حضرت عمر بن خطابؓ
خطبہ جمعہ 8؍ اکتوبر 2021ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے کی فتوحات کا ذکر ہوا تھا۔ حضرت عمرؓ کی سیرت و سوانح لکھنے والے ایک سیرت نگار علامہ شبلی نعمانی حضرت عمرؓ کی فتوحات اور اس کے اسباب اور عوامل کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ایک مؤرخ کے دل میں فوراً یہ سوالات پیدا ہوں گے کہ چند صحرا نشینوں نے کیونکر فارس اور روم کا تختہ الٹ دیا؟
کیا یہ تاریخ عالم کا کوئی مستثنیٰ واقعہ تھا؟ (استثنائی واقعہ تھا؟) آخر اس کے اسباب کیا تھے؟ کیا ان واقعات کو سکندر اور چنگیز خان کی فتوحات سے تشبیہ دی جا سکتی ہے؟ جو کچھ ہوا، اس میں فرمانروائے خلافت کا کتنا حصہ تھا؟ یہ کہتے ہیں کہ ہم اس موقع پر انہی سوالات کا جواب دینا چاہتے ہیں لیکن اجمال کے ساتھ پہلے یہ بتا دینا ضروری ہے کہ فتوحات فاروقی کی وسعت اور اس کے حدود اربعہ کیا تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقبوضہ ممالک کا کل رقبہ بائیس لاکھ اکاون ہزار تیس مربع میل تھا۔ یعنی مکہ مکرمہ سے شمال کی جانب دس سو چھتیس میل، مشرق کی جانب دس سو ستاسی میل اور جنوب کی جانب چارسوتراسی میل تھا۔ یہ تمام فتوحات خاص حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فتوحات ہیں اور اس کی تمام مدت دس برس سے کچھ ہی زیادہ ہے۔ یہ پس منظر جو بیان ہوا ہے جس کو تاریخ کے حوالے سے مَیں بیان کرنے لگا ہوں یہ اس لیے ہے کہ ان فتوحات کو سمجھنے کے لیے اس بات کا جاننا بھی ضروری ہے۔ بہرحال میں بیان کرتا ہوں کہ یورپین مؤرخین کی ان فتوحات کے بارے میں کیا رائے ہے۔ پہلے سوال کا جواب یورپین مؤرخوں نے یہ دیا ہے کہ اس وقت فارس اور روم دونوں سلطنتیں اوجِ اقبال سے گر چکی تھیں جو ان کا انتہا تھی وہاں تک وہ پہنچ چکی تھیں اور قانونِ قدرت ہے کہ انہوں نے نیچے گرنا ہی تھا۔ پھر کہتے ہیں کہ فارس میں خسرو پرویز کے بعدنظامِ سلطنت بالکل درہم برہم ہو گیا تھا کیونکہ کوئی لائق شخص جو حکومت کو سنبھال سکتا ہو موجودنہ تھا۔ دربار کے عمائدین اور ارکان میں سازشیں شروع ہو گئی تھیں اور انہی سازشوں کی بدولت تخت نشینوں میں ادل بدل ہوتا رہتا تھا۔ چنانچہ تین چار برس کے عرصہ میں ہی عنان حکومت چھ سات فرمانرواؤں کے ہاتھ میں آئی اور نکل گئی۔ یورپین مؤرخین یہ کہتے ہیں کہ ایک اَور وجہ یہ ہوئی کہ نوشیرواں سے کچھ پہلے مُزْدَکِیَہ فرقہ کا بہت زور ہو گیا تھا جو الحاد اور زندقہ کی طرف مائل تھا۔ اس فرقہ کے عقائد یہ تھے کہ لوگوں کے دلوں سے لالچ اور دیگر اختلافات کو دور کر دیا جائے اور عورت سمیت تمام مملوکات کو مشترکہ ملکیت قرار دیا جائے یعنی عورت کی بھی کوئی عزت نہیں تھی تا کہ مذہب پاک اور صاف ہو جائے۔ یہ نظریہ تھا ان کا اور بعض کے نزدیک یہ معاشرتی تحریک تھی جس کا مقصد زرتشتی مذہب کو مصفّٰی کرنا تھا۔ نوشیرواں نے گو تلوار کے ذریعہ اس مذہب کو دبا دیا تھا لیکن بالکل اس کو مٹا نہ سکا۔ اسلام کا قدم جب فارس میں پہنچا تو اس فرقے کے لوگوں نے مسلمانوں کو اس حیثیت سے اپنا پشت پناہ سمجھا کہ وہ کسی مذہب اور عقائد سے تعرض نہیں کرتے تھے۔ یہ یورپین مؤرخین کا نظریہ ہے۔
پھر وہ لکھتے ہیں کہ عیسائیوں میں نَسْطُوری فرقہ (Nestorian)جس کو اَور کسی حکومت میں پناہ نہیں ملتی تھی وہ اسلام کے سائے میں آ کر مخالفوں کے ظلم سے بچ گیا۔ اس طرح مسلمانوں کو دو بڑے فرقوں کی ہمدردی اور اعانت مفت میں ہاتھ آ گئی۔ روم کی سلطنت خود کمزور ہو چکی تھی۔ اس کے ساتھ عیسائیت کے باہمی اختلافات ان دنوں زوروں پر تھے اور چونکہ اس وقت تک مذہب کو نظام حکومت میں دخل تھا اس لیے اس اختلاف کا اثر مذہبی خیالات تک محدودنہ تھا بلکہ اس کی وجہ سے خود سلطنت کمزور ہوتی جاتی تھی۔ علامہ اس موقف کی تردید کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں جو یورپین مؤرخین کی رائے ابھی بیان ہوئی ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ جواب گو واقعیت سے بالکل خالی نہیں ہے لیکن جس قدر واقعیت ہے اس سے زیادہ طرزِ استدلال کی ملمع سازی ہے جو یورپ کا خاص انداز ہے۔ بے شبہ اس وقت فارس اور روم کی سلطنتیں اصلی عروج پر نہیں رہی تھیں لیکن اس کا صرف اس قدر نتیجہ ہو سکتا تھا کہ وہ پُرزور قوی سلطنت کا مقابلہ نہ کر سکتیں نہ یہ کہ عرب جیسی بے سروسامان قوم سے ٹکرا کر پرزے پرزے ہو جاتیں۔ روم اور فارس فنون جنگ میں ماہر تھے۔ یونان میں خاص قواعدِ حرب پر جو کتابیں لکھی گئی تھیں اور جو اَب تک موجود ہیں رومیوں میں ایک مدت تک اس کا عملی رواج رہا۔ اس کے ساتھ رسد کی فراوانی تھی۔ سروسامان کی بہتات تھی۔ آلات جنگ کا تنوع تھا۔ مختلف قسم کی چیزیں تھیں۔ فوجوں کی کثرت میں کمی نہیں آئی تھی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کسی ملک پر چڑھ کر جانا نہ تھا بلکہ اپنے ملک میں اپنے قلعوں میں اپنے مورچوں میں رہ کر اپنے ملک کی حفاظت کرنی تھی۔ مسلمانوں کے حملے سے ذرا ہی پہلے خسرو پرویز کے عہد میں جو ایران کی شان و شوکت کا عین شباب تھا قیصرِ روم نے ایران پر حملہ کیا اور ہر ہر قدم پر فتوحات حاصل کرتا ہوا اصفہان تک پہنچ گیا۔ شام کے صوبے جو ایرانیوں نے چھین لیے تھے واپس لے لیے اور نئے سرے سے نظم و نسق قائم کیا۔ ایران میں خسرو پرویز تک عموماً مسلّم ہے کہ سلطنت کو نہایت جاہ و جلال تھا۔ خسرو پرویز کی وفات سے اسلامی حملے تک صرف تین چار برس کی مدت ہے۔ اتنے تھوڑے عرصہ میں ایسی قوم اور قدیم سلطنت کہاں تک کمزور ہو سکتی تھی۔ البتہ تخت نشینوں کی ادل بدل سے نظام میں فرق آ گیا تھا لیکن چونکہ سلطنت کے اجزا یعنی خزانہ، فوج اور محاصل میں کوئی کمی نہیں آئی تھی اس لیے جب یزد گرد تخت نشین ہوا اور درباریوں نے اصلاح کی طرف توجہ کی تو فوراً نئے سرے سے وہی ٹھاٹھ قائم ہو گئے۔ مُزْدَکِیَہ فرقہ گو ایران میں موجود تھا لیکن ہمیں تمام تاریخ میں ان سے کسی قسم کی مدد ملنے کا حال معلوم نہیں ہوتا۔ یعنی مسلمانوں کو کوئی مدد ملی ہو۔ اسی طرح فرقہ نسطوری کی کوئی اعانت ہمیں معلوم نہیں۔ نَسْطُوری عیسائیوں کا ایک فرقہ ہے جس کا عقیدہ تھا کہ حضرت عیسیٰ کی ذات میں الوہیت اور بشریت دونوں علیحدہ علیحدہ پائی جاتی تھیں۔ عیسائیت کے اختلافِ مذہب کا اثر بھی کسی واقعہ پر خود یورپین مؤرخوں نے کہیں نہیں بتایا۔
اب عرب کی حالت دیکھو۔ تمام فوجیں جو مصر اور ایران اور روم کی جنگ میں مصروف تھیں ان کی مجموعی تعداد کبھی ایک لاکھ تک نہ پہنچی۔ فنونِ جنگ سے واقفیت کا یہ حال تھا کہ یرموک پہلا معرکہ ہے جس میں عرب نے تَعْبِیَہْ کی طرز پر صف آرائی کی۔ تَعْبِیَہْ جنگ کے وقت فوج کی ایسی ترتیب جس میں سپہ سالار یا بادشاہ جو لشکر کی کمان کرتا ہے تمام فوج کے درمیان میں کھڑا ہوتا ہے۔ اس کو ترتیبِ تَعْبِیَہْ کہتے ہیں۔ خَود، زِرہ، چِلْتَہ (لوہے یا فولاد کی پوشاک) جَوشَنْ (زرہ کی ایک قسم) بکتر، چار آئینہ(فولاد کی چار پلیٹیں جو سینے اور پشت اور دونوں رانوں پر باندھی جاتی تھیں ) آہنی دستانے، جِہْلَم (خود پر لگی ہوئی لوہے کی کڑیاں یا نقاب) موزے جو ہر ایرانی سپاہی کا لازمی ملبوس جنگ تھا۔ اس میں سے عربوں کے پاس صرف زرہ تھی اور وہ بھی اکثر چمڑے کی ہوتی تھی۔ ان کا یہ سارا پروٹیکشن (protection)کا سامان لوہے کا تھا اور عربوں کے پاس اگر کچھ چھوٹا موٹا تھا بھی تو وہ چمڑے کا تھا۔ رکاب لوہے کی بجائے لکڑی کی ہوتی تھی۔ آلات جنگ میں گُرز اور کَمَند سے عرب بالکل آشنا نہیں تھے۔ گرز ایک ہتھیار کا نام ہے جو اوپر سے گول اور موٹا ہوتا ہے اور نیچے دستہ لگا ہوتا ہے اور دشمن کے سر پر مارتے ہیں۔ کمند پھندہ یا جال یا رسی۔ عربوں کے پاس تیر تھے لیکن ایسے چھوٹے اور کم حیثیت تھے کہ قادسیہ کے معرکے میں ایرانیوں نے جب پہلے پہل عربوں کے ان تیروں کو دیکھا تو سمجھا کہ تکلے یا سوئے ہیں۔ مصنف علامہ صاحب ان کے اصلی اسباب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ہمارے نزدیک اس سوال کا اصلی جواب صرف اس قدر ہے کہ مسلمانوں میں اس وقت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بدولت جو جوش، عزم، استقلال، بلند حوصلگی، دلیری پیدا ہو گئی تھی اور جس کو حضرت عمرؓ نے اَور زیادہ قوی اور تیز کر دیا تھا۔
روم اور فارس کی سلطنتیں عین عروج کے زمانے میں بھی اس کی ٹکر نہیں اٹھا سکتی تھیں۔ البتہ اس کے ساتھ اور چیزیں بھی مل گئی تھیں جنہوں نے فتوحات میں نہیں بلکہ قیام حکومت میں مدد دی۔ اس میں سب سے مقدم چیز مسلمانوں کی راست بازی اور دیانت داری تھی۔ جو ملک فتح ہوتا تھا وہاں کے لوگ مسلمانوں کی راست بازی سچائی کے اس قدر گرویدہ ہو جاتے تھے کہ باوجود اختلافِ مذہب کے ان کی سلطنت کا زوال نہیں چاہتے تھے۔ یرموک کے معرکے سے قبل جنگ کے لیے جب مسلمان شام کے اضلاع سے نکلے تو تمام عیسائی رعایا نے پکارا کہ خدا تم کو پھر اس ملک میں لائے اور یہودیوں نے توریت ہاتھ میں لے کر کہا کہ ہمارے جیتے جی قیصر اب یہاں نہیں آ سکتا۔ رومیوں کی حکومت جو شام اور مصر میں تھی وہ بالکل جابرانہ تھی اس لیے رومیوں نے جو مقابلہ کیا وہ سلطنت اور فوج کے زور سے کیا، رعایا ان کے ساتھ نہیں تھی۔ مسلمانوں نے جب سلطنت کا زور توڑا تو آگے مطلع صاف تھا، کوئی روک نہیں تھی۔ یعنی رعایا کی طرف سے کسی قسم کی مزاحمت نہیں ہوئی۔ البتہ ایران کی حالت اس سے مختلف تھی۔ وہاں سلطنت کے نیچے بہت سے بڑے بڑے رئیس تھے جو بڑے بڑے اضلاع اور صوبوں کے مالک تھے وہ سلطنت کے لیے نہیں بلکہ خود اپنی ذاتی حکومت کے لیے لڑتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ پایہ تخت کے فتح کرلینے پر بھی فارس میں ہر قدم پر مسلمانوں کو مزاحمتیں پیش آئیں لیکن عام رعایا وہاں بھی مسلمانوں کی گرویدہ ہوتی جاتی تھی اور اس لیے فتح کے بعد بقائے حکومت میں ان سے بہت مدد ملتی تھی۔ حکومت کے قیام میں مدد ملتی تھی۔ ایک اَور بڑا سبب یہ تھا کہ مسلمانوں کا اوّل اوّل حملہ شام اور عراق پر ہوا اور دونوں مقامات پر کثرت سے عرب آباد تھے۔ شام میں دمشق کا حاکم غسّانی خاندان تھا جو برائے نام قیصر کا محکوم تھا۔ عراق میں لَخْمِی خاندان والے دراصل ملک کے مالک تھے گو کسریٰ کو خراج کے طور پر کچھ دیتے تھے۔ ان عربوں نے اگرچہ اس وجہ سے کہ عیسائی ہو گئے تھے اوّل اوّل مسلمانوں کا مقابلہ کیا لیکن قومی اتحاد کا جذبہ رائیگاں نہیں جا سکتاتھا۔ عراق کے بڑے بڑے رئیس بہت جلد مسلمان ہو گئے اور مسلمان ہو جانے پر وہ مسلمانوں کے دست و بازو بن گئے۔ شام میں آخر عربوں نے اسلام قبول کر لیا اور رومیوں کی حکومت سے آزاد ہو گئے۔
سکندر اور چنگیز وغیرہ کا نام لینا یہاں بالکل بے موقع ہے۔بے شبہ ان دونوں نے بڑی بڑی فتوحات حاصل کیں لیکن کس طرح؟ قہر، ظلم اور قتلِ عام کی بدولت۔ چنگیز کا حال تو سب کو معلوم ہے۔ سکندر وغیرہ کی فتوحات کا اگر موازنہ کریں تو سکندر کی یہ کیفیت ہے کہ جب اس نے شام کی طرف شہر صُوْرکو فتح کیا تو چونکہ وہاں کے لوگ دیر تک جم کر لڑے تھے اس لیے قتل عام کا حکم دیا اور ایک ہزار شہریوں کے سر شہر پناہ کی دیوار پر لٹکا دیے گئے۔ جو فصیل تھی اس پر لٹکا دیے۔ اس کے ساتھ تیس ہزار باشندوں کو لونڈی غلام بنا کر بیچ ڈالا۔ جو لوگ قدیم باشندے اور آزادی پسند تھے ان میں سے ایک شخص کو بھی زندہ نہیں چھوڑا۔ اسی طرح فارس میں جب اِصْطَخْر (اِصْطَخْر فارس کے قدیم شہروں میں سے تھا اس) کو فتح کیا تو تمام مردوں کو قتل کر دیا۔ اسی طرح کی اَور بھی بے رحمیاں اس کے کارناموں میں مذکور ہیں یعنی سکندر کے کارناموں میں۔ پھر اسلامی فتوحات سے اس کا کس طرح موازنہ ہو سکتاہے۔ عام طور پر مشہور ہے کہ ظلم اور ستم سے سلطنت برباد ہو جاتی ہے۔ یہ اس لحاظ سے صحیح ہے کہ ظلم کی بقا نہیں۔ چنانچہ سکندر اور چنگیز کی سلطنتیں بھی دیرپا نہ ہوئیں لیکن فوری فتوحات کے لیے اسی قسم کی سفاکیاں کارگر ثابت ہوئی ہیں۔ اس کی وجہ سے ملک کا ملک مرعوب ہو جاتا ہے اور چونکہ رعایا کا بڑا گروہ ہلاک ہو جاتا ہے اس لیے بغاوت اور فساد کا اندیشہ باقی نہیں رہتا۔ یہی وجہ ہے کہ چنگیز، بُخْتُ نَصر، تیمور، نادر شاہ جتنے بڑے بڑے فاتح گزرے ہیں سب کے سب سفاک بھی تھے لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فتوحات میں کبھی قانون اور انصاف سے تجاوز نہیں ہو سکتا تھا۔
آدمیوں کا قتل عام ایک طرف، درختوں کے کاٹنے تک کی اجازت نہیں تھی۔ بچوں اور بوڑھوں سے بالکل تعرض نہیں کیا جا سکتا تھا۔ بجز عین معرکہ کارزار کے کوئی شخص قتل نہیں کیاجا سکتا تھا۔ یعنی لڑائی کے دوران میں قتل ہو تو ہو، اس کے علاوہ کسی کو قتل نہیں کرنا۔ دشمن سے کسی موقع پر بدعہدی یا فریب دہی نہیں کی جا سکتی تھی۔ افسروں کو تاکیدی احکام دیے جاتے تھے کہ اگر دشمن تم سے لڑائی کریں تو تم ان سے فریب نہ کرو۔ کسی کی ناک، کان نہ کاٹو۔ کسی بچے کو قتل نہ کرو۔ کھل کے لڑو۔ پھر جو لوگ مطیع ہو کر باغی ہو جاتے تھے یعنی ایک دفعہ اطاعت کر لی پھر باغی ہو گئے ان سے دوبارہ اقرار لے کر درگزر کی جاتی تھی یہاں تک کہ جب عَرْبَسُوْس والے تین تین دفعہ متواتر اقرار کر کے پھر گئے، (یہ عَرْبَسُوس جو ہے یہ شام کی آخری سرحد پر واقع ایک شہر کا نام ہے جس کی سرحد ایشیائے کُوچک سے ملی ہوئی تھی۔) تو صرف اس قدر کیا کہ ان کو وہاں سے جلا وطن کر دیا لیکن اس کے ساتھ ان کی کل جائیداد مقبوضہ کی قیمت ادا کر دی۔ پیسے دے دیے۔ پھر یہ لکھتے ہیں کہ اگر خیبر کے یہودیوں کو سازش اور بغاوت کے جرم میں نکالا تھا تو ان کی مقبوضہ ارضیات کا معاوضہ دے دیا تھا اور اضلاع کے حکام کو احکام بھیج دیے کہ جدھر سے ان لوگوں کا گزر ہو ان کو ہر طرح کی اعانت دی جائے اور جب کسی شہر میں قیام پذیر ہوں تو ایک سال تک ان سے جزیہ نہ لیا جائے۔
پھر لکھتے ہیں کہ جو لوگ فتوحات فاروقی کی حیرت انگیزی کا جواب دیتے ہیں کہ دنیا میں اَور بھی ایسے فاتح گزرے ہیں ان کو یہ دکھانا چاہیے کہ اس احتیاط، اس قید یعنی اتنی پابندی، اس درگزر کے ساتھ دنیا میں کس حکمران نے ایک چپہ بھی غیروں کی زمین فتح کی ہے۔ اس کے علاوہ سکندر اور چنگیز وغیرہ خود ہر موقع اور ہر جنگ میں شریک رہتے تھے اور خود سپہ سالار بن کر فوج کو لڑاتے تھے اس کی وجہ سے علاوہ اس کے کہ فوج کو ایک ماہر سپہ سالار ہاتھ آتا تھا، فوج کے دل قوی رہتے تھے اور ان میں بالطبع اپنے آقا پر فدا ہونے کا جوش پیدا ہوتا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تمام مدتِ خلافت میں ایک دفعہ بھی کسی جنگ میں شریک نہیں ہوئے۔ فوجیں ہر جگہ کام کر رہی تھیں۔ البتہ ان کی باگ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں رہتی تھی۔ ایک اَور بڑا واضح اور صریح فرق یہ ہے کہ سکندر وغیرہ کی فتوحات گزرنے والے بادل کی طرح تھیں۔ ایک دفعہ زور سے آیا اور نکل گیا۔ ان لوگوں نے جو ممالک فتح کیے وہاں کوئی نظم حکومت نہیں قائم کیا۔ اس کے برخلاف فتوحات فاروقی میں یہ استواری تھی کہ جوممالک اس وقت فتح ہوئے تیرہ سو برس گزرنے پر آج بھی اسلام کے قبضہ میں ہیں اور خود حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں ہر قسم کے ملکی انتظامات وہاں قائم ہو گئے تھے۔
پھر جو حضرت عمرؓ کی فتوحات کا خاص کردار ہے اس کے بارے میں وہ لکھتے ہیں کہ آخری سوال کا جواب عام رائے کے موافق یہ ہے کہ فتوحات میں خلیفۂ وقت کا اتنا کردار نہیں ہے بلکہ اس وقت کے جوش اور عزم کی جو حالت تھی اسی کی وجہ سے تمام فتوحات ہوئیں۔ یہ ایک سوال ہے لیکن کہتے ہیں کہ جو کہا جاتا ہے کہ خلیفہ کا کردار نہیں ہے، ہماری رائے کے نزدیک یہ صحیح نہیں ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں بھی تو آخر وہی مسلمان تھے لیکن کیا نتیجہ ہوا۔ جوش اور اثر بے شبہ برقی قوتیں ہیں لیکن یہ قوتیں اس وقت کام دے سکتی ہیں جب کام لینے والا بھی اسی زور اور قوت کا ہو۔ قیاس اور استدلال کی ضرورت نہیں، واقعات خود اس کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ فتوحات کے تفصیلی حالات پڑھ کر صاف معلوم ہوتا ہے کہ تمام فوج پُتلی کی طرح حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اشاروں پر حرکت کرتی تھی اور فوج کا جو نظم و نسق تھا وہ خاص ان کی سیاست اور تدبیر کی بدولت ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فوج کی ترتیب، فوجی مشقیں، بیرکوں کی تعمیر، گھوڑوں کی پرداخت، قلعوں کی حفاظت، جاڑے اور گرمی کے لحاظ سے حملوں کا تعین، فوج کی نقل و حرکت، پرچہ نویسی کا انتظام، افسران فوجی کا انتخاب یعنی جو فوجی افسران تھے ان کا انتخاب، قلعہ شکن آلات کا استعمال، یہ اور اس قسم کے امور خود ایجاد کیے اور ان کو کس کس عجیب و غریب زور و قوت کے ساتھ قائم رکھا یہ حضرت عمرؓ کا خاصہ ہے۔ عراق کی فتوحات میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے درحقیقت خود سپہ سالاری کا کام کیا تھا۔ فوج جب مدینہ سے روانہ ہوئی تو ایک ایک منزل بلکہ راستہ تک خود متعین کر دیا تھا کہ یہاں سے جانا ہے، یہاں سے گزرنا ہے، یہاں یہ کرنا ہے اور اس کے موافق تحریری احکام بھیجتے رہتے تھے۔ فوج جب قادسیہ کے قریب پہنچی تو موقع کا نقشہ منگوا کر بھیجا اور اس کے لحاظ سے فوج کی ترتیب اور صف آرائی سے متعلق ہدایتیں بھیجیں۔ جس قدر افسر جن جن کاموں پہ مامور ہوتے تھے ان کے خاص حکم کے موافق مامور ہوتے تھے۔ تاریخ طبری میں اگر عراق کے واقعات کو تفصیل سے دیکھو تو صاف نظر آتا ہے کہ ایک بڑا سپہ سالار دور سے تمام فوجوں کو لڑا رہا ہے اور جو کچھ ہوتا ہے اس کے اشاروں پر ہوتا ہے۔ ان تمام لڑائیوں میں جو دس برس کی مدت میں پیش آئیں سب سے زیادہ خطرناک دو موقعے تھے ایک نَہَاوَنْد کا معرکہ جب ایرانیوں نے فارس کے صوبہ جات میں ہر جگہ نقیب دوڑا کر تمام ملک میں آگ لگا دی تھی اور لاکھوں فوج مہیا کر کے مسلمانوں کی طرف بڑھے تھے۔ دوسرے جب قیصرِ روم نے جزیرہ والوں کی اعانت سے دوبارہ حِمْص پر چڑھائی کی تھی۔ ان دونوں معرکوں میں صرف حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حسن تدبیر تھی جس نے ایک طرف ایک اٹھتے ہوئے طوفان کو دبا دیا اور دوسری طرف ایک کوہِ گراں کے پرخچے اڑا دیے۔ ان واقعات کی تفصیل کے بعد یہ دعویٰ صاف ثابت ہو جاتا ہے کہ جب سے دنیا کی تاریخ معلوم ہے آج تک کوئی شخص فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے برابر فاتح اور کشور کشا نہیں گزرا جو فتوحات اور عدل دونوں کا جامع ہو۔ (ماخوذ از الفاروق از مولانا شبلی نعمانی صفحہ170 تا 177، 287 دار الاشاعت کراچی 1991ء) (اردو دائرہ معارف اسلامیہ جلد 20۔ زیر لفظ مُزدک۔ صفحات 529-530 شعبہ اردو پنجاب یونیورسٹی لاہور) (اردو لغت۔ زیر لفظ نَسطُوریت جلد 19صفحہ 932۔ اردو لغت بورڈ کراچی) (اردو لغت۔ زیر لفظ تَعْبِیَہْ۔ جلد پنجم صفحہ 281-282۔ اردو لغت بورڈ کراچی) (معجم البلدان جلد1 صفحہ 249-250 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
فتوحات بھی ملی ہوں اور عدل و انصاف بھی قائم کیا ہو۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت عمرؓ کو شہادت کی دعا دینے کے بارے میں آتا ہے اور آپؐ نے حضرت عمرؓ کو شہید کہا۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرؓ کو سفید کپڑوں میں ملبوس دیکھا۔ آپؐ نے دریافت فرمایا: کیا تمہارے یہ کپڑے نئے ہیں یا دھلے ہوئے؟ حضرت ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ مجھے یادنہیں رہا کہ حضرت عمرؓ نے اس کا کیا جواب دیا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو دعا دیتے ہوئے فرمایا کہ نئے کپڑے پہنو اور قابلِ تعریف زندگی گزارو اور شہیدوں کی موت پاؤ اور حضرت ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ اللہ تمہیں دنیا اور آخرت میں آنکھوں کی ٹھنڈک عطا کرے۔ (مسند احمد بن حنبل، مسند عبداللّٰہ بن عمر بن الخطاب جلد 2صفحہ429، حدیث5620، دارالکتب العلمیہ بیروت 1998ء)
حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ اُحُد پہاڑ پر چڑھے تو وہ ان کے سمیت ہلنے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اُحُد! ٹھہر جا۔ تجھ پر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہیں۔ (صحیح البخاری کتاب فضائل اصحاب النبیﷺ حدیث 3675)
حضرت اُبَی بن کعبؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جبرئیل نے مجھے کہا کہ عالمِ اسلام حضرت عمرؓ کی وفات پر روئے گا۔ (المعجم الکبیر للطبرانی جلد اول صفحہ 67-68، روایت 61۔ سن عمر و وفاتہ و فی سنۃ اختلاف۔ دار احیاء التراث العربی 2002ء)
شہادت کی تمنا جو حضرت عمرؓ کو تھی اس کے بارے میں ایک روایت میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ امّ المومنین حضرت حفصہؓ بیان کرتی ہیں کہ میں نے اپنے والد کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اَللّٰہُمَّ ارْزُقْنِیْ قَتْلًا فِیْ سَبِیْلِکَ وَوَفَاۃً فِیْ بَلَدِ نَبِیِّکَ کہ اے اللہ! مجھے اپنے رستے میں شہادت نصیب فرما اور مجھے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر میں وفات دے۔ کہتی ہیں کہ میں نے کہا یہ کیسے ممکن ہے تو حضرت عمرؓ نے فرمایا: إِنَّ اللّٰہَ یَأْتِی بِأَمْرِہٖ أَنّٰی شَاءَ یقیناً اللہ تعالیٰ اپنا حکم لے آتا ہے جس طرح وہ چاہے۔ (الطبقات الکبریٰ جلد3صفحہ252 دارالکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
حضرت عمرؓ نے شہادت کے متعلق جو دعا کی تھی اس کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’حضرت عمرؓ اللہ تعالیٰ کے کتنے مقرب تھے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہونا ہوتا تو عمرؓ ہوتا۔ یہاں میرے بعد سے مراد معاً بعد ہے تو وہ شخص جسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس قابل سمجھتے تھے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ کی ضرورت کے لحاظ سے کسی کو شہادت کے مرتبہ سے اٹھا کر نبوت کے بلند مرتبہ پر فائز کرنا ہوتا تو اس کا مستحق عمرؓ تھا۔ وہ عمرؓ جس کی قربانیوں کو دیکھ کر یورپ کے اشدترین مخالف بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اس قسم کی قربانی کرنے اور اس طرح اپنے آپ کو مٹا دینے والا انسان بہت کم ملتا ہے اور جس کی خدمات کے متعلق وہ یہاں تک غلو کرتے ہیں کہ اسلام کی ترقی کو ان سے ہی وابستہ کرتے ہیں۔ وہ عمرؓ دعا کیا کرتے تھے کہ الٰہی! میری موت مدینہ میں ہو اور شہادت سے ہو۔‘‘ حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے ’’یہ دعا محبت کے جوش میں کی ورنہ یہ دعا تھی بہت خطرناک۔ اس کے معنے یہ بنتے تھے کہ کوئی اتنا زبردست غنیم ہو‘‘ ایسا حملہ آور حملہ کرنے والا ہو ’’کہ جو تمام اسلامی ممالک کو فتح کرتا ہوا مدینہ پہنچ جائے اور پھر وہاں آ کر آپؓ کو شہید کرے لیکن اللہ تعالیٰ جو دلوں کا حال جانتا ہے اس نے حضرت عمرؓ کی اس خواہش کو بھی پوراکر دیا اور مدینہ کو بھی ان آفات سے بچا لیا جو بظاہر اس دعا کے پیچھے مخفی تھیں اور وہ اس طرح کہ اس نے مدینہ میں ہی ایک کافر کے ہاتھ سے آپؓ کو شہید کروا دیا۔ بہرحال حضرت عمرؓ کی دعا سے پتہ لگ جاتا ہے کہ ان کے نزدیک خدا تعالیٰ کے قرب کی یہی نشانی تھی کہ اپنی جان کو اس کی راہ میں قربان کرنے کا موقع مل سکے لیکن آج قرب کی یہ نشانی سمجھی جاتی ہے۔‘‘ اپنے خطبہ میں ایک وصیت کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ، احمدیوں کو فرما رہے ہیں کہ ’’لیکن آج قرب کی یہ نشانی سمجھی جاتی ہے کہ خدا بندہ کی جان بچا لے۔‘‘ (خطبات محمود جلد 17 صفحہ 474-475)
ایک اَور جگہ حضرت عمرؓ کی شہادت کا واقعہ اور دعا کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت مصلح موعوؓ د بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کے متعلق لکھا ہے کہ آپؓ ہمیشہ دعا کرتے تھے کہ مجھے موت مدینہ میں آئے اور شہادت کی موت آئے۔
دیکھو موت کس قدر بھیانک چیز ہے۔ موت کے وقت عزیز سے عزیز بھی ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔ کہتے ہیں کسی عورت کی ایک بیٹی بیمار ہو گئی۔ حضرت مصلح موعوؓ د واقعہ سنا رہے ہیں کہ موت سے لوگ کس طرح ڈرتے ہیں۔ اس ڈرنے کا ایک واقعہ اس طرح ہے، ایک کہانی ہے کہ کسی عورت کی بیٹی بیمار ہو گئی۔ وہ دعائیں کرتی تھی خدایا میری بیٹی بچ جائے اور اس کی جگہ میں مر جاؤں۔ بہت پیار کا اظہار کر رہی تھی بیٹی سے۔ ایک رات اتفاق سے اس عورت کی گائے کی رسی کھل گئی اور اس نے ایک برتن میں منہ ڈالا۔ گائےنے برتن میں منہ ڈال دیا جس میں اس کا سر پھنس گیا اور وہ اسی طرح گھڑا سر پر اٹھا کر ادھر ادھر بھاگنے لگی۔ گائے پریشان ہو گئی، سر پھنس گیا، بھاگنے لگی۔ یہ دیکھ کر کہ گائے کے جسم پر منہ کی بجائے کوئی اَور بڑی سی چیز ہے وہ عورت ڈر گئی۔ اس کی آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا کہ یہ کیا ہے؟ گائے بھاگ رہی ہے اور اس کے منہ پر کوئی اَور چیز نظر آ رہی ہے۔ وہ ڈر گئی۔ اس نے سمجھا کہ شاید میری دعا قبول ہو گئی ہے اور عزرائیل میری جان نکالنے کے لیے آیا ہے۔ اس پر بےاختیار بول اٹھی کہ عزرائیل بیمار مَیں نہیں ہوں بلکہ وہ لیٹی ہے۔ اس کی جان نکال لے یعنی بیٹی کی طرف اشارہ کیا۔ حضرت مصلح موعودؓ کہتے ہیں کہ جان اتنی پیاری چیز ہے کہ اسے بچانے کےلیے انسان ہر ممکن تدبیر کرتا ہے۔ کہاں تو یہ تھا کہ دعا کر رہی تھی۔ کہاں جب دیکھا کہ واقعی کوئی ایسا خطرہ پیدا ہو گیا ہے تو بیٹی کی طرف اشارہ کر دیا کہ اس کی جان نکال لو۔ فرماتے ہیں انسان ہر ممکن تدبیر کرتا ہے جان بچانے کے لیے۔ علاج کراتے کراتے کنگال ہو جاتا ہے لیکن صحابہ کرامؓ کو یہی جان خدا تعالیٰ کے لیے دینے کی اس قدر خواہش تھی کہ حضرت عمرؓ دعائیں کرتے تھے کہ مجھے مدینہ میں شہادت نصیب ہو۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ مجھے خیال آیا کرتا ہے کہ حضرت عمرؓ کی یہ دعا کس قدر خطرناک تھی۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ دشمن مدینہ پر چڑھ آئے اور مدینہ کی گلیوں میں حضرت عمرؓ کو شہید کر دے لیکن خدا تعالیٰ نے ان کی دعا کو اَور رنگ میں قبول کر لیا اور وہ ایک مسلمان کہلانے والے کے ہاتھوں سے ہی مدینہ میں شہید کر دیے گئے۔ کہا یہی جاتا ہے کہ شہید کرنے والا کافر تھا لیکن بعض جگہ یہ بھی روایت مل جاتی ہے کہ شاید مسلمان کہلاتا تھا لیکن بہرحال عمومی طور پر یہی ہے کہ وہ کافر تھا۔ پہلی دفعہ حضرت مصلح موعودؓ نےکافر بیان کیا ہے دوسری جگہ مسلمان کہلانے والا کہا ہے۔ یعنی کہ خود بھی پوری طرح تسلی نہیں ہے کہ مسلمان تھا کہ نہیں۔ اور بعض کے نزدیک وہ شخص مسلمان نہ تھا۔ ہاں خود ہی یہ فرما رہے ہیں کہ بعض کے نزدیک وہ شخص مسلمان نہ تھا۔ بہرحال وہ ایک غلام تھا جس سے خدا تعالیٰ نے حضرت عمرؓ کو شہید کرا دیا تو انسان خود جن چیزوں کو چاہتا ہے اور خواہش رکھتا ہے وہ اس کے لیے مصیبت نہیں ہوتیں۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد1صفحہ 166۔ 167)
حضرت مصلح موعودؓ نےیہ واقعہ بھی ایک خطبہ میں بیان فرمایا تھا۔ حضرت عمرؓ کی شہادت اور وفات کے متعلق صحابہ کرام کا رؤیا ۔
حضرت ابوبُردہؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عوف بن مالکؓ نے ایک خواب دیکھا کہ لوگ ایک میدان میں جمع کیے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک شخص دوسرے لوگوں سے تین ہاتھ بلند ہے۔ میں نے پوچھا یہ کون ہے؟ کہا یہ عمر بن خطاب ہیں۔ میں نے پوچھا کہ وہ کس وجہ سے باقی لوگوں سے بلند ہیں۔ کہا ان میں تین خوبیاں ہیں ؛ وہ اللہ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈرتے، وہ اللہ کی راہ میں شہادت پانے والے ہیں اور وہ خلیفہ ہیں جنہیں خلیفہ بنایا جائے گا۔ پھر حضرت عوفؓ اپنی خواب سنانے کے لیے حضرت ابوبکرؓ کے پاس آئے۔ حضرت ابوبکرؓ اس زمانے میں خلیفہ تھے۔ انہیں یہ بتایا تو حضرت ابوبکرؓ نے حضرت عمرؓ کو بلایا اور ان کو بشارت دی اور حضرت عوفؓ سے فرمایا اپنی خواب بیان کرو۔ راوی کہتے ہیں کہ جب انہوں نے یہ کہا کہ انہیں خلیفہ بنایا جائے گا تو حضرت عمرؓ نے انہیں ڈانٹا اور خاموش کروا دیا کیونکہ یہ حضرت ابوبکرؓ کی زندگی کا واقعہ ہے۔ پھر جب حضرت عمرؓ خلیفہ بنے تو آپ شام کی طرف گئے۔ آپ خطاب فرما رہے تھے کہ آپ نے حضرت عوفؓ کو دیکھا۔ آپ نے انہیں بلایا اور منبر پر چڑھا لیا اور انہیں کہاکہ اپنی خواب سناؤ۔ انہوں نے اپنی خواب سنائی۔ اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا۔ جہاں تک اس امر کا تعلق ہے کہ میں اللہ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈرتا تو میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے ان میں سے بنا دے گا اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ مجھے خلیفہ بنایا جائے گا تو میں خلیفہ مقرر ہو چکا ہوں اور میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ جو اس نے میرے سپرد کیا ہے وہ اس میں میری مدد فرمائے اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ شہید کیا جاؤں گا تو مجھے شہادت کیسے نصیب ہو سکتی ہے! میں جزیرہ عرب میں ہی رہتا ہوں اور اپنے ارد گرد کے لوگوں سے جنگ نہیں کرتا۔ پھر فرمایا: اگر اللہ نے چاہا تو وہ اس شہادت کو لے آئے گا۔ یعنی گو بظاہر حالات نہیں ہیں لیکن اگر اللہ چاہے تو لا سکتا ہے۔
حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں نے بہت سے راستے اختیار کیے پھر وہ سب مٹ گئے۔ صرف ایک راستہ رہ گیا اور میں اس پر چل پڑا یہاں تک کہ میں ایک پہاڑ پر پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور آپ کے پہلو میں حضرت ابوبکرؓ ہیں اور آپ حضرت عمرؓ کو اشارے سے بلا رہے ہیں کہ وہ آئیں تو میں نے کہا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ اللہ کی قسم! امیر المومنین فوت ہو گئے۔ حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ میں نے کہا (دل میں یہ کہتے ہیں کہ)آپ یہ خواب حضرت عمرؓ کو نہیں لکھیں گے۔ انہوں نے کہا میں ایسا نہیں کہ حضرت عمرؓ کو ان کی وفات کی خبر دوں۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد3صفحہ252-253 دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان 1990ء)
سعید بن ابو ھِلال سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطابؓ نے جمعہ کے دن لوگوں سے خطاب کیا۔ آپؓ نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی جس کا وہ اہل ہے۔ پھر فرمایا اے لوگو ! مجھے ایک خواب دکھایا گیا ہے جس سے مَیں سمجھتا ہوں کہ میری وفات کا وقت قریب ہے۔ مَیں نے دیکھا کہ ایک سرخ مرغ ہے جس نے مجھے دو مرتبہ چونچ ماری ہے۔ چنانچہ میں نے یہ رؤیا اَسماء بنت عُمَیس سے بیان کیا تو انہوں نے بتایا یعنی تاویل یہ کی کہ عجمیوں میں سے کوئی شخص مجھے قتل کرے گا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد3صفحہ255 دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 1990ء)
حضرت عمرؓ کے واقعہ شہادت کے بارے میں کہ کس دن حضرت عمرؓ پر حملہ ہوا اور آپؓ کس دن دفن ہوئے؟
اس سلسلہ میں مختلف روایات ملتی ہیں۔ طبقات کبریٰ میں لکھا ہے کہ حضرت عمرؓ پر بدھ کے روز حملہ ہوا اور جمعرات کے دن آپؓ کی وفات ہوئی۔ حضرت عمرؓ کو 26؍ ذوالحجہ 23 ہجری کو حملہ کر کے زخمی کیا گیا اور یکم محرم 24 ہجری صبح کے وقت آپؓ کی تدفین ہوئی۔ عثمان اَخْنَس کہتے ہیں کہ ایک روایت میں ہے کہ آپ کی وفات 26؍ ذوالحجہ بدھ کے روز ہوئی۔ اَبُومَعْشَر کہتے ہیں کہ ایک روایت میں ہے کہ حضرت عمرؓ کو 27؍ ذوالحجہ کو شہید کیا گیا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 278 سن 23 ہجری دارالکتب العلمیۃ 1990ء) (البدایۃ والنھایۃ لابن کثیر جلد 4 صفحہ 134 مطبوعہ للطباعۃ و النشر و التوزیع و الاعلان1997ء)
تاریخ طبری اور تاریخ ابن اثیر کے علاوہ اکثر مؤرخین کے نزدیک حضرت عمر 26؍ ذوالحجہ 23 ہجری کو زخمی ہوئے اور یکم محرم چوبیس ہجری کو آپؓ کی وفات ہوئی اور اسی روز آپ کی تدفین ہوئی۔ (ماخوذ از تاریخ الطبری جزء الخامس صفحہ 54 ذکر الخبر عن وفاۃ عمر مطبوعہ دارالفکر بیروت) (الکامل فی التاریخ جزء الثانی صفحہ 448 مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت) (ماخوذ از الفاروق از شبلی صفحہ154 ادارہ اسلامیات 2004ء)
شہادت کے واقعہ کی تفصیل صحیح بخاری میں یوں بیان ہوئی ہے۔ عَمرو بن مَیْمُون بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن خطابؓ کو ان کے زخمی کیے جانے سے کچھ دن پہلے مدینہ میں دیکھا۔ وہ حُذَیفہ بن یَمَان اور عُثْمان بن حُنَیف کے پاس رکے اور فرمانے لگے کہ عراق کی اراضی کے لیے جس کا انتظام خلافت کی جانب سے ان کے سپرد تھا تم دونوں نے کیا کیا ہے؟ کیا تمہیں یہ اندیشہ تو نہیں کہ تم دونوں نے زمین پر ایسا لگان مقرر کیا ہے جس کی وہ طاقت نہیں رکھتی۔ ان دونوں نے کہا کہ ہم نے وہی لگان مقرر کیا ہے جس کی وہ طاقت رکھتی ہے۔ یعنی زمین کی اتنی پوٹینشل (potential)ہے کہ اس میں سے اتنی فصل نکل سکے۔ اس میں کوئی زیادتی نہیں کی گئی۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: پھر دیکھ لو کہ تم لوگوں نے زمین پر ایسا لگان تو مقرر نہیں کیا جس کی وہ طاقت نہ رکھتی ہو؟ راوی کہتے ہیں ان دونوں نے کہا: نہیں۔ حضرت عمرؓ نے کہا اگر اللہ نے مجھے سلامت رکھا تو میں ضرور اہلِ عراق کی بیواؤں کو اس حال میں چھوڑوں گا کہ وہ میرے بعد کبھی کسی شخص کی محتاج نہ ہوں گی۔ راوی نے کہا پھر اس گفتگو کے بعد حضرت عمرؓ پر ابھی چوتھی رات نہیں آئی تھی کہ وہ زخمی ہو گئے۔ راوی نے کہا کہ جس دن وہ زخمی ہوئے، میں کھڑا تھا۔ میرے اور ان کے درمیان سوائے حضرت عبداللہ بن عباسؓ کے کوئی نہ تھا اور آپؓ کی عادت تھی کہ جب دو صفوں کے درمیان سے گزرتے تو فرماتے جاتے کہ صفیں سیدھی کر لو۔ یہاں تک کہ جب دیکھتے کہ ان میں کوئی خلل نہیں رہ گیا تو آگے بڑھتے اور اللہ اکبر کہتے اور بسا اوقات نماز فجر میں سورۂ یوسف یا سورۂ نحل یا ایسی ہی سورہ پہلی رکعت میں پڑھتے تا کہ لوگ جمع ہو جائیں۔ ابھی انہوں نے اللہ اکبر کہا ہی تھا کہ میں نے ان کو کہتے سنا کہ مجھے قتل کر دیا یا کہا مجھے کتے نے کاٹ کھایا ہے۔ جب اس نے یعنی حملہ آور نے آپ پروارکیا تو وہ عجمی دو دھاری چھری لیے ہوئے بھاگا۔ وہ کسی کے پاس سے دائیں اور بائیں نہ گزرتا مگر اس کو زخمی کرتا جاتا یعنی وہ جہاں سے بھی گزرتا اس خوف سے کہ لوگ یا کوئی پکڑنے والا اگر کوئی پکڑنے کی کوشش کرتا تو وہ اسی چھری سے اس پر بھی وار کرتا جاتااور لوگوں کو زخمی کرتا جاتا تھا یہاں تک کہ اس نے تیرہ آدمیوں کو زخمی کیا۔ ان میں سے سات مر گئے۔
مسلمانوں میں سے ایک شخص نے جب یہ دیکھا تو اس نے کوٹ، بخاری میں اس جگہ بُرْنُس کا لفظ آیا ہےجو اس کپڑے کو کہتے ہیں جس کے ساتھ سر ڈھانپنے والا حصہ بھی ساتھ جڑا ہوا ہوتا ہے۔ لمبا چوغہ اور ساتھ ہی سرڈھانپنے والی ٹوپی سی لگی ہوتی ہے۔ لمبی ٹوپی کو بھی کہتے ہیں۔ بہرحال وہ کوٹ اس پر پھینکا۔ جب اس نے یقین کر لیا کہ وہ پکڑا گیا تو اس نے اپنا گلا کاٹ لیا۔ اور حضرت عمرؓ نے حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کا ہاتھ پکڑ کر انہیں آگے کیا اور راوی کہتے ہیں کہ جو حضرت عمرؓ کے قریب تھے انہوں نے بھی وہ دیکھا جو میں نے دیکھا اور مسجد کے اطراف میں جو تھے وہ نہیں جانتے تھے سوائے اس کے کہ انہوں نے حضرت عمرؓ کی آواز کو غائب پایا اور وہ سبحان اللہ! سبحان اللہ! کہنے لگے تو عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے لوگوں کو مختصر نماز پڑھائی۔ پھر جب وہ نماز سے فارغ ہو گئے تو حضرت عمرؓ نے کہا ابن عباسؓ ! دیکھو مجھ کو کس نے مارا ہے؟ حضرت ابن عباسؓ نے کچھ دیر چکر لگایا پھر آئے اور انہوں نے بتایا کہ مغیرہ کے غلام نے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا وہی جو کاریگر ہے۔ حضرت ابن عباسؓ نے کہا ہاں۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا اللہ اسے ہلاک کرے میں نے اس کے متعلق نیک سلوک کرنے کا حکم دیا تھا۔
اللہ کا شکر ہے کہ اللہ نے میری موت ایسے شخص کے ہاتھ سے نہیں کی جو اسلام کا دعویٰ کرتا ہو یعنی یہاں سے بھی ثابت ہے کہ وہ مسلمان نہیں تھا۔ اے ابن عباسؓ ! تم اور تمہارا باپ پسند کرتے تھے کہ یہ عجمی غلام مدینہ میں زیادہ سے زیادہ ہوں اور حضرت عباسؓ کے پاس سب سے زیادہ غلام تھے۔ حضرت ابن عباسؓ نے کہا اگر آپ چاہیں تو میں کر گزروں۔ یعنی اگر آپ چاہیں تو ہم بھی مدینہ میں موجود عجمی غلاموں کو قتل کر دیں۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ نہیں۔ درست نہیں ہے۔ کہا کہ خصوصاًجبکہ اب وہ تمہاری زبان میں گفتگو کرتے ہیں اور تمہارے قبلے کی طرف منہ کر کے نمازیں پڑھتے ہیں اور تمہاری طرح حج کرتے ہیں۔ بہت سے غلام ایسے بھی تھے جو مسلمان ہو گئے تھے۔ پھر ہم انہیں یعنی حضرت عمرؓ کو اٹھا کر ان کے گھر لے گئے۔ ہم بھی ان کے ساتھ گھر میں چلے گئے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا مسلمانوں پر اس دن سے پہلے ایسی کوئی مصیبت نہیں آئی۔ کوئی کہتا: کچھ نہیں ہو گا اور کوئی کہتا: مجھے ان کے بارے میں خطرہ ہے کہ وہ جانبر نہ ہو سکیں گے۔ آخر ان کے پاس نبیذ لائی گئی اور انہوں نے اس کو پیا جو ان کے پیٹ سے نکل گئی۔ پھر ان کے پاس دودھ لایا گیا انہوں نے اسے پیا وہ بھی آپ کے زخم سے نکل گیا تو لوگ سمجھ گئے کہ آپؓ کی وفات ہو جائے گی۔ عمرو بن مَیْمُون کہتے ہیں پھر ہم ان کے پاس گئے اور دیگر لوگ بھی آئے جو ان کی تعریف کرنے لگے۔ اور ایک نوجوان شخص آیا۔ اس نے کہا امیر المومنینؓ ! آپؓ اللہ کی اس بشارت سے خوش ہو جائیں جو آپؓ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہونے کی وجہ سے حاصل ہے اور ابتدا میں اسلام لانے کے شرف کی وجہ سے ہے جسے آپؓ خوب جانتے ہیں۔ پھر آپؓ خلیفہ بنائے گئے اور آپؓ نے انصاف کیا پھر شہادت۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: میری تو یہ آرزو ہے۔ یہ باتیں برابر برابر ہی رہیں۔ نہ میرا مواخذہ ہو اور نہ مجھے ثواب ملے۔ جب وہ پیٹھ موڑ کر جانے لگا تو اس کا تہ بند زمین سے لگ رہا تھا۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: اس لڑکے کو میرے پاس واپس لاؤ۔ فرمانے لگے میرے بھتیجے اپنا کپڑا اٹھائے رکھو۔ اس سے تمہارا کپڑا بھی زیادہ دیر چلے گا۔ زمین سے گھسٹنے سے پھٹے گا نہیں اور یہ فعل تمہارے ربّ کے نزدیک تقویٰ کے زیادہ قریب ہو گا۔ یعنی بعض دفعہ بلاوجہ تکبر پیدا ہو جاتا تھا۔ اس زمانے میں لمبے کپڑے اس لیے بھی لوگ پہنتے تھے کہ امارت کی نشانی ہو تو انہوں نے کہا تکبر نہ پیدا ہو اور یہ تقویٰ کے قریب رہے۔
پھر عبداللہ بن عمرؓ کو کہنے لگے دیکھو مجھ پر کتنا قرض ہے۔ انہوں نے حساب کیا تو اس کو چھیاسی ہزار درہم یا اس کے قریب پایا۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اگر عمرؓ کے خاندان کی جائیداد اس کو پورا کر دے تو پھر ان کی جائیداد سے اس کو ادا کر دو ورنہ بنو عدی بن کعب سے مانگنا۔ اگر ان کی جائیدادیں بھی پوری نہ کریں تو قریش سے مانگنا اور اس کے سوا کسی کے پاس نہ جانا۔ یہ قرض میری طرف سے ادا کر دینا۔ حضرت عائشہ، ام المومنینؓ کے پاس جاؤ اور ان سے کہنا کہ عمر آپ کو سلام کہتے ہیں اور امیرالمومنین نہ کہنا کیونکہ آج میں مومنوں کا امیر نہیں اور ان سے کہنا کہ عمر بن خطاب اس بات کی اجازت چاہتا ہے کہ اسے اس کے دونوں ساتھیوں کے ساتھ دفن کیا جائے۔
بخاری کی شرح عمدۃ القاری میں ہے کہ حضرت عمرؓ نے ایسا اس وقت کہا تھا جب آپؓ کو موت کا یقین ہو گیا تھا اور حضرت عائشہؓ کے لیے اس میں اشارہ تھا کہ امیر المومنین کہنے کی وجہ سے ڈریں نہیں۔ چنانچہ عبداللہ نے سلام کہا اور اندر آنے کی اجازت مانگی۔ پھر ان کے پاس اندر گئے تو انہیں دیکھا کہ بیٹھی ہوئی رو رہی تھیں۔ حضرت عبداللہؓ نے کہا: عمر بن خطابؓ آپؓ کو سلام کہتے ہیں اور اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ دفن ہونے کی اجازت مانگتے ہیں۔ حضرت عائشہؓ کہنے لگیں کہ مَیں نے اس جگہ کو اپنے لیے رکھا ہوا تھا لیکن آج میں اپنی ذات پر ان کو مقدم کروں گی۔ جب حضرت عبداللہؓ لَوٹ کر آئے تو حضرت عمرؓ سے کہا گیا کہ عبداللہ بن عمرؓ آ گئے ہیں۔ انہوں نے کہا مجھے اٹھاؤ تو ایک شخص نے آپؓ کو سہارا دے کر اٹھایا۔ آپؓ نے پوچھا کیا خبر لائے ہو؟ عبداللہ نے کہا امیر المومنین! وہی جو آپؓ پسند کرتے ہیں۔ حضرت عائشہؓ نے اجازت دےدی ہے۔ کہنے لگے الحمد للہ! اس سے بڑھ کر اَور کسی چیز کی مجھے فکر نہ تھی۔ جب مَیں مر جاؤں تو مجھے اٹھا کر لے جانا۔ پھر سلام کہنا اور یہ کہنا کہ عمر بن خطابؓ اجازت مانگتا ہے۔ اگر انہوں نے میرے لیے اجازت دی تو مجھے اندر حجرے میں تدفین کے لیے لے جانا اور اگر انہوں نے مجھے لوٹا دیا تو پھر مجھے مسلمانوں کے قبرستان میں واپس لے جانا۔ امّ المومنین حضرت حفصہؓ آئیں اور دوسری عورتیں بھی ان کے ساتھ آئیں۔ جب ہم نے ان کو دیکھا تو ہم چلے گئے۔ وہ ان کے پاس اندر گئیں اور کچھ دیر ان کے پاس روتی رہیں۔ پھر جب کچھ مردوں نے اندرونی حصہ میں آنے کی اجازت مانگی تو وہ مردوں کے آتے ہی اندر چلی گئیں اور ہم اندر سے ان کے رونے کی آواز سنتے رہے۔ لوگوں نے کہا امیر المومنین وصیت کر دیں۔ کسی کو خلیفہ مقرر کر جائیں۔ انہوں نے کہا میں اس خلافت کا حق دار ان چند لوگوں میں سے بڑھ کر اَور کسی کو نہیں پاتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسی حالت میں فوت ہوئے کہ آپؐ ان سے راضی تھے۔ اور انہوں نے حضرت علیؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت زبیرؓ، حضرت طلحہؓ، حضرت سعدؓ اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کا نام لیا اور کہا عبداللہ بن عمرؓ تمہارے درمیان موجود رہے گا لیکن اس امر یعنی خلافت میں اس کا کوئی حق نہیں ہوگا۔ اگر خلافت سعدؓ کو مل گئی تو پھر وہی خلیفہ ہو ورنہ جو بھی تم میں سے امیر بنایاجائے وہ سعدؓ سے مدد لیتا رہے کیونکہ میں نے ان کو اس لیے معزول نہیں کیا تھا کہ وہ کسی کام کے کرنے سے عاجز تھے اور نہ اس لیے کہ کوئی خیانت کی تھی۔ نیز فرمایا میں اس خلیفہ کو جو میرے بعد ہو گا پہلے مہاجرین کے بارے میں وصیت کرتا ہوں کہ وہ ان کے حقوق ان کے لیے پہچانیں۔ ان کی عزت کا خیال رکھیں۔ مَیں انصار کے متعلق بھی بھلائی کی وصیت کرتا ہوں جو مدینہ میں پہلے سے رہتے تھے اور مہاجرین کے آنے سے پہلے ایمان قبول کر چکے تھے۔ جو ان میں سے نیک کام کرنے والا ہو اسے قبول کیا جائے اور جو اُن میں سے قصور وار ہو اس سے درگزر کیا جائے اور میں سارے شہروں کے باشندوں کے ساتھ عمدہ سلوک کرنے کی ان کو وصیت کرتا ہوں کیونکہ وہ اسلام کے پشت پناہ ہیں اور مال کے حصول کا ذریعہ ہیں اور دشمن کے کڑھنے کا موجب ہیں اور یہ کہ ان کی رضا مندی سے ان سے وہی لیا جائے جو ان کی ضرورتوں سے بچ جائے۔ اور میں اُس کو بدوی عربوں کے ساتھ نیک سلوک کرنے کی وصیت کرتا ہوں یعنی آئندہ کے خلیفہ کو کیونکہ وہ عربوں کی جڑ ہیں اور اسلام کا مادہ ہیں یہ کہ ان کے اموال میں سے جو زائد ہے وہ لیا جائے اور پھر ان کے محتاجوں کو لوٹایا جائے اور میں اس کو اللہ کے ذمہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ کی وصیت کرتا ہوں کہ ان کے عہدوں کو ان کے لیے پورا کیا جائے اور ان کی حفاظت کے لیے جنگ کی جائے اور ان کی طاقت سے زیادہ ان پر بوجھ نہ ڈالا جائے۔ جب آپؓ فوت ہو گئے تو ہم ان کو لے کر نکلے اور پیدل چلنے لگے تو حضرت عبداللہ بن عمرؓ نےحضرت عائشہؓ کو السلام علیکم کہا اور کہا عمر بن خطابؓ اجازت مانگتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کو اندر لے آؤ۔ چنانچہ ان کو اندر لے جایا گیا اور وہاں ان کے دونوں ساتھیوں کے ساتھ رکھ دیے گئے۔ جب ان کی تدفین سے فراغت ہوئی تو وہ آدمی جمع ہوئے جن کا حضرت عمرؓ نے نام لیا تھا تا کہ انتخاب خلافت ہو سکے اور پھر وہ اگلی کارروائی ہوئی۔ (صحیح بخاری کتاب فضائل اصحاب النبیﷺ باب قصۃ البیعۃ، والاتفاق على عثمان بن عفان حدیث3700) (عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری جلد 16 صفحہ 292 دار الکتب العلمیہ بیروت 2001ء) (لغات الحدیث جلد1 صفحہ137 برنس۔ مطبوعہ نعمانی کتب خانہ لاہور 2005ء)
ابھی یہ چل رہا ہے اس بارے میں باقی ان شاء اللہ آئندہ مَیں بیان کروں گا۔ آج جرمنی کا جلسہ سالانہ بھی شروع ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے بابرکت فرمائے۔ زیادہ سے زیادہ جرمن احمدیوں کو اس سے استفادہ کرنے کی توفیق دے۔ دو دن کا یہ جلسہ ہے۔ کل ان شاء اللہ شام کو ان کا جو اختتامی سیشن ہے اس سے میں خطاب بھی کروں گا جو ایم ٹی اے پریہاں کے وقت کے مطابق تقریباً ساڑھے تین دکھایا جائے گا۔ باقی جلسہ جو وہاں جرمنی میں ہو رہا ہے اس کی لائیو سٹریمنگ آج سے جرمنوں کے لیے ہو رہی ہے۔ جرمن وہاں دیکھ سکتے ہیں تو زیادہ سے زیادہ اس سے فائدہ اٹھائیں۔
نماز کے بعد میں دو جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا۔ ان کا بھی ذکر کر دوں۔ پہلا جنازہ قمر الدین صاحب مبلغ سلسلہ انڈونیشیا کا ہے۔ گذشتہ دنوں پینسٹھ سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ 1972ء میں انہوں نے پندرہ سال کی عمر میں بیعت کی اور ابتدائی تعلیم کے بعد اپنی زندگی خدمت سلسلہ کے لیے وقف کر دی۔ پھر یہ دینی تعلیم کے لیے پاکستان چلے گئے۔ 30؍جون 1986ء کو شاہدکی ڈگری حاصل کی اور جولائی 86ء میں آپ کا تقرر بطور مبلغ ہوا۔ بڑی خوش الحانی سے اور پُرسوز آواز میں تلاوت قرآن کریم کیا کرتے تھے۔ نہایت مخلص اور پُرجوش خادمِ سلسلہ تھے۔ ان کا سلسلۂ خدمت تقریباً پینتیس سال پر محیط ہے۔ ان کی اہلیہ کہتی ہیں کہ مجھے کہا کرتے تھے کہ آپ صرف مربی کی اہلیہ نہیں بلکہ آپ کو جماعتی خدمات میں بھی آگے ہونا چاہیے۔ پھر یہ ان کے بارے میں لکھتی ہیں کہ ان کی خلافت سے اطاعت اور محبت بہت نمایاں تھی۔ چھوٹوں بڑوں سے بڑی عزت سے پیش آتے تھے۔ جب بھی کسی احمدی سے بات کرتے تو ہمیشہ جماعت سے محبت اور وفاداری کی تلقین بھی ضرور کرتے اور زیادہ سے زیادہ جماعت کی خدمت کی ترغیب دلاتے۔ جب بھی کسی غیر احمدی سے ملتے تو اسے تبلیغ ضرور کرتے اور بڑی محبت سے اور دل سے بات کرتے تھے کہ دوسرے بھی خوش ہو جاتے۔ بیماری میں بھی فجر سے ڈیڑھ دو گھنٹے پہلے اٹھ کر تہجد پڑھتے اور تلاوت کرتے۔ پھر جب تک ہمت رہی پیدل چل کر مسجد بھی جاتے رہے۔ ان کے بیٹے عمر فاروق صاحب مربی سلسلہ ہیں۔ جامعہ احمدیہ انڈونیشیا میں استاد ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ گھر میں اور باہر بھی چلتے پھرتے بعض دفعہ قرآن کریم کا کوئی نہ کوئی حصہ خوش الحانی سے سناتے رہتے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں کا ترجمہ اور نظر ثانی کا کام بھی انہوں نے کیا تھا اور اس دوران میں خاص طور پر جب ترجمہ کے کام کر رہے ہوتے تھے تو قصیدہ بہت زیادہ پڑھا کرتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات و واقعات سناتے تو آنکھیں پُرنم ہو جایا کرتی تھیں۔ کہتے ہیں اکثر مجھے احمدیوں کے ابتلا اور تکالیف اور قربانیوں کے بارے میں واقعات سناتے اور اپنے ذاتی تجربات بھی بیان کرتے کس طرح انہوں نے بھی تکلیفیں اٹھائیں۔ چھوٹے بیٹے ظفراللہ ہیں وہ کہتے ہیں: آپ بلند حوصلے والے اور بڑی جدوجہدکرنے والے انسان تھے۔ بہت سادہ زندگی گزاری۔ ہمیشہ قناعت پسندی کو ترجیح دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند فرمائے۔
اگلا جنازہ، دوسرا ذکر ہے صبیحہ ہارون صاحبہ اہلیہ سلطان ہارون خان صاحب مرحوم کا۔ گذشتہ دنوں 73سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ صبیحہ ہارون صاحبہ کے خاندان میں احمدیت ان کے والد صاحب کی بیعت سے آئی تھی۔ انہوں نے خود تحقیق کر کے اٹھارہ سال کی عمر میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت کی تھی۔ پھر ان کے دادا نے اپنے بیٹے کے بعد بیعت کی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو تین بیٹوں اور تین بیٹیوں سے نوازا۔ ایک بیٹے ان کے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے داماد ہیں۔ ان کے بڑے بیٹے سلطان محمد خان کہتے ہیں کہ میری والدہ کا سب سے بڑا بیٹا دو سال کی عمر میں حادثاتی طور پر وفات پا گیا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے جنازہ کے موقع پر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں نعم البدل بیٹا عطا کرے گا جو خوبصورت بھی ہو گا اور لمبی عمر پانے والا بھی ہو گا۔ اور ان کے خاوند ملک سلطان کو فرمایا کہ اس کو مَیں تمہارے کندھے کے ساتھ جوان کھڑا دیکھ رہا ہوں۔ پھر ان کے بیٹے سلطان احمد خان کہتے ہیں کہ میری خوش قسمتی ہے کہ بچپن سے لے کر اب تک میرا بہت وقت اپنی ماں کے ساتھ گزرا۔ بہت ہی پیار کرنے والی اور غلطیوں سے درگزر کرنے والی ماں تھیں۔ کبھی کسی کی غیبت نہیں کرتی تھیں۔ ان کی بیٹی محمودہ سلطانہ کہتی ہیں میری والدہ نیک فطرت، خاموش طبیعت، اعلیٰ اوصاف کی مالک تھیں۔ سلسلہ کی حقیقی عاشق اور خلافت سے محبت اور وفا کی انتہا کو پہنچی ہوئی تھیں اور یہی نصیحت کرتی تھیں۔ خوش خلق اور اقربا پرور تھیں۔ ان کی مہمان نوازی پورے خاندان میں مشہور تھی۔ کسی کی بھی دل شکنی نہیں کرتی تھیں۔ غیبت کو سخت ناپسند کرتی تھیں اور ہمیں ہمیشہ اس سے بچنے کی تلقین کیاکرتی تھیں۔ ایسی محفل جہاں غیبت ہو رہی ہو وہاں سے اٹھ جاتیں اور ان کے چہرے پر ناگواری آ جاتی۔ ہمیشہ درگزر سے کام لیا کرتی تھیں۔ کہتی ہیں میرے والد پر جانی حملہ کرنے والے دشمن کو بھی کبھی بددعا نہیں دی اور ہمیشہ کہتی تھیں: میں دعا کرتی ہوں کہ اللہ ان کو ہدایت دے۔ نادار مریضوں کے لیے خاص نرمی اپنے دل میں رکھتی تھیں اور ان کی اس طرح مدد کرتی تھیں کہ بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہو۔
ان کی دوسری بیٹی وجیہہ صاحبہ کہتی ہیں کہ ایک خاموش طبع شخصیت کی مالک تھیں۔ بہت زیادہ صدقہ و خیرات کرنے والی تھیں اور صدقہ و خیرات خاموشی سے کیا کرتی تھیں اور اس کا ذکر زیادہ پسندنہیں فرماتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ ان کے بچوں کو بھی ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
(الفضل انٹرنیشنل 5؍نومبر2021ء صفحہ 5تا10)
جب سے دنیا کی تاریخ معلوم ہے آج تک کوئی شخص فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے برابر فاتح اور کشور کشا نہیں گزرا جو فتوحات اور عدل دونوں کا جامع ہو۔ فتوحات بھی ملی ہوں اور عدل و انصاف بھی قائم کیا ہو۔
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد فاروقِ اعظم حضرت عمربن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ۔
حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں ہونے والی عظیم الشان فتوحات کے اسباب و عوامل۔
حضرت عمرؓ کی شہادت کے واقعہ کا تفصیلی بیان۔
دو مرحومین مکرم قمر الدین صاحب مبلغِ سلسلہ انڈونیشیا اور مکرمہ صبیحہ ہارون صاحبہ اہلیہ سلطان ہارون خان صاحب مرحوم کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب۔
فرمودہ 08؍اکتوبر2021ء بمطابق 08؍اخاء1400 ہجری شمسی، بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔