل سے کمک پہنچ جائے گی۔ مسلمانوں نے اس شہر کا محاصرہ کر لیا۔ حفاظتی انتظامات کے لحاظ سے یہ شہر بہت مضبوط تھا اور فوجی چوکیوں کی وجہ سے کافی مشہور تھا۔ حضرت ابوعُبَیدہؓ نے اس کو فتح کرنے کی ایک نئی ترکیب نکالی کیونکہ آپؓ جنگی حکمت عملی جانتے تھے۔ انہوں نے محسوس کر لیا کہ اسے سر کرنا، فتح کرنا بہت مشکل ہے۔ اگر وہ اس کے مقابلے پہ خیمہ زن ہو جاتے ہیں تو عرصہ قیام بہت لمبا ہو جائے گا اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ لمبا عرصہ کا جو یہ محاصرہ ہے اس دوران دشمنوں کی طرف سے ان کو مدد بھی پہنچ جائے اور یہاں سے ناکام لَوٹنا پڑے یا پھر شہر کا محاصرہ زیادہ لمبا کیا جائے تو اَنْطَاکِیہ جانا ناممکن ہو جائے گا تو آپ نے ایک رات میدان میں بہت سے گہرے گڑھے کھدوائے اتنے کہ گھوڑے پر سوار بیٹھا ان میں چھپ جائے اور انہیں گھاس سے چھپا دیا اور صبح محاصرہ اٹھا کر حِمْص کی طرف روانہ ہو گئے۔ شہر والوں نے محاصرہ اٹھتے دیکھا تو خوش ہوئے اور اطمینان سے شہر کے دروازے کھول دیے۔ دوسری طرف حضرت ابوعُبَیدہؓ راتوں رات اپنی فوج سمیت واپس آ گئے اور ان غار نما گڑھوں میں چھپ گئے۔ صبح جب شہر کے دروازے کھلے تو مسلمانوں نے ان پر حملہ کر دیا کچھ مسلمانوں نے شہر کے دروازے پر قبضہ کر لیا جو قلعہ سے باہر تھے انہوں نے بھاگنے میں اپنی عافیت جانی اور جو شہر میں موجود تھے ان پر خوف طاری ہو چکا تھا۔ لہٰذا جو لوگ شہر میں تھے ان میں سے ہر ایک راہ نجات کی جستجو میں لگ گیا۔ ان کے لیے اطاعت اور تسلیم کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ چنانچہ انہوں نے صلح کر لی اور بھاگنے والوں نے امان چاہی۔ مسلمانوں نے شہر میں داخل ہو کر شہر کو فتح کر لیا۔ حضرت ابوعُبَیدہ بن جَرّاحؓ نے جزیے پر صلح کر لی اور ان کا گرجا انہی کے قبضے میں رہنے دیا اور بعد میں مسلمانوں نے اس کے قریب ہی اپنی ایک مسجد بنا لی۔ (حضرت عمرفاروق اعظم از محمد حسین ہیکل، مترجم صفحہ333-334 اسلامی کتب خانہ لاہور) (الفاروق از علامہ شبلی صفحہ 118-119 دار الاشاعت کراچی 1991ء)
اس فتح کے بعد حضرت عمرؓ نے لکھا کہ اس سال مزید پیش قدمی نہ کی جائے۔ (ماخوذ ازالفاروق از شبلی نعمانی صفحہ 119 دار الاشاعت کراچی 1991ء)
پھر فتح قِنِّسْرِیْن ہے۔ یہ پندرہ ہجری کی ہے۔ حضرت ابوعُبَیدہ بن جَرَّاحؓ نے حضرت خالد بن ولیدؓ کو قِنِّسْرِیْن کی طرف روانہ کیا جو صوبہ حَلَبْ کا ایک بارونق شہر تھا۔ حلب کے راستے میں پہاڑ کے درمیان قِنِّسْرِیْن کا قلعہ واقع تھا۔ حضرت خالد بن ولیدؓ حَاضِرْ مقام کے قریب پہنچے۔ حَاضِرْ بھی حَلَبْ کے قریب ایک مقام ہے اس جگہ رومی لوگ مِیْنَاس کی زیر قیادت آپ کے مقابلے میں آ گئے۔ ہِرَقل کے بعد روم کا سب سے بڑا سپہ سالار مِیْنَاس ہی تھا۔ بہرحال وہاں کے باشندوں نے اور جو اُن کے ہاں عرب عیسائی تھے انہوں نے مسلمانوں کا مقابلہ کیا۔ عربوں کا یہ دستور تھا کہ وہ شہر کی حفاظت کے لیے شہر سے باہر نکل کر خیمے ڈال دیتے تھے۔ چنانچہ یہ عیسائی عرب بھی اسی دستور کے مطابق باہر خیمہ زن تھے۔ سخت معرکے کےبعد حضرت خالدؓ نے رومیوں کا بہت سا لشکر قتل کر دیا اور ان کے سردار مِیْنَاسک و بھی قتل کر دیا۔ علاقے کے لوگوں نے حضرت خالد بن ولیدؓ کے پاس پیغام بھیجا کہ ہم عرب لوگ ہیں اور جنگ کرنے پر راضی ہی نہ تھے۔ ہمیں زبردستی اس جنگ میں شامل کیا گیاتھا۔ لہٰذا ہم سے درگزر کیا جائے۔ اس پر حضرت خالدؓ نے ان کا عذر قبول کیا اور ان سے اپنا ہاتھ روک لیا۔
کچھ رومی بھاگ کر قِنِّسْرِیْن میں قلعہ بند ہو گئے۔ حضرت خالدؓ نے ان کا تعاقب کیا لیکن جب وہ قِنِّسْرِیْن پہنچے تو رومی شہر کے دروازے بند کر چکے تھے۔ یہ دیکھ کر حضرت خالدؓ نے ان کے پاس یہ پیغام بھیجا کہ اگر تم بادلوں میں بھی جا چھپو گے تو اللہ تعالیٰ ہم کو تمہارے پاس پہنچا دے گا یا تمہیں ہماری طرف پھینک دے گا۔ کچھ دن تو وہ یونہی قلعہ بند رہے لیکن آخر کار قِنِّسْرِیْن والوں کو یقین ہو گیا کہ اب کوئی راہ نجات نہیں۔ چنانچہ انہوں نے درخواست کی کہ حِمْص کی صلح کی شرائط پر انہیں امان دی جائے لیکن انہوں نے جو پہلے حکم عدولی کی تھی حضرت خالدؓ انہیں اس حکم عدولی کی سزا دینے کا فیصلہ کر چکے تھے۔ اس لیے حضرت خالدؓ شہر کو تباہ کرنے کے سوا اَور کسی بات پر راضی نہ ہوئے۔ اہل قِنِّسْرِیْن اپنے مال و متاع اور اہل و عیال کو تقدیر کے حوالے کر کے اَنْطَاکِیہ بھاگ گئے۔ جس وقت حضرت ابوعُبَیدہ بن الجراحؓ قِنِّسْرِیْن پہنچے تو انہوں نے حضرت خالد بن ولیدؓ کے اس فیصلے کو عدل و انصاف کے عین مطابق پایا اور شہر کے قلعے اور فصیلیں منہدم کر دیں۔ اس کے بعد انہوں نے محسوس کیا کہ انصاف کے ساتھ شفقت کا سلوک بھی ہونا چاہیے۔ یہ تو انصاف تھا جو پہلے دشمنوں سے کیا گیا، اب شفقت بھی مسلمانوں کو کرنی چاہیے۔ پھر انہوں نے شفقت کے لیے یہ کیا کہ اہلِ شہرکو ان کی درخواست کے مطابق امان بھی دے دی اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ شہر کے کلیسا اور مکان تقسیم کر دیے گئے۔ چرچ بھی اور مکان بھی تقسیم کر دیے گئے اور نصف حصہ پر مسلمان قابض ہو گئے، نصف حصہ انہی کے پاس رہنے دیا۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ شہر کی کچھ زمین لے کر وہاں مسجد تعمیر کر دی گئی اور باقی سب کچھ بدستور اہل علاقہ کے قبضہ میں ہی رہنے دیا۔ جو لوگ اَنْطَاکِیہ بھاگ گئے تھے وہ بھی جزیہ قبول کر کے واپس آ گئے تھے۔ دوسرےمفتوحہ علاقوں کی طرح یہاں کے لوگوں سے بھی بہتر سلوک کیا گیا اور صحیح مساوات کی بنیاد پر ان کے درمیان عدل قائم کیا گیا جس میں کوئی طاقتور کسی بھی کمزور پر ظلم و جبر نہیں کر سکتا تھا۔ (سیدنا عمر فاروق اعظم از محمد حسین ہیکل مترجم صفحہ 333تا 339 اسلامی کتب خانہ لاہور) (تاریخ الطبری جلد2 صفحہ445، دارالکتب العلمیۃ لبنان 1987ء)(معجم البلدان جلد2 صفحہ238 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
پھر فتح قَیْسَارِیّہ ہے۔ یہ بھی پندرہ ہجری کی ہے۔ قَیْسَارِیّہ شام کا ساحلی شہر ہے جو طَبَرِیَّہ سے تین دن کی مسافت پر واقع تھا۔ یہ جنگ کس سال میں ہوئی؟ اس کے بارے میں متفرق روایات ملتی ہیں۔ ایک تو ہے کہ پندرہ ہجری۔ دوسرے قول کے مطابق سولہ ہجری میں ہوئی اور تیسری روایت کے مطابق انیس ہجری اور چوتھے قول کے مطابق بیس ہجری میں ہوئی۔ (تاریخ طبری جلد2صفحہ511سنۃ 19ھ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1987ء) (معجم البلدان جلد4 صفحہ 478دار الکتب العلمیۃ بیروت)
بہرحال جس وقت حضرت ابوعُبَیدہؓ شمالی روم میں فاتحانہ پیش قدمی فرما رہے تھے حضرت عمرو بن عاصؓ اور حضرت شُرَحْبِیْل بن حَسَنَہؓ روم کی ان فوجوں سے جنگ آزما تھے جو فلسطین میں جمع تھیں اور انہیں شکست دینے کی کوشش کر رہے تھے لیکن یہ کوئی آسان کام نہ تھا۔ یہ فوجیں کثرتِ تعداد اور سامان کے اعتبار سے بہت قوی تھیں اور ان کی قیادت روم کا سب سے بڑا سپہ سالار اَطْرَبُوْن کر رہا تھا جس کی بعید النظری اور جنگی سوجھ بوجھ مملکت میں اپنا کوئی حریف نہ رکھتی تھی۔ اس نے سوچا کہ فوج کو مختلف مقامات پر پھیلا دیا جائے تا کہ زمامِ اقتدار بھی تنہا اسی کے ہاتھ میں رہے اور اگر اس فوج کے کچھ حصوں پر عرب فتح بھی پائیں تو دوسرے حصے اس سے متاثر نہ ہوں۔ چنانچہ اس نے رَمْلَہ اور اسی طرح اِیْلِیَاپر ایک بھاری لشکر متعین کیا اور اس کی حمایت کے لیے غَزَہ، سَبَسْطِیَہ، نَابُلُسْ، لُدّْ اور یَافَا میں فوجیں چھوڑ دیں۔ اس کے بعد عربوں کی آمد کے انتظار میں بیٹھ گیا۔ اسے یقین تھا کہ وہ عربوں پر فتح پانے اور ان کی قوتوں کو پراگندہ کرنے کی طاقت و قوت رکھتا ہے۔ حضرت عمرو بن عاصؓ نے موقع کی نزاکت کو محسوس کر لیا۔ انہوں نے سوچا کہ اگر وہ اپنی تمام فوجوں کے ساتھ اَطْرَبُون کے مقابلے میں صف آرا ہوتے ہیں تو رومی فوجیں ایک دوسرے سے مل جائیں گی اور وہ ان پر فتح یاب نہ ہو سکیں گے بلکہ ہو سکتا ہے کہ رومی ان پر فتح پا لیں۔ چنانچہ انہوں نے حضرت عمرؓ کو خط لکھا تو آپ نے یزید بن ابوسفیان کو حکم دیا کہ اپنے بھائی معاویہ کو قَیْسَارِیّہ فتح کرنے بھیجو تا کہ بحری راستے سےاَطْرَبُون کو مددنہ پہنچ سکے۔ حضرت عمرؓ نے امیر معاویہ کے نام خط میں تحریر فرمایا کہ میں تمہیں قَیْسَارِیّہ کا امیر بناتا ہوں، وہاں جاؤ اور اس کے خلاف اللہ سے مدد طلب کرو اور لَا حَوْلَ وَلَاقُوَۃَّ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْم اور اَللّٰہُ رَبُّنَا وَثِقَتُنَا وَرَجَاؤُنَاوَمَوْلٰنَا، نِعْمَ الْمَوْلٰی وَنِعْمَ النَّصِیْرُ بکثرت پڑھو۔ یعنی گناہ سے بچنے کی طاقت اور نیکی کرنے کی طاقت صرف اللہ ہی کو ہے جو بہت بلند شان والا اور بہت عظمت والا ہے اور اللہ ہمارا رب ہے اور ہمارا بھروسہ ہے اور وہ ہماری امیدگاہ ہے۔ وہ ہمارا مولیٰ ہے اور کیا ہی اچھا مولیٰ اور کیا ہی اچھا مددگار ہے۔
الفاروق میں لکھا ہے کہ قَیْسَارِیّہ پر اول تیرہ ہجری میں عمَرو بِن عاصؓ نے چڑھائی کی اور مدت تک محاصرہ کیے پڑے رہے لیکن فتح نہ ہو سکا۔ ابوعُبَیدہ کی وفات کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یزید بن ابی سفیان کو ان کی جگہ مقرر کیا اور حکم دیا کہ قَیْسَارِیّہ کی مہم پر جاؤ۔ یزید سترہ ہزار کی جمعیت کے ساتھ روانہ ہوئے اور شہر کا محاصرہ کیا لیکن اٹھارہ ہجری میں جب بیمار ہوئے تو اپنے بھائی امیر معاویہ کو اپنا قائم مقام مقرر کر کے دِمَشْق چلے آئے۔ وہیں ان کی وفات ہو گئی۔
قَیْسَارِیّہ بحرِ شام کے ساحل پر واقع ہے اور فلسطین کے اضلاع میں شمار کیا جاتا ہے۔ آج بہرحال یہ ویران پڑا ہے لیکن اس زمانے میں بہت بڑا شہر تھا اور بقول بَلَاذَرِی کے تین سو بازار آباد تھے جس کی حفاظت پر ایک بہت بڑا رومی لشکر متعین تھا۔ یہاں ان کا ایک بہت مضبوط اور خطرناک سرحدی قلعہ تھا۔ حضرت معاویہؓ نے قَیْسَارِیّہ پہنچ کر اس کا محاصرہ کر لیا۔ رومی کبھی اسلامی فوج پر حملہ کرتے لیکن شکست کھا کر پھر اپنے مورچوں میں واپس ہو جاتے۔ آخر کار جب محاصرہ طویل ہو گیا تو ایک دن مرنے مارنے کے ارادے سے نکلے لیکن شکست کھائی اور ایسی عبرت ناک شکست کھائی کہ میدانِ جنگ میں ان کے اسّی ہزار سپاہی مارے گئے اور یہ تعداد ہزیمت و فرار کے بعد ایک لاکھ تک پہنچ گئی۔ قَیْسَارِیّہ کی فتح اور اس کے لشکر کی تباہی کے بعد مسلمان اس طرف سے مطمئن اور محفوظ ہو گئے اور اس رستے سے رومیوں کو کمک کا سلسلہ رک گیا۔ حضرت معاویہؓ نے مالِ غنیمت کے خمس کے ساتھ فتح کی خبر حضرت عمرؓ کی خدمت میں بھجوائی۔
ایک اَور روایت میں ہے کہ حضرت امیر معاویہؓ نے بڑے سازو سامان سے محاصرہ کیا۔ شہر والے کئی دفعہ قلعہ سے نکل نکل کر لڑے لیکن ہر دفعہ شکست کھائی تاہم شہر پر قبضہ نہ ہو سکا۔ ایک دن ایک یہودی نے جس کا نام یوسف تھا، امیر معاویہ کے پاس آ کر ایک سرنگ کا نشان دیا جو شہر کے اندر اندر قلعہ کے دروازے تک گئی تھی۔ چنانچہ چند بہادروں نے اس راہ قلعہ کے اندر پہنچ کر دروازہ کھول دیا اور ساتھ ہی تمام فوج ٹوٹ پڑی اور فتح حاصل کی۔
حضرت عُبَادہ بن صَامِتؓ جو بدری صحابہ میں سے ہیں وہ بھی اس جنگ میں شامل تھے۔ ان کی بہادری کا واقعہ قَیْسَارِیّہ کی جنگ میں اس طرح ملتا ہے کہ قَیْسَارِیّہ کے محاصرے کے مقام پر حضرت عُبَادہ بن صَامِتؓ اسلامی فوج کے مَیْمَنَہ کے قائد تھے۔ آپؓ اپنی فوج کو نصیحت کرنے کھڑے ہوئے۔ انہیں گناہوں سے بچنے اور اپنا محاسبہ کرنے کا حکم دیا۔ پھر مجاہدین کا ایک ہجوم لے کر آگے بڑھے اور بہت سارے رومیوں کو قتل کیا لیکن اپنے مقصد میں اچھی طرح کامیاب نہ ہوئے۔ دوبارہ اپنی جگہ واپس آئے، اپنے ساتھیوں کو لڑنے مرنے پر جوش دلایا اور اپنے ساتھ اتنا بڑا ہجوم لے کر حملہ کرنے کے بعد بھی نامراد لَوٹنے پر کافی حیرت اور تعجب کا اظہار کیا اور کہا کہ اے اسلام کے پاسبانو! میں بیعت عقبہ میں شریک ہونے والے نقباء میں سے یعنی نقیبوں میں سے کم عمر تھا لیکن مجھے سب سے لمبی عمر ملی۔ اللہ نے میرے حق میں فیصلہ کیا کہ مجھے زندہ رکھا، یہاں تک کہ آج یہاں تمہارے ساتھ اس دشمن سے لڑ رہا ہوں۔ قَسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں نے مومنوں کی جماعت لے کر جب بھی مشرکوں کی جماعت پر حملہ کیا تو انہوں نے ہمارے لیے میدان خالی کر دیا یعنی ہماری جیت ہوئی اور اللہ نے ان پر ہمیں فتح دی۔ کیا بات ہے کہ تم نے ان پر حملہ کیا اور ان کو ہٹا نہ سکے۔ پھر اس کے بارے میں آپؓ کو جو اندیشہ لاحق تھا اسے ان لفظوں میں بیان کیا کہ مجھے تمہارے بارے میں دو چیزوں کا اندیشہ ہے یا تو تم میں سے کوئی خائن ہے یا جب تم نے حملہ کیا تو مخلص نہیں تھے۔ یا خائن ہو یا اس وقت اخلاص نہیں تھا جب حملہ کر رہے تھے۔ اس کے بعد آپ نے انہیں صدق دل سے شہادت مانگنے کی تلقین کی اور کہا کہ مَیں تم میں سب سے پیش پیش رہوں گا اور ہرگز پیچھے نہیں ہٹوں گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ فتح سے نواز دے یا شہادت کی موت عطا فرمائے۔ چنانچہ جب رومی اور مسلمان آپس میں ٹکرائے تو عُبَادہ بن صَامِتؓ اپنے گھوڑے سے کود کر پیدل ہو گئے۔ عُمَیر بن سعد انصاری نے آپؓ کو پیدل دیکھا تو امیر لشکر کے پیدل لڑنے کی بات مسلمانوں میں عام کردی اور کہا کہ سب لوگ انہی کی طرح ہو جائیں۔ چنانچہ سب نے رومیوں سے زبردست معرکہ آرائی کی اور انہیں پست کر دیا۔ بالآخر وہ بھاگ کر شہر میں قلعہ بند ہو گئے۔
جس طرح عربوں نے قَیْسَارِیّہ پر قبضہ کیا تھا اسی طرح غزہ بھی فتح کر لیا۔ عہد صدیقی میں بھی مسلمان ایک دفعہ غزہ پر قبضہ کر چکے تھے لیکن بعد میں انہیں وہاں سے نکال دیا گیا تھا۔ جب یہ دونوں سرحدی مقام مسلمانوں کے زیر اقتدار آ گئے تو حضرت عمرو بن عاصؓ کو سمندر کی طرف سے اطمینان ہو گیا۔ (سیدنا حضرت عمر فاروق اعظم از ہیکل صفحہ357-359 اسلامی کتب خانہ لاہور) (سیرت امیر المومنین عمر بن خطاب از الصلابی صفحہ735-736، 744-745 الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان) (الفاروق از شبلی نعمانی صفحہ140-141 دار الاشاعت کراچی 1991ء)
یہ قصہ، یہ واقعات ابھی مزید چل رہے ہیں۔ اس وقت میں بعض مرحومین کا ذکر بھی کرنا چاہتا ہوں۔ ان کے جنازے جمعہ کی نماز کے بعد پڑھاؤں گا۔ پہلا ذکر مکرمہ خدیجہ صاحبہ اہلیہ مکرم مولوی کے محمد علوی صاحب سابق مبلغ کیرالہ کا ہے جو گذشتہ دنوں اسّی سال کی عمر میں وفات پا گئی تھیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ان کے والد کنہیمحی الدین صاحب کیرالہ کے ابتدائی احمدیوں میں سے تھے اور مرحومہ کوبھی بہت چھوٹی عمر میں احمدیت میں داخل ہونے کی توفیق ملی۔ بڑی صابرہ شاکرہ، صوم و صلوٰۃ کی پابند، دیندار، غریب پرور، مہمان نواز اور قناعت پسند خاتون تھیں۔ مرحومہ کے شوہر مبلغ سلسلہ تھے۔ کئی کئی دن دوروں کی وجہ سے باہر رہتے تھے لیکن مرحومہ میں ہمیشہ شکرگزاری تھی۔ کبھی شکوہ نہیں کیا۔ پسماندگان میں دو بیٹے اور پانچ بیٹیاں شامل ہیں۔ مرحومہ موصیہ بھی تھیں۔ آپ کے بڑے بیٹے کے محمود صاحب مبلغ سلسلہ تھے جو 54 سال کی عمر میں گردے کے فیل ہونے کی وجہ سے وفات پا گئے تھے۔ ان کے چھوٹے بیٹے بھی معلم سلسلہ ہیں اور پانچوں بیٹیاں بھی مربیان سے بیاہی گئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔
اگلا ذکر ملک سلطان رشید خان صاحب کوٹ فتح خان کا ہے۔ یہ سابق امیر ضلع اٹک تھے۔ ملک سلطان رشید خان صاحب 23، 22 اگست کی درمیانی شب وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ ان کے والد کرنل ملک سلطان محمد خان صاحب نے تئیس سال کی عمر میں 1923ء میں حضرت مصلح موعودؓ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ اپنے خاندان میں اکیلے احمدی تھے۔ پھر ان کی شادی عائشہ صدیقہ صاحبہ جو چودھری فتح محمد صاحب سیالؓ کی بیٹی تھیں ان سے ہوگئی۔ حضرت مصلح موعودؓ نے ہی یہ شادی کروائی تھی۔ سلطان رشید صاحب کے دادا کا نام ملک سلطان سرخرو خان تھا۔ انہیں برطانوی بادشاہ کے دربار میں نمایاں مقام حاصل تھا۔ دربار میں کرسی دی جاتی تھی۔ انہیں اپنے بیٹے ملک سلطان محمد خان صاحب کے چار سال کے بعد احمدیت قبول کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔
ملک سلطان رشید خان صاحب کی جماعتی خدمات جو ہیں اس طرح ہیں کہ ان کو 96ء سے لے کر 99ء تک اور پھر 2005ء سے 2014ء تک امیر ضلع اٹک خدمت کی توفیق ملی۔ وفات کے وقت بھی کوٹ فتح خان کے صدر جماعت تھے۔ سابق گورنر مغربی پاکستان امیر محمد خان کے یہ رشتہ دار تھے لیکن وہ دنیاداری میں پڑا ہوا خاندان تھا اور ان کے والدنے احمدی ہونے کے بعد بالکل دنیا داری کو چھوڑا تو نہیں لیکن دنیا میں رہتے ہوئے دین کو مقدم کرنے والوں میں سے تھے اور یہی خصوصیت ملک سلطان رشید خان صاحب کی بھی تھی۔ انہوں نے پہلے شروع میں 10/1 حصہ کی وصیت کی۔ بعد میں 7/1 حصہ کی وصیت کر دی اور پھر حصہ جائیداد بھی ادا کیا۔ جائیداد پر میرا خیال ہے کہ شاید 10/1 حصہ کی وصیت تھی اور باقی آمد پر 7/1 حصہ کی۔ ان کی ہمشیرہ راشدہ سیال کہتی ہیں کہ خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے ایک دفعہ مجھے تحریر فرمایا کہ تمہارے ابا احمدیت کے لیے ایک ننگی تلوار تھے اور تمہارے بھائیوں میں بھی یہی رنگ پایا جاتا ہے۔ پھر ملک سلطان رشید صاحب کے بارے میں کہتی ہیں کہ ہمارے بھائی کا خلافت سے بہت ہی گہرا تعلق تھا۔ خلیفۃ المسیح کے ہر حکم کی فوری تعمیل بجا لاتے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے وہ خلافت کے معتبر خادم رہے اور کامل لگن کے ساتھ خدمات بجا لاتے رہے۔ روحانیت بھی ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ جب کوئی آپ کو دیکھتا تو محسوس کرتا کہ ان کا اس دنیاوی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بہت زیادہ عاجزی اختیار کرنے والے تھے۔ اللہ تعالیٰ سے اپنے تعلق کے بارے میں زیادہ باتیں نہیں کرتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ سے بہت تعلق تھا۔ ان کے دن اور رات ہر ایک کے لیے دعاؤں میں بھرے ہوئے تھے خواہ وہ دوست ہو یا رشتہ دار یا اجنبی۔ دوستوں، خاندان اور غیروں میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو کبھی ان کے دروازے سے خالی ہاتھ واپس گیا ہو۔ ان کی سخاوت کا کئی افرادنے ناجائز فائدہ بھی اٹھایا اور ان سے کسی کو بھی انکار نہیں ہوتا تھا۔
کہتی ہیں ایک خاتون میری بھانجی کے پاس آئی۔ وہ کہنے لگی کہ ان ضرورت مند گھروں کا کیا بنے گا جہاں صرف سلطان رشید صاحب کے پیسوں سے چولہے جل رہے تھے؟ یعنی کہ کھانا گزارہ ان کا سلطان رشید صاحب کی مدد سے ہوتا تھا۔ کہتی ہیں انہوں نے کس قدر سخاوت کا مظاہرہ کیا ہمیں اس کا حقیقی ادراک نہیں ہے۔ کہتی ہیں میری بھانجی نے ایک دن ان سے پوچھا کہ آپ جو لوگوں کی اتنی خدمت کرتے ہیں تو کیا لوگ اس کی قدر کریں گے اور یاد رکھیں گے تو آپ نے کہا کہ شاید مجھے یادنہ رکھیں لیکن میری نیت صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے سے راضی ہو جائے۔ ان کی ایک بہن نعیمہ صاحبہ کہتی ہیں: میرے بھائی میں تبلیغ کا بہت جذبہ تھا۔ کئی سعید روحوں کی ہدایت کا باعث بنے۔ ہر آنے جانے والے کے ساتھ تبلیغ کا موقع نکال لیتے تھے۔ غیرازجماعت دوست اکثر شام کو آ جاتے اور گھنٹوں وفات مسیح پر بحث ہوتی حالانکہ اس میں خطرہ بھی تھا۔ عبادت کے ذوق و شوق کا بھی عجیب رنگ تھا۔ عام طور پر کمرہ بند کر کے تنہائی میں اپنے رب سے راز و نیاز کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے رؤیا اور کشوف سے بھی انہیں نوازا۔ ایک دفعہ ایبٹ آباد میں گرمیوں کے لیے گئے۔ اچانک ایک مالی پریشانی سے دوچار ہو گئے۔ دعا کے سوا کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ کہتی ہیں کہ صبح سیر کے لیے گھنے درختوں کے ایک جھنڈ کے پاس سے گزرے تو ایک بلند اور صاف آواز آئی۔ لَاتَقْنَطُوْا مِنْ رَحْمَۃِ اللّٰہِ۔
زبیری صاحب سابق امیر ضلع اٹک کی بیگم نے ان کی ہمشیرہ کو بتایا، کہتی ہیں کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے زمانے میں ضلعی میٹنگ کے لیے ان کے ہاں مقیم تھے تو چہرے پر کچھ کچھ پریشانی سی تھی۔ وجہ پوچھنے پر بتایا کہ ایک تقریر کرنی ہے لیکن تیاری بالکل نہیں ہو سکی۔ دوسرے دن صبح بڑے ہشاش بشاش تھے۔ ناشتے کے لیے آئے تو کہنے لگے کہ رات حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ خواب میں آئے اور ساری تقریر کچھ ہی دیرمیں انہوں نے لکھوا دی۔ الحمد للہ میری تقریر تیار ہو گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ پر توکل کا یہ عالم تھا کہ گاؤں میں تنِ تنہا دشمن میں گھرے ہوئے کمال اطمینان سے سالہا سال زندگی بسر کی۔ نہ کوئی ڈر تھا نہ گھبراہٹ۔ بےحد بہادر تھے۔ کہتے تھے حکم الٰہی کے بغیرتو پتہ بھی نہیں ہل سکتا۔ ایک دفعہ ان کے ملازم نے کسی سوالی کو واپس کرنا چاہا تو اسے سمجھایا کہ اگر اللہ تعالیٰ مجھے کسی کا وسیلہ بنانا چاہتا ہے تو اس کو لوٹانے والا میں کون ہوتا ہوں۔ ہر قسم کی علمی گفتگو کی مہارت رکھتے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا کئی بار مطالعہ کر چکے تھے۔ ماشاء اللہ جامع خصوصیات کے حامل وجود تھے۔ پابند صوم و صلوٰۃ، تہجد گزار، دعا گو اور نہایت حکیمانہ انداز میں بات کرنے والے انسان تھے اور ہر بات کو تبلیغ پر ختم کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔
اگلا ذکر مکرم عبدالقیوم صاحب انڈونیشیا کا ہے۔ 25؍ اگست کو ان کی بیاسی سال کی عمر میں وفات ہوئی اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ یہ مولانا عبدالواحد صاحب سماٹری مرحوم جو غیر ہندوستانی پاکستانی پہلے مبلغ تھے ان کے بیٹے تھے۔ انڈونیشیا کے ایک مشہور ٹیکنیکل سکول سے انہوں نے کیمیکل انجنیئرنگ میں بیچلرز کی ڈگری حاصل کی۔ پھر سرکاری سکالر شپ پر اعلیٰ تعلیم کے لیے فرانس گئے اور پٹرولیم اکنامکس میں وہاں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ پھر منسٹری آف انرجی اور منرل ریسورسز (Ministry of Energy and Mineral Resources) میں ملازم ہوئے۔ وہاں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔ ریٹائرڈ ہونے کے باوجود اپنی فیلڈ کے ماہر کے طور پر ان سے کام لیا جاتا تھا۔ پھر تہتر سال کی عمر میں بڑی محنت سے انہوں نے یونیورسٹی آف انڈونیشیا سے کیمیکل انجنیئرنگ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کر لی۔ موصوف نے ملک کے لیے بھی بہت نمایاں کارنامے سرانجام دیے ہیں۔ 73ء میں انہوں نے گورنمنٹ کو لیکیوفائڈ نیچرل گیس (Liquified Natural Gas) کے بارے میں ایک فارمولا تجویز کیا اور کہتے ہیں اس وقت سے یعنی 1974ء سے لے کے 2000ء تک حکومت کو اس کی وجہ سے ایک سو دس بلین ڈالرز کا منافع ہوا۔ بہرحال احمدی تو ہر جگہ ملک و قوم کی خدمت کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتا ہے لیکن انڈونیشیا میں بھی ملّاں کے زیر اثر بعض علاقوں میں احمدیت کی مخالفت بہت زیادہ ہو جاتی ہے لیکن پھر بھی ہمارا کام تو یہی ہے کہ ملک سے وفادار رہیں۔ ان کو سول سرونٹ (Civil Servant)کے لیے ملک کا سب سے اعلیٰ ایوارڈ بھی ملا۔ 2005ء میں دوسرا بڑا ایوارڈ ملا جو انڈونیشین گورنمنٹ فوج سے باہر شعبہ میں بہت زیادہ نمایاں کارنامہ سرانجام دینے والوں کو دیتی ہے اور ان کے جو ہیروز ہوتے ہیں ان کو ایک قبرستان میں جہاں ایک ملٹری ceremony ہوتی ہے اس میں دفن کیا جاتا ہے۔ بہرحال مرحوم نے کیونکہ وہاں دفن نہیں ہونا تھا اس لیے ان کی وفات پر جو ملٹری سرمنی (ceremony) تھی وہ اب مقبرہ موصیان پارونگ (Parung) میں منعقد ہوئی اور وہاں ان کو اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا۔
بہت پیار کرنے والے تھے اور اپنے بہن بھائیوں کا بہت خیال رکھتے تھے۔ ان کے والدنے نصیحت کی تھی کہ بہن بھائیوں کا خیال رکھنا اور ہمیشہ اس پر انہوں نے عمل کیا۔ مربیان اور واقفین زندگی کے ساتھ نہایت عزت و احترام سے پیش آتے تھے۔ ان کے چھوٹے بھائی باسط صاحب مربی سلسلہ بھی ہیں اور انڈونیشیا کے امیر جماعت بھی ہیں۔ ماتحتوں کے ساتھ بھی ان کا بڑا اچھا سلوک ہوتا تھا۔ ان کے ایک ماتحت نے کہا کہ نو سال کی عمر سے میں مرحوم کی زیرِکفالت رہا ہوں، سکول کی فیس وغیرہ کی ضروریات مرحوم نے ہی ادا کیں۔ اچھے سلوک کی وجہ سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پڑھنے کے بعد میں نے بھی بیعت کر لی۔ مرحوم کی مہربانی اور سخاوت بہت اعلیٰ درجہ کی تھی۔ ہمیشہ لوگوں کے ساتھ ایک جیسا سلوک کرتے۔ کبھی اپنے آپ پر فخر نہیں کیا اور نہ ہی اپنے عہدے پر فخر کیا۔ سرکاری گیس کمپنی میں ان کے سابق کارکن تھے وہ کہتے ہیں بہت ہی ذہین، ثابت قدم اور محنتی تھے۔ موصوف بہت ہی مشہور اور بڑے افسر تھے لیکن اس کے باوجود بہت ہی عاجزی رکھنے والے تھے۔ خلافت سے اور جماعت سے نہایت محبت کرنے والے تھے۔ جب بھی جماعت کو قربانی کی ضرورت ہوتی یا مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تو وہ نہایت خلوص دل سے مدد کرتے تھے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ جب انڈونیشیا گئے ہیں تو انہوں نے ان کے گھر میں ہی قیام فرمایا تھا اور سرکاری ملازم کی حیثیت سے کام کرتے ہوئے مرحوم نے یہ کبھی نہیں چھپایا کہ وہ احمدی ہیں اور نہ بعد میں۔ حالانکہ مخالفت تو بعد میں زیادہ شروع ہو گئی تھی لیکن کبھی اپنا احمدی ہونا نہیں چھپایا۔ اپنے دوستوں کو تبلیغ کرنے میں مستعد تھے اور ایک معروف احمدی شخصیت کے طور پر جانے جاتے تھے۔ ایک دفعہ ایک بجلی کمپنی کے سی ای او نے وزیر کو کہا کہ ڈیم کا پانی کم ہو رہا ہے اور کچھ عرصہ تک یہی حال رہا تو بجلی بند کرنی پڑے گی۔ تو منسٹر صاحب کو ان کی دعاؤں پہ کچھ یقین تھا۔ انہوں نے کہا کہ قیوم صاحب کے پاس جاؤ۔ تو یہ قیوم صاحب کے پاس آئے کہ میری مدد کریں تو انہوں نے کہا اچھا میری مدد! تم نے میرے سے مدد لینی ہے تو میرے ذریعہ سے پھر خلیفۃ المسیح کو، ہمارے امام کو خط لکھو اور اس نے یہ خط لکھا کہ دعا کریں یہ ہو جائے۔ کہتے ہیں منگل کو یہ خط انہوں نے دیا اور اگلے دن ہی موسلادھار بارش ہو گئی اور ڈیم بھر گیا۔
جماعت کے لیے ان کی خدمات یہ ہیں کہ پارونگ میں ہیڈ کوارٹر کمپلیکس کی تعمیر میں کئی رکاوٹوں کا سامنا تھا۔ اس وقت کے رئیس التبلیغ محمود چیمہ صاحب تھے۔ اُنہوں نے ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ فکرنہ کریں۔ مالی معاملات میں کوئی روک تھی، رقم کی کمی تھی۔ انہوں نے کہا کہ میں سارا خرچ ادا کروں گا اور سارا خرچ ادا کیا اور دو سالوں کے اندر ایک بڑی مسجد وہاں بن گئی۔ مرکزی گیسٹ ہاؤس اور مبلغین کے کوارٹرز کی تعمیر کا زیادہ تر حصہ بھی انہوں نے ادا کیا۔ چار عدد کوارٹرز کے سو فیصد تعمیراتی اخراجات مرحوم کی طرف سے تھے۔ ایم ٹی اے انڈونیشیا کے ابتدائی دنوں میں قریباً تمام اخراجات مرحوم اور ان کی اہلیہ نے برداشت کیے۔ مغربی جکارتہ میں واقع سٹوڈیو کے لیے ان کا گھر استعمال کیا جاتا تھا۔ کارکنان کے الاؤنس کی ادائیگی کے اخراجات بھی مرحوم کی طرف سے تھے۔ انڈونیشیا میں ہومیو پیتھی کے ابتدائی دنوں میں ادویات سے لے کر کلینک کی جگہ تک کے تمام اخراجات مرحوم کی فیملی نے برداشت کیے۔ واحد سینئر ہائی سکول کے ابتدائی تعمیراتی اخراجات بھی مرحوم کے خاندان کے عطیات سے آئے۔ اس میں زیادہ تر حصہ انہی کا ہوتا تھا۔ قادیان میں انڈونیشین گیسٹ ہاؤس سرائے ایوب جو زیرِ تعمیر ہے اس کے لیے بھی انہوں نے نمایاں مالی قربانی کی۔ مرحوم نے مرکز کے گرد کافی زمین خریدی۔ پھر رہائش کے لیے جماعت کو دے دی۔ معصوم احمد صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ انڈونیشیا لکھتے ہیں کہ بعض دفعہ جب میٹنگ ہوتی تھی توعاملہ میں بڑی لمبی بحث چل جاتی تھی۔ لیکن امیر صاحب جو ان کے چھوٹے بھائی بھی ہیں اگر وہ کہتے تھے کہ اب اس معاملے کو ختم کریں تو فوری طور پر چپ ہو جاتے تھے اور اپنی مزید رائے نہیں دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔
اگلا ذکر مکرم داؤدہ رزاقی یونس (Daouda Razaki Younus)صاحب بینن کا ہے۔ 27؍ اگست کو چوہتر سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ مرحوم بینن کے پہلے احمدیوں میں سے تھے۔ اپنے گھر میں اکیلے احمدی تھے۔ 1967ء میں اپنے بڑے بھائی ذکر اللہ داؤد صاحب مرحوم جو بینن کے سب سے پہلے احمدی تھے ان کے ذریعہ احمدیت قبول کی۔ ان کے بیوی بچے احمدی نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی توفیق دے۔
میاں قمر احمد امیرو مشنری انچارج لکھتے ہیں کہ فوت ہونے سے چند دن قبل قبولیت احمدیت کا واقعہ مجھے بتایا کہ جب میرے بڑے بھائی ذکر اللہ داؤدا جو نائیجیریا میں احمدیت قبول کرچکے تھے ان کے احمدیت قبول کرنے کی خبر ملی اور ساتھ ہی لوگوں کی احمدیت کے بارے میں طرح طرح کی باتیں سنیں تو مَیں ان کو ملنے گیا۔ میں نے ان کو اَلَیْسَ اللّٰہُ کی انگوٹھی پہنے دیکھی تو میں نے فوراً اپنے بڑے بھائی سے پوچھا کہ یہ انگوٹھی کیسی پہن رکھی ہے اور آپ کے مذہب میں اس کی کیا حیثیت ہے؟ تو انہوں نے بتایا کہ اس پر قرآن مجید کی آیت لکھی ہے۔ اس کا مطلب ہے کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں اور جماعت احمدیہ کے بانی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے ہمیں یہی تعلیم دی ہے۔ پھر کہتے ہیں میں نے بھائی سے پوچھا کہ کیا احمدیت اسلام سے کوئی مختلف مذہب ہے؟ انہوں نے بتایا کہ ہم یہ کہتے ہیں کہ جس امام کا تم انتظار کر رہے ہو وہ آ گیا ہے اور یہی سچا اسلام ہے۔ پھر کہتے ہیں اس بات کو سن کے میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ کیا اور اسلامی اصول کی فلاسفی کا مطالعہ کیا اور میں نے احمدیت قبول کر لی۔
بینن کے پڑھے لکھے احمدیوں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ فرانس سے بزنس مینجمنٹ میں انہوں نے ماسٹرز کیا۔ بینن کے بجلی اور پانی کے نیشنل ڈائریکٹر کے عہدے سے ریٹائرڈ ہوئے۔ نہایت بارعب، باریش، باوقار شخصیت تھے۔ نمازوں کے پابند، تہجد گزار، ایک نیک اور مخلص انسان تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء سے بے پناہ محبت تھی۔ ان کی کتب کا مطالعہ آپ کا معمول تھا۔ بہت سے جماعتی عہدوں پر فائزرہے اور جماعت بینن کے لیے آپ کی بہت سی خدمات ہیں۔ یہ وہاں پہلے چیئرمین ہیومینٹی فرسٹ تھے۔ شروع سے اس عہدے پر رہے۔ یہ میڈیکل کیمپس لگایا کرتے تھے اور خود ڈاکٹرز کے ساتھ جا کر سارا سارا دن بغیر کچھ کھائے انسانی خدمت میں مصروف رہتے تھے۔
ڈاکٹر قمر احمد علی صاحب کہتے ہیں کہ مجھے بینن میں بطور ڈاکٹر خدمت کی توفیق ملی وہ کہتے ہیں کہ میڈیکل کیمپس کے دوران خواہ تھکاوٹ ہوتی یا سفر کی وجہ سے لیٹ سوتے، ہمیشہ میں نے ان کو رات کو لمبی تہجد پڑھتے دیکھا ہے۔ جب بھی آنکھ کھلی ان کو تہجد پڑھتے دیکھا۔ مظفر احمد صاحب ظفر مبلغ سلسلہ کہہ رہے ہیں کہ جب بھی کوئی تقریر کرتے تو بڑے ہی درد کے ساتھ شرائط بیعت پر عمل کرنے کی تلقین کرتے اور کہتے ہیں خاکسار کو کہا کرتے تھے کہ جب تک ہر احمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس الہام یعنی اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ کو نہیں سمجھتا تو وہ مادیت پرست ہے۔
پھر امیر صاحب لکھتے ہیں کہ 2006ء میں جماعت کو تیس ایکڑ کا ایک قطعہ عنایت کیا۔ کہتے ہیں کہ 2021ء میں مَیں نے خواہش ظاہر کی کہ بینن میں مدرسۃ الحفظ کی بلڈنگ بنوا کر جماعت کو تحفہ پیش کریں تو انہوں نے بڑا مسکرا کر کہا کہ ان شاء اللہ، اور یہ شروع بھی ہو گیا ہے۔ کہا کرتے تھے کہ اگر جماعت کے بچے پڑھ لکھ جائیں تو بینن کی جماعت افریقہ کی بڑی جماعتوں میں سے ہو گی۔ آپ بچوں کو جماعت کی قیمتی کتابیں بطور انعام دیا کرتے تھے۔ یتیم خانہ بیت الاکرام میں گئے تو ڈاکٹر ولید صاحب جو وہاں کے انچارج ہیں ان کو نصیحت کی کہ ان بچوں کی صحت اور سیکیورٹی کا بہت خیال رکھیں کیونکہ یہ ہماری جماعت اور قوم کے بچے ہیں اور ہم سب ان کے والدین ہیں اور دعائیں بھی دیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے، ان سب کے درجات بلند فرمائے۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ نماز کے بعد ان کے جنازہ غائب ادا کروں گا۔
(الفضل انٹرنیشنل 01؍اکتوبر2021ءصفحہ 5تا10)
اے اسلام کے پاسبانو! میں بیعت عقبہ میں شریک ہونے والے نقباء میں سے کم عمر تھا لیکن مجھے سب سے لمبی عمر ملی۔ ……قَسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!
میں نے مومنوں کی جماعت لے کر جب بھی مشرکوں کی جماعت پر حملہ کیا تو انہوں نے ہمارے لیے میدان خالی کر دیا اور اللہ نے ان پر ہمیں فتح دی۔ (حضرت عُبَادہ بن صَامِتؓ )
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد فاروقِ اعظم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ۔
دوسرےمفتوحہ علاقوں کی طرح یہاں (قنسرین)کے لوگوں سے بھی بہتر سلوک کیا گیا اور صحیح مساوات کی بنیاد پر ان کے درمیان عدل قائم کیا گیا جس میں کوئی طاقتور کسی بھی کمزور پر ظلم و جبر نہیں کر سکتا تھا۔
دِمَشْق کی فتح کے بعد پیش آمدہ واقعات، فحل، بیسان، طبریہ، حمص، مرج الروم، حماۃ، لاذقیہ، قنسرین اور قیساریہ کی فتوحات کا تفصیلی بیان۔
چار مرحومین مکرمہ خدیجہ صاحبہ اہلیہ مکرم مولوی کے محمد علوی صاحب سابق مبلغ کیرالہ، مکرم ملک سلطان رشید خان صاحب آف کوٹ فتح خان سابق امیر ضلع اٹک، مکرم عبدالقیوم صاحب انڈونیشیااور مکرم داؤدہ رزاقی یونس صاحب بینن کا ذکرِ خیر اور نماز ِجنازہ غائب
فرمودہ 10؍ستمبر2021ء بمطابق 10؍تبوک1400 ہجری شمسی، بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔